خواتین کا تخلیقی سائبان
خواتین کا تخلیقی سائبان
Aug 5, 2018
دیدبان انتخاب۔۔۔جلد :1
مرتبین: سبین علی، سلمیٰ جیلانی، نسترن احسن فتیحی
صفحات: 420، قیمت: 450 روپے، سنہ اشاعت: 2017
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مبصر:حقانی القاسمی
، B-145/8، فورتھ فلور، ٹھوکر نمبر8، شاہین باغ، نئی دہلی
نئی ٹیکنالوجی نے اردو اخبارات و رسائل کے دائرے کو وسعت بخشی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب رسائل و جرائد کی رسائی ان علاقوں تک بھی ہونے لگی ہے جہاں تک پہنچنے کا پہلے تصور محال تھا۔ سوشل میڈیا کا کمال یہ ہے کہ ایک ہی منٹ میں رسالہ یا اخبار لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اس کا منفی اثر اب پرنٹ میڈیا پر پڑنے لگا ہے۔ کیونکہ مطبوعہ اخبارات یا رسائل کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے اور ہر جگہ اس کی موجودگی بھی نہیں ہوپاتی۔ جبکہ آن لائن اخبارات اور رسائل دنیا کے کسی بھی کونے میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو میں آن لائن ادبی جریدوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ جریدے نہ صرف اہم ادبی مباحث اور مسائل کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں بلکہ قاری سے مکالمے کی ایک ایسی صورت بھی پیدا کررہے ہیں جس سے ادبی جمود ٹوٹ رہا ہے اور تحرک کی ایک معنی خیز فضا قائم ہورہی ہے۔ یہ آن لائن جریدے ساری سرحدوں کو توڑ کر مختلف ملکوں اور گوشوں کے لوگوں کو ایک ایسے ادب جہان سے جوڑ رہے ہیں جس میں تنوع ہے اور تازگی بھی۔
’دیدبان‘ بھی ایک آن لائن ادبی جریدہ ہے جس نے مختصر عرصہ میں مقبولیت کی نئی منزلیں طے کی ہیں۔ اس کے آن لائن کئی شمارے شائع ہوچکے ہیں اور شائقین اسے ایک نئے نشانِ راہ اور سنگ میل کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ اس ای میگزین کا ایک سالانہ انتخاب بھی مطبوعہ صورت میں ترتیب دیا گیا ہے جو 420 صفحات پر محیط ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس سے اردو ادب کا ایک عالمی دریچہ ہمارے سامنے کھل جاتا ہے۔نسترن احسن فتیحی نے اس رسالے کی اشاعت کے جواز کے تعلق سے بڑی اہم باتیں لکھی ہیں۔ ان کا یہ خیال قابل تحسین ہے کہ ’’اس اِی میگزین کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں پھیلے ہوئے اردو ادب کے شائقین کو اکٹھا کرنا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ ’’کچھ عرصے سے ہمیں لگ رہا تھا کہ ادب کے منظرنامے پر وہ نام اور تخلیقی کاوشیں جو بیش بہا ہیں لیکن سوشل میڈیا سے دور ہونے کے باعث قارئین ادب کا ایک بڑا حلقہ ان سے حظ اٹھانے سے محروم ہوجاتا ہے۔‘‘ مرتبین نے اسی محرومی کو دور کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا سہارا لیا اور برقی میگزین کی اشاعت کا آغاز کیا۔‘‘ اس تعلق سے ممتاز فکشن نگار اقبال حسن خان کی یہ بات اس کی تائید کرتی ہے کہ ’’اردو زبان کی ترویج کے لیے نیٹ پر بہت تیزی سے قابل قدر کام ہورہا ہے۔ اردو میں جو بھی چھپ رہا تھا اس کی پہنچ اتنے لوگوں تک بوجوہ نہیں تھی لیکن نیٹ پر جو بھی ابھر کر سامنے آتا ہے فوراً ہی لاکھوں تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ نیر حیات قاسمی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آج کے تقاضوں کے مطابق آن لائن موجودگی نہ صرف زیادہ قارئین تک پہنچنے کا باعث بنتی ہے بلکہ ایک ماحول دوست عمل بھی ہے۔‘‘
’دیدبان‘ کا مقصد زیادہ سے زیادہ قارئین تک رسائی ہے اور اس مقصد میں یہ رسالہ کامیاب ہے۔ اس کے مشمولات بھی معیاری ہیں اور قلم کار بھی مستند ہیں۔ افسانے کے باب میں جہاں انور سدید، حامد سراج، ممتاز حسین، شموئل احمد، طارق چھتاری، حسین الحق، شاہد جمیل، عامر ابراہیم، زیب ازکار حسین، قمر سبزواری، غضنفر، سیمیں درانی، سیمیں کرن، شاہین کاظمی، توصیف احمد، مشتاق احمد نوری، آدم شیر، ارشد علی، علی آریان شامل ہیں تو وہیں مضامین میں علی رفاد فتیحی، محمد ظہیر بدر، پیغام آفاقی، فرخ ندیم، قاسم یعقوب، نصیر احمد ناصر، خورشید حیات، افشاں ملک جیسی شخصیتیں ہیں۔ مضامین کا گوشہ اہم ادبی مباحث پر مرکوز ہے۔ علی رفاد فتیحی نے علی سردار جعفری کی نظم ’میراسفر‘ کا ساختیاتی تجزیہ کیا ہے اور ایک نئی جہت سے اس نظم کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ فرخ ندیم نے منٹو کے افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے حوالے سے منٹو متن کے معنیاتی نظام پر دانشورانہ گفتگو کی ہے اور اس کے پاگل کردار بشن سنگھ یا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ابنارملٹی کو موضوع بناتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک فکر انگیز سوال ہے۔ آج کے تناظر میں اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تانیثی تھیوری اور اردو نظم کے حوالے سے قاسم یعقوب کی تحریر فکرانگیز ہے۔ انھوں نے مرد حاوی معاشرے کے خلاف تانیثی متن کے احتجاج پر مربوط اور مبسوط گفتگو کی ہے۔ نصیر احمد ناصر کا مضمون ’عورت عظیم ہے‘ ذہن کے کئی در وا کرتا ہے۔ خورشید حیات کی تحریر ’تخلیق اور تخلیق کا رشتہ‘ بہت سے سوالوں کو ذہن میں جنم دیتی ہے۔ افشاں ملک نے ’عصمت چغتائی کے افسانوں میں رومانی رجحانات‘ کی جستجو کی ہے۔اس میں مائیکرو فکشن کے تحت بھی کئی تحریریں شامل ہیں۔ کتابوں پر تبصرے بھی ہیں اور اچھی منظومات کا انتخاب بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایک گوشہ ’تراجم‘ کا بھی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اب عالمی ادب کے تراجم بہت کم رسائل و جرائد کا حصہ بن پاتے ہیں۔ اس میں جمال ابوحمدان کے عربی افسانے کا ترجمہ ’ابوفہد‘ نے ’چیونٹیوں کی بستی‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ تو سلمیٰ جیلانی نے جیمس جوائس کے افسانے کا ترجمہ ’فلائن کی بہنیں‘ اور اس کے علاوہ سبین علی پنجابی نے ’بابا بلھے شاہ کی کافی‘ کا ترجمہ پنجابی سے کیا ہے۔ فہمیدہ ریاض نے شیخ ایاز کی نظموں کا سندھی سے ترجمہ کیا ہے۔ بلغارین شاعرہ ذویکا بلتد زیویا کا ترجمہ سلمی جیلانی نے کیا ہے۔ جھمپا لاہیری کے مشہور افسانے مسز سین کا ترجمہ ڈاکٹر نازیہ حسن نے انگریزی سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ خالد قیوم تنولی کا ایک قسط وار ناول ’پس غبار سفر‘ کے عنوان سے شامل ہے۔
مجلہ ’دیدبان‘ نے ادب کے نئے امکانات اور رجحانات کو سمیٹنے کی بہت اچھی کوشش کی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ مجلہ تین خواتین کی ادارت میں شائع ہورہا ہے اور یہ تینوں ادب کے نہایت معتبر نام ہیں اور نہایت کشادہ اور متحرک ذہن کے حامل بھی۔ ادب کی عالمی لہروں، رویوں اور رجحانات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ سبین علی، سلمیٰ جیلانی اور نسترن احسن فتیحی یہ تینوں ہی دیدبان کی ترتیب و انتخاب میں شامل ہیں اور اس تثلیث سے ادب کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ یقینا اس سے ہمارے اردو ادب کو ایک نئی آکسیجن ملے گی اور ہم عالمی ادب کے نئے رویوں اور رجحانات سے آگاہ ہوتے رہیں گے۔ ادب کی مختلف صنفوں سے بھی واقفیت حاصل ہوتی رہے گی۔ یقینا یہ ایک اہم کام ہے۔ ’دیدبان‘ اگر اسی تسلسل سے شائع ہوتا رہا تو یقینا یہ ادبی و ثقافتی ڈسکورس کا ایک جلی عنوان ثابت ہوگا۔
٭٭٭
دیدبان انتخاب۔۔۔جلد :1
مرتبین: سبین علی، سلمیٰ جیلانی، نسترن احسن فتیحی
صفحات: 420، قیمت: 450 روپے، سنہ اشاعت: 2017
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مبصر:حقانی القاسمی
، B-145/8، فورتھ فلور، ٹھوکر نمبر8، شاہین باغ، نئی دہلی
نئی ٹیکنالوجی نے اردو اخبارات و رسائل کے دائرے کو وسعت بخشی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب رسائل و جرائد کی رسائی ان علاقوں تک بھی ہونے لگی ہے جہاں تک پہنچنے کا پہلے تصور محال تھا۔ سوشل میڈیا کا کمال یہ ہے کہ ایک ہی منٹ میں رسالہ یا اخبار لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اس کا منفی اثر اب پرنٹ میڈیا پر پڑنے لگا ہے۔ کیونکہ مطبوعہ اخبارات یا رسائل کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے اور ہر جگہ اس کی موجودگی بھی نہیں ہوپاتی۔ جبکہ آن لائن اخبارات اور رسائل دنیا کے کسی بھی کونے میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو میں آن لائن ادبی جریدوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ جریدے نہ صرف اہم ادبی مباحث اور مسائل کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں بلکہ قاری سے مکالمے کی ایک ایسی صورت بھی پیدا کررہے ہیں جس سے ادبی جمود ٹوٹ رہا ہے اور تحرک کی ایک معنی خیز فضا قائم ہورہی ہے۔ یہ آن لائن جریدے ساری سرحدوں کو توڑ کر مختلف ملکوں اور گوشوں کے لوگوں کو ایک ایسے ادب جہان سے جوڑ رہے ہیں جس میں تنوع ہے اور تازگی بھی۔
’دیدبان‘ بھی ایک آن لائن ادبی جریدہ ہے جس نے مختصر عرصہ میں مقبولیت کی نئی منزلیں طے کی ہیں۔ اس کے آن لائن کئی شمارے شائع ہوچکے ہیں اور شائقین اسے ایک نئے نشانِ راہ اور سنگ میل کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ اس ای میگزین کا ایک سالانہ انتخاب بھی مطبوعہ صورت میں ترتیب دیا گیا ہے جو 420 صفحات پر محیط ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس سے اردو ادب کا ایک عالمی دریچہ ہمارے سامنے کھل جاتا ہے۔نسترن احسن فتیحی نے اس رسالے کی اشاعت کے جواز کے تعلق سے بڑی اہم باتیں لکھی ہیں۔ ان کا یہ خیال قابل تحسین ہے کہ ’’اس اِی میگزین کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں پھیلے ہوئے اردو ادب کے شائقین کو اکٹھا کرنا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ ’’کچھ عرصے سے ہمیں لگ رہا تھا کہ ادب کے منظرنامے پر وہ نام اور تخلیقی کاوشیں جو بیش بہا ہیں لیکن سوشل میڈیا سے دور ہونے کے باعث قارئین ادب کا ایک بڑا حلقہ ان سے حظ اٹھانے سے محروم ہوجاتا ہے۔‘‘ مرتبین نے اسی محرومی کو دور کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا سہارا لیا اور برقی میگزین کی اشاعت کا آغاز کیا۔‘‘ اس تعلق سے ممتاز فکشن نگار اقبال حسن خان کی یہ بات اس کی تائید کرتی ہے کہ ’’اردو زبان کی ترویج کے لیے نیٹ پر بہت تیزی سے قابل قدر کام ہورہا ہے۔ اردو میں جو بھی چھپ رہا تھا اس کی پہنچ اتنے لوگوں تک بوجوہ نہیں تھی لیکن نیٹ پر جو بھی ابھر کر سامنے آتا ہے فوراً ہی لاکھوں تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ نیر حیات قاسمی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آج کے تقاضوں کے مطابق آن لائن موجودگی نہ صرف زیادہ قارئین تک پہنچنے کا باعث بنتی ہے بلکہ ایک ماحول دوست عمل بھی ہے۔‘‘
’دیدبان‘ کا مقصد زیادہ سے زیادہ قارئین تک رسائی ہے اور اس مقصد میں یہ رسالہ کامیاب ہے۔ اس کے مشمولات بھی معیاری ہیں اور قلم کار بھی مستند ہیں۔ افسانے کے باب میں جہاں انور سدید، حامد سراج، ممتاز حسین، شموئل احمد، طارق چھتاری، حسین الحق، شاہد جمیل، عامر ابراہیم، زیب ازکار حسین، قمر سبزواری، غضنفر، سیمیں درانی، سیمیں کرن، شاہین کاظمی، توصیف احمد، مشتاق احمد نوری، آدم شیر، ارشد علی، علی آریان شامل ہیں تو وہیں مضامین میں علی رفاد فتیحی، محمد ظہیر بدر، پیغام آفاقی، فرخ ندیم، قاسم یعقوب، نصیر احمد ناصر، خورشید حیات، افشاں ملک جیسی شخصیتیں ہیں۔ مضامین کا گوشہ اہم ادبی مباحث پر مرکوز ہے۔ علی رفاد فتیحی نے علی سردار جعفری کی نظم ’میراسفر‘ کا ساختیاتی تجزیہ کیا ہے اور ایک نئی جہت سے اس نظم کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ فرخ ندیم نے منٹو کے افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے حوالے سے منٹو متن کے معنیاتی نظام پر دانشورانہ گفتگو کی ہے اور اس کے پاگل کردار بشن سنگھ یا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ابنارملٹی کو موضوع بناتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک فکر انگیز سوال ہے۔ آج کے تناظر میں اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تانیثی تھیوری اور اردو نظم کے حوالے سے قاسم یعقوب کی تحریر فکرانگیز ہے۔ انھوں نے مرد حاوی معاشرے کے خلاف تانیثی متن کے احتجاج پر مربوط اور مبسوط گفتگو کی ہے۔ نصیر احمد ناصر کا مضمون ’عورت عظیم ہے‘ ذہن کے کئی در وا کرتا ہے۔ خورشید حیات کی تحریر ’تخلیق اور تخلیق کا رشتہ‘ بہت سے سوالوں کو ذہن میں جنم دیتی ہے۔ افشاں ملک نے ’عصمت چغتائی کے افسانوں میں رومانی رجحانات‘ کی جستجو کی ہے۔اس میں مائیکرو فکشن کے تحت بھی کئی تحریریں شامل ہیں۔ کتابوں پر تبصرے بھی ہیں اور اچھی منظومات کا انتخاب بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایک گوشہ ’تراجم‘ کا بھی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اب عالمی ادب کے تراجم بہت کم رسائل و جرائد کا حصہ بن پاتے ہیں۔ اس میں جمال ابوحمدان کے عربی افسانے کا ترجمہ ’ابوفہد‘ نے ’چیونٹیوں کی بستی‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ تو سلمیٰ جیلانی نے جیمس جوائس کے افسانے کا ترجمہ ’فلائن کی بہنیں‘ اور اس کے علاوہ سبین علی پنجابی نے ’بابا بلھے شاہ کی کافی‘ کا ترجمہ پنجابی سے کیا ہے۔ فہمیدہ ریاض نے شیخ ایاز کی نظموں کا سندھی سے ترجمہ کیا ہے۔ بلغارین شاعرہ ذویکا بلتد زیویا کا ترجمہ سلمی جیلانی نے کیا ہے۔ جھمپا لاہیری کے مشہور افسانے مسز سین کا ترجمہ ڈاکٹر نازیہ حسن نے انگریزی سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ خالد قیوم تنولی کا ایک قسط وار ناول ’پس غبار سفر‘ کے عنوان سے شامل ہے۔
مجلہ ’دیدبان‘ نے ادب کے نئے امکانات اور رجحانات کو سمیٹنے کی بہت اچھی کوشش کی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ مجلہ تین خواتین کی ادارت میں شائع ہورہا ہے اور یہ تینوں ادب کے نہایت معتبر نام ہیں اور نہایت کشادہ اور متحرک ذہن کے حامل بھی۔ ادب کی عالمی لہروں، رویوں اور رجحانات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ سبین علی، سلمیٰ جیلانی اور نسترن احسن فتیحی یہ تینوں ہی دیدبان کی ترتیب و انتخاب میں شامل ہیں اور اس تثلیث سے ادب کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ یقینا اس سے ہمارے اردو ادب کو ایک نئی آکسیجن ملے گی اور ہم عالمی ادب کے نئے رویوں اور رجحانات سے آگاہ ہوتے رہیں گے۔ ادب کی مختلف صنفوں سے بھی واقفیت حاصل ہوتی رہے گی۔ یقینا یہ ایک اہم کام ہے۔ ’دیدبان‘ اگر اسی تسلسل سے شائع ہوتا رہا تو یقینا یہ ادبی و ثقافتی ڈسکورس کا ایک جلی عنوان ثابت ہوگا۔
٭٭٭