سید ماجد شاہ کی دو نظمیں
سید ماجد شاہ کی دو نظمیں
Feb 4, 2024
دو منفرد نظمیں
دیدبان شمارہ (۲۰ اور۲۱)۲۰۲۴
منظر اک بیداری کا
(سید ماجد شاہ)
کروٹ بستر پر لی اُس نے اور پلکیں جھپکائیں
نیند کی پریاں جاتے جاتے کھڑکی سے مُسکائیں
اُس نے لیٹے لیٹے لی پھر بستر پر انگڑائی
تازہ شکنیں ڈال گئی تھی چادر پر انگڑائی
نیند سے بوجھل بوجھل آنکھیں، بکھرے بکھرے بال
اُبھرے اُبھرے ہونٹ ذرا سے سوجے سوجے گال
سلوٹ سلوٹ کپڑے جیسے چیڑوں کی ہو چھال
سویا سویا جسم ابھی تک گویا تھا بے حال
بِن کاجل آنکھیں تھیں اُس دَم، بِن لالی تھے گال
صبح سویرے بھی تھا اُس کا جوبن ایک مثال
جب وہ اُٹھ کر بیٹھی اُس کو سورج دیکھ نہ پایا
چاند ستارے رات جلائے، اَب سورج بھڑکایا
بیداری کی خبروں نے پھر غنچے پھول بنائے
شبنم، خوشبو، گھاس واس سب اُس کو دیکھنے آئے
بیٹھے بیٹھے گوری نے پھر ایک ادا دِکھلائی
اِک جھٹکے میں ساری زلفیں اِک شانے پر لائی
کالی رات لپیٹ کے رکھے جیسے سورج سائیں
اُس نے بھی بَل دے کر زلفیں سر پر جا اَٹکائیں
پیارے پیارے ہاتھوں سے جب منہ اُس نے سہلایا
چیت کے پورے چاند کو گویا اِک پل میں گہنایا
آدھی ٹوٹی ایک جمائی لے کر اُٹھ گئی پیاری
چادر، بستر، تکیہ روئے، خوب ہوئی پھر زاری
پیروں میں اَٹکاتے چپل گرتے گرتے سنبھلی
نیند ابھی تھی جسم میں باقی جاگی کب تھی کملی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم "رکے ہوئے وقت سے گزرتا منظر".۔۔۔
( سید ماجد شاہ)۔
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا
یہ سب کہ جس طرح تھا نہیں
ہوا جو ہے یہ اسی طرح ہے
یہ سارا سبزا وہی ہے جو تھا
شجر جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں
حجر جہاں تھے وہیں پڑے ہیں
پہاڑ منظر میں جس جگہ تھا وہیں ہے اب تک۔۔۔
کھلی فضا میں وہ چند پنچھی جودائروں میں تھے
محو ء رقصاں اسی طرح ہیں
وہ ابر ء بے جاں کے چند ٹکڑے جو مثل ء پیوند ء آسماں تھے
وہ اب بھی پیوند کی طرح ہیں
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا
یہ سب کہ جس طرح تھا۔۔۔نہیں ہے
وہ ایک دہقاں جو کھیت میں ہل چلا رہا تھا ابھی وہیں ہے
وہ ایک لڑکی جو پانی بھرنے کو جا رہی تھی وہ جا رہی ہے
وہ ایک لڑکا جو اس کے رستے میں اپنی پلکیں بچھا رہا تھا
جہاں سے نظریں چرا چرا کر وہ اب بھی پلکیں بچھارہا ہے
وہ اب بھی نظریں چرا رہا ہے
وہ چند بوڑھے جو محو تھے اپنی گفتگو میں وہ
اب بھی اک کھیت کے کے کنارے اسی طرح محو گفتگو ہیں
وہ چند بچے جو کھیلتے تھے وہ کھیلتے ہیں
جو پھیری والے کی بھدی آواز آرہی تھی وہ آرہی ہے
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا یہ سب کہ جس طرح تھا۔۔۔۔نہیں ہے
وہ ڈھور ڈنگر جو چر رہے تھے اور اپنے کانوں سے
اپنی چمڑی کی تھرتھراہٹ سے اپنی ٹانگوں سے،اپنی دم سے اڑا رہے تھے جو مکھیوں کو
وہی ہے انداز ان کا اب تک اسی طرح سے وہ چر رہے ہیں
وہ ایک کتا جو آنے والی ہوا سے خطرے کی بو کو
محسوس کر رہا تھا ہوا سے یوں ہی الجھ رہا تھا ہوا
سے یوں ہی الجھ رہا ہے
وہ ایک مرغی اور اس کے بچے۔۔۔۔اسی طرح ہیں
وہ ایک بکری جو سارے منظر میں بے نیازی کا اک نمونہ بنی ہوئی تھی
وہ اب بھی اک ٹانگ کو پسارے مگن ہے اپنی جگالیوں میں۔۔۔۔اسی طرح ہے
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا یہ سب کہ جس طرح تھا۔۔۔۔نہیں ہے
وہ کچے پکے گھروں کی چھت پر پڑی ہوئی غیر اہم چیزیں
وہ ایک کھاری۔۔۔۔وہ ٹوٹا لوٹا وہ خستہ کرسی۔۔۔وہ اک چٹائی وہ چارپائی۔۔۔۔۔۔
وہ لکڑیاں کچھ پرانا ٹوٹا ہوا سا اک ہل جہاں پہ رکھا ہوا تھا کچھ بھی۔۔۔وہیں پڑا مگر نہیں ہے
گھروں کے صحنوں کے درمیاں جو تنی ہوئی
رسیوں پہ کپڑے لٹک رہے تھے وہی ہیں رنگ ان کے پہلے جیسے۔۔۔۔۔مگر نہیں ہیں
یہ لوگ سارے یہ ان کے لہجے یہ ناک نقشے
یہ سب کے جس طرح تھے۔۔۔۔وہی ہیں مگر نہیں ہیں مگر نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیدبان شمارہ (۲۰ اور۲۱)۲۰۲۴
منظر اک بیداری کا
(سید ماجد شاہ)
کروٹ بستر پر لی اُس نے اور پلکیں جھپکائیں
نیند کی پریاں جاتے جاتے کھڑکی سے مُسکائیں
اُس نے لیٹے لیٹے لی پھر بستر پر انگڑائی
تازہ شکنیں ڈال گئی تھی چادر پر انگڑائی
نیند سے بوجھل بوجھل آنکھیں، بکھرے بکھرے بال
اُبھرے اُبھرے ہونٹ ذرا سے سوجے سوجے گال
سلوٹ سلوٹ کپڑے جیسے چیڑوں کی ہو چھال
سویا سویا جسم ابھی تک گویا تھا بے حال
بِن کاجل آنکھیں تھیں اُس دَم، بِن لالی تھے گال
صبح سویرے بھی تھا اُس کا جوبن ایک مثال
جب وہ اُٹھ کر بیٹھی اُس کو سورج دیکھ نہ پایا
چاند ستارے رات جلائے، اَب سورج بھڑکایا
بیداری کی خبروں نے پھر غنچے پھول بنائے
شبنم، خوشبو، گھاس واس سب اُس کو دیکھنے آئے
بیٹھے بیٹھے گوری نے پھر ایک ادا دِکھلائی
اِک جھٹکے میں ساری زلفیں اِک شانے پر لائی
کالی رات لپیٹ کے رکھے جیسے سورج سائیں
اُس نے بھی بَل دے کر زلفیں سر پر جا اَٹکائیں
پیارے پیارے ہاتھوں سے جب منہ اُس نے سہلایا
چیت کے پورے چاند کو گویا اِک پل میں گہنایا
آدھی ٹوٹی ایک جمائی لے کر اُٹھ گئی پیاری
چادر، بستر، تکیہ روئے، خوب ہوئی پھر زاری
پیروں میں اَٹکاتے چپل گرتے گرتے سنبھلی
نیند ابھی تھی جسم میں باقی جاگی کب تھی کملی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم "رکے ہوئے وقت سے گزرتا منظر".۔۔۔
( سید ماجد شاہ)۔
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا
یہ سب کہ جس طرح تھا نہیں
ہوا جو ہے یہ اسی طرح ہے
یہ سارا سبزا وہی ہے جو تھا
شجر جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں
حجر جہاں تھے وہیں پڑے ہیں
پہاڑ منظر میں جس جگہ تھا وہیں ہے اب تک۔۔۔
کھلی فضا میں وہ چند پنچھی جودائروں میں تھے
محو ء رقصاں اسی طرح ہیں
وہ ابر ء بے جاں کے چند ٹکڑے جو مثل ء پیوند ء آسماں تھے
وہ اب بھی پیوند کی طرح ہیں
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا
یہ سب کہ جس طرح تھا۔۔۔نہیں ہے
وہ ایک دہقاں جو کھیت میں ہل چلا رہا تھا ابھی وہیں ہے
وہ ایک لڑکی جو پانی بھرنے کو جا رہی تھی وہ جا رہی ہے
وہ ایک لڑکا جو اس کے رستے میں اپنی پلکیں بچھا رہا تھا
جہاں سے نظریں چرا چرا کر وہ اب بھی پلکیں بچھارہا ہے
وہ اب بھی نظریں چرا رہا ہے
وہ چند بوڑھے جو محو تھے اپنی گفتگو میں وہ
اب بھی اک کھیت کے کے کنارے اسی طرح محو گفتگو ہیں
وہ چند بچے جو کھیلتے تھے وہ کھیلتے ہیں
جو پھیری والے کی بھدی آواز آرہی تھی وہ آرہی ہے
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا یہ سب کہ جس طرح تھا۔۔۔۔نہیں ہے
وہ ڈھور ڈنگر جو چر رہے تھے اور اپنے کانوں سے
اپنی چمڑی کی تھرتھراہٹ سے اپنی ٹانگوں سے،اپنی دم سے اڑا رہے تھے جو مکھیوں کو
وہی ہے انداز ان کا اب تک اسی طرح سے وہ چر رہے ہیں
وہ ایک کتا جو آنے والی ہوا سے خطرے کی بو کو
محسوس کر رہا تھا ہوا سے یوں ہی الجھ رہا تھا ہوا
سے یوں ہی الجھ رہا ہے
وہ ایک مرغی اور اس کے بچے۔۔۔۔اسی طرح ہیں
وہ ایک بکری جو سارے منظر میں بے نیازی کا اک نمونہ بنی ہوئی تھی
وہ اب بھی اک ٹانگ کو پسارے مگن ہے اپنی جگالیوں میں۔۔۔۔اسی طرح ہے
یہ سب وہی ہے کہ جس طرح تھا یہ سب کہ جس طرح تھا۔۔۔۔نہیں ہے
وہ کچے پکے گھروں کی چھت پر پڑی ہوئی غیر اہم چیزیں
وہ ایک کھاری۔۔۔۔وہ ٹوٹا لوٹا وہ خستہ کرسی۔۔۔وہ اک چٹائی وہ چارپائی۔۔۔۔۔۔
وہ لکڑیاں کچھ پرانا ٹوٹا ہوا سا اک ہل جہاں پہ رکھا ہوا تھا کچھ بھی۔۔۔وہیں پڑا مگر نہیں ہے
گھروں کے صحنوں کے درمیاں جو تنی ہوئی
رسیوں پہ کپڑے لٹک رہے تھے وہی ہیں رنگ ان کے پہلے جیسے۔۔۔۔۔مگر نہیں ہیں
یہ لوگ سارے یہ ان کے لہجے یہ ناک نقشے
یہ سب کے جس طرح تھے۔۔۔۔وہی ہیں مگر نہیں ہیں مگر نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔