ایک مختصر، سرسری المیہ

ایک مختصر، سرسری المیہ

Mar 14, 2018

ایک مزاحمتی کہانی

مصنف

الیاس دانش

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان شمارہ۔۷

ایک مختصر،سرسری المیہ

 الیاس دانش

 ٹھہرو! مجھے کہانی لکھ لینے دو

رکو، تم بھی رکو، اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے جائو

تمہاری پوسٹ کو، تمہار ٹویٹ کو بے پناہ لائیکس مل جائیں گے ،

ہیش ٹیگ اور وائرل ٹرینڈ  سے

تمہار ا اکائونٹ معروف ہوجائیگا،۔۔۔

سنو ، سنو، کہانی سنو

شاید دوزخ کے ایک حصے کو کاٹ کر زمین پر بھیج دیا گیا ہے یا پھر اس خطے کو کا ٹ کر باقی دنیا سے الگ کردیا گیا ہے - پورا آسمان مشرق بن چکا ، ہر جگہ سے روشنی کے گولے پھوٹے اوراور زمین گرہن زدہ ہوگئی

قدم قدم پر تباہی کے داغ نمایاںہیں

آسمان پر اڑنے والے پرندوں کی ساخت اور نسل تبدیل ہوگئی

مٹی سے پھوٹنے والی کونپلیں ہریالی نہیں ، سرخی بکھیر رہی ہیں

آتش و آہن کی مسلسل بارش ۔

بربادی، ہولناکی اور موت کے سائے ہر طرف قبضہ کرچکے ۔

کھیت ، کھلیان نہیں رہے ، بارود کے ڈھیر بن گئے  


 اس کا سکول دوائوں اور عملے سےمحروم ہسپتال کا روپ دھار گیا

کلاس رومز میں بیڈ اور ان پر سانسیں پوری کرتے چیتھڑے

دودھ،ڈبل روٹی  کی دکان کیمیائی گیس کی  دھند میں لپٹی ہے

کھیل کے میدان میں بوٹوں کی چاپ، ایک دوسرے کی دھجیاں اڑاتی یونیفارمز

ہارنے والے سبھی ، جیتنے والا کوئی نہیں

ایک ایک کرکے سب  دوست، کلاس فیلو، ہم جولی، بے جان گڈےہو گئے ۔

مکین اپنے ہی گھروں میں قید ہو کر پناہ گزین بن گئے ۔وحشت آسمان سے برس رہی ہے ،سڑکوں پر ناچ رہی ہے اور بھیانک عفریت بن کر ہر ذی روح کو چاٹ رہی ہے

سب کے چہرے اجنبی ہوگئے ہیں ، آوازیں نامانوس

آسمان سے برستے گولوں پر اللہ اکبر کی صدائیں اور پھر موت کو مات دیتی خاموشی

وقفے وقفے سے برستی آگ کے ساتھ ہی سڑکوں پر سائرن کا میوزک گونجتا ہے ۔

قحط ، خوف ، بھوک کی فراوانی

مردار، مردار خوروں کی فراوانی

ایک کا حامی دوسرے کا شکار اور دوسرے کا نام لیوا ،تیسرے کا ہدف،ہرایک کے دانت نکلے ہیں اور ہر کسی کا خون پیا جارہا ہے

ایک ایک کرکے زندگی سے بھرپور عمارتیں راکھ ،خون ،خاک اور انسانی ریشوں کا ڈھیربن رہی ہیں۔ جو کل بچ گئے تھے ، وہ آج اجل کا نوالہ بن گئے اور جو آج بچے ہیں ، انہیں آنے والا کل پناہ دینے کو تیار نہیں

یہ کسی ایک عمارت کا ذکر نہیں نہ ایک خاندان کی روداد ہے ۔

وہ اپنی آنکھیں بند کرتا ہے ، کوئی بھولی بسری یاد

پچھلے دنوں کا کوئی سہانا منظر

آنے والے وقت کی کوئی امید

کسی خواب کا ذرہ

کسی خوشی کا ریزہ ، تتلی کا کوئی پنکھ

قوس وقزح کا رنگ، کوئی  مہکار، چہکار،

سوچ برف، دماغ منجمد، آنکھیں سفید، چہرہ زرد، سانسیں مدھم، ڈوبتا دل ، احساس نہ حواس

جسم بے جاں، روح مجروح،قدم ساکت،

زندگی چند بچے کھچے بسکٹ،

پانی کی چند بوندیں، چاول کے کچھ دانے،

روٹی کے سوکھے ٹکڑے ،  پھٹے ، لہوز دہ بستر،

ہاتھ کٹے بازو،پائوں سے محروم ٹانگیں، رستے بدن

خون اگلتے سر، بے دودوھ چھاتیاں،

ننھی سسکیاں، نسوانی آہ وزاری، مردانہ چیخیں،

انسانیت کو لاشوں کو بدلنے کی تجربہ گاہ ، چند آخری عمارتوں میں بھی دم توڑتی زندگی پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔

امدادی ٹیمیں ملبے سے منوں مٹی اور ٹنوں انسانی گوشت اٹھانے میں مصروف ہیں۔

جب آخری شکستہ عمارت بھی اپنے بوجھ سے آزاد ہورہی ہے ۔ بھوک ،پیاس سے نبرد آزما خاندان ابدی تحفظ کی چادر اوڑھ لیتا ہے ۔

یہ ایسا ہی وقت ہے جب

کچھ اپنے موبائل فون پر

کچھ اپنے ٹیبلٹ پر

بہت سے لیپ ٹاپ میں سوشل میڈیا اکائونٹس اوپن کئے مصروف ہیں

پوری دنیا میں مائوں نے اپنے بچوں کو گود میں چھپا رکھا ہے۔ سرد رت میں ننھے منے بچے گرم بستروں کی آغوش میں ہیں ۔ لوریوں کے پنگھوڑوں میں معصوم کلکاریاں محو خواب ہیں ۔ سنہری سپنے آنکھوں میں روپہلے تراشنے میں مگن ہیں ۔

مشرقی غوطہ کی آخری شکستہ عمارت کے ملبے تلے وہ بھوک پیاس کی جنگ سے نیاز ہوجاتا ہے ۔

غوطہ میں دنیا کا آخری بچہ مرجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دیدبان شمارہ۔۷

ایک مختصر،سرسری المیہ

 الیاس دانش

 ٹھہرو! مجھے کہانی لکھ لینے دو

رکو، تم بھی رکو، اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے جائو

تمہاری پوسٹ کو، تمہار ٹویٹ کو بے پناہ لائیکس مل جائیں گے ،

ہیش ٹیگ اور وائرل ٹرینڈ  سے

تمہار ا اکائونٹ معروف ہوجائیگا،۔۔۔

سنو ، سنو، کہانی سنو

شاید دوزخ کے ایک حصے کو کاٹ کر زمین پر بھیج دیا گیا ہے یا پھر اس خطے کو کا ٹ کر باقی دنیا سے الگ کردیا گیا ہے - پورا آسمان مشرق بن چکا ، ہر جگہ سے روشنی کے گولے پھوٹے اوراور زمین گرہن زدہ ہوگئی

قدم قدم پر تباہی کے داغ نمایاںہیں

آسمان پر اڑنے والے پرندوں کی ساخت اور نسل تبدیل ہوگئی

مٹی سے پھوٹنے والی کونپلیں ہریالی نہیں ، سرخی بکھیر رہی ہیں

آتش و آہن کی مسلسل بارش ۔

بربادی، ہولناکی اور موت کے سائے ہر طرف قبضہ کرچکے ۔

کھیت ، کھلیان نہیں رہے ، بارود کے ڈھیر بن گئے  


 اس کا سکول دوائوں اور عملے سےمحروم ہسپتال کا روپ دھار گیا

کلاس رومز میں بیڈ اور ان پر سانسیں پوری کرتے چیتھڑے

دودھ،ڈبل روٹی  کی دکان کیمیائی گیس کی  دھند میں لپٹی ہے

کھیل کے میدان میں بوٹوں کی چاپ، ایک دوسرے کی دھجیاں اڑاتی یونیفارمز

ہارنے والے سبھی ، جیتنے والا کوئی نہیں

ایک ایک کرکے سب  دوست، کلاس فیلو، ہم جولی، بے جان گڈےہو گئے ۔

مکین اپنے ہی گھروں میں قید ہو کر پناہ گزین بن گئے ۔وحشت آسمان سے برس رہی ہے ،سڑکوں پر ناچ رہی ہے اور بھیانک عفریت بن کر ہر ذی روح کو چاٹ رہی ہے

سب کے چہرے اجنبی ہوگئے ہیں ، آوازیں نامانوس

آسمان سے برستے گولوں پر اللہ اکبر کی صدائیں اور پھر موت کو مات دیتی خاموشی

وقفے وقفے سے برستی آگ کے ساتھ ہی سڑکوں پر سائرن کا میوزک گونجتا ہے ۔

قحط ، خوف ، بھوک کی فراوانی

مردار، مردار خوروں کی فراوانی

ایک کا حامی دوسرے کا شکار اور دوسرے کا نام لیوا ،تیسرے کا ہدف،ہرایک کے دانت نکلے ہیں اور ہر کسی کا خون پیا جارہا ہے

ایک ایک کرکے زندگی سے بھرپور عمارتیں راکھ ،خون ،خاک اور انسانی ریشوں کا ڈھیربن رہی ہیں۔ جو کل بچ گئے تھے ، وہ آج اجل کا نوالہ بن گئے اور جو آج بچے ہیں ، انہیں آنے والا کل پناہ دینے کو تیار نہیں

یہ کسی ایک عمارت کا ذکر نہیں نہ ایک خاندان کی روداد ہے ۔

وہ اپنی آنکھیں بند کرتا ہے ، کوئی بھولی بسری یاد

پچھلے دنوں کا کوئی سہانا منظر

آنے والے وقت کی کوئی امید

کسی خواب کا ذرہ

کسی خوشی کا ریزہ ، تتلی کا کوئی پنکھ

قوس وقزح کا رنگ، کوئی  مہکار، چہکار،

سوچ برف، دماغ منجمد، آنکھیں سفید، چہرہ زرد، سانسیں مدھم، ڈوبتا دل ، احساس نہ حواس

جسم بے جاں، روح مجروح،قدم ساکت،

زندگی چند بچے کھچے بسکٹ،

پانی کی چند بوندیں، چاول کے کچھ دانے،

روٹی کے سوکھے ٹکڑے ،  پھٹے ، لہوز دہ بستر،

ہاتھ کٹے بازو،پائوں سے محروم ٹانگیں، رستے بدن

خون اگلتے سر، بے دودوھ چھاتیاں،

ننھی سسکیاں، نسوانی آہ وزاری، مردانہ چیخیں،

انسانیت کو لاشوں کو بدلنے کی تجربہ گاہ ، چند آخری عمارتوں میں بھی دم توڑتی زندگی پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔

امدادی ٹیمیں ملبے سے منوں مٹی اور ٹنوں انسانی گوشت اٹھانے میں مصروف ہیں۔

جب آخری شکستہ عمارت بھی اپنے بوجھ سے آزاد ہورہی ہے ۔ بھوک ،پیاس سے نبرد آزما خاندان ابدی تحفظ کی چادر اوڑھ لیتا ہے ۔

یہ ایسا ہی وقت ہے جب

کچھ اپنے موبائل فون پر

کچھ اپنے ٹیبلٹ پر

بہت سے لیپ ٹاپ میں سوشل میڈیا اکائونٹس اوپن کئے مصروف ہیں

پوری دنیا میں مائوں نے اپنے بچوں کو گود میں چھپا رکھا ہے۔ سرد رت میں ننھے منے بچے گرم بستروں کی آغوش میں ہیں ۔ لوریوں کے پنگھوڑوں میں معصوم کلکاریاں محو خواب ہیں ۔ سنہری سپنے آنکھوں میں روپہلے تراشنے میں مگن ہیں ۔

مشرقی غوطہ کی آخری شکستہ عمارت کے ملبے تلے وہ بھوک پیاس کی جنگ سے نیاز ہوجاتا ہے ۔

غوطہ میں دنیا کا آخری بچہ مرجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024