اٹھائیس سال بعد

اٹھائیس سال بعد

Jan 21, 2024

مصنف

بلال مختار

شمارہ

شمارہ - ٢٢

دیدبان شمارہ ۔ ۲۲ ۲۰۲۴؁

افسانہ:اٹھائیس سال بعد

افسانہ نگار: بلال مختار

bilalmukhtar106@gmail.com

ـ‘‘سر آپ نہیں سمجھینگے۔ ابو کو نہیں آنا، نہیں آنا ۔’’ رومیسہ نے تقریبا روتے ہوئے کہا

‘‘مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ سارے طالب علموں  کے والدین آئے ہیں ۔تم تو امتحانات میں نمبر ون آئی ہو۔تمھاری تو کوئی شکایت بھی نہیں بنتی۔ میری بیٹی میں تو چاہتا ہوں کہ تمھارے ابو آئیں اور ہم انہیں شاباشی دیں۔’’ میں نے رومیسہ کو سمجھاتے ہوئے کہا

اس کے پاس میری بات کا جواب آنسوؤں کی صورت ملا۔ مجھے تجسس رہا کہ ایسا کون باپ ہے جو اس دن بھی چھپ رہا ہو جس دن اس کی اولاد کے لیے تالیاں بجائی جائیں اور وہ نہ آئے۔ رومیسہ میری تیسری کلاس کی ہونہار بیٹی تھی۔جماعت میں سب سے ذہین اور باداب۔ کوئی دو سال پہلے اسے دوسری سکول سے نکال کر ہمارے سکول میں داخل کیا گیا تھا۔پرفارمنس میں نمایاں رہتی۔

ان دو سالوں میں کبھی اس کی شکایت نہیں آئی۔ آج جوپہلی شکایت بنا رہا تھا تو وہ شکایت بھی اس کے باپ سے تھی اور اسی کے بارے میں کہنی تھی۔اتنے میں گھنٹی بجی اور سارے بچے خوشی خوشی میدان کی طرف چل نکلے۔

ہفتہ بعد انعامات کا دن آیا۔ جب تیسری کلاس کی پہلی پوزیشن کے لییے تالیاں بجیں تو ہال میں رومیسہ کی طرف سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔سب بچوں نے اور اس کی کلاس فیلوز نے زور زور سے شاباشی دی۔

رومیسہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور میں نے سر پہ ہاتھ رکھا۔

ان دنوں میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ پر دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا اور میری اولاد ہو تو رومیسہ کی طرح باداب بھی ہو اور ذہین و محنتی بھی ہو۔

--------------------------

ایک دن بارش بہت تیز ہورہی تھی۔اتنی تیز کے سڑک پہ ڈرائیو کرنے والے دھیما چلا رہے تھے۔بعض توکچے پہ ڈال کر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔گاؤں کی سڑکیں پہلے ہی خستہ حال ہوتی ہیں۔پہلا پیریڈ بہت دیر سے شروع ہوا کیوں کہ سکول کے کئی بچے دور دروز سے آرہے تھے۔کسی کا بیگ بارش سے بھیگ چکا ہے۔کسی کی چھتری میں سوراخ ہیں۔اک بچہ روتا ہوا سکول میں پہنچا تو اس کی ساری پینٹ کیچڑ میں لت پت ہوچکی تھی۔شاید کہیں رستے میں بری طرح سلپ ہوگیا تھا۔اک مس  نے کپڑوں پہ جو نیل لگایا تھا وہ بارش میں دھل کر عجیب ہی ڈیزائن بنا چکا تھا۔

بچوں کی بلیک بورڈ پہ کام لکھوا کر خود کینٹین چلا گیا۔ چچا کو بولا کہ میرے لیے اک کپ چائے کا بنا دیں۔ابھی کپ اٹھائے کلاس روم کی طرف جارہا تھا کہ دروازہ پہ رومیسہ کے ساتھ اک بوڑھا آدمی دیکھا۔کیا یہی وہ انسان ہے جس سے میں نے بہت سے سوال کرنے ہیں۔ کیا یہ رومیسہ کا باپ تو نہیں ہے جو کبھی انعامات والے دن بھی نہیں آیا ؟

میں نے جلدی سے میز پہ چائے کا کپ چھوڑا اور تقریبا دوڑتا ہوا مین دروازہ کی طرف لپکا۔

رومیسہ نے ننھے ہاتھوں سے مجھے سلام کیا۔ چھتری اس آدمی کو واپس کی۔

‘‘آپ رومیسہ کے ابو ہیں؟’’ میں نے جلدی سے سوال پوچھا

؂اس شخص نے جلدی سے سرہلایا۔ اور واپسی کے لیے مڑا۔میں کپڑے گیلے ہونے کی پرواہ کیے بغیرباہر نکل آیا۔

‘‘اندر آئیے میرے ساتھ اک کپ چائے پی لیں۔ ’’ میں نے ترکی بہ ترکی کہا

‘‘تم استادوں کو چائے پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے؟سکول میں پڑھانے آتے ہو یا شغل میلے کرنے۔۔۔حد ہے۔’’ انہوں نے تقریبا مجھے ڈانتے ہوئے کہا اور میں اپنا منہ سابنا کر رہ گیا۔

عموما دیہاتوں میں اساتذہ کی بہت قدر کی جاتی ہے۔ ماسٹر جی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ہر محفل میں ان کی بات کو باوزن سمجھا جاتا ہے۔ پر یہاں معاملہ ہی الٹ تھا۔

رومیسہ کے ابو کو آخر مسئلہ کیا ہے؟ یہ سوال میرے دل میں ہی کہیں تحلیل ہوگیا۔

مجھے اس بات کا جواب چاہیے تھا۔مگر نہ رومیسہ کچھ بولتی تھی اور اس کے ابو تو سکول سے دور دور رہتے۔

--------------------------

ایک دن ہوم ورک چیک کرتے ہوئے میں نے رومیسہ سے پوچھا:

‘‘تم نے اپنی مما کا کبھی نہیں بتایا۔ تمھاری امی کدھر ہوتی ہیں کیا وہ گھر پہ کام میں زیادہ مصروف ہوتی ہیں؟’’

رومیسہ نے قمیض کا کنارہ انگلیوں میں دبایا اور گویا ہوئی:ـ

‘‘سر! وہ تو اللہ جی کے پاس چلی گی ہیں۔’’

تفصیل پوچھنے پہ کہنے لگی:

‘‘وہ جو زلزلہ نہیں آیا تھا۔ آٹھ اکتوبر والا اس میں امی اندر بند کمرے میں تھیں اور ہماری چھت گر گی۔جب باہر نکالا تو وہ مجھے اکیلا چھوڑ گی تھیں۔’’ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز پھر لرزا گی۔ساتھ کھڑی مہوش کہنے لگی:

‘‘سر جی۔۔۔سرجی۔۔۔۔اس کی ماما جب باہر نکالی گئیں تو ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا ۔ سب کہتے کہ وہ اللہ والی تھیں۔ تب بھی اللہ جی کی کتاب پڑھ رہی تھیں۔’’

یہ سنتے ہوئے جب میں نے رومیسہ کے چہرے پہ دیکھا توفخر جیسے تاثرات اس کے چہرے پہ ابھرنے لگے۔

اداسی، الحمدللہ میں بدل چکی تھی۔

--------------------------

اتوار کا دن تھا۔

میں دریا کنارے سے بائیک لیکر جارہا تھا۔

کوئی دس منٹ کی رائیڈنگ کے بعد مسجد آتی ہے۔سوچا کہ وہاں جاکر ظہر کی نماز ادا کروں گا۔

شہر سے دور گاؤں میں پوسٹنگ ہونا بہت سے چیلنجز لے کر آتا ہے۔ مگر ان مسائل کے علاوہ اک فائدہ بھی ہے۔

بالاکوٹ کی فضا ہی کچھ ایسی تھی۔دریا ٹھاٹھیں مارتا ہوا دور جنوب کی طرف بہہ رہا تھا۔اک کنارے میں کچھ مچھیرے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ٹراؤٹ مچھلی کے منتظر تھے۔اونچے پربت سبز رنگوں سے بھرے ہوئے تھے۔

اس جنت نظیر لمحے کو انجوائے کرتے ہوئے اچانک میرا بائیک رک گیا۔

اپنے طور دس منٹ کوشش کرتا رہا مگر بائیک ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

بلآخر ہیڈ ماسٹر نے نمبر دیا کہ اقبال بالے کو کال کرو وہ آکر تمھارا بائیک دیکھ لے گا۔گاؤں کا مشہور بائیک مکینک ہے۔

اتنے میں دور مسجد سے ظہر کی اذان کی آواز آنے لگی۔دریا کنارے ہی اک بڑے سے پتھر پہ نماز ادا کی۔اتنے میں درختوں کی اوٹ سے مکینک بھی قریب آنے لگا۔

ارے یہ کیا یہ اقبال تو رومیسہ کا باپ ہے۔

وہی موٹا بھرا ہوا جسم، عمر کے حساب سے کوئی چالیس سال کا لگتا تھا۔انگلی انگوٹھیوں سے بھری ہوئی تھیں۔

میں قدرے حیران اور خوش بھی ہوا۔

وہ بائیک دیکھنے لگا۔

مجھے مسکراتی کھکھلاتی نظروں سے دیکھنے لگا۔بائیک دیکھنے سے پہلے اک چنکی نسوار کی ڈالی اور شروع ہوگیا۔کچھ دیر بعد بائیک پہلے کی طرح چلنے لگا۔

مجھے لگا پانچ سو کا کل خرچہ آئے گا مگر اقبال نے صرف دوسو روپے لیے اور کہنے لگا:

‘‘آپ میری بیٹی کے فیورٹ ٹیچر ہو۔ تبھی آپ سے صرف آنے جانے کا خرچہ لے رہا ہوں۔ وگرنہ بالے گاؤں میں زیادہ چارج کرنے کے حساب سے بدنام بھی ہے۔’’ یہ کہتے ہوئے اس نے کالر کو اونچا کیا۔

مجھے اس انسان کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔

دریا کنارے یہ نارمل اور خوشگوار موڈمیں ملا۔وہیں سکول کے دروازے پہ مجھے تقریبا ڈانٹ کر چلا گیا تھا۔

کیا جگہوں کے بدلنے سے ہم انسانوں کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔

یا اب میں گاہک تھا اور وہ مکینک۔۔۔۔یا کوئی اور بات تھی۔

--------------------------

سوموار کو سکول لگا۔رومیسہ غیر حاضر۔

منگل کو رومیسہ پھر موجود نہیں تھی۔

بدھ والے دن بھی وہی صورتحال رہی۔

بالٓاخر جمعرا ت کو وہ آئی۔

میں جب اردو پڑھانے پہنچا تو رومیسہ قدرے پریشان تھی ۔

اسے پرنسپل کے آفس میں بلایا گیا۔بیمار تھی مگر درخواست نہ دینے کی وجہ سے اسے تین سو روپے جرمانہ ہوا۔واپس کلاس میں انگلش والے ٹیچر نے ہوم ورک بھی بڑھا دیا۔

بلیک بورڈ سے لکھتے وقت میں اس کے پاس گیا۔

‘‘میری بیٹی رومیسہ کدھر گم تھی؟ اتنی چھٹیاں کون کرتا ہے؟’’

کاپی پہ مارجن بناتے ہوئے کہنے لگی:

‘‘سر میں بیمار تھی ۔ پرنسپل سر کہتے کے درخواست تو بھیج سکتی تھی ناں۔ ابو کو لکھنا نہیں آتا۔امی اس دنیا میں نہیں ہیں۔اور کوئی بہن بھائی بھی نہیں۔اب ابا کو بتاؤں گی تو وہ الگ پریشان ہونگے۔’’

مزید کام لکھوانے کے بعد میں خاموشی سے کلاس سے باہر نکل چکا تھا۔

--------------------------

دو دن بعد رومیسہ اپنے ابا کے ساتھ سکول کے دروازے پہ کھڑی تھی۔گارڈ بھاگتا ہوا آیا اور مجھے بتانے لگا کہ دروازے پہ بلا رہے ہیں۔جب دروازہ پہ پہنچا تو وہ اقبال کہنے لگا:

‘‘ماسٹر جی!میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔’’

میں نے ویلکم کیا مگر دل میں ہی سوچنے لگا کہ یہ اقبال کے بدلتے روپ کی سمجھ نہیں آرہی۔کیسا عجیب انسان ہے۔میں نے محسوس کیا وہ مجھ سے اجازت چاہ رہا ہو کہ اسے سکول کے دروازے سے اندر کرادوں۔

میں نے مسکراتے ہوئے اسے اندر آنے کو کہا مگر وہ جھجکا اور کہنے لگا:

‘‘ماسٹر جی! میں اندر آجاؤں۔۔۔۔’’

اب کی بار میں نے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ایک خالی کمرے میں لے گیا۔چائے کا بول کر میں سیدھا سوال پہ گیا:

‘‘یہ تم سکول کتنے عرصے بعد آئے ہو جو مجھ سے اجازت لے رہے تھے؟’’

وہ کچھ پشیمانی سے انگلیوں پہ گننے لگا۔

‘‘اٹھائیس سال بعد۔’’

‘‘واٹ۔۔۔۔۔اتنے سال بعد کبھی جانا نہیں ہوا۔ آخری اسکی وجہ کیا ہے؟’’

اتنے میں کینٹین والے انکل ہمیں کپ چائے دے گے۔

اس نے چائے کی لمبی چسکی لی۔ دور سامنے میدان میں دیکھنے لگا۔ جہاں میدان کے مرکز میں اک بہت بڑا درخت تن تنہا کھڑا تھا۔

‘‘ماسٹر جی۔میں بچپن سے شرارتی تھا۔ سکول بھی جانے کا من تبھی ہوتا تھا کہ شرارتی فیلوز مل جاتے۔ایک بار میں سکول روانہ ہوا تو رستے میں مجھے یاد آیا کہ ہوم ورک والی کاپی تو وہیں کچن میں رہ گی ہے جدھر صبح ناشتہ کررہا تھا۔جلدی جلدی واپس آیا اور دوبارہ سکول کی طرف چل دیا۔جب سکول پہنچا توکلاسسز شروع ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ سر اکرم نے مجھے دیکھتے ہی غصہ کیا۔اور پورے پیریڈ میں کھڑا رہا۔اس واقعہ کے کوئی اک ہفتے بعد میں دوبارہ سے سکول کے لیے گھر سے نکلا۔جیسے ہی سٹیشنری کی دوکان سے کاپیاں خریدیں تو یاد آیا کہ سر اکرام کا ہوم ورک کیا ہی نہیں۔ گذشتہ دن میں دیر تک کرکٹ کھیلتا رہا اور بھول گیا۔ اب دوکان پہ کھڑا کشمکش میں مبتلا تھا۔ سویر ے سردی میں مار کھانے سے گھبرارہا تھا۔گھر جاؤں گا تو اماں سکول کا بولیں گے۔ سکول جاؤں گا تو اکرام سر سزا دیں گے۔اسی ڈر سے میں درمیانی گلی سے نکلتا ہوا دریا کنارے چل دیا۔وہیں بیگ رکھا اور ظہر کی اذان تک وہیں چھپا رہا۔ جب بچے یونیفارم میں واپس گھروں کو جانے لگے تو میں بھی شامل ہوگیا۔دوسرے دن پھر وہی صورتحال تھی۔ آج دریا کنارے بیٹھا تھا کہ دوسرے سکول کے دو اور بچے ملے۔وہ بھی میری طرح چھپے ہوئے تھے۔بس پھر کیا تھا ہم روزانہ ادھر ہی کھیلتے رہتے اور چھپ چھپا کے واپسی پہ شامل ہوجاتے۔ یہ سلسلہ بمشکل اک ہفتہ چل سکا کہ ایک دن ہم یونہی کھیلنا شروع ہوئے تھے کہ سر اکرام چھڑی لیے پہنچ آئے۔ بعد کے حالات سے پتہ چلا کہ وہ مجھے گھر سے نکلتے سمے ہی فالو کر رہے تھے۔ مجھے سیدھا سکول لے کر گے۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔’’

یہ کہتے ہوئے اقبال کی زبان لرزنے لگی۔

وہ کچھ کہنا چاہ رہ تھا ،مگر ہمت نہیں بندھ رہی تھی اور وہ چاہ رہا تھاکہ کچھ بولے مگر الفاظ تھے کہ زبان پہ آنے سے رہے۔

میں نے کندھے پہ پیار سے ہاتھ رکھا۔

‘‘ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔بولو تو آگے کیا ہوا؟’’

‘‘سر بشارت نے وہ سامنے والے بڑے درخت کے سامنے پہلے مجھے خوب چھڑیاں ماریں۔پھر رسی منگوائی۔میں منتیں سماجتیں کرتا رہا۔سر آیندہ ایسا نہیں کروں گا۔ مگر سر نے شاید مجھے عبرت بنانے کی سوچ رکھی تھی۔ رسی منگوا کر مجھے ہاتھ پاؤں سے باندھا گیا۔اور درخت کی شاخ سے گزار کر لٹکا دیا گیا۔افف خدایا۔وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔اک طرف جسم ہوا میں لٹکا ہوا، دوسری طرف مار پڑ رہی اور اس پہ طرفہ تماشا کہ ساری کلاس سے بچے کھڑکیاں کھولے جھانک رہے تھے۔ میں تقریبا بے ہوش ہوگیا۔کسی طرح گھر پہنچا۔وہ دن اور آج کا دن میں امی ابو کے لاکھ کہنے کے باوجود سکول نہیں گیا۔ سکول کا نام سنتے ہی میں بے چین ہوجاتا تھا۔سر اکرام خوابوں میں ڈراتے ہوئے آسیب جیسے معلوم ہوتے تھے۔’’

وہ کچھ دیر چپ اسی درخت کو دیر تک دیکھتا رہا۔

‘‘سر۔۔۔۔کاش ایسا کبھی نہ ہوتا۔مجھے سزا دینی تھی تو بند کمرے میں ہی دے دیتے۔پورے سکول کے سامنے مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔اٹھائیس سال ہوگے مجھے استاد نام سے نفرت ہے۔ سکول مجھے قصائیوں کا دفتر معلوم ہوتے ہیں۔’’

‘‘مگر تم اٹھائیس سال بعد واپس کیسے آگے؟ یوں اچانک۔۔۔اتنے سالوں کی نفرت یوں کم کیسے ہوئ؟’’

میں نے پرتجسس انداز میں سوال کیا۔

اقبال مکینک نے جیب سے اک صفحہ نکالا۔اور میری طرف بڑھا دیا۔ اس میں ٹوٹی پھوٹی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ وہ اقبال کے اپنے الفاظ اپنی زبان تھی۔کچھ ایسا بیان تھا۔

السلام علیکم مکرمی ماسٹر رضا صاحب!

ٓمیری بیٹی ہمیشہ کہتی ہے کہ سر رضابہت اچھے ہیں اور میں ہمیشہ کہتا تھا کہ استاد قصائی سے برے نہیں ہوتے۔چاہے وہ آسمانوں سے ہی کیوں نہ اترآئیں۔آپ نے تین دن غیر حاضری کے باوجود میری دھی رانی کا جرمانہ معاف کرایا۔اسے سزا سے بچایا وہ آج پھر شوق سے پڑھ رہی ہے۔

کاش مجھے سزا سے بچا دیا جاتا اور میرا دھیان پڑھائی کی طرف رہتا۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

وسلام،

محمد اقبال حسین

رول نمبر اٹھارہ

جماعت سوئم

اقبال نے اپنے سکول کا رول نمبر اور مکمل نام لکھا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

دیدبان شمارہ ۔ ۲۲ ۲۰۲۴؁

افسانہ:اٹھائیس سال بعد

افسانہ نگار: بلال مختار

bilalmukhtar106@gmail.com

ـ‘‘سر آپ نہیں سمجھینگے۔ ابو کو نہیں آنا، نہیں آنا ۔’’ رومیسہ نے تقریبا روتے ہوئے کہا

‘‘مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ سارے طالب علموں  کے والدین آئے ہیں ۔تم تو امتحانات میں نمبر ون آئی ہو۔تمھاری تو کوئی شکایت بھی نہیں بنتی۔ میری بیٹی میں تو چاہتا ہوں کہ تمھارے ابو آئیں اور ہم انہیں شاباشی دیں۔’’ میں نے رومیسہ کو سمجھاتے ہوئے کہا

اس کے پاس میری بات کا جواب آنسوؤں کی صورت ملا۔ مجھے تجسس رہا کہ ایسا کون باپ ہے جو اس دن بھی چھپ رہا ہو جس دن اس کی اولاد کے لیے تالیاں بجائی جائیں اور وہ نہ آئے۔ رومیسہ میری تیسری کلاس کی ہونہار بیٹی تھی۔جماعت میں سب سے ذہین اور باداب۔ کوئی دو سال پہلے اسے دوسری سکول سے نکال کر ہمارے سکول میں داخل کیا گیا تھا۔پرفارمنس میں نمایاں رہتی۔

ان دو سالوں میں کبھی اس کی شکایت نہیں آئی۔ آج جوپہلی شکایت بنا رہا تھا تو وہ شکایت بھی اس کے باپ سے تھی اور اسی کے بارے میں کہنی تھی۔اتنے میں گھنٹی بجی اور سارے بچے خوشی خوشی میدان کی طرف چل نکلے۔

ہفتہ بعد انعامات کا دن آیا۔ جب تیسری کلاس کی پہلی پوزیشن کے لییے تالیاں بجیں تو ہال میں رومیسہ کی طرف سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔سب بچوں نے اور اس کی کلاس فیلوز نے زور زور سے شاباشی دی۔

رومیسہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور میں نے سر پہ ہاتھ رکھا۔

ان دنوں میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ پر دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا اور میری اولاد ہو تو رومیسہ کی طرح باداب بھی ہو اور ذہین و محنتی بھی ہو۔

--------------------------

ایک دن بارش بہت تیز ہورہی تھی۔اتنی تیز کے سڑک پہ ڈرائیو کرنے والے دھیما چلا رہے تھے۔بعض توکچے پہ ڈال کر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔گاؤں کی سڑکیں پہلے ہی خستہ حال ہوتی ہیں۔پہلا پیریڈ بہت دیر سے شروع ہوا کیوں کہ سکول کے کئی بچے دور دروز سے آرہے تھے۔کسی کا بیگ بارش سے بھیگ چکا ہے۔کسی کی چھتری میں سوراخ ہیں۔اک بچہ روتا ہوا سکول میں پہنچا تو اس کی ساری پینٹ کیچڑ میں لت پت ہوچکی تھی۔شاید کہیں رستے میں بری طرح سلپ ہوگیا تھا۔اک مس  نے کپڑوں پہ جو نیل لگایا تھا وہ بارش میں دھل کر عجیب ہی ڈیزائن بنا چکا تھا۔

بچوں کی بلیک بورڈ پہ کام لکھوا کر خود کینٹین چلا گیا۔ چچا کو بولا کہ میرے لیے اک کپ چائے کا بنا دیں۔ابھی کپ اٹھائے کلاس روم کی طرف جارہا تھا کہ دروازہ پہ رومیسہ کے ساتھ اک بوڑھا آدمی دیکھا۔کیا یہی وہ انسان ہے جس سے میں نے بہت سے سوال کرنے ہیں۔ کیا یہ رومیسہ کا باپ تو نہیں ہے جو کبھی انعامات والے دن بھی نہیں آیا ؟

میں نے جلدی سے میز پہ چائے کا کپ چھوڑا اور تقریبا دوڑتا ہوا مین دروازہ کی طرف لپکا۔

رومیسہ نے ننھے ہاتھوں سے مجھے سلام کیا۔ چھتری اس آدمی کو واپس کی۔

‘‘آپ رومیسہ کے ابو ہیں؟’’ میں نے جلدی سے سوال پوچھا

؂اس شخص نے جلدی سے سرہلایا۔ اور واپسی کے لیے مڑا۔میں کپڑے گیلے ہونے کی پرواہ کیے بغیرباہر نکل آیا۔

‘‘اندر آئیے میرے ساتھ اک کپ چائے پی لیں۔ ’’ میں نے ترکی بہ ترکی کہا

‘‘تم استادوں کو چائے پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے؟سکول میں پڑھانے آتے ہو یا شغل میلے کرنے۔۔۔حد ہے۔’’ انہوں نے تقریبا مجھے ڈانتے ہوئے کہا اور میں اپنا منہ سابنا کر رہ گیا۔

عموما دیہاتوں میں اساتذہ کی بہت قدر کی جاتی ہے۔ ماسٹر جی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ہر محفل میں ان کی بات کو باوزن سمجھا جاتا ہے۔ پر یہاں معاملہ ہی الٹ تھا۔

رومیسہ کے ابو کو آخر مسئلہ کیا ہے؟ یہ سوال میرے دل میں ہی کہیں تحلیل ہوگیا۔

مجھے اس بات کا جواب چاہیے تھا۔مگر نہ رومیسہ کچھ بولتی تھی اور اس کے ابو تو سکول سے دور دور رہتے۔

--------------------------

ایک دن ہوم ورک چیک کرتے ہوئے میں نے رومیسہ سے پوچھا:

‘‘تم نے اپنی مما کا کبھی نہیں بتایا۔ تمھاری امی کدھر ہوتی ہیں کیا وہ گھر پہ کام میں زیادہ مصروف ہوتی ہیں؟’’

رومیسہ نے قمیض کا کنارہ انگلیوں میں دبایا اور گویا ہوئی:ـ

‘‘سر! وہ تو اللہ جی کے پاس چلی گی ہیں۔’’

تفصیل پوچھنے پہ کہنے لگی:

‘‘وہ جو زلزلہ نہیں آیا تھا۔ آٹھ اکتوبر والا اس میں امی اندر بند کمرے میں تھیں اور ہماری چھت گر گی۔جب باہر نکالا تو وہ مجھے اکیلا چھوڑ گی تھیں۔’’ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز پھر لرزا گی۔ساتھ کھڑی مہوش کہنے لگی:

‘‘سر جی۔۔۔سرجی۔۔۔۔اس کی ماما جب باہر نکالی گئیں تو ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا ۔ سب کہتے کہ وہ اللہ والی تھیں۔ تب بھی اللہ جی کی کتاب پڑھ رہی تھیں۔’’

یہ سنتے ہوئے جب میں نے رومیسہ کے چہرے پہ دیکھا توفخر جیسے تاثرات اس کے چہرے پہ ابھرنے لگے۔

اداسی، الحمدللہ میں بدل چکی تھی۔

--------------------------

اتوار کا دن تھا۔

میں دریا کنارے سے بائیک لیکر جارہا تھا۔

کوئی دس منٹ کی رائیڈنگ کے بعد مسجد آتی ہے۔سوچا کہ وہاں جاکر ظہر کی نماز ادا کروں گا۔

شہر سے دور گاؤں میں پوسٹنگ ہونا بہت سے چیلنجز لے کر آتا ہے۔ مگر ان مسائل کے علاوہ اک فائدہ بھی ہے۔

بالاکوٹ کی فضا ہی کچھ ایسی تھی۔دریا ٹھاٹھیں مارتا ہوا دور جنوب کی طرف بہہ رہا تھا۔اک کنارے میں کچھ مچھیرے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ٹراؤٹ مچھلی کے منتظر تھے۔اونچے پربت سبز رنگوں سے بھرے ہوئے تھے۔

اس جنت نظیر لمحے کو انجوائے کرتے ہوئے اچانک میرا بائیک رک گیا۔

اپنے طور دس منٹ کوشش کرتا رہا مگر بائیک ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

بلآخر ہیڈ ماسٹر نے نمبر دیا کہ اقبال بالے کو کال کرو وہ آکر تمھارا بائیک دیکھ لے گا۔گاؤں کا مشہور بائیک مکینک ہے۔

اتنے میں دور مسجد سے ظہر کی اذان کی آواز آنے لگی۔دریا کنارے ہی اک بڑے سے پتھر پہ نماز ادا کی۔اتنے میں درختوں کی اوٹ سے مکینک بھی قریب آنے لگا۔

ارے یہ کیا یہ اقبال تو رومیسہ کا باپ ہے۔

وہی موٹا بھرا ہوا جسم، عمر کے حساب سے کوئی چالیس سال کا لگتا تھا۔انگلی انگوٹھیوں سے بھری ہوئی تھیں۔

میں قدرے حیران اور خوش بھی ہوا۔

وہ بائیک دیکھنے لگا۔

مجھے مسکراتی کھکھلاتی نظروں سے دیکھنے لگا۔بائیک دیکھنے سے پہلے اک چنکی نسوار کی ڈالی اور شروع ہوگیا۔کچھ دیر بعد بائیک پہلے کی طرح چلنے لگا۔

مجھے لگا پانچ سو کا کل خرچہ آئے گا مگر اقبال نے صرف دوسو روپے لیے اور کہنے لگا:

‘‘آپ میری بیٹی کے فیورٹ ٹیچر ہو۔ تبھی آپ سے صرف آنے جانے کا خرچہ لے رہا ہوں۔ وگرنہ بالے گاؤں میں زیادہ چارج کرنے کے حساب سے بدنام بھی ہے۔’’ یہ کہتے ہوئے اس نے کالر کو اونچا کیا۔

مجھے اس انسان کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔

دریا کنارے یہ نارمل اور خوشگوار موڈمیں ملا۔وہیں سکول کے دروازے پہ مجھے تقریبا ڈانٹ کر چلا گیا تھا۔

کیا جگہوں کے بدلنے سے ہم انسانوں کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔

یا اب میں گاہک تھا اور وہ مکینک۔۔۔۔یا کوئی اور بات تھی۔

--------------------------

سوموار کو سکول لگا۔رومیسہ غیر حاضر۔

منگل کو رومیسہ پھر موجود نہیں تھی۔

بدھ والے دن بھی وہی صورتحال رہی۔

بالٓاخر جمعرا ت کو وہ آئی۔

میں جب اردو پڑھانے پہنچا تو رومیسہ قدرے پریشان تھی ۔

اسے پرنسپل کے آفس میں بلایا گیا۔بیمار تھی مگر درخواست نہ دینے کی وجہ سے اسے تین سو روپے جرمانہ ہوا۔واپس کلاس میں انگلش والے ٹیچر نے ہوم ورک بھی بڑھا دیا۔

بلیک بورڈ سے لکھتے وقت میں اس کے پاس گیا۔

‘‘میری بیٹی رومیسہ کدھر گم تھی؟ اتنی چھٹیاں کون کرتا ہے؟’’

کاپی پہ مارجن بناتے ہوئے کہنے لگی:

‘‘سر میں بیمار تھی ۔ پرنسپل سر کہتے کے درخواست تو بھیج سکتی تھی ناں۔ ابو کو لکھنا نہیں آتا۔امی اس دنیا میں نہیں ہیں۔اور کوئی بہن بھائی بھی نہیں۔اب ابا کو بتاؤں گی تو وہ الگ پریشان ہونگے۔’’

مزید کام لکھوانے کے بعد میں خاموشی سے کلاس سے باہر نکل چکا تھا۔

--------------------------

دو دن بعد رومیسہ اپنے ابا کے ساتھ سکول کے دروازے پہ کھڑی تھی۔گارڈ بھاگتا ہوا آیا اور مجھے بتانے لگا کہ دروازے پہ بلا رہے ہیں۔جب دروازہ پہ پہنچا تو وہ اقبال کہنے لگا:

‘‘ماسٹر جی!میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔’’

میں نے ویلکم کیا مگر دل میں ہی سوچنے لگا کہ یہ اقبال کے بدلتے روپ کی سمجھ نہیں آرہی۔کیسا عجیب انسان ہے۔میں نے محسوس کیا وہ مجھ سے اجازت چاہ رہا ہو کہ اسے سکول کے دروازے سے اندر کرادوں۔

میں نے مسکراتے ہوئے اسے اندر آنے کو کہا مگر وہ جھجکا اور کہنے لگا:

‘‘ماسٹر جی! میں اندر آجاؤں۔۔۔۔’’

اب کی بار میں نے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ایک خالی کمرے میں لے گیا۔چائے کا بول کر میں سیدھا سوال پہ گیا:

‘‘یہ تم سکول کتنے عرصے بعد آئے ہو جو مجھ سے اجازت لے رہے تھے؟’’

وہ کچھ پشیمانی سے انگلیوں پہ گننے لگا۔

‘‘اٹھائیس سال بعد۔’’

‘‘واٹ۔۔۔۔۔اتنے سال بعد کبھی جانا نہیں ہوا۔ آخری اسکی وجہ کیا ہے؟’’

اتنے میں کینٹین والے انکل ہمیں کپ چائے دے گے۔

اس نے چائے کی لمبی چسکی لی۔ دور سامنے میدان میں دیکھنے لگا۔ جہاں میدان کے مرکز میں اک بہت بڑا درخت تن تنہا کھڑا تھا۔

‘‘ماسٹر جی۔میں بچپن سے شرارتی تھا۔ سکول بھی جانے کا من تبھی ہوتا تھا کہ شرارتی فیلوز مل جاتے۔ایک بار میں سکول روانہ ہوا تو رستے میں مجھے یاد آیا کہ ہوم ورک والی کاپی تو وہیں کچن میں رہ گی ہے جدھر صبح ناشتہ کررہا تھا۔جلدی جلدی واپس آیا اور دوبارہ سکول کی طرف چل دیا۔جب سکول پہنچا توکلاسسز شروع ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ سر اکرم نے مجھے دیکھتے ہی غصہ کیا۔اور پورے پیریڈ میں کھڑا رہا۔اس واقعہ کے کوئی اک ہفتے بعد میں دوبارہ سے سکول کے لیے گھر سے نکلا۔جیسے ہی سٹیشنری کی دوکان سے کاپیاں خریدیں تو یاد آیا کہ سر اکرام کا ہوم ورک کیا ہی نہیں۔ گذشتہ دن میں دیر تک کرکٹ کھیلتا رہا اور بھول گیا۔ اب دوکان پہ کھڑا کشمکش میں مبتلا تھا۔ سویر ے سردی میں مار کھانے سے گھبرارہا تھا۔گھر جاؤں گا تو اماں سکول کا بولیں گے۔ سکول جاؤں گا تو اکرام سر سزا دیں گے۔اسی ڈر سے میں درمیانی گلی سے نکلتا ہوا دریا کنارے چل دیا۔وہیں بیگ رکھا اور ظہر کی اذان تک وہیں چھپا رہا۔ جب بچے یونیفارم میں واپس گھروں کو جانے لگے تو میں بھی شامل ہوگیا۔دوسرے دن پھر وہی صورتحال تھی۔ آج دریا کنارے بیٹھا تھا کہ دوسرے سکول کے دو اور بچے ملے۔وہ بھی میری طرح چھپے ہوئے تھے۔بس پھر کیا تھا ہم روزانہ ادھر ہی کھیلتے رہتے اور چھپ چھپا کے واپسی پہ شامل ہوجاتے۔ یہ سلسلہ بمشکل اک ہفتہ چل سکا کہ ایک دن ہم یونہی کھیلنا شروع ہوئے تھے کہ سر اکرام چھڑی لیے پہنچ آئے۔ بعد کے حالات سے پتہ چلا کہ وہ مجھے گھر سے نکلتے سمے ہی فالو کر رہے تھے۔ مجھے سیدھا سکول لے کر گے۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔’’

یہ کہتے ہوئے اقبال کی زبان لرزنے لگی۔

وہ کچھ کہنا چاہ رہ تھا ،مگر ہمت نہیں بندھ رہی تھی اور وہ چاہ رہا تھاکہ کچھ بولے مگر الفاظ تھے کہ زبان پہ آنے سے رہے۔

میں نے کندھے پہ پیار سے ہاتھ رکھا۔

‘‘ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔بولو تو آگے کیا ہوا؟’’

‘‘سر بشارت نے وہ سامنے والے بڑے درخت کے سامنے پہلے مجھے خوب چھڑیاں ماریں۔پھر رسی منگوائی۔میں منتیں سماجتیں کرتا رہا۔سر آیندہ ایسا نہیں کروں گا۔ مگر سر نے شاید مجھے عبرت بنانے کی سوچ رکھی تھی۔ رسی منگوا کر مجھے ہاتھ پاؤں سے باندھا گیا۔اور درخت کی شاخ سے گزار کر لٹکا دیا گیا۔افف خدایا۔وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔اک طرف جسم ہوا میں لٹکا ہوا، دوسری طرف مار پڑ رہی اور اس پہ طرفہ تماشا کہ ساری کلاس سے بچے کھڑکیاں کھولے جھانک رہے تھے۔ میں تقریبا بے ہوش ہوگیا۔کسی طرح گھر پہنچا۔وہ دن اور آج کا دن میں امی ابو کے لاکھ کہنے کے باوجود سکول نہیں گیا۔ سکول کا نام سنتے ہی میں بے چین ہوجاتا تھا۔سر اکرام خوابوں میں ڈراتے ہوئے آسیب جیسے معلوم ہوتے تھے۔’’

وہ کچھ دیر چپ اسی درخت کو دیر تک دیکھتا رہا۔

‘‘سر۔۔۔۔کاش ایسا کبھی نہ ہوتا۔مجھے سزا دینی تھی تو بند کمرے میں ہی دے دیتے۔پورے سکول کے سامنے مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔اٹھائیس سال ہوگے مجھے استاد نام سے نفرت ہے۔ سکول مجھے قصائیوں کا دفتر معلوم ہوتے ہیں۔’’

‘‘مگر تم اٹھائیس سال بعد واپس کیسے آگے؟ یوں اچانک۔۔۔اتنے سالوں کی نفرت یوں کم کیسے ہوئ؟’’

میں نے پرتجسس انداز میں سوال کیا۔

اقبال مکینک نے جیب سے اک صفحہ نکالا۔اور میری طرف بڑھا دیا۔ اس میں ٹوٹی پھوٹی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ وہ اقبال کے اپنے الفاظ اپنی زبان تھی۔کچھ ایسا بیان تھا۔

السلام علیکم مکرمی ماسٹر رضا صاحب!

ٓمیری بیٹی ہمیشہ کہتی ہے کہ سر رضابہت اچھے ہیں اور میں ہمیشہ کہتا تھا کہ استاد قصائی سے برے نہیں ہوتے۔چاہے وہ آسمانوں سے ہی کیوں نہ اترآئیں۔آپ نے تین دن غیر حاضری کے باوجود میری دھی رانی کا جرمانہ معاف کرایا۔اسے سزا سے بچایا وہ آج پھر شوق سے پڑھ رہی ہے۔

کاش مجھے سزا سے بچا دیا جاتا اور میرا دھیان پڑھائی کی طرف رہتا۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

وسلام،

محمد اقبال حسین

رول نمبر اٹھارہ

جماعت سوئم

اقبال نے اپنے سکول کا رول نمبر اور مکمل نام لکھا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024