ایسا کہاں سے لاؤں ؟
ایسا کہاں سے لاؤں ؟
Sep 11, 2023
یادیں پیغام آفاقی
دیدبان شمارہ مئ تا اگست
ایسا کہاں سے لاؤں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر
آج بھی لگتا ہے جیسے کوئی فون پر کہہ رہا ہو:
’’غضنفر! میں تمہارے پاس آرہا ہوں تم سے نئے ناول کے پلاٹ پر تبادلۂ خیال کرنا ہے‘‘۔
’’غضنفر! میں راجوری گارڈن سے چل چکا ہوں میرا انتظار کرنا۔ ہم غالب اکادمی کے جلسے میں ساتھ ساتھ چلیں گے۔‘‘
’’غضنفر! آج تم سے سننا ہے۔ سنا ہے کہ تم نے ادھر بہت کچھ لکھ لیا ہے۔ میں ایک آدھ گھنٹے میں پہنچ جائوں گا۔‘‘
’’غضنفر! میرے گھر کے پاس والے تھیٹر میں ایک اچھی سی فلم لگی ہے تم آجاو ! آج ہم وہ فلم ساتھ ساتھ دیکھیں گے۔‘‘
’’غضنفر! انڈیا انٹرنیشنل میں باہر سے کوئی فکشن رائٹر آیا ہوا ہے۔ آج اس سے ملنا ہے۔ تم بھی ساتھ چلنا، میں تمہیں لینے آرہا ہوں‘‘۔
’’غضنفر! آج ہم تاج میں کھانا کھائیں گے اور تھوڑی تفریح بھی کریں گے۔‘‘
مگر حقیقت یہ ہے کہ سماعت میں سرور گھولنے والی یہ صدا ہمیشہ کے لیے سوچکی ہے۔ویسے تو اس طرح کی پرکیف صداؤں کا گونجنا تقریباً چھ سات ماہ قبل ہی بند ہوگیا تھا لیکن ایک امید تھی کہ یہ آواز پھر گونجے گی۔ میرے کانوں میں رس گھولے گی۔ مجھے مسرور کرے گی۔ مجھے متحرک بنائے گی۔ مجھے نئی توانائی بخشے گی۔
مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میرے عزیز ترین دوست کو بھی وہی مہلک مرض لاحق ہوگیا ہے جس نے میرے سب سے پیارے استاد شہریار کو مجھ سے چھین لیا تھا۔ پھر بھی میں بہت دنوں تک پیغام کو دیکھنے نہ جاسکا۔ اس لیے نہ جا سکا کہ میں اس صورت کے تصور سے لرزجاتا تھا جو اس بیماری کے دوران شہریار صاحب کی بن گئی تھی۔ یہ وہ صورت ہے جو جیتے جی مری ہوئی سی لگتی ہے۔ جو تھوڑا تھوڑا روز مرتی ہے۔ جو درد سے چیختی ہے مگر جس کی چیخ سنائی نہیں دیتی۔ جو روتی ہے مگر آنسو نظر نہیں آتے لیکن ایک دن جب میرے فون کے جواب میں پیغام آفاقی کے بجائے کسی اور کی آواز سنائی پڑی اور مجھے یہ بتایا گیا کہ پیغام بات نہیں کرپارہے ہیں تو میرا ماتھا ٹھنک گیا۔ وہ شخص جو بولنا شروع کرتا تھا تو بولتا ہی چلا جاتا تھا، اچانک خاموش ہوگیا۔ مجھے بتایا تو یہ گیا تھا کہ گلے میں چوک ہوگئی ہے مگر مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ دراصل یہ اس بیماری کی ایک اور مار ہے جو اس بار گلے پر پڑی ہے۔میں اپنے آپ کو روک نہ سکا اور اپنی بیوی بشریٰ کے ہمراہ شالیمار میکس اسپتال، حیدر پور، نئی دہلی پہنچ گیا۔ بستر پر پڑے پیغام کی صورت کو دیکھ کر مجھے ایسامحسوس ہوا جیسے غلطی سے میں کسی اور کمرے میں پہنچ گیا ہوں۔ میری کیفیت ایسی ہوگئی جیسے اچانک بجلی کے کرنٹ لگنے سے ہوتی ہے۔ میری آنکھیں اس جھٹکے کی مار سے نیچے جھک گئیں۔ میں جب تک وہاں بیٹھا رہا، میری نظریں یا تو جھکی رہیں یا ادھر ا ُدھر بھٹکتی رہیں۔ میں چاہ کر بھی پیغام کی طرف نہیں دیکھ پارہا تھا کہ پیغام اس روپ میں تھے ہی نہیں جس روپ میں میری آنکھوں نے انھیں ہمیشہ دیکھا تھا۔
میں ان کے پاس تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے تک بیٹھا رہا مگر ان ڈیڑھ دو گھنٹوں میں مجھ پر کیا گزری میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں کچھ اور دیر تک بیٹھنا چاہتا تھا مگر میں جس دوست کے چہرے پر شگفتگی، آنکھوں میں چمک، سر پر بالوں کی خوبصورتی دیکھنے کا عادی تھا، کسی اور حالت میں اسے دیر تک دیکھ نہیں سکتا تھا، اس لیے معذرت کرکے وہاں سے واپس آگیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس عالم میں بھی پیغام مجھ سے اس طرح بات کرتے رہے جیسے انھیں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اپنی بھنچی ہوئی آواز میں بھی انھوں نے مجھ سے پوری طاقت کے ساتھ بات کی۔ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ بات کی۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کیا۔ اپنے ادبی منصوبوں کا ذکر کیا۔ مجھ سے میری ادبی سرگرمیوں کا حال پوچھا۔ فیس بک پر کی جانے والی ادبی معرکہ آرائیوں کا تذکرہ کیا۔ یہ بھی بتایا کہ ہماری نسل کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی ہے اور وہ بہت جلد سب کا حساب کتاب کرنے والے ہیں۔ میں دل ہی دل میں آمین پڑھتا رہا مگر ذہن میں استاد محترم شہر یار صاحب کا یہ شعر بھی گونجتا رہا ؎
ہمارے غم میں ناحق دوست دبلے ہوتے جاتے ہیں
مرض جو ہم کو لاحق ہے، کبھی اچھا نہیں ہوگا
ساتھ ہی پیغام کے ایک خط جسے انھوں نے مجھے 1978ء میں آئی، پی، ایس کی ٹریننگ کے دوران فلّور سے لکھا تھا، کے کچھ جملے بھی میرے ذہن میں گونجنے لگے تھے:
’’اگرچہ ساری دنیا کے ہر ذی روح کو اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوجاتے ہیں جن کو سچ مچ موت کا چہرہ زیادہ پیارا دکھائی دیتا ہے اور موت ان کے لیے نعمت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
اسپتال سے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ایک صبح معلوم ہوا کہ پیغام کو سچ مچ موت کا چہرہ زیادہ پیارا دکھائی دے گیا اور موت شاید ان کے لیے نعمت بن گئی۔ ممکن ہے پیغام کے لیے نعمت بن گئی ہو مگر میرے لیے تو وہ سوہانِ روح ثابت ہو ئی۔ اس لیے نہیں کہ میرا عزیز ترین دوست اب نہیں رہا بلکہ وہ مرد آہن چلا گیا جو بادِ صرصر سے ٹکراتا تھا اور مخالف ہواؤں کا رخ موڑ دیتا تھا۔ جس نے کمار جیسے مافیاوں کے مدِّ مقال نہ صرف یہ کہ نیرا جیسی کمزور لڑکی کو مضبوطی سے کھڑا کردیا تھا بلکہ صنفِ نازک کے ہاتھوں ایک صنفِ سنگ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے جانے کا غم اس لیے بھی تھا کہ وہ مردے میں زندگی ڈالنے والا شخص تھا۔ زرد رنگوں کو سبز بنانے والا فرد تھا۔ آسمان کو زمین پر جھکانے والا مرد تھا۔ جسے معاشرتی پہاڑوں میں ابھی کئی اور فلیتے لگانے تھے۔ ادبی، سیاسی اور تہذیبی مافیاوں کا قلع قمع کرنا تھا۔کئی انسانی درندوں کو ٹھکانے لگانا تھا۔کئی اور نیراوں میں تخلیقیت کے سوتے جگانے تھے جیسا کہ اس نے ’مکان‘ کی ہیروئن نیرا کے اندر جگایا تھا۔ فکشن میں اس انسانی تخلیقیت کو دکھانا تھا جو گوتم بدھ کو گیا میں پیپل کے پیڑے کے نیچے د ھیان کے ذریعے ملی تھی۔ جسے خواجہ معین الدین چشتی نے کشف سے پایا تھا اور مکان کی نیرا نے جسے پیہم تصادم اور مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا تھا۔
پیغام کی موت میرے لیے سوہانِ روح اس لیے بھی بن گئی کہ آخر تک انھیں اپنے ساتھ ساتھ دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا جس طرح کہ میں علی گڑھ میں انھیں ا پنے پاس دیکھا تھا اور دلی میں اپنے پاس پایا تھا۔
پیغام کی دائمی جدائی نے مجھے اس لیے بھی تڑپا دیا تھا کہ پیغام ایک ڈائنمک انسان تھے۔ جو چاہتے تھے کر گزرتے تھے۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے لے کر آخر ایام تک نہایت فعال اور متحرک رہے۔ علی گڑھ کی زندگی میں میں نے پیغام سے زیادہ فعال کسی اور کو نہیں دیکھا۔ انھیں ہر وقت کسی نہ کسی سرگرمی میں سرگرداں پایا۔ کبھی کہانی سنا رہے ہیں تو کبھی ناول کا کوئی باب لکھ رہے ہیں۔کبھی سسٹم کے خلاف کسی محفل میں بول رہے ہیں تو کبھی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر دھواں دھار تقریر کررہے ہیں۔کبھی کسی ادبی محفل کا انعقادکررہے ہیں تو کبھی معاشرے کے اندھیروں کو سامنا کرنے کے لیے ’لائٹ‘ اخبار نکالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ا یسا سرگرم رہنے والے نوجوان طالب علمی کے زمانے میں بھی اچانک خاموش ہوگیا جیسے کسی متحرک جسم پر فالج گر گیا ہو۔ یا جیسے کسی انقلابی کو پولس پکڑ لے گئی ہو۔ وہ نوجوان منظر عام سے بالکل غائب ہوگیا۔ اس کے ہوسٹل جاو تو کمرہ بند۔کسی ثقافتی اڈّے پر پہنچو تو وہاں بھی غائب، چائے خانوں میں جھانکو تو ندارد۔ کہیں کوئی اتا پتا نہیں۔جیسے وہ ہوا ہوگیا ہو مگر اچانک ایک دن پتا چلا کہ وہ یوپی ایس سی کے امتحان میں سلیکٹ ہوکر ٹریننگ کے لیے فلّور چلا گیا۔ یہ بدلاو بھی پیغام کی فعالیت کا ایک مظہر تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی زندگی میں یہ انقلاب کسی دباؤ کے سبب آیا تھا۔ یوں اچانک پیغام کے خاموش ہوجانے اور اس کی ادبی سرگرمیوں کے سرد پڑ جانے کے سبب مجھے بڑا قلق ہوا اور میں اس کی طرف سے نا امید سا ہوگیا کہ اچانک ایک دن ایک ایسا خط آیا جس نے مجھے چونکا دیا۔ میں جسے مرا ہوا سمجھ رہا تھا وہ تو زندہ تھا اور میدانِ ادب میں بہ اندازِدیگر آنے کی تیاری کررہا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس کے کئی خطوط آئے اور ان خطوط کو پڑھ کر محسوس ہوا جیسے وہ خط نہیں فن پارے ہوں۔ ایسے فن پارے جو لطف و انبساط بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ ذہن و دل کو جھنجھوڑتے بھی ہیں اور قاری کو ایک ایسے ماحول میں پہنچا دیتے ہیں جہاں زندگی کے بے شمار تجربات و محسوسات گھر بیٹھے منٹوں میں حاصل ہوجاتے ہیں۔ ٹریننگ کرکے پیغام پہلے پورٹ بلیئر گئے پھر وہاں سے دہلی آگئے اور دہلی آتے ہی انھوں نے جمع کیے ہوئے ادبی بارود سے بم بنانا شروع کردیا۔ ’مکان‘ مافیہ ، درندہ، پلیتہ ایک کے بعد اک کئی بم ۔
پیغام کی ان ادبی تحریروں سے اندازہ ہوتاہے کہ پیغام
صرف پیغام ہی نہیں بلکہ اہل پیغام بھی تھے اور ان کا پیغام کسی مخصوص دائرے تک محدود رہنے والا نہیں تھا، بلکہ اس کا رینج بہت بڑا تھا۔ وہ اپنے پیغام کو آفاق کے گوشے گوشے میں پہنچانا چاہتے تھے۔ اسے آفاقی بنانا چاہتے تھے۔ اُسے ہمہ گیری بخشناچاہتے تھے۔ پیغام کے پاس ایک فلسفیانہ ذہن تھا۔ وہ منظم طریقے سے سوچتے تھے اور اپنے خیالات کو ایک دھاگے میں پرونے کے بعد اسے تخلیق کے سانچے میں ڈھالتے تھے۔
ان کے پاس پیغام اس لیے تھا کہ وہ دنیا کو صرف دیکھتے ہی نہیں، اس کے متعلق سوچتے بھی تھے اورسوچتے بھی اس طرح تھے جس طرح برگد کے نیچے بیٹھ کر سوچا جاتا ہے۔ جس میں نروان کی سی کیفیت سے گزارا جاتا ہے۔ دنیاکے درد کو اپنے دل میں گھولا جاتا ہے۔ اسے ریشے ریشے میں اتارا جاتا ہے۔ دکھوں سے مکتی اور موکش کی تمناکی جاتی ہے۔
وہ سوچتے اس لیے تھے کہ وہ حساس تھے۔ وہ درد کو محسوس کرتے تھے اور اسے مٹانا بھی چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ مثبت رویہ اپناتے تھے۔ وہ دوسروں کے کام آتے تھے۔ کسی کام کے لیے کسی کو کبھی منع نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک کی سنتے تھے اور حتیٰ المقدور کوشش کرتے تھے کہ کام بن جائے۔ کام بنانے کے لیے کبھی کبھی تو وہ حدود سے باہر بھی چلے جاتے تھے۔ ان کا یہ رویّہ ایسا رویّہ ہے جو کام والے اور کام بنانے والے دونوں کو خوش رکھتا تھا۔ اِس رویے کے اثرات دور دور تک دکھائی دیتے تھے۔
ایسا آدمی جو دوسروں کے کام آتا ہے، بگڑی بناتا ہے، مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اسے قریب سے دیکھوں۔ اسے اور جانوں۔ اسے دوسروں کو بھی دکھاوں۔ اس کے بارے میں اوروں کو بھی بتاوں کہ ایسے آدمی کی ضرورت اس ماحول میں اور بڑھ جاتی ہے جہاں آدمی آدمی کو شک کی نظر سے دیکھتا ہو، آدمی آدمی سے ڈرتا ہو، آدمی آدمی کو کاٹتا ہو، آدمی آدمی سے بھاگتا ہو۔ مجھے پیغام اسی لیے پسند ہیں کہ ان میں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
پیغام میں بلاکی خود اعتمادی تھی۔ ایسی خود اعتمادی کہ وہ سوچ لے تو کام ہوجائے۔ میں کئی بار اپنے ذاتی کام کے لیے ان کے پاس گیا۔ مجھے اکثر محسوس ہوا کہ وہ میری بات غور سے نہیں سن رہے ہیں۔ میرے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مجھے ٹال رہے ہیں۔ بہانے بنا رہے ہیں مگر ہر بار میرا کام بنا اور وقت پر بنا اور اس طرح بنا جیسے انھوں نے جادو کی کوئی چھڑی گھمادی ہو- یہ اس کی اسی خود اعتمادی کا نتیجہ ہے کہ کام وقت پر بن جاتا ہے۔ دراصل انھیں کام کرنے اور کرانے کا ہنر آتا تھا۔ کام کے لیے کیا کرنا ہے؟ کب کرنا ہے؟ کس طرح کرنا ہے؟ وہ اندر ہی اندر خاموشی سے سوچتے رہتے تھے اور ان کا یہ عمل عین وقت پر کام کو پائے تکمیل تک پہنچا دیتاتھا۔یعنی ان کی خود اعتمادی ان ہونی کو بھی ہونی کردیتی تھی۔ ایک بار میراتبادلہ سولن سے پٹیالہ پنجاب ہوگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب دہشت گردی کی لپیٹ میں پوری طرح آچکا تھا۔ رات دن گولیاں چل رہی تھیں۔ میری Releaving کی کاروائی شروع ہوگئی تھی کہ پیغام کو معلوم ہوگیا۔ انھوں نے مجھے فوراً دہلی بلوالیا اور دہلی سے میڈیکل لیو کی درخواست بھجوادیا اور مجھے لے کر منسٹری آف ایجوکیشن کے اس افسر کے گھر پہنچ گئے جو ہمارے دفتر کے معاملات کو دیکھا کرتا تھا۔ ملہوترہ سے اپنا تعارف کراتے ہوئے درخواست کی کہ وہ میرا تبادلہ رکوا دے۔ ملہوترہ نے وعدہ بھی کرلیا مگر وہ کسی نہ کسی بہانے سے ٹالتا رہا، شاید وہ مجھ سے کسی اور چیز کا توقع کررہا تھا۔ جب کئی ہفتے گزر گئے اور میرا کام نہ ہوا تو میں پیغام سے بولا کہ لگتا ہے کام نہیں ہوپائے گا۔ اس لیے اب مجھے سولن لوٹ جانا چاہیے۔ میری بات سن کر پیغام بولے ، ہوگا کام ضرور ہوگا اور بہت جلد ہوگا۔ در اصل دیر کی وجہ یہ ہے میں چاہتا تھا کہ اسی بہانے سے تم کچھ دنوں تک میرے ساتھ رہواور انھوں نے یہ کہہ کر ملہوترہ کو فون ملادیا۔
’’ملہوترہ صاحب! جب کوئی ڈی سی پی کسی کام کے لیے کسی کے گھر جائے تو اس آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی ڈی سی پی کو کتنا عزیز ہوگا جس کے لیے وہ کسی کے گھر گیا مگر شاید آپ میرے اور غضنفر کے رشتے کو نہیں سمجھ سکے۔ اب آپ چھوڑ دیجیے یہ کام میں آپ کے اوپر والوں سے کروالوں گا۔‘‘ اور اتنا کہہ کر پیغام نے فون رکھ دیا۔ پیغام کے فون کا وہ اثر ہوا جو کسی بیماری میں تیر بہ ہدف نسخوں کا ہوتا ہے۔ صبح سویرے ملہوترہ کا فون آگیا۔
’’آفاقی صاحب! لگتا ہے آپ ناراض ہوگئے۔ رات بھر میں سو نہیں سکا۔ میں نے غضنفر کے کام کے لیے بات کرلی ہے آج ان کاکام ضرور ہوجائے گا۔ اسے دس بجے منسٹری بھیج دیجئے ۔ آرڈر کی کاپی مل جائے گی۔‘‘
پیغام کی اس قوت خود اعتمادی کا کمال میرے Lien expansionکے وقت بھی دیکھنے کو ملا۔ میں علی گڑھ کی ملازمت کے دوران مہینوں سے کوشش کررہا تھا کہ مجھے ایک سال کی اورLien مل جائے مگر Lien ختم ہونے میں ایک دن رہ گیا تھا اور اس سلسلے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پیغام کو فون پر بتایا تو اس نے مجھے دہلی بلوالیا اور میرے سامنے ایجوکیشن منسٹری کے افسر سے اس طرح با ت کی کہ دہلی اور میسور کی دوری منٹوں میں طے ہونے لگی اور محض دو چار گھنٹوں میں میرا ایک سال کے لیے Leave extensionہوگیا جبکہ متعلقہ منسٹری میں پیغام کی کسی افسر سے جان پہچان تک نہیں تھی۔
پیغام کی اس خود اعتماد کا کمال ہے کہ انھوں نے جو سوچا یا کرنے کا ارادہ کیا اسے کر دکھایا۔ مثلاً انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں ادبی سرگرمیوں کے دوران اچانک ایک دن یہ سوچ لیا کہ انھیں آئی پی ایس بننا ہے سو بن گئے۔ انھوں نے سوچا کہ سیریل ڈائریکٹ کرنا ہے سو وہ ٹی وی ڈائریکٹر بن گئے۔ انھوں نے سوچا کہ سیریل میں ایکٹنگ کرنی ہے سو انھوں نے مرکزی کردار کی ایکٹنگ بھی کی۔ انھوں سوچا کہ سیوان میں کالج کھولنا ہے سو انھوں نے کالج کھول دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے قبضے میں کوئی جن تھا جسے انھوں نے کسی کام کا حکم دیا اور وہ کام ہوگیا۔
پیغام کو صرف کام کرنے اور کرانے کا ہی ہنر نہیں آتا بلکہ مشکل کشائی کا ہنر بھی آتا تھا۔ مشکلوں کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے؟ کس طرح انھیں زیر کیا جاتا ہے؟ مشکلوں کی شاہراہوں سے آسانی کی پگڈنڈیاں کس طرح اور کہاں کہاں سے نکالی جاتی ہیں، انھیں خوب آتاتھا۔ اس کام میں اس کی حکمتِ عملی، خود اعتمادی اوروابستگی ان کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ کبھی کبھی تو مشکلوں کو وہ اس طرح دور کرتے تھے کہ محسوس ہوتا جیسے راستے سے پتھر نہیں ہٹا رہے ہیں بلکہ پھول چن رہے ہیں۔
میں نے ہمیشہ پیغام کو سہج اور سادہ پایا۔ وہ آسانی سے ہاتھ آجانے والا انسان تھے۔ جس عہدے پر وہ فائز رہے اور جس طرح کے اختیارات وہ رکھتے تھے، تکبر پیدا کرنے کے لیے کافی تھے مگر اس پوزیشن میں بھی ان کے اندر وہی انکساری اور خاکساری تھی جو اس کے بے سروسامانی کے دنوں میں موجود تھی۔ ان کی خاکساری اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت ایرکنڈیشنڈ روم میں رہنے کے باوجود غیر اے۔ سی صورتِ حال میں بھی اس طرح اطمینان اور سکون سے رہتے تھے جیسے وہاں بھی خفیہ کھڑکیوں سے سرد ہوائیں چل رہی ہوں۔ نامساعد اور برعکس صورتِ حال کی تکلیف کا اثر کبھی بھی ان کے چہرے سے عیاں نہیں ہوتا تھا۔ انھیں ٹاٹ پر اسی طرح نیند آجاتی ہے جس طرح مخملی بستروں پر۔
پیغام کی شخصیت کا ایک نمایاں و صف ان کی طبیعت میں ٹھہراو ہے۔ اُنھیں عجلت اور جلدبازی پسند نہیں تھی۔ جو آدمی سوچتا ہے وہ کسی کام میں جلدبازی نہیں کرتا۔ وہ کام شروع کرنے سے پہلے ایک ایک پہلو اور ایک ایک نکتے پر غور کرتے تھے۔ نشیب و فراز کو سامنے رکھتے تھے۔ دائیں بائیں دیکھتے تھے۔ ساری کڑیاں ملاتے تھے اور کڑیوں کو ضرب لگانے والے ا مور کو بھی نگاہ میں رکھتے تھے۔ اسی لیے ایسے آدمی کا کام ٹکاو اور پائدار ہوتاتھا۔ ناول ’مکان‘ اس کا واضح ثبوت ہے جس کی تخلیق میں بیس بائیس سال لگے۔
پیغام کے ایک خط کایہ اقتباس بھی ان کے اس وصف کی تائید کرتا نظر آتا ہے:
’’مٹی کے گھڑے تو میں نے کئی بنائے۔ تعریف بھی ہوئی۔مجھے اطمینان بھی ہوا اور اگر میں گھڑے بناتا رہتا تو تعریف بھی ہوتی اور اطمینان بھی رہتا لیکن ایک دن میں نے تاج محل کی تصویر دیکھی اور تاج محل بنانے کا شوق ہوا، پھر دو چار تاج محل بھی بنائے اور لوگوں نے ذرا تکلف سے کام لیتے ہوئے کہا، تاج محل بنا لیتے ہو، لیکن ایک شام یوں ہوا کہ مجھے تاج محل کی تصویر کے بجائے تاج محل کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، کھلی چاندنی، آدھی رات، اور کنارۂ دریا …پھر میں بھول گیا کہ میں تاج محل بنا سکتا ہوں، لیکن ہمت نہ ہاری، سوچا انسان ہی نے تاج محل بنایا ہوگا۔ لال قلعہ اور قطب مینار بنائے ہوں گے لیکن یہ بات اس وقت ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آئی کہ تاج محل بنانے میں اٹھارہ سال کیو ں لگ گئے تھے جب کہ اسے اپنے زمانے کا ایک شہنشاہ بنوا رہا تھا۔ ٹلسٹائے پڑھتے پڑھتے، سوچتے سوچتے تقریباً اندھاہو گیا تھا تو ’امن و جنگ‘ پوری ہوئی۔ روسو 37برس تک فرانس اور پیرس کی گلیوں میں گمنام پھرتا رہا تب دنیائے فکر پر سورج کی طرح طلوع ہوا۔ مارکس برسوں برٹس میوزیم سے شام کو لائبریری بند ہوتے وقت زبردستی اٹھا کر باہر کیا جاتا رہا تب اس نے ’سرمایہ‘ لکھی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ایک شاعر یا ادیب کے لیے کتابوں کا اس قدر پڑھنا ضروری ہے لیکن اپنے اندر کے ادیب کو رگڑ رگڑ کر کوہِ نور کی طرح چمکانا بے حد ضروری ہے۔ یہ مانا Ketsکی شاعری چھتیس سال کی عمر میں نازل ہوجاتی ہے لیکن بوڑھے برناڈشا اور ٹالسٹائے جھکّی نہیں تھے۔ کم سے کم بصیرت کی گہرائیوں کا راستہ تیزی سے طے نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
پیغام نے بھی زندگی اور اس کی باریکیوں کا بہت منتھن کیا لیکن تاج محل کا غذ پر اتارنے کی مہلت انھیں زندگی نے نہیں دی۔
پیغام ایک بامروّت اور بااخلاق انسان تھے۔ ویسے تو ان کا سلوک ہر ایک کے ساتھ اچھا ہوتا تھا مگر میرے ساتھ کچھ زیادہ ہی اچھا ہوتا تھا۔ میرے ساتھ ان کا سلوک ایسا ہوتا جیسا کہ ان کا خود کے ساتھ ہوتا تھا۔ مجھے اس کا تو اندازہ نہیں کہ میری دوستی سے انھیں کیا ملا مگر ان کی دوستی سے مجھے جو ملا اس کا مجھے شدید احساس ہے۔ ادب کے میدان میں قدم رکھنے، دنیا کو دیکھنے، دلوں کو جاننے، اور دماغوں کو سمجھنے میں مجھے ان سے کافی مدد ملی۔ میرے بعض تجربات و مشاہدات انھیں کی مرہونِ منّت ہیں۔ اگر ان کامشورہ نہیں ملا ہوتا تو میرے ناول ’پانی‘ کے بعض منظروں میں وہ روانی شاید نہیں آتی جو دکھائی دیتی ہے۔ اردو کتابوں کی روشِ عام کے مطابق بھی پانی کی محض تین چار سو کاپیاں چھپوانا چاہتا تھا مگر پیغام نے اس کی ایک ہزار کاپیاں چھپوادیں اور اشاعت کا خرچ خود برداشت کیا۔ زیادہ تعداد کی ا شاعت کے پیچھے پیغام کی ذاتی پسند کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی تھی کہ یہ ’پانی‘ روانی کے سبب بہت دور تک جائے گا۔ انھیں یہ ناول ا تنا پسند تھا کہ انھوں نے ’’پانی ایک ادبی کرامت‘‘کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا اور بڑی بے باکی سے یہ تک لکھ دیا:
’’یہ کتاب اپنی صنف، اپنی تھیم، اپنی تکنیک اور اپنے اسلوب چاروں اعتبار سے روایت شکن، منفرد اوراچھوتی ہے۔ مگر مچھ، آبیاژہ، دارالتحقیقات اردو ادب کی زندۂ جاوید علامت بن جائیں گے۔ اور ساحر کی ساحری سمندر منتھن اور خضر کی آبِ حیات میں مگر مچھوں کا قبضہ انسانی تہذیب کی تاریخ میں بار باریاد آئیں گے اور کئی اہم موقعے پر انسانی فکر کے لیے منارۂ نور کا کام دیں گے۔"
پیغام کی شخصیت میں ایک ایسی اپنائیت اور ایک ایسی کشش تھی جو مقناطیس کی طرح دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ دہلی میں میرے درجنوں احباب ہیں۔ تقریباً اتنے ہی رشتے دار بھی ہیں مگر دہلی پہنچتے وقت سب سے پہلے جو چہرہ آنکھوں میں ابھرتا تھا، وہ اسی کا ہوتا تھا۔ دہلی ریلوے اسٹیشن سے ان کا مکان سب سے زیادہ فاصلے پر واقع تھا۔ اس کے باوجود میرے قدم بغیر کسی ہچکچاہٹ اور رکاوٹ کے اس کی طرف بڑھنے لگتے تھے۔ اس کا سبب شاید یہ بھی ہے کہ ان کا گھر میرے لیے میرے اپنے گھر کی طرح ہر وقت کھلا رہتا تھا اور مجھے یہ احساس نہیں ہوتاتھا کہ میں علی گڑھ سے دہلی پہنچ گیا ہوں۔ پیغام سے مل کر مجھے صرف خوشی ہی نہیں ملتی بلکہ جینے کا حوصلہ بھی ملتا تھا۔ مجھ میں کچھ کرنے کی تحریک پیدا ہوتی تھی۔ نئے نئے آئیڈیاز جنم لیتے تھے۔ نئے نئے منصوبے سوجھتے تھے۔ اس سے باتیں کرکے یاس مٹتی تھی، پیاس بجھتی تھی، مایوسی دور ہوتی تھی۔ ذہن تعمیر و تخلیق کی جانب اڑان بھرنے لگتا تھا۔ ایسا بہت کم لوگوں سے مل کر ہوتا ہے۔
پیغام کی دلی خواہش تھی کہ میں کسی طرح دلی آجاوں۔ اس کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں بھی رہے ا ور تمنائیں اور دعائیں کرتے رہے۔ اللہ نے ان کی سن بھی لی ا ور میں لکھنؤ سے دہلی آگیا۔ مجھے دہلی میں دیکھ کر مجھ سے زیادہ پیغام کو خوشی ہوئی۔ وہ میرے ساتھ مل کر بہت سارے ادبی کا کرنا چاہتے تھے۔نام فکشن اکادمی کو زندہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بینر تلے اردو فکشن کے لیے وہ کام کرنا چاہتے تھے جو اب تک نہیں ہوا۔ اس کے لیے ا نھوں نے فنڈ کا انتظام بھی کرنا شروع کردیا تھا مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر
دیدبان شمارہ مئ تا اگست
ایسا کہاں سے لاؤں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر
آج بھی لگتا ہے جیسے کوئی فون پر کہہ رہا ہو:
’’غضنفر! میں تمہارے پاس آرہا ہوں تم سے نئے ناول کے پلاٹ پر تبادلۂ خیال کرنا ہے‘‘۔
’’غضنفر! میں راجوری گارڈن سے چل چکا ہوں میرا انتظار کرنا۔ ہم غالب اکادمی کے جلسے میں ساتھ ساتھ چلیں گے۔‘‘
’’غضنفر! آج تم سے سننا ہے۔ سنا ہے کہ تم نے ادھر بہت کچھ لکھ لیا ہے۔ میں ایک آدھ گھنٹے میں پہنچ جائوں گا۔‘‘
’’غضنفر! میرے گھر کے پاس والے تھیٹر میں ایک اچھی سی فلم لگی ہے تم آجاو ! آج ہم وہ فلم ساتھ ساتھ دیکھیں گے۔‘‘
’’غضنفر! انڈیا انٹرنیشنل میں باہر سے کوئی فکشن رائٹر آیا ہوا ہے۔ آج اس سے ملنا ہے۔ تم بھی ساتھ چلنا، میں تمہیں لینے آرہا ہوں‘‘۔
’’غضنفر! آج ہم تاج میں کھانا کھائیں گے اور تھوڑی تفریح بھی کریں گے۔‘‘
مگر حقیقت یہ ہے کہ سماعت میں سرور گھولنے والی یہ صدا ہمیشہ کے لیے سوچکی ہے۔ویسے تو اس طرح کی پرکیف صداؤں کا گونجنا تقریباً چھ سات ماہ قبل ہی بند ہوگیا تھا لیکن ایک امید تھی کہ یہ آواز پھر گونجے گی۔ میرے کانوں میں رس گھولے گی۔ مجھے مسرور کرے گی۔ مجھے متحرک بنائے گی۔ مجھے نئی توانائی بخشے گی۔
مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میرے عزیز ترین دوست کو بھی وہی مہلک مرض لاحق ہوگیا ہے جس نے میرے سب سے پیارے استاد شہریار کو مجھ سے چھین لیا تھا۔ پھر بھی میں بہت دنوں تک پیغام کو دیکھنے نہ جاسکا۔ اس لیے نہ جا سکا کہ میں اس صورت کے تصور سے لرزجاتا تھا جو اس بیماری کے دوران شہریار صاحب کی بن گئی تھی۔ یہ وہ صورت ہے جو جیتے جی مری ہوئی سی لگتی ہے۔ جو تھوڑا تھوڑا روز مرتی ہے۔ جو درد سے چیختی ہے مگر جس کی چیخ سنائی نہیں دیتی۔ جو روتی ہے مگر آنسو نظر نہیں آتے لیکن ایک دن جب میرے فون کے جواب میں پیغام آفاقی کے بجائے کسی اور کی آواز سنائی پڑی اور مجھے یہ بتایا گیا کہ پیغام بات نہیں کرپارہے ہیں تو میرا ماتھا ٹھنک گیا۔ وہ شخص جو بولنا شروع کرتا تھا تو بولتا ہی چلا جاتا تھا، اچانک خاموش ہوگیا۔ مجھے بتایا تو یہ گیا تھا کہ گلے میں چوک ہوگئی ہے مگر مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ دراصل یہ اس بیماری کی ایک اور مار ہے جو اس بار گلے پر پڑی ہے۔میں اپنے آپ کو روک نہ سکا اور اپنی بیوی بشریٰ کے ہمراہ شالیمار میکس اسپتال، حیدر پور، نئی دہلی پہنچ گیا۔ بستر پر پڑے پیغام کی صورت کو دیکھ کر مجھے ایسامحسوس ہوا جیسے غلطی سے میں کسی اور کمرے میں پہنچ گیا ہوں۔ میری کیفیت ایسی ہوگئی جیسے اچانک بجلی کے کرنٹ لگنے سے ہوتی ہے۔ میری آنکھیں اس جھٹکے کی مار سے نیچے جھک گئیں۔ میں جب تک وہاں بیٹھا رہا، میری نظریں یا تو جھکی رہیں یا ادھر ا ُدھر بھٹکتی رہیں۔ میں چاہ کر بھی پیغام کی طرف نہیں دیکھ پارہا تھا کہ پیغام اس روپ میں تھے ہی نہیں جس روپ میں میری آنکھوں نے انھیں ہمیشہ دیکھا تھا۔
میں ان کے پاس تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے تک بیٹھا رہا مگر ان ڈیڑھ دو گھنٹوں میں مجھ پر کیا گزری میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں کچھ اور دیر تک بیٹھنا چاہتا تھا مگر میں جس دوست کے چہرے پر شگفتگی، آنکھوں میں چمک، سر پر بالوں کی خوبصورتی دیکھنے کا عادی تھا، کسی اور حالت میں اسے دیر تک دیکھ نہیں سکتا تھا، اس لیے معذرت کرکے وہاں سے واپس آگیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس عالم میں بھی پیغام مجھ سے اس طرح بات کرتے رہے جیسے انھیں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اپنی بھنچی ہوئی آواز میں بھی انھوں نے مجھ سے پوری طاقت کے ساتھ بات کی۔ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ بات کی۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کیا۔ اپنے ادبی منصوبوں کا ذکر کیا۔ مجھ سے میری ادبی سرگرمیوں کا حال پوچھا۔ فیس بک پر کی جانے والی ادبی معرکہ آرائیوں کا تذکرہ کیا۔ یہ بھی بتایا کہ ہماری نسل کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی ہے اور وہ بہت جلد سب کا حساب کتاب کرنے والے ہیں۔ میں دل ہی دل میں آمین پڑھتا رہا مگر ذہن میں استاد محترم شہر یار صاحب کا یہ شعر بھی گونجتا رہا ؎
ہمارے غم میں ناحق دوست دبلے ہوتے جاتے ہیں
مرض جو ہم کو لاحق ہے، کبھی اچھا نہیں ہوگا
ساتھ ہی پیغام کے ایک خط جسے انھوں نے مجھے 1978ء میں آئی، پی، ایس کی ٹریننگ کے دوران فلّور سے لکھا تھا، کے کچھ جملے بھی میرے ذہن میں گونجنے لگے تھے:
’’اگرچہ ساری دنیا کے ہر ذی روح کو اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوجاتے ہیں جن کو سچ مچ موت کا چہرہ زیادہ پیارا دکھائی دیتا ہے اور موت ان کے لیے نعمت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
اسپتال سے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ایک صبح معلوم ہوا کہ پیغام کو سچ مچ موت کا چہرہ زیادہ پیارا دکھائی دے گیا اور موت شاید ان کے لیے نعمت بن گئی۔ ممکن ہے پیغام کے لیے نعمت بن گئی ہو مگر میرے لیے تو وہ سوہانِ روح ثابت ہو ئی۔ اس لیے نہیں کہ میرا عزیز ترین دوست اب نہیں رہا بلکہ وہ مرد آہن چلا گیا جو بادِ صرصر سے ٹکراتا تھا اور مخالف ہواؤں کا رخ موڑ دیتا تھا۔ جس نے کمار جیسے مافیاوں کے مدِّ مقال نہ صرف یہ کہ نیرا جیسی کمزور لڑکی کو مضبوطی سے کھڑا کردیا تھا بلکہ صنفِ نازک کے ہاتھوں ایک صنفِ سنگ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے جانے کا غم اس لیے بھی تھا کہ وہ مردے میں زندگی ڈالنے والا شخص تھا۔ زرد رنگوں کو سبز بنانے والا فرد تھا۔ آسمان کو زمین پر جھکانے والا مرد تھا۔ جسے معاشرتی پہاڑوں میں ابھی کئی اور فلیتے لگانے تھے۔ ادبی، سیاسی اور تہذیبی مافیاوں کا قلع قمع کرنا تھا۔کئی انسانی درندوں کو ٹھکانے لگانا تھا۔کئی اور نیراوں میں تخلیقیت کے سوتے جگانے تھے جیسا کہ اس نے ’مکان‘ کی ہیروئن نیرا کے اندر جگایا تھا۔ فکشن میں اس انسانی تخلیقیت کو دکھانا تھا جو گوتم بدھ کو گیا میں پیپل کے پیڑے کے نیچے د ھیان کے ذریعے ملی تھی۔ جسے خواجہ معین الدین چشتی نے کشف سے پایا تھا اور مکان کی نیرا نے جسے پیہم تصادم اور مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا تھا۔
پیغام کی موت میرے لیے سوہانِ روح اس لیے بھی بن گئی کہ آخر تک انھیں اپنے ساتھ ساتھ دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا جس طرح کہ میں علی گڑھ میں انھیں ا پنے پاس دیکھا تھا اور دلی میں اپنے پاس پایا تھا۔
پیغام کی دائمی جدائی نے مجھے اس لیے بھی تڑپا دیا تھا کہ پیغام ایک ڈائنمک انسان تھے۔ جو چاہتے تھے کر گزرتے تھے۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے لے کر آخر ایام تک نہایت فعال اور متحرک رہے۔ علی گڑھ کی زندگی میں میں نے پیغام سے زیادہ فعال کسی اور کو نہیں دیکھا۔ انھیں ہر وقت کسی نہ کسی سرگرمی میں سرگرداں پایا۔ کبھی کہانی سنا رہے ہیں تو کبھی ناول کا کوئی باب لکھ رہے ہیں۔کبھی سسٹم کے خلاف کسی محفل میں بول رہے ہیں تو کبھی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر دھواں دھار تقریر کررہے ہیں۔کبھی کسی ادبی محفل کا انعقادکررہے ہیں تو کبھی معاشرے کے اندھیروں کو سامنا کرنے کے لیے ’لائٹ‘ اخبار نکالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ا یسا سرگرم رہنے والے نوجوان طالب علمی کے زمانے میں بھی اچانک خاموش ہوگیا جیسے کسی متحرک جسم پر فالج گر گیا ہو۔ یا جیسے کسی انقلابی کو پولس پکڑ لے گئی ہو۔ وہ نوجوان منظر عام سے بالکل غائب ہوگیا۔ اس کے ہوسٹل جاو تو کمرہ بند۔کسی ثقافتی اڈّے پر پہنچو تو وہاں بھی غائب، چائے خانوں میں جھانکو تو ندارد۔ کہیں کوئی اتا پتا نہیں۔جیسے وہ ہوا ہوگیا ہو مگر اچانک ایک دن پتا چلا کہ وہ یوپی ایس سی کے امتحان میں سلیکٹ ہوکر ٹریننگ کے لیے فلّور چلا گیا۔ یہ بدلاو بھی پیغام کی فعالیت کا ایک مظہر تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی زندگی میں یہ انقلاب کسی دباؤ کے سبب آیا تھا۔ یوں اچانک پیغام کے خاموش ہوجانے اور اس کی ادبی سرگرمیوں کے سرد پڑ جانے کے سبب مجھے بڑا قلق ہوا اور میں اس کی طرف سے نا امید سا ہوگیا کہ اچانک ایک دن ایک ایسا خط آیا جس نے مجھے چونکا دیا۔ میں جسے مرا ہوا سمجھ رہا تھا وہ تو زندہ تھا اور میدانِ ادب میں بہ اندازِدیگر آنے کی تیاری کررہا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس کے کئی خطوط آئے اور ان خطوط کو پڑھ کر محسوس ہوا جیسے وہ خط نہیں فن پارے ہوں۔ ایسے فن پارے جو لطف و انبساط بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ ذہن و دل کو جھنجھوڑتے بھی ہیں اور قاری کو ایک ایسے ماحول میں پہنچا دیتے ہیں جہاں زندگی کے بے شمار تجربات و محسوسات گھر بیٹھے منٹوں میں حاصل ہوجاتے ہیں۔ ٹریننگ کرکے پیغام پہلے پورٹ بلیئر گئے پھر وہاں سے دہلی آگئے اور دہلی آتے ہی انھوں نے جمع کیے ہوئے ادبی بارود سے بم بنانا شروع کردیا۔ ’مکان‘ مافیہ ، درندہ، پلیتہ ایک کے بعد اک کئی بم ۔
پیغام کی ان ادبی تحریروں سے اندازہ ہوتاہے کہ پیغام
صرف پیغام ہی نہیں بلکہ اہل پیغام بھی تھے اور ان کا پیغام کسی مخصوص دائرے تک محدود رہنے والا نہیں تھا، بلکہ اس کا رینج بہت بڑا تھا۔ وہ اپنے پیغام کو آفاق کے گوشے گوشے میں پہنچانا چاہتے تھے۔ اسے آفاقی بنانا چاہتے تھے۔ اُسے ہمہ گیری بخشناچاہتے تھے۔ پیغام کے پاس ایک فلسفیانہ ذہن تھا۔ وہ منظم طریقے سے سوچتے تھے اور اپنے خیالات کو ایک دھاگے میں پرونے کے بعد اسے تخلیق کے سانچے میں ڈھالتے تھے۔
ان کے پاس پیغام اس لیے تھا کہ وہ دنیا کو صرف دیکھتے ہی نہیں، اس کے متعلق سوچتے بھی تھے اورسوچتے بھی اس طرح تھے جس طرح برگد کے نیچے بیٹھ کر سوچا جاتا ہے۔ جس میں نروان کی سی کیفیت سے گزارا جاتا ہے۔ دنیاکے درد کو اپنے دل میں گھولا جاتا ہے۔ اسے ریشے ریشے میں اتارا جاتا ہے۔ دکھوں سے مکتی اور موکش کی تمناکی جاتی ہے۔
وہ سوچتے اس لیے تھے کہ وہ حساس تھے۔ وہ درد کو محسوس کرتے تھے اور اسے مٹانا بھی چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ مثبت رویہ اپناتے تھے۔ وہ دوسروں کے کام آتے تھے۔ کسی کام کے لیے کسی کو کبھی منع نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک کی سنتے تھے اور حتیٰ المقدور کوشش کرتے تھے کہ کام بن جائے۔ کام بنانے کے لیے کبھی کبھی تو وہ حدود سے باہر بھی چلے جاتے تھے۔ ان کا یہ رویّہ ایسا رویّہ ہے جو کام والے اور کام بنانے والے دونوں کو خوش رکھتا تھا۔ اِس رویے کے اثرات دور دور تک دکھائی دیتے تھے۔
ایسا آدمی جو دوسروں کے کام آتا ہے، بگڑی بناتا ہے، مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اسے قریب سے دیکھوں۔ اسے اور جانوں۔ اسے دوسروں کو بھی دکھاوں۔ اس کے بارے میں اوروں کو بھی بتاوں کہ ایسے آدمی کی ضرورت اس ماحول میں اور بڑھ جاتی ہے جہاں آدمی آدمی کو شک کی نظر سے دیکھتا ہو، آدمی آدمی سے ڈرتا ہو، آدمی آدمی کو کاٹتا ہو، آدمی آدمی سے بھاگتا ہو۔ مجھے پیغام اسی لیے پسند ہیں کہ ان میں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
پیغام میں بلاکی خود اعتمادی تھی۔ ایسی خود اعتمادی کہ وہ سوچ لے تو کام ہوجائے۔ میں کئی بار اپنے ذاتی کام کے لیے ان کے پاس گیا۔ مجھے اکثر محسوس ہوا کہ وہ میری بات غور سے نہیں سن رہے ہیں۔ میرے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مجھے ٹال رہے ہیں۔ بہانے بنا رہے ہیں مگر ہر بار میرا کام بنا اور وقت پر بنا اور اس طرح بنا جیسے انھوں نے جادو کی کوئی چھڑی گھمادی ہو- یہ اس کی اسی خود اعتمادی کا نتیجہ ہے کہ کام وقت پر بن جاتا ہے۔ دراصل انھیں کام کرنے اور کرانے کا ہنر آتا تھا۔ کام کے لیے کیا کرنا ہے؟ کب کرنا ہے؟ کس طرح کرنا ہے؟ وہ اندر ہی اندر خاموشی سے سوچتے رہتے تھے اور ان کا یہ عمل عین وقت پر کام کو پائے تکمیل تک پہنچا دیتاتھا۔یعنی ان کی خود اعتمادی ان ہونی کو بھی ہونی کردیتی تھی۔ ایک بار میراتبادلہ سولن سے پٹیالہ پنجاب ہوگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب دہشت گردی کی لپیٹ میں پوری طرح آچکا تھا۔ رات دن گولیاں چل رہی تھیں۔ میری Releaving کی کاروائی شروع ہوگئی تھی کہ پیغام کو معلوم ہوگیا۔ انھوں نے مجھے فوراً دہلی بلوالیا اور دہلی سے میڈیکل لیو کی درخواست بھجوادیا اور مجھے لے کر منسٹری آف ایجوکیشن کے اس افسر کے گھر پہنچ گئے جو ہمارے دفتر کے معاملات کو دیکھا کرتا تھا۔ ملہوترہ سے اپنا تعارف کراتے ہوئے درخواست کی کہ وہ میرا تبادلہ رکوا دے۔ ملہوترہ نے وعدہ بھی کرلیا مگر وہ کسی نہ کسی بہانے سے ٹالتا رہا، شاید وہ مجھ سے کسی اور چیز کا توقع کررہا تھا۔ جب کئی ہفتے گزر گئے اور میرا کام نہ ہوا تو میں پیغام سے بولا کہ لگتا ہے کام نہیں ہوپائے گا۔ اس لیے اب مجھے سولن لوٹ جانا چاہیے۔ میری بات سن کر پیغام بولے ، ہوگا کام ضرور ہوگا اور بہت جلد ہوگا۔ در اصل دیر کی وجہ یہ ہے میں چاہتا تھا کہ اسی بہانے سے تم کچھ دنوں تک میرے ساتھ رہواور انھوں نے یہ کہہ کر ملہوترہ کو فون ملادیا۔
’’ملہوترہ صاحب! جب کوئی ڈی سی پی کسی کام کے لیے کسی کے گھر جائے تو اس آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی ڈی سی پی کو کتنا عزیز ہوگا جس کے لیے وہ کسی کے گھر گیا مگر شاید آپ میرے اور غضنفر کے رشتے کو نہیں سمجھ سکے۔ اب آپ چھوڑ دیجیے یہ کام میں آپ کے اوپر والوں سے کروالوں گا۔‘‘ اور اتنا کہہ کر پیغام نے فون رکھ دیا۔ پیغام کے فون کا وہ اثر ہوا جو کسی بیماری میں تیر بہ ہدف نسخوں کا ہوتا ہے۔ صبح سویرے ملہوترہ کا فون آگیا۔
’’آفاقی صاحب! لگتا ہے آپ ناراض ہوگئے۔ رات بھر میں سو نہیں سکا۔ میں نے غضنفر کے کام کے لیے بات کرلی ہے آج ان کاکام ضرور ہوجائے گا۔ اسے دس بجے منسٹری بھیج دیجئے ۔ آرڈر کی کاپی مل جائے گی۔‘‘
پیغام کی اس قوت خود اعتمادی کا کمال میرے Lien expansionکے وقت بھی دیکھنے کو ملا۔ میں علی گڑھ کی ملازمت کے دوران مہینوں سے کوشش کررہا تھا کہ مجھے ایک سال کی اورLien مل جائے مگر Lien ختم ہونے میں ایک دن رہ گیا تھا اور اس سلسلے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پیغام کو فون پر بتایا تو اس نے مجھے دہلی بلوالیا اور میرے سامنے ایجوکیشن منسٹری کے افسر سے اس طرح با ت کی کہ دہلی اور میسور کی دوری منٹوں میں طے ہونے لگی اور محض دو چار گھنٹوں میں میرا ایک سال کے لیے Leave extensionہوگیا جبکہ متعلقہ منسٹری میں پیغام کی کسی افسر سے جان پہچان تک نہیں تھی۔
پیغام کی اس خود اعتماد کا کمال ہے کہ انھوں نے جو سوچا یا کرنے کا ارادہ کیا اسے کر دکھایا۔ مثلاً انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں ادبی سرگرمیوں کے دوران اچانک ایک دن یہ سوچ لیا کہ انھیں آئی پی ایس بننا ہے سو بن گئے۔ انھوں نے سوچا کہ سیریل ڈائریکٹ کرنا ہے سو وہ ٹی وی ڈائریکٹر بن گئے۔ انھوں نے سوچا کہ سیریل میں ایکٹنگ کرنی ہے سو انھوں نے مرکزی کردار کی ایکٹنگ بھی کی۔ انھوں سوچا کہ سیوان میں کالج کھولنا ہے سو انھوں نے کالج کھول دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے قبضے میں کوئی جن تھا جسے انھوں نے کسی کام کا حکم دیا اور وہ کام ہوگیا۔
پیغام کو صرف کام کرنے اور کرانے کا ہی ہنر نہیں آتا بلکہ مشکل کشائی کا ہنر بھی آتا تھا۔ مشکلوں کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے؟ کس طرح انھیں زیر کیا جاتا ہے؟ مشکلوں کی شاہراہوں سے آسانی کی پگڈنڈیاں کس طرح اور کہاں کہاں سے نکالی جاتی ہیں، انھیں خوب آتاتھا۔ اس کام میں اس کی حکمتِ عملی، خود اعتمادی اوروابستگی ان کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ کبھی کبھی تو مشکلوں کو وہ اس طرح دور کرتے تھے کہ محسوس ہوتا جیسے راستے سے پتھر نہیں ہٹا رہے ہیں بلکہ پھول چن رہے ہیں۔
میں نے ہمیشہ پیغام کو سہج اور سادہ پایا۔ وہ آسانی سے ہاتھ آجانے والا انسان تھے۔ جس عہدے پر وہ فائز رہے اور جس طرح کے اختیارات وہ رکھتے تھے، تکبر پیدا کرنے کے لیے کافی تھے مگر اس پوزیشن میں بھی ان کے اندر وہی انکساری اور خاکساری تھی جو اس کے بے سروسامانی کے دنوں میں موجود تھی۔ ان کی خاکساری اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت ایرکنڈیشنڈ روم میں رہنے کے باوجود غیر اے۔ سی صورتِ حال میں بھی اس طرح اطمینان اور سکون سے رہتے تھے جیسے وہاں بھی خفیہ کھڑکیوں سے سرد ہوائیں چل رہی ہوں۔ نامساعد اور برعکس صورتِ حال کی تکلیف کا اثر کبھی بھی ان کے چہرے سے عیاں نہیں ہوتا تھا۔ انھیں ٹاٹ پر اسی طرح نیند آجاتی ہے جس طرح مخملی بستروں پر۔
پیغام کی شخصیت کا ایک نمایاں و صف ان کی طبیعت میں ٹھہراو ہے۔ اُنھیں عجلت اور جلدبازی پسند نہیں تھی۔ جو آدمی سوچتا ہے وہ کسی کام میں جلدبازی نہیں کرتا۔ وہ کام شروع کرنے سے پہلے ایک ایک پہلو اور ایک ایک نکتے پر غور کرتے تھے۔ نشیب و فراز کو سامنے رکھتے تھے۔ دائیں بائیں دیکھتے تھے۔ ساری کڑیاں ملاتے تھے اور کڑیوں کو ضرب لگانے والے ا مور کو بھی نگاہ میں رکھتے تھے۔ اسی لیے ایسے آدمی کا کام ٹکاو اور پائدار ہوتاتھا۔ ناول ’مکان‘ اس کا واضح ثبوت ہے جس کی تخلیق میں بیس بائیس سال لگے۔
پیغام کے ایک خط کایہ اقتباس بھی ان کے اس وصف کی تائید کرتا نظر آتا ہے:
’’مٹی کے گھڑے تو میں نے کئی بنائے۔ تعریف بھی ہوئی۔مجھے اطمینان بھی ہوا اور اگر میں گھڑے بناتا رہتا تو تعریف بھی ہوتی اور اطمینان بھی رہتا لیکن ایک دن میں نے تاج محل کی تصویر دیکھی اور تاج محل بنانے کا شوق ہوا، پھر دو چار تاج محل بھی بنائے اور لوگوں نے ذرا تکلف سے کام لیتے ہوئے کہا، تاج محل بنا لیتے ہو، لیکن ایک شام یوں ہوا کہ مجھے تاج محل کی تصویر کے بجائے تاج محل کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، کھلی چاندنی، آدھی رات، اور کنارۂ دریا …پھر میں بھول گیا کہ میں تاج محل بنا سکتا ہوں، لیکن ہمت نہ ہاری، سوچا انسان ہی نے تاج محل بنایا ہوگا۔ لال قلعہ اور قطب مینار بنائے ہوں گے لیکن یہ بات اس وقت ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آئی کہ تاج محل بنانے میں اٹھارہ سال کیو ں لگ گئے تھے جب کہ اسے اپنے زمانے کا ایک شہنشاہ بنوا رہا تھا۔ ٹلسٹائے پڑھتے پڑھتے، سوچتے سوچتے تقریباً اندھاہو گیا تھا تو ’امن و جنگ‘ پوری ہوئی۔ روسو 37برس تک فرانس اور پیرس کی گلیوں میں گمنام پھرتا رہا تب دنیائے فکر پر سورج کی طرح طلوع ہوا۔ مارکس برسوں برٹس میوزیم سے شام کو لائبریری بند ہوتے وقت زبردستی اٹھا کر باہر کیا جاتا رہا تب اس نے ’سرمایہ‘ لکھی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ایک شاعر یا ادیب کے لیے کتابوں کا اس قدر پڑھنا ضروری ہے لیکن اپنے اندر کے ادیب کو رگڑ رگڑ کر کوہِ نور کی طرح چمکانا بے حد ضروری ہے۔ یہ مانا Ketsکی شاعری چھتیس سال کی عمر میں نازل ہوجاتی ہے لیکن بوڑھے برناڈشا اور ٹالسٹائے جھکّی نہیں تھے۔ کم سے کم بصیرت کی گہرائیوں کا راستہ تیزی سے طے نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
پیغام نے بھی زندگی اور اس کی باریکیوں کا بہت منتھن کیا لیکن تاج محل کا غذ پر اتارنے کی مہلت انھیں زندگی نے نہیں دی۔
پیغام ایک بامروّت اور بااخلاق انسان تھے۔ ویسے تو ان کا سلوک ہر ایک کے ساتھ اچھا ہوتا تھا مگر میرے ساتھ کچھ زیادہ ہی اچھا ہوتا تھا۔ میرے ساتھ ان کا سلوک ایسا ہوتا جیسا کہ ان کا خود کے ساتھ ہوتا تھا۔ مجھے اس کا تو اندازہ نہیں کہ میری دوستی سے انھیں کیا ملا مگر ان کی دوستی سے مجھے جو ملا اس کا مجھے شدید احساس ہے۔ ادب کے میدان میں قدم رکھنے، دنیا کو دیکھنے، دلوں کو جاننے، اور دماغوں کو سمجھنے میں مجھے ان سے کافی مدد ملی۔ میرے بعض تجربات و مشاہدات انھیں کی مرہونِ منّت ہیں۔ اگر ان کامشورہ نہیں ملا ہوتا تو میرے ناول ’پانی‘ کے بعض منظروں میں وہ روانی شاید نہیں آتی جو دکھائی دیتی ہے۔ اردو کتابوں کی روشِ عام کے مطابق بھی پانی کی محض تین چار سو کاپیاں چھپوانا چاہتا تھا مگر پیغام نے اس کی ایک ہزار کاپیاں چھپوادیں اور اشاعت کا خرچ خود برداشت کیا۔ زیادہ تعداد کی ا شاعت کے پیچھے پیغام کی ذاتی پسند کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی تھی کہ یہ ’پانی‘ روانی کے سبب بہت دور تک جائے گا۔ انھیں یہ ناول ا تنا پسند تھا کہ انھوں نے ’’پانی ایک ادبی کرامت‘‘کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا اور بڑی بے باکی سے یہ تک لکھ دیا:
’’یہ کتاب اپنی صنف، اپنی تھیم، اپنی تکنیک اور اپنے اسلوب چاروں اعتبار سے روایت شکن، منفرد اوراچھوتی ہے۔ مگر مچھ، آبیاژہ، دارالتحقیقات اردو ادب کی زندۂ جاوید علامت بن جائیں گے۔ اور ساحر کی ساحری سمندر منتھن اور خضر کی آبِ حیات میں مگر مچھوں کا قبضہ انسانی تہذیب کی تاریخ میں بار باریاد آئیں گے اور کئی اہم موقعے پر انسانی فکر کے لیے منارۂ نور کا کام دیں گے۔"
پیغام کی شخصیت میں ایک ایسی اپنائیت اور ایک ایسی کشش تھی جو مقناطیس کی طرح دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ دہلی میں میرے درجنوں احباب ہیں۔ تقریباً اتنے ہی رشتے دار بھی ہیں مگر دہلی پہنچتے وقت سب سے پہلے جو چہرہ آنکھوں میں ابھرتا تھا، وہ اسی کا ہوتا تھا۔ دہلی ریلوے اسٹیشن سے ان کا مکان سب سے زیادہ فاصلے پر واقع تھا۔ اس کے باوجود میرے قدم بغیر کسی ہچکچاہٹ اور رکاوٹ کے اس کی طرف بڑھنے لگتے تھے۔ اس کا سبب شاید یہ بھی ہے کہ ان کا گھر میرے لیے میرے اپنے گھر کی طرح ہر وقت کھلا رہتا تھا اور مجھے یہ احساس نہیں ہوتاتھا کہ میں علی گڑھ سے دہلی پہنچ گیا ہوں۔ پیغام سے مل کر مجھے صرف خوشی ہی نہیں ملتی بلکہ جینے کا حوصلہ بھی ملتا تھا۔ مجھ میں کچھ کرنے کی تحریک پیدا ہوتی تھی۔ نئے نئے آئیڈیاز جنم لیتے تھے۔ نئے نئے منصوبے سوجھتے تھے۔ اس سے باتیں کرکے یاس مٹتی تھی، پیاس بجھتی تھی، مایوسی دور ہوتی تھی۔ ذہن تعمیر و تخلیق کی جانب اڑان بھرنے لگتا تھا۔ ایسا بہت کم لوگوں سے مل کر ہوتا ہے۔
پیغام کی دلی خواہش تھی کہ میں کسی طرح دلی آجاوں۔ اس کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں بھی رہے ا ور تمنائیں اور دعائیں کرتے رہے۔ اللہ نے ان کی سن بھی لی ا ور میں لکھنؤ سے دہلی آگیا۔ مجھے دہلی میں دیکھ کر مجھ سے زیادہ پیغام کو خوشی ہوئی۔ وہ میرے ساتھ مل کر بہت سارے ادبی کا کرنا چاہتے تھے۔نام فکشن اکادمی کو زندہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بینر تلے اردو فکشن کے لیے وہ کام کرنا چاہتے تھے جو اب تک نہیں ہوا۔ اس کے لیے ا نھوں نے فنڈ کا انتظام بھی کرنا شروع کردیا تھا مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر