گلناز کوثر کی نظمیں
گلناز کوثر کی نظمیں
Aug 7, 2018
دیدبان شمارہ۔۸
گلناز کوثر کی نظمیں
وطن کی یاد میں
اک مدت کے بعد اچانک
برفیلی اور سرد فضا سے
ٹکرایا اک دھوپ کا ٹکڑا
جھلمل کرتی ریشمی کرنیں
چاروں جانب پھیل رہی ہیں
ان دیکھی گمنام حرارت
دھیرے دھیرے
ٹھٹھرے ہوئے یخ بستہ منظر
کے سینے میں اتر رہی ہے
سادہ سا ۔۔۔۔۔یہ دھوپ کا ٹکڑا
جانے کہاں سے لے آیا ہے
بھولے بسرے گیتوں کی
مدھم آوازیں
سات سمندر پار کی خوشبو
دریائوں کی ٹھنڈی لہریں
کھیتوں کا لہراتا سونا
تیز دھوپ کا بہتا جھرنا
اور کسانوں کے چہروں کا
تپتا تانبا
محنت کش مزدور کے
ہاتھوں کی گانٹھوں کی سختی
تانگے والے کی بھرپور ہنسی،
مدھم ہلکورے
مست ہوائوں کے وہ ریلے
گائوں کی ٹھنڈی چھائوں
اور شہر کے میلے
پھولی پھولی سانسوں والے
دوڑتے ، بھاگتے کھیلتے بچے
چولہے کی اک آنچ سے تپتے
مائوں کے چہرے
گلیوں سے اٹھتی آوازیں
سائیکل پر برتن لٹکاتا ایک گوالا
سبزی والا، ردی والا، کانجی والا
بجتی ہوئی اسکول کی گھنٹی
گڈو، پپو، ببلو ، بنٹی
پھیری والے کی وہ تانیں
بھائو تائو اور دکانیں
عید پہ بازاروں کے چکر
اونچی بلڈنگ والے دفتر
فائلوں والے کچھ فریادی
اکڑے ہوئے بابو، چپڑاسی
سڑک کنارے سجی ہوئی
پھولوں کی کیاری
پائوں پڑتا ایک بھکاری
بھوک، پیاس ،غربت ، بیماری
جھنڈے والی لمبی گاڑی
ساون کی بےقابو برکھا
ہر دم کھانستابوڑھا پنکھا
کھڑکی سے ٹکراتامدھم چاند کا ہالہ
اور سویرے بھاپ اڑاتا چائے کا پیالہ
دھوپ کا ٹکڑا
جانے کہاں سے لے آیا ہے
یادوں کے یہ سارے پیکر
رنگ برنگے کتنے منظر
خواب ہے جیسے خواب کے اندر
روح کہیں پر دور فضا میں
جانے کیا کیا کھوج رہی ہے
خالی نظر کھڑکی سے لگ کر
سوچ رہی ہے
مٹ نہ سکیں گے دل سے میرے
چاہے بنا لوں جتنے بھیس
میرے موسم، میرے نغمے ،
میری مٹی ، میرا دیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
رائیگانی
سحر دم دریچوں پہ سورج کی دستک سے جاگی
بہت دھیمے ،مدھم سروں میں
پرندوں کی چہکار
خوابیدہ پیڑوں تلے
سانس لیتی حرارت کو چھو کر
پگھلنے لگیں اوس کی چند شفاف بوندیں
اچٹتی ہوئی نیند کی شاہزادی کی کروٹ سے
خوابوں بھرا طشت الٹا
کھلی ڈوریاں رات کے شامیانے کی
دُکھتے ہوئے جسم پہنے
زمیں زاد نکلے
زمیں زاد نکلے
چلے طے شدہ زنگ کھائے ہوئے
راستوں کی مسافت کو اوڑھے
تسلسل سے چلتی ہوئی ایک نائو
سمے کا بہائو
زمانے کا چکر
محلے، دکانیں ،مکان اور دفتر
فلک سے بھی اونچے ہیں خواہش کے ٹیلے
مگر ان کی کٹھنائیاں کون جھیلے
قدم لڑکھڑائے تودیوار کے ایک سائے میں
دو چار سانسوں کی مہلت،
حزیں جو ہوئے توبس اک آہ بھرنے کی
تھوڑی سی فرصت ،
نہیں اس سے آگےانہیں کچھ اجازت ،
زمیں زاد ،
اندھی مسافت کے راہی ،
سمے کے سپاہی ،
سروں کو جھکائےچلے جا رہے ہیں ،
کوئی دیکھتا ہے؟
کوئی سوچتا ہے؟
لگاتاررفتار،کاہش کا حاصل
ڈری ، سہمی ،الجھی ہوئی اک کہانی ،
بہائو میں بہتی ہوئی زندگانی ،
سو وہ بھی فقط
رائیگانی
۔۔۔۔۔۔۔
جی تو کہتا ہے۔۔۔۔
جی تو کہتا ہے
آگ لگ جائے
اور جل جائے
بولتا منظر
پیڑ سے لپٹی
کاسنی بیلیں
گنگناتی ہوا کا
جھونکا بھی
گرتی پڑتی
اداس آوازیں
ان کہی ، ان سنی
صدائیں بھی
شام کا آخری
کنارہ بھی
دور ہنستا ہوا
ستارہ بھی
نہ رہیں کھلکھلاتے
تازہ گلاب
نیلگوں رات
چاندنی کے عذاب
ہونی ، ان ہونی کا
گماں نہ رہے
درد کا ایک بھی
نشاں نہ رہے
میں رہوں۔۔۔۔۔ اور
یہ جہاں نہ رہے
۔۔۔۔۔۔
ذرا سی مسکراہٹ
ذرا سی مسکراہٹ
کانچ کی آنکھوں میں
جگنو بھر کے
رخساروں کو
دھیمی آنچ سے
رنگوں سے
دہکاتی ہوئی
ہونٹوں تک آتی ہے
شرارت کھیلتی ہے
چاندنی کے ساتھ
چہرے کی
ملائم سلوٹوں کو
جگمگاتی ہے
ذرا سی مسکراہٹ
تتلیوں کے بھیس میں
اڑتی ہے
خوشبو سے اٹے
پھولوں کے در،
شاخوں کے روزن کھٹکھٹاتی ،
نیند میں کھوئے ہوئے
اک خواب سے الجھے ہوئے
بھٹکے ہوئے
منظر جگاتی ہے
ذرا سی مسکراہٹ
پھیلتی ہے
رات کی
آسودہ پلکوں پر دھرے
موتی چرانے ،
درد کے منظر بھلانے ،
دور تک پھیلی خموشی سے
کوئی نغمہ اٹھانے کو۔۔۔۔
ذرا سی مسکراہٹ
روشنی ، خوشبو اٹھائے ،
رنگ دہکائے
مری جانب بھی آتی ہے
مگر میری حزیں دنیا
تھکا ہارا تخیل
شام سے بےزار دل
ویسے ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
خامشی
ایک بےکل مسافت سے
الجھی ہوئی خامشی
رینگتی ہے
بہت زرد کمرے کی
دیواریں درزیں کھرچتی
سیہ میز کے اس طرف
کل سے ٹالی، سنبھالی
گھڑی سے لپٹتی ہے
بیکار، بدرنگ
صوفے کےنیچےچھپی
گرد کوجھانکتی
چائے کے کپ میں
کب سےجمی
تیز تلچھٹ کوپیتی
سیہ گھور راتوں کے گم صم فسانوں،
سویروں کی کچلائی رنگت پہ
ہنستی ہوئی خامشی
کانچ کی بوتلوں سے پھسلتی
کہے ان کہے
کالے حرفوں کے دفتر نگلتی
زمانوں سے ٹھہرے ہوئے
خوف کےپانیوں سے
پگھلتی ہوئی خامشی
رینگتی ہےرگوں میں بسے
درد کو تاکتی
وحشتوں کی حدیں ناپتی
برف لہجےکی ڈھیری سے
شعلوں کے ننھے بگولے
بگولوں سے شبنم بناتی ہوئی خامشی
رینگتی ہے بہت دیر سے
ایک بے کل مسافت سے
الجھی ہوئی
خامشی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
دیدبان شمارہ۔۸
گلناز کوثر کی نظمیں
وطن کی یاد میں
اک مدت کے بعد اچانک
برفیلی اور سرد فضا سے
ٹکرایا اک دھوپ کا ٹکڑا
جھلمل کرتی ریشمی کرنیں
چاروں جانب پھیل رہی ہیں
ان دیکھی گمنام حرارت
دھیرے دھیرے
ٹھٹھرے ہوئے یخ بستہ منظر
کے سینے میں اتر رہی ہے
سادہ سا ۔۔۔۔۔یہ دھوپ کا ٹکڑا
جانے کہاں سے لے آیا ہے
بھولے بسرے گیتوں کی
مدھم آوازیں
سات سمندر پار کی خوشبو
دریائوں کی ٹھنڈی لہریں
کھیتوں کا لہراتا سونا
تیز دھوپ کا بہتا جھرنا
اور کسانوں کے چہروں کا
تپتا تانبا
محنت کش مزدور کے
ہاتھوں کی گانٹھوں کی سختی
تانگے والے کی بھرپور ہنسی،
مدھم ہلکورے
مست ہوائوں کے وہ ریلے
گائوں کی ٹھنڈی چھائوں
اور شہر کے میلے
پھولی پھولی سانسوں والے
دوڑتے ، بھاگتے کھیلتے بچے
چولہے کی اک آنچ سے تپتے
مائوں کے چہرے
گلیوں سے اٹھتی آوازیں
سائیکل پر برتن لٹکاتا ایک گوالا
سبزی والا، ردی والا، کانجی والا
بجتی ہوئی اسکول کی گھنٹی
گڈو، پپو، ببلو ، بنٹی
پھیری والے کی وہ تانیں
بھائو تائو اور دکانیں
عید پہ بازاروں کے چکر
اونچی بلڈنگ والے دفتر
فائلوں والے کچھ فریادی
اکڑے ہوئے بابو، چپڑاسی
سڑک کنارے سجی ہوئی
پھولوں کی کیاری
پائوں پڑتا ایک بھکاری
بھوک، پیاس ،غربت ، بیماری
جھنڈے والی لمبی گاڑی
ساون کی بےقابو برکھا
ہر دم کھانستابوڑھا پنکھا
کھڑکی سے ٹکراتامدھم چاند کا ہالہ
اور سویرے بھاپ اڑاتا چائے کا پیالہ
دھوپ کا ٹکڑا
جانے کہاں سے لے آیا ہے
یادوں کے یہ سارے پیکر
رنگ برنگے کتنے منظر
خواب ہے جیسے خواب کے اندر
روح کہیں پر دور فضا میں
جانے کیا کیا کھوج رہی ہے
خالی نظر کھڑکی سے لگ کر
سوچ رہی ہے
مٹ نہ سکیں گے دل سے میرے
چاہے بنا لوں جتنے بھیس
میرے موسم، میرے نغمے ،
میری مٹی ، میرا دیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
رائیگانی
سحر دم دریچوں پہ سورج کی دستک سے جاگی
بہت دھیمے ،مدھم سروں میں
پرندوں کی چہکار
خوابیدہ پیڑوں تلے
سانس لیتی حرارت کو چھو کر
پگھلنے لگیں اوس کی چند شفاف بوندیں
اچٹتی ہوئی نیند کی شاہزادی کی کروٹ سے
خوابوں بھرا طشت الٹا
کھلی ڈوریاں رات کے شامیانے کی
دُکھتے ہوئے جسم پہنے
زمیں زاد نکلے
زمیں زاد نکلے
چلے طے شدہ زنگ کھائے ہوئے
راستوں کی مسافت کو اوڑھے
تسلسل سے چلتی ہوئی ایک نائو
سمے کا بہائو
زمانے کا چکر
محلے، دکانیں ،مکان اور دفتر
فلک سے بھی اونچے ہیں خواہش کے ٹیلے
مگر ان کی کٹھنائیاں کون جھیلے
قدم لڑکھڑائے تودیوار کے ایک سائے میں
دو چار سانسوں کی مہلت،
حزیں جو ہوئے توبس اک آہ بھرنے کی
تھوڑی سی فرصت ،
نہیں اس سے آگےانہیں کچھ اجازت ،
زمیں زاد ،
اندھی مسافت کے راہی ،
سمے کے سپاہی ،
سروں کو جھکائےچلے جا رہے ہیں ،
کوئی دیکھتا ہے؟
کوئی سوچتا ہے؟
لگاتاررفتار،کاہش کا حاصل
ڈری ، سہمی ،الجھی ہوئی اک کہانی ،
بہائو میں بہتی ہوئی زندگانی ،
سو وہ بھی فقط
رائیگانی
۔۔۔۔۔۔۔
جی تو کہتا ہے۔۔۔۔
جی تو کہتا ہے
آگ لگ جائے
اور جل جائے
بولتا منظر
پیڑ سے لپٹی
کاسنی بیلیں
گنگناتی ہوا کا
جھونکا بھی
گرتی پڑتی
اداس آوازیں
ان کہی ، ان سنی
صدائیں بھی
شام کا آخری
کنارہ بھی
دور ہنستا ہوا
ستارہ بھی
نہ رہیں کھلکھلاتے
تازہ گلاب
نیلگوں رات
چاندنی کے عذاب
ہونی ، ان ہونی کا
گماں نہ رہے
درد کا ایک بھی
نشاں نہ رہے
میں رہوں۔۔۔۔۔ اور
یہ جہاں نہ رہے
۔۔۔۔۔۔
ذرا سی مسکراہٹ
ذرا سی مسکراہٹ
کانچ کی آنکھوں میں
جگنو بھر کے
رخساروں کو
دھیمی آنچ سے
رنگوں سے
دہکاتی ہوئی
ہونٹوں تک آتی ہے
شرارت کھیلتی ہے
چاندنی کے ساتھ
چہرے کی
ملائم سلوٹوں کو
جگمگاتی ہے
ذرا سی مسکراہٹ
تتلیوں کے بھیس میں
اڑتی ہے
خوشبو سے اٹے
پھولوں کے در،
شاخوں کے روزن کھٹکھٹاتی ،
نیند میں کھوئے ہوئے
اک خواب سے الجھے ہوئے
بھٹکے ہوئے
منظر جگاتی ہے
ذرا سی مسکراہٹ
پھیلتی ہے
رات کی
آسودہ پلکوں پر دھرے
موتی چرانے ،
درد کے منظر بھلانے ،
دور تک پھیلی خموشی سے
کوئی نغمہ اٹھانے کو۔۔۔۔
ذرا سی مسکراہٹ
روشنی ، خوشبو اٹھائے ،
رنگ دہکائے
مری جانب بھی آتی ہے
مگر میری حزیں دنیا
تھکا ہارا تخیل
شام سے بےزار دل
ویسے ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
خامشی
ایک بےکل مسافت سے
الجھی ہوئی خامشی
رینگتی ہے
بہت زرد کمرے کی
دیواریں درزیں کھرچتی
سیہ میز کے اس طرف
کل سے ٹالی، سنبھالی
گھڑی سے لپٹتی ہے
بیکار، بدرنگ
صوفے کےنیچےچھپی
گرد کوجھانکتی
چائے کے کپ میں
کب سےجمی
تیز تلچھٹ کوپیتی
سیہ گھور راتوں کے گم صم فسانوں،
سویروں کی کچلائی رنگت پہ
ہنستی ہوئی خامشی
کانچ کی بوتلوں سے پھسلتی
کہے ان کہے
کالے حرفوں کے دفتر نگلتی
زمانوں سے ٹھہرے ہوئے
خوف کےپانیوں سے
پگھلتی ہوئی خامشی
رینگتی ہےرگوں میں بسے
درد کو تاکتی
وحشتوں کی حدیں ناپتی
برف لہجےکی ڈھیری سے
شعلوں کے ننھے بگولے
بگولوں سے شبنم بناتی ہوئی خامشی
رینگتی ہے بہت دیر سے
ایک بے کل مسافت سے
الجھی ہوئی
خامشی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔