عربی اشعار کا ترجمہ: طاہرے گونیش
عربی اشعار کا ترجمہ: طاہرے گونیش
Jul 10, 2024
مصنف
ترجمہ: طاہرے گونیش
طاہرے گونیش (Tahire Güneş) استنبول،ترکیا کی رہائشی ہیں۔وہ ہفت زبان ( Polyglot) مترجم اور ماہر زبان و بیان ہیں۔ ترجمہ و تفہیم (Translation & Interpretation) کی ڈگری بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد پاکستان سے حاصل کی۔ انھوں نے عربی زبان میں بطور پارلیمانی مترجم بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ طاہرے گنیش دنیا کی کئی زبانوں کے ادب جس میں شاعری اور نثر دونوں شامل ہیں ، کے اردو تراجم کر چکی ہیں۔
(عربی سے براہ راست ترجمہ: طاہرے گونیش)
فَيَا عَجَبًا لمن رَبَّيْتُ طِفْلاً
ألقَّمُهُ بأطْراَفِ الْبَنَانِ
أعلِّمهُ الرِّماَيَةَ كُلَّ يوَمٍ
فَلَمَّا اسْتَدَّ ساَعِدُهُ رَمَاني
وَكَمْ عَلَّمْتُهُ نَظْمَ الْقَوَافي
فَلَمَّا قَال قَافِيَةً هَجَاني
أعلِّمهُ الْفُتُوَّةَ كُلَّ وَقْتٍ
فَلَمَّا طَرَّ شارِبُهُ جَفَاني
(وائے حیرت مجھ ایسے شخص پر کہ
جس نے ایک بچے کو پالا پوسا
اور اسے اپنی انگلیوں کی پوروں پر
لقمے بنا بنا کر کھلاتا رہا
میں اسے ہر روز تیر اندازی کے گر سکھاتا رہا
پر جب یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوا
تو مجھ پر ہی تیر برسا گیا
کتنی دیر میں اسے شعر کہنا سکھاتا رہا
قافیے سے قافیہ جوڑنا بتاتا رہا
پر جب وہ مصرع کہنے کے قابل ہوا
تو مجھ پر ہی ہجو کہہ ڈالی
میں ہی اسے تمام وقت لڑکپن سے
مردانگی اور شجاعت سمجھاتا رہا
اور جب اس کی مونچھ نکل آئی
تو مجھ ہی سے جفا کر گیا)
***مترجم کی وضاحت
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صحابی رسول معن بن أوس کے اشعار ہیں جنھوں نے احسان فراموشوں اور پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں پر یہ شعر لکھے۔
جبکہ میرا اندازہ اور اکثر علماء و ادباء کا بھی خیال یہ ہے کہ شاعر محمد أبو الفضل إبراهيم کی شاعری ہے جن کو اپنے اس بیٹے نے تیر مار کر مار دیا تھا جن کی تربیت انھوں نے خود کی تھی، بہترین تیر انداز بنایا تھا اس کو، اچھی تعلیم و تربیت مہیا کی تھی۔
طاہرے گونیش
(عربی سے براہ راست ترجمہ: طاہرے گونیش)
فَيَا عَجَبًا لمن رَبَّيْتُ طِفْلاً
ألقَّمُهُ بأطْراَفِ الْبَنَانِ
أعلِّمهُ الرِّماَيَةَ كُلَّ يوَمٍ
فَلَمَّا اسْتَدَّ ساَعِدُهُ رَمَاني
وَكَمْ عَلَّمْتُهُ نَظْمَ الْقَوَافي
فَلَمَّا قَال قَافِيَةً هَجَاني
أعلِّمهُ الْفُتُوَّةَ كُلَّ وَقْتٍ
فَلَمَّا طَرَّ شارِبُهُ جَفَاني
(وائے حیرت مجھ ایسے شخص پر کہ
جس نے ایک بچے کو پالا پوسا
اور اسے اپنی انگلیوں کی پوروں پر
لقمے بنا بنا کر کھلاتا رہا
میں اسے ہر روز تیر اندازی کے گر سکھاتا رہا
پر جب یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوا
تو مجھ پر ہی تیر برسا گیا
کتنی دیر میں اسے شعر کہنا سکھاتا رہا
قافیے سے قافیہ جوڑنا بتاتا رہا
پر جب وہ مصرع کہنے کے قابل ہوا
تو مجھ پر ہی ہجو کہہ ڈالی
میں ہی اسے تمام وقت لڑکپن سے
مردانگی اور شجاعت سمجھاتا رہا
اور جب اس کی مونچھ نکل آئی
تو مجھ ہی سے جفا کر گیا)
***مترجم کی وضاحت
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صحابی رسول معن بن أوس کے اشعار ہیں جنھوں نے احسان فراموشوں اور پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں پر یہ شعر لکھے۔
جبکہ میرا اندازہ اور اکثر علماء و ادباء کا بھی خیال یہ ہے کہ شاعر محمد أبو الفضل إبراهيم کی شاعری ہے جن کو اپنے اس بیٹے نے تیر مار کر مار دیا تھا جن کی تربیت انھوں نے خود کی تھی، بہترین تیر انداز بنایا تھا اس کو، اچھی تعلیم و تربیت مہیا کی تھی۔