محبت کے چالیس اصول
محبت کے چالیس اصول
Mar 15, 2018
(تمہید اور پہلی قسط) Ellif Shafaque
The Forty Rules of Love(Novel)
Writer - Ellif Shafaque
دیدبان شمارہ ۔۶
محبت کے چالیس اصول
مترجم - نعیم اشرف
(پہلی قسط)
افتتا حیہ
بہتے ہوئے دریا میں اگر کنکر پھینکا جائے تو یہ اس کی ریاست پر خاطر خواہ کوئی اثر نہیں کرے گاحتیٰ کہ یہ مظہر غورطلب بھی نہ ہوگا۔۔تاہم ایک ساکن جھیل پر پتھر پھینکنے کا نتیجہ غور کیے بغیر ہی نظر آجاتا ہے کیو نکہ یہ پتھر اس پر سکو ن پانی میں ہلچل مچا دیگا۔یہ پرسکون پانی پہلے اپنی چھوٹی سی سلطنت میں آنے والی اس نئی چیز کے خلاف مزاحمت کی شکل میں یااس نئے مہمان کی آمد کے ردعمل کے طور پر کئی نئے دائرے بنائے گااوریوںپا نی کی سطح پر دائرے ہی دائرے نظر آئیں گے۔ دوسری جانب جب پتھر ایک بڑے دریا میں گرتا ہے تو یہ اس دریا کے لئے معمولی ساحادثہ ہے اور وہ اس کو معمولی جان کر اپنی ہیجان انگیزی میں ہی کہیں ارادی طور پر گم کردیتا ہے جبکہ یہی پتھراگر کسی جھیل میں گرتا ہے تو جھیل کے خدوخال یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔’’ایلا رابنسٹین ‘‘ کی زندگی بھی اسی ٹھہرے اور گم سم پانی کی مانند تھی۔ ایسی زندگی جس میں محض ضروریات کی تکمیل اور عام سی عادات پر ہی ساری توجہ مرکوز تھی۔۔۔۔۔۔ ایسا کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ ایک عظیم عورت تھی۔۔ہاں یہ اس کی عظمت ہی تو تھی کہ وہ اس یکسانیت سے لبریزاورمعمولی زندگی سے نہ باغی ہوئی ، اور نہ ہی کبھی تھکنے کا سوال پیدا ہوا۔اس کا شوہر نامدار ’’ڈیوڈ‘‘ جو کہ اپنی از حد محنت کے بعد ایک کامیاب ڈینٹسٹ بنا تھا، آج اس کو دنیا ایک مشہور دندان ساز کے حوالے سے جانتی تھی تاہم وہ اپنی شادی شدہ زندگی کو لے کر لاپروائی اختیار کیے ہوئے تھاجس طرح سے کوئی بچہ اپنے کھلونوں کو لے کر لابالی پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایسانہ تھا کہ ایلا اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار تھی ، اسے بخوبی علم تھا کہ وہ کسی مضبوط بندھن میں منسلک نہیں ہے۔ اپنے شادی شدہ زندگی کے تجربے کی بناء پر وہ سوچتی تھی کہ عائلی زندگی ایک دوسرے کی چیدہ چیدہ ضروریات اور فرائض پوری کرنے پر محیط ہے جب کہ اس تعلق میں کسی بھی قسم کے جذبات کوکوئی اہمیت حاصل نہیں تھی۔خاص کر وہ شادی شدہ جوڑا جو کافی عرصے سے شادی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ایک شادی شدہ زندگی میں ایک دوسرے کو سمجھنا، معافی ، بردباری اور درگزر کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے جب کہ عشق و محبت اس رشتے میں ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ پیار، عشق اور محبت کی باتیں اچھی تو ضرور لگتی ہیں مگر صرف فلموں اورناولوں میںجبکہ عملی زندگی کی حقیقت تو یکسر مختلف ہے۔ایلا کی بطور خاتون خانہ کئی مصروفیات اور ذمہ داریاں تھیں تاہم اس کے بچے ان ترجیحات میں سرفہرست تھے۔اس کی سب سے بڑی خوبرو بیٹی ’’جینٹ‘‘ کالج کی طالبہ تھی جبکہ اس کے دوبچے ’’اورلی ‘‘اور ’’ایوی ‘‘ جڑواں اور کم عمر تھے۔بچوں کے علاوہ اس کا ایک ساتھی بھی گھر کا حصہ تھا جو صبح کی سیر میں اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ایلاکی اس سنہرے گھنے بالوں والے بارہ سالہ اسپرٹ سے اس وقت سے دوستی تھی جب وہ محض ننھا سا پلا تھا۔ بچوں کے علاوہ سنہرے گھنے بالوں والا بارہ سالہ سپرٹ بھی ایلا کے گھر کا حصہ ،اس کا دوست اور اسکی صبح کی سیر کا ساتھی تھا اوریہ دوستی اس وقت سے تھی جب وہ محض ایک ننھا سا پلا تھا۔ضعیف ہونے کے باعث یہ بہرہ اور تقریباً اندھا ہو نے کے ساتھ ساتھ فربہ جسم کا حامل تھا۔حقیقت یہ تھی کہ اب اس قریبی ساتھی کو’’بھی ‘‘ الوداع کہنے کا وقت آن پہنچا ہے تاہم وہ پر امید تھی کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا ، شاید وہ سب جانتے ہوئے بھی انجان بن رہی تھی ، یا حالات ہی کچھ ایسے تھے جن کے باعث وہ اس چیز کی اُمید رکھے ہوئے تھی۔۔جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ عادت نہیں بلکہ اس کی سرشت تھی۔۔ اس نے کبھی کسی چیز کے خاتمہ کو قبول نہیں کیا تھا چا ہے وہ ز ندگی کا کوئی اہم مرحلہ ہو ، یا کوئی عادت۔۔اور شادی۔۔ ان سب کا اختتام ایک حقیقت تھا جن سے وہ نظریں چرا رہی تھی۔ایلا کا خاندان رانب اسٹن کے نام سے پہچانا جاتا تھا جو کہ امریکی ریاست مساچوسیٹس Massachusets کے شہر نارتھ ایمٹن Northampton میں آباد تھا۔ ان کا وکٹوریہ نما عا لی شان گھر 5 بیڈرومزاور 3 غسل خانوں پر مبنی زندگی کی تمام تر آسائشوںسے آراستہ تھا۔بلاشبہ اس گھر کو معمولی مرمت کی ضرورت ضرور تھی مگر اس کے باوجود یہ بنگلہ اعلیٰ قسم کی لکڑی کے فرش ،تین عدد میگا گاڑیوں پر مشتمل گیراج اور فرانسیسی دروازے سے آراستہ تھا۔ گھر کی خوبصورتی میں بیرونی حوض مزید اضافہ کرتا تھا۔ ا س گھر کے افراد مالی طور پر اس قدر مضبوط تھے کہ انہوں نے زندگی کا بیمہ ، تعلیمی اخراجات کی باقاعدہ منصوبہ بندی اوریہاں تک کہ گاڑیوں کی انشورنش بھی کروائی ہوئی تھی۔مزید یہ کہ ان کے بوسٹن اور جزیرہ ہوڈ پر رہائشی فلیٹس بھی موجود تھے۔ مختصراً یہ گھرانہ معاشی لحاظ سے کافی مضبوط تھا۔ یہی وہ آسائشیں تھیں جن کے حصول کیلئے ایلا اور ڈیوڈ نے دن رات محنت کی تھی۔تو یہ طے تھا کہ ہر قسم کی مادی سہولیات سے آراستہ یہ گھر جہاں پر اولاد جیسی نعمت بھی موجود تھی اورجس کے آنگن میں اکثروبیشتر لذیذ کھانوں کی ہلکی ہلکی خوشبو بھی مہکا کرتی تھی، کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ایک مثالی زندگی تھی تاہم ان کے نزدیک یہ ایک خیالی زندگی تھی۔ وہ زندگی جس کا تصور اور جس کی بنیاد انہوں نے شادی سے قبل رکھی تھی اور وہ دونوں اس کی تعبیر میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے تھے۔ڈیوڈ چھوٹے موٹے موقعوں پر اسے کوئی نہ کوئی تحفہ دے کراسے اپنے ہونے کا احساس دلاتا تھا۔ جیسا کہ گزشتہ ویلنٹائن ڈے پر ڈیوڈ نے اس کو ہیرے کا جھمکا دیا تھا ، جس کے ساتھ منسلک کارڈ پر یہ تحریر درج تھی :میری پیاری ایلا،’’ایک ایسی خاتون کے نام جو خاموش طبیعت ، سخی دل ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد صابر ہے۔ مجھے میری کمزوریوں کے ساتھ تسلیم کرنے کا شکریہ۔۔ میری شریک حیات رہنے کا شکریہ‘‘تمہارا ڈیوڈ
یہ الفاظ پڑھ کر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی موت پر تعزیتی الفاظ بیان کیے جارہے ہوں۔۔ ہاںشاید یہ وہی الفاظ ہیں جو اس کی موت پربولے جائیں گے اور اگر اس کے گھر والے اس سے زیادہ مخلص ہوئے تو شاید ان میں مزید کچھ الفا ظ کا اضافہ بھی ہوجائے۔اس نے مزید سوچا شاید وہ الفاظ کچھ یوں ہوں گے۔۔’’ایک ایسی خاتون کے نام جس کی زندگی محض اس کے شوہر اوربچوں کے گردگھومتی تھی۔اس کے پاس کوئی ایسا ہنر موجود نہیںتھا جس کو استعمال کرکے وہ اپنی زندگی کی سختیوں کو جھیل سکتی۔ وہ تو ہواؤں کارخ بھی تبدیل کرنا نہیں جانتی تھی۔حتیٰ کہ کافی کا برینڈ تبدیل کرنابھی اس کے لئے کسی بڑے محاذ سرکرنے سے کم نہ تھا‘‘ایلا سمیت کوئی اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ سن 2008 ئ کی خزاں میں شادی کے 28 سال مکمل ہونے کے بعد اس نے عدالت میں طلاق کی درخواست کیوں دائرکی۔٭اس کی وجہ اس کے دل میں کھلنے والی ایک ننھی کلی تھی۔۔ جسے اہل زبان محبت کا نام دیتے ہیں وہ ایک شہر میں مقیم نہیں تھے نہ ہی وہ ایک براعظم میں رہتے تھے ، وہ نہ صر ف ہزاروں میل دور ہونے کے ساتھ ساتھ دن اور رات کی مانند ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔ان کی طرز زندگی اس قدر مختلف تھی کہ چاہے وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے تب بھی ایک دوسر ے کی موجودگی ان پر گراں گزرتی۔لیکن یہ ہو گیا۔۔ اور اتنی تیزی سے ہوا کہ ایلا کو اپناآپ بچانے کا موقع بھی نہ مل سکا ۔اگر محبت سے بچ جانے کا کوئی راستہ تھا بھی تو وہ اس سے ناواقف تھی۔عشق ایلا کی پرسکون زندگی میں اس قدرتیزی اور شدت سے داخل ہوا کہ ایک ہلچل مچ گئی جیسے کسی نے پر سکون ساکن جھیل میں پتھر پھینک دیا ہو۔٭ایلانارتھ ایمپٹن مئی 17،2008 ئموسم بہار کے اس خوشگوار دن میں اس کی کھڑکی کے باہر حسب معمول پرندے چہچہا رہے تھے۔ ایلاکے دماغ میں کئی منظر چلنے لگے، اب تو اسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ منظر کائنات کے کسی اور گوشے میں بھی اسی طرح چل رہے ہیں۔ہفتے کی سہ پہرایلا کا خاندان دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے میز پر بیٹھ چکا تھا۔ڈیوڈ پلیٹ میں اپنا پسندیدہ پکوان لیگ پیس ڈال رہا تھا۔ ایوی چمچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بجانے میں مصروف تھا، جب کہ اس کی جڑواں بہن لی اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ وہ کون سی چیز کھائے جس سے اس کا مقررہ ڈائٹ پلین متاثر نہ ہو۔ان کی بڑی بہن جینٹ جو قریبی ہو لئیوک کالج میں پڑھتی تھی اپنی ڈبل روٹی پر پنیر لگاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔آج کھانے پر غیر معمولی طور پر ان کے ساتھ ایستھرآنٹی بھی موجود تھیں جوکھانے سے کچھ دیر قبل اپنا پسندیدہ کیک دینے آئیں تھیں مگر ایلا نے انہیں دوپہر کے کھانے کیلئے زبردستی روک لیا تھا۔تقریباً سب کھانا کھا چکے تھے، اور ایلا کو اس کے بعد گھر کے مختلف کام بھی نمٹانا تھے مگر اس کے باوجودوہ کھانے کی میز پر براجمان رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مصروف زندگی کے باعث اکٹھا ہونے کا موقع بہت کم ملتاتھا اور یہ اس کیلئے ایک سنہری موقع تھا۔ڈائننگ روم میں مکمل خاموشی تھی ، اچانک ڈیوڈ نے سکوت توڑتے ہوئے ایستھرآنٹی سے دریافت کیا کہ آپ کوایلانے خو شخبری سنائی ہے کہ اس کو ایک اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے۔اگرچہ ایلا نے انگریزیادب میں گریجو ایشن کر رکھا تھا اور ادب سے اس کو لگاوبھی بلا کا تھامگراس کے باوجود تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین کے چند رسائل کی جزوی ادارت اور کتابوںپر چند تبصروں کے علاوہ اس نے عملی ندگی میں خاطر خواہ کوئی کام نہیں کیا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے یہ سب کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا تھا۔حالانکہ کبھی وہ کتابوں کی نقادبننے کے بارے میں سوچا کرتی تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ تقدیر کی خواہش ہے کہ وہ ایک گھریلو عورت بن کر رہے ، جہاں اس نے بچوں سمیت گھر کی کئی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ایسا نہیںتھا کہ اسے اپنی زندگی سے کوئی شکایت تھی ، ایک مکمل ماں کے روپ میں ہوتے ہوئے وہ ایک بیوی بھی تھی۔۔۔ یہ تمام تر ذمہ داریاں اس کو بہت مصروف رکھتی تھیں۔یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈیوڈ نے اس پر کبھی نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی بلکہ اس کو ہمیشہ گھریلو ذمہ داریوں تک ہی محدود رکھا۔تاہم ایلاکے دوست اسکے عملی میدان میں سرگرم ہونے کے حمایتی تھے۔۔مگروہ ممتا کا کردار ادا کرتے ہوئے خوش وخرم اور مطمئن نظر آتی تھی۔اسے اس بات پر بھی اطمینا ن تھا کہ وہ اور اس کا شوہر ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں مگران سب کے باوجودبھی اس کا کتاب سے عشق کبھی ختم نہیںہوا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خود کو ایک بہتر قاری تصور کرتی تھی۔کچھ عرصے سے ایلا کی زندگی میں معمولی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔اس لئے اس نے یہ محسوس کیا کہ اب اس کے بچے اس قابل ہو گئے ہیں کہ انہیں اس کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی آج سے کچھ برس قبل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایلا نے ایک طویل وقفے کے بعد یہ سوچنا شروع کیا کہ اسے ادب کی دنیا میں قدم رکھنے کیلئے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنی چاہیے۔اس بار ڈیوڈ نے بھی اس کے بھرپور ساتھ دیا اور قدم قدم پہ اس کی حو صلہ افزائی کی۔ وہ دونوں اکثر اس موضوع کو زیر بحث لایا کرتے تھے۔ کچھ عرصے تک تو اس کے پاس نوکری کے مواقع بھی آتے رہے مگر گھریلوذمہ داریوں کے باعث وہ اس کیلئے ذہنی طور پرتیار نہ تھی۔پھر ہوا کچھ یوں کہ جب وہ نوکری کیلئے تیار ہوئی تو وقت اسے بہت پیچھے چھوڑ چکا تھا، جب بھی وہ کسی ادارے میں انٹرویو دینے جاتی تو وہاں پر قدرے نوجوان اور تجربہ کار افراد کو اس پر فوقیت دی جاتی۔ بار ہا مستر د ہونے کے باعث اس کے دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیاجو اسے مسلسل ستانے لگا،اسی لئے مزید نظرانداز ہونے کے وسوسے نے اس کو قائل کیا کہ وہ نوکری کی تلاش کا ارادہ اب ختم کردے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کی نوکری کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹیں رواں سال مئی میں خود بخود ہی ختم ہوتی گئیں۔اپنی چالیسویں سالگرہ کے دو ہفتے بعد وہ ایک ادبی تنظیم کے لئے بوسٹن میں کام کر رہی تھی۔۔ ہاں یہ اس کا شوہر ہی تھا جس نے اپنے یااپنی کسی’’ دوست ‘‘کے ذریعے اس کو یہ نوکری حاصل کرنے میں مدد دی۔’’اوہ یہ کوئی بہت اعلیٰ پائے کی جگہ اور کام نہیںہے‘‘ ایلا روانی میں تفصیل بتا رہی تھی۔میں ایک ادبی ایجنٹ کی پارٹ ٹائم قاری ہی تو ہوں ‘‘مگر ڈیوڈ کی بھرپور کوشش تھی کہ اس کام کی وجہ سے اسے اپنے کم تر ہونے کا احسا س نہ ہو۔اسی لئے اس نے ایلا سے مخاطب ہوکر تکرار کرنے کی کو شش کی ’’کیا ہو گیا ہے ؟ ان کو سمجھاؤ ، وہ ایک نامور ایجنسی ہے ‘‘ اس نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی مگر جب اسے محسوس ہو ا کہ وہ کامیا ب نہیں ہو سکا تو اس نے خاموشی اختیا ر کرنے میں ہی حکمت سمجھی۔’’یہ ایک اعلیٰ پائے کی جگہ ہے آینٹی ایستھر۔دوسرے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دیکھووہ اچھے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس ادارے میں موجود ہیں اور اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ہمیں اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایلا اس جگہ کی وہ واحد خاتون ہیں جو گھر چلانے کے ساتھ ساتھ وہاں کام بھی کرتی ہے، اب اپنے آپ کو کمتر سمجھنا بند کرو‘‘۔ اس لمحے ایلا کہ دل میں بے اختیار خیال آیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کا شوہر اس کی کی نوکری کے موضوع کو لے کر بہت پرجوش ہے ، اس نے سوچا شاید ڈیو ڈ اپنی ماضی میں کی گئی کسی غلطی کی تلافی میں یہ سب کچھ کررہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے احساس جرم ہو کہ اس نے بیوی کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اسے عملی زندگی سے دور رکھا یا پھرعین ممکن ہے کہ اسے اس بات کا احسا س ہوکہ اس نے اسے اس نے عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر کے دھوکا دیا۔مختصراً یہ کہ نوکری کے متعلق اس کا یہ جوش اور ولولہ اس کی سمجھ سے بالکل بالاتر تھا۔تاہم اس نے ا س موقع پر بھی بات کو ختم کرتے ہوئے قدرے خوشی سے کہا ’’اس کو کہتے ہیں قدرت کا تحفہ ‘‘۔اگلے ہی لمحے ایستھرنے کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ ’’ایلا ہمیشہ سے ایک تحفہ تھی اور اب بھی ہے۔ انہوں نے یہ بات کچھ اسی طرح سے کہی جیسے ایلاتاحال ٹیبل پر موجود نہیں، بلکہ ہمیشہ کیلئے کہیں جاچکی ہے۔میز پر موجود سب افراد اس کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔حتیٰ کہ ایوی نے بھی اس مرتبہ کسی طنزیہ جملے کا وار نہیں کیا ،اور لی کو بھی یکدم اس طرح محسوس ہو ا جیسے ایلاکے باطن میں کچھ مخفی ہے۔ایلا اس لمحے غیر معمولی طور پر سب کی توجہ کا مرکز تھی، حقیقتاً یہ سکون بخش ساعتیں اس پر بہت بھاری گزررہی تھیںکیونکہ ان کو قبول کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت اس نے شدت سے دعا کی کہ کا ش یہ گھڑی ختم ہو یا کوئی موضوع تبدیل کردے۔۔۔یہ معلوم نہیں کہ اس کی یہ دعا قدرت نے سنی یا اس کی بیٹی نے ،بہر حال ان لمحات کا گلا جینٹ نے گھونٹا۔ ’’میرے پاس بھی آپ سب کیلئے ایک خوشخبری ہے ‘‘اس وقت تمام نگاہیں اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔’’ میں نے اورسکاٹ نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘ اس نے بلاشبہ ایک تہلکہ خیز انکشاف کیا۔’’مجھے بخوبی علم ہے کہ اس خبر کے بعد آپ کے کیا تاثرات ہوں گے ، یہی کہ ابھی ہماری تعلیم جاری ہے وغیرہ وغیرہ۔۔لیکن ہم نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کھانے کی میز پر جہاں کچھ دیر پہلے ایک الگ سی گرم جوشی تھی وہاں ایک عجیب سا سناٹا چھا گیا۔۔۔۔اورلی اور ایوی کے درمیان سرد نگاہوں کا تبادلہ ہوا۔۔ آنٹی ایستھر نے جوس سے بھرے گلاس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ڈیوڈ نے کچھ اس طرح اپنا کانٹا ایک طرف رکھا جیسے اس کی بھوک مٹ گئی ہو،اس نے اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کو نظر انداز کر کے خود کو پرسکون کرتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی جس میں کامیاب بھی ہو گیا۔وہ اپنی ناراضگی چھپانے کی کوشش کررہا تھا بالکل اسی طرح جیسے مسکراتے ہوئے سرکہ پی رہا ہو۔ ’’بہت اعلیٰ میں تو سمجھی تھی کہ آپ لوگ میری خوشی میں شامل ہوں گے ، مگر یہ کیا آپ لوگ تو میری خوشی میں شریک ہی نہیں ہوناچاہتے۔جینٹ آخر کار سب کا ردعمل دیکھنے کے بعد بولی۔بیٹا تم نے محض اتنا کہا کہ تم شادی کرنے جارہی ہو۔۔ڈیوڈ نے اس طرح جواب دیا جیسے جینٹ کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا بول چکی تھی اور اس نے اپنے گھروالوں کو نامکمل اطلاع دی ہے۔پاپا! سکوٹ کو میں جانتی ہوں اور یہ فیصلہ آپ کو سب کچھ جلد بازی میں کیا ہوا لگ رہا ہے نہ ؟ مگر سچ یہ ہے اس نے مجھے کچھ دن قبل شادی کاکہااور میں اسے ہاں کر چکی ہوں۔مگر کیوں ؟ایلا اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے بولی۔اس کی ماں کا یہ سوال آخر کیوں اس کے لئے غیر متوقع تھا۔ ہاں یہ تو غیر متوقع تھا۔۔ اسے تو لگا تھا کہ سب اسے خوشی سے پوچھیں گے کہ ’’کب ‘‘ ’’کیسے ‘‘یا اس سے پوچھے جانے والے ہر سوال میں اس کی شادی کی تیاری ہی مضمر ہونی چاہیے تھی۔ بلاشبہ ’’کیوں ‘‘ایک ایسا سوال تھا جواس سے یکسر مختلف تھاجو اس نے سوچ رکھا تھا۔۔وہ انجانے میں ہی ماری گئی تھی۔’’کیونکہ میرا خیال ہے میں اس سے محبت کرتی ہوں‘‘ اب اس کا لہجہ قدرے دھیما تھا۔نہیںمیری پیاری بچی میرا مطلب تھا کہ اتنی جلدی کیوں؟کیا تم حاملہ ہو؟آنٹی ایستھر نے بے چینی سے پہلو بدلا۔۔ان کی بیزاری اور حیرانگی قابل دید تھی اورسب اس کو باآسانی محسوس کرسکتے تھے۔اسی اثنائ میں انہوں نے جیب سے ہاضمے کی دوا نکالی اور منہ میں ڈال لی۔ایوی لا ابالی انداز میں ہنستے ہوئے بولا گویا میں ماموں بننے جا رہا ہوں ‘‘۔ ایلا نے جینٹ کا ہاتھ پیار سے پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے دبایا اور کہا ’’ہمیں سچ کا علم ہونا چاہیے ، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ کچھ بھی ہو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔’’ما ما خدا کیلئے بس کردیں‘‘ جینٹ نے یکدم اپنی ماں کا ہاتھ جھٹک کے پیچھے کیا۔۔’’ میری شادی کے فیصلے کاحاملہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں ‘‘اس مرتبہ جینٹ غصے سے بولی تھی۔’’میں تمہاری مدد کرنا چاہ رہی تھی تھی ، اس سے زیادہ کچھ نہیں ‘‘ایلا کیلئے اس وقت پرسکون رہنا قدرے مشکل کام تھا ، مگر پھر بھی وہ پر سکون رہتے ہوئے اس سے مخاطب تھی۔’’آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں۔ میری اور سکاٹ کی شادی کو حاملہ ہونے پیرائے میں دیکھ رہی ہیں ؟؟ میں اس سے محض اس لئے شادی کرنا چاہتی ہوں کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ میں نے پچھلے آٹھ ماہ میں اسے نہایت قریب سے دیکھا ہے۔ ایلا نہایت مدبرانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی ’’ ہاں! جیسے آٹھ ماہ میں انسان کا کردار سامنے آجاتا ہے۔ میں اور تمہارے والد گزشتہ بیس برس سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا آٹھ ماہ کوئی بھی رشتے بنانے کے لئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ‘‘۔ایوی نے ماحول کے تناؤ کو کم کرنے کیلئے کہا ’’خدانے دنیا کو چھ دنوں میں تخلیق کیا تھا‘‘ مگر شاید اس نے یہ جان کر خاموشی اختیار کرلی کہ اس کشیدگی بھرے ماحول میں اس طرح کا مذاق درست نہیں ہے۔ڈیوڈ نے ماحول گرم ہوتے ہوئے اس میں اپنی گفتگو شامل کی۔ اس نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مگرقدرے سرد لہجے میں کہا ’’ بیٹی تمہاری ماں تمہیںیہ سمجھانا چاہ رہی ہے کہ تم اسے آٹھ ماہ سے جانتی اور تم دونوں مسلسل رابطے میں ہو تاہم ملاقاتیں اور شادی ایک دوسرے سے یکسر مختلف چیزیں ہیں۔ شادی کسی بھی شخص کی زندگی کا سوال ہوتا ہے۔کیا ڈیڈ ہم دونوں ہمیشہ ملتے ہی رہیں گے ؟ شادی کے بندھن میں نہیں بندھیں گے ؟ جنیٹ نے جھگڑنے کے انداز میں اپنے والد سے دریافت کیا۔اسی اثنائ میں ایلا بولی ’’سچ پوچھو تو ہم یہ چاہ رہیں کہ تم ابھی اپنی زندگی کے اس فیصلے میں جلد بازی نہ کرو اور ویسے بھی اس سنجیدہ رشتے کو اپنانے کیلئے تم ابھی تک بہت چھوٹی ہو۔جینٹ جو کہ کافی دیر سے کچھ کہنے کو تھی سرگوشی نے انداز میں مخاطب ہوکر بولی’’مام میرے خیال سے آپ اپنے خوف اور اندیشے میرے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کررہی ہیں ، کیونکہ میری عمر میں آپ ایک بچے کی ماں بن چکی تھیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ میں بھی وہی غلطی دہراوں‘‘۔اپنی بیٹی کے منہ سے دو ٹوک الفاظ سنتے ہی ایلا سکتے میں چلی گئی ، اسے یوں لگا جیسے اس کی بیٹی نے اس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کردیا ہو۔اس کے یہ الفاظ ایلا کو یادوں کی ان وادیوں میں لے گئے۔۔اسے یاد کہ کم عمری میں جینٹ کو دنیا میں لانے کا مرحلہ اس کے لئے کس قدر کٹھن تھا۔۔پھر اس کی پیدائش بھی تو قبل از وقت ہی ہوئی تھی۔اس بچی نے ہوش سنبھالنے تک اسے بے جان کیے رکھا تھا۔ اسی لئے جینٹ کے بعد ایلا 6 سال بعد ماں بننے کے لئے جسمانی اور ذہنی طور تیار رہوئی۔ڈیوڈ اپنی بیٹی کی سوچ تبدیل کرنا چاہتا تھا اسی لئے اس نے مزید کہا کہ ’’میری پیاری بیٹی ابھی تمہارا گریجوایشن چل رہا ہے ، اس دوران یا اس کے بعد ہوائیں کس طرف کا رخ کرتی ہیں کسی بھی معلوم نہیں۔ کون جانے اس وقت تک تمہاری سوچ تبدیل ہوجائے ‘‘۔ جنیٹ نے مصنوعی رضا مندی دیتے ہوئے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور بولی ’’کہیں یہ اس وجہ سے تو نہیں ہے کہ سکاٹ یہودی نہیں ہے ‘‘ اس کے اس استفسار پر اس کے باپ نے ایک بے یقینی کی سی کیفیت میں نہ کے معنوں میں سر کو حرکت دی۔بلاشبہ وہ ایک آزاد خیال باپ تھا جس نے گھر کے ماحول میں مذہب ، نسل یا وصف کو بالائے طاق رکھا ہوا تھا۔ وہ اگراس کو باپ تھا تو وہ اس کی بیٹی تھی ، اس نے اگلے ہی لمحے پوچھا ’’اگر ہارون
سکاٹ ایک یہودی ہو تا کیا تب بھی آپ مجھے شادی سے روکتے ؟‘‘اس کے لہجے میں اس قدر زہر تھا کہ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھاکہ یہ اس کی بیٹی ہی بول رہی ہے۔’’میری جان!اگرچہ جوانی میں قدم رکھنا اور محبت جیسے احساس کو محسوس کرنا نہایت پرکیف جذبہ ہے ، تاہم تمہارے والدین ہونے کے ناطے ہم تمہیں ایک بہترین مشور دے رہیں ہیں ، ہمارا اعتبار کرو۔ یکسر مختلف انسان سے ایک مضبوط ترین رشتہ استوار کرنا ایک جوائ ہے۔ تمہارے سر پرست ہونے کے ناطے ہمارا تسلی کرنا ضروری ہے کہ جو تم کررہی ہو وہ تمہارے کل اور آج کیلئے ایک درست فیصلہ ہے بھی یا نہیں؟اور آپ کو کیسے معلوم کہ آپ کا ’’درست فیصلہ ‘‘میرے لئے بھی ’’درست ‘‘ ہے ؟اس سوال نے ایلا کو متزلزل کردیا اور وہ اپنی پیشانی اس طرح ملنے لگی جیسے ’’مائیگرین‘‘ کے مرض میں مبتلا ہو۔’’ماما ! میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ کبھی بھی کہیں سے یہ لفظ آپ نے سنا ہے ؟وہ شخص میرے دل کی دھڑکن تیز کردیتا ہے۔ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ‘‘کیا یہ آپ کے نزدیک معنی نہیں رکھتا ہے ؟ایلا نے اس لمحے ایک ہنسی کی آواز سنی۔ اور وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ آواز کس کی ہے۔یہ تو اس کی ہی ہنسی تھی ،اس کی یہ ہرگز نیت نہیں تھی کہ وہ اپنی بیٹی پر ہنسے۔۔پر یہ اسے بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اس پر ہنس رہی تھی یا اپنے آپ پر۔۔پر اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ اس لمحے وہ پریشان ضرور ہوئی تھی۔اس کی جینٹ کے ساتھ سینکڑوں لڑائیاں ہو چکی تھیں۔۔ تاہم اس مرتبہ اس کا سامنا ایک مختلف اور یقینی طور پہ ایک بڑی شے سے تھاجس کے لئے وہ اس وقت اس کے لئے ماں کے بجائے کچھ اور تھی۔ماما آپ کو کبھی محبت ہوئی ہے؟ اس کے لہجے میں حقارت بھر آئی ’’مجھے کچھ سانس لینے دودن میں سپنےدیکھنا بند کرو۔ حقیقت پسند بنو اور وہ۔۔وہ ہونا چھوڑ دو‘‘ ایلا بات کرتے ہوئے ایک لفظ جان بوجھ کر’’بھول ‘‘ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ، اس وقت اس کے دماغ میں وہ لفظ آیا۔ ’’رومانٹک ‘‘ہونے میں کیابرائی ہے ؟جینٹ کی آواز میں اس وقت نمایاں خفگی تھی۔ ایلا کے تو کسی نے ہونٹ سی دیے تھے ، اس وقت وہ سوچوں کی کسی وادی میں جا کھوئی تھی۔ ماں کا جواب نہ سن کر جینٹ نے مزید جملوں کا تبادلہ کرنا شروع کیا۔ ’’میری بچی تم کس صدی میں زندہ ہو ؟عورتیں ان مردوں سے شادی نہیں کرتیں جن سے انہیں محبت ہوتی ہے بلکہ وہ ان مردوں کو فوقیت دیتی ہیں جواچھے باپ اور اچھے شوہر بن سکیں۔محبت یقینا ایک لطیف جذبہ ہے ، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس جذبے کی عمر بہت کم ہے‘‘ اس نے بات مکمل کرکے ڈیوڈ کی جانب دیکھا ، جس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت باہم مضبوط کی ، جیسے وہ پانی میں ڈوب رہا ہو‘‘’’آپ کے اس رویے کے پیچھے آپ کی وہ نامکمل طویل عرصے تک رہنے والی خواہشات مخفی ہیں جو پایا تکمیل نہیں ہو سکیں۔ آپ ایک نا خوش گھریلو عورت ہیں جو میری خوشی دیکھنے سے قاصر ہے‘‘اس وقت ایلا کو اپنا وجودبے معنی محسوس ہوا۔دل و دماغ کے خانہ ئ دیوار میں کئی سوچوں اور تکلیفوں نے بیک وقت جنم لیا۔ کیاوہ واقعی ایک ناکام گھریلو عورت تھی ؟ایک مسترد شدہ ماں جس کی شادی شدہ زندگی صرف وقت کے کاندھوں پر چل رہی تھی، جس میں خوشیوں اور اعتماد نے کبھی دستک نہیں دی۔کیا اس کے اہل و عیال اسے ناچیز سمجھتے تھے ؟دوست ، احباب بھی اس کے متعلق یہی گمان کرتے تھے ؟ہاں تو اور کیا۔۔۔ سبھی اس پر ترس کھاتے تھے ،تبھی اس کے ساتھ تعلق رکھا ہواتھا مگر زبان سے کچھ نہیں کہتے تھے۔۔ یہ سوچیں اتنی تکلیف دہ تھیں کہ اس کے منہ سے ایک درد بھری آہ نکلی۔’’اپنے الفاظ کی پاداش میں اپنی ماں سے معافی مانگو‘‘ اس کے باپ نے اسے غصے سے مخاطب کیا۔’’کوئی بات نہیں۔۔ مجھے معافی کی ضرورت نہیں ‘‘ اس وقت ایلا کو اپنا وجود ایک ایسے سپاہی کی مانند تھا جو میدان جنگ میں ہار قبول کرلیتا ہے۔اسکی سگی بیٹی نے اس وقت اسے طنزیہ نظروں سے گھورا اور رومال پھینک کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد ایوی اور لی جو کہ اپنی بہن کی یکجہتی میں۔ ایسا بھی عین ممکن ہے کہ زیر بحث موضوع ان کی عمر کے حساب سے کئی گنا بڑا تھاجس کے باعث وہ بیزار ہو چکے تھے۔ان کے پیچھے ایستھر بھی اپنی تیزابیت کش دوا کی آخری گولی لیتے ہوئے باہر نکل گئیں۔وہ سب لوگ تو چلے گئے مگر پیچھے ڈیوڈ اورایلا اس افسردہ فضا کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا رہ گئے۔ان دونوں کو اپنے درمیان حائل اجنبیت کی دیوار کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا ۔در حقیقت ان دونوں کی ازدواجی زندگی کی حقیقت ان دونوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ یہاں تک کے ان کے بچے بھی نہیں۔ڈیوڈ نے دوبارہ سے کھانا کھاتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا تم نے اس مرد سے شادی نہیں کی جس سے تم محبت کرتی تھی ؟نہیں ، ایسا نہ کہیں میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا، ایلا نے اپنی صفائی میں صرف اتنا ہی کہا۔پھر اور تمہاری اس سے کیا مراد تھی ؟جہاں تک مجھے یاد ہے جب ہم شادی کے بندھن میں بندھے تھے تم مجھ سے محبت کرتی تھی ، ڈیوڈ نے کھانے سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔میری واحد محبت تم ہی تھے۔ میرا یہ سوال ہے کہ یہ محبت کب ختم ہوئی ؟ ڈیوڈ نے جذبات سے عاری ہو کر سوال کیا۔ایلا نے اپنے شوہر کو ازحد حیرانی سے دیکھا جو آج اس کے سا منے آئینہ لیے منصف بنا کھڑا تھا، جسے شادی کے بیس سالوں میں یہ دریافت کرنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ ایلا نے بھی اسی لمحے اپنے آپ سے یہ حقیقت دریافت کرنا چاہی کہ کیا وہ واقعی محبت کے جذبات بے دخل کر چکی تھی ؟ یہ وہ سوال تھا جو اس نے کبھی انجانے میں بھی اپنے آپ سے نہیں کیا تھا۔۔اس سوال کے بہت سے جواب تھے جو وہ اسے دینا چاہتی تھی۔۔ مگر اس کے پاس تو شاید الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔۔ ایسا بھی ممکن تھا کہ جواب دینے کی اس کی ہمت ہی باقی نہ رہی ہو۔ یہ لمحات اگرچہ اس کیلئے بہت مشکل تھے مگر پھر بھی اس نے ایک ماں ہونے کے ناطے سوچا۔ جو بھی تھا جیسے بھی تھا، ان کی عائلی زندگی جس بھی دوراہے پر تھی وہ بہر حال اپنے بچوں کیلئے ایک قابل رشک مستقبل کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ہاں زندگی کو بہرحال گزر جانا تھا۔اس وقت ایلا کا دل کر رہا تھا کہ وہ دھاڑیں مار کر روئے۔اسی لمحے اس کے مجازی خدا نے اپنا غصے بھرا منہ دوسری جانب پھیر لیا۔یہ سچ تھا کہ ایلا روتی ہوئی بے حد بری لگتی تھی۔۔ مگر یہ بھی تو حقیقت تھی کہ اسے اس کے سامنے رونا بے حد برا لگتا تھا۔اسی اثنائ میں ایلا کے فون کی گھنٹی بجی جس نے اس رشتے کو مزید کھوکھلا ہونے سے بچا لیا ۔ڈیوڈنے فون اٹھایا ، ایلا نے اسے کہتے سنا جی وہ موجود ہیں۔۔اس نے فون کان کو لگانے سے قبل اپنے آپ کو مضبو ط کیا ’’جی !میں ایلی بول رہی ہوں !‘‘ ایلا نے اس وقت فون پہ نہایت چنچل اور ہنستی ہوئی لڑکی کو پایا۔’’ہائے ! میں مشال بات کر رہی ہوں ، معاف کیجئے آپ کو چھٹی کے دن بھی ڈسٹرب کیا، کل مجھ سے سٹیو نے دریافت کیا تھا تاہم میں مصروفیت کے باعث بھول گئی۔ آپ نے مسودے پر کام کرنا شروع کیا؟اوہ ہاں! ایک ’’ناخوش گھریلو‘‘ عورت ذمہ داریوں کے باعث یہ بھول گئی تھی کہ ایجنسی میں اس کا پہلا کام ایک ناول کے مطالعے کا تھا جو ایک گمنام یورپی لکھاری کا تحریر کردہ تھا، اس کے بعد اسے اس ناول پر ایک رپورٹ لکھنا تھی۔ ’’جی مجھے یاد ہے ، انہیں بتا دیں کہ میں نے اس ناول کوپڑھنے کاآغازکردیا ہے ‘‘ اس موقع پر ایلاکو جھوٹ بولنا ہی مناسب لگا۔ دوسری جانب مشال بھی ایسی لڑکی تھی جو ایلا کو اس پہلے قدم پر مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔’’یہ تو خوش آئند ہے ، آپ کو کیسا محسوس ہوا؟وہ اس تحریر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی کہ یہ ایک تاریخ ناول تھا جس کے مرکزی کردار معروف صوفی شاعر مولانا رومی تھے۔ناول کی داستان اسی ایک کردار کے گرد گردش کرتی تھی۔’’رومی عظیم شاعر ہو گزرے ہیں جنہیں اسلامی دنیا کا ’’شیکسپئر‘‘بھی کہا جاتا ہے۔اوہ ! وہ کافی صوفیانہ کلا م ہے ‘‘ ایلا کو جھوٹ بولتے ہوئے بے حد ہنسی آئی تاہم اس نے ہنسی روکتے ہو ئے اپنی بات مکمل کی۔ یہاں یہ حقیقت تھی کہ مشال کو صرف اور صرف کام سے غرض تھی ، اس نے نہایت خود اعتمادی سے کہا کہ کام پر جت جاؤ۔ آپ نہیں جانتی کہ اس کی رپورٹ بنانے میں آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ وقت صرف ہوگا۔ ایلا نے محسوس کیا کہ وہ فون پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے کاموں میں مصروف تھی ، جیسا کہ وہ ای میل پڑھنے کے ساتھ ساتھ کسی کتاب کا تجزیہ پڑھ رہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ وہ مچھلی کے سینڈوچ کھاتے ہوئے نہایت مہارت سے نیل پالش کا استعمال بھی کررہی ہے۔ایک منٹ بعد مشال نے پوچھا ’’ تم ابھی تک فون پر موجود ہو ؟’’ جی میں فون پر ہی ہوں‘‘ ایلا نے جواب دیا۔مشال نے کچھ سمجھا نے والے انداز میں کہا ’’یہاں بہت عجیب ماحول ہے ، آپ کے پاس اس کام کے لئے تین مہینے موجود ہیں ‘‘۔ ’’جی مجھے بہ خوبی علم ہے ، میں وقت پر کام مکمل کر لوں گی ‘‘ایلا نے خود اعتمادی سے جواب دیا۔اس کے برعکس حقیقت تو یہ تھی کہ ایلا کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ وہ یہ کام کرنا بھی چاہتی ہے یا نہیں۔اس کو یہ کام نہایت عجیب گزرتا تھا کہ وہ کسی مصنف کی تحریر کا تجزیہ کرکے ا س کی قسمت میں کوئی کردار ادا کرے۔اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک تیرہویں صدی کے ایسے موضوع پر پڑھنے والوں کی توجہ دلا سکے گی جس کا اس سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔ حقیقت یہ تھی کہ اسے موضوع میں رتی بھر بھی دلچسپی نہ تھی۔مشال جو کہ نہایت پیشہ وارانہ تھی اس نے فون پر دوسری طرف ہونے کے باجود اس کی سوچوں کو جانچ لیا تھا’’کوئی مسئلہ تو نہیں ؟‘‘ دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر اس نے کہا ’’تم مجھ پر یقین کر سکتی ہو ‘‘ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایلانے سچ بولنے کا فیصلہ کیا’’بات کچھ یوں ہے کہ حالیہ دنوں میں ذاتی وجوہات کی بنائ پر میں کچھ ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوں کہ میں کسی تاریخی ناول پر توجہ نہیں دے سکتی ہوں، میری دلچسپی ’’رومی ‘‘ میں ضرور ہے مگر موضوع میرے لئے ذرا ہٹ کر ہے یعنی مجھے اس کے لئے ایک پرسکون دما غ کی ضرورت ہے جو آج کل میسر نہیں‘‘’’یہ تنگ نظری ہے کہ تم سوچتی ہو کہ تم صرف ان ناولوں کا تجزیہ کرسکتی ہو جن کے موضوع کے متعلق تمہیں علم ہے ، ایسا ہرگز نہ سوچو! تم صرف ان ناولوں کا تجزیہ نہیں کرسکتی ہو جو صرف تمہاری اپنی ریاست میسا چوسٹس کے لکھاریوں کی جانب سے لکھے گئے ہوں، ٹھیک ؟نہیں میرا ہرگز ایسا مطلب نہیں تھا؟اس وقتا یلا کے ذہن میں آیا کہ آج سہ پہر میں اسے یہ جملہ کئی مرتبہ بولنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔اسی لمحے ایلا نے ڈیوڈ کو دیکھا ، جس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر یہ واضح اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس نے یہ بات محسوس کی ہے ، مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ ڈیوڈ کے خیالات کو جا نچنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔’’یہ ہمارے شعبے کی ضرورت ہے کہ ہمیں وہ ادب بھی پڑھنا ہے جس کا ہم سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے ایک ایسی عورت کی کتاب پر کام کیاجو ایران میں ایک قحبہ خانہ چلا رہی تھی۔کیا میں اسے یہ کہتی کہ اس کتاب پر میں کام نہیں کرسکتی ، اسے کسی ایرانی ادب کی ایجنسی کو دو؟’’نہیں۔ہرگز نہیں ، ایلی نے تقریباً سرگوشی کے سے انداز میں جواب دیا،وہ اس وقت شرمندہ تھی اور اپنے آپ کو کمتر محسوس کررہی تھی۔’’کیا یہ ادب کی خاصیت نہیں ہے کہ وہ خطوں میں منقسم ثقافت اور افراد کو باہم متحد کرتا ہے؟، ہا ں یہ تو ہے۔۔جو میں نے پہلے آپ سے کہا اسے بھول جائیں ، مقرہ وقت پر رپورٹ آپ کے سامنے ہوگی ‘‘۔ اسے یہ الفاظ کہتے ہوئے مشال پربے حد غصہ آیا کیونکہ وہ اسے دنیا کانالائق ترین انسان تصور کر چکی تھی۔اس لمحے صرف اسے اس پر غصہ نہیں آیاکہ بلکہ اسے اپنی ذات سے بھی نفرت محسوس ہوئی کیونکہ یہ وہی تھی جس نے اسے یہ موقع فراہم کیاتھا۔’’یہ تو بہت اچھی بات ہے ، اور دراصل انسان میں یہی جذبہ ہونا چاہیے ‘‘ مشال نے تقریبا گنگناتی آواز میں بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا’’مجھے غلط مت سمجھنا ،لیکن میری ایک بات یاد رکھنا کے تم سے آدھی عمر کے کئی نوجوان ایسے ہیں جو یہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں، یہ چیز یقینا تمہیں آگے بڑھنے میں مدد دے گی ‘‘ایلا نے فون رکھتے ہوئے اپنے شوہر کو دیکھا جس کا چہرہ سنجیدہ اور جذبات سے عاری تھا۔فرض کیا کہ وہ دونوں اگر جینٹ کو لے کر ہی پریشان تھے توڈیوڈ اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں مزید بات کرنا چاہتا تھاتاہم وہ اب اس بارے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسی دن شام ایلا نارتھ ایمٹن کے غروب آفتا ب کا نظارہ کرنے بیٹھی۔وہ اپنی پسندیدہ رولنگ میز پر بیٹھی سرخ نارجہ ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھنے بیٹھی تھی۔آسمان اسے اُس وقت اتنا کشادہ اوراپنے قریب محسوس ہورہا تھا کہ اسے یوں گمان ہوا کہ وہ اسے چھو بھی سکتی ہے۔اس کا ذہن جسے اندر کے بے ہنگم خیالات کے شور کے باعث تھک ساگیا تھااسی لئے اس کے دماغ نے چپ سادھ لی تھی۔رواں ماہ کے کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی ،ارلی کی غیر متوازن غذا کھانے کی بری عادت ،ایوی کی پڑھائی میں عدم دلچسپی ،آنٹی ایستھر اور ان کے اداس کیک ،ان کے واحد دوست اسپرٹ کی روزبروز بگڑتی ہوئی صحت،جینٹ کا نئی زندگی کے آغاز کا یک طرفہ فیصلہ ،اس کے شوہر کے خفیہ ناجائز تعلقات اور اسکی زندگی میں محبت کی عدم موجودگی۔۔ یہ وہ تمام مسائل تھے جن کا اسے بیک وقت سامنا تھا۔اس نے ان تما م مسائل کو دماغ کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں نہایت مہارت سے مقفل کردیا۔ایلا نے وہ مسودہ لفافے سے نکا لا اور اسے یوں اچھالا جیسے کے وزن کا معائنہ کر رہی ہو۔ناول کا عنوان’’انڈیگو انک ‘‘ سے تحریر کردہ تھا۔ایلا کومصنف کے متعلق کچھ خاص نہیں بتایا گیا تھا ماسوائے اس کے کہ ایک ’’ذھارا‘‘نامی شخص ہالینڈ میں رہتا ہے۔یہ مسودہ ایمسٹرڈم سے بھیجا گیا تھا اور اس لفافے کے اندر ایک پوسٹ کارڈ بھی موجود تھا۔پوسٹ کارڈ کے ماتھے پرگل لالہ کے شاندار اور خوشنما گلابی ، زرد ، اور نارنجی رنگوں کے پھولوں کے کھیت تھے جو کہ ہالینڈکا خاصا تھے ۔پوسٹ کارڈ کی پشت پر کچھ الفاظ تحریر تھے :’’محترمہ /جناب،ایمسٹرڈم سے سلام میں جو داستان آپ کو بھجوارہا ہو ں یہ تیرھویں صدی میں اشیائے کوچک میں پیش آئی۔تاہم میں پرُ امید ہو ں کہ ثقافت اور صدیوں کے فرق سے بالاترہو کر یہ دنیا بھر میں اپنا نام پیدا کرے گی۔‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو کہ معروف صوفی شاعر و عظیم روحانی پیشوا’’رومی ‘‘ اور پراسرار واقعات کے باعث مشہور درویش شمس تبریز کے روحانی رشتے سے متعلق ہے۔’’امید ہے کہ آپ کی زندگی محبت سے آراستہ ہو اور یہ محبت سے مالامال رہے ‘‘الف۔ذال۔ ذھارا
ایلا کومحسوس ہوا کہ یہ پوسٹ کارڈ ’’ادب کی ترسیل ‘‘ کرنے والے کے لئے ضرور پرتجسس ثابت ہوا ہوگا، لیکن اسٹیو ایسا انسان نہیں تھا جو کسی نئے لکھاری کا کام پڑھنے کے لئے اپنا وقت برباد کرتا۔ اسی لئے اس نے یہ لفافہ بنائ کھولے اپنی معاون مشال کو دے دیا اوراس نے بھی آگے اپنی نئی معاون ایلا کو دے دیا۔اس طرح سے’’‘ ایلا تک پہنچا۔ایلا نے جب پہلی بار وہ ناول دیکھا تو اسے کہاں معلوم تھا کہ یہ اس کی زندگی کے خدوخال یکسر تبدیل کردے گا۔۔ جب وہ اس کو پڑھ رہی ہو گی تو اس کی زندگی کی کہانی نئے سرے سے لکھی جائے گی۔۔ ’’الف۔ذال۔ زھارا جب دنیا کا سفر میں نہیں ہوتاتو اس وقت وہ اپنی بلیوں ، کتابوں اور کچھوں کے ساتھ ایمسٹرڈم میں ہوتا ہے۔اس کا پہلا اور شاید آخری ناول ’’سویٹ بلاسفیمی‘‘ ہے اور نہ ہی ان کا مستقبل میں کوئی بڑا ناول نگار بننے کا ارادہ ہے۔انہوں نے یہ کتاب محبت کے جذبے کے تحت لکھی تھی۔۔اس محبت بھر ے روحانی ساتھ کے نام جومشہور صوفی شاعر ، عظیم فلسفی رومی اور ان کے ساتھی شمس تبریز کے درمیان تین سالوں تک رہا۔ایلا کی نظریں صفحے کے اختتام پر گئیں وہاں اس نے یہ الفاظ پڑھے ’’لوگوں کے محبت کے بارے میں مختلف نظریا ت ہیں تاہم محبت ایسا جذبہ نہیں جو آپ کی زندگی میں کچھ لمحوں کے لئے شریک سفررہے اورآپ کے جذبات گدگدا کر روانہ ہو جائے ‘‘یہ فقرہ پڑھ کر ایلا حیرانی کے باعث سکتے میں چلی گئی۔ یہ تو اس کے ان الفاظ کے برخلاف تھے جوآج اس نے اپنی بیٹی سے بحث کے دوران استعمال کیے تھے۔کچھ دیر کے لئے تو وہ حواس باختہ سی ہو کر رہ گئی کہ یہ کس طر ح ممکن ہے ؟ کیا دنیا کی کوئی پراسرار شے اس کی جاسوسی میں ملوث تھی ؟ کیا وہ مصنف اس کی جاسوسی کر رہا تھا؟کیا اسے یہ معلوم تھا کہ یہ کتاب سب سے پہلے کون پڑھے گا۔۔ یا پھر اسے یہ معلوم تھا کہ وہ اس کی سب سے پہلی قاری ہوگی۔۔پلک جھپکتے ہوئے ایلا کے ذہن میں بے شمار خیالات نے گردش کی ، اس بات پر جہاں ایلا حیران تھی وہیں اسے نامعلوم سی پریشانی نے بھی آگھیرا۔تیرھویں اور اکیسویں صدی کے کئی ایسے پہلو ہیں جنہیں دیکھ کے واضح طور پرکہا جا سکتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔دونوں صدیاں تاریخ میں مذہبی کشیدگیوں ،ثقافتی دوریوں مختصراً انسانوں کو ایک دوسرے کی ذات سے ازحد خوف محسوس ہوتا تھا۔یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جن میں پیارو و محبت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اس سمت میں ایک تیز رفتار ہوا کا جھونکاآیا، تیز اور یخ بستہ جس نے پورچ میں گرے پتوں میں ہلچل مچادی۔ ڈوبتاہوا سورج مغرب کی سرحدو ں کو چھونے والا تھا، تاہم کچھ دیر پہلے خوبصورت دکھائی دینے والا یہ دلفریب منظربھی اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہا۔’’ کیونکہ محبت ہی زندگی کا اصل مقصد ہے رومی ہمیں یاد کرواتے ہیں کہ محبت ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور چھو کر گزرتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ لطیف جذبہ ان لوگوں کی راہوں اور منزلوں کا حصہ بھی بنتا ہے جو اسے محض وقتی ’’رومانس‘‘ کہہ کر اس کی نفی کرتے ہیں۔ایلا کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ اسی کے لیے تحریر کی گئی ہو، محبت ہر ایک سے خود متعارف ہوتی ہے خواہ وہ نارتھ ایمپٹن میں رہائش پذیر ناخوش خاتون خانہ ہی کیوں نہ ہو۔۔ایلا کے دل میں کئی انجانے وسوسوں نے جگہ گھیر لی۔اسی وقت اس کے اندر سے ایک آواز آئی کہ وہ اندر جاکر مشال سے اس ناو ل پر رپورٹ لکھنے کے متعلق معذرت کرلے ، تاہم اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹ دیا۔
صوفی حضرات کے مطابق قرآن کاراز سورۃ فاتحہ میں پوشیدہ ہے۔سورۃ فاتحہ کا راز بسم للہ الرحمن الرحیم میں مخفی ہے جب کہ بسم اللہ کا لب باب ’’ب‘‘ ہے۔ اس حرف کے نیچے ایک نقطہ ہے جو تما م کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مثنوی مولانا جلال ادین رومی کا شعری مجموعہ کاآغاز بھی ’’ب ‘‘ سے ہوتا ہےاسی طرح ناول کے ہر باب کا بھی۔۔
مقدس گستاخی
ناول
By
A. Z . Zahara
صوفی حضرات کے مطابق قرآن کاراز سورة فاتحہ
میں پوشیدہ ہے ۔۔
سورة فاتحہ کا راز بسم للہ الرحمن الرحیم
میں مخفی ہے جب کہ بسم اللہ کا لب باب ”ب“ ہے ۔ اس حرف کے نیچے کے ایک نقطہ ہے جو تما
م کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ۔
مثنوی (مولانا جلال ادین رومی کا شعری مجموعہ
)کاآغاز بھی ”ب “ سے ہوتا ہے
اسی طرح اس ناول کے ہر باب کا بھی۔۔
پیش لفظ
تیرہویں صدی عیسوی میں ایشیائے کوچک ( اناطولیہ)
کے دن ورات مذہبی فسادات، سیاسی معرکہ آرائیوں اور اقتدار کی لامتناہی جنگوں میں ڈوبے
ہوئے تھے، تاریخ کا یہ حصہ اس علاقے کے لئے سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتا ہے۔مغرب میں
بھی جنگیں عروج پر تھیں ،عیسائی جنگجووں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کر رکھا تھا۔انہوں
نے بیت المقدس کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا ، جس سے بازنطینی
سلطنت تقسیم ہوکر رہ گئی۔ دوسری جانب، مشرق میںچنگیز خان کی مدبرانہ عسکری قیادت میں
منگولوں جیسی منظم فوجیں ہر جگہ پھیل چکی تھیں۔اسی دوران ،مختلف ترک قبائل ایک دوسرے
سے جھگڑ رہے تھے ،جب کہ بازنطینی اپنے کھوئے ہوئے علاقے ، املاک اور طاقت دوبارہ حاصل
کرنے کے لیے کوشاں تھے۔یہ وہ دور تھا جب ہر طرف خون خرابے اور نفرت کی لہر پھیلی تھی
۔مسلمان ، مسلمان سے ، عیسائی عیسائی سے اور عیسائی مسلمانوں سے لڑ رہے تھے ۔ ہر سو
نفسا نفی کا عالم تھا، ہر انسان کے انجانے خوف میں مبتلا تھاکوئی بھی نہیں جانتا تھا
کہ کیا ہونے کو ہے، ہر کوئی اپنے مستقبل کو لے کر ایک خوف میں مبتلا تھا۔انہی فسادات
اور کشیدگیوںکے اندھیروں میں روشنی کی کرن کی مانند ایک اسلامی دانشور نظر آتے ہیں
جن کا نام مولانا جلال الدین رومی ہے ۔ جن کو عرف عام میںمولانایعنی ” ہمارے آقا“کہا
جاتا ہے۔ ان کو اپنا راہنما ماننے والے ان کے مریداور معتقد پورے خطے غرض کے پوری دنیا
میں پھیلے ہوئے تھے ۔
1244 ءمیں مولانارومی کی ملاقات شمس تبریز سے ہوئی ۔
شمس ۔۔جن کی روح کو ایک جگہ ٹھہرنا منظور نہ تھا۔ وہ جگہ جگہ نگری نگری مختلف علاقوں
میں گھومتے رہتے ۔۔ا نہیں کسی چیز کی تلاش تھی یا کسی چیز کو ان کی ۔۔ کسی کو معلوم
نہیں ۔۔۔ وہ دنیا کے ہر رسم ورواج اور روایتوں سے باغی درویش تھے۔ان دونوں کا ملنا
ایک بے مثال دوستی کا آغاز تھا ۔ ان دونوں کے ملنے کے باعث ان دونوں کی زندگیوں کارخ
یکسر تبدیل ہوگیا۔یہی وہ ملن تھا جس کو صوفیاکی جانب سے صدیوں تک دو سمندروں کے ملاپ
سے یاد رکھا گیا۔شمس تبریز سے ملاقات سے قبل وہ ایک روایتی مذہبی پیشوا تھے ،تاہم اس
دوستی کے بعد وہ ایک مکمل صوفی ، روحانی شاعر ، محبت کے پیامبربن گئے ۔یہی وہ ہستی
تھے جنہوں نے وجدان میں ڈوب کر رقص کرنے کا آغاز کیا۔رومی وہ انسان ثابت ہوا جس نے
معاشرے کی ریت توڑ ڈالے ،وہ لوگوں کی روایات کو روندھتے ہوئے آگے نکل گیا جنہیں وہ
بتوں کی مانند پوجتے تھے ۔ایک ایسا دور جس میں لوگ مذہب کی بنیادوں پر خون بہاتے تھے،اس
دور میںجہاں ہر کوئی لڑائیوں اور جنگ وجدل میں مصروف تھا، رومی کے دروازے ہر(مذہب
)، رنگ ونسل ،خطے اور قبیلے سے تعلق رکھنے والے کے لئے ہمہ وقت کھلے تھے۔نفرت کے اس
دور میں وہ پیار، محبت کے پیغام کے ساتھ نمودار ہوئے ۔رومی اور شمس نے دوستی کی مثال
قائم کی مگر ان کی دوستی بھی اپنوں کی نفرت ،حقارت اور حسد کی نظر ہوئی ۔ ان کو بھی
ایک دوسرے نہایت بے دردی سے ایک دوسرے سے جدا کردیاگیا۔ان سے عداوت رکھنے والے ان کوئی
غیر نہیں ان کے ان اپنے خونی رشتے تھے، جن کی ملی بھگت سے یہ دونوں علیٰحدہ تو ہو گئے،
مگران دونوں کی دلچسپ و عجیب داستان کا اختتام کبھی ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔حقیقت توےہ
ہے کہ اس داستان کا اختتام کبھی ہوا ہی نہیں۔ تقریباً آٹھ سو سال گزرجانے کے باوجو
د رومی اور شمس کی ارواح آج بھی زند ہ اور تابندہ کہیں نہ کہیں ہمارے گرد و پیش میں
گھوم ر ہی ہیں۔
قاتل
(21 -24 )
اسکندریہ نومبر 1252
کنویں کا سیاہ پانی اور اس میں موجود اس
کا مردہ جسم ۔۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کی آنکھیں کیوں آج تک مےرا پیچھا کرتی ہیں۔اس
کی آنکھوں میں ایک کشش تھی جو کسی بھی انسان کو اپنی سمت متوجہ کرنے کا ہنر رکھتی تھیں،وہی
آنکھیں جو فلک پر موجود ستاروں کی مانند تھیں۔وہی دو چمکتے ستارے جن کے باعث ،میں نے
اسکندریہ کا طویل سفرطے کیا تاکہ میں کہیں دور نکل جاو
¿ں۔ دنیا کے کسی کوچے میں ماضی کی وہ چبتی ےادمےرا
پیچھاچھوڑ دے اور میرا ضمیر اس کی موت پربےن کرنا بند کر دے۔ اس کی وہ آ خری چیخ میرے
کا ن آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں ،جب میں نے اس پر خنجر سے حملہ کیا تھا۔اس جسم سے خون
بہنے کے باعث اس کا چہرہ بالکل سفید ہو گیا، تب اس کے حلق سے ایک درد ناک آہ نکلی تھی۔ہاں
اسکی وہی آنکھیں ، جو اس کے آخری سانسوںکے وقت سوج چکی تھیں ، وہ بری طرح کراہ رہا
تھا ،وہ ایک مرتے ہوئے انسان کی چیخ تھی۔وہ اس وقت بالکل اس بھیڑیے کی مانند لگ رہا
تھا جو کسی دشمن کے شکنجے میں مکمل طور پر پھنس چکا ہو۔
جب آپ کسی کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں تو
اس شخص سے بدعا کے طور پر کچھ نہ کچھ آپ میں ضرور منتقل ہوجاتا ہے۔ کوئی مہک ،درد بھری
آہ یا کوئی حرکت ۔یہ کوئی معمولی شے نہیں ہوتی ، یہ باقاعدہ ایک لعنت کے موافق ہے جو
زندگی بھر انسان کے ساتھ زندگی بھر ایک حلق میں پھنسے کانٹے کی طرح منسلک رہتی ہے
۔وہ تما م لوگ جو مجھے دنیا کے کونوں میں مارا ماراپھرتا دیکھتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے
کہ دراصل میرے اندر کیا لاوا ہے جو ہمہ وقت ابلنے کو تیاررہتا ہے۔ میںوہ شخص ہوں جو
اپنے ساتھ کئی بدنصیبوں کی نشانیاں لئے پھرتا ہوں جن کومیں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے،یہ
میرے لئے ایک طوق کی مانند ہیںایک ان چاہا ساتھی ، جو سایہ بن کے میرے ساتھ موجود ہیں۔میں
لاکھ ان سے پیچھا چھڑوانے کی کوشش کروں مگر یہ ناممکن ہے ۔ یہی تو وہ وجہ ہے جو مجھے
ایک قاتل ہونے کا احساس دلاتی ہیں،یہ گندگی میری ذات کاحصہ بن چکی ہے تاہم یہ بھی ایک
اٹوٹ حقیقت ہے کہ میرا پیشہ ہونے کے باعث یہ میرے لئے یہ ایک معمولی بات ہے ۔قاتلوں
کی یہ داستان کوئی نئی نہیں ہے ،یہ داستان تو تب سے چلتی آرہی ہے جب ہابیل نے قابیل
کو قتل کیا ہوگیا۔ تب سے ایک قاتل کے اندر مقتول کی چند نشانیاں ضرور ضبط ہوتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ قتل کرنامیرے لئے کوئی
جان جوکھوں کا کام ہے ، اس کے برعکس میرے لئے یہ معمول کا کام ہے ۔تاہم وہ قتل جو میں
آخری مرتبہ کیااس کا منظر آج تک میرے ذہن میں سمویا ہوا ہے ۔ مجھے اکثر یوں محسوس ہوتا
ہے کہ وہ منظر میرے آنکھوں میں مقفل ہے کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی ختم ہوا
ہی نہیں تھا، بلکہ وہ آج بھی جاری ہے۔میری زندگی اجیرن کردینے والے قتل کا محض منظر
ہی عجیب و غریب نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ کئی ایسی پر اسرار باتیںوابستہ تھیں۔ اس کام
کا آغا ز ہی کچھ یوں ہوا کہ مجھے یوںلگا کہ شایدوہ کامجھے ڈھونڈنے بغداد کی گلیوں میںآیا
تھا۔
1248 ءکے موسم بہار کا آغاز ہے میں قونیہ کے
قحبہ خانے کانگران تھا اور ایک ایسی مخنث کیلئے کام کیا کرتا تھا جو شہر میں غیض و
غضب کے باعث جانی جاتی تھی ۔ مےں وہاں پر طوائفوں کی نگرانی کرتا تھا ،ساتھ ہی ساتھ
میں گاہکوں کی بھی دیکھ بھال کرتا تھا جو کہ کسی کے قابو میں نہیں آتے تھے۔
میں وہ دن اپنے یاداشت کے ذخیرے سے کبھی
بھلا نہ پاو
¿ںگا ،وہ دن جب میںکسی گلی کوچوں میں تلاش کررہا
تھا۔ وہ ایک خوبرو عورت تھی جو خدا کی تلاش میں کہیں غائب ہو گئی تھی ،مجھے اس وقت
اس کیلئے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جب میں اسے پکڑوں گا
تو میں اس کا چہرہ برباد کر دوں گا۔ میرا ارادہ اس کا حلیہ اس حد تک بگاڑنے کا تھا،
جس کے بعد اسے کو ئی بھی آدمی دوسری مرتبہ دیکھنابھی گوارا نہ کرتا ۔وہ بیوقوف عورت
مجھے ملنے ہی والی تھی کہ میں نے اچانک ایک پر اسرار خط کو اپنی دہلیز پر پایا۔میں
چونکہ ان پڑھ ہوں اس لئے میںاسے خود نہیں پڑھ سکتا تھا۔ میں ایک مدرسے گیا ، وہاں پر
ایک طالب علم کو چند سکے دیے ، جس کے باعث وہ خط پڑھنے پر را ضی ہوگیا۔
خط کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ وہ کسی انجان
جگہ سے بھیجا گیا تھا ،اس پر مدیر کے نام کی جگہ ”کچھ ایمان والے “ لکھا گیا تھا ۔
خط اس طرح سے تحریر تھا:
”ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ تم کون ہو اور کہاں
سے آئے ہو؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حسن بن صباح کی موت کے بعداور تمہارے پہلے حکمران
کی قید کے بعد تم لوگوں کے حالات پہلے کی طرح نہیں رہے ہیں۔تم قونیہ آئے ہی سزا سے
بچنے کیلئے ہو اور تم نے اسی لئے اپنا بھیس بھی بدل رکھا ہے“
اس خط میں میرے لئے درج تھا کہ ان لوگوں
کو کسی اہم معاملے میں میری خدمات درکار ہیں۔مجھے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی
کہ اس کام کے لئے مجھے اچھا خاصا معاوضہ بھی ملے گا۔آخر میں سارا معاملہ مجھ پر چھوڑ
دیا گیا تھا کہ اگر مجھے منظور ہے تو اسی شام مجھے ایک مے خانے آنا ہو گا، جس کا پتا
مجھے بتا دیا گیا تھا۔مجھے سختی سے تنبیہہ کی گئی تھی کہ مجھے کھڑکی کے ساتھ والی میز
پر ہی بیٹھنا اور اپنی نظریںزمین پر مرکوز رکھنا۔علاوہ ازیں میری پشت بھی دروازے کی
جانب ہونا لازمی ہوگا۔مجھے بتایا گیا تھا وہ لوگ جنہوں نے مجھے ہدایات دینی تھیں وہ
اسی صورت میں آئیں گے جب میںوہاں ان کے بتائیے گئے طریقے سے بیٹھوں گا۔ مجھے سختی سے
تاکید کی گئی تھی کہ میںاس دوران ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہ دیکھوں۔
یہ نہایت عجیب وغریب خط تھا لیکن میں گاہکوں
کی اس قسم کی خواہشات سے نپٹنے کا عادی تھا ۔ کئی سالوں کے دوران میں تقریباً ہر قسم
کے گاہک نے میرے سے خدمات لیں اور ان میں سے زیادہ تر افراد نے اپنا نام اور پہچان
مجھ سے مخفی رکھی ۔میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جتنا کوئی گا ہک اپنی پہچان مجھ سے چھپاتا
ہے اتنا ہی وہ نشانہ بنائے جانے والے شخص کا قریبی ہوتا ہے ، لیکن میرا اس بات سے کوئی
سروکار نہیں،میرا کام صرف قتل کرنا تھا۔مجھے محض اپنے تفویض کردہ کام سے لگاو
ہے ،اس کے ساتھ وابستہ وجوہات کی تحقیق کرنا نہیں۔کئی
سال قبل میں جب سے میںنے اپنے آبائی شہر الموت کو چھوڑا، میں نے اپنے لئے اس زندگی کا انتخاب
کرلیا تھا۔
میں سوال بہت کم پوچھا کرتا تھا، پوچھوں
بھی تو کیوں؟زیادہ تر انسان جن سے میرا واسطہ پڑتاہے ، ان کی آنکھوں کو کم از ایک انسان
ضرور کھٹکتاہے، وہ جس سے ان کی نفرتیںوابستہ ہوتی ہیں۔یہ وہی شخص ہوتا ہے جس سے وہ
چھٹکارہ پانے کے لئے بے قرار ہوتے ہیں۔در حقیقت جو ایسا کرنے کہ چاہ رکھتے ہوں ، وہ
محض چاہ ہوتی ہے، در حقیقت وہ اس کو عملی شکل نہیں دے سکتے ۔مختصراً یہ کہ ہر ذی روح
کے اندر کسی نہ کسی کو قتل کرنے کیلئے جذبات مخفی ہوتے ہیں۔
پر یہ نہایت حیرت انگیز بات ہے کہ لوگ اس
بات کو تب تک ایک غلط فہمی تصور کرتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ شاید وہ اتنے بڑے گناہ کے
مرتکب بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔تاہم ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ان کے دلوں میں نفرت کا
وہ مقام پیداہوجاتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر قابو بھی نہیں رکھ پاتے۔دراصل اس نوبت تک پہنچنا
ایک اتفاق کی بات ہے ،بعض اوقات کوئی معمولی سی بات ہی کسی کے اندر آگ بھڑکانے کے کافی
ہوتی ہے۔جیسا کہ دشمنوں کی جانب سے دو افراد کے مابین جان بوجھ کر پیدا کی گئی غلط
فہمی ،چھوٹی سی بات پر جھگڑا ، کسی غلط جگہ پر غلط وقت میں موجود ہونا ان لوگوں کے
درمیان نفرت پیدا کرسکتا ہے جو کہ ماضی میں ایک دوسرے کے بہت قریبی تھے ۔ہر کوئی قتل
کرسکتا ہے،تاہم ہر کسی کے اندر اتنی ہمت نہیںکہ اجنبی کا سرد مہری سے قتل کردے۔ہاں
! میں دوسروں کی مشکل آسان کرتا ہوں اورلوگوں کے اس قبیح کام کو سر انجام دیتا ہوں۔شاید
میں غلط نہیں ہوں ۔۔
کیونکہ یہ ایسا کام ہے جس کو سر انجام دینے
کیلئے خدا کو بھی اپنی آفاقی منصوبہ بندی میں ایک جلیل القدر فرشتہ تعینات کرنے کی
ضرورت محسوس ہوئی ۔ عزرائیل ؑکو مخلوق خدا ایک ملامتی اور نفرت کی گاہ سے دیکھتی ہے
جب کہ خدا کے ہاتھ صاف رہتے ہیں اور ا س کی عظمت میں کوئی بھی فرق نہیں آتا۔جب کہ خدا
کے ہاتھ صاف رہے اور نام بھی تابندہ رہا۔یہ اس فرشتے کے ساتھ انصاف نہیں تھالیکن کیا
کیا جائے ، یہ دنیا انصاف کی وجہ سے نہیں پہچانی جاتی کیا ایسا ہے ؟
جیسے ہی اندھیرا چھایا میں اس شراب خانے
کی جانب گیا۔کھڑکی کے ساتھ والی میزپراےک آدمی بیٹھاتھا، جس کا چہرہ جھریوں سے بھرا
ہوا تھااوروہ گہری نیند سو رہاتھا۔مجھے خیال آیا کہ مجھے اس کو گہری نیند سے جگا نا
چاہے اور اسے کہنا چاہیے کہ کہیں اور چلا جائے ۔وہ آدمی شراب کے نشے میں دھت تھا، اور
شرابی کیسارد عمل دیںکوئی بھی اس بات کی پیش گوئی نہیں کرسکتا ہے ۔اسی لئے مجھے لگاکہ
مجھے احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ وہاں موجود لوگ میری طرف متوجہ نہ ہوں۔اسی لئے
میں کھڑکی کے سامنے موجود دوسری خالی میز پر براجمان ہوگیا۔کچھ ہی وقفے بعد دو آدمی
پہنچے۔دونوں میرے اطراف میں بیٹھ گئے جس سے ان کے چہرے نظر نہیں آسکتے تھے۔یہ دیکھنے
کیلئے کہ وہ کتنے کم عمر تھے اور جو وہ کارنامہ سر انجام دینے جارہے ہیں اس کیلئے وہ
کتنے اناڑی تھے مجھے یہ جاننے کے لئے انہیں دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔
”تمہاری سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہے “ان
میں سے ایک نے کہا۔اس کی آواز اتنی محتاط ہونے سے کئی زیادڈری ہوئی تھی ۔”ہمیں بتایا
گیا تھا کہ تم بہترین ہو“
وہ بولتے ہوئے بہت مضحکہ خیزمحسوس ہورہا
تھا،تاہم میں نے اپنی ہنسی دبانے کوشش کی ۔مجھے یوں محسوس ہوا جس طرح وہ مجھ سے ڈرے
ہوئے ہیں جو کہ میرے لئے ایک اچھی بات تھی، کیونکہ جتنے وہ مجھ سے ڈرے ہوئے تھے،وہ
میرے ساتھ کوئی دغا بازی کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے ۔اسی لئے میں نے ان کی ہاں
میں ہاں ملائی ،”جی میں بہترین ہوں“۔اس لئے انہوں نے مجھے ”جیکل ہیڈ“ کہا،”میں نے کبھی
اپنے گاہکوں کو مایوس نہیں کیاچاہے کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو“۔”بہت اچھے“ اس نے
تھکاوٹ کے سے انداز میں بولا،”یہ کام بھی شایداتناآسان نہ ہو “
اب کی بار دوسرا بولا”دیکھو!ہمارے علاقے
میں ایک آدمی ہے جس نے اپنے بہت سے دشمن بنالیے ہیں۔ یہاں تک کہ جب سے وہ شہر میں آیا
ہے اس نے ہمیں مشکلات کے سوا کچھ بھی نہیںدیا۔ہم نے اسے کئی مرتبہ خبرادر کیا لیکن
وہ اس کان نہیں دھرتا۔دوسری جانب ،اس وقت وہ شہر میں متنازعہ ترین انسان ہے اور وہ
کسی بھی قیمت پرہمیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔وہ ہمیشہ سے اسی طرح کا ہی تھا۔
ہر مرتبہ گاہک ایک معاہدہ طے کرنے سے قبل
اپنے آپ کو یوں ہی درست ثابت کیاکرتے تھے،جیسے کہ میری منظور ی ان کے سنگین جرم میںکمی
کا باعث بن سکتی تھی۔
میں جانتاہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں
۔پہلے مجھے یہ بتائیں کہ یہ شخص کون ہے ؟میں نے پوچھا۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ اس
کانام بتانے سے ہچکچا ہٹ محسوس کررہے تھے۔اس کے بجائے انہوں نے مجھے اس کے بارے میں
ایک دھندلی سی تفصیل بیان کرنا شرو ع کی، ”وہ ایک بدعتی ہے جس کااسلام سے کوئی تعلق
نہیں ۔ایک بے لگام شخص جوکہ بے حرمتی کا مرتکب اور گستاخ شخص ہے۔وہ ایک آوارہ درویش
ہے “
جیسے ہی میں نے یہ آخری لفظ سنا میرے اندر
کچھ عجیب سے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔میرا دماغ تیزی سے چلنے لگا اور اس میں بیک
وقت بہت سی سوچیں آنے لگیں۔میرا ماضی اس کام سے ہی تعبیر تھا ،میں نے ہرطرح کے لوگوںکا
قتل کیا ، خواہ وہ جوان ہو ،جوان ہو یا بوڑھا ، آدمی ہویا عورت، لیکن ان میں کوئی بھی
درویش نہ تھا۔۔ایک پاک انسان۔
”میری اپنی توہمات ہیں اور میں نہیں چاہتا
کہ اللہ مجھ سے ناراض ہو،چاہے میں جیسا بھی ہوں، اپنے خالق پر کامل ایمان رکھتاہوں۔میں
آپ لوگوں کی بات سے ڈر گیا ہوں، میں یہ پیشکش رد کرتا ہوں۔مجھے نہیں لگتا کہ میں ایک
پاکیزہ انسان کا قتل کرسکتاہوں، آپ مجھے چھوڑیں اورکسی دوسرے کو اس کام کے لئے تلاش
کریں۔یہ بات کہتے ہی میں وہ جگہ چھوڑنے کے لئے کھڑا ہوا،لیکن جوں ہی میں آگے بڑھا ان
میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑااور مجھے ٹھہرنے کی درخواست کی ۔تمہارا معاوضہ تمہارے
کام کی نوعیت کے مطابق کردیا جائیگا ،یعنی دوسروں سے جو بھی قیمت لیتے ہو اس کو دوگنا
کردیا جائیگا۔
اچھا!قیمت تین گنا کرنے کے متعلق آپ کیا
خیال رکھتے ہیں ؟میں نے پوچھا ۔میں پر امید تھا کہ وہ اتنی زیادہ قیمت نہیں ادا کرپائے
گا۔کچھ دیر کی تذ بذب کے بعد میری توقعات کے برعکس انہوںنے یہ قبول کرلیا۔میں دوبارہ
اپنی نشست پر بیٹھ گیا، میں شدید اعصابی تناو
¿ کا شکار تھا۔اتنی بڑی رقم سے آخر کار میں اس قابل
ہوسکتا تھا کہ ایک شادی کے بندھن میں بند سکتا تھا۔ میں نے اپنے معالی حالات کے متعلق
سوچنا چھوڑ دیا ۔چاہے کوئی درویش ہو ، یا کوئی اورہر کوئی اتنی بڑی قیمت کے عوض کسی
کو بھی موت کے گھاٹ اتار سکتا تھا۔
میں اس لمحے سوچ بھی نہیںسکتا تھا کہ میں
اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرنے جارہا ہوں اور مجھے پوری زندگی اس پر ماتم کرنا
ہوگا ۔ایک درویش کو قتل کرنا کس قدر مشکل تھا، اس کے مرنے کے بعد سب کچھ سہنا کسی عذاب
سے کم نہیں تھا۔اس کی چاقو کی مانند آنکھیں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں ۔۔ ہرجگہ
۔۔ہرکہیں۔۔
اس بات کو چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے،
مجھے آج تک یاد ہے کہ میں نے صحن میں اس کا خنجر سے وار کیا تھا۔ اس کو کنویں میں پھینک
دیا تھا، اوراس سے آنے والی چھینٹوںکو سننے کی کوشش کرنے لگا جو مجھے دوبارہ کبھی نہیں
سنائی دینی تھیں۔یہاں تک کہ اس درویش کے کنویں میں گرنے کی آواز تک نہیں آئی ۔ مجھے
اس وقت یہ محسوس ہوا کہ وہ درویش پانی میں گرنے کی بجائے سیدھا آسمان کی جانب پرواز
کر چکا تھا۔میں آج بھی جب سوتا ہوں مجھے ڈرواو
نے خواب آتے ہیں ۔میں جب بھی پانی کی طرف دیکھوں،
پانی کے کسی بھی ذخیرے کی جانب ،کئی لمحوں سے زیادہ تو خوف کی لہر میرے پورے جسم کو
جکڑ لیتی ہے ۔اس وقت میں اپنے آپ کو قابو نہیں کرسکتا ،اسی لئے قے کردیتا ہوں
25 - 26
پہلا حصہ
۔۔۔۔۔
زمین
ٹھوس
، مستغرق اور ساکن چیزیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس
(27 to 33 )
سمرقند کے باہر ایک سرائے ، مارچ 1242ئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکڑی کی مےز سے بلندشہد کے موم سے بنی موم
بتیاں میری آنکھوں کے سامنے ٹمٹما رہی تھیں ۔ آج شام جو ’کشف “ مجھ پر انقاھو ا وہ
نہایت واضح اور قابل فہم تھا۔ میں نے دیکھا کہ اےک بہت بڑا گھر ہے جس کے صحن میں چاروں
سوپیلے رنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں ۔ اس صحن کے وسط میں ایک کنواں ہے ، جس میں دنیا
کا یخ بستہ ترین پانی موجودہے ۔یہ نظارہ پرسکون تھا،یہ موسم خزاں کی ایک رات کا آخری
پہر تھااوروہ پورے چاند کی رات تھی ۔کئی جانور اپنے معمول کے مطابق پوری دنیاسے بے
خبر شور اور واویلا مچانے میں مگن تھے ۔کچھ ہی دیر میں ایک درمیانی عمر کا آدمی جس
کا چہرہ شفیق، کاندھے کشادہ اور آنکھیں گہری بنفشی تھیں ،گھر سے باہر نکلا ، وہ مجھے
اس رات کے اندھیرے میں تلاش کررہا تھا ۔اس کے چہرے کے تا ثرات نہایت آ زردہ اور آنکھیں
بہت پریشان تھیں ۔
شمس ، شمس ۔۔ تم کدھر ہو؟ وہ دائیں بائیں
دیکھتے ہوئے چلا یا۔۔
ہواتیزی سے چلی اور چاند بادل کے پیچھے
چھپ گیا ، جیسا کہ وہ یہ دیکھنے سے ڈر رہاتھا جو ہونے جارہاتھا۔۔ الوو
ں نے شور مچانا بند کردیااور چمگادڑوں نے اپنے پرو
ں کو پھرپھرانا روک دیا،یہاں تک کہ گھر کے اندر آگ نے چرچرانا بھی بند کردیا، غرض اس
وقت پوری دنیا پر ایک سکوت طاری تھا۔اسی رات کے اندھیرے میں ایک آدمی آہستہ آہستہ کنویں
کی جانب پہنچا،وہ کنویں کی طرف جھکا اورکنویں میں جھانک کر دیکھا۔
شمس ، میری عزیز ترین ہستی ،کیا تم ادھر
ہو ؟
جب میں نے اے جواب دینے کیلئے اپنے لبوں
کو حرکت دی مجھے بے حد حیرانی ہوئی کے میرے حلق سے آوازنہیں نکل پارہی تھی ۔وہ آدمی
مزید آگے کوجھکا اور کنویں میںدوبارہ جھانکا۔پہلی نظر میں وہ کنویں کے پانی کی سیاہی
کے سوا کچھ نہ دیکھ پایاتھا۔ تاہم مزید غور سے دیکھنے پر اسے کنویں کے پیندے پر میرا
ہاتھ پانی کی سطح پر بے مقصد تیرتے ہوئے دیکھا ئی دیا، بالکل اسی طرح جیسے کوئی کمزورکشتی
بہت بڑے طوفان کے بعدادھر ادھر ہلکورے کھا رہی ہو۔ اگلے لمحے اس شخص نے میری آنکھیں
پہچان لیں ۔ وہ دو چمکتے ہوئے کالے پتھر ،چاند کو ٹکٹکی باند کر دیکھ رہے تھے، جو کہ
اب سیاہ اور گہرے بادلوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ باہر آرہاتھا۔میری آنکھیں اس وقت
چاندکو دیکھ رہی تھیں ، جیسے وہ آسمانوں سے میرے قتل کی وضاحت کا انتظار کر رہی ہوں۔وہ
آدمی اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا اور زاروقطار رونے لگا اور سینہ کوبی کرنے لگا۔”انہوں
نے اس کو مار دیا، انہوں نے میرے شمس کو ماردیا “،وہ چلایا۔
اسی دوران جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک سایہ
تیزی سے باہر نکلتا ہوا معلوم ہوا،اور نہایت تیزی اور خفیہ طریقے سے وہ دیوا ر پر چھلانگ
لگاتا ہوا نظر آیا، اسی طرح جس طرح ایک جنگلی بلی کرتی ہے۔وہ قاتل ہوگا۔۔۔تاہم اس آدمی
نے قاتل کو توجہ د ینا ضروری نہ سمجھا، شدیداذیت میں مبتلا وہ شخص چلایا، اور چلاتا
گیا۔ پھر اس کی آواز ٹوٹتے ہوئے شیشے کی مانند بکھرگئی اورپھریہی شیشے کی تیز دھار
ٹھیکریاں رات کی خامشی میں کہیں پنہاں ہو گئیں۔
اوہ ۔۔ تم ۔ پاگلوں کی طرح چلانا بند کرو۔
اس طرح کی خوفناک آوازیں نکا لنا بند کرو۔۔۔
ورنہ میں تمیں باہر نکال دوں گا۔
ایک مرد نے چلانے کے سے انداز میں یہ الفا
ظ کہے۔
بکواس بند کرو۔۔ کیا تم مجھے سن رہے ہو۔؟
بکواس بند کرو۔ وہ تقریباً دھمکی دیتے ہوئے گرجا۔میں نے ایسا ظاہر کیا کہ میں نے سنا
ہی نہیں کیونکہ میں اپنے ”کشف“ کومزید دیکھن چاہتا تھا، اس کو محسوس کرنا چاہتاتھا،میں
اپنی موت کے متعلق مزید جاننا چاہتا تھا۔میں ان غمگین ترین آنکھوں والے انسان کوغور
سے دیکھنا چاہتا تھا۔یہ کون تھا؟ اس کا مجھ سے کیا تعلق تھا؟ وہ اس خزاں کی رات میں
مجھے اتنی شدت سے کیوں تلاش کررہا تھا؟اس سے پہلے کے میں اپنے ”کشف“ میں ایک نظرمزید
ڈالتا ، کسی نے مجھے میری بازو سے پکڑا اور مجھے اتنی شدت سے ہلایا کہ مجھے اپنے منہ
میں دانتوں کی واضح گڑگڑاہٹ محسوس ہوئی اور میں حقیقی دنیا میں واپس آگیا۔میں نے تذبذب
کا شکار ہوتے ہوئے آہستگی سے آنکھیں کھولیں، اور اس آدمی کو دیکھاجو میرے ساتھ کھڑا
ہوا تھا۔وہ ایک لمبا،صحت مند آدمی تھا جس کی داڑھی اس کی بزرگی کا اظہار کرنے کئے کافی
تھی اور مو نچھیں گھنی تھیںجو کناروں سے مڑی ہوئی اور نوکدارتھیں۔مجھے ایسا محسوس ہوا
کہ وہ اس سرائے کا مالک ہے ۔
اسے دیکھتے ہی فوری طور پر اس کے مزاج کے
متعلق دو باتیںمےرے ذہن میں آئیں ، ایک یہ کہ وہ لوگوں کو اپنی سخت مزاجی اور تشددسے
دہلاتا ہوگا ، دوسری وہ اب بھی شدید غضبناک حالت میں تھا۔تم کیا چاہتے ہو؟ تم میری
بازو کیوں کھینچ رہے ہو؟
کیا؟؟ یہ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ میں
کیا چاہتا ہوں؟سب سے پہلے ،میں چاہتا ہوں کہ تم اس طرح چلانا بند کرو، تم میرے گاہکوں
کوڈرا رہے ہو۔
سچ!!!کیا میں چلا رہاتھا؟ میں نے آہستگی
سے بولا ساتھ اپنے آپ کو آزاد کروانے کی کوشش کی۔تم شرط لگا سکتے ہو کہ تم ہی تھے؟تم
ایک ریچھ کی طرح چلا رہے تھے جیسے اس کے پاو
ں میں کوئی کانٹا چبھ گیا ہو۔آخر تمہارے ساتھ کیا
ہواتھا؟کیا تمہیں رات کے کھانے کے دوران ہی نیند آ گئی تھی ؟تم نے ضرورڈراو ناخواب دیکھا ہوگایاکچھ اور ؟
میں جانتا تھا کہ اسے سمجھانے کا یہی ایک
مناسب طریقہ تھاجس سے وہ مطمئن ہوجاتا اور مجھے آرام سے جانے دیتا،پھر بھی میں جھوٹ
نہیں بولنا چاہتا تھا۔
”نہیں میرے بھائی نہ میں سویا تھا نہ ہی
میں نے کوئی ڈراو
ناخواب دیکھا،دراصل میں کبھی خواب دیکھتا ہی نہیں“”مجھے
کشف ہوتاہے، جس کے اندر مجھے آئندہ درپیش آنے والے مناظر آتے ہیںیہ ایک مختلف چیز ہے“۔میں
نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا،جب اس نے میری طرف دیکھا تو مجھے یوں محسوس ہوا
کہ جیسے وہ کسی کشمکش کا شکار ہو چکاہے۔ اس نے اپنی مونچھوں کو بل دینا شروع کیا۔آخر
کار وہ بول پڑا”تم درویش لوگ بالکل اسی طرح پاگل ہوتے ہوجیسے چوہے باورچی خانے میں
۔سارا دن تم لوگ روزے سے رہتے ہو ، عبادا ت کرتے رہتے ہواور تپتے سورج میں میلوں سفر
کرتے ہو۔تم لوگوں کے دماغ کا بھیجہ پک جاتا ہے ، پھر راتوں کوفریب نظر میں مبتلا ہو
جاتے ہو“
میں مسکرایا،وہ درست بھی ہو سکتا تھا
۔”وہ کہتے ہیں نا کہ خدا میں خود کو کھو دینے میں اور دماغ کھودینے میں تھوڑا ہی فرق
ہوتا ہے “
اسی دوران دو بہرے نمودار ہوئے جن کے ساتھ ایک بڑی کھانے کی ٹرے تھی،جس
میںمختلف اقسام کے کھانوں کی تھالیاں موجودتھیں۔جن میں بکریوں کاسیخ پہ بھونا ہواتازہ
گوشت ،نمک کے ذریعے خشک کی گئی مچھلی کا سالن،مسالے داربکرے کا گوشت ،گندم کے کیک ،کوفتے
بمہ مصری چنے اور مصور کی دال بمعہ بھیڑ وںکا گوشت شامل تھے۔
وہ پورے ہال میں پیاز ،ادرک اور مرچوں کی
خوشبو پھیلاتے ہوئے اسے پورے ہال میں تقسیم کر رہے تھے ۔جب انہوں نے کھانے کی ٹرے میرے
سامنے پیش کی،تومیں اپنے لئے ایک گرم سوپ اور اور کچھ روٹیاں پکڑ لیں۔مجھے یوں پکڑتا
ہوا دیکھ کر اس نے کچھ حاکمانہ اور حقارت آمیز لہجے سے دریافت کیا تمہارے پاس ان کھانوں
کی قیمت ادا کرنے کے لئے پیسے موجود ہیں؟جیسے کہ اس نے میرا حلیہ دیکھ کر ہر چیز کا
اندازہ لگا لیا ہو ۔
”نہیں ! میرے پاس واقعی نہیں ہیں “۔میں نے
کہا”لیکن مجھے اس امر کی اجازت دو کے اس کے بدلے میں تمہیں کچھ اور بہتر دے سکوں۔میں
تمہیںآج یہاں رات قیام کرنے اور کھانے کے عوض تمہارے خوابوں کی تعبیر بیان کرسکتا ہوں
۔
اس کے جواب میں سرائے کے مالک نے قدرے حقارت
آمیز لہجے میں کہا اس کی بازو کمر کی طرف مڑی ہوئی تھی ۔”تم نے مجھے ابھی کہا کہ تم
خواب نہیںدیکھتے “۔”ہاں ، تو یہ درست ہے ۔اگرچہ میں خواب نہیںدیکھ سکتا، پھر بھی میں
خواب کی تعبیرکرسکتا ہوں۔
اے درویش ”میں تمہیں یہاں سے باہر نکال
دوں گا،جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ تم درویش لوگ اخروٹ کی مانند ہو تے ہو۔اس نے الفاظ
کی ایک جنگ ہی شروع کردی تھی۔تمہارے لئے ایک نصیحت ہے ”میں نہیں جانتا کہ تمہاری عمر
کیا ہے لیکن میں اتنا جان سکتا ہوں کہ تم دونوں جہانوں کے لئے عبادت کرچکے ہو۔ایک اچھی
عورت ڈھونڈو اور اس سے شادی کرلو،تمہارے بچے ہوں گے جو تمہیں دنیا بھر میں آوارہ گردی
نہیں کرنے دیں گے۔بھلاتمہارا پوری دنیا میں آوارہ گردی کرنے کا کیا مقصد؟ تم شاید تم
نہیںجانتے کہ پوری دنیا ایک سی ہے ، ہر جگہ اسی طرح کی تکلیفیں اور پریشانیاں ہیں۔اس
میںایسا کچھ نیا نہیں ہے جو دیکھنے کے قابل ہو۔میرے پاس دنیا کے دور دراز علاقوں سے
لوگ آتے ہیں ۔ چاہے وہ جس بھی رنگ ونسل کے ہوں ،شراب کے نشے میں مست ہوکرسب ہی ایک
طرح کی درد بھری داستان سناتے ہیں۔ایک ہی طرح کاکھانا ، ایک ہی طرح کا پانی اور ایک
ہی طرح کے جوئے کے طریقے جو قدیم دور سے چلے آرہے ہیں ۔”نہیں تم مجھے غلط سمجھ رہے
ہو ،میں کسی نئی چیز کی تلاش میں نہیں ہوں،میری تلاش میرے خدا کی تلاش ہے“ ۔ ”تو تم
اس کو ایک غلط جگہ تلاش کر رہے ہو “اس نے فوراً جواب دیا ۔اس کی آواز قدرے بھاری ہو
گئی ۔”خدا یہ جگہ چھوڑ چکا ہے، وہ اسے لاورث بنا چکا ہے ،ہم نہیں جانتے کہ وہ کب واپس
آئے گا “۔
اس کے منہ سے یہ مایوس کن لفاظ سننے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو ا کہ جیسے
میرادل سینہ چیر کر باہر آجائے گا، ان الفاظ پر میں بے اختیار بول اٹھا”جو کوئی خداکے
بارے میں کوئی من گھرٹ بات کرتا ہے اس کا مطلب وہ اپنے متعلق کچھ غلط کہتا ہے ۔“
اس بات پر سرائے کامالک عجیب سے معنی خیزانداز
میں مسکرایا،اس کے چہرے پر ایک کرواہٹ اور خفگی تھی ،اس کی ناراضگی کی کوئی وجہ ضرور
تھی جوکہ مجھے معلو م نہ تھی۔
”کیاہمارا خالق یہ نہیں کہتاکہ وہ ہماری
شاہ رگ حیات سے زیادہ ہمارے قریب ہے، خدا ہم سے ہزاروں میل کے فاصلے پر آسمان میں نہیں
بستا ؟بلکہ وہ ہم سب کے اندر ہی موجود ہے۔وہ ہمیں کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ ۔۔نہیں ایسا ممکن
نہیں وہ اپنے آپ کو بھلاکیسے چھوڑ سکتا ہے،میں نے پوچھا۔
”وہ چھوڑ جاتا ہے“ سرائے کے مالک نے جواب
دیا۔اس کی آنکھیں سرد اور گستاخانہ تھیں۔
میں نے کہا یہ پہلا قانون ہے میرے بھائی
۔ میں نے کہا ” خدا اس کی شبیہہ ہے جو گمان ہم اپنے آپ اور اپنی ذات کے متعلق رکھتے
ہیں۔اگر خداکے ذکر سے ہمارے دماغ میں زیادہ تر خوف اور ملامت لاتا ہے اس کا مطلب ہمارے
خوف اور الزام تراشی ہمارے سینوں میں کہیں دفن ہے ۔اگر ہمارے نزدیک خدا محبت اور تقویٰ
ہے تو اس کامطلب ہمارے اندر بھی یہی چیزیں موجود ہیں“
سرائے کے مالک نے اس بات سے فوراً انکار
کردیا ، تاہم میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ میرے بات سے حیران ضرورہواتھا ۔” یہ تم کیسے
کہ سکتے ہو کہ خدا ہمارے تصور کی تخلیق ہے؟“
انہی باتوں کے دوران ایک دم کھانے کے کمرے
میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوا جس کے باعث میرے جواب میں خلل پیدا ہوا۔جب ہم اس سمت میں مڑے
، تو ہم نے دو بے ڈھنگے آدمیوں کو دیکھا جو شراب کے نشے میں دھت چیخ رہے تھے ۔وہ اس
وقت بے لگام تھے اور غنڈہ گردی کرتے ہوئے دوسرے گاہکوں کے پیالوں میں سے ان کا کھانا
چھین رہے تھے۔کسی کو احتجاج بھی کرنا چاہتا تو وہ اس کا مدرسوں کے لونڈوں کی طرح اس
کا مذاق اڑانے لگتے۔
”ان دونوں نے یہاں ہنگامہ برپا کیااور لوگوں
کو تکلیف پہنچائی، کسی کو ضروران دونوں کو باز رکھناچاہیے تھا “ کیا تمہیں ایسا نہیں
لگتا؟ ۔سرائے کے مالک نے غصے کے مارے اپنے دانتوںکو دبایا اور کہا کہ اب دیکھنا میں
کیا کرتا ہوں۔وہ تیزی سے ہال کی دوسری جانب ان دونوں کے پاس پہنچا اوران میں سے ایک
شرابی گاہک کو جھٹکے سے اس کی نشست سے کھینچااور اس کے منہ پہ ایک گھونسہ دے مارا۔وہ
آدمی اس وقت اس مار کی امیدنہیں کررہاتھا،وہ ایک خالی بوری کی طرح زمین کے فرش پر منہدم
ہوگیا۔اس کے منہ سے درد کی وجہ سے بمشکل ایک ہلکی سی آہ نکلی جو سنائی دی جاسکتی تھی،
تاہم اس کے علاوہ اس کے حلق سے مزید کوئی آواز نہ نکلی ۔وہ اگلے ہی لمحے دوسرے شرابی
پر بھی حملہ آور ہوا ، تاہم وہ قدرے طاقت ور ثابت ہوا اور شدت سے جوابی وار کیا،تاہم
سرائے کے مالک کو اسے بھی نیچے گرانے میں اتنا وقت نہیں لگا۔اس نے اس بے قابو شرابی
کی پسلیوں پہ ٹھوکر یںلگائیں اور پھر اس کے ہاتھ کو زدوکوب کیا،اور اپنے بھاری جوتوںکے
نیچے اسے مسلنے لگا۔اس وقت وہاں موجود سب افراد نے ایک آواز سنی جو کہ یقینااس کی انگلی
میں شفاف پڑنے کی آوازتھی نہ صرف اس کی انگلی میں بلکہ مزید شگاف بھی پڑ سکتے تھے۔
رکو،میں کہتا ہوں رک جاو
،میں نے ایک دم کہا۔تم
اسے قتل کرنے جارہے ہو۔۔ کیا تم ایسا ہی ارادہ رکھتے ہو؟
ایک صوفی ہونے کی حیثیت سے میرا یہ عزم
تھا کہ ایک ایک زندگی بچاو
ں اور اسے کوئی نقصان پہنچنے نہ دوں ۔اس جعلی دنیا
میں بہت سے لوگ دوسرے سے بغیر کسی وجہ کے لڑنے کے لئے تیار رہتے تھے اور بہت سے ایسے
ہیں جو کسی وجہ سے لڑتے ہیں۔لیکن ایک صوفی کے پاس لڑنے کی کوئی وجہ بھی ہو وہ تب نہیں
لڑتا ہے ۔
میرے پاس کوئی طریقہ نہ تھا جس پر عمل کرکے
میں تشدد کو روک سکتا۔لیکن میں ان دونوں کے درمیان ایک مخملی شے کی مانند ضرورضرور
دخل اندازی کرسکتا تھا تاکہ ان دونوں کوایک دوسرے سے دور رکھتا۔
”تم اس معاملے سے دور رہو،درویش ، ورنہ میں
تمہارا بھی یہی حال کر سکتا ہوں
“
سرائے کا مالک چلایا،پر یہ میں بخوبی جانتا
تھاکہ مجھے وہ محض دھمکا رہا تھا ، وہ ایسا کرنے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتا۔اس دوسرے
شرابی کی انگلی کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور ہر جگہ خون بکھرا ہوا تھا۔ایک خوفزدہ سی خاموشی
نے پورے کھانے کی کی میز کا احاطہ کر لیا۔لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد سرائے کے مالک
نے جب بولنے کا آغاز کیا تو یوں محسوس ہواگویا وہ وہاں ہر کسی سے خطاب کررہاتھا،اس
وقت اس کی آواز اونچی اور حد سے بڑی ہوئی تھی ۔ اس وقت وہ ایک آوارہ پرندے کی مانند
دکھائی دے رہا تھا جو بغیر کسی روک ٹوک کے کھلے آسمان تلے بے لگام اڑرہاتھا۔
دیکھو درویش !میں ہمیشہ سے اس طرح کا انسان
نہیں تھا تاہم یہ عادت اب میری طبیعت کا حصہ بن چکی ہے۔جب خدا ہمیں پیدا کرکے ہمارے
بارے میں بھول جائے تو ہمیں یقینا انصاف بحال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جس کیلئے
ہم عام انسانوں کو ضرور اقدام اٹھانے چاہیں۔اگلی مرتبہ تم جب اس سے بات کرو تو اس کوبتانا
کہ وہ جب اپنے میمنے کو چھوڑ دیتا ہے ، اس وقت وہ اتنا فرمانبردار نہیں رہتے کہ قربان
ہونے کے لیے تیارہیں بلکہ بھےڑیے بن جاتے ہیں“۔
میں نے کندھے اچکائے اور دروازے کی جانب
جانے کا اشارہ دیا ۔۔”تم غلطی کررہے ہو “۔۔
کیا میں یہ غلط کہہ رہاہوں کے میں ایک میمنا
تھا اور اب بھیڑیا بن چکا ہوں؟”نہیںتم درست ہو تم واقعی ہی ایک بھیڑیے بن چکے ہو جسے
میں بخوبی دیکھ سکتا ہوں“لیکن تمھاری ےہ بھیڑیا بن کر انصاف کرنے والی بات ےکسر غلط
ہے۔۔۔
ٹھہرو درویش ،ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی
، تم نے مجھ سے وعدہ کر رکھاہے کہ یہاں قیام و طعام کے عوض تم مجھے میرے خوابوں کی
تعبیر بیان کرو گے “ہاںمجھے یاد ہے ،میں نے ضرور کہا تھا ، مگر میں تمہارے لئے اس سے
بھی بڑھ کر کچھ کرنا چاہتا ہوں، میں تمہارا ہاتھ دیکھنا چاہتا ہوں “
میں اس کی جانب واپس مڑا اور اس کی انگاروں
کی سی جلتی ہوئی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔غیر یقینی کے عالم میں فطرتی طور پر اس
نے جھر جھری سی لی۔اس کے باوجود جب میں نے اس کا دائیاں ہاتھ تجزیے کے لئے تھاماا ور
اس کی ہتھیلی دیکھی ، اس نے مجھے دور نہیں کیا، بلکہ مجھے اس امر کی اجازت دی۔میں نے
اس کی ہاتھ کی لکیروں کا جائزہ لینا شروع کیا،جو کہ گہری تھیں ، ان میں شگاف پڑے ہوئے
تھے ،اور ان میںناہموار راستے تھے۔اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کے گردہالے کے رنگ نمایاں
ہونا شروع ہوئے جن میں بھورا اور ایک نیلا رنگ تھا جو کہ اتنا پیلا تھا کہ سرمئی معلوم
ہوتاتھا، عیاں تھے۔اس کی روحانی طاقت اندر سے کھوکھلی ہو چکی تھی اوروہ کناروں سے باریک
تھی ۔
اور یوں اس کے اندر اتنی سکت بھی باقی نہیں
رہی تھی کہ اپنے آپ کو بیرونی دنیا کی برائیوں اور قباحتوں سے محفوظ رکھ سکے ۔۔اس نے
اپنی روحانی طاقت کو ختم کرنے کیلئے اسے اپنی جسمانی قوت کودوگنا کردی جسے وہ وافر
مقدار میں استعمال کرچکا تھا۔ کہیں ےہ انسان مر چکا تھا، وہ اندر سے ایک مرجھائے ہوئے
پودے کی مانند تھا۔
اسی لمحے میں نے ایک منظردیکھناشروع کیاجس
کے باعث میرے دل کی دھڑکن کی رفتار یکدم تیز ہونا شروع ہوئی ۔پہلے مجھے کچھ مدہم سا
نظارہ دکھائی دینے لگا جیسے کہ وہ کئی پرودں میں مخفی تھا، پھر وہ بتدریج واضح ہونا
شروع ہوگیا۔
”وہ ایک نوجوان عورت تھی، جس کے بال سرخی
مائل بھورے تھے۔اس کے پاو
ںبرہنہ تھے۔ جن پر پختہ قلمکاری واضح نظر آرہی تھی
اور اس نے شانوں پر کشیدہ کاری والی اوڑھنی لے رکھی تھی“
”ہاں!تم اپنی ایک محبوب ہستی کھو چکے ہو“میں
نے کہا اور اس کے بائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔
”اس کے پستان دودھ آجانے کی وجہ سے خوب بڑے
ہیں۔ جب کہ پیٹ بہت پھولا ھوا، جیسے ابھی ابھی شق ہو جائےگا۔وہ ایک آگ بگولہ جھونپڑی
میں پھنس سی گئی ہے۔گھر کے گرد و پیش میں جنگجو سپاہی گھوم رہے ہیں۔جو گھوڑوں پر سوار
ھیں جن کی کاٹھیاں چاندی کے ورق سے آراستہ ہیں۔ گوشت اور بھوسہ جلنے کی قبیح بدبو ہر
طرف پھیل چکی ہے۔ منگول گھڑسواروں کی ناکیں چپٹی اور چوڑی ، گردنیں چھوٹی اور موٹی
موٹی ھیں، جب کہ دل پتھر کی طرح سخت۔ ےہ چنگیز خان کی فوج کے جری سپاہی ہیں۔“
”آپ نے ایک نہیں دو لوگوں کو کھویا ہے، ،
میں نے اپنی تصحیح کرتے ھوے کہا۔
کیا تمھاری بیوی حاملہ تھی؟
اسکی پلکیں نیچے جھک گئیں،اس کی نظریں اپنے
چمڑے کے جوتوں پر مرکوز ہو گئیں اور اپنے لب بھینچ لیے،
اسی اثناءاس کے چہرے پر بے شمار لکیریں
بن گئیں جو کئی انجانے راستوں پر محیط تھیں۔چند ہی گھڑیوں میں وہ اپنی عمر سے دوگنا
دکھائی دینے لگا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ میں تمہیں تسلی نہیں دے
سکتا ہوں تاہم ایک بات تمہارے علم میں ضرور ہونی چاہیے ۔ میں نے کہا ۔ تمہاری بیوی
آگ میں جھلس کر جاں بحق نہیں ہوئی تھی ، بلکہ اس کے سر پر لکڑی کاتختہ گرا تھا جس کے
باعث اس کی ہلاکت ہوئی تھی ۔
تم جب ہی اسے یاد کرتے ہو ،تمہیں یوں لگتا
ہے کہ وہ مرنے سے قبل شدید تکلیف میں تھی ، حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ در حقیقت وہ
اتنی تکلیف سے جاں بحق نہیں ہوئی تھی ۔
سرائے کے مالک نے ایک انجانے بوجھ تلے آگیا
تھا جسے صرف وہ ہی سمجھ سکتا تھا اور پیشانی پر بے شمار لکیریں آگئیں۔اس کی آواز مزید
غصیلی ہو گئی اور اس نے دریافت کیا ”تم یہ سب کس طرح جانتے ہو ؟“
میں اس کے اس سوال کو نظر انداز کیا۔”تم
اس وقت سے اپنے آپ کو لعن طعن کا نشانہ بناتے آئے ہو،کہ تم اس کی تدفین کا فریضہ مناسب
طریقے سے سر انجام نہیں دے سکے تھے ۔تم آج بھی اسے خوابوں دیکھتے ہو ،میں اس گڑھے سے
باہر رینگتا ہوا دیکھتے ہوجس میں وہ دفن ہو گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا دماغ تمہارے
ے ساتھ کھیل کھیلتاہے۔ ۔ درحقیقت تمہاری بیوی اور تمہارا بیٹا دونوںبالکل ٹھیک ہیںاور
دونوں روشنی کے بیضوں کی مانندلا محدود سفرپر رواں دواں ہیں۔
میں نے اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا
کہ ” آج بھی تم چاہو نہ تو اپنے خالق کے میمنے بن سکتے ہو ،جس حالت میں اس نے تمہیں
اس دنیا میں بھیجاتھا “۔یہ سننے کے بعد اس نے اپنا ہاتھ ایک دم سے پیچھے کیا جیسے وہ
تپتے توے سے چھو گیاہو۔
”درویش ایک بات کان کھول کے سن لو،میں تمہیں
پسند نہیں کرتا ۔ میں تمہیں یہاں ایک رات قیام کی اجازت دے رہاہوں ، لیکن دھیان رہے
صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جانا، میں دوبارہ تمہاری صور ت نہیں دیکھنا چاہتا“
ہمیشہ سے اسی طرح تو ہوتا آیاہے ، جتنا
آپ سچ بولو گے ، اتنا ہی لوگ آپ سے نفرت کریں گے۔ اور ہاں جتنا آپ محبت کا تذکرہ کریں
، اتنی ہی نفرت کا نشانہ بنیں گے ۔
شاگرد
بغداد اپریل 1242
میں نے منصف کو درسگاہ کے بیرونی راستے تک جانے میں مدد دی اور خوداس مرکزی کمرے میں برتن جمع کرنے چل نکلا ۔مجھے یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کہ جس حا لت میں اس آوارہ درویش اوربابازمان کو چھوڑ گیا تھا وہ دونوں اسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے امید تھی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے کچھ نہیں کہا ہو گا۔اپنی آنکھ کے کنارے سے میں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ آیا یہ ممکن ہے کہ دو شخص بناءکچھ کہے سنے ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں ۔مجھے اس دوریش کے متعلق بہت تجسس محسو س ہورہاتھا ، اسی لئے میں جتنی دیر تک وہاںرکنے کا بہانے کر سکتا تھا میں نے کیا۔اس لئے میں نے مختلف کاموں کواپنا ہتھیار بنایا ، جیسا کہ میں نے وہاں پڑے کشن درست کرنا شروع کردے ، اس کے علاوہ کمرے کی صاف ستھرائی کی اور قالین پر پڑے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جمع کرنا شروع کردیے ۔حتیٰ کے ایک وقت آ گیا جب میرے پاس وہاں رکنے کا کوئی بہانہ باقی موجود نہیںتھا ۔اسی لئے میں بے دلی سے/ غمگین ہوتے ہوئے باورچی خانے چلا گیا ۔ادھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے ،مجھے دیکھتے ہی باورچی نے اپنے کاموں کی بوجھاڑ شروع کردی ”میز کو صاف کرو، فرش کی بھی صفائی کرو ، برتن بھی دھو دینا ، چولہے پر سے بھی گند اٹھا لینا ،گرل کے اردگرد دیواروں کو صاف کرلینا ۔آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب تم یہ سب کام کر لو تو مہربانی کرکے چوہوں کا پنجرہ / چوہوں کو قابو کرنے والا صاف کرنا نہ بھولنا۔مجھے اس درسگاہ میں آئے ہوئے تقریباً چھے ماہ ہوچکے ہیںاور تب سے یہ باورچی مجھ پر یونہی ظلم کرتا آرہاتھا ۔ وہ شخص مجھ سے پورا دن کتوں کی طرح کام کرواتا اور کہتا ہے کہ یہ میری روحانی تربیت کا حصہ ہے ۔ بھلا گندی پیالیاں صاف کرنا روحانیت کا حصہ کسی طرح گردانا جا سکتا ہے ؟
اس کے پاس کہنے کو چند چیدہ چیدہ الفا ظ تھے جنہیں وہ اکثر کہا کرتا تھا جیسے ” صفائی رکھنا عبادت ہے اور عبادت کرنا صفائی ہے “
ایک دن میں نے کہنے کی جسارت کر ہی لی کہ ”اگر یہ درست ہوتا تو آج بغداد شہر کی تمام گھریلو خواتین روحا نی قائد ہوتیں “
یہ سن کی انہوں نے میرے سر پر لکڑی کاچمچہ دے مارا اور مجھ پراتنی زور سے چلایا جتنی زور سے چلا سکتاتھا۔بیٹا اس طرح کی زبان درازی تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی ۔اگر تم ایک اچھے درویش بننا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو کہ اتنے خاموش ہو جاؤ جتنا ایک لکڑی کا چمچ ہوتا ہے ۔ایک شاگرد میں بغاوت کے جذبات پائے جانا کوئی اچھا عمل نہیں ہے ”کم بولو ، تاکہ تم جلدی سیکھ جاو“
میں اسے نفرت کرتا تھا، مگر اس سے زیادہ میں اس سے ڈرتا تھا۔میںنے اس کے احکامات کا کبھی انکار نہیں کیا تھا ، تاہم اس شام میں نے یہ کرنے کی ہمت کر ہی لی ۔جیسے ہی میں وہ اس کمرے سے باہر گیا میں فوراً مرکزی کمرے میں جا پہنچا تاکہ ان دونوں کی مزید بات چیت سن سکوں ۔مجھے اس درویش کے متعلق تجس محسوس ہورہا تھا، وہ کون تھا ، وہ کہاں سے آیا تھا ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس درسگاہ میں اس جیسا کوئی نہ تھا ۔
اس کی آنکھیں غضیلی، آپ سے باہر اورخوفناک دکھائی دیتی تھیں ، یہاں تک کہ جب وہ اپنا سرانکساری میں بھی جھکاتا تب بھی وہ اسی طرح کا معلوم ہوتا تھا۔وہ کچھ غیر معمولی انسان تھا ، جس کے متعلق کچھ انکشاف کرنا بھی بہت مشکل تھا ،وہ کسی کو ڈرا دینے کے لئے کافی تھا۔میں نے جاسوسی کے سے اندازمیں دروازے کے سوراخ میں سے جھانکا ۔پہلی مرتبہ دیکھنے سے تو مجھے کچھ دکھائی نہیںدیا،لیکن جلد ہی میری آنکھیوں۔۔ اور میں ان کے چہرے دیکھ سکتا تھا۔
میں نے اس وقت استاد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”شمس مجھے یہ بتاؤ کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو تم جیسے شخص کوبغداد کھینچ لائی ۔ کیا تم نے یہ جگہ خواب میں دیکھی تھی ۔
درویش نے اپنا سر ہلایا ،یہ خواب نہیں تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ، بلکہ یہ میرا کشف تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ۔مجھے خواب نظر نہیں آتے ۔
”خواب تو سب کو ہی نظر آتے ہیں ، بابا زمان نے مہربان انداز میں سوال کیا۔”مجھے یوں معلوم ہوتا کہ تم اپنے خواب بھول جاتے ہو، اسی لئے تمہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم خواب نہیں دیکھ پاتے ہو۔
لیکن مجھے خواب نظر نہیں آتے ہیں ، درویش نے اپنی بات زور دیتے ہوئے کہی ۔ جب میںچھوٹا تھا تب مجھے فرشے دکھائی دیتے تھے ، مجھے کائنات کی پراسراس چیزیں اپنی آنکھوںکے سامنے دکھائی دیتی تھیں ۔جب میں نے یہ سب کچھ اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ میری باتوں سے ناراض ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ میں خواب دیکھنا بند کردوں۔جب میں نے یہ راز اپنے دوستوں کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی یہی تھا۔ان کے مطابق میں ایک مایوس شخص ہوںجو کہ خواب دیکھنے کا عادی ہوں۔جب میں یہ سب کچھ اپنے اساتذہ کرام کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی کچھ مختلف نہیں تھا ۔
تب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جب لوگ کچھ غیر معمولی چیزیں دیکھتے ہیں تو وہ اسے خواب کا نام دیتے ہیں۔پھر کچھ یوں کہ ان باتوں کے باعث مجھے دنیا اور اس کی چیزوں سے نفرت ہو گئی “
یہ کہتے ہوئے درویش رکا جیسے اس نے کوئی اچکانک غیر معمولی آوا ز سن لی تھی ۔
اس وقت یہ ایک عجیب تری واقعہ رونما ہوا ،وہ کھڑا ہوا اور اپنی ریڑھ کی ہڈی کی سیدھ میں چل پڑا ،اور وہ آہستگی سے دروازے کی طرف چلتا ہوا آیا۔اس وقت وہ میری سید ھ میں ہی دیکھ رہا تھا۔
اسے دیکھ کہ یوں لگ رہا تھا کہ گویا اسے معلوم تھا کہ اس وقت کوئی اس کی جانب جاسوسی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔
اس انوکھے انسان کو دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہواجیسے کہ وہ لکڑی کے دوروازے کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔میرا دل اس وقت برے طریقے سے دہل رہا تھا۔میں اس وقت باورچی کھانے کی جانب بھاگنا چاہتا تھا ، لیکن اس وقت میری ٹانگیں ،میرے ہاتھ پاو¿ں اور پورا جسم پتھر کا بن گیا تھا، میں اپنے جسم کو حرکت ہی نہ دے پایا۔اس لکڑی کے دروازے کے پار شمس کی آنکھیں مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔میں اس وقت ڈرا ہوا تھا، پھر بھی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ توانائی کی وافر مقدار میرے جسم میں گردش کررہی ہے۔اتنے میں وہ دروازے کے قریب پہنچ گیا اور اپنا ہاتھ دروازے کی کنڈی پر رکھ دیا۔وہ اس بات کے قریب تھاکہ دروازہ کھولے اور مجھے دبوچ لے تاہم ناجانے اس وقت ایسا کیا ہوا کہ وہ اس نے ایسا نہیں کیا۔آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روک دیا۔میں اتنے قریب سے اس کا چہرہ بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا اور میں یہ نہیں جاناتا تھا کہ آکر کیا چیز تھی تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس مشکل اور طویل لمحے کے ختم ہونے کا انتظارکیا۔
اس کے بعد اس نے اپنی جگہ واپسی کا رخ کیا اور وہ بابا زمان کے پاس اپنی داستان سنانے دوبارہ چل دیا ۔
”جب میں تھوڑا بڑا ہوا میں نے خدا سے دعا مانگی کہ میرے خالق مجھے سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چھین لے۔۔۔۔
وہ میری بات سے متفق ہوگیا،اس نے میری یہ صلاحیت چھین لی اور اسی لئے مجھے اب خواب دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
شمس تبریزی اس وقت اس کھڑکی کے دہانے کھڑا ہوگیا۔ اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور کچھ کہنے سے قبل اس نے اس نظارے کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھا ۔
اگرچہ اس نے مجھ سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چین لی ہے تاہم اس کے بدلے اس نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہے کہ میں خوابوں کی تعبیر بیان کرسکتا ہوں۔میں اب ایک خواب کی تعبیر بیان کرنے والا گردانا جاسکتا ہوں“
مجھے اس وقت بابا زمان سے یہ امید تھی کہ وہ اس بد عقل کی بات کا اعتبار نہ کریں اور اسے اس طرح ماریں جس طرح مجھے ہر وقت مارتے ہیں۔
لیکن میری خواہشات کے برعکس بابا زمان نے نہایت ادب سے اس سے درہافت کیا کہ تم مجھے ایک معز ز اور غیر معمولی انسان دکھائی دیتے ہو ۔مجھے بتاو¿ اس ضمن میں میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟
درحقیقت میں یہ نہیں جانتا ، بلکہ میں آپ سے یہ امید رکھ رہاہوں کہ آپ مجھے بتائیں ۔
تمہارا کیا مطلن ہے ؟استاد نے دریافت کیا ،اس وقت استاد کی آواز قدرے سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔
تقریباً چالیس سالوں سے ، میں ایک آوارہ درویش ہوں ،میں قدرت کی کئی چیزوں کے متعلق مہارت رکھتا ہوں تاہم اس معاشرے کے طور طریقے میرے لئے ابھی بھی اجنبی ہیں۔ضرورت پڑنے پر میں ایک جنگلی جانور کی طرح لڑ بھی سکتا ہوں، لیکن میں اپنے آپ کو زیادہ دیر تک تکلیف میں نہیں رکھ سکتاہوں۔
میں آسمان پر موجود ستاروں کے جھرمٹ کا نام بتا سکتا ہوں ، میں جگلوں میں موجود درختوں کے نام بیان کرسکتاہوں۔میں ہر طرح کے انسانوں کی کھلی کتاب کی مانند پڑھ سکتا ہوں ، جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنے عکس کے طور پر پیدا کیا ہے ۔شمس رکا اور بابا زمان کا انتظار کرنے لگا ، جو چراغکوروشن کررہے تھے۔
´خدا کی ذات کسی مندر ، گرجا گھر یا صومعے تک محدود نہیں بلکہ تم اس کی نشانیاں کائنات کی ہر شے اور ہر شخص میں دیکھ سکتے ہو۔تاہم اس کے باوجود تمہاری پیاس پھر بھی برقرار رہے تو اسے اس انسان کے دل میں تلاش کرو جو اس کی پاک ذات کوسچے دل سے چاہتا ہو۔
اس دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو اسے دیکھنے کے بعد مر سکتا ہو ، بالک اسی طرح جیسے اسے دیکھنے کے بعد کوئی ابدی نیند نہ سویا ہو۔جو اسے جانچ لیتا ہے وہ ہمیشہ اس کی ذات کے ساتھ منسلک رہتا ہے ۔
اس مدھم اور ٹمٹماتی روشنی میں شمس تبریزی اور بھی زیادہ لمبے لگ رہے تھے ،ان کے بال بے ترتیبی سے ان کا کاندھوں پر گرے ہوئے تھے ۔
”لیکن علم و حکمت تو کسی پرانے گلدان کی تہہ میں موجود کھارے پانی کی مانند ہے حتیٰ کہ وہ کسی دوسری جگہ نہ بہہ جائے “
کئی سالوں سے میں اس کی ذات سے سے ایک ساتھی کی دعا مانگ رہا ہوں جس کو میں اپنے علم و حکمت بتاو¿ں جو میرے پاس موجود ہے ۔جن دنوںمیں سمر قند میں موجود تھا ، تب میں نے ایک ”کشف “ دیکھا تھا۔مجھے سمجھایاگیاتھا کہ میں بغداد جاں اور وہاں جا کراپنا ساتھی تلاش کروں۔
میں سمجھا تھا کہ آپ کو میرے ساتھ کا نام ضرور معلوم ہوگایا اس کے آس پاس اور مجھے بتاوں گا ، اگر تمہیں اب معلوم نہیں تو جب بھی ہوا تو بتانا“(need to read it)
باہر رات کا اندھیرا چھا چکا تھا ،چاند کی روشنی کھڑکی کے سوراخوں سے باہر آرہی تھی اور پورے کمرے میں پھیل چکی تھی ۔تب مجھے معلوم ہوا کہ کتنی دیر ہو چکی تھی ۔ یقینا باورچی مجھے تلاش کررہا ہوگا مگر مجھے اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں تھی ۔پہلی مرتبہ مجھے قوانین توڑنے میں لطف آرہا تھا ۔
”میں نہیں جانتا کہ تم مجھ سے کس طرح کے جواب کی امید کر رہے ہو ؟“ استاد نے سرگوشی کی ۔”اگر میرے پاس کوئی اس اسی طرح کی معلومات کبھی بھی آئے تو میں تمہیں ضرور پہنچاوں گا ۔تب تک تمہیں یہاں رک کے انتظار کرنا پڑے گا۔اور ہمارا مہمان بن کر رہنا پڑے گا “
یہ سننے کے بعد وہ بابا زمان کے سامنے شکریے کے طور پر جھک گیا اوران کے ہاتھ چومے ۔اس وقت بابازمان نے ان سے ایک عجیب وغریب سوال کیا کہ ”تم نے کہا کہ تم اپنی تمام تر حکمت کسی دوسرے کو دینے جارہے ہو ، تم ایک سچ اپنے ہاتھ میں محفوظ رکھنا چاہتے ہو ، جیسے کہ یہ کوئی قیمتی موتی ہے اور کسی اور کو اس کی پیشکش کرنا چاہتے ہو۔ تاہم روحانی رو سے کسی کو اپنی علم و حکمت دینا کسی انسان کے لئے چھوٹا کام نہیں ہے ۔ تم اس کے بدلے کیا دینا چاہتے ہو؟تم جانتے ہو کہ تم خدا کا غیض وغضب اپنی جانب مول لے رہے ہو؟
استاد کے سوال کے جواب میں اس درویش نے جوجواب دیا ، اسے میں تب تک یاد رکھوں گاجب تک میری سانسیں چلتی رہیں گی ۔اس نے اپنی بھنویں اٹھائیں ، اور مضبوطی سے کہا ”میں اپنا سر پیش کرنے کا خواہاں ہوں“
اس کا جواب سن کے میںکانپ اٹھا ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری ریڑھ ی ہڈی کی طرف سے مجھے (kindly complete this)
جب میں نے اپنی نظریں اس سوراخ کی جانب متوجہ کی تومیں نے محسوس کیا کہ استادبھی اسی طرح ڈر سے کانپ اٹھا ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ ہم آج کیلئے خاطر خواہ بات کر چکے ہیں ۔بابا زمان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، تم ضرورتھک چکے ہو گے ۔مجھے شاگرد کو طلب کرنے دو تاکہ وہ آپ کو سونے کی جگہ مہیا کرسکے اور صاف بستر دے سکے اور آپ کو دودھ کا گلاس دے سکے “
اب شمس تبریزی دروازے کی جانب مڑ چکے تھے ۔میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مجھے ہی گھور رہا تھا۔نہ صرف دیکھ رہا رہا تھا بلکہ مجھے تو یوں بھی محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ مجھے دروازے پار اتنے غور سے ت رہا ہے کہ گویا وہ میری روح کی اچھی اور بری چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کررہاتھا، وہ راز میرے اندر سے تلاش کررہا تھا جوکہ مجھ پر بھی عیاں نہیں تھے ،شایدوہ کالے جادو کا علم جانتا تھا ۔ یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ ہاروت اور ماروت سے تربیت یافتہ ہو ، وہی دو فرشتے جو بابل (قدیم عراق) میں اللہ کے حکم سے موجود تھے ۔ وہی جن سے دور رہنے کا حکم ہمیں قرآن دیتا ہے ، یاپھر اس کے پاس ملکوتی قوت ہے جس کے ذریعے وہ دروازے پار دیکھ سکتا ہے ۔ہر صورت میں وہ مجھے ڈرانے کا سبب بن رہاتھا ۔
شاگرد کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،اس نے کہا۔ جب وہ ان الفا ظ کی ادائیگی کررہاتھا تھا تو اس کی آواز قدرے اونچی ہو گئی ۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کہ وہ بہت پاس ہے اور ہمیں قریب سے سن رہا ہے ۔
وہ جگہ چھوڑتے ہوئے میں نے اس قدر اونچی چیخ ماری کے شاید قبر کے اندر موجود مردے بھی خوف و ہراس سے اٹھ بیٹھتے ۔
اس کے بعد میں تیزی سے باغ کی جانب بھاگا اوراندھیرے میں کوئی محفوظ مقام تلاش کیا۔تاہم اس جگہ میرے لئے نا خوشگوار چیز انتظار کر رہی تھی ۔تو تم یہاں ہوں چھوٹے بدمعاش! وہ میرے پیچھے صفائی ستھرائی کرنے والا جھاڑو لے کر بھاگا۔تم اب ایک بہت بڑی مشکل میں پھنس چکے ہو۔
میں جھاڑو سے بچتے ہوئے دوسری طرف بھاگا۔
ادھر آؤ ، ورنہ میں تمہاری ہڈیا ں / ٹانگیں توڑ دوں گا ۔پکوان میرے پیچھے بھاگتے ہوئے چلایا،
لیکن میںنے ہار نہیں مانی ، اور میں باغ کی جانب اتنی تیزی سے بھاگا جتنا میں بھاگ سکتا تھا۔اس وقت شمس تبریزی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ٹمٹمانا شروع ہو گیا۔میںبل کھاتی ہوئی پگڈنڈی کے ساتھ تیز ی سے بھاگتا رہا جو کہ درسگاہ کو مرکزی سڑک سے جوڑتی تھی اور بھاگتا بھاگتامیں بہت دور چلا گیا۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ میں اپنے آپ کو بھاگنے سے روک نہیں سکتاتھا ۔میرا دل دہلنے لگ گیا ،میرا گلہ خشک ہو گیا ،میں اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک میر ی ٹانگوں (گھٹنوں) نے جواب نہیں دے دیا ،اور میرے اندربھاگنے کی سکت ختم ہو گئی تھی۔
The Forty Rules of Love(Novel)
Writer - Ellif Shafaque
دیدبان شمارہ ۔۶
محبت کے چالیس اصول
مترجم - نعیم اشرف
(پہلی قسط)
افتتا حیہ
بہتے ہوئے دریا میں اگر کنکر پھینکا جائے تو یہ اس کی ریاست پر خاطر خواہ کوئی اثر نہیں کرے گاحتیٰ کہ یہ مظہر غورطلب بھی نہ ہوگا۔۔تاہم ایک ساکن جھیل پر پتھر پھینکنے کا نتیجہ غور کیے بغیر ہی نظر آجاتا ہے کیو نکہ یہ پتھر اس پر سکو ن پانی میں ہلچل مچا دیگا۔یہ پرسکون پانی پہلے اپنی چھوٹی سی سلطنت میں آنے والی اس نئی چیز کے خلاف مزاحمت کی شکل میں یااس نئے مہمان کی آمد کے ردعمل کے طور پر کئی نئے دائرے بنائے گااوریوںپا نی کی سطح پر دائرے ہی دائرے نظر آئیں گے۔ دوسری جانب جب پتھر ایک بڑے دریا میں گرتا ہے تو یہ اس دریا کے لئے معمولی ساحادثہ ہے اور وہ اس کو معمولی جان کر اپنی ہیجان انگیزی میں ہی کہیں ارادی طور پر گم کردیتا ہے جبکہ یہی پتھراگر کسی جھیل میں گرتا ہے تو جھیل کے خدوخال یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔’’ایلا رابنسٹین ‘‘ کی زندگی بھی اسی ٹھہرے اور گم سم پانی کی مانند تھی۔ ایسی زندگی جس میں محض ضروریات کی تکمیل اور عام سی عادات پر ہی ساری توجہ مرکوز تھی۔۔۔۔۔۔ ایسا کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ ایک عظیم عورت تھی۔۔ہاں یہ اس کی عظمت ہی تو تھی کہ وہ اس یکسانیت سے لبریزاورمعمولی زندگی سے نہ باغی ہوئی ، اور نہ ہی کبھی تھکنے کا سوال پیدا ہوا۔اس کا شوہر نامدار ’’ڈیوڈ‘‘ جو کہ اپنی از حد محنت کے بعد ایک کامیاب ڈینٹسٹ بنا تھا، آج اس کو دنیا ایک مشہور دندان ساز کے حوالے سے جانتی تھی تاہم وہ اپنی شادی شدہ زندگی کو لے کر لاپروائی اختیار کیے ہوئے تھاجس طرح سے کوئی بچہ اپنے کھلونوں کو لے کر لابالی پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایسانہ تھا کہ ایلا اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار تھی ، اسے بخوبی علم تھا کہ وہ کسی مضبوط بندھن میں منسلک نہیں ہے۔ اپنے شادی شدہ زندگی کے تجربے کی بناء پر وہ سوچتی تھی کہ عائلی زندگی ایک دوسرے کی چیدہ چیدہ ضروریات اور فرائض پوری کرنے پر محیط ہے جب کہ اس تعلق میں کسی بھی قسم کے جذبات کوکوئی اہمیت حاصل نہیں تھی۔خاص کر وہ شادی شدہ جوڑا جو کافی عرصے سے شادی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ایک شادی شدہ زندگی میں ایک دوسرے کو سمجھنا، معافی ، بردباری اور درگزر کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے جب کہ عشق و محبت اس رشتے میں ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ پیار، عشق اور محبت کی باتیں اچھی تو ضرور لگتی ہیں مگر صرف فلموں اورناولوں میںجبکہ عملی زندگی کی حقیقت تو یکسر مختلف ہے۔ایلا کی بطور خاتون خانہ کئی مصروفیات اور ذمہ داریاں تھیں تاہم اس کے بچے ان ترجیحات میں سرفہرست تھے۔اس کی سب سے بڑی خوبرو بیٹی ’’جینٹ‘‘ کالج کی طالبہ تھی جبکہ اس کے دوبچے ’’اورلی ‘‘اور ’’ایوی ‘‘ جڑواں اور کم عمر تھے۔بچوں کے علاوہ اس کا ایک ساتھی بھی گھر کا حصہ تھا جو صبح کی سیر میں اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ایلاکی اس سنہرے گھنے بالوں والے بارہ سالہ اسپرٹ سے اس وقت سے دوستی تھی جب وہ محض ننھا سا پلا تھا۔ بچوں کے علاوہ سنہرے گھنے بالوں والا بارہ سالہ سپرٹ بھی ایلا کے گھر کا حصہ ،اس کا دوست اور اسکی صبح کی سیر کا ساتھی تھا اوریہ دوستی اس وقت سے تھی جب وہ محض ایک ننھا سا پلا تھا۔ضعیف ہونے کے باعث یہ بہرہ اور تقریباً اندھا ہو نے کے ساتھ ساتھ فربہ جسم کا حامل تھا۔حقیقت یہ تھی کہ اب اس قریبی ساتھی کو’’بھی ‘‘ الوداع کہنے کا وقت آن پہنچا ہے تاہم وہ پر امید تھی کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا ، شاید وہ سب جانتے ہوئے بھی انجان بن رہی تھی ، یا حالات ہی کچھ ایسے تھے جن کے باعث وہ اس چیز کی اُمید رکھے ہوئے تھی۔۔جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ عادت نہیں بلکہ اس کی سرشت تھی۔۔ اس نے کبھی کسی چیز کے خاتمہ کو قبول نہیں کیا تھا چا ہے وہ ز ندگی کا کوئی اہم مرحلہ ہو ، یا کوئی عادت۔۔اور شادی۔۔ ان سب کا اختتام ایک حقیقت تھا جن سے وہ نظریں چرا رہی تھی۔ایلا کا خاندان رانب اسٹن کے نام سے پہچانا جاتا تھا جو کہ امریکی ریاست مساچوسیٹس Massachusets کے شہر نارتھ ایمٹن Northampton میں آباد تھا۔ ان کا وکٹوریہ نما عا لی شان گھر 5 بیڈرومزاور 3 غسل خانوں پر مبنی زندگی کی تمام تر آسائشوںسے آراستہ تھا۔بلاشبہ اس گھر کو معمولی مرمت کی ضرورت ضرور تھی مگر اس کے باوجود یہ بنگلہ اعلیٰ قسم کی لکڑی کے فرش ،تین عدد میگا گاڑیوں پر مشتمل گیراج اور فرانسیسی دروازے سے آراستہ تھا۔ گھر کی خوبصورتی میں بیرونی حوض مزید اضافہ کرتا تھا۔ ا س گھر کے افراد مالی طور پر اس قدر مضبوط تھے کہ انہوں نے زندگی کا بیمہ ، تعلیمی اخراجات کی باقاعدہ منصوبہ بندی اوریہاں تک کہ گاڑیوں کی انشورنش بھی کروائی ہوئی تھی۔مزید یہ کہ ان کے بوسٹن اور جزیرہ ہوڈ پر رہائشی فلیٹس بھی موجود تھے۔ مختصراً یہ گھرانہ معاشی لحاظ سے کافی مضبوط تھا۔ یہی وہ آسائشیں تھیں جن کے حصول کیلئے ایلا اور ڈیوڈ نے دن رات محنت کی تھی۔تو یہ طے تھا کہ ہر قسم کی مادی سہولیات سے آراستہ یہ گھر جہاں پر اولاد جیسی نعمت بھی موجود تھی اورجس کے آنگن میں اکثروبیشتر لذیذ کھانوں کی ہلکی ہلکی خوشبو بھی مہکا کرتی تھی، کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ایک مثالی زندگی تھی تاہم ان کے نزدیک یہ ایک خیالی زندگی تھی۔ وہ زندگی جس کا تصور اور جس کی بنیاد انہوں نے شادی سے قبل رکھی تھی اور وہ دونوں اس کی تعبیر میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے تھے۔ڈیوڈ چھوٹے موٹے موقعوں پر اسے کوئی نہ کوئی تحفہ دے کراسے اپنے ہونے کا احساس دلاتا تھا۔ جیسا کہ گزشتہ ویلنٹائن ڈے پر ڈیوڈ نے اس کو ہیرے کا جھمکا دیا تھا ، جس کے ساتھ منسلک کارڈ پر یہ تحریر درج تھی :میری پیاری ایلا،’’ایک ایسی خاتون کے نام جو خاموش طبیعت ، سخی دل ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد صابر ہے۔ مجھے میری کمزوریوں کے ساتھ تسلیم کرنے کا شکریہ۔۔ میری شریک حیات رہنے کا شکریہ‘‘تمہارا ڈیوڈ
یہ الفاظ پڑھ کر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی موت پر تعزیتی الفاظ بیان کیے جارہے ہوں۔۔ ہاںشاید یہ وہی الفاظ ہیں جو اس کی موت پربولے جائیں گے اور اگر اس کے گھر والے اس سے زیادہ مخلص ہوئے تو شاید ان میں مزید کچھ الفا ظ کا اضافہ بھی ہوجائے۔اس نے مزید سوچا شاید وہ الفاظ کچھ یوں ہوں گے۔۔’’ایک ایسی خاتون کے نام جس کی زندگی محض اس کے شوہر اوربچوں کے گردگھومتی تھی۔اس کے پاس کوئی ایسا ہنر موجود نہیںتھا جس کو استعمال کرکے وہ اپنی زندگی کی سختیوں کو جھیل سکتی۔ وہ تو ہواؤں کارخ بھی تبدیل کرنا نہیں جانتی تھی۔حتیٰ کہ کافی کا برینڈ تبدیل کرنابھی اس کے لئے کسی بڑے محاذ سرکرنے سے کم نہ تھا‘‘ایلا سمیت کوئی اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ سن 2008 ئ کی خزاں میں شادی کے 28 سال مکمل ہونے کے بعد اس نے عدالت میں طلاق کی درخواست کیوں دائرکی۔٭اس کی وجہ اس کے دل میں کھلنے والی ایک ننھی کلی تھی۔۔ جسے اہل زبان محبت کا نام دیتے ہیں وہ ایک شہر میں مقیم نہیں تھے نہ ہی وہ ایک براعظم میں رہتے تھے ، وہ نہ صر ف ہزاروں میل دور ہونے کے ساتھ ساتھ دن اور رات کی مانند ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔ان کی طرز زندگی اس قدر مختلف تھی کہ چاہے وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے تب بھی ایک دوسر ے کی موجودگی ان پر گراں گزرتی۔لیکن یہ ہو گیا۔۔ اور اتنی تیزی سے ہوا کہ ایلا کو اپناآپ بچانے کا موقع بھی نہ مل سکا ۔اگر محبت سے بچ جانے کا کوئی راستہ تھا بھی تو وہ اس سے ناواقف تھی۔عشق ایلا کی پرسکون زندگی میں اس قدرتیزی اور شدت سے داخل ہوا کہ ایک ہلچل مچ گئی جیسے کسی نے پر سکون ساکن جھیل میں پتھر پھینک دیا ہو۔٭ایلانارتھ ایمپٹن مئی 17،2008 ئموسم بہار کے اس خوشگوار دن میں اس کی کھڑکی کے باہر حسب معمول پرندے چہچہا رہے تھے۔ ایلاکے دماغ میں کئی منظر چلنے لگے، اب تو اسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ منظر کائنات کے کسی اور گوشے میں بھی اسی طرح چل رہے ہیں۔ہفتے کی سہ پہرایلا کا خاندان دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے میز پر بیٹھ چکا تھا۔ڈیوڈ پلیٹ میں اپنا پسندیدہ پکوان لیگ پیس ڈال رہا تھا۔ ایوی چمچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بجانے میں مصروف تھا، جب کہ اس کی جڑواں بہن لی اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ وہ کون سی چیز کھائے جس سے اس کا مقررہ ڈائٹ پلین متاثر نہ ہو۔ان کی بڑی بہن جینٹ جو قریبی ہو لئیوک کالج میں پڑھتی تھی اپنی ڈبل روٹی پر پنیر لگاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔آج کھانے پر غیر معمولی طور پر ان کے ساتھ ایستھرآنٹی بھی موجود تھیں جوکھانے سے کچھ دیر قبل اپنا پسندیدہ کیک دینے آئیں تھیں مگر ایلا نے انہیں دوپہر کے کھانے کیلئے زبردستی روک لیا تھا۔تقریباً سب کھانا کھا چکے تھے، اور ایلا کو اس کے بعد گھر کے مختلف کام بھی نمٹانا تھے مگر اس کے باوجودوہ کھانے کی میز پر براجمان رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مصروف زندگی کے باعث اکٹھا ہونے کا موقع بہت کم ملتاتھا اور یہ اس کیلئے ایک سنہری موقع تھا۔ڈائننگ روم میں مکمل خاموشی تھی ، اچانک ڈیوڈ نے سکوت توڑتے ہوئے ایستھرآنٹی سے دریافت کیا کہ آپ کوایلانے خو شخبری سنائی ہے کہ اس کو ایک اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے۔اگرچہ ایلا نے انگریزیادب میں گریجو ایشن کر رکھا تھا اور ادب سے اس کو لگاوبھی بلا کا تھامگراس کے باوجود تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین کے چند رسائل کی جزوی ادارت اور کتابوںپر چند تبصروں کے علاوہ اس نے عملی ندگی میں خاطر خواہ کوئی کام نہیں کیا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے یہ سب کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا تھا۔حالانکہ کبھی وہ کتابوں کی نقادبننے کے بارے میں سوچا کرتی تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ تقدیر کی خواہش ہے کہ وہ ایک گھریلو عورت بن کر رہے ، جہاں اس نے بچوں سمیت گھر کی کئی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ایسا نہیںتھا کہ اسے اپنی زندگی سے کوئی شکایت تھی ، ایک مکمل ماں کے روپ میں ہوتے ہوئے وہ ایک بیوی بھی تھی۔۔۔ یہ تمام تر ذمہ داریاں اس کو بہت مصروف رکھتی تھیں۔یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈیوڈ نے اس پر کبھی نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی بلکہ اس کو ہمیشہ گھریلو ذمہ داریوں تک ہی محدود رکھا۔تاہم ایلاکے دوست اسکے عملی میدان میں سرگرم ہونے کے حمایتی تھے۔۔مگروہ ممتا کا کردار ادا کرتے ہوئے خوش وخرم اور مطمئن نظر آتی تھی۔اسے اس بات پر بھی اطمینا ن تھا کہ وہ اور اس کا شوہر ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں مگران سب کے باوجودبھی اس کا کتاب سے عشق کبھی ختم نہیںہوا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خود کو ایک بہتر قاری تصور کرتی تھی۔کچھ عرصے سے ایلا کی زندگی میں معمولی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔اس لئے اس نے یہ محسوس کیا کہ اب اس کے بچے اس قابل ہو گئے ہیں کہ انہیں اس کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی آج سے کچھ برس قبل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایلا نے ایک طویل وقفے کے بعد یہ سوچنا شروع کیا کہ اسے ادب کی دنیا میں قدم رکھنے کیلئے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنی چاہیے۔اس بار ڈیوڈ نے بھی اس کے بھرپور ساتھ دیا اور قدم قدم پہ اس کی حو صلہ افزائی کی۔ وہ دونوں اکثر اس موضوع کو زیر بحث لایا کرتے تھے۔ کچھ عرصے تک تو اس کے پاس نوکری کے مواقع بھی آتے رہے مگر گھریلوذمہ داریوں کے باعث وہ اس کیلئے ذہنی طور پرتیار نہ تھی۔پھر ہوا کچھ یوں کہ جب وہ نوکری کیلئے تیار ہوئی تو وقت اسے بہت پیچھے چھوڑ چکا تھا، جب بھی وہ کسی ادارے میں انٹرویو دینے جاتی تو وہاں پر قدرے نوجوان اور تجربہ کار افراد کو اس پر فوقیت دی جاتی۔ بار ہا مستر د ہونے کے باعث اس کے دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیاجو اسے مسلسل ستانے لگا،اسی لئے مزید نظرانداز ہونے کے وسوسے نے اس کو قائل کیا کہ وہ نوکری کی تلاش کا ارادہ اب ختم کردے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کی نوکری کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹیں رواں سال مئی میں خود بخود ہی ختم ہوتی گئیں۔اپنی چالیسویں سالگرہ کے دو ہفتے بعد وہ ایک ادبی تنظیم کے لئے بوسٹن میں کام کر رہی تھی۔۔ ہاں یہ اس کا شوہر ہی تھا جس نے اپنے یااپنی کسی’’ دوست ‘‘کے ذریعے اس کو یہ نوکری حاصل کرنے میں مدد دی۔’’اوہ یہ کوئی بہت اعلیٰ پائے کی جگہ اور کام نہیںہے‘‘ ایلا روانی میں تفصیل بتا رہی تھی۔میں ایک ادبی ایجنٹ کی پارٹ ٹائم قاری ہی تو ہوں ‘‘مگر ڈیوڈ کی بھرپور کوشش تھی کہ اس کام کی وجہ سے اسے اپنے کم تر ہونے کا احسا س نہ ہو۔اسی لئے اس نے ایلا سے مخاطب ہوکر تکرار کرنے کی کو شش کی ’’کیا ہو گیا ہے ؟ ان کو سمجھاؤ ، وہ ایک نامور ایجنسی ہے ‘‘ اس نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی مگر جب اسے محسوس ہو ا کہ وہ کامیا ب نہیں ہو سکا تو اس نے خاموشی اختیا ر کرنے میں ہی حکمت سمجھی۔’’یہ ایک اعلیٰ پائے کی جگہ ہے آینٹی ایستھر۔دوسرے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دیکھووہ اچھے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس ادارے میں موجود ہیں اور اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ہمیں اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایلا اس جگہ کی وہ واحد خاتون ہیں جو گھر چلانے کے ساتھ ساتھ وہاں کام بھی کرتی ہے، اب اپنے آپ کو کمتر سمجھنا بند کرو‘‘۔ اس لمحے ایلا کہ دل میں بے اختیار خیال آیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کا شوہر اس کی کی نوکری کے موضوع کو لے کر بہت پرجوش ہے ، اس نے سوچا شاید ڈیو ڈ اپنی ماضی میں کی گئی کسی غلطی کی تلافی میں یہ سب کچھ کررہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے احساس جرم ہو کہ اس نے بیوی کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اسے عملی زندگی سے دور رکھا یا پھرعین ممکن ہے کہ اسے اس بات کا احسا س ہوکہ اس نے اسے اس نے عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر کے دھوکا دیا۔مختصراً یہ کہ نوکری کے متعلق اس کا یہ جوش اور ولولہ اس کی سمجھ سے بالکل بالاتر تھا۔تاہم اس نے ا س موقع پر بھی بات کو ختم کرتے ہوئے قدرے خوشی سے کہا ’’اس کو کہتے ہیں قدرت کا تحفہ ‘‘۔اگلے ہی لمحے ایستھرنے کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ ’’ایلا ہمیشہ سے ایک تحفہ تھی اور اب بھی ہے۔ انہوں نے یہ بات کچھ اسی طرح سے کہی جیسے ایلاتاحال ٹیبل پر موجود نہیں، بلکہ ہمیشہ کیلئے کہیں جاچکی ہے۔میز پر موجود سب افراد اس کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔حتیٰ کہ ایوی نے بھی اس مرتبہ کسی طنزیہ جملے کا وار نہیں کیا ،اور لی کو بھی یکدم اس طرح محسوس ہو ا جیسے ایلاکے باطن میں کچھ مخفی ہے۔ایلا اس لمحے غیر معمولی طور پر سب کی توجہ کا مرکز تھی، حقیقتاً یہ سکون بخش ساعتیں اس پر بہت بھاری گزررہی تھیںکیونکہ ان کو قبول کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت اس نے شدت سے دعا کی کہ کا ش یہ گھڑی ختم ہو یا کوئی موضوع تبدیل کردے۔۔۔یہ معلوم نہیں کہ اس کی یہ دعا قدرت نے سنی یا اس کی بیٹی نے ،بہر حال ان لمحات کا گلا جینٹ نے گھونٹا۔ ’’میرے پاس بھی آپ سب کیلئے ایک خوشخبری ہے ‘‘اس وقت تمام نگاہیں اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔’’ میں نے اورسکاٹ نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘ اس نے بلاشبہ ایک تہلکہ خیز انکشاف کیا۔’’مجھے بخوبی علم ہے کہ اس خبر کے بعد آپ کے کیا تاثرات ہوں گے ، یہی کہ ابھی ہماری تعلیم جاری ہے وغیرہ وغیرہ۔۔لیکن ہم نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کھانے کی میز پر جہاں کچھ دیر پہلے ایک الگ سی گرم جوشی تھی وہاں ایک عجیب سا سناٹا چھا گیا۔۔۔۔اورلی اور ایوی کے درمیان سرد نگاہوں کا تبادلہ ہوا۔۔ آنٹی ایستھر نے جوس سے بھرے گلاس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ڈیوڈ نے کچھ اس طرح اپنا کانٹا ایک طرف رکھا جیسے اس کی بھوک مٹ گئی ہو،اس نے اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کو نظر انداز کر کے خود کو پرسکون کرتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی جس میں کامیاب بھی ہو گیا۔وہ اپنی ناراضگی چھپانے کی کوشش کررہا تھا بالکل اسی طرح جیسے مسکراتے ہوئے سرکہ پی رہا ہو۔ ’’بہت اعلیٰ میں تو سمجھی تھی کہ آپ لوگ میری خوشی میں شامل ہوں گے ، مگر یہ کیا آپ لوگ تو میری خوشی میں شریک ہی نہیں ہوناچاہتے۔جینٹ آخر کار سب کا ردعمل دیکھنے کے بعد بولی۔بیٹا تم نے محض اتنا کہا کہ تم شادی کرنے جارہی ہو۔۔ڈیوڈ نے اس طرح جواب دیا جیسے جینٹ کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا بول چکی تھی اور اس نے اپنے گھروالوں کو نامکمل اطلاع دی ہے۔پاپا! سکوٹ کو میں جانتی ہوں اور یہ فیصلہ آپ کو سب کچھ جلد بازی میں کیا ہوا لگ رہا ہے نہ ؟ مگر سچ یہ ہے اس نے مجھے کچھ دن قبل شادی کاکہااور میں اسے ہاں کر چکی ہوں۔مگر کیوں ؟ایلا اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے بولی۔اس کی ماں کا یہ سوال آخر کیوں اس کے لئے غیر متوقع تھا۔ ہاں یہ تو غیر متوقع تھا۔۔ اسے تو لگا تھا کہ سب اسے خوشی سے پوچھیں گے کہ ’’کب ‘‘ ’’کیسے ‘‘یا اس سے پوچھے جانے والے ہر سوال میں اس کی شادی کی تیاری ہی مضمر ہونی چاہیے تھی۔ بلاشبہ ’’کیوں ‘‘ایک ایسا سوال تھا جواس سے یکسر مختلف تھاجو اس نے سوچ رکھا تھا۔۔وہ انجانے میں ہی ماری گئی تھی۔’’کیونکہ میرا خیال ہے میں اس سے محبت کرتی ہوں‘‘ اب اس کا لہجہ قدرے دھیما تھا۔نہیںمیری پیاری بچی میرا مطلب تھا کہ اتنی جلدی کیوں؟کیا تم حاملہ ہو؟آنٹی ایستھر نے بے چینی سے پہلو بدلا۔۔ان کی بیزاری اور حیرانگی قابل دید تھی اورسب اس کو باآسانی محسوس کرسکتے تھے۔اسی اثنائ میں انہوں نے جیب سے ہاضمے کی دوا نکالی اور منہ میں ڈال لی۔ایوی لا ابالی انداز میں ہنستے ہوئے بولا گویا میں ماموں بننے جا رہا ہوں ‘‘۔ ایلا نے جینٹ کا ہاتھ پیار سے پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے دبایا اور کہا ’’ہمیں سچ کا علم ہونا چاہیے ، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ کچھ بھی ہو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔’’ما ما خدا کیلئے بس کردیں‘‘ جینٹ نے یکدم اپنی ماں کا ہاتھ جھٹک کے پیچھے کیا۔۔’’ میری شادی کے فیصلے کاحاملہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں ‘‘اس مرتبہ جینٹ غصے سے بولی تھی۔’’میں تمہاری مدد کرنا چاہ رہی تھی تھی ، اس سے زیادہ کچھ نہیں ‘‘ایلا کیلئے اس وقت پرسکون رہنا قدرے مشکل کام تھا ، مگر پھر بھی وہ پر سکون رہتے ہوئے اس سے مخاطب تھی۔’’آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں۔ میری اور سکاٹ کی شادی کو حاملہ ہونے پیرائے میں دیکھ رہی ہیں ؟؟ میں اس سے محض اس لئے شادی کرنا چاہتی ہوں کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ میں نے پچھلے آٹھ ماہ میں اسے نہایت قریب سے دیکھا ہے۔ ایلا نہایت مدبرانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی ’’ ہاں! جیسے آٹھ ماہ میں انسان کا کردار سامنے آجاتا ہے۔ میں اور تمہارے والد گزشتہ بیس برس سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا آٹھ ماہ کوئی بھی رشتے بنانے کے لئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ‘‘۔ایوی نے ماحول کے تناؤ کو کم کرنے کیلئے کہا ’’خدانے دنیا کو چھ دنوں میں تخلیق کیا تھا‘‘ مگر شاید اس نے یہ جان کر خاموشی اختیار کرلی کہ اس کشیدگی بھرے ماحول میں اس طرح کا مذاق درست نہیں ہے۔ڈیوڈ نے ماحول گرم ہوتے ہوئے اس میں اپنی گفتگو شامل کی۔ اس نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مگرقدرے سرد لہجے میں کہا ’’ بیٹی تمہاری ماں تمہیںیہ سمجھانا چاہ رہی ہے کہ تم اسے آٹھ ماہ سے جانتی اور تم دونوں مسلسل رابطے میں ہو تاہم ملاقاتیں اور شادی ایک دوسرے سے یکسر مختلف چیزیں ہیں۔ شادی کسی بھی شخص کی زندگی کا سوال ہوتا ہے۔کیا ڈیڈ ہم دونوں ہمیشہ ملتے ہی رہیں گے ؟ شادی کے بندھن میں نہیں بندھیں گے ؟ جنیٹ نے جھگڑنے کے انداز میں اپنے والد سے دریافت کیا۔اسی اثنائ میں ایلا بولی ’’سچ پوچھو تو ہم یہ چاہ رہیں کہ تم ابھی اپنی زندگی کے اس فیصلے میں جلد بازی نہ کرو اور ویسے بھی اس سنجیدہ رشتے کو اپنانے کیلئے تم ابھی تک بہت چھوٹی ہو۔جینٹ جو کہ کافی دیر سے کچھ کہنے کو تھی سرگوشی نے انداز میں مخاطب ہوکر بولی’’مام میرے خیال سے آپ اپنے خوف اور اندیشے میرے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کررہی ہیں ، کیونکہ میری عمر میں آپ ایک بچے کی ماں بن چکی تھیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ میں بھی وہی غلطی دہراوں‘‘۔اپنی بیٹی کے منہ سے دو ٹوک الفاظ سنتے ہی ایلا سکتے میں چلی گئی ، اسے یوں لگا جیسے اس کی بیٹی نے اس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کردیا ہو۔اس کے یہ الفاظ ایلا کو یادوں کی ان وادیوں میں لے گئے۔۔اسے یاد کہ کم عمری میں جینٹ کو دنیا میں لانے کا مرحلہ اس کے لئے کس قدر کٹھن تھا۔۔پھر اس کی پیدائش بھی تو قبل از وقت ہی ہوئی تھی۔اس بچی نے ہوش سنبھالنے تک اسے بے جان کیے رکھا تھا۔ اسی لئے جینٹ کے بعد ایلا 6 سال بعد ماں بننے کے لئے جسمانی اور ذہنی طور تیار رہوئی۔ڈیوڈ اپنی بیٹی کی سوچ تبدیل کرنا چاہتا تھا اسی لئے اس نے مزید کہا کہ ’’میری پیاری بیٹی ابھی تمہارا گریجوایشن چل رہا ہے ، اس دوران یا اس کے بعد ہوائیں کس طرف کا رخ کرتی ہیں کسی بھی معلوم نہیں۔ کون جانے اس وقت تک تمہاری سوچ تبدیل ہوجائے ‘‘۔ جنیٹ نے مصنوعی رضا مندی دیتے ہوئے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور بولی ’’کہیں یہ اس وجہ سے تو نہیں ہے کہ سکاٹ یہودی نہیں ہے ‘‘ اس کے اس استفسار پر اس کے باپ نے ایک بے یقینی کی سی کیفیت میں نہ کے معنوں میں سر کو حرکت دی۔بلاشبہ وہ ایک آزاد خیال باپ تھا جس نے گھر کے ماحول میں مذہب ، نسل یا وصف کو بالائے طاق رکھا ہوا تھا۔ وہ اگراس کو باپ تھا تو وہ اس کی بیٹی تھی ، اس نے اگلے ہی لمحے پوچھا ’’اگر ہارون
سکاٹ ایک یہودی ہو تا کیا تب بھی آپ مجھے شادی سے روکتے ؟‘‘اس کے لہجے میں اس قدر زہر تھا کہ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھاکہ یہ اس کی بیٹی ہی بول رہی ہے۔’’میری جان!اگرچہ جوانی میں قدم رکھنا اور محبت جیسے احساس کو محسوس کرنا نہایت پرکیف جذبہ ہے ، تاہم تمہارے والدین ہونے کے ناطے ہم تمہیں ایک بہترین مشور دے رہیں ہیں ، ہمارا اعتبار کرو۔ یکسر مختلف انسان سے ایک مضبوط ترین رشتہ استوار کرنا ایک جوائ ہے۔ تمہارے سر پرست ہونے کے ناطے ہمارا تسلی کرنا ضروری ہے کہ جو تم کررہی ہو وہ تمہارے کل اور آج کیلئے ایک درست فیصلہ ہے بھی یا نہیں؟اور آپ کو کیسے معلوم کہ آپ کا ’’درست فیصلہ ‘‘میرے لئے بھی ’’درست ‘‘ ہے ؟اس سوال نے ایلا کو متزلزل کردیا اور وہ اپنی پیشانی اس طرح ملنے لگی جیسے ’’مائیگرین‘‘ کے مرض میں مبتلا ہو۔’’ماما ! میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ کبھی بھی کہیں سے یہ لفظ آپ نے سنا ہے ؟وہ شخص میرے دل کی دھڑکن تیز کردیتا ہے۔ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ‘‘کیا یہ آپ کے نزدیک معنی نہیں رکھتا ہے ؟ایلا نے اس لمحے ایک ہنسی کی آواز سنی۔ اور وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ آواز کس کی ہے۔یہ تو اس کی ہی ہنسی تھی ،اس کی یہ ہرگز نیت نہیں تھی کہ وہ اپنی بیٹی پر ہنسے۔۔پر یہ اسے بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اس پر ہنس رہی تھی یا اپنے آپ پر۔۔پر اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ اس لمحے وہ پریشان ضرور ہوئی تھی۔اس کی جینٹ کے ساتھ سینکڑوں لڑائیاں ہو چکی تھیں۔۔ تاہم اس مرتبہ اس کا سامنا ایک مختلف اور یقینی طور پہ ایک بڑی شے سے تھاجس کے لئے وہ اس وقت اس کے لئے ماں کے بجائے کچھ اور تھی۔ماما آپ کو کبھی محبت ہوئی ہے؟ اس کے لہجے میں حقارت بھر آئی ’’مجھے کچھ سانس لینے دودن میں سپنےدیکھنا بند کرو۔ حقیقت پسند بنو اور وہ۔۔وہ ہونا چھوڑ دو‘‘ ایلا بات کرتے ہوئے ایک لفظ جان بوجھ کر’’بھول ‘‘ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ، اس وقت اس کے دماغ میں وہ لفظ آیا۔ ’’رومانٹک ‘‘ہونے میں کیابرائی ہے ؟جینٹ کی آواز میں اس وقت نمایاں خفگی تھی۔ ایلا کے تو کسی نے ہونٹ سی دیے تھے ، اس وقت وہ سوچوں کی کسی وادی میں جا کھوئی تھی۔ ماں کا جواب نہ سن کر جینٹ نے مزید جملوں کا تبادلہ کرنا شروع کیا۔ ’’میری بچی تم کس صدی میں زندہ ہو ؟عورتیں ان مردوں سے شادی نہیں کرتیں جن سے انہیں محبت ہوتی ہے بلکہ وہ ان مردوں کو فوقیت دیتی ہیں جواچھے باپ اور اچھے شوہر بن سکیں۔محبت یقینا ایک لطیف جذبہ ہے ، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس جذبے کی عمر بہت کم ہے‘‘ اس نے بات مکمل کرکے ڈیوڈ کی جانب دیکھا ، جس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت باہم مضبوط کی ، جیسے وہ پانی میں ڈوب رہا ہو‘‘’’آپ کے اس رویے کے پیچھے آپ کی وہ نامکمل طویل عرصے تک رہنے والی خواہشات مخفی ہیں جو پایا تکمیل نہیں ہو سکیں۔ آپ ایک نا خوش گھریلو عورت ہیں جو میری خوشی دیکھنے سے قاصر ہے‘‘اس وقت ایلا کو اپنا وجودبے معنی محسوس ہوا۔دل و دماغ کے خانہ ئ دیوار میں کئی سوچوں اور تکلیفوں نے بیک وقت جنم لیا۔ کیاوہ واقعی ایک ناکام گھریلو عورت تھی ؟ایک مسترد شدہ ماں جس کی شادی شدہ زندگی صرف وقت کے کاندھوں پر چل رہی تھی، جس میں خوشیوں اور اعتماد نے کبھی دستک نہیں دی۔کیا اس کے اہل و عیال اسے ناچیز سمجھتے تھے ؟دوست ، احباب بھی اس کے متعلق یہی گمان کرتے تھے ؟ہاں تو اور کیا۔۔۔ سبھی اس پر ترس کھاتے تھے ،تبھی اس کے ساتھ تعلق رکھا ہواتھا مگر زبان سے کچھ نہیں کہتے تھے۔۔ یہ سوچیں اتنی تکلیف دہ تھیں کہ اس کے منہ سے ایک درد بھری آہ نکلی۔’’اپنے الفاظ کی پاداش میں اپنی ماں سے معافی مانگو‘‘ اس کے باپ نے اسے غصے سے مخاطب کیا۔’’کوئی بات نہیں۔۔ مجھے معافی کی ضرورت نہیں ‘‘ اس وقت ایلا کو اپنا وجود ایک ایسے سپاہی کی مانند تھا جو میدان جنگ میں ہار قبول کرلیتا ہے۔اسکی سگی بیٹی نے اس وقت اسے طنزیہ نظروں سے گھورا اور رومال پھینک کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد ایوی اور لی جو کہ اپنی بہن کی یکجہتی میں۔ ایسا بھی عین ممکن ہے کہ زیر بحث موضوع ان کی عمر کے حساب سے کئی گنا بڑا تھاجس کے باعث وہ بیزار ہو چکے تھے۔ان کے پیچھے ایستھر بھی اپنی تیزابیت کش دوا کی آخری گولی لیتے ہوئے باہر نکل گئیں۔وہ سب لوگ تو چلے گئے مگر پیچھے ڈیوڈ اورایلا اس افسردہ فضا کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا رہ گئے۔ان دونوں کو اپنے درمیان حائل اجنبیت کی دیوار کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا ۔در حقیقت ان دونوں کی ازدواجی زندگی کی حقیقت ان دونوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ یہاں تک کے ان کے بچے بھی نہیں۔ڈیوڈ نے دوبارہ سے کھانا کھاتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا تم نے اس مرد سے شادی نہیں کی جس سے تم محبت کرتی تھی ؟نہیں ، ایسا نہ کہیں میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا، ایلا نے اپنی صفائی میں صرف اتنا ہی کہا۔پھر اور تمہاری اس سے کیا مراد تھی ؟جہاں تک مجھے یاد ہے جب ہم شادی کے بندھن میں بندھے تھے تم مجھ سے محبت کرتی تھی ، ڈیوڈ نے کھانے سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔میری واحد محبت تم ہی تھے۔ میرا یہ سوال ہے کہ یہ محبت کب ختم ہوئی ؟ ڈیوڈ نے جذبات سے عاری ہو کر سوال کیا۔ایلا نے اپنے شوہر کو ازحد حیرانی سے دیکھا جو آج اس کے سا منے آئینہ لیے منصف بنا کھڑا تھا، جسے شادی کے بیس سالوں میں یہ دریافت کرنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ ایلا نے بھی اسی لمحے اپنے آپ سے یہ حقیقت دریافت کرنا چاہی کہ کیا وہ واقعی محبت کے جذبات بے دخل کر چکی تھی ؟ یہ وہ سوال تھا جو اس نے کبھی انجانے میں بھی اپنے آپ سے نہیں کیا تھا۔۔اس سوال کے بہت سے جواب تھے جو وہ اسے دینا چاہتی تھی۔۔ مگر اس کے پاس تو شاید الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔۔ ایسا بھی ممکن تھا کہ جواب دینے کی اس کی ہمت ہی باقی نہ رہی ہو۔ یہ لمحات اگرچہ اس کیلئے بہت مشکل تھے مگر پھر بھی اس نے ایک ماں ہونے کے ناطے سوچا۔ جو بھی تھا جیسے بھی تھا، ان کی عائلی زندگی جس بھی دوراہے پر تھی وہ بہر حال اپنے بچوں کیلئے ایک قابل رشک مستقبل کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ہاں زندگی کو بہرحال گزر جانا تھا۔اس وقت ایلا کا دل کر رہا تھا کہ وہ دھاڑیں مار کر روئے۔اسی لمحے اس کے مجازی خدا نے اپنا غصے بھرا منہ دوسری جانب پھیر لیا۔یہ سچ تھا کہ ایلا روتی ہوئی بے حد بری لگتی تھی۔۔ مگر یہ بھی تو حقیقت تھی کہ اسے اس کے سامنے رونا بے حد برا لگتا تھا۔اسی اثنائ میں ایلا کے فون کی گھنٹی بجی جس نے اس رشتے کو مزید کھوکھلا ہونے سے بچا لیا ۔ڈیوڈنے فون اٹھایا ، ایلا نے اسے کہتے سنا جی وہ موجود ہیں۔۔اس نے فون کان کو لگانے سے قبل اپنے آپ کو مضبو ط کیا ’’جی !میں ایلی بول رہی ہوں !‘‘ ایلا نے اس وقت فون پہ نہایت چنچل اور ہنستی ہوئی لڑکی کو پایا۔’’ہائے ! میں مشال بات کر رہی ہوں ، معاف کیجئے آپ کو چھٹی کے دن بھی ڈسٹرب کیا، کل مجھ سے سٹیو نے دریافت کیا تھا تاہم میں مصروفیت کے باعث بھول گئی۔ آپ نے مسودے پر کام کرنا شروع کیا؟اوہ ہاں! ایک ’’ناخوش گھریلو‘‘ عورت ذمہ داریوں کے باعث یہ بھول گئی تھی کہ ایجنسی میں اس کا پہلا کام ایک ناول کے مطالعے کا تھا جو ایک گمنام یورپی لکھاری کا تحریر کردہ تھا، اس کے بعد اسے اس ناول پر ایک رپورٹ لکھنا تھی۔ ’’جی مجھے یاد ہے ، انہیں بتا دیں کہ میں نے اس ناول کوپڑھنے کاآغازکردیا ہے ‘‘ اس موقع پر ایلاکو جھوٹ بولنا ہی مناسب لگا۔ دوسری جانب مشال بھی ایسی لڑکی تھی جو ایلا کو اس پہلے قدم پر مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔’’یہ تو خوش آئند ہے ، آپ کو کیسا محسوس ہوا؟وہ اس تحریر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی کہ یہ ایک تاریخ ناول تھا جس کے مرکزی کردار معروف صوفی شاعر مولانا رومی تھے۔ناول کی داستان اسی ایک کردار کے گرد گردش کرتی تھی۔’’رومی عظیم شاعر ہو گزرے ہیں جنہیں اسلامی دنیا کا ’’شیکسپئر‘‘بھی کہا جاتا ہے۔اوہ ! وہ کافی صوفیانہ کلا م ہے ‘‘ ایلا کو جھوٹ بولتے ہوئے بے حد ہنسی آئی تاہم اس نے ہنسی روکتے ہو ئے اپنی بات مکمل کی۔ یہاں یہ حقیقت تھی کہ مشال کو صرف اور صرف کام سے غرض تھی ، اس نے نہایت خود اعتمادی سے کہا کہ کام پر جت جاؤ۔ آپ نہیں جانتی کہ اس کی رپورٹ بنانے میں آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ وقت صرف ہوگا۔ ایلا نے محسوس کیا کہ وہ فون پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے کاموں میں مصروف تھی ، جیسا کہ وہ ای میل پڑھنے کے ساتھ ساتھ کسی کتاب کا تجزیہ پڑھ رہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ وہ مچھلی کے سینڈوچ کھاتے ہوئے نہایت مہارت سے نیل پالش کا استعمال بھی کررہی ہے۔ایک منٹ بعد مشال نے پوچھا ’’ تم ابھی تک فون پر موجود ہو ؟’’ جی میں فون پر ہی ہوں‘‘ ایلا نے جواب دیا۔مشال نے کچھ سمجھا نے والے انداز میں کہا ’’یہاں بہت عجیب ماحول ہے ، آپ کے پاس اس کام کے لئے تین مہینے موجود ہیں ‘‘۔ ’’جی مجھے بہ خوبی علم ہے ، میں وقت پر کام مکمل کر لوں گی ‘‘ایلا نے خود اعتمادی سے جواب دیا۔اس کے برعکس حقیقت تو یہ تھی کہ ایلا کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ وہ یہ کام کرنا بھی چاہتی ہے یا نہیں۔اس کو یہ کام نہایت عجیب گزرتا تھا کہ وہ کسی مصنف کی تحریر کا تجزیہ کرکے ا س کی قسمت میں کوئی کردار ادا کرے۔اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک تیرہویں صدی کے ایسے موضوع پر پڑھنے والوں کی توجہ دلا سکے گی جس کا اس سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔ حقیقت یہ تھی کہ اسے موضوع میں رتی بھر بھی دلچسپی نہ تھی۔مشال جو کہ نہایت پیشہ وارانہ تھی اس نے فون پر دوسری طرف ہونے کے باجود اس کی سوچوں کو جانچ لیا تھا’’کوئی مسئلہ تو نہیں ؟‘‘ دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر اس نے کہا ’’تم مجھ پر یقین کر سکتی ہو ‘‘ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایلانے سچ بولنے کا فیصلہ کیا’’بات کچھ یوں ہے کہ حالیہ دنوں میں ذاتی وجوہات کی بنائ پر میں کچھ ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوں کہ میں کسی تاریخی ناول پر توجہ نہیں دے سکتی ہوں، میری دلچسپی ’’رومی ‘‘ میں ضرور ہے مگر موضوع میرے لئے ذرا ہٹ کر ہے یعنی مجھے اس کے لئے ایک پرسکون دما غ کی ضرورت ہے جو آج کل میسر نہیں‘‘’’یہ تنگ نظری ہے کہ تم سوچتی ہو کہ تم صرف ان ناولوں کا تجزیہ کرسکتی ہو جن کے موضوع کے متعلق تمہیں علم ہے ، ایسا ہرگز نہ سوچو! تم صرف ان ناولوں کا تجزیہ نہیں کرسکتی ہو جو صرف تمہاری اپنی ریاست میسا چوسٹس کے لکھاریوں کی جانب سے لکھے گئے ہوں، ٹھیک ؟نہیں میرا ہرگز ایسا مطلب نہیں تھا؟اس وقتا یلا کے ذہن میں آیا کہ آج سہ پہر میں اسے یہ جملہ کئی مرتبہ بولنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔اسی لمحے ایلا نے ڈیوڈ کو دیکھا ، جس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر یہ واضح اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس نے یہ بات محسوس کی ہے ، مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ ڈیوڈ کے خیالات کو جا نچنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔’’یہ ہمارے شعبے کی ضرورت ہے کہ ہمیں وہ ادب بھی پڑھنا ہے جس کا ہم سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے ایک ایسی عورت کی کتاب پر کام کیاجو ایران میں ایک قحبہ خانہ چلا رہی تھی۔کیا میں اسے یہ کہتی کہ اس کتاب پر میں کام نہیں کرسکتی ، اسے کسی ایرانی ادب کی ایجنسی کو دو؟’’نہیں۔ہرگز نہیں ، ایلی نے تقریباً سرگوشی کے سے انداز میں جواب دیا،وہ اس وقت شرمندہ تھی اور اپنے آپ کو کمتر محسوس کررہی تھی۔’’کیا یہ ادب کی خاصیت نہیں ہے کہ وہ خطوں میں منقسم ثقافت اور افراد کو باہم متحد کرتا ہے؟، ہا ں یہ تو ہے۔۔جو میں نے پہلے آپ سے کہا اسے بھول جائیں ، مقرہ وقت پر رپورٹ آپ کے سامنے ہوگی ‘‘۔ اسے یہ الفاظ کہتے ہوئے مشال پربے حد غصہ آیا کیونکہ وہ اسے دنیا کانالائق ترین انسان تصور کر چکی تھی۔اس لمحے صرف اسے اس پر غصہ نہیں آیاکہ بلکہ اسے اپنی ذات سے بھی نفرت محسوس ہوئی کیونکہ یہ وہی تھی جس نے اسے یہ موقع فراہم کیاتھا۔’’یہ تو بہت اچھی بات ہے ، اور دراصل انسان میں یہی جذبہ ہونا چاہیے ‘‘ مشال نے تقریبا گنگناتی آواز میں بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا’’مجھے غلط مت سمجھنا ،لیکن میری ایک بات یاد رکھنا کے تم سے آدھی عمر کے کئی نوجوان ایسے ہیں جو یہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں، یہ چیز یقینا تمہیں آگے بڑھنے میں مدد دے گی ‘‘ایلا نے فون رکھتے ہوئے اپنے شوہر کو دیکھا جس کا چہرہ سنجیدہ اور جذبات سے عاری تھا۔فرض کیا کہ وہ دونوں اگر جینٹ کو لے کر ہی پریشان تھے توڈیوڈ اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں مزید بات کرنا چاہتا تھاتاہم وہ اب اس بارے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسی دن شام ایلا نارتھ ایمٹن کے غروب آفتا ب کا نظارہ کرنے بیٹھی۔وہ اپنی پسندیدہ رولنگ میز پر بیٹھی سرخ نارجہ ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھنے بیٹھی تھی۔آسمان اسے اُس وقت اتنا کشادہ اوراپنے قریب محسوس ہورہا تھا کہ اسے یوں گمان ہوا کہ وہ اسے چھو بھی سکتی ہے۔اس کا ذہن جسے اندر کے بے ہنگم خیالات کے شور کے باعث تھک ساگیا تھااسی لئے اس کے دماغ نے چپ سادھ لی تھی۔رواں ماہ کے کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی ،ارلی کی غیر متوازن غذا کھانے کی بری عادت ،ایوی کی پڑھائی میں عدم دلچسپی ،آنٹی ایستھر اور ان کے اداس کیک ،ان کے واحد دوست اسپرٹ کی روزبروز بگڑتی ہوئی صحت،جینٹ کا نئی زندگی کے آغاز کا یک طرفہ فیصلہ ،اس کے شوہر کے خفیہ ناجائز تعلقات اور اسکی زندگی میں محبت کی عدم موجودگی۔۔ یہ وہ تمام مسائل تھے جن کا اسے بیک وقت سامنا تھا۔اس نے ان تما م مسائل کو دماغ کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں نہایت مہارت سے مقفل کردیا۔ایلا نے وہ مسودہ لفافے سے نکا لا اور اسے یوں اچھالا جیسے کے وزن کا معائنہ کر رہی ہو۔ناول کا عنوان’’انڈیگو انک ‘‘ سے تحریر کردہ تھا۔ایلا کومصنف کے متعلق کچھ خاص نہیں بتایا گیا تھا ماسوائے اس کے کہ ایک ’’ذھارا‘‘نامی شخص ہالینڈ میں رہتا ہے۔یہ مسودہ ایمسٹرڈم سے بھیجا گیا تھا اور اس لفافے کے اندر ایک پوسٹ کارڈ بھی موجود تھا۔پوسٹ کارڈ کے ماتھے پرگل لالہ کے شاندار اور خوشنما گلابی ، زرد ، اور نارنجی رنگوں کے پھولوں کے کھیت تھے جو کہ ہالینڈکا خاصا تھے ۔پوسٹ کارڈ کی پشت پر کچھ الفاظ تحریر تھے :’’محترمہ /جناب،ایمسٹرڈم سے سلام میں جو داستان آپ کو بھجوارہا ہو ں یہ تیرھویں صدی میں اشیائے کوچک میں پیش آئی۔تاہم میں پرُ امید ہو ں کہ ثقافت اور صدیوں کے فرق سے بالاترہو کر یہ دنیا بھر میں اپنا نام پیدا کرے گی۔‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو کہ معروف صوفی شاعر و عظیم روحانی پیشوا’’رومی ‘‘ اور پراسرار واقعات کے باعث مشہور درویش شمس تبریز کے روحانی رشتے سے متعلق ہے۔’’امید ہے کہ آپ کی زندگی محبت سے آراستہ ہو اور یہ محبت سے مالامال رہے ‘‘الف۔ذال۔ ذھارا
ایلا کومحسوس ہوا کہ یہ پوسٹ کارڈ ’’ادب کی ترسیل ‘‘ کرنے والے کے لئے ضرور پرتجسس ثابت ہوا ہوگا، لیکن اسٹیو ایسا انسان نہیں تھا جو کسی نئے لکھاری کا کام پڑھنے کے لئے اپنا وقت برباد کرتا۔ اسی لئے اس نے یہ لفافہ بنائ کھولے اپنی معاون مشال کو دے دیا اوراس نے بھی آگے اپنی نئی معاون ایلا کو دے دیا۔اس طرح سے’’‘ ایلا تک پہنچا۔ایلا نے جب پہلی بار وہ ناول دیکھا تو اسے کہاں معلوم تھا کہ یہ اس کی زندگی کے خدوخال یکسر تبدیل کردے گا۔۔ جب وہ اس کو پڑھ رہی ہو گی تو اس کی زندگی کی کہانی نئے سرے سے لکھی جائے گی۔۔ ’’الف۔ذال۔ زھارا جب دنیا کا سفر میں نہیں ہوتاتو اس وقت وہ اپنی بلیوں ، کتابوں اور کچھوں کے ساتھ ایمسٹرڈم میں ہوتا ہے۔اس کا پہلا اور شاید آخری ناول ’’سویٹ بلاسفیمی‘‘ ہے اور نہ ہی ان کا مستقبل میں کوئی بڑا ناول نگار بننے کا ارادہ ہے۔انہوں نے یہ کتاب محبت کے جذبے کے تحت لکھی تھی۔۔اس محبت بھر ے روحانی ساتھ کے نام جومشہور صوفی شاعر ، عظیم فلسفی رومی اور ان کے ساتھی شمس تبریز کے درمیان تین سالوں تک رہا۔ایلا کی نظریں صفحے کے اختتام پر گئیں وہاں اس نے یہ الفاظ پڑھے ’’لوگوں کے محبت کے بارے میں مختلف نظریا ت ہیں تاہم محبت ایسا جذبہ نہیں جو آپ کی زندگی میں کچھ لمحوں کے لئے شریک سفررہے اورآپ کے جذبات گدگدا کر روانہ ہو جائے ‘‘یہ فقرہ پڑھ کر ایلا حیرانی کے باعث سکتے میں چلی گئی۔ یہ تو اس کے ان الفاظ کے برخلاف تھے جوآج اس نے اپنی بیٹی سے بحث کے دوران استعمال کیے تھے۔کچھ دیر کے لئے تو وہ حواس باختہ سی ہو کر رہ گئی کہ یہ کس طر ح ممکن ہے ؟ کیا دنیا کی کوئی پراسرار شے اس کی جاسوسی میں ملوث تھی ؟ کیا وہ مصنف اس کی جاسوسی کر رہا تھا؟کیا اسے یہ معلوم تھا کہ یہ کتاب سب سے پہلے کون پڑھے گا۔۔ یا پھر اسے یہ معلوم تھا کہ وہ اس کی سب سے پہلی قاری ہوگی۔۔پلک جھپکتے ہوئے ایلا کے ذہن میں بے شمار خیالات نے گردش کی ، اس بات پر جہاں ایلا حیران تھی وہیں اسے نامعلوم سی پریشانی نے بھی آگھیرا۔تیرھویں اور اکیسویں صدی کے کئی ایسے پہلو ہیں جنہیں دیکھ کے واضح طور پرکہا جا سکتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔دونوں صدیاں تاریخ میں مذہبی کشیدگیوں ،ثقافتی دوریوں مختصراً انسانوں کو ایک دوسرے کی ذات سے ازحد خوف محسوس ہوتا تھا۔یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جن میں پیارو و محبت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اس سمت میں ایک تیز رفتار ہوا کا جھونکاآیا، تیز اور یخ بستہ جس نے پورچ میں گرے پتوں میں ہلچل مچادی۔ ڈوبتاہوا سورج مغرب کی سرحدو ں کو چھونے والا تھا، تاہم کچھ دیر پہلے خوبصورت دکھائی دینے والا یہ دلفریب منظربھی اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہا۔’’ کیونکہ محبت ہی زندگی کا اصل مقصد ہے رومی ہمیں یاد کرواتے ہیں کہ محبت ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور چھو کر گزرتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ لطیف جذبہ ان لوگوں کی راہوں اور منزلوں کا حصہ بھی بنتا ہے جو اسے محض وقتی ’’رومانس‘‘ کہہ کر اس کی نفی کرتے ہیں۔ایلا کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ اسی کے لیے تحریر کی گئی ہو، محبت ہر ایک سے خود متعارف ہوتی ہے خواہ وہ نارتھ ایمپٹن میں رہائش پذیر ناخوش خاتون خانہ ہی کیوں نہ ہو۔۔ایلا کے دل میں کئی انجانے وسوسوں نے جگہ گھیر لی۔اسی وقت اس کے اندر سے ایک آواز آئی کہ وہ اندر جاکر مشال سے اس ناو ل پر رپورٹ لکھنے کے متعلق معذرت کرلے ، تاہم اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹ دیا۔
صوفی حضرات کے مطابق قرآن کاراز سورۃ فاتحہ میں پوشیدہ ہے۔سورۃ فاتحہ کا راز بسم للہ الرحمن الرحیم میں مخفی ہے جب کہ بسم اللہ کا لب باب ’’ب‘‘ ہے۔ اس حرف کے نیچے ایک نقطہ ہے جو تما م کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مثنوی مولانا جلال ادین رومی کا شعری مجموعہ کاآغاز بھی ’’ب ‘‘ سے ہوتا ہےاسی طرح ناول کے ہر باب کا بھی۔۔
مقدس گستاخی
ناول
By
A. Z . Zahara
صوفی حضرات کے مطابق قرآن کاراز سورة فاتحہ
میں پوشیدہ ہے ۔۔
سورة فاتحہ کا راز بسم للہ الرحمن الرحیم
میں مخفی ہے جب کہ بسم اللہ کا لب باب ”ب“ ہے ۔ اس حرف کے نیچے کے ایک نقطہ ہے جو تما
م کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ۔
مثنوی (مولانا جلال ادین رومی کا شعری مجموعہ
)کاآغاز بھی ”ب “ سے ہوتا ہے
اسی طرح اس ناول کے ہر باب کا بھی۔۔
پیش لفظ
تیرہویں صدی عیسوی میں ایشیائے کوچک ( اناطولیہ)
کے دن ورات مذہبی فسادات، سیاسی معرکہ آرائیوں اور اقتدار کی لامتناہی جنگوں میں ڈوبے
ہوئے تھے، تاریخ کا یہ حصہ اس علاقے کے لئے سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتا ہے۔مغرب میں
بھی جنگیں عروج پر تھیں ،عیسائی جنگجووں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کر رکھا تھا۔انہوں
نے بیت المقدس کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا ، جس سے بازنطینی
سلطنت تقسیم ہوکر رہ گئی۔ دوسری جانب، مشرق میںچنگیز خان کی مدبرانہ عسکری قیادت میں
منگولوں جیسی منظم فوجیں ہر جگہ پھیل چکی تھیں۔اسی دوران ،مختلف ترک قبائل ایک دوسرے
سے جھگڑ رہے تھے ،جب کہ بازنطینی اپنے کھوئے ہوئے علاقے ، املاک اور طاقت دوبارہ حاصل
کرنے کے لیے کوشاں تھے۔یہ وہ دور تھا جب ہر طرف خون خرابے اور نفرت کی لہر پھیلی تھی
۔مسلمان ، مسلمان سے ، عیسائی عیسائی سے اور عیسائی مسلمانوں سے لڑ رہے تھے ۔ ہر سو
نفسا نفی کا عالم تھا، ہر انسان کے انجانے خوف میں مبتلا تھاکوئی بھی نہیں جانتا تھا
کہ کیا ہونے کو ہے، ہر کوئی اپنے مستقبل کو لے کر ایک خوف میں مبتلا تھا۔انہی فسادات
اور کشیدگیوںکے اندھیروں میں روشنی کی کرن کی مانند ایک اسلامی دانشور نظر آتے ہیں
جن کا نام مولانا جلال الدین رومی ہے ۔ جن کو عرف عام میںمولانایعنی ” ہمارے آقا“کہا
جاتا ہے۔ ان کو اپنا راہنما ماننے والے ان کے مریداور معتقد پورے خطے غرض کے پوری دنیا
میں پھیلے ہوئے تھے ۔
1244 ءمیں مولانارومی کی ملاقات شمس تبریز سے ہوئی ۔
شمس ۔۔جن کی روح کو ایک جگہ ٹھہرنا منظور نہ تھا۔ وہ جگہ جگہ نگری نگری مختلف علاقوں
میں گھومتے رہتے ۔۔ا نہیں کسی چیز کی تلاش تھی یا کسی چیز کو ان کی ۔۔ کسی کو معلوم
نہیں ۔۔۔ وہ دنیا کے ہر رسم ورواج اور روایتوں سے باغی درویش تھے۔ان دونوں کا ملنا
ایک بے مثال دوستی کا آغاز تھا ۔ ان دونوں کے ملنے کے باعث ان دونوں کی زندگیوں کارخ
یکسر تبدیل ہوگیا۔یہی وہ ملن تھا جس کو صوفیاکی جانب سے صدیوں تک دو سمندروں کے ملاپ
سے یاد رکھا گیا۔شمس تبریز سے ملاقات سے قبل وہ ایک روایتی مذہبی پیشوا تھے ،تاہم اس
دوستی کے بعد وہ ایک مکمل صوفی ، روحانی شاعر ، محبت کے پیامبربن گئے ۔یہی وہ ہستی
تھے جنہوں نے وجدان میں ڈوب کر رقص کرنے کا آغاز کیا۔رومی وہ انسان ثابت ہوا جس نے
معاشرے کی ریت توڑ ڈالے ،وہ لوگوں کی روایات کو روندھتے ہوئے آگے نکل گیا جنہیں وہ
بتوں کی مانند پوجتے تھے ۔ایک ایسا دور جس میں لوگ مذہب کی بنیادوں پر خون بہاتے تھے،اس
دور میںجہاں ہر کوئی لڑائیوں اور جنگ وجدل میں مصروف تھا، رومی کے دروازے ہر(مذہب
)، رنگ ونسل ،خطے اور قبیلے سے تعلق رکھنے والے کے لئے ہمہ وقت کھلے تھے۔نفرت کے اس
دور میں وہ پیار، محبت کے پیغام کے ساتھ نمودار ہوئے ۔رومی اور شمس نے دوستی کی مثال
قائم کی مگر ان کی دوستی بھی اپنوں کی نفرت ،حقارت اور حسد کی نظر ہوئی ۔ ان کو بھی
ایک دوسرے نہایت بے دردی سے ایک دوسرے سے جدا کردیاگیا۔ان سے عداوت رکھنے والے ان کوئی
غیر نہیں ان کے ان اپنے خونی رشتے تھے، جن کی ملی بھگت سے یہ دونوں علیٰحدہ تو ہو گئے،
مگران دونوں کی دلچسپ و عجیب داستان کا اختتام کبھی ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔حقیقت توےہ
ہے کہ اس داستان کا اختتام کبھی ہوا ہی نہیں۔ تقریباً آٹھ سو سال گزرجانے کے باوجو
د رومی اور شمس کی ارواح آج بھی زند ہ اور تابندہ کہیں نہ کہیں ہمارے گرد و پیش میں
گھوم ر ہی ہیں۔
قاتل
(21 -24 )
اسکندریہ نومبر 1252
کنویں کا سیاہ پانی اور اس میں موجود اس
کا مردہ جسم ۔۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کی آنکھیں کیوں آج تک مےرا پیچھا کرتی ہیں۔اس
کی آنکھوں میں ایک کشش تھی جو کسی بھی انسان کو اپنی سمت متوجہ کرنے کا ہنر رکھتی تھیں،وہی
آنکھیں جو فلک پر موجود ستاروں کی مانند تھیں۔وہی دو چمکتے ستارے جن کے باعث ،میں نے
اسکندریہ کا طویل سفرطے کیا تاکہ میں کہیں دور نکل جاو
¿ں۔ دنیا کے کسی کوچے میں ماضی کی وہ چبتی ےادمےرا
پیچھاچھوڑ دے اور میرا ضمیر اس کی موت پربےن کرنا بند کر دے۔ اس کی وہ آ خری چیخ میرے
کا ن آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں ،جب میں نے اس پر خنجر سے حملہ کیا تھا۔اس جسم سے خون
بہنے کے باعث اس کا چہرہ بالکل سفید ہو گیا، تب اس کے حلق سے ایک درد ناک آہ نکلی تھی۔ہاں
اسکی وہی آنکھیں ، جو اس کے آخری سانسوںکے وقت سوج چکی تھیں ، وہ بری طرح کراہ رہا
تھا ،وہ ایک مرتے ہوئے انسان کی چیخ تھی۔وہ اس وقت بالکل اس بھیڑیے کی مانند لگ رہا
تھا جو کسی دشمن کے شکنجے میں مکمل طور پر پھنس چکا ہو۔
جب آپ کسی کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں تو
اس شخص سے بدعا کے طور پر کچھ نہ کچھ آپ میں ضرور منتقل ہوجاتا ہے۔ کوئی مہک ،درد بھری
آہ یا کوئی حرکت ۔یہ کوئی معمولی شے نہیں ہوتی ، یہ باقاعدہ ایک لعنت کے موافق ہے جو
زندگی بھر انسان کے ساتھ زندگی بھر ایک حلق میں پھنسے کانٹے کی طرح منسلک رہتی ہے
۔وہ تما م لوگ جو مجھے دنیا کے کونوں میں مارا ماراپھرتا دیکھتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے
کہ دراصل میرے اندر کیا لاوا ہے جو ہمہ وقت ابلنے کو تیاررہتا ہے۔ میںوہ شخص ہوں جو
اپنے ساتھ کئی بدنصیبوں کی نشانیاں لئے پھرتا ہوں جن کومیں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے،یہ
میرے لئے ایک طوق کی مانند ہیںایک ان چاہا ساتھی ، جو سایہ بن کے میرے ساتھ موجود ہیں۔میں
لاکھ ان سے پیچھا چھڑوانے کی کوشش کروں مگر یہ ناممکن ہے ۔ یہی تو وہ وجہ ہے جو مجھے
ایک قاتل ہونے کا احساس دلاتی ہیں،یہ گندگی میری ذات کاحصہ بن چکی ہے تاہم یہ بھی ایک
اٹوٹ حقیقت ہے کہ میرا پیشہ ہونے کے باعث یہ میرے لئے یہ ایک معمولی بات ہے ۔قاتلوں
کی یہ داستان کوئی نئی نہیں ہے ،یہ داستان تو تب سے چلتی آرہی ہے جب ہابیل نے قابیل
کو قتل کیا ہوگیا۔ تب سے ایک قاتل کے اندر مقتول کی چند نشانیاں ضرور ضبط ہوتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ قتل کرنامیرے لئے کوئی
جان جوکھوں کا کام ہے ، اس کے برعکس میرے لئے یہ معمول کا کام ہے ۔تاہم وہ قتل جو میں
آخری مرتبہ کیااس کا منظر آج تک میرے ذہن میں سمویا ہوا ہے ۔ مجھے اکثر یوں محسوس ہوتا
ہے کہ وہ منظر میرے آنکھوں میں مقفل ہے کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی ختم ہوا
ہی نہیں تھا، بلکہ وہ آج بھی جاری ہے۔میری زندگی اجیرن کردینے والے قتل کا محض منظر
ہی عجیب و غریب نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ کئی ایسی پر اسرار باتیںوابستہ تھیں۔ اس کام
کا آغا ز ہی کچھ یوں ہوا کہ مجھے یوںلگا کہ شایدوہ کامجھے ڈھونڈنے بغداد کی گلیوں میںآیا
تھا۔
1248 ءکے موسم بہار کا آغاز ہے میں قونیہ کے
قحبہ خانے کانگران تھا اور ایک ایسی مخنث کیلئے کام کیا کرتا تھا جو شہر میں غیض و
غضب کے باعث جانی جاتی تھی ۔ مےں وہاں پر طوائفوں کی نگرانی کرتا تھا ،ساتھ ہی ساتھ
میں گاہکوں کی بھی دیکھ بھال کرتا تھا جو کہ کسی کے قابو میں نہیں آتے تھے۔
میں وہ دن اپنے یاداشت کے ذخیرے سے کبھی
بھلا نہ پاو
¿ںگا ،وہ دن جب میںکسی گلی کوچوں میں تلاش کررہا
تھا۔ وہ ایک خوبرو عورت تھی جو خدا کی تلاش میں کہیں غائب ہو گئی تھی ،مجھے اس وقت
اس کیلئے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جب میں اسے پکڑوں گا
تو میں اس کا چہرہ برباد کر دوں گا۔ میرا ارادہ اس کا حلیہ اس حد تک بگاڑنے کا تھا،
جس کے بعد اسے کو ئی بھی آدمی دوسری مرتبہ دیکھنابھی گوارا نہ کرتا ۔وہ بیوقوف عورت
مجھے ملنے ہی والی تھی کہ میں نے اچانک ایک پر اسرار خط کو اپنی دہلیز پر پایا۔میں
چونکہ ان پڑھ ہوں اس لئے میںاسے خود نہیں پڑھ سکتا تھا۔ میں ایک مدرسے گیا ، وہاں پر
ایک طالب علم کو چند سکے دیے ، جس کے باعث وہ خط پڑھنے پر را ضی ہوگیا۔
خط کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ وہ کسی انجان
جگہ سے بھیجا گیا تھا ،اس پر مدیر کے نام کی جگہ ”کچھ ایمان والے “ لکھا گیا تھا ۔
خط اس طرح سے تحریر تھا:
”ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ تم کون ہو اور کہاں
سے آئے ہو؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حسن بن صباح کی موت کے بعداور تمہارے پہلے حکمران
کی قید کے بعد تم لوگوں کے حالات پہلے کی طرح نہیں رہے ہیں۔تم قونیہ آئے ہی سزا سے
بچنے کیلئے ہو اور تم نے اسی لئے اپنا بھیس بھی بدل رکھا ہے“
اس خط میں میرے لئے درج تھا کہ ان لوگوں
کو کسی اہم معاملے میں میری خدمات درکار ہیں۔مجھے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی
کہ اس کام کے لئے مجھے اچھا خاصا معاوضہ بھی ملے گا۔آخر میں سارا معاملہ مجھ پر چھوڑ
دیا گیا تھا کہ اگر مجھے منظور ہے تو اسی شام مجھے ایک مے خانے آنا ہو گا، جس کا پتا
مجھے بتا دیا گیا تھا۔مجھے سختی سے تنبیہہ کی گئی تھی کہ مجھے کھڑکی کے ساتھ والی میز
پر ہی بیٹھنا اور اپنی نظریںزمین پر مرکوز رکھنا۔علاوہ ازیں میری پشت بھی دروازے کی
جانب ہونا لازمی ہوگا۔مجھے بتایا گیا تھا وہ لوگ جنہوں نے مجھے ہدایات دینی تھیں وہ
اسی صورت میں آئیں گے جب میںوہاں ان کے بتائیے گئے طریقے سے بیٹھوں گا۔ مجھے سختی سے
تاکید کی گئی تھی کہ میںاس دوران ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہ دیکھوں۔
یہ نہایت عجیب وغریب خط تھا لیکن میں گاہکوں
کی اس قسم کی خواہشات سے نپٹنے کا عادی تھا ۔ کئی سالوں کے دوران میں تقریباً ہر قسم
کے گاہک نے میرے سے خدمات لیں اور ان میں سے زیادہ تر افراد نے اپنا نام اور پہچان
مجھ سے مخفی رکھی ۔میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جتنا کوئی گا ہک اپنی پہچان مجھ سے چھپاتا
ہے اتنا ہی وہ نشانہ بنائے جانے والے شخص کا قریبی ہوتا ہے ، لیکن میرا اس بات سے کوئی
سروکار نہیں،میرا کام صرف قتل کرنا تھا۔مجھے محض اپنے تفویض کردہ کام سے لگاو
ہے ،اس کے ساتھ وابستہ وجوہات کی تحقیق کرنا نہیں۔کئی
سال قبل میں جب سے میںنے اپنے آبائی شہر الموت کو چھوڑا، میں نے اپنے لئے اس زندگی کا انتخاب
کرلیا تھا۔
میں سوال بہت کم پوچھا کرتا تھا، پوچھوں
بھی تو کیوں؟زیادہ تر انسان جن سے میرا واسطہ پڑتاہے ، ان کی آنکھوں کو کم از ایک انسان
ضرور کھٹکتاہے، وہ جس سے ان کی نفرتیںوابستہ ہوتی ہیں۔یہ وہی شخص ہوتا ہے جس سے وہ
چھٹکارہ پانے کے لئے بے قرار ہوتے ہیں۔در حقیقت جو ایسا کرنے کہ چاہ رکھتے ہوں ، وہ
محض چاہ ہوتی ہے، در حقیقت وہ اس کو عملی شکل نہیں دے سکتے ۔مختصراً یہ کہ ہر ذی روح
کے اندر کسی نہ کسی کو قتل کرنے کیلئے جذبات مخفی ہوتے ہیں۔
پر یہ نہایت حیرت انگیز بات ہے کہ لوگ اس
بات کو تب تک ایک غلط فہمی تصور کرتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ شاید وہ اتنے بڑے گناہ کے
مرتکب بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔تاہم ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ان کے دلوں میں نفرت کا
وہ مقام پیداہوجاتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر قابو بھی نہیں رکھ پاتے۔دراصل اس نوبت تک پہنچنا
ایک اتفاق کی بات ہے ،بعض اوقات کوئی معمولی سی بات ہی کسی کے اندر آگ بھڑکانے کے کافی
ہوتی ہے۔جیسا کہ دشمنوں کی جانب سے دو افراد کے مابین جان بوجھ کر پیدا کی گئی غلط
فہمی ،چھوٹی سی بات پر جھگڑا ، کسی غلط جگہ پر غلط وقت میں موجود ہونا ان لوگوں کے
درمیان نفرت پیدا کرسکتا ہے جو کہ ماضی میں ایک دوسرے کے بہت قریبی تھے ۔ہر کوئی قتل
کرسکتا ہے،تاہم ہر کسی کے اندر اتنی ہمت نہیںکہ اجنبی کا سرد مہری سے قتل کردے۔ہاں
! میں دوسروں کی مشکل آسان کرتا ہوں اورلوگوں کے اس قبیح کام کو سر انجام دیتا ہوں۔شاید
میں غلط نہیں ہوں ۔۔
کیونکہ یہ ایسا کام ہے جس کو سر انجام دینے
کیلئے خدا کو بھی اپنی آفاقی منصوبہ بندی میں ایک جلیل القدر فرشتہ تعینات کرنے کی
ضرورت محسوس ہوئی ۔ عزرائیل ؑکو مخلوق خدا ایک ملامتی اور نفرت کی گاہ سے دیکھتی ہے
جب کہ خدا کے ہاتھ صاف رہتے ہیں اور ا س کی عظمت میں کوئی بھی فرق نہیں آتا۔جب کہ خدا
کے ہاتھ صاف رہے اور نام بھی تابندہ رہا۔یہ اس فرشتے کے ساتھ انصاف نہیں تھالیکن کیا
کیا جائے ، یہ دنیا انصاف کی وجہ سے نہیں پہچانی جاتی کیا ایسا ہے ؟
جیسے ہی اندھیرا چھایا میں اس شراب خانے
کی جانب گیا۔کھڑکی کے ساتھ والی میزپراےک آدمی بیٹھاتھا، جس کا چہرہ جھریوں سے بھرا
ہوا تھااوروہ گہری نیند سو رہاتھا۔مجھے خیال آیا کہ مجھے اس کو گہری نیند سے جگا نا
چاہے اور اسے کہنا چاہیے کہ کہیں اور چلا جائے ۔وہ آدمی شراب کے نشے میں دھت تھا، اور
شرابی کیسارد عمل دیںکوئی بھی اس بات کی پیش گوئی نہیں کرسکتا ہے ۔اسی لئے مجھے لگاکہ
مجھے احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ وہاں موجود لوگ میری طرف متوجہ نہ ہوں۔اسی لئے
میں کھڑکی کے سامنے موجود دوسری خالی میز پر براجمان ہوگیا۔کچھ ہی وقفے بعد دو آدمی
پہنچے۔دونوں میرے اطراف میں بیٹھ گئے جس سے ان کے چہرے نظر نہیں آسکتے تھے۔یہ دیکھنے
کیلئے کہ وہ کتنے کم عمر تھے اور جو وہ کارنامہ سر انجام دینے جارہے ہیں اس کیلئے وہ
کتنے اناڑی تھے مجھے یہ جاننے کے لئے انہیں دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔
”تمہاری سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہے “ان
میں سے ایک نے کہا۔اس کی آواز اتنی محتاط ہونے سے کئی زیادڈری ہوئی تھی ۔”ہمیں بتایا
گیا تھا کہ تم بہترین ہو“
وہ بولتے ہوئے بہت مضحکہ خیزمحسوس ہورہا
تھا،تاہم میں نے اپنی ہنسی دبانے کوشش کی ۔مجھے یوں محسوس ہوا جس طرح وہ مجھ سے ڈرے
ہوئے ہیں جو کہ میرے لئے ایک اچھی بات تھی، کیونکہ جتنے وہ مجھ سے ڈرے ہوئے تھے،وہ
میرے ساتھ کوئی دغا بازی کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے ۔اسی لئے میں نے ان کی ہاں
میں ہاں ملائی ،”جی میں بہترین ہوں“۔اس لئے انہوں نے مجھے ”جیکل ہیڈ“ کہا،”میں نے کبھی
اپنے گاہکوں کو مایوس نہیں کیاچاہے کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو“۔”بہت اچھے“ اس نے
تھکاوٹ کے سے انداز میں بولا،”یہ کام بھی شایداتناآسان نہ ہو “
اب کی بار دوسرا بولا”دیکھو!ہمارے علاقے
میں ایک آدمی ہے جس نے اپنے بہت سے دشمن بنالیے ہیں۔ یہاں تک کہ جب سے وہ شہر میں آیا
ہے اس نے ہمیں مشکلات کے سوا کچھ بھی نہیںدیا۔ہم نے اسے کئی مرتبہ خبرادر کیا لیکن
وہ اس کان نہیں دھرتا۔دوسری جانب ،اس وقت وہ شہر میں متنازعہ ترین انسان ہے اور وہ
کسی بھی قیمت پرہمیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔وہ ہمیشہ سے اسی طرح کا ہی تھا۔
ہر مرتبہ گاہک ایک معاہدہ طے کرنے سے قبل
اپنے آپ کو یوں ہی درست ثابت کیاکرتے تھے،جیسے کہ میری منظور ی ان کے سنگین جرم میںکمی
کا باعث بن سکتی تھی۔
میں جانتاہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں
۔پہلے مجھے یہ بتائیں کہ یہ شخص کون ہے ؟میں نے پوچھا۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ اس
کانام بتانے سے ہچکچا ہٹ محسوس کررہے تھے۔اس کے بجائے انہوں نے مجھے اس کے بارے میں
ایک دھندلی سی تفصیل بیان کرنا شرو ع کی، ”وہ ایک بدعتی ہے جس کااسلام سے کوئی تعلق
نہیں ۔ایک بے لگام شخص جوکہ بے حرمتی کا مرتکب اور گستاخ شخص ہے۔وہ ایک آوارہ درویش
ہے “
جیسے ہی میں نے یہ آخری لفظ سنا میرے اندر
کچھ عجیب سے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔میرا دماغ تیزی سے چلنے لگا اور اس میں بیک
وقت بہت سی سوچیں آنے لگیں۔میرا ماضی اس کام سے ہی تعبیر تھا ،میں نے ہرطرح کے لوگوںکا
قتل کیا ، خواہ وہ جوان ہو ،جوان ہو یا بوڑھا ، آدمی ہویا عورت، لیکن ان میں کوئی بھی
درویش نہ تھا۔۔ایک پاک انسان۔
”میری اپنی توہمات ہیں اور میں نہیں چاہتا
کہ اللہ مجھ سے ناراض ہو،چاہے میں جیسا بھی ہوں، اپنے خالق پر کامل ایمان رکھتاہوں۔میں
آپ لوگوں کی بات سے ڈر گیا ہوں، میں یہ پیشکش رد کرتا ہوں۔مجھے نہیں لگتا کہ میں ایک
پاکیزہ انسان کا قتل کرسکتاہوں، آپ مجھے چھوڑیں اورکسی دوسرے کو اس کام کے لئے تلاش
کریں۔یہ بات کہتے ہی میں وہ جگہ چھوڑنے کے لئے کھڑا ہوا،لیکن جوں ہی میں آگے بڑھا ان
میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑااور مجھے ٹھہرنے کی درخواست کی ۔تمہارا معاوضہ تمہارے
کام کی نوعیت کے مطابق کردیا جائیگا ،یعنی دوسروں سے جو بھی قیمت لیتے ہو اس کو دوگنا
کردیا جائیگا۔
اچھا!قیمت تین گنا کرنے کے متعلق آپ کیا
خیال رکھتے ہیں ؟میں نے پوچھا ۔میں پر امید تھا کہ وہ اتنی زیادہ قیمت نہیں ادا کرپائے
گا۔کچھ دیر کی تذ بذب کے بعد میری توقعات کے برعکس انہوںنے یہ قبول کرلیا۔میں دوبارہ
اپنی نشست پر بیٹھ گیا، میں شدید اعصابی تناو
¿ کا شکار تھا۔اتنی بڑی رقم سے آخر کار میں اس قابل
ہوسکتا تھا کہ ایک شادی کے بندھن میں بند سکتا تھا۔ میں نے اپنے معالی حالات کے متعلق
سوچنا چھوڑ دیا ۔چاہے کوئی درویش ہو ، یا کوئی اورہر کوئی اتنی بڑی قیمت کے عوض کسی
کو بھی موت کے گھاٹ اتار سکتا تھا۔
میں اس لمحے سوچ بھی نہیںسکتا تھا کہ میں
اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرنے جارہا ہوں اور مجھے پوری زندگی اس پر ماتم کرنا
ہوگا ۔ایک درویش کو قتل کرنا کس قدر مشکل تھا، اس کے مرنے کے بعد سب کچھ سہنا کسی عذاب
سے کم نہیں تھا۔اس کی چاقو کی مانند آنکھیں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں ۔۔ ہرجگہ
۔۔ہرکہیں۔۔
اس بات کو چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے،
مجھے آج تک یاد ہے کہ میں نے صحن میں اس کا خنجر سے وار کیا تھا۔ اس کو کنویں میں پھینک
دیا تھا، اوراس سے آنے والی چھینٹوںکو سننے کی کوشش کرنے لگا جو مجھے دوبارہ کبھی نہیں
سنائی دینی تھیں۔یہاں تک کہ اس درویش کے کنویں میں گرنے کی آواز تک نہیں آئی ۔ مجھے
اس وقت یہ محسوس ہوا کہ وہ درویش پانی میں گرنے کی بجائے سیدھا آسمان کی جانب پرواز
کر چکا تھا۔میں آج بھی جب سوتا ہوں مجھے ڈرواو
نے خواب آتے ہیں ۔میں جب بھی پانی کی طرف دیکھوں،
پانی کے کسی بھی ذخیرے کی جانب ،کئی لمحوں سے زیادہ تو خوف کی لہر میرے پورے جسم کو
جکڑ لیتی ہے ۔اس وقت میں اپنے آپ کو قابو نہیں کرسکتا ،اسی لئے قے کردیتا ہوں
25 - 26
پہلا حصہ
۔۔۔۔۔
زمین
ٹھوس
، مستغرق اور ساکن چیزیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس
(27 to 33 )
سمرقند کے باہر ایک سرائے ، مارچ 1242ئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکڑی کی مےز سے بلندشہد کے موم سے بنی موم
بتیاں میری آنکھوں کے سامنے ٹمٹما رہی تھیں ۔ آج شام جو ’کشف “ مجھ پر انقاھو ا وہ
نہایت واضح اور قابل فہم تھا۔ میں نے دیکھا کہ اےک بہت بڑا گھر ہے جس کے صحن میں چاروں
سوپیلے رنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں ۔ اس صحن کے وسط میں ایک کنواں ہے ، جس میں دنیا
کا یخ بستہ ترین پانی موجودہے ۔یہ نظارہ پرسکون تھا،یہ موسم خزاں کی ایک رات کا آخری
پہر تھااوروہ پورے چاند کی رات تھی ۔کئی جانور اپنے معمول کے مطابق پوری دنیاسے بے
خبر شور اور واویلا مچانے میں مگن تھے ۔کچھ ہی دیر میں ایک درمیانی عمر کا آدمی جس
کا چہرہ شفیق، کاندھے کشادہ اور آنکھیں گہری بنفشی تھیں ،گھر سے باہر نکلا ، وہ مجھے
اس رات کے اندھیرے میں تلاش کررہا تھا ۔اس کے چہرے کے تا ثرات نہایت آ زردہ اور آنکھیں
بہت پریشان تھیں ۔
شمس ، شمس ۔۔ تم کدھر ہو؟ وہ دائیں بائیں
دیکھتے ہوئے چلا یا۔۔
ہواتیزی سے چلی اور چاند بادل کے پیچھے
چھپ گیا ، جیسا کہ وہ یہ دیکھنے سے ڈر رہاتھا جو ہونے جارہاتھا۔۔ الوو
ں نے شور مچانا بند کردیااور چمگادڑوں نے اپنے پرو
ں کو پھرپھرانا روک دیا،یہاں تک کہ گھر کے اندر آگ نے چرچرانا بھی بند کردیا، غرض اس
وقت پوری دنیا پر ایک سکوت طاری تھا۔اسی رات کے اندھیرے میں ایک آدمی آہستہ آہستہ کنویں
کی جانب پہنچا،وہ کنویں کی طرف جھکا اورکنویں میں جھانک کر دیکھا۔
شمس ، میری عزیز ترین ہستی ،کیا تم ادھر
ہو ؟
جب میں نے اے جواب دینے کیلئے اپنے لبوں
کو حرکت دی مجھے بے حد حیرانی ہوئی کے میرے حلق سے آوازنہیں نکل پارہی تھی ۔وہ آدمی
مزید آگے کوجھکا اور کنویں میںدوبارہ جھانکا۔پہلی نظر میں وہ کنویں کے پانی کی سیاہی
کے سوا کچھ نہ دیکھ پایاتھا۔ تاہم مزید غور سے دیکھنے پر اسے کنویں کے پیندے پر میرا
ہاتھ پانی کی سطح پر بے مقصد تیرتے ہوئے دیکھا ئی دیا، بالکل اسی طرح جیسے کوئی کمزورکشتی
بہت بڑے طوفان کے بعدادھر ادھر ہلکورے کھا رہی ہو۔ اگلے لمحے اس شخص نے میری آنکھیں
پہچان لیں ۔ وہ دو چمکتے ہوئے کالے پتھر ،چاند کو ٹکٹکی باند کر دیکھ رہے تھے، جو کہ
اب سیاہ اور گہرے بادلوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ باہر آرہاتھا۔میری آنکھیں اس وقت
چاندکو دیکھ رہی تھیں ، جیسے وہ آسمانوں سے میرے قتل کی وضاحت کا انتظار کر رہی ہوں۔وہ
آدمی اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا اور زاروقطار رونے لگا اور سینہ کوبی کرنے لگا۔”انہوں
نے اس کو مار دیا، انہوں نے میرے شمس کو ماردیا “،وہ چلایا۔
اسی دوران جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک سایہ
تیزی سے باہر نکلتا ہوا معلوم ہوا،اور نہایت تیزی اور خفیہ طریقے سے وہ دیوا ر پر چھلانگ
لگاتا ہوا نظر آیا، اسی طرح جس طرح ایک جنگلی بلی کرتی ہے۔وہ قاتل ہوگا۔۔۔تاہم اس آدمی
نے قاتل کو توجہ د ینا ضروری نہ سمجھا، شدیداذیت میں مبتلا وہ شخص چلایا، اور چلاتا
گیا۔ پھر اس کی آواز ٹوٹتے ہوئے شیشے کی مانند بکھرگئی اورپھریہی شیشے کی تیز دھار
ٹھیکریاں رات کی خامشی میں کہیں پنہاں ہو گئیں۔
اوہ ۔۔ تم ۔ پاگلوں کی طرح چلانا بند کرو۔
اس طرح کی خوفناک آوازیں نکا لنا بند کرو۔۔۔
ورنہ میں تمیں باہر نکال دوں گا۔
ایک مرد نے چلانے کے سے انداز میں یہ الفا
ظ کہے۔
بکواس بند کرو۔۔ کیا تم مجھے سن رہے ہو۔؟
بکواس بند کرو۔ وہ تقریباً دھمکی دیتے ہوئے گرجا۔میں نے ایسا ظاہر کیا کہ میں نے سنا
ہی نہیں کیونکہ میں اپنے ”کشف“ کومزید دیکھن چاہتا تھا، اس کو محسوس کرنا چاہتاتھا،میں
اپنی موت کے متعلق مزید جاننا چاہتا تھا۔میں ان غمگین ترین آنکھوں والے انسان کوغور
سے دیکھنا چاہتا تھا۔یہ کون تھا؟ اس کا مجھ سے کیا تعلق تھا؟ وہ اس خزاں کی رات میں
مجھے اتنی شدت سے کیوں تلاش کررہا تھا؟اس سے پہلے کے میں اپنے ”کشف“ میں ایک نظرمزید
ڈالتا ، کسی نے مجھے میری بازو سے پکڑا اور مجھے اتنی شدت سے ہلایا کہ مجھے اپنے منہ
میں دانتوں کی واضح گڑگڑاہٹ محسوس ہوئی اور میں حقیقی دنیا میں واپس آگیا۔میں نے تذبذب
کا شکار ہوتے ہوئے آہستگی سے آنکھیں کھولیں، اور اس آدمی کو دیکھاجو میرے ساتھ کھڑا
ہوا تھا۔وہ ایک لمبا،صحت مند آدمی تھا جس کی داڑھی اس کی بزرگی کا اظہار کرنے کئے کافی
تھی اور مو نچھیں گھنی تھیںجو کناروں سے مڑی ہوئی اور نوکدارتھیں۔مجھے ایسا محسوس ہوا
کہ وہ اس سرائے کا مالک ہے ۔
اسے دیکھتے ہی فوری طور پر اس کے مزاج کے
متعلق دو باتیںمےرے ذہن میں آئیں ، ایک یہ کہ وہ لوگوں کو اپنی سخت مزاجی اور تشددسے
دہلاتا ہوگا ، دوسری وہ اب بھی شدید غضبناک حالت میں تھا۔تم کیا چاہتے ہو؟ تم میری
بازو کیوں کھینچ رہے ہو؟
کیا؟؟ یہ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ میں
کیا چاہتا ہوں؟سب سے پہلے ،میں چاہتا ہوں کہ تم اس طرح چلانا بند کرو، تم میرے گاہکوں
کوڈرا رہے ہو۔
سچ!!!کیا میں چلا رہاتھا؟ میں نے آہستگی
سے بولا ساتھ اپنے آپ کو آزاد کروانے کی کوشش کی۔تم شرط لگا سکتے ہو کہ تم ہی تھے؟تم
ایک ریچھ کی طرح چلا رہے تھے جیسے اس کے پاو
ں میں کوئی کانٹا چبھ گیا ہو۔آخر تمہارے ساتھ کیا
ہواتھا؟کیا تمہیں رات کے کھانے کے دوران ہی نیند آ گئی تھی ؟تم نے ضرورڈراو ناخواب دیکھا ہوگایاکچھ اور ؟
میں جانتا تھا کہ اسے سمجھانے کا یہی ایک
مناسب طریقہ تھاجس سے وہ مطمئن ہوجاتا اور مجھے آرام سے جانے دیتا،پھر بھی میں جھوٹ
نہیں بولنا چاہتا تھا۔
”نہیں میرے بھائی نہ میں سویا تھا نہ ہی
میں نے کوئی ڈراو
ناخواب دیکھا،دراصل میں کبھی خواب دیکھتا ہی نہیں“”مجھے
کشف ہوتاہے، جس کے اندر مجھے آئندہ درپیش آنے والے مناظر آتے ہیںیہ ایک مختلف چیز ہے“۔میں
نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا،جب اس نے میری طرف دیکھا تو مجھے یوں محسوس ہوا
کہ جیسے وہ کسی کشمکش کا شکار ہو چکاہے۔ اس نے اپنی مونچھوں کو بل دینا شروع کیا۔آخر
کار وہ بول پڑا”تم درویش لوگ بالکل اسی طرح پاگل ہوتے ہوجیسے چوہے باورچی خانے میں
۔سارا دن تم لوگ روزے سے رہتے ہو ، عبادا ت کرتے رہتے ہواور تپتے سورج میں میلوں سفر
کرتے ہو۔تم لوگوں کے دماغ کا بھیجہ پک جاتا ہے ، پھر راتوں کوفریب نظر میں مبتلا ہو
جاتے ہو“
میں مسکرایا،وہ درست بھی ہو سکتا تھا
۔”وہ کہتے ہیں نا کہ خدا میں خود کو کھو دینے میں اور دماغ کھودینے میں تھوڑا ہی فرق
ہوتا ہے “
اسی دوران دو بہرے نمودار ہوئے جن کے ساتھ ایک بڑی کھانے کی ٹرے تھی،جس
میںمختلف اقسام کے کھانوں کی تھالیاں موجودتھیں۔جن میں بکریوں کاسیخ پہ بھونا ہواتازہ
گوشت ،نمک کے ذریعے خشک کی گئی مچھلی کا سالن،مسالے داربکرے کا گوشت ،گندم کے کیک ،کوفتے
بمہ مصری چنے اور مصور کی دال بمعہ بھیڑ وںکا گوشت شامل تھے۔
وہ پورے ہال میں پیاز ،ادرک اور مرچوں کی
خوشبو پھیلاتے ہوئے اسے پورے ہال میں تقسیم کر رہے تھے ۔جب انہوں نے کھانے کی ٹرے میرے
سامنے پیش کی،تومیں اپنے لئے ایک گرم سوپ اور اور کچھ روٹیاں پکڑ لیں۔مجھے یوں پکڑتا
ہوا دیکھ کر اس نے کچھ حاکمانہ اور حقارت آمیز لہجے سے دریافت کیا تمہارے پاس ان کھانوں
کی قیمت ادا کرنے کے لئے پیسے موجود ہیں؟جیسے کہ اس نے میرا حلیہ دیکھ کر ہر چیز کا
اندازہ لگا لیا ہو ۔
”نہیں ! میرے پاس واقعی نہیں ہیں “۔میں نے
کہا”لیکن مجھے اس امر کی اجازت دو کے اس کے بدلے میں تمہیں کچھ اور بہتر دے سکوں۔میں
تمہیںآج یہاں رات قیام کرنے اور کھانے کے عوض تمہارے خوابوں کی تعبیر بیان کرسکتا ہوں
۔
اس کے جواب میں سرائے کے مالک نے قدرے حقارت
آمیز لہجے میں کہا اس کی بازو کمر کی طرف مڑی ہوئی تھی ۔”تم نے مجھے ابھی کہا کہ تم
خواب نہیںدیکھتے “۔”ہاں ، تو یہ درست ہے ۔اگرچہ میں خواب نہیںدیکھ سکتا، پھر بھی میں
خواب کی تعبیرکرسکتا ہوں۔
اے درویش ”میں تمہیں یہاں سے باہر نکال
دوں گا،جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ تم درویش لوگ اخروٹ کی مانند ہو تے ہو۔اس نے الفاظ
کی ایک جنگ ہی شروع کردی تھی۔تمہارے لئے ایک نصیحت ہے ”میں نہیں جانتا کہ تمہاری عمر
کیا ہے لیکن میں اتنا جان سکتا ہوں کہ تم دونوں جہانوں کے لئے عبادت کرچکے ہو۔ایک اچھی
عورت ڈھونڈو اور اس سے شادی کرلو،تمہارے بچے ہوں گے جو تمہیں دنیا بھر میں آوارہ گردی
نہیں کرنے دیں گے۔بھلاتمہارا پوری دنیا میں آوارہ گردی کرنے کا کیا مقصد؟ تم شاید تم
نہیںجانتے کہ پوری دنیا ایک سی ہے ، ہر جگہ اسی طرح کی تکلیفیں اور پریشانیاں ہیں۔اس
میںایسا کچھ نیا نہیں ہے جو دیکھنے کے قابل ہو۔میرے پاس دنیا کے دور دراز علاقوں سے
لوگ آتے ہیں ۔ چاہے وہ جس بھی رنگ ونسل کے ہوں ،شراب کے نشے میں مست ہوکرسب ہی ایک
طرح کی درد بھری داستان سناتے ہیں۔ایک ہی طرح کاکھانا ، ایک ہی طرح کا پانی اور ایک
ہی طرح کے جوئے کے طریقے جو قدیم دور سے چلے آرہے ہیں ۔”نہیں تم مجھے غلط سمجھ رہے
ہو ،میں کسی نئی چیز کی تلاش میں نہیں ہوں،میری تلاش میرے خدا کی تلاش ہے“ ۔ ”تو تم
اس کو ایک غلط جگہ تلاش کر رہے ہو “اس نے فوراً جواب دیا ۔اس کی آواز قدرے بھاری ہو
گئی ۔”خدا یہ جگہ چھوڑ چکا ہے، وہ اسے لاورث بنا چکا ہے ،ہم نہیں جانتے کہ وہ کب واپس
آئے گا “۔
اس کے منہ سے یہ مایوس کن لفاظ سننے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو ا کہ جیسے
میرادل سینہ چیر کر باہر آجائے گا، ان الفاظ پر میں بے اختیار بول اٹھا”جو کوئی خداکے
بارے میں کوئی من گھرٹ بات کرتا ہے اس کا مطلب وہ اپنے متعلق کچھ غلط کہتا ہے ۔“
اس بات پر سرائے کامالک عجیب سے معنی خیزانداز
میں مسکرایا،اس کے چہرے پر ایک کرواہٹ اور خفگی تھی ،اس کی ناراضگی کی کوئی وجہ ضرور
تھی جوکہ مجھے معلو م نہ تھی۔
”کیاہمارا خالق یہ نہیں کہتاکہ وہ ہماری
شاہ رگ حیات سے زیادہ ہمارے قریب ہے، خدا ہم سے ہزاروں میل کے فاصلے پر آسمان میں نہیں
بستا ؟بلکہ وہ ہم سب کے اندر ہی موجود ہے۔وہ ہمیں کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ ۔۔نہیں ایسا ممکن
نہیں وہ اپنے آپ کو بھلاکیسے چھوڑ سکتا ہے،میں نے پوچھا۔
”وہ چھوڑ جاتا ہے“ سرائے کے مالک نے جواب
دیا۔اس کی آنکھیں سرد اور گستاخانہ تھیں۔
میں نے کہا یہ پہلا قانون ہے میرے بھائی
۔ میں نے کہا ” خدا اس کی شبیہہ ہے جو گمان ہم اپنے آپ اور اپنی ذات کے متعلق رکھتے
ہیں۔اگر خداکے ذکر سے ہمارے دماغ میں زیادہ تر خوف اور ملامت لاتا ہے اس کا مطلب ہمارے
خوف اور الزام تراشی ہمارے سینوں میں کہیں دفن ہے ۔اگر ہمارے نزدیک خدا محبت اور تقویٰ
ہے تو اس کامطلب ہمارے اندر بھی یہی چیزیں موجود ہیں“
سرائے کے مالک نے اس بات سے فوراً انکار
کردیا ، تاہم میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ میرے بات سے حیران ضرورہواتھا ۔” یہ تم کیسے
کہ سکتے ہو کہ خدا ہمارے تصور کی تخلیق ہے؟“
انہی باتوں کے دوران ایک دم کھانے کے کمرے
میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوا جس کے باعث میرے جواب میں خلل پیدا ہوا۔جب ہم اس سمت میں مڑے
، تو ہم نے دو بے ڈھنگے آدمیوں کو دیکھا جو شراب کے نشے میں دھت چیخ رہے تھے ۔وہ اس
وقت بے لگام تھے اور غنڈہ گردی کرتے ہوئے دوسرے گاہکوں کے پیالوں میں سے ان کا کھانا
چھین رہے تھے۔کسی کو احتجاج بھی کرنا چاہتا تو وہ اس کا مدرسوں کے لونڈوں کی طرح اس
کا مذاق اڑانے لگتے۔
”ان دونوں نے یہاں ہنگامہ برپا کیااور لوگوں
کو تکلیف پہنچائی، کسی کو ضروران دونوں کو باز رکھناچاہیے تھا “ کیا تمہیں ایسا نہیں
لگتا؟ ۔سرائے کے مالک نے غصے کے مارے اپنے دانتوںکو دبایا اور کہا کہ اب دیکھنا میں
کیا کرتا ہوں۔وہ تیزی سے ہال کی دوسری جانب ان دونوں کے پاس پہنچا اوران میں سے ایک
شرابی گاہک کو جھٹکے سے اس کی نشست سے کھینچااور اس کے منہ پہ ایک گھونسہ دے مارا۔وہ
آدمی اس وقت اس مار کی امیدنہیں کررہاتھا،وہ ایک خالی بوری کی طرح زمین کے فرش پر منہدم
ہوگیا۔اس کے منہ سے درد کی وجہ سے بمشکل ایک ہلکی سی آہ نکلی جو سنائی دی جاسکتی تھی،
تاہم اس کے علاوہ اس کے حلق سے مزید کوئی آواز نہ نکلی ۔وہ اگلے ہی لمحے دوسرے شرابی
پر بھی حملہ آور ہوا ، تاہم وہ قدرے طاقت ور ثابت ہوا اور شدت سے جوابی وار کیا،تاہم
سرائے کے مالک کو اسے بھی نیچے گرانے میں اتنا وقت نہیں لگا۔اس نے اس بے قابو شرابی
کی پسلیوں پہ ٹھوکر یںلگائیں اور پھر اس کے ہاتھ کو زدوکوب کیا،اور اپنے بھاری جوتوںکے
نیچے اسے مسلنے لگا۔اس وقت وہاں موجود سب افراد نے ایک آواز سنی جو کہ یقینااس کی انگلی
میں شفاف پڑنے کی آوازتھی نہ صرف اس کی انگلی میں بلکہ مزید شگاف بھی پڑ سکتے تھے۔
رکو،میں کہتا ہوں رک جاو
،میں نے ایک دم کہا۔تم
اسے قتل کرنے جارہے ہو۔۔ کیا تم ایسا ہی ارادہ رکھتے ہو؟
ایک صوفی ہونے کی حیثیت سے میرا یہ عزم
تھا کہ ایک ایک زندگی بچاو
ں اور اسے کوئی نقصان پہنچنے نہ دوں ۔اس جعلی دنیا
میں بہت سے لوگ دوسرے سے بغیر کسی وجہ کے لڑنے کے لئے تیار رہتے تھے اور بہت سے ایسے
ہیں جو کسی وجہ سے لڑتے ہیں۔لیکن ایک صوفی کے پاس لڑنے کی کوئی وجہ بھی ہو وہ تب نہیں
لڑتا ہے ۔
میرے پاس کوئی طریقہ نہ تھا جس پر عمل کرکے
میں تشدد کو روک سکتا۔لیکن میں ان دونوں کے درمیان ایک مخملی شے کی مانند ضرورضرور
دخل اندازی کرسکتا تھا تاکہ ان دونوں کوایک دوسرے سے دور رکھتا۔
”تم اس معاملے سے دور رہو،درویش ، ورنہ میں
تمہارا بھی یہی حال کر سکتا ہوں
“
سرائے کا مالک چلایا،پر یہ میں بخوبی جانتا
تھاکہ مجھے وہ محض دھمکا رہا تھا ، وہ ایسا کرنے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتا۔اس دوسرے
شرابی کی انگلی کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور ہر جگہ خون بکھرا ہوا تھا۔ایک خوفزدہ سی خاموشی
نے پورے کھانے کی کی میز کا احاطہ کر لیا۔لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد سرائے کے مالک
نے جب بولنے کا آغاز کیا تو یوں محسوس ہواگویا وہ وہاں ہر کسی سے خطاب کررہاتھا،اس
وقت اس کی آواز اونچی اور حد سے بڑی ہوئی تھی ۔ اس وقت وہ ایک آوارہ پرندے کی مانند
دکھائی دے رہا تھا جو بغیر کسی روک ٹوک کے کھلے آسمان تلے بے لگام اڑرہاتھا۔
دیکھو درویش !میں ہمیشہ سے اس طرح کا انسان
نہیں تھا تاہم یہ عادت اب میری طبیعت کا حصہ بن چکی ہے۔جب خدا ہمیں پیدا کرکے ہمارے
بارے میں بھول جائے تو ہمیں یقینا انصاف بحال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جس کیلئے
ہم عام انسانوں کو ضرور اقدام اٹھانے چاہیں۔اگلی مرتبہ تم جب اس سے بات کرو تو اس کوبتانا
کہ وہ جب اپنے میمنے کو چھوڑ دیتا ہے ، اس وقت وہ اتنا فرمانبردار نہیں رہتے کہ قربان
ہونے کے لیے تیارہیں بلکہ بھےڑیے بن جاتے ہیں“۔
میں نے کندھے اچکائے اور دروازے کی جانب
جانے کا اشارہ دیا ۔۔”تم غلطی کررہے ہو “۔۔
کیا میں یہ غلط کہہ رہاہوں کے میں ایک میمنا
تھا اور اب بھیڑیا بن چکا ہوں؟”نہیںتم درست ہو تم واقعی ہی ایک بھیڑیے بن چکے ہو جسے
میں بخوبی دیکھ سکتا ہوں“لیکن تمھاری ےہ بھیڑیا بن کر انصاف کرنے والی بات ےکسر غلط
ہے۔۔۔
ٹھہرو درویش ،ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی
، تم نے مجھ سے وعدہ کر رکھاہے کہ یہاں قیام و طعام کے عوض تم مجھے میرے خوابوں کی
تعبیر بیان کرو گے “ہاںمجھے یاد ہے ،میں نے ضرور کہا تھا ، مگر میں تمہارے لئے اس سے
بھی بڑھ کر کچھ کرنا چاہتا ہوں، میں تمہارا ہاتھ دیکھنا چاہتا ہوں “
میں اس کی جانب واپس مڑا اور اس کی انگاروں
کی سی جلتی ہوئی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔غیر یقینی کے عالم میں فطرتی طور پر اس
نے جھر جھری سی لی۔اس کے باوجود جب میں نے اس کا دائیاں ہاتھ تجزیے کے لئے تھاماا ور
اس کی ہتھیلی دیکھی ، اس نے مجھے دور نہیں کیا، بلکہ مجھے اس امر کی اجازت دی۔میں نے
اس کی ہاتھ کی لکیروں کا جائزہ لینا شروع کیا،جو کہ گہری تھیں ، ان میں شگاف پڑے ہوئے
تھے ،اور ان میںناہموار راستے تھے۔اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کے گردہالے کے رنگ نمایاں
ہونا شروع ہوئے جن میں بھورا اور ایک نیلا رنگ تھا جو کہ اتنا پیلا تھا کہ سرمئی معلوم
ہوتاتھا، عیاں تھے۔اس کی روحانی طاقت اندر سے کھوکھلی ہو چکی تھی اوروہ کناروں سے باریک
تھی ۔
اور یوں اس کے اندر اتنی سکت بھی باقی نہیں
رہی تھی کہ اپنے آپ کو بیرونی دنیا کی برائیوں اور قباحتوں سے محفوظ رکھ سکے ۔۔اس نے
اپنی روحانی طاقت کو ختم کرنے کیلئے اسے اپنی جسمانی قوت کودوگنا کردی جسے وہ وافر
مقدار میں استعمال کرچکا تھا۔ کہیں ےہ انسان مر چکا تھا، وہ اندر سے ایک مرجھائے ہوئے
پودے کی مانند تھا۔
اسی لمحے میں نے ایک منظردیکھناشروع کیاجس
کے باعث میرے دل کی دھڑکن کی رفتار یکدم تیز ہونا شروع ہوئی ۔پہلے مجھے کچھ مدہم سا
نظارہ دکھائی دینے لگا جیسے کہ وہ کئی پرودں میں مخفی تھا، پھر وہ بتدریج واضح ہونا
شروع ہوگیا۔
”وہ ایک نوجوان عورت تھی، جس کے بال سرخی
مائل بھورے تھے۔اس کے پاو
ںبرہنہ تھے۔ جن پر پختہ قلمکاری واضح نظر آرہی تھی
اور اس نے شانوں پر کشیدہ کاری والی اوڑھنی لے رکھی تھی“
”ہاں!تم اپنی ایک محبوب ہستی کھو چکے ہو“میں
نے کہا اور اس کے بائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔
”اس کے پستان دودھ آجانے کی وجہ سے خوب بڑے
ہیں۔ جب کہ پیٹ بہت پھولا ھوا، جیسے ابھی ابھی شق ہو جائےگا۔وہ ایک آگ بگولہ جھونپڑی
میں پھنس سی گئی ہے۔گھر کے گرد و پیش میں جنگجو سپاہی گھوم رہے ہیں۔جو گھوڑوں پر سوار
ھیں جن کی کاٹھیاں چاندی کے ورق سے آراستہ ہیں۔ گوشت اور بھوسہ جلنے کی قبیح بدبو ہر
طرف پھیل چکی ہے۔ منگول گھڑسواروں کی ناکیں چپٹی اور چوڑی ، گردنیں چھوٹی اور موٹی
موٹی ھیں، جب کہ دل پتھر کی طرح سخت۔ ےہ چنگیز خان کی فوج کے جری سپاہی ہیں۔“
”آپ نے ایک نہیں دو لوگوں کو کھویا ہے، ،
میں نے اپنی تصحیح کرتے ھوے کہا۔
کیا تمھاری بیوی حاملہ تھی؟
اسکی پلکیں نیچے جھک گئیں،اس کی نظریں اپنے
چمڑے کے جوتوں پر مرکوز ہو گئیں اور اپنے لب بھینچ لیے،
اسی اثناءاس کے چہرے پر بے شمار لکیریں
بن گئیں جو کئی انجانے راستوں پر محیط تھیں۔چند ہی گھڑیوں میں وہ اپنی عمر سے دوگنا
دکھائی دینے لگا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ میں تمہیں تسلی نہیں دے
سکتا ہوں تاہم ایک بات تمہارے علم میں ضرور ہونی چاہیے ۔ میں نے کہا ۔ تمہاری بیوی
آگ میں جھلس کر جاں بحق نہیں ہوئی تھی ، بلکہ اس کے سر پر لکڑی کاتختہ گرا تھا جس کے
باعث اس کی ہلاکت ہوئی تھی ۔
تم جب ہی اسے یاد کرتے ہو ،تمہیں یوں لگتا
ہے کہ وہ مرنے سے قبل شدید تکلیف میں تھی ، حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ در حقیقت وہ
اتنی تکلیف سے جاں بحق نہیں ہوئی تھی ۔
سرائے کے مالک نے ایک انجانے بوجھ تلے آگیا
تھا جسے صرف وہ ہی سمجھ سکتا تھا اور پیشانی پر بے شمار لکیریں آگئیں۔اس کی آواز مزید
غصیلی ہو گئی اور اس نے دریافت کیا ”تم یہ سب کس طرح جانتے ہو ؟“
میں اس کے اس سوال کو نظر انداز کیا۔”تم
اس وقت سے اپنے آپ کو لعن طعن کا نشانہ بناتے آئے ہو،کہ تم اس کی تدفین کا فریضہ مناسب
طریقے سے سر انجام نہیں دے سکے تھے ۔تم آج بھی اسے خوابوں دیکھتے ہو ،میں اس گڑھے سے
باہر رینگتا ہوا دیکھتے ہوجس میں وہ دفن ہو گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا دماغ تمہارے
ے ساتھ کھیل کھیلتاہے۔ ۔ درحقیقت تمہاری بیوی اور تمہارا بیٹا دونوںبالکل ٹھیک ہیںاور
دونوں روشنی کے بیضوں کی مانندلا محدود سفرپر رواں دواں ہیں۔
میں نے اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا
کہ ” آج بھی تم چاہو نہ تو اپنے خالق کے میمنے بن سکتے ہو ،جس حالت میں اس نے تمہیں
اس دنیا میں بھیجاتھا “۔یہ سننے کے بعد اس نے اپنا ہاتھ ایک دم سے پیچھے کیا جیسے وہ
تپتے توے سے چھو گیاہو۔
”درویش ایک بات کان کھول کے سن لو،میں تمہیں
پسند نہیں کرتا ۔ میں تمہیں یہاں ایک رات قیام کی اجازت دے رہاہوں ، لیکن دھیان رہے
صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جانا، میں دوبارہ تمہاری صور ت نہیں دیکھنا چاہتا“
ہمیشہ سے اسی طرح تو ہوتا آیاہے ، جتنا
آپ سچ بولو گے ، اتنا ہی لوگ آپ سے نفرت کریں گے۔ اور ہاں جتنا آپ محبت کا تذکرہ کریں
، اتنی ہی نفرت کا نشانہ بنیں گے ۔
شاگرد
بغداد اپریل 1242
میں نے منصف کو درسگاہ کے بیرونی راستے تک جانے میں مدد دی اور خوداس مرکزی کمرے میں برتن جمع کرنے چل نکلا ۔مجھے یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کہ جس حا لت میں اس آوارہ درویش اوربابازمان کو چھوڑ گیا تھا وہ دونوں اسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے امید تھی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے کچھ نہیں کہا ہو گا۔اپنی آنکھ کے کنارے سے میں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ آیا یہ ممکن ہے کہ دو شخص بناءکچھ کہے سنے ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں ۔مجھے اس دوریش کے متعلق بہت تجسس محسو س ہورہاتھا ، اسی لئے میں جتنی دیر تک وہاںرکنے کا بہانے کر سکتا تھا میں نے کیا۔اس لئے میں نے مختلف کاموں کواپنا ہتھیار بنایا ، جیسا کہ میں نے وہاں پڑے کشن درست کرنا شروع کردے ، اس کے علاوہ کمرے کی صاف ستھرائی کی اور قالین پر پڑے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جمع کرنا شروع کردیے ۔حتیٰ کے ایک وقت آ گیا جب میرے پاس وہاں رکنے کا کوئی بہانہ باقی موجود نہیںتھا ۔اسی لئے میں بے دلی سے/ غمگین ہوتے ہوئے باورچی خانے چلا گیا ۔ادھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے ،مجھے دیکھتے ہی باورچی نے اپنے کاموں کی بوجھاڑ شروع کردی ”میز کو صاف کرو، فرش کی بھی صفائی کرو ، برتن بھی دھو دینا ، چولہے پر سے بھی گند اٹھا لینا ،گرل کے اردگرد دیواروں کو صاف کرلینا ۔آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب تم یہ سب کام کر لو تو مہربانی کرکے چوہوں کا پنجرہ / چوہوں کو قابو کرنے والا صاف کرنا نہ بھولنا۔مجھے اس درسگاہ میں آئے ہوئے تقریباً چھے ماہ ہوچکے ہیںاور تب سے یہ باورچی مجھ پر یونہی ظلم کرتا آرہاتھا ۔ وہ شخص مجھ سے پورا دن کتوں کی طرح کام کرواتا اور کہتا ہے کہ یہ میری روحانی تربیت کا حصہ ہے ۔ بھلا گندی پیالیاں صاف کرنا روحانیت کا حصہ کسی طرح گردانا جا سکتا ہے ؟
اس کے پاس کہنے کو چند چیدہ چیدہ الفا ظ تھے جنہیں وہ اکثر کہا کرتا تھا جیسے ” صفائی رکھنا عبادت ہے اور عبادت کرنا صفائی ہے “
ایک دن میں نے کہنے کی جسارت کر ہی لی کہ ”اگر یہ درست ہوتا تو آج بغداد شہر کی تمام گھریلو خواتین روحا نی قائد ہوتیں “
یہ سن کی انہوں نے میرے سر پر لکڑی کاچمچہ دے مارا اور مجھ پراتنی زور سے چلایا جتنی زور سے چلا سکتاتھا۔بیٹا اس طرح کی زبان درازی تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی ۔اگر تم ایک اچھے درویش بننا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو کہ اتنے خاموش ہو جاؤ جتنا ایک لکڑی کا چمچ ہوتا ہے ۔ایک شاگرد میں بغاوت کے جذبات پائے جانا کوئی اچھا عمل نہیں ہے ”کم بولو ، تاکہ تم جلدی سیکھ جاو“
میں اسے نفرت کرتا تھا، مگر اس سے زیادہ میں اس سے ڈرتا تھا۔میںنے اس کے احکامات کا کبھی انکار نہیں کیا تھا ، تاہم اس شام میں نے یہ کرنے کی ہمت کر ہی لی ۔جیسے ہی میں وہ اس کمرے سے باہر گیا میں فوراً مرکزی کمرے میں جا پہنچا تاکہ ان دونوں کی مزید بات چیت سن سکوں ۔مجھے اس درویش کے متعلق تجس محسوس ہورہا تھا، وہ کون تھا ، وہ کہاں سے آیا تھا ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس درسگاہ میں اس جیسا کوئی نہ تھا ۔
اس کی آنکھیں غضیلی، آپ سے باہر اورخوفناک دکھائی دیتی تھیں ، یہاں تک کہ جب وہ اپنا سرانکساری میں بھی جھکاتا تب بھی وہ اسی طرح کا معلوم ہوتا تھا۔وہ کچھ غیر معمولی انسان تھا ، جس کے متعلق کچھ انکشاف کرنا بھی بہت مشکل تھا ،وہ کسی کو ڈرا دینے کے لئے کافی تھا۔میں نے جاسوسی کے سے اندازمیں دروازے کے سوراخ میں سے جھانکا ۔پہلی مرتبہ دیکھنے سے تو مجھے کچھ دکھائی نہیںدیا،لیکن جلد ہی میری آنکھیوں۔۔ اور میں ان کے چہرے دیکھ سکتا تھا۔
میں نے اس وقت استاد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”شمس مجھے یہ بتاؤ کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو تم جیسے شخص کوبغداد کھینچ لائی ۔ کیا تم نے یہ جگہ خواب میں دیکھی تھی ۔
درویش نے اپنا سر ہلایا ،یہ خواب نہیں تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ، بلکہ یہ میرا کشف تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ۔مجھے خواب نظر نہیں آتے ۔
”خواب تو سب کو ہی نظر آتے ہیں ، بابا زمان نے مہربان انداز میں سوال کیا۔”مجھے یوں معلوم ہوتا کہ تم اپنے خواب بھول جاتے ہو، اسی لئے تمہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم خواب نہیں دیکھ پاتے ہو۔
لیکن مجھے خواب نظر نہیں آتے ہیں ، درویش نے اپنی بات زور دیتے ہوئے کہی ۔ جب میںچھوٹا تھا تب مجھے فرشے دکھائی دیتے تھے ، مجھے کائنات کی پراسراس چیزیں اپنی آنکھوںکے سامنے دکھائی دیتی تھیں ۔جب میں نے یہ سب کچھ اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ میری باتوں سے ناراض ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ میں خواب دیکھنا بند کردوں۔جب میں نے یہ راز اپنے دوستوں کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی یہی تھا۔ان کے مطابق میں ایک مایوس شخص ہوںجو کہ خواب دیکھنے کا عادی ہوں۔جب میں یہ سب کچھ اپنے اساتذہ کرام کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی کچھ مختلف نہیں تھا ۔
تب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جب لوگ کچھ غیر معمولی چیزیں دیکھتے ہیں تو وہ اسے خواب کا نام دیتے ہیں۔پھر کچھ یوں کہ ان باتوں کے باعث مجھے دنیا اور اس کی چیزوں سے نفرت ہو گئی “
یہ کہتے ہوئے درویش رکا جیسے اس نے کوئی اچکانک غیر معمولی آوا ز سن لی تھی ۔
اس وقت یہ ایک عجیب تری واقعہ رونما ہوا ،وہ کھڑا ہوا اور اپنی ریڑھ کی ہڈی کی سیدھ میں چل پڑا ،اور وہ آہستگی سے دروازے کی طرف چلتا ہوا آیا۔اس وقت وہ میری سید ھ میں ہی دیکھ رہا تھا۔
اسے دیکھ کہ یوں لگ رہا تھا کہ گویا اسے معلوم تھا کہ اس وقت کوئی اس کی جانب جاسوسی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔
اس انوکھے انسان کو دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہواجیسے کہ وہ لکڑی کے دوروازے کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔میرا دل اس وقت برے طریقے سے دہل رہا تھا۔میں اس وقت باورچی کھانے کی جانب بھاگنا چاہتا تھا ، لیکن اس وقت میری ٹانگیں ،میرے ہاتھ پاو¿ں اور پورا جسم پتھر کا بن گیا تھا، میں اپنے جسم کو حرکت ہی نہ دے پایا۔اس لکڑی کے دروازے کے پار شمس کی آنکھیں مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔میں اس وقت ڈرا ہوا تھا، پھر بھی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ توانائی کی وافر مقدار میرے جسم میں گردش کررہی ہے۔اتنے میں وہ دروازے کے قریب پہنچ گیا اور اپنا ہاتھ دروازے کی کنڈی پر رکھ دیا۔وہ اس بات کے قریب تھاکہ دروازہ کھولے اور مجھے دبوچ لے تاہم ناجانے اس وقت ایسا کیا ہوا کہ وہ اس نے ایسا نہیں کیا۔آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روک دیا۔میں اتنے قریب سے اس کا چہرہ بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا اور میں یہ نہیں جاناتا تھا کہ آکر کیا چیز تھی تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس مشکل اور طویل لمحے کے ختم ہونے کا انتظارکیا۔
اس کے بعد اس نے اپنی جگہ واپسی کا رخ کیا اور وہ بابا زمان کے پاس اپنی داستان سنانے دوبارہ چل دیا ۔
”جب میں تھوڑا بڑا ہوا میں نے خدا سے دعا مانگی کہ میرے خالق مجھے سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چھین لے۔۔۔۔
وہ میری بات سے متفق ہوگیا،اس نے میری یہ صلاحیت چھین لی اور اسی لئے مجھے اب خواب دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
شمس تبریزی اس وقت اس کھڑکی کے دہانے کھڑا ہوگیا۔ اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور کچھ کہنے سے قبل اس نے اس نظارے کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھا ۔
اگرچہ اس نے مجھ سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چین لی ہے تاہم اس کے بدلے اس نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہے کہ میں خوابوں کی تعبیر بیان کرسکتا ہوں۔میں اب ایک خواب کی تعبیر بیان کرنے والا گردانا جاسکتا ہوں“
مجھے اس وقت بابا زمان سے یہ امید تھی کہ وہ اس بد عقل کی بات کا اعتبار نہ کریں اور اسے اس طرح ماریں جس طرح مجھے ہر وقت مارتے ہیں۔
لیکن میری خواہشات کے برعکس بابا زمان نے نہایت ادب سے اس سے درہافت کیا کہ تم مجھے ایک معز ز اور غیر معمولی انسان دکھائی دیتے ہو ۔مجھے بتاو¿ اس ضمن میں میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟
درحقیقت میں یہ نہیں جانتا ، بلکہ میں آپ سے یہ امید رکھ رہاہوں کہ آپ مجھے بتائیں ۔
تمہارا کیا مطلن ہے ؟استاد نے دریافت کیا ،اس وقت استاد کی آواز قدرے سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔
تقریباً چالیس سالوں سے ، میں ایک آوارہ درویش ہوں ،میں قدرت کی کئی چیزوں کے متعلق مہارت رکھتا ہوں تاہم اس معاشرے کے طور طریقے میرے لئے ابھی بھی اجنبی ہیں۔ضرورت پڑنے پر میں ایک جنگلی جانور کی طرح لڑ بھی سکتا ہوں، لیکن میں اپنے آپ کو زیادہ دیر تک تکلیف میں نہیں رکھ سکتاہوں۔
میں آسمان پر موجود ستاروں کے جھرمٹ کا نام بتا سکتا ہوں ، میں جگلوں میں موجود درختوں کے نام بیان کرسکتاہوں۔میں ہر طرح کے انسانوں کی کھلی کتاب کی مانند پڑھ سکتا ہوں ، جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنے عکس کے طور پر پیدا کیا ہے ۔شمس رکا اور بابا زمان کا انتظار کرنے لگا ، جو چراغکوروشن کررہے تھے۔
´خدا کی ذات کسی مندر ، گرجا گھر یا صومعے تک محدود نہیں بلکہ تم اس کی نشانیاں کائنات کی ہر شے اور ہر شخص میں دیکھ سکتے ہو۔تاہم اس کے باوجود تمہاری پیاس پھر بھی برقرار رہے تو اسے اس انسان کے دل میں تلاش کرو جو اس کی پاک ذات کوسچے دل سے چاہتا ہو۔
اس دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو اسے دیکھنے کے بعد مر سکتا ہو ، بالک اسی طرح جیسے اسے دیکھنے کے بعد کوئی ابدی نیند نہ سویا ہو۔جو اسے جانچ لیتا ہے وہ ہمیشہ اس کی ذات کے ساتھ منسلک رہتا ہے ۔
اس مدھم اور ٹمٹماتی روشنی میں شمس تبریزی اور بھی زیادہ لمبے لگ رہے تھے ،ان کے بال بے ترتیبی سے ان کا کاندھوں پر گرے ہوئے تھے ۔
”لیکن علم و حکمت تو کسی پرانے گلدان کی تہہ میں موجود کھارے پانی کی مانند ہے حتیٰ کہ وہ کسی دوسری جگہ نہ بہہ جائے “
کئی سالوں سے میں اس کی ذات سے سے ایک ساتھی کی دعا مانگ رہا ہوں جس کو میں اپنے علم و حکمت بتاو¿ں جو میرے پاس موجود ہے ۔جن دنوںمیں سمر قند میں موجود تھا ، تب میں نے ایک ”کشف “ دیکھا تھا۔مجھے سمجھایاگیاتھا کہ میں بغداد جاں اور وہاں جا کراپنا ساتھی تلاش کروں۔
میں سمجھا تھا کہ آپ کو میرے ساتھ کا نام ضرور معلوم ہوگایا اس کے آس پاس اور مجھے بتاوں گا ، اگر تمہیں اب معلوم نہیں تو جب بھی ہوا تو بتانا“(need to read it)
باہر رات کا اندھیرا چھا چکا تھا ،چاند کی روشنی کھڑکی کے سوراخوں سے باہر آرہی تھی اور پورے کمرے میں پھیل چکی تھی ۔تب مجھے معلوم ہوا کہ کتنی دیر ہو چکی تھی ۔ یقینا باورچی مجھے تلاش کررہا ہوگا مگر مجھے اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں تھی ۔پہلی مرتبہ مجھے قوانین توڑنے میں لطف آرہا تھا ۔
”میں نہیں جانتا کہ تم مجھ سے کس طرح کے جواب کی امید کر رہے ہو ؟“ استاد نے سرگوشی کی ۔”اگر میرے پاس کوئی اس اسی طرح کی معلومات کبھی بھی آئے تو میں تمہیں ضرور پہنچاوں گا ۔تب تک تمہیں یہاں رک کے انتظار کرنا پڑے گا۔اور ہمارا مہمان بن کر رہنا پڑے گا “
یہ سننے کے بعد وہ بابا زمان کے سامنے شکریے کے طور پر جھک گیا اوران کے ہاتھ چومے ۔اس وقت بابازمان نے ان سے ایک عجیب وغریب سوال کیا کہ ”تم نے کہا کہ تم اپنی تمام تر حکمت کسی دوسرے کو دینے جارہے ہو ، تم ایک سچ اپنے ہاتھ میں محفوظ رکھنا چاہتے ہو ، جیسے کہ یہ کوئی قیمتی موتی ہے اور کسی اور کو اس کی پیشکش کرنا چاہتے ہو۔ تاہم روحانی رو سے کسی کو اپنی علم و حکمت دینا کسی انسان کے لئے چھوٹا کام نہیں ہے ۔ تم اس کے بدلے کیا دینا چاہتے ہو؟تم جانتے ہو کہ تم خدا کا غیض وغضب اپنی جانب مول لے رہے ہو؟
استاد کے سوال کے جواب میں اس درویش نے جوجواب دیا ، اسے میں تب تک یاد رکھوں گاجب تک میری سانسیں چلتی رہیں گی ۔اس نے اپنی بھنویں اٹھائیں ، اور مضبوطی سے کہا ”میں اپنا سر پیش کرنے کا خواہاں ہوں“
اس کا جواب سن کے میںکانپ اٹھا ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری ریڑھ ی ہڈی کی طرف سے مجھے (kindly complete this)
جب میں نے اپنی نظریں اس سوراخ کی جانب متوجہ کی تومیں نے محسوس کیا کہ استادبھی اسی طرح ڈر سے کانپ اٹھا ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ ہم آج کیلئے خاطر خواہ بات کر چکے ہیں ۔بابا زمان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، تم ضرورتھک چکے ہو گے ۔مجھے شاگرد کو طلب کرنے دو تاکہ وہ آپ کو سونے کی جگہ مہیا کرسکے اور صاف بستر دے سکے اور آپ کو دودھ کا گلاس دے سکے “
اب شمس تبریزی دروازے کی جانب مڑ چکے تھے ۔میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مجھے ہی گھور رہا تھا۔نہ صرف دیکھ رہا رہا تھا بلکہ مجھے تو یوں بھی محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ مجھے دروازے پار اتنے غور سے ت رہا ہے کہ گویا وہ میری روح کی اچھی اور بری چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کررہاتھا، وہ راز میرے اندر سے تلاش کررہا تھا جوکہ مجھ پر بھی عیاں نہیں تھے ،شایدوہ کالے جادو کا علم جانتا تھا ۔ یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ ہاروت اور ماروت سے تربیت یافتہ ہو ، وہی دو فرشتے جو بابل (قدیم عراق) میں اللہ کے حکم سے موجود تھے ۔ وہی جن سے دور رہنے کا حکم ہمیں قرآن دیتا ہے ، یاپھر اس کے پاس ملکوتی قوت ہے جس کے ذریعے وہ دروازے پار دیکھ سکتا ہے ۔ہر صورت میں وہ مجھے ڈرانے کا سبب بن رہاتھا ۔
شاگرد کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،اس نے کہا۔ جب وہ ان الفا ظ کی ادائیگی کررہاتھا تھا تو اس کی آواز قدرے اونچی ہو گئی ۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کہ وہ بہت پاس ہے اور ہمیں قریب سے سن رہا ہے ۔
وہ جگہ چھوڑتے ہوئے میں نے اس قدر اونچی چیخ ماری کے شاید قبر کے اندر موجود مردے بھی خوف و ہراس سے اٹھ بیٹھتے ۔
اس کے بعد میں تیزی سے باغ کی جانب بھاگا اوراندھیرے میں کوئی محفوظ مقام تلاش کیا۔تاہم اس جگہ میرے لئے نا خوشگوار چیز انتظار کر رہی تھی ۔تو تم یہاں ہوں چھوٹے بدمعاش! وہ میرے پیچھے صفائی ستھرائی کرنے والا جھاڑو لے کر بھاگا۔تم اب ایک بہت بڑی مشکل میں پھنس چکے ہو۔
میں جھاڑو سے بچتے ہوئے دوسری طرف بھاگا۔
ادھر آؤ ، ورنہ میں تمہاری ہڈیا ں / ٹانگیں توڑ دوں گا ۔پکوان میرے پیچھے بھاگتے ہوئے چلایا،
لیکن میںنے ہار نہیں مانی ، اور میں باغ کی جانب اتنی تیزی سے بھاگا جتنا میں بھاگ سکتا تھا۔اس وقت شمس تبریزی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ٹمٹمانا شروع ہو گیا۔میںبل کھاتی ہوئی پگڈنڈی کے ساتھ تیز ی سے بھاگتا رہا جو کہ درسگاہ کو مرکزی سڑک سے جوڑتی تھی اور بھاگتا بھاگتامیں بہت دور چلا گیا۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ میں اپنے آپ کو بھاگنے سے روک نہیں سکتاتھا ۔میرا دل دہلنے لگ گیا ،میرا گلہ خشک ہو گیا ،میں اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک میر ی ٹانگوں (گھٹنوں) نے جواب نہیں دے دیا ،اور میرے اندربھاگنے کی سکت ختم ہو گئی تھی۔