تانیثی تھیوری اور اردو نظم
تانیثی تھیوری اور اردو نظم
Apr 7, 2018
تانیثی تھیوری یا ادب کاتانیثی مطالعہ
دیدبان شمارہ ۔۳
تانیثی تھیوری اور اردو نظم
مصنف : قاسم یعقوب
تانیثی تھیوری یا ادب کاتانیثی مطالعہ کن سوالوں کے ساتھ ادب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے؟ کیا تانیثیت کے وہی فکری اہداف ہیں جن کا ذکر ادب میں تانیثی تھیوری کی بحثوں میں ملتا ہے؟ تانیثی مطالعات نے ان معروضات کی تشفی کے لیے تاریخ کے باطن سے راہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ادبی تھیوری جو ادب کے تشکیل معنی کے نظام کو گرفت میں لینے کا مطالعہ ہے تانیثی تجزیوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب ادبی تھیوری کا چلن عام ہوا تواس کے ساتھ ہی ادب کے موضوعاتی مطالعوں کو بھی راہ ملی۔ مابعد نو آبادیاتی اور تانیثی مطالعوں کو ’’نظریانے‘‘ کے پیچھے مابعدجدید فکرکا وہی بنیادی اصول کارفرما تھا کہ وہ تمام اشیا جو مرکزی سمجھی جا رہی ہیں وہ اُن اشیا سے بدلی جا سکتی ہیں جو متن مرکز نہیں یا جنھیں حاشیے پر سمجھا جا رہا ہے۔ اصل میں کسی بھی شے کا حتمی ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ جو جتنا حاضر ہے اُتنا ہی غائب ہے۔ یوں حاشیے پر موجود اشیا کا بھی مرکزی دعوے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مرکزی متن پر موجود فکروں یا اشیا کا۔جو مرکزی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے وہ ...مکمل .. بتائی جا رہی ہے ورنہ وہ بھی ادھوری ہے ۔ اُسی طرح ادھوری جس طرح حاشیے پر موجود فکروں اور اشیا کو ادھورا یا خام ہونے کا سچ .. پہنا دیا جاتاہے۔مابعد جدید فکر نے ایک اور زاویے سے بھی اشیا کی ترتیب الٹنے کی کوشش کی ہے کہ سماجیاتی تشکیلات کی حیثیت تبدیل کی جا سکتی ہے کیوں کہ وہ ایک تشکیل کی حالت میں ہوتی ہیں جو جبر کی وجہ سے وہ ہیئت دکھا رہی ہو تی ہیں جو دکھانے کی کوشش کی جائے۔ اگر سماجیاتی تشکیلات کا کوئی اور رُخ متعین کر دیا جائے تو وہ اسی رُخ کو سچائی بنا کر پیش کر دیں گی۔ یعنی سماجی تشکیل پانے والی اشیا یا فکروں کا کوئی ایک روپ حتمی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ جبر سے مقدم یا موخر ہو سکتی ہیں۔ ان کی تمام شکلوں کو سامنے رکھنے اور اُن کی حیثیت کو ماننے کا نام ہی مابعد جدیدیت ہے۔ مابعد جدیدیت نے نو آبادیاتی فکر کا پردہ چاک کیا اور دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح معصوم قرات اُن حقائق کو چھپا لیتی ہے جو اصل میں کوئی اور روپ دھارے ہوتے ہیں ، آثاریاتی قرأت ہی دونوں اطراف دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہے،جس کی رو سے ہر فکر متن مرکز ہو سکتی ہے اور دبائی گئی سچائیاں جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ تانیثیت نے بھی مابعد جدید عہد کے ساتھ ہی تانیثی مطالعوں کو’نظریایا‘ اور تاریخ کے آئینے میں عورت کے مجموعی کردار اور اہلیت کو ماپنے کی کوشش کی۔یوں عورت تاریخ کے حاشیے سے مرکزِ متن بنائی جانے لگی۔
تانیثیت کو سمجھنے کی طرف پہلا بنیادی تھیسس یورپ میں پیش ہُوا،مگر یہ تھیسس عورت اور مرد کے درمیان برابری کے مسئلے کو اجاگر کرتا تھا۔ اس میں کسی خطے کے کلچر یا کسی سیاسی مسئلے کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔ عورت کیوں مرد سے حقیر تر ہے اور عورتوں کو وہ سماجی حقوق کیوں میسر نہیں جو صرف مرد ہونے کی وجہ سے مرد کو عطاکر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا پہلا سوال تھا جو باقاعدہ تانیثی تحریک کے آغاز کا موجب بنا۔
تانیثی تھیوری کے حوالے سے اُردو میں بہت کم مقالات میں تانیثیت کو’نظریانے ‘ کی کوشش کی گئی ہے۔ تانیثی تھیوری جس کی بنیاد پر ادب کی تانیثی تنقید وجود میں آئی، بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے
.۱
عورت معاشرے کے تناظر میں
یعنی عورت کے معاشرتی حقو ق کی جنگ، عورت کو سماجی طور پر مرد کے مقابلے میں مساوی حقوق دیے جانے کی جدوجہد۔
.۲
عورت مرد کے تناظر میں
یعنی مرد نے عورت کو کس طرح دیکھا یا اپنی تحریروں میں دکھایا ہے۔ عورت مرد کے مقابلے میں مرتبہ، درجہ اور حیثیت میں کہاں کھڑی ہے؟ اگر کوئی نا انصافی کی گئی ہے تو کیوں کی گئی اور اُس کے محرکات کیا تھے؟عورتوں کی دانشورانہ حیثیت مردوں کے تناظر سے کہاں متعین ہوتی ہے۔
.۳
عورت عورت کے تناظر میں
یعنی عورت کو عورت کے تناظر میں دیکھا یا پڑھا جائے۔ عورت ایک صنف کی حیثیت میں مرد کی محتاج نہیں بلکہ مرد عورت کو سمجھ ہی نہیں سکتا عورت ہی عورت کو سمجھ سکتی ہے۔ یوں عورت کو عورت کے مسائل کے ساتھ سامنے لایا جائے کہ عورت کی سماجی، سیاسی، حیاتیاتی اور نفسیاتی درجہ بندی عورت کے تناظر ہی سے متعین کی جائے۔
تانیثیت کے حوالے سے مغربی تاریخ میں انقلابِ فرانس کے بعد سے اس موضوع کو اہمیت دی جانے لگی ہے اس سلسلے میں سب سے اہم جان اسٹورٹ مل کی کتاب ہے
The Subjugation of Women
جس نے تانیثی حقوق کی آواز کو اس شدت سے اُٹھایا کہ اس کے خیالات کو لبرل فیمنزم کا نام دیا جانے لگا۔بیسویں صدی میں تانیثی تحریک کا سارا مواد ورجینا وولف کی کتاب
A Room of One's Own،
ڈورتھی رچرڈ سن کا ناول
Pilgrimage
اور سیمون دی بوائر کی کتاب
The second sex
نے فراہم کیا۔ تانیثی تحریک کا ادب کے اندر مضبوط اظہار کی ایک وجہ ان کتابوں کی اشاعت بھی تھی جنھوں نے تانیثیت کو ایک علمی وقار سے پیش کیا۔ تانیثی تحریک ادبی تحریک بن گئی جس نے عورت کے مقدمے کی فلسفیانہ حیثیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا۔بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں انتقادِ نسواں کا اسکول سامنے آیا جس کا نفسیات کے ساتھ بھی گہرا تعلق تھا۔خصوصاً فرائڈ کے جنسی نظریات نے عورت اور مرد کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی طرف کئی ایک اشارے فراہم کئے تھے۔تانیثی ناقدین نے فرائڈ کے ہاں عورت اور مرد کے جسمانی تفاوت کی بحثوں کو اپنے تھیسس میں پیش کیا۔ فرائڈ نے کہا تھاکہ عورت مرد کے مقابلے میں ایک قسم کی نفسیاتی کمی کا شکار ہوتی ہے۔ اُس کے جسم کی ساخت مرد جیسی نہیں، یہی احساس عورت کے اندر رشک اور احساسِ کمتری کا رجحان پیدا کرتا ہے جو بڑی حد تک دانش ورانہ کمتری کا موجب بنتا ہے۔ عورت کے جسمانی طور پر مرد کی نفسیاتی برتری قبول کرنے کے نظریے نے تانیثی ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
تانیثی تھیوری کی پیش کش میں ایلین شووالٹرکا نام نمایاں ہے۔ ایلین شوالٹر کا عورت کے سماجی اور حیاتیاتی حوالوں سے سمجھنے کی طرف بہت اہم تنقیدی کاہے۔ایلین شووالٹرکا تحقیقی وتنقیدی کام عورت کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے بھی بحث کرتا ہے۔عورتوں میں ہسٹیریا اور جنسی مسائل بھی شوالٹر کی تنقیدات کے اہم موضوع ہیں۔مندرجہ ذیل چند ایک کتابوں سے اس کے کام کی جہات اندازہ ہوتا ہے:
Toward a Feminist Poetics (1979),
The Female Malady: Women, Madness, and English Culture (18301501980) (1985),
Sexual Anarchy: Gender and Culture at the Fin de Siecle (1990),
Hystories: Hysterical Epidemics and Modern Media (1997)
Inventing Herself: Claiming a Feminist Intellectual Heritage (2001)
ایلین شووالٹر نے انتقادِ نسواں کی بنیاد رکھی۔ شووالٹر نے نسوانی تنقید کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا۔ ۱
.۱
نسوانیت : شوالٹر نے عورتوں کی تحریروں کی روشنی میں پہلے مرحلے کو نسوانیت کہا جو1840سے1880تک کا یورپ اور امریکہ کا معاشرہ ہے جس میں عورتوں کے حقوق کو پہلی دفعہ محسوس کیا گیا۔ اس دور کی عورتوں کی تحریریں یا عورتوں کے لیے مردوں کی تحریریں عورت کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ عورت ایک صنف کے طور پر اپنے حقوق کے دفاع کا تقاضا کرتی نظر آتی ہے۔عورتوں نے مردوں کے مقابل دانش ورانہ برابری کا نعرہ لگایا۔ شوالٹر نے اس دورکے لیے میل سوڈونیم کا لفظ استعمال کیا ہے۔جو اپنی ساخت، لہجے ، خصوصیات اور لفظیات کی وجہ سے مرد مرکز پہچاناجاتا تھا۔اصل میں یہ تحریک برابری کے حقوق کی تحریک تھی جو عورتوں سے زیادہ انسانی احترام کا تقاضا لیے تھی۔ جس طرح مارکسی معاشی فلسفے نے مزدور اور مل مالک کے تصور سے انسانی حقوق کی ایک نئی جہت متعارف کروائی تھی۔ اسی سرمایہ داری کلچر کے زیرِ اثر بچوں کے حقوق اور اُن کی اخلاقی اور تعلیمی ضرورتوں کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔عورت کیا ہے؟ عورت کا سماجی تصور صنفی تفریق ہے یا فطری تفاوت کی بنیاد ہے،نسوانیت عورت کے متعلق ایسے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے یا ان سوالوں کی بنیاد پر قائم تحریک نہیں تھی۔ لہٰذا نسوانیت نے عورتوں کے حقوق کو ہی اپنا مقصد اعلیٰ سمجھا۔ جو 1880تک ایک نئی کروٹ لے لیتا ہے۔ یہ زمانہ انقالبِ فرانس کے بعد کا زمانہ تھا جب ہر کوئی جدید انسان کی عملی حالتوں کا مطالعہ کر رہا تھا۔
.۲
نسوانی تنقید یعنی دی فیمنسٹ کریٹسزم
شوالٹر نے دوسرے مرحلے کو نسوانی کہا ہے۔یہ زمانہ1880سے شروع ہو کربیسویں صدی کے آغاز 1920تک کا ہے۔ اس دور میں مردوں کی تحریروں کو مطالعے کو مرکز نگاہ بنایا گیا ۔ یعنی مردوں کی تحریروں میں عورتوں کو کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ کیا عورت مردوں کے معاشرے میں برابری کی دعوے دار رہی ہے ۔ مردوں نے عورتوں کو کس طرح سمجھا۔ کیا عورت مرد تناظر میں کم تر رہی یا اعلیٰ صفات کے ساتھ سماجی حرکت میں شامل تھی۔ تانیثیت نے مردانہ معیارات کو رد کر نے کے لیے بھی مرد کو اپنے مطالعات کے لیے ناگزیر سمجھا ۔بنیادی طور پر یہ مکتبِ تنقید
Androcentric
تھا اور میل اورینٹڈ تصورِ عورت کو پیش کرتا تھا۔ ایک عورت مرد کے تناظر سے کس طرح کم تر ہے اگر کم تر ہے تو احتجاج اور تنقید سے اس تفریق کو دور کیا جائے۔ عورت اور مرد کی سماجی حصہ داریوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مرد تخلیق کاروں کے ہاں عورت کا تصور کس کس طرح پیش ہُوا ہے۔ مرد کاعورت کے نفسیاتی اور جذباتی حصار میں آنے کا بھی تجزیہ کیا جانے لگا۔
نسوانی تنقید دراصل نسوانیت کا اگلا پڑاؤ تھا۔ پہلے مرحلے میں عورت کے حقوق کو معاشرے کے تناظر سے تلاش کیا گیا، عورت کے بنیادی تصور انسان کو جگہ دی گئی۔ دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کا حاصلِ مطالعہ بھی ہے۔ اس مرحلے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے عورت کے مرد تناظر مطالعہ کی ضرورت ناگزیر ہے کہ ایک عورت بطور صنف اور بطور فرد مختلف کیوں ہے اور اُس کو تاریخ کے قید خانوں سے مرد حاکمیت سے کس طرح نجات دی جا سکتی ہے۔اس کے لیے یہ سمجھا جانا ضروری خیال کیا گیا کہ مردوں کی تحریروں کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے کہ مرد نے عورت کو اپنی تحریروں میں کس طرح پیش کیا ہے اور اگر عورت اپنی تحریروں میں مرد کو پیش کرتی ہے تو اُس کی اپنی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ گویا یہ مطالعہ ڈریڈا کے تصور مرد حاکمیت کا مطالعہ تھا
ڈریڈا نے یہ اصطلاح اپنے ایک مضمون
Plato's Pharmacy
میں پیش کی۔ مرد معاشرہ اصل میں مرد مرکز ہوتا ہے۔ یوں عورت کا مطالعہ مرد کے اردگرد گھومتا، مرد سے احتجاج کرتا اور مرد کے متعصبانہ رویوں کو چاک کرتا نظر آتا ہے شوالٹر نے اس عہد کو تانیثیت کا نام دیا۔
.۳
عورت یعنی دی فیمیل : یہ مرحلہ 1920سے شروع ہو کے موجودہ عہد تک پھیلا ہُوا ہے۔ عورت کیا ہے؟ یہ اس دور کا اہم اور بنیادی سوال ہے۔ یہی وہ سوال تھا جو عورت کے سماجی اور انسانی حقوق کے تناظر میں اٹھایا جانا ضروری تھا۔ شوالٹر نے اسے عورت کی خود شناسی کا مرحلہ کہا ہے۔ شوالٹر نے عورت کو عورت کے طور پر جاننے پر زور دیا۔ وہ اپنے ایک مضمون
Toward a Feminist Poetics
میں لکھتی ہے:
147women reject both imitation and protest151two forms of dependency151and turn instead to female experience as the source of an autonomous art, extending the feminist analysis of culture to the forms and techniques of literature148
شووالٹر نے عورت کے مرحلے سے متعلق تھیوری وضع کی اور عورت کے اس خود شناس مرحلے کو انتقادِ نسواں کانام دیا۔ تانیثیت اور نسوانی تنقیدی نقطہۂ نظر ، دونوں ہی عورت کو ’غیر‘ یعنی دی ادرز کے سہارے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اور عورت کو اپنے تناظر سے سمجھتا ہے اور عورت کو اُس کی خود شناسی کا درس دیتاہے۔مگر حقیقت میں عورت کیا ہے؟ یہی وہ ایک سوال تھا جو نسوانی تنقید بھی بتانے سے قاصرتھی۔نسوانی تنقید والے عورت کے متعلق مخلص توتھے اور وہ عورت کوصنف کے درجے سے نکال کے ایک الگ شناخت بھی دینا چاہتے تھے مگر وہ عورت کی شناخت کے خود آشنا محرکات سے آگاہ نہیں تھے۔ایلین شووالٹر نے اپنے ایک مضمون
Feminist Criticism in the Wilderness
میں لکھا ہے:
کلچرل تھیوری یہ تسلیم کرتی ہے کہ لکھاری عورتوں میں بہت سا فرق ہوتا ہے ،طبقہ،نسل، شہریت اور تاریخ بھی صنف کی طرح ادبی تعینِ قدر میں اہمیت رکھتے ہیں۔پھر بھی عورت کا کلچر ایک اجتماعی تجربہ، ثقافتی اجتماعیت کے اندر تشکیل دیتا ہے۔ایسا تجربہ للھاری عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زمان و مکان سے ماورا ہو کے جوڑتا ہے۔ ۲
ایلین شووالٹر نے اس سوال کو ایک اصطلاح گائنو کریٹسزم میں پیش کیا جسے اُردو میں انتقادِ نسواں کا نام دیا گیا ہے ، کے بنیادی سوال اور داعیے مندرجہ ذیل تھے:
.۱
عورت کی وجودی شناخت کیا ہے؟
.۲
عورت بطور صنف اور بطور فرد میں کیا اختصاص رکھتی ہے اور وہ اختصاص عورت کے وجودی اور ذاتی حوالوں کو کس طرح معرضِ بحث میں لاتا ہے؟
٣۔
عورت کا شعورِ ذات عورت کے نفسیاتی، داخلی اور حیاتیاتی معیارات اور اثرات سے کیسے تشکیل پاتا ہے؟
٤۔ عورت کی جنسی اور صنفی خوبیوں کا دائرہ کار کیا ہے
٥۔عورت کے معاشرتی اور جبلی رویے کس طرح کام کرتے ہیں؟
٦۔عورت کے تخلیقی متون کی درجہ بندی عورت کی ذاتی اور داخلی فضا میں کیا شکل اختیار کرتی ہے؟
٧۔ مادر سری اور پدر سری حاکمیت کی تقسیم کا سماجی اور جبلی امتیاز کیا ہے، کیا عورت مادر سری اور پدرسری دائروں میں جبلی طور پر تقسیم ہے یا کر دی گئی ہے۔
اب ہم اگر شووالٹر کے بتائے ہوئے تینوں مرحلوں کا مطالعہ کریں اور ان کے بنیادی نکات کو ایک جگہ جمع کریں تو عورت کی شناخت ہی وہ بنیادی حوالہ نظر آئے گی جو مختلف اطراف سے اپنا اثبات چاہتی ہوئی ملتی ہے۔
.۱
عورت کی شناخت کو کیوں حاشیے پر رکھا گیا؟
.۲
عورت کیوں تاریخ سے غائب رہی اور عورت کو صنفی تناظر سے کیوں کم تر صنف تصور کیا جاتا رہا؟
.۳
کیا عورت کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے مرد تناظر ہی کافی ہے یا عورت کاسماجی کردار عورت کے تشخص کا ایک ذریعہ قرار پائے گا؟
.۴
عورت کا حیاتیاتی اور نفسیاتی مطالعہ عورت کے بدن کے حوالے سے کیوں نہیں کیا جاتا؟
.۵
عورت کیا ہے یہ عورت سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟
نسوانیت ، نسوانی تنقید اور انتقادِ نسواں کے تمام سوالات اور داعیے تانیثیت کہلاتے ہیں جو نظریانے کے عمل سے گزر کے تانیثی تھیوری بنتے ہیں۔ تانیثی تھیوری نے ادب کے اندر عورت کی شناخت کو بنیادی سوال بنا کر پیش کیا ہے۔ عورت کیا ہے؟ کیسے پیش کی گئی ہے ؟ تانیثی تھیوری میں یہ سوالات مختلف انداز سے تجزیہ کیے جاتے ہیں۔
اُردو نظم میں عورت کی شناخت کا مرحلہ بیسویں صدی میں نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے عورت ایک امدادی روپ میں موجود ہے۔ عورت کا امدادی کردارنہ ہونے سے مُراداُس کا معاشرے میں فعال نہ ہونا ہے۔ عورت حاشیے پر ہی معاشرے کی تخلیقی و سماجی حرکات کا مطالعہ کرتی اور غائب ہوتی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی کردار ادا بھی کرے تو معاشرے کی مقتدر طاقتیں اُسے شناخت دینے سے انکاری ہوتی ہیں۔اُردو جس معاشرے میں پلی بڑھی وہاں عورت کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ عورت نے خود بھی اپنے اسی کردار پر اکتفا کیے رکھا۔ تنویر انجم بھٹی نے اپنے ایک مضمون نسانی تحریک کا ارتقا میں برصغیر میں نسائی شعور کی تاریخ بناتے ہوئے نسائیت کو چار حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
۳اگرچہ یہ تقسیم اُن کی اپنی بنائی ہوئی اور نسائیت کو اپنے انداز سے سمجھنے کی کوشش ہے مگر وہ اس بات پر متفق ہیں کہ نسائی شعورکاپہلا مرحلہ انگریزوں کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ وہ نسائیت کو اصلاحی ،روشن خیال، ترقی پسند اورانقلابی نسائیت میں بانٹتی ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں نیا ادب کروٹ لے رہا تھا۔ اُردو میں نئی نظم کا راگ الاپا جارہا تھا۔ نظم، ن م راشد کی کتاب ماورا کے بعد جدید نظم بن کر سامنے آتی ہے۔ یہی دور ہےئتی تبدیلیوں کا بھی دور ہے۔ نئی نظم اب آزاد نظم بن جاتی ہے۔
آزاد نظم میں عورت کے تشخص کو زیادہ جاندار طریقے سے پیش کیا گیا۔ مگر یہاں بھی دو رویے ہیں۔ ایک رویہ عورت کو مردکے تناظر سے دیکھتا ہے۔ عورت کی صنفی شناخت مرد متعین کرتا ہے اور عورت کو عزت و وقار کی تقدیس بھی اپنی لگائی ہوئی قیمت پر پیش کرتا ہے۔ اس رویے کے خلاف بھی ایک ردعمل سامنے آتا ہے۔ اس حوالے سے کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے نام صرف دو نام ہی نہیں بلکہ تانیثی نقطہ نظر کو سمجھنے کی طرف دو اسکول بھی ہیں۔ فہمیدہ ریاض کی کتاب بدن دریدہ کی نظمیں عورت کو صنفی شناخت دیتی ہوئی ملتی ہیں۔ یہ کتاب1973میں شائع ہوئی جب تانیثی تھیوری کا نام و نشان بھی اُردو میں موجود نہیں تھا۔ فہمیدہ اُردو میں پہلی دفعہ عورت کے اظہار کو مرد کی عینک (جو اصل میں معاشرے کی پدرسری حاکمیت کا سرٹیفکیٹ ہے) سے دیکھنے کی بجائے آزادانہ اظہار کو اپناوسیلہ بناتی ہیں۔ اس کتاب پر بہت لے دے ہوئی ۔ عورت کی جنسی خواہش کے اظہار کو فحش گوئی اوربدتہذیبی قرار دیا گیا۔ فہمیدہ ریاض نے اس تفریقی دانش وری کو ایک مثال سے یوں بیان کیا ہے کہ ایک نظم جب عورت لکھتی ہے تو وہی الفاظ عورت کے تناظر سے غیر مہذب اور غیر اخلاقی کہلائے جاتے ہیں جب کہ وہی الفاظ اگر مرد اپنی نظم میں استعمال کرتا ہے تو اپنے اظہار میں مہذب اور با اخلاق پیرائیوں سے باہر نہیں آتا۔ فہمیدہ ریاض نے اپنی ایک نظم کی مثال میں ان دونوں رویوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
:عورت
واہمہ ہے کہ اسی جھیل کی گہرائی میں
کوئی اثبات کا حرف
کوئی اقرار کہیں میری صدا سنتا ہے
دل مگر جانتا ہے
یہ مرا دل کہ فریب آشنا ہے
پتھر سے وصال مانگتی ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں
چھُوٹی وصل و فراق سے میں
انجان ڈگر پہ چل رہی ہوں
ہاں میرے وجود میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہی ہوں
مرد:
پتھر سے وصال مانگتا ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گیاہوں
چھُوٹا ہجر و فراق سے میں
انجان ڈگر پہ چل رہا ہوں
ہاں میرے وجود میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہاہوں
اس کایا کلپ کے بعد آپ کو نظم کا بالکل دوسرا مطلب سمجھ آئے گا۔ آپ کہیں گے واللہ! شاعر کسی اہم موضوع پر سوچ رہا ہے۔ اسے کوئی جستجو ہے، کوئی تلاش ہے وہ زندگی کے کسی دوراہے پر کھڑا ہے( جنس کے کسی دوراہے پر نہیں) ۴
آپ نے فہمیدہ ریاض کی مذکورہ نظم میں مرد اور عورت کے جذباتی اظہاری رویوں کا تجزیہ ملاحظہ کیا۔ایک نظم اگر عورت لکھتی ہے تو عورت ایک لکھاری سے ایک صنف کا روپ دھار لیتی ہے اور جب وہی الفاظ مرد سے منسوب کئے جاتے ہیں تو وہ بطور فرد اپنا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اصل میں عورت کو مرد کے وسیلے سے پڑھا جا رہا ہے جو عورت کا غیر یعنی دی ادرز ہے -
اُردو نظم میں عورت اپنی شناخت کی گم شدگیوں پر احتجاج کرتی ہی نظر آتی ہے۔ اُردو تانیثی نظموں کا غالب رجحان مرد اور سماج کے خلاف احتجاج کرنے کی طرف ہے۔ کچھ اسی قسم کا احتجاج مردوں کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ مردمصنفوں کی تحریریں بھی عورتوں کی غصب شدہ شناخت کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ گویا اُردو میں گائنو کریٹسزم کا مکتب اُس طرح جڑ نہیں بنا پایا جس طرح نسوانی تنقید اور نسوانیت نے راہ پائی ہے۔ کشور ناہید کے ہاں احتجاج زیادہ گہرا ، جذباتی اورفنی مضبوطی کے ساتھ موجود ہے:
ستم شناس ہوں لیکن زبان بریدہ ہوں
میں اپنی پیاس کی تصویر بن کے زندہ ہوں
زباں ہے قزمزی ، حدّت سے میرے سینے کی
میں مثلِ سنگ چٹخ کے بھی سنگ خوردہ ہوں
شہید جذبوں کی قبریں سجا کے کیا ہوگا
کھنڈر ہوں ، قامتِ شب ہوں، بدن دریدہ ہوں
پتھر میں لہو چمک اٹھے گا
دیوانے کے ہونٹ کاٹنے سے
خواہش میرا پیچھا کرتی رہتی ہے
میں کانٹوں کے ہار پروتی رہتی ہوں
دیکھنا یہ ہو گا کہ اگر عورت احتجاج کرتی ہے تو یہ احتجاج کس معنی یا قدر کے قیام کو رد کرنے کی سعی کرتا ہے؟احتجاج کی نوعیت کن سوالوں پر اپنا مقدمہ پیش کرتی ہے؟ احتجاج کن اشیا یا فکروں سے ہے اور احتجاج نے عورت کی صنف کو اپنا اظہار کرنے دیا ہے یا احتجاج کا وہ طریقہ جو پدر سری معاشرے میں رائج ہے اُسے ہی نقل کیا ہے؟ عورت کے احتجاج کی پہلی نوعیت تو یہ بتاتی ہے کہ وہ اپنے موجودہ ثقافتی و سیاسی کردار سے مطأن نہیں۔ گویا عورت کا اپنی حدود میں بہت محدود اور اپنے اظہار میں فطرت سے مکالمہ کرنے کی بجائے احتجاج کا راستہ اختیار کر رہا ہے۔ دوسری نوعیت یہ ہے کہ یہ احتجاج مرد سے ہے جو مرد اساس معاشرے کا نمائندہ یا حاکم ہے۔مذکورہ اشعار کا لسانی تجزیہ کیجیے تو یہ دونوں نوعتیں سامنے آجاتی ہیں۔ایک عورت اور مرد کے لسانی انتخاب میں بھی واضح فرق ہوتا ہے۔ ستم شناس، زباں بریدہ، پیاس کی تصویر، سینے کی حدت،سنگ خوردہ، جذبوں کی قبریں،قامتِ شب، بدن دریدہ،لہو چمک اٹھے گا،کانٹوں کاہار___ان لفظوں کی بائنری اپوزیشن کا مطالعہ کیجیے تو ایک بات تو واضح ہو رہی ہے کہ احتجاج کرنے والا اپنے تہذیبی اورترجیحی تصورات کے حصار میں ہے اور اُس کی صنف وہ نہیں جس کے ساتھ یا جس کا احتجاج کیا جا رہا ہے۔ عموماً ستم شناس عورت ہوتی ہے مرد تو عورت کوستم گرکہتا ہے۔ یہاں عورت زبان بریدہ ہے مگر عورت کی معاشرتی پہچان زبان درازی کے ساتھ منسوب کی گئی ہے جو کسی بھی حالت میں مرد کی قائم مقامی کواختیار کرنے کی مجاز نہیں۔ گویا احتجاج کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے اظہار میں بھی وہ لفظ سامنے لائے جائیں تو احتجاج کا معنوی اعلان بھی کر رہے ہوں۔ عورت پیاس کی تصویر بنی ہوئی ہے۔’’سینے کی حدت‘‘ عورت کا طرزِ اظہار ہے اگر مرد مرکز احتجاج ہوتا تو یہ سینے کی جلن کی صورت میں سامنے آتا۔عورت سنگ خوردہ، قامتِ شب، بدن دریدہ ہے۔ جو معاشرتی سطح پرمرداساس تصورِ احتجاج سے الگ لفظوں کا انتخاب لیے ہوئے ہے ۔کشور ناہید کی غزل کے چند اشعار کی قرأت ہمارے سامنے احتجاج کا تانیثی رُخ کھولتی ہے۔اگر جینڈر پدرسری حاکمیت کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور اُسے اپنی صنف سے آگاہ نہیں کر پا رہا تو یہ صنفی احتجاج صرف سطحی اور غیر فطری ہوگا۔نسوانی تنقید یعنی دی فیمنسٹ کریٹسزم میں ہم عورت اور مرد کے ثنوی تخالف میں مرد اور عورت کے فطری امتیاز کو سب سے پہلے نشان زد کرتے ہیں۔ جو فکری سطح پر بعد میں اور سب سے پہلے لسانی سطح پر محسوس کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عتیق اللہ نے عورت کے سماجی کردار اور دانشورانہ حصہ داری کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے:
اُردو ادب کی تاریخ اور وہ بھی ماضی کی تاریخ شاعرات کے ذکر سے خالی نہیں ہے مگر حیرت کا مقام یہ ہے کہ ان میں ایک بھی دستخط نہیں ہے جس کی شناخت قابلِ ذکر قرار دی جا سکے۔ ہماری شاعرات نے کلام تو کیا مگر مکالمے سے وہ محروم رہیں۔ اس صورتِ حال کی جڑیں ہمارے اس قداری نظام میں گہری چلی گئی ہیں جو اپنے کسی بھی آخری شمار میں مبنی بر مرد ہے‘‘ ۵
ڈاکٹر عتیق اللہ نے عورت کی دانشورانہ حصہ داری کی تین سطحوں کو نشان زد کیا ہے۔
اول: عورت کا کلام
دوم: عورت کا مکالمہ
سوم: عورت کے دست خط
عورت جب اپنی صنف کے فطری احساس کے ساتھ کچھ کہنا چاہتی ہے تو وہ عورت کا کلام ہوتا ہے۔ عورت کسی سے مخاطب ہے یہ الگ بات کہ وہ کس سے مخاطب ہے اور وہ جس سے مخاطب ہے کیا وہ اُسے سننا بھی چاہ رہا ہے؟ یہ کلام عورت کی دانشورانہ حصہ داری کی پہلی شکل ہے۔ عورت پھر اپنے مخاطب کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے۔ یعنی عورت مرد اساس معاشرے کی مقتدر ثقافتوں اور رسموں سے مکالمہ کرتی ہے۔ یہ قوتیں جو سماجی حرکت کی حاکمیت کی دعوے دار ہیں عورت کواس قابل سمجھتی ہیں کہ اُسے سن سکیں یا اُس کے سوالوں کا جواب دے دیں۔ تیسرا مرحلہ عورت کے پورے وجود کو تسلیم کرنے کا ہے جہاں مرد اپنی پوری فطری شناخت کے ساتھ پہلے ہی موجود ہے۔ گویا عورت مرد کے برابر کی حصہ دار بن کے سامنے آتی ہے۔عورت کا تصور اعلیٰ اقدار کی تجسیم بن جاتا ہے۔عورت اور مرد کے صنفی امتیاز کا ترجیحی نظام ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔ ’’دست خط‘‘ سے مُراد عورت کے فطری روپ کا عکس یااپنی قائم مقامی کومقتدرہ کے طور پر منظور کیا جانا ہے۔ مرد اپنی اس قائم مقامی کے ذہنی یا وجودی اثبات کے بغیر بھی مرد کی وہ تمام صفات کا فائدہ اُٹھاتاہے جو مرد اساس معاشرے نے ایک طاقت کے طور پر معاشرے میں رائج کر رکھی ہیں۔ مثلاً عورت کمزور ہے مرد طاقت ور۔ یا مرد زیادہ گہرا سماجی مطالعہ و تجزیہ رکھتا ہے جب کہ عورت معاشرے کے سطحی وژن کے ساتھ ادھورا اور نامکمل تجزیہ رکھتی ہے ۔ اب اگر عورت مرد کی نسبت طاقت ور ہو یا زیادہ گہرا سماجی مطالعہ بھی رکھتی ہو مگر اُس کے دست خط کی عدم صورت پذیری اُسے محروم ہی رکھے گی اور اُس کے ساتھ ناانصافی کو مبنی بر انصاف خیال کیا جاتا رہے گا۔ اُس وقت شخصیت کا تشخص اپنے دست خط منعکس کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جب شخصیت اپنے فطری وجود کے ساتھ سماجی حصہ داری میں شامل ہو اور اسے قبول بھی کیا جائے۔ عورت اس لیے بھی سراپا احتجاج ہے کہ عورت نے اگر سماجی حصہ داری نبھاہی بھی ہے تو مرد اساس رسموں نے اس کی حصہ داری کو قبول نہیں کیا۔
عورت کا وجودسب سے پہلے اپنی شناخت پر پڑے بھاری پتھر کو ہٹانے کی تگ و دو میں ہے۔ یہ روایت اُردو کی قدیم تاریخ میں موجود ہے جب رنگین جیساشاعر ریختی میں گرچہ زنانی جیسی نبیلی نہیں ہوں میں؍ لیکن آزار بند کی ڈھیلی نہیں ہوں میں‘‘ جیسی تصویریں پیش کر گیا ہو وہاں عورت کی اصل شناخت کی دریافت کوئی معمولی مسئلہ نہیں تھا۔عورت کے بدن کے دبیز پردے کے پاراُس کی روح تک پہنچنا ایک مشکل اور تہہ در تہہ بٹا ہوا سلسلہ تھا۔
کشور ناہید کی نظم میں عورت کے سماجی مرتبے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کا احساس ملتا ہے۔ کشور نے نہ چاہتے ہوئے بھی عورت کو اپنے خطے کے مجموعی سماجی تناظر میں دیکھا ہے۔ کشور کی نظمیں عورت کے فمینن مرحلے کی بازیافت ہیں۔اخلاقی اورسماجی بے توقیری، ونی کی رسمیں، سماجی بندھنیں اور مرد حاکمیت کی خلاف شدید احتجاج کشور کی نظموں کا بنیادی محرک ہے۔ کشور نے عورت کی شناخت عورت کی آزادی میں تلاش کی ہے۔ عورت پہلے گھر کی تنہائی میں قید ہے، پھر نئی زندگی کے نام پر ایک اور مرد کے حوالے کر دی جاتی ہے۔کشور کی نظم موم محل میں اسی ایک خواب کو پیش کیا گیا ہے جو عورت اپنی نئی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ یہ المیہ جینیاتی طور پر منتقل ہو رہا ہے:
میرے بیاہ سے پہلے میری ماں
خواب میں ڈر جایا کرتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک رات ماں سو رہی تھی اور میں جاگ رہی تھی
ماں بار بارمٹھی بند کرتی اور کھولتی
اور یوں لگتا کہ جیسے کچھ پکڑنے کی کوشش میں تھک کر
مگر پھر ہمت باندھنے کو مٹھی بند کرتی ہے
میں نے ماں کو جگایا
مگر ماں نے مجھے خواب بتانے سے انکار کر دیا
اُس دن میری نیند اڑ گئی
میں دوسرے صحن میں آگئی
اب میں اور میری ماں دونوں خواب میں چیخیں مارتے ہیں
اور جب کوئی پوچھے تو کہہ دیتے ہیں
ہمیں خواب یاد نہیں رہتے!
نظم کا پلاٹ عورت کی محدود دنیا کی عکاسی کر رہا ہے۔ ذرا دیکھیے کہ عورت کی دنیا کتنی محدود ہے _____بستر اور صحن____ماں بار بار مٹھی کھولتی اور بند کررہی ہے اور لگتا ہے کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماں کی سوئی ہوئی کیفیت (جو اصل میں اُس کی جاگی ہوئی حالت ہے) بھی ایک عورت دیکھ رہی ہے۔ صرف دیکھ ہی نہیں رہی بلکہ محسوس بھی کر رہی ہے۔گویا وہ اپنی ماں کا خواب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔مٹھی باندھنا اور بار بار باندھنا کس قدر بے بسی کی تصویر ہے۔ پورے وجود کی ناکامی وجود کے خوابوں، جذبوں اور فکروں کے ساتھ ملیا میٹ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔وہ کیا پکڑنا یا اپنی مٹھی میں قید رکھنا چاہتی ہے ، یہ صرف ایک عورت محسوس کر سکتی ہے۔ایک عورت اس خواب کو اپنے وجود میں اتار کر ایک اور’’ صحن ‘‘میں چلی آتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اس گھر میں مرد بھی ہوں گے یا عورت کئی مردوں کے تناظر میں پہلے ہی موجود ہیں۔ کیا وہ بھی اپنی ماں کی ان بار بار مٹھیوں کو کھولتے اور بند ہوتے محسوس کر سکتے ہیں؟ نہیں___اس لیے کہ وہ صحن تک محدود نہیں۔ اُن کی بے بسی صنفی حدود میں مقید نہیں اور نہ ہی انھوں نے ایک ’’صحن ‘‘کی زندگی کے بعد ایک اور’’ صحن ‘‘تک کا سفر طے کرنا ہے۔ کشور کی نظموں میں عورت اُس آزادی کی طالب ہے جو اسے عورت کے پروں سے اڑنے کی طاقت عطا کرے۔ اسی لیے وہ مرد حاکم معاشرے میں عورت کی سماجی، تاریخی اور نفسیاتی آزادی کے لیے جدو جہد کرتی نظر آتی ہے۔ عورت کا صحن اُس کا قید خانہ ہے جہاں سے اُسے کھلے آسماں تک دیکھنے کی آزادی ہے۔ مگر گھر کی دیوار سے باہر دیکھنا اُس کی فطری پابندی کے طور پر نافذ ہے۔ ویسے بھی ’’صحن‘‘ کی محدود وسعت میں آنے والا آسمان کتنا وسعت یافتہ ہوسکتا!اس طرح صرف صحن بدلتے ہیں، عورت ،باپ مرد کے گھر سے شوہر مرد کے گھر میں منتقل ہو جاتی ہے مگر سماج جو دیوار کے پیچھے ہے اُسے اپنی آنکھ عطا نہیں کرتا۔ کشور کا احتجاج اور عورت کے حقوق کی جنگ اُردو شاعری میں فمینن مرحلے کی دریافت ہے۔
فہمیدہ ریاض نے اپنے اندر کی عورت کا برملا اظہار چاہا ہے۔ فہمیدہ کی نظمیں ایک عورت سے زیادہ ایک انسان کی آواز معلوم ہوتی ہیں۔ فہمیدہ کو اپنے عورت پن سے زیادہ اپنے انسان ہونے پر زیادہ اعتماد ہے۔ وہ عورت کو عورت پن سے نکال کے ایک انسان کی بصیرت اور سماجیت عطا کرنا چاہتی ہے۔ جنسی رویوں میں بھی فہمیدہ کا اظہار مرد اور عورت کے تخصیص کا قائل نہیں۔ میرے خیال میں جنسی رویوں کے بے باک اظہار میں جس طرح فہمیدہ کا تانیثی اظہار سامنے آیا ہے وہ اُردو کی کسی عورت کے ہاں اتنا قوی نہیں اورنہ ہی اتناہی مرد اساس تناظر سے آزادہے۔
یہ کیسی لذت سے جسم شل ہورہا ہے میرا
یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل
یہ کیف کیا ہے کہ سانس رُک رُک کر آرہا ہے
یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اُتر رہے ہیں
لہو کے گنبد میں کوئی در ہے کہ وا ہُوا ہے
یہ چھوٹتی نبض ، رُکتی دھڑکن ، یہ ہچکیاں سی
گلاب و کافور کی لپیٹ تیز ہو گئی ہے
یہ آہو سی بدن یہ بازو کشادہ سینہ
مرے لہو میں سمٹتا سیّال ایک نکتے پر آ گیا ہے
مری نسیں آنے والے لمحے کے دھیان سے کھنچ کے رہ گئی ہیں
بس اب تو سر کا دو رُخ پہ جادو
دئیے بجھا دو
کیا عورت اور مرد کے شہوت بھرے اندھیرے اپنی فطری جذباتیت میں تہذیبی اور غیر تہذیبی ہوتے ہیں؟ ایک ہی طرز کا جنسی اظہار ثنوی تخالف میں دو الگ الگ طرز اظہار کیوں محسوس ہوتا ہے؟ انتقادِ نسواں یعنی گائنو کریٹسزم کا اسکول عورت کے وجودکو مرکزِ موضوع بناتا ہے۔ انتقادِ نسواں کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ عورت اپنے فطری اظہار میں مکمل اور کسی غیر یعنی دی ادرز کی محتاج نہیں۔ اگر ایک صنف کی پہچان ہی کسی غیر کے ذریعے ہو گی تو وہ اُسی صنف یعنی جینڈر کے تناظر سے تہذیبی یا غیر تہذیبی کہلائے گا۔ انتقادِ نسواں نے عورت کے وجود کو پہلا تجزیاتی محرک بنایا ہے ۔ ذرا اس نظم کے جنسی اظہاریے کا ثنوی تقسیم کے بغیر مطالعہ کیجیے۔جنسی لذت کی طلب ،عورت کو مدافعانہ کی بجائے جارحانہ بنا دیتی ہے۔عورت کی جارحیت بھی تومرد اساس تجزیے میں منفعل کہلائے گی ہے۔کیوں کہ جنسی وصال میں عورت کا جارحانہ عمل ایک غیر مناسب اور کسی حد تک غیر فطری تصور کیا جاتا ہے مگر عورت کے تناظر سے جب لذت نے عورت کے اعضا کو شل کر دیا تو وہ جنسی فعل میں فاعل ہو جائے گی اور مرد اس کے برعکس۔ اس پوری نظم میں عورت کا نفسانی متحرک وجود نظر آرہا ہے۔ مرد جنسی تحرک میں تیز سانس لینے کا اظہار کرتا ہے جب کہ عورت رُک رُک کے سانس چلنے کا کہ رہی ہے۔ یہ چھوٹتی نبض ، رُکتی دھڑکن ، یہ ہچکیاں سی عورت کا وجودی مسئلہ بن جاتے ہیں۔ مرد جنسی عمل میں ایسی بے ربطی اورذات سے انحراف کا عمل نہیں دُہراتا۔ عورت کا اپنے بدن کو آہو سے تشبیہ دینا اور نسوں کواپنے ماحول سے بے خبرکردینا ، عین تانیثی طرزِ اظہار ہے۔ یہ نظم غیر مہذب اس لیے لگ رہی ہے کہ عورت کا وجود مردانہ طرزِ اظہار کے قریب چلا گیا ہے۔ مرد جب اپنے وجود کا جنسی اظہار کرے گا تو ایسے کرے گا۔مگر عورت کا تصور مرد معاشرے میں تقدیس اور طہارت سے مزین ہے کیوں کہ وہ مردوں کی کے لیے زینت بنائی گئی ہے ۔اگرمردکو بھی اپنے مقابلے کی جنسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کیسے پدرسری رویوں کی حاکمیت کا دعویٰ کرے گا!جنسی اظہاریے کو طاقت اور مردانگی سے جوڑنا بھی مرد حاکمیت کا ایک ہتھیار ہے عورت جس سے دستبردار ہو کے اپنی فطرت کے کرب میں مبتلاہے۔
کشور اور فہمیدہ کا یہی بنیادی فرق ہے۔ کشور عورت کی سماجی آزادی جو تاریخی طور پر اُس پر مسلط کر دی گئی ہے اُس کے خلاف ہے، جب کہ فہمیدہ بطور ذات اور فرد اپنی اندر کی عورت کی آزادی کا اظہار چاہتی اور کرتی نظر آتی ہے۔ کشور اسی آزادی کی (جو ہر عورت کے معروض سے جنم لیتی ہے ) معاشرتی قید کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ کشور کو معاشرہ قید کرتا نظر آتا ہے خواہ وہ جنسی آزادی ہو یا سماجی آزادیاں مگر فہمیدہ اپنی ذات کے محدود اظہار کی آزادی کی طالب نظر آتی ہے۔گویا فہمیدہ کا جذبہ، تجربہ اور احتجاج ذات کے احاطے سے اپنا ہیولا تیار کرتا ہے۔ پانی کے ایک ہی جگہ پر بڑے بھنور کا نشان بنتا ہے یا ایک ہی جگہ کسی آگ کے بڑے الاؤ کی اٹھان بنتا ہے مگر کشور نے عورت کے جنس، سماج اور دانش پر کھڑی رکاوٹوں پر پورے زمانے، معاشرے اور گروہ کے تناظر سے احتجاج کیا ہے۔ فہمیدہ کا تانیثی مطالعہ مائیکرو مطالعہ ہے جو اس لیے زیادہ حقیقت پسند، کڑوا اور ہیجان انگیز ہے جب کہ کشور ناہید کا تانیثی مطالعہ میکرو مطالعہ ہے جو کڑواہٹ سے زیادہ منطقی، وسیع اور پریشان کن ہے۔
سارا شگفتہ اُردو نظم میں تانیثی مطالعے کی سب سے جاندار آواز ہے۔ انتقادِ نسواں کا اطلاقی مطالعہ جس طرح سارا شگفتہ کی نظموں کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے شاید اُردو کی کسی اور شاعر ہ سے نہیں۔ سارا شگفتہ کی تانیثیت عورت کے حیاتیاتی وجود کی روشنی لیے ہوئے بدن کے روزن سے جھانکتی ہے۔ عورت کیا ہے؟ عورت کیا نہیں؟ عورت کو کیا ہونا چاہیے؟ اور عورت کیوں وہ نہیں جو وہ تھی؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو سارا کے کربناک وجود سے ایک عورت بن کر صفحہ در صٖفحہ پھیلے ہوئے ہیں۔ سارا شگفتہ کا کمال یہ ہے کہ اُس نے اپنے انسان ہونے کے ساتھ ہی اپنے عورت ہونے کے احساس کو باور کرایا ہے۔ بلکہ وہ کہیں کہیں انسان سے زیادہ ایک عورت بن جاتی ہے۔ سارا شگفتہ کی خود کشی ایک انسان کی نہیں ایک عورت کی موت تھی۔ سارا شگفتہ کو انتقادِ نسواں کا مطالعہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اس لیے کہ اس خطے میں عورت کا وجود صرف ایک احتجاج سے زیادہ تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ عورت اپنے وجودی گرہوں میں سماج کے ساتھ کس طرح پیوست ہے اس بندھن کو کسی نے پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ سارا نے چند ایک نظموں میں اپنے وجود کی اس تشنگی کو اپنی ہتھیلی پر اُلٹ دیا ہے۔ وہ اپنے وجود کی ابکائی سے عورت کی دہشت زدہ تاریخ کے صفحات پر روغن کرتی ہے۔ سارا کی نظمیں اس خطے کا نہیں پوری انسانی تہذیب کے تانیثی نوحہ معلوم ہوتی ہیں۔
میں نے موت کے بال کھولے
اور جھوٹ پہ دراز ہوئی
نیند آنکھوں کے کنچے کھیلتی رہی
شام دوغلے رنگ سہتی رہی
آسمانوں پہ میرا چاند قرض ہے
میں موت کے ہاتھ میں ایک چراغ ہوں
جنم کے پہیے پر موت کی رتھ دیکھ رہی ہوں
زمینوں میں میرا انسان دفن ہے
سجدوں سے سر اٹھا لو
موت میری گود میں بچہ چھوڑ گئی ہے!
سارا شگفتہ کا مسئلہ سماجی ناہمواری اور اپنی معاشرتی شناخت کا رونا نہیں۔ سارا کے پاس بہت بڑے بڑے سوال ہیں۔ وہ ایک عورت کے تشخص کے ازلی قیدی ہونے پر سراپاحتجاج بھی ہے اور اپنے گھٹن کے جبلی جذبوں کی متلاشی بھی۔ موت کا استعارہ سارا کے وجود کے پھیلاؤ کو سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ ایک عورت اپنے پھیلاؤ میں کن زمانوں اور زمینوں پر حاوی ہو سکتی ہے سارا شگفتہ نے اس آفاقیت کو اپنے دکھ بھرے اور حساس آنچ میں پکے جذبوں میں پیش کیا ہے۔
روٹھ روٹھ جاتی ہوں مرنے والوں سے
اور جاگ اٹھتی ہوں آگ میں
گونج رہی ہوں پتھر میں
ڈوب چلی ہوں مٹی میں
کون سا پیڑ سا آگے گا
میرے دکھوں کا نام بچہ ہے
میرے ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے
اور آنکھوں میں انسان ہے
بے شمارجسم مجھ سے آنکھیں مانگ رہے ہیں
میں کہاں سے اپنی ابتدا کروں
آسمانوں کی عمر میری عمر سے چھوٹی ہے
پرواز زمین نہیں رکھتی
ہاتھ کس کی آواز میں
میرے جھوٹ سہہ لینا
جب جنگل سے پرندوں کو آزاد کردو
چراغ کو آگ چھکتی ہے
میں ذات کی منڈیر پر کپڑے سکھاتی ہوں
سارا کی لائنوں پر غور کیجیے جب وہ اپنی عمر آسمانوں کی عمر سے بڑی بتاتی ہے جب وہ ذات کی منڈیر پر کپڑے سکھاتی نظر آتی ہے۔ فطرت کے ساتھ معانقہ فطرت کی ایما پر نہیں بلکہ اضداد کے رشتے پر قائم کیا جاتا ہے۔ سارا کا جذبہ تانیثیت کے مجموعی مزاج کے کئی اطراف پھیلا ہوا ہے جسے نفسیاتی ،معاشرتی اور تاریخی تناظر سے زیادہ عورت کے وجود کے کشفی مراحل کی دریافت میں ڈھونڈا جا سکتاہے۔ ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے سارا شگفتہ کی نظموں کو تانیثی اظہار کا نیا رُخ بتایا ہے۔ یاد رہے کہ سارا کی نظم کسی ایک کنٹینٹ کا تشریحی اظہاریہ نہیں ہے۔ نظم اپنے وجود میں کئی تمثالوں اور کسی طرح کی فکروں کا ادغام رکھتی ہے جو مختلف جھلکیوں یعنی فلیشز میں اپنا مدعا بیان کرتی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
استعارہ سازی کے روایتی طریقہ کار کی بجائے سارا نے نظم کی تعمیر میں مجاز کی دوسری اقسام سے کام لیا ہے۔ مثلاً اسما کی جگہ ان کی صفات یا اشیا سے منسوب اپنے تجربات کو خود اشیا کی جگہ نظم کر کے سارا نے تخلیقی زبان کی ایک یک سر نئی جہت ایجاد کی ہے۔۔۔۔۔۔لفظ کے مجازی اور لغوی، دونوں جز متن میں موجود رہتے ہیں۔ ۶
عورت کے شخصی وجود کا مطالعہ سارا شگفتہ کی نظموں کے لسانی مضمرات میں نظر آتا ہے۔ قاضی افضال نے مجاز کی ایک دوسری قسم یعنی اشیا یا اسما کی جگہ اُن کے تجربات کا پیش کیا گیا ہے۔ یوں لفظ کے مجازی اور لغوی دونوں معنی متن کی بالائی اور زیریں سطح پر موجود رہتے ہیں۔ یہ آزاد نظم کا جدید ترین لہجہ اور طریقہ اظہار ہے مگر سارا نے پہلے اس طرزِ تحریر کو اپنی نظموں میں استعمال کیا۔سوال پھر بھی موجود ہے کہ اگر یہی طرزِ اظہار مرد بھی استعمال کرے تو کیا ثنوی تخالف یعنی بائنری اپوزیشن کا وجود ختم ہو جائے گا؟ یہی تجزیہ انتقادِ نسواں کی بنیاد پر لسانی تجزیہ ہوگا۔ سارا کی نظموں نے کنٹینٹ کا بکھراؤ اور غیر منطقی یا غیر روایتی نہ ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا اس غیر روایتی طریقے میں شعری اظہار کی ضرورت کا محسوس کرنا ہے۔ سارا نے اپنی نظموں کے لیے لفظ کے لغوی اور مجازی دونوں معنوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اورلیپ کرنے کی غیرشعوری کوشش کیوں کی۔کوشش کبھی غیر شعوری نہیں ہوتی ہمیشہ شعوری کاوش ہوتی ہے ۔ سارا کا یہ معاملہ اُلٹ ہے۔ سارا نے غیر شعوری طور پر جو ڈرافٹ تیار کیا وہ عورت کی مخفی لطافتوں اور حیاتیاتی مجبوریوں کو پیش کرنے کا طریقہ بھی ہے۔
عورت کا سماجی کنٹینٹ بھی اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر اندر سے عورت کا تانیثی متن اتنا ہی مربوط اور مرد تخالف رویوں سے بھرا پڑا ہے۔مذکورہ بالانظم کے منتخب حصے میں متن کے بالائی اور زیریں متن کی دونوں حالتوں میں عورت کی تانیثیت کا تجزیہ کیجیے:
روٹھ روٹھ جاتی ہوں مرنے والوں سے
اور جاگ اٹھتی ہوں آگ میں
گونج رہی ہوں پتھر میں
ڈوب چلی ہوں مٹی میں
کون سا پیڑ سا اگے گا
میرے دکھوں کا نام بچہ ہے
میرے ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے
اور آنکھوں میں انسان ہے
بے شمارجسم مجھ سے آنکھیں مانگ رہے ہیں
یہاں تانیثی موضوع انسانی یعنی فیمنسٹ سبجیکٹ اپنا اظہار کررہا ہے ۔’مرنے والوں سے روٹھنا‘ نسائی رویہ اور نسائی اظہاریہ ہے ۔کم زور وجود ہی روٹھتا ہے ۔روٹھنا بھی ایک قسم کا احتجاج ہے ،اس شخص یا واقعے یا ادارے کے خلاف جس سے وابستہ توقعات کی شکست ہوئی ہو۔جدید اردو نظم کی عورت تو ہے ہی شکست کی آواز۔آگ ،پتھر ،ٹوٹے کھلونے ، مٹی میں بیج کی طرح ڈوبنا،اور کسی پیڑ کے اگنے کا سوچنا ، یہ سب نسائی استعارے اور اشارے ہیں۔یہاں صرف دو سطروں پر غورکیجیے:’میرے ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے؍اور آنکھوں میں انسان ہے‘،کون سے ٹوٹے کھلونے ؟ کیا اپنے مرے ہوئے بچے کے ٹوٹے کھلونے ہیںیا خود عورت کا وجود ایک ٹوٹے کھلونے کی صورت اختیار کرگیا ہے ،جسے وہ خود ہی اٹھائے رکھنے ،اور اپنی شکست کی اذیت سے گزرنے پر مجبور ہے؟ ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے ہیں،مگر آنکھوں میں انسان ہے جو ثابت وسالم وجود کی علامت ہے۔ گویا عورت کا حقیقی تجربہ ٹوٹ پھوٹ کا ہے ،مگر اس کی نظر میں ثابت وسالم وجود ہے۔ نظم کی آخری لائن میں جن بے شمار جسموں کے آنکھیں مانگنے کا ذکر ہے ،اس کا مفہوم بھی اب سمجھ میں آتا ہے۔ بے شمار جسم وہ نظر طلب کرتے ہیں،جو ثابت وسالم انسانی وجود کو دیکھ سکتی ہے ۔پدرسری سماج میں عورت جسم ہے ،بغیر نظر کے۔ تانیثی متن اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے،اور اس کی ردّتشکیل کرتا ہے۔
(جاری ہے)
حواشی و حوالہ جات
.۱
۔ میں نے اپنے طور پر شووالٹر کے تین مرحلوں کو تین الگ الگ نام دینے کی کوشش کی ہے۔ اُردو میں نسوانیت، تانیثیت میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ مگر شووالٹر کو پڑھتے ہوئے ان لفظوں کے انگریزی مترادفات میں بہت گہرا فرق ہے۔ اسی طرح تانیثی تحریک، تانیثی تنقید اور تانیثی تھیوری میں بھی فرق نہیں کیا جاتا۔ اس مقالے میں ان لفظوں کو خاص احتیاط سے برتنے اور ان کے مترادفات کا اُن کے سیاق وسباق میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔
تانیثیت یعنی فیمینزم ادب کے اندر تانیثی تنقید اور تانیثی تھیوری کا ماحصل ہے جو مجموعی طور پر ان سب رجحانات کا نمائندہ ہے جو عورت کے مطالعات کے ضمن میں پیدا ہوتے ہیں۔
.۲
شووالٹر کا اصل متن یہ ہے:
. "A cultural theory acknowledges that there are important differences between women as writers: class, race nationality, and history are literary determinants as significant as gender. Nonetheless, women146s culture forms a collective experience within the cultural whole, an experience that binds women writers to each other over time and space"
.۳
تنویر انجم بھٹی:اُردو میں نسائی شعور،مشمولہ ’’روشنی کی آواز‘‘، مرتب: فاطمہ حسن، آصف فرخی،وعدہ کتاب گھر، کراچی2003
.۴
فہمیدہ ریاض: دفترِ امکاں ، مشمولہ ’’خاموشی کی آواز‘‘وعدہ کتاب گھر، صدر کراچی،2003،ص 47
.۵
خواتین کی نظموں میں فکر کے اسالیب، ڈاکٹر عتیق اللہ، مشمولہ مضمون در ’’اُردو ادب کو خواتین کی دین‘‘ اُردو اکادمی دہلی، 1994، ص55
.۶
قاضی افضال حسین: متن کی تانیثی قرات ، مشمولہ ’’مابعد جدیدیت: نظری مباحث‘‘مرتب: ناصر عباس نیر، بیکن بکس، ملتان،2014،ص246
دیدبان شمارہ ۔۳
تانیثی تھیوری اور اردو نظم
مصنف : قاسم یعقوب
تانیثی تھیوری یا ادب کاتانیثی مطالعہ کن سوالوں کے ساتھ ادب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے؟ کیا تانیثیت کے وہی فکری اہداف ہیں جن کا ذکر ادب میں تانیثی تھیوری کی بحثوں میں ملتا ہے؟ تانیثی مطالعات نے ان معروضات کی تشفی کے لیے تاریخ کے باطن سے راہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ادبی تھیوری جو ادب کے تشکیل معنی کے نظام کو گرفت میں لینے کا مطالعہ ہے تانیثی تجزیوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب ادبی تھیوری کا چلن عام ہوا تواس کے ساتھ ہی ادب کے موضوعاتی مطالعوں کو بھی راہ ملی۔ مابعد نو آبادیاتی اور تانیثی مطالعوں کو ’’نظریانے‘‘ کے پیچھے مابعدجدید فکرکا وہی بنیادی اصول کارفرما تھا کہ وہ تمام اشیا جو مرکزی سمجھی جا رہی ہیں وہ اُن اشیا سے بدلی جا سکتی ہیں جو متن مرکز نہیں یا جنھیں حاشیے پر سمجھا جا رہا ہے۔ اصل میں کسی بھی شے کا حتمی ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ جو جتنا حاضر ہے اُتنا ہی غائب ہے۔ یوں حاشیے پر موجود اشیا کا بھی مرکزی دعوے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مرکزی متن پر موجود فکروں یا اشیا کا۔جو مرکزی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے وہ ...مکمل .. بتائی جا رہی ہے ورنہ وہ بھی ادھوری ہے ۔ اُسی طرح ادھوری جس طرح حاشیے پر موجود فکروں اور اشیا کو ادھورا یا خام ہونے کا سچ .. پہنا دیا جاتاہے۔مابعد جدید فکر نے ایک اور زاویے سے بھی اشیا کی ترتیب الٹنے کی کوشش کی ہے کہ سماجیاتی تشکیلات کی حیثیت تبدیل کی جا سکتی ہے کیوں کہ وہ ایک تشکیل کی حالت میں ہوتی ہیں جو جبر کی وجہ سے وہ ہیئت دکھا رہی ہو تی ہیں جو دکھانے کی کوشش کی جائے۔ اگر سماجیاتی تشکیلات کا کوئی اور رُخ متعین کر دیا جائے تو وہ اسی رُخ کو سچائی بنا کر پیش کر دیں گی۔ یعنی سماجی تشکیل پانے والی اشیا یا فکروں کا کوئی ایک روپ حتمی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ جبر سے مقدم یا موخر ہو سکتی ہیں۔ ان کی تمام شکلوں کو سامنے رکھنے اور اُن کی حیثیت کو ماننے کا نام ہی مابعد جدیدیت ہے۔ مابعد جدیدیت نے نو آبادیاتی فکر کا پردہ چاک کیا اور دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح معصوم قرات اُن حقائق کو چھپا لیتی ہے جو اصل میں کوئی اور روپ دھارے ہوتے ہیں ، آثاریاتی قرأت ہی دونوں اطراف دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہے،جس کی رو سے ہر فکر متن مرکز ہو سکتی ہے اور دبائی گئی سچائیاں جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ تانیثیت نے بھی مابعد جدید عہد کے ساتھ ہی تانیثی مطالعوں کو’نظریایا‘ اور تاریخ کے آئینے میں عورت کے مجموعی کردار اور اہلیت کو ماپنے کی کوشش کی۔یوں عورت تاریخ کے حاشیے سے مرکزِ متن بنائی جانے لگی۔
تانیثیت کو سمجھنے کی طرف پہلا بنیادی تھیسس یورپ میں پیش ہُوا،مگر یہ تھیسس عورت اور مرد کے درمیان برابری کے مسئلے کو اجاگر کرتا تھا۔ اس میں کسی خطے کے کلچر یا کسی سیاسی مسئلے کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔ عورت کیوں مرد سے حقیر تر ہے اور عورتوں کو وہ سماجی حقوق کیوں میسر نہیں جو صرف مرد ہونے کی وجہ سے مرد کو عطاکر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا پہلا سوال تھا جو باقاعدہ تانیثی تحریک کے آغاز کا موجب بنا۔
تانیثی تھیوری کے حوالے سے اُردو میں بہت کم مقالات میں تانیثیت کو’نظریانے ‘ کی کوشش کی گئی ہے۔ تانیثی تھیوری جس کی بنیاد پر ادب کی تانیثی تنقید وجود میں آئی، بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے
.۱
عورت معاشرے کے تناظر میں
یعنی عورت کے معاشرتی حقو ق کی جنگ، عورت کو سماجی طور پر مرد کے مقابلے میں مساوی حقوق دیے جانے کی جدوجہد۔
.۲
عورت مرد کے تناظر میں
یعنی مرد نے عورت کو کس طرح دیکھا یا اپنی تحریروں میں دکھایا ہے۔ عورت مرد کے مقابلے میں مرتبہ، درجہ اور حیثیت میں کہاں کھڑی ہے؟ اگر کوئی نا انصافی کی گئی ہے تو کیوں کی گئی اور اُس کے محرکات کیا تھے؟عورتوں کی دانشورانہ حیثیت مردوں کے تناظر سے کہاں متعین ہوتی ہے۔
.۳
عورت عورت کے تناظر میں
یعنی عورت کو عورت کے تناظر میں دیکھا یا پڑھا جائے۔ عورت ایک صنف کی حیثیت میں مرد کی محتاج نہیں بلکہ مرد عورت کو سمجھ ہی نہیں سکتا عورت ہی عورت کو سمجھ سکتی ہے۔ یوں عورت کو عورت کے مسائل کے ساتھ سامنے لایا جائے کہ عورت کی سماجی، سیاسی، حیاتیاتی اور نفسیاتی درجہ بندی عورت کے تناظر ہی سے متعین کی جائے۔
تانیثیت کے حوالے سے مغربی تاریخ میں انقلابِ فرانس کے بعد سے اس موضوع کو اہمیت دی جانے لگی ہے اس سلسلے میں سب سے اہم جان اسٹورٹ مل کی کتاب ہے
The Subjugation of Women
جس نے تانیثی حقوق کی آواز کو اس شدت سے اُٹھایا کہ اس کے خیالات کو لبرل فیمنزم کا نام دیا جانے لگا۔بیسویں صدی میں تانیثی تحریک کا سارا مواد ورجینا وولف کی کتاب
A Room of One's Own،
ڈورتھی رچرڈ سن کا ناول
Pilgrimage
اور سیمون دی بوائر کی کتاب
The second sex
نے فراہم کیا۔ تانیثی تحریک کا ادب کے اندر مضبوط اظہار کی ایک وجہ ان کتابوں کی اشاعت بھی تھی جنھوں نے تانیثیت کو ایک علمی وقار سے پیش کیا۔ تانیثی تحریک ادبی تحریک بن گئی جس نے عورت کے مقدمے کی فلسفیانہ حیثیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا۔بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں انتقادِ نسواں کا اسکول سامنے آیا جس کا نفسیات کے ساتھ بھی گہرا تعلق تھا۔خصوصاً فرائڈ کے جنسی نظریات نے عورت اور مرد کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی طرف کئی ایک اشارے فراہم کئے تھے۔تانیثی ناقدین نے فرائڈ کے ہاں عورت اور مرد کے جسمانی تفاوت کی بحثوں کو اپنے تھیسس میں پیش کیا۔ فرائڈ نے کہا تھاکہ عورت مرد کے مقابلے میں ایک قسم کی نفسیاتی کمی کا شکار ہوتی ہے۔ اُس کے جسم کی ساخت مرد جیسی نہیں، یہی احساس عورت کے اندر رشک اور احساسِ کمتری کا رجحان پیدا کرتا ہے جو بڑی حد تک دانش ورانہ کمتری کا موجب بنتا ہے۔ عورت کے جسمانی طور پر مرد کی نفسیاتی برتری قبول کرنے کے نظریے نے تانیثی ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
تانیثی تھیوری کی پیش کش میں ایلین شووالٹرکا نام نمایاں ہے۔ ایلین شوالٹر کا عورت کے سماجی اور حیاتیاتی حوالوں سے سمجھنے کی طرف بہت اہم تنقیدی کاہے۔ایلین شووالٹرکا تحقیقی وتنقیدی کام عورت کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے بھی بحث کرتا ہے۔عورتوں میں ہسٹیریا اور جنسی مسائل بھی شوالٹر کی تنقیدات کے اہم موضوع ہیں۔مندرجہ ذیل چند ایک کتابوں سے اس کے کام کی جہات اندازہ ہوتا ہے:
Toward a Feminist Poetics (1979),
The Female Malady: Women, Madness, and English Culture (18301501980) (1985),
Sexual Anarchy: Gender and Culture at the Fin de Siecle (1990),
Hystories: Hysterical Epidemics and Modern Media (1997)
Inventing Herself: Claiming a Feminist Intellectual Heritage (2001)
ایلین شووالٹر نے انتقادِ نسواں کی بنیاد رکھی۔ شووالٹر نے نسوانی تنقید کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا۔ ۱
.۱
نسوانیت : شوالٹر نے عورتوں کی تحریروں کی روشنی میں پہلے مرحلے کو نسوانیت کہا جو1840سے1880تک کا یورپ اور امریکہ کا معاشرہ ہے جس میں عورتوں کے حقوق کو پہلی دفعہ محسوس کیا گیا۔ اس دور کی عورتوں کی تحریریں یا عورتوں کے لیے مردوں کی تحریریں عورت کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ عورت ایک صنف کے طور پر اپنے حقوق کے دفاع کا تقاضا کرتی نظر آتی ہے۔عورتوں نے مردوں کے مقابل دانش ورانہ برابری کا نعرہ لگایا۔ شوالٹر نے اس دورکے لیے میل سوڈونیم کا لفظ استعمال کیا ہے۔جو اپنی ساخت، لہجے ، خصوصیات اور لفظیات کی وجہ سے مرد مرکز پہچاناجاتا تھا۔اصل میں یہ تحریک برابری کے حقوق کی تحریک تھی جو عورتوں سے زیادہ انسانی احترام کا تقاضا لیے تھی۔ جس طرح مارکسی معاشی فلسفے نے مزدور اور مل مالک کے تصور سے انسانی حقوق کی ایک نئی جہت متعارف کروائی تھی۔ اسی سرمایہ داری کلچر کے زیرِ اثر بچوں کے حقوق اور اُن کی اخلاقی اور تعلیمی ضرورتوں کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔عورت کیا ہے؟ عورت کا سماجی تصور صنفی تفریق ہے یا فطری تفاوت کی بنیاد ہے،نسوانیت عورت کے متعلق ایسے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے یا ان سوالوں کی بنیاد پر قائم تحریک نہیں تھی۔ لہٰذا نسوانیت نے عورتوں کے حقوق کو ہی اپنا مقصد اعلیٰ سمجھا۔ جو 1880تک ایک نئی کروٹ لے لیتا ہے۔ یہ زمانہ انقالبِ فرانس کے بعد کا زمانہ تھا جب ہر کوئی جدید انسان کی عملی حالتوں کا مطالعہ کر رہا تھا۔
.۲
نسوانی تنقید یعنی دی فیمنسٹ کریٹسزم
شوالٹر نے دوسرے مرحلے کو نسوانی کہا ہے۔یہ زمانہ1880سے شروع ہو کربیسویں صدی کے آغاز 1920تک کا ہے۔ اس دور میں مردوں کی تحریروں کو مطالعے کو مرکز نگاہ بنایا گیا ۔ یعنی مردوں کی تحریروں میں عورتوں کو کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ کیا عورت مردوں کے معاشرے میں برابری کی دعوے دار رہی ہے ۔ مردوں نے عورتوں کو کس طرح سمجھا۔ کیا عورت مرد تناظر میں کم تر رہی یا اعلیٰ صفات کے ساتھ سماجی حرکت میں شامل تھی۔ تانیثیت نے مردانہ معیارات کو رد کر نے کے لیے بھی مرد کو اپنے مطالعات کے لیے ناگزیر سمجھا ۔بنیادی طور پر یہ مکتبِ تنقید
Androcentric
تھا اور میل اورینٹڈ تصورِ عورت کو پیش کرتا تھا۔ ایک عورت مرد کے تناظر سے کس طرح کم تر ہے اگر کم تر ہے تو احتجاج اور تنقید سے اس تفریق کو دور کیا جائے۔ عورت اور مرد کی سماجی حصہ داریوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مرد تخلیق کاروں کے ہاں عورت کا تصور کس کس طرح پیش ہُوا ہے۔ مرد کاعورت کے نفسیاتی اور جذباتی حصار میں آنے کا بھی تجزیہ کیا جانے لگا۔
نسوانی تنقید دراصل نسوانیت کا اگلا پڑاؤ تھا۔ پہلے مرحلے میں عورت کے حقوق کو معاشرے کے تناظر سے تلاش کیا گیا، عورت کے بنیادی تصور انسان کو جگہ دی گئی۔ دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کا حاصلِ مطالعہ بھی ہے۔ اس مرحلے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے عورت کے مرد تناظر مطالعہ کی ضرورت ناگزیر ہے کہ ایک عورت بطور صنف اور بطور فرد مختلف کیوں ہے اور اُس کو تاریخ کے قید خانوں سے مرد حاکمیت سے کس طرح نجات دی جا سکتی ہے۔اس کے لیے یہ سمجھا جانا ضروری خیال کیا گیا کہ مردوں کی تحریروں کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے کہ مرد نے عورت کو اپنی تحریروں میں کس طرح پیش کیا ہے اور اگر عورت اپنی تحریروں میں مرد کو پیش کرتی ہے تو اُس کی اپنی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ گویا یہ مطالعہ ڈریڈا کے تصور مرد حاکمیت کا مطالعہ تھا
ڈریڈا نے یہ اصطلاح اپنے ایک مضمون
Plato's Pharmacy
میں پیش کی۔ مرد معاشرہ اصل میں مرد مرکز ہوتا ہے۔ یوں عورت کا مطالعہ مرد کے اردگرد گھومتا، مرد سے احتجاج کرتا اور مرد کے متعصبانہ رویوں کو چاک کرتا نظر آتا ہے شوالٹر نے اس عہد کو تانیثیت کا نام دیا۔
.۳
عورت یعنی دی فیمیل : یہ مرحلہ 1920سے شروع ہو کے موجودہ عہد تک پھیلا ہُوا ہے۔ عورت کیا ہے؟ یہ اس دور کا اہم اور بنیادی سوال ہے۔ یہی وہ سوال تھا جو عورت کے سماجی اور انسانی حقوق کے تناظر میں اٹھایا جانا ضروری تھا۔ شوالٹر نے اسے عورت کی خود شناسی کا مرحلہ کہا ہے۔ شوالٹر نے عورت کو عورت کے طور پر جاننے پر زور دیا۔ وہ اپنے ایک مضمون
Toward a Feminist Poetics
میں لکھتی ہے:
147women reject both imitation and protest151two forms of dependency151and turn instead to female experience as the source of an autonomous art, extending the feminist analysis of culture to the forms and techniques of literature148
شووالٹر نے عورت کے مرحلے سے متعلق تھیوری وضع کی اور عورت کے اس خود شناس مرحلے کو انتقادِ نسواں کانام دیا۔ تانیثیت اور نسوانی تنقیدی نقطہۂ نظر ، دونوں ہی عورت کو ’غیر‘ یعنی دی ادرز کے سہارے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اور عورت کو اپنے تناظر سے سمجھتا ہے اور عورت کو اُس کی خود شناسی کا درس دیتاہے۔مگر حقیقت میں عورت کیا ہے؟ یہی وہ ایک سوال تھا جو نسوانی تنقید بھی بتانے سے قاصرتھی۔نسوانی تنقید والے عورت کے متعلق مخلص توتھے اور وہ عورت کوصنف کے درجے سے نکال کے ایک الگ شناخت بھی دینا چاہتے تھے مگر وہ عورت کی شناخت کے خود آشنا محرکات سے آگاہ نہیں تھے۔ایلین شووالٹر نے اپنے ایک مضمون
Feminist Criticism in the Wilderness
میں لکھا ہے:
کلچرل تھیوری یہ تسلیم کرتی ہے کہ لکھاری عورتوں میں بہت سا فرق ہوتا ہے ،طبقہ،نسل، شہریت اور تاریخ بھی صنف کی طرح ادبی تعینِ قدر میں اہمیت رکھتے ہیں۔پھر بھی عورت کا کلچر ایک اجتماعی تجربہ، ثقافتی اجتماعیت کے اندر تشکیل دیتا ہے۔ایسا تجربہ للھاری عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زمان و مکان سے ماورا ہو کے جوڑتا ہے۔ ۲
ایلین شووالٹر نے اس سوال کو ایک اصطلاح گائنو کریٹسزم میں پیش کیا جسے اُردو میں انتقادِ نسواں کا نام دیا گیا ہے ، کے بنیادی سوال اور داعیے مندرجہ ذیل تھے:
.۱
عورت کی وجودی شناخت کیا ہے؟
.۲
عورت بطور صنف اور بطور فرد میں کیا اختصاص رکھتی ہے اور وہ اختصاص عورت کے وجودی اور ذاتی حوالوں کو کس طرح معرضِ بحث میں لاتا ہے؟
٣۔
عورت کا شعورِ ذات عورت کے نفسیاتی، داخلی اور حیاتیاتی معیارات اور اثرات سے کیسے تشکیل پاتا ہے؟
٤۔ عورت کی جنسی اور صنفی خوبیوں کا دائرہ کار کیا ہے
٥۔عورت کے معاشرتی اور جبلی رویے کس طرح کام کرتے ہیں؟
٦۔عورت کے تخلیقی متون کی درجہ بندی عورت کی ذاتی اور داخلی فضا میں کیا شکل اختیار کرتی ہے؟
٧۔ مادر سری اور پدر سری حاکمیت کی تقسیم کا سماجی اور جبلی امتیاز کیا ہے، کیا عورت مادر سری اور پدرسری دائروں میں جبلی طور پر تقسیم ہے یا کر دی گئی ہے۔
اب ہم اگر شووالٹر کے بتائے ہوئے تینوں مرحلوں کا مطالعہ کریں اور ان کے بنیادی نکات کو ایک جگہ جمع کریں تو عورت کی شناخت ہی وہ بنیادی حوالہ نظر آئے گی جو مختلف اطراف سے اپنا اثبات چاہتی ہوئی ملتی ہے۔
.۱
عورت کی شناخت کو کیوں حاشیے پر رکھا گیا؟
.۲
عورت کیوں تاریخ سے غائب رہی اور عورت کو صنفی تناظر سے کیوں کم تر صنف تصور کیا جاتا رہا؟
.۳
کیا عورت کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے مرد تناظر ہی کافی ہے یا عورت کاسماجی کردار عورت کے تشخص کا ایک ذریعہ قرار پائے گا؟
.۴
عورت کا حیاتیاتی اور نفسیاتی مطالعہ عورت کے بدن کے حوالے سے کیوں نہیں کیا جاتا؟
.۵
عورت کیا ہے یہ عورت سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟
نسوانیت ، نسوانی تنقید اور انتقادِ نسواں کے تمام سوالات اور داعیے تانیثیت کہلاتے ہیں جو نظریانے کے عمل سے گزر کے تانیثی تھیوری بنتے ہیں۔ تانیثی تھیوری نے ادب کے اندر عورت کی شناخت کو بنیادی سوال بنا کر پیش کیا ہے۔ عورت کیا ہے؟ کیسے پیش کی گئی ہے ؟ تانیثی تھیوری میں یہ سوالات مختلف انداز سے تجزیہ کیے جاتے ہیں۔
اُردو نظم میں عورت کی شناخت کا مرحلہ بیسویں صدی میں نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے عورت ایک امدادی روپ میں موجود ہے۔ عورت کا امدادی کردارنہ ہونے سے مُراداُس کا معاشرے میں فعال نہ ہونا ہے۔ عورت حاشیے پر ہی معاشرے کی تخلیقی و سماجی حرکات کا مطالعہ کرتی اور غائب ہوتی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی کردار ادا بھی کرے تو معاشرے کی مقتدر طاقتیں اُسے شناخت دینے سے انکاری ہوتی ہیں۔اُردو جس معاشرے میں پلی بڑھی وہاں عورت کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ عورت نے خود بھی اپنے اسی کردار پر اکتفا کیے رکھا۔ تنویر انجم بھٹی نے اپنے ایک مضمون نسانی تحریک کا ارتقا میں برصغیر میں نسائی شعور کی تاریخ بناتے ہوئے نسائیت کو چار حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
۳اگرچہ یہ تقسیم اُن کی اپنی بنائی ہوئی اور نسائیت کو اپنے انداز سے سمجھنے کی کوشش ہے مگر وہ اس بات پر متفق ہیں کہ نسائی شعورکاپہلا مرحلہ انگریزوں کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ وہ نسائیت کو اصلاحی ،روشن خیال، ترقی پسند اورانقلابی نسائیت میں بانٹتی ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں نیا ادب کروٹ لے رہا تھا۔ اُردو میں نئی نظم کا راگ الاپا جارہا تھا۔ نظم، ن م راشد کی کتاب ماورا کے بعد جدید نظم بن کر سامنے آتی ہے۔ یہی دور ہےئتی تبدیلیوں کا بھی دور ہے۔ نئی نظم اب آزاد نظم بن جاتی ہے۔
آزاد نظم میں عورت کے تشخص کو زیادہ جاندار طریقے سے پیش کیا گیا۔ مگر یہاں بھی دو رویے ہیں۔ ایک رویہ عورت کو مردکے تناظر سے دیکھتا ہے۔ عورت کی صنفی شناخت مرد متعین کرتا ہے اور عورت کو عزت و وقار کی تقدیس بھی اپنی لگائی ہوئی قیمت پر پیش کرتا ہے۔ اس رویے کے خلاف بھی ایک ردعمل سامنے آتا ہے۔ اس حوالے سے کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے نام صرف دو نام ہی نہیں بلکہ تانیثی نقطہ نظر کو سمجھنے کی طرف دو اسکول بھی ہیں۔ فہمیدہ ریاض کی کتاب بدن دریدہ کی نظمیں عورت کو صنفی شناخت دیتی ہوئی ملتی ہیں۔ یہ کتاب1973میں شائع ہوئی جب تانیثی تھیوری کا نام و نشان بھی اُردو میں موجود نہیں تھا۔ فہمیدہ اُردو میں پہلی دفعہ عورت کے اظہار کو مرد کی عینک (جو اصل میں معاشرے کی پدرسری حاکمیت کا سرٹیفکیٹ ہے) سے دیکھنے کی بجائے آزادانہ اظہار کو اپناوسیلہ بناتی ہیں۔ اس کتاب پر بہت لے دے ہوئی ۔ عورت کی جنسی خواہش کے اظہار کو فحش گوئی اوربدتہذیبی قرار دیا گیا۔ فہمیدہ ریاض نے اس تفریقی دانش وری کو ایک مثال سے یوں بیان کیا ہے کہ ایک نظم جب عورت لکھتی ہے تو وہی الفاظ عورت کے تناظر سے غیر مہذب اور غیر اخلاقی کہلائے جاتے ہیں جب کہ وہی الفاظ اگر مرد اپنی نظم میں استعمال کرتا ہے تو اپنے اظہار میں مہذب اور با اخلاق پیرائیوں سے باہر نہیں آتا۔ فہمیدہ ریاض نے اپنی ایک نظم کی مثال میں ان دونوں رویوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
:عورت
واہمہ ہے کہ اسی جھیل کی گہرائی میں
کوئی اثبات کا حرف
کوئی اقرار کہیں میری صدا سنتا ہے
دل مگر جانتا ہے
یہ مرا دل کہ فریب آشنا ہے
پتھر سے وصال مانگتی ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں
چھُوٹی وصل و فراق سے میں
انجان ڈگر پہ چل رہی ہوں
ہاں میرے وجود میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہی ہوں
مرد:
پتھر سے وصال مانگتا ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گیاہوں
چھُوٹا ہجر و فراق سے میں
انجان ڈگر پہ چل رہا ہوں
ہاں میرے وجود میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہاہوں
اس کایا کلپ کے بعد آپ کو نظم کا بالکل دوسرا مطلب سمجھ آئے گا۔ آپ کہیں گے واللہ! شاعر کسی اہم موضوع پر سوچ رہا ہے۔ اسے کوئی جستجو ہے، کوئی تلاش ہے وہ زندگی کے کسی دوراہے پر کھڑا ہے( جنس کے کسی دوراہے پر نہیں) ۴
آپ نے فہمیدہ ریاض کی مذکورہ نظم میں مرد اور عورت کے جذباتی اظہاری رویوں کا تجزیہ ملاحظہ کیا۔ایک نظم اگر عورت لکھتی ہے تو عورت ایک لکھاری سے ایک صنف کا روپ دھار لیتی ہے اور جب وہی الفاظ مرد سے منسوب کئے جاتے ہیں تو وہ بطور فرد اپنا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اصل میں عورت کو مرد کے وسیلے سے پڑھا جا رہا ہے جو عورت کا غیر یعنی دی ادرز ہے -
اُردو نظم میں عورت اپنی شناخت کی گم شدگیوں پر احتجاج کرتی ہی نظر آتی ہے۔ اُردو تانیثی نظموں کا غالب رجحان مرد اور سماج کے خلاف احتجاج کرنے کی طرف ہے۔ کچھ اسی قسم کا احتجاج مردوں کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ مردمصنفوں کی تحریریں بھی عورتوں کی غصب شدہ شناخت کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ گویا اُردو میں گائنو کریٹسزم کا مکتب اُس طرح جڑ نہیں بنا پایا جس طرح نسوانی تنقید اور نسوانیت نے راہ پائی ہے۔ کشور ناہید کے ہاں احتجاج زیادہ گہرا ، جذباتی اورفنی مضبوطی کے ساتھ موجود ہے:
ستم شناس ہوں لیکن زبان بریدہ ہوں
میں اپنی پیاس کی تصویر بن کے زندہ ہوں
زباں ہے قزمزی ، حدّت سے میرے سینے کی
میں مثلِ سنگ چٹخ کے بھی سنگ خوردہ ہوں
شہید جذبوں کی قبریں سجا کے کیا ہوگا
کھنڈر ہوں ، قامتِ شب ہوں، بدن دریدہ ہوں
پتھر میں لہو چمک اٹھے گا
دیوانے کے ہونٹ کاٹنے سے
خواہش میرا پیچھا کرتی رہتی ہے
میں کانٹوں کے ہار پروتی رہتی ہوں
دیکھنا یہ ہو گا کہ اگر عورت احتجاج کرتی ہے تو یہ احتجاج کس معنی یا قدر کے قیام کو رد کرنے کی سعی کرتا ہے؟احتجاج کی نوعیت کن سوالوں پر اپنا مقدمہ پیش کرتی ہے؟ احتجاج کن اشیا یا فکروں سے ہے اور احتجاج نے عورت کی صنف کو اپنا اظہار کرنے دیا ہے یا احتجاج کا وہ طریقہ جو پدر سری معاشرے میں رائج ہے اُسے ہی نقل کیا ہے؟ عورت کے احتجاج کی پہلی نوعیت تو یہ بتاتی ہے کہ وہ اپنے موجودہ ثقافتی و سیاسی کردار سے مطأن نہیں۔ گویا عورت کا اپنی حدود میں بہت محدود اور اپنے اظہار میں فطرت سے مکالمہ کرنے کی بجائے احتجاج کا راستہ اختیار کر رہا ہے۔ دوسری نوعیت یہ ہے کہ یہ احتجاج مرد سے ہے جو مرد اساس معاشرے کا نمائندہ یا حاکم ہے۔مذکورہ اشعار کا لسانی تجزیہ کیجیے تو یہ دونوں نوعتیں سامنے آجاتی ہیں۔ایک عورت اور مرد کے لسانی انتخاب میں بھی واضح فرق ہوتا ہے۔ ستم شناس، زباں بریدہ، پیاس کی تصویر، سینے کی حدت،سنگ خوردہ، جذبوں کی قبریں،قامتِ شب، بدن دریدہ،لہو چمک اٹھے گا،کانٹوں کاہار___ان لفظوں کی بائنری اپوزیشن کا مطالعہ کیجیے تو ایک بات تو واضح ہو رہی ہے کہ احتجاج کرنے والا اپنے تہذیبی اورترجیحی تصورات کے حصار میں ہے اور اُس کی صنف وہ نہیں جس کے ساتھ یا جس کا احتجاج کیا جا رہا ہے۔ عموماً ستم شناس عورت ہوتی ہے مرد تو عورت کوستم گرکہتا ہے۔ یہاں عورت زبان بریدہ ہے مگر عورت کی معاشرتی پہچان زبان درازی کے ساتھ منسوب کی گئی ہے جو کسی بھی حالت میں مرد کی قائم مقامی کواختیار کرنے کی مجاز نہیں۔ گویا احتجاج کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے اظہار میں بھی وہ لفظ سامنے لائے جائیں تو احتجاج کا معنوی اعلان بھی کر رہے ہوں۔ عورت پیاس کی تصویر بنی ہوئی ہے۔’’سینے کی حدت‘‘ عورت کا طرزِ اظہار ہے اگر مرد مرکز احتجاج ہوتا تو یہ سینے کی جلن کی صورت میں سامنے آتا۔عورت سنگ خوردہ، قامتِ شب، بدن دریدہ ہے۔ جو معاشرتی سطح پرمرداساس تصورِ احتجاج سے الگ لفظوں کا انتخاب لیے ہوئے ہے ۔کشور ناہید کی غزل کے چند اشعار کی قرأت ہمارے سامنے احتجاج کا تانیثی رُخ کھولتی ہے۔اگر جینڈر پدرسری حاکمیت کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور اُسے اپنی صنف سے آگاہ نہیں کر پا رہا تو یہ صنفی احتجاج صرف سطحی اور غیر فطری ہوگا۔نسوانی تنقید یعنی دی فیمنسٹ کریٹسزم میں ہم عورت اور مرد کے ثنوی تخالف میں مرد اور عورت کے فطری امتیاز کو سب سے پہلے نشان زد کرتے ہیں۔ جو فکری سطح پر بعد میں اور سب سے پہلے لسانی سطح پر محسوس کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عتیق اللہ نے عورت کے سماجی کردار اور دانشورانہ حصہ داری کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے:
اُردو ادب کی تاریخ اور وہ بھی ماضی کی تاریخ شاعرات کے ذکر سے خالی نہیں ہے مگر حیرت کا مقام یہ ہے کہ ان میں ایک بھی دستخط نہیں ہے جس کی شناخت قابلِ ذکر قرار دی جا سکے۔ ہماری شاعرات نے کلام تو کیا مگر مکالمے سے وہ محروم رہیں۔ اس صورتِ حال کی جڑیں ہمارے اس قداری نظام میں گہری چلی گئی ہیں جو اپنے کسی بھی آخری شمار میں مبنی بر مرد ہے‘‘ ۵
ڈاکٹر عتیق اللہ نے عورت کی دانشورانہ حصہ داری کی تین سطحوں کو نشان زد کیا ہے۔
اول: عورت کا کلام
دوم: عورت کا مکالمہ
سوم: عورت کے دست خط
عورت جب اپنی صنف کے فطری احساس کے ساتھ کچھ کہنا چاہتی ہے تو وہ عورت کا کلام ہوتا ہے۔ عورت کسی سے مخاطب ہے یہ الگ بات کہ وہ کس سے مخاطب ہے اور وہ جس سے مخاطب ہے کیا وہ اُسے سننا بھی چاہ رہا ہے؟ یہ کلام عورت کی دانشورانہ حصہ داری کی پہلی شکل ہے۔ عورت پھر اپنے مخاطب کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے۔ یعنی عورت مرد اساس معاشرے کی مقتدر ثقافتوں اور رسموں سے مکالمہ کرتی ہے۔ یہ قوتیں جو سماجی حرکت کی حاکمیت کی دعوے دار ہیں عورت کواس قابل سمجھتی ہیں کہ اُسے سن سکیں یا اُس کے سوالوں کا جواب دے دیں۔ تیسرا مرحلہ عورت کے پورے وجود کو تسلیم کرنے کا ہے جہاں مرد اپنی پوری فطری شناخت کے ساتھ پہلے ہی موجود ہے۔ گویا عورت مرد کے برابر کی حصہ دار بن کے سامنے آتی ہے۔عورت کا تصور اعلیٰ اقدار کی تجسیم بن جاتا ہے۔عورت اور مرد کے صنفی امتیاز کا ترجیحی نظام ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔ ’’دست خط‘‘ سے مُراد عورت کے فطری روپ کا عکس یااپنی قائم مقامی کومقتدرہ کے طور پر منظور کیا جانا ہے۔ مرد اپنی اس قائم مقامی کے ذہنی یا وجودی اثبات کے بغیر بھی مرد کی وہ تمام صفات کا فائدہ اُٹھاتاہے جو مرد اساس معاشرے نے ایک طاقت کے طور پر معاشرے میں رائج کر رکھی ہیں۔ مثلاً عورت کمزور ہے مرد طاقت ور۔ یا مرد زیادہ گہرا سماجی مطالعہ و تجزیہ رکھتا ہے جب کہ عورت معاشرے کے سطحی وژن کے ساتھ ادھورا اور نامکمل تجزیہ رکھتی ہے ۔ اب اگر عورت مرد کی نسبت طاقت ور ہو یا زیادہ گہرا سماجی مطالعہ بھی رکھتی ہو مگر اُس کے دست خط کی عدم صورت پذیری اُسے محروم ہی رکھے گی اور اُس کے ساتھ ناانصافی کو مبنی بر انصاف خیال کیا جاتا رہے گا۔ اُس وقت شخصیت کا تشخص اپنے دست خط منعکس کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جب شخصیت اپنے فطری وجود کے ساتھ سماجی حصہ داری میں شامل ہو اور اسے قبول بھی کیا جائے۔ عورت اس لیے بھی سراپا احتجاج ہے کہ عورت نے اگر سماجی حصہ داری نبھاہی بھی ہے تو مرد اساس رسموں نے اس کی حصہ داری کو قبول نہیں کیا۔
عورت کا وجودسب سے پہلے اپنی شناخت پر پڑے بھاری پتھر کو ہٹانے کی تگ و دو میں ہے۔ یہ روایت اُردو کی قدیم تاریخ میں موجود ہے جب رنگین جیساشاعر ریختی میں گرچہ زنانی جیسی نبیلی نہیں ہوں میں؍ لیکن آزار بند کی ڈھیلی نہیں ہوں میں‘‘ جیسی تصویریں پیش کر گیا ہو وہاں عورت کی اصل شناخت کی دریافت کوئی معمولی مسئلہ نہیں تھا۔عورت کے بدن کے دبیز پردے کے پاراُس کی روح تک پہنچنا ایک مشکل اور تہہ در تہہ بٹا ہوا سلسلہ تھا۔
کشور ناہید کی نظم میں عورت کے سماجی مرتبے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کا احساس ملتا ہے۔ کشور نے نہ چاہتے ہوئے بھی عورت کو اپنے خطے کے مجموعی سماجی تناظر میں دیکھا ہے۔ کشور کی نظمیں عورت کے فمینن مرحلے کی بازیافت ہیں۔اخلاقی اورسماجی بے توقیری، ونی کی رسمیں، سماجی بندھنیں اور مرد حاکمیت کی خلاف شدید احتجاج کشور کی نظموں کا بنیادی محرک ہے۔ کشور نے عورت کی شناخت عورت کی آزادی میں تلاش کی ہے۔ عورت پہلے گھر کی تنہائی میں قید ہے، پھر نئی زندگی کے نام پر ایک اور مرد کے حوالے کر دی جاتی ہے۔کشور کی نظم موم محل میں اسی ایک خواب کو پیش کیا گیا ہے جو عورت اپنی نئی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ یہ المیہ جینیاتی طور پر منتقل ہو رہا ہے:
میرے بیاہ سے پہلے میری ماں
خواب میں ڈر جایا کرتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک رات ماں سو رہی تھی اور میں جاگ رہی تھی
ماں بار بارمٹھی بند کرتی اور کھولتی
اور یوں لگتا کہ جیسے کچھ پکڑنے کی کوشش میں تھک کر
مگر پھر ہمت باندھنے کو مٹھی بند کرتی ہے
میں نے ماں کو جگایا
مگر ماں نے مجھے خواب بتانے سے انکار کر دیا
اُس دن میری نیند اڑ گئی
میں دوسرے صحن میں آگئی
اب میں اور میری ماں دونوں خواب میں چیخیں مارتے ہیں
اور جب کوئی پوچھے تو کہہ دیتے ہیں
ہمیں خواب یاد نہیں رہتے!
نظم کا پلاٹ عورت کی محدود دنیا کی عکاسی کر رہا ہے۔ ذرا دیکھیے کہ عورت کی دنیا کتنی محدود ہے _____بستر اور صحن____ماں بار بار مٹھی کھولتی اور بند کررہی ہے اور لگتا ہے کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماں کی سوئی ہوئی کیفیت (جو اصل میں اُس کی جاگی ہوئی حالت ہے) بھی ایک عورت دیکھ رہی ہے۔ صرف دیکھ ہی نہیں رہی بلکہ محسوس بھی کر رہی ہے۔گویا وہ اپنی ماں کا خواب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔مٹھی باندھنا اور بار بار باندھنا کس قدر بے بسی کی تصویر ہے۔ پورے وجود کی ناکامی وجود کے خوابوں، جذبوں اور فکروں کے ساتھ ملیا میٹ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔وہ کیا پکڑنا یا اپنی مٹھی میں قید رکھنا چاہتی ہے ، یہ صرف ایک عورت محسوس کر سکتی ہے۔ایک عورت اس خواب کو اپنے وجود میں اتار کر ایک اور’’ صحن ‘‘میں چلی آتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اس گھر میں مرد بھی ہوں گے یا عورت کئی مردوں کے تناظر میں پہلے ہی موجود ہیں۔ کیا وہ بھی اپنی ماں کی ان بار بار مٹھیوں کو کھولتے اور بند ہوتے محسوس کر سکتے ہیں؟ نہیں___اس لیے کہ وہ صحن تک محدود نہیں۔ اُن کی بے بسی صنفی حدود میں مقید نہیں اور نہ ہی انھوں نے ایک ’’صحن ‘‘کی زندگی کے بعد ایک اور’’ صحن ‘‘تک کا سفر طے کرنا ہے۔ کشور کی نظموں میں عورت اُس آزادی کی طالب ہے جو اسے عورت کے پروں سے اڑنے کی طاقت عطا کرے۔ اسی لیے وہ مرد حاکم معاشرے میں عورت کی سماجی، تاریخی اور نفسیاتی آزادی کے لیے جدو جہد کرتی نظر آتی ہے۔ عورت کا صحن اُس کا قید خانہ ہے جہاں سے اُسے کھلے آسماں تک دیکھنے کی آزادی ہے۔ مگر گھر کی دیوار سے باہر دیکھنا اُس کی فطری پابندی کے طور پر نافذ ہے۔ ویسے بھی ’’صحن‘‘ کی محدود وسعت میں آنے والا آسمان کتنا وسعت یافتہ ہوسکتا!اس طرح صرف صحن بدلتے ہیں، عورت ،باپ مرد کے گھر سے شوہر مرد کے گھر میں منتقل ہو جاتی ہے مگر سماج جو دیوار کے پیچھے ہے اُسے اپنی آنکھ عطا نہیں کرتا۔ کشور کا احتجاج اور عورت کے حقوق کی جنگ اُردو شاعری میں فمینن مرحلے کی دریافت ہے۔
فہمیدہ ریاض نے اپنے اندر کی عورت کا برملا اظہار چاہا ہے۔ فہمیدہ کی نظمیں ایک عورت سے زیادہ ایک انسان کی آواز معلوم ہوتی ہیں۔ فہمیدہ کو اپنے عورت پن سے زیادہ اپنے انسان ہونے پر زیادہ اعتماد ہے۔ وہ عورت کو عورت پن سے نکال کے ایک انسان کی بصیرت اور سماجیت عطا کرنا چاہتی ہے۔ جنسی رویوں میں بھی فہمیدہ کا اظہار مرد اور عورت کے تخصیص کا قائل نہیں۔ میرے خیال میں جنسی رویوں کے بے باک اظہار میں جس طرح فہمیدہ کا تانیثی اظہار سامنے آیا ہے وہ اُردو کی کسی عورت کے ہاں اتنا قوی نہیں اورنہ ہی اتناہی مرد اساس تناظر سے آزادہے۔
یہ کیسی لذت سے جسم شل ہورہا ہے میرا
یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل
یہ کیف کیا ہے کہ سانس رُک رُک کر آرہا ہے
یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اُتر رہے ہیں
لہو کے گنبد میں کوئی در ہے کہ وا ہُوا ہے
یہ چھوٹتی نبض ، رُکتی دھڑکن ، یہ ہچکیاں سی
گلاب و کافور کی لپیٹ تیز ہو گئی ہے
یہ آہو سی بدن یہ بازو کشادہ سینہ
مرے لہو میں سمٹتا سیّال ایک نکتے پر آ گیا ہے
مری نسیں آنے والے لمحے کے دھیان سے کھنچ کے رہ گئی ہیں
بس اب تو سر کا دو رُخ پہ جادو
دئیے بجھا دو
کیا عورت اور مرد کے شہوت بھرے اندھیرے اپنی فطری جذباتیت میں تہذیبی اور غیر تہذیبی ہوتے ہیں؟ ایک ہی طرز کا جنسی اظہار ثنوی تخالف میں دو الگ الگ طرز اظہار کیوں محسوس ہوتا ہے؟ انتقادِ نسواں یعنی گائنو کریٹسزم کا اسکول عورت کے وجودکو مرکزِ موضوع بناتا ہے۔ انتقادِ نسواں کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ عورت اپنے فطری اظہار میں مکمل اور کسی غیر یعنی دی ادرز کی محتاج نہیں۔ اگر ایک صنف کی پہچان ہی کسی غیر کے ذریعے ہو گی تو وہ اُسی صنف یعنی جینڈر کے تناظر سے تہذیبی یا غیر تہذیبی کہلائے گا۔ انتقادِ نسواں نے عورت کے وجود کو پہلا تجزیاتی محرک بنایا ہے ۔ ذرا اس نظم کے جنسی اظہاریے کا ثنوی تقسیم کے بغیر مطالعہ کیجیے۔جنسی لذت کی طلب ،عورت کو مدافعانہ کی بجائے جارحانہ بنا دیتی ہے۔عورت کی جارحیت بھی تومرد اساس تجزیے میں منفعل کہلائے گی ہے۔کیوں کہ جنسی وصال میں عورت کا جارحانہ عمل ایک غیر مناسب اور کسی حد تک غیر فطری تصور کیا جاتا ہے مگر عورت کے تناظر سے جب لذت نے عورت کے اعضا کو شل کر دیا تو وہ جنسی فعل میں فاعل ہو جائے گی اور مرد اس کے برعکس۔ اس پوری نظم میں عورت کا نفسانی متحرک وجود نظر آرہا ہے۔ مرد جنسی تحرک میں تیز سانس لینے کا اظہار کرتا ہے جب کہ عورت رُک رُک کے سانس چلنے کا کہ رہی ہے۔ یہ چھوٹتی نبض ، رُکتی دھڑکن ، یہ ہچکیاں سی عورت کا وجودی مسئلہ بن جاتے ہیں۔ مرد جنسی عمل میں ایسی بے ربطی اورذات سے انحراف کا عمل نہیں دُہراتا۔ عورت کا اپنے بدن کو آہو سے تشبیہ دینا اور نسوں کواپنے ماحول سے بے خبرکردینا ، عین تانیثی طرزِ اظہار ہے۔ یہ نظم غیر مہذب اس لیے لگ رہی ہے کہ عورت کا وجود مردانہ طرزِ اظہار کے قریب چلا گیا ہے۔ مرد جب اپنے وجود کا جنسی اظہار کرے گا تو ایسے کرے گا۔مگر عورت کا تصور مرد معاشرے میں تقدیس اور طہارت سے مزین ہے کیوں کہ وہ مردوں کی کے لیے زینت بنائی گئی ہے ۔اگرمردکو بھی اپنے مقابلے کی جنسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کیسے پدرسری رویوں کی حاکمیت کا دعویٰ کرے گا!جنسی اظہاریے کو طاقت اور مردانگی سے جوڑنا بھی مرد حاکمیت کا ایک ہتھیار ہے عورت جس سے دستبردار ہو کے اپنی فطرت کے کرب میں مبتلاہے۔
کشور اور فہمیدہ کا یہی بنیادی فرق ہے۔ کشور عورت کی سماجی آزادی جو تاریخی طور پر اُس پر مسلط کر دی گئی ہے اُس کے خلاف ہے، جب کہ فہمیدہ بطور ذات اور فرد اپنی اندر کی عورت کی آزادی کا اظہار چاہتی اور کرتی نظر آتی ہے۔ کشور اسی آزادی کی (جو ہر عورت کے معروض سے جنم لیتی ہے ) معاشرتی قید کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ کشور کو معاشرہ قید کرتا نظر آتا ہے خواہ وہ جنسی آزادی ہو یا سماجی آزادیاں مگر فہمیدہ اپنی ذات کے محدود اظہار کی آزادی کی طالب نظر آتی ہے۔گویا فہمیدہ کا جذبہ، تجربہ اور احتجاج ذات کے احاطے سے اپنا ہیولا تیار کرتا ہے۔ پانی کے ایک ہی جگہ پر بڑے بھنور کا نشان بنتا ہے یا ایک ہی جگہ کسی آگ کے بڑے الاؤ کی اٹھان بنتا ہے مگر کشور نے عورت کے جنس، سماج اور دانش پر کھڑی رکاوٹوں پر پورے زمانے، معاشرے اور گروہ کے تناظر سے احتجاج کیا ہے۔ فہمیدہ کا تانیثی مطالعہ مائیکرو مطالعہ ہے جو اس لیے زیادہ حقیقت پسند، کڑوا اور ہیجان انگیز ہے جب کہ کشور ناہید کا تانیثی مطالعہ میکرو مطالعہ ہے جو کڑواہٹ سے زیادہ منطقی، وسیع اور پریشان کن ہے۔
سارا شگفتہ اُردو نظم میں تانیثی مطالعے کی سب سے جاندار آواز ہے۔ انتقادِ نسواں کا اطلاقی مطالعہ جس طرح سارا شگفتہ کی نظموں کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے شاید اُردو کی کسی اور شاعر ہ سے نہیں۔ سارا شگفتہ کی تانیثیت عورت کے حیاتیاتی وجود کی روشنی لیے ہوئے بدن کے روزن سے جھانکتی ہے۔ عورت کیا ہے؟ عورت کیا نہیں؟ عورت کو کیا ہونا چاہیے؟ اور عورت کیوں وہ نہیں جو وہ تھی؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو سارا کے کربناک وجود سے ایک عورت بن کر صفحہ در صٖفحہ پھیلے ہوئے ہیں۔ سارا شگفتہ کا کمال یہ ہے کہ اُس نے اپنے انسان ہونے کے ساتھ ہی اپنے عورت ہونے کے احساس کو باور کرایا ہے۔ بلکہ وہ کہیں کہیں انسان سے زیادہ ایک عورت بن جاتی ہے۔ سارا شگفتہ کی خود کشی ایک انسان کی نہیں ایک عورت کی موت تھی۔ سارا شگفتہ کو انتقادِ نسواں کا مطالعہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اس لیے کہ اس خطے میں عورت کا وجود صرف ایک احتجاج سے زیادہ تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ عورت اپنے وجودی گرہوں میں سماج کے ساتھ کس طرح پیوست ہے اس بندھن کو کسی نے پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ سارا نے چند ایک نظموں میں اپنے وجود کی اس تشنگی کو اپنی ہتھیلی پر اُلٹ دیا ہے۔ وہ اپنے وجود کی ابکائی سے عورت کی دہشت زدہ تاریخ کے صفحات پر روغن کرتی ہے۔ سارا کی نظمیں اس خطے کا نہیں پوری انسانی تہذیب کے تانیثی نوحہ معلوم ہوتی ہیں۔
میں نے موت کے بال کھولے
اور جھوٹ پہ دراز ہوئی
نیند آنکھوں کے کنچے کھیلتی رہی
شام دوغلے رنگ سہتی رہی
آسمانوں پہ میرا چاند قرض ہے
میں موت کے ہاتھ میں ایک چراغ ہوں
جنم کے پہیے پر موت کی رتھ دیکھ رہی ہوں
زمینوں میں میرا انسان دفن ہے
سجدوں سے سر اٹھا لو
موت میری گود میں بچہ چھوڑ گئی ہے!
سارا شگفتہ کا مسئلہ سماجی ناہمواری اور اپنی معاشرتی شناخت کا رونا نہیں۔ سارا کے پاس بہت بڑے بڑے سوال ہیں۔ وہ ایک عورت کے تشخص کے ازلی قیدی ہونے پر سراپاحتجاج بھی ہے اور اپنے گھٹن کے جبلی جذبوں کی متلاشی بھی۔ موت کا استعارہ سارا کے وجود کے پھیلاؤ کو سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ ایک عورت اپنے پھیلاؤ میں کن زمانوں اور زمینوں پر حاوی ہو سکتی ہے سارا شگفتہ نے اس آفاقیت کو اپنے دکھ بھرے اور حساس آنچ میں پکے جذبوں میں پیش کیا ہے۔
روٹھ روٹھ جاتی ہوں مرنے والوں سے
اور جاگ اٹھتی ہوں آگ میں
گونج رہی ہوں پتھر میں
ڈوب چلی ہوں مٹی میں
کون سا پیڑ سا آگے گا
میرے دکھوں کا نام بچہ ہے
میرے ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے
اور آنکھوں میں انسان ہے
بے شمارجسم مجھ سے آنکھیں مانگ رہے ہیں
میں کہاں سے اپنی ابتدا کروں
آسمانوں کی عمر میری عمر سے چھوٹی ہے
پرواز زمین نہیں رکھتی
ہاتھ کس کی آواز میں
میرے جھوٹ سہہ لینا
جب جنگل سے پرندوں کو آزاد کردو
چراغ کو آگ چھکتی ہے
میں ذات کی منڈیر پر کپڑے سکھاتی ہوں
سارا کی لائنوں پر غور کیجیے جب وہ اپنی عمر آسمانوں کی عمر سے بڑی بتاتی ہے جب وہ ذات کی منڈیر پر کپڑے سکھاتی نظر آتی ہے۔ فطرت کے ساتھ معانقہ فطرت کی ایما پر نہیں بلکہ اضداد کے رشتے پر قائم کیا جاتا ہے۔ سارا کا جذبہ تانیثیت کے مجموعی مزاج کے کئی اطراف پھیلا ہوا ہے جسے نفسیاتی ،معاشرتی اور تاریخی تناظر سے زیادہ عورت کے وجود کے کشفی مراحل کی دریافت میں ڈھونڈا جا سکتاہے۔ ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے سارا شگفتہ کی نظموں کو تانیثی اظہار کا نیا رُخ بتایا ہے۔ یاد رہے کہ سارا کی نظم کسی ایک کنٹینٹ کا تشریحی اظہاریہ نہیں ہے۔ نظم اپنے وجود میں کئی تمثالوں اور کسی طرح کی فکروں کا ادغام رکھتی ہے جو مختلف جھلکیوں یعنی فلیشز میں اپنا مدعا بیان کرتی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
استعارہ سازی کے روایتی طریقہ کار کی بجائے سارا نے نظم کی تعمیر میں مجاز کی دوسری اقسام سے کام لیا ہے۔ مثلاً اسما کی جگہ ان کی صفات یا اشیا سے منسوب اپنے تجربات کو خود اشیا کی جگہ نظم کر کے سارا نے تخلیقی زبان کی ایک یک سر نئی جہت ایجاد کی ہے۔۔۔۔۔۔لفظ کے مجازی اور لغوی، دونوں جز متن میں موجود رہتے ہیں۔ ۶
عورت کے شخصی وجود کا مطالعہ سارا شگفتہ کی نظموں کے لسانی مضمرات میں نظر آتا ہے۔ قاضی افضال نے مجاز کی ایک دوسری قسم یعنی اشیا یا اسما کی جگہ اُن کے تجربات کا پیش کیا گیا ہے۔ یوں لفظ کے مجازی اور لغوی دونوں معنی متن کی بالائی اور زیریں سطح پر موجود رہتے ہیں۔ یہ آزاد نظم کا جدید ترین لہجہ اور طریقہ اظہار ہے مگر سارا نے پہلے اس طرزِ تحریر کو اپنی نظموں میں استعمال کیا۔سوال پھر بھی موجود ہے کہ اگر یہی طرزِ اظہار مرد بھی استعمال کرے تو کیا ثنوی تخالف یعنی بائنری اپوزیشن کا وجود ختم ہو جائے گا؟ یہی تجزیہ انتقادِ نسواں کی بنیاد پر لسانی تجزیہ ہوگا۔ سارا کی نظموں نے کنٹینٹ کا بکھراؤ اور غیر منطقی یا غیر روایتی نہ ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا اس غیر روایتی طریقے میں شعری اظہار کی ضرورت کا محسوس کرنا ہے۔ سارا نے اپنی نظموں کے لیے لفظ کے لغوی اور مجازی دونوں معنوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اورلیپ کرنے کی غیرشعوری کوشش کیوں کی۔کوشش کبھی غیر شعوری نہیں ہوتی ہمیشہ شعوری کاوش ہوتی ہے ۔ سارا کا یہ معاملہ اُلٹ ہے۔ سارا نے غیر شعوری طور پر جو ڈرافٹ تیار کیا وہ عورت کی مخفی لطافتوں اور حیاتیاتی مجبوریوں کو پیش کرنے کا طریقہ بھی ہے۔
عورت کا سماجی کنٹینٹ بھی اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر اندر سے عورت کا تانیثی متن اتنا ہی مربوط اور مرد تخالف رویوں سے بھرا پڑا ہے۔مذکورہ بالانظم کے منتخب حصے میں متن کے بالائی اور زیریں متن کی دونوں حالتوں میں عورت کی تانیثیت کا تجزیہ کیجیے:
روٹھ روٹھ جاتی ہوں مرنے والوں سے
اور جاگ اٹھتی ہوں آگ میں
گونج رہی ہوں پتھر میں
ڈوب چلی ہوں مٹی میں
کون سا پیڑ سا اگے گا
میرے دکھوں کا نام بچہ ہے
میرے ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے
اور آنکھوں میں انسان ہے
بے شمارجسم مجھ سے آنکھیں مانگ رہے ہیں
یہاں تانیثی موضوع انسانی یعنی فیمنسٹ سبجیکٹ اپنا اظہار کررہا ہے ۔’مرنے والوں سے روٹھنا‘ نسائی رویہ اور نسائی اظہاریہ ہے ۔کم زور وجود ہی روٹھتا ہے ۔روٹھنا بھی ایک قسم کا احتجاج ہے ،اس شخص یا واقعے یا ادارے کے خلاف جس سے وابستہ توقعات کی شکست ہوئی ہو۔جدید اردو نظم کی عورت تو ہے ہی شکست کی آواز۔آگ ،پتھر ،ٹوٹے کھلونے ، مٹی میں بیج کی طرح ڈوبنا،اور کسی پیڑ کے اگنے کا سوچنا ، یہ سب نسائی استعارے اور اشارے ہیں۔یہاں صرف دو سطروں پر غورکیجیے:’میرے ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے؍اور آنکھوں میں انسان ہے‘،کون سے ٹوٹے کھلونے ؟ کیا اپنے مرے ہوئے بچے کے ٹوٹے کھلونے ہیںیا خود عورت کا وجود ایک ٹوٹے کھلونے کی صورت اختیار کرگیا ہے ،جسے وہ خود ہی اٹھائے رکھنے ،اور اپنی شکست کی اذیت سے گزرنے پر مجبور ہے؟ ہاتھوں میں ٹوٹے کھلونے ہیں،مگر آنکھوں میں انسان ہے جو ثابت وسالم وجود کی علامت ہے۔ گویا عورت کا حقیقی تجربہ ٹوٹ پھوٹ کا ہے ،مگر اس کی نظر میں ثابت وسالم وجود ہے۔ نظم کی آخری لائن میں جن بے شمار جسموں کے آنکھیں مانگنے کا ذکر ہے ،اس کا مفہوم بھی اب سمجھ میں آتا ہے۔ بے شمار جسم وہ نظر طلب کرتے ہیں،جو ثابت وسالم انسانی وجود کو دیکھ سکتی ہے ۔پدرسری سماج میں عورت جسم ہے ،بغیر نظر کے۔ تانیثی متن اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے،اور اس کی ردّتشکیل کرتا ہے۔
(جاری ہے)
حواشی و حوالہ جات
.۱
۔ میں نے اپنے طور پر شووالٹر کے تین مرحلوں کو تین الگ الگ نام دینے کی کوشش کی ہے۔ اُردو میں نسوانیت، تانیثیت میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ مگر شووالٹر کو پڑھتے ہوئے ان لفظوں کے انگریزی مترادفات میں بہت گہرا فرق ہے۔ اسی طرح تانیثی تحریک، تانیثی تنقید اور تانیثی تھیوری میں بھی فرق نہیں کیا جاتا۔ اس مقالے میں ان لفظوں کو خاص احتیاط سے برتنے اور ان کے مترادفات کا اُن کے سیاق وسباق میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔
تانیثیت یعنی فیمینزم ادب کے اندر تانیثی تنقید اور تانیثی تھیوری کا ماحصل ہے جو مجموعی طور پر ان سب رجحانات کا نمائندہ ہے جو عورت کے مطالعات کے ضمن میں پیدا ہوتے ہیں۔
.۲
شووالٹر کا اصل متن یہ ہے:
. "A cultural theory acknowledges that there are important differences between women as writers: class, race nationality, and history are literary determinants as significant as gender. Nonetheless, women146s culture forms a collective experience within the cultural whole, an experience that binds women writers to each other over time and space"
.۳
تنویر انجم بھٹی:اُردو میں نسائی شعور،مشمولہ ’’روشنی کی آواز‘‘، مرتب: فاطمہ حسن، آصف فرخی،وعدہ کتاب گھر، کراچی2003
.۴
فہمیدہ ریاض: دفترِ امکاں ، مشمولہ ’’خاموشی کی آواز‘‘وعدہ کتاب گھر، صدر کراچی،2003،ص 47
.۵
خواتین کی نظموں میں فکر کے اسالیب، ڈاکٹر عتیق اللہ، مشمولہ مضمون در ’’اُردو ادب کو خواتین کی دین‘‘ اُردو اکادمی دہلی، 1994، ص55
.۶
قاضی افضال حسین: متن کی تانیثی قرات ، مشمولہ ’’مابعد جدیدیت: نظری مباحث‘‘مرتب: ناصر عباس نیر، بیکن بکس، ملتان،2014،ص246