تبصرہ کتب

تبصرہ کتب

Dec 15, 2021

مصنف

سبین علی

شمارہ

شمارہ - ١٤


تبصرہ کتب؛سبین علی

لکھتے رہنا

عبیرہ احمد سے پہلا تعارف دیدبان کے ابتدائی دور میں ہوا اور اپنا دیرپا تاثر چھوڑ گیا۔

حلقہ اور انجمن کے اجلاس میں اکثر شرکت کرنے والے ایک مصنف سے کہا کہ پاک ٹی ہاؤس میں کسی اچھی شاعرہ کو سنا ہو تو دیدبان کے لیے نام تجویز کیجیے۔ انہوں نے عبیرہ کو پیغام بھیجا اور عبیرہ نے اس شمارے کے لیے اپنی دو نظمیں بھجوا دیں۔ کلام پڑھا تو امکانات سے پر ایک بڑی ہی با صلاحیت شاعرہ معلوم ہوئیں۔ سوچا بڑا پختہ آہنگ ہے اسلوب بھی جداگانہ ہے یقینا میچور شاعرہ ہوں گی۔ جریدے کی پالیسی کے تحت تصویر اور تعارف مانگا تو اس وقت عبیرہ یونیورسٹی کی طالبہ اور نوجوان شاعرہ تھیں۔ مگر ان کی نظم کی پختگی نے خوشگوار حیرت سے دوچار کیا۔ اور انکی یہ نظم  جو دیدبان کے ابتدائی شماروں میں شامل تھی بڑی سراہی گئی۔

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتا دی

ڈرتے ڈرتے دروازے کی اوٹ سے باہر جھانکا

ہر ملنے والے کو پرکھا، ہر احساس کو آنکا

کھل جاتا تھا ہر دستک پر ایک پرانا ٹانکا

ایک کواڑ ذرا سرکایا اور زنجیر چڑھادی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

تیرے نام پیام لکھے، پر کبھی نہ سچ لکھ پائی

میرے اندر کی عورت نے آدھی بات چھپائی

لوگوں میں مشہور کیا میں نے تجھ کو ہرجائی

نادم ہوکر نظم لکھی کچھ سوچا اور مٹا دی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

اپنے سائے سے، تیرے پیکر سے ہراساں گزری

تیرے بعد بھی گزری لیکن عمر پریشاں گزری

محفل سے کتراتی اور خلوت سے گریزاں گزری

چادر ٹھیک سے کھول کے اوڑھی، اوڑھ کے پھر سرکا دی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

ایملی برونٹے میری پسندیدہ شاعرات میں سے ہے ایک دن اسکی نظم پڑھی

I am the only being

اور کہا اٹھارہ سال کی عمر میں کوئی لڑکی اتنے پختہ احساسات کیونکر لکھ سکتی ہے مگر اس بار یہ سوال نہ تھا کیونکہ شاعر ادیب  اور فنکار کی حساسیت اور مشاہدہ کہیں زیادہ گہرا ہوتا ہے زندگی کو وہ ایک تیسری آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کچھ زیادہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ عبیرہ احمد کی شاعری میں درون ذات کا سفر، تنہائی، جانچ پرکھ سوال جواب اور پھر خود سے مکالمہ تمام تر محسوسات سمیت موجود ہے۔ یہ تنہائی ،نیم اداسی اور شعور کی پرتوں کا سفر ایک لکھنے والے کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ یہ شعور کی وہ سطحیں ہیں کہ جہاں سے آمد کے دروازے کھلتے ہیں ۔

مگر ساتھ ہی ایک حساس شاعرہ کو  یہ خدشہ کہ اس کے محسوسات اب ذاتی نہیں رہے۔ شاعری میں ڈھلنے کے بعد عوامی ہو چکے ہیں۔ انہیں واہ اور آہ کے پیچھے  چھپے طنز نظر آنے لگتے ہیں شعور کی سطح پر کوئی لہر ابھرتی ہے اور کہتی ہے

ہم نے یادوں کی میز پر لا کر

اس کے امکاں کی آہٹیں رکھیں

شبد رکھے

شباہتیں رکھیں

پھول رکھے

مکاشفے رکھے

خوف رکھے

مسافتیں رکھیں

ساتھ پیروں کے آبلے رکھے

وحشت نیم شب دھری، ہمراہ

زنگ آلود خواب لا رکھے

شہر کے سارے کم نصیبوں کو

سارے صیقل گروں کو بلوایا

چند خوابوں، شکستہ خوابوں کی

آج تقریب رونمائی تھی

ہم نے اپنا مذاق اڑوایا

شاعری کی روشنائی اس کے اندر ہی ہے بس کوئی تار مضراب کو چھیڑ دے کہ سر نکلیں۔

عبیرہ کی شاعرہ میں الفاظ کو برتنے کا ہنر خدا جانے فطرت سے ودیعت ہوا ہے یا تربیت سے۔ قدرے مشکل الفاظ کو یوں سہولت سے برت جاتی ہیں گویا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ ان پر ایک اعتراض مشکل پسندی کا آئے گا۔ لیکن اس ناچیز کی رائے میں ہر لفظ اپنی پیدائش سے لے کر زبان زد عام ہونے تک صدیوں اور بسا اوقات قرنوں کا سفر کرتا ہے۔ اس لفظ کو مشکل قرار دے کر متروک کر دینا لفظ کی موت ہے۔ لفظ کو برت کے شاعر اور ادیب اس کو ایک نئی عمر عطا کرتا ہے اور صدیوں کے سفر پر روانہ کر دیتا ہے کہ کوئی ہے جو اسے پھر سے برتے اور اک نئی عمر عطا کرے۔

مگر لفظ اور زبان تو رواں ندی کی مانند ہوتے ہیں ہم نہیں کہہ سکتے رہیں گے کہ اپنی ہئیت بدل لیں گے۔

وہ فارسی الفاظ کا استعمال بھی خوب کرتی ہیں۔ چند عشرے قبل فارسی ہر سرکاری سکول کے نصاب کا حصہ تھی مگر اب نہیں ہے۔ الفاظ کا متواتر استعمال ہی انہیں عام فہم اور زبان زد عام و خاص بنا سکتا ہے وگرنہ وقت تو بہت کچھ بہا لے جاتا ہے زبانوں تہذیبوں سمیت ۔ عبیرہ اپنی فطرت میں ایک کھوجی ایک ایکسپلورر ہے۔ وہ اس دنیا کو کواڑ کھول کر حیرت سے دیکھتی ہے پھر چھو کر جانچتی ہے۔ ہاتھ جلتا ہے اسرار کھلتے ہیں اور ہر بھید اپنے پورے بھاؤ اور گھاؤ سمیت نظم بن کر قرطاس پر اتر آتا ہے۔

عبیرہ نے اپنی جائے پیدائش خانیوال ، دادا کے گھر بچپن کی یادوں، حلقہ ارباب ذوق، کتب کی تقاریب بارے بڑی اچھی نظمیں کہی ہیں۔ سرقہ و توارد کے قضیے پر بھی بڑے رنج سے لکھا ہے۔ مگر ان کی ایک نظم جو پہلی بار دیدبان میں شائع ہوئی تھی جسے بہت پسند کیا گیا آپ کے لیے لکھتی ہوں۔۔

جائے نرسیدیم

حاسدہ !

میرے دامن میں کچھ بھی نہیں

میری لکھی ہوئی

چار نظموں کی معروفیت پہ نہ جا

جو مری نارسائی نہیں لکھ سکی

وہ نوشتہ بھی پڑھ

میری راتوں کے کالے ورق دیکھ جا

مجھ سے پہلو بچا کر کہاں جائے گی

ایک بار آکے میری کلائی پکڑ

ماند پڑتی ہتھیلی کی ریکھائیں پڑھ

دیکھ کتنے کھلے، ادھ سلے زخم ہیں

میری انگشت کے آبلے گن زرا

حاسدہ!

میرے دامن میں کچھ بھی نہیں

دیکھ کتنی برہنہ نگاہیں میری آرزووں کی چادر میں پیوست ہیں

دیکھ شہر ہنر کی فصیلوں سے لپٹے ہوئے اژدھے

میری نظموں سے رستے لہو کی ہمکتی ہوئی باس پر

کیسے بدمست ہیں

یاں لکھی جاچکی جگ ہنسائی تری

میرے لفظوں کی رعنائی بھی میری جاں

اس خرابے میں بس نقش بر آب ہے

مہلت یک نفس کا اشارہ ہے سب تیرا حسن طلب

میرا ذوق نمو بھی گھڑی دوگھڑی کے لیے مرتعش تار مضراب ہے

تیرے میرے لیے

پاوں رکھنے کی جا بھی یہاں خوا ب ہے

پھر یہاں چار لفظوں کا جھگڑا ہی کیا

تیرا لکھا بھی کیا

میرا لکھا بھی کیا

حاسدہ !

میرے کاسے میں داد و دہش ہی کے سکے نہیں

جسم و جاں کے کئی اور بھی روگ ہیں

بارگاہ ہنر کے سبھی مقتدر

تو نہیں جانتی

کیا برے لوگ ہیں

عبیرہ احمد

مطبوعہ دیدبان


تبصرہ کتب؛سبین علی

لکھتے رہنا

عبیرہ احمد سے پہلا تعارف دیدبان کے ابتدائی دور میں ہوا اور اپنا دیرپا تاثر چھوڑ گیا۔

حلقہ اور انجمن کے اجلاس میں اکثر شرکت کرنے والے ایک مصنف سے کہا کہ پاک ٹی ہاؤس میں کسی اچھی شاعرہ کو سنا ہو تو دیدبان کے لیے نام تجویز کیجیے۔ انہوں نے عبیرہ کو پیغام بھیجا اور عبیرہ نے اس شمارے کے لیے اپنی دو نظمیں بھجوا دیں۔ کلام پڑھا تو امکانات سے پر ایک بڑی ہی با صلاحیت شاعرہ معلوم ہوئیں۔ سوچا بڑا پختہ آہنگ ہے اسلوب بھی جداگانہ ہے یقینا میچور شاعرہ ہوں گی۔ جریدے کی پالیسی کے تحت تصویر اور تعارف مانگا تو اس وقت عبیرہ یونیورسٹی کی طالبہ اور نوجوان شاعرہ تھیں۔ مگر ان کی نظم کی پختگی نے خوشگوار حیرت سے دوچار کیا۔ اور انکی یہ نظم  جو دیدبان کے ابتدائی شماروں میں شامل تھی بڑی سراہی گئی۔

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتا دی

ڈرتے ڈرتے دروازے کی اوٹ سے باہر جھانکا

ہر ملنے والے کو پرکھا، ہر احساس کو آنکا

کھل جاتا تھا ہر دستک پر ایک پرانا ٹانکا

ایک کواڑ ذرا سرکایا اور زنجیر چڑھادی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

تیرے نام پیام لکھے، پر کبھی نہ سچ لکھ پائی

میرے اندر کی عورت نے آدھی بات چھپائی

لوگوں میں مشہور کیا میں نے تجھ کو ہرجائی

نادم ہوکر نظم لکھی کچھ سوچا اور مٹا دی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

اپنے سائے سے، تیرے پیکر سے ہراساں گزری

تیرے بعد بھی گزری لیکن عمر پریشاں گزری

محفل سے کتراتی اور خلوت سے گریزاں گزری

چادر ٹھیک سے کھول کے اوڑھی، اوڑھ کے پھر سرکا دی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

ایملی برونٹے میری پسندیدہ شاعرات میں سے ہے ایک دن اسکی نظم پڑھی

I am the only being

اور کہا اٹھارہ سال کی عمر میں کوئی لڑکی اتنے پختہ احساسات کیونکر لکھ سکتی ہے مگر اس بار یہ سوال نہ تھا کیونکہ شاعر ادیب  اور فنکار کی حساسیت اور مشاہدہ کہیں زیادہ گہرا ہوتا ہے زندگی کو وہ ایک تیسری آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کچھ زیادہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ عبیرہ احمد کی شاعری میں درون ذات کا سفر، تنہائی، جانچ پرکھ سوال جواب اور پھر خود سے مکالمہ تمام تر محسوسات سمیت موجود ہے۔ یہ تنہائی ،نیم اداسی اور شعور کی پرتوں کا سفر ایک لکھنے والے کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ یہ شعور کی وہ سطحیں ہیں کہ جہاں سے آمد کے دروازے کھلتے ہیں ۔

مگر ساتھ ہی ایک حساس شاعرہ کو  یہ خدشہ کہ اس کے محسوسات اب ذاتی نہیں رہے۔ شاعری میں ڈھلنے کے بعد عوامی ہو چکے ہیں۔ انہیں واہ اور آہ کے پیچھے  چھپے طنز نظر آنے لگتے ہیں شعور کی سطح پر کوئی لہر ابھرتی ہے اور کہتی ہے

ہم نے یادوں کی میز پر لا کر

اس کے امکاں کی آہٹیں رکھیں

شبد رکھے

شباہتیں رکھیں

پھول رکھے

مکاشفے رکھے

خوف رکھے

مسافتیں رکھیں

ساتھ پیروں کے آبلے رکھے

وحشت نیم شب دھری، ہمراہ

زنگ آلود خواب لا رکھے

شہر کے سارے کم نصیبوں کو

سارے صیقل گروں کو بلوایا

چند خوابوں، شکستہ خوابوں کی

آج تقریب رونمائی تھی

ہم نے اپنا مذاق اڑوایا

شاعری کی روشنائی اس کے اندر ہی ہے بس کوئی تار مضراب کو چھیڑ دے کہ سر نکلیں۔

عبیرہ کی شاعرہ میں الفاظ کو برتنے کا ہنر خدا جانے فطرت سے ودیعت ہوا ہے یا تربیت سے۔ قدرے مشکل الفاظ کو یوں سہولت سے برت جاتی ہیں گویا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ ان پر ایک اعتراض مشکل پسندی کا آئے گا۔ لیکن اس ناچیز کی رائے میں ہر لفظ اپنی پیدائش سے لے کر زبان زد عام ہونے تک صدیوں اور بسا اوقات قرنوں کا سفر کرتا ہے۔ اس لفظ کو مشکل قرار دے کر متروک کر دینا لفظ کی موت ہے۔ لفظ کو برت کے شاعر اور ادیب اس کو ایک نئی عمر عطا کرتا ہے اور صدیوں کے سفر پر روانہ کر دیتا ہے کہ کوئی ہے جو اسے پھر سے برتے اور اک نئی عمر عطا کرے۔

مگر لفظ اور زبان تو رواں ندی کی مانند ہوتے ہیں ہم نہیں کہہ سکتے رہیں گے کہ اپنی ہئیت بدل لیں گے۔

وہ فارسی الفاظ کا استعمال بھی خوب کرتی ہیں۔ چند عشرے قبل فارسی ہر سرکاری سکول کے نصاب کا حصہ تھی مگر اب نہیں ہے۔ الفاظ کا متواتر استعمال ہی انہیں عام فہم اور زبان زد عام و خاص بنا سکتا ہے وگرنہ وقت تو بہت کچھ بہا لے جاتا ہے زبانوں تہذیبوں سمیت ۔ عبیرہ اپنی فطرت میں ایک کھوجی ایک ایکسپلورر ہے۔ وہ اس دنیا کو کواڑ کھول کر حیرت سے دیکھتی ہے پھر چھو کر جانچتی ہے۔ ہاتھ جلتا ہے اسرار کھلتے ہیں اور ہر بھید اپنے پورے بھاؤ اور گھاؤ سمیت نظم بن کر قرطاس پر اتر آتا ہے۔

عبیرہ نے اپنی جائے پیدائش خانیوال ، دادا کے گھر بچپن کی یادوں، حلقہ ارباب ذوق، کتب کی تقاریب بارے بڑی اچھی نظمیں کہی ہیں۔ سرقہ و توارد کے قضیے پر بھی بڑے رنج سے لکھا ہے۔ مگر ان کی ایک نظم جو پہلی بار دیدبان میں شائع ہوئی تھی جسے بہت پسند کیا گیا آپ کے لیے لکھتی ہوں۔۔

جائے نرسیدیم

حاسدہ !

میرے دامن میں کچھ بھی نہیں

میری لکھی ہوئی

چار نظموں کی معروفیت پہ نہ جا

جو مری نارسائی نہیں لکھ سکی

وہ نوشتہ بھی پڑھ

میری راتوں کے کالے ورق دیکھ جا

مجھ سے پہلو بچا کر کہاں جائے گی

ایک بار آکے میری کلائی پکڑ

ماند پڑتی ہتھیلی کی ریکھائیں پڑھ

دیکھ کتنے کھلے، ادھ سلے زخم ہیں

میری انگشت کے آبلے گن زرا

حاسدہ!

میرے دامن میں کچھ بھی نہیں

دیکھ کتنی برہنہ نگاہیں میری آرزووں کی چادر میں پیوست ہیں

دیکھ شہر ہنر کی فصیلوں سے لپٹے ہوئے اژدھے

میری نظموں سے رستے لہو کی ہمکتی ہوئی باس پر

کیسے بدمست ہیں

یاں لکھی جاچکی جگ ہنسائی تری

میرے لفظوں کی رعنائی بھی میری جاں

اس خرابے میں بس نقش بر آب ہے

مہلت یک نفس کا اشارہ ہے سب تیرا حسن طلب

میرا ذوق نمو بھی گھڑی دوگھڑی کے لیے مرتعش تار مضراب ہے

تیرے میرے لیے

پاوں رکھنے کی جا بھی یہاں خوا ب ہے

پھر یہاں چار لفظوں کا جھگڑا ہی کیا

تیرا لکھا بھی کیا

میرا لکھا بھی کیا

حاسدہ !

میرے کاسے میں داد و دہش ہی کے سکے نہیں

جسم و جاں کے کئی اور بھی روگ ہیں

بارگاہ ہنر کے سبھی مقتدر

تو نہیں جانتی

کیا برے لوگ ہیں

عبیرہ احمد

مطبوعہ دیدبان

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024