Thoughts rushes, when world stand still... !
Thoughts rushes, when world stand still... !
Apr 2, 2021
کرونا دور کی ڈائیری کے دو اوراق
دیدبان شمار۱۳
ڈائیری۔۵ مئی ۲۰۲۰
ذرّات۔۔
نسترن احسن فتیحی
وقت کے دریا میں بہتے بہتے کہیں پتھر کی طرح جامد اور ساکت ٹھہر جانا کیسا لگتا ہے ۔۔ ۔۔ یہ ٹھہرنا کوئی معمولی ٹھہرنا نہیں تھا ۔۔۔۔ ایک ایسا عجیب احساس تھا جسے سمجھنے کے لئے وقت چاہئے تھا ۔۔۔ اس احساس میں خوف آگیں سکون شامل تھا ،جس کی کسی کو عادت نہیں تھی ۔۔ اپنی اپنی ریس میں ہم ایک غلط فہمی کا شکار ہو چکے تھے ۔۔ یہی کہ۔۔ یہ دنیا ہم سے چل رہی ہے ۔ ہم خود کو وقت کے دریا میں بہنے والی ایک شفاف دھارا سمجھ رہے تھے ۔۔ جسے منزل تک پہنچنے کے لئے صرف بہنا تھا ۔۔۔۔۔مگر ہم تو پتھر نکلے ، جسے وقت کی دھارا میں کسی غیبی ہاتھ نے بہنے کے لئے چھوڑ دیا تھا اب اسی غیبی طاقت نے ان پتھروں کو روک دیا تھا اور یوں پتھّر کی طرح جامد ہونے کے بعد گوناگوں احساس کے دریا میں ڈوبنا عجیب لگ رہا تھا ۔۔ جس میں نہ جانے کون کون سے رنگ شامل تھے ۔ وقت کے اس مذاق کو سمجھنے کے لئے حیرت سے اپنی جگہ اس ساکت و جامد دنیا کو دیکھتے ہوئے بہت سا وقت گزر گیا ۔۔ بہت سے لمحے خود احتسابی کے آئے ۔۔۔ بہت سے مایوسی اور تکلیف کے ۔۔۔ اسی میں کبھی کبھی سکون اور اطمینان کا لمحہ بھی ہاتھ آیا ۔۔۔ سوچا لکھوں ۔۔۔ پر کیا لکھوں ؟۔۔۔ کہاں سے لکھنا شروع کروں ۔۔۔ وقت کی موجوں نے اپنے بہاؤ کے ساتھ اس پتھر سے کتنے ذرّات الگ کر دئے ہیں ۔۔کیا یادداشت کے ان ذرّات کو چن کر آگے بڑھوں ۔۔۔ یا بس لمحہ موجود کی حیرانیاں سمیٹ لوں ۔۔ سوچتے سوچتے پھر بہت سا وقت گزر گیا ۔۔ ایک نئےاحساس نے کہا یادداشت تو وہ ذرّے ہیں جو بیتے وقت کے ساتھ ہم پر گرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ انسان کی شخصیت اس کے ملبے میں دبتی چلی جاتی ہے ۔۔ وہ ان ذرّات کو جھاڑ کر اپنی ہمّت سے آگے بڑھتا جاتا ہے مگر وقت کی منوں گرد پھر اس پر آ گرتی ہے ۔ ہمیں ان ذرات کو دامن سے جھاڑنا ہی ہوگا ، مگر پیچھے مڑ کر دیکھنے کی عادت کیسے چھوڑ دوں ۔۔۔ جب کہ آج کو سمجھنے کے لئے پیچھے دیکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے ۔۔ کیونکہ کئی فاسد ہاتھ ماضی کے اوراق کو پھاڑ کر ہٹا دینا چاہتے ہیں ۔ ماضی کو اس طرح دیکھنے کی ضرورت آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ جہاں کسی پرانے صندوق یا الماری کو کھول کر دیمک زدہ فائیلوں میں اپنی شناخت ڈھونڈھنی پڑے ۔
پیچھے مڑ کر دیکھنے پر مٹیالے ۔۔۔دھندھلے دن ۔۔۔ جن میں وقت کی گرد ہی گرد اڑتی نظر آتی ہے ۔۔۔ زندگی تو گزرتی رہتی ہے ۔۔۔۔ مگر ہاں پلٹنے پر کبھی کبھی کوئی ذرّہ یادوں کی روشنی میں چمک اٹھتا ہے ۔۔ پرانے کاغزات کی کھوج میں ۔۔۔۔ وقت کی دھول سے اٹے ہاتھوں میں کئی بار کچھ چمکتے ذرّات ملتے اور پھسل جاتے ہیں۔۔اگر ماضی کی طرٖف دیکھنا اتنا ضروری نہ ہوتا تو عبرت حاصل کرنے کے لئے قرآن میں ماقبل نسلوں کے قصے یوں نہ دہرائے گئے ہوتے۔۔ آج کسے معلوم تھا کہ ہم جو اپنے ماضی کو بھول کر طاقت اور تعیش پسندی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں خود اپنی شناخت اور اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے کاغز کے چند ٹکڑوں کے محتاج کر دئے جائینگے۔ اور بے فکری اور سکون کے سارے لمحے کچھ اندیشوں کی نذر ہو جائینگے۔۔۔ کیوں یاد آ رہے ہیں وہ مٹیالے دن ۔۔۔ بے مقصد زندگی ،شرارتیں ، کھیل ، ہلّڑپن ۔۔۔۔۔کچھ نہ تھا پر سب کچھ تھا۔۔ ان اونگھتے ہوئے دن اور بے پرواہ راتوں کی موج مستی میں زندگی اس معصوم گلہری کی طرح تھی جو ہر آندھی طوفان سے بے پرواہ اپنے دو ہاتھوں میں کچھ پکڑے اسے کترتی رہتی ہے ۔۔۔ مگر مجال کہ کسی کی پکڑ میں آجائے ۔۔۔ اس کترنے ،دوڑنے اور چھپنے میں ہی وہ زندگی کا سارا مزہ کشید کر لیتی ہے ۔ زندگی نامی وہ معصوم گلہری کبھی کسی کی پکڑ میں نہیں آئی ۔ میری پکڑ میں بھی نہیں اور وہ بے پرواہ دن کھو گئے ۔ تب اس بات کی حیرانی ہوئی کہ اس زندگی کی تو اور بھی بہت سی شکلیں ہیں ۔۔۔ یہ صرف معصوم گلہری نہیں تھی ۔۔۔ یہ تو گیدڑ بھی تھی اور بھیڑیا بھی ۔۔۔ لومڑی بھی تھی اور شیر ببر بھی ۔۔۔ زندگی کی اتنی ساری شکلیں اداس رکھنے کے لئے کافی تھیں۔۔۔ زندگی کا بھیانک چہرہ دیکھنے کا کون روادار ہوتا ہے مگر حیات نامی جنگل میں ان سے مفر نہ تھا ۔ یہ مختلف گزرگاہوں پر اپنی بھیانک شکلوں کے ساتھ موجود تھی ۔ تب ادراک ہوا کہ ہم انسان ہی ایک بے بضاعت ذرّے ہیں ۔۔۔ وقت کی بیکراں وسعت میں اڑنے والی دھول ۔ حوصلہ پست ہوا ۔ہر جگہ طبقاتی ، نسلی اور جنسی تفریق ۔۔ ہر جگہ مفاد کا کھیل ۔۔۔ ایک طرف بے حد چمکتی دنیا تو دوسری طرف بلکتی ۔۔۔ کدھر دیکھو ۔۔۔؟ کیا کرو ۔۔۔ کہاں جاؤ ۔۔۔؟ کس سے نفرت ۔۔۔ کس سے محبت ؟۔۔۔ کون صحیح اور کون غلط ؟۔۔۔ جتنا سمجھنے کی کوشش کیا اتنا کنفیوزن بڑھا ۔۔۔یاد آیا ایسے ہی تزنزب بھرے کسی لمحے میں ابّا نے پاس بٹھا کر سمجھایا تھا۔۔ ’’ بس ایک بات سمجھنے کی ہے ۔۔۔ زندگی خدا کی عطا کردہ نعمت ہے ۔۔۔ اسے ضائع مت کرنا ۔۔ تمہارے دائرہ کار میں جتنا ممکن ہو ایک بہتر انسان بنو ۔۔۔ باقی سب اللہ پر چھوڑ دو ۔‘‘ میں پرانے کاغزات میں نہ جانے کیا ڈھونڈھ پائی کیا نہیں ۔۔۔۔ مگر یادوں کے کی گرد سے ایک ایسا چمکتا ہوا ذرّہ ہاتھ آیا جس نے حال کے اس مشکل وقت سے جوجھنے کی ہمت عطا کر دی ۔۔۔ ماضی اور مستقبل کی فکر دھوئیں کی طرح اڑ گئی اور احساس ہوا حال کے لئے بہتر انسان بننے کا اس سے اچھا وقت شاید پھر کبھی ملے کہ نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائیری۔ ۶ جولائی ۲۰۲۰
2- کن فیکون
نسترن احسن فتیحی
اگر کیلینڈر کے حساب سے ہی بات کریں تو دو ہزار سال سے بھی زیادہ برگزیدہ اس دنیا میں ہماری آنکھوں کو ایک ایسا منظر دیکھنا بھی لکھا تھا کہ۔۔۔
مسجد الحرام کے طول و عرض کے خالی فرش اور صحن میں امام کعبہ نے جب جمع کا خطبہ دیا تو سورج کی روشنی زرد ہو گئ تھی اور امام پوری رقت سے روتے ہوئے خدا کے حضور گڑگڑا رہے تھے کہ ۔۔۔۔"اے اللہ اپنی ناراضی دور کر لے اور ابن آدم سے عذاب اٹھا لے ۔"
کیونکہ خدا نے ایک جرثومے کو کن کہ دیا تھا ۔ اور اب ایک حقیر جراثیم جس کا نہ کوئ جسم تھا نہ قامت ۔۔۔ دنیا کی ساری طاقت کو روک چکی تھی۔ جیسے یہ ساری دنیا ایک ساتھ انسانوں سے خالی ہو گئ ہو ۔۔
زمین کی بساط پر شطرنج کی چال چلنے والی اس دنیا کو نہیں معلوم تھا کہ خدا نے اس بار کن (ہو جا)کس مقصد کے لئے استعمال کیا ہے ۔
جب کہ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے دور نے سارے عالم کو تیزرفتار اور ساری حکومت کو بے حد مغرور بنا دیا تھا ۔۔ طاقت ور بے شرم ننگےقہقہے مجبور بے کس عوام کی خود داری کو تار تار کر رہے تھے۔ ایک طرف لیبیا کو دوسرا شام بنانے کی تیاری تھی ، عالمی طاقتیں مداخلت کر رہی تھیں ۔۔ایک طرف وزیر اعظم فیض السراج کو ترکی ،قطر اور اٹلی کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر کو روس فرانس ،مصر اور اردن کی ۔۔۔ عالمی طاقتیں حمایت کے نام پر خانہ جنگی میں شامل کیوں ہو جاتی ہیں ۔۔؟ ۔ لیبیا جو ایک انعام کی صورت انہیں نظر آرہا تھا جہاں افریقہ میں تیل کے بہت بڑے ذخائر تھے اور آبادی بے حد کم ۔۔۔ مداخلت اور مفاہمت کے نام پر سب کے سامنے اپنے اپنے مفاد تھے ۔ کسی کو طاقت کا نشہ تھا اور کسی کو طاقت کا ساتھ پانے کا نشہ ۔۔ ٹرمپ اور مودی نے بھی اپنی دوستی کی بنیاد میں انسانی خون اور جلی ہوئ لاشوں کی سڑاند شامل کر لی تھی۔۔۔ہاو ڈی مودی اور نمستے ٹرمپ کی تیاری ،قہقہوں اور شور کے درمیان کہیں کہیں خونی بساط بھی بچھائ گئ تھی ۔اسی ملک میں اگر ایک طرف شان و شوکت ،حکومت اور اقتدار کی نمائش میں سیر و سیاحت اور تفریح کا دور و دورہ تھا تو دوسری طرف گھروں میں آگ زنی اور قتل و غارت گری کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ یہ واقعات جنہیں حادثے کا نام دیا جاتا ہے وہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوتے ۔۔ ان کے لئے بہت پہلے سے زمین تیار کی جاتی ہے ۔۔۔ اگر یہ حادثے ہوتے تو وہاں کیوں نہیں رونما ہوتے ہیں جہاں ان کو انجام دینے والے لوگ انجام نہیں دینا چاہتے ۔۔ مگر ایک طاقت ہے جو وہ کر گزرتا ہے جس کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے تک انسان بے خبر رہتا ہے۔۔ اس طاقت نے گئے وقتوں سے بہت سی مثالیں اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ دی ہیں کہ جب جب تم حد تجاوز کرو گے حادثے زمین پر رونما ہونگے ۔۔۔ مگر انسان کی یادداشت بہت کمزور ہے یا اس کی خواہشات کا سیلاب منھ زور جس میں وہ سب بھول جاتا ہے ۔۔۔ خدا نے اسی مغرور دنیا کو روکنے کے لئے ایک حقیر جراثیم کو کن کہ دیا تھا اور بس دنیا بدل گئ تھی ۔۔۔ 2020 کی دنیا ششدر تھی اور اپنی ساری طاقت ، ترقی ،پیسہ، امارت ،عقل سائنس کے ساتھ منھ کے بل دھڑام سے گر گئ تھی ۔ اور اس حقیر جراثیم نے دنیا کی ساری پرواز کو روک دیا تھا ۔اس نے نسلی ، طبقاتی جنسی اور مذہبی تفریق کے بغیر سب کو ایک ساتھ سبق سکھانے کا بیڑہ اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔
یہ چوٹ ان مغرور طاقتوں کو زیادہ زور سے لگی تھی جو اپنی شاطرانہ چالوں سے سارے بشر پر ظلم کر رہے تھے باقیوں کے لئے تو موت کا بہانہ تھی جو بہر صورت آنی ہے۔
"رب کا لفظ کن اور اس کا ثمر فیکون۔"
"اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے ۔"
سورۃ يٰـسٓ
دیدبان شمار۱۳
ڈائیری۔۵ مئی ۲۰۲۰
ذرّات۔۔
نسترن احسن فتیحی
وقت کے دریا میں بہتے بہتے کہیں پتھر کی طرح جامد اور ساکت ٹھہر جانا کیسا لگتا ہے ۔۔ ۔۔ یہ ٹھہرنا کوئی معمولی ٹھہرنا نہیں تھا ۔۔۔۔ ایک ایسا عجیب احساس تھا جسے سمجھنے کے لئے وقت چاہئے تھا ۔۔۔ اس احساس میں خوف آگیں سکون شامل تھا ،جس کی کسی کو عادت نہیں تھی ۔۔ اپنی اپنی ریس میں ہم ایک غلط فہمی کا شکار ہو چکے تھے ۔۔ یہی کہ۔۔ یہ دنیا ہم سے چل رہی ہے ۔ ہم خود کو وقت کے دریا میں بہنے والی ایک شفاف دھارا سمجھ رہے تھے ۔۔ جسے منزل تک پہنچنے کے لئے صرف بہنا تھا ۔۔۔۔۔مگر ہم تو پتھر نکلے ، جسے وقت کی دھارا میں کسی غیبی ہاتھ نے بہنے کے لئے چھوڑ دیا تھا اب اسی غیبی طاقت نے ان پتھروں کو روک دیا تھا اور یوں پتھّر کی طرح جامد ہونے کے بعد گوناگوں احساس کے دریا میں ڈوبنا عجیب لگ رہا تھا ۔۔ جس میں نہ جانے کون کون سے رنگ شامل تھے ۔ وقت کے اس مذاق کو سمجھنے کے لئے حیرت سے اپنی جگہ اس ساکت و جامد دنیا کو دیکھتے ہوئے بہت سا وقت گزر گیا ۔۔ بہت سے لمحے خود احتسابی کے آئے ۔۔۔ بہت سے مایوسی اور تکلیف کے ۔۔۔ اسی میں کبھی کبھی سکون اور اطمینان کا لمحہ بھی ہاتھ آیا ۔۔۔ سوچا لکھوں ۔۔۔ پر کیا لکھوں ؟۔۔۔ کہاں سے لکھنا شروع کروں ۔۔۔ وقت کی موجوں نے اپنے بہاؤ کے ساتھ اس پتھر سے کتنے ذرّات الگ کر دئے ہیں ۔۔کیا یادداشت کے ان ذرّات کو چن کر آگے بڑھوں ۔۔۔ یا بس لمحہ موجود کی حیرانیاں سمیٹ لوں ۔۔ سوچتے سوچتے پھر بہت سا وقت گزر گیا ۔۔ ایک نئےاحساس نے کہا یادداشت تو وہ ذرّے ہیں جو بیتے وقت کے ساتھ ہم پر گرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ انسان کی شخصیت اس کے ملبے میں دبتی چلی جاتی ہے ۔۔ وہ ان ذرّات کو جھاڑ کر اپنی ہمّت سے آگے بڑھتا جاتا ہے مگر وقت کی منوں گرد پھر اس پر آ گرتی ہے ۔ ہمیں ان ذرات کو دامن سے جھاڑنا ہی ہوگا ، مگر پیچھے مڑ کر دیکھنے کی عادت کیسے چھوڑ دوں ۔۔۔ جب کہ آج کو سمجھنے کے لئے پیچھے دیکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے ۔۔ کیونکہ کئی فاسد ہاتھ ماضی کے اوراق کو پھاڑ کر ہٹا دینا چاہتے ہیں ۔ ماضی کو اس طرح دیکھنے کی ضرورت آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ جہاں کسی پرانے صندوق یا الماری کو کھول کر دیمک زدہ فائیلوں میں اپنی شناخت ڈھونڈھنی پڑے ۔
پیچھے مڑ کر دیکھنے پر مٹیالے ۔۔۔دھندھلے دن ۔۔۔ جن میں وقت کی گرد ہی گرد اڑتی نظر آتی ہے ۔۔۔ زندگی تو گزرتی رہتی ہے ۔۔۔۔ مگر ہاں پلٹنے پر کبھی کبھی کوئی ذرّہ یادوں کی روشنی میں چمک اٹھتا ہے ۔۔ پرانے کاغزات کی کھوج میں ۔۔۔۔ وقت کی دھول سے اٹے ہاتھوں میں کئی بار کچھ چمکتے ذرّات ملتے اور پھسل جاتے ہیں۔۔اگر ماضی کی طرٖف دیکھنا اتنا ضروری نہ ہوتا تو عبرت حاصل کرنے کے لئے قرآن میں ماقبل نسلوں کے قصے یوں نہ دہرائے گئے ہوتے۔۔ آج کسے معلوم تھا کہ ہم جو اپنے ماضی کو بھول کر طاقت اور تعیش پسندی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں خود اپنی شناخت اور اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے کاغز کے چند ٹکڑوں کے محتاج کر دئے جائینگے۔ اور بے فکری اور سکون کے سارے لمحے کچھ اندیشوں کی نذر ہو جائینگے۔۔۔ کیوں یاد آ رہے ہیں وہ مٹیالے دن ۔۔۔ بے مقصد زندگی ،شرارتیں ، کھیل ، ہلّڑپن ۔۔۔۔۔کچھ نہ تھا پر سب کچھ تھا۔۔ ان اونگھتے ہوئے دن اور بے پرواہ راتوں کی موج مستی میں زندگی اس معصوم گلہری کی طرح تھی جو ہر آندھی طوفان سے بے پرواہ اپنے دو ہاتھوں میں کچھ پکڑے اسے کترتی رہتی ہے ۔۔۔ مگر مجال کہ کسی کی پکڑ میں آجائے ۔۔۔ اس کترنے ،دوڑنے اور چھپنے میں ہی وہ زندگی کا سارا مزہ کشید کر لیتی ہے ۔ زندگی نامی وہ معصوم گلہری کبھی کسی کی پکڑ میں نہیں آئی ۔ میری پکڑ میں بھی نہیں اور وہ بے پرواہ دن کھو گئے ۔ تب اس بات کی حیرانی ہوئی کہ اس زندگی کی تو اور بھی بہت سی شکلیں ہیں ۔۔۔ یہ صرف معصوم گلہری نہیں تھی ۔۔۔ یہ تو گیدڑ بھی تھی اور بھیڑیا بھی ۔۔۔ لومڑی بھی تھی اور شیر ببر بھی ۔۔۔ زندگی کی اتنی ساری شکلیں اداس رکھنے کے لئے کافی تھیں۔۔۔ زندگی کا بھیانک چہرہ دیکھنے کا کون روادار ہوتا ہے مگر حیات نامی جنگل میں ان سے مفر نہ تھا ۔ یہ مختلف گزرگاہوں پر اپنی بھیانک شکلوں کے ساتھ موجود تھی ۔ تب ادراک ہوا کہ ہم انسان ہی ایک بے بضاعت ذرّے ہیں ۔۔۔ وقت کی بیکراں وسعت میں اڑنے والی دھول ۔ حوصلہ پست ہوا ۔ہر جگہ طبقاتی ، نسلی اور جنسی تفریق ۔۔ ہر جگہ مفاد کا کھیل ۔۔۔ ایک طرف بے حد چمکتی دنیا تو دوسری طرف بلکتی ۔۔۔ کدھر دیکھو ۔۔۔؟ کیا کرو ۔۔۔ کہاں جاؤ ۔۔۔؟ کس سے نفرت ۔۔۔ کس سے محبت ؟۔۔۔ کون صحیح اور کون غلط ؟۔۔۔ جتنا سمجھنے کی کوشش کیا اتنا کنفیوزن بڑھا ۔۔۔یاد آیا ایسے ہی تزنزب بھرے کسی لمحے میں ابّا نے پاس بٹھا کر سمجھایا تھا۔۔ ’’ بس ایک بات سمجھنے کی ہے ۔۔۔ زندگی خدا کی عطا کردہ نعمت ہے ۔۔۔ اسے ضائع مت کرنا ۔۔ تمہارے دائرہ کار میں جتنا ممکن ہو ایک بہتر انسان بنو ۔۔۔ باقی سب اللہ پر چھوڑ دو ۔‘‘ میں پرانے کاغزات میں نہ جانے کیا ڈھونڈھ پائی کیا نہیں ۔۔۔۔ مگر یادوں کے کی گرد سے ایک ایسا چمکتا ہوا ذرّہ ہاتھ آیا جس نے حال کے اس مشکل وقت سے جوجھنے کی ہمت عطا کر دی ۔۔۔ ماضی اور مستقبل کی فکر دھوئیں کی طرح اڑ گئی اور احساس ہوا حال کے لئے بہتر انسان بننے کا اس سے اچھا وقت شاید پھر کبھی ملے کہ نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائیری۔ ۶ جولائی ۲۰۲۰
2- کن فیکون
نسترن احسن فتیحی
اگر کیلینڈر کے حساب سے ہی بات کریں تو دو ہزار سال سے بھی زیادہ برگزیدہ اس دنیا میں ہماری آنکھوں کو ایک ایسا منظر دیکھنا بھی لکھا تھا کہ۔۔۔
مسجد الحرام کے طول و عرض کے خالی فرش اور صحن میں امام کعبہ نے جب جمع کا خطبہ دیا تو سورج کی روشنی زرد ہو گئ تھی اور امام پوری رقت سے روتے ہوئے خدا کے حضور گڑگڑا رہے تھے کہ ۔۔۔۔"اے اللہ اپنی ناراضی دور کر لے اور ابن آدم سے عذاب اٹھا لے ۔"
کیونکہ خدا نے ایک جرثومے کو کن کہ دیا تھا ۔ اور اب ایک حقیر جراثیم جس کا نہ کوئ جسم تھا نہ قامت ۔۔۔ دنیا کی ساری طاقت کو روک چکی تھی۔ جیسے یہ ساری دنیا ایک ساتھ انسانوں سے خالی ہو گئ ہو ۔۔
زمین کی بساط پر شطرنج کی چال چلنے والی اس دنیا کو نہیں معلوم تھا کہ خدا نے اس بار کن (ہو جا)کس مقصد کے لئے استعمال کیا ہے ۔
جب کہ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے دور نے سارے عالم کو تیزرفتار اور ساری حکومت کو بے حد مغرور بنا دیا تھا ۔۔ طاقت ور بے شرم ننگےقہقہے مجبور بے کس عوام کی خود داری کو تار تار کر رہے تھے۔ ایک طرف لیبیا کو دوسرا شام بنانے کی تیاری تھی ، عالمی طاقتیں مداخلت کر رہی تھیں ۔۔ایک طرف وزیر اعظم فیض السراج کو ترکی ،قطر اور اٹلی کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر کو روس فرانس ،مصر اور اردن کی ۔۔۔ عالمی طاقتیں حمایت کے نام پر خانہ جنگی میں شامل کیوں ہو جاتی ہیں ۔۔؟ ۔ لیبیا جو ایک انعام کی صورت انہیں نظر آرہا تھا جہاں افریقہ میں تیل کے بہت بڑے ذخائر تھے اور آبادی بے حد کم ۔۔۔ مداخلت اور مفاہمت کے نام پر سب کے سامنے اپنے اپنے مفاد تھے ۔ کسی کو طاقت کا نشہ تھا اور کسی کو طاقت کا ساتھ پانے کا نشہ ۔۔ ٹرمپ اور مودی نے بھی اپنی دوستی کی بنیاد میں انسانی خون اور جلی ہوئ لاشوں کی سڑاند شامل کر لی تھی۔۔۔ہاو ڈی مودی اور نمستے ٹرمپ کی تیاری ،قہقہوں اور شور کے درمیان کہیں کہیں خونی بساط بھی بچھائ گئ تھی ۔اسی ملک میں اگر ایک طرف شان و شوکت ،حکومت اور اقتدار کی نمائش میں سیر و سیاحت اور تفریح کا دور و دورہ تھا تو دوسری طرف گھروں میں آگ زنی اور قتل و غارت گری کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ یہ واقعات جنہیں حادثے کا نام دیا جاتا ہے وہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوتے ۔۔ ان کے لئے بہت پہلے سے زمین تیار کی جاتی ہے ۔۔۔ اگر یہ حادثے ہوتے تو وہاں کیوں نہیں رونما ہوتے ہیں جہاں ان کو انجام دینے والے لوگ انجام نہیں دینا چاہتے ۔۔ مگر ایک طاقت ہے جو وہ کر گزرتا ہے جس کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے تک انسان بے خبر رہتا ہے۔۔ اس طاقت نے گئے وقتوں سے بہت سی مثالیں اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ دی ہیں کہ جب جب تم حد تجاوز کرو گے حادثے زمین پر رونما ہونگے ۔۔۔ مگر انسان کی یادداشت بہت کمزور ہے یا اس کی خواہشات کا سیلاب منھ زور جس میں وہ سب بھول جاتا ہے ۔۔۔ خدا نے اسی مغرور دنیا کو روکنے کے لئے ایک حقیر جراثیم کو کن کہ دیا تھا اور بس دنیا بدل گئ تھی ۔۔۔ 2020 کی دنیا ششدر تھی اور اپنی ساری طاقت ، ترقی ،پیسہ، امارت ،عقل سائنس کے ساتھ منھ کے بل دھڑام سے گر گئ تھی ۔ اور اس حقیر جراثیم نے دنیا کی ساری پرواز کو روک دیا تھا ۔اس نے نسلی ، طبقاتی جنسی اور مذہبی تفریق کے بغیر سب کو ایک ساتھ سبق سکھانے کا بیڑہ اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔
یہ چوٹ ان مغرور طاقتوں کو زیادہ زور سے لگی تھی جو اپنی شاطرانہ چالوں سے سارے بشر پر ظلم کر رہے تھے باقیوں کے لئے تو موت کا بہانہ تھی جو بہر صورت آنی ہے۔
"رب کا لفظ کن اور اس کا ثمر فیکون۔"
"اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے ۔"
سورۃ يٰـسٓ