آرزوؤں کے سراب

آرزوؤں کے سراب

Aug 9, 2018

ایک شخص جو ہر چیز کو رنگ دینا چاہتا تھا

مصنف

تبسّم ضیا

شمارہ

شمارہ - ۸

دیدبان شمارہ۔۸

افسانہ :آرزؤں کے سراب

تحریر: تبسم ضیا

میں اپنے مکان کی چھت پر اس جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا جہاں سے علاقے کی پانی کی ٹینکی صاف اور پوری دکھائی دیتی ہے۔میں کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ اسی لمحے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔میں جانتا تھا کہ کس کی کال ہے لہذا موبائل فون کی سکرین کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور بنا کسی تردد کے فون کان کے ساتھ لگا کر، دوسری جانب سے ’ہیلو‘ سننے کا انتظار کئے بغیر ، بولنا شروع کر دیا۔

’ ’کیا تم نے ہمارے علاقے کی پانی کی ٹینکی دیکھ رکھی ہے؟سیمنٹ کی ’Y‘ شکل کی وہ بڑی ٹینکی جس کے نصیب میں اب تا قیامت ایک ٹا نگ پر کھڑے رہنا لکھ دیا گیا ہے‘‘۔ دوسری جانب خاموشی تھی اور میں بغیر رکاوٹ کے بولتا چلا جا رہا تھا۔

’’جانتی ہو، اس ٹینکی کو دیکھ کر مجھے کیا خیال آتا ہے؟ میں سوچتا ہوںکہ اس پر بے شمار مختلف رنگوںکی ٹائلز لگا دوں۔۔۔یا پھر۔۔۔یا پھراس پر کرچی کا باریک اور خوبصورت کام کسی کاریگر سے کروا دوں۔یا خود اپنے ہاتھوں سے کر دوں۔ پھر جب میں یہاں اپنی چھت پر سے اسے دیکھا کروں گا تو مجھے کیسا محسوس ہو گا؟ یقیناً اب سے مختلف۔۔۔یقیناً دلکش۔۔۔ کاش۔۔۔!! اے کاش۔۔۔میرے پاس کچھ پیسے ہوتے تو میں اس دیو قامت پانی کی ٹینکی پر کرچی کا خوبصورت اور دلکش کام ضرور کروا دیتا۔اپنے ہاتھوں ہی سے کر ڈالتا۔۔۔‘‘

دوسری جانب سکوت طاری تھا لیکن میں جانتا تھا کہ فون اس کے کان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ میںچارپائی پر سیدھا لیٹ گیا اور بغیر رُکے بولتا چلا گیا۔

’’یہ کوّے۔۔۔یہ کوّے۔۔۔سب کے سب کالے کیوں ہیں؟ نیلگوں آسمان پر اڑتے یہ بھدّے سیّاہ کوّے کس قدر واہیات معلوم ہوتے ہیں۔۔۔میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اب کی بار جب تم آئو گی تو ہم دونوں مل کر انھیں پکڑیں گے اور مختلف رنگوں کے سپرے پینٹس ان پر کرتے جایئں گے۔۔۔اور۔۔۔اور یہ عمل روزانہ کیا کریں گے۔ تم دیکھنا۔۔۔پھر ہر شام آسمان کیسا رنگین ہو جائے گا۔۔۔اور ایک روز اس ہلکے نیلے آسمان پر ہمیں گہرے نیلے ، گلابی، نارنجی اورپیلے رنگوں کے کوّے اُڑتے دکھائی دیں گے۔ کتنا بھلا محسوس ہو گا ہمیں۔۔۔کیا خوب منظر ہو گا وہ۔۔۔‘‘ ہیجان میں ایک مرتبہ پھر میں اٹھ بیٹھا ۔اب میری ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹک رہی تھیں اور نظریں سامنے پڑے خستہ حال میز پر، جسے کمرے میں جگہ کی قلت کے باعث چھت پر ایک طرح سے پھینک دیا گیا تھا۔

’’یہ کیا۔۔۔بادل آگئے۔۔۔لیکن میری میز پر تو دھوپ پڑ رہی ہے۔۔۔ کتنا عجیب ہے یہ منظر۔۔۔ یہ دھوپ چھائوں کے لمحات مجھ پر عجیب کیفیت طاری کر رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ رو دوں۔۔۔‘‘ آنسو میری آنکھوں میں آئے تھے لیکن باہر نہیں نکلے ۔۔۔ یا وہ نظر ہی نہیں آئے ہوں گے۔۔۔ شائد ان کا کوئی رنگ نہیں اس لئے۔۔۔

’’اب کیا کیا جائے۔۔۔ آنسووں کا رنگ کیسے بدلہ جائے؟مجھے ایسے آنسو پسند نہیں جن کا کوئی رنگ نہ ہو۔۔۔ میں آج ہی سے مختلف رنگ پانی میں گھول گھول کر پینا شروع کر دوں گا۔۔۔ پھر دیکھنا مختلف رنگ ایک دوسرے میں شامل ہو کر کیسے کیسے نئے رنگوں کو جنم دیتے ہیںاور وہ رنگ میری آنکھوں کے رستے باہر نکلا کریں گے۔۔۔اُن رنگوں کو دیکھ کر مجھے کتنی مسرت ہو گی۔۔۔

دوسری جانب مستقل سکوت طاری تھا۔

’’سنو!! میں ایک بڑی یونیورسٹی میں داخل ہوا اور نوٹس بورڈ کی جانب بڑھا۔۔۔

نہیں۔۔۔!! وہ کسی بڑے سے ریستوران کی وسیع و عریض گیلری تھی یا شائد کوئی آرٹ گیلری۔۔۔نوٹس بورڈ پر مختلف کاغذ لگے ہوئے تھے۔ سب کے سب فوٹو سٹیٹ شدہ۔۔۔ سب کے سب پھیکے۔۔۔ کئی نوٹس بورڈز تھے۔۔۔ان پر تصویریں لگی تھیں۔۔۔سب کی سب پھیکی۔۔۔ سیاہ سفید رنگوں سے بنی۔۔۔ان کے آرٹسٹ کون ہوں گے؟ میرا دل چاہتا ہے کہ بہت سے پینٹ کے ڈبے، مختلف رنگوں کے۔۔۔ ان سب پر اچھال دوں۔۔۔اور یہاں سے بھاگ جائوں۔۔۔ جب میں وہاں سے نکلا تو سر سبز لہلہا تے کھیت تھے، ذرا نیچے کر کے۔۔۔ میں مبہوت یہاں وہاں دیکھتارہا ۔۔۔ مٹی ۔۔۔اور ٹوٹا ہوا ایک دروازہ۔۔۔مغلیہ۔۔۔ شاہی طرز کا۔۔۔ایک طرف کو پڑا ہوا تھا۔ہوا نے مجھے اٹھا لیا۔میں ہوا سے بھی ہلکا ہو چکا تھا۔۔۔میں ہوا میں خلائی طشتری بنا ہوا تھا۔ ہوا مجھے اٹھا کر کچھ اوپر کو لے گئی اور پھر کچھ دیر کے بعد دھیرے دھیرے نیچے لانا شروع کر دیا۔میں۔۔۔نیچے آتا گیا۔۔۔آتا گیا۔۔۔زمین کی مٹی کے بالکل قریب۔۔۔ہوا نے مجھے اٹھائے رکھا اور میں مٹیالی زمین کو تکتا رہا۔۔۔‘‘

’’تمہیں پتا ہے کل جب میں یونہی فارغ بیٹھا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا تو وہاں کئی بال مجھے سفید نظر آئے۔۔۔ میرے پاس مختلف رنگوں کے مارکرز پڑے ہوئے تھے۔۔۔میں نے وہ اٹھائے اور باری باری ایک ایک بال کو پکڑ کر ان پر پھیرنا شروع کر دیئے۔۔۔‘‘

’’ہاں!! تو میں تمہیں بتا رہا تھا کہ میں ہوا سے بھی ہلکا ہو چکا تھا اور خلائی طشتری کی مانند ہوا میں تیرنے لگا تھا۔ جب ہوا مجھے اوپر کو اٹھا لے گئی تھی تو میں نے دیکھا کہ مختلف رنگوں میں نہائی کرچی کے کام والی ٹینکی کے گرد کئی لوگ جمع تھے اور ٹینکی کو پانی سے خالی کر رہے تھے۔کچھ لوگ اس کے گرد حفاظتی خار دار تار لگا رہے تھے۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ آج کے بعد اس کو خالی رکھا جائے اور پانی کے لئے استعمال نہ کیا جائے تا کہ اس خوبصورت نوادر کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔۔۔ پھر ہوا جب مجھے زمین کے بالکل قریب لے آئی اور میں مٹی کے بے حد قریب تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ تمام کوّے جن کو ہم نے مل کر مختلف رنگوں میں دھو ڈالا تھا وہ سب کے سب دَم توڑے حیرت سے چونچیں کھولے زمین پر پڑے تھے۔۔۔ ارے یہ کیا۔۔۔؟ اچھا بھئی اب میں فون بند کرتا ہوں۔۔۔ مجھے نہانا ہے۔۔۔کتنے بھدّے معلوم ہورہے ہیں میری چھاتی پر یہ رنگین بال۔۔۔‘‘

دیدبان شمارہ۔۸

افسانہ :آرزؤں کے سراب

تحریر: تبسم ضیا

میں اپنے مکان کی چھت پر اس جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا جہاں سے علاقے کی پانی کی ٹینکی صاف اور پوری دکھائی دیتی ہے۔میں کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ اسی لمحے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔میں جانتا تھا کہ کس کی کال ہے لہذا موبائل فون کی سکرین کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور بنا کسی تردد کے فون کان کے ساتھ لگا کر، دوسری جانب سے ’ہیلو‘ سننے کا انتظار کئے بغیر ، بولنا شروع کر دیا۔

’ ’کیا تم نے ہمارے علاقے کی پانی کی ٹینکی دیکھ رکھی ہے؟سیمنٹ کی ’Y‘ شکل کی وہ بڑی ٹینکی جس کے نصیب میں اب تا قیامت ایک ٹا نگ پر کھڑے رہنا لکھ دیا گیا ہے‘‘۔ دوسری جانب خاموشی تھی اور میں بغیر رکاوٹ کے بولتا چلا جا رہا تھا۔

’’جانتی ہو، اس ٹینکی کو دیکھ کر مجھے کیا خیال آتا ہے؟ میں سوچتا ہوںکہ اس پر بے شمار مختلف رنگوںکی ٹائلز لگا دوں۔۔۔یا پھر۔۔۔یا پھراس پر کرچی کا باریک اور خوبصورت کام کسی کاریگر سے کروا دوں۔یا خود اپنے ہاتھوں سے کر دوں۔ پھر جب میں یہاں اپنی چھت پر سے اسے دیکھا کروں گا تو مجھے کیسا محسوس ہو گا؟ یقیناً اب سے مختلف۔۔۔یقیناً دلکش۔۔۔ کاش۔۔۔!! اے کاش۔۔۔میرے پاس کچھ پیسے ہوتے تو میں اس دیو قامت پانی کی ٹینکی پر کرچی کا خوبصورت اور دلکش کام ضرور کروا دیتا۔اپنے ہاتھوں ہی سے کر ڈالتا۔۔۔‘‘

دوسری جانب سکوت طاری تھا لیکن میں جانتا تھا کہ فون اس کے کان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ میںچارپائی پر سیدھا لیٹ گیا اور بغیر رُکے بولتا چلا گیا۔

’’یہ کوّے۔۔۔یہ کوّے۔۔۔سب کے سب کالے کیوں ہیں؟ نیلگوں آسمان پر اڑتے یہ بھدّے سیّاہ کوّے کس قدر واہیات معلوم ہوتے ہیں۔۔۔میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اب کی بار جب تم آئو گی تو ہم دونوں مل کر انھیں پکڑیں گے اور مختلف رنگوں کے سپرے پینٹس ان پر کرتے جایئں گے۔۔۔اور۔۔۔اور یہ عمل روزانہ کیا کریں گے۔ تم دیکھنا۔۔۔پھر ہر شام آسمان کیسا رنگین ہو جائے گا۔۔۔اور ایک روز اس ہلکے نیلے آسمان پر ہمیں گہرے نیلے ، گلابی، نارنجی اورپیلے رنگوں کے کوّے اُڑتے دکھائی دیں گے۔ کتنا بھلا محسوس ہو گا ہمیں۔۔۔کیا خوب منظر ہو گا وہ۔۔۔‘‘ ہیجان میں ایک مرتبہ پھر میں اٹھ بیٹھا ۔اب میری ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹک رہی تھیں اور نظریں سامنے پڑے خستہ حال میز پر، جسے کمرے میں جگہ کی قلت کے باعث چھت پر ایک طرح سے پھینک دیا گیا تھا۔

’’یہ کیا۔۔۔بادل آگئے۔۔۔لیکن میری میز پر تو دھوپ پڑ رہی ہے۔۔۔ کتنا عجیب ہے یہ منظر۔۔۔ یہ دھوپ چھائوں کے لمحات مجھ پر عجیب کیفیت طاری کر رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ رو دوں۔۔۔‘‘ آنسو میری آنکھوں میں آئے تھے لیکن باہر نہیں نکلے ۔۔۔ یا وہ نظر ہی نہیں آئے ہوں گے۔۔۔ شائد ان کا کوئی رنگ نہیں اس لئے۔۔۔

’’اب کیا کیا جائے۔۔۔ آنسووں کا رنگ کیسے بدلہ جائے؟مجھے ایسے آنسو پسند نہیں جن کا کوئی رنگ نہ ہو۔۔۔ میں آج ہی سے مختلف رنگ پانی میں گھول گھول کر پینا شروع کر دوں گا۔۔۔ پھر دیکھنا مختلف رنگ ایک دوسرے میں شامل ہو کر کیسے کیسے نئے رنگوں کو جنم دیتے ہیںاور وہ رنگ میری آنکھوں کے رستے باہر نکلا کریں گے۔۔۔اُن رنگوں کو دیکھ کر مجھے کتنی مسرت ہو گی۔۔۔

دوسری جانب مستقل سکوت طاری تھا۔

’’سنو!! میں ایک بڑی یونیورسٹی میں داخل ہوا اور نوٹس بورڈ کی جانب بڑھا۔۔۔

نہیں۔۔۔!! وہ کسی بڑے سے ریستوران کی وسیع و عریض گیلری تھی یا شائد کوئی آرٹ گیلری۔۔۔نوٹس بورڈ پر مختلف کاغذ لگے ہوئے تھے۔ سب کے سب فوٹو سٹیٹ شدہ۔۔۔ سب کے سب پھیکے۔۔۔ کئی نوٹس بورڈز تھے۔۔۔ان پر تصویریں لگی تھیں۔۔۔سب کی سب پھیکی۔۔۔ سیاہ سفید رنگوں سے بنی۔۔۔ان کے آرٹسٹ کون ہوں گے؟ میرا دل چاہتا ہے کہ بہت سے پینٹ کے ڈبے، مختلف رنگوں کے۔۔۔ ان سب پر اچھال دوں۔۔۔اور یہاں سے بھاگ جائوں۔۔۔ جب میں وہاں سے نکلا تو سر سبز لہلہا تے کھیت تھے، ذرا نیچے کر کے۔۔۔ میں مبہوت یہاں وہاں دیکھتارہا ۔۔۔ مٹی ۔۔۔اور ٹوٹا ہوا ایک دروازہ۔۔۔مغلیہ۔۔۔ شاہی طرز کا۔۔۔ایک طرف کو پڑا ہوا تھا۔ہوا نے مجھے اٹھا لیا۔میں ہوا سے بھی ہلکا ہو چکا تھا۔۔۔میں ہوا میں خلائی طشتری بنا ہوا تھا۔ ہوا مجھے اٹھا کر کچھ اوپر کو لے گئی اور پھر کچھ دیر کے بعد دھیرے دھیرے نیچے لانا شروع کر دیا۔میں۔۔۔نیچے آتا گیا۔۔۔آتا گیا۔۔۔زمین کی مٹی کے بالکل قریب۔۔۔ہوا نے مجھے اٹھائے رکھا اور میں مٹیالی زمین کو تکتا رہا۔۔۔‘‘

’’تمہیں پتا ہے کل جب میں یونہی فارغ بیٹھا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا تو وہاں کئی بال مجھے سفید نظر آئے۔۔۔ میرے پاس مختلف رنگوں کے مارکرز پڑے ہوئے تھے۔۔۔میں نے وہ اٹھائے اور باری باری ایک ایک بال کو پکڑ کر ان پر پھیرنا شروع کر دیئے۔۔۔‘‘

’’ہاں!! تو میں تمہیں بتا رہا تھا کہ میں ہوا سے بھی ہلکا ہو چکا تھا اور خلائی طشتری کی مانند ہوا میں تیرنے لگا تھا۔ جب ہوا مجھے اوپر کو اٹھا لے گئی تھی تو میں نے دیکھا کہ مختلف رنگوں میں نہائی کرچی کے کام والی ٹینکی کے گرد کئی لوگ جمع تھے اور ٹینکی کو پانی سے خالی کر رہے تھے۔کچھ لوگ اس کے گرد حفاظتی خار دار تار لگا رہے تھے۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ آج کے بعد اس کو خالی رکھا جائے اور پانی کے لئے استعمال نہ کیا جائے تا کہ اس خوبصورت نوادر کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔۔۔ پھر ہوا جب مجھے زمین کے بالکل قریب لے آئی اور میں مٹی کے بے حد قریب تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ تمام کوّے جن کو ہم نے مل کر مختلف رنگوں میں دھو ڈالا تھا وہ سب کے سب دَم توڑے حیرت سے چونچیں کھولے زمین پر پڑے تھے۔۔۔ ارے یہ کیا۔۔۔؟ اچھا بھئی اب میں فون بند کرتا ہوں۔۔۔ مجھے نہانا ہے۔۔۔کتنے بھدّے معلوم ہورہے ہیں میری چھاتی پر یہ رنگین بال۔۔۔‘‘

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024