یاقوت لب ببوا

یاقوت لب ببوا

Mar 23, 2021

افسانچہ

مصنف

نعیم بیگ

شمارہ

شمارہ - ١٣

افسانچہ : یاقوت لب ببوا

نعیم بیگ  

میں گندے نالے کے کنارے ایک بے جان زندگی گزاررہا ہوں۔ میں کب پیدا ہوا ‘ کیوں پیدا ہوا‘ یہاں کب سے پڑا ہوں کوئی نہیں جانتا؟

لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ انھوں نے مل کر مجھے جنم دیا ہے۔

چونکہ اب میں جنم لے چکاہوں‘ سو  زندہ رہنے کے لئے مجھے جہنم کی آگ تو بجھانی ہی ہے۔

اِس لئے وہ سب الا بلا‘ بچا کھچا  کھانا‘ اپنے تن سے اترے کپڑے‘ کاٹھ کباڑ سبھی کچھ مجھے دان کر جاتے ہیں ۔

دیتے کیا ہیں‘ بس گھر کا کوئی نوکر چاکر یا خود اہل خانہ چپکے سے میرے اوپر پھینک دیتا ہے  اورمیں ہوں کہ ایک بے شرم، بے غیرت اور کفِ خاک کا مارا ان تمام اشیاء کو فوراً ہضم کر لیتا ہوں۔ میرا پیٹ ہے کہ کسی لالچی انسان کی طرح پھولتا جا رہا ہے لیکن شرم سے عاری ہے۔

ایک وقت تھا کہ میرے لئے گندے نالے پر ایک چھوٹاسا حصہ مختص تھا اور بنا چھت کمر تک کی چاردیواری تھی۔ میں ہمیشہ اس کے اندر ہی رہتا اور دل کے سارے ارمان یہیں پورے کر لیتا تھا۔ میرے اندرکبھی لالچ اورطمع کاعنصر نہیں در آیا ‘ لیکن وقت  گزرنے کےساتھ ساتھ  زمانے کی بدسلوکیوں اور سرکاری نااہلی سے تنگ آکر  میں نے بھی چاروں طرف  در و دیوار سے اوپر پرے اپنے بازو  پھیلانے شروع کر دئیے۔  نالے کا رستا ہوا گندا پانی اب میرے وجود کا حصہ بن چکا ہے۔  آج میں سڑک کے کنارے پاؤں پھیلائے ہر آنے جانے والے  کے لئے آزارِ وقت ہوں۔ میری ٹانگیں اس قدر دراز ہیں کہ لوگ مجھ سے بچتے بچاتے اپنے مبینہ شفاف لباس کو ٹخنوں سے اوپر اڑسے گزرتے ہیں اورمیں دِل میں مسکرا رہا ہوتا ہوں۔ آج غلاظت سے اٹے بدبو دار اور قابل نفرت ہونے کےباوجود  مجھے یہ احساس مسرت بخشتا ہے  کہ میں لوگوں کے لئے دکھ و تکلیف کا باعث ہوں۔

اکثر میرے بااخلاق اورمہذب دوست یہیں میرےساتھ  کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ جان کر حیران ہوں گے کہ شام کی دعوت  میں میرےدوستوں میں گلیوں کے شائستہ کتے،چھتوں اور منڈیروں پر  دبے پاؤں چلتی معصوم  شکاری بلیاں ،نٹ کھٹ گھوس اور بے چین بدشکل کاکروچ سبھی ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔  دن میں آس پاس کے پرندے جن میں بالخصوص افلاس زدہ ندیدے کوے اور چیلیں میرے پھیلائے دسترخوان پر منڈلاتے رہتے۔ یوں تو یہ انواع  و اقسام سے بھرپور لنگر  صبح شام کھلا رہتا ہے تاہم شام کے بعد دعوت شیراز کا لطف ہی کچھ اور ہے۔  

دِن کے وقت مجھے اس لمحے بہت غصہ آتا ہے جب مفلوک الحال انسانی بچے میرے اندر جھانکتے اور کچھ نہ کچھ چنتے نظر آتے ہیں۔ بھلا انھیں او ر کوئی کام کیوں نہیں سوجھتا؟ انھیں اپنی بھوک مٹانے کے لئے کیا یہی جگہ ملتی ہے؟

انھیں آخر میرا جسم کریدنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ کوئی ہے جو انھیں پابند و سلاسل کرے؟

اب میراپیٹ بہت پھیل چکا ہے ۔ خود مجھ سے نہیں سنبھالا جا رہا  ‘ میں نے بالآخر  یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میرے وجود کی بقا اِسی میں ہے کہ اب میں شہر کی مروجہ سماجی طرزِ زندگی اپنا لوں اور انھی کے مطابق  انکروچمنٹ کا مرتکب ہو جاؤں۔ کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ جائے بھاڑ میں۔ مجھے کیا؟ یہاں بھلا کون پوچھتا ہے؟  یوں میں نے اپنا دامن ان سب کے لئے پھیلا دیا ہےجنھیں گندگی اور غلاظت سے محبت ہے۔ جو سماج اور تہذیب میں بدبو کے دلدادہ ہیں۔

لیکن زمانہ جینے تھوڑی دیتا ہے۔میں آج  بہت آزردہ ہوں۔ میری ہنستی بستی زندگی میں ناجانے کِس نے زہر گھول دیا ہے۔  ناجانے کون پھول جیسے نرم و نازک‘ ملائم گلابی رنگ کے معصوم پلاسٹک کے  ببوؤں کو میرے اوپر پھینک جاتاہے۔ پہلے پہل تومجھے عقل ہی نہ آئی‘ میں  انھیں بے جان سمجھے بیٹھا تھا۔ تب  ایک دن غور سے دیکھاکہ چند کتے اِس ببوے کو نوچ رہے تھے۔میں جب زندگی میں پہلی بار ان پر غرایا تو خودمجھے احساس ہوا کہ میرے اندر بھی کوئی انسان بستا ہے۔  میرے غرانے پر وہ لمحہ بھر  کے لئے دور تو ہو گئے‘ لیکن میری نظر بچاتے ہی وہ اس  ببوے پر ٹوٹ پڑے اور اسے تکا بوٹی کرڈالا۔

قریب بیٹھی کچھ مکار اور خونخوار چیلیں گو اِس انتظار میں تھیں کہ کب ان کے ہاتھ اِس ببوے کی بچی کچھی بوٹیاں لگیں’ لیکن وہ  اس بات پر ضرور متفق تھیں کہ ببوے بنانے کی مشینوں کو آخر  یہ حق کیوں نہیں سونپ دیاجاتا کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو اپنے گودوں میں محفوظ رکھیں اور  اِن کے ماتھوں کو روشن کریں ۔

یہ سن کر کوے تک  نمک حلالی پر اتر آئے۔ کہنے لگے۔ ’’ کیا یہ مشینیں خود کار ہیں‘ جو اپنے فرائض خود بخود سر انجام دینے لگی ہیں؟‘‘

ایک چیل نے اپنی گردن موڑتے ہوئے غصہ سے کوے کی طرف دیکھا۔

’’اے غلاظت کے مارو۔ کیا تمھاری نسل اوپر سےآتی ہے؟آخر فطری عمل ہی جنم دینے کاذمہ دار ہے۔‘‘

’’ سنو!‘‘ وہ چیل دوبارہ چیخی۔  ’’ ہمارا وجود گندگی ختم  کرنے پر مامور ہے۔ ورنہ پوری دنیا میں تعفن پھیل جائے۔ تمھارے سماج کے ٹھیکیداروں کو بھی خوشبو کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ کہیں تو اِن کی سماجی سربلندی قائم ہو۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ زیادہ چِلاؤ مت! ‘‘ میرےاندر کا مردار جاگ اٹھا۔

’’میں تو خود اپنی نظروں میں اِس زمین کا ایک بےہنگم اور بدصورت چہرہ ہوں ‘ جسے اسکے بسنے والوں نے خوبصورت  کچرے کا ڈھیرسمجھ کر  آزاد  رکھ چھوڑا ہے۔ انھیں کیا معلوم کہ غلاظت کے اس ڈھیر میں کیسے کیسے رضوان دفن ہو  چکے ہیں؟‘‘

اب صورت یہ ہو چکی ہے کہ ہر چند دن بعد  ایک نیا  ببوا کبھی کپڑے میں لِپٹا‘  کبھی یونہی ننگ دھڑنگ  کوئی میرے اوپر پھینک دیتا ہے۔ کل رات تو حد ہوگئی کہ ایک ببوا قِلقاریاں مار رہا تھا‘ اِس کے چہرے پر ہلکی سی مُسکان تھی اور وہ آنکھیں جھپکا رہا تھا۔  اس بے خانماں ببوےکو کیا  خبر کہ چند لمحوں کی اس مسکراہٹ کا  اسے کوئی کچھ اجر نہیں دینے والا کہ اسکا خالق تو بہت پہلے مر چکا ہے۔

میں رات بھر  ستاروں کی جھلمل روشنی میں آسمان سے اترے اِس ببوےکو اپنے  چوڑے سینے میں چھپائے جاگتا رہا۔اب صبح ہونے کو آئی ہے ۔ میرے لئے ہمیشہ بے نور سی صبح کسی آزار سے کم نہیں ہوتی‘لیکن کل شام ببوے کی مسکراہٹ نے اِس صبحِ بے نور کی سپیدی  میں میری کایا پلٹ دی ہے۔مجھ جیسا غلاظت کا یہ ڈھیر اپنے وحشی پن سے نکل کر نیا جنم لے چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ میرا بے مثل ببوا یونہی کسی انہونی کاشکار ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا قِلقاریاں بھرتا  یاقوت لب وجود  اس غلاظت بھری دنیا کو مہکتی خوشبو میں بدل دے گا ۔  

۔۔۔

نعیم بیگ لاہور

مارچ ۲۰۲۱۔ئ

افسانچہ : یاقوت لب ببوا

نعیم بیگ  

میں گندے نالے کے کنارے ایک بے جان زندگی گزاررہا ہوں۔ میں کب پیدا ہوا ‘ کیوں پیدا ہوا‘ یہاں کب سے پڑا ہوں کوئی نہیں جانتا؟

لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ انھوں نے مل کر مجھے جنم دیا ہے۔

چونکہ اب میں جنم لے چکاہوں‘ سو  زندہ رہنے کے لئے مجھے جہنم کی آگ تو بجھانی ہی ہے۔

اِس لئے وہ سب الا بلا‘ بچا کھچا  کھانا‘ اپنے تن سے اترے کپڑے‘ کاٹھ کباڑ سبھی کچھ مجھے دان کر جاتے ہیں ۔

دیتے کیا ہیں‘ بس گھر کا کوئی نوکر چاکر یا خود اہل خانہ چپکے سے میرے اوپر پھینک دیتا ہے  اورمیں ہوں کہ ایک بے شرم، بے غیرت اور کفِ خاک کا مارا ان تمام اشیاء کو فوراً ہضم کر لیتا ہوں۔ میرا پیٹ ہے کہ کسی لالچی انسان کی طرح پھولتا جا رہا ہے لیکن شرم سے عاری ہے۔

ایک وقت تھا کہ میرے لئے گندے نالے پر ایک چھوٹاسا حصہ مختص تھا اور بنا چھت کمر تک کی چاردیواری تھی۔ میں ہمیشہ اس کے اندر ہی رہتا اور دل کے سارے ارمان یہیں پورے کر لیتا تھا۔ میرے اندرکبھی لالچ اورطمع کاعنصر نہیں در آیا ‘ لیکن وقت  گزرنے کےساتھ ساتھ  زمانے کی بدسلوکیوں اور سرکاری نااہلی سے تنگ آکر  میں نے بھی چاروں طرف  در و دیوار سے اوپر پرے اپنے بازو  پھیلانے شروع کر دئیے۔  نالے کا رستا ہوا گندا پانی اب میرے وجود کا حصہ بن چکا ہے۔  آج میں سڑک کے کنارے پاؤں پھیلائے ہر آنے جانے والے  کے لئے آزارِ وقت ہوں۔ میری ٹانگیں اس قدر دراز ہیں کہ لوگ مجھ سے بچتے بچاتے اپنے مبینہ شفاف لباس کو ٹخنوں سے اوپر اڑسے گزرتے ہیں اورمیں دِل میں مسکرا رہا ہوتا ہوں۔ آج غلاظت سے اٹے بدبو دار اور قابل نفرت ہونے کےباوجود  مجھے یہ احساس مسرت بخشتا ہے  کہ میں لوگوں کے لئے دکھ و تکلیف کا باعث ہوں۔

اکثر میرے بااخلاق اورمہذب دوست یہیں میرےساتھ  کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ جان کر حیران ہوں گے کہ شام کی دعوت  میں میرےدوستوں میں گلیوں کے شائستہ کتے،چھتوں اور منڈیروں پر  دبے پاؤں چلتی معصوم  شکاری بلیاں ،نٹ کھٹ گھوس اور بے چین بدشکل کاکروچ سبھی ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔  دن میں آس پاس کے پرندے جن میں بالخصوص افلاس زدہ ندیدے کوے اور چیلیں میرے پھیلائے دسترخوان پر منڈلاتے رہتے۔ یوں تو یہ انواع  و اقسام سے بھرپور لنگر  صبح شام کھلا رہتا ہے تاہم شام کے بعد دعوت شیراز کا لطف ہی کچھ اور ہے۔  

دِن کے وقت مجھے اس لمحے بہت غصہ آتا ہے جب مفلوک الحال انسانی بچے میرے اندر جھانکتے اور کچھ نہ کچھ چنتے نظر آتے ہیں۔ بھلا انھیں او ر کوئی کام کیوں نہیں سوجھتا؟ انھیں اپنی بھوک مٹانے کے لئے کیا یہی جگہ ملتی ہے؟

انھیں آخر میرا جسم کریدنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ کوئی ہے جو انھیں پابند و سلاسل کرے؟

اب میراپیٹ بہت پھیل چکا ہے ۔ خود مجھ سے نہیں سنبھالا جا رہا  ‘ میں نے بالآخر  یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میرے وجود کی بقا اِسی میں ہے کہ اب میں شہر کی مروجہ سماجی طرزِ زندگی اپنا لوں اور انھی کے مطابق  انکروچمنٹ کا مرتکب ہو جاؤں۔ کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ جائے بھاڑ میں۔ مجھے کیا؟ یہاں بھلا کون پوچھتا ہے؟  یوں میں نے اپنا دامن ان سب کے لئے پھیلا دیا ہےجنھیں گندگی اور غلاظت سے محبت ہے۔ جو سماج اور تہذیب میں بدبو کے دلدادہ ہیں۔

لیکن زمانہ جینے تھوڑی دیتا ہے۔میں آج  بہت آزردہ ہوں۔ میری ہنستی بستی زندگی میں ناجانے کِس نے زہر گھول دیا ہے۔  ناجانے کون پھول جیسے نرم و نازک‘ ملائم گلابی رنگ کے معصوم پلاسٹک کے  ببوؤں کو میرے اوپر پھینک جاتاہے۔ پہلے پہل تومجھے عقل ہی نہ آئی‘ میں  انھیں بے جان سمجھے بیٹھا تھا۔ تب  ایک دن غور سے دیکھاکہ چند کتے اِس ببوے کو نوچ رہے تھے۔میں جب زندگی میں پہلی بار ان پر غرایا تو خودمجھے احساس ہوا کہ میرے اندر بھی کوئی انسان بستا ہے۔  میرے غرانے پر وہ لمحہ بھر  کے لئے دور تو ہو گئے‘ لیکن میری نظر بچاتے ہی وہ اس  ببوے پر ٹوٹ پڑے اور اسے تکا بوٹی کرڈالا۔

قریب بیٹھی کچھ مکار اور خونخوار چیلیں گو اِس انتظار میں تھیں کہ کب ان کے ہاتھ اِس ببوے کی بچی کچھی بوٹیاں لگیں’ لیکن وہ  اس بات پر ضرور متفق تھیں کہ ببوے بنانے کی مشینوں کو آخر  یہ حق کیوں نہیں سونپ دیاجاتا کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو اپنے گودوں میں محفوظ رکھیں اور  اِن کے ماتھوں کو روشن کریں ۔

یہ سن کر کوے تک  نمک حلالی پر اتر آئے۔ کہنے لگے۔ ’’ کیا یہ مشینیں خود کار ہیں‘ جو اپنے فرائض خود بخود سر انجام دینے لگی ہیں؟‘‘

ایک چیل نے اپنی گردن موڑتے ہوئے غصہ سے کوے کی طرف دیکھا۔

’’اے غلاظت کے مارو۔ کیا تمھاری نسل اوپر سےآتی ہے؟آخر فطری عمل ہی جنم دینے کاذمہ دار ہے۔‘‘

’’ سنو!‘‘ وہ چیل دوبارہ چیخی۔  ’’ ہمارا وجود گندگی ختم  کرنے پر مامور ہے۔ ورنہ پوری دنیا میں تعفن پھیل جائے۔ تمھارے سماج کے ٹھیکیداروں کو بھی خوشبو کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ کہیں تو اِن کی سماجی سربلندی قائم ہو۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ زیادہ چِلاؤ مت! ‘‘ میرےاندر کا مردار جاگ اٹھا۔

’’میں تو خود اپنی نظروں میں اِس زمین کا ایک بےہنگم اور بدصورت چہرہ ہوں ‘ جسے اسکے بسنے والوں نے خوبصورت  کچرے کا ڈھیرسمجھ کر  آزاد  رکھ چھوڑا ہے۔ انھیں کیا معلوم کہ غلاظت کے اس ڈھیر میں کیسے کیسے رضوان دفن ہو  چکے ہیں؟‘‘

اب صورت یہ ہو چکی ہے کہ ہر چند دن بعد  ایک نیا  ببوا کبھی کپڑے میں لِپٹا‘  کبھی یونہی ننگ دھڑنگ  کوئی میرے اوپر پھینک دیتا ہے۔ کل رات تو حد ہوگئی کہ ایک ببوا قِلقاریاں مار رہا تھا‘ اِس کے چہرے پر ہلکی سی مُسکان تھی اور وہ آنکھیں جھپکا رہا تھا۔  اس بے خانماں ببوےکو کیا  خبر کہ چند لمحوں کی اس مسکراہٹ کا  اسے کوئی کچھ اجر نہیں دینے والا کہ اسکا خالق تو بہت پہلے مر چکا ہے۔

میں رات بھر  ستاروں کی جھلمل روشنی میں آسمان سے اترے اِس ببوےکو اپنے  چوڑے سینے میں چھپائے جاگتا رہا۔اب صبح ہونے کو آئی ہے ۔ میرے لئے ہمیشہ بے نور سی صبح کسی آزار سے کم نہیں ہوتی‘لیکن کل شام ببوے کی مسکراہٹ نے اِس صبحِ بے نور کی سپیدی  میں میری کایا پلٹ دی ہے۔مجھ جیسا غلاظت کا یہ ڈھیر اپنے وحشی پن سے نکل کر نیا جنم لے چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ میرا بے مثل ببوا یونہی کسی انہونی کاشکار ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا قِلقاریاں بھرتا  یاقوت لب وجود  اس غلاظت بھری دنیا کو مہکتی خوشبو میں بدل دے گا ۔  

۔۔۔

نعیم بیگ لاہور

مارچ ۲۰۲۱۔ئ

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024