سلطانہ کاخواب: "تعارف و تانیثی تجزیہ"

سلطانہ کاخواب: "تعارف و تانیثی تجزیہ"

Jun 1, 2025

مصنف

نسترن احسن فتیحی

سلطانہ کاخواب: "تعارف و تانیثی تجزیہ"

سنہ اشاعت:2024
صفحات:84
مصنفہ:پروفیسر آمنہ تحسین
تبصرہ نگار:نسترن احسن فتیحی


سلطانہ کاخواب:" تعارف و تانیثی تجزیہ" ایک ایسی اہم کتاب ہے جسے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ خواتین کے مطالعہ(Department of Women’s Studies) کی ممتاز اسکالر پروفیسر آمنہ تحسین نے مرتب اور پیش کیا ہے۔ تانیثیت کے اسکالرشپ میں اپنی وسیع شراکت کے لیے مشہور، پروفیسرآمنہ تحسین نے اس کتاب کو رقیہ سخاوت حسین کی تانیثی فکر کو نمایاں کرنے کے لیے مرتب کیا ہے۔ رقیہ سخاوت حسین 1905 میں اپنی کہانی "ڈریم آف سلطانہ" تصنیف کرنے والی ایک ایسی مصنفہ ہیں جن کی تحریروں میں تانیثی فکر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔،رقیہ سخاوت حسین اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور پدرانہ اصولوں کو چیلنج کرنا ان کی تحریروں کی نمایاں خوبی ہے۔

اس کتاب میں ڈاکٹر صہبا جمال شازلی کے "ڈریم آف سلطانہ" کا ایک نیا ترجمہ پیش کیا گیاہے، جس سے "ڈریم آف سلطانہ" کی رسائی وسیع تر سامعین تک ہو گی۔ رفیعہ شبنم عابدی کی طرف سے تحریر کردہ پیش لفظ، رقیہ سخاوت حسین کے کام کو وسیع تر تانیثیت کے دائرے میں رکھتے ہوئے نہ صرف ایک تاریخی اور ادبی سیاق و سباق فراہم کرتا ہے بلکہ کتاب کے لیے لہجے کا تعین بھی کرتا ہے۔

ابتدائی ابواب میں، پروفیسر آمنہ تحسین نے نہ صرف رقیہ سخاوت حسین کی زندگی اور کام کا تعارف پیش کیاہے بلکہ "سلطانہ کا خواب" کا تفصیلی تانیثی تجزیہ بھی فراہم کیا ہے۔ یہ تجزیہ تانیثیت کے نظریہ سے جڑا ہوا ہے، جو ان طریقوں کا جائزہ لیتا ہے جن میں ادب صنفی عدم مساوات کی عکاسی اور چیلنج دونوں کرسکتا ہے۔ تانیثیت کا نظریہ ان طاقت کی حرکیات کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خواتین کی ماتحتی کو برقرار رکھتی ہے اور ادب، ثقافت اور معاشرے میں خواتین کی نمائندگی کو تلاش کرتی ہے۔

اس تجزیے میں پروفیسر آمنہ تحسین نے لبرل فیمینزم کا فریم ورک استعمال کیا ہے۔یہ فریم ورک قانونی اور سیاسی اصلاحات کے ذریعے صنفی مساوات کے حصول پر مرکوز ہے۔ "سلطانہ کا خواب" میں خواتین کے زیر انتظام دنیا کا یوٹوپیائی نقطہ نظر لبرل نسائی نظریات کی عکاسی کرتا ہے، جو صنفی بنیاد پر پابندیوں کو چیلنج کرتا ہے جو معاشرے میں خواتین کے کردار کو محدود کرتی ہیں۔یہ تجزیہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح رقیہ سخاوت حسین ایک ایسی دنیا کا تصور کرتی ہیں جہاں روایتی صنفی کردار کو الٹ دیا جاتا ہے، اس طرح پدرانہ معاشرے کے بنیادی پہلوؤں پر سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ کہانی ایک بنیادی تبدیلی کو پیش کرتی ہے جہاں خواتین اقتدار پر قابض ہوتی ہیں، جو کہ مرد کے زیر تسلط نظام کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتی ہے۔

کہانی کی شروعات سلطانہ کے ایک آرامدا کرسی پر بیٹھنے اور " ہندستانی عورت کی حالت " کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ہوتی ہے۔

سلطانہ جب " ہندستانی عورت کی حالت " کے بارے میں سوچتی ہے تو وہ درحقیقت مرد اساس معاشرہ کے قایم کردہ اس تصور کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے جو صدیوں کی دین رہا۔

لیکن پیاری سلطانہ یہ کتنی نا انصافی ہے کہ بے چاری بے ضرر عورتوں کو بند کردیا جائے اور مردوں کو کھلا چھوڑ دیا جاۓ۔

پروفیسر آمنہ تحسین دریافت کرتی ہیں کہ کس طرح "سلطانہ کا خواب" نہ صرف مردانہ تسلط کو چیلنج کرتا ہے بلکہ تشدد اور جبر سے پاک معاشرے کی قیادت، تخلیق اور پرورش کرنے کی خواتین کی صلاحیت کو بھی منواتا ہے۔

نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت جنوبی ایشیا کے تاریخی تناظر پر غور کرتے ہوئے، تحسین کا تجزیہ پوسٹ نوآبادیاتی حقوق نسواں کے موضوعات کو بھی چھوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر صنف، نسل اور نوآبادیاتی نظام کے باہمی تعلق پر تنقید کرتا ہے، اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ ثقافتی اور سامراجی قوتوں کے ذریعے عورتوں کے جبر کو کس طرح بڑھایا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی ہندوستان کے تناظر میں لکھا گیا "سلطانہ کا خواب" نہ صرف صنفی مسائل بلکہ نوآبادیاتی حکمرانی کی طرف سے عائد کردہ وسیع تر سماجی پابندیوں کو بھی حل کرتا ہے۔

آمنہ تحسین کی کتاب "سلطانہ کا خواب": تعارف او رتانیثی تجزیہ" ایک اہم کام ہے جو صنفی مساوات کا ایک بنیادی نقطہ نظر پیش کرتا ہے، جہاں روایتی کردار کو الٹ دیا جاتا ہے اور خواتین معاشرے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ رقیہ سخاوت حسین کی کہانی اپنے وقت کے پدرانہ اصولوں کو چیلنج کرتی ہے، جس سے وہ جنوبی ایشیائی ادب کی ابتدائی نسوانی آوازوں میں سے ایک ہے۔ پروفیسر تحسین کی کتاب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح رقیہ سخاوت حسین کے کام نے اردو ادب میں نسوانی گفتگو کی راہ ہموار کی، جس میں خواتین کی "خاموش آوازوں" کو روشنی میں لانے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا جسے رقیہ سخاوت حسین نے وسعت دینے کی کوشش کی۔

اپنے جامع اور مدلل تانیثیت کے تجزیے کے ذریعے، پروفیسر تحسین یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح رقیہ سخاوت حسین کا وژن نہ صرف اپنے وقت کے لیے انقلابی تھا بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد میں بھی اس کا تعلق ہے۔ رقیہ سخاوت حسین کے کام کو حقوق نسواں کی عینک سے پرکھتے ہوئے، پروفیسر تحسین سماجی تبدیلی کی تحریک دینے اور صنفی مساوات کی وکالت کرنے کے لیے ادب کی پائیدار طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

کتاب "سلطانہ کاخواب: تعارف اور تانیثی تجزیہ" اردو ادب میں حقوق نسواں کی تاریخ میں ایک اہم شراکت کا وعدہ کرتی ہے۔ رقیہ سخاوت حسین کے بصیرت انگیز کام کو دوبارہ متعارف کراتے ہوئے ، پروفیسر آمنہ تحسین نے ایک ایسا وسیلہ بنایا ہے جو تانیثی تنقید کا فریم ورک فراہم کرتا ہے اور اسکالرز، حقوق نسواں اور قارئین کی آنے والی نسلوں کو آگاہ اور متاثر کرتا ہے ۔ یہ کتاب نہ صرف جنوبی ایشیا میں تانیثیت کی تاریخی جڑوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ سماجی اصولوں کو چیلنج کرنے اور نئی شکل دینے میں ادب کی تبدیلی کی صلاحیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب "سلطانہ کا خواب: تعارف اور تانیثی تجزیہ"اردو ادب میں تانیثیت کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور اس کے اثرات کو وسعت دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ پروفیسر آمنہ تحسین نے رقیہ سخاوت حسین کے بصیرت انگیز اور انقلابی کام کو دوبارہ متعارف کراتے ہوئے ایک جامع وسیلہ فراہم کیا ہے، جو نہ صرف تانیثی تنقید کے فریم ورک کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے بلکہ اسے مستقبل کے اسکالرز، تانیثیت کے علمبرداروں، اور عمومی قارئین کے لیے بھی کارآمد بناتا ہے۔

یہ کتاب جنوبی ایشیا میں تانیثی تحریک کی ابتدائی جڑوں کو اجاگر کرتی ہے اور اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کیسے رقیہ سخاوت حسین نے سماج کے روایتی اصولوں کو چیلنج کیا اور ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا جہاں خواتین نہ صرف برابر کی شراکت دار ہوں بلکہ قائدانہ کردار بھی ادا کریں۔ پروفیسر آمنہ تحسین کے تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رقیہ سخاوت حسین کا کام صرف تاریخی اہمیت کا حامل نہیں ہے، بلکہ یہ آج بھی خواتین کے حقوق کی جدو جہد کے لیے تحریک فراہم کرتا ہے۔

پروفیسر آمنہ تحسین نے رقیہ سخاوت حسین کے "سلطانہ کا خواب" کی تانیثی بنیادوں پر گہرائی سے گفتگوکی ہے، جس میں خواتین کی خاموش آوازوں کو سماج میں بلند کرنے کی کوشش کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ تجزیہ مختلف تانیثی نظریات پر مبنی ہے، جیسے کہ لبرل تانیثیت، ریڈیکل تانیثیت، ثقافتی تانیثیت، اور نوآبادیاتی تانیثیت، جو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح خواتین کے کرداروں کی نمائندگی میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور خواتین کو سماجی اور سیاسی سطح پر مساوی مقام دیا جا سکتا ہے۔

"سلطانہ کا خواب: تعارف اور تانیثی تجزیہ"نہ صرف ایک ادبی شاہکار کو از سر نو زندہ کرتا ہے بلکہ سماجی اور ثقافتی اصولوں کو تبدیل کرنے میں ادب کی طاقت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ایک ادبی تخلیق اپنے وقت سے آگے نکل کر ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر کی تحریک فراہم کرسکتی ہے جو صنفی مساوات کی جانب گامزن ہو۔ پروفیسر آمنہ تحسین کی یہ کاوش مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ صرف ادب میں بلکہ معاشرتی تبدیلی کے عمل میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلطانہ کاخواب: "تعارف و تانیثی تجزیہ"

سنہ اشاعت:2024
صفحات:84
مصنفہ:پروفیسر آمنہ تحسین
تبصرہ نگار:نسترن احسن فتیحی


سلطانہ کاخواب:" تعارف و تانیثی تجزیہ" ایک ایسی اہم کتاب ہے جسے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ خواتین کے مطالعہ(Department of Women’s Studies) کی ممتاز اسکالر پروفیسر آمنہ تحسین نے مرتب اور پیش کیا ہے۔ تانیثیت کے اسکالرشپ میں اپنی وسیع شراکت کے لیے مشہور، پروفیسرآمنہ تحسین نے اس کتاب کو رقیہ سخاوت حسین کی تانیثی فکر کو نمایاں کرنے کے لیے مرتب کیا ہے۔ رقیہ سخاوت حسین 1905 میں اپنی کہانی "ڈریم آف سلطانہ" تصنیف کرنے والی ایک ایسی مصنفہ ہیں جن کی تحریروں میں تانیثی فکر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔،رقیہ سخاوت حسین اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور پدرانہ اصولوں کو چیلنج کرنا ان کی تحریروں کی نمایاں خوبی ہے۔

اس کتاب میں ڈاکٹر صہبا جمال شازلی کے "ڈریم آف سلطانہ" کا ایک نیا ترجمہ پیش کیا گیاہے، جس سے "ڈریم آف سلطانہ" کی رسائی وسیع تر سامعین تک ہو گی۔ رفیعہ شبنم عابدی کی طرف سے تحریر کردہ پیش لفظ، رقیہ سخاوت حسین کے کام کو وسیع تر تانیثیت کے دائرے میں رکھتے ہوئے نہ صرف ایک تاریخی اور ادبی سیاق و سباق فراہم کرتا ہے بلکہ کتاب کے لیے لہجے کا تعین بھی کرتا ہے۔

ابتدائی ابواب میں، پروفیسر آمنہ تحسین نے نہ صرف رقیہ سخاوت حسین کی زندگی اور کام کا تعارف پیش کیاہے بلکہ "سلطانہ کا خواب" کا تفصیلی تانیثی تجزیہ بھی فراہم کیا ہے۔ یہ تجزیہ تانیثیت کے نظریہ سے جڑا ہوا ہے، جو ان طریقوں کا جائزہ لیتا ہے جن میں ادب صنفی عدم مساوات کی عکاسی اور چیلنج دونوں کرسکتا ہے۔ تانیثیت کا نظریہ ان طاقت کی حرکیات کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خواتین کی ماتحتی کو برقرار رکھتی ہے اور ادب، ثقافت اور معاشرے میں خواتین کی نمائندگی کو تلاش کرتی ہے۔

اس تجزیے میں پروفیسر آمنہ تحسین نے لبرل فیمینزم کا فریم ورک استعمال کیا ہے۔یہ فریم ورک قانونی اور سیاسی اصلاحات کے ذریعے صنفی مساوات کے حصول پر مرکوز ہے۔ "سلطانہ کا خواب" میں خواتین کے زیر انتظام دنیا کا یوٹوپیائی نقطہ نظر لبرل نسائی نظریات کی عکاسی کرتا ہے، جو صنفی بنیاد پر پابندیوں کو چیلنج کرتا ہے جو معاشرے میں خواتین کے کردار کو محدود کرتی ہیں۔یہ تجزیہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح رقیہ سخاوت حسین ایک ایسی دنیا کا تصور کرتی ہیں جہاں روایتی صنفی کردار کو الٹ دیا جاتا ہے، اس طرح پدرانہ معاشرے کے بنیادی پہلوؤں پر سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ کہانی ایک بنیادی تبدیلی کو پیش کرتی ہے جہاں خواتین اقتدار پر قابض ہوتی ہیں، جو کہ مرد کے زیر تسلط نظام کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتی ہے۔

کہانی کی شروعات سلطانہ کے ایک آرامدا کرسی پر بیٹھنے اور " ہندستانی عورت کی حالت " کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ہوتی ہے۔

سلطانہ جب " ہندستانی عورت کی حالت " کے بارے میں سوچتی ہے تو وہ درحقیقت مرد اساس معاشرہ کے قایم کردہ اس تصور کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے جو صدیوں کی دین رہا۔

لیکن پیاری سلطانہ یہ کتنی نا انصافی ہے کہ بے چاری بے ضرر عورتوں کو بند کردیا جائے اور مردوں کو کھلا چھوڑ دیا جاۓ۔

پروفیسر آمنہ تحسین دریافت کرتی ہیں کہ کس طرح "سلطانہ کا خواب" نہ صرف مردانہ تسلط کو چیلنج کرتا ہے بلکہ تشدد اور جبر سے پاک معاشرے کی قیادت، تخلیق اور پرورش کرنے کی خواتین کی صلاحیت کو بھی منواتا ہے۔

نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت جنوبی ایشیا کے تاریخی تناظر پر غور کرتے ہوئے، تحسین کا تجزیہ پوسٹ نوآبادیاتی حقوق نسواں کے موضوعات کو بھی چھوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر صنف، نسل اور نوآبادیاتی نظام کے باہمی تعلق پر تنقید کرتا ہے، اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ ثقافتی اور سامراجی قوتوں کے ذریعے عورتوں کے جبر کو کس طرح بڑھایا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی ہندوستان کے تناظر میں لکھا گیا "سلطانہ کا خواب" نہ صرف صنفی مسائل بلکہ نوآبادیاتی حکمرانی کی طرف سے عائد کردہ وسیع تر سماجی پابندیوں کو بھی حل کرتا ہے۔

آمنہ تحسین کی کتاب "سلطانہ کا خواب": تعارف او رتانیثی تجزیہ" ایک اہم کام ہے جو صنفی مساوات کا ایک بنیادی نقطہ نظر پیش کرتا ہے، جہاں روایتی کردار کو الٹ دیا جاتا ہے اور خواتین معاشرے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ رقیہ سخاوت حسین کی کہانی اپنے وقت کے پدرانہ اصولوں کو چیلنج کرتی ہے، جس سے وہ جنوبی ایشیائی ادب کی ابتدائی نسوانی آوازوں میں سے ایک ہے۔ پروفیسر تحسین کی کتاب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح رقیہ سخاوت حسین کے کام نے اردو ادب میں نسوانی گفتگو کی راہ ہموار کی، جس میں خواتین کی "خاموش آوازوں" کو روشنی میں لانے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا جسے رقیہ سخاوت حسین نے وسعت دینے کی کوشش کی۔

اپنے جامع اور مدلل تانیثیت کے تجزیے کے ذریعے، پروفیسر تحسین یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح رقیہ سخاوت حسین کا وژن نہ صرف اپنے وقت کے لیے انقلابی تھا بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد میں بھی اس کا تعلق ہے۔ رقیہ سخاوت حسین کے کام کو حقوق نسواں کی عینک سے پرکھتے ہوئے، پروفیسر تحسین سماجی تبدیلی کی تحریک دینے اور صنفی مساوات کی وکالت کرنے کے لیے ادب کی پائیدار طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

کتاب "سلطانہ کاخواب: تعارف اور تانیثی تجزیہ" اردو ادب میں حقوق نسواں کی تاریخ میں ایک اہم شراکت کا وعدہ کرتی ہے۔ رقیہ سخاوت حسین کے بصیرت انگیز کام کو دوبارہ متعارف کراتے ہوئے ، پروفیسر آمنہ تحسین نے ایک ایسا وسیلہ بنایا ہے جو تانیثی تنقید کا فریم ورک فراہم کرتا ہے اور اسکالرز، حقوق نسواں اور قارئین کی آنے والی نسلوں کو آگاہ اور متاثر کرتا ہے ۔ یہ کتاب نہ صرف جنوبی ایشیا میں تانیثیت کی تاریخی جڑوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ سماجی اصولوں کو چیلنج کرنے اور نئی شکل دینے میں ادب کی تبدیلی کی صلاحیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب "سلطانہ کا خواب: تعارف اور تانیثی تجزیہ"اردو ادب میں تانیثیت کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور اس کے اثرات کو وسعت دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ پروفیسر آمنہ تحسین نے رقیہ سخاوت حسین کے بصیرت انگیز اور انقلابی کام کو دوبارہ متعارف کراتے ہوئے ایک جامع وسیلہ فراہم کیا ہے، جو نہ صرف تانیثی تنقید کے فریم ورک کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے بلکہ اسے مستقبل کے اسکالرز، تانیثیت کے علمبرداروں، اور عمومی قارئین کے لیے بھی کارآمد بناتا ہے۔

یہ کتاب جنوبی ایشیا میں تانیثی تحریک کی ابتدائی جڑوں کو اجاگر کرتی ہے اور اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کیسے رقیہ سخاوت حسین نے سماج کے روایتی اصولوں کو چیلنج کیا اور ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا جہاں خواتین نہ صرف برابر کی شراکت دار ہوں بلکہ قائدانہ کردار بھی ادا کریں۔ پروفیسر آمنہ تحسین کے تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رقیہ سخاوت حسین کا کام صرف تاریخی اہمیت کا حامل نہیں ہے، بلکہ یہ آج بھی خواتین کے حقوق کی جدو جہد کے لیے تحریک فراہم کرتا ہے۔

پروفیسر آمنہ تحسین نے رقیہ سخاوت حسین کے "سلطانہ کا خواب" کی تانیثی بنیادوں پر گہرائی سے گفتگوکی ہے، جس میں خواتین کی خاموش آوازوں کو سماج میں بلند کرنے کی کوشش کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ تجزیہ مختلف تانیثی نظریات پر مبنی ہے، جیسے کہ لبرل تانیثیت، ریڈیکل تانیثیت، ثقافتی تانیثیت، اور نوآبادیاتی تانیثیت، جو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح خواتین کے کرداروں کی نمائندگی میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور خواتین کو سماجی اور سیاسی سطح پر مساوی مقام دیا جا سکتا ہے۔

"سلطانہ کا خواب: تعارف اور تانیثی تجزیہ"نہ صرف ایک ادبی شاہکار کو از سر نو زندہ کرتا ہے بلکہ سماجی اور ثقافتی اصولوں کو تبدیل کرنے میں ادب کی طاقت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ایک ادبی تخلیق اپنے وقت سے آگے نکل کر ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر کی تحریک فراہم کرسکتی ہے جو صنفی مساوات کی جانب گامزن ہو۔ پروفیسر آمنہ تحسین کی یہ کاوش مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ صرف ادب میں بلکہ معاشرتی تبدیلی کے عمل میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024