تبصرہ: جمال شاہ کی پینٹنگ

تبصرہ: جمال شاہ کی پینٹنگ

Jan 31, 2023

دیدبان شمارہ ۔۱۶/ ۲۰۲۳

جمال شاہ کی پینٹنگ

تبصرہ نگار : سبین علی

بندر ،مرغ، انسان  اور بکروں کے کرداروں سے مزین جمال شاہ کی پینٹنگ کی یہ سیریز جہاں اپنے موضوع ، سٹروکس اور رنگوں کے انتخاب میں عمدہ ہے وہیں یہ پینٹنگز علامتی انداز میں کئی کہانیاں سناتی ہیں۔

مرغا بنے نیوڈ  انسان راج کرتے بندر مغرور مرغ اور بکرے کی علامات میں کافکائیت کا رنگ تو غالب ہے ہی مگر ان فن پاروں کو ہم سماجی تناظر سے ہٹ کر مکمل طور پہ پرکھ نہیں سکتے۔

صدیوں تک اس ملک کے لوگوں نے غلامی اور جبر سہا۔ یہ جبر ہر طاقت ور اپنے سے کم تر اور کمزور پہ براہ راست منتقل کرتا رہا۔ نو آبادیاتی نظام ختم نہ ہوا بلکہ نئے نو آبادیاتی دور میں داخل ہو گیا۔ جہاں انسان ایک ڈسپوزیبل شے بنا کر رکھا دیا گیا۔

ہمارے سکولوں میں بچوں کو تعلیم کبھی علم او ادب کے فیض کی مانند نہ مل سکی ۔ طلباء کی تضحیک بدنی سزائیں اور مرغا بنانا ماضی قریب کے تعلیمی میں عام تھا ۔ یہ جبر یقینا اب بھی کئی پسماندہ علاقوں میں رائج ہوگا۔

جمال شاہ کے ان فن پاروں میں نیوڈ انسان مرغا بنے دکھائے دیتے ہیں وہ اس سماج کا نسل در نسل چلتا رواج اور جبر ہے جس میں  ارتقاء کا عمل شاطر اور طاقت ور کے لیے ہی ممکن تھا جسے بندر کی صورت میں پیش کیا گیا۔ سادہ لوح اور کمزور طبقات سر نیچا کیے مرغے بنے اپنی درگت سہتے رہے۔ ان مرغا بنے انسانوں کو نیوڈ دکھانے میں یہ علامت بھی کارفرما نظر آتی ہے کہ اس جبر میں انسان خود کو عریاں محسوس کرتا ہوگا۔ جیسے میٹا مارفوسس میں سیمسا کونوں کھدروں تاریک جگہوں پہ پناہ ڈھونڈتا چھپتا رہا۔ یہ پینٹنگز  ایپوکلپس کی راہ میں ایک احتجاج رقم کرتی نظر آتی ہیں ۔

تبصرہ سبین علی

دیدبان شمارہ ۔۱۶/ ۲۰۲۳

جمال شاہ کی پینٹنگ

تبصرہ نگار : سبین علی

بندر ،مرغ، انسان  اور بکروں کے کرداروں سے مزین جمال شاہ کی پینٹنگ کی یہ سیریز جہاں اپنے موضوع ، سٹروکس اور رنگوں کے انتخاب میں عمدہ ہے وہیں یہ پینٹنگز علامتی انداز میں کئی کہانیاں سناتی ہیں۔

مرغا بنے نیوڈ  انسان راج کرتے بندر مغرور مرغ اور بکرے کی علامات میں کافکائیت کا رنگ تو غالب ہے ہی مگر ان فن پاروں کو ہم سماجی تناظر سے ہٹ کر مکمل طور پہ پرکھ نہیں سکتے۔

صدیوں تک اس ملک کے لوگوں نے غلامی اور جبر سہا۔ یہ جبر ہر طاقت ور اپنے سے کم تر اور کمزور پہ براہ راست منتقل کرتا رہا۔ نو آبادیاتی نظام ختم نہ ہوا بلکہ نئے نو آبادیاتی دور میں داخل ہو گیا۔ جہاں انسان ایک ڈسپوزیبل شے بنا کر رکھا دیا گیا۔

ہمارے سکولوں میں بچوں کو تعلیم کبھی علم او ادب کے فیض کی مانند نہ مل سکی ۔ طلباء کی تضحیک بدنی سزائیں اور مرغا بنانا ماضی قریب کے تعلیمی میں عام تھا ۔ یہ جبر یقینا اب بھی کئی پسماندہ علاقوں میں رائج ہوگا۔

جمال شاہ کے ان فن پاروں میں نیوڈ انسان مرغا بنے دکھائے دیتے ہیں وہ اس سماج کا نسل در نسل چلتا رواج اور جبر ہے جس میں  ارتقاء کا عمل شاطر اور طاقت ور کے لیے ہی ممکن تھا جسے بندر کی صورت میں پیش کیا گیا۔ سادہ لوح اور کمزور طبقات سر نیچا کیے مرغے بنے اپنی درگت سہتے رہے۔ ان مرغا بنے انسانوں کو نیوڈ دکھانے میں یہ علامت بھی کارفرما نظر آتی ہے کہ اس جبر میں انسان خود کو عریاں محسوس کرتا ہوگا۔ جیسے میٹا مارفوسس میں سیمسا کونوں کھدروں تاریک جگہوں پہ پناہ ڈھونڈتا چھپتا رہا۔ یہ پینٹنگز  ایپوکلپس کی راہ میں ایک احتجاج رقم کرتی نظر آتی ہیں ۔

تبصرہ سبین علی

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024