ایک گیت "میری محبت" کی محبت کے نام

ایک گیت "میری محبت" کی محبت کے نام

Mar 17, 2018

An Ode to the Love of “My Love”

مصنف

اسد علی

شمارہ

شمارہ - ٢

‍دیدبان شمارہ ۔

ایک گیت "میری محبت" کی محبت کے نام

‍اسد علی 

میری آنکھ ازل کے ملگجے اندھیروں میں کھلی جہاں ارب ہا شبیہیں سکوت کے گہرے پانیوں میں تیرتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسے کہ ان کے چہرے خوابوں کی حدت سے دمکتے تھے اور ان کے جسموں میں اِک عہدِ مقدس کا الائو کھولتا تھا کہ وہ حقیقت کی سیمابی رقاصہ کو پابہ زنجیر نہ رہنے دیں گے۔دن بھر سونے کی زریں تاروں میں اٹھلاتے آسمان کو میں نے رات گئے تاریکی کی ماورائی دھند کے پیچھے چھپ کر روتے دیکھا۔ میں نے سمندر کواِک نعرہ مستانہ کی گونج میں صحرا میں اترتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسے کہ وہ نگری ہزاروں سال پانی کی ایک بوند کو ترستی رہی اور پھر ایک دن وہ سمندر شریر مسکراہٹوں کے جلو میں یوں نمودار ہوا جیسے کہتا ہو کہ 

"دیکھا میں کتنی دیر تلک سانس روک سکتا ہوں"

افق تک پھیلے لیونڈر کی خوشبووں سے جو فضا کبھی سالہا سال مہکتی رہی میں نے اسی زمین کی کوکھ میں خندقوں کے شہر کو بارود کی وحشتناک بدبو میں لتھڑا دیکھا کچھ ایسے کہ معصوموں اور گناہ گاروں کے لاشے ایک دوسرے میں یوں پیوست ہو گئے تھے کہ انہیں جدا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔

میں نے ایک لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جھولے سے قبر تک، مٹی سے ہوا میں ڈھلتے، اس دیس کو جاتے جہاں صرف بازگشت رہا کرتی ہےاور وقت کے سیلا ب میں بہتے اس سارے عہد کے بیچ میرے پیار نےایک مرتبہ پلک بھی نہ جھپکی۔

میں علم کی کھوج میں کائنات کی حدوں تک جا پہنچا اور جب لاشئیت کا ایک جہانِ بلا خیز مجھے اور میرے ہونے کی بنیاد کوہولانے لگا تو بھی میرے قدموں میں لغزش نہیں آئی اور میں آگے بڑھتا چلا گیا۔

مجھے اپنی محبت سے محبت ہے جس کی نظر نہ کوئی سورج چندھیا سکا اور نہ کسی سمندر کی موج جسکے قدم ہلا پائی، جو خوشبو سے بہلی اور نہ کسی حسن کی چاہت میں بہکی، جو علم کے پرشکوہ جہانوں سے بھی مسکراتی گذر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے محبت ہے اپنی محبت سے جو صرف اس ایک حق کیلئے تھی جو ہر چہرے کی اوٹ سے مسکراتا ہے، وہ روشنی جو سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی، وہ زندگی جو فنا ہوتے ہوئے ستاروں کے بیچ رقص کرتی ہے، وہ چہرہ جو تاریکی پہ تیرتے ہوئے روشنی سے کائناتیں بناتا ہے اور پھر انہیں ایسے لپیٹ دیتا ہے جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں۔

اسد علی

An Ode to the Love of “My Love”

By  Syed Asad Ali 

It all started with the first sight. I opened my eyes in a hazy primordial soup where millions of figurines were floating silently…………shimmering with the dreams, vowing to unchain the mercurial ballerina of reality. 

I gazed at the sky through the veil of golden stream, through the mist of mysterious night. I stared at the mighty ocean till it jumped into an arid desert for hundreds of thousands of years and returned with a mischievous smile chanting “See how long I can hold my breath?” 

I was mesmerized by the fragrance of lavender stretched across horizon till the very same land was transformed into trenches and trenches filled with blood and bones of innocents and guilty alike. 

I watched a girl from cradle to grave, from dust to wind and right through the heart of a land where echoes dwell……….and my love never even blinked once throughout the spectacle of thrashing away in the tumultuous ocean of time. 

I pursued knowledge till the edges of the universe and when a ferocious beyond was threatening to eat away my entire being and the core reason of my existence, I never thought even for a moment and kept moving.

I love “My Love” that was not for a sun or an ocean or a fragrance or a girl or even the pursuit of knowledge itself but it was to the One that shines in every face, through every manifestation, across the darkest of alleys and right in the middle of exploding stars.

‍دیدبان شمارہ ۔

ایک گیت "میری محبت" کی محبت کے نام

‍اسد علی 

میری آنکھ ازل کے ملگجے اندھیروں میں کھلی جہاں ارب ہا شبیہیں سکوت کے گہرے پانیوں میں تیرتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسے کہ ان کے چہرے خوابوں کی حدت سے دمکتے تھے اور ان کے جسموں میں اِک عہدِ مقدس کا الائو کھولتا تھا کہ وہ حقیقت کی سیمابی رقاصہ کو پابہ زنجیر نہ رہنے دیں گے۔دن بھر سونے کی زریں تاروں میں اٹھلاتے آسمان کو میں نے رات گئے تاریکی کی ماورائی دھند کے پیچھے چھپ کر روتے دیکھا۔ میں نے سمندر کواِک نعرہ مستانہ کی گونج میں صحرا میں اترتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسے کہ وہ نگری ہزاروں سال پانی کی ایک بوند کو ترستی رہی اور پھر ایک دن وہ سمندر شریر مسکراہٹوں کے جلو میں یوں نمودار ہوا جیسے کہتا ہو کہ 

"دیکھا میں کتنی دیر تلک سانس روک سکتا ہوں"

افق تک پھیلے لیونڈر کی خوشبووں سے جو فضا کبھی سالہا سال مہکتی رہی میں نے اسی زمین کی کوکھ میں خندقوں کے شہر کو بارود کی وحشتناک بدبو میں لتھڑا دیکھا کچھ ایسے کہ معصوموں اور گناہ گاروں کے لاشے ایک دوسرے میں یوں پیوست ہو گئے تھے کہ انہیں جدا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔

میں نے ایک لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جھولے سے قبر تک، مٹی سے ہوا میں ڈھلتے، اس دیس کو جاتے جہاں صرف بازگشت رہا کرتی ہےاور وقت کے سیلا ب میں بہتے اس سارے عہد کے بیچ میرے پیار نےایک مرتبہ پلک بھی نہ جھپکی۔

میں علم کی کھوج میں کائنات کی حدوں تک جا پہنچا اور جب لاشئیت کا ایک جہانِ بلا خیز مجھے اور میرے ہونے کی بنیاد کوہولانے لگا تو بھی میرے قدموں میں لغزش نہیں آئی اور میں آگے بڑھتا چلا گیا۔

مجھے اپنی محبت سے محبت ہے جس کی نظر نہ کوئی سورج چندھیا سکا اور نہ کسی سمندر کی موج جسکے قدم ہلا پائی، جو خوشبو سے بہلی اور نہ کسی حسن کی چاہت میں بہکی، جو علم کے پرشکوہ جہانوں سے بھی مسکراتی گذر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے محبت ہے اپنی محبت سے جو صرف اس ایک حق کیلئے تھی جو ہر چہرے کی اوٹ سے مسکراتا ہے، وہ روشنی جو سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی، وہ زندگی جو فنا ہوتے ہوئے ستاروں کے بیچ رقص کرتی ہے، وہ چہرہ جو تاریکی پہ تیرتے ہوئے روشنی سے کائناتیں بناتا ہے اور پھر انہیں ایسے لپیٹ دیتا ہے جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں۔

اسد علی

An Ode to the Love of “My Love”

By  Syed Asad Ali 

It all started with the first sight. I opened my eyes in a hazy primordial soup where millions of figurines were floating silently…………shimmering with the dreams, vowing to unchain the mercurial ballerina of reality. 

I gazed at the sky through the veil of golden stream, through the mist of mysterious night. I stared at the mighty ocean till it jumped into an arid desert for hundreds of thousands of years and returned with a mischievous smile chanting “See how long I can hold my breath?” 

I was mesmerized by the fragrance of lavender stretched across horizon till the very same land was transformed into trenches and trenches filled with blood and bones of innocents and guilty alike. 

I watched a girl from cradle to grave, from dust to wind and right through the heart of a land where echoes dwell……….and my love never even blinked once throughout the spectacle of thrashing away in the tumultuous ocean of time. 

I pursued knowledge till the edges of the universe and when a ferocious beyond was threatening to eat away my entire being and the core reason of my existence, I never thought even for a moment and kept moving.

I love “My Love” that was not for a sun or an ocean or a fragrance or a girl or even the pursuit of knowledge itself but it was to the One that shines in every face, through every manifestation, across the darkest of alleys and right in the middle of exploding stars.

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024