زمین گول ھے
زمین گول ھے
Feb 4, 2023
دیدبان شمارہ ۔۱۷ 2023
افسانہ : زمین گول ھے
مصنف : آغاگل
بہت دنوں بعد اسے مینا کا فون آیا۔
" کیسے ہو ؟ ذرا اپنا ویٹ سیپ نمبر کھولو“
اتفاقاً وہ دفتر میں اکیلا ہی تھا۔ سرکاری دفاتر وہ چڑیا گھر ہیں جہاں دفتر میں پھدکتے غراتے کاٹتے افسر اپنی بہار دکھاتے ھیں۔ لوگ اس سے ملنے خیریت دریافت کرنے آتے، شادی کے موقعہ پر دولہا سے زیادہ اہمیت افسروں کو ملتی۔کیونکہ افسر ہی سرکار ہیں۔فون کی بگینگ عام تھی اور آقا کے پاس تمام زبانیں جاننے والے ملازم تھے جو فوراً ہی بات کا مطلب بیان کرکے رکھ دیتے۔ویٹ سیپ پر مینا آگئی۔
" ایک کنیز فروخت کرنا چاہتی ہوں، اگر اچھی بولی لگاؤ۔ بہت کم عمر ہے ، نا تجربہ کار زیرو میٹر کمپنی پیکنگ“
امجد کو تاؤ چڑھا۔
” تم جانتی ہو کہ کنیزوں کا پہلے تو گاہک معائینہ کرتے، تسلی کرتے اور اس کے بعد بولی شروع ہوتی۔کبھی موبائیل پر بھی بولی لگی؟ چڑھا رکھی ھے کیا ؟“
مینا بھی خوشگوار موڈ میں تھی۔
”وہ زمانے لد گئے کب کے ، اب میں کیا میزان چوک میں نمائش لگاؤں۔ اس بار قیمت پہلی والی سے ڈبل ہوگی“
امجد بھاؤ تاؤ کرنے لگا۔
”تم جانتی ہو کہ بجٹ میں بھی کٹ لگ گیا ھے۔ وہ حسین زمانے بھول جاؤ اب تو پورا ملک ہی کشکول بدست پھرتا ھے ، کبھی ان کے در کبھی در بدر“
مینا نے آنکھیں بدل لیں۔
" اچھا کوئی اور در تلاش کرتی ہوں .....“
امجد بے تاب ہو گیا۔
” کیا بے مروت ہو ، بھاؤ تاؤ تو کرنے دو “
مینا آسمان پہ تھی۔
” مال اچھا ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی قدر دانوں کا شہر ھے......یہ کوئی سینٹ کا ٹکٹ یا دوبئی مارکیٹ کا کوٹ نہیں.....میرا کیسے گزارا ہوتا ہے،جانتے ہو؟ “
امجد جانتا تھا کہ مول تول کا وقت نہیں ہے۔
” کب آ رہی ہو؟ “
مینا نے فیصلہ سنا دیا۔
” تمہارے گھر ، پانچ بجے کچھ کھانے پینے کے لیے بھی رکھنا “
امجد کے گھر پہ اکثر فریادی چلے آیا کرتے۔ نوکری کے متلاشی بھی کسی سفارشی کے ہمراہ سی۔وی لیئے پہنچ جاتے۔اسکول اور کالج کی بے معنی اور بیکار تعلیم کے بعد نوجوان میر کا غم، سندھ کی فتح، علاؤ الدین خلجی کی مارکیٹ پالیسی۔اکبر کی مذہبی پالیسی۔ دو قومی نظرئیہ اور مسلم لیگ کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے۔
چونکہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروبار کے لیے وہ ناموزوں ہوا کرتے اس لیے سبھی سرکاری نوکری کی پنکچر بس پہ چڑھنے کی کوشش کرتے۔ دفتر میں بھی رجسٹر میں حاضری لگانے کے علاوہ کوئی کام نہ ہوتا۔ اس پہ مستزاد کہ سال میں چالیس روز تنخواہ کے ساتھ حقی چھٹی (Earned Leave) بھی ملتی۔ جس کے باعث وہ چلہ لگا نے خدا کی راہ میں چل دیتے۔ تنخواه حسب سابق ملتی رہتی اور جب بال سفید ہونے لگتے تو پنشن ملنے لگتی اور فوت ہو جاتے تو پھر ان کی بیوہ کو پنشن ملتی۔ یہی سبب تھا کہ بوڑھے افسروں سے کوہ قاف کی پریاں بھی شادی کے لئے پر تولنے لگتیں کہ چند ہی روز میں واصل جنت ہوگا تو ان کی تنخواہ لگ جائے گی،جس کے باعث بے روزگار ہیرو بیوہ پر ریجھ جاتے اور شادی کر لیتے۔
مینا کے کام دھندے میں راز داری اور پابندیء وقت کی اہمت تھی۔ وہ وقت پر چلی آئی، غریب غرباء کو مہمان خانے میں بٹھایا جاتا تھا۔ جبکہ ہم رتبہ یا روساء کو ڈرائینگ روم میں احترام سے لایا جاتا۔ وہ ڈرائینگ روم ہی دولت مندی کا مظہر تھا، جس میں گھوڑے کی اصل کھال کے صوفے اور قیمتی فرنیچر کے علاوہ بخارائی اور تبریز بچھے تھے۔
مینا کے ساتھ ایک سہمی ہوئی سی خوفزدہ لڑکی تھی، جس کے ہاتھ میں اسکی سی وی کا لفافہ تھا۔ اسکا خوف دور کرنا بھی ضروری تھا، وہی بے معنی تعلیم والا بی اے کرکے آئی تھی۔ جس کا زمانے اور عصر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ امجد نے چائے منگوائی کچھ دلاسہ دیا تو لڑکی کے ماتھے کے بل کھلے وہ سخت پریشان تھی۔ باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ اس کی دو اور بہنیں بھی ھیں۔ اچھی بھلی خو شگوار زندگی تھی کہ اچانک ہی اسکے باپ کی کسی سے آنکھیں چار ہوئیں نازنین کا تقاضہ تھا کہ وہ عمر کو بھی نظر انداز کر دے گی مگر شرط یہ ھے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے، اور اس گھرانے سے قطع تعلق کرلے۔ بیکل ابا نے شرط مان لی اور بیوی کو طلاق کا ایک کا غذ تھما کر نکل لیا۔ اسکی بیٹیاں قدموں سے لپٹ گئیں ۔ رونے بلبلانے سے محلہ جمع ہو گیا۔سبھی نے روکنا چاہا۔ چار شادیوں کی سہولت یاد دلائی ، مگر وہ پکا عاشق تھا مارتا کاٹتا نکل گیا۔ دنیا کا کوئی قانون اسے روک نہ سکتا تھا۔ اور مقدمہ بازی جیسا شوق ایک مطلقہ کے بس سے باہر ہوا کرتا ھے۔اسے خدشہ تھا کہ انصاف مانگنے کی کوشش میں عدالتوں میں اسکی بیٹیوں کی بلی چڑھ جائے گی۔
اسے خالدہ پر بڑا ترس آیا وہ بہانے سے مینا کو ساتھ کے کمرے میں لے گیا۔
” مجھے تو اس پر بڑا ترس آ رہا ہے۔ کمینگی میں اس کے باپ اور مجھ میں بھلا کیا فرق ہوگا ؟ ویسے ہی اسے کچھ رقم دے دیا کروں“
مینا نے بہت سے موسم دیکھے تھے۔
" تم ہوتو پاپی، مگر تمہارے دل میں کچھ انسانیت باقی ھے۔ تبھی تو تمہارے پاس لائی ہوں“
امجد تذبذب کا شکار تھا، پتہ نہیں کس گھونسلے سے بوٹ اچک لائی تھی۔
” تم اسے کچھ کام دے دو ، اس کا خرچ چلے ۔ ورنہ پتہ نہیں اسکا کیا حشر ہو “۔ مینا کے چہرے پر پریشانی تھی۔
امجد نے دوبارہ نشت سنبھالی۔
" دفتر میں تو فی الحال جگہ نہیں ہے....“
خالدہ کے چہرے پر سیاہ ابر آلود رات اتر آئی۔ وہ بےحد سہم گئی۔
” اس لیے تم میرے ساتھ، میرے گھر پہ کام کرو “
خالدہ کی آنکھوں سے جاتی زندگی کی رمک لوٹ آئی۔ اس نے شاخ تھام لی۔
” میں ہر کام کرنے کیلئے تیار ہوں، کبھی شکائیت کا موقعہ نہ دوں گی“
وہ التجاؤں پر اتر آئی تھی خوف اسکے حسن کو گہنا رہا تھا۔
امجد ایک فکشن رائٹر تھا اس نے سوچا کہ اگر خالدہ کمپوزنگ کرے تو اس کا کام آسان ہو جائے گا، ورنہ تو کمپوزر اتنی غلطیاں کرتے ہیں کہ انکا سر اتارنے کو جی چاہتا ہے۔ اسے وہ لطیفہ بھی یاد تھا کہ پکا سو کو کمپوزر نے پوری کتاب میں پکا سور کر دیا۔ اور کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آگئی۔
کمپوزنگ کے بہانے یوں روز ملنا بھی آسان ہوگا، ساتھ رہنے ہی کا نام تو محبت ھے۔تنخواہ کے لیے اس نے خالدہ سے ہی پوچھا، وہ اس قدر معصوم اور انیلی تھی کہ اس نے ڈرتے ڈرتے نو ہزار بتائے۔ امجد نے قہقہہ لگایا۔
" تمہیں شائد اندازہ نہیں کہ زندگی کس قدر مہنگی ہے۔ اور ہاں تم اچھا کام کرو تو میں تنخواہ بڑھا بھی دوں گا فی الحال میں بیس ہزار دیا کروں گا“
اتنی بڑی تنخواہ کا سن کر خالدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، وہ اتنا سوچ بھی نہیں سکتی۔
امجد نے ڈانٹا۔
” بہادر بنو ! مجھے بہادر لوگ اچھے لگتے ہیں “
امجد نے ٹشو پیپر بڑھایا۔
” یہ تمہارے آخری آنسو ھیں،آنسو دکھوں کا مداواہ نہیں“
امجد والٹ نہیں رکھتا تھا ربڑ بینڈ لگاکر نوٹ رکھتا۔جو اکثر ادھر ادھر گر بھی جایا کرتے۔ یا پھر موبائیل جیب سے نکالتے ہوئے باہر جا گرتے ۔ وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا - امیروں کے نوٹ بینکوں کے لاکروں میں عمر قید کے سزا بھگتے ھیں اور اسکے نوٹ زندہ مینڈکوں کی طرح اچھل پھاند کرتے ھیں۔
” یہ آدھے ماہ کی پیشگی تنخواہ ، اور یہ رہا رکشے کا کرایه "
خالدہ کو یوں لگا کہ جیسے وہ کوئی حسین سپنا دیکھ رہی ہو، مینا کو وہ ساتھ کے کمرے میں لے آیا۔
”یہ تمہاری پہلی قسط ھے،ایک دوروز میں باقی بھی ادا کردوں گا“
مینا نے نوٹ گنے اور گلے کے اندر انڈیل لیے۔
”یہ قیمت اسکی ایک آنکھ کی تو ہو سکتی ھے ، پوری خالدہ کی نہیں ۔ تم اتنے کنجوس کیوں ہوگئے ہو "
مینا سے جھوٹ بولنا کچھ سہل بھی نہ تھا۔
" تم جانتی ہو بجٹ پر کٹ لگ گیا، میں کچھ غریب ہو گیا ہوں "۔
مینا تڑ سے بولی۔
" یہ غریبوں کے شوق نہیں ، تم کچھ اور ھابی رکھ لو ، مرغیاں پالو ، کبوتر اڑاؤ یہ لونڈیاں کنیزیں رکھنا امیروں کے شوق ہوتے ھیں“
امجد نے کچھ اور نوٹ نکال کر اس کے کھلے گلے کے تکتو میں ڈال دیئے۔
”غصہ کیوں کرتی ہو مینا کچھ پرانے تعلقات کا تو لحاظ کرو "
مینا نے سگریٹ لگائی۔
" تمہیں ڈھیلی کمانی والی جیپیں اچھی نہیں لگتیں۔تمہاری محبت میں سب کچھ کرتی پھرتی ہوں۔ ورنہ مارکیٹ بہت اوپر جارہی ھے“
خالدہ بہت سہمی سہمی سی تھی، اور فکشن کمپوز کرنے لگی۔ کوئٹہ میں سہ پہر سے مغرب تک ایک ایسی روشنی پھیلی رہتی ھے جو دکھائی تو نہیں دیتی ۔ مگر شہریوں میںAnixiety اور Depression پیدا کرتی ھے ، مغرب کے بعد وہ خود ہی سدھر جاتے ھیں۔اب ان تکلیف دہ اوقات میں وہ خالدہ کے پہلو میں آ بیٹھتا اسے مشکل لفظوں کی وضاحت کے علاوہ اپنی لا پرواہی سے لکھے گئے الفاظ کی وضاحت بھی کرنا ہوتی۔ امجد کے بے حد اصرار پہ وہ آپ سے تم پر اتر آئی تھی۔
امجد چاہتا تھا کہ عمر کا فاصلہ طرز گفتگو سے ہی پاٹ دیا جائے۔ خالدہ روائیت کی پابند تھی۔ اس لیے ایک حدتک بے تکلفی کے بعد وہ ٹھٹھر گئی۔
" تمہیں مجھ سے شادی کرنا ہو گی“
وہ بارہا یہ کسیلی دواء نگل چکا تھا۔
" ٹھیک ھے ، مگر مجھے کچھ وقت چاہیے، مگر میری زندگی حسین کردو ۔ بہت ہی Drab life ھے “
خالدہ کو اس پہ بھروسہ تھا۔
” ٹھیک ھے میں چند ماہ انتظار کرلوں گی ، مگر تم کو حلف اٹھانا ہوگا کہ پھر تم شادی کر لو گے“
امجد نے اگلے ہی روز مشہدی رومال منگوایا۔ فسانہ آزاد کی صحت مند جلد چہارم کو رومال میں باندھ کر گرہ لگادی ، امجد کے دونوں ملازم خپلو کے تھے ، اپنے کام سے کام رکھتے ، وہ خالدہ کو کمرے میں پہنچا کر چائے کافی کا اہتمام کرتے۔ اس روز بھی خالدہ سیٹ پہ بیٹھی تو امجد نے فسانہ آزاد پہ ہاتھ رکھا۔
” میں قسم کھاتا ہوں اس کتاب کی تم سے ضرور شادی کروں گا ، تین ماہ کے اندر “
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔ مگر خالدہ نے رومال کھولنے کا تردد نہ کیا۔ عمر کے اس فرق کے باوجود وہ شادی کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ماں انتہائی ڈپریشن کے باعث جو ایک آدھ گولی حلق سے اتار لیا کرتی وہ اسکی خوراک ہی بنتی چلی گئی ۔ زیادہ وقت وہ مد ہوش سی رہتی ۔ دونوں چھوٹی بہنیں پڑھ رہی تھیں، گھر کا نظام امجد نے سنبھال لیا تھا ، وہ کبھی ان کے گھر نہ جاتا اور نہ ہی ان تعلقات کی تشہیر ہونے دیتا۔
امجد کی بیوی امریکہ اپنی بہن سے ملنے گئی تھی، اور پھر وہی کی ہو رہی ۔ اس کی بہن نے بھی اکسایا کہ ایک مرد کی غلامی کی بجائے وہ اپنی پسند کی زندگی گزارے ، اپنے جسم پر ریاست کا قبضہ نہ ہونے دے۔
” تمہارے ہاں عورت بستر میں جائے تو ریاست اور طاقتور ادارے بھی گھس پڑتے ھیں۔یہ Moral adultry نہیں تو اور کیا ھے ؟ "
امجد اس کی طویل غیر حاضری سے خوش تھا ، سارا دن جاسوسی کرتی ، سوالوں کی بارش کرتی کبھی موبائیل میں نئے نمبر تصویریں تلاش کرتی۔ اب زندگی میں سکھ آگیا تھا۔ بیوی ایک ناقابل علاج بلڈ پریشر ہے ٹانسلائیٹس ھے۔ ابھی قسم کے تین ماہ پورے ہونے کو تھے کہ خالدہ کا میسج آیا۔
" بہت بہت شکریہ میری مدد کی، یہ احسان یاد رکھوں گی ، شائد مشہدی رومال والى کتاب چھپانا بھول گئے تھے ۔ وہ فسانہ آزاد نکلی۔ مجھے ڈبل تنخواہ پہ کام مل گیا ھے۔ کل سے نہیں آؤں گی“
امجد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ زندگی کول پور بن گئی تھی ، جیسے تربت کی سیاہ رات ، وہ گاڑی دوڑاتا مینا کے گھر پہنچا ۔ مینا سر شام رہ حافظ و خیام پہ چل نکلنے کی عادی تھی۔ عشاق رفتہ رفتہ محمل سے کھسکتے شہر کے ہجوم میں شامل ہوتے رھے تھے۔ ماہ وسال نے مزید دھکیلا تو وہ Catch siding میں کھڑی پرانی مسافر بوگیوں کی طرح اکیلی رہ گئی ۔ چند تھکے ہوئے شاعر اچھی و ہسکی تلاشتے اس کے گھر چلے آتے ۔ اس نے ملازم کے طور پر ایک خواجہ سرا رکھ چھوڑا تھا، اس وقت وہ اکیلی تھی۔ پہلا پیگ چل رہا تھا۔
امجد آندھی اور طوفان کی طرح اندر داخل ہوا ۔ بجائے اسکی بات سننے کے خالدہ نے اپنا پیگ اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ وہ امجد کے سلگنے سے مسرور ہورہی تھی۔
" زیادہ تڑپنے بلکنے کی بات مت کرو ، اس دھندے میں سب چلتا ہے “
امجد نے مینا کو سب کچھ بتا دیا۔
" اسے واپس لاؤ مینا ، بڑی رقم دوں گا“
مینا کو وہسکی چڑھ چکی تھی پرانے میخوار کی طرح وہ دوسرے پیگ پر ہی ڈگمگانے لگی۔
” عوام پر پھینکا آنسو گیس شیل اور بانہوں سے نکلی عورت کبھی واپس نہیں آتی،اسے بھول جاؤ،میں کوئی اور لے آؤں گی “
امجد کو سخت تاؤ چڑھا۔
” لے آؤں گی ؟ کیوں جمعہ بازار لگا ھے کیا؟“
مینا اب قابو سے نکل چکی تھی۔
” جب سماج کے اندر صرف دو ہی قومیں امیر اور غریب رہ جائیں تو صرف Glamour بکتا ھے،عورت بکتی ھے،جنگوں میں بھی عورت ہی بکتی آئی ھے۔تم اسی دو قومی نظریے والے ملک میں رہتے ہو۔وہ تمہارے منسٹر کے پاس کام کرنے لگی ھے “
امجد کے ہاتھ سے گلاس چھوٹنے کو تھا۔
” وہاں کیا کام کرتی ھے؟ “
مینا نے قہقہہ لگایا۔
”ہائے میرے منے! وہاں بھی کمپوزنگ کرتی ھے اسے صرف کمپوزنگ ہی آتی ھے“
وہسکی نے امجد کو بہادر بنا دیا تھا اس نے پستول تان لیا۔
" یہ تمہاری کمینگی ھے۔ ابھی تمہاری کھوپڑی اڑاتا ہوں “
مینا نے لا پرواہی سے پیگ بنایا۔
" یہ ذلت آمیز اکیلی زندگی ختم کردو ، مہربانی، کرم ہوگا ، چلاؤ گولی “
امجد کچھ دیر مینا کو دیکھتا رہا پھر پستول اندر کی جیب میں ڈال لیا ، منا سا گلوک 26 جیبوں کے لیے ہی بنا تھا۔ جس سے میناؤں نے بھی کب کا ڈرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ للجا کے رہ گیا۔
" تم کس قدر کمینی ہو ، مینا دھوکے باز “
وہ دشنام طرازی پر اتر آیا۔مینا نے اپنا نیا پیگ اسکے ہونٹوں سے لگا دیا۔
" ہمارے دھندے میں سب چلتا ھے“
امجد میں طاقت نہ تھی کہ منسٹر سے الجھتا وہ ایک طاقتور سردار اور متعدد قتل کے واقعات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ، رات بہت ہی تکلیف دہ اور طویل ہوگئی تھی۔ اگلے ہی روز اسے او ایس ڈی بنا دیا گیا ۔ ساتھ ہی اسے خالدہ کا میسج موبائیل پر آیا۔ وہ ایک دو روز میں ہی معصوم سی لڑکی کی بجائے سلومی بن چکی تھی۔اسے لگا خالدہ کے اندر سلومی جھلک رھی ھے سلومی، جس نے ہیرودیس بادشاہ کو ایک رقص سے مسحور کر کے انعام میں یوحنا نبی کا سر انعام میں مانگا تھا اور یوحنا اطباغی کا سر بطور انعام سلومی کو تھال میں مل بھی گیا تھا۔
" دھو کے باز فراڈی، میری جانب سے یہ warning shot سمجھو نوکری بھی جاسکتی ھے۔مجھ سے معافی مانگنے کا یہ آخری موقعہ ھے“
وہ بہت دیر تلملاتا رہا۔ او ایس ڈی کا مطلب ہے کلاشنکوف کی فائر پن جواب دے جائے ،یا ejector کام چھوڑ دے۔ جیسے رانجھے کے تیر تکلے بن جائیں۔ خالی افسری بے اختیار !! وہ بہت پریشان رہا۔جنگل کی آگ کی طرح بات پھیل چکی تھی کہ صاحب سر کس کے بورڈ کا شیر بن چکا ھے۔
اس شام نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مینا کے ہاں جا نکلا۔
”میں جانتی تھی کہ تم آؤ گے“
امجد بہت حیران ہوا
” وہ کیسے؟ “
مینا نے پیگ تھما دیا آج وہ وڈ کا پی رہی تھی۔
” تمہیں خالدہ سے محبت نہیں ھے ۔ اپنی تنہائی سے ڈرتے ہو، تم تنہا نہیں ہونا چاہتے ، ایک لڑکی سے اکیلے میں معافی مانگنے میں کیا رسوائی ھے ۔ ویسے بھی Male Shauvinism ہے اس کی بات پر کون یقین کرے گا ۔ خالدہ سے معافی مانگ لو، وہ تم سے محبت کرتی ہے تم اسے اچھے لگتے ہو“
امجد اب مینا کو تحقیر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
” تم نے خالدہ کو دوبارہ فروخت کیا، سوچتا ہوں تمہیں کیا سزا دوں محبت تھی تو چھوڑ کیوں گئی ؟ “
مینا نے حسب سابق کوئی اثر نہ لیا جیسے امجد لکڑی کی تلوار چلاتے پینترے بدل رہا ہو۔
مینا ہنسی ” اپنے پروڈکٹ کو بار بار فروخت کرنا ہی مارکیٹنگ کا کمال ھے۔ اور ان کی شخصیت میں بناتی ہوں تمہیں بچپن کا کوئی Complex ھے ، وہی چاہتے ہو ، معصوم بھولی بھالی تمہاری ہر بات پر یقین کرنے والی۔ میں grooming کر کے لاتی ہوں۔اسٹیج کی Prompter ہوں "
امجد نے موبائیل تھما دیا۔
" مینا بول رہی ہوں،کل پانچ بجے امجد کے گھر آنا “
جانے خالدہ نے کیا جواب دیا کہ مینا ہنس دی اور سرزنش کی۔
” تم مینا سے بات کر رہی ہو دوبارہ کشکول پکڑا دوں گی۔کوئی اور خالدہ لے آؤں گی۔ورنہ پانچ بجے "
امجد وقت کے ساتھ ساتھ بہتا رہا۔ گھڑی ٹک ٹک کر کے چلتی رہی جیسے شہر کے چوک میں Inquisition Court نے لکڑیوں کے ڈھیر پر باندھ کے بٹھا رکھا ہو اور پورا شہر ہی آگ بھڑکنے کے انتظار میں اپنی ہی چتا میں جل رہا ہو امجد موت اور زیست کے درمیان کلاک پینڈولم کی طرح جھول رہا تھا۔ وہ دن کو نہیں پیتا تھا۔ مگر نارمل ہونے کے لیے اس نے عمر خیام کا اتباع کیا۔ خالدہ دو ہی روز میں بیس برس بڑی ہو گئی تھی۔کھڑ کھڑاتے ہوئے رکشہ کی بجائے لیموزین نما لمبی سی سرکاری کار میں آئی، جیسے ایک بڑا سا کمرہ ٹائروں پہ چل رہا ہو۔امجد اپنی انا کے اندھے غار سے تڑپ کر نکلا اور خالدہ کو گلے سے لگا لیا۔ وہ بالکل بونی سی تھی اسے پنجوں پر اٹھ کر اپنا قد بڑھانا پڑا تھا۔
”مجھے معاف کر دو خالدہ“
اس نے نہایت ہی سچائی سے اقرار کیا۔
”اس جھوٹے معاشرے نے مجھے بھی جھوٹ سکھا دیا۔ اب ہمیشہ سچ بولوں گا۔ صرف تم سے ! ورنہ تو کب کا مارا جاتا۔ تمہارا دل جیتنے کے لیے جھوٹ بولا مجھے معاف کر دو “
خالدہ نے اسے حیرت زدہ کر دیا کہ اسے ایڈوائیزر لگایا جا رہا ھے۔ وہ خالدہ کے تعلقات پہ حیران نہ ہوا ویسے بھی تو چوبیس سے چھبیس سالہ لڑکی ہی سرکار کی ایڈوائیزر لگائی جاتی ھے۔ خالدہ ہی سہی ! خالدہ نے الماری کھول کے پیگ بنائے وہ مینا بنی ہوئی تھی۔
" تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی مینا نے کئی ایک جاب دلوادیئے تھے۔ پھر میں اوور ٹائم بھی لگانے لگی“
امجد کا چہرہ دہک اٹھا دل چاہا کہ ایک دو چانٹے لگا کر خالدہ کو چلتا کرے، مگر گھر کے کونوں کھدروں میں چھپے تنہائی کے بھوت غرانے لگے۔
اس نے گھبرا کر غیرت کی چادر اتار دی۔
" تم عورت کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذاتی ملکیت کیوں سمجھتے ہو ؟ کہاں ھے ٹیپ ریکارڈر کیسٹ فلموں والا ؟ کیمرہ،فیکس مشین ؟ سب کچھ بدلا تو سماج بھی بدل گیا ۔ یاد ھے کبھی Matriarchy ہو اکرتی تھی۔ایک عورت کئی مردوں سے شادی کرتی ، وہی قبیلے کی سردار بھی ہوتی ، یہی نظام کب کا لوٹ آیا ھے ، تم لوگ سوئے ہوئے ہو“
امجد نے گھبرا کر پورا پیگ ہی حلق میں انڈیل لیا ۔ " خالدہ شائد سچ ہی کہہ رہی ہے "
وہ من ہی من میں کانپ اٹھا ۔
خالدہ نے اپنا قیمتی فون نکالا۔نئی شخصیت کے ساتھ وہ نویں نکور تھی۔
” سردار کیا حال ھے ؟ کیسے ہو؟“
دوسری جانب کی آواز سنانے کے لیے خالدہ نے مائیک آن کردیا۔
” میں نے کہا تھا امجد کو کھڈے لین لگا، اب اسے....“
سردار بہت خوش ہوا۔
” حکم کرو اب کیا اسے گولی مارنا ہے ؟ صبح ہی اخبار میں خبر لگ جائے گی “
خالدہ نے قہقہہ لگایا۔
” تماری وفا کی عزت کرتی ہوں،اسے دوبارہ اچھی جگہ پر لگادو “
سردار بھی ہنس دیا۔
” اتنے چھوٹے چھوٹے کام بولتی ہو۔کوئی بڑا حکم دو “
خالدہ حسب سابق خوشگوار موڈ میں تھی۔
” کل میں خود آرڈر لینے آؤ گی، مگر صبح صبح زبانی حکم پر اسے سیٹ پر بٹھا دینا “
امجد کا دماغ معطل ہوچکا تھا” اتنے بڑے اجڑ میں تم کیوں مجھ پہ مرتی ہو؟ “
خالدہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
” تمہارے ہاتھ میرے ابو جیسے ہیں،جب میں پہلی بار ملی تو مجھے لگا تم ہی مجھے تحفظ دو گے،اسی لیے میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔میں اس گھر کو جوڑنا چاہتی ہوں۔جو میرے ابو نے توڑ دیا۔مجھے مرد کا تحفظ چاہیے“
وہ بھولی بھالی کب کی چلتر بن چکی تھی۔اس کی شخصیت کھل کر سامنے آگئی تھی۔شائد اسے مرد ہونا چاہیے تھا۔
امجد نے فون کرکے مینا کو بھی بلا لیا۔
” آج تم ہماری مہمان ہو ادھر آجاؤ“
مینا انہیں اکٹھا دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔
” کوئی کنویں میں گرے تو اسے باہر نکالنا چاہیے خالدہ حالات کا شکار ہوئی ھے،تم اس کا ہاتھ تھام لو“
اس شام ان کا سخت Catharsis ہوا۔جو جی چاہا بولا،خوفزدہ ہوئے بغیر ہی باتیں کیں۔وہ باتیں جن پر سر اتار دیتے ہیں۔امجد سمجھ گیا کہ خالدہ کے ذہن میں دبے اور چھپے صنوبر کی جڑوں کی طرح گہرے Electra Complex کے باعث وہ اسے پسند کرتی ھے۔ شائد اسکی عمر یا مشفقانہ انداز تھا ۔ یا شائد کچھ Atypical interest جبکہ خود اسکی اپنی شخصیت ہی بچپن کے تجربات کے باعث Paedophilia کا شکار تھی۔ خالدہ نے اپنے گھر فون کر دیا تھا۔ کہ وہ اگلے روز آئے گی ، اور مینا کا تو کوئی پرسان حال تھا ہی نہیں۔ انہوں نے صدیوں میں رجعت کی اور دوبارہ شکاری دور کی زندگی میں چلے آئے ۔ جب انسان کا صرف شکار پہ ہی گزارہ تھا۔ نہ کوئی دولت تھی نہ ہی جاگیر اور نہ ہی کسی قانونی وارث کی ضرورت پڑتی زندگی آزاد اور خود مختار تھی ۔ پھر کسی گدھے کی طرح انسان خود پہ بوجھ ڈالتا چلا گیا۔ اور بالکل ہی پچک گیا۔ صبح انہوں نے مل کر ناشتہ کیا ۔ گھر میں رونق سی آگئی تھی ۔ اب وہ ریسٹ ہاؤس کی بجائے گھر لگ رہا تھا ، سارا گھر جیسے ہنس پڑا ہو ۔ عید آن بسی ہو۔
”مجھے آج پتہ چلا کہ بزدلی کی قیمت اکیلاپن ھے،پہلے ہی تمہیں ساتھ رکھ لیتا تو زندگی اتنی بے معنی اور اداس نہ ہوتی “
خالدہ بھی بہت خوش تھی۔
” اپنی کونسی شخصیت کے ساتھ تمہارے ساتھ رہوں؟ ایک کامیاب عورت یا وہی چنی منی “
امجد نے مینا کو دیکھا، جیسے اس سے جواب چاہتا ہو۔
مینانے وضاحت سے کہا۔
” وہی خوفزدہ اکیلی جیسے میں لائی تھی۔ یہی اس کی آئیڈیل ہے“
امجد نے مداخلت کی۔
"رکو ! کبھی کبھی یہ چلتری بھی بن جایا کرو ، مگر ہمیشہ چنی منی رہا کرو“
چونکہ یہ دوسری شادی تھی،وہ چند ایک دوستوں اور نکاح خواں کو ہی بلانا چاہتا تھا۔سب سے پہلے صادق سے رابطہ کیا، دفتر میں دوبارہ امجد کے سر پر تاج سج چکا تھا ۔ بارہ بجے ہی نکل کھڑا ہوا۔ صادق حسب معمول دفتر میں دنیا بھر کے اخبار پڑھتا اور ٹیلی ویژن کی خبری سنتا۔ اس کے منسٹر نے ہاتھ پاؤں کاٹ کے رکھ دیئے تھے۔بہت سے انسپکٹر شولڈر پروموشن سے ایس پی تھے۔ جبکہ ایس پی اپنے دفاتر میں مکھیاں مارتے جمائیاں لیتے۔ وہ دوستوں سے کچھ چھپانے کا عادی نہ تھا۔ اس نے صادق سے سب کچھ کہہ ڈالا۔ صادق طلسم ہوش ربا سی داستان سنتا رہا پھر پھٹ پڑا۔
"وہ بیچاری تمہاری بیوی امریکہ میں پڑی ھے کہ تمہارا بچہ امریکہ میں پیدا ہو اور وہاں کا نیچرل سٹی زن ہو اور تم ایک بد نام زمانہ سے شادی کر رہے ہو ، نوے برس میں بھی تمہارا دادا، والد اور خود تم بلوچستان کے نان لوکل ڈومی سائل ہو چلو تمہارا بیٹا تو کسی ملک کا شہری ہو گا، ایسی بیوی سے ایسی غداری ؟ “
امجد جیسے جاگ اٹھا ہو ، واقعی وہ کیا سوچ رہا تھا ۔ اور پھر اسی معاشرے میں کیسے سر اٹھا کر جیئے گا ، لوگ اسے کیسے دیکھیں گے اس نے صادق کا شکریہ ادا کیا، اور لنچ سے انکار کر کے واپس چلا آیا۔
پہلے اس نے مینا کو فون کیا۔
" میں اپنے فیصلے پر پچھتا گیا ہوں، تو بہ تو بہ! میں تمہارا نمبر بلاک کر رہا ہوں “
مینا نے کچھ بولنا چاہا تو اس نے فون بند کر دیا پھر اس نے خالدہ کو فون کر کے بے نقط سنائیں اور اسکا نمبر بھی بلاک کر دیا۔ اسے بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ایک غیرت مند مرد ھے ۔ گھر میں خپلو کے دونوں دین دار ملازم موجود تھ ۔ اپنے علاقے سے دور بچوں کے لیے روزی کمانے والے کیسا سکون ان کے چہروں پہ تھا ، جیسے کھڈ کوچہ کے تاکستان۔
امجد نے خود کو مصروف کر دیا۔ گھر میں کم رہنے لگا اور سر شام اپنا مضمون لٹریچر پڑھنے لگتا ۔ شکر کہ اسکروائیڈ کی طرح بدنامی مول نہ لی ۔ پنجے سے نکل گیا۔۔ ایک روز سیرینا ہوٹل کے چائنیز ریستورینت میں کھانا کھانے گیا تو ششدر رہ گیا کہ خالدہ اور صادق ڈنر کا لطف اٹھار ہے ہیں۔ اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا، اور خواب میں چلتا ان کے پاس آ بیٹھا۔
”سلام بھائی جان "
خالدہ نے ادب سے سلام کیا۔ صادق خوشگوار موڈ میں تھا۔
" یار میں نے سوچا کہ ایک بے سہارا لڑکی سے شادی کرنا بہت بڑا ثواب ہے ۔ میں نے خالدہ سے شادی کرلی،بس جلدی میں تمہیں اطلاع نہ دے سکا، کیا کھاؤ گے ؟ "
امجد کی جیب میں گلاک 26 کلبلاتا،وہ خاموشی سے باہر نکل گیا اور بے مقصد ڈرائیو کرتا رہا ۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ خنائی کے علاقے میں تھا ۔ رات گہری ہو چکی تھی۔ پنجاب جانے والے ٹرک ریں ریں کر کے گزر رھے تھے، وہ ایک ڈھابے میں جا بیٹھا اور ہانک لگائی۔
" چاۓ راوڑہ دودھ پتی" لڑکا اس کے سامنے چائے پٹخ گیا۔
چائے پی کر اس کے ہوش بجا ہوئے۔ اس نے مینا کا نمبر ان بلاک کیا اور اسے کال دی۔ مینا حسب معمول خوشگوار موڈ میں ٹن سی تھی۔
" کہاں رھے مہربان تمہیں اب پتہ چلا زمین گول ھے۔کیا حکم ھے نئی کنیز لاؤں؟“
امجد کی گرفت موبائیل پر مضبوط ہو گئی۔
" ہاں ! “
اس نے فون بند کر دیا اور جیپ شہر کی جانب موڑ لی۔
کوپر نیکس ، برونو ، گلیلیو گیلیلئ 'زمین گول ھے' کہنے کے جرم میں مارے گئے ، اسی گول زمین کے باعث انسان لاکھوں برس سے گول گول گھوم کر وہیں کا وہیں ھے، Reincarnation سے دوبارہ وھیں آجاتا ھے، جیسے سانپ اپنی دم منہ میں پکڑ کر ھندو دانشوروں کا زیرو بن جاتا ھے۔nullify ھو کر جیسے بیج گھوم کے جی اٹھتا ھے ، ساری کائنات انسان سمیت گول گول گھومی جارہی ھے جیسے گیان میں گھومتا zygote۔
اس کے بائیں پہلو میں تکتو ساتھ ساتھ چلا جارہا تھا۔مگر سرےء غنڈی وھیں ساکت و جامد امجد کو دیکھ رھے تھے، جنہیں بابا خرواری نے مزید ساتھ چلے آنے سے روک دیا تھا۔
فرہنگ:
*تکتو* : دو چوٹیاں کوئٹہ کا شمالی پہاڑ
*بوٹ* : چڑیا کا بچہ
*اجڑ* : مویشیوں کا گلہ
*سرےء غنڈی* : گلابی مٹی کے ٹیلے
دیدبان شمارہ ۔۱۷ 2023
افسانہ : زمین گول ھے
مصنف : آغاگل
بہت دنوں بعد اسے مینا کا فون آیا۔
" کیسے ہو ؟ ذرا اپنا ویٹ سیپ نمبر کھولو“
اتفاقاً وہ دفتر میں اکیلا ہی تھا۔ سرکاری دفاتر وہ چڑیا گھر ہیں جہاں دفتر میں پھدکتے غراتے کاٹتے افسر اپنی بہار دکھاتے ھیں۔ لوگ اس سے ملنے خیریت دریافت کرنے آتے، شادی کے موقعہ پر دولہا سے زیادہ اہمیت افسروں کو ملتی۔کیونکہ افسر ہی سرکار ہیں۔فون کی بگینگ عام تھی اور آقا کے پاس تمام زبانیں جاننے والے ملازم تھے جو فوراً ہی بات کا مطلب بیان کرکے رکھ دیتے۔ویٹ سیپ پر مینا آگئی۔
" ایک کنیز فروخت کرنا چاہتی ہوں، اگر اچھی بولی لگاؤ۔ بہت کم عمر ہے ، نا تجربہ کار زیرو میٹر کمپنی پیکنگ“
امجد کو تاؤ چڑھا۔
” تم جانتی ہو کہ کنیزوں کا پہلے تو گاہک معائینہ کرتے، تسلی کرتے اور اس کے بعد بولی شروع ہوتی۔کبھی موبائیل پر بھی بولی لگی؟ چڑھا رکھی ھے کیا ؟“
مینا بھی خوشگوار موڈ میں تھی۔
”وہ زمانے لد گئے کب کے ، اب میں کیا میزان چوک میں نمائش لگاؤں۔ اس بار قیمت پہلی والی سے ڈبل ہوگی“
امجد بھاؤ تاؤ کرنے لگا۔
”تم جانتی ہو کہ بجٹ میں بھی کٹ لگ گیا ھے۔ وہ حسین زمانے بھول جاؤ اب تو پورا ملک ہی کشکول بدست پھرتا ھے ، کبھی ان کے در کبھی در بدر“
مینا نے آنکھیں بدل لیں۔
" اچھا کوئی اور در تلاش کرتی ہوں .....“
امجد بے تاب ہو گیا۔
” کیا بے مروت ہو ، بھاؤ تاؤ تو کرنے دو “
مینا آسمان پہ تھی۔
” مال اچھا ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی قدر دانوں کا شہر ھے......یہ کوئی سینٹ کا ٹکٹ یا دوبئی مارکیٹ کا کوٹ نہیں.....میرا کیسے گزارا ہوتا ہے،جانتے ہو؟ “
امجد جانتا تھا کہ مول تول کا وقت نہیں ہے۔
” کب آ رہی ہو؟ “
مینا نے فیصلہ سنا دیا۔
” تمہارے گھر ، پانچ بجے کچھ کھانے پینے کے لیے بھی رکھنا “
امجد کے گھر پہ اکثر فریادی چلے آیا کرتے۔ نوکری کے متلاشی بھی کسی سفارشی کے ہمراہ سی۔وی لیئے پہنچ جاتے۔اسکول اور کالج کی بے معنی اور بیکار تعلیم کے بعد نوجوان میر کا غم، سندھ کی فتح، علاؤ الدین خلجی کی مارکیٹ پالیسی۔اکبر کی مذہبی پالیسی۔ دو قومی نظرئیہ اور مسلم لیگ کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے۔
چونکہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروبار کے لیے وہ ناموزوں ہوا کرتے اس لیے سبھی سرکاری نوکری کی پنکچر بس پہ چڑھنے کی کوشش کرتے۔ دفتر میں بھی رجسٹر میں حاضری لگانے کے علاوہ کوئی کام نہ ہوتا۔ اس پہ مستزاد کہ سال میں چالیس روز تنخواہ کے ساتھ حقی چھٹی (Earned Leave) بھی ملتی۔ جس کے باعث وہ چلہ لگا نے خدا کی راہ میں چل دیتے۔ تنخواه حسب سابق ملتی رہتی اور جب بال سفید ہونے لگتے تو پنشن ملنے لگتی اور فوت ہو جاتے تو پھر ان کی بیوہ کو پنشن ملتی۔ یہی سبب تھا کہ بوڑھے افسروں سے کوہ قاف کی پریاں بھی شادی کے لئے پر تولنے لگتیں کہ چند ہی روز میں واصل جنت ہوگا تو ان کی تنخواہ لگ جائے گی،جس کے باعث بے روزگار ہیرو بیوہ پر ریجھ جاتے اور شادی کر لیتے۔
مینا کے کام دھندے میں راز داری اور پابندیء وقت کی اہمت تھی۔ وہ وقت پر چلی آئی، غریب غرباء کو مہمان خانے میں بٹھایا جاتا تھا۔ جبکہ ہم رتبہ یا روساء کو ڈرائینگ روم میں احترام سے لایا جاتا۔ وہ ڈرائینگ روم ہی دولت مندی کا مظہر تھا، جس میں گھوڑے کی اصل کھال کے صوفے اور قیمتی فرنیچر کے علاوہ بخارائی اور تبریز بچھے تھے۔
مینا کے ساتھ ایک سہمی ہوئی سی خوفزدہ لڑکی تھی، جس کے ہاتھ میں اسکی سی وی کا لفافہ تھا۔ اسکا خوف دور کرنا بھی ضروری تھا، وہی بے معنی تعلیم والا بی اے کرکے آئی تھی۔ جس کا زمانے اور عصر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ امجد نے چائے منگوائی کچھ دلاسہ دیا تو لڑکی کے ماتھے کے بل کھلے وہ سخت پریشان تھی۔ باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ اس کی دو اور بہنیں بھی ھیں۔ اچھی بھلی خو شگوار زندگی تھی کہ اچانک ہی اسکے باپ کی کسی سے آنکھیں چار ہوئیں نازنین کا تقاضہ تھا کہ وہ عمر کو بھی نظر انداز کر دے گی مگر شرط یہ ھے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے، اور اس گھرانے سے قطع تعلق کرلے۔ بیکل ابا نے شرط مان لی اور بیوی کو طلاق کا ایک کا غذ تھما کر نکل لیا۔ اسکی بیٹیاں قدموں سے لپٹ گئیں ۔ رونے بلبلانے سے محلہ جمع ہو گیا۔سبھی نے روکنا چاہا۔ چار شادیوں کی سہولت یاد دلائی ، مگر وہ پکا عاشق تھا مارتا کاٹتا نکل گیا۔ دنیا کا کوئی قانون اسے روک نہ سکتا تھا۔ اور مقدمہ بازی جیسا شوق ایک مطلقہ کے بس سے باہر ہوا کرتا ھے۔اسے خدشہ تھا کہ انصاف مانگنے کی کوشش میں عدالتوں میں اسکی بیٹیوں کی بلی چڑھ جائے گی۔
اسے خالدہ پر بڑا ترس آیا وہ بہانے سے مینا کو ساتھ کے کمرے میں لے گیا۔
” مجھے تو اس پر بڑا ترس آ رہا ہے۔ کمینگی میں اس کے باپ اور مجھ میں بھلا کیا فرق ہوگا ؟ ویسے ہی اسے کچھ رقم دے دیا کروں“
مینا نے بہت سے موسم دیکھے تھے۔
" تم ہوتو پاپی، مگر تمہارے دل میں کچھ انسانیت باقی ھے۔ تبھی تو تمہارے پاس لائی ہوں“
امجد تذبذب کا شکار تھا، پتہ نہیں کس گھونسلے سے بوٹ اچک لائی تھی۔
” تم اسے کچھ کام دے دو ، اس کا خرچ چلے ۔ ورنہ پتہ نہیں اسکا کیا حشر ہو “۔ مینا کے چہرے پر پریشانی تھی۔
امجد نے دوبارہ نشت سنبھالی۔
" دفتر میں تو فی الحال جگہ نہیں ہے....“
خالدہ کے چہرے پر سیاہ ابر آلود رات اتر آئی۔ وہ بےحد سہم گئی۔
” اس لیے تم میرے ساتھ، میرے گھر پہ کام کرو “
خالدہ کی آنکھوں سے جاتی زندگی کی رمک لوٹ آئی۔ اس نے شاخ تھام لی۔
” میں ہر کام کرنے کیلئے تیار ہوں، کبھی شکائیت کا موقعہ نہ دوں گی“
وہ التجاؤں پر اتر آئی تھی خوف اسکے حسن کو گہنا رہا تھا۔
امجد ایک فکشن رائٹر تھا اس نے سوچا کہ اگر خالدہ کمپوزنگ کرے تو اس کا کام آسان ہو جائے گا، ورنہ تو کمپوزر اتنی غلطیاں کرتے ہیں کہ انکا سر اتارنے کو جی چاہتا ہے۔ اسے وہ لطیفہ بھی یاد تھا کہ پکا سو کو کمپوزر نے پوری کتاب میں پکا سور کر دیا۔ اور کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آگئی۔
کمپوزنگ کے بہانے یوں روز ملنا بھی آسان ہوگا، ساتھ رہنے ہی کا نام تو محبت ھے۔تنخواہ کے لیے اس نے خالدہ سے ہی پوچھا، وہ اس قدر معصوم اور انیلی تھی کہ اس نے ڈرتے ڈرتے نو ہزار بتائے۔ امجد نے قہقہہ لگایا۔
" تمہیں شائد اندازہ نہیں کہ زندگی کس قدر مہنگی ہے۔ اور ہاں تم اچھا کام کرو تو میں تنخواہ بڑھا بھی دوں گا فی الحال میں بیس ہزار دیا کروں گا“
اتنی بڑی تنخواہ کا سن کر خالدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، وہ اتنا سوچ بھی نہیں سکتی۔
امجد نے ڈانٹا۔
” بہادر بنو ! مجھے بہادر لوگ اچھے لگتے ہیں “
امجد نے ٹشو پیپر بڑھایا۔
” یہ تمہارے آخری آنسو ھیں،آنسو دکھوں کا مداواہ نہیں“
امجد والٹ نہیں رکھتا تھا ربڑ بینڈ لگاکر نوٹ رکھتا۔جو اکثر ادھر ادھر گر بھی جایا کرتے۔ یا پھر موبائیل جیب سے نکالتے ہوئے باہر جا گرتے ۔ وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا - امیروں کے نوٹ بینکوں کے لاکروں میں عمر قید کے سزا بھگتے ھیں اور اسکے نوٹ زندہ مینڈکوں کی طرح اچھل پھاند کرتے ھیں۔
” یہ آدھے ماہ کی پیشگی تنخواہ ، اور یہ رہا رکشے کا کرایه "
خالدہ کو یوں لگا کہ جیسے وہ کوئی حسین سپنا دیکھ رہی ہو، مینا کو وہ ساتھ کے کمرے میں لے آیا۔
”یہ تمہاری پہلی قسط ھے،ایک دوروز میں باقی بھی ادا کردوں گا“
مینا نے نوٹ گنے اور گلے کے اندر انڈیل لیے۔
”یہ قیمت اسکی ایک آنکھ کی تو ہو سکتی ھے ، پوری خالدہ کی نہیں ۔ تم اتنے کنجوس کیوں ہوگئے ہو "
مینا سے جھوٹ بولنا کچھ سہل بھی نہ تھا۔
" تم جانتی ہو بجٹ پر کٹ لگ گیا، میں کچھ غریب ہو گیا ہوں "۔
مینا تڑ سے بولی۔
" یہ غریبوں کے شوق نہیں ، تم کچھ اور ھابی رکھ لو ، مرغیاں پالو ، کبوتر اڑاؤ یہ لونڈیاں کنیزیں رکھنا امیروں کے شوق ہوتے ھیں“
امجد نے کچھ اور نوٹ نکال کر اس کے کھلے گلے کے تکتو میں ڈال دیئے۔
”غصہ کیوں کرتی ہو مینا کچھ پرانے تعلقات کا تو لحاظ کرو "
مینا نے سگریٹ لگائی۔
" تمہیں ڈھیلی کمانی والی جیپیں اچھی نہیں لگتیں۔تمہاری محبت میں سب کچھ کرتی پھرتی ہوں۔ ورنہ مارکیٹ بہت اوپر جارہی ھے“
خالدہ بہت سہمی سہمی سی تھی، اور فکشن کمپوز کرنے لگی۔ کوئٹہ میں سہ پہر سے مغرب تک ایک ایسی روشنی پھیلی رہتی ھے جو دکھائی تو نہیں دیتی ۔ مگر شہریوں میںAnixiety اور Depression پیدا کرتی ھے ، مغرب کے بعد وہ خود ہی سدھر جاتے ھیں۔اب ان تکلیف دہ اوقات میں وہ خالدہ کے پہلو میں آ بیٹھتا اسے مشکل لفظوں کی وضاحت کے علاوہ اپنی لا پرواہی سے لکھے گئے الفاظ کی وضاحت بھی کرنا ہوتی۔ امجد کے بے حد اصرار پہ وہ آپ سے تم پر اتر آئی تھی۔
امجد چاہتا تھا کہ عمر کا فاصلہ طرز گفتگو سے ہی پاٹ دیا جائے۔ خالدہ روائیت کی پابند تھی۔ اس لیے ایک حدتک بے تکلفی کے بعد وہ ٹھٹھر گئی۔
" تمہیں مجھ سے شادی کرنا ہو گی“
وہ بارہا یہ کسیلی دواء نگل چکا تھا۔
" ٹھیک ھے ، مگر مجھے کچھ وقت چاہیے، مگر میری زندگی حسین کردو ۔ بہت ہی Drab life ھے “
خالدہ کو اس پہ بھروسہ تھا۔
” ٹھیک ھے میں چند ماہ انتظار کرلوں گی ، مگر تم کو حلف اٹھانا ہوگا کہ پھر تم شادی کر لو گے“
امجد نے اگلے ہی روز مشہدی رومال منگوایا۔ فسانہ آزاد کی صحت مند جلد چہارم کو رومال میں باندھ کر گرہ لگادی ، امجد کے دونوں ملازم خپلو کے تھے ، اپنے کام سے کام رکھتے ، وہ خالدہ کو کمرے میں پہنچا کر چائے کافی کا اہتمام کرتے۔ اس روز بھی خالدہ سیٹ پہ بیٹھی تو امجد نے فسانہ آزاد پہ ہاتھ رکھا۔
” میں قسم کھاتا ہوں اس کتاب کی تم سے ضرور شادی کروں گا ، تین ماہ کے اندر “
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔ مگر خالدہ نے رومال کھولنے کا تردد نہ کیا۔ عمر کے اس فرق کے باوجود وہ شادی کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ماں انتہائی ڈپریشن کے باعث جو ایک آدھ گولی حلق سے اتار لیا کرتی وہ اسکی خوراک ہی بنتی چلی گئی ۔ زیادہ وقت وہ مد ہوش سی رہتی ۔ دونوں چھوٹی بہنیں پڑھ رہی تھیں، گھر کا نظام امجد نے سنبھال لیا تھا ، وہ کبھی ان کے گھر نہ جاتا اور نہ ہی ان تعلقات کی تشہیر ہونے دیتا۔
امجد کی بیوی امریکہ اپنی بہن سے ملنے گئی تھی، اور پھر وہی کی ہو رہی ۔ اس کی بہن نے بھی اکسایا کہ ایک مرد کی غلامی کی بجائے وہ اپنی پسند کی زندگی گزارے ، اپنے جسم پر ریاست کا قبضہ نہ ہونے دے۔
” تمہارے ہاں عورت بستر میں جائے تو ریاست اور طاقتور ادارے بھی گھس پڑتے ھیں۔یہ Moral adultry نہیں تو اور کیا ھے ؟ "
امجد اس کی طویل غیر حاضری سے خوش تھا ، سارا دن جاسوسی کرتی ، سوالوں کی بارش کرتی کبھی موبائیل میں نئے نمبر تصویریں تلاش کرتی۔ اب زندگی میں سکھ آگیا تھا۔ بیوی ایک ناقابل علاج بلڈ پریشر ہے ٹانسلائیٹس ھے۔ ابھی قسم کے تین ماہ پورے ہونے کو تھے کہ خالدہ کا میسج آیا۔
" بہت بہت شکریہ میری مدد کی، یہ احسان یاد رکھوں گی ، شائد مشہدی رومال والى کتاب چھپانا بھول گئے تھے ۔ وہ فسانہ آزاد نکلی۔ مجھے ڈبل تنخواہ پہ کام مل گیا ھے۔ کل سے نہیں آؤں گی“
امجد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ زندگی کول پور بن گئی تھی ، جیسے تربت کی سیاہ رات ، وہ گاڑی دوڑاتا مینا کے گھر پہنچا ۔ مینا سر شام رہ حافظ و خیام پہ چل نکلنے کی عادی تھی۔ عشاق رفتہ رفتہ محمل سے کھسکتے شہر کے ہجوم میں شامل ہوتے رھے تھے۔ ماہ وسال نے مزید دھکیلا تو وہ Catch siding میں کھڑی پرانی مسافر بوگیوں کی طرح اکیلی رہ گئی ۔ چند تھکے ہوئے شاعر اچھی و ہسکی تلاشتے اس کے گھر چلے آتے ۔ اس نے ملازم کے طور پر ایک خواجہ سرا رکھ چھوڑا تھا، اس وقت وہ اکیلی تھی۔ پہلا پیگ چل رہا تھا۔
امجد آندھی اور طوفان کی طرح اندر داخل ہوا ۔ بجائے اسکی بات سننے کے خالدہ نے اپنا پیگ اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ وہ امجد کے سلگنے سے مسرور ہورہی تھی۔
" زیادہ تڑپنے بلکنے کی بات مت کرو ، اس دھندے میں سب چلتا ہے “
امجد نے مینا کو سب کچھ بتا دیا۔
" اسے واپس لاؤ مینا ، بڑی رقم دوں گا“
مینا کو وہسکی چڑھ چکی تھی پرانے میخوار کی طرح وہ دوسرے پیگ پر ہی ڈگمگانے لگی۔
” عوام پر پھینکا آنسو گیس شیل اور بانہوں سے نکلی عورت کبھی واپس نہیں آتی،اسے بھول جاؤ،میں کوئی اور لے آؤں گی “
امجد کو سخت تاؤ چڑھا۔
” لے آؤں گی ؟ کیوں جمعہ بازار لگا ھے کیا؟“
مینا اب قابو سے نکل چکی تھی۔
” جب سماج کے اندر صرف دو ہی قومیں امیر اور غریب رہ جائیں تو صرف Glamour بکتا ھے،عورت بکتی ھے،جنگوں میں بھی عورت ہی بکتی آئی ھے۔تم اسی دو قومی نظریے والے ملک میں رہتے ہو۔وہ تمہارے منسٹر کے پاس کام کرنے لگی ھے “
امجد کے ہاتھ سے گلاس چھوٹنے کو تھا۔
” وہاں کیا کام کرتی ھے؟ “
مینا نے قہقہہ لگایا۔
”ہائے میرے منے! وہاں بھی کمپوزنگ کرتی ھے اسے صرف کمپوزنگ ہی آتی ھے“
وہسکی نے امجد کو بہادر بنا دیا تھا اس نے پستول تان لیا۔
" یہ تمہاری کمینگی ھے۔ ابھی تمہاری کھوپڑی اڑاتا ہوں “
مینا نے لا پرواہی سے پیگ بنایا۔
" یہ ذلت آمیز اکیلی زندگی ختم کردو ، مہربانی، کرم ہوگا ، چلاؤ گولی “
امجد کچھ دیر مینا کو دیکھتا رہا پھر پستول اندر کی جیب میں ڈال لیا ، منا سا گلوک 26 جیبوں کے لیے ہی بنا تھا۔ جس سے میناؤں نے بھی کب کا ڈرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ للجا کے رہ گیا۔
" تم کس قدر کمینی ہو ، مینا دھوکے باز “
وہ دشنام طرازی پر اتر آیا۔مینا نے اپنا نیا پیگ اسکے ہونٹوں سے لگا دیا۔
" ہمارے دھندے میں سب چلتا ھے“
امجد میں طاقت نہ تھی کہ منسٹر سے الجھتا وہ ایک طاقتور سردار اور متعدد قتل کے واقعات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ، رات بہت ہی تکلیف دہ اور طویل ہوگئی تھی۔ اگلے ہی روز اسے او ایس ڈی بنا دیا گیا ۔ ساتھ ہی اسے خالدہ کا میسج موبائیل پر آیا۔ وہ ایک دو روز میں ہی معصوم سی لڑکی کی بجائے سلومی بن چکی تھی۔اسے لگا خالدہ کے اندر سلومی جھلک رھی ھے سلومی، جس نے ہیرودیس بادشاہ کو ایک رقص سے مسحور کر کے انعام میں یوحنا نبی کا سر انعام میں مانگا تھا اور یوحنا اطباغی کا سر بطور انعام سلومی کو تھال میں مل بھی گیا تھا۔
" دھو کے باز فراڈی، میری جانب سے یہ warning shot سمجھو نوکری بھی جاسکتی ھے۔مجھ سے معافی مانگنے کا یہ آخری موقعہ ھے“
وہ بہت دیر تلملاتا رہا۔ او ایس ڈی کا مطلب ہے کلاشنکوف کی فائر پن جواب دے جائے ،یا ejector کام چھوڑ دے۔ جیسے رانجھے کے تیر تکلے بن جائیں۔ خالی افسری بے اختیار !! وہ بہت پریشان رہا۔جنگل کی آگ کی طرح بات پھیل چکی تھی کہ صاحب سر کس کے بورڈ کا شیر بن چکا ھے۔
اس شام نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مینا کے ہاں جا نکلا۔
”میں جانتی تھی کہ تم آؤ گے“
امجد بہت حیران ہوا
” وہ کیسے؟ “
مینا نے پیگ تھما دیا آج وہ وڈ کا پی رہی تھی۔
” تمہیں خالدہ سے محبت نہیں ھے ۔ اپنی تنہائی سے ڈرتے ہو، تم تنہا نہیں ہونا چاہتے ، ایک لڑکی سے اکیلے میں معافی مانگنے میں کیا رسوائی ھے ۔ ویسے بھی Male Shauvinism ہے اس کی بات پر کون یقین کرے گا ۔ خالدہ سے معافی مانگ لو، وہ تم سے محبت کرتی ہے تم اسے اچھے لگتے ہو“
امجد اب مینا کو تحقیر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
” تم نے خالدہ کو دوبارہ فروخت کیا، سوچتا ہوں تمہیں کیا سزا دوں محبت تھی تو چھوڑ کیوں گئی ؟ “
مینا نے حسب سابق کوئی اثر نہ لیا جیسے امجد لکڑی کی تلوار چلاتے پینترے بدل رہا ہو۔
مینا ہنسی ” اپنے پروڈکٹ کو بار بار فروخت کرنا ہی مارکیٹنگ کا کمال ھے۔ اور ان کی شخصیت میں بناتی ہوں تمہیں بچپن کا کوئی Complex ھے ، وہی چاہتے ہو ، معصوم بھولی بھالی تمہاری ہر بات پر یقین کرنے والی۔ میں grooming کر کے لاتی ہوں۔اسٹیج کی Prompter ہوں "
امجد نے موبائیل تھما دیا۔
" مینا بول رہی ہوں،کل پانچ بجے امجد کے گھر آنا “
جانے خالدہ نے کیا جواب دیا کہ مینا ہنس دی اور سرزنش کی۔
” تم مینا سے بات کر رہی ہو دوبارہ کشکول پکڑا دوں گی۔کوئی اور خالدہ لے آؤں گی۔ورنہ پانچ بجے "
امجد وقت کے ساتھ ساتھ بہتا رہا۔ گھڑی ٹک ٹک کر کے چلتی رہی جیسے شہر کے چوک میں Inquisition Court نے لکڑیوں کے ڈھیر پر باندھ کے بٹھا رکھا ہو اور پورا شہر ہی آگ بھڑکنے کے انتظار میں اپنی ہی چتا میں جل رہا ہو امجد موت اور زیست کے درمیان کلاک پینڈولم کی طرح جھول رہا تھا۔ وہ دن کو نہیں پیتا تھا۔ مگر نارمل ہونے کے لیے اس نے عمر خیام کا اتباع کیا۔ خالدہ دو ہی روز میں بیس برس بڑی ہو گئی تھی۔کھڑ کھڑاتے ہوئے رکشہ کی بجائے لیموزین نما لمبی سی سرکاری کار میں آئی، جیسے ایک بڑا سا کمرہ ٹائروں پہ چل رہا ہو۔امجد اپنی انا کے اندھے غار سے تڑپ کر نکلا اور خالدہ کو گلے سے لگا لیا۔ وہ بالکل بونی سی تھی اسے پنجوں پر اٹھ کر اپنا قد بڑھانا پڑا تھا۔
”مجھے معاف کر دو خالدہ“
اس نے نہایت ہی سچائی سے اقرار کیا۔
”اس جھوٹے معاشرے نے مجھے بھی جھوٹ سکھا دیا۔ اب ہمیشہ سچ بولوں گا۔ صرف تم سے ! ورنہ تو کب کا مارا جاتا۔ تمہارا دل جیتنے کے لیے جھوٹ بولا مجھے معاف کر دو “
خالدہ نے اسے حیرت زدہ کر دیا کہ اسے ایڈوائیزر لگایا جا رہا ھے۔ وہ خالدہ کے تعلقات پہ حیران نہ ہوا ویسے بھی تو چوبیس سے چھبیس سالہ لڑکی ہی سرکار کی ایڈوائیزر لگائی جاتی ھے۔ خالدہ ہی سہی ! خالدہ نے الماری کھول کے پیگ بنائے وہ مینا بنی ہوئی تھی۔
" تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی مینا نے کئی ایک جاب دلوادیئے تھے۔ پھر میں اوور ٹائم بھی لگانے لگی“
امجد کا چہرہ دہک اٹھا دل چاہا کہ ایک دو چانٹے لگا کر خالدہ کو چلتا کرے، مگر گھر کے کونوں کھدروں میں چھپے تنہائی کے بھوت غرانے لگے۔
اس نے گھبرا کر غیرت کی چادر اتار دی۔
" تم عورت کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذاتی ملکیت کیوں سمجھتے ہو ؟ کہاں ھے ٹیپ ریکارڈر کیسٹ فلموں والا ؟ کیمرہ،فیکس مشین ؟ سب کچھ بدلا تو سماج بھی بدل گیا ۔ یاد ھے کبھی Matriarchy ہو اکرتی تھی۔ایک عورت کئی مردوں سے شادی کرتی ، وہی قبیلے کی سردار بھی ہوتی ، یہی نظام کب کا لوٹ آیا ھے ، تم لوگ سوئے ہوئے ہو“
امجد نے گھبرا کر پورا پیگ ہی حلق میں انڈیل لیا ۔ " خالدہ شائد سچ ہی کہہ رہی ہے "
وہ من ہی من میں کانپ اٹھا ۔
خالدہ نے اپنا قیمتی فون نکالا۔نئی شخصیت کے ساتھ وہ نویں نکور تھی۔
” سردار کیا حال ھے ؟ کیسے ہو؟“
دوسری جانب کی آواز سنانے کے لیے خالدہ نے مائیک آن کردیا۔
” میں نے کہا تھا امجد کو کھڈے لین لگا، اب اسے....“
سردار بہت خوش ہوا۔
” حکم کرو اب کیا اسے گولی مارنا ہے ؟ صبح ہی اخبار میں خبر لگ جائے گی “
خالدہ نے قہقہہ لگایا۔
” تماری وفا کی عزت کرتی ہوں،اسے دوبارہ اچھی جگہ پر لگادو “
سردار بھی ہنس دیا۔
” اتنے چھوٹے چھوٹے کام بولتی ہو۔کوئی بڑا حکم دو “
خالدہ حسب سابق خوشگوار موڈ میں تھی۔
” کل میں خود آرڈر لینے آؤ گی، مگر صبح صبح زبانی حکم پر اسے سیٹ پر بٹھا دینا “
امجد کا دماغ معطل ہوچکا تھا” اتنے بڑے اجڑ میں تم کیوں مجھ پہ مرتی ہو؟ “
خالدہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
” تمہارے ہاتھ میرے ابو جیسے ہیں،جب میں پہلی بار ملی تو مجھے لگا تم ہی مجھے تحفظ دو گے،اسی لیے میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔میں اس گھر کو جوڑنا چاہتی ہوں۔جو میرے ابو نے توڑ دیا۔مجھے مرد کا تحفظ چاہیے“
وہ بھولی بھالی کب کی چلتر بن چکی تھی۔اس کی شخصیت کھل کر سامنے آگئی تھی۔شائد اسے مرد ہونا چاہیے تھا۔
امجد نے فون کرکے مینا کو بھی بلا لیا۔
” آج تم ہماری مہمان ہو ادھر آجاؤ“
مینا انہیں اکٹھا دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔
” کوئی کنویں میں گرے تو اسے باہر نکالنا چاہیے خالدہ حالات کا شکار ہوئی ھے،تم اس کا ہاتھ تھام لو“
اس شام ان کا سخت Catharsis ہوا۔جو جی چاہا بولا،خوفزدہ ہوئے بغیر ہی باتیں کیں۔وہ باتیں جن پر سر اتار دیتے ہیں۔امجد سمجھ گیا کہ خالدہ کے ذہن میں دبے اور چھپے صنوبر کی جڑوں کی طرح گہرے Electra Complex کے باعث وہ اسے پسند کرتی ھے۔ شائد اسکی عمر یا مشفقانہ انداز تھا ۔ یا شائد کچھ Atypical interest جبکہ خود اسکی اپنی شخصیت ہی بچپن کے تجربات کے باعث Paedophilia کا شکار تھی۔ خالدہ نے اپنے گھر فون کر دیا تھا۔ کہ وہ اگلے روز آئے گی ، اور مینا کا تو کوئی پرسان حال تھا ہی نہیں۔ انہوں نے صدیوں میں رجعت کی اور دوبارہ شکاری دور کی زندگی میں چلے آئے ۔ جب انسان کا صرف شکار پہ ہی گزارہ تھا۔ نہ کوئی دولت تھی نہ ہی جاگیر اور نہ ہی کسی قانونی وارث کی ضرورت پڑتی زندگی آزاد اور خود مختار تھی ۔ پھر کسی گدھے کی طرح انسان خود پہ بوجھ ڈالتا چلا گیا۔ اور بالکل ہی پچک گیا۔ صبح انہوں نے مل کر ناشتہ کیا ۔ گھر میں رونق سی آگئی تھی ۔ اب وہ ریسٹ ہاؤس کی بجائے گھر لگ رہا تھا ، سارا گھر جیسے ہنس پڑا ہو ۔ عید آن بسی ہو۔
”مجھے آج پتہ چلا کہ بزدلی کی قیمت اکیلاپن ھے،پہلے ہی تمہیں ساتھ رکھ لیتا تو زندگی اتنی بے معنی اور اداس نہ ہوتی “
خالدہ بھی بہت خوش تھی۔
” اپنی کونسی شخصیت کے ساتھ تمہارے ساتھ رہوں؟ ایک کامیاب عورت یا وہی چنی منی “
امجد نے مینا کو دیکھا، جیسے اس سے جواب چاہتا ہو۔
مینانے وضاحت سے کہا۔
” وہی خوفزدہ اکیلی جیسے میں لائی تھی۔ یہی اس کی آئیڈیل ہے“
امجد نے مداخلت کی۔
"رکو ! کبھی کبھی یہ چلتری بھی بن جایا کرو ، مگر ہمیشہ چنی منی رہا کرو“
چونکہ یہ دوسری شادی تھی،وہ چند ایک دوستوں اور نکاح خواں کو ہی بلانا چاہتا تھا۔سب سے پہلے صادق سے رابطہ کیا، دفتر میں دوبارہ امجد کے سر پر تاج سج چکا تھا ۔ بارہ بجے ہی نکل کھڑا ہوا۔ صادق حسب معمول دفتر میں دنیا بھر کے اخبار پڑھتا اور ٹیلی ویژن کی خبری سنتا۔ اس کے منسٹر نے ہاتھ پاؤں کاٹ کے رکھ دیئے تھے۔بہت سے انسپکٹر شولڈر پروموشن سے ایس پی تھے۔ جبکہ ایس پی اپنے دفاتر میں مکھیاں مارتے جمائیاں لیتے۔ وہ دوستوں سے کچھ چھپانے کا عادی نہ تھا۔ اس نے صادق سے سب کچھ کہہ ڈالا۔ صادق طلسم ہوش ربا سی داستان سنتا رہا پھر پھٹ پڑا۔
"وہ بیچاری تمہاری بیوی امریکہ میں پڑی ھے کہ تمہارا بچہ امریکہ میں پیدا ہو اور وہاں کا نیچرل سٹی زن ہو اور تم ایک بد نام زمانہ سے شادی کر رہے ہو ، نوے برس میں بھی تمہارا دادا، والد اور خود تم بلوچستان کے نان لوکل ڈومی سائل ہو چلو تمہارا بیٹا تو کسی ملک کا شہری ہو گا، ایسی بیوی سے ایسی غداری ؟ “
امجد جیسے جاگ اٹھا ہو ، واقعی وہ کیا سوچ رہا تھا ۔ اور پھر اسی معاشرے میں کیسے سر اٹھا کر جیئے گا ، لوگ اسے کیسے دیکھیں گے اس نے صادق کا شکریہ ادا کیا، اور لنچ سے انکار کر کے واپس چلا آیا۔
پہلے اس نے مینا کو فون کیا۔
" میں اپنے فیصلے پر پچھتا گیا ہوں، تو بہ تو بہ! میں تمہارا نمبر بلاک کر رہا ہوں “
مینا نے کچھ بولنا چاہا تو اس نے فون بند کر دیا پھر اس نے خالدہ کو فون کر کے بے نقط سنائیں اور اسکا نمبر بھی بلاک کر دیا۔ اسے بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ایک غیرت مند مرد ھے ۔ گھر میں خپلو کے دونوں دین دار ملازم موجود تھ ۔ اپنے علاقے سے دور بچوں کے لیے روزی کمانے والے کیسا سکون ان کے چہروں پہ تھا ، جیسے کھڈ کوچہ کے تاکستان۔
امجد نے خود کو مصروف کر دیا۔ گھر میں کم رہنے لگا اور سر شام اپنا مضمون لٹریچر پڑھنے لگتا ۔ شکر کہ اسکروائیڈ کی طرح بدنامی مول نہ لی ۔ پنجے سے نکل گیا۔۔ ایک روز سیرینا ہوٹل کے چائنیز ریستورینت میں کھانا کھانے گیا تو ششدر رہ گیا کہ خالدہ اور صادق ڈنر کا لطف اٹھار ہے ہیں۔ اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا، اور خواب میں چلتا ان کے پاس آ بیٹھا۔
”سلام بھائی جان "
خالدہ نے ادب سے سلام کیا۔ صادق خوشگوار موڈ میں تھا۔
" یار میں نے سوچا کہ ایک بے سہارا لڑکی سے شادی کرنا بہت بڑا ثواب ہے ۔ میں نے خالدہ سے شادی کرلی،بس جلدی میں تمہیں اطلاع نہ دے سکا، کیا کھاؤ گے ؟ "
امجد کی جیب میں گلاک 26 کلبلاتا،وہ خاموشی سے باہر نکل گیا اور بے مقصد ڈرائیو کرتا رہا ۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ خنائی کے علاقے میں تھا ۔ رات گہری ہو چکی تھی۔ پنجاب جانے والے ٹرک ریں ریں کر کے گزر رھے تھے، وہ ایک ڈھابے میں جا بیٹھا اور ہانک لگائی۔
" چاۓ راوڑہ دودھ پتی" لڑکا اس کے سامنے چائے پٹخ گیا۔
چائے پی کر اس کے ہوش بجا ہوئے۔ اس نے مینا کا نمبر ان بلاک کیا اور اسے کال دی۔ مینا حسب معمول خوشگوار موڈ میں ٹن سی تھی۔
" کہاں رھے مہربان تمہیں اب پتہ چلا زمین گول ھے۔کیا حکم ھے نئی کنیز لاؤں؟“
امجد کی گرفت موبائیل پر مضبوط ہو گئی۔
" ہاں ! “
اس نے فون بند کر دیا اور جیپ شہر کی جانب موڑ لی۔
کوپر نیکس ، برونو ، گلیلیو گیلیلئ 'زمین گول ھے' کہنے کے جرم میں مارے گئے ، اسی گول زمین کے باعث انسان لاکھوں برس سے گول گول گھوم کر وہیں کا وہیں ھے، Reincarnation سے دوبارہ وھیں آجاتا ھے، جیسے سانپ اپنی دم منہ میں پکڑ کر ھندو دانشوروں کا زیرو بن جاتا ھے۔nullify ھو کر جیسے بیج گھوم کے جی اٹھتا ھے ، ساری کائنات انسان سمیت گول گول گھومی جارہی ھے جیسے گیان میں گھومتا zygote۔
اس کے بائیں پہلو میں تکتو ساتھ ساتھ چلا جارہا تھا۔مگر سرےء غنڈی وھیں ساکت و جامد امجد کو دیکھ رھے تھے، جنہیں بابا خرواری نے مزید ساتھ چلے آنے سے روک دیا تھا۔
فرہنگ:
*تکتو* : دو چوٹیاں کوئٹہ کا شمالی پہاڑ
*بوٹ* : چڑیا کا بچہ
*اجڑ* : مویشیوں کا گلہ
*سرےء غنڈی* : گلابی مٹی کے ٹیلے