انور عظیم کے افسانوں میں معاشرتی مسائل

انور عظیم کے افسانوں میں معاشرتی مسائل

Aug 3, 2018

مصنف

منیر احمد فردوس

شمارہ

شمارہ - ۸

دیدبان شمارہ۔۸

انور عظیم کے افسانوں میں معاشرتی مسائل

منیر احمد فردوس

سید صدرالدین احمد (۱۹۲۴ء۔۲۰۰۰ء)ادبی دنیا میں انور عظیم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔انھوں نے اگر چہ اپنی ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا لیکن ان کا فطری رجحان ادب کی طرف ہی رہا اور خاص کر وہ فکشن کی دوسری اصناف میں سب سے زیادہ مختصر افسانہ کی طرف راغب تھے ۔ان کا پہلا افسانہ ۱۹۴۶ء میں ’’چکراتے ہوئے ‘‘کے نام سے بھوپال کے ماہنامہ ’’افکار ‘‘میں شائع ہوا۔انھوں نے تقریباً ۲۵۰ کے قریب افسانے لکھے ہیں لیکن ان کے افسانوی مجموعوں میں شامل افسانوں کی کل تعداد ۵۲ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انور عظیم نے اپنے افسانوں کا بہت سخت انتخاب کیا۔انھوں نے صرف ان ہی افسانوں کو شامل کیا جو ان کے تصورادب کی اور اس کے ساتھ ہی ان کے تصور فن کی پوری طرح ترجمانی کرتے تھے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’قصہ رات کا ‘‘ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا جو سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔اس میں شامل افسانوں میں ’’قصہ رات کا ،میں زندہ ہوں، پہلے پھول، چکراتے ہوئے ، اکیلا، کچھ بھی نہیں ،دھرتی کا بوجھ ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

۱۹۹۴ء میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’اجنبی فاصلے ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا ۔اس میں کل اٹھارہ افسانے شامل ہیں جن میں’’ اجنبی فاصلے ،مردہ گھوڑے کی آنکھ، سفید آنکھیں، ہانپتے کانپتے لوگ،آزردہ ستاروں کا ہجوم اور درد کا ساحل کوئی نہیں ‘‘جیسے افسانوں کو بہت شہرت ملی۔آخری مجموعہ ’’لابوہیم‘‘کے عنوان سے ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا جو سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانوں میں ’’کھپریل، سنچرا ، طوفان کے پر ،ڈوبتے چاند کی خوشبو ،رگ سنگ ،پرچھائیوں کی پرچھائیاں ،لابوہیم اور ٹھنڈی سرنگ ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ۱۹۹۹ء میں ان کے تیرہ افسانوں کاایک انتخاب ’’دھان کٹنے کے بعد‘‘بھی شائع ہوا۔ اس طرح شامل مجموعہ افسانے انور عظیم کے تخلیقی سفر کے پچاس پچپن برسوں پر پھیلے ہوئے تجربات اور پختہ ہوتے ہوئے فنی شعور کی پوری داستان بیان کرتے ہیں۔

انور عظیم کا معاشرتی شعور بہت بالغ ہے ۔انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے اپنے اطراف کا جائزہ لیا ،زمانے کے گرم اور سرد کا تجزیہ کیا، معاشرے کے ماحول اور اس میں رہنے والے فرد کی زندگی کے کرب اور اذیت کو محسوس کیا اور پھر اسے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ان کے افسانوں میں پیش کردہ مسائل مثلاً غربت، فاقہ کشی، بے روزگاری ،گائوں و شہر کے متوسط و نچلے طبقے کی خستہ حالی اور ان کا استحصال ،نئی نسل کی بے راہ روی، اخلاقی اقدار کی شکست، دو تہذیبوں کے درمیان ٹکرائو ،پرانی اور نئی نسل کے بیچ تصادم اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی وغیرہ کا شدید احساس انور عظیم کے افسانوں کے مرکزی موضوعات ہیں ۔

انور عظیم کے افسانوں میں اس عہد کی بے چینی بالکل سطح پر نمایاں ہے۔ ان کے کردار زندگی کے تلخ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جنھیں ہر طرح سے کچلا جا رہا ہے ۔انھوںنے اپنے متعدد افسانوں میں عصری و سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ فرد کی ذاتی غربت ،احساس محرومی ،طبقاتی جبر ،معاشی مجبوری اور شخصی انا وغیرہ کوموضوع بنایا ہے۔ان کے افسانوں میں اسی معاشرتی ماحول کی عکاسی ملتی ہے جن میں ان کی کہانیوں کے کردارسفر کر رہے ہیں ۔انہوںنے اپنے افسانوں میں ہر طبقے کے کردار اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ موضوع بنایا ہے۔

معاشرتی صورت حال پر غور کرتے ہوئے انور عظیم نے اپنے افسانوں میں ان مسائل کو پیش کیا ہے جن کا اثر انسانی زندگی پر گہرا ہے اور جس نے انسانی وجود کو بے معنی بنادیا ہے ۔اس کے علاوہ معاشرتی و سماجی افسانوں کے موضوعات میں بیشتر مسائل سماجی نابرابری ،ادبی اور روحانی قدروں کی پامالی ،وقت اور سماج کا جبر ،فرد کی تنہائی اور بے بسی کے باوجود محبت کا احساس بھی نمایاں ہے۔ان کے افسانوں کے کرداراپنے معاشرہ کی منتشر ہوتی ہوئی بافت کی زد پر ہیں۔کوئی معاشی مجبوریوں میں گھرا ہوا ہے تو کوئی لمحہ لمحہ گزرتے وقت کی تبدیلیوں سے دوچار ہے۔معاشرے میں پھیلی ہوئی یہ کیفیت صرف ایک فرد کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ اس جیسے بہت سے افراد معاشی ،سماجی اور اخلاقی مسائل کے شکار ہیں جن کو اپنی مایوس زندگی کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔انور عظیم اس ٹوٹتی بکھرتی ہوئی زندگی میں معاشی تنگی اور استحصال کے مجرمانہ عمل کو ہر نوع کے معاشرتی ،اخلاقی اور نفسیاتی زوال کا سبب تصور کرتے ہیں ۔اس لئے ان کے افسانوں کی معاشرتی جہت بہت نمایاں ہو گئی ہے۔اس حوالے سے انور عظیم کا افسانہ ’’مچھلی‘‘ایک کامیاب افسانہ ہے جس کا موضوع ریاکاری، بدکاری ،جھوٹ اور فریب کے درمیان ایک حساس آدمی کی زندگی کے لئے جدو جہد اور اس کی ناکامی کی کہانی ہے۔کہانی کا کردار راوی مفلوک الحال مگر ترقی پسند نقطہ نظر کا حامل شاعر ہے۔اس کے دوست احباب زندگی سے متعلق اس کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ۔ان کے نزدیک ادب کا سارا ترقی پسند تصور اور اس تصور کے تحت لکھا گیا ساراادب محض پروپیگنڈاہے۔یہ ایسی کشمکش ہے جس کا کوئی حل نہیں۔ اپنے انہیں افکار کے سبب وہ اپنے دوستوں میں نا قابل قبول ہو جاتا ہے۔ایک جگہ راوی پروپیگنڈا کی حیثیت کو متعین کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’میں بھوکا ہوں۔بھوک؟یہ پروپیگنڈا ہے۔جو کچھ ہے پروپیگنڈا ہے۔جو کچھ نہیں ہے کلام ہے۔تم ہو ،

ہم نہیں ہیں۔تم قہقہہ لگاتے ہو ۔تمہارا قہقہہ آرٹ ہے۔میرا قہقہہ نقب زنی ہے۔‘‘

انور عظیم نے بہت خوبی کے ساتھ معاشرہ کے زوال اور بے رحمی کی طرف توجہ دلائی ہے ۔انھوںنے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ ہر انسان کو اس معاشرے میں جینے کا حق ہے۔افسانہ نگار نے راوی کے کردار کے ذریعے اس پورے معاشرے کی بدترصورت حال کو نمایاں کیا ہے ۔ایک طرف اس کردار کا حلیہ اور افسوس ناک زندگی کا بیان ہے تو دوسری طرف ان بے حس اور بے رحم لوگوں کا ذکر ہے جو اپنے آپ کو فن کا ر سمجھتے ہیں اور اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔افسانہ نگار اس کادرد انگیز حلیہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے:

’’اس کا چہرہ اسفنج کی طرح ہے۔بھیگا ہوا۔اس کے منھ کی بدبو بھیگی ہوئی ہے۔وہ دائیں پیر کا جوتا بائیں پیر میں

پہنے ہوئے ہے۔اس کا بایاں پیر ننگا ہے۔اس کی پتلون کے بٹن کھلے ہوئے ہیں ۔شاید بٹن ہیں ہی نہیں ۔

پتلون بھیگی ہوئی ہے۔چاک گریباں سے بال جھانک رہے ہیں۔بالوں میںمیل ہے۔رسی کی طرح بٹے

ہوئے بال۔کہنیاں چھلی ہوئی ہیں اور آستینوں کے روزنوں سے جھانک رہی ہیں۔‘‘

افسانے میں پیش کی گئی کہانی مچھلی اور گدھ کے استعارے کے ذریعے ترتیب دی گئی ہے۔پانی کی سطح پر تیرتی مردہ مچھلی ،اپنے معاشرے سے غیر ہم آہنگ شاعر (راوی)کی علامت ہے اور گدھ وہ سارے لوگ ہیں جو اپنی خودغوضی ،حرص اور بددیانتی کے سبب اس راوی کے ضمیر اور معتقدات کا مردہ گوشت کھا رہے ہیں۔

افسانہ ’’گورستان سے پرے‘‘کا بنیادی موضوع ایک آزاد خیال عورت کی ظاہری اور داخلی زندگی ہے جسے اپنے شوہر اور بچے سے زیادہ اپنا کیریر عزیز ہے اور جو اپنی زندگی میں کسی نوع کی روایتی یا اخلاقی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔یہ کہانی معاشرے میں ایک ایسی سوسائٹی کے متعلق ہے جس کے افراد روایت یا اقدار کے قائل نہیں ۔جن کے نزدیک ان کی مادی ترقی اور تمام پابندیوں سے آزادی ہی زندگی کا مقصد ہے۔انور عظیم نے اس کہانی کے واقعات کو ایک شخص کی موت کے بعد اس کی بیوی اور بیٹے اور اس شخص کی گفتگو اور بیان سے مرتب کیا ہے:

’’میں زندگی سے ایک ایک بوند نچوڑ لینا چاہتی ہوں۔میں تمام روایتوں کو توڑ کر زندہ رہنا چاہتی ہوںاور

یہ شخص ایک بھاری چٹان کی طرح میری گردن میں بندھا ہوا ہے۔اگر میں چٹان ہوں تو مجھے پھینک دو اپنے

وجود کی حدود سے باہر۔حرامزادے پھینک تو دوں اپنی پرانی سینڈل کی طرح،مگر میرے کیریر کا کیا ہو گا۔‘‘

افسانے میں انور عظیم نے سماج کے رستے ہوئے اس ناسور کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں یہ عورت اپنے بہتر کیریر کی خواہش میں اپنی ازدواجی زندگی کے اس عظیم رشتے کو بھی بالائے طاق رکھ کر شوہر اور بیٹے سے بہت دور ہو جاتی ہے۔اس طرح اس خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

افسانہ ’’گرد‘‘کا موضوع بے اطمینانی ،ذہنی انتشار اور زندگی کی مصروفیت میں اضافہ ہے۔غرض یہ غیر مہذب سماج کی ایسی کہانی ہے جس میں ایک فرد کے وجودی مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ایک طرف جہاں اس کی زندگی کی دوڑدھوپ کا تسلسل ہے وہیں ذہنی و جذباتی انتشار بھی بڑھتا جاتا ہے۔انور عظیم نے آفس کے ایک معمولی کلرک کی ازدواجی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے جس کی ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں کا سبب بیوی اور دفتر کے کام کا بوجھ ہے۔راوی زندگی کے تمام سفر طے کر کے اب ان پریشانیوں اور الجھنوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’میں نے ایک اپاہج کے لئے زندگی سے منہ موڑ لیا۔لیکن اب میں جینا چاہتا ہوں۔میرے پاس وقت

بہت کم ہے۔چالیس برس انتھک بھاگتا رہا ہوں۔اب میں رکنا چاہتا ہوں۔سانس لینا چاہتا ہوں۔گہری

سانس۔جس طرح دوپہر میں ٹھنڈا پانی پیتے ہیں ۔گھونٹ گھونٹ ۔بوند بوند‘‘

آسائش ،راحت اور آرام کی آرزو میں ایک شخص ساری عمرمعمولات زندگی کے وظیفے میں پستا رہتا ہے یہاں تک کہ ابھی وہ نوکری سے آزاد بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس کی بیوی مر جاتی ہے ۔ابھی وہ اس لمحے کا انتظار کر رہا ہے جب وہ طمانیت اور سکون کے دنوں سے لطف اندوز ہو سکے۔بس یہی انتظار ایک کلرک کی زندگی کی اصل اور اس افسانے کا مرکزی خیال ہے۔

اسی طرح افسانہ ’’بنیان‘‘معاشی مجبوری اور معاشرتی مسائل پر مبنی ہے۔اس افسانے کا موضوع جینے اورمرنے کی کشمکش اور فرد کے ظاہر وباطن کا فرق ہے۔راوی جو خود ایک لاش کی مانند ہے،جس کے جذبات و احساسات مردہ ہوچکے ہیں ،جس کا لباس تو شاندار ہے مگر اندر کا بنیان معاشی کمزوری ،کثافت اور اس کے ساتھ ہی گندے باطن کی بھی علامت ہے۔راوی اپنی سوچ و فکر اور خیالات و تصورات سے مضطرب ہے کیونکہ اس کا میلا بنیان اس کی زندگی کے لئے ایک بوجھ بن گیا ہے ۔یہ بوجھ اس کے لئے اتنا باری ہے کہ اس کے نیچے اس کے جذبات و احساسات دب کر مر چکے ہیں ۔وہ زندہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مردہ تصور کرتا ہے۔وہ ایک جگہ اپنی مردہ لاش کا ظاہری حلیہ بیان کرتا ہے:

’’گردن اس کی ہڈیالی تھی۔اکڑی ہوئی۔کالر اب بھی کسے ہوئے تھے ۔ٹائی اب بھی کسی ہوئی تھی،جس کی

ناٹ مرے ہوئے سانپ کے کچلے ہوئے سر کی طرح چمک رہی تھی۔پتلون کے بکلس بھی کسے ہوئے تھے

جن کے کناروں پر زنگ دکھائی دے رہا تھا۔ اس بھیڑ میں ایک میں ایسا تھا جو سب کچھ دیکھ رہا تھا۔‘‘

اس کہانی میں کمزور انسان کی بے بسی اور اس پر ہونے والے ظلم کی مختلف صورتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس فلاکت زدہ انسان نے دنیا کے دکھاوے میں اپنی پہچان بدل لی ہے ۔وہ مر چکا ہے مگر مرنے کے بعد بھی اسے اس اذیت سے نجات نہیں۔ اس کا ضمیربھی مر چکا ہے پھر بھی اسے دنیا سے نجات حاصل نہیں۔اس کردار کے ذریعے انور عظیم نے پورے معاشرے کی تصویر کشی کی ہے :

’’سب لاش پر جھک گئے ۔ایک ہاتھ نے جھپٹ کر اس کی ٹائی کھول دی۔دوسرے نے کالر کھول دئیے ۔

کسی نے لپک کر اس کا کوٹ گھسیٹا ۔دیکھتے دیکھتے اس کی قمیص تار تار ہو گئی۔اندر ایک میلا بنیان لاش کے

سخت سینے پر جھلی کی طرح منڈھا ہوا تھا۔‘‘

افسانوی مجموعہ ’’لابوہیم ‘‘میں شامل افسانہ ’’ڈوبتے چاند کی خوشبو‘‘میں انور عظیم نے سماج کے مسائل پر بحث کی ہے اور انسانی اقدار کی پامالی اور نئی و پرانی نسلوں کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔یہ ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جہاں افراد کے درمیان فکرو عمل کی ہم آہنگی نہیں ہے۔یہی غیر ہم آہنگی اس افسانے کا موضوع ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار ایک آفس میں کلرک ہے جہاں وہ خود اعتمادی کے ساتھ کام کرتا ہے مگر اہل خانہ اور اس کے درمیان فاصلہ پیدا ہو گیا ہے۔اسی اختلاف کے سبب وہ ذہنی انتشار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔بیوی بچوں کے اس رویے سے اسے گھر کے باہر بھی سکون میسر نہیں ۔یہ دراصل ہمارے نئے معاشرے کی طرز زندگی ہے جس نے نسلوں کے درمیان خلیج بڑھا دی ہے ۔ نوجوان بزرگوں سے بلکہ بیٹا باپ سے اور شوہر اپنی بیوی سے بے نیاز ہوتا جا رہا ہے اور اس میں پرانی نسل رفتہ رفتہ تنہا ہوتی جا رہی ہے۔ انور عظیم نے افسانے کے مرکزی کردار کے ذریعے اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے کہ پرانی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد جب اپنی زندگی کی سیڑھیاں طے کر لیتے ہیں تو زندگی کے متلاشی یہ افرادپھر یادوں کے جھروکھوں سے اپنے ماضی کو دیکھتے ہیں :

’’شہر،جزیرہ،مرغزار ،پہاڑ،وادی ،کھیت اور چشمے ،سب نظر سے اوجھل ۔بس ایک جھیل ہے یادوں کی ،

یا شاید خوابوں کی ،جگمگاتی کچھ صدائیں جو گونج گونج کر سو گئیں ،اسی جھیل میں ۔۔۔۔۔‘‘

افسانہ ’’رات گئے ‘‘میں انور عظیم نے سماجی و معاشرتی مسائل کو پیش کیا ہے جہاں معاشرہ سے جبر و استحصال کی گرفت میں آکر انسان اپنا وجود گم کر دیتا ہے۔کہانی میں افسانہ نگار نے معاشرہ کی جبری صورت حال کو اجاگر کیا ہے جس میں جہد مسلسل کے باوجود ناکامی آدمی کا مقدر بن گئی ہے۔انسان کی کامیابی اتفاق اور ناکامی اس کا مقدر ہے اس لئے افسانہ نگار نے قسمت کو ماچس کی تیلی سے مناسبت دی ہے ۔وہ کہتا ہے:

’’قسمت کیا ہے ۔ماچس کی تیلی۔ڈبیہ میں بچا کر رکھو گے تو رکھی رہے گی۔نکالو اور مارو مسالے پر ،پھر دیکھو ،

لو کیسے لہرا کے اٹھتی ہے۔‘‘

اس افسانہ کی پوری کہانی فلیش بیک اور مکالموں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔کہانی تین کرداروں کے اردگرد گھومتی ہے۔پروڈیوسر،ٹیکسی ڈرائیور اور اس کا بیٹاجو بری صحبت کے سبب مارا جاتا ہے۔ ٹیکسی میں سفر کرنے والا آدمی ڈرائیور کی محرومی اور بے کسی کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہے۔یہی بے بسی اسے ڈرائیور کے بیٹے کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے:

’’وہ جو میرے پاس بیٹھا ہے اور جس کو میں دیکھ نہیں سکتا،میرے کان میں کہہ رہا ہے ، بابامیرا بہت بوڑھا

ہو گیا ہے ۔ساری زندگی اس کی اس شہر کی سڑکوں کو ناپتے گزر گئی اور فاصلہ کم نہ ہوا۔ ‘‘

انور عظیم کا نکتہ دراصل یہ ہے کہ دنیا میں آکر انسان کی زندگی وقت کے ساتھ گزرتی جاتی ہے اور وہ پریشانیوں اور مسائل میں گھرتا چلا جاتا ہے۔انھیں کیفیات کے سبب وہ اپنی محروم زندگی سے دوچار ہوتا ہے۔زندگی تو گزر جاتی ہے مگر ناکامی کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے ۔موت ہی ان پریشانیوں اور محرومیوں سے نجات دلاتی ہے۔اس بات کو ڈرائیور کے بیٹے کی زبان سے ظاہر کیاگیا ہے:

’’اس نے کوئی پچاس برس اسی طرح ٹیکسی چلائی ہے۔اور اب خفا ہے کہ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا ۔مجھے تو

جانا ہی تھا۔نہ جاتا تو میرا بھی یہی حال ہوتا۔سڑکیں اور فاصلہ ۔ ان فاصلوں میں کیا رکھا ہے ۔اب بڑا

سکھ ہے۔‘‘

الغرض انور عظیم کی تخلیقی صلاحیت ان کے معاشرتی شعور سے بڑی حد تک مربوط ہے۔ انھوںنے معاشی صورت حال کو معاشرتی کشمکش، فرد کے ذہنی و جذباتی انتشار اور زندگی کے افسوس ناک انجام تک کا ذمہ دار قرار دیا۔ان کے افسانوں میں پیش کئے گئے مسائل ان طبقوں کے ساتھ مخصوص ہیں جن طبقات کی شناخت انور عظیم نے ان کی معاشی حالت کی بنیاد پر کی ہے۔اس اعتبار سے انور عظیم باقاعدہ ترقی پسند افسانہ نگار کہے جا سکتے ہیں ۔

٭٭٭٭٭

دیدبان شمارہ۔۸

انور عظیم کے افسانوں میں معاشرتی مسائل

منیر احمد فردوس

سید صدرالدین احمد (۱۹۲۴ء۔۲۰۰۰ء)ادبی دنیا میں انور عظیم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔انھوں نے اگر چہ اپنی ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا لیکن ان کا فطری رجحان ادب کی طرف ہی رہا اور خاص کر وہ فکشن کی دوسری اصناف میں سب سے زیادہ مختصر افسانہ کی طرف راغب تھے ۔ان کا پہلا افسانہ ۱۹۴۶ء میں ’’چکراتے ہوئے ‘‘کے نام سے بھوپال کے ماہنامہ ’’افکار ‘‘میں شائع ہوا۔انھوں نے تقریباً ۲۵۰ کے قریب افسانے لکھے ہیں لیکن ان کے افسانوی مجموعوں میں شامل افسانوں کی کل تعداد ۵۲ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انور عظیم نے اپنے افسانوں کا بہت سخت انتخاب کیا۔انھوں نے صرف ان ہی افسانوں کو شامل کیا جو ان کے تصورادب کی اور اس کے ساتھ ہی ان کے تصور فن کی پوری طرح ترجمانی کرتے تھے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’قصہ رات کا ‘‘ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا جو سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔اس میں شامل افسانوں میں ’’قصہ رات کا ،میں زندہ ہوں، پہلے پھول، چکراتے ہوئے ، اکیلا، کچھ بھی نہیں ،دھرتی کا بوجھ ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

۱۹۹۴ء میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’اجنبی فاصلے ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا ۔اس میں کل اٹھارہ افسانے شامل ہیں جن میں’’ اجنبی فاصلے ،مردہ گھوڑے کی آنکھ، سفید آنکھیں، ہانپتے کانپتے لوگ،آزردہ ستاروں کا ہجوم اور درد کا ساحل کوئی نہیں ‘‘جیسے افسانوں کو بہت شہرت ملی۔آخری مجموعہ ’’لابوہیم‘‘کے عنوان سے ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا جو سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانوں میں ’’کھپریل، سنچرا ، طوفان کے پر ،ڈوبتے چاند کی خوشبو ،رگ سنگ ،پرچھائیوں کی پرچھائیاں ،لابوہیم اور ٹھنڈی سرنگ ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ۱۹۹۹ء میں ان کے تیرہ افسانوں کاایک انتخاب ’’دھان کٹنے کے بعد‘‘بھی شائع ہوا۔ اس طرح شامل مجموعہ افسانے انور عظیم کے تخلیقی سفر کے پچاس پچپن برسوں پر پھیلے ہوئے تجربات اور پختہ ہوتے ہوئے فنی شعور کی پوری داستان بیان کرتے ہیں۔

انور عظیم کا معاشرتی شعور بہت بالغ ہے ۔انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے اپنے اطراف کا جائزہ لیا ،زمانے کے گرم اور سرد کا تجزیہ کیا، معاشرے کے ماحول اور اس میں رہنے والے فرد کی زندگی کے کرب اور اذیت کو محسوس کیا اور پھر اسے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ان کے افسانوں میں پیش کردہ مسائل مثلاً غربت، فاقہ کشی، بے روزگاری ،گائوں و شہر کے متوسط و نچلے طبقے کی خستہ حالی اور ان کا استحصال ،نئی نسل کی بے راہ روی، اخلاقی اقدار کی شکست، دو تہذیبوں کے درمیان ٹکرائو ،پرانی اور نئی نسل کے بیچ تصادم اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی وغیرہ کا شدید احساس انور عظیم کے افسانوں کے مرکزی موضوعات ہیں ۔

انور عظیم کے افسانوں میں اس عہد کی بے چینی بالکل سطح پر نمایاں ہے۔ ان کے کردار زندگی کے تلخ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جنھیں ہر طرح سے کچلا جا رہا ہے ۔انھوںنے اپنے متعدد افسانوں میں عصری و سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ فرد کی ذاتی غربت ،احساس محرومی ،طبقاتی جبر ،معاشی مجبوری اور شخصی انا وغیرہ کوموضوع بنایا ہے۔ان کے افسانوں میں اسی معاشرتی ماحول کی عکاسی ملتی ہے جن میں ان کی کہانیوں کے کردارسفر کر رہے ہیں ۔انہوںنے اپنے افسانوں میں ہر طبقے کے کردار اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ موضوع بنایا ہے۔

معاشرتی صورت حال پر غور کرتے ہوئے انور عظیم نے اپنے افسانوں میں ان مسائل کو پیش کیا ہے جن کا اثر انسانی زندگی پر گہرا ہے اور جس نے انسانی وجود کو بے معنی بنادیا ہے ۔اس کے علاوہ معاشرتی و سماجی افسانوں کے موضوعات میں بیشتر مسائل سماجی نابرابری ،ادبی اور روحانی قدروں کی پامالی ،وقت اور سماج کا جبر ،فرد کی تنہائی اور بے بسی کے باوجود محبت کا احساس بھی نمایاں ہے۔ان کے افسانوں کے کرداراپنے معاشرہ کی منتشر ہوتی ہوئی بافت کی زد پر ہیں۔کوئی معاشی مجبوریوں میں گھرا ہوا ہے تو کوئی لمحہ لمحہ گزرتے وقت کی تبدیلیوں سے دوچار ہے۔معاشرے میں پھیلی ہوئی یہ کیفیت صرف ایک فرد کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ اس جیسے بہت سے افراد معاشی ،سماجی اور اخلاقی مسائل کے شکار ہیں جن کو اپنی مایوس زندگی کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔انور عظیم اس ٹوٹتی بکھرتی ہوئی زندگی میں معاشی تنگی اور استحصال کے مجرمانہ عمل کو ہر نوع کے معاشرتی ،اخلاقی اور نفسیاتی زوال کا سبب تصور کرتے ہیں ۔اس لئے ان کے افسانوں کی معاشرتی جہت بہت نمایاں ہو گئی ہے۔اس حوالے سے انور عظیم کا افسانہ ’’مچھلی‘‘ایک کامیاب افسانہ ہے جس کا موضوع ریاکاری، بدکاری ،جھوٹ اور فریب کے درمیان ایک حساس آدمی کی زندگی کے لئے جدو جہد اور اس کی ناکامی کی کہانی ہے۔کہانی کا کردار راوی مفلوک الحال مگر ترقی پسند نقطہ نظر کا حامل شاعر ہے۔اس کے دوست احباب زندگی سے متعلق اس کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ۔ان کے نزدیک ادب کا سارا ترقی پسند تصور اور اس تصور کے تحت لکھا گیا ساراادب محض پروپیگنڈاہے۔یہ ایسی کشمکش ہے جس کا کوئی حل نہیں۔ اپنے انہیں افکار کے سبب وہ اپنے دوستوں میں نا قابل قبول ہو جاتا ہے۔ایک جگہ راوی پروپیگنڈا کی حیثیت کو متعین کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’میں بھوکا ہوں۔بھوک؟یہ پروپیگنڈا ہے۔جو کچھ ہے پروپیگنڈا ہے۔جو کچھ نہیں ہے کلام ہے۔تم ہو ،

ہم نہیں ہیں۔تم قہقہہ لگاتے ہو ۔تمہارا قہقہہ آرٹ ہے۔میرا قہقہہ نقب زنی ہے۔‘‘

انور عظیم نے بہت خوبی کے ساتھ معاشرہ کے زوال اور بے رحمی کی طرف توجہ دلائی ہے ۔انھوںنے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ ہر انسان کو اس معاشرے میں جینے کا حق ہے۔افسانہ نگار نے راوی کے کردار کے ذریعے اس پورے معاشرے کی بدترصورت حال کو نمایاں کیا ہے ۔ایک طرف اس کردار کا حلیہ اور افسوس ناک زندگی کا بیان ہے تو دوسری طرف ان بے حس اور بے رحم لوگوں کا ذکر ہے جو اپنے آپ کو فن کا ر سمجھتے ہیں اور اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔افسانہ نگار اس کادرد انگیز حلیہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے:

’’اس کا چہرہ اسفنج کی طرح ہے۔بھیگا ہوا۔اس کے منھ کی بدبو بھیگی ہوئی ہے۔وہ دائیں پیر کا جوتا بائیں پیر میں

پہنے ہوئے ہے۔اس کا بایاں پیر ننگا ہے۔اس کی پتلون کے بٹن کھلے ہوئے ہیں ۔شاید بٹن ہیں ہی نہیں ۔

پتلون بھیگی ہوئی ہے۔چاک گریباں سے بال جھانک رہے ہیں۔بالوں میںمیل ہے۔رسی کی طرح بٹے

ہوئے بال۔کہنیاں چھلی ہوئی ہیں اور آستینوں کے روزنوں سے جھانک رہی ہیں۔‘‘

افسانے میں پیش کی گئی کہانی مچھلی اور گدھ کے استعارے کے ذریعے ترتیب دی گئی ہے۔پانی کی سطح پر تیرتی مردہ مچھلی ،اپنے معاشرے سے غیر ہم آہنگ شاعر (راوی)کی علامت ہے اور گدھ وہ سارے لوگ ہیں جو اپنی خودغوضی ،حرص اور بددیانتی کے سبب اس راوی کے ضمیر اور معتقدات کا مردہ گوشت کھا رہے ہیں۔

افسانہ ’’گورستان سے پرے‘‘کا بنیادی موضوع ایک آزاد خیال عورت کی ظاہری اور داخلی زندگی ہے جسے اپنے شوہر اور بچے سے زیادہ اپنا کیریر عزیز ہے اور جو اپنی زندگی میں کسی نوع کی روایتی یا اخلاقی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔یہ کہانی معاشرے میں ایک ایسی سوسائٹی کے متعلق ہے جس کے افراد روایت یا اقدار کے قائل نہیں ۔جن کے نزدیک ان کی مادی ترقی اور تمام پابندیوں سے آزادی ہی زندگی کا مقصد ہے۔انور عظیم نے اس کہانی کے واقعات کو ایک شخص کی موت کے بعد اس کی بیوی اور بیٹے اور اس شخص کی گفتگو اور بیان سے مرتب کیا ہے:

’’میں زندگی سے ایک ایک بوند نچوڑ لینا چاہتی ہوں۔میں تمام روایتوں کو توڑ کر زندہ رہنا چاہتی ہوںاور

یہ شخص ایک بھاری چٹان کی طرح میری گردن میں بندھا ہوا ہے۔اگر میں چٹان ہوں تو مجھے پھینک دو اپنے

وجود کی حدود سے باہر۔حرامزادے پھینک تو دوں اپنی پرانی سینڈل کی طرح،مگر میرے کیریر کا کیا ہو گا۔‘‘

افسانے میں انور عظیم نے سماج کے رستے ہوئے اس ناسور کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں یہ عورت اپنے بہتر کیریر کی خواہش میں اپنی ازدواجی زندگی کے اس عظیم رشتے کو بھی بالائے طاق رکھ کر شوہر اور بیٹے سے بہت دور ہو جاتی ہے۔اس طرح اس خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

افسانہ ’’گرد‘‘کا موضوع بے اطمینانی ،ذہنی انتشار اور زندگی کی مصروفیت میں اضافہ ہے۔غرض یہ غیر مہذب سماج کی ایسی کہانی ہے جس میں ایک فرد کے وجودی مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ایک طرف جہاں اس کی زندگی کی دوڑدھوپ کا تسلسل ہے وہیں ذہنی و جذباتی انتشار بھی بڑھتا جاتا ہے۔انور عظیم نے آفس کے ایک معمولی کلرک کی ازدواجی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے جس کی ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں کا سبب بیوی اور دفتر کے کام کا بوجھ ہے۔راوی زندگی کے تمام سفر طے کر کے اب ان پریشانیوں اور الجھنوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’میں نے ایک اپاہج کے لئے زندگی سے منہ موڑ لیا۔لیکن اب میں جینا چاہتا ہوں۔میرے پاس وقت

بہت کم ہے۔چالیس برس انتھک بھاگتا رہا ہوں۔اب میں رکنا چاہتا ہوں۔سانس لینا چاہتا ہوں۔گہری

سانس۔جس طرح دوپہر میں ٹھنڈا پانی پیتے ہیں ۔گھونٹ گھونٹ ۔بوند بوند‘‘

آسائش ،راحت اور آرام کی آرزو میں ایک شخص ساری عمرمعمولات زندگی کے وظیفے میں پستا رہتا ہے یہاں تک کہ ابھی وہ نوکری سے آزاد بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس کی بیوی مر جاتی ہے ۔ابھی وہ اس لمحے کا انتظار کر رہا ہے جب وہ طمانیت اور سکون کے دنوں سے لطف اندوز ہو سکے۔بس یہی انتظار ایک کلرک کی زندگی کی اصل اور اس افسانے کا مرکزی خیال ہے۔

اسی طرح افسانہ ’’بنیان‘‘معاشی مجبوری اور معاشرتی مسائل پر مبنی ہے۔اس افسانے کا موضوع جینے اورمرنے کی کشمکش اور فرد کے ظاہر وباطن کا فرق ہے۔راوی جو خود ایک لاش کی مانند ہے،جس کے جذبات و احساسات مردہ ہوچکے ہیں ،جس کا لباس تو شاندار ہے مگر اندر کا بنیان معاشی کمزوری ،کثافت اور اس کے ساتھ ہی گندے باطن کی بھی علامت ہے۔راوی اپنی سوچ و فکر اور خیالات و تصورات سے مضطرب ہے کیونکہ اس کا میلا بنیان اس کی زندگی کے لئے ایک بوجھ بن گیا ہے ۔یہ بوجھ اس کے لئے اتنا باری ہے کہ اس کے نیچے اس کے جذبات و احساسات دب کر مر چکے ہیں ۔وہ زندہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مردہ تصور کرتا ہے۔وہ ایک جگہ اپنی مردہ لاش کا ظاہری حلیہ بیان کرتا ہے:

’’گردن اس کی ہڈیالی تھی۔اکڑی ہوئی۔کالر اب بھی کسے ہوئے تھے ۔ٹائی اب بھی کسی ہوئی تھی،جس کی

ناٹ مرے ہوئے سانپ کے کچلے ہوئے سر کی طرح چمک رہی تھی۔پتلون کے بکلس بھی کسے ہوئے تھے

جن کے کناروں پر زنگ دکھائی دے رہا تھا۔ اس بھیڑ میں ایک میں ایسا تھا جو سب کچھ دیکھ رہا تھا۔‘‘

اس کہانی میں کمزور انسان کی بے بسی اور اس پر ہونے والے ظلم کی مختلف صورتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس فلاکت زدہ انسان نے دنیا کے دکھاوے میں اپنی پہچان بدل لی ہے ۔وہ مر چکا ہے مگر مرنے کے بعد بھی اسے اس اذیت سے نجات نہیں۔ اس کا ضمیربھی مر چکا ہے پھر بھی اسے دنیا سے نجات حاصل نہیں۔اس کردار کے ذریعے انور عظیم نے پورے معاشرے کی تصویر کشی کی ہے :

’’سب لاش پر جھک گئے ۔ایک ہاتھ نے جھپٹ کر اس کی ٹائی کھول دی۔دوسرے نے کالر کھول دئیے ۔

کسی نے لپک کر اس کا کوٹ گھسیٹا ۔دیکھتے دیکھتے اس کی قمیص تار تار ہو گئی۔اندر ایک میلا بنیان لاش کے

سخت سینے پر جھلی کی طرح منڈھا ہوا تھا۔‘‘

افسانوی مجموعہ ’’لابوہیم ‘‘میں شامل افسانہ ’’ڈوبتے چاند کی خوشبو‘‘میں انور عظیم نے سماج کے مسائل پر بحث کی ہے اور انسانی اقدار کی پامالی اور نئی و پرانی نسلوں کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔یہ ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جہاں افراد کے درمیان فکرو عمل کی ہم آہنگی نہیں ہے۔یہی غیر ہم آہنگی اس افسانے کا موضوع ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار ایک آفس میں کلرک ہے جہاں وہ خود اعتمادی کے ساتھ کام کرتا ہے مگر اہل خانہ اور اس کے درمیان فاصلہ پیدا ہو گیا ہے۔اسی اختلاف کے سبب وہ ذہنی انتشار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔بیوی بچوں کے اس رویے سے اسے گھر کے باہر بھی سکون میسر نہیں ۔یہ دراصل ہمارے نئے معاشرے کی طرز زندگی ہے جس نے نسلوں کے درمیان خلیج بڑھا دی ہے ۔ نوجوان بزرگوں سے بلکہ بیٹا باپ سے اور شوہر اپنی بیوی سے بے نیاز ہوتا جا رہا ہے اور اس میں پرانی نسل رفتہ رفتہ تنہا ہوتی جا رہی ہے۔ انور عظیم نے افسانے کے مرکزی کردار کے ذریعے اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے کہ پرانی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد جب اپنی زندگی کی سیڑھیاں طے کر لیتے ہیں تو زندگی کے متلاشی یہ افرادپھر یادوں کے جھروکھوں سے اپنے ماضی کو دیکھتے ہیں :

’’شہر،جزیرہ،مرغزار ،پہاڑ،وادی ،کھیت اور چشمے ،سب نظر سے اوجھل ۔بس ایک جھیل ہے یادوں کی ،

یا شاید خوابوں کی ،جگمگاتی کچھ صدائیں جو گونج گونج کر سو گئیں ،اسی جھیل میں ۔۔۔۔۔‘‘

افسانہ ’’رات گئے ‘‘میں انور عظیم نے سماجی و معاشرتی مسائل کو پیش کیا ہے جہاں معاشرہ سے جبر و استحصال کی گرفت میں آکر انسان اپنا وجود گم کر دیتا ہے۔کہانی میں افسانہ نگار نے معاشرہ کی جبری صورت حال کو اجاگر کیا ہے جس میں جہد مسلسل کے باوجود ناکامی آدمی کا مقدر بن گئی ہے۔انسان کی کامیابی اتفاق اور ناکامی اس کا مقدر ہے اس لئے افسانہ نگار نے قسمت کو ماچس کی تیلی سے مناسبت دی ہے ۔وہ کہتا ہے:

’’قسمت کیا ہے ۔ماچس کی تیلی۔ڈبیہ میں بچا کر رکھو گے تو رکھی رہے گی۔نکالو اور مارو مسالے پر ،پھر دیکھو ،

لو کیسے لہرا کے اٹھتی ہے۔‘‘

اس افسانہ کی پوری کہانی فلیش بیک اور مکالموں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔کہانی تین کرداروں کے اردگرد گھومتی ہے۔پروڈیوسر،ٹیکسی ڈرائیور اور اس کا بیٹاجو بری صحبت کے سبب مارا جاتا ہے۔ ٹیکسی میں سفر کرنے والا آدمی ڈرائیور کی محرومی اور بے کسی کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہے۔یہی بے بسی اسے ڈرائیور کے بیٹے کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے:

’’وہ جو میرے پاس بیٹھا ہے اور جس کو میں دیکھ نہیں سکتا،میرے کان میں کہہ رہا ہے ، بابامیرا بہت بوڑھا

ہو گیا ہے ۔ساری زندگی اس کی اس شہر کی سڑکوں کو ناپتے گزر گئی اور فاصلہ کم نہ ہوا۔ ‘‘

انور عظیم کا نکتہ دراصل یہ ہے کہ دنیا میں آکر انسان کی زندگی وقت کے ساتھ گزرتی جاتی ہے اور وہ پریشانیوں اور مسائل میں گھرتا چلا جاتا ہے۔انھیں کیفیات کے سبب وہ اپنی محروم زندگی سے دوچار ہوتا ہے۔زندگی تو گزر جاتی ہے مگر ناکامی کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے ۔موت ہی ان پریشانیوں اور محرومیوں سے نجات دلاتی ہے۔اس بات کو ڈرائیور کے بیٹے کی زبان سے ظاہر کیاگیا ہے:

’’اس نے کوئی پچاس برس اسی طرح ٹیکسی چلائی ہے۔اور اب خفا ہے کہ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا ۔مجھے تو

جانا ہی تھا۔نہ جاتا تو میرا بھی یہی حال ہوتا۔سڑکیں اور فاصلہ ۔ ان فاصلوں میں کیا رکھا ہے ۔اب بڑا

سکھ ہے۔‘‘

الغرض انور عظیم کی تخلیقی صلاحیت ان کے معاشرتی شعور سے بڑی حد تک مربوط ہے۔ انھوںنے معاشی صورت حال کو معاشرتی کشمکش، فرد کے ذہنی و جذباتی انتشار اور زندگی کے افسوس ناک انجام تک کا ذمہ دار قرار دیا۔ان کے افسانوں میں پیش کئے گئے مسائل ان طبقوں کے ساتھ مخصوص ہیں جن طبقات کی شناخت انور عظیم نے ان کی معاشی حالت کی بنیاد پر کی ہے۔اس اعتبار سے انور عظیم باقاعدہ ترقی پسند افسانہ نگار کہے جا سکتے ہیں ۔

٭٭٭٭٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024