وقت کا تخلیقی تصور
وقت کا تخلیقی تصور
Sep 25, 2015
وقت کا تخلیقی تصور اور آج کا اردو فکشن
وقت کا تخلیقی تصور اور آج کا اردو فکشن
پیغام آفاقی
تصور کائنات میں وقت کی اہمیت اور عظمت وقت کے دو پہلوؤں کی وجہ سے قائم ہوتی ہے ۔وقت کا ایک تسلیم شدہ کردار یہ ہے کہ وہ نئی چیزوں کو جنم دیتا ہے۔ اور اس کا دوسرا کردار یہ ہے کہ وہ چیزوں کو جنم اور موت کے دائرے میں قید کر کے پیدا کرتا ہے ۔اس طرح جہاں وہ خالق کی طرح دکھائی دیتا ہے وہیں قادر مطلق بھی نظر آتا ہے حالانکہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں اور یہ محض کا ئنات کی ایک خصوصیت ہے ۔ یہ کائنات تبدیلی مسلسل کے سفر میں ہے اور یہ سفر ہی ہمارے سامنے وقت کی شکل میں ابھرتا ہے۔ چیزوں کی تبدیلی کا ہی نام وقت ہے اور یہ اپنے آپ میں کوئی شئے یا قوت نہیں ہے ۔ ہم وقت کی ابد سے ازل کی دوری اور اس کی قرنوں، صدیوں، برسوں ، منٹوں اور سکنڈوں کی یونٹ میں اس متحرک کائنات کی حرکت کی شکل میں ہی دیکھ سکتے ہیں ۔کائنات کی ہر چیز کائنات کی اس اندرونی تبدیلی کے عمل سے بندھی ہوئی ہے اور کائنات کے کسی بھی گوشے میں ہورہی کوئی بھی حرکت چاہے اس کا محرک اشیا میں موجود خصوصیات ہوں یا انسانی ارادے سب وقت کا حصہ ہیں اور کائنات کے کسی بھی حصے میں ہورہی تبدیلی کائنات ان تمام قوتوں کو ایک توازن کی شکل میں ہم آہنگ کر کے رکھتی ہے
فطری اور ارادی وقت
اس طرح ہم وقت کو دو مخصوص قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو انسانی ارادے سے باہر ہیں اور ایک خود انسانی ارادے ۔ اس طرح انسانی وجود کی قوتیں ارادے کی حد تک وقت کی پہلی قسم سے آزاد ہیں ۔ لہذاجس طرح زمین پر اگائی جانے والی کھیتیوں کی قسمیں انسانی اختیار میں ہونے کی وجہ سے غیر انسانی وقت کی قید سے آزاد ہیں یعنی ان کی مسافتیں تو طے ہیں لیکن اس سفر کی نوعیت اور ہیت انسان طے کرتا ہے اور انسانی ضرورتیں طے کرتی ہیں اسی طرح جن انسانوں میں زندگی کی کھیتی میں کوئی فصل اگانے کی خواہش اور امنگ ہوتی ہے وہ وقت کو ایک سرچشمہ حیات اور اور ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور جن کے حوصلے پست ہوتے ہیں وہ وقت کو مشکلات کے مداوا اورایک تباہ کن طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ وقت کو سب سے بڑا مسیحا مانا گیا ہے کیونکہ وقت صرف اچھی چیزوں کو نہیں بدلتا بلکہ بری چیزوں کو بھی مٹاتا ہے۔وقت یعنی کائنات کے بدلنے کو ایک ایسی قوت بھی مانا گیا ہے جوان تاناشاہوں کو ختم کرتا ہے جو اتنی قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کو مٹانے کی ہر انسانی کوشش بیکار ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان تانا شاہوں کو ختم کرنے والاوقت انسانوں کے لئے آزادی کی نئی راہیں کھولتا ہے ۔ انسانی دانشوری کے لئے وقت کی ان اقسام اور خصوصیات کا ادراک اور فہم لازمی ہے ۔ اس کے بنا کسی انسان کی سوچ معتبر ہوہی نہیں سکتی۔ اس لئے ہمارا یہ جاننا بہت اہم ہے کہ وقت اپنے دورنگی بادلوں سے ہماری زندگی میں تخریب اور تعمیر کی قوتوں کی مسلسل بارش کرتا رہتا ہے اور ہم خود بھی برسنے والے بادلوں کا حصہ ہیں اور کبھی کبھی ہم بادلوں کو اپنی من چاہی سمت میں بھی لے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ کوئی شئے نہیں بلکہ صرف بدلنے کی قوت کا چشمہ ہے ۔ جس طرح سمندر کا جہاز مسلسل پانی کی لہروں پر چلتا ہے اسی طرح دنیا کی ہر شے موسموں کے سائے میں ابھرتی ہے اور ڈوبتی ہے ۔
وقت کی دوربینی اور خوردبینی حقیقت
وقت کی اس حقیقت کی عکاسی ہر ناول میں ہوتی ہے ۔ کہیں یہ عکاسی دوربینی ہوتی ہے اور کہیں خورد بینی۔ دور بینی عکاسی خوربینی عکاسی سے نسبتا آسان ہے ۔ کیونکہ اس میں تجزیہ کی ضرورت برائے نام ہوتی ہے ۔ لیکن خوردبینی تجزیہ اتنا مشکل، پیچیدہ اور ملائم ہوتا ہے کہ وقت کا جس قدر خورد بینی تجزیہ کرنا درکار ہوگا اسی قدر زیادہ تخلیقی صلاحیت درکار ہوگی۔ یہ بتانا کہ دنیا میں بڑی بڑی تہذیبیں کب پیدا ہوئیں ، کب ختم ہوئیں بہت آسان ہے لیکن اپنے آس پاس کی زندگی میں اور خود ایک فرد کی زندگی میں وقت جو کر رہا ہے اس کی ترجمانی ایک مشکل کام ہے ۔ اس کا عمل ایک فرد کی زندگی میں کہاں تعمیری ہے اور کہاں تخریبی ہے یہ بتانا انسان کی عقل اور اس کے فہم سے ماورا بات لگتی ہے اور اسی صلاحیت کو حاصل کرلینے کا نام دانشوری ہے ۔ اس لئے کسی ناول کی عظمت اس سے طے ہوگی کہ اس نے وقت کے عمل کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے میں اپنے کردار کی کتنی مدد کی اور اس کے اندر دانشوری کے کتنی صفات پیدا کئے ۔ اس خوبی کو ناول میں پیدا کرنے کے لئے تخلیق کار کے اندر ایک ایسی پینی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جو سماجی قوتوں کی لہروں، گنگناہٹوں، آہٹوں اور چیزوں کا افراد کے جسمانی، سماجی، جذباتی، اعصابی اور مجموعی اشاروں کے ذریعے معروضی انداز میں قیاس لگا سکے اور اسے نثری زبان کے کیمرے میں قید کرے۔ جہاں وقت کے بڑے دائروں کو شاعرانہ زبان میں عروج وزوال، اقدار کے زوال، ناسٹیلجیا اور تصوفانہ تھیوریز کے ذریعہ بیان کیا جاسکتا ہے وہیں لمحہ لمحہ انسانی زندگی میں داخل ہوتے ہوئے وقت کی زہریلی لہروں کو چھوٹ چھوٹے انسانی کرداروں کی زندگی کی کشمکش اور اس کے سماجی سیاق و سباق میں رکھ کر ہی بیان کیا جاسکتا ہے ۔
فکشن نگار اور وقت
اس بات کو یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ جہاں رہبانیت کی راہ سے ہوتے ہوئے تصوف کے منازل طے کرکے دراصل انسان زندگی کی پیچیدگیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے وہیں فکشن رائٹر زندگی کی پیچیدگیوں سے آنکھ ملاکر اسے غور سے دیکھتے ہوئے ان پیچیدگیوں کو سلجھا کر جو بصیرت حاصل کرتا ہے اس سے وہ اپنی اور اپنے قارئین کی بے خوفی کی منزل تک پہنچتا ہے ۔ اور یہاں وہ رہبانیت کی عین متضاد سمت میں جاکر وقت کے سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑیوں اور جنگلوں کو کھیتی کے لائق بناتا ہے ۔ جرات اور محنت کے اس راستے پر آگے چلنے والے زندگی کے لئے نئی گنجائشیں پیدا کرتے ہیں ۔ جدید فکشن نگاری کا نصب العین بھی یہی ہے چاہے وہ ٹالسٹائے ہو، کافکا ہو یا جیمس جوائس ہو ، ان میں سے کسی کی بھی تحریر شاعرانہ کھڑکیوں سے نہیں جھانکتی نہ اس کا استعمال کرتی ہے ۔ یا تو وہ کمرے میں جھانکتی ہے یادروازے سے باہر نکل کر ان اشیا کے قریب پہنچتی ہے جو دور سے یک سطحی نظارہ دلفریب یا نظارہ قیامت پیش کرتی ہیں ۔
اس طرح جہاں خوردبینی نگاہ انسان کو وقت کی سواری کرنا سکھاتی ہے وہاں دوربینی نگاہ زندگی کے سفر کا حوصلہ نہ رکھنے والوں کو وقت کے نام پر اپنے دیوالیہ پن کو زندگی کی ایک ناگزیر شکل کے طور پرپیش کرکے اس کے ذریعہ تسکین مہیا کرتی ہے ۔ اس طرح سہل پسند نگاہیں وقت کے خورد بینی عمل سے دوربینی عمل کی طرف بھاگتی ہیں ۔ اور تخلیقی نگاہیں دوربینی عمل کو خورد بینی باریکی سے دیکھتی ہیں ۔ دنیا چونکہ انسانی زندگی میں مسلسل مقابلہ آرائی پر آمادہ ہے اس لئے بحیثیت مجموعی دنیا (پچھلی کئی صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے) دور بینی تجزیہ وقت سے خوردبینی تجزیہ وقت کی راہ پر گامزن ہے ۔ یورپ کی تاریخ کا تو یہ حال رہا ہے کہ تخلیقی ذہن اسی خوردبینی تجزیہ کی بدولت سائنسی اور ایجاداتی تاریخ کو مالا مال کرتی رہی ہے ۔ ہندوستان میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی مقصد سے کیا تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں پورا تہذیبی رویہ دوربینی تجزیہ کی حمایت کرتا ہے ۔ اور اس کو یہاں فکری نظام میں فضیلت حاصل ہے۔ عالم یہ ہے کہ نتیجے کے طور پر یہ رویہ قبول عام ہے کہ اگر خوردبینی مغرب اپنے مال میں مست ہے تو ہم اپنے دور بینی رویہ کی وجہہ سے اپنی کھال میں مست ہیں ۔
انسانی زندگی کی تربیت میں ادب کا اولین رول ہے ۔ اور اس پر بحث کرنا بے حد ضروری ہے کہ اپنے عہد اور اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنی تخلیقی فکر کا موضوع بنانا زیادہ اہم ہے یا چھت پر چڑھ کر ، خانقاہ میں جاکر، آنکھیں بند کرکے ایسے تصورات کو اپنی فکر کی بنیاد بنانا زیادہ اہم ہے جو ہم عصر زندگی کی اذیتوں پر ٹھنڈی ہوا کا پنکھا جھل کر ہمیں آرام کا جھوٹا احساس کرائے ۔
اردو فکشن کا نیا ذہن گھریلو، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے منجھدھار میں رہتا ہے ۔ اور فرار سے زیادہ اپنی زندگی کی پیچیدگیوں میں جھانک کر اس میں موجود سانپ بچھوؤں سے آنکھ مچولی کرنے کو فوقیت دیتا ہے ۔ آج کا فکشن خورد بینی وقت یعنی لمحہ لمحہ الجھتی اوربدلتی زندگی کے پیٹرن کو سمجھنے پر آمادہ ہے جسے سکنڈ سکنڈ زندگی اور مہینوں اور برسوں کی زندگی میں دیکھا جاسکے تاکہ لمحہ موجود کے نظام شمسی میں صدیوں کا بھی جائزہ معروضی تناسب میں دیکھا جاسکے۔کیونکہ کوئی بھی چیز ماضی بعید میں موجود نہیں ہے بلکہ پورا ماضی حال کے ہر لمحے میں اپنی جگہ موجود ہے ۔ حال کے لمحے میں وہ جس شکل اور کردار میں موجود ہے وہی اس کی اصل معنوعیت ہے ۔
فکشن نگاری اور فکشن میں وقت ایک اہم پہلو
ہمیں یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ ہمارے ناول نگاروں نے ناول لکھتے وقت اپنے حال کے لمحوں کو ان چھوٹے یونٹوں میں بانٹ کر ان کا خوردبینی جائزہ کس حد تک لیا۔ اور اس جائزے میں انہوں نے اپنے زمانے کو وقت کی دوربینی نگاہ سے دیکھا یا خوردبینی نگاہ سے ۔
مطالعے کے لئے ناول کے معیار اور ماڈل کو طے کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے کہ آیا ناول نگار زندگی کی چھوٹی گولائیوں کو دیکھ رہا تھا ؟ ایک ماہر نباتات صرف پیڑوں کہ نہیں دیکھتا بلکہ پیڑوں کے ریشوں کو دیکھ کر کروموزوم میں موجود ہزاروں سال کے اثرات کا
مطالعہ کرتا ہے ۔ اور نتیجے کے طور پر وہ ایسی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر بایو ٹیکنالوجی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں ۔ انسانی زندگی کی حقیقتوں تک پہنچنے کے لئے تہذیبوں کے بڑے بڑے پیڑوں ، ان پر آنے والی بہاروں اور خزاؤں کا شاعرانہ نظارہ کرنے کے بجائے موجود زندگی کے افراد کا باریک ترین تجزیہ ہی فکشن کو زندگی کے لئے اہم بنا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مطالعہ چشمدید گواہی جیسا اعتبار رکھتا ہے ۔ در اصل ہمیں اپنے کچھ ناولوں کو فکشن کی تخلیقی منطق کی بنیاد پر داستانوں کے خانے میں ڈال دینا چاہئے کیونکہ شعری انداز بیان، تہذیبی عناصر اور گمشدہ قدروں کی نمائندگی کی بنیاد پر وہ بھی ہمارے ادب کا حصہ ہیں لیکن ہمارے جو ناول نگار تہذیبی المیوں کے ڈرامائی اثر میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کسی بھی اعتبار سے رتن ناتھ سرشار کی دنیا میں لے جاتے ہیں ، مصوری، موسیقی، مرثیہ گوئی،رزمیہ گوئی، رومانس اور شاعری جیسے فنون لطیفہ کا جائزہ لینے کو فکشن کہتے ہیں یا وقت کی ستم گری کے خوردبینی تجزیہ سے بچتے ہیں اور اس کا دوربینی نظارہ کرتے ہیں انہیں فکشن کی بنیادی منطق کا علم و شعور نہیں ہے ۔فکشن لکھنے کے لئے موجودہ زندگی کے خوردبینی مطالعہ کی اہمیت پر ایمان لانا ضروری ہے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ خورد بینی مطالعہ خود ماضی کے دیو پیکر واقعات کی اس طرح ازسر نو چھان بین اور تول شروع کردیتا ہے جو ماضی کے خوشنما مناظر کا پول کھول دیتا ہے ۔سچا فکشن زندگی کے دھند کو ختم کرتا ہے ۔ جھوٹے فکشن کا اختتام دھند میں ہوتاہے۔فکشن نگار کے لئے اپنے تجربے اور تجزئے کے نتائج کا چشم دید گواہ ہونا لازمی ہے ۔ فلسفی اور فکشن نگار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ فلسفی ادھوری سچائیوں کو سچ کا درجہ دیتا ہے ، شاعر بھی یہی کرتا ہے لیکن فکشن نگار کا سچ پورا سچ ہوتا ہے ۔اسی لئے خوردبیں فکشن دوربیں فکشن سے زیادہ اہم اور عظیم تر ہے۔
ہماری داستانی اور رومانی سوچ تہذیب کے بڑے بڑے گارڈن ضرور دکھاتی ہے لیکن یہ ایک طرح سے تفریح زیادہ کراتی ہے اور بصیرت کو روشنی کم دیتی ہے ۔یہ ان کے زوال پر ماتم بھی کرتی ہے۔ وقت کے استبداد کا شکوہ بھی کرتی ہے۔ لیکن یہ بتانا بھول جاتی ہے کہ اسی وقت نے غیر مہذب انسان کو تہذیب کے استبداد سے آزاد بھی کرایا ہے ۔ آج پوری دنیا اس آزادی کی طرف بھاگ رہی ہے اور اسی کے ساتھ نئی تہذیبیں دنیا پر حاوی ہونا چاہتی ہیں ۔موجودہ ہندوستان میں کئی اعتبار سے بگڑتی ہوئی صورتحال اورکئی اعتبار سے انسانی آبادی کے لئے تہذیب کے محبوس قلعوں میں کھلتی ہوئی کھڑکیاں اور عالمی سطح پر تہذیبوں کے ٹکراؤ سے غیر مہذب انسان کی ملنے والی وہ آزادی جو اسے زندگی کا جشن منانے کا موقع دے رہی ہے ، وقت کے ایک نئے دائرے کا انکشاف کر رہی ہے۔اس نئے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وقت کے اس فرسودہ تصور کو جو صدیوں اور قرنوں تک جائز رہا ہے اس تیزی سے بدلتے ہوئے اور پوری دنیا کو ایک چھوٹا دائرہ بنانے والے زمانے میں رد کرکے اس کا از سر نو انکشاف کیا جائے ا ور فکشن اس کے لئے ایک نئے مزاج کو ہموار کرے۔
فلسفی کی نگاہ سے دیکھیں تو وقت ایک بہتا ہوا، چنگھاڑتا ہوا دریا ہے، حقیقت بیں کی نگاہ سے دیکھیں تو وقت شیشے کی کرچیوں اور گولائیوں میں ڈھلے پتھروں کا ایک مرکب ہے جس پر چلنے کے لئے انتہائی خوردبیں نظر کی ضرورت ہے۔ انسان بار بار ان کرچیوں سے نظر چرانے
کے لئے زندگی کے دور بینی نقطہ نگاہ کا سہارا لے کر اپنے کو اندھا کرنا چاہتا ہے۔ وقت کے دریائی تصور کا افیم پی کر اپنے پیروں کے درد کو نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے بچے چیخ چیخ کر روتے ہیں اور اس کی نگاہ توجہ کو اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔وہ لوگ جو اتنے بے حس نہیں کہ اس آواز کو اپنے بلند بانگ فلسفے میں ضم کرسکیں وہ ان بچوں کی نگاہ سے وقت کی چمڑی پر چلنے کے آلے اور سواریاں ایجاد کرتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جو اس زمین پر، جس پر انسان پیدا ہوا ہے ، جینے کے ساز و سامان پیدا کرتے ہیں ۔رہبانیت کی طرح فلسفہ ہیچ ہے اس میکانکی علم کے سامنے جو مسائل کو حل کرتی ہے۔ فلسفے زخمی انسان کو صرف بے ہوش کرتے ہیں ۔تخلیقیت اس زخم کو مندمل کرتی ہے۔ زندگی کو خوردبینی نگاہ سے دیکھنے کا ہی دوسرا نام انسانیت ہے۔زخموں کے باوجود بڑی خوشیوں کا احساس افیم کے نشے میں ڈوبے رہنے کا نام ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹ چھوٹے دکھ ہی زندگی کی اینٹ ہیں۔دور کے ڈھول سہانے ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ انسان کی کم نگاہی کا ثبوت ہیں ۔چاند اور سورج کو خوبصورت سمجھنے والے اس مسافر کی طرح ہیں جو آدم خور درختوں کے سائے میں پہنچ کر لمبی سانس لیتے ہوئے اطمینان کی ہوا کے جھونکوں میں اپنا پسینہ خشک کرتے ہیں اور رومانی شاعری کرتے ہیں اور اگلے ہی لمحہ آدم خور پیڑ کی غذا بن جاتے ہیں ۔ جو برفیلی وادیوں کو جنت کی وادیاں سمجھتے ہیں ان فلسفیوں سے وہ کتیا اچھی ہے جو اپنے بچوں پر حملہ کرنے والوں پر غراتی ہے اور اپنی جان پر کھیل کر دشمن سے لڑ پڑتی ہے۔ کامیاب ہیں وہ لوگ جو ایک ذرے سے لے کر کائنات تک سب کو خوردبینی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔بے خبری کی مستیوں کا لطف لینا ہمارا نہیں نوجوانوں اور بچوں کا حق ہے۔ان کو کھلی وادیوں میں چھوڑو تاکہ ان کے ذہن کے دریچے وا ہوں ۔لیکن خو د ہوشیار رہو۔آسمانوں کی بلندیوں پر اڑنے والے گدھ زمین پر پڑے ہوئے ذروں کو دیکھ لیتے ہیں ۔ پرواز کی سیرابی دانشمندوں کو کم نگاہ نہیں بناتی۔اس کی سوچ کا مرکز وسیع آسمانوں کی وادیاں نہیں ہوتیں۔بلکہ وہ ذرے ہوتے ہیں جو لامتناہی تعداد میں اس کے زیر نظر پھیلے ہوتے ہیں ۔مقصد پرواز فرار اور اطمینان نہیں بلکہ انتخاب اور ایجاد ہے ۔خوبصورت وادیوں کے رومان کا اصل مقصد رومانی جوڑے کو بستر کی گہرائی میں اتارنا اور ذروں سے آفتاب پیدا کرنا ہے۔
آپ وسیع تر دنیا اور تاریخ اور انسانوں کے دل و دماغ کو کسی وسیع تناظر کے فلسفیانہ کینوس سے نہیں جان سکتے۔بلکہ صرف قوت ہمدردی و ہم نفسی کے ذریعے ہی انسانیت کی وسیع ترین سرحدوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔اور کائنات اور انسان کی تقدیر کے معاملات کو تبھی جان سکتے ہیں جب تقدیر کا ایک ایسا معنی اخذ کریں جس کی پیمائش شمسی وقت سے نہیں بلکہ انسانی سکھوں اور دکھوں کے زیر وبم سے کی جائے۔ دانشوری کی عظمت انسانوں کو دور سے دیکھنے میں نہیں بلکہ قریب سے محسوس کرنے میں پنہاں ہے۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا حال چند لفظوں میں لکھنے والا مورخ ہوتا ہے۔اور ایک انسان کی موت کا حال ہزاروں الفاظ میں لکھنے والا فنکار ہوتا ہے۔انسانی دکھوں سے آشنا ہونے کے لئے فلسفے اور تاریخ کی نہیں بلکہ انسانی دکھوں سے آشنائی درکار ہوتی ہے۔ عظیم آوازیں وہ ہوتی ہیں جو انسانی زندگی کی پاسبانی کرتی ہیں ۔
ناولوں اور افسانوں کے تجزیہ میں وقت کی اس جہت کو ٹٹولنا اور انسانی ارادے کے شعوری، لاشعوری اورتحت الاشعوری سطحوں پر انسانی ارادے کو متاثر کرنے والے عناصر کا جا ئزہ لینا ضروری ہے ۔
وقت کا تخلیقی تصور اور آج کا اردو فکشن
پیغام آفاقی
تصور کائنات میں وقت کی اہمیت اور عظمت وقت کے دو پہلوؤں کی وجہ سے قائم ہوتی ہے ۔وقت کا ایک تسلیم شدہ کردار یہ ہے کہ وہ نئی چیزوں کو جنم دیتا ہے۔ اور اس کا دوسرا کردار یہ ہے کہ وہ چیزوں کو جنم اور موت کے دائرے میں قید کر کے پیدا کرتا ہے ۔اس طرح جہاں وہ خالق کی طرح دکھائی دیتا ہے وہیں قادر مطلق بھی نظر آتا ہے حالانکہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں اور یہ محض کا ئنات کی ایک خصوصیت ہے ۔ یہ کائنات تبدیلی مسلسل کے سفر میں ہے اور یہ سفر ہی ہمارے سامنے وقت کی شکل میں ابھرتا ہے۔ چیزوں کی تبدیلی کا ہی نام وقت ہے اور یہ اپنے آپ میں کوئی شئے یا قوت نہیں ہے ۔ ہم وقت کی ابد سے ازل کی دوری اور اس کی قرنوں، صدیوں، برسوں ، منٹوں اور سکنڈوں کی یونٹ میں اس متحرک کائنات کی حرکت کی شکل میں ہی دیکھ سکتے ہیں ۔کائنات کی ہر چیز کائنات کی اس اندرونی تبدیلی کے عمل سے بندھی ہوئی ہے اور کائنات کے کسی بھی گوشے میں ہورہی کوئی بھی حرکت چاہے اس کا محرک اشیا میں موجود خصوصیات ہوں یا انسانی ارادے سب وقت کا حصہ ہیں اور کائنات کے کسی بھی حصے میں ہورہی تبدیلی کائنات ان تمام قوتوں کو ایک توازن کی شکل میں ہم آہنگ کر کے رکھتی ہے
فطری اور ارادی وقت
اس طرح ہم وقت کو دو مخصوص قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو انسانی ارادے سے باہر ہیں اور ایک خود انسانی ارادے ۔ اس طرح انسانی وجود کی قوتیں ارادے کی حد تک وقت کی پہلی قسم سے آزاد ہیں ۔ لہذاجس طرح زمین پر اگائی جانے والی کھیتیوں کی قسمیں انسانی اختیار میں ہونے کی وجہ سے غیر انسانی وقت کی قید سے آزاد ہیں یعنی ان کی مسافتیں تو طے ہیں لیکن اس سفر کی نوعیت اور ہیت انسان طے کرتا ہے اور انسانی ضرورتیں طے کرتی ہیں اسی طرح جن انسانوں میں زندگی کی کھیتی میں کوئی فصل اگانے کی خواہش اور امنگ ہوتی ہے وہ وقت کو ایک سرچشمہ حیات اور اور ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور جن کے حوصلے پست ہوتے ہیں وہ وقت کو مشکلات کے مداوا اورایک تباہ کن طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ وقت کو سب سے بڑا مسیحا مانا گیا ہے کیونکہ وقت صرف اچھی چیزوں کو نہیں بدلتا بلکہ بری چیزوں کو بھی مٹاتا ہے۔وقت یعنی کائنات کے بدلنے کو ایک ایسی قوت بھی مانا گیا ہے جوان تاناشاہوں کو ختم کرتا ہے جو اتنی قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کو مٹانے کی ہر انسانی کوشش بیکار ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان تانا شاہوں کو ختم کرنے والاوقت انسانوں کے لئے آزادی کی نئی راہیں کھولتا ہے ۔ انسانی دانشوری کے لئے وقت کی ان اقسام اور خصوصیات کا ادراک اور فہم لازمی ہے ۔ اس کے بنا کسی انسان کی سوچ معتبر ہوہی نہیں سکتی۔ اس لئے ہمارا یہ جاننا بہت اہم ہے کہ وقت اپنے دورنگی بادلوں سے ہماری زندگی میں تخریب اور تعمیر کی قوتوں کی مسلسل بارش کرتا رہتا ہے اور ہم خود بھی برسنے والے بادلوں کا حصہ ہیں اور کبھی کبھی ہم بادلوں کو اپنی من چاہی سمت میں بھی لے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ کوئی شئے نہیں بلکہ صرف بدلنے کی قوت کا چشمہ ہے ۔ جس طرح سمندر کا جہاز مسلسل پانی کی لہروں پر چلتا ہے اسی طرح دنیا کی ہر شے موسموں کے سائے میں ابھرتی ہے اور ڈوبتی ہے ۔
وقت کی دوربینی اور خوردبینی حقیقت
وقت کی اس حقیقت کی عکاسی ہر ناول میں ہوتی ہے ۔ کہیں یہ عکاسی دوربینی ہوتی ہے اور کہیں خورد بینی۔ دور بینی عکاسی خوربینی عکاسی سے نسبتا آسان ہے ۔ کیونکہ اس میں تجزیہ کی ضرورت برائے نام ہوتی ہے ۔ لیکن خوردبینی تجزیہ اتنا مشکل، پیچیدہ اور ملائم ہوتا ہے کہ وقت کا جس قدر خورد بینی تجزیہ کرنا درکار ہوگا اسی قدر زیادہ تخلیقی صلاحیت درکار ہوگی۔ یہ بتانا کہ دنیا میں بڑی بڑی تہذیبیں کب پیدا ہوئیں ، کب ختم ہوئیں بہت آسان ہے لیکن اپنے آس پاس کی زندگی میں اور خود ایک فرد کی زندگی میں وقت جو کر رہا ہے اس کی ترجمانی ایک مشکل کام ہے ۔ اس کا عمل ایک فرد کی زندگی میں کہاں تعمیری ہے اور کہاں تخریبی ہے یہ بتانا انسان کی عقل اور اس کے فہم سے ماورا بات لگتی ہے اور اسی صلاحیت کو حاصل کرلینے کا نام دانشوری ہے ۔ اس لئے کسی ناول کی عظمت اس سے طے ہوگی کہ اس نے وقت کے عمل کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے میں اپنے کردار کی کتنی مدد کی اور اس کے اندر دانشوری کے کتنی صفات پیدا کئے ۔ اس خوبی کو ناول میں پیدا کرنے کے لئے تخلیق کار کے اندر ایک ایسی پینی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جو سماجی قوتوں کی لہروں، گنگناہٹوں، آہٹوں اور چیزوں کا افراد کے جسمانی، سماجی، جذباتی، اعصابی اور مجموعی اشاروں کے ذریعے معروضی انداز میں قیاس لگا سکے اور اسے نثری زبان کے کیمرے میں قید کرے۔ جہاں وقت کے بڑے دائروں کو شاعرانہ زبان میں عروج وزوال، اقدار کے زوال، ناسٹیلجیا اور تصوفانہ تھیوریز کے ذریعہ بیان کیا جاسکتا ہے وہیں لمحہ لمحہ انسانی زندگی میں داخل ہوتے ہوئے وقت کی زہریلی لہروں کو چھوٹ چھوٹے انسانی کرداروں کی زندگی کی کشمکش اور اس کے سماجی سیاق و سباق میں رکھ کر ہی بیان کیا جاسکتا ہے ۔
فکشن نگار اور وقت
اس بات کو یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ جہاں رہبانیت کی راہ سے ہوتے ہوئے تصوف کے منازل طے کرکے دراصل انسان زندگی کی پیچیدگیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے وہیں فکشن رائٹر زندگی کی پیچیدگیوں سے آنکھ ملاکر اسے غور سے دیکھتے ہوئے ان پیچیدگیوں کو سلجھا کر جو بصیرت حاصل کرتا ہے اس سے وہ اپنی اور اپنے قارئین کی بے خوفی کی منزل تک پہنچتا ہے ۔ اور یہاں وہ رہبانیت کی عین متضاد سمت میں جاکر وقت کے سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑیوں اور جنگلوں کو کھیتی کے لائق بناتا ہے ۔ جرات اور محنت کے اس راستے پر آگے چلنے والے زندگی کے لئے نئی گنجائشیں پیدا کرتے ہیں ۔ جدید فکشن نگاری کا نصب العین بھی یہی ہے چاہے وہ ٹالسٹائے ہو، کافکا ہو یا جیمس جوائس ہو ، ان میں سے کسی کی بھی تحریر شاعرانہ کھڑکیوں سے نہیں جھانکتی نہ اس کا استعمال کرتی ہے ۔ یا تو وہ کمرے میں جھانکتی ہے یادروازے سے باہر نکل کر ان اشیا کے قریب پہنچتی ہے جو دور سے یک سطحی نظارہ دلفریب یا نظارہ قیامت پیش کرتی ہیں ۔
اس طرح جہاں خوردبینی نگاہ انسان کو وقت کی سواری کرنا سکھاتی ہے وہاں دوربینی نگاہ زندگی کے سفر کا حوصلہ نہ رکھنے والوں کو وقت کے نام پر اپنے دیوالیہ پن کو زندگی کی ایک ناگزیر شکل کے طور پرپیش کرکے اس کے ذریعہ تسکین مہیا کرتی ہے ۔ اس طرح سہل پسند نگاہیں وقت کے خورد بینی عمل سے دوربینی عمل کی طرف بھاگتی ہیں ۔ اور تخلیقی نگاہیں دوربینی عمل کو خورد بینی باریکی سے دیکھتی ہیں ۔ دنیا چونکہ انسانی زندگی میں مسلسل مقابلہ آرائی پر آمادہ ہے اس لئے بحیثیت مجموعی دنیا (پچھلی کئی صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے) دور بینی تجزیہ وقت سے خوردبینی تجزیہ وقت کی راہ پر گامزن ہے ۔ یورپ کی تاریخ کا تو یہ حال رہا ہے کہ تخلیقی ذہن اسی خوردبینی تجزیہ کی بدولت سائنسی اور ایجاداتی تاریخ کو مالا مال کرتی رہی ہے ۔ ہندوستان میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی مقصد سے کیا تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں پورا تہذیبی رویہ دوربینی تجزیہ کی حمایت کرتا ہے ۔ اور اس کو یہاں فکری نظام میں فضیلت حاصل ہے۔ عالم یہ ہے کہ نتیجے کے طور پر یہ رویہ قبول عام ہے کہ اگر خوردبینی مغرب اپنے مال میں مست ہے تو ہم اپنے دور بینی رویہ کی وجہہ سے اپنی کھال میں مست ہیں ۔
انسانی زندگی کی تربیت میں ادب کا اولین رول ہے ۔ اور اس پر بحث کرنا بے حد ضروری ہے کہ اپنے عہد اور اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنی تخلیقی فکر کا موضوع بنانا زیادہ اہم ہے یا چھت پر چڑھ کر ، خانقاہ میں جاکر، آنکھیں بند کرکے ایسے تصورات کو اپنی فکر کی بنیاد بنانا زیادہ اہم ہے جو ہم عصر زندگی کی اذیتوں پر ٹھنڈی ہوا کا پنکھا جھل کر ہمیں آرام کا جھوٹا احساس کرائے ۔
اردو فکشن کا نیا ذہن گھریلو، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے منجھدھار میں رہتا ہے ۔ اور فرار سے زیادہ اپنی زندگی کی پیچیدگیوں میں جھانک کر اس میں موجود سانپ بچھوؤں سے آنکھ مچولی کرنے کو فوقیت دیتا ہے ۔ آج کا فکشن خورد بینی وقت یعنی لمحہ لمحہ الجھتی اوربدلتی زندگی کے پیٹرن کو سمجھنے پر آمادہ ہے جسے سکنڈ سکنڈ زندگی اور مہینوں اور برسوں کی زندگی میں دیکھا جاسکے تاکہ لمحہ موجود کے نظام شمسی میں صدیوں کا بھی جائزہ معروضی تناسب میں دیکھا جاسکے۔کیونکہ کوئی بھی چیز ماضی بعید میں موجود نہیں ہے بلکہ پورا ماضی حال کے ہر لمحے میں اپنی جگہ موجود ہے ۔ حال کے لمحے میں وہ جس شکل اور کردار میں موجود ہے وہی اس کی اصل معنوعیت ہے ۔
فکشن نگاری اور فکشن میں وقت ایک اہم پہلو
ہمیں یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ ہمارے ناول نگاروں نے ناول لکھتے وقت اپنے حال کے لمحوں کو ان چھوٹے یونٹوں میں بانٹ کر ان کا خوردبینی جائزہ کس حد تک لیا۔ اور اس جائزے میں انہوں نے اپنے زمانے کو وقت کی دوربینی نگاہ سے دیکھا یا خوردبینی نگاہ سے ۔
مطالعے کے لئے ناول کے معیار اور ماڈل کو طے کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے کہ آیا ناول نگار زندگی کی چھوٹی گولائیوں کو دیکھ رہا تھا ؟ ایک ماہر نباتات صرف پیڑوں کہ نہیں دیکھتا بلکہ پیڑوں کے ریشوں کو دیکھ کر کروموزوم میں موجود ہزاروں سال کے اثرات کا
مطالعہ کرتا ہے ۔ اور نتیجے کے طور پر وہ ایسی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر بایو ٹیکنالوجی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں ۔ انسانی زندگی کی حقیقتوں تک پہنچنے کے لئے تہذیبوں کے بڑے بڑے پیڑوں ، ان پر آنے والی بہاروں اور خزاؤں کا شاعرانہ نظارہ کرنے کے بجائے موجود زندگی کے افراد کا باریک ترین تجزیہ ہی فکشن کو زندگی کے لئے اہم بنا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مطالعہ چشمدید گواہی جیسا اعتبار رکھتا ہے ۔ در اصل ہمیں اپنے کچھ ناولوں کو فکشن کی تخلیقی منطق کی بنیاد پر داستانوں کے خانے میں ڈال دینا چاہئے کیونکہ شعری انداز بیان، تہذیبی عناصر اور گمشدہ قدروں کی نمائندگی کی بنیاد پر وہ بھی ہمارے ادب کا حصہ ہیں لیکن ہمارے جو ناول نگار تہذیبی المیوں کے ڈرامائی اثر میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کسی بھی اعتبار سے رتن ناتھ سرشار کی دنیا میں لے جاتے ہیں ، مصوری، موسیقی، مرثیہ گوئی،رزمیہ گوئی، رومانس اور شاعری جیسے فنون لطیفہ کا جائزہ لینے کو فکشن کہتے ہیں یا وقت کی ستم گری کے خوردبینی تجزیہ سے بچتے ہیں اور اس کا دوربینی نظارہ کرتے ہیں انہیں فکشن کی بنیادی منطق کا علم و شعور نہیں ہے ۔فکشن لکھنے کے لئے موجودہ زندگی کے خوردبینی مطالعہ کی اہمیت پر ایمان لانا ضروری ہے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ خورد بینی مطالعہ خود ماضی کے دیو پیکر واقعات کی اس طرح ازسر نو چھان بین اور تول شروع کردیتا ہے جو ماضی کے خوشنما مناظر کا پول کھول دیتا ہے ۔سچا فکشن زندگی کے دھند کو ختم کرتا ہے ۔ جھوٹے فکشن کا اختتام دھند میں ہوتاہے۔فکشن نگار کے لئے اپنے تجربے اور تجزئے کے نتائج کا چشم دید گواہ ہونا لازمی ہے ۔ فلسفی اور فکشن نگار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ فلسفی ادھوری سچائیوں کو سچ کا درجہ دیتا ہے ، شاعر بھی یہی کرتا ہے لیکن فکشن نگار کا سچ پورا سچ ہوتا ہے ۔اسی لئے خوردبیں فکشن دوربیں فکشن سے زیادہ اہم اور عظیم تر ہے۔
ہماری داستانی اور رومانی سوچ تہذیب کے بڑے بڑے گارڈن ضرور دکھاتی ہے لیکن یہ ایک طرح سے تفریح زیادہ کراتی ہے اور بصیرت کو روشنی کم دیتی ہے ۔یہ ان کے زوال پر ماتم بھی کرتی ہے۔ وقت کے استبداد کا شکوہ بھی کرتی ہے۔ لیکن یہ بتانا بھول جاتی ہے کہ اسی وقت نے غیر مہذب انسان کو تہذیب کے استبداد سے آزاد بھی کرایا ہے ۔ آج پوری دنیا اس آزادی کی طرف بھاگ رہی ہے اور اسی کے ساتھ نئی تہذیبیں دنیا پر حاوی ہونا چاہتی ہیں ۔موجودہ ہندوستان میں کئی اعتبار سے بگڑتی ہوئی صورتحال اورکئی اعتبار سے انسانی آبادی کے لئے تہذیب کے محبوس قلعوں میں کھلتی ہوئی کھڑکیاں اور عالمی سطح پر تہذیبوں کے ٹکراؤ سے غیر مہذب انسان کی ملنے والی وہ آزادی جو اسے زندگی کا جشن منانے کا موقع دے رہی ہے ، وقت کے ایک نئے دائرے کا انکشاف کر رہی ہے۔اس نئے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وقت کے اس فرسودہ تصور کو جو صدیوں اور قرنوں تک جائز رہا ہے اس تیزی سے بدلتے ہوئے اور پوری دنیا کو ایک چھوٹا دائرہ بنانے والے زمانے میں رد کرکے اس کا از سر نو انکشاف کیا جائے ا ور فکشن اس کے لئے ایک نئے مزاج کو ہموار کرے۔
فلسفی کی نگاہ سے دیکھیں تو وقت ایک بہتا ہوا، چنگھاڑتا ہوا دریا ہے، حقیقت بیں کی نگاہ سے دیکھیں تو وقت شیشے کی کرچیوں اور گولائیوں میں ڈھلے پتھروں کا ایک مرکب ہے جس پر چلنے کے لئے انتہائی خوردبیں نظر کی ضرورت ہے۔ انسان بار بار ان کرچیوں سے نظر چرانے
کے لئے زندگی کے دور بینی نقطہ نگاہ کا سہارا لے کر اپنے کو اندھا کرنا چاہتا ہے۔ وقت کے دریائی تصور کا افیم پی کر اپنے پیروں کے درد کو نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے بچے چیخ چیخ کر روتے ہیں اور اس کی نگاہ توجہ کو اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔وہ لوگ جو اتنے بے حس نہیں کہ اس آواز کو اپنے بلند بانگ فلسفے میں ضم کرسکیں وہ ان بچوں کی نگاہ سے وقت کی چمڑی پر چلنے کے آلے اور سواریاں ایجاد کرتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جو اس زمین پر، جس پر انسان پیدا ہوا ہے ، جینے کے ساز و سامان پیدا کرتے ہیں ۔رہبانیت کی طرح فلسفہ ہیچ ہے اس میکانکی علم کے سامنے جو مسائل کو حل کرتی ہے۔ فلسفے زخمی انسان کو صرف بے ہوش کرتے ہیں ۔تخلیقیت اس زخم کو مندمل کرتی ہے۔ زندگی کو خوردبینی نگاہ سے دیکھنے کا ہی دوسرا نام انسانیت ہے۔زخموں کے باوجود بڑی خوشیوں کا احساس افیم کے نشے میں ڈوبے رہنے کا نام ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹ چھوٹے دکھ ہی زندگی کی اینٹ ہیں۔دور کے ڈھول سہانے ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ انسان کی کم نگاہی کا ثبوت ہیں ۔چاند اور سورج کو خوبصورت سمجھنے والے اس مسافر کی طرح ہیں جو آدم خور درختوں کے سائے میں پہنچ کر لمبی سانس لیتے ہوئے اطمینان کی ہوا کے جھونکوں میں اپنا پسینہ خشک کرتے ہیں اور رومانی شاعری کرتے ہیں اور اگلے ہی لمحہ آدم خور پیڑ کی غذا بن جاتے ہیں ۔ جو برفیلی وادیوں کو جنت کی وادیاں سمجھتے ہیں ان فلسفیوں سے وہ کتیا اچھی ہے جو اپنے بچوں پر حملہ کرنے والوں پر غراتی ہے اور اپنی جان پر کھیل کر دشمن سے لڑ پڑتی ہے۔ کامیاب ہیں وہ لوگ جو ایک ذرے سے لے کر کائنات تک سب کو خوردبینی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔بے خبری کی مستیوں کا لطف لینا ہمارا نہیں نوجوانوں اور بچوں کا حق ہے۔ان کو کھلی وادیوں میں چھوڑو تاکہ ان کے ذہن کے دریچے وا ہوں ۔لیکن خو د ہوشیار رہو۔آسمانوں کی بلندیوں پر اڑنے والے گدھ زمین پر پڑے ہوئے ذروں کو دیکھ لیتے ہیں ۔ پرواز کی سیرابی دانشمندوں کو کم نگاہ نہیں بناتی۔اس کی سوچ کا مرکز وسیع آسمانوں کی وادیاں نہیں ہوتیں۔بلکہ وہ ذرے ہوتے ہیں جو لامتناہی تعداد میں اس کے زیر نظر پھیلے ہوتے ہیں ۔مقصد پرواز فرار اور اطمینان نہیں بلکہ انتخاب اور ایجاد ہے ۔خوبصورت وادیوں کے رومان کا اصل مقصد رومانی جوڑے کو بستر کی گہرائی میں اتارنا اور ذروں سے آفتاب پیدا کرنا ہے۔
آپ وسیع تر دنیا اور تاریخ اور انسانوں کے دل و دماغ کو کسی وسیع تناظر کے فلسفیانہ کینوس سے نہیں جان سکتے۔بلکہ صرف قوت ہمدردی و ہم نفسی کے ذریعے ہی انسانیت کی وسیع ترین سرحدوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔اور کائنات اور انسان کی تقدیر کے معاملات کو تبھی جان سکتے ہیں جب تقدیر کا ایک ایسا معنی اخذ کریں جس کی پیمائش شمسی وقت سے نہیں بلکہ انسانی سکھوں اور دکھوں کے زیر وبم سے کی جائے۔ دانشوری کی عظمت انسانوں کو دور سے دیکھنے میں نہیں بلکہ قریب سے محسوس کرنے میں پنہاں ہے۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا حال چند لفظوں میں لکھنے والا مورخ ہوتا ہے۔اور ایک انسان کی موت کا حال ہزاروں الفاظ میں لکھنے والا فنکار ہوتا ہے۔انسانی دکھوں سے آشنا ہونے کے لئے فلسفے اور تاریخ کی نہیں بلکہ انسانی دکھوں سے آشنائی درکار ہوتی ہے۔ عظیم آوازیں وہ ہوتی ہیں جو انسانی زندگی کی پاسبانی کرتی ہیں ۔
ناولوں اور افسانوں کے تجزیہ میں وقت کی اس جہت کو ٹٹولنا اور انسانی ارادے کے شعوری، لاشعوری اورتحت الاشعوری سطحوں پر انسانی ارادے کو متاثر کرنے والے عناصر کا جا ئزہ لینا ضروری ہے ۔