اداریہ- شمارہ۔ ۔ ۸سبین علی

اداریہ- شمارہ۔ ۔ ۸سبین علی

Aug 21, 2018

اداریہ شمارہ ہشتم مزاحمتی ادب

دیدبان شمارہ۔۸

اداریہ ۔ سبین علی


دیدبان کا آٹھواں شمارہ قارئین کی خدمت میں ہیش ہے۔ اس شمارے کا موضوع بھی ساتویں شمارے کی مانند مزاحمتی ادب ہی رکھا گیا ہے۔ نواں شمارہ بھی اسی موضوع کی ذیل میں ترتیب دیا جائے گا اور ان تینوں شماروں میں سے مزاحمتی ادب کی چنیدہ تحریروں کو دیدبان کتاب 3 کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ امید ہے یہ کتاب مزاحمتی ادب کے حوالے سے ایک اہم دستاویز کی صورت میں سامنے آئے گی۔

ادب اور مزاحمت کا پرانا ساتھ ہے ۔ حرف سے انسان کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا اظہار کا۔ حرف کی طاقت سے مفر ممکن نہیں۔ ہر لفظ اپنے اندر معنوی احساس سموئے ہوتا ہے ۔ لغات میں لکھے الفاظ کے مفاہیم ان الفاظ کو طاقتور بناتے ہیں، کمزور ظاہر کرتے ہیں مزاحمت کا یا باغیانہ رنگ بھی دکھاتے ہیں۔ حرف سے لفظ فقرے اور ادب کا سفر طے ہوا تو مزاحمت کی بیانیہ میں تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا بیانیہ قدیم ہے۔ازمنہ قدیم سے جنگوں میں پڑھے جانے والے رجز اور ظالم جنگجووں کی ہجو گویا ایک طرز کا مزاحمتی ادب ہی تھا۔قریہ قریہ بستی بستی گھومتے اپنے اشعار سناتے بنجارے ماضی کے قصوں سے لے کر حال تک کی داستانیں بیان کرتے نفرت کے مقابلے میں محبت اور جنگ کے مقابل امن کے گیت گاتے گویا ایک طرز کا مزاحمتی ادب ہی پیش کرتے۔

وقت بدلا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں دنیا بھر میں تخلیق کیا جانے والا ادب اور آرٹ مزاحمت کی نئی شکل سامنے لایا۔ جہاں ادب آرٹ اور فلم میڈیا کو آلات حرب کے طور ہر برتا جانے لگا ۔ وہیں مزاحمتی ادب سے ہٹ کر پروپیگنڈا کی بھی کئی اشکال سامنے آئیں مگر خالص ادب اس پروپیگنڈا سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹم بم کی ہولناک تباہ کاری کا نشانہ بنے تو باہر کی دنیا کو شروع میں وہاں کی تباہی اور انسانی المیوں کا اس وقت تک درست ادراک نہ ہو سکا تھا جب وہاں کے ادیبوں اور فنکاروں کا اس ایٹمی حملے کے پس منظر میں تخلیق کیا ادب اور فن پارے دنیا کی نظروں میں نہ آئے۔

عالمی نو آبادیاتی نظام میں ادب کے نئے خدوخال واضح ہونے لگے۔ اسی دور میں برصغیر میں ترقی پسند تحریک نے ادب میں اپنے قدم جمائے اور اردو ادب کو بہترین مزاحمتی ادب کا ذخیرہ دیا۔آزادی کے بعد جب ادیبوں اور شاعروں کے قلم پر حکومتی پابندیاں لگائی جانے لگیں تب بھی ادیبوں اور شاعروں نے مزاحمتی ادب کی راہ ترک نہ کی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب آزادی اظہار بدترین پابندیوں کی زد میں تھا تو مزاحمتی تحریروں کو علامتی پیرائے میں لکھنے کا فن عروج پر پہنچا ۔ بگل والا جیسے افسانے تخلیق ہوئے "ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا کیا کہنا" جیسی نظمیں تخلیق ہوئیں۔دوسری طرف فلسطین اور عرب دنیا میں بھی اعلیٰ پائے کا مزاحمتی ادب تخلیق کیا گیا بلکہ مزاحمتی ادب کا لفظ ہی سب سے پہلے فلسطین میں استعمال ہوا۔اسی دوران فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر اپنے ہی ملک کے استحصالی رویے کے خلاف کھل کر لکھتے رہے ۔

نائین الیون کے بعد جب بین الاقوامی حالات نے بہت شدت اور تیزی سے کروٹ بدلی تو ادب میں بھی اس کے اثرات سامنے آنے لگے ۔ جہاں ایک طرف عالمی انتشار اور دوسری طرف بڑی طاقتوں کا اپنی معشیت کے لیے اسلحے کی فروخت پر انحصار بالآخر نت نئی جنگوں کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ سوچی سمجھی جنگیں دنیا کے کئی ممالک کے عوام کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہیں۔

ادب کا انسانی سماج پر اثر سست مگر دیرپا ہوتا ہے۔ یہ دھیرے دھیرے پہلے زبان پھر ثقافت اور پھر لوگوں کے شعور کا حصہ بن کر جبر و استبداد اور جنگ کے خلاف عوامی رائے ہموار کرنے کا کام کر سکتا ہے۔ ادب سیاست اور پالیسی ساز اداروں کے لیے ایک تھنک ٹینک فراہم کر سکتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف برصغیر کے بہت سے ادیب سیاسی پس منظر میں لکھنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اپنے ناول "منسٹری آف اٹموسٹ ہیپی نس" پر بات کرتے ہوئے اردون دھتی رائے نے کہا کہ "یہ بہت فکر انگیز بات ہے کہ ہمارے مصنفین سیاسی ہونے سے ڈرتے ہیں ۔یہ خیال کہ مصنفین کو کچھ ایسا لکھنے تک محدود رہنا چاہیے جو حلق سے آسانی سے اتر سکے جو قارئین پڑھنا پسند کریں اور وہ بیسٹ سیلر رائٹر بن سکیں بہت خطرناک رجحان ہے۔"

۔ ہر مزاحمتی ادب کہیں نہ کہیں سیاست پر بھی بات کرتا ہے کیونکہ اختیارات کی باگ ڈور سیاست کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اور مزاحمت کا مطلب ہر ناپسندیدہ لفظ ،رویے یا عمل کے مقابل باغیانہ طرز اظہار اپنانا ہے۔

دور حاضر میں جس طرز کا عالمی انتشار پھیلا ہے اس سے مزاحمتی ادب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

اگرچہ اردو میں مزاحمتی ادب کا سرمایہ دیگر بین الاقوامی زبانوں کی بنست قدرے کم ہے لیکن اردو میں بھی اچھا مزاحمتی ادب لکھا جا رہا ہے اور اسے سنجیدہ قارئین کا ایک وسیع حلقہ بھی میسر ہے۔ اسی لیے دیدبان نے کوشش کی کہ مصنفین کو نہ صرف اس موضوع پر لکھنے کی دعوت دی جائے بلکہ دور حاضر

میں لکھے جا رہے مزاحمتی ادب کو ایک جگہ یکجا بھی کیا جائے۔

اگلے شمارے کے لیے مزاحمتی ادب پر مشتمل تحریریں دیدبان کی ای میل پر نومبر تک ارسال کی جا سکتی ہیں۔

اس شمارے پر قارئین کی تجاویز و آراء کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

سبین علی

دیدبان شمارہ۔۸

اداریہ ۔ سبین علی


دیدبان کا آٹھواں شمارہ قارئین کی خدمت میں ہیش ہے۔ اس شمارے کا موضوع بھی ساتویں شمارے کی مانند مزاحمتی ادب ہی رکھا گیا ہے۔ نواں شمارہ بھی اسی موضوع کی ذیل میں ترتیب دیا جائے گا اور ان تینوں شماروں میں سے مزاحمتی ادب کی چنیدہ تحریروں کو دیدبان کتاب 3 کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ امید ہے یہ کتاب مزاحمتی ادب کے حوالے سے ایک اہم دستاویز کی صورت میں سامنے آئے گی۔

ادب اور مزاحمت کا پرانا ساتھ ہے ۔ حرف سے انسان کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا اظہار کا۔ حرف کی طاقت سے مفر ممکن نہیں۔ ہر لفظ اپنے اندر معنوی احساس سموئے ہوتا ہے ۔ لغات میں لکھے الفاظ کے مفاہیم ان الفاظ کو طاقتور بناتے ہیں، کمزور ظاہر کرتے ہیں مزاحمت کا یا باغیانہ رنگ بھی دکھاتے ہیں۔ حرف سے لفظ فقرے اور ادب کا سفر طے ہوا تو مزاحمت کی بیانیہ میں تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا بیانیہ قدیم ہے۔ازمنہ قدیم سے جنگوں میں پڑھے جانے والے رجز اور ظالم جنگجووں کی ہجو گویا ایک طرز کا مزاحمتی ادب ہی تھا۔قریہ قریہ بستی بستی گھومتے اپنے اشعار سناتے بنجارے ماضی کے قصوں سے لے کر حال تک کی داستانیں بیان کرتے نفرت کے مقابلے میں محبت اور جنگ کے مقابل امن کے گیت گاتے گویا ایک طرز کا مزاحمتی ادب ہی پیش کرتے۔

وقت بدلا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں دنیا بھر میں تخلیق کیا جانے والا ادب اور آرٹ مزاحمت کی نئی شکل سامنے لایا۔ جہاں ادب آرٹ اور فلم میڈیا کو آلات حرب کے طور ہر برتا جانے لگا ۔ وہیں مزاحمتی ادب سے ہٹ کر پروپیگنڈا کی بھی کئی اشکال سامنے آئیں مگر خالص ادب اس پروپیگنڈا سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹم بم کی ہولناک تباہ کاری کا نشانہ بنے تو باہر کی دنیا کو شروع میں وہاں کی تباہی اور انسانی المیوں کا اس وقت تک درست ادراک نہ ہو سکا تھا جب وہاں کے ادیبوں اور فنکاروں کا اس ایٹمی حملے کے پس منظر میں تخلیق کیا ادب اور فن پارے دنیا کی نظروں میں نہ آئے۔

عالمی نو آبادیاتی نظام میں ادب کے نئے خدوخال واضح ہونے لگے۔ اسی دور میں برصغیر میں ترقی پسند تحریک نے ادب میں اپنے قدم جمائے اور اردو ادب کو بہترین مزاحمتی ادب کا ذخیرہ دیا۔آزادی کے بعد جب ادیبوں اور شاعروں کے قلم پر حکومتی پابندیاں لگائی جانے لگیں تب بھی ادیبوں اور شاعروں نے مزاحمتی ادب کی راہ ترک نہ کی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب آزادی اظہار بدترین پابندیوں کی زد میں تھا تو مزاحمتی تحریروں کو علامتی پیرائے میں لکھنے کا فن عروج پر پہنچا ۔ بگل والا جیسے افسانے تخلیق ہوئے "ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا کیا کہنا" جیسی نظمیں تخلیق ہوئیں۔دوسری طرف فلسطین اور عرب دنیا میں بھی اعلیٰ پائے کا مزاحمتی ادب تخلیق کیا گیا بلکہ مزاحمتی ادب کا لفظ ہی سب سے پہلے فلسطین میں استعمال ہوا۔اسی دوران فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر اپنے ہی ملک کے استحصالی رویے کے خلاف کھل کر لکھتے رہے ۔

نائین الیون کے بعد جب بین الاقوامی حالات نے بہت شدت اور تیزی سے کروٹ بدلی تو ادب میں بھی اس کے اثرات سامنے آنے لگے ۔ جہاں ایک طرف عالمی انتشار اور دوسری طرف بڑی طاقتوں کا اپنی معشیت کے لیے اسلحے کی فروخت پر انحصار بالآخر نت نئی جنگوں کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ سوچی سمجھی جنگیں دنیا کے کئی ممالک کے عوام کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہیں۔

ادب کا انسانی سماج پر اثر سست مگر دیرپا ہوتا ہے۔ یہ دھیرے دھیرے پہلے زبان پھر ثقافت اور پھر لوگوں کے شعور کا حصہ بن کر جبر و استبداد اور جنگ کے خلاف عوامی رائے ہموار کرنے کا کام کر سکتا ہے۔ ادب سیاست اور پالیسی ساز اداروں کے لیے ایک تھنک ٹینک فراہم کر سکتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف برصغیر کے بہت سے ادیب سیاسی پس منظر میں لکھنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اپنے ناول "منسٹری آف اٹموسٹ ہیپی نس" پر بات کرتے ہوئے اردون دھتی رائے نے کہا کہ "یہ بہت فکر انگیز بات ہے کہ ہمارے مصنفین سیاسی ہونے سے ڈرتے ہیں ۔یہ خیال کہ مصنفین کو کچھ ایسا لکھنے تک محدود رہنا چاہیے جو حلق سے آسانی سے اتر سکے جو قارئین پڑھنا پسند کریں اور وہ بیسٹ سیلر رائٹر بن سکیں بہت خطرناک رجحان ہے۔"

۔ ہر مزاحمتی ادب کہیں نہ کہیں سیاست پر بھی بات کرتا ہے کیونکہ اختیارات کی باگ ڈور سیاست کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اور مزاحمت کا مطلب ہر ناپسندیدہ لفظ ،رویے یا عمل کے مقابل باغیانہ طرز اظہار اپنانا ہے۔

دور حاضر میں جس طرز کا عالمی انتشار پھیلا ہے اس سے مزاحمتی ادب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

اگرچہ اردو میں مزاحمتی ادب کا سرمایہ دیگر بین الاقوامی زبانوں کی بنست قدرے کم ہے لیکن اردو میں بھی اچھا مزاحمتی ادب لکھا جا رہا ہے اور اسے سنجیدہ قارئین کا ایک وسیع حلقہ بھی میسر ہے۔ اسی لیے دیدبان نے کوشش کی کہ مصنفین کو نہ صرف اس موضوع پر لکھنے کی دعوت دی جائے بلکہ دور حاضر

میں لکھے جا رہے مزاحمتی ادب کو ایک جگہ یکجا بھی کیا جائے۔

اگلے شمارے کے لیے مزاحمتی ادب پر مشتمل تحریریں دیدبان کی ای میل پر نومبر تک ارسال کی جا سکتی ہیں۔

اس شمارے پر قارئین کی تجاویز و آراء کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

سبین علی

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024