محبت کے چالیس اصول
محبت کے چالیس اصول
Mar 14, 2018
(دوسری قسط) A Novel by Ellif Shafaque
The Forty Rules of Love(Novel)
Writer - Ellif Shafaque
محبت کےچالیس اصول
مترجم - نعیم اشرف
(دوسری قسط )
Novice 56 to 60
شاگردبغداد اپریل 1242میں نے منصف کو درسگاہ کے بیرونی راستے تک جانے میں مدد دی اور خوداس مرکزی کمرے میں برتن جمع کرنے چل نکلا ۔مجھے یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کہ جس حا لت میں اس آوارہ درویش اوربابازمان کو چھوڑ گیا تھا وہ دونوں اسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے امید تھی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے کچھ نہیں کہا ہو گا۔اپنی آنکھ کے کنارے سے میں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ آیا یہ ممکن ہے کہ دو شخص بناءکچھ کہے سنے ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں ۔مجھے اس دوریش کے متعلق بہت تجسس محسو س ہورہاتھا ، اسی لئے میں جتنی دیر تک وہاںرکنے کا بہانے کر سکتا تھا میں نے کیا۔اس لئے میں نے مختلف کاموں کواپنا ہتھیار بنایا ، جیسا کہ میں نے وہاں پڑے کشن درست کرنا شروع کردے ، اس کے علاوہ کمرے کی صاف ستھرائی کی اور قالین پر پڑے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جمع کرنا شروع کردیے ۔حتیٰ کے ایک وقت آ گیا جب میرے پاس وہاں رکنے کا کوئی بہانہ باقی موجود نہیںتھا ۔اسی لئے میں بے دلی سے/ غمگین ہوتے ہوئے باورچی خانے چلا گیا ۔ادھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے ،مجھے دیکھتے ہی باورچی نے اپنے کاموں کی بوجھاڑ شروع کردی ”میز کو صاف کرو، فرش کی بھی صفائی کرو ، برتن بھی دھو دینا ، چولہے پر سے بھی گند اٹھا لینا ،گرل کے اردگرد دیواروں کو صاف کرلینا ۔آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب تم یہ سب کام کر لو تو مہربانی کرکے چوہوں کا پنجرہ / چوہوں کو قابو کرنے والا صاف کرنا نہ بھولنا۔مجھے اس درسگاہ میں آئے ہوئے تقریباً چھے ماہ ہوچکے ہیںاور تب سے یہ باورچی مجھ پر یونہی ظلم کرتا آرہاتھا ۔ وہ شخص مجھ سے پورا دن کتوں کی طرح کام کرواتا اور کہتا ہے کہ یہ میری روحانی تربیت کا حصہ ہے ۔ بھلا گندی پیالیاں صاف کرنا روحانیت کا حصہ کسی طرح گردانا جا سکتا ہے ؟اس کے پاس کہنے کو چند چیدہ چیدہ الفا ظ تھے جنہیں وہ اکثر کہا کرتا تھا جیسے ” صفائی رکھنا عبادت ہے اور عبادت کرنا صفائی ہے “ایک دن میں نے کہنے کی جسارت کر ہی لی کہ ”اگر یہ درست ہوتا تو آج بغداد شہر کی تمام گھریلو خواتین روحا نی قائد ہوتیں “یہ سن کی انہوں نے میرے سر پر لکڑی کاچمچہ دے مارا اور مجھ پراتنی زور سے چلایا جتنی زور سے چلا سکتاتھا۔بیٹا اس طرح کی زبان درازی تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی ۔اگر تم ایک اچھے درویش بننا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو کہ اتنے خاموش ہو جاو ¿ جتنا ایک لکڑی کا چمچ ہوتا ہے ۔ایک شاگرد میں بغاوت کے جذبات پائے جانا کوئی اچھا عمل نہیں ہے ”کم بولو ، تاکہ تم جلدی سیکھ جاؤ“میں اسے نفرت کرتا تھا، مگر اس سے زیادہ میں اس سے ڈرتا تھا۔میںنے اس کے احکامات کا کبھی انکار نہیں کیا تھا ، تاہم اس شام میں نے یہ کرنے کی ہمت کر ہی لی ۔جیسے ہی میں وہ اس کمرے سے باہر گیا میں فوراً مرکزی کمرے میں جا پہنچا تاکہ ان دونوں کی مزید بات چیت سن سکوں ۔مجھے اس درویش کے متعلق تجس محسوس ہورہا تھا، وہ کون تھا ، وہ کہاں سے آیا تھا ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس درسگاہ میں اس جیسا کوئی نہ تھا ۔اس کی آنکھیں غضیلی، آپ سے باہر اورخوفناک دکھائی دیتی تھیں ، یہاں تک کہ جب وہ اپنا سرانکساری میں بھی جھکاتا تب بھی وہ اسی طرح کا معلوم ہوتا تھا۔وہ کچھ غیر معمولی انسان تھا ، جس کے متعلق کچھ انکشاف کرنا بھی بہت مشکل تھا ،وہ کسی کو ڈرا دینے کے لئے کافی تھا۔میں نے جاسوسی کے سے اندازمیں دروازے کے سوراخ میں سے جھانکا ۔پہلی مرتبہ دیکھنے سے تو مجھے کچھ دکھائی نہیںدیا،لیکن جلد ہی میری آنکھیوں۔۔ اور میں ان کے چہرے دیکھ سکتا تھا۔میں نے اس وقت استاد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”شمس مجھے یہ بتاو ¿ کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو تم جیسے شخص کوبغداد کھینچ لائی ۔ کیا تم نے یہ جگہ خواب میں دیکھی تھی ۔درویش نے اپنا سر ہلایا ،یہ خواب نہیں تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ، بلکہ یہ میرا کشف تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ۔مجھے خواب نظر نہیں آتے ۔”خواب تو سب کو ہی نظر آتے ہیں ، بابا زمان نے مہربان انداز میں سوال کیا۔”مجھے یوں معلوم ہوتا کہ تم اپنے خواب بھول جاتے ہو، اسی لئے تمہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم خواب نہیں دیکھ پاتے ہو۔لیکن مجھے خواب نظر نہیں آتے ہیں ، درویش نے اپنی بات زور دیتے ہوئے کہی ۔ جب میںچھوٹا تھا تب مجھے فرشے دکھائی دیتے تھے ، مجھے کائنات کی پراسراس چیزیں اپنی آنکھوںکے سامنے دکھائی دیتی تھیں ۔جب میں نے یہ سب کچھ اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ میری باتوں سے ناراض ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ میں خواب دیکھنا بند کردوں۔جب میں نے یہ راز اپنے دوستوں کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی یہی تھا۔ان کے مطابق میں ایک مایوس شخص ہوںجو کہ خواب دیکھنے کا عادی ہوں۔جب میں یہ سب کچھ اپنے اساتذہ کرام کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی کچھ مختلف نہیں تھا ۔تب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جب لوگ کچھ غیر معمولی چیزیں دیکھتے ہیں تو وہ اسے خواب کا نام دیتے ہیں۔پھر کچھ یوں کہ ان باتوں کے باعث مجھے دنیا اور اس کی چیزوں سے نفرت ہوگئی “یہ کہتے ہوئے درویش رکا جیسے اس نے کوئی اچکانک غیر معمولی آوا ز سن لی تھی ۔اس وقت یہ ایک عجیب تری واقعہ رونما ہوا ،وہ کھڑا ہوا اور اپنی ریڑھ کی ہڈی کی سیدھ میں چل پڑا ،اور وہ آہستگی سے دروازے کی طرف چلتا ہوا آیا۔اس وقت وہ میری سید ھ میں ہی دیکھ رہا تھا۔اسے دیکھ کہ یوں لگ رہا تھا کہ گویا اسے معلوم تھا کہ اس وقت کوئی اس کی جانب جاسوسی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔اس انوکھے انسان کو دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہواجیسے کہ وہ لکڑی کے دوروازے کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔میرا دل اس وقت برے طریقے سے دہل رہا تھا۔میں اس وقت باورچی کھانے کی جانب بھاگنا چاہتا تھا ، لیکن اس وقت میری ٹانگیں ،میرے ہاتھ پاو ¿ں اور پورا جسم پتھر کا بن گیا تھا، میں اپنے جسم کو حرکت ہی نہ دے پایا۔اس لکڑی کے دروازے کے پار شمس کی آنکھیں مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔میں اس وقت ڈرا ہوا تھا، پھر بھی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ توانائی کی وافر مقدار میرے جسم میں گردش کررہی ہے۔اتنے میں وہ دروازے کے قریب پہنچ گیا اور اپنا ہاتھ دروازے کی کنڈی پر رکھ دیا۔وہ اس بات کے قریب تھاکہ دروازہ کھولے اور مجھے دبوچ لے تاہم ناجانے اس وقت ایسا کیا ہوا کہ وہ اس نے ایسا نہیں کیا۔آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روک دیا۔میں اتنے قریب سے اس کا چہرہ بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا اور میں یہ نہیں جاناتا تھا کہ آکر کیا چیز تھی تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ہم نے اس مشکل اور طویل لمحے کے ختم ہونے کا انتظارکیا۔اس کے بعد اس نے اپنی جگہ واپسی کا رخ کیا اور وہ بابا زمان کے پاس اپنی داستان سنانے دوبارہ چل دیا ۔”جب میں تھوڑا بڑا ہوا میں نے خدا سے دعا مانگی کہ میرے خالق مجھے سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چھین لے۔۔۔۔وہ میری بات سے متفق ہوگیا،اس نے میری یہ صلاحیت چھین لی اور اسی لئے مجھے اب خواب دکھائی نہیں دیتے ہیں۔شمس تبریزی اس وقت اس کھڑکی کے دہانے کھڑا ہوگیا۔ اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور کچھ کہنے سے قبل اس نے اس نظارے کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھا ۔اگرچہ اس نے مجھ سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چین لی ہے تاہم اس کے بدلے اس نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہے کہ میں خوابوں کی تعبیر بیان کرسکتا ہوں۔میں اب ایک خواب کی تعبیر بیان کرنے والا گردانا جاسکتا ہوں“مجھے اس وقت بابا زمان سے یہ امید تھی کہ وہ اس بد عقل کی بات کا اعتبار نہ کریں اور اسے اس طرح ماریں جس طرح مجھے ہر وقت مارتے ہیں۔لیکن میری خواہشات کے برعکس بابا زمان نے نہایت ادب سے اس سے درہافت کیا کہ تم مجھے ایک معز ز اور غیر معمولی انسان دکھائی دیتے ہو ۔مجھے بتاو ¿ اس ضمن میں میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟درحقیقت میں یہ نہیں جانتا ، بلکہ میں آپ سے یہ امید رکھ رہاہوں کہ آپ مجھے بتائیں ۔تمہارا کیا مطلن ہے ؟استاد نے دریافت کیا ،اس وقت استاد کی آواز قدرے سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔تقریباً چالیس سالوں سے ، میں ایک آوارہ درویش ہوں ،میں قدرت کی کئی چیزوں کے متعلق مہارت رکھتا ہوں تاہم اس معاشرے کے طور طریقے میرے لئے ابھی بھی اجنبی ہیں۔ضرورت پڑنے پر میں ایک جنگلی جانور کی طرح لڑ بھی سکتا ہوں، لیکن میں اپنے آپ کو زیادہ دیر تک تکلیف میں نہیں رکھ سکتاہوں۔میں آسمان پر موجود ستاروں کے جھرمٹ کا نام بتا سکتا ہوں ، میں جگلوں میں موجود درختوں کے نام بیان کرسکتاہوں۔میں ہر طرح کے انسانوں کی کھلی کتاب کی مانند پڑھ سکتا ہوں ، جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنے عکس کے طور پر پیدا کیا ہے ۔شمس رکا اور بابا زمان کا انتظار کرنے لگا ، جو چراغکوروشن کررہے تھے۔´خدا کی ذات کسی مندر ، گرجا گھر یا صومعے تک محدود نہیں بلکہ تم اس کی نشانیاں کائنات کی ہر شے اور ہر شخص میں دیکھ سکتے ہو۔تاہم اس کے باوجود تمہاری پیاس پھر بھی برقرار رہے تو اسے اس انسان کے دل میں تلاش کرو جو اس کی پاک ذات کوسچے دل سے چاہتا ہو۔اس دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو اسے دیکھنے کے بعد مر سکتا ہو ، بالک اسی طرح جیسے اسے دیکھنے کے بعد کوئی ابدی نیند نہ سویا ہو۔جو اسے جانچ لیتا ہے وہ ہمیشہ اس کی ذات کے ساتھ منسلک رہتا ہے ۔اس مدھم اور ٹمٹماتی روشنی میں شمس تبریزی اور بھی زیادہ لمبے لگ رہے تھے ،ان کے بال بے ترتیبی سے ان کا کاندھوں پر گرے ہوئے تھے ۔”لیکن علم و حکمت تو کسی پرانے گلدان کی تہہ میں موجود کھارے پانی کی مانند ہے حتیٰ کہ وہ کسی دوسری جگہ نہ بہہ جائے “کئی سالوں سے میں اس کی ذات سے سے ایک ساتھی کی دعا مانگ رہا ہوں جس کو میں اپنے علم و حکمت بتاو ں جو میرے پاس موجود ہے ۔جن دنوںمیں سمر قند میں موجود تھا ، تب میں نے ایک ”کشف “ دیکھا تھا۔مجھے سمجھایاگیاتھا کہ میں بغداد جاؤ ں اور وہاں جا کراپنا ساتھی تلاش کروں۔میں سمجھا تھا کہ آپ کو میرے ساتھ کا نام ضرور معلوم ہوگایا اس کے آس پاس اور مجھے بتاو گے ، اگر تمہیں اب معلوم نہیں تو جب بھی ہوا تو بتانا“باہر رات کا اندھیرا چھا چکا تھا ،چاند کی روشنی کھڑکی کے سوراخوں سے باہر آرہی تھی اور پورے کمرے میں پھیل چکی تھی ۔تب مجھے معلوم ہوا کہ کتنی دیر ہو چکی تھی ۔
یقینا باورچی مجھے تلاش کررہا ہوگا مگر مجھے اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں تھی ۔پہلی مرتبہ مجھے قوانین توڑنے میں لطف آرہا تھا ۔”میں نہیںجانتا کہ تم مجھ سے کس طرح کے جواب کی امید کر رہے ہو ؟“ استاد نے سرگوشی کی ۔”اگر میرے پاس کوئی اس اسی طرح کی معلومات کبھی بھی آئے تو میں تمہیں ضرور پہنچاو ں گا ۔تب تک تمہیں یہاں رک کے انتظار کرنا پڑے گا۔اور ہمارا مہمان بن کر رہنا پڑے گا “یہ سننے کے بعد وہ بابا زمان کے سامنے شکریے کے طور پر جھک گیا اوران کے ہاتھ چومے ۔اس وقت بابازمان نے ان سے ایک عجیب وغریب سوال کیا کہ ”تم نے کہا کہ تم اپنی تمام تر حکمت کسی دوسرے کو دینے جارہے ہو ، تم ایک سچ اپنے ہاتھ میں محفوظ رکھنا چاہتے ہو ، جیسے کہ یہ کوئی قیمتی موتی ہے اور کسی اور کو اس کی پیشکش کرنا چاہتے ہو۔ تاہم روحانی رو سے کسی کو اپنی علم و حکمت دینا کسی انسان کے لئے چھوٹا کام نہیں ہے ۔ تم اس کے بدلے کیا دینا چاہتے ہو؟تم جانتے ہو کہ تم خدا کا غیض وغضب اپنی جانب مول لے رہے ہو؟استاد کے سوال کے جواب میں اس درویش نے جوجواب دیا ، اسے میں تب تک یاد رکھوں گاجب تک میری سانسیں چلتی رہیں گی ۔اس نے اپنی بھنویں اٹھائیں ، اور مضبوطی سے کہا ”میں اپنا سر پیش کرنے کا خواہاں ہوں“اس کا جواب سن کے میں کانپ اٹھا ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی .میں نے جب میں نے اپنی نظریں اس سوراخ کی جانب متوجہ کی تومیں نے محسوس کیا کہ استادبھی اسی طرح ڈر سے کانپ اٹھا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم آج کیلئے خاطر خواہ بات کر چکے ہیں ۔بابا زمان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، تم ضرورتھک چکے ہو گے ۔مجھے شاگرد کو طلب کرنے دو تاکہ وہ آپ کو سونے کی جگہ مہیا کرسکے اور صاف بستر دے سکے اور آپ کو دودھ کا گلاس دے سکے “اب شمس تبریزی دروازے کی جانب مڑ چکے تھے ۔میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مجھے ہی گھور رہا تھا۔نہ صرف دیکھ رہا رہا تھا بلکہ مجھے تو یوں بھی محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ مجھے دروازے پار اتنے غور سے دیکھ رہا ہے کہ گویا وہ میری روح کی اچھی اور بری چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کررہاتھا، وہ راز میرے اندر سے تلاش کررہا تھا جوکہ مجھ پر بھی عیاں نہیں تھے ،شایدوہ کالے جادو کا علم جانتا تھا ۔ یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ ہاروت اور ماروت سے تربیت یافتہ ہو ، وہی دو فرشتے جو بابل (قدیم عراق) میں اللہ کے حکم سے موجود تھے ۔ وہی جن سے دور رہنے کا حکم ہمیں قرآن دیتا ہے ، یاپھر اس کے پاس ملکوتی قوت ہے جس کے ذریعے وہ دروازے پار دیکھ سکتا ہے ۔ہر صورت میں وہ مجھے ڈرانے کا سبب بن رہاتھا ۔شاگرد کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،اس نے کہا۔ جب وہ ان الفا ظ کی ادائیگی کررہاتھا تھا تو اس کی آواز قدرے اونچی ہو گئی ۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کہ وہ بہت پاس ہے اور ہمیں قریب سے سن رہا ہے ۔وہ جگہ چھوڑتے ہوئے میں نے اس قدر اونچی چیخ ماری کے شاید قبر کے اندر موجود مردے بھی خوف و ہراس سے اٹھ بیٹھتے ۔اس کے بعد میں تیزی سے باغ کی جانب بھاگا اوراندھیرے میں کوئی محفوظ مقام تلاش کیا۔تاہم اس جگہ میرے لئے نا خوشگوار چیز انتظار کر رہی تھی ۔تو تم یہاں ہوں چھوٹے بدمعاش! وہ میرے پیچھے صفائی ستھرائی کرنے والا جھاڑو لے کر بھاگا۔تم اب ایک بہت بڑی مشکل میں پھنس چکے ہو۔میں جھاڑو سے بچتے ہوئے دوسری طرف بھاگا۔ادھر آو ، ورنہ میں تمہاری ہڈیا ں / ٹانگیں توڑ دوں گا ۔پکوان میرے پیچھے بھاگتے ہوئے چلایا،لیکن میں نے ہار نہیں مانی ، اور میں باغ کی جانب اتنی تیزی سے بھاگا جتنا میں بھاگ سکتا تھا۔اس وقت شمس تبریزی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ٹمٹمانا شروع ہو گیا۔میں بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی کے ساتھ تیز ی سے بھاگتا رہا جو کہ درسگاہ کو مرکزی سڑک سے جوڑتی تھی اور بھاگتا بھاگتامیں بہت دور چلا گیا۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ میں اپنے آپ کو بھاگنے سے روک نہیں سکتاتھا ۔میرا دل دہلنے لگ گیا ،میرا گلہ خشک ہو گیا ،
میں اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک میر ی ٹانگوں (گھٹنوں) نے جواب نہیں دے دیا ،اور میرے اندربھاگنے کی سکت ختم ہو گئی تھی
Ella 61 to 64۔
عیلیٰ نارتھ ایمٹن، 21 May 2008
عیلی کا نامدار شوہر شاید متوقع لڑائی کے لئے پہلے سے ہی تیار تھا، وہ اگلے دن صبح ہی گھر پہنچ گیا تھا۔ اس وقت عیلی اپنے بستر پرسو رہی تھی اور اس کی گود میں معصوم گستاخی کا مسودہ اسی طرح کھلاپڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک خالی گلاس موجود تھا جسے دیکھ کر آسانی سے کہا جا سکتا تھا کہ کہ کچھ گھنٹے قبل اس میں شراب موجود تھی۔ ڈیوڈاس کا کمبل درست کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، تاہم کچھ سوچنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا۔دس منٹ قبل عیلی ٰ جاگ چکی تھی ، اورغسل خانے سے آواز سن کر اسے خاطر خواہ کوئی حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ڈیوڈ اس وقت غسل لے رہا ہوگا ،وہ اس کی اس عادت سے بخوبی واقف تھی ، چاہے وہ دوسری عورتوں سے تعلقات رکھتا تھا تاہم پھر بھی وہ صبح کا غسل اپنے باتھ روم کے علاوہ کہیں نہیں کرتا تھا۔ ڈیوڈ نہانے کے بعد کمرے میں آیا تو اس کو کل رات گھر نہ آنے کی وضاحت اور خجالت سے بچانے کے لئے عیلی ٰنے اس کو یہ تاثر دیا کہ گویاوہ ابھی بھی سورہی تھی ۔
اعیلی ٰ اس وقت باورچی خانے میں اکیلی بیٹھی تھی ، ابھی ایک گھنٹہ قبل ہی اس کا خاوند اوربچے جا چکے تھے ۔نہیں معلوم کے اسے ایساکیوں محسوس ہورہاتھا، تاہم اسے لگ رہا تھا کہ زندگی ایک اپنے مقررہ مدار پر ہی گردش کر رہی تھی ۔ہلکے پھلکے دماغ کے ساتھ اس نے اپنی پسندیدہ کتاب کھولی ، جو کہ کوئی اور نہیں بلکہ آسان پکوان کی تراکیب کی حامل تھی ۔اس نے چونکہ آج کا کھانا بنا نا تھا ، اسی لئے مختلف تراکیب پڑھنے کا آغاز کیا ۔ بہت دیر کھوجنے کے بعد آخر کار اسے ایک ترکیب پسند آئی،جس کی تیاری میں اس کا آدھا دن صرف ہو سکتا تھا ۔ وہ چاہتی بھی یہ ہی تھی کہ ایسا کھانا بنائے جو اسے دوپہر تک مصروف رکھ سکے ۔مچھلی ، ناریل اور سنگترے کا سوپ۔۔تازہ سبزی اور کھمبیوں کا مرغوبہ۔۔سروٹ کے پتوں میں لپیٹ کر سرکے اور لہسن میںبنایا گیابچھڑے کی پسلی کا گوشت۔۔سبز پتوں ، لیموں اور گوبھی کا سلاد جب کہ میٹھے میں گرم چاکلیٹ اور انڈے کا حلوہ۔اب رہا سوال یہ کہ عیلیٰ کوکھانا پکاناکیوں پسند تھا؟ اس کی بہت سی وجوہات تھیں ۔۔۔محض عام اجزاءسے مختلف اقسام کے اورلذیذ کھانے بنانا جہاں ایک طرف اس کے لیے طمانیت اور تسکین کا باعث تھا وہیں دوسری جانب حیران کن طور پر لذت انگیز بھی تھا۔ جو کہ بلاشبہ عجیب و غریب بات تھی۔وہ کھانا پکانا اس لئے بھی پسند کرتی تھی کہ وہ کھانا بنانے میں ماہر تھی،علاوہ ازیں یہ فعل اس کااعصابی تنا و ¿ بھی کم کرتا تھا۔ باورچی خانہ ہی وہ جگہ تھی جہاں وہ باہرکی دنیا سے بے خبر رہتی تھی، گویاکچھ لمحات کیلئے وقت کسی نے مقفل کردیا ہو۔مباشرت کو چشم تصورمیں لا کرعیلی ٰ اکثر سوچا کرتی کہ شاید کچھ لوگوںکو یہ اتنا ہی سکون بخشتا ہوگا جتنا اس کے لیے کھانا پکانا۔ تاہم اس کے لیے دو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کہ کھانا پکانے کے لیے اپنے آپ کوملا کر محض تھوڑا ساوقت ، احتیاط اوراس کی بنانے کیلئے ضروری اشیاءہی تو درکار ہوتی ہیں اور کچھ نہیں۔ جو پیشہ وارانہ پکوان جو ٹیلی وژن پروگراموں میں مختلف کھانوں کی تراکیب سکھاتے ہیں،وہ غالبا ًیہ تاثر دیتے کہ پکانے کا عمل انسان کے اندر خلوص، ترغیب اوراصلیت کی طرف مائل ہونے کے اوصاف پیدا کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ لفظ ”تجربات“ہو تا ہے ۔ عیلی ٰ اس بات سے متفق نہیں تھی۔اس کا خیال تھا کہ تجربات تو سائنسدانوں پر، جب کہ فنون زندگی فن کاروں پر سجتے ہیں۔ کھانا پکانا تو بنیادی باتیں سیکھنے ، ہدایات پر عمل کرنے اور صدیوں پرانی آزمودہ باتوں پر عمل کرنے سے متعلق ہے۔ اسی لئے ہر کسی کو صدیوں پرانی آزمودہ باتوں پر عمل کرنا چاہیے، اور نت نئے تجربوں سے کوسوں میل دوررہنا چاہیے۔ پکانے کا ہنروقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوا، برسوں پرانے طریقہ کار وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے۔جدید دور اگرچہ ان چیزوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھتا، پھر بھی روایتی ہونے میں کوئی قباحت نہیں ۔عیلیٰ اپنی روزمرہ زندگی سے بھی لطف اندوز ہوتی تھی۔ ہر روز صبح سب اکٹھے ناشتہ کرتے، ہفتہ وار چھٹی پرپورا خاندان اپنی پسندیدہ جگہ پر جاتا ہے اورہر ماہ کی پہلی اتوار دوستوں کی دعوت بھی دی جاتی تھی ۔ڈیوڈ کوچونکہ کام کا عارضہ لاحق تھا جس کی وجہ سے وہ باقی کاموں کے لیے بہت کم وقت نکال پاتا، لہٰذاتمام گھریلوکام عیلیٰ کوانجام دیناہوتے تھے۔ بچوں کو پڑھائی میں مدد دینے سے لے کر روپے پیسے کا حساب کتاب، روزمرہ کا کام کاج، گھر کی صفائی اور فرنیچر کی مرمت تک اسنے اپنے ذمے لی ہوئی تھی۔ جمعرات کو وہ فیوژن ککنگ کلب جاتی جہاں پر مختلف ممالک میںرائج کھانے کی تراکیب کومختلف طریقوں سے ےکجا کر کے نئی نئی ترکیب بنانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ پھر دوسری طرف عیلیٰ کا جمعہ کسانوں کے ساتھ گزرتا تھا، جدھر سے یہ مختلف سبزیوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرتی تھی اور خریداری بھی ۔اس کے علاوہ وہ دیگر کام بھی کیا کرتی تھی جیسے سبزی بنانے کا کوئی نیا طریقہ اور کسی نئی نباتات پر گفت وشنید وغیرہ وغیرہ ۔اس کی سبزیوں اور دیگر نباتات کی تلاش ختم نہ ہوتی ، اگر اسے یہاں کھیتوں سے مطلب کی کوئی خاص شے نہ مل پاتی تو واپسی پرہول سیل مارکیٹ سے اٹھا لیتی ۔ ہفتے کو ڈیوڈ اس کو باہر کھانے پر ضرور لے کر جاتا۔یہ دونوں زیادہ تر کسی جاپانی ےاتھائی ریستورا ن کا انتخاب کیا کرتے۔اس کے بعداگر وہ دونوںخاطر خواہ تھکاوٹ کا شکار نہ ہوتے ےاشراب کے نشے میں مکمل طور پر ڈوبے نہ ہوتے ، یا مزیدکچھ کام کرنے کے موڈ میں نہ ہوتے تو بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے قریب بھی آتے تھے۔ تاہم اس قربت میں محبت کم اور دوسرے ساتھی کا خیال زیادہ اہمیت رکھتا تھا ۔بلاشبہ عورت اور مرد کے درمیان یہ تعلق ایک مضبوط بندھن کی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن ان دونوں کے درمیان ےہ چیز اپنی کشش بہت پہلے کئی کھو چکی تھی۔عیلیٰ کو ےہ بھی بھلا نہیں لگتا تھا کہ قربت کا تعلق جو اس کی زندگی میں کبھی بہت زیا دہ اہمیت رکھتا تھا ، وہ اب اس کے زندگی میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے خود کو اتنا ہلکا کیوں محسوس کرتی ہے ۔” طویل ازدواجی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب یہ کشش مانند پڑنے لگتی ہے، ےہ وہ وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ حقیقت پسندانہ اور مضبوط طرزعمل اپنانا چاہیے ۔اب عیلیٰ کو اس مفروضے سے اتفاق سا ہو چلا تھا۔ مسئلہ محض اتنا تھا کہ ڈیوڈ یہ تعلق اس کی بجائے دوسری عورتوں کے ساتھ قائم کرتا آرہاتھا۔عیلی ٰ اس کے غیر ازدواجی تعلقات کے متعلق بخوبی آگاہ تھی تاہم اس نے کبھی اس بات کو لے کر اس سے جھگڑا نہیں کیا تھااور نہ ہی اشایوں کنایوں میں اس غصے کا اظہار کیا تھا۔ اس کے لئے اس بات سے بے خبرہونے کا تاثر دینا بہت ہی آسان تھا کیوں کہ قریبی رشتے دار اور دوست احباب ڈیوڈ کے ان معاملات سے بے خبر تھے۔ نہ تو کوئی بدنامی اس کے ذمے آئی تھی اور نہ ہی ذلت آمیز واقعات زبان زدعام تھے، وہ حیران تھی کہ اس کا شوہر ےہ سب کچھ خفیہ رکھنے میں کیسے کامےاب تھا۔ حالانکہ اس کی زندگی میں ایک کے بعد دوسری عورت نہایت کم عرصے بعد ہی آجاتی تھی،جن میں زیادہ تعداد اس کی جوان ماتحت لڑکیوں کی تھی۔ لیکن اس کا شوہر ایسے کام اتنی رازداری اور خاموشی سے انجام دیتا کہ کسی کو ہوا تک نہ لگتی مگر اتنا تو عیلیٰ بھی جانتی تھی کہ بے وفائی بھی ایک مشک کی مانند ہوتی ہے، جو کبھی مخفی نہیں رہ سکتی۔ جوڑے کی گزشتہ زندگی سے ڈیوڈ کی ان حرکات کا کوئی تعلق تھاتو تب بھی ےہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ پہلے کون سی بات ہوئی اور کون سی بعد میں، ڈیوڈنے غیرازدواجی تعلقات پہلے قائم کیے ،جس کے ردعمل کے طور پر عیلی ٰ اپنی خواہشات سے دست بردار ہوئی ےا پھر اس نے پہلے مباشرت میں دلچسپی چھوڑی جس کے نتیجے میں ڈیوڈ نے دوسری عورتوںمیں دلچسپی لینا شروع کی۔بہر حال اسباب جو بھی تھے، نتیجہ ےہ تھا کہ اب وہ جذبہ ،وہ کشش اور و ہ روشنی ، جس کی مدد سے میاں بیوی نے طویل ازداوجی کے مدو جزرکامےابی سے عبور کئے تھے، اورجوبیس سالہ طویل رفاقت اور تین بچو ںکے باوجود ساتھ چلی تھی ،اب وہ باقی نہیں رہی تھی۔ اگلے تین گھنٹے عیلیٰ کا دماغ کئی پرانی اور نئی ملی جلی سوچوں میں گم تھاجب کہ اس کے ہاتھ مسلسل اپنے شوق کی تکمیل میں چل رہے تھے۔جیسا کہ وہ ساتھ ساتھ ٹماٹر ، لسہن ، پیاز تراش رہی تھی۔ساتھ ہی ساتھ اس نے چٹنی بنائی، مالٹے کے چھلکوں کو رگڑ کر انہیںچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کیا۔ اس نے لگتے ہاتھ آٹا بھی گوندھا تا کہ آج خالص گندم کے آٹے کی چپاتی بن سکے ، جو کہ وہ اکثر اپنا فریضہ سمجھ کر بنایا کرتی تھی ۔ جو کہ وہ اپنی ساس یعنی ڈیوڈ کی ماں کی سنہری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کیا کرتی تھی۔ جب ان دونوں کی نسبت طے ہوئی تو اس موقع پرانہوں نے اس کو سمجھا یا تھا کہ ”مرد کوہمیشہ گھر کی روٹی کی مہک گھر کی یاد دلاتی ہے ، تو میری پیاری بچی !کوشش کرنا کہ اسے ہمیشہ گھر پر بنانا ، کبھی باہر سے منگوانے کی غلطی نہ کرنا، یہ شادی شدہ زندگی کے لئے بہت بڑے بڑے کام کرسکتی ہے۔عیلی ٰ جو کہ صبح سے کام میں مصروف تھی ، سہ پہرتک فارغ ہوکر اس نے کھانے کی ´میزسجائی۔ اسے مزید دلکش بنانے کے لئے اس نے خوشبودار موم بتیاں جلائیں، سرخ اور پیلے پھولوں کا گلدستہ رکھا۔ پھول اس حد تک خوبصورت لگ رہے تھے کہ انہوں دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ گویامصنوعی تھے۔جب ٹیبل سج گیا توےوں لگ رہا تھا کسی میگزین کا صفحہ ہوجس میں جدید اور سٹائلش گھروں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔اب وہ تھکاوٹ سے چور تھی مگر اس کا دل مطمئن تھا۔ اس نے باورچی خانے کا ٹی وی لگایا اور ایک مقامی خبروں سننا شروع کیں ، ایک نوجوان معالج اپنے اپارٹمنٹ میں خنجر سے ہلاک، ہسپتال میں بجلی کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی۔ہائی سکول کے چار طلباءتوڑ پھوڑ کرنے پرگرفتار کر لئے گئے، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔وہ خبریں سنتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ دنیا خطرات سے بھری پڑی ہے اورعزیز زھارا جیسے لوگ کیسے اس دنیا کے غیر ترقی یافتہ مقامات کی سیر کو نکل پڑتے ، کیا انہیں نہیں معلوم کہ یہ ان کی جانوں کیلئے کس حد تک خطرناک ہے؟ آج کل تو امریکہ جیسے ملک کے گاﺅںاورد یہات محفوظ نہیںرہے۔وہ ےہ گتھی سلجھانے سے قاصر تھی کہ ایک انجانا اور ان دیکھا ڈراس کی طرح کے کئی لوگوں کو اس گھر تک محدود رکھتا ہے،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا خطروں سے خالی نہیں ہے۔دوسری جانب عزیز جیسے لوگ ایک جگہ ٹھہر نے کی بجائے نگری نگری پھرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ان جگہوں پر جانا زیادہ اچھا محسوس کرتے ہیں جہاں پراب تک کوئی ذی روح نہیں بھٹکا ۔ رابنسٹن خاندان ٹھیک ساڑھے سات بجے اسی میگزین کی تصویر سے خوبصورت میز پر بیٹھ چکا تھا ۔۔ ایک خیالی میز پر ، جس کا خواب شاید بہت سوں نے دیکھا ہو۔ روشن موم بتیاں ہوا میں ایک دلکش سی خوشبو بکھیر رہی تھیں۔ اگرکوئی انہیںباہر سے دیکھ لے تو یقینا انہیں ےوں محسوس ہوگا کہ گویا ایک مثالی خاندان بیٹھاہواہے ۔اتنااچھا جتنا کھانے سے اٹھتا دھواں اس وقت لگ رھا تھا۔ حتی کہ زینت کی کمی بھی محسوس نہیں ہو رھی تھی۔جب سب کھانے میں مصروف تھے تب عیوی اور عرلی دن بھر کے واقعات ایک دوسرے کو مسلسل سنا رہے تھے۔ عیلیٰ ان بچوں کے بسیار گوہونے پر ان کی ممنون تھی، اس کی وجہ کوئی اور نہیں تھی بلکہ یہی تھی کہ بچے اس کے اورڈیوڈ کے درمیان آج کی متوقع خاموشی کو توڑ رہے تھے۔آنکھ کے کنارے سے، چپکے سے عیلیٰ نے ڈیوڈ کودیکھنے کی کوشش کی، وہ اس وقت اپنے کانٹے کی مدد سے گوبھی کا سلاد کھانے میں مصروف تھا، اس کی نظر پھسل کر اس کے باریک ہونٹوں سے ہوتی ہوئی چہرے پر آ کر رک گئی۔یہ چہرہ ا س کے لئے کس قدر جانا پہچانا تھا اور متعدد بار بوسہ بھی لے چکی تھی۔ پھر وہ چشم تصور سے اس کو دوسری عورت کے ساتھ دیکھنے لگی۔کسی وجہ سے آج اس کے دماغ میں ڈیوڈ کی نوجوان سیکرٹری کا خیال نہیں آیا بلکہ ایک کثیرالجثہ سینے والی عورت آئی جہ سوسن سارندون کی مانند تھی، پہلوانوں کی سی پر اعتماد عورت جس کا نسوانی حسن تنگ لباس کے باعث واضح ہورہاتھا۔ جس نے اونچی ایڑھی کا جوتا پہن رکھا تھا، اور اس نے اپنے چہرے کو بے جامیک اپ کے باعث قوس قزاح کی ماننددکھائی دے رہاتھا ۔اس نے تصور کیا کہ ڈیوڈ اس عورت کے متواتر بوسے لے رہاہے، جس کے باعث اس کے ہونٹ بہت تیزی سے حرکت میں ہیں،اس طرح نہیں جس طرح وہ اب اپنے گھر والوں کے ساتھ کھا رہا ہے۔ عین اس وقت بیٹھے بیٹھے عیلیٰ کے اندر کوئی جھماکا ہوا۔ اس پر دن کی طرح ےہ بات عیاںہو گئی کہ وہ ایک دن سب کچھ تیاگ دے گی۔ وہ اپنا گھر، شوہر، بچے، اسپرٹ ،باورچی خانے اوردسترخوان سجانے میں مدد کرنے والی کتابوں ،حتیٰ کے سب کچھ چھوڑ دے گی۔وہ چپ چاپ اس دنیا میں چلی جائے گی جس کا خاصہ خطرات ہیں۔
ّّٰٰؑؒؑ65 to 66 master.inp
اتالیق بغداد ، 26جنوری
1243اس درسگاہ کاحصہ بننے کیلئے جتنا صبر درکار تھا ، شاید اتنا صبر شمس تبریزی کے پاس موجود نہیں تھا۔مگر اس کے باوجودجانے کیسے نو ماہ گزر چکے ہیں اور وہ ابھی تک ہمارے ساتھ موجود ہے ۔آغاز کے دنوں میں تو مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی وہ اپنا سازہ سامان باندھے گا اور یہاں سے نکل جائے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ باترتیب زند گی سے خار کھاتا تھا۔میں دیکھ سکتاتھا کہ یکساں اوقات میں روزانہ سونا ،جاگنا ،کھانا،پینا اسے کس قدر اوازار کیے رکھتا تھا۔وہ تنہا پنچھی کی مانند اڑنا پسند کرتا تھا ،آوارہ اور آزاد۔مجھے کئی دفع گمان ہوا کہ وہ قریب ہی دور جانے کیلئے آیاتھا۔بہرحال ، جتنا وہ تنہائی پسند تھا، اس سے کئی زیادہ وہ اپنے ساتھی کو تلاش کرنے کا خواہاں تھا۔شمس کو پختہ یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ میں اس خبر کے ساتھ ضرور آو ں گا، جس کا اسے شدت سے انتظار ہے اور اسے ضرور بتاو ں گا کہ اس نے کس راہ کی طرف جانا ہے ، کسی کو تلاش کرنا ہے۔اسی یقین کے ساتھ وہ یہاں پر موجود تھا۔ان نومہینوں میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ میں اس بات پہ حیران ہوتا تھا کہ وقت اس کیلئے کسی مختلف ڈگر پر چلتاتھا۔میری درسگاہ کہ درویش جو چیزیں سیکھنے میں کئی مہینے اور بعض اوقات سال لگاتے تھے وہ اس نے کئی دنوں میں ، اگر دنوں میں نہیں تو ہفتوں میں سیکھ لی تھیں۔اسے ہر نئی چیز کے متعلق جاننے کا تجسس ہوتا۔۔ جو غیر معمولی چیز دیکھتا وہ اس جاننے میں جت جاتا،یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ قدرت کے معجزوں کو بہت گہرائی سے دیکھتاتھا، اور اس میں وہ تھا بھی ماہر ۔بعض اوقات میں اسے باغ میں مکڑی کے جالے کی تعریف کرتے ہوئے یارات کو کھلنے والے پھولوں پر شبنم کے قطرے کی تعریف کرتے ہوئے پاتا۔کتابوں اور مصحف سے زیادہ اسے کیڑوں، جانوروں اور پودوں میں دلچسپی ہے۔جب میں نے سوچنا شروع کرتا کہ اسے کتابیں پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تب ہی میں اسے ایک بہت پرانی کتاب میں گھسا ہوا پاتا ۔۔ اس کے بعد ایک ایسا وقت بھی جب اسے کئی ہفتے گزر جاتے اوروہ کتابوں کی طرف منہ بھی نہ کرتا۔جب میں نے اس سے اس متعلق دریافت کیا تو اس کا کہنا تھا کہہ ہر کسی کو اپنی عقل کومطمئن رکھنا چاہیے اور اتنی احتیاط کر نی چاہیے کہ اسے ضائع نہ کریں۔یہ اس کے اصولوں میں سے ایک تھا۔”عقل اوردل دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل انسان کو کسی نہ کسی بندھن میں باہم مربوط کیے رکھتی ہے،اس میں کسی خطرے اور داو کی گنجائش نہیں ہوتی ہے ۔ جب کہ عشق کیا ہے ؟ اس کے تو قد م قدم پر خطرات اور داو ہیں،عقل سکھاتی ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ رکھو ، اور ہر وقت نصیحت کو تیار رہتی ہے اور سکھاتی ہے کہ حد سے نہ گزرو۔ جب کہ عشق سکھاتا ہے کہ کبھی کسی بات کا برا نہ مانو، اور بے دھڑک ہو کر فیصلہ کرو۔عقل کہتی ہے کہ اپنے آپ کو کبھی ٹوٹنے نہ دو جب کہ عشق تو کہتا ہے کہ ٹوٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاو ¿۔اسی طرح خزانے بھی تو ویرانوں میں ہی ملتے ہیں جب کہ ٹوٹے ہوئے دل میں کئی خزانے مدفن ہوتے ہیں“جیسے جیسے میں اسے جانتا گیا میںنے اس کی جرات مند ی اور گستاخی کو سراہنا شروع کردیا۔اس کی حاضر جوابی اور خالص پن بے نظیر تھا۔اگر وہ کسی ایک چیز کیلئے ایک نقطے پر آٹھہرتا تو میں اپنے درویشوں کو سکھایا تھا، بلکہ انہیںحکم دے رکھا تھا کہ جیسے ہی وہ کچھ دیکھیں تو اس پر خاموش رہیں اور معا ف کر دیں ۔میں نے انہیں کہا تھا کہ دوسروں کی غلطیوں کا برا نہ مانا کرو۔شمس ، تاہم کسی غلطی کو نظر انداز نہ کرتا تھا۔ جب بھی وہ کوئی غلط کام ہوتے ہوئے دیکھتا ، وہ اس کے متعلق کچھ بھی کہے دیتا تھا،وہ ادھر ادھر کی باتیں کہنے اور سننے سے گریزاں تھا۔اس کی ایمانداری لوگو ں کوچبھتی تھی تاہم وہ لوگوں کو غصہ کرنے پر اکساتاتھا اور دیکھنا چاہتاتھا کہ لوگ غصے میں کیا کیا الفاظ نکالتے ہیں۔اس کے لئے آسان کام کرنا بہت مشکل تھے ۔ وہ کسی کام کو زیادہ دیر تلک اپنے ساتھ وابستہ نہیںرکھتا تھا، اگر کوئی کام بھی ایک لمبے عرصے تک جاری رہتا وہ اس میںاپنی دلچسپی کھوئے دیتاتھا ۔جب یہ روز کا معمول بنتے تو وہ مایوس ہوجاتا بالکل ایسے ہی جیسے کسی چیتے کو پنجرے میںمقفل کردیا گیا ہو۔ وہ اگر بات چیت میں دلچسپی کھو دیتا تو وہاں سے اٹھ جاتا ، اگر وہ کسی سے غیر مناسب بات سنتا تو وہاں سے منہ موڑ لیتا، وہ اپنا وقت دل لگی اور مسرتوں میں برباد نہیں کرتا تھا۔جو چیزیں کسی سکون ، سکھ ،خوشی اور حفاظت ،جو کسی بھی انسان کی آنکھوں کا تارا ہوسکتی ہیں، ان سب چیزوں کی اس کی نظر میں کوئی قدر وقیمت نہیں تھی ، شاہد وہ انہیں کچھ بھی نہ سمجھتا تھا۔جب وہ الفاظ سے اپنا ناطہ توڑتا تو ایسے کرتا کہ وہ کئی کئی دنوں کچھ نہ بولتا تھا،یہ بھی اس کے اصولوں میں سے ایک تھا،”دنیا کے زیادہ تر مسائل زبان سے نکلے ہوئے غلط الفاظ اور سادہ سی غلط فہمیوں کے باعث درپش آتے ہیں ۔اسی لئے لفظوں کے ظاہر ی معنی پر کبھی بھی نہ جاو ¿ ،جب آپ محبت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں ،تو زبان بے معنی سی شے ہو جاتی ہے ، جو چیز زبان کے ذریعے بیان نہ کیا جاسکے اسے صرف خامشی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے“۔ایک وقت آیا جب میں اس کی خیر کے متعلق بہت زیادہ فکر مند رہنے لگا۔اپنے ا ندر کئی گہرائی میں کبھی کبھی سوچا کرتا کہ کوئی انسان جو خطروں سے لڑنے کا عادی ہو وہ کبھی بھی اپنےآپ کو کسی سنگین خطرے میں ڈال سکتا ہے۔اس آخری دن ،ہم سب کی تقدیریں صرف اور صرف خدا کے ہاتھ میں ہی ہوں گی،صرف وہ ہی بتا سکتا ہے کہ کب اور کیسے کوئی اس دنیا کو چھوڑے گا۔اپنی طرف سے میں نے شمس کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔جتنا میں کر سکتا تھا اتنا میں نے کیا،میں نے اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ، میں چاہتا تھا کہ اس کی زندگی بہت زیادہ پرسکون ہوجائے ، اسی لئے میں نے اسے زندگی کا دوسرا رخ بھی بتایا۔پھر سردیوں کا موسم آیا اور سردیا ں اپنے ساتھ ایک قاصد بھی لائیں جس کے پاس ایک خط تھا ۔اس ٹکڑے نے ہر چیز تبدیل کردی۔
(Elif Shafak is an award-winning, prominent novelist; a defender of women's rights and freedom of expression, she is the most widely read female novelist in Turkey. Her books have been translated into more than forty languages. Her novels include The Flea Palace, The Saint of Incipient Insanities, The Bastard of Istanbul, The Forty Rules of Love, and The Architect's Apprentice. Elif Shafak is an active political commentator, columnist, and public speaker, she lives in London and Istanbul with her family.)
The Forty Rules of Love(Novel)
Writer - Ellif Shafaque
محبت کےچالیس اصول
مترجم - نعیم اشرف
(دوسری قسط )
Novice 56 to 60
شاگردبغداد اپریل 1242میں نے منصف کو درسگاہ کے بیرونی راستے تک جانے میں مدد دی اور خوداس مرکزی کمرے میں برتن جمع کرنے چل نکلا ۔مجھے یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کہ جس حا لت میں اس آوارہ درویش اوربابازمان کو چھوڑ گیا تھا وہ دونوں اسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے امید تھی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے کچھ نہیں کہا ہو گا۔اپنی آنکھ کے کنارے سے میں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ آیا یہ ممکن ہے کہ دو شخص بناءکچھ کہے سنے ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں ۔مجھے اس دوریش کے متعلق بہت تجسس محسو س ہورہاتھا ، اسی لئے میں جتنی دیر تک وہاںرکنے کا بہانے کر سکتا تھا میں نے کیا۔اس لئے میں نے مختلف کاموں کواپنا ہتھیار بنایا ، جیسا کہ میں نے وہاں پڑے کشن درست کرنا شروع کردے ، اس کے علاوہ کمرے کی صاف ستھرائی کی اور قالین پر پڑے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جمع کرنا شروع کردیے ۔حتیٰ کے ایک وقت آ گیا جب میرے پاس وہاں رکنے کا کوئی بہانہ باقی موجود نہیںتھا ۔اسی لئے میں بے دلی سے/ غمگین ہوتے ہوئے باورچی خانے چلا گیا ۔ادھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے ،مجھے دیکھتے ہی باورچی نے اپنے کاموں کی بوجھاڑ شروع کردی ”میز کو صاف کرو، فرش کی بھی صفائی کرو ، برتن بھی دھو دینا ، چولہے پر سے بھی گند اٹھا لینا ،گرل کے اردگرد دیواروں کو صاف کرلینا ۔آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب تم یہ سب کام کر لو تو مہربانی کرکے چوہوں کا پنجرہ / چوہوں کو قابو کرنے والا صاف کرنا نہ بھولنا۔مجھے اس درسگاہ میں آئے ہوئے تقریباً چھے ماہ ہوچکے ہیںاور تب سے یہ باورچی مجھ پر یونہی ظلم کرتا آرہاتھا ۔ وہ شخص مجھ سے پورا دن کتوں کی طرح کام کرواتا اور کہتا ہے کہ یہ میری روحانی تربیت کا حصہ ہے ۔ بھلا گندی پیالیاں صاف کرنا روحانیت کا حصہ کسی طرح گردانا جا سکتا ہے ؟اس کے پاس کہنے کو چند چیدہ چیدہ الفا ظ تھے جنہیں وہ اکثر کہا کرتا تھا جیسے ” صفائی رکھنا عبادت ہے اور عبادت کرنا صفائی ہے “ایک دن میں نے کہنے کی جسارت کر ہی لی کہ ”اگر یہ درست ہوتا تو آج بغداد شہر کی تمام گھریلو خواتین روحا نی قائد ہوتیں “یہ سن کی انہوں نے میرے سر پر لکڑی کاچمچہ دے مارا اور مجھ پراتنی زور سے چلایا جتنی زور سے چلا سکتاتھا۔بیٹا اس طرح کی زبان درازی تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی ۔اگر تم ایک اچھے درویش بننا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو کہ اتنے خاموش ہو جاو ¿ جتنا ایک لکڑی کا چمچ ہوتا ہے ۔ایک شاگرد میں بغاوت کے جذبات پائے جانا کوئی اچھا عمل نہیں ہے ”کم بولو ، تاکہ تم جلدی سیکھ جاؤ“میں اسے نفرت کرتا تھا، مگر اس سے زیادہ میں اس سے ڈرتا تھا۔میںنے اس کے احکامات کا کبھی انکار نہیں کیا تھا ، تاہم اس شام میں نے یہ کرنے کی ہمت کر ہی لی ۔جیسے ہی میں وہ اس کمرے سے باہر گیا میں فوراً مرکزی کمرے میں جا پہنچا تاکہ ان دونوں کی مزید بات چیت سن سکوں ۔مجھے اس درویش کے متعلق تجس محسوس ہورہا تھا، وہ کون تھا ، وہ کہاں سے آیا تھا ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس درسگاہ میں اس جیسا کوئی نہ تھا ۔اس کی آنکھیں غضیلی، آپ سے باہر اورخوفناک دکھائی دیتی تھیں ، یہاں تک کہ جب وہ اپنا سرانکساری میں بھی جھکاتا تب بھی وہ اسی طرح کا معلوم ہوتا تھا۔وہ کچھ غیر معمولی انسان تھا ، جس کے متعلق کچھ انکشاف کرنا بھی بہت مشکل تھا ،وہ کسی کو ڈرا دینے کے لئے کافی تھا۔میں نے جاسوسی کے سے اندازمیں دروازے کے سوراخ میں سے جھانکا ۔پہلی مرتبہ دیکھنے سے تو مجھے کچھ دکھائی نہیںدیا،لیکن جلد ہی میری آنکھیوں۔۔ اور میں ان کے چہرے دیکھ سکتا تھا۔میں نے اس وقت استاد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”شمس مجھے یہ بتاو ¿ کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو تم جیسے شخص کوبغداد کھینچ لائی ۔ کیا تم نے یہ جگہ خواب میں دیکھی تھی ۔درویش نے اپنا سر ہلایا ،یہ خواب نہیں تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ، بلکہ یہ میرا کشف تھا جو مجھے اس جگہ کھینچ لایا ہے ۔مجھے خواب نظر نہیں آتے ۔”خواب تو سب کو ہی نظر آتے ہیں ، بابا زمان نے مہربان انداز میں سوال کیا۔”مجھے یوں معلوم ہوتا کہ تم اپنے خواب بھول جاتے ہو، اسی لئے تمہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم خواب نہیں دیکھ پاتے ہو۔لیکن مجھے خواب نظر نہیں آتے ہیں ، درویش نے اپنی بات زور دیتے ہوئے کہی ۔ جب میںچھوٹا تھا تب مجھے فرشے دکھائی دیتے تھے ، مجھے کائنات کی پراسراس چیزیں اپنی آنکھوںکے سامنے دکھائی دیتی تھیں ۔جب میں نے یہ سب کچھ اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ میری باتوں سے ناراض ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ میں خواب دیکھنا بند کردوں۔جب میں نے یہ راز اپنے دوستوں کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی یہی تھا۔ان کے مطابق میں ایک مایوس شخص ہوںجو کہ خواب دیکھنے کا عادی ہوں۔جب میں یہ سب کچھ اپنے اساتذہ کرام کو بتایا تو ان کا ردعمل بھی کچھ مختلف نہیں تھا ۔تب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جب لوگ کچھ غیر معمولی چیزیں دیکھتے ہیں تو وہ اسے خواب کا نام دیتے ہیں۔پھر کچھ یوں کہ ان باتوں کے باعث مجھے دنیا اور اس کی چیزوں سے نفرت ہوگئی “یہ کہتے ہوئے درویش رکا جیسے اس نے کوئی اچکانک غیر معمولی آوا ز سن لی تھی ۔اس وقت یہ ایک عجیب تری واقعہ رونما ہوا ،وہ کھڑا ہوا اور اپنی ریڑھ کی ہڈی کی سیدھ میں چل پڑا ،اور وہ آہستگی سے دروازے کی طرف چلتا ہوا آیا۔اس وقت وہ میری سید ھ میں ہی دیکھ رہا تھا۔اسے دیکھ کہ یوں لگ رہا تھا کہ گویا اسے معلوم تھا کہ اس وقت کوئی اس کی جانب جاسوسی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔اس انوکھے انسان کو دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہواجیسے کہ وہ لکڑی کے دوروازے کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔میرا دل اس وقت برے طریقے سے دہل رہا تھا۔میں اس وقت باورچی کھانے کی جانب بھاگنا چاہتا تھا ، لیکن اس وقت میری ٹانگیں ،میرے ہاتھ پاو ¿ں اور پورا جسم پتھر کا بن گیا تھا، میں اپنے جسم کو حرکت ہی نہ دے پایا۔اس لکڑی کے دروازے کے پار شمس کی آنکھیں مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔میں اس وقت ڈرا ہوا تھا، پھر بھی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ توانائی کی وافر مقدار میرے جسم میں گردش کررہی ہے۔اتنے میں وہ دروازے کے قریب پہنچ گیا اور اپنا ہاتھ دروازے کی کنڈی پر رکھ دیا۔وہ اس بات کے قریب تھاکہ دروازہ کھولے اور مجھے دبوچ لے تاہم ناجانے اس وقت ایسا کیا ہوا کہ وہ اس نے ایسا نہیں کیا۔آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روک دیا۔میں اتنے قریب سے اس کا چہرہ بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا اور میں یہ نہیں جاناتا تھا کہ آکر کیا چیز تھی تھی جس نے اسے یہ کرنے سے روکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ہم نے اس مشکل اور طویل لمحے کے ختم ہونے کا انتظارکیا۔اس کے بعد اس نے اپنی جگہ واپسی کا رخ کیا اور وہ بابا زمان کے پاس اپنی داستان سنانے دوبارہ چل دیا ۔”جب میں تھوڑا بڑا ہوا میں نے خدا سے دعا مانگی کہ میرے خالق مجھے سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چھین لے۔۔۔۔وہ میری بات سے متفق ہوگیا،اس نے میری یہ صلاحیت چھین لی اور اسی لئے مجھے اب خواب دکھائی نہیں دیتے ہیں۔شمس تبریزی اس وقت اس کھڑکی کے دہانے کھڑا ہوگیا۔ اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور کچھ کہنے سے قبل اس نے اس نظارے کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھا ۔اگرچہ اس نے مجھ سے خواب دیکھنے کی صلاحیت چین لی ہے تاہم اس کے بدلے اس نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہے کہ میں خوابوں کی تعبیر بیان کرسکتا ہوں۔میں اب ایک خواب کی تعبیر بیان کرنے والا گردانا جاسکتا ہوں“مجھے اس وقت بابا زمان سے یہ امید تھی کہ وہ اس بد عقل کی بات کا اعتبار نہ کریں اور اسے اس طرح ماریں جس طرح مجھے ہر وقت مارتے ہیں۔لیکن میری خواہشات کے برعکس بابا زمان نے نہایت ادب سے اس سے درہافت کیا کہ تم مجھے ایک معز ز اور غیر معمولی انسان دکھائی دیتے ہو ۔مجھے بتاو ¿ اس ضمن میں میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟درحقیقت میں یہ نہیں جانتا ، بلکہ میں آپ سے یہ امید رکھ رہاہوں کہ آپ مجھے بتائیں ۔تمہارا کیا مطلن ہے ؟استاد نے دریافت کیا ،اس وقت استاد کی آواز قدرے سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔تقریباً چالیس سالوں سے ، میں ایک آوارہ درویش ہوں ،میں قدرت کی کئی چیزوں کے متعلق مہارت رکھتا ہوں تاہم اس معاشرے کے طور طریقے میرے لئے ابھی بھی اجنبی ہیں۔ضرورت پڑنے پر میں ایک جنگلی جانور کی طرح لڑ بھی سکتا ہوں، لیکن میں اپنے آپ کو زیادہ دیر تک تکلیف میں نہیں رکھ سکتاہوں۔میں آسمان پر موجود ستاروں کے جھرمٹ کا نام بتا سکتا ہوں ، میں جگلوں میں موجود درختوں کے نام بیان کرسکتاہوں۔میں ہر طرح کے انسانوں کی کھلی کتاب کی مانند پڑھ سکتا ہوں ، جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنے عکس کے طور پر پیدا کیا ہے ۔شمس رکا اور بابا زمان کا انتظار کرنے لگا ، جو چراغکوروشن کررہے تھے۔´خدا کی ذات کسی مندر ، گرجا گھر یا صومعے تک محدود نہیں بلکہ تم اس کی نشانیاں کائنات کی ہر شے اور ہر شخص میں دیکھ سکتے ہو۔تاہم اس کے باوجود تمہاری پیاس پھر بھی برقرار رہے تو اسے اس انسان کے دل میں تلاش کرو جو اس کی پاک ذات کوسچے دل سے چاہتا ہو۔اس دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو اسے دیکھنے کے بعد مر سکتا ہو ، بالک اسی طرح جیسے اسے دیکھنے کے بعد کوئی ابدی نیند نہ سویا ہو۔جو اسے جانچ لیتا ہے وہ ہمیشہ اس کی ذات کے ساتھ منسلک رہتا ہے ۔اس مدھم اور ٹمٹماتی روشنی میں شمس تبریزی اور بھی زیادہ لمبے لگ رہے تھے ،ان کے بال بے ترتیبی سے ان کا کاندھوں پر گرے ہوئے تھے ۔”لیکن علم و حکمت تو کسی پرانے گلدان کی تہہ میں موجود کھارے پانی کی مانند ہے حتیٰ کہ وہ کسی دوسری جگہ نہ بہہ جائے “کئی سالوں سے میں اس کی ذات سے سے ایک ساتھی کی دعا مانگ رہا ہوں جس کو میں اپنے علم و حکمت بتاو ں جو میرے پاس موجود ہے ۔جن دنوںمیں سمر قند میں موجود تھا ، تب میں نے ایک ”کشف “ دیکھا تھا۔مجھے سمجھایاگیاتھا کہ میں بغداد جاؤ ں اور وہاں جا کراپنا ساتھی تلاش کروں۔میں سمجھا تھا کہ آپ کو میرے ساتھ کا نام ضرور معلوم ہوگایا اس کے آس پاس اور مجھے بتاو گے ، اگر تمہیں اب معلوم نہیں تو جب بھی ہوا تو بتانا“باہر رات کا اندھیرا چھا چکا تھا ،چاند کی روشنی کھڑکی کے سوراخوں سے باہر آرہی تھی اور پورے کمرے میں پھیل چکی تھی ۔تب مجھے معلوم ہوا کہ کتنی دیر ہو چکی تھی ۔
یقینا باورچی مجھے تلاش کررہا ہوگا مگر مجھے اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں تھی ۔پہلی مرتبہ مجھے قوانین توڑنے میں لطف آرہا تھا ۔”میں نہیںجانتا کہ تم مجھ سے کس طرح کے جواب کی امید کر رہے ہو ؟“ استاد نے سرگوشی کی ۔”اگر میرے پاس کوئی اس اسی طرح کی معلومات کبھی بھی آئے تو میں تمہیں ضرور پہنچاو ں گا ۔تب تک تمہیں یہاں رک کے انتظار کرنا پڑے گا۔اور ہمارا مہمان بن کر رہنا پڑے گا “یہ سننے کے بعد وہ بابا زمان کے سامنے شکریے کے طور پر جھک گیا اوران کے ہاتھ چومے ۔اس وقت بابازمان نے ان سے ایک عجیب وغریب سوال کیا کہ ”تم نے کہا کہ تم اپنی تمام تر حکمت کسی دوسرے کو دینے جارہے ہو ، تم ایک سچ اپنے ہاتھ میں محفوظ رکھنا چاہتے ہو ، جیسے کہ یہ کوئی قیمتی موتی ہے اور کسی اور کو اس کی پیشکش کرنا چاہتے ہو۔ تاہم روحانی رو سے کسی کو اپنی علم و حکمت دینا کسی انسان کے لئے چھوٹا کام نہیں ہے ۔ تم اس کے بدلے کیا دینا چاہتے ہو؟تم جانتے ہو کہ تم خدا کا غیض وغضب اپنی جانب مول لے رہے ہو؟استاد کے سوال کے جواب میں اس درویش نے جوجواب دیا ، اسے میں تب تک یاد رکھوں گاجب تک میری سانسیں چلتی رہیں گی ۔اس نے اپنی بھنویں اٹھائیں ، اور مضبوطی سے کہا ”میں اپنا سر پیش کرنے کا خواہاں ہوں“اس کا جواب سن کے میں کانپ اٹھا ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی .میں نے جب میں نے اپنی نظریں اس سوراخ کی جانب متوجہ کی تومیں نے محسوس کیا کہ استادبھی اسی طرح ڈر سے کانپ اٹھا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم آج کیلئے خاطر خواہ بات کر چکے ہیں ۔بابا زمان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، تم ضرورتھک چکے ہو گے ۔مجھے شاگرد کو طلب کرنے دو تاکہ وہ آپ کو سونے کی جگہ مہیا کرسکے اور صاف بستر دے سکے اور آپ کو دودھ کا گلاس دے سکے “اب شمس تبریزی دروازے کی جانب مڑ چکے تھے ۔میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مجھے ہی گھور رہا تھا۔نہ صرف دیکھ رہا رہا تھا بلکہ مجھے تو یوں بھی محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ مجھے دروازے پار اتنے غور سے دیکھ رہا ہے کہ گویا وہ میری روح کی اچھی اور بری چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کررہاتھا، وہ راز میرے اندر سے تلاش کررہا تھا جوکہ مجھ پر بھی عیاں نہیں تھے ،شایدوہ کالے جادو کا علم جانتا تھا ۔ یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ ہاروت اور ماروت سے تربیت یافتہ ہو ، وہی دو فرشتے جو بابل (قدیم عراق) میں اللہ کے حکم سے موجود تھے ۔ وہی جن سے دور رہنے کا حکم ہمیں قرآن دیتا ہے ، یاپھر اس کے پاس ملکوتی قوت ہے جس کے ذریعے وہ دروازے پار دیکھ سکتا ہے ۔ہر صورت میں وہ مجھے ڈرانے کا سبب بن رہاتھا ۔شاگرد کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،اس نے کہا۔ جب وہ ان الفا ظ کی ادائیگی کررہاتھا تھا تو اس کی آواز قدرے اونچی ہو گئی ۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کہ وہ بہت پاس ہے اور ہمیں قریب سے سن رہا ہے ۔وہ جگہ چھوڑتے ہوئے میں نے اس قدر اونچی چیخ ماری کے شاید قبر کے اندر موجود مردے بھی خوف و ہراس سے اٹھ بیٹھتے ۔اس کے بعد میں تیزی سے باغ کی جانب بھاگا اوراندھیرے میں کوئی محفوظ مقام تلاش کیا۔تاہم اس جگہ میرے لئے نا خوشگوار چیز انتظار کر رہی تھی ۔تو تم یہاں ہوں چھوٹے بدمعاش! وہ میرے پیچھے صفائی ستھرائی کرنے والا جھاڑو لے کر بھاگا۔تم اب ایک بہت بڑی مشکل میں پھنس چکے ہو۔میں جھاڑو سے بچتے ہوئے دوسری طرف بھاگا۔ادھر آو ، ورنہ میں تمہاری ہڈیا ں / ٹانگیں توڑ دوں گا ۔پکوان میرے پیچھے بھاگتے ہوئے چلایا،لیکن میں نے ہار نہیں مانی ، اور میں باغ کی جانب اتنی تیزی سے بھاگا جتنا میں بھاگ سکتا تھا۔اس وقت شمس تبریزی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ٹمٹمانا شروع ہو گیا۔میں بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی کے ساتھ تیز ی سے بھاگتا رہا جو کہ درسگاہ کو مرکزی سڑک سے جوڑتی تھی اور بھاگتا بھاگتامیں بہت دور چلا گیا۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ میں اپنے آپ کو بھاگنے سے روک نہیں سکتاتھا ۔میرا دل دہلنے لگ گیا ،میرا گلہ خشک ہو گیا ،
میں اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک میر ی ٹانگوں (گھٹنوں) نے جواب نہیں دے دیا ،اور میرے اندربھاگنے کی سکت ختم ہو گئی تھی
Ella 61 to 64۔
عیلیٰ نارتھ ایمٹن، 21 May 2008
عیلی کا نامدار شوہر شاید متوقع لڑائی کے لئے پہلے سے ہی تیار تھا، وہ اگلے دن صبح ہی گھر پہنچ گیا تھا۔ اس وقت عیلی اپنے بستر پرسو رہی تھی اور اس کی گود میں معصوم گستاخی کا مسودہ اسی طرح کھلاپڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک خالی گلاس موجود تھا جسے دیکھ کر آسانی سے کہا جا سکتا تھا کہ کہ کچھ گھنٹے قبل اس میں شراب موجود تھی۔ ڈیوڈاس کا کمبل درست کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، تاہم کچھ سوچنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا۔دس منٹ قبل عیلی ٰ جاگ چکی تھی ، اورغسل خانے سے آواز سن کر اسے خاطر خواہ کوئی حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ڈیوڈ اس وقت غسل لے رہا ہوگا ،وہ اس کی اس عادت سے بخوبی واقف تھی ، چاہے وہ دوسری عورتوں سے تعلقات رکھتا تھا تاہم پھر بھی وہ صبح کا غسل اپنے باتھ روم کے علاوہ کہیں نہیں کرتا تھا۔ ڈیوڈ نہانے کے بعد کمرے میں آیا تو اس کو کل رات گھر نہ آنے کی وضاحت اور خجالت سے بچانے کے لئے عیلی ٰنے اس کو یہ تاثر دیا کہ گویاوہ ابھی بھی سورہی تھی ۔
اعیلی ٰ اس وقت باورچی خانے میں اکیلی بیٹھی تھی ، ابھی ایک گھنٹہ قبل ہی اس کا خاوند اوربچے جا چکے تھے ۔نہیں معلوم کے اسے ایساکیوں محسوس ہورہاتھا، تاہم اسے لگ رہا تھا کہ زندگی ایک اپنے مقررہ مدار پر ہی گردش کر رہی تھی ۔ہلکے پھلکے دماغ کے ساتھ اس نے اپنی پسندیدہ کتاب کھولی ، جو کہ کوئی اور نہیں بلکہ آسان پکوان کی تراکیب کی حامل تھی ۔اس نے چونکہ آج کا کھانا بنا نا تھا ، اسی لئے مختلف تراکیب پڑھنے کا آغاز کیا ۔ بہت دیر کھوجنے کے بعد آخر کار اسے ایک ترکیب پسند آئی،جس کی تیاری میں اس کا آدھا دن صرف ہو سکتا تھا ۔ وہ چاہتی بھی یہ ہی تھی کہ ایسا کھانا بنائے جو اسے دوپہر تک مصروف رکھ سکے ۔مچھلی ، ناریل اور سنگترے کا سوپ۔۔تازہ سبزی اور کھمبیوں کا مرغوبہ۔۔سروٹ کے پتوں میں لپیٹ کر سرکے اور لہسن میںبنایا گیابچھڑے کی پسلی کا گوشت۔۔سبز پتوں ، لیموں اور گوبھی کا سلاد جب کہ میٹھے میں گرم چاکلیٹ اور انڈے کا حلوہ۔اب رہا سوال یہ کہ عیلیٰ کوکھانا پکاناکیوں پسند تھا؟ اس کی بہت سی وجوہات تھیں ۔۔۔محض عام اجزاءسے مختلف اقسام کے اورلذیذ کھانے بنانا جہاں ایک طرف اس کے لیے طمانیت اور تسکین کا باعث تھا وہیں دوسری جانب حیران کن طور پر لذت انگیز بھی تھا۔ جو کہ بلاشبہ عجیب و غریب بات تھی۔وہ کھانا پکانا اس لئے بھی پسند کرتی تھی کہ وہ کھانا بنانے میں ماہر تھی،علاوہ ازیں یہ فعل اس کااعصابی تنا و ¿ بھی کم کرتا تھا۔ باورچی خانہ ہی وہ جگہ تھی جہاں وہ باہرکی دنیا سے بے خبر رہتی تھی، گویاکچھ لمحات کیلئے وقت کسی نے مقفل کردیا ہو۔مباشرت کو چشم تصورمیں لا کرعیلی ٰ اکثر سوچا کرتی کہ شاید کچھ لوگوںکو یہ اتنا ہی سکون بخشتا ہوگا جتنا اس کے لیے کھانا پکانا۔ تاہم اس کے لیے دو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کہ کھانا پکانے کے لیے اپنے آپ کوملا کر محض تھوڑا ساوقت ، احتیاط اوراس کی بنانے کیلئے ضروری اشیاءہی تو درکار ہوتی ہیں اور کچھ نہیں۔ جو پیشہ وارانہ پکوان جو ٹیلی وژن پروگراموں میں مختلف کھانوں کی تراکیب سکھاتے ہیں،وہ غالبا ًیہ تاثر دیتے کہ پکانے کا عمل انسان کے اندر خلوص، ترغیب اوراصلیت کی طرف مائل ہونے کے اوصاف پیدا کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ لفظ ”تجربات“ہو تا ہے ۔ عیلی ٰ اس بات سے متفق نہیں تھی۔اس کا خیال تھا کہ تجربات تو سائنسدانوں پر، جب کہ فنون زندگی فن کاروں پر سجتے ہیں۔ کھانا پکانا تو بنیادی باتیں سیکھنے ، ہدایات پر عمل کرنے اور صدیوں پرانی آزمودہ باتوں پر عمل کرنے سے متعلق ہے۔ اسی لئے ہر کسی کو صدیوں پرانی آزمودہ باتوں پر عمل کرنا چاہیے، اور نت نئے تجربوں سے کوسوں میل دوررہنا چاہیے۔ پکانے کا ہنروقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوا، برسوں پرانے طریقہ کار وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے۔جدید دور اگرچہ ان چیزوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھتا، پھر بھی روایتی ہونے میں کوئی قباحت نہیں ۔عیلیٰ اپنی روزمرہ زندگی سے بھی لطف اندوز ہوتی تھی۔ ہر روز صبح سب اکٹھے ناشتہ کرتے، ہفتہ وار چھٹی پرپورا خاندان اپنی پسندیدہ جگہ پر جاتا ہے اورہر ماہ کی پہلی اتوار دوستوں کی دعوت بھی دی جاتی تھی ۔ڈیوڈ کوچونکہ کام کا عارضہ لاحق تھا جس کی وجہ سے وہ باقی کاموں کے لیے بہت کم وقت نکال پاتا، لہٰذاتمام گھریلوکام عیلیٰ کوانجام دیناہوتے تھے۔ بچوں کو پڑھائی میں مدد دینے سے لے کر روپے پیسے کا حساب کتاب، روزمرہ کا کام کاج، گھر کی صفائی اور فرنیچر کی مرمت تک اسنے اپنے ذمے لی ہوئی تھی۔ جمعرات کو وہ فیوژن ککنگ کلب جاتی جہاں پر مختلف ممالک میںرائج کھانے کی تراکیب کومختلف طریقوں سے ےکجا کر کے نئی نئی ترکیب بنانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ پھر دوسری طرف عیلیٰ کا جمعہ کسانوں کے ساتھ گزرتا تھا، جدھر سے یہ مختلف سبزیوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرتی تھی اور خریداری بھی ۔اس کے علاوہ وہ دیگر کام بھی کیا کرتی تھی جیسے سبزی بنانے کا کوئی نیا طریقہ اور کسی نئی نباتات پر گفت وشنید وغیرہ وغیرہ ۔اس کی سبزیوں اور دیگر نباتات کی تلاش ختم نہ ہوتی ، اگر اسے یہاں کھیتوں سے مطلب کی کوئی خاص شے نہ مل پاتی تو واپسی پرہول سیل مارکیٹ سے اٹھا لیتی ۔ ہفتے کو ڈیوڈ اس کو باہر کھانے پر ضرور لے کر جاتا۔یہ دونوں زیادہ تر کسی جاپانی ےاتھائی ریستورا ن کا انتخاب کیا کرتے۔اس کے بعداگر وہ دونوںخاطر خواہ تھکاوٹ کا شکار نہ ہوتے ےاشراب کے نشے میں مکمل طور پر ڈوبے نہ ہوتے ، یا مزیدکچھ کام کرنے کے موڈ میں نہ ہوتے تو بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے قریب بھی آتے تھے۔ تاہم اس قربت میں محبت کم اور دوسرے ساتھی کا خیال زیادہ اہمیت رکھتا تھا ۔بلاشبہ عورت اور مرد کے درمیان یہ تعلق ایک مضبوط بندھن کی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن ان دونوں کے درمیان ےہ چیز اپنی کشش بہت پہلے کئی کھو چکی تھی۔عیلیٰ کو ےہ بھی بھلا نہیں لگتا تھا کہ قربت کا تعلق جو اس کی زندگی میں کبھی بہت زیا دہ اہمیت رکھتا تھا ، وہ اب اس کے زندگی میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے خود کو اتنا ہلکا کیوں محسوس کرتی ہے ۔” طویل ازدواجی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب یہ کشش مانند پڑنے لگتی ہے، ےہ وہ وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ حقیقت پسندانہ اور مضبوط طرزعمل اپنانا چاہیے ۔اب عیلیٰ کو اس مفروضے سے اتفاق سا ہو چلا تھا۔ مسئلہ محض اتنا تھا کہ ڈیوڈ یہ تعلق اس کی بجائے دوسری عورتوں کے ساتھ قائم کرتا آرہاتھا۔عیلی ٰ اس کے غیر ازدواجی تعلقات کے متعلق بخوبی آگاہ تھی تاہم اس نے کبھی اس بات کو لے کر اس سے جھگڑا نہیں کیا تھااور نہ ہی اشایوں کنایوں میں اس غصے کا اظہار کیا تھا۔ اس کے لئے اس بات سے بے خبرہونے کا تاثر دینا بہت ہی آسان تھا کیوں کہ قریبی رشتے دار اور دوست احباب ڈیوڈ کے ان معاملات سے بے خبر تھے۔ نہ تو کوئی بدنامی اس کے ذمے آئی تھی اور نہ ہی ذلت آمیز واقعات زبان زدعام تھے، وہ حیران تھی کہ اس کا شوہر ےہ سب کچھ خفیہ رکھنے میں کیسے کامےاب تھا۔ حالانکہ اس کی زندگی میں ایک کے بعد دوسری عورت نہایت کم عرصے بعد ہی آجاتی تھی،جن میں زیادہ تعداد اس کی جوان ماتحت لڑکیوں کی تھی۔ لیکن اس کا شوہر ایسے کام اتنی رازداری اور خاموشی سے انجام دیتا کہ کسی کو ہوا تک نہ لگتی مگر اتنا تو عیلیٰ بھی جانتی تھی کہ بے وفائی بھی ایک مشک کی مانند ہوتی ہے، جو کبھی مخفی نہیں رہ سکتی۔ جوڑے کی گزشتہ زندگی سے ڈیوڈ کی ان حرکات کا کوئی تعلق تھاتو تب بھی ےہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ پہلے کون سی بات ہوئی اور کون سی بعد میں، ڈیوڈنے غیرازدواجی تعلقات پہلے قائم کیے ،جس کے ردعمل کے طور پر عیلی ٰ اپنی خواہشات سے دست بردار ہوئی ےا پھر اس نے پہلے مباشرت میں دلچسپی چھوڑی جس کے نتیجے میں ڈیوڈ نے دوسری عورتوںمیں دلچسپی لینا شروع کی۔بہر حال اسباب جو بھی تھے، نتیجہ ےہ تھا کہ اب وہ جذبہ ،وہ کشش اور و ہ روشنی ، جس کی مدد سے میاں بیوی نے طویل ازداوجی کے مدو جزرکامےابی سے عبور کئے تھے، اورجوبیس سالہ طویل رفاقت اور تین بچو ںکے باوجود ساتھ چلی تھی ،اب وہ باقی نہیں رہی تھی۔ اگلے تین گھنٹے عیلیٰ کا دماغ کئی پرانی اور نئی ملی جلی سوچوں میں گم تھاجب کہ اس کے ہاتھ مسلسل اپنے شوق کی تکمیل میں چل رہے تھے۔جیسا کہ وہ ساتھ ساتھ ٹماٹر ، لسہن ، پیاز تراش رہی تھی۔ساتھ ہی ساتھ اس نے چٹنی بنائی، مالٹے کے چھلکوں کو رگڑ کر انہیںچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کیا۔ اس نے لگتے ہاتھ آٹا بھی گوندھا تا کہ آج خالص گندم کے آٹے کی چپاتی بن سکے ، جو کہ وہ اکثر اپنا فریضہ سمجھ کر بنایا کرتی تھی ۔ جو کہ وہ اپنی ساس یعنی ڈیوڈ کی ماں کی سنہری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کیا کرتی تھی۔ جب ان دونوں کی نسبت طے ہوئی تو اس موقع پرانہوں نے اس کو سمجھا یا تھا کہ ”مرد کوہمیشہ گھر کی روٹی کی مہک گھر کی یاد دلاتی ہے ، تو میری پیاری بچی !کوشش کرنا کہ اسے ہمیشہ گھر پر بنانا ، کبھی باہر سے منگوانے کی غلطی نہ کرنا، یہ شادی شدہ زندگی کے لئے بہت بڑے بڑے کام کرسکتی ہے۔عیلی ٰ جو کہ صبح سے کام میں مصروف تھی ، سہ پہرتک فارغ ہوکر اس نے کھانے کی ´میزسجائی۔ اسے مزید دلکش بنانے کے لئے اس نے خوشبودار موم بتیاں جلائیں، سرخ اور پیلے پھولوں کا گلدستہ رکھا۔ پھول اس حد تک خوبصورت لگ رہے تھے کہ انہوں دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ گویامصنوعی تھے۔جب ٹیبل سج گیا توےوں لگ رہا تھا کسی میگزین کا صفحہ ہوجس میں جدید اور سٹائلش گھروں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔اب وہ تھکاوٹ سے چور تھی مگر اس کا دل مطمئن تھا۔ اس نے باورچی خانے کا ٹی وی لگایا اور ایک مقامی خبروں سننا شروع کیں ، ایک نوجوان معالج اپنے اپارٹمنٹ میں خنجر سے ہلاک، ہسپتال میں بجلی کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی۔ہائی سکول کے چار طلباءتوڑ پھوڑ کرنے پرگرفتار کر لئے گئے، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔وہ خبریں سنتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ دنیا خطرات سے بھری پڑی ہے اورعزیز زھارا جیسے لوگ کیسے اس دنیا کے غیر ترقی یافتہ مقامات کی سیر کو نکل پڑتے ، کیا انہیں نہیں معلوم کہ یہ ان کی جانوں کیلئے کس حد تک خطرناک ہے؟ آج کل تو امریکہ جیسے ملک کے گاﺅںاورد یہات محفوظ نہیںرہے۔وہ ےہ گتھی سلجھانے سے قاصر تھی کہ ایک انجانا اور ان دیکھا ڈراس کی طرح کے کئی لوگوں کو اس گھر تک محدود رکھتا ہے،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا خطروں سے خالی نہیں ہے۔دوسری جانب عزیز جیسے لوگ ایک جگہ ٹھہر نے کی بجائے نگری نگری پھرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ان جگہوں پر جانا زیادہ اچھا محسوس کرتے ہیں جہاں پراب تک کوئی ذی روح نہیں بھٹکا ۔ رابنسٹن خاندان ٹھیک ساڑھے سات بجے اسی میگزین کی تصویر سے خوبصورت میز پر بیٹھ چکا تھا ۔۔ ایک خیالی میز پر ، جس کا خواب شاید بہت سوں نے دیکھا ہو۔ روشن موم بتیاں ہوا میں ایک دلکش سی خوشبو بکھیر رہی تھیں۔ اگرکوئی انہیںباہر سے دیکھ لے تو یقینا انہیں ےوں محسوس ہوگا کہ گویا ایک مثالی خاندان بیٹھاہواہے ۔اتنااچھا جتنا کھانے سے اٹھتا دھواں اس وقت لگ رھا تھا۔ حتی کہ زینت کی کمی بھی محسوس نہیں ہو رھی تھی۔جب سب کھانے میں مصروف تھے تب عیوی اور عرلی دن بھر کے واقعات ایک دوسرے کو مسلسل سنا رہے تھے۔ عیلیٰ ان بچوں کے بسیار گوہونے پر ان کی ممنون تھی، اس کی وجہ کوئی اور نہیں تھی بلکہ یہی تھی کہ بچے اس کے اورڈیوڈ کے درمیان آج کی متوقع خاموشی کو توڑ رہے تھے۔آنکھ کے کنارے سے، چپکے سے عیلیٰ نے ڈیوڈ کودیکھنے کی کوشش کی، وہ اس وقت اپنے کانٹے کی مدد سے گوبھی کا سلاد کھانے میں مصروف تھا، اس کی نظر پھسل کر اس کے باریک ہونٹوں سے ہوتی ہوئی چہرے پر آ کر رک گئی۔یہ چہرہ ا س کے لئے کس قدر جانا پہچانا تھا اور متعدد بار بوسہ بھی لے چکی تھی۔ پھر وہ چشم تصور سے اس کو دوسری عورت کے ساتھ دیکھنے لگی۔کسی وجہ سے آج اس کے دماغ میں ڈیوڈ کی نوجوان سیکرٹری کا خیال نہیں آیا بلکہ ایک کثیرالجثہ سینے والی عورت آئی جہ سوسن سارندون کی مانند تھی، پہلوانوں کی سی پر اعتماد عورت جس کا نسوانی حسن تنگ لباس کے باعث واضح ہورہاتھا۔ جس نے اونچی ایڑھی کا جوتا پہن رکھا تھا، اور اس نے اپنے چہرے کو بے جامیک اپ کے باعث قوس قزاح کی ماننددکھائی دے رہاتھا ۔اس نے تصور کیا کہ ڈیوڈ اس عورت کے متواتر بوسے لے رہاہے، جس کے باعث اس کے ہونٹ بہت تیزی سے حرکت میں ہیں،اس طرح نہیں جس طرح وہ اب اپنے گھر والوں کے ساتھ کھا رہا ہے۔ عین اس وقت بیٹھے بیٹھے عیلیٰ کے اندر کوئی جھماکا ہوا۔ اس پر دن کی طرح ےہ بات عیاںہو گئی کہ وہ ایک دن سب کچھ تیاگ دے گی۔ وہ اپنا گھر، شوہر، بچے، اسپرٹ ،باورچی خانے اوردسترخوان سجانے میں مدد کرنے والی کتابوں ،حتیٰ کے سب کچھ چھوڑ دے گی۔وہ چپ چاپ اس دنیا میں چلی جائے گی جس کا خاصہ خطرات ہیں۔
ّّٰٰؑؒؑ65 to 66 master.inp
اتالیق بغداد ، 26جنوری
1243اس درسگاہ کاحصہ بننے کیلئے جتنا صبر درکار تھا ، شاید اتنا صبر شمس تبریزی کے پاس موجود نہیں تھا۔مگر اس کے باوجودجانے کیسے نو ماہ گزر چکے ہیں اور وہ ابھی تک ہمارے ساتھ موجود ہے ۔آغاز کے دنوں میں تو مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی وہ اپنا سازہ سامان باندھے گا اور یہاں سے نکل جائے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ باترتیب زند گی سے خار کھاتا تھا۔میں دیکھ سکتاتھا کہ یکساں اوقات میں روزانہ سونا ،جاگنا ،کھانا،پینا اسے کس قدر اوازار کیے رکھتا تھا۔وہ تنہا پنچھی کی مانند اڑنا پسند کرتا تھا ،آوارہ اور آزاد۔مجھے کئی دفع گمان ہوا کہ وہ قریب ہی دور جانے کیلئے آیاتھا۔بہرحال ، جتنا وہ تنہائی پسند تھا، اس سے کئی زیادہ وہ اپنے ساتھی کو تلاش کرنے کا خواہاں تھا۔شمس کو پختہ یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ میں اس خبر کے ساتھ ضرور آو ں گا، جس کا اسے شدت سے انتظار ہے اور اسے ضرور بتاو ں گا کہ اس نے کس راہ کی طرف جانا ہے ، کسی کو تلاش کرنا ہے۔اسی یقین کے ساتھ وہ یہاں پر موجود تھا۔ان نومہینوں میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ میں اس بات پہ حیران ہوتا تھا کہ وقت اس کیلئے کسی مختلف ڈگر پر چلتاتھا۔میری درسگاہ کہ درویش جو چیزیں سیکھنے میں کئی مہینے اور بعض اوقات سال لگاتے تھے وہ اس نے کئی دنوں میں ، اگر دنوں میں نہیں تو ہفتوں میں سیکھ لی تھیں۔اسے ہر نئی چیز کے متعلق جاننے کا تجسس ہوتا۔۔ جو غیر معمولی چیز دیکھتا وہ اس جاننے میں جت جاتا،یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ قدرت کے معجزوں کو بہت گہرائی سے دیکھتاتھا، اور اس میں وہ تھا بھی ماہر ۔بعض اوقات میں اسے باغ میں مکڑی کے جالے کی تعریف کرتے ہوئے یارات کو کھلنے والے پھولوں پر شبنم کے قطرے کی تعریف کرتے ہوئے پاتا۔کتابوں اور مصحف سے زیادہ اسے کیڑوں، جانوروں اور پودوں میں دلچسپی ہے۔جب میں نے سوچنا شروع کرتا کہ اسے کتابیں پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تب ہی میں اسے ایک بہت پرانی کتاب میں گھسا ہوا پاتا ۔۔ اس کے بعد ایک ایسا وقت بھی جب اسے کئی ہفتے گزر جاتے اوروہ کتابوں کی طرف منہ بھی نہ کرتا۔جب میں نے اس سے اس متعلق دریافت کیا تو اس کا کہنا تھا کہہ ہر کسی کو اپنی عقل کومطمئن رکھنا چاہیے اور اتنی احتیاط کر نی چاہیے کہ اسے ضائع نہ کریں۔یہ اس کے اصولوں میں سے ایک تھا۔”عقل اوردل دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل انسان کو کسی نہ کسی بندھن میں باہم مربوط کیے رکھتی ہے،اس میں کسی خطرے اور داو کی گنجائش نہیں ہوتی ہے ۔ جب کہ عشق کیا ہے ؟ اس کے تو قد م قدم پر خطرات اور داو ہیں،عقل سکھاتی ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ رکھو ، اور ہر وقت نصیحت کو تیار رہتی ہے اور سکھاتی ہے کہ حد سے نہ گزرو۔ جب کہ عشق سکھاتا ہے کہ کبھی کسی بات کا برا نہ مانو، اور بے دھڑک ہو کر فیصلہ کرو۔عقل کہتی ہے کہ اپنے آپ کو کبھی ٹوٹنے نہ دو جب کہ عشق تو کہتا ہے کہ ٹوٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاو ¿۔اسی طرح خزانے بھی تو ویرانوں میں ہی ملتے ہیں جب کہ ٹوٹے ہوئے دل میں کئی خزانے مدفن ہوتے ہیں“جیسے جیسے میں اسے جانتا گیا میںنے اس کی جرات مند ی اور گستاخی کو سراہنا شروع کردیا۔اس کی حاضر جوابی اور خالص پن بے نظیر تھا۔اگر وہ کسی ایک چیز کیلئے ایک نقطے پر آٹھہرتا تو میں اپنے درویشوں کو سکھایا تھا، بلکہ انہیںحکم دے رکھا تھا کہ جیسے ہی وہ کچھ دیکھیں تو اس پر خاموش رہیں اور معا ف کر دیں ۔میں نے انہیں کہا تھا کہ دوسروں کی غلطیوں کا برا نہ مانا کرو۔شمس ، تاہم کسی غلطی کو نظر انداز نہ کرتا تھا۔ جب بھی وہ کوئی غلط کام ہوتے ہوئے دیکھتا ، وہ اس کے متعلق کچھ بھی کہے دیتا تھا،وہ ادھر ادھر کی باتیں کہنے اور سننے سے گریزاں تھا۔اس کی ایمانداری لوگو ں کوچبھتی تھی تاہم وہ لوگوں کو غصہ کرنے پر اکساتاتھا اور دیکھنا چاہتاتھا کہ لوگ غصے میں کیا کیا الفاظ نکالتے ہیں۔اس کے لئے آسان کام کرنا بہت مشکل تھے ۔ وہ کسی کام کو زیادہ دیر تلک اپنے ساتھ وابستہ نہیںرکھتا تھا، اگر کوئی کام بھی ایک لمبے عرصے تک جاری رہتا وہ اس میںاپنی دلچسپی کھوئے دیتاتھا ۔جب یہ روز کا معمول بنتے تو وہ مایوس ہوجاتا بالکل ایسے ہی جیسے کسی چیتے کو پنجرے میںمقفل کردیا گیا ہو۔ وہ اگر بات چیت میں دلچسپی کھو دیتا تو وہاں سے اٹھ جاتا ، اگر وہ کسی سے غیر مناسب بات سنتا تو وہاں سے منہ موڑ لیتا، وہ اپنا وقت دل لگی اور مسرتوں میں برباد نہیں کرتا تھا۔جو چیزیں کسی سکون ، سکھ ،خوشی اور حفاظت ،جو کسی بھی انسان کی آنکھوں کا تارا ہوسکتی ہیں، ان سب چیزوں کی اس کی نظر میں کوئی قدر وقیمت نہیں تھی ، شاہد وہ انہیں کچھ بھی نہ سمجھتا تھا۔جب وہ الفاظ سے اپنا ناطہ توڑتا تو ایسے کرتا کہ وہ کئی کئی دنوں کچھ نہ بولتا تھا،یہ بھی اس کے اصولوں میں سے ایک تھا،”دنیا کے زیادہ تر مسائل زبان سے نکلے ہوئے غلط الفاظ اور سادہ سی غلط فہمیوں کے باعث درپش آتے ہیں ۔اسی لئے لفظوں کے ظاہر ی معنی پر کبھی بھی نہ جاو ¿ ،جب آپ محبت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں ،تو زبان بے معنی سی شے ہو جاتی ہے ، جو چیز زبان کے ذریعے بیان نہ کیا جاسکے اسے صرف خامشی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے“۔ایک وقت آیا جب میں اس کی خیر کے متعلق بہت زیادہ فکر مند رہنے لگا۔اپنے ا ندر کئی گہرائی میں کبھی کبھی سوچا کرتا کہ کوئی انسان جو خطروں سے لڑنے کا عادی ہو وہ کبھی بھی اپنےآپ کو کسی سنگین خطرے میں ڈال سکتا ہے۔اس آخری دن ،ہم سب کی تقدیریں صرف اور صرف خدا کے ہاتھ میں ہی ہوں گی،صرف وہ ہی بتا سکتا ہے کہ کب اور کیسے کوئی اس دنیا کو چھوڑے گا۔اپنی طرف سے میں نے شمس کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔جتنا میں کر سکتا تھا اتنا میں نے کیا،میں نے اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ، میں چاہتا تھا کہ اس کی زندگی بہت زیادہ پرسکون ہوجائے ، اسی لئے میں نے اسے زندگی کا دوسرا رخ بھی بتایا۔پھر سردیوں کا موسم آیا اور سردیا ں اپنے ساتھ ایک قاصد بھی لائیں جس کے پاس ایک خط تھا ۔اس ٹکڑے نے ہر چیز تبدیل کردی۔
(Elif Shafak is an award-winning, prominent novelist; a defender of women's rights and freedom of expression, she is the most widely read female novelist in Turkey. Her books have been translated into more than forty languages. Her novels include The Flea Palace, The Saint of Incipient Insanities, The Bastard of Istanbul, The Forty Rules of Love, and The Architect's Apprentice. Elif Shafak is an active political commentator, columnist, and public speaker, she lives in London and Istanbul with her family.)