‘‘نالۂ شب گیر’’ قسط ۳

‘‘نالۂ شب گیر’’ قسط ۳

Aug 12, 2018

تیسری قسط

دیدبان شمارہ۔۸

‘‘نالۂ شب گیر’’ قسط ۳

مشرف عالم ذوقی

(دوسرا حصہ )

آتش گل

he whole of feminine history has been man-made. Just as in America there is no Negro problem, but rather a white problem; just as anti-Semitism is not a Jewish problem, it is our problem; so the woman problem has always been a man problem.

—Simone de Beauvoir

(1)

جیسا کہ پہلے صفحات سے آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں ایک مصنف ہوں۔ لیکن میری مکمل شخصیت کسی جوکر کی طرح ہے— اور مجھے بار بار لگتا ہے جوکر کی طرح ہنستے ہنساتے ہوئے آپ سامنے والے شخص کے اندر اور باہر آرام سے جھانک سکتے ہیں— اسی طرح جیسے دوستوفسکی کا ایڈیٹ شرمایا ہوا شہزادی کے دل تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ مصنف کو بے شرم بننا پڑتا ہے۔ مگر اس کی موجودگی میںاحمق اور جوکر دونوں کے کردار بیک وقت شامل رہتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی دونوں کرداروں کو ایک ساتھ انجام دیتا رہتا ہے۔ جنگل ، پہاڑ، برف اور گلیشیئر کے پگھلنے سے الگ  میں زیادہ تر رومانوی دنیا سے الگ ہی رہتا ہوں اور بیحد چھوٹی چیزیں بلکہ واہیات چیزیں مجھے زیادہ متاثرکرجاتی ہیں۔ مثال کے لئے خوبصورت وادیوں میں کوئی ٹھونٹھ درخت مجھے دکھ جائے تو حیران آنکھوں سے مجھے اس پر مسلط خزاں کا حساب لگانا زیادہ اچھا لگتا ہے اور اسی لیے افسانوں سے زیادہ گھوڑے یا بھری پڑی بستیوں سے زیادہ ویرانی، شہر خموشاں یا وحشت کے بجتے گھنگھرئوں کو سننا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اور شاید اسی لیے اس گھر میں صوفیہ مشتاق ہی میری توجہ کا مرکز بن سکی کہ اس کے کمرے میں اندھیرے جمع تھے۔ یا وہ اپنے احساس کی تپش سے جالوں، چمگادڑوں، چھپکلیوں سے لے کر ڈری سہمی آواز کی آسیبی موسیقی بھی کمرے میں پیدا کرلیا کرتی تھی۔ ایک کہانی کے بعد دوسری کہانی کی تلاش کچھ یوں ہوتی ہے کہ ہم پچھلے کرداروں کو بھول جاتے ہیں— انہی دنوں میری ملاقات نینی تال کے کمال یوسف سے ہوئی تھی— اور اس کہانی میں کئی کہانیاں یکا یک شامل ہوتی چلی گئی تھیں—

جیسے کمال یوسف کا اپنی بیوی اور چھ مہنے کی بیٹی کے ساتھ انڈیا گیٹ پر آنا۔ رات بھر یخ بستہ ہوائوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انقلاب اور احتجاج کا حصہ بن جانا، اور میرا گر جانا— تعجب ہے نا، مصنف بھی گرتے ہیں— بلکہ میں تو یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اکثر مصنف بے خیالی میں گر جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی آنکھیں راستہ بنانے کی جگہ اپنے ہی خیالوں میں سفر کرتی رہتی ہیں۔ اور وہ سامنے کی رکاوٹ کو نہیں دیکھ پانے کی صورت میں بلاوجہ چوٹ کھا جاتے ہیں۔ لیکن کمال یوسف سے ملنے، میرے گرجانے اور صوفیہ کے اتفاقاً ملنے کی کڑیاں ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا—

یہ انہی دنوں کا تذکرہ ہے جب ہندوستانی سر زمین پر سیاست نے نئی کروٹ لی تھی۔ دلی کا انڈیا گیٹ ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں انقلابی چوک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ دبے پائوں آنے والی انقلاب کی وہ آہٹ تھی،جو شاید اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی— یہ وہی دور تھا جب دنیا کے کئی حصوں میں اس طرح کے مظاہرے عام تھے— سیاسی چہروں کو یہ فکر دامن گیر تھی عوام کا غصہ جاگ گیا تو تخت و تاج کا کیا ہوگا— بار بار تباہ و برباد اور آباد ہونے والی دلی آزادی کے بعد محض سوئی ہوئی، خاموش تماشائی بن کر رہ گئی تھی۔ لیکن ایک حادثے نے دلی والوں کو نہ صرف جگا دیا تھا بلکہ دلی کے ساتھ ہی پورا ہندوستان بھی جاگ گیا تھا اور یہ معاملہ تھا جیوتی گینگ ریپ کا معاملہ— ایک معصوم سی لڑکی جیوتی، جس کو میڈیا اور چینلس نے ابھیا، نربھیا جیسے ہزاروں نام دے ڈالے تھے۔ ایک کالج کی لڑکی جو صبح سویرے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک خالی بس میں بیٹھی اور بس میں سوار پانچ لوگوں نے بے رحمی کے ساتھ بوائے فرینڈ کی موجودگی میں اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا اور چلتی بس سے دونوں کو باہر پھینک دیا— یقینی طور پر ایسے معاملات پہلے بھی سامنے آئے تھے۔ لیکن بے رحمی اور درندگی کی نہ بھولنے والی اس مثال نے دلی کو احتجاج اور انقلاب کا شہر بنا دیا تھا— جنترمنتر سے لے کر دلی گیٹ اور انڈیا گیٹ تک ہزاروں لاکھوں ہاتھ تھے، جو انقلاب کے سرخ پرچم کے ساتھ ہوا میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ بطور مصنف کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی نئی دنیامیں قدم رکھنے کے باوجود آج تک جبلت اور درندگی کے واقعات میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی توعلم نفسیات کی موٹی موٹی کتابیں بھی ہانپ جاتی ہیں کہ نہ قدیم عہد میں کچھ بدل سکا اور اس انفارمیشن ٹکنالوجی اور سائنسی انقلاب کے عہدمیں کچھ بدلنے کی امید ہے— عورت کو اپنی حکومت کے طور پر محسوس کرنے والا— اور صدی کے انقلاب کے باوجود برتری کا وہی پیمانہ ہے جو آج بھی عورتوں کو حاشیہ پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اور اسی لیے عورت ہونے کے تصور میں، مرد نے کبھی اس کے اڑان کا استقبال نہیں کیا بلکہ ایسی ہر اڑان اس کی مردانگی کو للکارتی رہی۔ سیمون د بوار سے تسلیمہ نسرین تک عورت جب یہ کہتی ہے کہ یہ گھر میرا ہے، یہ فرج میرا ، یہ لیپ ٹیپ میرا اور یہ بدن میرا تو مرد کی آنکھیں تن جاتی ہیں۔ مرد نہ عورت کو برانڈ بنتے دیکھ سکتا ہے نہ سماج سے سیاست تک اس کے قد کو پھیلتے اور بڑھتے ہوئے—یوروپی ممالک کی عورتیں بھی اس معاملے میں وہی ہیں، جو ایک عام ایشیائی عورت کا معاملہ ہے— وہاں بھی زنا بالجبر اور زور زبردستی کی وارداتیں عام ہیں— او ریہ وارداتیں ہر سطح پر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ تہذیب کی اتنی صدیاں گزار نے کے بعد بھی ایک تعلیم یافتہ لڑکی رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر سفر نہیں کر سکتی۔ دفتروں میں کام کرتے ہوئے اسے چوکنا رہنا ہوتا ہے۔ وہ گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں باپ سے بھائی تک کے قریبی رشتوں میں بھی سگ زار برادر شغال کی مثال ہی سامنے آتی ہے— صرف ایک بدن کے قصور میں آزاد ہوتے ہوئے اور ترقی کے مینارے چڑھتی ہوئی عورت بھی زمانۂ قدیم کی داسی محسوس ہوتی ہے، جس کی ڈور روز ازل سے مرد کے پاس ہے اور اسے مرد کے اشاروں پر ہی ناچنا ہوتا ہے —

دسمبر کا مہینہ— ٹھنڈک اپنے عروج پر تھی— سرد ہوائوں کے باوجود پرجوش مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی— یہ وہ لوگ تھے جو جیوتی گینگ ریپ کے ظالموں کو سزا دلوانے اور ایوان سیاست کو جگانے آئے تھے۔ سیاسی ہلچل تیز ہوچکی تھی۔ انڈیا گیٹ کے آس پاس کی سڑکیں رین بسیرے میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ سرد لہر، جنگلی پتنگوں کا اڑنا، مچھروں کا حملہ… لیکن جاگتی آنکھیں امید سے پر کہ اب اس انقلاب کی آہٹ کو کوئی روک نہیں سکتا—

او راسی مقام پر پہلی بار میں نے کمال یوسف کو دیکھا تھا۔ عمر یہی کوئی تیس بتیس کے آس پاس۔ گورا خوبصورت چہرہ۔ جینس کا پینٹ اور گرم جیکٹ پہنے— اس نے ایک سفید شال بھی ڈال رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی، جس کی گود میں ایک ننھا سا بچہ بھی تھا۔ لڑکی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔ کمال یوسف نے ننھے شیر خوار کو گود میں لے لیا۔ میں نے خود کو تیار کیا،یہی موقع تھا جب میں اس سے گفتگو کرسکتا تھا۔

وہ محبت سے ملا۔ ہاتھ بڑھایا۔ اور اپنائیت سے بولا۔

’کمال یوسف۔‘

اس بار چونکنے کی باری میری تھی۔

’مسلمان ؟‘

’کیوں؟‘ اس بار اس کے ساتھ والی لڑکی نے چبھتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا—’ مسلمان نہیں ہونا چاہئے۔؟

’نہیں میرا مطلب ہے…‘ میں نے نظر یں جھکاتے ہوئے کہا— ’عام طور پر اس طرح کے احتجاج میں مسلمان شامل نہیں ہوتے…‘

کمال یوسف نے زور کا قہقہہ لگایا— کس نے کہا کہ مسلمان شامل نہیں ہوتے۔ کس دور میں جی رہے ہیں آپ؟‘ اس نے آگے بڑھ کر شرارت کے انداز میں میرے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ لا کر چٹکیاں بجائیں—’ تیس کروڑ کی آبادی ہے ہماری صاحب— مسلمان بھی اسی ملک کا حصہ ہیں۔ لیکن آپ انہیں حصہ ماننے پر تیار ہی نہیں۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔

’نہیں— میرا مطلب ہے…‘ میں گڑبڑا گیا تھا۔

کمال یوسف نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ میری بیوی ہے— ناہید ناز۔ ہم نینی تال سے آئے ہیں۔‘

’ناہید ناز؟‘

اس بار ناہید کا قہقہہ بلند ہوا— ناہید یوسف کہتی یا ناہید کمال، تب ہی آپ تسلیم کرتے کہ ہم میں کوئی رشتہ بھی ہے…۔‘

’نہیں—‘ میں مسلسل حملوں سے گھبرا گیا تھا۔

’میری اپنی شناخت ہے۔ ’ناہید ناز کا چہرہ سخت تھا۔’ اس دنیا میں ایک لڑکی اپنی شناخت اور آزادی کے ساتھ کیوں نہیں جی سکتی—؟ کمال سے شادی کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میری شناخت کمال کی محتاج ہے۔ میری اپنی آئیڈینٹیٹی ہے، کمال کی اپنی آئیڈینٹی۔ ایک گھر میں دولوگوں کو اپنی اپنی آئیڈینٹیٹی اور اپنی اپنی پرائیویسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہئے—

رات کے دو بج گئے تھے۔ اسٹیج سے وقفے کے بعد تقریروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کمال یوسف نے بیگ سے چادر نکال کر زمین پر بچھا دی— ہم چادر پر بیٹھ گئے۔ تھرمس سے چائے نکال کر اس نے ایک کپ میری طرف بڑھایا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ ناہیدناز بچے کو پتنگوں اور کیڑوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال یوسف نے میری طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرد تھا۔ سپاٹ۔

’مسلمان۔ دوسروں کے منہ سے اکثر یہ نام سنتے ہوئے پریشان ہوجاتا ہوں۔ ہاں بھائی مسلمان ہوں تو کیا ہوا۔ دوسرے مذاہب کے ناموں پر حیرانیاں کیوں نہیں پیدا ہوتیں۔ مسلمان، اس نام کے ساتھ اچانک ہم چودھویں یا پندرہویں صدی میں کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ اور مسلمان کہاں نہیں ہیں؟ کرکٹ سے فلم اور سیاست تک۔ او رہم جس مقصد سے یہاں آئے ہیں، وہ صرف ایک معاملہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ اس نفسیاتی خوف کا معاملہ ہے جہاں ایک لڑکی اپنے ہی گھر میں ڈرڈر کر رہتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد بھی مسلسل ڈرتی رہتی ہے۔‘

ناہید ناز نے میری طرف دیکھا۔’ اس کی آنکھوں میں آگ روشن تھی۔ بچے کو سلاتے ہوئے کہا—’ ابھی یہ صرف چھ مہینے کا ہے۔ دلی آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے ایک لمحے کو نہیں سوچا کہ باشا کی طبیعت خراب ہوسکتی ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟‘

’نہیں۔‘

‘لڑکوں کو آزادی دیتے ہوئے آپ کی دنیا لڑکی کی آزادی کے پر کاٹ لیتی ہے۔ کبھی اسے چنری دی جاتی ہے۔ کبھی حجاب۔ کبھی اسے اپنوں سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لیے کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔ لڑکی نہیںہوئی عذاب ہوگئی— اور آپ ہی کے سماج نے اسے بے رحم نام دے رکھے ہیں۔ فاحشہ، طوائف، رنڈی، داسی، کلنکنی— یہ سارے نام مرد کو کیوں نہیں دیتے—؟ سب سے بڑا دلال اور بھڑوا تو مردہے — فاحشہ، طوائف، کلنکنی یہ سارے نام مرد پر فٹ بیٹھتے ہیں۔ کیوں ساری زندگی، سہمی سہمی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ہمیں؟ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اپنی مرضی کی زندگی نہیں جی سکتی۔ اسے ایک مرد کا غلام بننا ہوتا ۔ اس کے بچوں کو پالنا ہوتا ہے۔ مرد کیوں نہیں پالتا بچوں کو؟ کھانا کیوں نہیں بناتا؟ بیوی کو چائے کیوں نہیں پیش کرتا؟ گھر کیوں نہیں سنبھالتا۔ ہم آواز اٹھا ئیں تو آپ مذہب، شریعت اور موٹی موٹی آسمانی کتابیں لے کر آجاتے ہیں۔ ان کتابوں میں مرد کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ عورت کے ساتھ خوش رہے۔ عورت کو ہی بتایا جاتا ہے کہ شوہر کی خوشی میں ہی اس کی تقدیر کی تعویذ پڑی ہے ۔ کمال سے شادی کی تو تقدیر کی یہ تعویذ اتار پھینکی۔ کیوں کمال؟‘

کمال یوسف نے زور کا قہقہہ لگایا— شادی سے پہلے ملنا ہوا تو سوچتا تھا کہ ایسی پاگل اور عجیب و غریب لڑکی شاید دنیا میں نہ ہوگی۔ ملاقاتوں کاسلسلہ طویل ہوا اور بات شادی تک پہنچی تو ناہیدنے صاف طور پر کہہ دیا۔۸ بجے اٹھتی ہوں۔ بیڈٹی مجھے تم دوگے۔ ناشتہ میں بنالوں گی۔ شادی کے بعد بھی ہم دولوگ ہوں گے جن کی اپنی اپنی آزاد دنیائیں ہوںگی۔ میں ٹھہرا ، مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والا۔ ایسا گھرانا جہاں آج بھی بہشتی زیور کی حکومت چلتی ہے۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔

مجھے یکا یک احساس ہوا، کئی تصویریں ایک دوسرے میںمنعکس ہونے لگی ہیں۔ ایک چہرہ سرد کا فن میں آرام کا تصور کرنے والی صوفیہ کا تھا، دوسرا چہرہ جیوتی کا اور تیسرا چہرہ ناہید ناز کا۔ یہ سارے چہرے آپس میں گڈمڈ ہورہے تھے۔ ان چہروں میں کہیں صدیوں کی آگ روشن تھی تو کہیں آگ سرد پڑ گئی تھی… اور ان سے الگ بھی ایک چہرہ تھا۔ کمال یوسف کا چہرہ۔ مجھے یقین ہے خدا کی بستی میں عورتوں کو عزت دینے والے، آزادی دینے والے ایسے مردوں کا مشینی طور پر بننا شروع ہو چکا ہے۔ تو کیا یہ صدیوں سے سفر کرتی ہوئی عورت کے احتجاج کی ہی شکل ہے کہ نئے سماج کی مشینوں نے نئے اذہان کے مردوں کو اگلنا شروع کردیا ہے۔؟ یہ سمجھوتا ہے، وقت کی مانگ یا آنے والی تبدیلیاں ہیں—؟ اس سے بھی بڑا سوال تھا کہ مرد اپنی خصلت کو کب تک پوشیدہ رکھ سکتا ہے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال تھا کہ اگر ایک دن کمال یوسف بھی وہی عام سا مرد ثابت ہوا تو؟ میں نے اس طرف توجہ دلائی تو ناہیدناز زور زور سے ہنس پڑی۔

’ آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا ایسی صورت میں، میں ایک منٹ بھی ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟ بالکل بھی نہیں۔ میںدھکے مار کر اسے گھر سے باہر نکال دوں گی۔ دھکے مار کر— میں اس بات پر غور نہیں کروںگی کہ ہمارا کتنا پرانا ساتھ تھا۔ او راس بات کو بھول جائیے کہ میری آنکھوں میں ایک سکنڈ کے لئے بھی آنسو کا قطرہ چمکے گا— در اصل ہوتا یہ ہے کہ ہمیں شادی کے بعد مرد کو سونپنے والا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہوتا ہے۔ جو ہم سے کہتا ہے کہ دیکھو، یہ تمہارا مجازی خدا ہے اور اس کی خوشی میں ہی تمہاری زندگی کا سفر پوشیدہ ہے۔ بڑی ہوتے ہی میں نے اس دقیانوسی کتاب کے چتھڑے بکھیر دئیے۔ مرد کو سمجھنا ہوگا کہ اُس کی خوشی ہماری ذات میں پوشیدہ ہے۔‘

کمال یوسف آہستہ آہستہ مسکرا رہا تھا— جھینگر چیخ رہے تھے۔ پتنگوں اور مچھروں کی یلغار بار بار پریشان کر رہی تھی۔ اور یہاں میرے سامنے دو چہرے تھے۔ صوفیہ جسے ایک ماحول نے سرد، بجھی ہوئی راکھ میں تبدیل کر دیا تھا اور اسی ماحول سے نکلی ہوئی ناہید ناز، جسے خود پر بھروسہ تھا۔ اپنی ذات کے سہارے جینے پر یقین رکھنے والی اور مرد کی ہر طرح کی محکومیت سے انکار کرنے والی۔

فلیش چمک رہے تھے۔ چینلس اور میڈیا کے لوگ بھی کافی تعداد میں تھے۔ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی۔ مگر زیادہ تر آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ آزادی کے بعد کے تھکے ہوئے لوگوں میں اس انقلاب کو لیکر امید کی ایک موہوم سی کرن پیدا ہوئی تھی۔ مجھے اس بات سے زیادہ غرض نہیں تھی کہ یہ انقلاب بھی ہزاروں انقلابوں کی طرح پھُس ثابت ہوتا ہے یا اس سے اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے— میرے لیے اس وقت اتنا کافی تھا کہ جمہوریت میں مرتے ہوئے لوگوں کے لیے ایک معصوم سی لڑکی کا قتل ایک بڑے انقلاب کا گواہ بن گیا تھا۔

کندھے پر جھولتے ہوئے بیگ سے کاغذ اور قلم نکال کرکچھ دیر ادھر اُدھر کے نوٹس لیتا رہا۔ اس درمیان کمال یوسف اسٹیج کی طرف نظریں کئے بغور تقریر سننے میں محو تھا۔ ناہید ناز کے ملائم ہاتھ سوئے ہوئے بچے کو تھپکیاں دے رہے تھے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ناہیدناز کے ساتھ بھی ہوا ہوگا جس نے نینی تال سے دلی آنے میں مدد کی ہوگی— میں پھر اسی خیال کے رتھ پر سوار تھا کہ کتنی عجیب بات ، ایک مہذب دنیا میں آج بھی معصوم لڑکیاں، بچیاں، عورتیں اپنی آزادی اور حق کا مطالبہ کر رہی ہیں اور ساری دنیا سوئی ہوئی ہے۔ اپنے ہی گھر میں خوف کا پیچھا کرتے ہوئے، بڑے ہونے کا خوف ، جوان ہونے کا خوف، شادی نہ ہونے کا خوف، شادی کے بعد کا خوف… طلاق کا خوف… زندگی کے سمندر میں صرف خوف کے بھنور تھے اور الجھی ہوئی تھیں ہزاروں معصوم زندگیاں— مریخ پر راکٹ بھیجے جار ہے تھے۔ سائبریا میں درخت اگانے کی مہم چل رہی تھی۔ انسانوں جیسے انسان پیدا کئے جا رہے تھے۔ موت پر فتح پائی جا رہی تھی اور سائنس کے ہزاروں حیرت انگیز کارناموں کے باوجود امریکہ سے ہندوستان تک خوفزدہ تھی تو عورت— پریشان تھی تو عورت— چار برس کی معصوم بچی بھی ہوس کا شکار ہورہی تھی اور ۹۰ سال کی بزرگ خاتون بھی مرد کی درندگی سے محفوظ نہیں تھی۔ انتہائی بدصورت اور ناکارہ لڑکوں کو بھی شادی کے بارے میں یا بڑھتی عمر کے بارے میں سوچنا نہیں پڑتا تھا اور حسین لڑکیوں کی شادیاں بھی معاشرے میں عذاب بن کر رہ گئی تھیں۔

ایک دوزخ سے نکل کر دوسری دوزخ میں داخل ہونے کا راستہ کھل جاتاتھا۔ میں نے دیکھا ،ناہیدناز بغور میرے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی اور یہی لمحہ تھا جب میں نے اس سے دریافت کیا اور میں نے نرم نرم لہجے میں دریافت کیا کہ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ کیا اس کی زندگی میں بھی آیا ہے…؟ وہ جیسے میرے اسی سوال کے انتظار میں تھی۔ چھوٹتے ہی اس نے دوسرا سوال میری طرف داغ دیا۔

’کیا دنیا میں کوئی لڑکی ان حادثوں سے محفوظ بھی ہے؟ کسی ایک لڑکی کا نام بتا دیجئے—‘ وہ ہنس رہی تھی— جب سے دنیا بنی ہے۔ ایسی کوئی لڑکی بنی ہی نہیں۔ لڑکیاں پیدا ہوتے ہی شہد کی طرح ایک جسم لے کر آجاتی ہیں— اور سب سے پہلے اپنے ہی گھر میں اپنے میٹھے جسم پر چبھتی اور ڈستی ہوئی آنکھوں سے خوفزدہ ہوجاتی ہیں— جو عورت اس سچ سے انکار کرتی ہے وہ جھوٹ بولتی ہے۔‘ اس کا لہجہ تلخ تھا— ’مرد اپنی فطرت بدل ہی نہیں سکتا۔‘

’ اور آپ کے شوہر؟‘

’وہ شوہر نہیں ہے۔ خدا کے لیے انہیں شوہر نہ کہیے… وہ میری بیوی ہیں… ‘ ناہید نے کھلکھلا کرجواب دیا۔اور اب میری حراست میںہیں۔ کیوں کمال…‘

کمال یوسف نے قہقہہ لگایا۔

ناہید کے چہرے پر پھر سے شکن نمودار ہوئی تھی— ’لڑکے اپنے گھروں میں کیوں نہیںڈرتے۔ پھر تو لڑکوں کو آزادی ملتی ہی چلی جاتی ہے۔ ناجائز آزادی۔ اور لڑکی۔ آپ اور آپ کا مذہب صرف ان پر ہی کیوںبندش اور پہرے بیٹھاتا ہے، اور مردوں کو بے لگام کر دیتا ہے۔‘

میں نے پہلی بار ناہید ناز کے چہرے کا جائزہ لیا۔ ایک سانولا معصوم چہرہ۔ عمر یہی کوئی ستائس اٹھائیس کے قریب۔ قد پانچ فٹ دو انچ سے کچھ زیادہ۔ ستواں بدن۔ چہرے پر معصومیت کے ساتھ ایک کشش بھی تھی۔ کیا یہی وہ کشش تھی کہ مرد کے لیے عورت کا چہرہ اور وجود یکھتے ہی دیکھتے ایک جسم میں تبدیل ہوجاتا ہے—؟

ناہید کی آنکھیں نیلے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس نے پلٹ کر پھر میری طرف دیکھا۔ وہ مسکرارہی تھی—’ وہ میرے باپ بھی ہو سکتے ہیں، بھائی بھی۔ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ وہاں بھی دوسری لڑکیوں یا عورتوں کے لیے ایک چور مرد ضرور رہتا ہے— میرا احتجاج اسی بات پر ہے کہ وہ چور مرد آتا ہی کیوں ہے— عورت کا وجود ہی جسم کیوں بنتا ہے، مرد کا وجود جسم کیوں نہیں بنتا— آپ نے ابھی سوال کیا، کیا کوئی ایسا حادثہ میرے ساتھ بھی ہوا ہے… ہاں ہوا ہے— نہ ہوا ہوتا تب بھی میں اس احتجاج میں ضرور شامل ہوتی…

کمال یوسف نے سگریٹ جلا لی تھی۔ اب وہ دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔

’میں جس دفتر میں کام کرتی ہوں، وہاں کا حادثہ ہے یہ۔ شام کے سات بج گئے تھے۔ عام طور پر میں پانچ بجے دفتر چھوڑ دیتی تھی۔ باس نے مجھے روک رکھا تھا۔ آفس کے زیادہ تر اسٹاف جا چکے تھے۔ مگر آٹھ دس لوگ ابھی بھی اپنی اپنی سیٹوں پر موجود تھے۔ سات بجے باس نے مجھے طلب کیا۔ میں کمرے میں گئی تو پتہ نہیں کیا سوچ کر اُس نے دروازہ بند کیا— میں نے سمجھا کوئی خاص بات ہوگی۔ کوئی ایسی راز کی بات ہوگی جو باس اوروں سے خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔ مجھے اس وقت تک اس کی نیت کا اندازہ نہیں تھا۔ میں مسکرا رہی تھی۔

’دروازہ بند کیوں کیا؟‘

وہ مسکراتا ہوا سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھ رہا تھا—’آپ نہیں جانتیں کہ دروازہ کیوں بند کرتے ہیں…؟‘

’نہیں۔‘ میں نے پھر مسکرانے کی کوشش کی—’ مجھے سچ مچ نہیں پتہ۔‘

’اس کے چہرے کا رنگ بدلا تھا—’ اب آپ اتنی بھولی بھی نہیں کہ آپ کو بتانے کی ضرورت ہو…‘

میرا ماتھا ٹھنکا۔ پہلی بار شدت سے مجھے خوف کا احساس ہوا۔ میں نے بند دروازے کی طرف دیکھا۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بول رہا تھا… میری پروموشن… ترقی… سیلری میں اضافہ… میرا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اور اچانک اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو تھام لیا۔ یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا اور میں اس کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی۔ میں نے اس کو دھکا دینے کی کوشش کی تو اس نے مجھے صوفے پر گرادیا… لیکن اپنا توازن کھو بیٹھا اور میرے لیے یہی لمحہ زندگی ثابت ہوا۔ خود کو بحال کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ میز پر کپ میں گرم چائے پڑی تھی۔ اور اس سے قبل کہ وہ اٹھ کر دوبارہ مجھ سے دست درازی کی کوشش کرتا میں نے گرم کھولتی ہوئی چائے اس کے چہرے پر اچھال دی…‘

ناہید ناز کے چہرے پر سلوٹیں نمایاں ہوگئی تھیں…

میں سانس روکے ناہید ناز کی کہانی سن رہا تھا۔

پھر کیا ہوا؟ پھرتو آپ دروازہ کھول کر بد حواسی کے عالم میں گھر روانہ ہوگئی ہوں گی؟‘

’نہیں۔ بالکل نہیں۔ میں کیوں گھر بھاگتی! میں نے کیا جرم کیا تھا۔ جرم اس بدذات نے کیا تھا۔ کھولتی ہوئی چائے نے اس کے چہرے کو جھلسا دیا تھا۔ وہ اپنی آنکھیں تھام کر زور سے چلایا… میں نے دروازہ کھول دیا۔ آفس میں موجود اسٹاف کے لوگ بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے تو میں پولس کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔

وہ صوفے پر چلاتا ہوا تڑپ رہا تھا۔ پانی… اُس کی آنکھیں گرم کھولتی ہوئی چائے سے جھلس گئی تھیں۔ میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ میں نے اسٹاف کو سمجھا دیا کہ اس بدذات کے ارادے برے تھے اور میں نے اس کی سزا دے دی…‘

سردی بڑھ گئی تھی۔ کمال یوسف کی سگریٹ بجھ چکی تھی۔ ہاتھوں کا تکیہ بنا کر چادر پر اس نے اپنے پائوں پھیلادیئے تھے۔ ناہید ناز کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی تھی۔

ایک لمحہ کے لیے انقلاب سو گیا تھا اور کئی سہمے ہوئے چہرے آنکھوں کی اسکرین پر جاگ گئے تھے۔

(2)

اگلی صبح انقلاب نے پھر دستک دی تھی۔

انڈیا گیٹ کے چہار اطراف انسانی ہجوم نظر آرہا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں نعرے لگاتے ہوئے حکومت اور انتظامیہ کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ کمال یوسف ناہید سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔

’اس موقع پروحیدہ کو بھی لانا چاہئے تھا۔‘

’وحیدہ کبھی نہیں آتی۔‘

’کیوں۔‘

’ایک تو اسے بھیڑ بھاڑ سے نفرت ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے…‘ ناہید نے مسکرا کر کہا— ’یہاں آکر بھی وہ تتلیاں تلاش کرتی…‘

مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کل شب بھی گفتگو میں دوبار خاموشی سے وحیدہ کا نام آیا اور آج بھی ناہید نے بہت پیار سے اس کے نام کا ذکر کیا تھا۔ ممکن ہے وحیدہ ان کی کوئی پڑوسی رہی ہو۔ مجھے اس نام میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر ناہید کے آخری جملوں نے مجھے چونکا دیا تھا— یہاں آکر بھی وہ تتلیاں تلاش کرتی— ممکن ہے چھوٹی سی بچی ہو یا ممکن ہے کوئی الہڑ دوشیزہ جس نے ابھی ابھی شباب کی منزلوں میں قدم رکھا ہو اور اس کے قدم رنگ برنگے پروں والی تتلیوں کے تعاقب میں دوڑ رہے ہوں— لیکن وحیدہ کا نام آتے ہی کمال یوسف کے ہونٹوں سے بھی ایک مسکراہٹ نمودار ہوجاتی تھی۔

ناہید نے شک کی آنکھوں سے میری طرف دیکھا—’ کیا لگتا ہے آپ کو—؟یہ… اس انقلاب کا کوئی نتیجہ نکلے گا—؟ یا یہ انقلاب بھی دوسرے ہنگاموں کی طرح پھُس ہو جائے گا۔ ‘ اس کی آواز میں غصہ کی جھلک تھی— کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں عورت محفوظ ہو۔ کھیل کی دنیا سے فلم انڈسٹری، کا رپوریٹ انڈسٹری، آشرم، سیاست … اسکول سے کالج اورگھر کی چہار دیواری تک۔ عورت نہ ہوئی رس ملائی ہوگئی۔ زبان نکالے ہوامرد ہوس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جی چاہتا ہے یہ زبان ہی کاٹ لوں…‘

کمال یوسف نے پلٹ کر میری طرف دیکھا—’ اکیسویں صدی میں بھی عورت ترقی سے الگ اپنے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے۔‘

ناہید نے بات آگے بڑھائی— عورت ہونے کا مطلب ہے غلامی، دوزخ اور خوف کی زندگی۔ ساری زندگی خوف کا ساتھ۔ ملالہ کو دیکھئے… اسکول میں پڑھنے والی معصوم بچی پر اسلحے تانتے ہوئے طالبانی نامرد نہیں گھبراتے— اب اس پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دیکھئے۔ عورت یا تو گھر سے باہر نکل نہیں سکتی۔ نکلتی ہے تو لباس کی قید میں اس کے ہاتھوں کے انگلیوں کا بھی باہر نکلنا ممنوع ہے۔ کانگو جہاں عورتوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان جہاں عورتیں مردوں کی برابری کر ہی نہیں سکتیں۔ اور ہمارے یہاں۔ دنیا کا چوتھا خطرناک ملک جہاں ہر وقفہ بعد ایک عورت ہوس کا شکار بن رہی ہوتی ہے۔ کمال پوچھتے ہیں کہ ناہید انتا غصہ کیوں ہے تمہارے پاس— غصہ کیوں نہ آئے۔ یہاں تو بیٹیوںکو جسم کے اندر ہی مار دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی اسمگلنگ اور تجارت ہوتی ہے۔ اور بڑی تعداد میں نابالغ بچیوں کو جسم فروشی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ رسم و رواج اور مذہب کے نام پر بار بار ان کا شکار کیا جاتا ہے۔‘

تیز تیز ہنگامے کی آواز سن کر ہم چونک گئے تھے۔ میں نے دیکھا پولس بے رحمی سے بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال یوسف کے ساتھ حیرانی بھری آنکھوں سے ناہید نے بھی یہ منظر دیکھا اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو کمال نے ہاتھ تھام لیا—

’تمہاری گود میں بچہ ہے۔‘

’ پھر… بچہ تھام لو…‘

’نہیں۔ اس کے باوجود تم نہیں جائو گی۔ پولس پتھرائو بھی کر سکتی ہے۔‘

دوچار عورتیں پولس سے الجھنے کے لیے آگے بڑھیں تو پولس کے آدمی نے ایک عورت کو دھکا دیا۔ دوسرا پولس والا ایک عورت کو بے رحمی سے کھینچتا ہوا دورلے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ کمال نے مضبوطی سے ناہید کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ناہید غصے سے غرا رہی تھی۔

’خود کیوں نہیں جاتے پولس سے الجھنے کے لیے۔ چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ مجھے بھی نہیں جانے دیتے۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی، اس عورت کوزمین پر گھسیٹنے اور دھکا دینے کی۔ کیوں چھونے کی کوشش کی اس نے ایک عورت کو۔ یہ سالے ذائقہ لیتے ہیں۔ بہانہ کوئی بھی ہو، عورت کو ٹچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں سالے…‘

’ناہید…‘ کمال’ اسے روکنے کی کوشش کررہا تھا۔

’یہاں اتنی بھیڑ ہے۔ یہ لوگ مار کیوں نہیں دیتے ان پولس والے بھیڑیوں کو— مردوں کو— نوچتے رہو عورتوں کو۔ ہوس کا شکار بناتے رہو۔ بسوں سے باہر پھینکتے رہو۔ گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں لگا دو۔ گدھ کی طرح للچائی نظروں سے گھورتے رہو— اور ہم خاموش رہیں۔ کیوں خاموش رہیں ہم…‘

ناہید نے زور سے کمال کو دھکا دیتے ہوئے ہاتھ چھڑا لیا۔ زمین پر پڑا ہواپتھر غصہ میں اس نے پولس والوں کی طرف اچھال دیا— مگر یہ تو اچھا ہوا کہ اس کی یہ حرکت کسی نے دیکھی نہیں— پولس والوں کے ارد گرد بھیڑ اکٹھا ہوگئی تھی… اسٹیج سے امن قائم رکھیں کا اعلان ہو رہا تھا۔ اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ کمال یوسف ناہید کا ہاتھ تھامے اسے کنارے لے آیا تھا۔ یہ جگہ اسٹیج کے قریب تھی۔ اس چھوٹی سی کچھ گھنٹوں کی ملاقات میں ،میں نے ناہید کا خوفناک چہرہ بھی دیکھ لیا تھا۔ میرے لیے یہ سوچنا مشکل نہیں تھا کہ کمال یوسف آخر کس طرح ناہید جیسی باغی عورت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوگا—؟ کیونکہ ناہید کا وجود ایک ایسی سونامی کی طرح تھا، جسے روکنا آسان نہیں تھا۔ میں اچانک چونک گیا تھا۔ ناہید کمال یوسف کا ہاتھ تھامے ہوئے پوچھ رہی تھی…

’تم کیا سمجھتے ہو، وحیدہ آتی تو اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھ پانا آسان ہوتا؟‘

’پتہ نہیں۔ لیکن اسے آنا چاہئے تھا۔ یہ انقلاب اس بات کی علامت ہے کہ ایک اکیلی لڑکی کو تنہا زندگی کا سفر کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ تنہا چلنے کا‘ تنہا باہر نکلنے کا…کسی بھی گھڑی… کسی بھی لمحہ…‘

’ اب وہ اتنی تنہا بھی نہیں ہے۔‘ ناہید نے بھنویں سکوڑتے ہوئے کہا… ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ زندگی جینا سیکھ رہی ہے۔‘

’کچھ بھی کہو۔لیکن وہ ہے ایک پر اسرار لڑکی۔ وہ ایسے چلتی ہے جیسے اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں پرچھائیاں چل رہی ہوں۔‘

’پرچھائیاں نہیں۔ آسیب‘ —ناہید کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

’آسیب؟‘ میں اس بار زور سے چونکا تھا اور یہی وہ لمحہ تھا، جب مجھے وحیدہ کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوا تھا۔ کون ہے آخر یہ لڑکی، جس کے بارے میں اتنی ساری کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ جسے یہاں کے ہنگامی ماحول میں بھی بار بار یاد کیا جا رہا ہے۔ آخر کچھ تو اس لڑکی میں خاص ہوگا۔

’کون ہے وحیدہ؟‘

’جان کر کیا کریں گے آپ؟‘ ناہیدناز نے ناگواری سے پوچھا۔

’بس یونہی۔‘

کمال نے قہقہہ لگایا—’ وہ قلوپطرہ کی طرح تو حسین نہیں۔ مگر مونا لزا کی طرح گہری اور پراسرار ضرور ہے— ایک مستقل خوف ہے، جو اس کے چہرے پر نظر آتا ہے۔‘

وہ شاید اس سے آگے بتانے کی کوشش کرتا لیکن تب تک منچ سے تقریر بھی شروع ہوچکی تھی اور وہ ناہید کے ہاتھوں کو تھام کر منچ کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ابھی کمال یوسف اور ناہید مجھ سے اس قدر واقف نہیں ہوئے کہ مجھے کچھ زیادہ بتاپانے کی حالت میں ہوں۔ بلکہ میری طرف سے معاملہ یہ تھا کہ میں ان کے گلے پڑنے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ اور اس درمیان نہ میں جوکر تھا اور نہ ہی دوستوفسکی کا ایڈیٹ۔ لیکن دلی گینگ ریپ کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ یہاں آنے والا ہر شخص خود کو ایک دوسرے سے وابستہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے یہ ہجوم نہ ہوکر سب ایک خاندان ہوںاور حق و انصاف کے لیے بہری حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہوں۔ میں نے ایسی ہزاروں تحریکوں اور انقلاب کو بے اثر ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے اس انقلاب سے بھی مجھے کوئی زیادہ امید نہ تھی—

اس وقت مجھے صوفیہ، وحیدہ اور ناہید میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آرہا تھا۔ ناہید کی بغاوت بہت حد تک اضطرار ی کیفیت کی غماز تھی۔ اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ایک نامعلوم خوف اس کے وجود میں بھی سانپ کی طرح کنڈلی مارکر اندر تک بیٹھا ہوا ہے۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ یا میں علم نفسیات کے خام مطالعہ سے اس کے اندرونمیں جھانکنے کی نا کام کوشش کر رہا تھا۔

میں نے دیکھا، وہ دونوں دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے۔ میں جگہ بناتا ہوا تقریباً ان دونوں کے پاس پہنچ چکا تھا۔

کمال کہہ رہا تھا۔ اب ہمیں واپس لوٹنا چاہئے۔

’کیوں؟‘

’کئی روز ہوگئے ۔ ہماری وجہ سے بچہ بیمار ہوسکتا ہے،

’ایک پوری نسل بیماری ہوچکی ہے۔‘ ناہید نے تیور سے کہا۔

’لیکن یہ ہمارا بچہ ہے۔‘

’وہ بھی کسی کی بچی تھی۔‘

’ میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘

’تم نے یہی کہا۔ تم مردوں میں ہمارے معاملے میں ذرا بھی صبر نہیں—وہ غصہ میں تھی—

’پہلی بار ایک بڑی آواز ہماری حمایت میں اٹھی ہے توتم اپنے قدم پیچھے کھینچ رہے ہو۔‘

’میں قدم پیچھے نہیں کھینچ رہا۔ میں نے بچے کی صحت کولیکر…‘

’بچے کی صحت ٹھیک ہے۔ اور میں اس کی ماں ہوں۔ تم سے زیادہ فکر ہے مجھے اس کی۔‘

جہنم میں جائو۔ اس بار کمال یوسف غصے سے بولا اور دوسری طرف منہ کر کے سگریٹ کے کش لینے لگا۔

اس درمیان میں نے پہلی بار کمال یوسف کے چہرے پر جھنجھلاہٹ دیکھی تھی اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ نارمل سے نارمل انسان بھی مسلسل ایسے واقعات کا شکار ہوکر ذہنی الجھنوں میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ اس وقت اس ماحول میں کمال یوسف پر کیا گزر رہی ہوگی— اور اسی سوال سے وابستہ ایک اور سوال تھا کہ ازدواجی زندگی میں محبتوں کو نبھاتے ہوئے یہ توازن کب تک قائم رکھا جا سکتا ہے—؟ یہ پتہ تو چل ہی گیا تھا کہ دونوں میں لو میرج ہوئی تھی۔ عام طورپر تعلیم یافتہ ترقی پسند لڑکے ایام شباب میں ایسی بولڈ لڑکیوں کو پسندتو کرتے ہیں— پھر شادی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ لڑکیوں کا یہ بولڈ نیس ازدواجی زندگی کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے یا تو کھو جاتا ہے یا پھر شوہر کے نظریہ سے آہستہ آہستہ محبوب میں چور دروازے سے ایک ایسے مرد کی واپسی ہوجاتی ہے، جو اس بولڈ نیس کو پسند نہیںکرتا۔ اور اس کے بعد فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ میری فکر یہ تھی کہ کمال یوسف توازن کے ساتھ اس رشتہ کو کب تک نبھاپاتا ہے؟ یا کوئی جھنجھلاہٹ بھرا لمحہ اسے ہمیشہ کے لئے ناہید ناز سے دور لے جائے گا۔

پھر ناہید ناز کا کیا ہوگا؟

کیا کوئی دوسرا کمال یوسف اسے مل سکے گا؟ یا اگر فرض کر لیتے ہیں، ایسا ہوتا ہے تو ناہید کی بغاوت یا ناہید کے اندر کی باغی عورت پھر سے کسی کمال یوسف کو اپنی زندگی میں جگہ دے گی۔؟‘

یہ سوال ایسے تھے جن کا ابھی کوئی جواب میرے پاس موجود نہیں تھا۔ ممکن ہے کمال یوسف اپنے مزاج کے مطابق اس رشتہ کونبھانے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر مجھے یہ دشوار نظر آرہا ہے— یہ میلان عام مردوں کا نہیں ہے اور ایسی عورتوں سے نباہ کرنا شاید آسان بھی نہیں ہوتا— ایسے ہزاروں سوال تھے لیکن ابھی مجھے وقت کا انتظار کرنا تھا—

’ایسی عورتوں سے نباہ کرنا آسان نہیں ہوتا‘‘کا سیدھا سا جواب ہے کہ عام طور پر مرد اساس معاشرے نے مردانگی کے ساتھ سختیاں، غیض و غضب، ظلم و ستم اور عیش و نشاط کی ساری کہانیاں خود تک محدود رکھی ہیں اور صدیوں کے فسانے میں مردوں نے ان خوبیوں سے خود کو جوڑ کر رکھا ہے۔ اس لیے عورت کی ذرا سی بغاوت یا ’مردانگی‘ کے مظاہرے کو برداشت کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ’عورت پن‘ ایک کمزور سا احساس ہے اور ’مردانگی‘ مرد کی عیش پسند طبیعت اور فطرتاً سختی کی طرف اشارہ ہے اور آمر مرد بھی یہ قبول کرتا ہے کہ عورت میں یہ سختیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بر خلاف اگر عورت میں بغاوت کے تھوڑے بھی عنصر چھپے رہ جاتے ہیں تو مرد ہر طور اُسے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ صدیوں میں یہ روایت ٹوٹ ضرور رہی ہے مگر عورت آج بھی گھٹن اور بندش کا شکار ہے اور اس سے ذرا بھی باہر نکلنا چاہتی ہے تو یا تو صوفیہ ہو جاتی ہے یا پھر ناہید ناز— میں صوفیہ کو دیکھ چکا تھا اور اب مجھے اس کہانی کے لیے ، میں معافی چاہوں گا۔ مگر بطور ناول نگار مجھے بھی اس دلچسپ کہانی کے لیے آگے کے واقعات پر نظر رکھنی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے آغاز میں بتا یا، صوفیہ کے اپنے کمرے میں واپس لوٹنے، دلی گینگ ریپ، ناہید ناز اور کمال یوسف سے ملاقات اور میرے گھٹنے میں چوٹ لگنے تک، یہ واقعات کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کو جوڑ رہے تھے۔ اور مجھے اس بات کا احسا س نہیں تھا کہ یہ ساری کڑیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوکر وقت کے صفحے پر ایک انوکھی اور دلچسپ کہانی کو تحریر کرنے جا رہی ہیں۔

اس درمیان صرف اتنا ہوا تھا کہ میں ناہید ناز اور کمال یوسف کے کافی قریب آچکا تھا۔ اور یہ اطلاع دینا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد یہ دونوں نینی تال واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دوسری تحریکوں یا انقلابات کی طرح اس انقلاب کی بھی ہوا نکل گئی تھی۔ بلکہ اس انقلاب کے ایک ہفتہ کے اندر زنابالجبر کے کئی حادثے دلی میں ہی سامنے آچکے تھے۔ حیوانیت اور درندگی کا سلسلہ جاری تھا۔ جنتر منتر اور انڈیا گیٹ میں جمع ہوئے انقلابی واپس اپنی اپنی دنیا میں پہنچ چکے تھے۔ شور تھم گیا تھا۔ عورت دوبارہ خوف کی دہلیز پر تھی۔ اور دنیا مردوں کی مردانگی کے ساتھ اسی طرح دوڑ رہی تھی جیسے روز ازل سے دوڑتی آئی ہے—

ناہید ناز اور کمال یوسف قرول باغ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ لیکن نینی تال واپسی سے پہلے ایک رات میں نے انہیں ڈنر کے لئے اپنے گھر بلایا تھا۔ تین کمروں والے فلیٹ میں ،میں اکیلے رہتا ہوں۔ میں اپنی تنہائی میں خوش ہوں۔ کتابیں میری دوست ہیں۔ میں نے اُن کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں رکھی تھی۔ ۷؍ بجے بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے پھولوں کے’بکے‘ کے ساتھ دونوں کھڑے تھے۔ مسکراتے ہوئے۔ میں نے پھولوں کا تحفہ قبول کرتے ہوئے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا…

==

کھانے سے فارغ ہوکر ہم ٹیرس پر آگئے۔ یہاں پھولوں کے گملوں کے درمیان بوٹی سی چیئر پر بیٹھ گئے۔ گملوں کے درمیان رنگین قمقمے بھی روشن تھے۔ ناہید اور کمال یوسف کو میرا گھر پسند آیا تھا۔

’آپ اکیلے ہو کر یہ سب کیسے کر لیتے ہیں۔‘

’مجھے اچھا لگتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ان سے ہو کر بھی میری تخلیق گزرتی ہے۔ مجھے بکھرائو اچھا نہیں لگتا۔ چادر پر ایک ہلکی سی سلوٹ ہو تو مجھے لکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ کتابیں بکھری ہوں تو میں لاکھ لکھنا چاہوں مگر قلم اپاہج ہو جائے گا۔‘

’تعجب ہے۔‘ کمال یوسف نے ایک گملے کی طرف اشارہ کیا… یہ رات کی رانی ہے نا…؟‘

آپ کو پسند ہے… میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’ہاں۔ اکثر لکھتے ہوئے ٹیرس پر آجاتا ہوں اور واپسی میں جب لکھنے کی میز تک پہنچتا ہوں تو کہانیاں میرے سامنے ہوتی ہیں۔‘

میں نے دیکھا، ناہید ٹیرس کے دائیں طرف کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک درخت کی آڑ میں ایک نوجوان لڑکا، ایک لڑکی کا بوسہ لے رہا تھا… ناہید کی آنکھوںمیں چمک تھی۔میرے لیے یقینی طور پر یہ ایک عام سی بات تھی اور میں اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ محبت میں ہر گناہ جائز ہے۔ محبت کے ہر ذائقے میں ایک نئی جنت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور محبت کے لئے کوئی عمر نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ اور یہی موقع تھا جب ناہید ناز کی نفسیات پر کھل کر چوٹ کی جا سکتی تھی۔ نتیجہ کے طور پر مجھے امید تھی، ناہید کی شخصیت کے بارے میں مزید جاننے کا کچھ موقع مل ہی جائے گا۔

میں نے غور سے اس نوجوان جوڑے کی طرف دیکھا۔ پھر ناہید کی طرف مڑا۔

’اس طرح کی بے حیائی یہاں عام ہے۔‘

’ بے حیائی!‘ ناہید غصے سے میری طرف مڑی تھی— محبت کرنے کو آپ بے حیائی سمجھتے ہیں۔؟‘

’لیکن محبت گھر میں بھی تو کی جا سکتی ہے۔‘

’باہر کیا پرابلم ہے۔ اور محبت کے لیے صرف گھر کی شرط کیوں—؟ جہاں بھی موقع ملے… میرے خیال میں محبت کو کسی بھی طرح کی سماجی، قانونی مذہبی بندش سے بغاوت کردینی چاہئے۔‘

’ کیا یہ بغاوت آسان ہوتی ہے؟‘

’مشکل بھی نہیں ہوتی۔ ہمت چاہئے۔‘

’ماں باپ ہمت کو کمزور کر دیں تو…‘

’ماں باپ غلطی کریں توانہیں ان کے جرم کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ اور ہمارے معاشرے میں عام طور پر غلطیاں ماں باپ ہی کرتے ہیں۔ لڑکی بڑی ہو تو بس ایک ہی فکر کہ کہیں بھی شادی کر دو۔ اور اگر لڑکی نے خلاف توقع اپنی پسند کا لڑکا چن لیا تو ان کے غرور کو دھچکا لگتا ہے۔ کیوں بھئی آپ اپنی زندگی جی چکے۔ اب ہمیں جینے دیجئے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی آپ ہی کی طرح ایک بندھی بندھی بیکار سی زندگی جینے پر مجبور ہوں۔ ہماری زندگی ہے بھائی۔ ہمیں جینے دیجئے۔

لیکن وہ ماں باپ ہوتے ہیں۔‘ کمال یوسف نے مداخلت کی۔

’تو؟ ماں باپ ہیں تو ہمیں مار ڈالیں۔ یہی ذمہ داری ہے ان کی۔ ماں باپ ہیں تو ایک حد میں رہنا چاہئے انہیں۔ کیونکہ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ہماری اپنی زندگی کی شروعات ہوجاتی ہے جو ہمیں اپنے طریقے سے جینی ہوتی ہے۔ ہماری شناخت کیوں ماں باپ کی شناخت یا مذہب ، ماں باپ کا مذہب ہونا چاہئے…؟ صرف اس لیے کہ انہوں نے ہمیں پیدا کیا ہے۔‘

میں نے غور کیا، ناہیدناز کاپورا چہرہ غصہ کی آگ میں سلگ رہا تھا۔ ’اکثر ماں باپ اس لائق نہیں ہوتے کہ انہیں ماں باپ کہا جائے۔ کیونکہ پیداہوتے ہی وہ آسمانی کتابوں سے دومختلف طریقے ہمارے لیے ڈھونڈ لے آتے ہیں۔ لڑکوں کے لئے رہنے کے طریقے الگ— لڑکیوں کے جینے کے طریقے الگ— دنیا کے زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک دقیانوسی ماں باپ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے وجود کو مشکل سے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘

کمال یوسف اس پوری گفتگو کے درمیان خاموش تھا۔ اور یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ وہ ناہید ناز کی گفتگو سے متفق نہیں مگر ابھی کچھ بھی بولنا اس کے لئے آسان نہیں تھا۔ ناہید ناز خاموش ہوئی تو مجھے چائے تیار کرنے کا موقع مل گیا۔ جب چائے ٹرے میں لے کر لوٹا تو ٹیرس پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ٹیرس سے باہر وہ دونوں سائے اب بھی موجود تھے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بولا۔

’دیکھئے۔ وہ لڑکی ابھی تک ہے۔ یہ لڑکیاں مذہب اور معاشرے کا فرق تک بھول گئی ہیں…‘ میں نے ایک معمولی بات کہی تھی لیکن اچانک میں نے غصہ سے کانپتے ہوئے ناہیدناز کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ مجھ پر برس پڑی تھی۔

’آپ بھی جو نا گڑھ کے ہجڑے نکلے۔‘

’جوناگڑھ…‘ میں ایک دم سے چونک گیا تھا…

’میں وہیں کی رہنے والی ہوں…‘ کہہ کر وہ رکی نہیں۔ غصہ سے دہاڑتی ہوئی بولی— وہاں پیڑ کے سائے میں لڑکا بھی ہے۔ پھر لڑکے سے آپ کو شکایت کیوں نہیں۔‘ اس نے لڑکے کی شان میں گندی گالیوں کا پورا پٹارہ کھول دیا— لڑکی تو معصوم ہے۔ اور کیا جانتے ہیں آپ لڑکی کے بارے میں—؟ ایک معصوم تیرہ چودہ، پندرہ سال کی لڑکی کے بارے میں—؟ وہ اپنے احساس کی پینٹی میں ہوتی ہے۔ آپ کے ذراسا چھوتے ہی گیلی ہو جاتی ہے۔ قصور لڑکی کا ہے یا اسے بنانے والے کا ؟ سیکس آپ سے زیادہ لڑکی کو دیا تو لڑکی قصووار ہوگئی۔ بھگوان نے ایک غلطی اور بھی کی۔ عورت کو لینے والا بنایا اور مرد کو دینے والا— مرد سو غلطیاں کرے تو پاک صاف۔ عورت غلطیاں کرے تو آپ چرترہین، کلٹا، فاحشہ رنڈی اور پتہ نہیں کن ناموں سے پکارنے لگتے ہیں— میرے مطابق یہ تمام نام آپ کے ہونے چاہئیں۔ مردوں کے نام… رنڈی مرد… بھڑوامرد… کلٹا مرد… فاحشہ مرد… آپ نے کائنات کے سب سے حسین تصورپر اپنی گندگیاں، بد صورتی اور خامیاں چھپانے کے لئے میل ڈالدی— مجرم تو آپ ہوئے۔‘

ناہید ناز نے ٹھنڈی سانس بھری۔ چائے کا کپ خالی کر کے بوٹی کرسی کے نیچے ڈال دیا… اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا… کچھ وقفہ تک سوچتی رہی جیسے اپنے توازن میں لوٹنا چاہتی ہو یا سلگتے الفاظ کے سرخ دہکتے کوئلے کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہو… وہ مسکرا رہی تھی…

’آپ بھی جو ناگڑھ کے ہجڑے نکلے۔ساری غلطی لڑکی کی ۔مجرم عورت … واہ رے… دو وجود آپسی اتفاق سے کمرے میں بند— شادی نہیں ہوئی تو محبت کے رشتے بھی نا جائز۔ دونوں بندہیں لیکن ذمہ دار ہے تو لڑکی۔ سماج کو خراب کر رہی ہے تو لڑکی۔ بدنامی کا سارا طوق اسی کے گلے پر۔ اور مرد بڑے پارسا ٹھہرے۔‘

’ لیکن اس طرح تو آپ مغرب کی حمایت کر رہی ہیں۔ غیر ضروری آزادی کی حمایت کر رہی ہیں۔ کیا آپ نے سوچا ہے ان خیالات کو فروغ مل جائے تو بے راہ روی میں اضافہ ہو جائے گا۔ رشتوں کا فرق مٹ جائے گا۔ مذہب اسی توازن کا تو نام ہے۔‘

وہ پوری شدت سے چیخی تھی—’ مذہب آپ کے گندے انڈروئیر میں ہوتا ہے۔ اور مرد جب تب عورتوں کے استحصال کے لیے مذہب کو اسی میلے انڈر ویر سے نکال لیتے ہیں۔ اورمجھے معاشرہ، مذہب آزادی کا خوف نہ دکھائیے— آپ جیسے جوناگڑھ کے ہجڑوں نے مذہب کو، عورت کو، سماج کو صرف اپنی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔ یہ وراثت آپ سے ایک دن چھین لی جائے گی۔ اور آپ مغرب کی بات کرتے ہیں۔ آپ کا معاشرہ کیا ہے۔ یہاں لڑکیاں کوکھ میں مار دی جاتی ہیں۔ بڑی ہو جاتی ہیں تو اپنے رشتہ داروں کی جنسی جبلت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اسکول اور کالج جاتی ہیں تو وہاں بھی سیکس کا کھلونا ہوتی ہیں اور آپ کے ہر عمر کے مرد اسے گھورتے رہتے ہیں۔ آزادی تو آپ کی چھینی جانی چاہئے ۔ آپ کو ساڑی پہنا کر ،ہاتھوں میں چوڑیاں ڈال کر گھروں میں بند کر دینا چاہئے۔ میں سائنس سے صرف ایک تقاضہ چاہتی ہوں۔ بچے مرد پیدا کریں اور عورت بچہ پیدا کرنے کے عذاب سے آزاد ہوجائے— آپ عورت کو سڑکوں پر بھی مارتے ہیں۔ چلتی ہوئی بسوں میں بھی۔ اس کے ساتھ گزارے لمحوں کو عیش کا نام دیتے ہیں اورہر بار آپ کی مردانگی کا ناجائز استعمال ہونے کے بعد وہی آپ کے لیے غلط ہو جاتی ہے۔ آپ کا پورا مرد سماج دوغلا ہے صاحب…‘

وہ طنز کے ساتھ ہنس رہی تھی لیکن چہرے پر جھلستی آگ کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔

میں آہستہ سے بولا… ’مجھے ایسا کیوں احساس ہورہا ہے کہ مغرب کے پردے میں آپ ناجائز سیکس کی وکالت کر رہی ہیں…‘

ناہید ناز نے قہقہہ لگایا۔ پرجوش قہقہہ ۔ کمال یوسف کی طرف دیکھا۔ پھر میری طرف— سیکس ناجائز کب سے ہوگیا؟ ناجائز ہے تو دنیا کے سارے رشتے ناجائز۔‘ وہ ہنس رہی تھی— دو لوگ ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ آپ کی گندی دنیا میں محبت تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بہت ہے۔ لیکن آپ کے معاشرے کو ان کا ساتھ رہنا پسند نہیں تو یہ سماج شادی کا جائز سرٹیفکیٹ تھمانے چلا آتا ہے۔ شلوک اور دعا پڑھنے سے، رسوم سے گزار کر آپ کے یہاں ان معاملات کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔‘

’ آپ نے کیوں شادی کی، آپ بھی تو بغیر شادی کیے…‘

’لو… وہی جو ناگڑھ کے ہجڑوںکی طرح بات۔‘ ناہید زور سے ہنسی—‘  ان سے پوچھئے۔ اس نے کمال یوسف کی طرف اشارہ کیا— ان کو لیوان ریلیشن شپ منظور نہیں تھا… وہی… لوگ کیا کہیں گے۔ ارے لوگ جائیں بھاڑ میں۔ لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ اور اب تو آپ کا بے بس اور لاچار قانون بھی ایسے رشتوں کو تسلیم کررہا ہے…‘

میں غور سے اس کے چہرے کی نفسیات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس وقت کوئی بھی نتیجہ برآمد کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ کمال یوسف کی حالت مجھ سے چھپی نہیں تھی۔ وہ کئی بار اس گفتگو میں مجھ سے نظریں چرانے کی کوشش کرتا نظر آیا۔ جیسے یہ مکالمے اسے پسند نہ آئے ہوں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ناہیدناز جیسی کھلی ہوئی عورت کے سامنے وہ اس قدر لاچار تھا کہ اپنے خیالات کا اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کمال یوسف کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ مجھے ہوچکا تھا کہ ناہید ناز کی باتوں پر متفق ہونا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ بلکہ اب یہاں آنے کے بعد وہ شایداس بات کے لیے بھی پریشان تھا کہ اسے ناہید کو لے کر یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر اس سے ایک بات اور بھی ثابت ہوئی تھی کہ ناہید کا ماضی کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہوگا— کیونکہ جو باغی عورت اس کے وجود سے باہر آنے کو بے تاب ہے اس میں ایک بڑا ہاتھ اس کے اپنے گھر کا بھی رہا ہوگا۔ مگر ظاہر ہے ابھی اس بارے میں کوئی بھی بات ناہید ناز سے نہیں پوچھی جا سکتی تھی—

چلتے وقت کمال یوسف نے اپنا کارڈ دیا۔

’آپ نینی تال آئیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔‘

’کیوں نہیں ۔ میں ضرور آئوںگا۔‘

’اب اجازت دیجئے۔‘

دونوں کے جانے کے بعد بھی آگ کی وہ تپش باقی تھی جو ناہید ناز اپنی گفتگو سے چھوڑ گئی تھی۔

اس کے کچھ دنوں بعد ہی میں اپنے گھر کی سیڑھیوں سے الجھ کر گر گیا تھا۔ ڈاکٹر نے ایک ہفتہ آرام کا مشورہ دیا تھا۔ اور اسی درمیان نینی تال سے مجھے کمال یوسف نے فون کیا تھا۔ دلی میں کیا کر رہے ہیں۔ یہاں آجائیے— ممکن ہے یہاں آپ کو ایک دلچسپ کہانی مل جائے—

اور اسی کے بعد میںنے نینی تال جانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔

تیسرا حصہ

ریگِ جنوں

          One is not born, but rather becomes, a woman.

—Simone de Beauvoir

(1)

ہری بھری گل پوش پہاڑیوں کے درمیان کئی خوبصورت کاٹیج بنے ہوئے تھے۔ خوشگوار موسم، پہاڑی جھیلوں اور جھرنوں کی مترنم آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ مرغزاروں کے درمیان کی سڑک پر کبھی کبھی کوئی سواری یا کار تیزی سے رینگ کرپہاڑیوں کی دوسری سمت میں اوجھل ہوجاتی… حسین پھولوں اور سبز پتوں والے درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطار کے درمیان سفری بیگ کندھے پرلٹکائے ہوئے ان وادیوںمیں سیر کابھی اپنا مزہ تھا۔تالوں میں تال،اور سب سے حسین اپنا نینی تال کہنے والے باشندے جب فخر سے مسکراتے تو ان کے چہروںپر نور کی کرنوں کا بسیرا ہوتا… اور جب وہ میزبانی کے فرائض انجام دیتے تو اس شہر کے تعلق سے ہزاروں کہانیاں ان کی زبان پر ہوتیں۔ کمایوں کے طول عرض میں یوں تو کتنے ہی تالوں میں قدرت نے اپنی سخاوت کا خزانہ کھول رکھا ہے لیکن پہاڑیوں اور مرغزاروں سے گھرے نینی تال پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان نظر آتی ہے۔ تال میں پہاڑیوں اور درختوں کے عکس جب سورج کی کرنوں کے ساتھ اترتے ہیں تو سیاحوں کی آنکھوں کا نور کچھ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ پہاڑی جھرنوں میں تیرتے ہوئے بطخوں کا جھنڈ، چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور رنگین موٹر بوٹ اور شب پر پانی میں اترتی ہوئی چاندنی کی کرنیں— پھر کون ہے جس کی آنکھیں ان حسین مناظر میں گم نہ ہو جائیں…

یہ ایک کاٹیج تھا جس کے باہر کوئی بھی نیم پلیٹ نہیں تھی۔ ایک خوبصورت سا لوہے کا دروازہ تھا۔ اور یہاں سے سامنے دلکش پہاڑیوں پر جمی ہوئی دھند کا نظارہ کچھ ایسا تھا جو اس لڑکی کو دیر تک۔ اس منظر میں گم ہو جانے پر مجبور کر رہا تھا… پہاڑی پرندے اڑتے ہوئے اس طرف آتے تو لمحہ بھر کیلئے اس کے ساتھ ان کی جانب اٹھ جاتے۔ پرندوں کے آسمان پر اوجھل ہوتے ہی وہ دوبارہ پہاڑیوں کی طرف دیکھنے لگتی…

کاٹیج کے اندر کی ڈرائنگ روم میں اس وقت دو بزرگ ہستیاں ہندی کے قرآن شریف پر جھکی ہوئی تھیں۔

بوڑھے مرد نے آہستہ سے اپنی بیوی سے کہا۔ ’ہاں… کل جس جگہ تم نے چھوڑا تھا، اب وہاں سے آگے سنائو۔‘

میں چشمہ بھول آئی ہوں۔‘ بزرگ عورت نے کہا۔بہتر ہے آج تم سنائو۔‘

بوڑھے مرد نے عقیدت سے قرآن شریف کے صفحے پلٹے… اور پھر— بآواز بلند پڑھتا بھی جاتا تھا اور درمیان میں ٹھہر کر اپنی بیوی سے کچھ پوچھتا بھی جا رہا تھا۔…

’’لوگوں کے لئے من پسند چیزیں… استریاں،سنتان، سونے چاندی کے ڈھیر، چنے ہوئے گھوڑے ، چوپائے اور کھیت کی زمینیں بڑی لبھاونی بنا دی گئی ہیں۔ لیکن یہ سب دنیا کے لیے، کچھ دنوں کی چیزیں ہیں۔ حقیقت میں جو اچھا ٹھکانہ ہے وہ اللہ کے پاس ہے۔ میں تمہیں بتائوں کہ ان سے اچھی چیز کیا ہے، جو لوگ تقویٰ کی نیتی اپنائیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہے… جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جہاں انہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی… پاکیزہ بیویاں ان کی ساتھی ہوں گی۔ اور اللہ کی خوشی انہیں حاصل ہوگی۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مالک ہم ایمان لائے ہماری خطائوں کو معاف کر۔ اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا لے۔ یہ لوگ جو صبر سے کام لینے والے ہیں۔ سچے ہیں۔ فرماںبردار ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے معافی کی دعائیں مانگا کرتے ہیں…‘

بوڑھے مرد نے سفید شال، جو پڑھتے ہوئے کندھے سے اتر گئی تھی، دوبارہ اپنے کندھے پر رکھی۔ پلٹ کر چمکتی آنکھوں سے بیوی کی طرف دیکھا۔ بزرگ بیوی کے ہونٹوں پر شکایت تھی۔

’تم بہت تیز پڑھتے ہو۔ میں اپنا چشمہ لے کر آتی ہوں۔ ‘ وہ سرعت سے اٹھی اور دوسرے ہی لمحہ مسکراتی ہوئی واپس آکر صوفہ پر بیٹھ گئی۔

وحیدہ نہیں ہوتی تو…‘ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس نے ہم اکیلے بوڑھوں میں زندگی ڈال دی ہے۔‘

’اور دیکھو تو کوشلیا… ہمارے لیے یہ آسمانی کتاب بھی لے کر آگئی۔‘‘ بزرگ مرد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی— ’میں ایک عرصہ سے پڑھنے کا خواہشمند تھا۔ اور دیکھو تو… جیسے گیتا پڑھ رہا ہوں۔ گیتا میں ہے قرآن، تو قرآن میں گیتا۔ اقبال کتنا پہلے کہہ چکے تھے۔‘

کوشلیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’ وحیدہ جب پڑھتی ہے تو لگتا ہے پھول جھڑ رہے ہوں۔‘

’وحیدہ کہاں ہے…؟‘

’آواز دوں کیا؟‘‘

’نہیں۔ کہاں جائے گی۔ پینٹنگ کرے گی یا خاموشی سے باہر کے نظارے دیکھے گی۔ بیوٹی پارلر سے بھی چھٹی لے رکھی ہے۔‘

مرد بزرگ نے آہستہ سے کہا— ہاں تم آگے سنانے والی تھی۔

بزرگ عورت نے آنچل برابر کیا اور روانی سے پڑھنا شروع کیا۔

’’اللہ نے خوداس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور فرشتے بھی اس سچائی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک مذہب صرف اسلام ہے…‘

بزرگ مرد اس جملے پر ٹھہرا… کوشلیا نے بھی ایک سکنڈ کے لیے ٹھہر کر بزرگ مرد کے چہرے کی طرف دیکھا۔

’اس کے معنی وحیدہ سے پوچھنے ہوں گے۔‘

بزرگ نے آہستہ سے کہا۔’ اسلام کا مطلب ہوتا ہے سچا راستہ۔ ممکن ہے یہاں یہی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہو۔‘

کوشلیاکے ہونٹوں پر سوال تھے—’ یعنی ہمارا دھرم کوئی دھرم نہیں۔‘ اس کے لہجہ میں فکرتھی۔ اب یہ بات وحیدہ ہی بتا ئے گی۔‘ کیوں… میں آواز دیتی ہوں۔‘

پتلی سی گردن پر وزن دیتے ہوئے چہرے کو دروازے کی طرف گھمایا اور صدا لگائی…‘

’وحیدہ…‘

کچھ ہی لمحے بعد تیزی سے وہ لڑکی بھاگتی ہوئی آئی جو کچھ دیرپہلے پہاڑیوں کی دھند دیکھنے میں مصروف تھی…

’جی امی… جی ابو… آپ نے بلایا…‘

’ دیکھا… پہلی ہی آواز پر…‘ کوشلیا نے پیار سے وحیدہ کی طرف دیکھا… کہاں تھی بیٹی…‘

’ باہر تھی امی…‘

’کیوں…‘

’زندگی کو سمجھ رہی تھی امی…‘

ناگارجن یعنی بوڑھے مرد نے قہقہہ لگایا—’تو میری بیٹی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم تو ابھی بھی نہیں سمجھ پائے بیٹی…‘

’ جی ابو…‘

’ اچھا۔ کچھ سمجھ میں آیا بیٹی…‘

’جی ابو… باہر پہاڑیاں ہیں… دھند ہے… پرندے کھائیوں میں اپنی روح چھوڑ جاتے ہیں… راتیں نیلے آسمان سے ان کی حفاظت کرتی ہیں…‘

’ روحوں کی…؟‘

’ جی ابو …‘

کوشلیا غور سے وحیدہ کا چہرہ پڑھ رہی تھی…

’ یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں وحیدہ‘

’پرندوں سے— وہ ہماری دوست ہیں…‘

ناگارجن نے پھر ایک قہقہہ لگایا… زندگی ایک چھلا وہ ہے بیٹی… اچھا کیا جو تم نے پرندوں کو اپنا دوست بنالیا۔ انسان تو چھلا وہ ہوتے ہیں… اب دیکھو… میرے ہی دو بیٹے تھے۔ ایک سنگاپور میں دوسرا امریکہ میں… ایک عمرمیں دولت نشہ بن جاتی ہے۔ پرندے اڑ جاتے ہیں اور بوڑھے موت کے انتظار میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔‘

’ایسا کیوں کہتے ہیں ابو …‘

بوڑھے نے شال برابر کی۔ سرپر گرم ٹوپی تھی۔ سفید چہرہ اس وقت کچھ زیادہ ہی سپید ہو گیا تھا۔ ناک لال سرخ ہورہی تھی۔ قد بھی کوئی پانچ فٹ ۸ انچ کے قریب۔ دبلے پتلے۔ آنکھیں فکر میں ڈوبی ہوئیں۔ ایک قطرہ آنسو آنکھوں میں خشک ہوگیا۔ کوشلیا نے پلٹ کر دیکھا…

’ ایک وقت آتا ہے جب بچوں کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔‘

’ ہاں اور اس زندگی کے لیے بچے، ہمارے درمیان گزارے ہوئے لمحوں کے ساتھ ہمیں بھی بھول جاتے ہیں۔‘

’ایسا نہیں ہے ابو۔‘

ناگارجن نے پلٹ کر اس معصوم سی بچی کو دیکھا۔ آنکھوں میں ایک چمک دوڑ گئی— کہاں سے آگئی یہ فرشتہ اُن کے گھر ! اگر وحیدہ نہیں آئی ہوتی تو…؟ انسانوں سے دور اور پرندوں کو اپنانے والی، قدرت کے سحر میں ڈوب جانے والی وحیدہ نے گھر کی اداسی اور ویرانی کو بڑی حد تک ختم ضرور کر دیا تھا۔ آنکھوں میں تین سال پہلے کی ایک تصویرلہرائی… یہاں سے دو کیلو میٹر آگے ایک جھیل ہے جسے چاندرک جھیل کہتے ہیں۔ وہاں سے دو قدم آگے لورزپوائنٹ ہے۔ یہاں اکثر خود کشی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس وقت وہ خود گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ کوشلیا نے ہاتھ کے اشارے سے چلا کر کہا—

’ وہ دیکھو…‘

سامنے پہاڑیوں پر جھکی ہوئی ایک لڑکی تھی۔ کندھے سے جھولتی ہوئی سیاہ چنری۔ چوڑی دار پائجامہ اور کرتا پہنے— وہ پہاڑیوں پر یوں جھکی تھی جیسے چھلانگ لگانا چاہتی ہو… ناگارجن نے گاڑی روک دی۔ کوشلیا تیزی سے گاڑی سے اتری۔ اور دوڑ کر آگے بڑھ کر لڑکی کے ہاتھوں کو تھام لیا…

’ کیا کرنے جا رہی تھی…‘

’ گہرائی ناپنے جا رہی تھی…‘

’ گہرائی…‘

ناگارجن نے شک سے پوچھا— اکیلی ہو؟‘

’ہاں سب ہی تو اکیلے ہیں۔‘

’ پائوں پھسل جاتا تو…؟‘

’ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی— پھر پرندہ بن جاتی… ایک چھوٹی سی گوریا…‘

’ مرنے سے ڈر نہیں لگتا؟‘

’ زندگی سے لگتا ہے…‘ اُس کی آواز سرد تھی۔

ناگارجن کو اس لڑکی پر پیار آگیا تھا۔

’ گاڑی میں بیٹھو۔ یہاں سے کچھ دوری پر ہی میرا گھر ہے۔‘

ڈرائنگ روم میں ڈرائی فروٹس اور پھلوں کے ساتھ وحیدہ کے چہرے پر رونق آگئی تھی۔ وہ گرلس لاج میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ایک چھوٹا سا بریف کیس تھا اس کے پاس… ناگارجن اور کوشلیا نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے زندگی کے سارے راز چھپا لیے۔ صرف اتنا بتایا…

’ میں تنہا ہی اس زندگی کو سمجھنا چاہتی ہوں۔‘

پھر ناگارجن نے اس کے بعد کبھی اس کے ماضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گرلس لاج سے بریف کیس آگیا۔ اور وحیدہ خاندان کا ایک حصہ بن گئی۔ مگر وحیدہ کو دیکھتے ہوئے ہر بار ایسا لگتا ، جیسے زندگی کے ہزاروں راز اس کے سینے میں پوشیدہ ہوں۔

ناگارجن خیالات سے واپس آئے تو سامنے وحیدہ کے شگفتہ چہرے پر فکر کی متعدد لکیریں دیکھ کر چونک گئے۔

’ کیا بات ہے بیٹی…‘

’کچھ نہیں ابو… بس جی کبھی کبھی گھبرا جاتا ہے۔‘

’ لیکن تم تو تنہائیوں سے پیار کرتی ہو۔‘

’ کبھی کبھی تنہائیاں بھی گفتگو نہیں کرتیں۔‘

کوشلیا۔ آہستہ سے بولی— ’کیوں میری بیٹی کو پریشان کر رہے ہیں…‘

وحیدہ جلدی سے بولی… ’نہیں امی … ابو پریشان نہیں کرتے…‘

ناگارجن نے پیار سے وحیدہ کو دیکھا۔

’اچھا ایک بات پوچھوں بیٹی…؟‘

’ ہاں۔‘

’ تم پرندوں سے کیا باتیں کرتی ہو؟۔

’ میں تو ان سے ڈھیر ساری باتیں کرتی ہوں…‘

’ کیا وہ تمہاری باتوں کو سمجھتے ہیں۔؟‘

ہاں۔ انسانوں سے زیادہ…‘

’ کیا وہ بھی تم کو اپنی باتیں بتاتے ہیں۔‘

’ ہاں… وہ کہتے ہیں تم ہماری طرح بن جائو…‘

’پھر تم کیا کہتی ہو؟‘

خدا نے جس کو جیسا پیدا کیا ہے ، اس کو اسی طرح رہنا ہے۔

واہ… کوشلیا نے تیز آواز میں کہا…

اچھا۔ تم پرندوں سے کیا کہتی ہو…‘

’میں پوچھتی ہوں۔ زندگی کیا ہے… وہ پروں کو پھیلا کر اڑتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ ہے زندگی… میں کہتی ہوں… مجھے تو اڑنا نہیںآتا… وہ کہتے ہیں۔ اڑان سب کی سرشت میں ہے۔ میں کہتی ہوں… مجھے اڑنا سکھایا ہی نہیں گیا… وہ کہتے ہیں… نہیں سکھایا گیا تو ہمارے ساتھ سیکھ لو…‘

’ پرندے تم سے تمہارے گھر کے بارے میں نہیں پوچھتے—؟ ناگارجن نے نشانہ لگایا…

نہیں۔ پرندے کہتے ہیں۔ یہ پورا آسمان ہمارا گھر ہے… اوریہ سارے پرندے ہمارے اپنے گھر کے لوگ— لیکن انسانوں میں ایسا نہیں ہوتا نا ابو… یہاں کوئی کسی کو اپنا نہیں سمجھتا…‘

’ ہاں بیٹی۔ ہماری دنیا کا یہی سچ ہے۔ اپنے ہوتے ہوئے بھی ہم یہاں اکیلے ہوتے ہیں۔‘

ناگارجن پھر گہری اداسی میں کھو گئے تھے۔

’ میں باہرجائوں ابو…‘

’ ہاں بیٹی۔‘

وحیدہ کے باہر جاتے ہی کمرے میں سناٹا پھیل گیا۔

کوشلیا آہستہ سے بولی۔ کبھی کبھی اس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی… لیکن جانے کیوں لگتا ہے وہ بولتی رہے اور ہم سنتے رہیں…‘

ناگارجن نے شال صوفے پر پھیلادی۔ اور صوفے کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

باہر وحیدہ ہاتھ پھیلائے اڑتے پرندوں سے گفتگو میں محو تھی اور یہی وقت تھا جب ایک سایہ کندھے پر بیگ لٹکائے تیز تیز چلتا ہوا اچانک ٹھہر گیا تھا—

(2)

یہ نظارے کسی مصور کی حسین پینٹنگس کی طرح تھے۔ دلکش اور دلفریب لینڈ اسکیپ میں گھری ہوئی یہ مکمل وادی قدرت کا حسین شاہکار معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن ابھی میری آنکھیں غیر یقینی طور پر ایک دوسری زندہ جیتی جاگتی پینٹنگ پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں۔ گلابی دھند میں پرندوں کے غول کے درمیان بھاگتی ہوئی، ہاتھوں کو ہوا میں لہراتی ہوئی وہ مجھے کسی طلسم کدے میں تنہا چھوڑ گئی تھی۔ حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا— اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ تاحد نظر پہاڑیاں۔ ہلکی دھند۔ اڑتے ہوئے پرندے اور پرندوں کے درمیان ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے… میں پشت سے ایک نظر اس ساحرہ پر ڈال سکا تھا… جو پرندوں کے ساتھ ہی وادی گل پوش کی کسی اور سمت میں اوجھل ہو گئی تھی۔ اب پرندے بھی نہیں تھے۔ مگر ایک تصویر تھی جو اس وقت آنکھوں میں جامد و ساکت تھی اور مجھے میری حیرانیوں میں اُسی گلابی دھند کے ساتھ چھوڑ گئی تھی…

یقین کے ساتھ، اس منظر سے نکل پانا میرے لئے مشکل تھا… وہ مثل غزال قلانچیں بھرتی، ایک ایک ڈگ اٹھاتی ، اڑتے آنچل اور پرندوں کے ساتھ اسی انداز میں رقص کرتی ایک دھند سے نکلی اور دوسری دھند میں غروب ہوگئی— میں اسے پشت سے دیکھ سکا تھا اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہو نہ ہو میں پہلے بھی اس ساحرہ سے مل چکا ہوں۔ اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہونے لگا کہ ان وادیوں میں آکر میں نے کوئی بھول نہیں کی ہے بلکہ یہاں ابھی سے کہانیاں میرا انتظار کرنے لگی ہیں۔

اور اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ دلی گینگ ریپ، کمال یوسف اور ناہید ناز سے ملاقات، میرے گھٹنے کی چوٹ اور نینی تال میں قدم رکھتے ہی اس ساحرہ سے ملاقات کے درمیان بکھری ہوئی داستان کی گمشدہ کڑیاں اتفاقاً ایک دوسرے سے پیوست ہوتی جارہی ہیں— اور مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ یہاں آکر اس ساحرہ سے ملاقات کے پس پشت بھی کچھ ایسی بات ضرور ہے جس نے مجھے دلی سے نینی تال کی وادیوں تک لانے پر مجبور کیا ہے—

کمال یوسف کا بنگلہ پاس ہی تھا— اتفاق سے دونوں ہی گھر پر تھے۔ ناہید ناز کچھ بدلی بدلی ہوئی خاموش تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ بڑے تپاک سے ملی اور اس بات کا احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ اندر سے پریشان ہے۔ جیسے وہ اس بات سے قطعی انجان تھی کہ میں مسلسل اُسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا—

چائے پیتے ہوئے مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ میری آمد سے ناہید ناز کچھ زیادہ باخبر نہیں تھی— یعنی اگر یہ دعوت خاص کمال یوسف کی طرف سے ہے تو اس میں ضرور کچھ خاص بات ہے۔

بسکٹ کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے ناہید ناز نے کہا— کمال نے کل شب بتایا کہ آپ آنے والے ہیں…‘

’ اس کا مطلب آپ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔‘

’خوشی کیوں نہ ہوگی۔ ہم مہمان کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔ اور یہاں کون ہے جو اتنی دور ان وادیوں میں روز روز ہم سے ملنے آتا ہے۔‘

کمال یوسف نے مسکراتے ہوئے پوچھا—’ آپ کا کمرہ تیا رہے۔ ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود ہے۔ کیا آپ آرام کرنا چاہیں گے۔‘

’ ہاں۔ میں تھوڑی دیر فریش ہو کر آرام کرنا چاہوں گا۔‘

در اصل میرے لیے آرام کرنا ایک بہانہ تھا۔ میں اس درمیان جی بھر کر اس گلابی دھند کو یاد کرنا چاہتا تھا، جہاں وہ ساحرہ رقص کرتی ہوئی قدرت کے لینڈ اسکیپ کے درمیان اچانک گم ہوگئی تھی۔

’ کیا اس کے بارے میں کمال یوسف سے دریافت کروں؟‘

لیکن میں ابھی جلد بازی کا کوئی مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فریش ہونے کے بعد میں نے دوبارہ غور سے اپنے سجے ہوئے کمرے کو دیکھا— کھڑکی کا پردہ کھینچا۔ باہر پہاڑیوں پر گرتی ہوئی سورج کی کرنیں، ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے پہاڑیوں پر سونے کی نقاشی کر دی گئی ہو۔ گلابی دھند غائب تھی۔ ان پہاڑیوں پر دھند اور کرنوں کا رقص چلتا رہتا ہے— کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں ڈرائنگ روم میں آیا تو کمال یوسف اکیلے تھے۔ معلوم ہوا کہ ناہید کسی ضروری کام سے باہر گئی ہے۔ لیکن جلد ہی آجائے گی… میں نے ناہید اور اس کے تعلقات کے بارے میں پوچھا تو اس نے ٹھنڈی سانس لے کر بتایا۔ سب کچھ تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ میرے لیے سمجھنا مشکل ہے کہ ناہید مجھ سے کیا چاہتی ہے۔

میں نے پوچھا۔ کیا یہ سب پہلے بھی تھا…

’ نہیں۔ ہاں کبھی کبھی اس میں ایک بدلی ہوئی عورت آجاتی ہے…‘

’بدلی ہوئی عورت یا مرد؟‘

’ممکن ہے۔‘

’ لیکن اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔؟‘

’ وجہ سمجھنے سے قاصرہوں۔ لیکن محبت کی شروعات تک ایسا بالکل نہیں تھا۔ وہ ایک عام سی مسلمان ہندوستانی لڑکی تھی۔ کبھی کبھی اس کی باتیں ایک منفرد سوچ رکھنے والی، تعلیم یافتہ لڑکی کی ہوا کرتی تھیں، جس پر زیادہ غور کرنے کی مجھے فرصت نہیں تھی۔‘

’ کیا یہ رویہ دلی آنے کے بعد…؛‘

’ نہیں… میں کہہ سکتا ہوں، اس رویے کی شروعات دلی آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔‘

’ آپ نے ناہید کے اس بدلے بدلے رویے پر کچھ تو غور کیا ہوگا؟‘

’ میں کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اس کی ناراضگی آہستہ آہستہ ایک بڑی بغاوت میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی احسا س ہوتاہے کہ کہیں وہ کسی دماغی مرض یا نفسیاتی الجھن کا شکار تو نہیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ وہ ایک عام سی لڑکی ہوتی ہے۔‘

’ممکن ہے اُس پر غصہ کا دورہ پڑتا ہو…‘

’ نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے — یقینا کوئی بات اندر سے اسے پریشان کر رہی ہے— لیکن وہ بات کیا ہوسکتی ہے، میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔‘

’مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ لیکن ناہید سے کچھ بھی اگلوانا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی میں کوشش ضرور کروں گا۔‘

میری آنکھیں گہری سوچ میں ڈوب گئی تھیں۔ مجھے ناہید ناز کے وہ مکالمے یاد آئے۔ جہاں مرد ذات کے لئے شدید ناراضگی کا رد عمل کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔

’کیا تم کو نہیں لگتا کہ بیک وقت وہ دو طرح کی زندگی جی رہی ہے۔؟‘

’ہاں۔ یہ میں نے کئی بار محسوس کیا۔‘

میں نے باشا کے بارے میں دریافت کیا۔’ اپنے بچے کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے۔‘

باشا کا خیال رکھتی ہے۔لیکن کبھی کبھی مجھ پر بھی ناراض ہوتی ہے کہ کیا حدیث میں لکھا ہے کہ بچے کا خیال عورت ہی رکھے۔‘

در اصل میں دلی سے آنے کے بعد کے واقعات جاننے کا خواہشمند تھا۔ کیونکہ کمال یوسف کی زندگی میں آنے والی بڑی تبدیلیاںاسی درمیان رونما ہوئی تھیں۔ وہ مجھ سے کھل کر گفتگو کا خواہشمند تھا—لیکن وہ خوفزدہ بھی تھا کہ ناہید ناز کسی لمحہ بھی گھر پہنچ سکتی تھی اور اسی لیے وہ بار بار ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، کھڑکی کے پاس گیا۔ باہر کی طرف دیکھا—پھر مسکرانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا۔

’باشا نہیں ہوتا توشاید میں اس سے الگ بھی ہوجاتا۔ مگر صاحب۔ محبتیں کبھی کبھی آپ کو رسوائی اور ذلت کے باوجود بھی مجبور اور لاچار بنا دیتی ہیں۔ میں جانتا ہوں، میں نے ٹوٹ کرناہید سے محبت کی ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر کبھی کبھی… اور میں سمجھ نہیں پارہا ہوں۔‘ میں آپ کو کیسے بتائوں… میں خود بھی اس کے ہر سوال پر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں… جیسے کل ہی جب میں نے اس کو بتایا کہ آپ آنے والے ہیں۔ اس کا غصہ دیکھنے کے لائق تھا… آپ نہیں سمجھیں گے۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا تھا۔ میں منسٹری آف ٹورزم کے محکمہ میں ہوں۔ اس دن مجھے اتراکھنڈ پر آئی ہوئی تباہی کے متعلق اپنی رپورٹ منسٹری کو بھیجنی تھی۔ ساتھ ہی نئے سرے سے تعمیرات اور تخمینہ کو لیکر بھی اپنی کارروائی مکمل کرنی تھی۔ میں سارا دن بزی رہا۔ ناہید سمر وے اسکول میں پڑھاتی ہے۔ صبح کو آفس آتی ہے اور تین بجے تک باشا کے ساتھ رہتی ہے— کبھی کبھی مشغول رہنے کے لیے وہ باہر سے بھی کچھ کام گھر لے آیا کرتی ہے۔ مثال کے لئے ایک ہندی اردو ڈکشنری کا پروجیکٹ تھا۔ اور یہ پروجیکٹ ایک ہنگامے کے ساتھ کچھ دنوں قبل ہی پایۂ تکمیل تک پہنچا تھا۔

’ ہنگامے کے ساتھ؟‘

’ یہ واقعہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا۔ پہلے وہ واقعہ سن لیجئے جس کا تعلق آپ کی آمد سے ہے۔ شام کے ۶ بج گئے تھے۔ میں گھر پہنچا تو وہ بیڈ روم کی چادر تبدیل کر رہی تھی۔

==

’ تو آگئے آپ…‘ ناہید گنگناتے  ہوئے ٹھہر گئی۔ غور سے کمال یوسف کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کمال یوسف اس مسکراہٹ کے بارے میں جاننے لگا تھا۔ ادھر کچھ دنوں سے ایسی مسکراہٹ آندھی بن کر نازل ہونے لگی تھی۔ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی تو ناہید نے ہنستے ہوئے کہا۔

’جانتے ہو کیا سوچ رہی تھی‘

’نہیں۔‘

’ہاں تم کیسے جان سکتے ہو۔ ‘ وہ آہستہ سے بولی۔’ مگر سنو گے تو اچھل جائو گے۔‘

’ کوئی واہیات سی سوچ ہوگی۔‘

’تم مردوں کو ایسی سوچ واہیات ہی لگے گی۔ مگر سوچتی ہوں…ایسا ممکن کیوں نہیں ہے۔‘

’ کیا ممکن نہیں ہے۔‘

ناہید ناز تیز چلتی ہوئی کمال یوسف کے برابر میں کھڑی ہو گئی۔ پیار سے ہاتھوں کو تھام لیا۔

’ میں باہر سے آئوں۔ اور تم گھر سنبھالو۔‘

’مطلب —‘ کمال یوسف نے بے چارگی سے ناہید کو دیکھا۔ اگر تمہارا مطلب جاب سے ہے تو جاب تم بھی کرتی ہو۔ میں بھی۔ ہاں دونوں کے آنے اور جانے کے اوقات مختلف ہیں۔ لیکن تم کوئی ہائوس وائف تو ہو نہیں۔‘

ناہید نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ چیخ رہی تھی۔

’ تو مجھے ہائوس وائف ہونا چاہئے تھا؟‘

’ نہیں۔ میں نے یہ کب کہا۔‘

’ ابھی کہا تم نے۔‘ وہ زور زور سے چلا رہی تھی— ’تم مردوں کا بس چلے تو بس ہمیں ہائوس وائف بنا کر ہی رکھو۔ نمائشی گڑیا— جیسا تم صدیوں سے ہمیں بناتے رہے ہو۔ عورت گھر میں رہے۔ گھر کا کام کاج کرے۔ برتن صاف کرے۔ کھانا پکائے۔ جھاڑو دے۔ برتن صاف کرے۔ تمہارے بچے پیدا کرے۔ اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ اور ایک دن گھس گھس کر مر جائے۔ یہی چاہتے ہو نا تم لوگ ۔ پہلا گھر باپ کا۔ یہاں بھی اس کی کوئی شناخت نہیں۔ شناخت ہے تو باپ کی ۔ شادی کی تو تمہاری شناخت۔ شوہر کی شناخت— عورت کے پاس اس کی اپنی شناخت کہاں رہ جاتی ہے— تم کو ،تمہارے بچوںکو جیتے ہوئے وہ خود کو اس حد تک تقسیم کر دیتی ہے کہ زیرو رہ جاتی ہے۔ کم عمری میں ڈھل جاتی ہے۔ جسم پر چربی چھا جاتی ہے— عورت مردوں کے استعمال کے لیے نہیں بنائی گئی۔ مگر اس دنیا میں یہی ہوتا رہا ہے۔ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ عورت تم کو خوش کرے۔ مگر کمال یوسف، میں ان عورتوں میں سے نہیں ہوں۔ اس لیے تمہیں مجھے خوش  رکھنا ہوگا اور یہ بات تمہاری آئندہ کی ڈیوٹی میں شامل ہوگی۔‘

ناہید ناز ہنس رہی تھی—’ دونوں خدا کی مخلوق۔ ایک مرد ایک عورت۔ لیکن تم لوگوں نے کیا بنا دیا عورت کو۔ تمہاری حکومت کے ختم ہونے کے دن آگئے ہیں۔ اور اسی لیے میں سوچ رہی تھی۔ تم سے کہوں۔ نوکری سے استعفیٰ دے دو۔‘

’ استعفیٰ دے دوں‘ کمال یوسف زور سے چلایا—’مگر کیوں؟‘

ناہید ناز نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ مسکرائی— میں چاہتی ہوں۔ تم گھر سنبھالو۔ گھر کی چادریں ٹھیک کرو۔ باشا کو دیکھو۔ جانتے ہو جب گھر پر میرا پہلا رشتہ آیا تھا تو لڑکے کی ماں بولی۔ آپ کی لڑکی کیا کرتی ہے۔ میری پڑھائی کے بارے میں جاننے کے بعد اس کی ماں کاخیال تھا۔ اتنی پڑھائی کافی ہے۔ پڑھ کر کیا نوکری کرنی ہے۔ اللہ کا دیا ہوا میرے گھر میں سب کچھ ہے۔ لڑکی کو تو خانہ داری آنی چاہئے ۔ سلائی کڑھائی، کھانا پکانا… تب تک میرے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی۔ کمرے میں ابو امی دونوں موجود تھے۔ میں نے پلٹ کر اس عورت سے پوچھا… تب تو آپ نے اپنے بیٹے کو یہ سب سکھایا ہوگا— وہ میری بات کی تہہ تک نہیں جا سکی۔اس نے حیرت سے پوچھا۔ کیا…؟

’ یہی خانہ داری، سلائی ، کڑھائی؟‘

’ کیوں؟‘

’کیونکہ میں یہ سب نہیں جانتی۔ اللہ کا دیا ہوا یہاں بھی سب کچھ ہے—آپ کا بیٹا آرام سے رہے گا۔ ماشا ء اللہ اتنا پڑھ گیاہے تو اسے کسی کام کی کیا ضرورت ہے۔ میں ہوں نا… اور ہاں… اُسے ناچ بھی سکھا دیجئے گا۔ کبھی کبھی میں اس کا مجرا بھی دیکھنا چاہوں گی…‘

ناہید ناز کا چہرہ سلگ رہا تھا۔ کمینہ ہے تم مردوں کا سماج۔ لڑکی پڑھ لکھ کر بھی بیکار۔ پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اسے گھر کی نوکری دے دیتے ہو تم لوگ۔ نوکرانی بنا دیتے ہو… جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا۔ وہ عورت غصے میں بکتی چیختی ہوئی بیٹے کو ساتھ لے کرچلی گئی تو ابو نے مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ میں غصے میں جل رہی تھی۔ میں نے ان کے ہاتھ کو تھام لیا۔ اور صرف ایک جملہ کہا۔ آئندہ یہ مت کیجئے گا جو ابھی کیا ہے۔ میرا تماشہ بنائیں گے تو خود تماشہ ہو جائیں گے…‘

ناہید ناز نے آگے بڑھ کر سوئے ہوئے باشا کی طرف دیکھا۔ وہ خود کو سلگتے ہوئے جزیرے سے واپس لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

’صبح سے سوچ رہی تھی۔ تم آئو گے تو کہوں گی۔ نوکری چھوڑ دو۔ باشا اب بڑا ہوگا۔ اُسے باپ کی ضرورت ہوگی۔ مرد زیادہ اچھے شیف ہوتے ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹل کو ہی لو۔ سارے بڑے شیف مرد ہیں۔ میں جانتی ہوں تم مجھ سے اچھا کھانا بنا لیتے ہو اور تم عورت سے بہتر گھر چلا کر دکھائو گے… ہے نا کمال…‘

کمال یوسف حیرانی سے ناہید ناز کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی تو مسکراہٹ غائب تھی۔ چہرہ آڑی ترچھی لکیروں سے پُر تھا۔ ناہید ناز نے قریب آکر اس کے دونوں ہاتھوں کواپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔

’ ایسا ہونا چاہئے نا… ایک پوری زندگی تم مرد ہمارے نام کردو۔ ہمارے بھروسے جیو۔ ہمارے ساتھ ، ہماری رہنمائی میں۔ ہماری خوشی تمہاری خوشی ہو اور جب ہم زیادہ خوش ہوں تو تمہیں شاپنگ کرائیں۔ فلم دکھانے لے جائیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر تمہیں نئے نئے لباس میں ساتھ لے جائیں۔ اپنی دوستوں سے تمہارا تعارف کرائیںاور واپسی میں، تمہیں آئس کریم بھی کھلائیں… آخر ایسا کیوں ممکن نہیں ہے کمال…؟‘

’ میں تمہیں ایک خبر دینے والا تھا…‘ کمال نے اس سلسلے کو یہیں روکتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

’ کیسی خبر؟‘

’ تم تو میرے آتے ہی شروع ہوگئی۔ تم نے مہلت ہی کہاں دی۔‘

’ تم نے مہلت مانگی ہی کب۔‘ ناہید ناز نے مسکرانے کی کوشش کی۔

اس درمیان باشا اٹھ گیا تھا۔ اس نے باشا کو گود میں اٹھا لیا۔ وہ پھر سے عورت بن گئی تھی۔ اب وہ باشا کو تیار کر رہی تھی۔ پہلے اس نے باشا کو بوتل سے دودھ پلایا پھراسے نئے کپڑے پہنانے لگی۔ اس درمیان وہ آہستہ سر میں کچھ گنگنا رہی تھی ۔ کمال یوسف بالکنی میں آیا تو رات کی سیاہی آسمان پر چھا چکی تھی… ذہن میں پٹاخے چھوٹ رہے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ اگر وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بیمار تھی تو وہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا تھا کہ چلو، ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ناہید کسی بھی طور پر خود کو بیمار سمجھنے کا جرم نہیں کر سکتی تھی۔ اس ناہید کو سمجھنا مشکل تھا۔ وقت کے ساتھ مردوں سے نفرت کا جذبہ شدید ہوا جا رہا تھا۔ یہ ایسی بات تھی جس کا اظہار وہ اپنے کسی مرد دوست سے بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر کمال یوسف کو یقین تھا کہ دلی میں جس مصنف سے ملاقات ہوئی تھی، وہ کسی حد تک اس معاملے میں اس کی مدد ضرور کر سکتا ہے— کمال کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ ناہید کو اس کی اطلاع کیسے دے— مگر اطلاع توبہر صورت دینی تھی۔ دوسری صورت میں مصنف کی اچانک آمد کو ناہید کسی سازش کا حصہ بھی سمجھ سکتی تھی۔

کمال یوسف نے اپنا جائزہ لیا۔ کیا وہ ناہید سے خوفزدہ ہے—؟ اور اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں تھا۔ محبت کبھی کبھی خوفزدہ بھی کر دیتی ہے۔

یا زندگی جینے کے عمل میں محبت ہر بار خوفزدہ کرتی ہے۔

کمال یوسف کو ناہید کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ بالکنی میں اس کے سامنے والی کرسی پر ناہید بیٹھ گئی۔ سیاہ بدلیوں کی طرف دیکھتی ہوئی وہ اس طرف پلٹی۔ ہونٹوں پرمعصوم سی مسکراہٹ تھی۔

’ تم ایک اچھے مرد ہو…‘

’ مرد یا شوہر؟‘

’ شوہر؟‘ اس نے برا سا منہ بنایا۔ یہ ایک دقیانوسی سا لفظ ہے۔ مجازی خدا، شریک حیات ، شوہر… یہ الفاظ مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔‘ وہ مسکرائی۔ ناراض تو نہیں ہوگے اگر یہ کہوں کہ…‘

’ کیا…‘

’ تم ایک اچھی بیوی ہو…‘ ناہید نے اپنے ہی اس جملہ پر قہقہہ بلند کیا… تم میری ہر بات مان لیتے ہو…‘ وہ مسکرا رہی تھی… سنو نا کمال… ڈکشنری سے لفظوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ عورت شوہر کے تصور میں بہترلگتی ہے۔ اورمرد بیوی کے روپ میں۔ کیوں؟‘

’ بیوی ہونا تمہیں پسند نہیں؟‘

’ بالکل بھی نہیں‘

’ اور شوہر ہونا۔‘

ناہید زور سے ہنسی… میں تمہاری شوہر ہی تو ہوں…‘

’ قواعد کی روسے مجھے تمہارا شوہر ہونا چاہئے۔‘

’ چلو، قواعد کو بھی بدل دیتے ہیں۔‘

’ تمہارے لیے بدل دینا اتنا آسان کیوں ہے ناہید؟‘

’یہی سوال تم سے کروں تو تمہارے لیے یہ سب سننا مشکل کیوں ہے—؟ بولو؟ ہر وقت… محبت کے موقعوں پر بھی ساتھ میں ایک چور مرد کو لے کر کیوں گھومتے رہتے ہو تم لوگ؟ کیوں ناز کرتے ہو اپنی مردانگی پر اس قدر، یہ مت بھولو کہ کائنات میں عورت کا تصور نہ ہوتا تو تمہارے پاس فخر کرنے لائق یہ مردانگی بھی نہ ہوتی— پھر کیوں ڈھول پیٹتے رہے ہو اس مردانگی کا…‘

کمال خاموش تھا۔ ناہید نے ابھی اس لمحہ حقیقت کا اعتراف کیا تھا ،آخرجس فلسفہ کو وہ بیان کر رہی تھی اسے دونوں کے مابین ہونے والا مکالمہ سمجھ لیا جاے تو ظاہر ہے غصہ یا ناراضگی کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہو۔ ہاں مردانگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ناہید ناز کی گفتگو سے نکلا ہوا یہ جملہ زہر تھا— مرد کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی مردانگی کے ساتھ جیتا ہے۔

’ ہاں… تم کچھ بتانے والے تھے۔ ‘ ناہید کوجیسے کچھ یاد آگیا۔

نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے چھا گئے تھے… دور پہاڑیوں کے ارد گرد روشنیوں کا جال بچھا ہوا تھا…

کمال نے ناہید کی طرف دیکھا…’ تم کو وہ مصنف یاد ہے…؟‘

’ جو دلی میں ملا تھا…؟‘

’ ہاں۔‘

’ مجھے پسند نہیں آیا تھا۔‘

’ کیوں۔؟‘

’ پندرہویں صدی کی باتیں کرتا تھا۔‘

’اردو میں لکھنے والے ابھی بھی پندرہویں صدی میں جی رہے ہیں۔‘

’ تو مت لکھیں۔ کس نے کہا ہے لکھنے کے لئے۔‘

’ تبدیلی اچانک تو نہیں آتی ناہید۔‘

’مشکل یہ ہے کہ کوئی تبدیلی چاہتا بھی تو نہیں— وہی پندرہویں صدی کی فکر۔ کیا مرد وہی رہ گیا ہے—؟ کیا دنیا وہی ہے—؟ سب کچھ بدل گیا ہے تو نئی دنیا کا تعاقب تو کرنا چاہئے نا…‘

’ ان کی نظروں میں ابھی بہت کچھ نہیں بدلا ہے— جیسے وہ نہیں چاہتے کہ بہت کچھ بدل جائے۔ ابھی بھی بہت سے گھروں کے بچے پزا اور بر گر کی جگہ گھر کی روٹیاں ہی پسند کرتے ہیں۔ کولا بوتل کی جگہ انہیں پانی ہی پسند ہے— وہ زیادہ اڑان نہیںچاہتے۔ اور اپنی محدود دنیا میں خوش رہتے ہیں۔‘

’ ہونہہ—‘ ناہید ناز نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا…

’ میں پھر کہتی ہوں۔ وہ آدمی مجھے ذرا بھی پسند نہیں آیا تھا۔‘

’لیکن یاد ہے، تم نے اُسے نینی تال آنے کی دعوت دی تھی۔‘

میں نے نہیں۔ تم نے دی تھی۔ میں نے دبے لفظوں میں کہا تھا…‘

’ دبے لفظوں میں لیکن کہا تو تھا—‘

’ اس کا کیا مطلب؟‘

’ وہ آرہا ہے۔ وہ کل ہمارے گھر ہوگا۔ وہ ہمارے یہاں ہی ٹھہرے گا۔‘‘

’ ہمارے یہاں ؟‘

ناہید زور سے چیخی۔ اس کا لہجہ بدل چکا تھا۔

’ جھوٹ مت بولنا۔ اُسے تم نے بلایا ہے نا…‘

’ میں کیوں بلائوں گا۔‘

’ قسم کھائو ، کہیں یہ تمہاری کوئی سازش تو نہیں ۔؟‘

’ سازش کیوں ہوگی۔‘

’ اسے تم نے بلایا ہے۔ اور میرا دل کہہ رہا ہے۔ تم نے اس کوجان بوجھ کر بلایا ہے۔‘

کمال یوسف نے زور سے کہا— ’میرا قصور یہ ہے کہ جب اس نے آنے کے لیے کہا تو میں منع نہیں کر سکا۔ مجھے جھوٹ بولنا پسند نہیں آیا۔‘

وہ یہیں ٹھہرے گا؟‘

’ ہاں۔‘

’ کھانا کون بنائے گا۔ تم؟‘

’ نہیں۔ باشا کے لیے جو گورینس آتی ہے— رکمنی— وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھیج دے گی۔ وہ سارا دن ہمارے پاس ہی رہے گی۔‘

’ ہونہہ۔‘

ناہید گہری سوچ میں ڈوب گئی تھی۔ وہ دیر تک آسمان کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اس سے مخاطب ہوئی۔

’ ٹھیک ہے۔ تمہارے مہمان۔ تم ہی سنبھالنا۔ لیکن ایک بات کہہ دیتی ہوں۔ اگر مجھے یہ تمہاری سازش نظر آئی تو…!

’ سازش کیوں ہوگی۔؟‘

’یہ تم زیادہ بہتر جانتے ہو۔ مگر سازش ہوئی تو میں ایک سکنڈ اس گھر میں نہیں ٹھہروں گی۔ اور ہاں تمہیں مجھ سے…‘

ناہید ناز کے چہرے پر سختی کے آثار تھے۔تمہیں مجھ سے خلع لینا ہوگا۔‘

’خلع عورتیں لیتی ہیں۔ مرد طلاق دیتا ہے۔‘

’واہیات ۔ معنی بدل چکے۔ طلاق دینا ہوگا تو میں دوںگی— تم مجھ سے خلع لوگے۔‘

وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

آسمان میںتیرتے ہوئے بادل دور چلے گئے تھے۔ آسمان پر چاند روشن تھا۔ کمال یوسف کے دل و دماغ میں چلنے والی آندھیاں تیز ہوگئی تھیں۔

==

دیر تک کمرے میں خاموشی پسری رہی۔ بطور مصنف مجھے ناہید ناز سے ہمدردی تھی۔ اب مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ اس کے ماضی کی کئی کڑیاں ایسی رہی ہوں گی، جسے وہ آج تک سب سے چھپاتی آئی ہے۔ ممکن ہے دلی گینگ ریپ کے حادثے نے ناہید ناز کے اندر کی اس عورت کو جگا دیا ہو، جو خوفناک سطح پر مردوں سے نفرت رکھتی تھی۔ اب ناہید ناز سے ملنا اور ان حقیقتوں کی تہہ تک جانا میرے لئے ضروری ہوگیا تھا— اور اس کے لیے ضروری تھا کہ ناہید ناز کو دوست بنایا جائے اور یہ کافی مشکل کام تھا۔ اوراس کے بعد بھی یہ کہنا مشکل تھا کہ ناہید ناز ماضی کے کھنڈرات سے ان زخمی یادوںکو زبان تک لاتی ہے یا نہیں—

باشا کو کھلانے والی گورینس اپنے ساتھ اپنی بہن کو لے کرآئی تھی۔جو ایک پیاری سی لڑکی تھی۔ گورینس نے کہا۔

’کل سے لاجو صبح سے شام تک سارا کام کردیا کرے گی۔ جیسا کھانا چاہیں گی۔ ویسا بنا لے گی۔‘

ناہید نے پوچھا۔ ’تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے؟‘

کیوں؟‘

’ مرد زیادہ اچھی دیکھ بھال اور زیادہ اچھا کھانا بناتے ہیں۔‘

’ نہیں، بھائی نہیں ہے۔‘

’ چلو کوئی بات نہیں ۔‘

لاجو کے آنے سے چائے پینے کی آسانی ہوگئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کمال یوسف کے چہرے پر ناراضگی بھری شکن موجود تھی— اس کے برخلاف ناہید ناز اپنے معمول پر تھی۔ کبھی گاتی گنگناتی ہوئی، کبھی کمال کا نام لے کر پکارنا… کبھی باشا کو گود میں لینا… کبھی لاجو کو کچن کے بارے میں کچھ سمجھانا… جبکہ کمال یوسف کو چہرے کے تاثرات چھپانے میں خاصہ دقت پیش آرہی تھی۔

(3)

وحیدہ کا اندنوں روز کا معمول بن گیاتھا۔ صبح سویرے اٹھ جاتی۔ پھر ابو امی کا بی پی اور شوگر چیک کرتی۔ دوا کھلاتی… اس کے بعد دونوں کو بیٹھا کر بھگوت گیتا سناتی۔ ناگارجن اور کوشلیا کے کہنے پر قرآن شریف کی قرأت کرتی اور آسان لفظوں میں مطلب بھی بتاتی جاتی…

’ آج صبح کچھ نئے پرندے آئے تھے۔‘

’ تمہیں۔ کیسے معلوم کہ نئے پرندے تھے۔‘

’ میں نے بتایا تھا نا کہ یہاں کے پرندوں سے میری دوستی ہوگئی ہے۔‘ ناگارجن آہ بھر کر کہتے—’ پرندے کب کس کے دوست ہوئے ہیں بیٹی۔‘

’آپ دوست بنا کر تو دیکھیے ابو۔‘

کوشلیا ایسے موقعوں پر بس مسکرا کر رہ جاتی۔

بی پی اور شوگر چیک کرنے کے بعد وحیدہ امی اور ابو کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اس نے ہاتھ میں گیتا لے کر گیتا کا پاٹھ کرنا شروع کیا۔ سر پر عقیدت سے آنچل ڈالا…

’ یہ آتما نہ تو پروچن سے پراپت ہو سکتی ہے، نہ بدھی سے، اور نہ سننے سے ہی۔ یہ جس کو ورن کرلیتا ہے، اسی کے لیے یہ پرماتما اپنے روپ پرکٹ کردیتی ہے۔ میں ایشور ہوں… میں سوادھین ہوں… اور دوسروں کا ینتا بھی میں ہی ہوں۔ میں سدھ ہوں۔ میں سویم ہی سدھ ہوں… میں بلوان ہوں… اس لوک میں میرے سدرش دوسرا کون ایسا ہے، جس کو اپنے دم پر سارا ویبھو پراپت ہوا ہو…‘

’ ایشور کی مایا بھی عجیب— ناگارجن آہستہ سے بولے… ایشور ان سبھی کتابوں میں اپنے رہسیہ کے ساتھ اپنے گن کی تعریف کرتا ہے۔ تم سچ کہتی ہو بیٹی۔ فرق صرف ہم میں ہے۔ مسلمانوں کا ایشور اور ہندوئوں کا ایشور الگ کہا ں ہے۔ اب بند کردو بیٹی۔ دوپہر میں تم سے قرآن پاک سنیں گے۔ کیوں کوشلیا۔ وحیدہ کے ساتھ باہر چلیں، پرندوں کو دوست بنانے ۔‘

’بہتر ہے کہ آپ ہی جائیں۔‘

ناگارجن وحیدہ کے ساتھ باہر آگئے۔ پہاڑیوں کے درمیان سے جھانکتے ہوئے آسمان کا حسن ہی اور تھا۔ ناگارجن آہستہ آہستہ وحیدہ کے ساتھ چلتے رہے۔ وہ جیسے گفتگو کا بہانہ تلاش کرر ہے تھے۔ بڑا بیٹا امریکہ ہے۔ گھر گرہستی بسالی۔ چھوٹا سنگاپور میں۔ کیوں ہوتا ہے مذہب؟ وہ جیسے خود سے سوال کر رہے تھے۔ کیا چھوٹے بیٹے کو وحیدہ سے بہتر کوئی لڑکی مل سکتی ہے؟ کیا وحیدہ اس کے لیے تیار ہو جائے گی۔ کیا ان کا آزاد خیال بیٹا اس کے لیے تیار ہوگا۔

وہ چلتے رہے… وحیدہ کی مسکراتی آنکھیں پرندوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ آسمان پرندوں سے خالی تھا۔ ناگارجن نے آہستہ سے پوچھا…’ کبھی کبھی ہم انسان ہونے کے احساس سے تھک جاتے ہیں اور پالتو جانوروں میں ، پرندوں میں زندگی کی کرنیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ یہاں ان پہاڑی علاقوں میں کتنے ہی ایسے بزرگ مل جائیں گے بیٹی، جن کے بچے انہیں چھوڑکر غیر ممالک میں بس گئے۔ آہستہ آہستہ آنا جانا کم ہوا۔ پھر یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا…‘

’ پھر…‘ وحیدہ نے چونک کرناگارجن کی طرف دیکھا…

’ پھر پرندے آگئے نا…‘ ناگارجن ہنسے ان کے گھر جائو تو وہاں پنجرے ملیں گے۔ طوطا… مینا… مرغے مرغیاں۔ بلیاں… کتے… اور ان کے درمیان ایک سب سے بڑے پنجرے میں وہ مل جائیں گے۔‘

’ بڑا سا پنجرہ؟‘

’گھر۔ گھر بھی تو پنجرہ ہوتا ہے۔ جب تک گھر میں آبادی ہے… بچے ہیں۔ زندگیاں ہیں۔ گھر گھر ہے۔ لیکن بچے بھی تو پرندے ہوتے ہیں۔ پرندے اڑ گئے تو گھر خالی پنجرہ ہوجاتا ہے۔ اور پھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔‘

’ میں سمجھ سکتی ہوں ابو۔‘

’ کاش تم اس سے زیادہ بھی سمجھ سکتی… اور میرے بیٹے بھی۔ ناگارجن کہتے کہتے رک گئے۔ دیکھونا بیٹی… آج میں آیا ہوں تو پرندوں سے آسمان خالی۔ پرندے نہیں آئے۔ تم اکیلے آتی ہو تو پرندے بھی آتے ہیں۔ پرندے انسان کی تنہائی سمجھتے ہیں۔ جب تم تنہا ہوتی ہو تو آجاتے ہیں… پرواز کرتے ہوئے… آج مجھے دیکھا تو سوچتے ہوں گے، میں کیوںآئوں؟ پرندے بھی حسد رکھتے ہیں بیٹی…‘

’ نہیں ابو…، وحیدہ چونک کر بولی۔ جب ہم کمرے میں تھے۔ فائر کی آواز ہوئی تھی۔ آپ نے سنی۔ مجھے یقین ہے پرندوںکا غول فائر کی آواز سن کر چھپ گیا۔ پرندے پھر آجائیں گے… آ…آ…آ…‘

وحیدہ ننھی سی بچی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ ہاتھ ہلا ہلاکر پرندوں کو آواز دے رہی تھی…،

ناگارجن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ غور سے وحیدہ کو دیکھ رہے تھے…

’آ…آ… آ…‘

پہاڑیوں کے درمیان سے نیلا آسمان مسکرا رہا تھا…

’آ…آ…آ‘

ناگارجن سب کچھ بھول کر معصوم سی وحیدہ کو دیکھ رہے تھے ،جو اس لمحے ایک چھوٹی سی بچی میں تبدیل ہوگئی تھی…

’ نہیں آئیں گے بیٹی… ناگارجن آہستہ سے بولے… انسانوں سے تھک ضرور گئی ہو لیکن…پرندوں کی جگہ انسانوں کو دوست بناکر دیکھو… انسان اچھے بھی ہوتے ہیں…‘

پھر وہ رکے نہیں، آگے بڑھ گئے…

اس سے پہلے کہ وحیدہ ان کے الفاظ پر غورکرتی، ہوا میںاڑتا ہوا ایک پرندہ وحیدہ سے ذرا سے فاصلے پر، آہنی گیٹ پر آکر بیٹھ گیا تھا…

(4)

میںنے کمال یوسف اور ناہید ناز کی زندگی کے کم و بیش اُن واقعات پر غور کرنا شروع کیا ،جن سے میں واقف ہوگیا تھا اور میں بار بار اسی نتیجہ پر پہنچ رہا تھا کہ کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جن کا گہرائی سے ناہید کی پچھلی زندگی سے تعلق رہا ہے۔ میں کمال یوسف کو اس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا تھاکہ میری موجودگی میں وہ کوئی ایسی دل شکن بات نہ کہے جس سے ناہید ناز خفا ہو کر اس پر پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ میرے لیے اس کی زندگی کے حال جاننے کا یہ بہتر موقع ہوتا۔ مگر جیسا کہ مجھے کمال نے سمجھایا، اس کا دوسرا پہلو بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس حد تک بھیانک ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بھی خوفناک نتیجہ کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ کیا ثقافت اور مذہب کے امتزاج کا جو نیا رویہ عورتوں میں پیدا ہوا ہے، وہ مردوںسے نفرت کا ہے—؟ ہندوستان سے پاکستان تک یہ جذبہ شدت اختیار کرتا ہے تو عورت پہلے خدا کی منکر ہوتی ہے پھر مردوں کے لیے اس کا جذبۂ انتقام سونامی بن جاتا ہے۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر تھے۔ لاجو وہیں چائے لے کر آگئی تھی۔ آسمان میں چاند روشن تھا۔ ہوا سرد تھی اور جسم کو چھوتے ہوئے گزرتی تو اندر تک سرد لہر پھیلتی چلی جاتی۔ میں نے ناہید کی طرف دیکھا۔

’ آپ کو ڈر لگتا ہے؟‘

’نہیں۔‘

’ بچپن میں تولگتا ہوگا؟‘

’ ہاں۔ بچپن میں ہمیں جان بوجھ کر ڈرایا جاتا تھا۔ تاکہ لڑکیاں اپنی مضبوطی اور اڑان سے الگ ہوں اور خوفزدہ رہیں۔ گھر کی کھونٹ سے پالتوجانوروں کی طرح بندھی ہوئی۔‘

’ کوئی ایسا واقعہ…، میں نے ترچھی نظر سے کمال یوسف کو دیکھا۔ وہ پہاڑیوں کی طرف بے نیازی سے دیکھ رہا تھا۔

ناہید ناز کا چہرہ شکن آلود تھا۔ ہزاروں واقعات ہیں… کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی… میری طرف دیکھا۔ لیکن کیوں سنائوں آپ کو… اور آپ کو میری زندگی کے واقعات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے…‘

آنکھوں میں پرچھائیوں کا رقص تیز ہوا تو اس کا لہجہ نرم پڑگیا۔ وہ رات کی سیاہی سے آنکھیں ملانے کی کوشش کررہی تھی۔

’ میں خوفزدہ کب نہیں تھی۔ پیدا ہوتے ہی خوفزدہ تھی۔ اماں کہتی تھیں کہ میں ذرا ذرا سی بات پر ڈر جاتی تھی۔ گھر میں آسیب ہی آسیب بھرے تھے۔ کہتے تھے رات کے وقت گھر میں شہید بابا نکلتے ہیں۔ وہ سارے گھر میں گھومتے ہیں۔ رات میں ذرا سی آہٹ ہوتی تو امی ہونٹوں پر چپی رکھ کر کہتیں۔ شہید بابا… ایک بڑا سا باورچی خانہ تھا۔ باورچی خانہ کے پاس ایک دالان، جسے ان دنوں پتلکی دالان کہا جاتا تھا۔ یہاں نعمت خانہ بھی تھا۔ اماں کہتی تھیں… اسی دالان میں کہیں شہید بابا کا مزار ہے۔ ایک بار اماں نے بتایا…بقر عید کا موقع تھا۔ کباب کی تیاری کے لیے اسی پتلکی دالان میں اماں نے چھوٹے چھوٹے اینٹوں کو گھیر کر کوئلہ روشن کیا تو اچانک جیسے دھماکہ ہوا… سرخ کوئلے اماں کے چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے— اماں نے کہا، انہیں یقین ہے، یہ قبر اسی جگہ ہونی چاہئے۔ یہ شہید بابا کون تھے، یہ کہانی کبھی تفصیل سے بتائی نہیں گئی۔ کوئی اس کہانی کو ۱۸۵۷ کے غدر سے جوڑ دیتا۔ کوئی کہتا، یہاں آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔ جب انگریزوں کا قافلہ رات کے وقت حملہ کرنے آیا تو اچانک کسی نے دیکھا… گھوڑے پر ہاتھ میں شمشیر لیے کوئی اکیلا فوجی ان کی طرف بڑھتا آرہا ہے۔ قریب سے دیکھا تو اس فوجی کا سر ہی نہیں تھا۔ انگریز فوج اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ بھاگ کھڑی ہوئی… ایسے تھے شہید بابا… بس رات میں نکلتے تھے۔ کہتے ہیں وہ کھڑائوں پہنتے تھے۔ اس لیے ان کے چلنے سے کھٹ کھٹ کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔‘

ناہید ناز کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا… لیکن آسیب کہاں نہیں تھا۔ برآمدے میں امرود کا پیڑ تھا اس پر بھی آسیب تھا۔ بالائی چھت سے سیم کی بیلیں دور تک چلی گئی تھیں۔ کہتے ہیں وہاں بھی آسیب کا ڈیرہ تھا۔ گھر میں سیڑھیوں سے اوپر کا حصہ اکثر ویران رہتا۔ چھت کے بارے میں ہزاروں کہانیاں مشہور تھیں۔ دن میں یہی چھت گلزار رہتی۔ چاول اور گیہوں پسرے ہوتے— دھلے ہوئے کپڑے یہیں چھت پر الگنی پر ڈالے جارہے ہوتے۔ لیکن رات گئے چھت سے الو کی منحوس آوازیں گونجا کرتیں اور نانی اماں پوچھنے پر ڈانٹ دیا کرتیں… ان آوازوں کو نہیں سنتے ہیں پگلی— آسیب باہر بھی تھے۔ آسیب گھر میں بھی تھے۔ آسیب پائخانے میں تھے اور ہمارے سونے والے کمروں میں بھی— اور پھر ایک دن بچپن سے الہڑپن کی دنیا میں آتے آتے ہم بھی آسیب ہوگئے۔ اماں نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ مولوی صاحب نے دور سے ہی کہہ دیا۔ اس پر تو شاہ جنات سوار ہیں۔

’ ہائے اللہ ۔ پھر اس کی شادی کیسے ہوگی؟‘

سوائے مولوی صاحب کے گھر کے ہر آدمی پر آسیب سوار تھا۔ گھر میں مولویوں کی عزت تھی اور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کیونکہ یہ مولوی جنات بھگایا کرتے تھے۔ ان کے قبضے میں پریاں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے ناخنوں پر اسکرین بنا ہوتا تھا اور اسکرین پر اچھے برے، شیطان، جناتوں کی تصویریں بن جایا کرتی تھیں۔ اور ان بلائوں کو ٹالنے کے لیے اماں اور نانی اماں ان کے کرتے کی جیبیں بھرا کرتی تھیں… جبکہ مجھے سب سے بڑے آسیب یہی مولوی صاحبان لگتے تھے۔ لیکن پیدا ہوتے ہی ہمارے ہونٹ سی دیئے گئے تھے۔ اورہمیں کچھ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی۔

ناہید ناز بولتے بولتے اچانک زور سے چیخی— کچھ اور سننا ہے آپ کو ۔ ذائقہ مل رہا ہے ہماری باتوں سے۔ مزہ آرہا ہے ۔ میں اب کچھ بھی نہیں سنائوں گی۔ اور سن لیجئے۔ یہاں مجھے ڈر نہیں لگتا۔ میں ڈر کو اس جوناگڑھ کے آسیبی گھر میں چھوڑآئی ہوں… وہ ہنس رہی تھی… اب تو میں خود ایک آسیب ہوں۔ یقین نہ ہو تو کمال سے پوچھ لیجئے۔ مجھے اکثر احساس ہوتا ہے کہ کمال مجھ سے خوفزدہ ہے۔ کیوں کمال…؟

’ نہیں تو…، کمال نے جلد بازی میں کہا…

’ دیکھا…، ناہید نے قہقہہ لگایا۔ پہلے نہیں لیکن اب یہ ڈرنے لگا ہے مجھ سے۔ اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مردوں کا ڈرنا اچھا شگن ہے۔ برسوں ان مردوں نے ہمیں ڈرا ڈرا کے رکھا ہے۔ اب انہیں ہم سے بھی ڈر لگنا چاہئے۔ میں سونے جا رہی ہوں۔

وہ تیزی سے اٹھی اور ٹیرس سے اپنے کمرے کی طرف غائب ہوگئی۔کمال یوسف گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جبکہ میں ناہید ناز کی ذہنی کیفیت پر مسلسل غور کر رہا تھا۔ آج چھپانے کے باوجود جوناگڑھ کا تذکرہ ایک بار پھر آگیا تھا۔ اور یہ حقیقت سامنے آگئی تھی کہ جوناگڑھ میں جو اذیتیں ناہید کے حصے میں آئی ہیں، اب اس کا رد عمل باغی ناہید کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی یقین تھا کہ یہ اذیتیں کچھ اتنی بھیانک رہی ہوں گی کہ ناہید محض مردوں کو سزا دینے کے تصور سے ہی خوش ہو جاتی ہے۔ زندگی نے جو بھیانک سلوک اس کے ساتھ ماضی میں کیا ہے، اب وہ اسی کا انتقام لے رہی ہے۔ ممکن ہے یہ شادی بھی اسی انتقام کا حصہ ہو۔ یا یہ ممکن ہے کہ شادی کے بعد آہستہ آہستہ کمال جیسے مرد کی موجودگی میں ان مردوں کی کہانیاں بھی کھلتی چلی گئی ہوں، جو کبھی اس کی زندگی میں آئے ہوں۔ جب آپ اس طرح کے دو لوگوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو بھیانک پہلو پر سب سے پہلے آپ کی نظر پڑتی ہے۔ ممکن ہے کمال ایک متوازن شوہر رہے ہوں اور تجزیہ کے طور پر ناہید کے سامنے وہ مرد اچانک آگئے ہوں، جنہوں نے کبھی، کسی دور میں اس کی روح تک کو زخمی کیا ہو اور آہستہ آہستہ یہ کہانیاں اتنی پھیل گئیں کہ کمال کی خوبیوں پر یہ خوفناک حادثے حاوی ہوتے چلے گئے۔

مگر کہانی کا اصل سرا ناہید ناز کے پاس تھا۔ اور میرے لیے اب اس کی کہانی کو جاننا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔

(5)

لاجو سترہ سال کی ایک ہنس مکھ لڑکی تھی۔پرانی گورینس رکمنی کی چھوٹی بہن… ناہید کا خیال تھا کہ لاجو جلد ہی سب کچھ سیکھ جائے گی۔ رکمنی اپنے گائوں گئی ہوئی تھی اور اس درمیان گھر اورباشا کا خیال لاجو کو ہی رکھنا تھا۔ باشا کے ساتھ اس نے کچن بھی سنبھال لیا تھا۔ اور اسی کے ساتھ اب اس کی بڑی بہن کو چھٹی مل گئی تھی۔ ناہید کی موجودگی میں لاجو اکثر خود کو قابو میں رکھتی تھی لیکن ناہید کے ذرا بھی اوجھل ہوتے ہی وہ کمال سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ممکن ہے میرا وہم ہو لیکن نوخیز عمر کے اپنے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ اور میرا خیال تھا ، یہ بات ذرا بھی ناہید کے علم میںآئی تو لاجو پر پہاڑ ٹوٹ سکتا تھا۔

باہرلان میں ہم نے صبح کا ناشتہ کیا۔ مخملی گھاس پر پلاسٹک کی رنگین کرسیوں پر بیٹھے ہوئے دھوپ کی سنہری کرنوں کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ پہاڑیوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں و ادی گلپوش کو سونے کے رنگوں میں تبدیل کر رہی تھیں۔ میں نے نینی تال کے بارے میں جاننا چاہا تو بریڈ میں مکھن لگا تی ہوئی ناہید نے مسکرا کر کہا۔ یہاں کے لوگ نینا دیوی کے بھکت ہیں۔ اور یہ نینا دیوی شیو کی پتنی پاروتی ہیں۔ اس کے بعد ناہید نے وہ کہانی چھیڑ دی،جو عرصۂ قدیم سے یہاں کے باشندے سنتے چلے آئے ہیں۔ دکش پرجاپتی کی بیٹی اوما کی شادی شیو سے ہوئی تھی۔ لیکن دکش، شیو کو پسند نہیں کرتے تھے۔۔ ایک بار دکش پرجاپتی نے یگیہ کیا اور سارے دیوتائوں کو بلایا۔ لیکن اوما اور شیو کو یگیہ میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ اوما سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ وہ ہون کنڈ میں کود گئی۔ شیوکو جب احساس ہوا تو وہ اپنے رودر روپ ( غصے) میں آگئے۔ معافی مانگنے اور سمجھانے کے بعد شیو نے معاف کردیا اور اوما کے جلے ہوئے جسم کو لے کر آسمانی سفر شروع کردیا۔ جہاں جہاں اوما کے جسم کے حصے گرے، وہاں پرشکتی پیٹھ بنتے چلے گئے۔ اور یہ وہ مقدس جگہ ہے، جہاں اوما کے نین گرے تھے… نین کے گرتے ہی یہاں تال بن گیا… آج بھی یہاں کے باشندے نینا دیوی کی آرادھنا کیا کرتے ہیں۔

ناشتہ سے فارغ ہو کر ناہید کو سمر ولے اسکول جانا تھا۔ لاجو کو ضروری ہدایت دے کر ہم سے معافی مانگ کر وہ اسکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ کمال یوسف کو منسٹری جانا تھا۔ لاجو بار بار باہر آرہی تھی۔ میں اب اس کی آنکھوں کی چمک سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ کمال میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس درمیان کمال نے جو کچھ بتایا… وہ میرے لیے نیا تو نہیں تھا، مگر ناہید کے اندر چلنے والی کشمکش کو ان واقعات کے تناظر میں محسوس کیا جا سکتا تھا۔ کمال تیار ہونے چلے گئے تو میں واقعات کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرنے لگا ۔ اور بہتر صورت یہ ہے کہ میں اسی انداز میں واقعات آپ تک پہچائوں ، جس انداز میں کمال نے مجھ تک پہچانے کی کوشش کی۔ کمال کے مطابق دلی سے آنے کے بعد ہی بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ ہر بار خود کو نرم کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر ناہید کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں نے آہستہ آہستہ اسے ناہید سے دور کرنا شروع کر دیا تھا۔

==

پہاڑیوں پر رات سو گئی تھی۔

باہر گھنا گہرا چھایا تھا۔ کھانے کے بعد تھوڑی سی چہل قدمی اور اس کے بعد کمال یوسف کمرے میں لوٹا تو ناہید لیپ ٹاپ پر جھکی ہوئی تھی۔ کمال سے آنکھیں چار ہوتے ہی ناہید کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

’ تم میری ہر بات مانتے ہونا…‘

’ہاں۔ کیوں۔‘

’آج بھی تم کو میری ایک بات ماننی ہوگی۔‘

لیکن کون سی بات؟‘

’پہلے وعدہ کرو مانو گے؟‘

’ میں وعدہ نہیں کرتا۔ کیونکہ آج کل تمہاری مانگیں خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔‘ کمال یوسف نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔

’ میں نے ایسی کسی مانگ کا اظہارتو نہیں کیا—‘ ناہید زور سے چیخی— یہ اور بات ہے کہ اپنے حساب سے سوچتے اور غور کرتے ہوئے تم اسے غلط رنگ دے دیتے ہو۔‘

’ میں غلط رنگ دینے کی کوشش نہیں کرتا…‘

’ اچھا… چلو کوئی بات نہیں۔ مگر آج تم کو میری بات ماننی ہوگی۔ اچھا ٹھہرو۔ میں ابھی آئی۔‘

کمال یوسف کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا… ناہید کے چہرے کی چمک بتا رہی تھی کہ کوئی انہونی ہونے جا رہی ہے۔ وہ دس منٹ کے بعد لوٹی تو کمال یوسف ایک دم سے چونک گیا۔ ناہید نے ایک مردانہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ یہ وہی سوٹ تھا جسے پچھلے سال ہی اس نے ریٹائرڈ کر دیا تھا مگر ناہید کو یہ سوٹ بہت پسند تھا۔ سفید جھولتا ہوا شرٹ اور گرے کلر کی پینٹ۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پشت کی طرف بندھے تھے۔

’کیسی لگ رہی ہوں میں…‘

’ یہ کیسا مذاق ہے…‘

’ میں پوچھ رہی ہوں کہ کیسی لگ رہی ہوں میں…‘

کمال یوسف نے تلخی سے جواب دیا—’ خود آئینہ میں دیکھ لو… جھولتا ہوا شرٹ۔ پائوں سے باہر نکلتا ہوا پینٹ۔ اس وقت تم ایک جوکر لگ رہی ہو…‘

کمال یوسف نے دیکھا۔ آخری جملے کا زبردست اثر ناہید کے چہرے پر ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے کیا تو سرخ رنگ کی ساڑی اور اس سے میچ کرتا ہوا بلائوز اس کے ہاتھ میں تھا… ناہید نے ساڑی اور بلائوز اس کی طرف اچھال دیا۔

’اب یہ تم کو پہننا ہے…‘

’پاگل ہوگئی ہو۔‘

’ میں کہہ رہی ہوں نا۔ یہ تم کو پہننا ہے۔‘ وہ ہنس رہی تھی۔

’سوال ہی نہیں—‘

’ اس گھر میں دو دو جوکر ہیں۔ اکیلے جوکر بننامجھے منظور نہیں۔‘

’ میںکسی قیمت پر تمہارے اس گھٹیا کھیل میں شریک نہیں ہو سکتا۔‘

وہ تو تمہیں ہونا ہوگا…‘ ناہید زور سے چیخی۔ آخر میں نے بھی تو تمہارا لباس پہنا ہے۔ تمہارا لباس پہنتے ہوئے مجھے دو منٹ کے لیے بھی نہیں سوچنا پڑا۔ ہمارے لباس پہنتے ہوئے تمہیں اتنا سوچنا کیوں پڑ رہا ہے؟ اسی لباس کو دیکھتے ہونا…؟ اسی لباس میں چھپے ہوئے جسم کو آنکھوں میں بساتے ہونا… پہنو…،

کمال کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔

’ لیکن میں اس کے باوجود نہیں پہن سکتا…،

’تمہیں ہر قیمت پر پہننا ہوگا۔‘

’ تم اپنی حد کراس کر رہی ہو ناہید۔‘

ناہید کے چہرے پر خطرناک مسکراہٹ تھی— ’ابھی تم نے میری حد دیکھی کہاں ہے…‘

کمال کا ذہن ڈوب رہا تھا… ساڑی اور بلائوزاس نے کانپتے  ہاتھوں سے اٹھا تو لیا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا، ناہید کی باتوں پر عمل کیوں کیا جائے؟ اگر یہاں صرف پیار ہوتا تو ممکن ہے وہ اس عمل سے بھی گزر جاتا۔ اس نے ایسی کہانیاں سینکڑوں بار سنی تھیں کہ بہت سے جوڑے سیکس کے موقع پر ایک دوسرے کے لباس تبدیل کر لیتے ہیں۔ ممکن ہے ایک نئے ذائقے کے لیے۔ لیکن یہاں ذائقہ نہیں تھا۔ ایک خطرناک ضد شامل تھی۔ اور اس خطرناک ضد میں وہ ناہید کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ ناہید اس کے مردانہ لباس میں سامنے تھی اور حقیقت یہ تھی کہ اس نے جو کر ضرور کہا تھا مگر اس لباس میں اس کی جسمانی خوبصورتی کھل کر سامنے آئی تھی۔ وہ سیکسی لگ رہی تھی۔مگر سوال یہ تھا کہ ساڑی اور بلائوز پہن کر وہ اس میں کیا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اگر وہ منع کر دیتا ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے—؟ وہ اپنی خاموشی میں الجھا ہوا تھا یا اس وقت کمرے کی خطر ناک خاموشی سے بارود کی مہک آرہی تھی…’’ اس نے ناہید کی آواز سنی ، وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر اس سے مخاطب تھی۔

’تم نے اب بھی نہیں پہنا تو سن لو کمال یوسف۔ تم میری موت کے ذمہ دار ہوگے۔ میں یہاں سے سیدھے باہر جائوںگی اور پہاڑسے چھلانگ لگا دوں گی …جانتے ہو نا… میں ایسا کرسکتی ہوں۔‘

کمال یقینی طور پر اس دھمکی سے ڈر گیا تھا اور اس کے آگے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ناہید کی باتوں پر عمل کرے… اس نے بے چارگی بھری نظروں سے ناہید کی طرف دیکھا…

’ تمہاری خواہشیں تمہاری طرح خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔‘

’ جانتی ہوں۔‘

’ کیا یہ ڈرامہ ضروری ہے؟‘

’ہاں… مجھے تمہیں اس ڈریس میں دیکھنا ہے۔ تسلی کرنی ہے۔‘

’ کس بات کی تسلی۔‘

’ یہ نہیں بتا سکتی۔‘

’ کیوں‘

’بس نہیں بتا سکتی۔‘

’ پھر تسلی کس بات کی…‘

ناہید کی مسکراہٹ زہر بھری تھی—’ تم مردوں کو عورت کے روپ میں دیکھنے کی۔ ‘ وہ ہنس رہی تھی—’ فلموں میں دیکھو۔ عامر سے شاہ رخ تک عورتوں کے لباس میں نظر آتے ہیں تو کتنے مضحکہ خیز لگتے ہیں…‘

’ تم یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ تمہارا شوہر کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔؟‘

’پلیز شوہر مت بولو۔ مجھے اس نام سے چڑ ہے۔ اس وقت شوہر میں ہوں۔ اور تم سرخ ساڑی زیب تن کر نے کے بعد میری بیوی۔‘

’ انا کی تسکین ہو جائے گی؟‘

’ مکمل نہیں۔ تھوڑی بہت‘

’ اس سے تمہیں کیا ملے گا؟‘

’ زیادہ سوال مت کرو کمال۔ جو ملے گا تم مرد اسے سمجھ بھی نہیں سکتے۔ مگر پلیز۔ اب پہن لو۔ میں تمہیں اس لباس میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ جلدی کرو…‘

’ تو تم نہیں مانو گی۔‘

’ کسی بھی قیمت پر نہیں۔‘

شاید محبت انسان کو اکثر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ عجیب سی خواہش کا اظہار تھا مگر اس کے لیے دھمکی بھی دی جا چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اندنوں ناہید کی دماغی حالت بہتر نہیں ہے۔ وہ ضد میں کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے… کمال اب وہ کرنے کے لیے مجبور تھا ، جس کا حکم اسے ناہید نے دیا تھا۔اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا… اسے بار بار لگ رہا تھا، وہ نہیں مانا تو ناہید کسی بھی پہاڑی سے کود جائے گی۔ اس کے بعد جو ہوگا، وہ اس الجھن میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دماغ میں دھماکے ہورہے تھے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن یہ کام، جسے ناہید کرنے کے لیے کہہ رہی تھی، ایسا غیر معقول کام تھا، جسے کرتے ہوئے اس کی مردانہ جھجھک آڑے آرہی تھی۔ ایک جھٹکے سے اس نے کپڑے اتار دیئے… بلائوز پہننے کی کوشش کی تو چھوٹا پڑ گیا… ناہید زور سے تالیاں بجا کر ہنسی…

’ ساڑی پہن لو…‘

وہ ساڑی کسی طرح بمشکل کمر سے باندھنے کی کوشش کرنے لگا…

’ اب پلو ڈالو…‘

’اس نے پلو بھی ڈال لیا… اور اچانک ناہید کا زہریلا قہقہہ سن کر چونک گیا…

’تم جوکر نہیں ایک بد ہیئت اورخوفناک مخلوق نظر آرہے ہو… جس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ جائودیکھو، سامنے آئینہ ہے۔ خود کو دیکھ لو… اسی جسم پر ناز کرتے ہو تم لوگ… کیسا اوبڑکھابڑ اور خوفناک بدنما جسم ہے تم لوگوں کا… تم سے اچھے تو سڑک کے گدھے اور گھوڑے ہیں۔ناہید کی آواز سے بارود کی مہک آرہی تھی… اسی بدصورت جسم سے عورت کے بارے میں سوچتے ہو؟ اسی جسم سے زنا بالجبر کو رسوا اور ذلیل کرنے کا خیال جاگتا ہے۔ یہ جسم نہیں ہے، سر سے پائوں تک بکھری ہوئی ایک ایسی بد صورتی ہے جسے سوچنے اور دیکھنے سے بھی گھن آتی ہے۔‘

کمال حیران سا ناہید کو دیکھ رہا تھا۔ گولیورس ٹریول میں جب گولیور گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے انسانی جسم کا کچھ اسی طرح مذاق اڑا رہے تھے، جیسا مذاق اس وقت ناہید اڑا رہی تھی۔ لیکن وہ صرف ایک مرد نہیں تھا، ایک شوہر تھا۔ تو کیا ناہید اس کے وجود کے سہارے دنیا کے تمام مردوں سے انتقام لے رہی تھی…

’تم ناقابل برداشت ہو۔ اور دیکھو، اس لباس نے تمہاری اصلیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہ ہو تم لوگ۔ ٹیڑھے میڑھے۔ اوبڑ کھابڑ… جانوروں سے بدتر۔ اور شاید اسی لیے تم لوگوں کی خصلت میں ایک جانور بولتا آیا ہے۔ تم لوگ جانور ہی پیدا ہوئے اورحقیقت یہ ہے کہ تم مرد جانوروں سے بھی بدتر نظر آتے ہو…،

اس حادثے کے بعدکئی دنوں تک کمال یوسف اور ناہید کے درمیان بول چال بند رہی۔ دو ہی راستے تھے۔ یا تو ناہید سے الگ ہوجایا جائے یا پھر ناہید کو اسی حالت میں قبول کیا جائے۔ ایک طرف باشا تھا جس کے لیے ناہید کی ضرورت تھی اور ایک اہم سوال اور بھی تھا، آج کی ناہید کو کون قبول کرے گا؟ ممکن ہے اس سے الگ ہونے کے بعد ناہید زندگی کی دعوت کو قبول ہی نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناہید اس کی محبت تھی اور وہ مشکل حالات میں بھی ناہید کے بارے میں کچھ بھی برا سوچنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

ایک مہینہ تک سب کچھ ٹھیک چلا۔ مگر ایک مہینہ بعد ایک اور حادثہ ہوگیا جس نے اس فکر کو تقویت دی کہ ناہید کو بدلا نہیں جاسکتا ہے۔ اور ناہید مردوں کے نام پر جس غصے کے ساتھ زندگی جی رہی ہے، یہ غصہ اچھی بھلی ازدواجی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ناہید ان سوالوں سے کہیں دور جا چکی تھی…

’ اس دن شام کے 4بجے ہوں گے…

(6)

ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ باشا کو دو دنوں سے بخار تھا۔ بخار کی کیفیت میں باشا لاجو کے پاس رہنا نہیں چاہتا تھا۔ ناہید باشا کے لیے پاگل ہوجاتی تھی… وہ خود ہی باشا کو لے کر ڈاکٹر کے یہاں چلی جاتی… اور ایسے موقعوں پر ایک بالکل ہی نئی ناہید سامنے ہوتی تھی۔ باشا صحت مند ہوگیا تو ناہید نے آرام کی سانس لی۔ اس کے دوچار روز بعد ہی ناہید کی ایک سہیلی کی شادی تھی۔ کمال نے پہلے تو منع کیا لیکن ناہید کی ـضد کے آگے ہمیشہ کی طرح اسے ہتھیار ڈالنا پڑا۔

’ تم اکیلی کیوں نہیں جا سکتی—؟‘

’ جا کیوں نہیں سکتی۔ لیکن جب تم اپنے دوستوں کی شادی میں جاتے ہو تو مجھے کیوں لے جاتے ہو۔‘

’ کبھی کبھی کسی ضروری کام کی وجہ سے مجبوری بھی تو ہو سکتی ہے۔‘

’ آفس کا کوئی کام اتنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔‘

’ یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو—؟‘

’کیوں کہ میں تمہارے ضروری کام کی نوعیت سے واقف ہوں۔‘

’کیا تم نے یہ محسوس کیا ہے ناہید کہ ان دنوں تمہاری ضد ہر معاملے میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔‘

ناہید نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ ’در اصل تم جسے ضد کہتے ہو وہ چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہوتی ہیں۔ تم ان خواہشوں پر بھی سوالوں کی تہہ چڑھا دو تو تمہاری مرضی…‘

کمال کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر ناہید نے کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو وہ اپنے فیصلے کے آگے جھک نہیں سکتی۔ اگر دونوں میں کسی ایک کو جھکنا ہے تو اسے ہی جھکنا ہوگا۔ صبح کی بوجھل گفتگو کے بعد وہ دیر تک لیپ ٹاپ سے کھیلتا رہا۔ ٹورزم سے متعلق سائٹ پر جانا اور نئے نئے انفارمیشن جمع کرنا اسے پسند تھا۔ اور اسی لیے ڈائرکٹرس میٹنگ میں اس کی انفارمیشن کی قدر کی جاتی تھی۔ کیوںکہ اس کے پاس مضبوطی سے اپنی بات رکھنے کے لیے جو ڈاٹا ز ہوتے تھے، انہیں ہر صورت میں قبول کرنا ہوتا تھا۔ ذہنی دبائو سے بچنے کا بھی یہ ایک طریقہ تھا کہ لیپ ٹاپ سے دل بہلایا جائے۔ مگر کمال یوسف کا بیقرار دل بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ آج بھی کچھ انوکھا ہونے والا ہے۔ دلی سے واپسی کے بعد ہر روز ہی ان مکالموں میں ایک انجانے مرد کی موجودگی ہوتی تھی۔ مرد، جس سے انتقام لیا جانا ہی واحد راستہ تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ دنیا کے تمام مردوں کے انتقام کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا تھا— ایک بار ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا بھی تھا۔

’ تمہارے اندر صبر بہت ہے کمال۔‘

’ اور آپ میرے اسی صبر کا امتحان لیا کرتی ہیں۔‘

’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘ وہ معصومیت سے مسکرائی۔

’لیکن کسی دن یہ صبر ٹوٹ بھی سکتا ہے…‘

’مجھے اس دن کا بھی انتظار رہے گا۔ برف پگھل سکتی ہے۔ صبرٹوٹ کیوں نہیں سکتا۔؟‘

وہ اتنے پیار سے مسکرائی کہ کمال یوسف کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’ تم سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہوناہید۔‘

’میں آسان ہونابھی نہیں چاہتی۔ میں زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی اور جیتی ہوں۔ میں زندگی کو سمجھنے کے لیے دوسروں کا احسان نہیں لیتی۔‘

ناہید مطمئن تھی لیکن تب تک کمال یوسف کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ جلد ہی ایک نئے حملے کا شکار ہونے والا ہے…

بیڈ روم میں آرام کرنے کے دوران ہی ناہید نے جگادیا۔ ابھی تک آپ سو رہے ہیں۔ سات بجے تک شادی میں پہنچنا ہے۔

’ تم سونے بھی نہیں دیتی۔‘ کمال نے بے بسی سے کہا۔

’میں تیار ہونے جا رہی ہوں۔ اورہاں۔ آپ کے لیے کپڑے نکال رہی ہوں۔ جوسوٹ نکالے ہیں۔ آپ کو وہی پہننا ہے۔

’ کیوں۔؟‘

’میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ اور یاد رکھئے شادی میں لے کر میں آپ کو جا رہی ہوں۔ آپ نہیں۔ وہاں میری بہت سی سہیلیاں ہوں گی۔‘

’ سہیلیاں ہوںگی تو میں کیا کروں…؟‘

’ارے آپ کیا کریں گے۔ مجھے تعارف کرانا ہوگا… مجھے بتانا ہوگا کہ آپ کون ہیں۔ اور ہاں۔ ناہید نے جلتے ہوئے توے پر پانی کا چھڑکائو کرتے ہوئے کہا۔ ’سوٹ کے پاس ہی آپ کی گھڑی بھی رکھی ہوئی ہے۔‘

’گھڑی؟‘

’ ہاں۔‘

’ تم جانتی ہو میں گھڑی نہیں پہنتا‘

’ ہم چوڑیاں پہنتے ہیں نا…،، ناہید نے قہقہہ لگایا— ’گھڑی جان بوجھ کر رکھی ہے۔ مجھے احساس ہوگا چوڑیوں کی جگہ آپ کی کلائی پر یہ گھڑی موجود ہے۔

کمال یوسف کی نیند اچٹ چکی تھی۔ وہ حیران و پریشان نظروں سے ناہید کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’ چوڑی کا گھڑی سے کیا رشتہ ہے—‘

’ دونوں ہتھیلیوں کو قید رکھتے ہیں۔‘

’ تو آپ ہمیں شادی میں قیدی بنا کر لے جانا چاہتی ہیں۔‘

’ ہاں۔‘ ناہید نے بے رحم آنکھوں سے کمال یوسف کی طرف دیکھا… ’شادی بیاہ میں ہی تم مردوں کو ہم عورتوں کی یاد آتی ہے۔ نمائش کی چیز بنا کر رکھ دیا ہے عورت کے وجود کو۔ گھر میں میلے کپڑوں میں تمہارے بچوں کی پرورش کرے گی اور جب شادی بیاہ میں لے جانا چاہو گے تو چمچماتے کپڑوں میں شو پیس بنا کر لے جائو گے۔ چار گھنٹے بیوٹی پارلر میں اور پھرایک داسی یا غلام کی طرح جب اپنے دوستوں سے تعارف کراتے ہو تو قربانی کے جانوروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔‘

ناہید نے سفاک نظروں سے کمال کی طرف دیکھا— ’تم ہمیں نمائش کی گڑیا بنا سکتے ہو تو ہم تمہیں نمائش کا گڈا کیوں نہیں بنا سکتے—؟ ہم بھی تمہیں سجا کر لے جائیں گے۔ اور ٹھیک ویسے ہی اپنی سہیلیوں سے تمہارا تعارف کرائیں گے جیسے تم شادی بیاہ کی محفلوں میں ہمارا کراتے ہو… اب چلو۔ کوئی سوال نہیں۔ جلدی سے تیار ہوجائو…

ناہید جا چکی ہے لیکن کمال یوسف اب بھی حیران نظروں سے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں کچھ دیر پہلے ناہید کھڑی تھی۔ کیا تہذیب اور شرافت کا بوجھ کچھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ برداشت کی حد بھی ختم ہوجاتی ہے۔ کوئی آہستہ سے کمال یوسف کے اندر چیختا ہے… کہاں ہو تم…کہاں سو گئی ہے تمہاری مردانگی۔ ناہید ناز ایک کٹھ پتلی کی طرح تمہارا استعمال کر رہی ہے… اور تم مسلسل استعمال ہوتے جا رہے ہو… تم برداشت کی ہر حد سے گزرنے کے بعد کھوکھلے ہو چکے ہو… اور ایک دن تم غائب ہو جائو گے کمال یوسف… تمہاری جگہ صرف تمہارا سایہ رہ جائے گا۔ اور اس سایہ پر بھی ناہید ناز کی حکومت ہوگی۔ ابھی بھی وقت ہے۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ابھی بھی خود کو سنبھال سکتے ہو تم۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ خود کو سنبھالو کمال یوسف…‘

کمال یوسف نے ٹھنڈی سانس بھری… میں نہیں جانتا، میں کہاں کھو جاتا ہوں۔ مگر حقیقت ہے کہ میں کھو جاتا ہوں… اور میں کس بات سے انکار کروں… ناہید ناز کا عمل غلط ہوسکتا ہے۔ مگر اس کی باتوں میں دم ہے۔ یہاں صدیوں کی قید عورت ہے، جس کا مردوں نے ہر سطح پر استحصال کیا ہے۔ اور آج صدیوں کے ظلم سہنے کے بعد وہ عورت اگر ناہید ناز کے وجود میں سانس لے رہی ہے تو وہ مجرم کیسے ہے—؟ غلط یہ ہے کہ مردوں کا یہ انتقام صرف اس سے لیا جا رہا ہے۔ یعنی ایک ایسے مرد سے جو شاید لڑنا بھی بھول چکا ہے۔

وہ اس سر زمین پر پہلا آدم تھا جسے صدیوں کے ظلم و جبر کی علامت بنا کر ذلت اور رسوائی کی صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا اور اس کی سزا یہ تھی کہ اسے اف بھی نہیں کرنا تھا…

==

بطور مصنف میرے پاس اس وقت ہزاروں سوالات تھے، جو ذہن میں پیدا ہورہے تھے۔ مگر میں ان لمحوں میں کمال یوسف کی ذہنی سطح کا اندازہ لگا رہا تھا۔ شرافت اور تہذیب کا بوجھ شاید کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے—

’ پھر آپ شادی میں گئے۔؟‘

’ نہیں۔‘

’اور ناہید مان گئی۔؟‘

’ نہیں۔ اس دن ہمارا جھگڑا ہوا تھا۔ میں نے اس سے صاف طور پر کہا کہ اگر اسے دنیا کے سارے مردوں کا انتقام مجھ سے لینا تھا تو پھر مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہئے تھی۔‘

’ کیا جھگڑے کے دوران ناہید نے رونا بھی شروع کیا تھا؟‘

’ بالکل بھی نہیں۔ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائی۔ وہ دیر تک چیختی رہی۔ میں باہر لان میں جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔‘

’ کیا ناہید عام طورپر رونے سے پرہیز کرتی ہے—؟ یا ایسا کوئی موقع جب آپ نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں…؟‘

’ وہ آنسو بہانے والی لڑکیوں میں سے نہیں ہے۔ ہاں ایک بار باشا کی طبیعت خراب ہوئی تو میں نے اسے روتے ہوئے دیکھا تھا— مگراس نے مجھے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کی آنکھیں نم ہیں۔‘

میں گہری سوچ میں ڈوب گیا—

’ کیا اب بھی آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ایک نارمل لڑکی ہے۔؟‘ کمال نے آہستہ سے کہا— ’میںالجھ کر رہ گیا ہوں۔‘

میں ناہید کے لیے فکر مند تھا۔ مردوں کو قابل نفرت دیکھنے سے کیا وہ اپنی عظیم ترین آزادی کے لیے فتح محسوس کرتی ہے؟

’ مشکل یہ ہے کہ اس کا علاج بھی نہیں کرایا جا سکتا۔ اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا جاسکتا۔ اس پر دبائو نہیں بنایا جاسکتا۔ پھر کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک نا معلوم تشدد کی طرف بڑھ رہی ہے—؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا پہلا شکار میں ہوسکتا ہوں۔ لیکن سوال ہے، راستہ کیا ہے؟ راستہ یہ بھی نہیں کہ میں اسے ذہنی بیماری کی حالت میں چھوڑ کر اس سے الگ ہو جائوں…‘

’ الگ ہونا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انتقام کا یہ شدید جذبہ اسے تشدد کی طرف لے جا رہا ہے۔ اور اس کا ذہن جن باتوں سے دو چار ہے، اس راستہ میں تشدد معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب اس کی بغاوت اسی سمت پرواز کر رہی ہے۔‘

’ میں جانتا ہوں۔ مجھ سے الگ ہونے کے بعد ناہید کے لئے زندگی بہت حد تک مشکل ہو جائے گی اور شاید اسی لیے اب تک میں نے اس کی ہر بات کو برداشت کیا ہے۔ مگر سوچتا ہوں کہ آگے کیا کچھ اور خوفناک صورتحال پیدا ہوتی ہے، تو کیا برداشت کا مادہ میرے اندر ہوگا—؟‘

’ کسی بھی انسان کے لیے یہ کہنا مشکل ہے۔‘

کمال یوسف کی آنکھیں ابھی بھی سوچ کی وادیوں میں تھیں۔ ہم نے اس گفتگو کو یہیں ختم کیا۔ کیونکہ ناہید کے آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ اور ہم ناہید کو اس بات کا احساس نہیں دلانا چاہتے تھے کہ ہماری گفتگو اسی محور پر گردش کر رہی تھی۔

(7)

دو تین دن ہم نے نینی تال کے مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس دوران کمال یوسف اور ناہید دونوں ساتھ رہے۔ مگر دونوں زیادہ تر خاموش رہے۔ ہاں کبھی کبھی باشا کو لے کر دونوں کے درمیان گفتگو ہوجاتی۔ مگر اس بات کا احساس زور پکڑ رہا تھا کہ آہستہ آہستہ ناہید کا انتقامی انداز اب کمال کے لیے ٹینشن کا سبب بننے لگا ہے۔ مجھے گھومنے اور سیر سپاٹے کا شوق ہے اور اس شوق میں اکثر ڈائری اپنے ساتھ رکھتا ہوں اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ لکھنے والے کی حیثیت بہت سے کرداروں کے ساتھ ساتھ ایک منشی کی بھی ہوتی ہے۔ منشی کی نوٹ بک میں واقعات وحادثات کی کڑیاں نوٹ، تاریخوں کے ساتھ اس طرح درج کی گئی ہوتی ہیں کہ انہیں کچھ برسوں کے بعد پڑھیے تو ماضی وتاریخ کی روشنی میں ایک نیا جہان آباد ہوجاتا ہے۔ ڈائری کی اہمیت یوں ہے کہ سلسلہ وار واقعات کو جوڑنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ناہید اور کمال کے ساتھ ہم نے مختلف مقامات کی سیر کی۔ ہم تری رشی سرور بھی گئے۔ کہتے ہیں تین رشیوں نے تین مقاموں پر الگ الگ تین تالوں کی تعمیر کی تھی۔ یہاں قدرت کا انمو ل خزانہ بکھرا ہوا تھا۔

ناہید نے بتایا کہ یہاں1790سے1815 تک گورکھائوں کی حکومت تھی۔ گورکھوں نے گڑھوالی اور کمائونی لوگوں پر بہت ظلم ڈھائے۔ اس کے بعد یہاں برٹش فوج آگئی۔ گورکھائوں کو شکست ہوئی… یہاں کی آب و ہوا خوبصورت تھی۔ انگریزوں کو یہ مقام اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے گڑھوال، کمایوں جیسے پہاڑی مقامات پر نئے نئے شہر بسانے شروع کردیے۔ الوڑا، رانی لینس، نہیں ڈائون انگریزوں نے ہی بسائے۔

نینی تال گھومنے کے دوران ہم سیلانی پیک دیکھنے بھی گئے۔ اور روپ وے پر بھی سوار ہوئے۔ سارا دن یہاں سیاح بوٹ کی سواری کرتے ہیں۔ ساتھ ہی گھوڑ سواری کے بھی مزے لیتے ہیں۔ ہنومان گڑھی۔ کاٹھ گودام، چینی پک جیسے مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے ہم تھک چکے تھے۔ ایک جگہ جب ناہید سستانے کے لئے پتھر کے بنچ پر باشا کے ساتھ بیٹھی تو ناہید کو سنانے کے لئے کمال نے طنز کرتے ہوئے کہا۔

’ عورتیں جلد ہی تھک جایا کرتی ہیں۔‘

ناہید نے غصے سے پلٹ کر دیکھا۔ مگراس درمیان باشا رونے لگا تھا۔ اس لیے وہ باشا کو چپ کرانے میں لگ گئی۔ لیکن گھر واپسی تک دونوں کے درمیان مکالمے نہیں کے برابر ہوئے۔ یہ بات مجھے بری لگ رہی تھی اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ کم از کم میری موجودگی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مگر نفرت کا زہر شاید دونوں طرف اپنا اثر دکھانے لگا تھا۔

دوسرے دن ناہید کے سمرولے اسکول جاتے ہی میں کسی کام سے ڈرائنگ روم آیا تو اچانک میں چونک گیا۔ لاجو پاگلوں کی طرح کمال سے چپکی ہوئی تھی اور اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیے جا رہی تھی۔ جبکہ کمال اس کے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور بار بار آہستگی سے ایک ہی لفظ کہہ رہا تھا۔ لاجو کوئی آجائے گا۔ نادانی مت کرو۔ مگر لاجو کی عمر بہتی ہوئی ندی کی طرح تھی، جو ایسے موقعوں پر رکنا کہاں جانتی ہے۔ کمال جب لان میں آیا تو اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جیسے گناہ کے احساس سے وہ مجھ سے آنکھیں چار کرتے ہوئے شرما رہا ہو یا اسے اس بات کا شک ہو کہ کہیں میں نے اسے اس حال میں دیکھا تو نہیں—

رات کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر بیٹھے تو اچانک ایک بار پھر سے وحیدہ کا تذکرہ آگیا۔ اس درمیان وحیدہ میرے خیالوں سے نکل چکی تھی۔ اور نینی تال کے قیام کے اس پورے ہفتہ کے دوران نہ وحیدہ یہاں ملنے آئی اور نہ اس کے بارے میں کوئی گفتگو ہوئی۔

ناہید نے بتایا۔ وہ من موجی قسم کی لڑکی ہے۔ جب آئے گی تو ایک دن میں کئی چکر ہوجائیں گے۔ اور جب نہیں آئے گی تو کئی کئی دنوں تک روپوش رہے گی۔

کمال نے ناگارجن سینی اور ان کی اہلیہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں، جن کے بچے باہر رہتے ہیں۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ ایک شام ان سے وحیدہ ٹکرائی اور یہ لوگ وحیدہ کو اپنے گھر لے آئے۔ اور وحیدہ بیٹی بن کر تب سے ان لوگوں کے ساتھ ہے۔ ناگارجن اور کوشلیا وحیدہ پر جان چھڑکتے ہیں۔

ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ اسے دیکھیں تو پہلی بار میں اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے۔ وہ انسانوں کی باتیں کم پرندوں کی باتیں زیادہ کرتی ہے۔ یہاں آئے گی تو باشا کو گود میں اٹھالے گی۔ پھر لان میںنکل جائے گی۔ حیرت کی بات یہ کہ پرندے بھی اس کی موجودگی میں اڑتے ہوئے جانے کہاں سے آجاتے ہیں۔

کمال کو نیند آرہی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ناہید اکیلی رہ گئی۔ دور پہاڑیوں کے درمیان جلتے بجھتے ہوئے قمقموں کی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ لمحہ میرے لیے اہم تھا۔ میں ناہید سے مخاطب ہوا…

’ سنو ناہید۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘

’ جی۔‘ ناہید نے چونک کر میری طرف دیکھا۔‘

’ ممکن ہے کسی روز بھی میں دلی واپس چلا جائوں۔ یہاں تم لوگوں سے ملاقات بھی ہوگئی۔ اور نینی تال کی سیر بھی کر لی۔ مگر ناہید۔ عمر میں تم سے کافی بڑا ہوں اس لیے اپنے تجربے کی بنا پر جو کچھ تم سے کہنے جا رہا ہوں۔ وہ غور سے سنو۔ ہوسکتا ہے اس کے بعد تمہیں یہ موقع نہ ملے۔ اور تمہیں وقت کے کھو دینے کا احساس ہو…‘

’ جی…، میں نے پہلی بار ناہید کے چہرے پر خوف کے اثرات دیکھے تھے۔ ’اس گھر میں جو کچھ بھی چل رہا ہے وہ میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اور کمال ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کر رہے ہو۔ یہ تم لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور مجھے بولنے کا حق نہیں۔ مگر مجھے صرف ایک بات کہنی ہے ۔ کوئی ضروری نہیں کہ تم اس بات پر عمل بھی کرو۔‘

’ جی… کہئے…‘ ناہید آہستہ سے بولی۔

’ تمہاری خاموشی کے پیچھے کچھ ہے، یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی اس سے انجان نہیں— یہ خاموشی خطرناک ہے اور اس بات کی گواہ بھی کہ تمہارے اندر ، تمہارے سینے میں ایک زہر بھری پوٹلی رکھی ہے۔ تم اس پوٹلی کو نکالنا نہیں چاہتی، یہ تمہاری مرضی— مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن یہ زہر بھری پوٹلی پھٹ بھی سکتی ہے اور جس دن یہ پوٹلی پھٹے گی ، کئی لوگ اس کے شکار ہو جائیں گے۔ تم ، کمال، باشا اور تم سے وابستہ لوگ— تم ابھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ راز کو راز رکھتے ہوئے تم خود سے کتنا بڑا فریب کر رہی ہو… تم خود کو خطرے میں ڈال رہی ہو۔ کیونکہ پوٹلی کے پھٹنے کا مطلب ہے، سب سے پہلا شکار تم خود ہوگی۔ زندگی میں کوئی ایک ہونا چاہئے، جسے اپنا راز دار بنایا جائے۔ کوئی ایک ، جس پر بھروسہ کیا جائے، کوئی ایک جس کو اپنے دل اورجنوں کا حال سنایا جا سکے۔ تم اکیلے ہی اس راز کی نگہبان رہو اور اکیلے ہی سلگتی اور جلتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہارے اندر سے آگ کے شعلے اٹھنے لگے ہیں۔ اور ابھی وقت ہے کہ تم اس کہانی کو اپنے اندر سے نکالو، جو تمہیں آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

میں ایک لمحہ کے لیے ٹھہرا— ’میں تمہیں مجبور نہیں کر رہا۔ مجبور کر بھی نہیں سکتا۔ مگر تمہارے پاس سوچنے کے لیے پوری رات پڑی ہے۔ تم آرام سے سوچ لو۔ اور اگر محسوس کرو کہ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو تو آرام سے آگ کے ان شعلوں کو نکال دینا جو تمہیں آہستہ آہستہ بھسم کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے۔ تم میری باتوں پر غور ضرور کروگی۔‘

اس کے بعد میں ٹھہرا نہیں۔ اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ اس مکالمہ کے لیے میں نے دو دنوں سے تیار ی کی تھی۔ او رمجھے اس لمحہ کا انتظار تھا جب ناہید اکیلی ہوگی تو میں اپنی بات بھرپور طریقے سے اس کے سامنے رکھ سکوں گا۔ تنہائی کا موقع ہاتھ آیا تو میں نے کھلے طور پر اپنی بات کی وضاحت کردی۔ اب مجھے صبح کے طلوع ہونے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ناہید اپنے راز مجھ پر افشاں کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی مگر اتنا ضرور تھا کہ تنہائی میں وہ اس بارے میں غور ضرور کرے گی— بطور مصنف میں نے اپنی طرف سے نفسیات کے مہرے چل دئیے تھے اور اب مجھے ناہید کے جواب کا انتظار تھا۔

==

دوسرے دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ آسمان میں کہرا چھا گیا تھا۔ ناہید اسکول نہیں گئی۔ ناشتہ کے وقت بھی وہ سوچ میں گرفتار تھی اور جیسے مجھ سے آنکھیں ملاتے ہوئے بھی گھبرا رہی تھی۔ مجھے یقین تھا، یہ کشمکش بھرے لمحے ہیں اور شاید اسی لیے ناہید نے اسکول سے چھٹی کر لی تھی۔ دس بجے کمال آفس کے لیے روانہ ہوگئے۔ بارہ بجے کے آس پاس سورج نمودار ہوچکا تھا۔ میں لان میں تھا۔ میں نے دیکھا، ناہید آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میری طرف آرہی ہے— میرے قریب کی کرسی پر ناہید بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں نیلے آسمان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ اچانک اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ لیکن آنکھیں حرکت میں تھیں جیسے گزرے دنوں کی فلم ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے پردے پر چل رہی ہوں۔

’ اس نے میری طرف دیکھا۔ لمبی سانس لی۔ پھر بولی— ’میں رات بھر سوچتی رہی۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ زخم کا علاج نہ ہو تو اکثر زخم پھٹ جاتے ہیں۔ میرا زخم بھی ناسور بن چکا ہے۔ اور شاید آج ، ان لمحوں میں،میں اس بے رحم کہانی کو یاد کرنا چاہتی ہوں، جس کو میں نے کبھی یاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘ اچانک اس نے دریافت کیا…

’ کیا آپ مجھے کچھ دیر رو لینے دیں گے…؟‘

میں چونک گیا تھا۔ مجھے کمال کی بات یاد آئی۔ کمال یوسف نے کہاتھا، زندگی میں کوئی بھی موقع ایسا نہیں آیا، جب میں نے ناہید کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں۔ لیکن وہی ناہید ناز میرے سامنے بیٹھی ہوئی سسکیاں لے رہی تھی۔ آنسو اس کے رخسار پر پھیل رہے تھے۔ وہ بھول گئی تھی کہ ایک اجنبی اس کے سامنے ہے۔ وہ زور زور سے رو رہی تھی۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اچانک اس کے ہاتھ اٹھے۔ آنسوئوں کو خشک کیا۔ مسکرانے کی کوشش کی۔ میری طرف دیکھا۔

’ اب میں ٹھیک ہوں۔ برسوں بعد زندگی میں لوٹی ہوں۔ لیکن زندگی میں لوٹی کہاں ہوں… ہاں میں آپ کو کچھ سنانے والی تھی… لیکن سمجھ میں نہیں آتا، کہاں سے شروع کروں… یہ کوئی بہت الجھی ہوئی داستان نہیں ہے۔ بہت مختصر سی کہانی ہے… مگر… کہیں نہ کہیں سے مجھے سنانے کی شروعات کرنی ہوگی… ٹھہریے… مجھے سوچ لینے دیجئے—

اور پھر آہستہ آہستہ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا ۔

دیدبان شمارہ۔۸

‘‘نالۂ شب گیر’’ قسط ۳

مشرف عالم ذوقی

(دوسرا حصہ )

آتش گل

he whole of feminine history has been man-made. Just as in America there is no Negro problem, but rather a white problem; just as anti-Semitism is not a Jewish problem, it is our problem; so the woman problem has always been a man problem.

—Simone de Beauvoir

(1)

جیسا کہ پہلے صفحات سے آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں ایک مصنف ہوں۔ لیکن میری مکمل شخصیت کسی جوکر کی طرح ہے— اور مجھے بار بار لگتا ہے جوکر کی طرح ہنستے ہنساتے ہوئے آپ سامنے والے شخص کے اندر اور باہر آرام سے جھانک سکتے ہیں— اسی طرح جیسے دوستوفسکی کا ایڈیٹ شرمایا ہوا شہزادی کے دل تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ مصنف کو بے شرم بننا پڑتا ہے۔ مگر اس کی موجودگی میںاحمق اور جوکر دونوں کے کردار بیک وقت شامل رہتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی دونوں کرداروں کو ایک ساتھ انجام دیتا رہتا ہے۔ جنگل ، پہاڑ، برف اور گلیشیئر کے پگھلنے سے الگ  میں زیادہ تر رومانوی دنیا سے الگ ہی رہتا ہوں اور بیحد چھوٹی چیزیں بلکہ واہیات چیزیں مجھے زیادہ متاثرکرجاتی ہیں۔ مثال کے لئے خوبصورت وادیوں میں کوئی ٹھونٹھ درخت مجھے دکھ جائے تو حیران آنکھوں سے مجھے اس پر مسلط خزاں کا حساب لگانا زیادہ اچھا لگتا ہے اور اسی لیے افسانوں سے زیادہ گھوڑے یا بھری پڑی بستیوں سے زیادہ ویرانی، شہر خموشاں یا وحشت کے بجتے گھنگھرئوں کو سننا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اور شاید اسی لیے اس گھر میں صوفیہ مشتاق ہی میری توجہ کا مرکز بن سکی کہ اس کے کمرے میں اندھیرے جمع تھے۔ یا وہ اپنے احساس کی تپش سے جالوں، چمگادڑوں، چھپکلیوں سے لے کر ڈری سہمی آواز کی آسیبی موسیقی بھی کمرے میں پیدا کرلیا کرتی تھی۔ ایک کہانی کے بعد دوسری کہانی کی تلاش کچھ یوں ہوتی ہے کہ ہم پچھلے کرداروں کو بھول جاتے ہیں— انہی دنوں میری ملاقات نینی تال کے کمال یوسف سے ہوئی تھی— اور اس کہانی میں کئی کہانیاں یکا یک شامل ہوتی چلی گئی تھیں—

جیسے کمال یوسف کا اپنی بیوی اور چھ مہنے کی بیٹی کے ساتھ انڈیا گیٹ پر آنا۔ رات بھر یخ بستہ ہوائوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انقلاب اور احتجاج کا حصہ بن جانا، اور میرا گر جانا— تعجب ہے نا، مصنف بھی گرتے ہیں— بلکہ میں تو یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اکثر مصنف بے خیالی میں گر جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی آنکھیں راستہ بنانے کی جگہ اپنے ہی خیالوں میں سفر کرتی رہتی ہیں۔ اور وہ سامنے کی رکاوٹ کو نہیں دیکھ پانے کی صورت میں بلاوجہ چوٹ کھا جاتے ہیں۔ لیکن کمال یوسف سے ملنے، میرے گرجانے اور صوفیہ کے اتفاقاً ملنے کی کڑیاں ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا—

یہ انہی دنوں کا تذکرہ ہے جب ہندوستانی سر زمین پر سیاست نے نئی کروٹ لی تھی۔ دلی کا انڈیا گیٹ ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں انقلابی چوک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ دبے پائوں آنے والی انقلاب کی وہ آہٹ تھی،جو شاید اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی— یہ وہی دور تھا جب دنیا کے کئی حصوں میں اس طرح کے مظاہرے عام تھے— سیاسی چہروں کو یہ فکر دامن گیر تھی عوام کا غصہ جاگ گیا تو تخت و تاج کا کیا ہوگا— بار بار تباہ و برباد اور آباد ہونے والی دلی آزادی کے بعد محض سوئی ہوئی، خاموش تماشائی بن کر رہ گئی تھی۔ لیکن ایک حادثے نے دلی والوں کو نہ صرف جگا دیا تھا بلکہ دلی کے ساتھ ہی پورا ہندوستان بھی جاگ گیا تھا اور یہ معاملہ تھا جیوتی گینگ ریپ کا معاملہ— ایک معصوم سی لڑکی جیوتی، جس کو میڈیا اور چینلس نے ابھیا، نربھیا جیسے ہزاروں نام دے ڈالے تھے۔ ایک کالج کی لڑکی جو صبح سویرے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک خالی بس میں بیٹھی اور بس میں سوار پانچ لوگوں نے بے رحمی کے ساتھ بوائے فرینڈ کی موجودگی میں اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا اور چلتی بس سے دونوں کو باہر پھینک دیا— یقینی طور پر ایسے معاملات پہلے بھی سامنے آئے تھے۔ لیکن بے رحمی اور درندگی کی نہ بھولنے والی اس مثال نے دلی کو احتجاج اور انقلاب کا شہر بنا دیا تھا— جنترمنتر سے لے کر دلی گیٹ اور انڈیا گیٹ تک ہزاروں لاکھوں ہاتھ تھے، جو انقلاب کے سرخ پرچم کے ساتھ ہوا میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ بطور مصنف کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی نئی دنیامیں قدم رکھنے کے باوجود آج تک جبلت اور درندگی کے واقعات میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی توعلم نفسیات کی موٹی موٹی کتابیں بھی ہانپ جاتی ہیں کہ نہ قدیم عہد میں کچھ بدل سکا اور اس انفارمیشن ٹکنالوجی اور سائنسی انقلاب کے عہدمیں کچھ بدلنے کی امید ہے— عورت کو اپنی حکومت کے طور پر محسوس کرنے والا— اور صدی کے انقلاب کے باوجود برتری کا وہی پیمانہ ہے جو آج بھی عورتوں کو حاشیہ پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اور اسی لیے عورت ہونے کے تصور میں، مرد نے کبھی اس کے اڑان کا استقبال نہیں کیا بلکہ ایسی ہر اڑان اس کی مردانگی کو للکارتی رہی۔ سیمون د بوار سے تسلیمہ نسرین تک عورت جب یہ کہتی ہے کہ یہ گھر میرا ہے، یہ فرج میرا ، یہ لیپ ٹیپ میرا اور یہ بدن میرا تو مرد کی آنکھیں تن جاتی ہیں۔ مرد نہ عورت کو برانڈ بنتے دیکھ سکتا ہے نہ سماج سے سیاست تک اس کے قد کو پھیلتے اور بڑھتے ہوئے—یوروپی ممالک کی عورتیں بھی اس معاملے میں وہی ہیں، جو ایک عام ایشیائی عورت کا معاملہ ہے— وہاں بھی زنا بالجبر اور زور زبردستی کی وارداتیں عام ہیں— او ریہ وارداتیں ہر سطح پر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ تہذیب کی اتنی صدیاں گزار نے کے بعد بھی ایک تعلیم یافتہ لڑکی رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر سفر نہیں کر سکتی۔ دفتروں میں کام کرتے ہوئے اسے چوکنا رہنا ہوتا ہے۔ وہ گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں باپ سے بھائی تک کے قریبی رشتوں میں بھی سگ زار برادر شغال کی مثال ہی سامنے آتی ہے— صرف ایک بدن کے قصور میں آزاد ہوتے ہوئے اور ترقی کے مینارے چڑھتی ہوئی عورت بھی زمانۂ قدیم کی داسی محسوس ہوتی ہے، جس کی ڈور روز ازل سے مرد کے پاس ہے اور اسے مرد کے اشاروں پر ہی ناچنا ہوتا ہے —

دسمبر کا مہینہ— ٹھنڈک اپنے عروج پر تھی— سرد ہوائوں کے باوجود پرجوش مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی— یہ وہ لوگ تھے جو جیوتی گینگ ریپ کے ظالموں کو سزا دلوانے اور ایوان سیاست کو جگانے آئے تھے۔ سیاسی ہلچل تیز ہوچکی تھی۔ انڈیا گیٹ کے آس پاس کی سڑکیں رین بسیرے میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ سرد لہر، جنگلی پتنگوں کا اڑنا، مچھروں کا حملہ… لیکن جاگتی آنکھیں امید سے پر کہ اب اس انقلاب کی آہٹ کو کوئی روک نہیں سکتا—

او راسی مقام پر پہلی بار میں نے کمال یوسف کو دیکھا تھا۔ عمر یہی کوئی تیس بتیس کے آس پاس۔ گورا خوبصورت چہرہ۔ جینس کا پینٹ اور گرم جیکٹ پہنے— اس نے ایک سفید شال بھی ڈال رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی، جس کی گود میں ایک ننھا سا بچہ بھی تھا۔ لڑکی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔ کمال یوسف نے ننھے شیر خوار کو گود میں لے لیا۔ میں نے خود کو تیار کیا،یہی موقع تھا جب میں اس سے گفتگو کرسکتا تھا۔

وہ محبت سے ملا۔ ہاتھ بڑھایا۔ اور اپنائیت سے بولا۔

’کمال یوسف۔‘

اس بار چونکنے کی باری میری تھی۔

’مسلمان ؟‘

’کیوں؟‘ اس بار اس کے ساتھ والی لڑکی نے چبھتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا—’ مسلمان نہیں ہونا چاہئے۔؟

’نہیں میرا مطلب ہے…‘ میں نے نظر یں جھکاتے ہوئے کہا— ’عام طور پر اس طرح کے احتجاج میں مسلمان شامل نہیں ہوتے…‘

کمال یوسف نے زور کا قہقہہ لگایا— کس نے کہا کہ مسلمان شامل نہیں ہوتے۔ کس دور میں جی رہے ہیں آپ؟‘ اس نے آگے بڑھ کر شرارت کے انداز میں میرے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ لا کر چٹکیاں بجائیں—’ تیس کروڑ کی آبادی ہے ہماری صاحب— مسلمان بھی اسی ملک کا حصہ ہیں۔ لیکن آپ انہیں حصہ ماننے پر تیار ہی نہیں۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔

’نہیں— میرا مطلب ہے…‘ میں گڑبڑا گیا تھا۔

کمال یوسف نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ میری بیوی ہے— ناہید ناز۔ ہم نینی تال سے آئے ہیں۔‘

’ناہید ناز؟‘

اس بار ناہید کا قہقہہ بلند ہوا— ناہید یوسف کہتی یا ناہید کمال، تب ہی آپ تسلیم کرتے کہ ہم میں کوئی رشتہ بھی ہے…۔‘

’نہیں—‘ میں مسلسل حملوں سے گھبرا گیا تھا۔

’میری اپنی شناخت ہے۔ ’ناہید ناز کا چہرہ سخت تھا۔’ اس دنیا میں ایک لڑکی اپنی شناخت اور آزادی کے ساتھ کیوں نہیں جی سکتی—؟ کمال سے شادی کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میری شناخت کمال کی محتاج ہے۔ میری اپنی آئیڈینٹیٹی ہے، کمال کی اپنی آئیڈینٹی۔ ایک گھر میں دولوگوں کو اپنی اپنی آئیڈینٹیٹی اور اپنی اپنی پرائیویسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہئے—

رات کے دو بج گئے تھے۔ اسٹیج سے وقفے کے بعد تقریروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کمال یوسف نے بیگ سے چادر نکال کر زمین پر بچھا دی— ہم چادر پر بیٹھ گئے۔ تھرمس سے چائے نکال کر اس نے ایک کپ میری طرف بڑھایا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ ناہیدناز بچے کو پتنگوں اور کیڑوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال یوسف نے میری طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرد تھا۔ سپاٹ۔

’مسلمان۔ دوسروں کے منہ سے اکثر یہ نام سنتے ہوئے پریشان ہوجاتا ہوں۔ ہاں بھائی مسلمان ہوں تو کیا ہوا۔ دوسرے مذاہب کے ناموں پر حیرانیاں کیوں نہیں پیدا ہوتیں۔ مسلمان، اس نام کے ساتھ اچانک ہم چودھویں یا پندرہویں صدی میں کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ اور مسلمان کہاں نہیں ہیں؟ کرکٹ سے فلم اور سیاست تک۔ او رہم جس مقصد سے یہاں آئے ہیں، وہ صرف ایک معاملہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ اس نفسیاتی خوف کا معاملہ ہے جہاں ایک لڑکی اپنے ہی گھر میں ڈرڈر کر رہتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد بھی مسلسل ڈرتی رہتی ہے۔‘

ناہید ناز نے میری طرف دیکھا۔’ اس کی آنکھوں میں آگ روشن تھی۔ بچے کو سلاتے ہوئے کہا—’ ابھی یہ صرف چھ مہینے کا ہے۔ دلی آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے ایک لمحے کو نہیں سوچا کہ باشا کی طبیعت خراب ہوسکتی ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟‘

’نہیں۔‘

‘لڑکوں کو آزادی دیتے ہوئے آپ کی دنیا لڑکی کی آزادی کے پر کاٹ لیتی ہے۔ کبھی اسے چنری دی جاتی ہے۔ کبھی حجاب۔ کبھی اسے اپنوں سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لیے کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔ لڑکی نہیںہوئی عذاب ہوگئی— اور آپ ہی کے سماج نے اسے بے رحم نام دے رکھے ہیں۔ فاحشہ، طوائف، رنڈی، داسی، کلنکنی— یہ سارے نام مرد کو کیوں نہیں دیتے—؟ سب سے بڑا دلال اور بھڑوا تو مردہے — فاحشہ، طوائف، کلنکنی یہ سارے نام مرد پر فٹ بیٹھتے ہیں۔ کیوں ساری زندگی، سہمی سہمی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ہمیں؟ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اپنی مرضی کی زندگی نہیں جی سکتی۔ اسے ایک مرد کا غلام بننا ہوتا ۔ اس کے بچوں کو پالنا ہوتا ہے۔ مرد کیوں نہیں پالتا بچوں کو؟ کھانا کیوں نہیں بناتا؟ بیوی کو چائے کیوں نہیں پیش کرتا؟ گھر کیوں نہیں سنبھالتا۔ ہم آواز اٹھا ئیں تو آپ مذہب، شریعت اور موٹی موٹی آسمانی کتابیں لے کر آجاتے ہیں۔ ان کتابوں میں مرد کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ عورت کے ساتھ خوش رہے۔ عورت کو ہی بتایا جاتا ہے کہ شوہر کی خوشی میں ہی اس کی تقدیر کی تعویذ پڑی ہے ۔ کمال سے شادی کی تو تقدیر کی یہ تعویذ اتار پھینکی۔ کیوں کمال؟‘

کمال یوسف نے زور کا قہقہہ لگایا— شادی سے پہلے ملنا ہوا تو سوچتا تھا کہ ایسی پاگل اور عجیب و غریب لڑکی شاید دنیا میں نہ ہوگی۔ ملاقاتوں کاسلسلہ طویل ہوا اور بات شادی تک پہنچی تو ناہیدنے صاف طور پر کہہ دیا۔۸ بجے اٹھتی ہوں۔ بیڈٹی مجھے تم دوگے۔ ناشتہ میں بنالوں گی۔ شادی کے بعد بھی ہم دولوگ ہوں گے جن کی اپنی اپنی آزاد دنیائیں ہوںگی۔ میں ٹھہرا ، مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والا۔ ایسا گھرانا جہاں آج بھی بہشتی زیور کی حکومت چلتی ہے۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔

مجھے یکا یک احساس ہوا، کئی تصویریں ایک دوسرے میںمنعکس ہونے لگی ہیں۔ ایک چہرہ سرد کا فن میں آرام کا تصور کرنے والی صوفیہ کا تھا، دوسرا چہرہ جیوتی کا اور تیسرا چہرہ ناہید ناز کا۔ یہ سارے چہرے آپس میں گڈمڈ ہورہے تھے۔ ان چہروں میں کہیں صدیوں کی آگ روشن تھی تو کہیں آگ سرد پڑ گئی تھی… اور ان سے الگ بھی ایک چہرہ تھا۔ کمال یوسف کا چہرہ۔ مجھے یقین ہے خدا کی بستی میں عورتوں کو عزت دینے والے، آزادی دینے والے ایسے مردوں کا مشینی طور پر بننا شروع ہو چکا ہے۔ تو کیا یہ صدیوں سے سفر کرتی ہوئی عورت کے احتجاج کی ہی شکل ہے کہ نئے سماج کی مشینوں نے نئے اذہان کے مردوں کو اگلنا شروع کردیا ہے۔؟ یہ سمجھوتا ہے، وقت کی مانگ یا آنے والی تبدیلیاں ہیں—؟ اس سے بھی بڑا سوال تھا کہ مرد اپنی خصلت کو کب تک پوشیدہ رکھ سکتا ہے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال تھا کہ اگر ایک دن کمال یوسف بھی وہی عام سا مرد ثابت ہوا تو؟ میں نے اس طرف توجہ دلائی تو ناہیدناز زور زور سے ہنس پڑی۔

’ آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا ایسی صورت میں، میں ایک منٹ بھی ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟ بالکل بھی نہیں۔ میںدھکے مار کر اسے گھر سے باہر نکال دوں گی۔ دھکے مار کر— میں اس بات پر غور نہیں کروںگی کہ ہمارا کتنا پرانا ساتھ تھا۔ او راس بات کو بھول جائیے کہ میری آنکھوں میں ایک سکنڈ کے لئے بھی آنسو کا قطرہ چمکے گا— در اصل ہوتا یہ ہے کہ ہمیں شادی کے بعد مرد کو سونپنے والا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہوتا ہے۔ جو ہم سے کہتا ہے کہ دیکھو، یہ تمہارا مجازی خدا ہے اور اس کی خوشی میں ہی تمہاری زندگی کا سفر پوشیدہ ہے۔ بڑی ہوتے ہی میں نے اس دقیانوسی کتاب کے چتھڑے بکھیر دئیے۔ مرد کو سمجھنا ہوگا کہ اُس کی خوشی ہماری ذات میں پوشیدہ ہے۔‘

کمال یوسف آہستہ آہستہ مسکرا رہا تھا— جھینگر چیخ رہے تھے۔ پتنگوں اور مچھروں کی یلغار بار بار پریشان کر رہی تھی۔ اور یہاں میرے سامنے دو چہرے تھے۔ صوفیہ جسے ایک ماحول نے سرد، بجھی ہوئی راکھ میں تبدیل کر دیا تھا اور اسی ماحول سے نکلی ہوئی ناہید ناز، جسے خود پر بھروسہ تھا۔ اپنی ذات کے سہارے جینے پر یقین رکھنے والی اور مرد کی ہر طرح کی محکومیت سے انکار کرنے والی۔

فلیش چمک رہے تھے۔ چینلس اور میڈیا کے لوگ بھی کافی تعداد میں تھے۔ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی۔ مگر زیادہ تر آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ آزادی کے بعد کے تھکے ہوئے لوگوں میں اس انقلاب کو لیکر امید کی ایک موہوم سی کرن پیدا ہوئی تھی۔ مجھے اس بات سے زیادہ غرض نہیں تھی کہ یہ انقلاب بھی ہزاروں انقلابوں کی طرح پھُس ثابت ہوتا ہے یا اس سے اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے— میرے لیے اس وقت اتنا کافی تھا کہ جمہوریت میں مرتے ہوئے لوگوں کے لیے ایک معصوم سی لڑکی کا قتل ایک بڑے انقلاب کا گواہ بن گیا تھا۔

کندھے پر جھولتے ہوئے بیگ سے کاغذ اور قلم نکال کرکچھ دیر ادھر اُدھر کے نوٹس لیتا رہا۔ اس درمیان کمال یوسف اسٹیج کی طرف نظریں کئے بغور تقریر سننے میں محو تھا۔ ناہید ناز کے ملائم ہاتھ سوئے ہوئے بچے کو تھپکیاں دے رہے تھے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ناہیدناز کے ساتھ بھی ہوا ہوگا جس نے نینی تال سے دلی آنے میں مدد کی ہوگی— میں پھر اسی خیال کے رتھ پر سوار تھا کہ کتنی عجیب بات ، ایک مہذب دنیا میں آج بھی معصوم لڑکیاں، بچیاں، عورتیں اپنی آزادی اور حق کا مطالبہ کر رہی ہیں اور ساری دنیا سوئی ہوئی ہے۔ اپنے ہی گھر میں خوف کا پیچھا کرتے ہوئے، بڑے ہونے کا خوف ، جوان ہونے کا خوف، شادی نہ ہونے کا خوف، شادی کے بعد کا خوف… طلاق کا خوف… زندگی کے سمندر میں صرف خوف کے بھنور تھے اور الجھی ہوئی تھیں ہزاروں معصوم زندگیاں— مریخ پر راکٹ بھیجے جار ہے تھے۔ سائبریا میں درخت اگانے کی مہم چل رہی تھی۔ انسانوں جیسے انسان پیدا کئے جا رہے تھے۔ موت پر فتح پائی جا رہی تھی اور سائنس کے ہزاروں حیرت انگیز کارناموں کے باوجود امریکہ سے ہندوستان تک خوفزدہ تھی تو عورت— پریشان تھی تو عورت— چار برس کی معصوم بچی بھی ہوس کا شکار ہورہی تھی اور ۹۰ سال کی بزرگ خاتون بھی مرد کی درندگی سے محفوظ نہیں تھی۔ انتہائی بدصورت اور ناکارہ لڑکوں کو بھی شادی کے بارے میں یا بڑھتی عمر کے بارے میں سوچنا نہیں پڑتا تھا اور حسین لڑکیوں کی شادیاں بھی معاشرے میں عذاب بن کر رہ گئی تھیں۔

ایک دوزخ سے نکل کر دوسری دوزخ میں داخل ہونے کا راستہ کھل جاتاتھا۔ میں نے دیکھا ،ناہیدناز بغور میرے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی اور یہی لمحہ تھا جب میں نے اس سے دریافت کیا اور میں نے نرم نرم لہجے میں دریافت کیا کہ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ کیا اس کی زندگی میں بھی آیا ہے…؟ وہ جیسے میرے اسی سوال کے انتظار میں تھی۔ چھوٹتے ہی اس نے دوسرا سوال میری طرف داغ دیا۔

’کیا دنیا میں کوئی لڑکی ان حادثوں سے محفوظ بھی ہے؟ کسی ایک لڑکی کا نام بتا دیجئے—‘ وہ ہنس رہی تھی— جب سے دنیا بنی ہے۔ ایسی کوئی لڑکی بنی ہی نہیں۔ لڑکیاں پیدا ہوتے ہی شہد کی طرح ایک جسم لے کر آجاتی ہیں— اور سب سے پہلے اپنے ہی گھر میں اپنے میٹھے جسم پر چبھتی اور ڈستی ہوئی آنکھوں سے خوفزدہ ہوجاتی ہیں— جو عورت اس سچ سے انکار کرتی ہے وہ جھوٹ بولتی ہے۔‘ اس کا لہجہ تلخ تھا— ’مرد اپنی فطرت بدل ہی نہیں سکتا۔‘

’ اور آپ کے شوہر؟‘

’وہ شوہر نہیں ہے۔ خدا کے لیے انہیں شوہر نہ کہیے… وہ میری بیوی ہیں… ‘ ناہید نے کھلکھلا کرجواب دیا۔اور اب میری حراست میںہیں۔ کیوں کمال…‘

کمال یوسف نے قہقہہ لگایا۔

ناہید کے چہرے پر پھر سے شکن نمودار ہوئی تھی— ’لڑکے اپنے گھروں میں کیوں نہیںڈرتے۔ پھر تو لڑکوں کو آزادی ملتی ہی چلی جاتی ہے۔ ناجائز آزادی۔ اور لڑکی۔ آپ اور آپ کا مذہب صرف ان پر ہی کیوںبندش اور پہرے بیٹھاتا ہے، اور مردوں کو بے لگام کر دیتا ہے۔‘

میں نے پہلی بار ناہید ناز کے چہرے کا جائزہ لیا۔ ایک سانولا معصوم چہرہ۔ عمر یہی کوئی ستائس اٹھائیس کے قریب۔ قد پانچ فٹ دو انچ سے کچھ زیادہ۔ ستواں بدن۔ چہرے پر معصومیت کے ساتھ ایک کشش بھی تھی۔ کیا یہی وہ کشش تھی کہ مرد کے لیے عورت کا چہرہ اور وجود یکھتے ہی دیکھتے ایک جسم میں تبدیل ہوجاتا ہے—؟

ناہید کی آنکھیں نیلے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس نے پلٹ کر پھر میری طرف دیکھا۔ وہ مسکرارہی تھی—’ وہ میرے باپ بھی ہو سکتے ہیں، بھائی بھی۔ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ وہاں بھی دوسری لڑکیوں یا عورتوں کے لیے ایک چور مرد ضرور رہتا ہے— میرا احتجاج اسی بات پر ہے کہ وہ چور مرد آتا ہی کیوں ہے— عورت کا وجود ہی جسم کیوں بنتا ہے، مرد کا وجود جسم کیوں نہیں بنتا— آپ نے ابھی سوال کیا، کیا کوئی ایسا حادثہ میرے ساتھ بھی ہوا ہے… ہاں ہوا ہے— نہ ہوا ہوتا تب بھی میں اس احتجاج میں ضرور شامل ہوتی…

کمال یوسف نے سگریٹ جلا لی تھی۔ اب وہ دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔

’میں جس دفتر میں کام کرتی ہوں، وہاں کا حادثہ ہے یہ۔ شام کے سات بج گئے تھے۔ عام طور پر میں پانچ بجے دفتر چھوڑ دیتی تھی۔ باس نے مجھے روک رکھا تھا۔ آفس کے زیادہ تر اسٹاف جا چکے تھے۔ مگر آٹھ دس لوگ ابھی بھی اپنی اپنی سیٹوں پر موجود تھے۔ سات بجے باس نے مجھے طلب کیا۔ میں کمرے میں گئی تو پتہ نہیں کیا سوچ کر اُس نے دروازہ بند کیا— میں نے سمجھا کوئی خاص بات ہوگی۔ کوئی ایسی راز کی بات ہوگی جو باس اوروں سے خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔ مجھے اس وقت تک اس کی نیت کا اندازہ نہیں تھا۔ میں مسکرا رہی تھی۔

’دروازہ بند کیوں کیا؟‘

وہ مسکراتا ہوا سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھ رہا تھا—’آپ نہیں جانتیں کہ دروازہ کیوں بند کرتے ہیں…؟‘

’نہیں۔‘ میں نے پھر مسکرانے کی کوشش کی—’ مجھے سچ مچ نہیں پتہ۔‘

’اس کے چہرے کا رنگ بدلا تھا—’ اب آپ اتنی بھولی بھی نہیں کہ آپ کو بتانے کی ضرورت ہو…‘

میرا ماتھا ٹھنکا۔ پہلی بار شدت سے مجھے خوف کا احساس ہوا۔ میں نے بند دروازے کی طرف دیکھا۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بول رہا تھا… میری پروموشن… ترقی… سیلری میں اضافہ… میرا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اور اچانک اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو تھام لیا۔ یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا اور میں اس کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی۔ میں نے اس کو دھکا دینے کی کوشش کی تو اس نے مجھے صوفے پر گرادیا… لیکن اپنا توازن کھو بیٹھا اور میرے لیے یہی لمحہ زندگی ثابت ہوا۔ خود کو بحال کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ میز پر کپ میں گرم چائے پڑی تھی۔ اور اس سے قبل کہ وہ اٹھ کر دوبارہ مجھ سے دست درازی کی کوشش کرتا میں نے گرم کھولتی ہوئی چائے اس کے چہرے پر اچھال دی…‘

ناہید ناز کے چہرے پر سلوٹیں نمایاں ہوگئی تھیں…

میں سانس روکے ناہید ناز کی کہانی سن رہا تھا۔

پھر کیا ہوا؟ پھرتو آپ دروازہ کھول کر بد حواسی کے عالم میں گھر روانہ ہوگئی ہوں گی؟‘

’نہیں۔ بالکل نہیں۔ میں کیوں گھر بھاگتی! میں نے کیا جرم کیا تھا۔ جرم اس بدذات نے کیا تھا۔ کھولتی ہوئی چائے نے اس کے چہرے کو جھلسا دیا تھا۔ وہ اپنی آنکھیں تھام کر زور سے چلایا… میں نے دروازہ کھول دیا۔ آفس میں موجود اسٹاف کے لوگ بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے تو میں پولس کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔

وہ صوفے پر چلاتا ہوا تڑپ رہا تھا۔ پانی… اُس کی آنکھیں گرم کھولتی ہوئی چائے سے جھلس گئی تھیں۔ میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ میں نے اسٹاف کو سمجھا دیا کہ اس بدذات کے ارادے برے تھے اور میں نے اس کی سزا دے دی…‘

سردی بڑھ گئی تھی۔ کمال یوسف کی سگریٹ بجھ چکی تھی۔ ہاتھوں کا تکیہ بنا کر چادر پر اس نے اپنے پائوں پھیلادیئے تھے۔ ناہید ناز کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی تھی۔

ایک لمحہ کے لیے انقلاب سو گیا تھا اور کئی سہمے ہوئے چہرے آنکھوں کی اسکرین پر جاگ گئے تھے۔

(2)

اگلی صبح انقلاب نے پھر دستک دی تھی۔

انڈیا گیٹ کے چہار اطراف انسانی ہجوم نظر آرہا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں نعرے لگاتے ہوئے حکومت اور انتظامیہ کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ کمال یوسف ناہید سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔

’اس موقع پروحیدہ کو بھی لانا چاہئے تھا۔‘

’وحیدہ کبھی نہیں آتی۔‘

’کیوں۔‘

’ایک تو اسے بھیڑ بھاڑ سے نفرت ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے…‘ ناہید نے مسکرا کر کہا— ’یہاں آکر بھی وہ تتلیاں تلاش کرتی…‘

مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کل شب بھی گفتگو میں دوبار خاموشی سے وحیدہ کا نام آیا اور آج بھی ناہید نے بہت پیار سے اس کے نام کا ذکر کیا تھا۔ ممکن ہے وحیدہ ان کی کوئی پڑوسی رہی ہو۔ مجھے اس نام میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر ناہید کے آخری جملوں نے مجھے چونکا دیا تھا— یہاں آکر بھی وہ تتلیاں تلاش کرتی— ممکن ہے چھوٹی سی بچی ہو یا ممکن ہے کوئی الہڑ دوشیزہ جس نے ابھی ابھی شباب کی منزلوں میں قدم رکھا ہو اور اس کے قدم رنگ برنگے پروں والی تتلیوں کے تعاقب میں دوڑ رہے ہوں— لیکن وحیدہ کا نام آتے ہی کمال یوسف کے ہونٹوں سے بھی ایک مسکراہٹ نمودار ہوجاتی تھی۔

ناہید نے شک کی آنکھوں سے میری طرف دیکھا—’ کیا لگتا ہے آپ کو—؟یہ… اس انقلاب کا کوئی نتیجہ نکلے گا—؟ یا یہ انقلاب بھی دوسرے ہنگاموں کی طرح پھُس ہو جائے گا۔ ‘ اس کی آواز میں غصہ کی جھلک تھی— کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں عورت محفوظ ہو۔ کھیل کی دنیا سے فلم انڈسٹری، کا رپوریٹ انڈسٹری، آشرم، سیاست … اسکول سے کالج اورگھر کی چہار دیواری تک۔ عورت نہ ہوئی رس ملائی ہوگئی۔ زبان نکالے ہوامرد ہوس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جی چاہتا ہے یہ زبان ہی کاٹ لوں…‘

کمال یوسف نے پلٹ کر میری طرف دیکھا—’ اکیسویں صدی میں بھی عورت ترقی سے الگ اپنے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے۔‘

ناہید نے بات آگے بڑھائی— عورت ہونے کا مطلب ہے غلامی، دوزخ اور خوف کی زندگی۔ ساری زندگی خوف کا ساتھ۔ ملالہ کو دیکھئے… اسکول میں پڑھنے والی معصوم بچی پر اسلحے تانتے ہوئے طالبانی نامرد نہیں گھبراتے— اب اس پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دیکھئے۔ عورت یا تو گھر سے باہر نکل نہیں سکتی۔ نکلتی ہے تو لباس کی قید میں اس کے ہاتھوں کے انگلیوں کا بھی باہر نکلنا ممنوع ہے۔ کانگو جہاں عورتوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان جہاں عورتیں مردوں کی برابری کر ہی نہیں سکتیں۔ اور ہمارے یہاں۔ دنیا کا چوتھا خطرناک ملک جہاں ہر وقفہ بعد ایک عورت ہوس کا شکار بن رہی ہوتی ہے۔ کمال پوچھتے ہیں کہ ناہید انتا غصہ کیوں ہے تمہارے پاس— غصہ کیوں نہ آئے۔ یہاں تو بیٹیوںکو جسم کے اندر ہی مار دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی اسمگلنگ اور تجارت ہوتی ہے۔ اور بڑی تعداد میں نابالغ بچیوں کو جسم فروشی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ رسم و رواج اور مذہب کے نام پر بار بار ان کا شکار کیا جاتا ہے۔‘

تیز تیز ہنگامے کی آواز سن کر ہم چونک گئے تھے۔ میں نے دیکھا پولس بے رحمی سے بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال یوسف کے ساتھ حیرانی بھری آنکھوں سے ناہید نے بھی یہ منظر دیکھا اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو کمال نے ہاتھ تھام لیا—

’تمہاری گود میں بچہ ہے۔‘

’ پھر… بچہ تھام لو…‘

’نہیں۔ اس کے باوجود تم نہیں جائو گی۔ پولس پتھرائو بھی کر سکتی ہے۔‘

دوچار عورتیں پولس سے الجھنے کے لیے آگے بڑھیں تو پولس کے آدمی نے ایک عورت کو دھکا دیا۔ دوسرا پولس والا ایک عورت کو بے رحمی سے کھینچتا ہوا دورلے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ کمال نے مضبوطی سے ناہید کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ناہید غصے سے غرا رہی تھی۔

’خود کیوں نہیں جاتے پولس سے الجھنے کے لیے۔ چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ مجھے بھی نہیں جانے دیتے۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی، اس عورت کوزمین پر گھسیٹنے اور دھکا دینے کی۔ کیوں چھونے کی کوشش کی اس نے ایک عورت کو۔ یہ سالے ذائقہ لیتے ہیں۔ بہانہ کوئی بھی ہو، عورت کو ٹچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں سالے…‘

’ناہید…‘ کمال’ اسے روکنے کی کوشش کررہا تھا۔

’یہاں اتنی بھیڑ ہے۔ یہ لوگ مار کیوں نہیں دیتے ان پولس والے بھیڑیوں کو— مردوں کو— نوچتے رہو عورتوں کو۔ ہوس کا شکار بناتے رہو۔ بسوں سے باہر پھینکتے رہو۔ گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں لگا دو۔ گدھ کی طرح للچائی نظروں سے گھورتے رہو— اور ہم خاموش رہیں۔ کیوں خاموش رہیں ہم…‘

ناہید نے زور سے کمال کو دھکا دیتے ہوئے ہاتھ چھڑا لیا۔ زمین پر پڑا ہواپتھر غصہ میں اس نے پولس والوں کی طرف اچھال دیا— مگر یہ تو اچھا ہوا کہ اس کی یہ حرکت کسی نے دیکھی نہیں— پولس والوں کے ارد گرد بھیڑ اکٹھا ہوگئی تھی… اسٹیج سے امن قائم رکھیں کا اعلان ہو رہا تھا۔ اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ کمال یوسف ناہید کا ہاتھ تھامے اسے کنارے لے آیا تھا۔ یہ جگہ اسٹیج کے قریب تھی۔ اس چھوٹی سی کچھ گھنٹوں کی ملاقات میں ،میں نے ناہید کا خوفناک چہرہ بھی دیکھ لیا تھا۔ میرے لیے یہ سوچنا مشکل نہیں تھا کہ کمال یوسف آخر کس طرح ناہید جیسی باغی عورت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوگا—؟ کیونکہ ناہید کا وجود ایک ایسی سونامی کی طرح تھا، جسے روکنا آسان نہیں تھا۔ میں اچانک چونک گیا تھا۔ ناہید کمال یوسف کا ہاتھ تھامے ہوئے پوچھ رہی تھی…

’تم کیا سمجھتے ہو، وحیدہ آتی تو اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھ پانا آسان ہوتا؟‘

’پتہ نہیں۔ لیکن اسے آنا چاہئے تھا۔ یہ انقلاب اس بات کی علامت ہے کہ ایک اکیلی لڑکی کو تنہا زندگی کا سفر کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ تنہا چلنے کا‘ تنہا باہر نکلنے کا…کسی بھی گھڑی… کسی بھی لمحہ…‘

’ اب وہ اتنی تنہا بھی نہیں ہے۔‘ ناہید نے بھنویں سکوڑتے ہوئے کہا… ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ زندگی جینا سیکھ رہی ہے۔‘

’کچھ بھی کہو۔لیکن وہ ہے ایک پر اسرار لڑکی۔ وہ ایسے چلتی ہے جیسے اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں پرچھائیاں چل رہی ہوں۔‘

’پرچھائیاں نہیں۔ آسیب‘ —ناہید کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

’آسیب؟‘ میں اس بار زور سے چونکا تھا اور یہی وہ لمحہ تھا، جب مجھے وحیدہ کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوا تھا۔ کون ہے آخر یہ لڑکی، جس کے بارے میں اتنی ساری کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ جسے یہاں کے ہنگامی ماحول میں بھی بار بار یاد کیا جا رہا ہے۔ آخر کچھ تو اس لڑکی میں خاص ہوگا۔

’کون ہے وحیدہ؟‘

’جان کر کیا کریں گے آپ؟‘ ناہیدناز نے ناگواری سے پوچھا۔

’بس یونہی۔‘

کمال نے قہقہہ لگایا—’ وہ قلوپطرہ کی طرح تو حسین نہیں۔ مگر مونا لزا کی طرح گہری اور پراسرار ضرور ہے— ایک مستقل خوف ہے، جو اس کے چہرے پر نظر آتا ہے۔‘

وہ شاید اس سے آگے بتانے کی کوشش کرتا لیکن تب تک منچ سے تقریر بھی شروع ہوچکی تھی اور وہ ناہید کے ہاتھوں کو تھام کر منچ کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ابھی کمال یوسف اور ناہید مجھ سے اس قدر واقف نہیں ہوئے کہ مجھے کچھ زیادہ بتاپانے کی حالت میں ہوں۔ بلکہ میری طرف سے معاملہ یہ تھا کہ میں ان کے گلے پڑنے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ اور اس درمیان نہ میں جوکر تھا اور نہ ہی دوستوفسکی کا ایڈیٹ۔ لیکن دلی گینگ ریپ کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ یہاں آنے والا ہر شخص خود کو ایک دوسرے سے وابستہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے یہ ہجوم نہ ہوکر سب ایک خاندان ہوںاور حق و انصاف کے لیے بہری حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہوں۔ میں نے ایسی ہزاروں تحریکوں اور انقلاب کو بے اثر ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے اس انقلاب سے بھی مجھے کوئی زیادہ امید نہ تھی—

اس وقت مجھے صوفیہ، وحیدہ اور ناہید میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آرہا تھا۔ ناہید کی بغاوت بہت حد تک اضطرار ی کیفیت کی غماز تھی۔ اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ایک نامعلوم خوف اس کے وجود میں بھی سانپ کی طرح کنڈلی مارکر اندر تک بیٹھا ہوا ہے۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ یا میں علم نفسیات کے خام مطالعہ سے اس کے اندرونمیں جھانکنے کی نا کام کوشش کر رہا تھا۔

میں نے دیکھا، وہ دونوں دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے۔ میں جگہ بناتا ہوا تقریباً ان دونوں کے پاس پہنچ چکا تھا۔

کمال کہہ رہا تھا۔ اب ہمیں واپس لوٹنا چاہئے۔

’کیوں؟‘

’کئی روز ہوگئے ۔ ہماری وجہ سے بچہ بیمار ہوسکتا ہے،

’ایک پوری نسل بیماری ہوچکی ہے۔‘ ناہید نے تیور سے کہا۔

’لیکن یہ ہمارا بچہ ہے۔‘

’وہ بھی کسی کی بچی تھی۔‘

’ میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘

’تم نے یہی کہا۔ تم مردوں میں ہمارے معاملے میں ذرا بھی صبر نہیں—وہ غصہ میں تھی—

’پہلی بار ایک بڑی آواز ہماری حمایت میں اٹھی ہے توتم اپنے قدم پیچھے کھینچ رہے ہو۔‘

’میں قدم پیچھے نہیں کھینچ رہا۔ میں نے بچے کی صحت کولیکر…‘

’بچے کی صحت ٹھیک ہے۔ اور میں اس کی ماں ہوں۔ تم سے زیادہ فکر ہے مجھے اس کی۔‘

جہنم میں جائو۔ اس بار کمال یوسف غصے سے بولا اور دوسری طرف منہ کر کے سگریٹ کے کش لینے لگا۔

اس درمیان میں نے پہلی بار کمال یوسف کے چہرے پر جھنجھلاہٹ دیکھی تھی اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ نارمل سے نارمل انسان بھی مسلسل ایسے واقعات کا شکار ہوکر ذہنی الجھنوں میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ اس وقت اس ماحول میں کمال یوسف پر کیا گزر رہی ہوگی— اور اسی سوال سے وابستہ ایک اور سوال تھا کہ ازدواجی زندگی میں محبتوں کو نبھاتے ہوئے یہ توازن کب تک قائم رکھا جا سکتا ہے—؟ یہ پتہ تو چل ہی گیا تھا کہ دونوں میں لو میرج ہوئی تھی۔ عام طورپر تعلیم یافتہ ترقی پسند لڑکے ایام شباب میں ایسی بولڈ لڑکیوں کو پسندتو کرتے ہیں— پھر شادی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ لڑکیوں کا یہ بولڈ نیس ازدواجی زندگی کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے یا تو کھو جاتا ہے یا پھر شوہر کے نظریہ سے آہستہ آہستہ محبوب میں چور دروازے سے ایک ایسے مرد کی واپسی ہوجاتی ہے، جو اس بولڈ نیس کو پسند نہیںکرتا۔ اور اس کے بعد فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ میری فکر یہ تھی کہ کمال یوسف توازن کے ساتھ اس رشتہ کو کب تک نبھاپاتا ہے؟ یا کوئی جھنجھلاہٹ بھرا لمحہ اسے ہمیشہ کے لئے ناہید ناز سے دور لے جائے گا۔

پھر ناہید ناز کا کیا ہوگا؟

کیا کوئی دوسرا کمال یوسف اسے مل سکے گا؟ یا اگر فرض کر لیتے ہیں، ایسا ہوتا ہے تو ناہید کی بغاوت یا ناہید کے اندر کی باغی عورت پھر سے کسی کمال یوسف کو اپنی زندگی میں جگہ دے گی۔؟‘

یہ سوال ایسے تھے جن کا ابھی کوئی جواب میرے پاس موجود نہیں تھا۔ ممکن ہے کمال یوسف اپنے مزاج کے مطابق اس رشتہ کونبھانے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر مجھے یہ دشوار نظر آرہا ہے— یہ میلان عام مردوں کا نہیں ہے اور ایسی عورتوں سے نباہ کرنا شاید آسان بھی نہیں ہوتا— ایسے ہزاروں سوال تھے لیکن ابھی مجھے وقت کا انتظار کرنا تھا—

’ایسی عورتوں سے نباہ کرنا آسان نہیں ہوتا‘‘کا سیدھا سا جواب ہے کہ عام طور پر مرد اساس معاشرے نے مردانگی کے ساتھ سختیاں، غیض و غضب، ظلم و ستم اور عیش و نشاط کی ساری کہانیاں خود تک محدود رکھی ہیں اور صدیوں کے فسانے میں مردوں نے ان خوبیوں سے خود کو جوڑ کر رکھا ہے۔ اس لیے عورت کی ذرا سی بغاوت یا ’مردانگی‘ کے مظاہرے کو برداشت کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ’عورت پن‘ ایک کمزور سا احساس ہے اور ’مردانگی‘ مرد کی عیش پسند طبیعت اور فطرتاً سختی کی طرف اشارہ ہے اور آمر مرد بھی یہ قبول کرتا ہے کہ عورت میں یہ سختیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بر خلاف اگر عورت میں بغاوت کے تھوڑے بھی عنصر چھپے رہ جاتے ہیں تو مرد ہر طور اُسے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ صدیوں میں یہ روایت ٹوٹ ضرور رہی ہے مگر عورت آج بھی گھٹن اور بندش کا شکار ہے اور اس سے ذرا بھی باہر نکلنا چاہتی ہے تو یا تو صوفیہ ہو جاتی ہے یا پھر ناہید ناز— میں صوفیہ کو دیکھ چکا تھا اور اب مجھے اس کہانی کے لیے ، میں معافی چاہوں گا۔ مگر بطور ناول نگار مجھے بھی اس دلچسپ کہانی کے لیے آگے کے واقعات پر نظر رکھنی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے آغاز میں بتا یا، صوفیہ کے اپنے کمرے میں واپس لوٹنے، دلی گینگ ریپ، ناہید ناز اور کمال یوسف سے ملاقات اور میرے گھٹنے میں چوٹ لگنے تک، یہ واقعات کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کو جوڑ رہے تھے۔ اور مجھے اس بات کا احسا س نہیں تھا کہ یہ ساری کڑیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوکر وقت کے صفحے پر ایک انوکھی اور دلچسپ کہانی کو تحریر کرنے جا رہی ہیں۔

اس درمیان صرف اتنا ہوا تھا کہ میں ناہید ناز اور کمال یوسف کے کافی قریب آچکا تھا۔ اور یہ اطلاع دینا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد یہ دونوں نینی تال واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دوسری تحریکوں یا انقلابات کی طرح اس انقلاب کی بھی ہوا نکل گئی تھی۔ بلکہ اس انقلاب کے ایک ہفتہ کے اندر زنابالجبر کے کئی حادثے دلی میں ہی سامنے آچکے تھے۔ حیوانیت اور درندگی کا سلسلہ جاری تھا۔ جنتر منتر اور انڈیا گیٹ میں جمع ہوئے انقلابی واپس اپنی اپنی دنیا میں پہنچ چکے تھے۔ شور تھم گیا تھا۔ عورت دوبارہ خوف کی دہلیز پر تھی۔ اور دنیا مردوں کی مردانگی کے ساتھ اسی طرح دوڑ رہی تھی جیسے روز ازل سے دوڑتی آئی ہے—

ناہید ناز اور کمال یوسف قرول باغ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ لیکن نینی تال واپسی سے پہلے ایک رات میں نے انہیں ڈنر کے لئے اپنے گھر بلایا تھا۔ تین کمروں والے فلیٹ میں ،میں اکیلے رہتا ہوں۔ میں اپنی تنہائی میں خوش ہوں۔ کتابیں میری دوست ہیں۔ میں نے اُن کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں رکھی تھی۔ ۷؍ بجے بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے پھولوں کے’بکے‘ کے ساتھ دونوں کھڑے تھے۔ مسکراتے ہوئے۔ میں نے پھولوں کا تحفہ قبول کرتے ہوئے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا…

==

کھانے سے فارغ ہوکر ہم ٹیرس پر آگئے۔ یہاں پھولوں کے گملوں کے درمیان بوٹی سی چیئر پر بیٹھ گئے۔ گملوں کے درمیان رنگین قمقمے بھی روشن تھے۔ ناہید اور کمال یوسف کو میرا گھر پسند آیا تھا۔

’آپ اکیلے ہو کر یہ سب کیسے کر لیتے ہیں۔‘

’مجھے اچھا لگتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ان سے ہو کر بھی میری تخلیق گزرتی ہے۔ مجھے بکھرائو اچھا نہیں لگتا۔ چادر پر ایک ہلکی سی سلوٹ ہو تو مجھے لکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ کتابیں بکھری ہوں تو میں لاکھ لکھنا چاہوں مگر قلم اپاہج ہو جائے گا۔‘

’تعجب ہے۔‘ کمال یوسف نے ایک گملے کی طرف اشارہ کیا… یہ رات کی رانی ہے نا…؟‘

آپ کو پسند ہے… میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’ہاں۔ اکثر لکھتے ہوئے ٹیرس پر آجاتا ہوں اور واپسی میں جب لکھنے کی میز تک پہنچتا ہوں تو کہانیاں میرے سامنے ہوتی ہیں۔‘

میں نے دیکھا، ناہید ٹیرس کے دائیں طرف کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک درخت کی آڑ میں ایک نوجوان لڑکا، ایک لڑکی کا بوسہ لے رہا تھا… ناہید کی آنکھوںمیں چمک تھی۔میرے لیے یقینی طور پر یہ ایک عام سی بات تھی اور میں اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ محبت میں ہر گناہ جائز ہے۔ محبت کے ہر ذائقے میں ایک نئی جنت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور محبت کے لئے کوئی عمر نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ اور یہی موقع تھا جب ناہید ناز کی نفسیات پر کھل کر چوٹ کی جا سکتی تھی۔ نتیجہ کے طور پر مجھے امید تھی، ناہید کی شخصیت کے بارے میں مزید جاننے کا کچھ موقع مل ہی جائے گا۔

میں نے غور سے اس نوجوان جوڑے کی طرف دیکھا۔ پھر ناہید کی طرف مڑا۔

’اس طرح کی بے حیائی یہاں عام ہے۔‘

’ بے حیائی!‘ ناہید غصے سے میری طرف مڑی تھی— محبت کرنے کو آپ بے حیائی سمجھتے ہیں۔؟‘

’لیکن محبت گھر میں بھی تو کی جا سکتی ہے۔‘

’باہر کیا پرابلم ہے۔ اور محبت کے لیے صرف گھر کی شرط کیوں—؟ جہاں بھی موقع ملے… میرے خیال میں محبت کو کسی بھی طرح کی سماجی، قانونی مذہبی بندش سے بغاوت کردینی چاہئے۔‘

’ کیا یہ بغاوت آسان ہوتی ہے؟‘

’مشکل بھی نہیں ہوتی۔ ہمت چاہئے۔‘

’ماں باپ ہمت کو کمزور کر دیں تو…‘

’ماں باپ غلطی کریں توانہیں ان کے جرم کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ اور ہمارے معاشرے میں عام طور پر غلطیاں ماں باپ ہی کرتے ہیں۔ لڑکی بڑی ہو تو بس ایک ہی فکر کہ کہیں بھی شادی کر دو۔ اور اگر لڑکی نے خلاف توقع اپنی پسند کا لڑکا چن لیا تو ان کے غرور کو دھچکا لگتا ہے۔ کیوں بھئی آپ اپنی زندگی جی چکے۔ اب ہمیں جینے دیجئے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی آپ ہی کی طرح ایک بندھی بندھی بیکار سی زندگی جینے پر مجبور ہوں۔ ہماری زندگی ہے بھائی۔ ہمیں جینے دیجئے۔

لیکن وہ ماں باپ ہوتے ہیں۔‘ کمال یوسف نے مداخلت کی۔

’تو؟ ماں باپ ہیں تو ہمیں مار ڈالیں۔ یہی ذمہ داری ہے ان کی۔ ماں باپ ہیں تو ایک حد میں رہنا چاہئے انہیں۔ کیونکہ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ہماری اپنی زندگی کی شروعات ہوجاتی ہے جو ہمیں اپنے طریقے سے جینی ہوتی ہے۔ ہماری شناخت کیوں ماں باپ کی شناخت یا مذہب ، ماں باپ کا مذہب ہونا چاہئے…؟ صرف اس لیے کہ انہوں نے ہمیں پیدا کیا ہے۔‘

میں نے غور کیا، ناہیدناز کاپورا چہرہ غصہ کی آگ میں سلگ رہا تھا۔ ’اکثر ماں باپ اس لائق نہیں ہوتے کہ انہیں ماں باپ کہا جائے۔ کیونکہ پیداہوتے ہی وہ آسمانی کتابوں سے دومختلف طریقے ہمارے لیے ڈھونڈ لے آتے ہیں۔ لڑکوں کے لئے رہنے کے طریقے الگ— لڑکیوں کے جینے کے طریقے الگ— دنیا کے زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک دقیانوسی ماں باپ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے وجود کو مشکل سے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘

کمال یوسف اس پوری گفتگو کے درمیان خاموش تھا۔ اور یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ وہ ناہید ناز کی گفتگو سے متفق نہیں مگر ابھی کچھ بھی بولنا اس کے لئے آسان نہیں تھا۔ ناہید ناز خاموش ہوئی تو مجھے چائے تیار کرنے کا موقع مل گیا۔ جب چائے ٹرے میں لے کر لوٹا تو ٹیرس پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ٹیرس سے باہر وہ دونوں سائے اب بھی موجود تھے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بولا۔

’دیکھئے۔ وہ لڑکی ابھی تک ہے۔ یہ لڑکیاں مذہب اور معاشرے کا فرق تک بھول گئی ہیں…‘ میں نے ایک معمولی بات کہی تھی لیکن اچانک میں نے غصہ سے کانپتے ہوئے ناہیدناز کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ مجھ پر برس پڑی تھی۔

’آپ بھی جو نا گڑھ کے ہجڑے نکلے۔‘

’جوناگڑھ…‘ میں ایک دم سے چونک گیا تھا…

’میں وہیں کی رہنے والی ہوں…‘ کہہ کر وہ رکی نہیں۔ غصہ سے دہاڑتی ہوئی بولی— وہاں پیڑ کے سائے میں لڑکا بھی ہے۔ پھر لڑکے سے آپ کو شکایت کیوں نہیں۔‘ اس نے لڑکے کی شان میں گندی گالیوں کا پورا پٹارہ کھول دیا— لڑکی تو معصوم ہے۔ اور کیا جانتے ہیں آپ لڑکی کے بارے میں—؟ ایک معصوم تیرہ چودہ، پندرہ سال کی لڑکی کے بارے میں—؟ وہ اپنے احساس کی پینٹی میں ہوتی ہے۔ آپ کے ذراسا چھوتے ہی گیلی ہو جاتی ہے۔ قصور لڑکی کا ہے یا اسے بنانے والے کا ؟ سیکس آپ سے زیادہ لڑکی کو دیا تو لڑکی قصووار ہوگئی۔ بھگوان نے ایک غلطی اور بھی کی۔ عورت کو لینے والا بنایا اور مرد کو دینے والا— مرد سو غلطیاں کرے تو پاک صاف۔ عورت غلطیاں کرے تو آپ چرترہین، کلٹا، فاحشہ رنڈی اور پتہ نہیں کن ناموں سے پکارنے لگتے ہیں— میرے مطابق یہ تمام نام آپ کے ہونے چاہئیں۔ مردوں کے نام… رنڈی مرد… بھڑوامرد… کلٹا مرد… فاحشہ مرد… آپ نے کائنات کے سب سے حسین تصورپر اپنی گندگیاں، بد صورتی اور خامیاں چھپانے کے لئے میل ڈالدی— مجرم تو آپ ہوئے۔‘

ناہید ناز نے ٹھنڈی سانس بھری۔ چائے کا کپ خالی کر کے بوٹی کرسی کے نیچے ڈال دیا… اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا… کچھ وقفہ تک سوچتی رہی جیسے اپنے توازن میں لوٹنا چاہتی ہو یا سلگتے الفاظ کے سرخ دہکتے کوئلے کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہو… وہ مسکرا رہی تھی…

’آپ بھی جو ناگڑھ کے ہجڑے نکلے۔ساری غلطی لڑکی کی ۔مجرم عورت … واہ رے… دو وجود آپسی اتفاق سے کمرے میں بند— شادی نہیں ہوئی تو محبت کے رشتے بھی نا جائز۔ دونوں بندہیں لیکن ذمہ دار ہے تو لڑکی۔ سماج کو خراب کر رہی ہے تو لڑکی۔ بدنامی کا سارا طوق اسی کے گلے پر۔ اور مرد بڑے پارسا ٹھہرے۔‘

’ لیکن اس طرح تو آپ مغرب کی حمایت کر رہی ہیں۔ غیر ضروری آزادی کی حمایت کر رہی ہیں۔ کیا آپ نے سوچا ہے ان خیالات کو فروغ مل جائے تو بے راہ روی میں اضافہ ہو جائے گا۔ رشتوں کا فرق مٹ جائے گا۔ مذہب اسی توازن کا تو نام ہے۔‘

وہ پوری شدت سے چیخی تھی—’ مذہب آپ کے گندے انڈروئیر میں ہوتا ہے۔ اور مرد جب تب عورتوں کے استحصال کے لیے مذہب کو اسی میلے انڈر ویر سے نکال لیتے ہیں۔ اورمجھے معاشرہ، مذہب آزادی کا خوف نہ دکھائیے— آپ جیسے جوناگڑھ کے ہجڑوں نے مذہب کو، عورت کو، سماج کو صرف اپنی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔ یہ وراثت آپ سے ایک دن چھین لی جائے گی۔ اور آپ مغرب کی بات کرتے ہیں۔ آپ کا معاشرہ کیا ہے۔ یہاں لڑکیاں کوکھ میں مار دی جاتی ہیں۔ بڑی ہو جاتی ہیں تو اپنے رشتہ داروں کی جنسی جبلت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اسکول اور کالج جاتی ہیں تو وہاں بھی سیکس کا کھلونا ہوتی ہیں اور آپ کے ہر عمر کے مرد اسے گھورتے رہتے ہیں۔ آزادی تو آپ کی چھینی جانی چاہئے ۔ آپ کو ساڑی پہنا کر ،ہاتھوں میں چوڑیاں ڈال کر گھروں میں بند کر دینا چاہئے۔ میں سائنس سے صرف ایک تقاضہ چاہتی ہوں۔ بچے مرد پیدا کریں اور عورت بچہ پیدا کرنے کے عذاب سے آزاد ہوجائے— آپ عورت کو سڑکوں پر بھی مارتے ہیں۔ چلتی ہوئی بسوں میں بھی۔ اس کے ساتھ گزارے لمحوں کو عیش کا نام دیتے ہیں اورہر بار آپ کی مردانگی کا ناجائز استعمال ہونے کے بعد وہی آپ کے لیے غلط ہو جاتی ہے۔ آپ کا پورا مرد سماج دوغلا ہے صاحب…‘

وہ طنز کے ساتھ ہنس رہی تھی لیکن چہرے پر جھلستی آگ کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔

میں آہستہ سے بولا… ’مجھے ایسا کیوں احساس ہورہا ہے کہ مغرب کے پردے میں آپ ناجائز سیکس کی وکالت کر رہی ہیں…‘

ناہید ناز نے قہقہہ لگایا۔ پرجوش قہقہہ ۔ کمال یوسف کی طرف دیکھا۔ پھر میری طرف— سیکس ناجائز کب سے ہوگیا؟ ناجائز ہے تو دنیا کے سارے رشتے ناجائز۔‘ وہ ہنس رہی تھی— دو لوگ ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ آپ کی گندی دنیا میں محبت تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بہت ہے۔ لیکن آپ کے معاشرے کو ان کا ساتھ رہنا پسند نہیں تو یہ سماج شادی کا جائز سرٹیفکیٹ تھمانے چلا آتا ہے۔ شلوک اور دعا پڑھنے سے، رسوم سے گزار کر آپ کے یہاں ان معاملات کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔‘

’ آپ نے کیوں شادی کی، آپ بھی تو بغیر شادی کیے…‘

’لو… وہی جو ناگڑھ کے ہجڑوںکی طرح بات۔‘ ناہید زور سے ہنسی—‘  ان سے پوچھئے۔ اس نے کمال یوسف کی طرف اشارہ کیا— ان کو لیوان ریلیشن شپ منظور نہیں تھا… وہی… لوگ کیا کہیں گے۔ ارے لوگ جائیں بھاڑ میں۔ لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ اور اب تو آپ کا بے بس اور لاچار قانون بھی ایسے رشتوں کو تسلیم کررہا ہے…‘

میں غور سے اس کے چہرے کی نفسیات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس وقت کوئی بھی نتیجہ برآمد کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ کمال یوسف کی حالت مجھ سے چھپی نہیں تھی۔ وہ کئی بار اس گفتگو میں مجھ سے نظریں چرانے کی کوشش کرتا نظر آیا۔ جیسے یہ مکالمے اسے پسند نہ آئے ہوں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ناہیدناز جیسی کھلی ہوئی عورت کے سامنے وہ اس قدر لاچار تھا کہ اپنے خیالات کا اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کمال یوسف کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ مجھے ہوچکا تھا کہ ناہید ناز کی باتوں پر متفق ہونا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ بلکہ اب یہاں آنے کے بعد وہ شایداس بات کے لیے بھی پریشان تھا کہ اسے ناہید کو لے کر یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر اس سے ایک بات اور بھی ثابت ہوئی تھی کہ ناہید کا ماضی کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہوگا— کیونکہ جو باغی عورت اس کے وجود سے باہر آنے کو بے تاب ہے اس میں ایک بڑا ہاتھ اس کے اپنے گھر کا بھی رہا ہوگا۔ مگر ظاہر ہے ابھی اس بارے میں کوئی بھی بات ناہید ناز سے نہیں پوچھی جا سکتی تھی—

چلتے وقت کمال یوسف نے اپنا کارڈ دیا۔

’آپ نینی تال آئیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔‘

’کیوں نہیں ۔ میں ضرور آئوںگا۔‘

’اب اجازت دیجئے۔‘

دونوں کے جانے کے بعد بھی آگ کی وہ تپش باقی تھی جو ناہید ناز اپنی گفتگو سے چھوڑ گئی تھی۔

اس کے کچھ دنوں بعد ہی میں اپنے گھر کی سیڑھیوں سے الجھ کر گر گیا تھا۔ ڈاکٹر نے ایک ہفتہ آرام کا مشورہ دیا تھا۔ اور اسی درمیان نینی تال سے مجھے کمال یوسف نے فون کیا تھا۔ دلی میں کیا کر رہے ہیں۔ یہاں آجائیے— ممکن ہے یہاں آپ کو ایک دلچسپ کہانی مل جائے—

اور اسی کے بعد میںنے نینی تال جانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔

تیسرا حصہ

ریگِ جنوں

          One is not born, but rather becomes, a woman.

—Simone de Beauvoir

(1)

ہری بھری گل پوش پہاڑیوں کے درمیان کئی خوبصورت کاٹیج بنے ہوئے تھے۔ خوشگوار موسم، پہاڑی جھیلوں اور جھرنوں کی مترنم آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ مرغزاروں کے درمیان کی سڑک پر کبھی کبھی کوئی سواری یا کار تیزی سے رینگ کرپہاڑیوں کی دوسری سمت میں اوجھل ہوجاتی… حسین پھولوں اور سبز پتوں والے درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطار کے درمیان سفری بیگ کندھے پرلٹکائے ہوئے ان وادیوںمیں سیر کابھی اپنا مزہ تھا۔تالوں میں تال،اور سب سے حسین اپنا نینی تال کہنے والے باشندے جب فخر سے مسکراتے تو ان کے چہروںپر نور کی کرنوں کا بسیرا ہوتا… اور جب وہ میزبانی کے فرائض انجام دیتے تو اس شہر کے تعلق سے ہزاروں کہانیاں ان کی زبان پر ہوتیں۔ کمایوں کے طول عرض میں یوں تو کتنے ہی تالوں میں قدرت نے اپنی سخاوت کا خزانہ کھول رکھا ہے لیکن پہاڑیوں اور مرغزاروں سے گھرے نینی تال پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان نظر آتی ہے۔ تال میں پہاڑیوں اور درختوں کے عکس جب سورج کی کرنوں کے ساتھ اترتے ہیں تو سیاحوں کی آنکھوں کا نور کچھ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ پہاڑی جھرنوں میں تیرتے ہوئے بطخوں کا جھنڈ، چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور رنگین موٹر بوٹ اور شب پر پانی میں اترتی ہوئی چاندنی کی کرنیں— پھر کون ہے جس کی آنکھیں ان حسین مناظر میں گم نہ ہو جائیں…

یہ ایک کاٹیج تھا جس کے باہر کوئی بھی نیم پلیٹ نہیں تھی۔ ایک خوبصورت سا لوہے کا دروازہ تھا۔ اور یہاں سے سامنے دلکش پہاڑیوں پر جمی ہوئی دھند کا نظارہ کچھ ایسا تھا جو اس لڑکی کو دیر تک۔ اس منظر میں گم ہو جانے پر مجبور کر رہا تھا… پہاڑی پرندے اڑتے ہوئے اس طرف آتے تو لمحہ بھر کیلئے اس کے ساتھ ان کی جانب اٹھ جاتے۔ پرندوں کے آسمان پر اوجھل ہوتے ہی وہ دوبارہ پہاڑیوں کی طرف دیکھنے لگتی…

کاٹیج کے اندر کی ڈرائنگ روم میں اس وقت دو بزرگ ہستیاں ہندی کے قرآن شریف پر جھکی ہوئی تھیں۔

بوڑھے مرد نے آہستہ سے اپنی بیوی سے کہا۔ ’ہاں… کل جس جگہ تم نے چھوڑا تھا، اب وہاں سے آگے سنائو۔‘

میں چشمہ بھول آئی ہوں۔‘ بزرگ عورت نے کہا۔بہتر ہے آج تم سنائو۔‘

بوڑھے مرد نے عقیدت سے قرآن شریف کے صفحے پلٹے… اور پھر— بآواز بلند پڑھتا بھی جاتا تھا اور درمیان میں ٹھہر کر اپنی بیوی سے کچھ پوچھتا بھی جا رہا تھا۔…

’’لوگوں کے لئے من پسند چیزیں… استریاں،سنتان، سونے چاندی کے ڈھیر، چنے ہوئے گھوڑے ، چوپائے اور کھیت کی زمینیں بڑی لبھاونی بنا دی گئی ہیں۔ لیکن یہ سب دنیا کے لیے، کچھ دنوں کی چیزیں ہیں۔ حقیقت میں جو اچھا ٹھکانہ ہے وہ اللہ کے پاس ہے۔ میں تمہیں بتائوں کہ ان سے اچھی چیز کیا ہے، جو لوگ تقویٰ کی نیتی اپنائیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہے… جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جہاں انہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی… پاکیزہ بیویاں ان کی ساتھی ہوں گی۔ اور اللہ کی خوشی انہیں حاصل ہوگی۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مالک ہم ایمان لائے ہماری خطائوں کو معاف کر۔ اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا لے۔ یہ لوگ جو صبر سے کام لینے والے ہیں۔ سچے ہیں۔ فرماںبردار ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے معافی کی دعائیں مانگا کرتے ہیں…‘

بوڑھے مرد نے سفید شال، جو پڑھتے ہوئے کندھے سے اتر گئی تھی، دوبارہ اپنے کندھے پر رکھی۔ پلٹ کر چمکتی آنکھوں سے بیوی کی طرف دیکھا۔ بزرگ بیوی کے ہونٹوں پر شکایت تھی۔

’تم بہت تیز پڑھتے ہو۔ میں اپنا چشمہ لے کر آتی ہوں۔ ‘ وہ سرعت سے اٹھی اور دوسرے ہی لمحہ مسکراتی ہوئی واپس آکر صوفہ پر بیٹھ گئی۔

وحیدہ نہیں ہوتی تو…‘ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس نے ہم اکیلے بوڑھوں میں زندگی ڈال دی ہے۔‘

’اور دیکھو تو کوشلیا… ہمارے لیے یہ آسمانی کتاب بھی لے کر آگئی۔‘‘ بزرگ مرد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی— ’میں ایک عرصہ سے پڑھنے کا خواہشمند تھا۔ اور دیکھو تو… جیسے گیتا پڑھ رہا ہوں۔ گیتا میں ہے قرآن، تو قرآن میں گیتا۔ اقبال کتنا پہلے کہہ چکے تھے۔‘

کوشلیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’ وحیدہ جب پڑھتی ہے تو لگتا ہے پھول جھڑ رہے ہوں۔‘

’وحیدہ کہاں ہے…؟‘

’آواز دوں کیا؟‘‘

’نہیں۔ کہاں جائے گی۔ پینٹنگ کرے گی یا خاموشی سے باہر کے نظارے دیکھے گی۔ بیوٹی پارلر سے بھی چھٹی لے رکھی ہے۔‘

مرد بزرگ نے آہستہ سے کہا— ہاں تم آگے سنانے والی تھی۔

بزرگ عورت نے آنچل برابر کیا اور روانی سے پڑھنا شروع کیا۔

’’اللہ نے خوداس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور فرشتے بھی اس سچائی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک مذہب صرف اسلام ہے…‘

بزرگ مرد اس جملے پر ٹھہرا… کوشلیا نے بھی ایک سکنڈ کے لیے ٹھہر کر بزرگ مرد کے چہرے کی طرف دیکھا۔

’اس کے معنی وحیدہ سے پوچھنے ہوں گے۔‘

بزرگ نے آہستہ سے کہا۔’ اسلام کا مطلب ہوتا ہے سچا راستہ۔ ممکن ہے یہاں یہی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہو۔‘

کوشلیاکے ہونٹوں پر سوال تھے—’ یعنی ہمارا دھرم کوئی دھرم نہیں۔‘ اس کے لہجہ میں فکرتھی۔ اب یہ بات وحیدہ ہی بتا ئے گی۔‘ کیوں… میں آواز دیتی ہوں۔‘

پتلی سی گردن پر وزن دیتے ہوئے چہرے کو دروازے کی طرف گھمایا اور صدا لگائی…‘

’وحیدہ…‘

کچھ ہی لمحے بعد تیزی سے وہ لڑکی بھاگتی ہوئی آئی جو کچھ دیرپہلے پہاڑیوں کی دھند دیکھنے میں مصروف تھی…

’جی امی… جی ابو… آپ نے بلایا…‘

’ دیکھا… پہلی ہی آواز پر…‘ کوشلیا نے پیار سے وحیدہ کی طرف دیکھا… کہاں تھی بیٹی…‘

’ باہر تھی امی…‘

’کیوں…‘

’زندگی کو سمجھ رہی تھی امی…‘

ناگارجن یعنی بوڑھے مرد نے قہقہہ لگایا—’تو میری بیٹی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم تو ابھی بھی نہیں سمجھ پائے بیٹی…‘

’ جی ابو…‘

’ اچھا۔ کچھ سمجھ میں آیا بیٹی…‘

’جی ابو… باہر پہاڑیاں ہیں… دھند ہے… پرندے کھائیوں میں اپنی روح چھوڑ جاتے ہیں… راتیں نیلے آسمان سے ان کی حفاظت کرتی ہیں…‘

’ روحوں کی…؟‘

’ جی ابو …‘

کوشلیا غور سے وحیدہ کا چہرہ پڑھ رہی تھی…

’ یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں وحیدہ‘

’پرندوں سے— وہ ہماری دوست ہیں…‘

ناگارجن نے پھر ایک قہقہہ لگایا… زندگی ایک چھلا وہ ہے بیٹی… اچھا کیا جو تم نے پرندوں کو اپنا دوست بنالیا۔ انسان تو چھلا وہ ہوتے ہیں… اب دیکھو… میرے ہی دو بیٹے تھے۔ ایک سنگاپور میں دوسرا امریکہ میں… ایک عمرمیں دولت نشہ بن جاتی ہے۔ پرندے اڑ جاتے ہیں اور بوڑھے موت کے انتظار میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔‘

’ایسا کیوں کہتے ہیں ابو …‘

بوڑھے نے شال برابر کی۔ سرپر گرم ٹوپی تھی۔ سفید چہرہ اس وقت کچھ زیادہ ہی سپید ہو گیا تھا۔ ناک لال سرخ ہورہی تھی۔ قد بھی کوئی پانچ فٹ ۸ انچ کے قریب۔ دبلے پتلے۔ آنکھیں فکر میں ڈوبی ہوئیں۔ ایک قطرہ آنسو آنکھوں میں خشک ہوگیا۔ کوشلیا نے پلٹ کر دیکھا…

’ ایک وقت آتا ہے جب بچوں کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔‘

’ ہاں اور اس زندگی کے لیے بچے، ہمارے درمیان گزارے ہوئے لمحوں کے ساتھ ہمیں بھی بھول جاتے ہیں۔‘

’ایسا نہیں ہے ابو۔‘

ناگارجن نے پلٹ کر اس معصوم سی بچی کو دیکھا۔ آنکھوں میں ایک چمک دوڑ گئی— کہاں سے آگئی یہ فرشتہ اُن کے گھر ! اگر وحیدہ نہیں آئی ہوتی تو…؟ انسانوں سے دور اور پرندوں کو اپنانے والی، قدرت کے سحر میں ڈوب جانے والی وحیدہ نے گھر کی اداسی اور ویرانی کو بڑی حد تک ختم ضرور کر دیا تھا۔ آنکھوں میں تین سال پہلے کی ایک تصویرلہرائی… یہاں سے دو کیلو میٹر آگے ایک جھیل ہے جسے چاندرک جھیل کہتے ہیں۔ وہاں سے دو قدم آگے لورزپوائنٹ ہے۔ یہاں اکثر خود کشی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس وقت وہ خود گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ کوشلیا نے ہاتھ کے اشارے سے چلا کر کہا—

’ وہ دیکھو…‘

سامنے پہاڑیوں پر جھکی ہوئی ایک لڑکی تھی۔ کندھے سے جھولتی ہوئی سیاہ چنری۔ چوڑی دار پائجامہ اور کرتا پہنے— وہ پہاڑیوں پر یوں جھکی تھی جیسے چھلانگ لگانا چاہتی ہو… ناگارجن نے گاڑی روک دی۔ کوشلیا تیزی سے گاڑی سے اتری۔ اور دوڑ کر آگے بڑھ کر لڑکی کے ہاتھوں کو تھام لیا…

’ کیا کرنے جا رہی تھی…‘

’ گہرائی ناپنے جا رہی تھی…‘

’ گہرائی…‘

ناگارجن نے شک سے پوچھا— اکیلی ہو؟‘

’ہاں سب ہی تو اکیلے ہیں۔‘

’ پائوں پھسل جاتا تو…؟‘

’ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی— پھر پرندہ بن جاتی… ایک چھوٹی سی گوریا…‘

’ مرنے سے ڈر نہیں لگتا؟‘

’ زندگی سے لگتا ہے…‘ اُس کی آواز سرد تھی۔

ناگارجن کو اس لڑکی پر پیار آگیا تھا۔

’ گاڑی میں بیٹھو۔ یہاں سے کچھ دوری پر ہی میرا گھر ہے۔‘

ڈرائنگ روم میں ڈرائی فروٹس اور پھلوں کے ساتھ وحیدہ کے چہرے پر رونق آگئی تھی۔ وہ گرلس لاج میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ایک چھوٹا سا بریف کیس تھا اس کے پاس… ناگارجن اور کوشلیا نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے زندگی کے سارے راز چھپا لیے۔ صرف اتنا بتایا…

’ میں تنہا ہی اس زندگی کو سمجھنا چاہتی ہوں۔‘

پھر ناگارجن نے اس کے بعد کبھی اس کے ماضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گرلس لاج سے بریف کیس آگیا۔ اور وحیدہ خاندان کا ایک حصہ بن گئی۔ مگر وحیدہ کو دیکھتے ہوئے ہر بار ایسا لگتا ، جیسے زندگی کے ہزاروں راز اس کے سینے میں پوشیدہ ہوں۔

ناگارجن خیالات سے واپس آئے تو سامنے وحیدہ کے شگفتہ چہرے پر فکر کی متعدد لکیریں دیکھ کر چونک گئے۔

’ کیا بات ہے بیٹی…‘

’کچھ نہیں ابو… بس جی کبھی کبھی گھبرا جاتا ہے۔‘

’ لیکن تم تو تنہائیوں سے پیار کرتی ہو۔‘

’ کبھی کبھی تنہائیاں بھی گفتگو نہیں کرتیں۔‘

کوشلیا۔ آہستہ سے بولی— ’کیوں میری بیٹی کو پریشان کر رہے ہیں…‘

وحیدہ جلدی سے بولی… ’نہیں امی … ابو پریشان نہیں کرتے…‘

ناگارجن نے پیار سے وحیدہ کو دیکھا۔

’اچھا ایک بات پوچھوں بیٹی…؟‘

’ ہاں۔‘

’ تم پرندوں سے کیا باتیں کرتی ہو؟۔

’ میں تو ان سے ڈھیر ساری باتیں کرتی ہوں…‘

’ کیا وہ تمہاری باتوں کو سمجھتے ہیں۔؟‘

ہاں۔ انسانوں سے زیادہ…‘

’ کیا وہ بھی تم کو اپنی باتیں بتاتے ہیں۔‘

’ ہاں… وہ کہتے ہیں تم ہماری طرح بن جائو…‘

’پھر تم کیا کہتی ہو؟‘

خدا نے جس کو جیسا پیدا کیا ہے ، اس کو اسی طرح رہنا ہے۔

واہ… کوشلیا نے تیز آواز میں کہا…

اچھا۔ تم پرندوں سے کیا کہتی ہو…‘

’میں پوچھتی ہوں۔ زندگی کیا ہے… وہ پروں کو پھیلا کر اڑتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ ہے زندگی… میں کہتی ہوں… مجھے تو اڑنا نہیںآتا… وہ کہتے ہیں۔ اڑان سب کی سرشت میں ہے۔ میں کہتی ہوں… مجھے اڑنا سکھایا ہی نہیں گیا… وہ کہتے ہیں… نہیں سکھایا گیا تو ہمارے ساتھ سیکھ لو…‘

’ پرندے تم سے تمہارے گھر کے بارے میں نہیں پوچھتے—؟ ناگارجن نے نشانہ لگایا…

نہیں۔ پرندے کہتے ہیں۔ یہ پورا آسمان ہمارا گھر ہے… اوریہ سارے پرندے ہمارے اپنے گھر کے لوگ— لیکن انسانوں میں ایسا نہیں ہوتا نا ابو… یہاں کوئی کسی کو اپنا نہیں سمجھتا…‘

’ ہاں بیٹی۔ ہماری دنیا کا یہی سچ ہے۔ اپنے ہوتے ہوئے بھی ہم یہاں اکیلے ہوتے ہیں۔‘

ناگارجن پھر گہری اداسی میں کھو گئے تھے۔

’ میں باہرجائوں ابو…‘

’ ہاں بیٹی۔‘

وحیدہ کے باہر جاتے ہی کمرے میں سناٹا پھیل گیا۔

کوشلیا آہستہ سے بولی۔ کبھی کبھی اس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی… لیکن جانے کیوں لگتا ہے وہ بولتی رہے اور ہم سنتے رہیں…‘

ناگارجن نے شال صوفے پر پھیلادی۔ اور صوفے کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

باہر وحیدہ ہاتھ پھیلائے اڑتے پرندوں سے گفتگو میں محو تھی اور یہی وقت تھا جب ایک سایہ کندھے پر بیگ لٹکائے تیز تیز چلتا ہوا اچانک ٹھہر گیا تھا—

(2)

یہ نظارے کسی مصور کی حسین پینٹنگس کی طرح تھے۔ دلکش اور دلفریب لینڈ اسکیپ میں گھری ہوئی یہ مکمل وادی قدرت کا حسین شاہکار معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن ابھی میری آنکھیں غیر یقینی طور پر ایک دوسری زندہ جیتی جاگتی پینٹنگ پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں۔ گلابی دھند میں پرندوں کے غول کے درمیان بھاگتی ہوئی، ہاتھوں کو ہوا میں لہراتی ہوئی وہ مجھے کسی طلسم کدے میں تنہا چھوڑ گئی تھی۔ حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا— اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ تاحد نظر پہاڑیاں۔ ہلکی دھند۔ اڑتے ہوئے پرندے اور پرندوں کے درمیان ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے… میں پشت سے ایک نظر اس ساحرہ پر ڈال سکا تھا… جو پرندوں کے ساتھ ہی وادی گل پوش کی کسی اور سمت میں اوجھل ہو گئی تھی۔ اب پرندے بھی نہیں تھے۔ مگر ایک تصویر تھی جو اس وقت آنکھوں میں جامد و ساکت تھی اور مجھے میری حیرانیوں میں اُسی گلابی دھند کے ساتھ چھوڑ گئی تھی…

یقین کے ساتھ، اس منظر سے نکل پانا میرے لئے مشکل تھا… وہ مثل غزال قلانچیں بھرتی، ایک ایک ڈگ اٹھاتی ، اڑتے آنچل اور پرندوں کے ساتھ اسی انداز میں رقص کرتی ایک دھند سے نکلی اور دوسری دھند میں غروب ہوگئی— میں اسے پشت سے دیکھ سکا تھا اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہو نہ ہو میں پہلے بھی اس ساحرہ سے مل چکا ہوں۔ اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہونے لگا کہ ان وادیوں میں آکر میں نے کوئی بھول نہیں کی ہے بلکہ یہاں ابھی سے کہانیاں میرا انتظار کرنے لگی ہیں۔

اور اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ دلی گینگ ریپ، کمال یوسف اور ناہید ناز سے ملاقات، میرے گھٹنے کی چوٹ اور نینی تال میں قدم رکھتے ہی اس ساحرہ سے ملاقات کے درمیان بکھری ہوئی داستان کی گمشدہ کڑیاں اتفاقاً ایک دوسرے سے پیوست ہوتی جارہی ہیں— اور مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ یہاں آکر اس ساحرہ سے ملاقات کے پس پشت بھی کچھ ایسی بات ضرور ہے جس نے مجھے دلی سے نینی تال کی وادیوں تک لانے پر مجبور کیا ہے—

کمال یوسف کا بنگلہ پاس ہی تھا— اتفاق سے دونوں ہی گھر پر تھے۔ ناہید ناز کچھ بدلی بدلی ہوئی خاموش تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ بڑے تپاک سے ملی اور اس بات کا احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ اندر سے پریشان ہے۔ جیسے وہ اس بات سے قطعی انجان تھی کہ میں مسلسل اُسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا—

چائے پیتے ہوئے مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ میری آمد سے ناہید ناز کچھ زیادہ باخبر نہیں تھی— یعنی اگر یہ دعوت خاص کمال یوسف کی طرف سے ہے تو اس میں ضرور کچھ خاص بات ہے۔

بسکٹ کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے ناہید ناز نے کہا— کمال نے کل شب بتایا کہ آپ آنے والے ہیں…‘

’ اس کا مطلب آپ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔‘

’خوشی کیوں نہ ہوگی۔ ہم مہمان کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔ اور یہاں کون ہے جو اتنی دور ان وادیوں میں روز روز ہم سے ملنے آتا ہے۔‘

کمال یوسف نے مسکراتے ہوئے پوچھا—’ آپ کا کمرہ تیا رہے۔ ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود ہے۔ کیا آپ آرام کرنا چاہیں گے۔‘

’ ہاں۔ میں تھوڑی دیر فریش ہو کر آرام کرنا چاہوں گا۔‘

در اصل میرے لیے آرام کرنا ایک بہانہ تھا۔ میں اس درمیان جی بھر کر اس گلابی دھند کو یاد کرنا چاہتا تھا، جہاں وہ ساحرہ رقص کرتی ہوئی قدرت کے لینڈ اسکیپ کے درمیان اچانک گم ہوگئی تھی۔

’ کیا اس کے بارے میں کمال یوسف سے دریافت کروں؟‘

لیکن میں ابھی جلد بازی کا کوئی مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فریش ہونے کے بعد میں نے دوبارہ غور سے اپنے سجے ہوئے کمرے کو دیکھا— کھڑکی کا پردہ کھینچا۔ باہر پہاڑیوں پر گرتی ہوئی سورج کی کرنیں، ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے پہاڑیوں پر سونے کی نقاشی کر دی گئی ہو۔ گلابی دھند غائب تھی۔ ان پہاڑیوں پر دھند اور کرنوں کا رقص چلتا رہتا ہے— کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں ڈرائنگ روم میں آیا تو کمال یوسف اکیلے تھے۔ معلوم ہوا کہ ناہید کسی ضروری کام سے باہر گئی ہے۔ لیکن جلد ہی آجائے گی… میں نے ناہید اور اس کے تعلقات کے بارے میں پوچھا تو اس نے ٹھنڈی سانس لے کر بتایا۔ سب کچھ تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ میرے لیے سمجھنا مشکل ہے کہ ناہید مجھ سے کیا چاہتی ہے۔

میں نے پوچھا۔ کیا یہ سب پہلے بھی تھا…

’ نہیں۔ ہاں کبھی کبھی اس میں ایک بدلی ہوئی عورت آجاتی ہے…‘

’بدلی ہوئی عورت یا مرد؟‘

’ممکن ہے۔‘

’ لیکن اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔؟‘

’ وجہ سمجھنے سے قاصرہوں۔ لیکن محبت کی شروعات تک ایسا بالکل نہیں تھا۔ وہ ایک عام سی مسلمان ہندوستانی لڑکی تھی۔ کبھی کبھی اس کی باتیں ایک منفرد سوچ رکھنے والی، تعلیم یافتہ لڑکی کی ہوا کرتی تھیں، جس پر زیادہ غور کرنے کی مجھے فرصت نہیں تھی۔‘

’ کیا یہ رویہ دلی آنے کے بعد…؛‘

’ نہیں… میں کہہ سکتا ہوں، اس رویے کی شروعات دلی آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔‘

’ آپ نے ناہید کے اس بدلے بدلے رویے پر کچھ تو غور کیا ہوگا؟‘

’ میں کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اس کی ناراضگی آہستہ آہستہ ایک بڑی بغاوت میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی احسا س ہوتاہے کہ کہیں وہ کسی دماغی مرض یا نفسیاتی الجھن کا شکار تو نہیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ وہ ایک عام سی لڑکی ہوتی ہے۔‘

’ممکن ہے اُس پر غصہ کا دورہ پڑتا ہو…‘

’ نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے — یقینا کوئی بات اندر سے اسے پریشان کر رہی ہے— لیکن وہ بات کیا ہوسکتی ہے، میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔‘

’مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ لیکن ناہید سے کچھ بھی اگلوانا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی میں کوشش ضرور کروں گا۔‘

میری آنکھیں گہری سوچ میں ڈوب گئی تھیں۔ مجھے ناہید ناز کے وہ مکالمے یاد آئے۔ جہاں مرد ذات کے لئے شدید ناراضگی کا رد عمل کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔

’کیا تم کو نہیں لگتا کہ بیک وقت وہ دو طرح کی زندگی جی رہی ہے۔؟‘

’ہاں۔ یہ میں نے کئی بار محسوس کیا۔‘

میں نے باشا کے بارے میں دریافت کیا۔’ اپنے بچے کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے۔‘

باشا کا خیال رکھتی ہے۔لیکن کبھی کبھی مجھ پر بھی ناراض ہوتی ہے کہ کیا حدیث میں لکھا ہے کہ بچے کا خیال عورت ہی رکھے۔‘

در اصل میں دلی سے آنے کے بعد کے واقعات جاننے کا خواہشمند تھا۔ کیونکہ کمال یوسف کی زندگی میں آنے والی بڑی تبدیلیاںاسی درمیان رونما ہوئی تھیں۔ وہ مجھ سے کھل کر گفتگو کا خواہشمند تھا—لیکن وہ خوفزدہ بھی تھا کہ ناہید ناز کسی لمحہ بھی گھر پہنچ سکتی تھی اور اسی لیے وہ بار بار ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، کھڑکی کے پاس گیا۔ باہر کی طرف دیکھا—پھر مسکرانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا۔

’باشا نہیں ہوتا توشاید میں اس سے الگ بھی ہوجاتا۔ مگر صاحب۔ محبتیں کبھی کبھی آپ کو رسوائی اور ذلت کے باوجود بھی مجبور اور لاچار بنا دیتی ہیں۔ میں جانتا ہوں، میں نے ٹوٹ کرناہید سے محبت کی ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر کبھی کبھی… اور میں سمجھ نہیں پارہا ہوں۔‘ میں آپ کو کیسے بتائوں… میں خود بھی اس کے ہر سوال پر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں… جیسے کل ہی جب میں نے اس کو بتایا کہ آپ آنے والے ہیں۔ اس کا غصہ دیکھنے کے لائق تھا… آپ نہیں سمجھیں گے۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا تھا۔ میں منسٹری آف ٹورزم کے محکمہ میں ہوں۔ اس دن مجھے اتراکھنڈ پر آئی ہوئی تباہی کے متعلق اپنی رپورٹ منسٹری کو بھیجنی تھی۔ ساتھ ہی نئے سرے سے تعمیرات اور تخمینہ کو لیکر بھی اپنی کارروائی مکمل کرنی تھی۔ میں سارا دن بزی رہا۔ ناہید سمر وے اسکول میں پڑھاتی ہے۔ صبح کو آفس آتی ہے اور تین بجے تک باشا کے ساتھ رہتی ہے— کبھی کبھی مشغول رہنے کے لیے وہ باہر سے بھی کچھ کام گھر لے آیا کرتی ہے۔ مثال کے لئے ایک ہندی اردو ڈکشنری کا پروجیکٹ تھا۔ اور یہ پروجیکٹ ایک ہنگامے کے ساتھ کچھ دنوں قبل ہی پایۂ تکمیل تک پہنچا تھا۔

’ ہنگامے کے ساتھ؟‘

’ یہ واقعہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا۔ پہلے وہ واقعہ سن لیجئے جس کا تعلق آپ کی آمد سے ہے۔ شام کے ۶ بج گئے تھے۔ میں گھر پہنچا تو وہ بیڈ روم کی چادر تبدیل کر رہی تھی۔

==

’ تو آگئے آپ…‘ ناہید گنگناتے  ہوئے ٹھہر گئی۔ غور سے کمال یوسف کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کمال یوسف اس مسکراہٹ کے بارے میں جاننے لگا تھا۔ ادھر کچھ دنوں سے ایسی مسکراہٹ آندھی بن کر نازل ہونے لگی تھی۔ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی تو ناہید نے ہنستے ہوئے کہا۔

’جانتے ہو کیا سوچ رہی تھی‘

’نہیں۔‘

’ہاں تم کیسے جان سکتے ہو۔ ‘ وہ آہستہ سے بولی۔’ مگر سنو گے تو اچھل جائو گے۔‘

’ کوئی واہیات سی سوچ ہوگی۔‘

’تم مردوں کو ایسی سوچ واہیات ہی لگے گی۔ مگر سوچتی ہوں…ایسا ممکن کیوں نہیں ہے۔‘

’ کیا ممکن نہیں ہے۔‘

ناہید ناز تیز چلتی ہوئی کمال یوسف کے برابر میں کھڑی ہو گئی۔ پیار سے ہاتھوں کو تھام لیا۔

’ میں باہر سے آئوں۔ اور تم گھر سنبھالو۔‘

’مطلب —‘ کمال یوسف نے بے چارگی سے ناہید کو دیکھا۔ اگر تمہارا مطلب جاب سے ہے تو جاب تم بھی کرتی ہو۔ میں بھی۔ ہاں دونوں کے آنے اور جانے کے اوقات مختلف ہیں۔ لیکن تم کوئی ہائوس وائف تو ہو نہیں۔‘

ناہید نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ چیخ رہی تھی۔

’ تو مجھے ہائوس وائف ہونا چاہئے تھا؟‘

’ نہیں۔ میں نے یہ کب کہا۔‘

’ ابھی کہا تم نے۔‘ وہ زور زور سے چلا رہی تھی— ’تم مردوں کا بس چلے تو بس ہمیں ہائوس وائف بنا کر ہی رکھو۔ نمائشی گڑیا— جیسا تم صدیوں سے ہمیں بناتے رہے ہو۔ عورت گھر میں رہے۔ گھر کا کام کاج کرے۔ برتن صاف کرے۔ کھانا پکائے۔ جھاڑو دے۔ برتن صاف کرے۔ تمہارے بچے پیدا کرے۔ اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ اور ایک دن گھس گھس کر مر جائے۔ یہی چاہتے ہو نا تم لوگ ۔ پہلا گھر باپ کا۔ یہاں بھی اس کی کوئی شناخت نہیں۔ شناخت ہے تو باپ کی ۔ شادی کی تو تمہاری شناخت۔ شوہر کی شناخت— عورت کے پاس اس کی اپنی شناخت کہاں رہ جاتی ہے— تم کو ،تمہارے بچوںکو جیتے ہوئے وہ خود کو اس حد تک تقسیم کر دیتی ہے کہ زیرو رہ جاتی ہے۔ کم عمری میں ڈھل جاتی ہے۔ جسم پر چربی چھا جاتی ہے— عورت مردوں کے استعمال کے لیے نہیں بنائی گئی۔ مگر اس دنیا میں یہی ہوتا رہا ہے۔ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ عورت تم کو خوش کرے۔ مگر کمال یوسف، میں ان عورتوں میں سے نہیں ہوں۔ اس لیے تمہیں مجھے خوش  رکھنا ہوگا اور یہ بات تمہاری آئندہ کی ڈیوٹی میں شامل ہوگی۔‘

ناہید ناز ہنس رہی تھی—’ دونوں خدا کی مخلوق۔ ایک مرد ایک عورت۔ لیکن تم لوگوں نے کیا بنا دیا عورت کو۔ تمہاری حکومت کے ختم ہونے کے دن آگئے ہیں۔ اور اسی لیے میں سوچ رہی تھی۔ تم سے کہوں۔ نوکری سے استعفیٰ دے دو۔‘

’ استعفیٰ دے دوں‘ کمال یوسف زور سے چلایا—’مگر کیوں؟‘

ناہید ناز نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ مسکرائی— میں چاہتی ہوں۔ تم گھر سنبھالو۔ گھر کی چادریں ٹھیک کرو۔ باشا کو دیکھو۔ جانتے ہو جب گھر پر میرا پہلا رشتہ آیا تھا تو لڑکے کی ماں بولی۔ آپ کی لڑکی کیا کرتی ہے۔ میری پڑھائی کے بارے میں جاننے کے بعد اس کی ماں کاخیال تھا۔ اتنی پڑھائی کافی ہے۔ پڑھ کر کیا نوکری کرنی ہے۔ اللہ کا دیا ہوا میرے گھر میں سب کچھ ہے۔ لڑکی کو تو خانہ داری آنی چاہئے ۔ سلائی کڑھائی، کھانا پکانا… تب تک میرے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی۔ کمرے میں ابو امی دونوں موجود تھے۔ میں نے پلٹ کر اس عورت سے پوچھا… تب تو آپ نے اپنے بیٹے کو یہ سب سکھایا ہوگا— وہ میری بات کی تہہ تک نہیں جا سکی۔اس نے حیرت سے پوچھا۔ کیا…؟

’ یہی خانہ داری، سلائی ، کڑھائی؟‘

’ کیوں؟‘

’کیونکہ میں یہ سب نہیں جانتی۔ اللہ کا دیا ہوا یہاں بھی سب کچھ ہے—آپ کا بیٹا آرام سے رہے گا۔ ماشا ء اللہ اتنا پڑھ گیاہے تو اسے کسی کام کی کیا ضرورت ہے۔ میں ہوں نا… اور ہاں… اُسے ناچ بھی سکھا دیجئے گا۔ کبھی کبھی میں اس کا مجرا بھی دیکھنا چاہوں گی…‘

ناہید ناز کا چہرہ سلگ رہا تھا۔ کمینہ ہے تم مردوں کا سماج۔ لڑکی پڑھ لکھ کر بھی بیکار۔ پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اسے گھر کی نوکری دے دیتے ہو تم لوگ۔ نوکرانی بنا دیتے ہو… جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا۔ وہ عورت غصے میں بکتی چیختی ہوئی بیٹے کو ساتھ لے کرچلی گئی تو ابو نے مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ میں غصے میں جل رہی تھی۔ میں نے ان کے ہاتھ کو تھام لیا۔ اور صرف ایک جملہ کہا۔ آئندہ یہ مت کیجئے گا جو ابھی کیا ہے۔ میرا تماشہ بنائیں گے تو خود تماشہ ہو جائیں گے…‘

ناہید ناز نے آگے بڑھ کر سوئے ہوئے باشا کی طرف دیکھا۔ وہ خود کو سلگتے ہوئے جزیرے سے واپس لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

’صبح سے سوچ رہی تھی۔ تم آئو گے تو کہوں گی۔ نوکری چھوڑ دو۔ باشا اب بڑا ہوگا۔ اُسے باپ کی ضرورت ہوگی۔ مرد زیادہ اچھے شیف ہوتے ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹل کو ہی لو۔ سارے بڑے شیف مرد ہیں۔ میں جانتی ہوں تم مجھ سے اچھا کھانا بنا لیتے ہو اور تم عورت سے بہتر گھر چلا کر دکھائو گے… ہے نا کمال…‘

کمال یوسف حیرانی سے ناہید ناز کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی تو مسکراہٹ غائب تھی۔ چہرہ آڑی ترچھی لکیروں سے پُر تھا۔ ناہید ناز نے قریب آکر اس کے دونوں ہاتھوں کواپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔

’ ایسا ہونا چاہئے نا… ایک پوری زندگی تم مرد ہمارے نام کردو۔ ہمارے بھروسے جیو۔ ہمارے ساتھ ، ہماری رہنمائی میں۔ ہماری خوشی تمہاری خوشی ہو اور جب ہم زیادہ خوش ہوں تو تمہیں شاپنگ کرائیں۔ فلم دکھانے لے جائیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر تمہیں نئے نئے لباس میں ساتھ لے جائیں۔ اپنی دوستوں سے تمہارا تعارف کرائیںاور واپسی میں، تمہیں آئس کریم بھی کھلائیں… آخر ایسا کیوں ممکن نہیں ہے کمال…؟‘

’ میں تمہیں ایک خبر دینے والا تھا…‘ کمال نے اس سلسلے کو یہیں روکتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

’ کیسی خبر؟‘

’ تم تو میرے آتے ہی شروع ہوگئی۔ تم نے مہلت ہی کہاں دی۔‘

’ تم نے مہلت مانگی ہی کب۔‘ ناہید ناز نے مسکرانے کی کوشش کی۔

اس درمیان باشا اٹھ گیا تھا۔ اس نے باشا کو گود میں اٹھا لیا۔ وہ پھر سے عورت بن گئی تھی۔ اب وہ باشا کو تیار کر رہی تھی۔ پہلے اس نے باشا کو بوتل سے دودھ پلایا پھراسے نئے کپڑے پہنانے لگی۔ اس درمیان وہ آہستہ سر میں کچھ گنگنا رہی تھی ۔ کمال یوسف بالکنی میں آیا تو رات کی سیاہی آسمان پر چھا چکی تھی… ذہن میں پٹاخے چھوٹ رہے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ اگر وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بیمار تھی تو وہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا تھا کہ چلو، ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ناہید کسی بھی طور پر خود کو بیمار سمجھنے کا جرم نہیں کر سکتی تھی۔ اس ناہید کو سمجھنا مشکل تھا۔ وقت کے ساتھ مردوں سے نفرت کا جذبہ شدید ہوا جا رہا تھا۔ یہ ایسی بات تھی جس کا اظہار وہ اپنے کسی مرد دوست سے بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر کمال یوسف کو یقین تھا کہ دلی میں جس مصنف سے ملاقات ہوئی تھی، وہ کسی حد تک اس معاملے میں اس کی مدد ضرور کر سکتا ہے— کمال کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ ناہید کو اس کی اطلاع کیسے دے— مگر اطلاع توبہر صورت دینی تھی۔ دوسری صورت میں مصنف کی اچانک آمد کو ناہید کسی سازش کا حصہ بھی سمجھ سکتی تھی۔

کمال یوسف نے اپنا جائزہ لیا۔ کیا وہ ناہید سے خوفزدہ ہے—؟ اور اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں تھا۔ محبت کبھی کبھی خوفزدہ بھی کر دیتی ہے۔

یا زندگی جینے کے عمل میں محبت ہر بار خوفزدہ کرتی ہے۔

کمال یوسف کو ناہید کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ بالکنی میں اس کے سامنے والی کرسی پر ناہید بیٹھ گئی۔ سیاہ بدلیوں کی طرف دیکھتی ہوئی وہ اس طرف پلٹی۔ ہونٹوں پرمعصوم سی مسکراہٹ تھی۔

’ تم ایک اچھے مرد ہو…‘

’ مرد یا شوہر؟‘

’ شوہر؟‘ اس نے برا سا منہ بنایا۔ یہ ایک دقیانوسی سا لفظ ہے۔ مجازی خدا، شریک حیات ، شوہر… یہ الفاظ مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔‘ وہ مسکرائی۔ ناراض تو نہیں ہوگے اگر یہ کہوں کہ…‘

’ کیا…‘

’ تم ایک اچھی بیوی ہو…‘ ناہید نے اپنے ہی اس جملہ پر قہقہہ بلند کیا… تم میری ہر بات مان لیتے ہو…‘ وہ مسکرا رہی تھی… سنو نا کمال… ڈکشنری سے لفظوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ عورت شوہر کے تصور میں بہترلگتی ہے۔ اورمرد بیوی کے روپ میں۔ کیوں؟‘

’ بیوی ہونا تمہیں پسند نہیں؟‘

’ بالکل بھی نہیں‘

’ اور شوہر ہونا۔‘

ناہید زور سے ہنسی… میں تمہاری شوہر ہی تو ہوں…‘

’ قواعد کی روسے مجھے تمہارا شوہر ہونا چاہئے۔‘

’ چلو، قواعد کو بھی بدل دیتے ہیں۔‘

’ تمہارے لیے بدل دینا اتنا آسان کیوں ہے ناہید؟‘

’یہی سوال تم سے کروں تو تمہارے لیے یہ سب سننا مشکل کیوں ہے—؟ بولو؟ ہر وقت… محبت کے موقعوں پر بھی ساتھ میں ایک چور مرد کو لے کر کیوں گھومتے رہتے ہو تم لوگ؟ کیوں ناز کرتے ہو اپنی مردانگی پر اس قدر، یہ مت بھولو کہ کائنات میں عورت کا تصور نہ ہوتا تو تمہارے پاس فخر کرنے لائق یہ مردانگی بھی نہ ہوتی— پھر کیوں ڈھول پیٹتے رہے ہو اس مردانگی کا…‘

کمال خاموش تھا۔ ناہید نے ابھی اس لمحہ حقیقت کا اعتراف کیا تھا ،آخرجس فلسفہ کو وہ بیان کر رہی تھی اسے دونوں کے مابین ہونے والا مکالمہ سمجھ لیا جاے تو ظاہر ہے غصہ یا ناراضگی کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہو۔ ہاں مردانگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ناہید ناز کی گفتگو سے نکلا ہوا یہ جملہ زہر تھا— مرد کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی مردانگی کے ساتھ جیتا ہے۔

’ ہاں… تم کچھ بتانے والے تھے۔ ‘ ناہید کوجیسے کچھ یاد آگیا۔

نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے چھا گئے تھے… دور پہاڑیوں کے ارد گرد روشنیوں کا جال بچھا ہوا تھا…

کمال نے ناہید کی طرف دیکھا…’ تم کو وہ مصنف یاد ہے…؟‘

’ جو دلی میں ملا تھا…؟‘

’ ہاں۔‘

’ مجھے پسند نہیں آیا تھا۔‘

’ کیوں۔؟‘

’ پندرہویں صدی کی باتیں کرتا تھا۔‘

’اردو میں لکھنے والے ابھی بھی پندرہویں صدی میں جی رہے ہیں۔‘

’ تو مت لکھیں۔ کس نے کہا ہے لکھنے کے لئے۔‘

’ تبدیلی اچانک تو نہیں آتی ناہید۔‘

’مشکل یہ ہے کہ کوئی تبدیلی چاہتا بھی تو نہیں— وہی پندرہویں صدی کی فکر۔ کیا مرد وہی رہ گیا ہے—؟ کیا دنیا وہی ہے—؟ سب کچھ بدل گیا ہے تو نئی دنیا کا تعاقب تو کرنا چاہئے نا…‘

’ ان کی نظروں میں ابھی بہت کچھ نہیں بدلا ہے— جیسے وہ نہیں چاہتے کہ بہت کچھ بدل جائے۔ ابھی بھی بہت سے گھروں کے بچے پزا اور بر گر کی جگہ گھر کی روٹیاں ہی پسند کرتے ہیں۔ کولا بوتل کی جگہ انہیں پانی ہی پسند ہے— وہ زیادہ اڑان نہیںچاہتے۔ اور اپنی محدود دنیا میں خوش رہتے ہیں۔‘

’ ہونہہ—‘ ناہید ناز نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا…

’ میں پھر کہتی ہوں۔ وہ آدمی مجھے ذرا بھی پسند نہیں آیا تھا۔‘

’لیکن یاد ہے، تم نے اُسے نینی تال آنے کی دعوت دی تھی۔‘

میں نے نہیں۔ تم نے دی تھی۔ میں نے دبے لفظوں میں کہا تھا…‘

’ دبے لفظوں میں لیکن کہا تو تھا—‘

’ اس کا کیا مطلب؟‘

’ وہ آرہا ہے۔ وہ کل ہمارے گھر ہوگا۔ وہ ہمارے یہاں ہی ٹھہرے گا۔‘‘

’ ہمارے یہاں ؟‘

ناہید زور سے چیخی۔ اس کا لہجہ بدل چکا تھا۔

’ جھوٹ مت بولنا۔ اُسے تم نے بلایا ہے نا…‘

’ میں کیوں بلائوں گا۔‘

’ قسم کھائو ، کہیں یہ تمہاری کوئی سازش تو نہیں ۔؟‘

’ سازش کیوں ہوگی۔‘

’ اسے تم نے بلایا ہے۔ اور میرا دل کہہ رہا ہے۔ تم نے اس کوجان بوجھ کر بلایا ہے۔‘

کمال یوسف نے زور سے کہا— ’میرا قصور یہ ہے کہ جب اس نے آنے کے لیے کہا تو میں منع نہیں کر سکا۔ مجھے جھوٹ بولنا پسند نہیں آیا۔‘

وہ یہیں ٹھہرے گا؟‘

’ ہاں۔‘

’ کھانا کون بنائے گا۔ تم؟‘

’ نہیں۔ باشا کے لیے جو گورینس آتی ہے— رکمنی— وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھیج دے گی۔ وہ سارا دن ہمارے پاس ہی رہے گی۔‘

’ ہونہہ۔‘

ناہید گہری سوچ میں ڈوب گئی تھی۔ وہ دیر تک آسمان کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اس سے مخاطب ہوئی۔

’ ٹھیک ہے۔ تمہارے مہمان۔ تم ہی سنبھالنا۔ لیکن ایک بات کہہ دیتی ہوں۔ اگر مجھے یہ تمہاری سازش نظر آئی تو…!

’ سازش کیوں ہوگی۔؟‘

’یہ تم زیادہ بہتر جانتے ہو۔ مگر سازش ہوئی تو میں ایک سکنڈ اس گھر میں نہیں ٹھہروں گی۔ اور ہاں تمہیں مجھ سے…‘

ناہید ناز کے چہرے پر سختی کے آثار تھے۔تمہیں مجھ سے خلع لینا ہوگا۔‘

’خلع عورتیں لیتی ہیں۔ مرد طلاق دیتا ہے۔‘

’واہیات ۔ معنی بدل چکے۔ طلاق دینا ہوگا تو میں دوںگی— تم مجھ سے خلع لوگے۔‘

وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

آسمان میںتیرتے ہوئے بادل دور چلے گئے تھے۔ آسمان پر چاند روشن تھا۔ کمال یوسف کے دل و دماغ میں چلنے والی آندھیاں تیز ہوگئی تھیں۔

==

دیر تک کمرے میں خاموشی پسری رہی۔ بطور مصنف مجھے ناہید ناز سے ہمدردی تھی۔ اب مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ اس کے ماضی کی کئی کڑیاں ایسی رہی ہوں گی، جسے وہ آج تک سب سے چھپاتی آئی ہے۔ ممکن ہے دلی گینگ ریپ کے حادثے نے ناہید ناز کے اندر کی اس عورت کو جگا دیا ہو، جو خوفناک سطح پر مردوں سے نفرت رکھتی تھی۔ اب ناہید ناز سے ملنا اور ان حقیقتوں کی تہہ تک جانا میرے لئے ضروری ہوگیا تھا— اور اس کے لیے ضروری تھا کہ ناہید ناز کو دوست بنایا جائے اور یہ کافی مشکل کام تھا۔ اوراس کے بعد بھی یہ کہنا مشکل تھا کہ ناہید ناز ماضی کے کھنڈرات سے ان زخمی یادوںکو زبان تک لاتی ہے یا نہیں—

باشا کو کھلانے والی گورینس اپنے ساتھ اپنی بہن کو لے کرآئی تھی۔جو ایک پیاری سی لڑکی تھی۔ گورینس نے کہا۔

’کل سے لاجو صبح سے شام تک سارا کام کردیا کرے گی۔ جیسا کھانا چاہیں گی۔ ویسا بنا لے گی۔‘

ناہید نے پوچھا۔ ’تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے؟‘

کیوں؟‘

’ مرد زیادہ اچھی دیکھ بھال اور زیادہ اچھا کھانا بناتے ہیں۔‘

’ نہیں، بھائی نہیں ہے۔‘

’ چلو کوئی بات نہیں ۔‘

لاجو کے آنے سے چائے پینے کی آسانی ہوگئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کمال یوسف کے چہرے پر ناراضگی بھری شکن موجود تھی— اس کے برخلاف ناہید ناز اپنے معمول پر تھی۔ کبھی گاتی گنگناتی ہوئی، کبھی کمال کا نام لے کر پکارنا… کبھی باشا کو گود میں لینا… کبھی لاجو کو کچن کے بارے میں کچھ سمجھانا… جبکہ کمال یوسف کو چہرے کے تاثرات چھپانے میں خاصہ دقت پیش آرہی تھی۔

(3)

وحیدہ کا اندنوں روز کا معمول بن گیاتھا۔ صبح سویرے اٹھ جاتی۔ پھر ابو امی کا بی پی اور شوگر چیک کرتی۔ دوا کھلاتی… اس کے بعد دونوں کو بیٹھا کر بھگوت گیتا سناتی۔ ناگارجن اور کوشلیا کے کہنے پر قرآن شریف کی قرأت کرتی اور آسان لفظوں میں مطلب بھی بتاتی جاتی…

’ آج صبح کچھ نئے پرندے آئے تھے۔‘

’ تمہیں۔ کیسے معلوم کہ نئے پرندے تھے۔‘

’ میں نے بتایا تھا نا کہ یہاں کے پرندوں سے میری دوستی ہوگئی ہے۔‘ ناگارجن آہ بھر کر کہتے—’ پرندے کب کس کے دوست ہوئے ہیں بیٹی۔‘

’آپ دوست بنا کر تو دیکھیے ابو۔‘

کوشلیا ایسے موقعوں پر بس مسکرا کر رہ جاتی۔

بی پی اور شوگر چیک کرنے کے بعد وحیدہ امی اور ابو کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اس نے ہاتھ میں گیتا لے کر گیتا کا پاٹھ کرنا شروع کیا۔ سر پر عقیدت سے آنچل ڈالا…

’ یہ آتما نہ تو پروچن سے پراپت ہو سکتی ہے، نہ بدھی سے، اور نہ سننے سے ہی۔ یہ جس کو ورن کرلیتا ہے، اسی کے لیے یہ پرماتما اپنے روپ پرکٹ کردیتی ہے۔ میں ایشور ہوں… میں سوادھین ہوں… اور دوسروں کا ینتا بھی میں ہی ہوں۔ میں سدھ ہوں۔ میں سویم ہی سدھ ہوں… میں بلوان ہوں… اس لوک میں میرے سدرش دوسرا کون ایسا ہے، جس کو اپنے دم پر سارا ویبھو پراپت ہوا ہو…‘

’ ایشور کی مایا بھی عجیب— ناگارجن آہستہ سے بولے… ایشور ان سبھی کتابوں میں اپنے رہسیہ کے ساتھ اپنے گن کی تعریف کرتا ہے۔ تم سچ کہتی ہو بیٹی۔ فرق صرف ہم میں ہے۔ مسلمانوں کا ایشور اور ہندوئوں کا ایشور الگ کہا ں ہے۔ اب بند کردو بیٹی۔ دوپہر میں تم سے قرآن پاک سنیں گے۔ کیوں کوشلیا۔ وحیدہ کے ساتھ باہر چلیں، پرندوں کو دوست بنانے ۔‘

’بہتر ہے کہ آپ ہی جائیں۔‘

ناگارجن وحیدہ کے ساتھ باہر آگئے۔ پہاڑیوں کے درمیان سے جھانکتے ہوئے آسمان کا حسن ہی اور تھا۔ ناگارجن آہستہ آہستہ وحیدہ کے ساتھ چلتے رہے۔ وہ جیسے گفتگو کا بہانہ تلاش کرر ہے تھے۔ بڑا بیٹا امریکہ ہے۔ گھر گرہستی بسالی۔ چھوٹا سنگاپور میں۔ کیوں ہوتا ہے مذہب؟ وہ جیسے خود سے سوال کر رہے تھے۔ کیا چھوٹے بیٹے کو وحیدہ سے بہتر کوئی لڑکی مل سکتی ہے؟ کیا وحیدہ اس کے لیے تیار ہو جائے گی۔ کیا ان کا آزاد خیال بیٹا اس کے لیے تیار ہوگا۔

وہ چلتے رہے… وحیدہ کی مسکراتی آنکھیں پرندوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ آسمان پرندوں سے خالی تھا۔ ناگارجن نے آہستہ سے پوچھا…’ کبھی کبھی ہم انسان ہونے کے احساس سے تھک جاتے ہیں اور پالتو جانوروں میں ، پرندوں میں زندگی کی کرنیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ یہاں ان پہاڑی علاقوں میں کتنے ہی ایسے بزرگ مل جائیں گے بیٹی، جن کے بچے انہیں چھوڑکر غیر ممالک میں بس گئے۔ آہستہ آہستہ آنا جانا کم ہوا۔ پھر یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا…‘

’ پھر…‘ وحیدہ نے چونک کرناگارجن کی طرف دیکھا…

’ پھر پرندے آگئے نا…‘ ناگارجن ہنسے ان کے گھر جائو تو وہاں پنجرے ملیں گے۔ طوطا… مینا… مرغے مرغیاں۔ بلیاں… کتے… اور ان کے درمیان ایک سب سے بڑے پنجرے میں وہ مل جائیں گے۔‘

’ بڑا سا پنجرہ؟‘

’گھر۔ گھر بھی تو پنجرہ ہوتا ہے۔ جب تک گھر میں آبادی ہے… بچے ہیں۔ زندگیاں ہیں۔ گھر گھر ہے۔ لیکن بچے بھی تو پرندے ہوتے ہیں۔ پرندے اڑ گئے تو گھر خالی پنجرہ ہوجاتا ہے۔ اور پھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔‘

’ میں سمجھ سکتی ہوں ابو۔‘

’ کاش تم اس سے زیادہ بھی سمجھ سکتی… اور میرے بیٹے بھی۔ ناگارجن کہتے کہتے رک گئے۔ دیکھونا بیٹی… آج میں آیا ہوں تو پرندوں سے آسمان خالی۔ پرندے نہیں آئے۔ تم اکیلے آتی ہو تو پرندے بھی آتے ہیں۔ پرندے انسان کی تنہائی سمجھتے ہیں۔ جب تم تنہا ہوتی ہو تو آجاتے ہیں… پرواز کرتے ہوئے… آج مجھے دیکھا تو سوچتے ہوں گے، میں کیوںآئوں؟ پرندے بھی حسد رکھتے ہیں بیٹی…‘

’ نہیں ابو…، وحیدہ چونک کر بولی۔ جب ہم کمرے میں تھے۔ فائر کی آواز ہوئی تھی۔ آپ نے سنی۔ مجھے یقین ہے پرندوںکا غول فائر کی آواز سن کر چھپ گیا۔ پرندے پھر آجائیں گے… آ…آ…آ…‘

وحیدہ ننھی سی بچی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ ہاتھ ہلا ہلاکر پرندوں کو آواز دے رہی تھی…،

ناگارجن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ غور سے وحیدہ کو دیکھ رہے تھے…

’آ…آ… آ…‘

پہاڑیوں کے درمیان سے نیلا آسمان مسکرا رہا تھا…

’آ…آ…آ‘

ناگارجن سب کچھ بھول کر معصوم سی وحیدہ کو دیکھ رہے تھے ،جو اس لمحے ایک چھوٹی سی بچی میں تبدیل ہوگئی تھی…

’ نہیں آئیں گے بیٹی… ناگارجن آہستہ سے بولے… انسانوں سے تھک ضرور گئی ہو لیکن…پرندوں کی جگہ انسانوں کو دوست بناکر دیکھو… انسان اچھے بھی ہوتے ہیں…‘

پھر وہ رکے نہیں، آگے بڑھ گئے…

اس سے پہلے کہ وحیدہ ان کے الفاظ پر غورکرتی، ہوا میںاڑتا ہوا ایک پرندہ وحیدہ سے ذرا سے فاصلے پر، آہنی گیٹ پر آکر بیٹھ گیا تھا…

(4)

میںنے کمال یوسف اور ناہید ناز کی زندگی کے کم و بیش اُن واقعات پر غور کرنا شروع کیا ،جن سے میں واقف ہوگیا تھا اور میں بار بار اسی نتیجہ پر پہنچ رہا تھا کہ کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جن کا گہرائی سے ناہید کی پچھلی زندگی سے تعلق رہا ہے۔ میں کمال یوسف کو اس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا تھاکہ میری موجودگی میں وہ کوئی ایسی دل شکن بات نہ کہے جس سے ناہید ناز خفا ہو کر اس پر پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ میرے لیے اس کی زندگی کے حال جاننے کا یہ بہتر موقع ہوتا۔ مگر جیسا کہ مجھے کمال نے سمجھایا، اس کا دوسرا پہلو بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس حد تک بھیانک ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بھی خوفناک نتیجہ کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ کیا ثقافت اور مذہب کے امتزاج کا جو نیا رویہ عورتوں میں پیدا ہوا ہے، وہ مردوںسے نفرت کا ہے—؟ ہندوستان سے پاکستان تک یہ جذبہ شدت اختیار کرتا ہے تو عورت پہلے خدا کی منکر ہوتی ہے پھر مردوں کے لیے اس کا جذبۂ انتقام سونامی بن جاتا ہے۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر تھے۔ لاجو وہیں چائے لے کر آگئی تھی۔ آسمان میں چاند روشن تھا۔ ہوا سرد تھی اور جسم کو چھوتے ہوئے گزرتی تو اندر تک سرد لہر پھیلتی چلی جاتی۔ میں نے ناہید کی طرف دیکھا۔

’ آپ کو ڈر لگتا ہے؟‘

’نہیں۔‘

’ بچپن میں تولگتا ہوگا؟‘

’ ہاں۔ بچپن میں ہمیں جان بوجھ کر ڈرایا جاتا تھا۔ تاکہ لڑکیاں اپنی مضبوطی اور اڑان سے الگ ہوں اور خوفزدہ رہیں۔ گھر کی کھونٹ سے پالتوجانوروں کی طرح بندھی ہوئی۔‘

’ کوئی ایسا واقعہ…، میں نے ترچھی نظر سے کمال یوسف کو دیکھا۔ وہ پہاڑیوں کی طرف بے نیازی سے دیکھ رہا تھا۔

ناہید ناز کا چہرہ شکن آلود تھا۔ ہزاروں واقعات ہیں… کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی… میری طرف دیکھا۔ لیکن کیوں سنائوں آپ کو… اور آپ کو میری زندگی کے واقعات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے…‘

آنکھوں میں پرچھائیوں کا رقص تیز ہوا تو اس کا لہجہ نرم پڑگیا۔ وہ رات کی سیاہی سے آنکھیں ملانے کی کوشش کررہی تھی۔

’ میں خوفزدہ کب نہیں تھی۔ پیدا ہوتے ہی خوفزدہ تھی۔ اماں کہتی تھیں کہ میں ذرا ذرا سی بات پر ڈر جاتی تھی۔ گھر میں آسیب ہی آسیب بھرے تھے۔ کہتے تھے رات کے وقت گھر میں شہید بابا نکلتے ہیں۔ وہ سارے گھر میں گھومتے ہیں۔ رات میں ذرا سی آہٹ ہوتی تو امی ہونٹوں پر چپی رکھ کر کہتیں۔ شہید بابا… ایک بڑا سا باورچی خانہ تھا۔ باورچی خانہ کے پاس ایک دالان، جسے ان دنوں پتلکی دالان کہا جاتا تھا۔ یہاں نعمت خانہ بھی تھا۔ اماں کہتی تھیں… اسی دالان میں کہیں شہید بابا کا مزار ہے۔ ایک بار اماں نے بتایا…بقر عید کا موقع تھا۔ کباب کی تیاری کے لیے اسی پتلکی دالان میں اماں نے چھوٹے چھوٹے اینٹوں کو گھیر کر کوئلہ روشن کیا تو اچانک جیسے دھماکہ ہوا… سرخ کوئلے اماں کے چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے— اماں نے کہا، انہیں یقین ہے، یہ قبر اسی جگہ ہونی چاہئے۔ یہ شہید بابا کون تھے، یہ کہانی کبھی تفصیل سے بتائی نہیں گئی۔ کوئی اس کہانی کو ۱۸۵۷ کے غدر سے جوڑ دیتا۔ کوئی کہتا، یہاں آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔ جب انگریزوں کا قافلہ رات کے وقت حملہ کرنے آیا تو اچانک کسی نے دیکھا… گھوڑے پر ہاتھ میں شمشیر لیے کوئی اکیلا فوجی ان کی طرف بڑھتا آرہا ہے۔ قریب سے دیکھا تو اس فوجی کا سر ہی نہیں تھا۔ انگریز فوج اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ بھاگ کھڑی ہوئی… ایسے تھے شہید بابا… بس رات میں نکلتے تھے۔ کہتے ہیں وہ کھڑائوں پہنتے تھے۔ اس لیے ان کے چلنے سے کھٹ کھٹ کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔‘

ناہید ناز کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا… لیکن آسیب کہاں نہیں تھا۔ برآمدے میں امرود کا پیڑ تھا اس پر بھی آسیب تھا۔ بالائی چھت سے سیم کی بیلیں دور تک چلی گئی تھیں۔ کہتے ہیں وہاں بھی آسیب کا ڈیرہ تھا۔ گھر میں سیڑھیوں سے اوپر کا حصہ اکثر ویران رہتا۔ چھت کے بارے میں ہزاروں کہانیاں مشہور تھیں۔ دن میں یہی چھت گلزار رہتی۔ چاول اور گیہوں پسرے ہوتے— دھلے ہوئے کپڑے یہیں چھت پر الگنی پر ڈالے جارہے ہوتے۔ لیکن رات گئے چھت سے الو کی منحوس آوازیں گونجا کرتیں اور نانی اماں پوچھنے پر ڈانٹ دیا کرتیں… ان آوازوں کو نہیں سنتے ہیں پگلی— آسیب باہر بھی تھے۔ آسیب گھر میں بھی تھے۔ آسیب پائخانے میں تھے اور ہمارے سونے والے کمروں میں بھی— اور پھر ایک دن بچپن سے الہڑپن کی دنیا میں آتے آتے ہم بھی آسیب ہوگئے۔ اماں نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ مولوی صاحب نے دور سے ہی کہہ دیا۔ اس پر تو شاہ جنات سوار ہیں۔

’ ہائے اللہ ۔ پھر اس کی شادی کیسے ہوگی؟‘

سوائے مولوی صاحب کے گھر کے ہر آدمی پر آسیب سوار تھا۔ گھر میں مولویوں کی عزت تھی اور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کیونکہ یہ مولوی جنات بھگایا کرتے تھے۔ ان کے قبضے میں پریاں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے ناخنوں پر اسکرین بنا ہوتا تھا اور اسکرین پر اچھے برے، شیطان، جناتوں کی تصویریں بن جایا کرتی تھیں۔ اور ان بلائوں کو ٹالنے کے لیے اماں اور نانی اماں ان کے کرتے کی جیبیں بھرا کرتی تھیں… جبکہ مجھے سب سے بڑے آسیب یہی مولوی صاحبان لگتے تھے۔ لیکن پیدا ہوتے ہی ہمارے ہونٹ سی دیئے گئے تھے۔ اورہمیں کچھ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی۔

ناہید ناز بولتے بولتے اچانک زور سے چیخی— کچھ اور سننا ہے آپ کو ۔ ذائقہ مل رہا ہے ہماری باتوں سے۔ مزہ آرہا ہے ۔ میں اب کچھ بھی نہیں سنائوں گی۔ اور سن لیجئے۔ یہاں مجھے ڈر نہیں لگتا۔ میں ڈر کو اس جوناگڑھ کے آسیبی گھر میں چھوڑآئی ہوں… وہ ہنس رہی تھی… اب تو میں خود ایک آسیب ہوں۔ یقین نہ ہو تو کمال سے پوچھ لیجئے۔ مجھے اکثر احساس ہوتا ہے کہ کمال مجھ سے خوفزدہ ہے۔ کیوں کمال…؟

’ نہیں تو…، کمال نے جلد بازی میں کہا…

’ دیکھا…، ناہید نے قہقہہ لگایا۔ پہلے نہیں لیکن اب یہ ڈرنے لگا ہے مجھ سے۔ اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مردوں کا ڈرنا اچھا شگن ہے۔ برسوں ان مردوں نے ہمیں ڈرا ڈرا کے رکھا ہے۔ اب انہیں ہم سے بھی ڈر لگنا چاہئے۔ میں سونے جا رہی ہوں۔

وہ تیزی سے اٹھی اور ٹیرس سے اپنے کمرے کی طرف غائب ہوگئی۔کمال یوسف گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جبکہ میں ناہید ناز کی ذہنی کیفیت پر مسلسل غور کر رہا تھا۔ آج چھپانے کے باوجود جوناگڑھ کا تذکرہ ایک بار پھر آگیا تھا۔ اور یہ حقیقت سامنے آگئی تھی کہ جوناگڑھ میں جو اذیتیں ناہید کے حصے میں آئی ہیں، اب اس کا رد عمل باغی ناہید کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی یقین تھا کہ یہ اذیتیں کچھ اتنی بھیانک رہی ہوں گی کہ ناہید محض مردوں کو سزا دینے کے تصور سے ہی خوش ہو جاتی ہے۔ زندگی نے جو بھیانک سلوک اس کے ساتھ ماضی میں کیا ہے، اب وہ اسی کا انتقام لے رہی ہے۔ ممکن ہے یہ شادی بھی اسی انتقام کا حصہ ہو۔ یا یہ ممکن ہے کہ شادی کے بعد آہستہ آہستہ کمال جیسے مرد کی موجودگی میں ان مردوں کی کہانیاں بھی کھلتی چلی گئی ہوں، جو کبھی اس کی زندگی میں آئے ہوں۔ جب آپ اس طرح کے دو لوگوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو بھیانک پہلو پر سب سے پہلے آپ کی نظر پڑتی ہے۔ ممکن ہے کمال ایک متوازن شوہر رہے ہوں اور تجزیہ کے طور پر ناہید کے سامنے وہ مرد اچانک آگئے ہوں، جنہوں نے کبھی، کسی دور میں اس کی روح تک کو زخمی کیا ہو اور آہستہ آہستہ یہ کہانیاں اتنی پھیل گئیں کہ کمال کی خوبیوں پر یہ خوفناک حادثے حاوی ہوتے چلے گئے۔

مگر کہانی کا اصل سرا ناہید ناز کے پاس تھا۔ اور میرے لیے اب اس کی کہانی کو جاننا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔

(5)

لاجو سترہ سال کی ایک ہنس مکھ لڑکی تھی۔پرانی گورینس رکمنی کی چھوٹی بہن… ناہید کا خیال تھا کہ لاجو جلد ہی سب کچھ سیکھ جائے گی۔ رکمنی اپنے گائوں گئی ہوئی تھی اور اس درمیان گھر اورباشا کا خیال لاجو کو ہی رکھنا تھا۔ باشا کے ساتھ اس نے کچن بھی سنبھال لیا تھا۔ اور اسی کے ساتھ اب اس کی بڑی بہن کو چھٹی مل گئی تھی۔ ناہید کی موجودگی میں لاجو اکثر خود کو قابو میں رکھتی تھی لیکن ناہید کے ذرا بھی اوجھل ہوتے ہی وہ کمال سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ممکن ہے میرا وہم ہو لیکن نوخیز عمر کے اپنے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ اور میرا خیال تھا ، یہ بات ذرا بھی ناہید کے علم میںآئی تو لاجو پر پہاڑ ٹوٹ سکتا تھا۔

باہرلان میں ہم نے صبح کا ناشتہ کیا۔ مخملی گھاس پر پلاسٹک کی رنگین کرسیوں پر بیٹھے ہوئے دھوپ کی سنہری کرنوں کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ پہاڑیوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں و ادی گلپوش کو سونے کے رنگوں میں تبدیل کر رہی تھیں۔ میں نے نینی تال کے بارے میں جاننا چاہا تو بریڈ میں مکھن لگا تی ہوئی ناہید نے مسکرا کر کہا۔ یہاں کے لوگ نینا دیوی کے بھکت ہیں۔ اور یہ نینا دیوی شیو کی پتنی پاروتی ہیں۔ اس کے بعد ناہید نے وہ کہانی چھیڑ دی،جو عرصۂ قدیم سے یہاں کے باشندے سنتے چلے آئے ہیں۔ دکش پرجاپتی کی بیٹی اوما کی شادی شیو سے ہوئی تھی۔ لیکن دکش، شیو کو پسند نہیں کرتے تھے۔۔ ایک بار دکش پرجاپتی نے یگیہ کیا اور سارے دیوتائوں کو بلایا۔ لیکن اوما اور شیو کو یگیہ میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ اوما سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ وہ ہون کنڈ میں کود گئی۔ شیوکو جب احساس ہوا تو وہ اپنے رودر روپ ( غصے) میں آگئے۔ معافی مانگنے اور سمجھانے کے بعد شیو نے معاف کردیا اور اوما کے جلے ہوئے جسم کو لے کر آسمانی سفر شروع کردیا۔ جہاں جہاں اوما کے جسم کے حصے گرے، وہاں پرشکتی پیٹھ بنتے چلے گئے۔ اور یہ وہ مقدس جگہ ہے، جہاں اوما کے نین گرے تھے… نین کے گرتے ہی یہاں تال بن گیا… آج بھی یہاں کے باشندے نینا دیوی کی آرادھنا کیا کرتے ہیں۔

ناشتہ سے فارغ ہو کر ناہید کو سمر ولے اسکول جانا تھا۔ لاجو کو ضروری ہدایت دے کر ہم سے معافی مانگ کر وہ اسکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ کمال یوسف کو منسٹری جانا تھا۔ لاجو بار بار باہر آرہی تھی۔ میں اب اس کی آنکھوں کی چمک سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ کمال میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس درمیان کمال نے جو کچھ بتایا… وہ میرے لیے نیا تو نہیں تھا، مگر ناہید کے اندر چلنے والی کشمکش کو ان واقعات کے تناظر میں محسوس کیا جا سکتا تھا۔ کمال تیار ہونے چلے گئے تو میں واقعات کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرنے لگا ۔ اور بہتر صورت یہ ہے کہ میں اسی انداز میں واقعات آپ تک پہچائوں ، جس انداز میں کمال نے مجھ تک پہچانے کی کوشش کی۔ کمال کے مطابق دلی سے آنے کے بعد ہی بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ ہر بار خود کو نرم کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر ناہید کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں نے آہستہ آہستہ اسے ناہید سے دور کرنا شروع کر دیا تھا۔

==

پہاڑیوں پر رات سو گئی تھی۔

باہر گھنا گہرا چھایا تھا۔ کھانے کے بعد تھوڑی سی چہل قدمی اور اس کے بعد کمال یوسف کمرے میں لوٹا تو ناہید لیپ ٹاپ پر جھکی ہوئی تھی۔ کمال سے آنکھیں چار ہوتے ہی ناہید کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

’ تم میری ہر بات مانتے ہونا…‘

’ہاں۔ کیوں۔‘

’آج بھی تم کو میری ایک بات ماننی ہوگی۔‘

لیکن کون سی بات؟‘

’پہلے وعدہ کرو مانو گے؟‘

’ میں وعدہ نہیں کرتا۔ کیونکہ آج کل تمہاری مانگیں خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔‘ کمال یوسف نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔

’ میں نے ایسی کسی مانگ کا اظہارتو نہیں کیا—‘ ناہید زور سے چیخی— یہ اور بات ہے کہ اپنے حساب سے سوچتے اور غور کرتے ہوئے تم اسے غلط رنگ دے دیتے ہو۔‘

’ میں غلط رنگ دینے کی کوشش نہیں کرتا…‘

’ اچھا… چلو کوئی بات نہیں۔ مگر آج تم کو میری بات ماننی ہوگی۔ اچھا ٹھہرو۔ میں ابھی آئی۔‘

کمال یوسف کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا… ناہید کے چہرے کی چمک بتا رہی تھی کہ کوئی انہونی ہونے جا رہی ہے۔ وہ دس منٹ کے بعد لوٹی تو کمال یوسف ایک دم سے چونک گیا۔ ناہید نے ایک مردانہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ یہ وہی سوٹ تھا جسے پچھلے سال ہی اس نے ریٹائرڈ کر دیا تھا مگر ناہید کو یہ سوٹ بہت پسند تھا۔ سفید جھولتا ہوا شرٹ اور گرے کلر کی پینٹ۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پشت کی طرف بندھے تھے۔

’کیسی لگ رہی ہوں میں…‘

’ یہ کیسا مذاق ہے…‘

’ میں پوچھ رہی ہوں کہ کیسی لگ رہی ہوں میں…‘

کمال یوسف نے تلخی سے جواب دیا—’ خود آئینہ میں دیکھ لو… جھولتا ہوا شرٹ۔ پائوں سے باہر نکلتا ہوا پینٹ۔ اس وقت تم ایک جوکر لگ رہی ہو…‘

کمال یوسف نے دیکھا۔ آخری جملے کا زبردست اثر ناہید کے چہرے پر ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے کیا تو سرخ رنگ کی ساڑی اور اس سے میچ کرتا ہوا بلائوز اس کے ہاتھ میں تھا… ناہید نے ساڑی اور بلائوز اس کی طرف اچھال دیا۔

’اب یہ تم کو پہننا ہے…‘

’پاگل ہوگئی ہو۔‘

’ میں کہہ رہی ہوں نا۔ یہ تم کو پہننا ہے۔‘ وہ ہنس رہی تھی۔

’سوال ہی نہیں—‘

’ اس گھر میں دو دو جوکر ہیں۔ اکیلے جوکر بننامجھے منظور نہیں۔‘

’ میںکسی قیمت پر تمہارے اس گھٹیا کھیل میں شریک نہیں ہو سکتا۔‘

وہ تو تمہیں ہونا ہوگا…‘ ناہید زور سے چیخی۔ آخر میں نے بھی تو تمہارا لباس پہنا ہے۔ تمہارا لباس پہنتے ہوئے مجھے دو منٹ کے لیے بھی نہیں سوچنا پڑا۔ ہمارے لباس پہنتے ہوئے تمہیں اتنا سوچنا کیوں پڑ رہا ہے؟ اسی لباس کو دیکھتے ہونا…؟ اسی لباس میں چھپے ہوئے جسم کو آنکھوں میں بساتے ہونا… پہنو…،

کمال کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔

’ لیکن میں اس کے باوجود نہیں پہن سکتا…،

’تمہیں ہر قیمت پر پہننا ہوگا۔‘

’ تم اپنی حد کراس کر رہی ہو ناہید۔‘

ناہید کے چہرے پر خطرناک مسکراہٹ تھی— ’ابھی تم نے میری حد دیکھی کہاں ہے…‘

کمال کا ذہن ڈوب رہا تھا… ساڑی اور بلائوزاس نے کانپتے  ہاتھوں سے اٹھا تو لیا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا، ناہید کی باتوں پر عمل کیوں کیا جائے؟ اگر یہاں صرف پیار ہوتا تو ممکن ہے وہ اس عمل سے بھی گزر جاتا۔ اس نے ایسی کہانیاں سینکڑوں بار سنی تھیں کہ بہت سے جوڑے سیکس کے موقع پر ایک دوسرے کے لباس تبدیل کر لیتے ہیں۔ ممکن ہے ایک نئے ذائقے کے لیے۔ لیکن یہاں ذائقہ نہیں تھا۔ ایک خطرناک ضد شامل تھی۔ اور اس خطرناک ضد میں وہ ناہید کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ ناہید اس کے مردانہ لباس میں سامنے تھی اور حقیقت یہ تھی کہ اس نے جو کر ضرور کہا تھا مگر اس لباس میں اس کی جسمانی خوبصورتی کھل کر سامنے آئی تھی۔ وہ سیکسی لگ رہی تھی۔مگر سوال یہ تھا کہ ساڑی اور بلائوز پہن کر وہ اس میں کیا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اگر وہ منع کر دیتا ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے—؟ وہ اپنی خاموشی میں الجھا ہوا تھا یا اس وقت کمرے کی خطر ناک خاموشی سے بارود کی مہک آرہی تھی…’’ اس نے ناہید کی آواز سنی ، وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر اس سے مخاطب تھی۔

’تم نے اب بھی نہیں پہنا تو سن لو کمال یوسف۔ تم میری موت کے ذمہ دار ہوگے۔ میں یہاں سے سیدھے باہر جائوںگی اور پہاڑسے چھلانگ لگا دوں گی …جانتے ہو نا… میں ایسا کرسکتی ہوں۔‘

کمال یقینی طور پر اس دھمکی سے ڈر گیا تھا اور اس کے آگے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ناہید کی باتوں پر عمل کرے… اس نے بے چارگی بھری نظروں سے ناہید کی طرف دیکھا…

’ تمہاری خواہشیں تمہاری طرح خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔‘

’ جانتی ہوں۔‘

’ کیا یہ ڈرامہ ضروری ہے؟‘

’ہاں… مجھے تمہیں اس ڈریس میں دیکھنا ہے۔ تسلی کرنی ہے۔‘

’ کس بات کی تسلی۔‘

’ یہ نہیں بتا سکتی۔‘

’ کیوں‘

’بس نہیں بتا سکتی۔‘

’ پھر تسلی کس بات کی…‘

ناہید کی مسکراہٹ زہر بھری تھی—’ تم مردوں کو عورت کے روپ میں دیکھنے کی۔ ‘ وہ ہنس رہی تھی—’ فلموں میں دیکھو۔ عامر سے شاہ رخ تک عورتوں کے لباس میں نظر آتے ہیں تو کتنے مضحکہ خیز لگتے ہیں…‘

’ تم یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ تمہارا شوہر کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔؟‘

’پلیز شوہر مت بولو۔ مجھے اس نام سے چڑ ہے۔ اس وقت شوہر میں ہوں۔ اور تم سرخ ساڑی زیب تن کر نے کے بعد میری بیوی۔‘

’ انا کی تسکین ہو جائے گی؟‘

’ مکمل نہیں۔ تھوڑی بہت‘

’ اس سے تمہیں کیا ملے گا؟‘

’ زیادہ سوال مت کرو کمال۔ جو ملے گا تم مرد اسے سمجھ بھی نہیں سکتے۔ مگر پلیز۔ اب پہن لو۔ میں تمہیں اس لباس میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ جلدی کرو…‘

’ تو تم نہیں مانو گی۔‘

’ کسی بھی قیمت پر نہیں۔‘

شاید محبت انسان کو اکثر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ عجیب سی خواہش کا اظہار تھا مگر اس کے لیے دھمکی بھی دی جا چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اندنوں ناہید کی دماغی حالت بہتر نہیں ہے۔ وہ ضد میں کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے… کمال اب وہ کرنے کے لیے مجبور تھا ، جس کا حکم اسے ناہید نے دیا تھا۔اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا… اسے بار بار لگ رہا تھا، وہ نہیں مانا تو ناہید کسی بھی پہاڑی سے کود جائے گی۔ اس کے بعد جو ہوگا، وہ اس الجھن میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دماغ میں دھماکے ہورہے تھے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن یہ کام، جسے ناہید کرنے کے لیے کہہ رہی تھی، ایسا غیر معقول کام تھا، جسے کرتے ہوئے اس کی مردانہ جھجھک آڑے آرہی تھی۔ ایک جھٹکے سے اس نے کپڑے اتار دیئے… بلائوز پہننے کی کوشش کی تو چھوٹا پڑ گیا… ناہید زور سے تالیاں بجا کر ہنسی…

’ ساڑی پہن لو…‘

وہ ساڑی کسی طرح بمشکل کمر سے باندھنے کی کوشش کرنے لگا…

’ اب پلو ڈالو…‘

’اس نے پلو بھی ڈال لیا… اور اچانک ناہید کا زہریلا قہقہہ سن کر چونک گیا…

’تم جوکر نہیں ایک بد ہیئت اورخوفناک مخلوق نظر آرہے ہو… جس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ جائودیکھو، سامنے آئینہ ہے۔ خود کو دیکھ لو… اسی جسم پر ناز کرتے ہو تم لوگ… کیسا اوبڑکھابڑ اور خوفناک بدنما جسم ہے تم لوگوں کا… تم سے اچھے تو سڑک کے گدھے اور گھوڑے ہیں۔ناہید کی آواز سے بارود کی مہک آرہی تھی… اسی بدصورت جسم سے عورت کے بارے میں سوچتے ہو؟ اسی جسم سے زنا بالجبر کو رسوا اور ذلیل کرنے کا خیال جاگتا ہے۔ یہ جسم نہیں ہے، سر سے پائوں تک بکھری ہوئی ایک ایسی بد صورتی ہے جسے سوچنے اور دیکھنے سے بھی گھن آتی ہے۔‘

کمال حیران سا ناہید کو دیکھ رہا تھا۔ گولیورس ٹریول میں جب گولیور گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے انسانی جسم کا کچھ اسی طرح مذاق اڑا رہے تھے، جیسا مذاق اس وقت ناہید اڑا رہی تھی۔ لیکن وہ صرف ایک مرد نہیں تھا، ایک شوہر تھا۔ تو کیا ناہید اس کے وجود کے سہارے دنیا کے تمام مردوں سے انتقام لے رہی تھی…

’تم ناقابل برداشت ہو۔ اور دیکھو، اس لباس نے تمہاری اصلیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہ ہو تم لوگ۔ ٹیڑھے میڑھے۔ اوبڑ کھابڑ… جانوروں سے بدتر۔ اور شاید اسی لیے تم لوگوں کی خصلت میں ایک جانور بولتا آیا ہے۔ تم لوگ جانور ہی پیدا ہوئے اورحقیقت یہ ہے کہ تم مرد جانوروں سے بھی بدتر نظر آتے ہو…،

اس حادثے کے بعدکئی دنوں تک کمال یوسف اور ناہید کے درمیان بول چال بند رہی۔ دو ہی راستے تھے۔ یا تو ناہید سے الگ ہوجایا جائے یا پھر ناہید کو اسی حالت میں قبول کیا جائے۔ ایک طرف باشا تھا جس کے لیے ناہید کی ضرورت تھی اور ایک اہم سوال اور بھی تھا، آج کی ناہید کو کون قبول کرے گا؟ ممکن ہے اس سے الگ ہونے کے بعد ناہید زندگی کی دعوت کو قبول ہی نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناہید اس کی محبت تھی اور وہ مشکل حالات میں بھی ناہید کے بارے میں کچھ بھی برا سوچنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

ایک مہینہ تک سب کچھ ٹھیک چلا۔ مگر ایک مہینہ بعد ایک اور حادثہ ہوگیا جس نے اس فکر کو تقویت دی کہ ناہید کو بدلا نہیں جاسکتا ہے۔ اور ناہید مردوں کے نام پر جس غصے کے ساتھ زندگی جی رہی ہے، یہ غصہ اچھی بھلی ازدواجی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ناہید ان سوالوں سے کہیں دور جا چکی تھی…

’ اس دن شام کے 4بجے ہوں گے…

(6)

ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ باشا کو دو دنوں سے بخار تھا۔ بخار کی کیفیت میں باشا لاجو کے پاس رہنا نہیں چاہتا تھا۔ ناہید باشا کے لیے پاگل ہوجاتی تھی… وہ خود ہی باشا کو لے کر ڈاکٹر کے یہاں چلی جاتی… اور ایسے موقعوں پر ایک بالکل ہی نئی ناہید سامنے ہوتی تھی۔ باشا صحت مند ہوگیا تو ناہید نے آرام کی سانس لی۔ اس کے دوچار روز بعد ہی ناہید کی ایک سہیلی کی شادی تھی۔ کمال نے پہلے تو منع کیا لیکن ناہید کی ـضد کے آگے ہمیشہ کی طرح اسے ہتھیار ڈالنا پڑا۔

’ تم اکیلی کیوں نہیں جا سکتی—؟‘

’ جا کیوں نہیں سکتی۔ لیکن جب تم اپنے دوستوں کی شادی میں جاتے ہو تو مجھے کیوں لے جاتے ہو۔‘

’ کبھی کبھی کسی ضروری کام کی وجہ سے مجبوری بھی تو ہو سکتی ہے۔‘

’ آفس کا کوئی کام اتنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔‘

’ یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو—؟‘

’کیوں کہ میں تمہارے ضروری کام کی نوعیت سے واقف ہوں۔‘

’کیا تم نے یہ محسوس کیا ہے ناہید کہ ان دنوں تمہاری ضد ہر معاملے میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔‘

ناہید نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ ’در اصل تم جسے ضد کہتے ہو وہ چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہوتی ہیں۔ تم ان خواہشوں پر بھی سوالوں کی تہہ چڑھا دو تو تمہاری مرضی…‘

کمال کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر ناہید نے کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو وہ اپنے فیصلے کے آگے جھک نہیں سکتی۔ اگر دونوں میں کسی ایک کو جھکنا ہے تو اسے ہی جھکنا ہوگا۔ صبح کی بوجھل گفتگو کے بعد وہ دیر تک لیپ ٹاپ سے کھیلتا رہا۔ ٹورزم سے متعلق سائٹ پر جانا اور نئے نئے انفارمیشن جمع کرنا اسے پسند تھا۔ اور اسی لیے ڈائرکٹرس میٹنگ میں اس کی انفارمیشن کی قدر کی جاتی تھی۔ کیوںکہ اس کے پاس مضبوطی سے اپنی بات رکھنے کے لیے جو ڈاٹا ز ہوتے تھے، انہیں ہر صورت میں قبول کرنا ہوتا تھا۔ ذہنی دبائو سے بچنے کا بھی یہ ایک طریقہ تھا کہ لیپ ٹاپ سے دل بہلایا جائے۔ مگر کمال یوسف کا بیقرار دل بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ آج بھی کچھ انوکھا ہونے والا ہے۔ دلی سے واپسی کے بعد ہر روز ہی ان مکالموں میں ایک انجانے مرد کی موجودگی ہوتی تھی۔ مرد، جس سے انتقام لیا جانا ہی واحد راستہ تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ دنیا کے تمام مردوں کے انتقام کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا تھا— ایک بار ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا بھی تھا۔

’ تمہارے اندر صبر بہت ہے کمال۔‘

’ اور آپ میرے اسی صبر کا امتحان لیا کرتی ہیں۔‘

’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘ وہ معصومیت سے مسکرائی۔

’لیکن کسی دن یہ صبر ٹوٹ بھی سکتا ہے…‘

’مجھے اس دن کا بھی انتظار رہے گا۔ برف پگھل سکتی ہے۔ صبرٹوٹ کیوں نہیں سکتا۔؟‘

وہ اتنے پیار سے مسکرائی کہ کمال یوسف کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’ تم سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہوناہید۔‘

’میں آسان ہونابھی نہیں چاہتی۔ میں زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی اور جیتی ہوں۔ میں زندگی کو سمجھنے کے لیے دوسروں کا احسان نہیں لیتی۔‘

ناہید مطمئن تھی لیکن تب تک کمال یوسف کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ جلد ہی ایک نئے حملے کا شکار ہونے والا ہے…

بیڈ روم میں آرام کرنے کے دوران ہی ناہید نے جگادیا۔ ابھی تک آپ سو رہے ہیں۔ سات بجے تک شادی میں پہنچنا ہے۔

’ تم سونے بھی نہیں دیتی۔‘ کمال نے بے بسی سے کہا۔

’میں تیار ہونے جا رہی ہوں۔ اورہاں۔ آپ کے لیے کپڑے نکال رہی ہوں۔ جوسوٹ نکالے ہیں۔ آپ کو وہی پہننا ہے۔

’ کیوں۔؟‘

’میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ اور یاد رکھئے شادی میں لے کر میں آپ کو جا رہی ہوں۔ آپ نہیں۔ وہاں میری بہت سی سہیلیاں ہوں گی۔‘

’ سہیلیاں ہوںگی تو میں کیا کروں…؟‘

’ارے آپ کیا کریں گے۔ مجھے تعارف کرانا ہوگا… مجھے بتانا ہوگا کہ آپ کون ہیں۔ اور ہاں۔ ناہید نے جلتے ہوئے توے پر پانی کا چھڑکائو کرتے ہوئے کہا۔ ’سوٹ کے پاس ہی آپ کی گھڑی بھی رکھی ہوئی ہے۔‘

’گھڑی؟‘

’ ہاں۔‘

’ تم جانتی ہو میں گھڑی نہیں پہنتا‘

’ ہم چوڑیاں پہنتے ہیں نا…،، ناہید نے قہقہہ لگایا— ’گھڑی جان بوجھ کر رکھی ہے۔ مجھے احساس ہوگا چوڑیوں کی جگہ آپ کی کلائی پر یہ گھڑی موجود ہے۔

کمال یوسف کی نیند اچٹ چکی تھی۔ وہ حیران و پریشان نظروں سے ناہید کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’ چوڑی کا گھڑی سے کیا رشتہ ہے—‘

’ دونوں ہتھیلیوں کو قید رکھتے ہیں۔‘

’ تو آپ ہمیں شادی میں قیدی بنا کر لے جانا چاہتی ہیں۔‘

’ ہاں۔‘ ناہید نے بے رحم آنکھوں سے کمال یوسف کی طرف دیکھا… ’شادی بیاہ میں ہی تم مردوں کو ہم عورتوں کی یاد آتی ہے۔ نمائش کی چیز بنا کر رکھ دیا ہے عورت کے وجود کو۔ گھر میں میلے کپڑوں میں تمہارے بچوں کی پرورش کرے گی اور جب شادی بیاہ میں لے جانا چاہو گے تو چمچماتے کپڑوں میں شو پیس بنا کر لے جائو گے۔ چار گھنٹے بیوٹی پارلر میں اور پھرایک داسی یا غلام کی طرح جب اپنے دوستوں سے تعارف کراتے ہو تو قربانی کے جانوروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔‘

ناہید نے سفاک نظروں سے کمال کی طرف دیکھا— ’تم ہمیں نمائش کی گڑیا بنا سکتے ہو تو ہم تمہیں نمائش کا گڈا کیوں نہیں بنا سکتے—؟ ہم بھی تمہیں سجا کر لے جائیں گے۔ اور ٹھیک ویسے ہی اپنی سہیلیوں سے تمہارا تعارف کرائیں گے جیسے تم شادی بیاہ کی محفلوں میں ہمارا کراتے ہو… اب چلو۔ کوئی سوال نہیں۔ جلدی سے تیار ہوجائو…

ناہید جا چکی ہے لیکن کمال یوسف اب بھی حیران نظروں سے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں کچھ دیر پہلے ناہید کھڑی تھی۔ کیا تہذیب اور شرافت کا بوجھ کچھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ برداشت کی حد بھی ختم ہوجاتی ہے۔ کوئی آہستہ سے کمال یوسف کے اندر چیختا ہے… کہاں ہو تم…کہاں سو گئی ہے تمہاری مردانگی۔ ناہید ناز ایک کٹھ پتلی کی طرح تمہارا استعمال کر رہی ہے… اور تم مسلسل استعمال ہوتے جا رہے ہو… تم برداشت کی ہر حد سے گزرنے کے بعد کھوکھلے ہو چکے ہو… اور ایک دن تم غائب ہو جائو گے کمال یوسف… تمہاری جگہ صرف تمہارا سایہ رہ جائے گا۔ اور اس سایہ پر بھی ناہید ناز کی حکومت ہوگی۔ ابھی بھی وقت ہے۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ابھی بھی خود کو سنبھال سکتے ہو تم۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ خود کو سنبھالو کمال یوسف…‘

کمال یوسف نے ٹھنڈی سانس بھری… میں نہیں جانتا، میں کہاں کھو جاتا ہوں۔ مگر حقیقت ہے کہ میں کھو جاتا ہوں… اور میں کس بات سے انکار کروں… ناہید ناز کا عمل غلط ہوسکتا ہے۔ مگر اس کی باتوں میں دم ہے۔ یہاں صدیوں کی قید عورت ہے، جس کا مردوں نے ہر سطح پر استحصال کیا ہے۔ اور آج صدیوں کے ظلم سہنے کے بعد وہ عورت اگر ناہید ناز کے وجود میں سانس لے رہی ہے تو وہ مجرم کیسے ہے—؟ غلط یہ ہے کہ مردوں کا یہ انتقام صرف اس سے لیا جا رہا ہے۔ یعنی ایک ایسے مرد سے جو شاید لڑنا بھی بھول چکا ہے۔

وہ اس سر زمین پر پہلا آدم تھا جسے صدیوں کے ظلم و جبر کی علامت بنا کر ذلت اور رسوائی کی صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا اور اس کی سزا یہ تھی کہ اسے اف بھی نہیں کرنا تھا…

==

بطور مصنف میرے پاس اس وقت ہزاروں سوالات تھے، جو ذہن میں پیدا ہورہے تھے۔ مگر میں ان لمحوں میں کمال یوسف کی ذہنی سطح کا اندازہ لگا رہا تھا۔ شرافت اور تہذیب کا بوجھ شاید کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے—

’ پھر آپ شادی میں گئے۔؟‘

’ نہیں۔‘

’اور ناہید مان گئی۔؟‘

’ نہیں۔ اس دن ہمارا جھگڑا ہوا تھا۔ میں نے اس سے صاف طور پر کہا کہ اگر اسے دنیا کے سارے مردوں کا انتقام مجھ سے لینا تھا تو پھر مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہئے تھی۔‘

’ کیا جھگڑے کے دوران ناہید نے رونا بھی شروع کیا تھا؟‘

’ بالکل بھی نہیں۔ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائی۔ وہ دیر تک چیختی رہی۔ میں باہر لان میں جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔‘

’ کیا ناہید عام طورپر رونے سے پرہیز کرتی ہے—؟ یا ایسا کوئی موقع جب آپ نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں…؟‘

’ وہ آنسو بہانے والی لڑکیوں میں سے نہیں ہے۔ ہاں ایک بار باشا کی طبیعت خراب ہوئی تو میں نے اسے روتے ہوئے دیکھا تھا— مگراس نے مجھے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کی آنکھیں نم ہیں۔‘

میں گہری سوچ میں ڈوب گیا—

’ کیا اب بھی آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ایک نارمل لڑکی ہے۔؟‘ کمال نے آہستہ سے کہا— ’میںالجھ کر رہ گیا ہوں۔‘

میں ناہید کے لیے فکر مند تھا۔ مردوں کو قابل نفرت دیکھنے سے کیا وہ اپنی عظیم ترین آزادی کے لیے فتح محسوس کرتی ہے؟

’ مشکل یہ ہے کہ اس کا علاج بھی نہیں کرایا جا سکتا۔ اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا جاسکتا۔ اس پر دبائو نہیں بنایا جاسکتا۔ پھر کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک نا معلوم تشدد کی طرف بڑھ رہی ہے—؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا پہلا شکار میں ہوسکتا ہوں۔ لیکن سوال ہے، راستہ کیا ہے؟ راستہ یہ بھی نہیں کہ میں اسے ذہنی بیماری کی حالت میں چھوڑ کر اس سے الگ ہو جائوں…‘

’ الگ ہونا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انتقام کا یہ شدید جذبہ اسے تشدد کی طرف لے جا رہا ہے۔ اور اس کا ذہن جن باتوں سے دو چار ہے، اس راستہ میں تشدد معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب اس کی بغاوت اسی سمت پرواز کر رہی ہے۔‘

’ میں جانتا ہوں۔ مجھ سے الگ ہونے کے بعد ناہید کے لئے زندگی بہت حد تک مشکل ہو جائے گی اور شاید اسی لیے اب تک میں نے اس کی ہر بات کو برداشت کیا ہے۔ مگر سوچتا ہوں کہ آگے کیا کچھ اور خوفناک صورتحال پیدا ہوتی ہے، تو کیا برداشت کا مادہ میرے اندر ہوگا—؟‘

’ کسی بھی انسان کے لیے یہ کہنا مشکل ہے۔‘

کمال یوسف کی آنکھیں ابھی بھی سوچ کی وادیوں میں تھیں۔ ہم نے اس گفتگو کو یہیں ختم کیا۔ کیونکہ ناہید کے آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ اور ہم ناہید کو اس بات کا احساس نہیں دلانا چاہتے تھے کہ ہماری گفتگو اسی محور پر گردش کر رہی تھی۔

(7)

دو تین دن ہم نے نینی تال کے مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس دوران کمال یوسف اور ناہید دونوں ساتھ رہے۔ مگر دونوں زیادہ تر خاموش رہے۔ ہاں کبھی کبھی باشا کو لے کر دونوں کے درمیان گفتگو ہوجاتی۔ مگر اس بات کا احساس زور پکڑ رہا تھا کہ آہستہ آہستہ ناہید کا انتقامی انداز اب کمال کے لیے ٹینشن کا سبب بننے لگا ہے۔ مجھے گھومنے اور سیر سپاٹے کا شوق ہے اور اس شوق میں اکثر ڈائری اپنے ساتھ رکھتا ہوں اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ لکھنے والے کی حیثیت بہت سے کرداروں کے ساتھ ساتھ ایک منشی کی بھی ہوتی ہے۔ منشی کی نوٹ بک میں واقعات وحادثات کی کڑیاں نوٹ، تاریخوں کے ساتھ اس طرح درج کی گئی ہوتی ہیں کہ انہیں کچھ برسوں کے بعد پڑھیے تو ماضی وتاریخ کی روشنی میں ایک نیا جہان آباد ہوجاتا ہے۔ ڈائری کی اہمیت یوں ہے کہ سلسلہ وار واقعات کو جوڑنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ناہید اور کمال کے ساتھ ہم نے مختلف مقامات کی سیر کی۔ ہم تری رشی سرور بھی گئے۔ کہتے ہیں تین رشیوں نے تین مقاموں پر الگ الگ تین تالوں کی تعمیر کی تھی۔ یہاں قدرت کا انمو ل خزانہ بکھرا ہوا تھا۔

ناہید نے بتایا کہ یہاں1790سے1815 تک گورکھائوں کی حکومت تھی۔ گورکھوں نے گڑھوالی اور کمائونی لوگوں پر بہت ظلم ڈھائے۔ اس کے بعد یہاں برٹش فوج آگئی۔ گورکھائوں کو شکست ہوئی… یہاں کی آب و ہوا خوبصورت تھی۔ انگریزوں کو یہ مقام اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے گڑھوال، کمایوں جیسے پہاڑی مقامات پر نئے نئے شہر بسانے شروع کردیے۔ الوڑا، رانی لینس، نہیں ڈائون انگریزوں نے ہی بسائے۔

نینی تال گھومنے کے دوران ہم سیلانی پیک دیکھنے بھی گئے۔ اور روپ وے پر بھی سوار ہوئے۔ سارا دن یہاں سیاح بوٹ کی سواری کرتے ہیں۔ ساتھ ہی گھوڑ سواری کے بھی مزے لیتے ہیں۔ ہنومان گڑھی۔ کاٹھ گودام، چینی پک جیسے مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے ہم تھک چکے تھے۔ ایک جگہ جب ناہید سستانے کے لئے پتھر کے بنچ پر باشا کے ساتھ بیٹھی تو ناہید کو سنانے کے لئے کمال نے طنز کرتے ہوئے کہا۔

’ عورتیں جلد ہی تھک جایا کرتی ہیں۔‘

ناہید نے غصے سے پلٹ کر دیکھا۔ مگراس درمیان باشا رونے لگا تھا۔ اس لیے وہ باشا کو چپ کرانے میں لگ گئی۔ لیکن گھر واپسی تک دونوں کے درمیان مکالمے نہیں کے برابر ہوئے۔ یہ بات مجھے بری لگ رہی تھی اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ کم از کم میری موجودگی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مگر نفرت کا زہر شاید دونوں طرف اپنا اثر دکھانے لگا تھا۔

دوسرے دن ناہید کے سمرولے اسکول جاتے ہی میں کسی کام سے ڈرائنگ روم آیا تو اچانک میں چونک گیا۔ لاجو پاگلوں کی طرح کمال سے چپکی ہوئی تھی اور اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیے جا رہی تھی۔ جبکہ کمال اس کے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور بار بار آہستگی سے ایک ہی لفظ کہہ رہا تھا۔ لاجو کوئی آجائے گا۔ نادانی مت کرو۔ مگر لاجو کی عمر بہتی ہوئی ندی کی طرح تھی، جو ایسے موقعوں پر رکنا کہاں جانتی ہے۔ کمال جب لان میں آیا تو اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جیسے گناہ کے احساس سے وہ مجھ سے آنکھیں چار کرتے ہوئے شرما رہا ہو یا اسے اس بات کا شک ہو کہ کہیں میں نے اسے اس حال میں دیکھا تو نہیں—

رات کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر بیٹھے تو اچانک ایک بار پھر سے وحیدہ کا تذکرہ آگیا۔ اس درمیان وحیدہ میرے خیالوں سے نکل چکی تھی۔ اور نینی تال کے قیام کے اس پورے ہفتہ کے دوران نہ وحیدہ یہاں ملنے آئی اور نہ اس کے بارے میں کوئی گفتگو ہوئی۔

ناہید نے بتایا۔ وہ من موجی قسم کی لڑکی ہے۔ جب آئے گی تو ایک دن میں کئی چکر ہوجائیں گے۔ اور جب نہیں آئے گی تو کئی کئی دنوں تک روپوش رہے گی۔

کمال نے ناگارجن سینی اور ان کی اہلیہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں، جن کے بچے باہر رہتے ہیں۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ ایک شام ان سے وحیدہ ٹکرائی اور یہ لوگ وحیدہ کو اپنے گھر لے آئے۔ اور وحیدہ بیٹی بن کر تب سے ان لوگوں کے ساتھ ہے۔ ناگارجن اور کوشلیا وحیدہ پر جان چھڑکتے ہیں۔

ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ اسے دیکھیں تو پہلی بار میں اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے۔ وہ انسانوں کی باتیں کم پرندوں کی باتیں زیادہ کرتی ہے۔ یہاں آئے گی تو باشا کو گود میں اٹھالے گی۔ پھر لان میںنکل جائے گی۔ حیرت کی بات یہ کہ پرندے بھی اس کی موجودگی میں اڑتے ہوئے جانے کہاں سے آجاتے ہیں۔

کمال کو نیند آرہی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ناہید اکیلی رہ گئی۔ دور پہاڑیوں کے درمیان جلتے بجھتے ہوئے قمقموں کی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ لمحہ میرے لیے اہم تھا۔ میں ناہید سے مخاطب ہوا…

’ سنو ناہید۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘

’ جی۔‘ ناہید نے چونک کر میری طرف دیکھا۔‘

’ ممکن ہے کسی روز بھی میں دلی واپس چلا جائوں۔ یہاں تم لوگوں سے ملاقات بھی ہوگئی۔ اور نینی تال کی سیر بھی کر لی۔ مگر ناہید۔ عمر میں تم سے کافی بڑا ہوں اس لیے اپنے تجربے کی بنا پر جو کچھ تم سے کہنے جا رہا ہوں۔ وہ غور سے سنو۔ ہوسکتا ہے اس کے بعد تمہیں یہ موقع نہ ملے۔ اور تمہیں وقت کے کھو دینے کا احساس ہو…‘

’ جی…، میں نے پہلی بار ناہید کے چہرے پر خوف کے اثرات دیکھے تھے۔ ’اس گھر میں جو کچھ بھی چل رہا ہے وہ میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اور کمال ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کر رہے ہو۔ یہ تم لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور مجھے بولنے کا حق نہیں۔ مگر مجھے صرف ایک بات کہنی ہے ۔ کوئی ضروری نہیں کہ تم اس بات پر عمل بھی کرو۔‘

’ جی… کہئے…‘ ناہید آہستہ سے بولی۔

’ تمہاری خاموشی کے پیچھے کچھ ہے، یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی اس سے انجان نہیں— یہ خاموشی خطرناک ہے اور اس بات کی گواہ بھی کہ تمہارے اندر ، تمہارے سینے میں ایک زہر بھری پوٹلی رکھی ہے۔ تم اس پوٹلی کو نکالنا نہیں چاہتی، یہ تمہاری مرضی— مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن یہ زہر بھری پوٹلی پھٹ بھی سکتی ہے اور جس دن یہ پوٹلی پھٹے گی ، کئی لوگ اس کے شکار ہو جائیں گے۔ تم ، کمال، باشا اور تم سے وابستہ لوگ— تم ابھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ راز کو راز رکھتے ہوئے تم خود سے کتنا بڑا فریب کر رہی ہو… تم خود کو خطرے میں ڈال رہی ہو۔ کیونکہ پوٹلی کے پھٹنے کا مطلب ہے، سب سے پہلا شکار تم خود ہوگی۔ زندگی میں کوئی ایک ہونا چاہئے، جسے اپنا راز دار بنایا جائے۔ کوئی ایک ، جس پر بھروسہ کیا جائے، کوئی ایک جس کو اپنے دل اورجنوں کا حال سنایا جا سکے۔ تم اکیلے ہی اس راز کی نگہبان رہو اور اکیلے ہی سلگتی اور جلتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہارے اندر سے آگ کے شعلے اٹھنے لگے ہیں۔ اور ابھی وقت ہے کہ تم اس کہانی کو اپنے اندر سے نکالو، جو تمہیں آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

میں ایک لمحہ کے لیے ٹھہرا— ’میں تمہیں مجبور نہیں کر رہا۔ مجبور کر بھی نہیں سکتا۔ مگر تمہارے پاس سوچنے کے لیے پوری رات پڑی ہے۔ تم آرام سے سوچ لو۔ اور اگر محسوس کرو کہ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو تو آرام سے آگ کے ان شعلوں کو نکال دینا جو تمہیں آہستہ آہستہ بھسم کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے۔ تم میری باتوں پر غور ضرور کروگی۔‘

اس کے بعد میں ٹھہرا نہیں۔ اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ اس مکالمہ کے لیے میں نے دو دنوں سے تیار ی کی تھی۔ او رمجھے اس لمحہ کا انتظار تھا جب ناہید اکیلی ہوگی تو میں اپنی بات بھرپور طریقے سے اس کے سامنے رکھ سکوں گا۔ تنہائی کا موقع ہاتھ آیا تو میں نے کھلے طور پر اپنی بات کی وضاحت کردی۔ اب مجھے صبح کے طلوع ہونے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ناہید اپنے راز مجھ پر افشاں کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی مگر اتنا ضرور تھا کہ تنہائی میں وہ اس بارے میں غور ضرور کرے گی— بطور مصنف میں نے اپنی طرف سے نفسیات کے مہرے چل دئیے تھے اور اب مجھے ناہید کے جواب کا انتظار تھا۔

==

دوسرے دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ آسمان میں کہرا چھا گیا تھا۔ ناہید اسکول نہیں گئی۔ ناشتہ کے وقت بھی وہ سوچ میں گرفتار تھی اور جیسے مجھ سے آنکھیں ملاتے ہوئے بھی گھبرا رہی تھی۔ مجھے یقین تھا، یہ کشمکش بھرے لمحے ہیں اور شاید اسی لیے ناہید نے اسکول سے چھٹی کر لی تھی۔ دس بجے کمال آفس کے لیے روانہ ہوگئے۔ بارہ بجے کے آس پاس سورج نمودار ہوچکا تھا۔ میں لان میں تھا۔ میں نے دیکھا، ناہید آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میری طرف آرہی ہے— میرے قریب کی کرسی پر ناہید بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں نیلے آسمان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ اچانک اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ لیکن آنکھیں حرکت میں تھیں جیسے گزرے دنوں کی فلم ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے پردے پر چل رہی ہوں۔

’ اس نے میری طرف دیکھا۔ لمبی سانس لی۔ پھر بولی— ’میں رات بھر سوچتی رہی۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ زخم کا علاج نہ ہو تو اکثر زخم پھٹ جاتے ہیں۔ میرا زخم بھی ناسور بن چکا ہے۔ اور شاید آج ، ان لمحوں میں،میں اس بے رحم کہانی کو یاد کرنا چاہتی ہوں، جس کو میں نے کبھی یاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘ اچانک اس نے دریافت کیا…

’ کیا آپ مجھے کچھ دیر رو لینے دیں گے…؟‘

میں چونک گیا تھا۔ مجھے کمال کی بات یاد آئی۔ کمال یوسف نے کہاتھا، زندگی میں کوئی بھی موقع ایسا نہیں آیا، جب میں نے ناہید کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں۔ لیکن وہی ناہید ناز میرے سامنے بیٹھی ہوئی سسکیاں لے رہی تھی۔ آنسو اس کے رخسار پر پھیل رہے تھے۔ وہ بھول گئی تھی کہ ایک اجنبی اس کے سامنے ہے۔ وہ زور زور سے رو رہی تھی۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اچانک اس کے ہاتھ اٹھے۔ آنسوئوں کو خشک کیا۔ مسکرانے کی کوشش کی۔ میری طرف دیکھا۔

’ اب میں ٹھیک ہوں۔ برسوں بعد زندگی میں لوٹی ہوں۔ لیکن زندگی میں لوٹی کہاں ہوں… ہاں میں آپ کو کچھ سنانے والی تھی… لیکن سمجھ میں نہیں آتا، کہاں سے شروع کروں… یہ کوئی بہت الجھی ہوئی داستان نہیں ہے۔ بہت مختصر سی کہانی ہے… مگر… کہیں نہ کہیں سے مجھے سنانے کی شروعات کرنی ہوگی… ٹھہریے… مجھے سوچ لینے دیجئے—

اور پھر آہستہ آہستہ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا ۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024