"سوروں کی حمایت میں"

"سوروں کی حمایت میں"

Apr 18, 2024

مصنف

حفیظ تبسم

شمارہ

شمارہ-٢٥

دیدبان شمارہ۔۲۵

"سوروں کی حمایت میں"

کہانی کار : جناب حفیظ تبسمؔ

سرجان رچرڈ کا انتقال ہوچکاتھا۔اس کی وفات رجسٹر میں درج ہوچکی تھی۔جس پر پادری، گورکن اور متوفی کی سوگوار شہنازرچرڈ کے دستخط بھی ہوچکے تھے ۔ سالہاسال سے نجانے کیوں سر رچرڈزندہ ہیں ۔جب کہ متوفی کی منتقل الیہ وارث، بیوی اوردوست شہنازرچرڈ ہی تھیں ۔گو متوفی کے انتقال کا اسے چنداں افسوس اور غم ہوا یا نہیں مگر کچھ دنوں کے بعدایک ناگہانی حادثے میں مرگئی تھی۔

سرجان رچرڈکو اس دارِفانی سے رخصت ہوئے عرصہ ہوچکاتھا مگر شہر کے باہر فارم ہاؤس کے گیٹ پر ابھی تک اس کا نام موجودتھا اور نام کے ساتھ جڑے بے شمار قصے جوبڑے ہی غیر حقیقی لگتے تھے ۔ایک آدمی ایسا بھی تھا جوجان رچرڈ کا ملازم خاص اور بہت سی باتوں کا چشم دید راوی بھی تھا۔ وہ زندگی کی پچاسی خزائیں اور بہاریں دیکھ چکاتھا۔اُس کی باتیں بے ربط اور مضحکہ خیز ہوتیں ۔اسی بناپر لوگ اسے دیوانہ کہتے اور وہ بڑھاپے کا تھکاہارا قہقہہ لگاکر کہتا؛ ’’ہاں ! میں دیوانہ ہوں ۔‘‘ایک وقت تھا کہ اس شش حرفی لفظ کے سننے سے میرادل زور سے دھڑکنے لگتا تھا۔ میں نے اس دیوانے کے ساتھ کئی دن گزرے اور سرجان رچرڈ کے متعلق باتیں سنیں مگر کئی دن تک سماعت قبول کرنے سے انکاری رہی۔ ایسا لگتا جیسے کانوں میں سیسہ پگھلاکر ڈالا جا رہا ہو۔ عجیب و غریب صدائیں آنے لگتی ں تھیں ۔میرا سر چکراتاتھااور دنیاومافیہا میری آنکھوں میں تاریک ہو جاتی تھی۔آخرکئی دن اور راتیں لگاکر بوڑھے کی باتوں کو کٹ اور پیسٹ کرکے جوڑنے کی کوشش کی تو ایک کہانی کا راز مجھ پر ظاہر ہوگیا جو کچھ یوں ہے؛

انگریز راج کے زمانے میں جان رچرڈ برصغیر آیااورجلد ہی اپنی قابلیت اور گڈگورنس کی بدولت اعلیٰ عہدے دار کادل عزیز ہوگیا ۔اسے ملکہ انگلستان نے ’سر‘کا خطاب دیا مگر اس کے لیے سر کا خطاب زیادہ اہمیت نہیں رکھتاتھا۔۔۔ وہ پرلے درجے کاسخت گیراور زرپرست تھا۔وہ تلوں سے تیل نکالنے والا،بال کی کھال کھینچنے والا،حریص،بخیل اور پراناپاپی تھا۔وہ سنگ چقماق کی طرح سخت تیزتھا۔لوہااس سے ٹکراتاتھا مگر کبھی فیاضی کی آگ اُس سے نہ جھڑتی تھی۔وہ صدف کی طرح پُراسرار ،تنہائی پسند اور بہ کار خویش ہوشیارتھا۔آواز میں عجیب قسم کی سختی اور کرختگی تھی۔قد لمبا، جسم توانا، اور چھوٹی آنکھیں جو شراب نوشی کی وجہ سے سرخ رہتی تھیں ۔ اس کے لیے سب دن ایک جیسے تھے اور معمول میں رتی برابر تبدیلی نہیں آتی تھی۔

جان رچرڈ کو سر کا خطاب ملتے ہی اختیارات میں توسیع ہوگئی توبلاخوف وخطر ہرجائز اور ناجائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنا شروع کردی اور اپنے دل میں مخفی شوق بھی پورے کرنے لگا ۔ شوق بھی کیا تھے ۔بس!مقامی عورتوں سے عشق کرنااور سور پالنا۔وہ اجرت دے کر مباشرت کرنے کے خلاف تھا۔طوفان سے بڑھ کر تند،اولوں سے بڑھ کر ضدی اور موسلا دھار بارش سے بڑھ کر یک رخے آدمی سے مقامی عورت کیسے عشق کرتی؟ایک تو وہ بہت کم باہر نکلتا اور اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کرتاتھا۔اُس کا قول تھا کہ گھوم پھرکر حالات اور عوام الناس کا جائزہ لینا بے وقوفی ہے، اس طرح سربراہ کا خوف دل سے نکل جاتا ہے۔ وہ اگر باہر جاتابھی تو آقا اور غلام کی دیوار درمیان میں حائل ہوتی ۔یہاں تک کہ آوارہ کتے بھی راستہ بدل جاتے کہ آقا کو کون سی اداناپسند آ جائے اور اُن کی شامت آجائے۔البتہ کبھی کبھار بھیس بدل کر بازاروں میں نکل جاتا اور عورتیں دیکھ کر دل خوش کرتامگر اس کی جمالیات کا کوئی معیار نہیں تھا۔ہر عورت ہی اسے خوبصورت لگتی تھی۔وہ اگر چاہتا تو کسی بھی عورت کو دل لگی کے لیے حاضر کرسکتاتھامگر ایسا کرنا بھی شانِ فرنگی کے خلاف گردانتا تھا۔ہمہ وقت اس کے دماغ میں آگ سی لگی رہتی اور دل میں شعلے سے اٹھتے تھے ۔کسی پارٹی میں چلاجاتا تو مقامی عہدے داراپنی بیویوں اور جوان لڑکیوں کو اس کے پاس چھوڑ کر بہانے سے کھسک جاتے ۔اسی طرح ایک جوان عورت اس کی طرف مائل ہوئی اور اس سے اکیلے میں ملنے چلی آئی ۔پہلی ہی ملاقات میں نوبت ہونٹ چومنے تک پہنچ گئی تو عورت نے اپنے خاوند کا نام لے کر ایک ذاتی نوعیت کا کام بتایا جوسراسر انگریز راج کے دستور کے خلاف تھا۔وہ کام باآسانی کر دیتا مگر عورت کام کی شکل میں اجرت مانگ رہی تھی ۔اس نے دوبارہ مقامی عورت سے ملنے سے گریزکیا کہ کہیں یہ عاشقی کسی دیوانگی کا پیش خیمہ نہ بن جائے ۔ مگر مردانگی کی گونج رگوں میں آگ بن کر دوڑنے لگی اور آخراپنے اصول توڑنے میں کامیاب ہو گیا ۔ پھراس کے پاس ہرہفتے کی رات نئی عورت آتی اور صبح تک اس عورت کی حالت دگرگوں ہوجاتی ۔سر جان رچرڈ مباشرت کے نت نئے طریقے آزماتا جو مقامی عورتوں کے نزدیک کراہت آمیز اور جان نکالنے والے ہوتے اور حکم عدولی پر تھپڑبھی کھانے پڑتے ۔خوب صورت ، تندرست اور رعناجوان سر جان رچرڈمقامی عورتوں کی صحبت میں وقت گزارتا اور دولت کے انبار لگاتا جا رہا تھا کہ اسے نئی فکرستانے لگی۔ وہ اپنی دولت انگلستان بھیج نہیں سکتاتھا۔ایک تو انگریز راج میں غیر قانونی اور غداری تھی،دوسرا وہ کبھی لوٹ کر نہیں جاناچاہتا تھا۔ اس نے اپنی دولت کو قانونی رنگ دینے کے لیے طریقہ نکالاکہ مقامی عورت سے شادی کرلی جائے۔اس نے عورت کی تلاش شروع کردی اور اس کی دوربین نگاہ جلد ہی ایک خاندان پر مرکوز ہوگئی جوامیر کبیر بھی تھا۔اس نے ذرا سا جھکاؤ اور میل جول بڑھایا تو خوشامد کے بندے پہلے سے بڑھ کرغلام ہوگئے۔جب اس نے اپنی خواہش کااظہار کیاتوکیا جوان ،کیا بڈھے اُس کے گرویدہ ہوگئے۔خاندان میں ایک ہی لڑکی تھی جو چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔اُس کا حسن عالم افروز حوروں کو شرماتاتھا۔سر جان رچرڈ کی اس لڑکی سے شادی ہوگئی مگر یہ راز عیاں نہ ہوسکا کہ نکاح کون سے مذہبی طریقے پر کیا گیا تھا۔ البتہ لڑکی کے نام شہناز کے آگے رچرڈکا اضافہ ہوگیا اور اس کے باپ کو ایک اہم عہدہ سونپ دیا گیا جو اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھا۔

شادی کے دن شام سے ہی جان رچرڈ شراب پی رہاتھا مگر گھڑیال نے جیسے ہی رات کے دس بجائے تواسے خودبخود ہوش آگیااور لگاجیسے نیندسے آنکھ کھلی ہو۔وہ ڈگمگاتے قدموں سے حجلہ عروسی میں داخل ہوا تواس وقت ایسا معلوم ہوا جیسے اس کی سونے کی تاریک خواب گاہ ہوگئی کیوں کہ ایک روشن چہرہ پلنگ پر موجود تھا۔وہ اپنی نوبیاہتا زوجہ کے روبرو کھڑاہوگیا اور ترساں و لرزاں پوچھا۔ ’’آپ خوش تو ہیں ؟‘‘

نوبیاہتا زوجہ نے آنکھیں اوپر اٹھائیں اور ذرا شرماکر بولی۔’’جی!‘‘

جان رچرڈکواعتبار نہیں آرہاتھا۔وہ دلہن کی طرف دیکھے جارہاتھا ۔اس نے اپنی انگلیوں سے دلہن کا چہرہ چھوااور کافی دیر بعدبولا۔’’یقینا تم خوش رہوگی۔۔۔میں پوری کوشش کروں گا کہ ہم اچھی زندگی بسرکریں !‘‘اور دلہن کے پاس بیٹھ کر دل کی باتیں کرنے لگاجوایک مدت سے چھپی ہوئی تھیں ۔

اگلی صبح شہنازرچرڈنے اسے نیندسے بیدار کیا تواسے لگا جیسے زندگی کا معمول بدل گیاہو اور اس کا ہاتھ تھام کربولا۔’’آج میں آپ کواصطبل دکھاؤں گا!‘‘شہنازنے کوئی جواب نہ دیا اور شرما کر چلی گئی۔اسی دن سہ پہر کو وہ اصطبل میں گئے جہاں گھوڑے، گائے اور سور تھے۔ جان رچرڈ بڑی خودآگہی کے ساتھ کھڑاتھا اور شہنازنے اس کی طرف ایک نئے تجسس اور ایک نئی تحسین کے ساتھ دیکھا۔آج سے پہلے رچرڈ ایک انگریز باشندہ تھا۔انگریزی لباس میں سب سے زیادہ خاموش ،جس پر مغرور ہونے کا شبہ ہوتاتھا لیکن وہ کتنامختلف نظر آرہاتھا۔

شہنازنے پوچھا۔’’آپ گھڑ سواری کرتے ہیں ؟‘‘

جان رچرڈنے کوئی جواب نہ دیا۔

’’میں گھوڑے کی دُم میں فیتے باندھوں گی جیسا کہ اکثر میلوں میں ہوتا ہے!‘‘

’’ضرورباندھو۔۔۔اچھے لگیں گے۔‘‘

شہنازدوبارہ بولی۔’’تم اِس کی سواری کب کروگے؟‘‘

جان رچرڈنے ذراساسوچ کر جواب دیا۔’’میں سور پر سواری کرناپسندکرتاہوں !‘‘

شہنازنے حیرت سے دیکھا۔رچررڈایک سور کے بچے کے پاس گیاجوبیٹھااونگھ رہاتھا اور بولا۔ ’’میں آج کل اسے کاٹھی ڈال کر چلنا سکھارہاہوں !‘‘

’’تو میں بھی سور پر سواری کروں گی۔‘‘

شہنازنے اپنی خواہش کا اظہارکیاتورچررڈنے اسے گلے لگالیا۔

سور پالنا سرجان رچرڈکاشوق ہی نہیں جنون بھی تھا۔وہ سوروں کی نسل بڑھاتااور کسی پارٹی میں گوشت کے لیے سور ذبح بھی کرلیا جاتا۔ دونوں فرصت کاساراوقت اصطبل میں گزارتے اور شہنازبڑے غور سے اس کی باتیں سناکرتی چونکہ اسے معلوم تھاکہ ساراعلاقہ یہ بات جانتا کہ جان رچرڈگھوڑوں اور سوروں کا اچھارکھوالاتھا۔ وہ سوروں کے جسم پر برش پھیرنے اور تیل کی مالش کرنے کے بعد بھگاتااور خود بھی بڑی پھرتی سے اُن کے پیچھے دوڑنے لگتا جب تک ہانپنے نہ لگتاتھا۔وہ بلاناغہ دوتین سوروں پر کاٹھی ڈال کر چند منٹ کے لیے سواری کرتا اور بڑے فخر سے کہتا؛ ’’جو جانور سواری کے لیے بنا ہی نہ ہو اُس پر سواری کرنا ہی فن ہے۔‘‘وہ لگام کی لمبائی کو بار بار تبدیل کرتارہتااور یہ لمبائی کبھی درست نہ ہوتی تھی۔اس کا خیال تھا کہ سور کو کاٹھی سے مانوس کرنا اہم ہوتا ہے مگر لگام کی لمبائی ہربار ایک جیسی نہ ہونے سے سور کی چال بدل جاتی ہے اوریہ ضروری ہے۔سور پر پہلی مرتبہ کاٹھی ڈالناایک پریشان کن کام تھا۔سور یہ بندھن قبول نہ کرتا مگر رچرڈ چند روز کی کوشش سے سور کومانوس کرلیتااور سور کو کاٹھی کی پروا نہ رہتی ۔پھر منھ میں لگام ڈالنے کی باری آتی۔وہ جانتاتھا کہ سور کے منھ میں پہلے کوئی میٹھی چیز رکھنی چاہیے تاکہ منھ میں کوئی چیز رکھنے سے مانوس ہوجائے۔پہلی بار لگام پہنانے پر سور سر کو جھٹکتااور دانتوں کوسختی سے بھینچ لیتا تھا۔ سور کی آنکھیں بے تکے پن سے سر خ ہوجاتیں اور رچرڈخوش ہوجاتاتھا کہ اب کبھی مزاحمت نہیں کرے گا۔

رچرڈکی زندگی معمول سے گزررہی تھی۔اس کے دونوں شوق پورے ہورہے تھے ۔سور اور مقامی عورت مگر انگریز سے آزادی کی تحریک آخری مراحل میں داخل ہوگئی۔سب جانتے تھے کہ چند ہی دنوں میں فیصلہ ہوجائے گا اور اسی بناپرانگریز انتظامیہ پریشانی کاشکار تھی۔تیزی سے خراب ہوتے حالات اور ناقابل فہم واقعات سے زندگی کااندازاتھل پتھل ہورہاتھا جو نہ جانے کب سے پانی کی طرح ساکت چلا آرہاتھا مگر جان رچرڈ قدرے مطمئن تھا۔

ایک روز شہنازنے پوچھا۔’’جوعجیب وغریب قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ،کیاسچ ہیں ؟‘‘

جان رچرڈاچھی طرح جانتاتھا کہ حالات بدل رہے ہیں مگر احتیاط طلب جواب دیا کہ وہ انگلستان لوٹ کر جانے کا ارادہ نہیں رکھتااور جولوگ خوشی ،غصہ یامذہبی عقیدت میں گالیاں بکتے ہیں اُن کے خلاف دوسرے منتظمین کی طرح کسی قسم کی سخت کاروائی نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے حالات خراب تر ہوتے چلے گئے مگر جان رچرڈ پرسکون رہا۔اس نے اپنی زندگی کی پلاننگ بہت پہلے ہی کرلی تھی۔

ایک روزوہ دونوں اصطبل میں موجودتھے ۔رچرڈسور کے ایک بچے پر کاٹھی ڈال رہاتھا تو شہنازنے پوچھا۔’’کیایوم آزادی سے پہلے اِس پرسواری کرسکوگے؟‘‘

لفظ’یوم آزادی ‘پر وہ چونکا کہ اُس کی زوجہ بھی انگریز راج سے آزادی کی خواہاں ہے اور کچھ سوچ کر جواب نہ دیا۔یوم آزادی میں ابھی تین ہفتے پڑے تھے۔وہ یہ بات سوچنا نہیں چاہتاتھا کہ انگریز راج ختم ہونے پر وہ واپس نہ لوٹاتو اس کے عزیزواقارب کیا محسوس کریں گے۔

وقت گزرتاگیااور یوم آزادی بھی گزرگیا۔سرجان رچرڈ سے کچھ اختیارات چھن گئے اور کچھ اُس کے پاس ہی رہے تھے۔نئی انتظامیہ نے اُس سے مشاورت جاری رکھی۔پہلے پہل انتظامی امور طے کرنے میں اس کا بڑا اہم رول رہا اور اسی کے پسندیدہ لوگ بڑے عہدوں پر فائز کیے گئے۔اس کے سامنے کسی میں سوال کرنے کی ہمت نہیں تھی اور رچرڈ اب طاقت کے بجائے چالاکی سے کام لے رہاتھا۔ سرکاری کاغذات میں اس سے اختیارات چھنے مگر اس نے عقل مندی سے اپنے پاس ہی رکھے تھے۔

لگ بھگ چارسال کاوقت گزرگیا اور سرجان رچرڈ کا فارم ہاؤس سیاسی نوراکشتی کا مرکز بن گیا۔کس وقت کس آدمی کواہم عہدہ دینایاواپس لینا تھا، رچرڈ کے پاس ہی پوری منصوبہ بندی ہوتی تھی مگر جان رچرڈ کھویاکھویاسا،بے چین رہتااور بعض اوقات چڑچڑاہوکر اکیلے میں گالیاں دینے لگتا مگر شہناز کو دیکھتے ہی ایک دم پرسکون ہوجاتا جیسے اس پر نیم دیوانگی کا دورہ پڑا ہی نہ ہو۔۔۔ سردی کی ایک رات تیز بارش برس رہی تھی کہ جان رچرڈچپکے سے اٹھ کر باہر نکل گیا اور کتنی ہی دیر تک بھیگتارہا۔شہنازکی آنکھ کھلی تووہ بستر خالی پاکر باہر نکلی ۔جان رچرڈ بارش میں چہل قدمی کرتے ہوئے انگریزی میں بڑبڑارہاتھا جس کے معنی تھے۔’’قسمت کی بے رحمی دیکھئے۔۔۔ آقا کو احکامات پر دستخط کرکے انہیں وصول کرناہوگا!‘‘شہنازنے اس کو آوازیں دیں مگراسے خبر ہی نہیں تھی۔ آخر شہنازبارش میں بھیگ کراسے کمرے میں لائی اور انگیٹھی کے سامنے کرسی پر بٹھا دیا۔وہ آگ تاپ کر بسترپر درازہوگیا مگر دوبارہ کبھی بستر سے اٹھ نہ سکا۔نمونیابخارتھا کہ اترنے کا نام نہیں لے رہاتھا اور جان رچرڈ سارا وقت چھت کو گھورتارہتا ۔کبھی کبھی شہناز کی آواز پر اس کے ہونٹوں پر تبسم نمودار ہوتا لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔اسی کیفیت میں چاردن گزرے اور رچرڈنے آخری وصیت کی کہ میرے جانوروں کا خیال رکھنااور بڑے سکون سے مرگیا۔

سرجان رچرڈکی آخری رسومات اور تعزیت کے لیے آنے والوں کی بھیڑ چھٹنے میں ایک ہفتہ لگ گیا۔شہنازرچرڈ صبر سے کام لیتی مگر معلوم ہوتاتھا جیسے آنکھیں بھرم کھول رہی ہیں ۔دکھ سے بار بار آنکھوں سے آنسو چھلک آتے مگر وہ بمشکل تمام ضبط کرکے سنجیدہ اور کھوئی کھوئی سی بیٹھی رہتی ۔۔۔پورے فارم ہاؤس میں صرف دو لوگ رہ گئے تھے ۔ایک شہنازاور دوسرا ملازم خاص جو بندہ قابل بھروسہ ،سادہ اور نیک دل تھا۔شہنازکو فارم ہاؤس کا سناٹا کاٹ کھانے کو دوڑتااور دوسری جوانی ۔۔۔ شہناز یوں بھی سوہنی تھی۔ چھریراسڈول بدن،سیدھے بال دوچوٹیوں میں گندھے ہوئے، دونوں طرف موٹی موٹی چوٹیاں ، بڑے سلیقے سے وہ اپنے سر پر سفیدرومال باندھتی کہ ایک سراماتھے پر لٹک جاتا۔جب وہ مسکراتی تو اس کی نیلگوں سیاہ بادام کی آنکھیں چم چم کرنے لگتی تھیں مگروہ شرارتیں ،شوخ چٹ پٹ لہجہ اور آنکھوں کی چمک تولگتاجیسے قصہ پارینہ ہوگئے تھے۔ایک ڈیڑھ ہفتے میں ہی شہناز رچرڈ جو بسر کر رہی تھی اس زندگی میں کہیں بھی کوئی بلند خیالی یا بلند جذبات نہ تھے بلکہ دل سوزی اور نرم مزاجی تھی۔ وہ کرسی نکال کر باہر بیٹھ جاتی اور گھنٹوں تک مقامی زبان میں دوہڑے ماہیے گاتی رہتی ۔۔۔یہ محض گلا تھایا اس کے سواکوئی اور چیز تھی ،وہ صدا جو انسان کی روح سے نکلتی ہے۔ گویا نئی اور بے معنی زندگی تھی جس کے راستے پر بغیرسوچے قدم رکھ رہی تھی۔ایک سہ پہر شہناز رچرڈ اصطبل کی طرف گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ فضلے کے ڈھیر لگے پڑے تھے۔چارے کے بنڈل جانوروں کے پیروں تلے رل رہے تھے۔عجیب سی تیز بوپھیلی ہوئی تھی۔شہناز ناک کے آگے ہاتھ کیے آگے بڑھی اور سور کے ایک بچے کو دیکھا جسے جان رچرڈ آخری دنوں میں کاٹھی ڈال کر سدھار رہا تھا۔سور کا بچہ بیمارلگ رہا تھااور اس کی آنکھیں قریب قریب بند تھیں ۔اس کی ناک بند تھی اور سانس سے ایک تیکھی سیٹی کی آواز پیداہورہی تھی۔بچے کی آنکھیں جتنی کھلی تھیں ان پر ایک دھند چھائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اسے شبہ ہورہاتھا کہ بچہ دیکھ بھی سکتا ہے کہ نہیں ۔ شہنازنے ہمدردی کے ساتھ بچے کے بدن پر نگاہ دوڑائی۔اس کے بدن پر لید لگی ہوئی تھی کہ جلد کی اصل رنگت ہی بدل گئی تھی۔ شہنازنے اصطبل کے ایک طرف بنے کمرے میں جا کر برش لیااور واپس آکر بچے کے بدن پرپھیرنے لگی۔ ایکدم بچے کے بدن میں طاقت پیداہوئی اور پورابدن ہلاکر جیسے برش سے تکلیف ہوئی ہو،شہناز کو ٹکرماری۔شہناززور سے پیچھے گری اور اس کے منھ سے دلخراش چیخ نکلی توملازم خاص بھاگتا ہوا آیا اور یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ چارپانچ سور شہناز کو ذرا سا اٹھنے سے پہلے ہی ٹکر مارکرگرادیتے تھے۔ملازم نے فضلہ اٹھانے والا پھاوڑااٹھایااور گھما کے ایک سور کے مارا تو سور نے بوکھلاکر گری ہوئی شہنازکے سینے پر پیر رکھ دیا۔سور کے وزن سے شہناز کی آواز بھی نہ نکل سکی ۔اس کی آنکھیں باہر اُبل پڑیں اور زبان لٹک پڑی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نزع سے پہلے منھ چڑارہی ہو۔اس کا چہرہ سرخ تھا جس پر موٹی موٹی نیلی رگیں ابھر آئی تھیں اور پیشانی پر موت کا پسینہ نمودارتھا۔ملازم خاص نے جب پھاوڑا مارکر سوروں کو پرے ہٹایا تب تک شہناز کی گردن ایک جانب لڑھک چکی تھی۔ ملازم خاص نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر آوازیں دیں مگر شہناز رچرڈ سننے سنانے سے نجات پاچکی تھی۔وہ مردہ شہناز کو بڑی مشکل سے اٹھاکر اصطبل سے باہر لایااور گھاس پر لٹاکرتیزی سے فارم ہاؤس سے باہر نکل گیا کہ لوگوں کو موت کی اطلاع دے سکے۔

۰۰۰O۰۰۰

اس کہانی میں بتانے کو کچھ اور نہ ہوتا اگر وہ عجیب وغریب واقعات پیش نہ آتے جن کو میں بیان کرنے والا ہوں ۔ اِن واقعات کا راوی کوئی ایک نہیں بلکہ پوراشہر ہے اور اگر یہ واقعات پیش نہ آتے تو کہانی شہنازرچرڈ کی موت پر ختم ہوجاتی ۔یہ کہانی اَن لکھی تاریخ یعنی سینہ بہ سینہ اگلی نسل تک منتقل ہوتی رہی۔تھوڑی بہت ردبدل ہرراوی کرتارہا یایوں کہیے کہ اندازِبیان کی وجہ سے بدلی ہوئی لگی۔۔۔ جتنی ضرورت اس کہانی کی آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی جب ہم فسطائیت کے دور سے گزر رہے ہیں ۔۔۔راوی در راوی کہانی کے تاثر میں فرق ضرور آیاہوگا مگر میں نے کوشش کی ہے کہ کہانی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ،اسی کینوس اور اسی فریم پر دوبارہ سے کہانی کی وہی تصویر بنادوں جو نصف صدی پہلے دیکھی گئی تھی تاکہ انسانی تقدیر کے بارے میں نئے اور پرانے تصور کو اجاگر کیا جا سکے ۔تو کہانی یوں شروع ہوتی ہے؛

ناک کی سیدھ میں چلتے سور ندی کی طرف جارہے تھے۔شہر میں مختلف جگہوں پر راہ چلتے لوگوں کے قدم رک گئے جیسے زمین نے جکڑ لیے ہوں اور دیر تک رکے رہے۔لوگوں نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایامگر آنکھوں میں کوئی روشنی نہ چمکی۔ان کی آنکھوں پر پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے جیسے وہ چلتے چلتے کہیں کھو گئے ہوں ۔ ناک کی سیدھ میں چلتے سور ندی کےکنارے جاکررک گئے۔۔۔ندی کا پانی ویسا ہی تھا اور اس کا کنارہ دور تک چلا جارہاتھا جیسے وہ کہیں ختم نہیں ہوگا۔ سورندی میں اترگئے اور دیر تک نہاتے رہے۔اُن کے اجسام سے میل کچیل پانی میں شامل ہوکر بہنے لگا۔وہی پانی جس سے لوگ پیاس بجھاتے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ایسا لگا جیسے ندی کے میٹھے اور شفاف پانی کے ساتھ ناپاک گندگی اُن کے منھ میں آرہی تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میں پرانی یادیں جاگ گئیں کہ جب سر جان رچرڈ کی نگرانی میں سور ندی کے کنارے آتے اور نہاتے تھے۔لیکن کئی باربگاڑ کی انتہا ہوجاتی تھی جب سور ایک قطار بنا کر مباشرت کرتے تھے۔ندی پر پانی لینے کے لیے زیادہ ترعورتیں ہی جاتی تھیں تب لوگوں نے بے حیائی پھیلنے کی وجہ سے کہاتھا کہ شہر پر کوئی مصیبت یا عذاب ضرور آئے گا۔ شہر کے لوگ جانتے تھے کہ سر جان رچرڈ کے فارم ہاؤس میں سور رہتے ہیں مگر فارم ہاؤس کی اونچی دیواریں انھیں ڈراتی تھیں ۔خوف تھا کہ دماغ میں فصل کی طرح پروان چڑھاتھااور وہ فارم ہاؤس کے متعلق بات چیت بھی ڈھکے چھپے انداز میں کرتے اور ایک واقعے کا ذکر تو بالکل ہی علامتی انداز میں ۔۔۔ واقعہ تھا کہ ایک صبح شہر کی بڑی جامعہ مسجد کے اندرمردہ سور پڑاملاتومسلمانوں میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فساد برپاہوا تھا۔ سور مارنے کے الزام میں کئی لوگ گرفتار کر لیے گئے جن میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔۔۔اِ س واقعہ کے بعد شہر کے لوگ فارم کے سامنے سے گزرتے تو اتنا فاصلہ رکھ کر کہ دیوار کا سایہ بھی اُن پر نہ پڑے۔آنکھوں سے غصہ یا بغاوت کے بجائے توکل اور قناعت کی پرچھائیاں ہوتیں ۔پھرایک اور واقعہ ہواتھا کہ تحریک آزادی کے ایک سرگرم رکن کی کچلی ہوئی لاش ملی جس نے انگریز سامراج کے خلاف ایک کتاب لکھی تھی ۔ کتاب میں سرجان رچرڈ کا ذکر بھی تھااور اس کے سوروں کا بھی۔۔۔کتاب میں ایک اور تہلکہ خیز انکشاف ہوا تھاکہ علاقے کی بااثر شخصیات کوبھی سر جان رچرڈ کی پارٹیوں میں شراب کے ساتھ سور کا گوشت پیش کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو شک تھاسرگرم رکن سے کتاب کا بدلہ لیاگیا اور یقینا اس کو سوروں کے پیروں تلے کچلا گیا تھامگر کوئی کچھ نہ کرسکتاتھا۔سب بے بسی کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے۔اُن کے جذبات سے خالی چہرے زمانے کی سختیوں سے اُس گھر کی طرح دکھائی دیتے جس کی دیواروں سے ہرطرح کا رنگ و روغن اڑچکا ہو،حالاں کہ ملک آزاد ہوگیا اور سر جان رچرڈ دارفانی سے کوچ کر گیاتھا۔انگریز سامراج کازمانہ ختم ہوگیاتھا۔خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اپنے وطن کی آزادی کے ساتھ اپنے لوگ انتظامی امور چلا رہے تھے لیکن کوئی سوروں کے خلاف بولنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا ۔ شاید نوآبادیاتی نظام میں خوف کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں ۔ہرکسی کا دماغ ندی کے پانی پر لگا ہواتھااور شکایات کا پینڈورا باکس تھا مگراُن کے چہروں پر غربت، خوشامد اور منافقت کے خول چڑھے تھے جن پر لالچ کی مہریں ثبت تھیں ۔و ہ تو سب باتوں سے بے نیاز ایک بچے کی طرح تھے جو ہربات پر بڑبڑاتا ہے،ہرچیز دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے، اور مذاق سمجھ کر بھول جاتا ہے۔۔۔ کوئی بھی جذبہ اُن کی پست ذہنیت کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔

۰۰۰O۰۰۰

ایک شام سارا شہر ڈھول کی آواز سے گونج رہاتھا۔یہ ڈھول نہ تو کسی خوشی کے لیے بجایا جا رہاتھا اور نہ کسی تہوار کے لیے۔۔۔ڈھول بجاکر لوگوں کو ندی کے کنارے جلسے میں پہنچنے کے لیے مطلع کیا جارہا تھا۔ جلسہ گاہ میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جنھوں نے سرخ جھنڈے اور بینراٹھارکھے تھے ۔ بینرز پر’سور بھگاؤ،پانی بچاؤ‘اور ’جعلی آزادی کے معنی کیا؟‘جیسے نعرے درج تھے۔اتنے میں ایک نوجوان نے ڈائس پر آکر اعلان کیا۔’’ایک ناٹک کھیلا جارہا ہے، تمام احباب توجہ فرمائیں !‘‘ بے چینی اور اضطراب عروج پر تھا کہ کھیل شروع کردیا گیا۔پہلے ایک نوجوان اسٹیج پر آیا جس کے ہاتھ میں موٹی سی کتاب تھی۔ اس نے اپنا ایک جوتااتارکر میز پر رکھااور برابر میں ایک کتاب بھی ۔۔۔ پھرچار کردار کھیل کا ابتدائیہ کھیلنے کے لیے اسٹیج پر آگئے۔ایک کردار چوپائے کی طرح چل رہا تھا جس کے چہرے پر سور کی شکل کا ماسک چڑھاہواتھا۔دوکرداروں کے ہاتھوں میں رسیاں تھیں جن سے سور جکڑا ہواتھا۔ڈائس پر موجود کردار نے آواز لگائی۔’’سور کو کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘

 پہلا کردار: قاضی کی عدالت میں ۔

ڈائس والا کردار:کیوں ؟

 پہلا کردار: یہ سور ندی کے پانی میں نہاکر غلاظت پھیلاتا ہے۔

 دوسرا کردار: ہماری عورتیں خوف سے پانی بھرنے ندی پر نہیں جا سکتیں ۔

(سور کو قاضی کے سامنے پیش کیاجاتا ہے۔ایک کردار قاضی کو سارا مدعا سناتا ہے ۔قاضی کے ماتھے پر شکنیں ابھرتی ہیں ۔)

قاضی : سور ایک جانور ہے اور جانور بے عقل ہوتے ہیں ۔

پہلا کردار: سور کو باندھ کر بھی رکھاجاسکتا ہے جس کی ساری ذمہ داری مالک پر عائد ہوتی ہے۔

(قاضی پریشان ہوجاتا ہے اور سور کے مالک کو بلانے کا حکم دیتا ہے۔اسٹیج پر ایک کردار آتا ہے ۔قاضی اٹھ کر تعظیم کرتا ہے اور کردار قاضی کے سامنے کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)

قاضی  : سور پر ایک الزام ہے۔ (دبی سی آواز)

سور کا مالک: الزام انسانوں پر لگتے ہیں ،جانوروں پر نہیں ۔

 پہلا کردار: سور کوباندھ کر رکھنا مالک کا فرض ہے جو ایک انسان ہے۔

(اتنے میں سور کے ڈکرانے کی آواز گونجتی ہے جیسے اپنے مالک کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروارہا ہو )

سور کا مالک: اتنی ہمت کہ میرے سور کو باندھ کر لایاجائے۔

 دوسرا کردار: قاضی کے پاس انسان باند ھ کر لائے جاسکتے ہیں ،سور کیوں نہیں ؟

(سور کا مالک غصے سے قاضی کی طرف دیکھتا ہے اور پھر اپنے سور کی طرف۔۔۔ماحول کشیدہ دیکھ کرقاضی میز پر تین بار جوتا مارتا ہے۔آرڈر، آرڈر۔۔۔اور اپنے سامنے میز پر رکھی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگتا ہے۔)

قاضی:  کتاب میں جانوروں کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

 پہلا کردار: قانون تو قاضی کے دماغ میں ہوتا ہے اور اگر دماغ میں موجود نہیں تو نیاقانون بھی بنایاجاسکتا ہے۔

دوسرا کردار: انسانوں کا قانون جانور پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟

(قاضی نوجوان کو جذباتی دیکھ کر میز پر جوتا مارتا ہے۔)

قاضی: آپ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں جس کی سزا ایک سال قید ہے۔

(دونوں نوجوان خاموشی سے دیکھتے ہیں ۔۔۔سور کا مالک گردن ہلاتا ہے ۔قاضی کچھ دیر سوچتا ہے ،کتاب کی ورق گردانی کرتا ہے ، پھر سور کے مالک کی طرف دیکھ کر کہتاہے)

قاضی: عدالت سور کو باعزت بری کرتی ہے۔

(اتنے میں ایک اور کردار اسٹیج پر آتا ہے جس کے ہاتھوں میں بندوق ہے اور نشانہ باندھ کر سور پر فائر کرتا ہے۔سور گرجاتا ہے ۔رسیاں تھامے دونوں کردار آواز لگاتے ہیں ۔انصاف! انصاف ۔۔۔ قاضی اپنی کتاب اٹھاکر اور سور کا مالک بھاگ کر اسٹیج سے نیچے اترجاتے ہیں ۔)

کھیل سے لطف اندوز ہوتے لوگ تالیاں بجانے لگے۔۔۔پھر ایک آدمی ڈائس پر آیا جس کے لمبے بال شانوں تک آرہے تھے اور بازو پرسرخ پٹی بندھی ہوئی تھی۔نوجوان جذباتی ہوکر نعرے لگانے لگے ۔بڑے بالوں والے آدمی نے دونوں بازو ہلاکر جواب دیا اور گفتگو کا آغاز کیا؛ ’’سر جان رچررڈ کے فارم ہاؤس کا خوف شہریوں کے لیے بڑا خوف ہے۔فارم ہاؤس طاقت کی علامت تھا جس کی اونچی فصیلوں کے اندر انگریز سامراج کے مفادات کی فصل پکتی تھی اور خوشامد پسند طبقے کے لیے عیش وعشرت کی زندگی کا ساماں موجود ہوتاتھا۔انگریز سامراج سے آزادی کیسے ملی اور کس نے قربانیاں دیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر انگریز کے قانون اور اس کے خاص بندے آج بھی بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔ جیساآپ نے ابھی کھیل میں دیکھا کہ انصاف کی اونچی مسند پر بیٹھا قاضی بھی خاموش تماشائی اور فارم ہاؤس کے مفادات کا ضامن ہے۔مانا کہ سر جان رجرڈ مرگیا مگر کیا سوروں کا فارم ہاؤس سے باہر نکلنا اتفاق ہے یا ایک سوچی سمجھی سازش؟۔۔۔ کیا سوروں کا سیدھا ندی کی طرف جانا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ یہ سدھائے ہوئے سور ہیں ۔میرے عزیز شہریو! سوروں کا ندی سے پانی پینے آنا اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے اشارہ ہے کہ اگر ہمارے مفادات کے خلاف بولا گیا تو پانی بھی بند ہوسکتا ہے۔کیا وہ اتنے طاقت ور ہیں کہ پہلے غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارے منھ سے نوالے چھین لیے گئے اور اب پانی کی بندش؟ آخر ہم کب تک غلامی در غلامی میں زندہ رہیں گے؟‘‘

نوجوانوں نے نعرہ لگایا۔’’جب تک جنتا تنگ رہے گی!جنگ۔۔۔‘‘

پھر بڑے بالوں والا آدمی تجاویز پیش کرنے لگاتھا۔

۰۰۰O۰۰۰

اگلے دن شہر کے وسطی چوک میں ایک اور جلسہ منعقد کیا گیا جس کے لیے پورے شہر کے کاروباری مراکز،تعلیمی ادارے بند کروادیے گئے تھے۔ لوگوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں گھروں سے نکل پڑی تھیں ۔انسانوں کا جم غفیر،بے ترتیب قطاروں میں جلسہ گاہ میں تھا۔اسٹیج پر ایک اونچی کرسی رکھی تھی جس پر شہر کا ناظم اعلیٰ براجمان تھا۔ہجوم میں سے کسی نے اشارہ کرکے چلاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے وہ دیکھ، ہمارے ناظم اعلیٰ!‘‘ زیادہ تر لوگوں نے اپنے شہر کے ناظم اعلیٰ کوپہلی بار دیکھاتھامگر مشہور تھا کہ ناظم اعلیٰ کا باپ بھی سرجان رچرڈ کا وفادار تھا۔سب کی نظریں اسٹیج پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔ ایک آدمی نے ڈائس پر آکر ناظم اعلیٰ کے لیے تعریفی جملے کہے اور باقاعدہ خطاب کی دعوت دی ۔ ناظم اعلیٰ نے خطاب شروع کیا؛’’ندی کے کنارے جلسے میں نوجوانوں کے جذبات ابھارے گئے ۔اُن نوجوانوں کو تو اپنی تاریخ بھی نہیں معلوم،مگر ہمیں سب پتا ہے۔۔۔ہم شہریوں کی زندگیوں کے محافظ ہیں اور اُ ن کے لیے سہولیات پیداکرتے ہیں ۔یہ سچ کون نہیں جانتا!‘‘پھر ناظم اعلیٰ سوروں کے متعلق بتانے لگاکہ سور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تو سوروں کو تنگ کرنے کا کیا جواز ہے۔ مذہب بھی سور کا گوشت کھانے سے منع کرتا ہے ،مارنے کا حکم نہیں دیتا۔سور ندی سے پانی پینے آتے ہیں اور چلتا پانی پاک ہوتاہے۔ سب جانتے ہیں کہ سرجان رچرڈ صاحب اور ان کی زوجہ محترمہ کے انتقال کے بعد سوروں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی موجود نہیں ۔فارم ہاؤس میں پانی کا خاص بندوبست نہیں اسی وجہ سے سور پیاس بجھانے ندی پر جاتے ہیں ۔ہم سوروں کے لیے پانی کا جلد بندوبست کرلیں گے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا! ناظم اعلیٰ کا خطاب جاری تھا کہ دور سے سور آتے دکھائی دیے جوندی کی طرف جارہے تھے مگر وسطی چوک راستے میں پڑتاتھا۔خطاب سنتے لوگوں کی گردنیں گھوم گئیں اور وہ بدحواس ہوکر بھول گئے کہ اسٹیج کس طرف تھا۔ناظم اعلیٰ نے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔ناک کی سیدھ میں چلتے سور مجمعے کے قریب پہنچے تو راستہ بندتھا ۔ سور رک گئے ۔قریب تھا کہ سانس روکے بت کی مانند کھڑے لوگوں میں کھلبلی مچتی،ناظم اعلیٰ کی آواز سنائی دی۔’’میں کہتا تھا ناں !سور کچھ نہیں کہتے۔۔۔سوروں نے کبھی کچھ نہیں کہا۔۔۔ افواہیں اڑائی جاتی ہیں تاکہ شہر کا امن تباہ ہو۔‘‘

اسی لمحے کسی نے نعرہ لگایا۔’’ناظم اعلیٰ!‘‘

پورے مجمے نے جواب دیا۔’’زندہ باد!‘‘

نعرے کی گونج سے سور خوف زدہ ہوئے اور ناک کی سیدھ میں سامنے کی طرف بھاگے ۔ مجمعے میں بھگڈر مچی تو کچھ لوگ گر گئے اور سوروں کے پیروں تلے کچلے گئے ۔کچھ ہی دیر میں کئی لوگ مردہ پڑے تھے اور کچھ بے ہوش۔۔۔کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ آناًفاناً کیا ہوگیاتھا۔

۰۰۰O۰۰۰

رات کے دوسرے پہر چائے کے ڈھابے پرتین نوجوان ایک میز کے گرد سوروں کے موضوع پر بحث کررہے تھے۔پہلا نوجوان وہی تھا جس نے اسٹیج ناٹک کے آخر میں آکر سو ر کو گولیاں ماری تھیں ۔اُس نوجوان نے میز پر زور سے مکامارا۔اور بولا۔’’آزادی انسانی جدوجہد کا گیت ہے جسے ہم تین نسلوں سے گا رہے ہیں ۔ افسوس! انگریز سے آزادی تو حاصل کرلی مگر ذہنوں سے غلامی کا تصور نہ نکال سکے!‘‘

’’اور ہم آخری نسل ہیں جو ذہنی غلامی سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوئی تو پھر غلام ابن غلام پیدا ہوں گے۔‘‘دوسرے نوجوان نے بھی جوش سے جواب دیا۔

پہلے نوجوان نے ہاتھ کی مٹھیاں بھینچیں جیسے غصے پر ضبط کررہا ہو اور بولا۔’’انگریز چلاگیا مگر اس کا قانون اور خوف موجود ہے۔یہ ایک نادر موقع ہے کہ سوروں کو مار بھگاؤ جس سے جان رچررڈ کے وفاداروں کو پیغام جائے گا کہ مزاحمت ہورہی ہے ۔۔۔مگر سب بزدل ہیں ،خالی کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں ۔‘‘

’’تو اور کر ہی کیا سکتے ہیں !‘‘ تیسرے نوجوان نے جواب دیا۔

پہلے نوجوان نے گہرا سانس لیا جیسے اپنے الفاظ کے کھوکھلے پن کا احساس ہورہاہو ۔یکدم اُس کا چہرہ زرد پڑگیا جیسے آگے بڑھ کر لڑنے ،خون بہانے یا چپ چاپ مرنے کی کشمکش میں ہو۔ دوسرے نوجوان نے ماحول کشیدہ دیکھ کر کہا۔’’غلامی کی زنجیریں پہنے کون زندہ رہنا چاہتا ہے۔اب آوازیں اٹھ رہی ہیں جو تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔‘‘

’’خاک آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔۔۔ ہمارے جلسے میں گنتی کے لوگ اور ناظم اعلیٰ کے جلسے میں پورا شہر امنڈ آیاتھا۔‘‘پہلے نوجوان کا غصہ بڑھتا ہی جارہاتھا ۔ تیسرے نوجوان کے چہرے پر ایکدم مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔’’ شہر تو ناظم اعلیٰ کی خوشنودی کے لیے امڈ آیاتھا اور ناظم اعلیٰ سمجھ رہاتھا کہ سور بھی جان رچرڈ کی طرح چالاک اور موقع کی مناسبت جانتے ہوں گے مگر جانور تو بے عقل ہوتے ہیں ۔ نتیجہ کیا نکلا،اکیس لوگ مارے گئے اور دوگنا زخمی ہیں !‘‘

پھرتینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور خاموشی چھاگئی۔ذرادیر بعد پہلے نوجوان نے سگریٹ نکال کر سلگایا تو دونوں کی نظریں اس پر جم گئیں ۔وہ لمبے کش لگاتا اشتعال انگیزاور متحرک نظروں سے دیکھ رہاتھا۔اُن کے اندر ایک عجیب سی کیفیت جنم لے رہی تھی۔آخر پہلا نوجوان بولا۔’’میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔‘‘

’’آئیڈیا؟‘‘ دونوں نے بہ یک آواز پوچھا۔

پہلے نوجوان نے اپنی کرسی کھسکاکر دونوں کے مزیدقریب کرلی اور سرگوشی میں بولنے لگا۔ اس کے ہاتھوں کے معنی خیز اشارے۔۔۔زبان میں آہنگ۔۔۔ آنکھوں میں حدت انگیز سنجیدگی اور غصہ ۔۔۔اس کی باتیں خاصی دیر تک جاری رہیں ۔ وہ چپ ہوا تودونوں نوجوانوں نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا جیسے کوئی حلف اٹھایا جارہاہو اور اٹھ کرچل دیے۔

۰۰۰O۰۰۰

شہر میں ریلی نکالی گئی توشرکاء کے جذبات کی شدت تھی یا غصہ کہ نعروں کی آواز سے پوری فضا گونج رہی تھی۔وہ آدمی جس کے بڑے بال اور بازو پر سرخ پٹی بندھی ہوئی تھی ،لاؤڈ اسپیکر پر لوگوں کو متوجہ کررہا تھا مگر اُس کی بات کوئی نہیں سن رہاتھا۔شرکاء کے ہاتھوں میں پوسٹر تھے جن پر لاپتہ ہوجانے والے نوجوانوں کا چہرہ بنا ہوا تھا اور نعرے درج تھے۔بڑے بالوں والے آدمی کی گرج دار آواز گونج رہی تھی۔’’جو آدمی دماغ رکھتاہے ، معاشرے کے لیے سوچتا ہے،اس کے خلاف طاقت کے تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔جو آنکھیں بند کرکے حالات سے پردہ پوشی کرتا ہے،اسے بھی کیا ملتا ہے،ذلت،دہشت،بھوک اور گنتی کے سانس!‘‘اسی شوروغوطا میں ریلی کے شرکاء واسطی چوک تک پہنچ گئے تو دوطرفہ سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے راستہ بند کردیاگیا ۔کچھ جذباتی نوجوان کسی کباڑیے کی دوکان سے پرانے ٹائر اٹھالائے جنھیں سڑک کے درمیان میں رکھ کر آگ لگائی گئی تو پوری فضا نعروں سے گونج اٹھی۔کچھ ہی دیر میں راستہ بند ہوگیا۔پیدل چلتے لوگوں کے لیے بھی پریشانی تھی کہ ریلی کے شرکاء کسی کو راستہ نہیں دے رہے تھے۔ اتنے میں بڑے بالوں والے آدمی نے لاؤڈ اسپیکر پر دوبارہ بولنا شروع کیا۔’’مردہ شہر کے باسیوں سنو!۔۔۔لاپتا ہو جانے والے ذہین نوجوان تھے۔۔۔جن موضوعات پر بات کرنے کا اجازت نامہ نہیں ملتا وہ اُن پر بھی بولتے تھے ۔۔۔مگر وہ آخری نوجوان نہیں تھے۔یہ سلسلہ چلتارہا ہے اور چلتا رہے گا۔۔۔مگر فیصلے کا وقت آ چکا ہے ہر کوئی اپنے انجام کے بارے میں سوچے!‘‘پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ ریلی کے شرکاء جو بڑے بالوں والے آدمی کو مرشد کا درجہ دیتے تھے ،اس کی بات سننے کے بجائے نعرے لگارہے تھے۔چیخ چیخ کر اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے اور غصے سے اتنے بھرے ہوئے تھے کہ راستہ مانگنے والوں کو گالیاں اور دھکے دے رہے تھے۔شہر کے باشندے بھی راستہ بند ہوجانے پر غصے سے بھنبھنا رہے تھے کہ روز کی ہڑتال اور جلسے جلوس۔۔۔اِس طرح تو نظام زندگی مفلوج ہوکررہ جائے گا۔ اور طرح طرح کی چہ میگوئیاں کررہے تھے۔

کسی نے کہا۔’’یہ سچ ہے۔‘‘

کسی نے کہا۔’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘

ایک بوڑھے نے آواز لگائی ۔’’ملک آزاد ہوگیا ۔اسلامی حکومت قائم ہوگئی مگر اِن سرخوں کی بکواس بازی بند نہ ہوئی ۔۔۔ سالے دہریے پتہ نہیں کون سے انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ۔‘‘

کاندھے میں کالج بیگ لٹکائے ایک طالب علم نے دوسرے سے کہا۔’’چلو یار!اگر ہمارے سامنے کوئی پنگا ہوگیا تو خواہ مخواہ کے الزام میں کالج سے نام کٹ جائے گا۔‘‘

ایک عورت نے اپنے ساتھ کھڑی عورت سے کہا۔’’گلیوں کے اندر سے نکل کر چلتی ہیں بہن، یہ ڈرامہ تو بند نہیں ہوگا۔‘‘

اس طرح کرتے کرتے عام شہری کھسکنے لگے مگر ریلی کے شرکاء کے جذبات بڑھ رہےتھے۔ شرکاء کا مطالبہ تھا گمشدہ نوجوانوں کی بازیابی تک دھرنا جاری رہے گامگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیاگیا۔

۰۰۰O۰۰۰

تینوں نوجوانوں کی روپوشی کا تیسرا دن تھا ۔وہ ندی کے قریب جنگل میں چھپ کر سوروں کو مارنے کی پوری پلاننگ کرچکے تھے۔اُن کے پاس ایک برچھاتھا جوایک نوجوان اپنے گھر سے چھپا کر لایاتھا۔برچھے کی طرح کاایک اور ہتھیارانھوں نے خود بنایاتھا۔ایک لمبے بانس کے آگے لوہے کی تیزنوک دار چیز لگائی تھی۔کھانے پینے کی انھیں زیادہ پروانہیں تھی۔طے یہ پایاتھا کہ تاریکی چھانے کے بعد اُن میں سے ایک نوجوان خفیہ طریقے سے شہر جائے گااور کھانے پینے کی چیزیں لے آئے گا۔البتہ سگریٹ کی کئی ڈبیاں موجود تھیں ۔

شام کے وقت سوروں نے ندی کا رخ کیاتوایک نوجوان جس کے گال جاگتے رہنے سے سرخ ہورہے تھے۔چلاکر بولا،’’اٹھو، اور پہلی باری میں کم از کم تین سور ہلاک کرنا ہوں گے!‘‘ تینوں نوجوان جنونی انداز میں بھاگتے ہوئے ندی کے کنارے پہنچے اور ایک سور کی گاف میں نوک دار چیز چبھوئی توسور تکلیف کے مارے بدن ہلاکر بھاگا۔ایک نوجوان سور کو چکمادینے کے لیے کبھی سور کے آگے بھاگتا اور کوئی دس بیس قدم کے بعد مڑجاتاتھا۔سور ناک کی سیدھ میں بھاگ سکتاتھا اور بھاری ڈیل ڈول کی وجہ سے یکدم موڑ نہیں کاٹ سکتا۔اِس عمل سے ہانپ گیااور نوجوان اپنی پلاننگ کے تحت سور کو جنگل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں نوجوان پہلی باری میں صرف ایک سور ہلاک کرسکے مگر خوشی سے اُن کے پیرزمین پر نہیں لگ رہے تھے۔

ایک ہفتہ گزرگیامگر نوجوان اپنے مشن میں کامیاب ہوچکے تھے۔جنگل میں سوروں کے مردہ اجسام پڑے تھے جوگل سڑکر سرانڈ پھیلارہے تھے اور جب ہوا چلتی تو انھیں اپنے منھ رومال سے ڈھانپنا پڑتے تھے۔ صرف چار سور زندہ بچے تھے۔چنانچہ جب چاروں سور ندی پر آئے تو نوجوانوں نے تین سور ندی کے کنارے ہی ماردیے اور چوتھے یعنی سور کوبھگابھگاکر اتناتھکادیا کہ بس ایک جگہ پر گرگیااور اس میں ہلنے جلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔تینوں نے فتح کی خوشی میں ایک دوسرے کو گلے لگالیا اور سور کو رسیوں میں جکڑکر چلاتے ہوئے شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔

شام کاوقت تھا۔وہ خراماں خراماں چلتے شہر میں داخل ہوئے اور تینوں کے درمیان بہ مشکل چلتاسور۔۔۔آناًفاناًیہ خبر پھیل گئی کہ گمشدہ نوجوان ایک سور کو رسیوں میں جکڑکر شہر میں لائے ہیں ۔نوجوانوں کے حلقہ احباب کے لوگ خوشی سے بے قابو ہوکر بھاگم بھاگ آگئے تو ایک چھوٹا سا جلوس بن گیا جوشہر کے وسطی چوک کی طرف جارہاتھا ۔ہرکوئی نوجوانوں سے گزرے دنوں کی روداد سننے کو بے چین تھا۔انھوں خوش گپیوں میں نصف راستہ طے کیاتھا کہ بڑے بالوں والاآدمی بھی آ گیا اور قہقہہ لگاکر نوجوانوں سے مخاطب ہوا۔

’’بڑے تیز نکلے!بغیر بتائے ساری کاروائی ڈال دی۔‘‘

’’آخر کب تک برداشت کرتے!‘‘ایک نوجوان نے جواب دیا۔بڑے بالوں والے آدمی نے باری باری تینوں نوجوانوں کے کاندھے پر تھپکی دی اور ساتھ چلتے لڑکوں سے غصے میں بولا؛ ’’ اب تو اِن سے رسیاں پکڑلو!‘‘

تین لڑکوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر رسیاں پکڑلیں اور بڑے فخرسے چلنے لگے۔یوں چھوٹا ساجلوس جب تک وسطی چوک میں پہنچاتوایک بڑاجلوس بن گیاتھا۔سب نوجوانوں سے کچھ نہ کچھ پوچھ رہے تھے مگر بڑے بالوں والے آدمی نے تینوں نوجوانوں کو ایک طرف لے جاکر مختصر سی کہانی سنی اور اُن کے کان میں کھسر پھسر کرکے کچھ کہا اور ایک نوجوان کے ہاتھ میں لاؤڈاسپیکر دے دیا۔ نوجوان نے انگلی سے لاؤڈاسپیکرپر ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز پیدا کی تو ہرطرف خاموشی چھا گئی تھی۔ نوجوان نے گزرے دنوں کی روداد مختصر کرکے سنائی اور آخر میں بولا؛’’شہریو،میں درخواست کرتاہوں کہ سور کو عجائب گھر میں رکھاجائے !‘‘کئی لوگوں نے بہ یک وقت تائید میں آوازیں لگائیں اور نوجوانوں کو کاندھوں پر اٹھالیاتھا۔

۰۰۰0۰۰۰

راوی درراوی اس کہانی میں انقلابی جذبہ سنجیدہ فن کے مرتبے تک پہنچا یا نہیں !مگر یہ کہانی اُن لوگوں کے لیے ثقافتی ورثے کی اہمیت رکھتی ہے جو فسطائیت کی ہرقسم سے نفرت کرتے ہیں ۔ کون جانے کہ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی!اس کہانی کاایک موڑ یہ ہے کہ سور کو عجائب گھر میں بند کرکے جنگلے پر ایک تختی لگائی گئی؛’’سر جان رچرڈکا آخری سور!‘‘ مگر سور اپنی طبعی عمر پوری ہونےکے بعد مرگیاتھا۔پھرایک بہت عمدہ پتھرکا سور بناکر رکھا گیا مگر عجائب گھر کے ریکارڈ میں کسی سور کا ذکر نہیں ملتا!البتہ یہ کہانی جدید دور کی سیاسی تاریخ میں ایک حکایت کے طور پرموجود ہے اور بار بار اپنے سچاہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔

دیدبان شمارہ۔۲۵

"سوروں کی حمایت میں"

کہانی کار : جناب حفیظ تبسمؔ

سرجان رچرڈ کا انتقال ہوچکاتھا۔اس کی وفات رجسٹر میں درج ہوچکی تھی۔جس پر پادری، گورکن اور متوفی کی سوگوار شہنازرچرڈ کے دستخط بھی ہوچکے تھے ۔ سالہاسال سے نجانے کیوں سر رچرڈزندہ ہیں ۔جب کہ متوفی کی منتقل الیہ وارث، بیوی اوردوست شہنازرچرڈ ہی تھیں ۔گو متوفی کے انتقال کا اسے چنداں افسوس اور غم ہوا یا نہیں مگر کچھ دنوں کے بعدایک ناگہانی حادثے میں مرگئی تھی۔

سرجان رچرڈکو اس دارِفانی سے رخصت ہوئے عرصہ ہوچکاتھا مگر شہر کے باہر فارم ہاؤس کے گیٹ پر ابھی تک اس کا نام موجودتھا اور نام کے ساتھ جڑے بے شمار قصے جوبڑے ہی غیر حقیقی لگتے تھے ۔ایک آدمی ایسا بھی تھا جوجان رچرڈ کا ملازم خاص اور بہت سی باتوں کا چشم دید راوی بھی تھا۔ وہ زندگی کی پچاسی خزائیں اور بہاریں دیکھ چکاتھا۔اُس کی باتیں بے ربط اور مضحکہ خیز ہوتیں ۔اسی بناپر لوگ اسے دیوانہ کہتے اور وہ بڑھاپے کا تھکاہارا قہقہہ لگاکر کہتا؛ ’’ہاں ! میں دیوانہ ہوں ۔‘‘ایک وقت تھا کہ اس شش حرفی لفظ کے سننے سے میرادل زور سے دھڑکنے لگتا تھا۔ میں نے اس دیوانے کے ساتھ کئی دن گزرے اور سرجان رچرڈ کے متعلق باتیں سنیں مگر کئی دن تک سماعت قبول کرنے سے انکاری رہی۔ ایسا لگتا جیسے کانوں میں سیسہ پگھلاکر ڈالا جا رہا ہو۔ عجیب و غریب صدائیں آنے لگتی ں تھیں ۔میرا سر چکراتاتھااور دنیاومافیہا میری آنکھوں میں تاریک ہو جاتی تھی۔آخرکئی دن اور راتیں لگاکر بوڑھے کی باتوں کو کٹ اور پیسٹ کرکے جوڑنے کی کوشش کی تو ایک کہانی کا راز مجھ پر ظاہر ہوگیا جو کچھ یوں ہے؛

انگریز راج کے زمانے میں جان رچرڈ برصغیر آیااورجلد ہی اپنی قابلیت اور گڈگورنس کی بدولت اعلیٰ عہدے دار کادل عزیز ہوگیا ۔اسے ملکہ انگلستان نے ’سر‘کا خطاب دیا مگر اس کے لیے سر کا خطاب زیادہ اہمیت نہیں رکھتاتھا۔۔۔ وہ پرلے درجے کاسخت گیراور زرپرست تھا۔وہ تلوں سے تیل نکالنے والا،بال کی کھال کھینچنے والا،حریص،بخیل اور پراناپاپی تھا۔وہ سنگ چقماق کی طرح سخت تیزتھا۔لوہااس سے ٹکراتاتھا مگر کبھی فیاضی کی آگ اُس سے نہ جھڑتی تھی۔وہ صدف کی طرح پُراسرار ،تنہائی پسند اور بہ کار خویش ہوشیارتھا۔آواز میں عجیب قسم کی سختی اور کرختگی تھی۔قد لمبا، جسم توانا، اور چھوٹی آنکھیں جو شراب نوشی کی وجہ سے سرخ رہتی تھیں ۔ اس کے لیے سب دن ایک جیسے تھے اور معمول میں رتی برابر تبدیلی نہیں آتی تھی۔

جان رچرڈ کو سر کا خطاب ملتے ہی اختیارات میں توسیع ہوگئی توبلاخوف وخطر ہرجائز اور ناجائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنا شروع کردی اور اپنے دل میں مخفی شوق بھی پورے کرنے لگا ۔ شوق بھی کیا تھے ۔بس!مقامی عورتوں سے عشق کرنااور سور پالنا۔وہ اجرت دے کر مباشرت کرنے کے خلاف تھا۔طوفان سے بڑھ کر تند،اولوں سے بڑھ کر ضدی اور موسلا دھار بارش سے بڑھ کر یک رخے آدمی سے مقامی عورت کیسے عشق کرتی؟ایک تو وہ بہت کم باہر نکلتا اور اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کرتاتھا۔اُس کا قول تھا کہ گھوم پھرکر حالات اور عوام الناس کا جائزہ لینا بے وقوفی ہے، اس طرح سربراہ کا خوف دل سے نکل جاتا ہے۔ وہ اگر باہر جاتابھی تو آقا اور غلام کی دیوار درمیان میں حائل ہوتی ۔یہاں تک کہ آوارہ کتے بھی راستہ بدل جاتے کہ آقا کو کون سی اداناپسند آ جائے اور اُن کی شامت آجائے۔البتہ کبھی کبھار بھیس بدل کر بازاروں میں نکل جاتا اور عورتیں دیکھ کر دل خوش کرتامگر اس کی جمالیات کا کوئی معیار نہیں تھا۔ہر عورت ہی اسے خوبصورت لگتی تھی۔وہ اگر چاہتا تو کسی بھی عورت کو دل لگی کے لیے حاضر کرسکتاتھامگر ایسا کرنا بھی شانِ فرنگی کے خلاف گردانتا تھا۔ہمہ وقت اس کے دماغ میں آگ سی لگی رہتی اور دل میں شعلے سے اٹھتے تھے ۔کسی پارٹی میں چلاجاتا تو مقامی عہدے داراپنی بیویوں اور جوان لڑکیوں کو اس کے پاس چھوڑ کر بہانے سے کھسک جاتے ۔اسی طرح ایک جوان عورت اس کی طرف مائل ہوئی اور اس سے اکیلے میں ملنے چلی آئی ۔پہلی ہی ملاقات میں نوبت ہونٹ چومنے تک پہنچ گئی تو عورت نے اپنے خاوند کا نام لے کر ایک ذاتی نوعیت کا کام بتایا جوسراسر انگریز راج کے دستور کے خلاف تھا۔وہ کام باآسانی کر دیتا مگر عورت کام کی شکل میں اجرت مانگ رہی تھی ۔اس نے دوبارہ مقامی عورت سے ملنے سے گریزکیا کہ کہیں یہ عاشقی کسی دیوانگی کا پیش خیمہ نہ بن جائے ۔ مگر مردانگی کی گونج رگوں میں آگ بن کر دوڑنے لگی اور آخراپنے اصول توڑنے میں کامیاب ہو گیا ۔ پھراس کے پاس ہرہفتے کی رات نئی عورت آتی اور صبح تک اس عورت کی حالت دگرگوں ہوجاتی ۔سر جان رچرڈ مباشرت کے نت نئے طریقے آزماتا جو مقامی عورتوں کے نزدیک کراہت آمیز اور جان نکالنے والے ہوتے اور حکم عدولی پر تھپڑبھی کھانے پڑتے ۔خوب صورت ، تندرست اور رعناجوان سر جان رچرڈمقامی عورتوں کی صحبت میں وقت گزارتا اور دولت کے انبار لگاتا جا رہا تھا کہ اسے نئی فکرستانے لگی۔ وہ اپنی دولت انگلستان بھیج نہیں سکتاتھا۔ایک تو انگریز راج میں غیر قانونی اور غداری تھی،دوسرا وہ کبھی لوٹ کر نہیں جاناچاہتا تھا۔ اس نے اپنی دولت کو قانونی رنگ دینے کے لیے طریقہ نکالاکہ مقامی عورت سے شادی کرلی جائے۔اس نے عورت کی تلاش شروع کردی اور اس کی دوربین نگاہ جلد ہی ایک خاندان پر مرکوز ہوگئی جوامیر کبیر بھی تھا۔اس نے ذرا سا جھکاؤ اور میل جول بڑھایا تو خوشامد کے بندے پہلے سے بڑھ کرغلام ہوگئے۔جب اس نے اپنی خواہش کااظہار کیاتوکیا جوان ،کیا بڈھے اُس کے گرویدہ ہوگئے۔خاندان میں ایک ہی لڑکی تھی جو چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔اُس کا حسن عالم افروز حوروں کو شرماتاتھا۔سر جان رچرڈ کی اس لڑکی سے شادی ہوگئی مگر یہ راز عیاں نہ ہوسکا کہ نکاح کون سے مذہبی طریقے پر کیا گیا تھا۔ البتہ لڑکی کے نام شہناز کے آگے رچرڈکا اضافہ ہوگیا اور اس کے باپ کو ایک اہم عہدہ سونپ دیا گیا جو اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھا۔

شادی کے دن شام سے ہی جان رچرڈ شراب پی رہاتھا مگر گھڑیال نے جیسے ہی رات کے دس بجائے تواسے خودبخود ہوش آگیااور لگاجیسے نیندسے آنکھ کھلی ہو۔وہ ڈگمگاتے قدموں سے حجلہ عروسی میں داخل ہوا تواس وقت ایسا معلوم ہوا جیسے اس کی سونے کی تاریک خواب گاہ ہوگئی کیوں کہ ایک روشن چہرہ پلنگ پر موجود تھا۔وہ اپنی نوبیاہتا زوجہ کے روبرو کھڑاہوگیا اور ترساں و لرزاں پوچھا۔ ’’آپ خوش تو ہیں ؟‘‘

نوبیاہتا زوجہ نے آنکھیں اوپر اٹھائیں اور ذرا شرماکر بولی۔’’جی!‘‘

جان رچرڈکواعتبار نہیں آرہاتھا۔وہ دلہن کی طرف دیکھے جارہاتھا ۔اس نے اپنی انگلیوں سے دلہن کا چہرہ چھوااور کافی دیر بعدبولا۔’’یقینا تم خوش رہوگی۔۔۔میں پوری کوشش کروں گا کہ ہم اچھی زندگی بسرکریں !‘‘اور دلہن کے پاس بیٹھ کر دل کی باتیں کرنے لگاجوایک مدت سے چھپی ہوئی تھیں ۔

اگلی صبح شہنازرچرڈنے اسے نیندسے بیدار کیا تواسے لگا جیسے زندگی کا معمول بدل گیاہو اور اس کا ہاتھ تھام کربولا۔’’آج میں آپ کواصطبل دکھاؤں گا!‘‘شہنازنے کوئی جواب نہ دیا اور شرما کر چلی گئی۔اسی دن سہ پہر کو وہ اصطبل میں گئے جہاں گھوڑے، گائے اور سور تھے۔ جان رچرڈ بڑی خودآگہی کے ساتھ کھڑاتھا اور شہنازنے اس کی طرف ایک نئے تجسس اور ایک نئی تحسین کے ساتھ دیکھا۔آج سے پہلے رچرڈ ایک انگریز باشندہ تھا۔انگریزی لباس میں سب سے زیادہ خاموش ،جس پر مغرور ہونے کا شبہ ہوتاتھا لیکن وہ کتنامختلف نظر آرہاتھا۔

شہنازنے پوچھا۔’’آپ گھڑ سواری کرتے ہیں ؟‘‘

جان رچرڈنے کوئی جواب نہ دیا۔

’’میں گھوڑے کی دُم میں فیتے باندھوں گی جیسا کہ اکثر میلوں میں ہوتا ہے!‘‘

’’ضرورباندھو۔۔۔اچھے لگیں گے۔‘‘

شہنازدوبارہ بولی۔’’تم اِس کی سواری کب کروگے؟‘‘

جان رچرڈنے ذراساسوچ کر جواب دیا۔’’میں سور پر سواری کرناپسندکرتاہوں !‘‘

شہنازنے حیرت سے دیکھا۔رچررڈایک سور کے بچے کے پاس گیاجوبیٹھااونگھ رہاتھا اور بولا۔ ’’میں آج کل اسے کاٹھی ڈال کر چلنا سکھارہاہوں !‘‘

’’تو میں بھی سور پر سواری کروں گی۔‘‘

شہنازنے اپنی خواہش کا اظہارکیاتورچررڈنے اسے گلے لگالیا۔

سور پالنا سرجان رچرڈکاشوق ہی نہیں جنون بھی تھا۔وہ سوروں کی نسل بڑھاتااور کسی پارٹی میں گوشت کے لیے سور ذبح بھی کرلیا جاتا۔ دونوں فرصت کاساراوقت اصطبل میں گزارتے اور شہنازبڑے غور سے اس کی باتیں سناکرتی چونکہ اسے معلوم تھاکہ ساراعلاقہ یہ بات جانتا کہ جان رچرڈگھوڑوں اور سوروں کا اچھارکھوالاتھا۔ وہ سوروں کے جسم پر برش پھیرنے اور تیل کی مالش کرنے کے بعد بھگاتااور خود بھی بڑی پھرتی سے اُن کے پیچھے دوڑنے لگتا جب تک ہانپنے نہ لگتاتھا۔وہ بلاناغہ دوتین سوروں پر کاٹھی ڈال کر چند منٹ کے لیے سواری کرتا اور بڑے فخر سے کہتا؛ ’’جو جانور سواری کے لیے بنا ہی نہ ہو اُس پر سواری کرنا ہی فن ہے۔‘‘وہ لگام کی لمبائی کو بار بار تبدیل کرتارہتااور یہ لمبائی کبھی درست نہ ہوتی تھی۔اس کا خیال تھا کہ سور کو کاٹھی سے مانوس کرنا اہم ہوتا ہے مگر لگام کی لمبائی ہربار ایک جیسی نہ ہونے سے سور کی چال بدل جاتی ہے اوریہ ضروری ہے۔سور پر پہلی مرتبہ کاٹھی ڈالناایک پریشان کن کام تھا۔سور یہ بندھن قبول نہ کرتا مگر رچرڈ چند روز کی کوشش سے سور کومانوس کرلیتااور سور کو کاٹھی کی پروا نہ رہتی ۔پھر منھ میں لگام ڈالنے کی باری آتی۔وہ جانتاتھا کہ سور کے منھ میں پہلے کوئی میٹھی چیز رکھنی چاہیے تاکہ منھ میں کوئی چیز رکھنے سے مانوس ہوجائے۔پہلی بار لگام پہنانے پر سور سر کو جھٹکتااور دانتوں کوسختی سے بھینچ لیتا تھا۔ سور کی آنکھیں بے تکے پن سے سر خ ہوجاتیں اور رچرڈخوش ہوجاتاتھا کہ اب کبھی مزاحمت نہیں کرے گا۔

رچرڈکی زندگی معمول سے گزررہی تھی۔اس کے دونوں شوق پورے ہورہے تھے ۔سور اور مقامی عورت مگر انگریز سے آزادی کی تحریک آخری مراحل میں داخل ہوگئی۔سب جانتے تھے کہ چند ہی دنوں میں فیصلہ ہوجائے گا اور اسی بناپرانگریز انتظامیہ پریشانی کاشکار تھی۔تیزی سے خراب ہوتے حالات اور ناقابل فہم واقعات سے زندگی کااندازاتھل پتھل ہورہاتھا جو نہ جانے کب سے پانی کی طرح ساکت چلا آرہاتھا مگر جان رچرڈ قدرے مطمئن تھا۔

ایک روز شہنازنے پوچھا۔’’جوعجیب وغریب قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ،کیاسچ ہیں ؟‘‘

جان رچرڈاچھی طرح جانتاتھا کہ حالات بدل رہے ہیں مگر احتیاط طلب جواب دیا کہ وہ انگلستان لوٹ کر جانے کا ارادہ نہیں رکھتااور جولوگ خوشی ،غصہ یامذہبی عقیدت میں گالیاں بکتے ہیں اُن کے خلاف دوسرے منتظمین کی طرح کسی قسم کی سخت کاروائی نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے حالات خراب تر ہوتے چلے گئے مگر جان رچرڈ پرسکون رہا۔اس نے اپنی زندگی کی پلاننگ بہت پہلے ہی کرلی تھی۔

ایک روزوہ دونوں اصطبل میں موجودتھے ۔رچرڈسور کے ایک بچے پر کاٹھی ڈال رہاتھا تو شہنازنے پوچھا۔’’کیایوم آزادی سے پہلے اِس پرسواری کرسکوگے؟‘‘

لفظ’یوم آزادی ‘پر وہ چونکا کہ اُس کی زوجہ بھی انگریز راج سے آزادی کی خواہاں ہے اور کچھ سوچ کر جواب نہ دیا۔یوم آزادی میں ابھی تین ہفتے پڑے تھے۔وہ یہ بات سوچنا نہیں چاہتاتھا کہ انگریز راج ختم ہونے پر وہ واپس نہ لوٹاتو اس کے عزیزواقارب کیا محسوس کریں گے۔

وقت گزرتاگیااور یوم آزادی بھی گزرگیا۔سرجان رچرڈ سے کچھ اختیارات چھن گئے اور کچھ اُس کے پاس ہی رہے تھے۔نئی انتظامیہ نے اُس سے مشاورت جاری رکھی۔پہلے پہل انتظامی امور طے کرنے میں اس کا بڑا اہم رول رہا اور اسی کے پسندیدہ لوگ بڑے عہدوں پر فائز کیے گئے۔اس کے سامنے کسی میں سوال کرنے کی ہمت نہیں تھی اور رچرڈ اب طاقت کے بجائے چالاکی سے کام لے رہاتھا۔ سرکاری کاغذات میں اس سے اختیارات چھنے مگر اس نے عقل مندی سے اپنے پاس ہی رکھے تھے۔

لگ بھگ چارسال کاوقت گزرگیا اور سرجان رچرڈ کا فارم ہاؤس سیاسی نوراکشتی کا مرکز بن گیا۔کس وقت کس آدمی کواہم عہدہ دینایاواپس لینا تھا، رچرڈ کے پاس ہی پوری منصوبہ بندی ہوتی تھی مگر جان رچرڈ کھویاکھویاسا،بے چین رہتااور بعض اوقات چڑچڑاہوکر اکیلے میں گالیاں دینے لگتا مگر شہناز کو دیکھتے ہی ایک دم پرسکون ہوجاتا جیسے اس پر نیم دیوانگی کا دورہ پڑا ہی نہ ہو۔۔۔ سردی کی ایک رات تیز بارش برس رہی تھی کہ جان رچرڈچپکے سے اٹھ کر باہر نکل گیا اور کتنی ہی دیر تک بھیگتارہا۔شہنازکی آنکھ کھلی تووہ بستر خالی پاکر باہر نکلی ۔جان رچرڈ بارش میں چہل قدمی کرتے ہوئے انگریزی میں بڑبڑارہاتھا جس کے معنی تھے۔’’قسمت کی بے رحمی دیکھئے۔۔۔ آقا کو احکامات پر دستخط کرکے انہیں وصول کرناہوگا!‘‘شہنازنے اس کو آوازیں دیں مگراسے خبر ہی نہیں تھی۔ آخر شہنازبارش میں بھیگ کراسے کمرے میں لائی اور انگیٹھی کے سامنے کرسی پر بٹھا دیا۔وہ آگ تاپ کر بسترپر درازہوگیا مگر دوبارہ کبھی بستر سے اٹھ نہ سکا۔نمونیابخارتھا کہ اترنے کا نام نہیں لے رہاتھا اور جان رچرڈ سارا وقت چھت کو گھورتارہتا ۔کبھی کبھی شہناز کی آواز پر اس کے ہونٹوں پر تبسم نمودار ہوتا لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔اسی کیفیت میں چاردن گزرے اور رچرڈنے آخری وصیت کی کہ میرے جانوروں کا خیال رکھنااور بڑے سکون سے مرگیا۔

سرجان رچرڈکی آخری رسومات اور تعزیت کے لیے آنے والوں کی بھیڑ چھٹنے میں ایک ہفتہ لگ گیا۔شہنازرچرڈ صبر سے کام لیتی مگر معلوم ہوتاتھا جیسے آنکھیں بھرم کھول رہی ہیں ۔دکھ سے بار بار آنکھوں سے آنسو چھلک آتے مگر وہ بمشکل تمام ضبط کرکے سنجیدہ اور کھوئی کھوئی سی بیٹھی رہتی ۔۔۔پورے فارم ہاؤس میں صرف دو لوگ رہ گئے تھے ۔ایک شہنازاور دوسرا ملازم خاص جو بندہ قابل بھروسہ ،سادہ اور نیک دل تھا۔شہنازکو فارم ہاؤس کا سناٹا کاٹ کھانے کو دوڑتااور دوسری جوانی ۔۔۔ شہناز یوں بھی سوہنی تھی۔ چھریراسڈول بدن،سیدھے بال دوچوٹیوں میں گندھے ہوئے، دونوں طرف موٹی موٹی چوٹیاں ، بڑے سلیقے سے وہ اپنے سر پر سفیدرومال باندھتی کہ ایک سراماتھے پر لٹک جاتا۔جب وہ مسکراتی تو اس کی نیلگوں سیاہ بادام کی آنکھیں چم چم کرنے لگتی تھیں مگروہ شرارتیں ،شوخ چٹ پٹ لہجہ اور آنکھوں کی چمک تولگتاجیسے قصہ پارینہ ہوگئے تھے۔ایک ڈیڑھ ہفتے میں ہی شہناز رچرڈ جو بسر کر رہی تھی اس زندگی میں کہیں بھی کوئی بلند خیالی یا بلند جذبات نہ تھے بلکہ دل سوزی اور نرم مزاجی تھی۔ وہ کرسی نکال کر باہر بیٹھ جاتی اور گھنٹوں تک مقامی زبان میں دوہڑے ماہیے گاتی رہتی ۔۔۔یہ محض گلا تھایا اس کے سواکوئی اور چیز تھی ،وہ صدا جو انسان کی روح سے نکلتی ہے۔ گویا نئی اور بے معنی زندگی تھی جس کے راستے پر بغیرسوچے قدم رکھ رہی تھی۔ایک سہ پہر شہناز رچرڈ اصطبل کی طرف گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ فضلے کے ڈھیر لگے پڑے تھے۔چارے کے بنڈل جانوروں کے پیروں تلے رل رہے تھے۔عجیب سی تیز بوپھیلی ہوئی تھی۔شہناز ناک کے آگے ہاتھ کیے آگے بڑھی اور سور کے ایک بچے کو دیکھا جسے جان رچرڈ آخری دنوں میں کاٹھی ڈال کر سدھار رہا تھا۔سور کا بچہ بیمارلگ رہا تھااور اس کی آنکھیں قریب قریب بند تھیں ۔اس کی ناک بند تھی اور سانس سے ایک تیکھی سیٹی کی آواز پیداہورہی تھی۔بچے کی آنکھیں جتنی کھلی تھیں ان پر ایک دھند چھائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اسے شبہ ہورہاتھا کہ بچہ دیکھ بھی سکتا ہے کہ نہیں ۔ شہنازنے ہمدردی کے ساتھ بچے کے بدن پر نگاہ دوڑائی۔اس کے بدن پر لید لگی ہوئی تھی کہ جلد کی اصل رنگت ہی بدل گئی تھی۔ شہنازنے اصطبل کے ایک طرف بنے کمرے میں جا کر برش لیااور واپس آکر بچے کے بدن پرپھیرنے لگی۔ ایکدم بچے کے بدن میں طاقت پیداہوئی اور پورابدن ہلاکر جیسے برش سے تکلیف ہوئی ہو،شہناز کو ٹکرماری۔شہناززور سے پیچھے گری اور اس کے منھ سے دلخراش چیخ نکلی توملازم خاص بھاگتا ہوا آیا اور یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ چارپانچ سور شہناز کو ذرا سا اٹھنے سے پہلے ہی ٹکر مارکرگرادیتے تھے۔ملازم نے فضلہ اٹھانے والا پھاوڑااٹھایااور گھما کے ایک سور کے مارا تو سور نے بوکھلاکر گری ہوئی شہنازکے سینے پر پیر رکھ دیا۔سور کے وزن سے شہناز کی آواز بھی نہ نکل سکی ۔اس کی آنکھیں باہر اُبل پڑیں اور زبان لٹک پڑی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نزع سے پہلے منھ چڑارہی ہو۔اس کا چہرہ سرخ تھا جس پر موٹی موٹی نیلی رگیں ابھر آئی تھیں اور پیشانی پر موت کا پسینہ نمودارتھا۔ملازم خاص نے جب پھاوڑا مارکر سوروں کو پرے ہٹایا تب تک شہناز کی گردن ایک جانب لڑھک چکی تھی۔ ملازم خاص نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر آوازیں دیں مگر شہناز رچرڈ سننے سنانے سے نجات پاچکی تھی۔وہ مردہ شہناز کو بڑی مشکل سے اٹھاکر اصطبل سے باہر لایااور گھاس پر لٹاکرتیزی سے فارم ہاؤس سے باہر نکل گیا کہ لوگوں کو موت کی اطلاع دے سکے۔

۰۰۰O۰۰۰

اس کہانی میں بتانے کو کچھ اور نہ ہوتا اگر وہ عجیب وغریب واقعات پیش نہ آتے جن کو میں بیان کرنے والا ہوں ۔ اِن واقعات کا راوی کوئی ایک نہیں بلکہ پوراشہر ہے اور اگر یہ واقعات پیش نہ آتے تو کہانی شہنازرچرڈ کی موت پر ختم ہوجاتی ۔یہ کہانی اَن لکھی تاریخ یعنی سینہ بہ سینہ اگلی نسل تک منتقل ہوتی رہی۔تھوڑی بہت ردبدل ہرراوی کرتارہا یایوں کہیے کہ اندازِبیان کی وجہ سے بدلی ہوئی لگی۔۔۔ جتنی ضرورت اس کہانی کی آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی جب ہم فسطائیت کے دور سے گزر رہے ہیں ۔۔۔راوی در راوی کہانی کے تاثر میں فرق ضرور آیاہوگا مگر میں نے کوشش کی ہے کہ کہانی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ،اسی کینوس اور اسی فریم پر دوبارہ سے کہانی کی وہی تصویر بنادوں جو نصف صدی پہلے دیکھی گئی تھی تاکہ انسانی تقدیر کے بارے میں نئے اور پرانے تصور کو اجاگر کیا جا سکے ۔تو کہانی یوں شروع ہوتی ہے؛

ناک کی سیدھ میں چلتے سور ندی کی طرف جارہے تھے۔شہر میں مختلف جگہوں پر راہ چلتے لوگوں کے قدم رک گئے جیسے زمین نے جکڑ لیے ہوں اور دیر تک رکے رہے۔لوگوں نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایامگر آنکھوں میں کوئی روشنی نہ چمکی۔ان کی آنکھوں پر پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے جیسے وہ چلتے چلتے کہیں کھو گئے ہوں ۔ ناک کی سیدھ میں چلتے سور ندی کےکنارے جاکررک گئے۔۔۔ندی کا پانی ویسا ہی تھا اور اس کا کنارہ دور تک چلا جارہاتھا جیسے وہ کہیں ختم نہیں ہوگا۔ سورندی میں اترگئے اور دیر تک نہاتے رہے۔اُن کے اجسام سے میل کچیل پانی میں شامل ہوکر بہنے لگا۔وہی پانی جس سے لوگ پیاس بجھاتے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ایسا لگا جیسے ندی کے میٹھے اور شفاف پانی کے ساتھ ناپاک گندگی اُن کے منھ میں آرہی تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میں پرانی یادیں جاگ گئیں کہ جب سر جان رچرڈ کی نگرانی میں سور ندی کے کنارے آتے اور نہاتے تھے۔لیکن کئی باربگاڑ کی انتہا ہوجاتی تھی جب سور ایک قطار بنا کر مباشرت کرتے تھے۔ندی پر پانی لینے کے لیے زیادہ ترعورتیں ہی جاتی تھیں تب لوگوں نے بے حیائی پھیلنے کی وجہ سے کہاتھا کہ شہر پر کوئی مصیبت یا عذاب ضرور آئے گا۔ شہر کے لوگ جانتے تھے کہ سر جان رچرڈ کے فارم ہاؤس میں سور رہتے ہیں مگر فارم ہاؤس کی اونچی دیواریں انھیں ڈراتی تھیں ۔خوف تھا کہ دماغ میں فصل کی طرح پروان چڑھاتھااور وہ فارم ہاؤس کے متعلق بات چیت بھی ڈھکے چھپے انداز میں کرتے اور ایک واقعے کا ذکر تو بالکل ہی علامتی انداز میں ۔۔۔ واقعہ تھا کہ ایک صبح شہر کی بڑی جامعہ مسجد کے اندرمردہ سور پڑاملاتومسلمانوں میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فساد برپاہوا تھا۔ سور مارنے کے الزام میں کئی لوگ گرفتار کر لیے گئے جن میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔۔۔اِ س واقعہ کے بعد شہر کے لوگ فارم کے سامنے سے گزرتے تو اتنا فاصلہ رکھ کر کہ دیوار کا سایہ بھی اُن پر نہ پڑے۔آنکھوں سے غصہ یا بغاوت کے بجائے توکل اور قناعت کی پرچھائیاں ہوتیں ۔پھرایک اور واقعہ ہواتھا کہ تحریک آزادی کے ایک سرگرم رکن کی کچلی ہوئی لاش ملی جس نے انگریز سامراج کے خلاف ایک کتاب لکھی تھی ۔ کتاب میں سرجان رچرڈ کا ذکر بھی تھااور اس کے سوروں کا بھی۔۔۔کتاب میں ایک اور تہلکہ خیز انکشاف ہوا تھاکہ علاقے کی بااثر شخصیات کوبھی سر جان رچرڈ کی پارٹیوں میں شراب کے ساتھ سور کا گوشت پیش کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو شک تھاسرگرم رکن سے کتاب کا بدلہ لیاگیا اور یقینا اس کو سوروں کے پیروں تلے کچلا گیا تھامگر کوئی کچھ نہ کرسکتاتھا۔سب بے بسی کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے۔اُن کے جذبات سے خالی چہرے زمانے کی سختیوں سے اُس گھر کی طرح دکھائی دیتے جس کی دیواروں سے ہرطرح کا رنگ و روغن اڑچکا ہو،حالاں کہ ملک آزاد ہوگیا اور سر جان رچرڈ دارفانی سے کوچ کر گیاتھا۔انگریز سامراج کازمانہ ختم ہوگیاتھا۔خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اپنے وطن کی آزادی کے ساتھ اپنے لوگ انتظامی امور چلا رہے تھے لیکن کوئی سوروں کے خلاف بولنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا ۔ شاید نوآبادیاتی نظام میں خوف کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں ۔ہرکسی کا دماغ ندی کے پانی پر لگا ہواتھااور شکایات کا پینڈورا باکس تھا مگراُن کے چہروں پر غربت، خوشامد اور منافقت کے خول چڑھے تھے جن پر لالچ کی مہریں ثبت تھیں ۔و ہ تو سب باتوں سے بے نیاز ایک بچے کی طرح تھے جو ہربات پر بڑبڑاتا ہے،ہرچیز دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے، اور مذاق سمجھ کر بھول جاتا ہے۔۔۔ کوئی بھی جذبہ اُن کی پست ذہنیت کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔

۰۰۰O۰۰۰

ایک شام سارا شہر ڈھول کی آواز سے گونج رہاتھا۔یہ ڈھول نہ تو کسی خوشی کے لیے بجایا جا رہاتھا اور نہ کسی تہوار کے لیے۔۔۔ڈھول بجاکر لوگوں کو ندی کے کنارے جلسے میں پہنچنے کے لیے مطلع کیا جارہا تھا۔ جلسہ گاہ میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جنھوں نے سرخ جھنڈے اور بینراٹھارکھے تھے ۔ بینرز پر’سور بھگاؤ،پانی بچاؤ‘اور ’جعلی آزادی کے معنی کیا؟‘جیسے نعرے درج تھے۔اتنے میں ایک نوجوان نے ڈائس پر آکر اعلان کیا۔’’ایک ناٹک کھیلا جارہا ہے، تمام احباب توجہ فرمائیں !‘‘ بے چینی اور اضطراب عروج پر تھا کہ کھیل شروع کردیا گیا۔پہلے ایک نوجوان اسٹیج پر آیا جس کے ہاتھ میں موٹی سی کتاب تھی۔ اس نے اپنا ایک جوتااتارکر میز پر رکھااور برابر میں ایک کتاب بھی ۔۔۔ پھرچار کردار کھیل کا ابتدائیہ کھیلنے کے لیے اسٹیج پر آگئے۔ایک کردار چوپائے کی طرح چل رہا تھا جس کے چہرے پر سور کی شکل کا ماسک چڑھاہواتھا۔دوکرداروں کے ہاتھوں میں رسیاں تھیں جن سے سور جکڑا ہواتھا۔ڈائس پر موجود کردار نے آواز لگائی۔’’سور کو کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘

 پہلا کردار: قاضی کی عدالت میں ۔

ڈائس والا کردار:کیوں ؟

 پہلا کردار: یہ سور ندی کے پانی میں نہاکر غلاظت پھیلاتا ہے۔

 دوسرا کردار: ہماری عورتیں خوف سے پانی بھرنے ندی پر نہیں جا سکتیں ۔

(سور کو قاضی کے سامنے پیش کیاجاتا ہے۔ایک کردار قاضی کو سارا مدعا سناتا ہے ۔قاضی کے ماتھے پر شکنیں ابھرتی ہیں ۔)

قاضی : سور ایک جانور ہے اور جانور بے عقل ہوتے ہیں ۔

پہلا کردار: سور کو باندھ کر بھی رکھاجاسکتا ہے جس کی ساری ذمہ داری مالک پر عائد ہوتی ہے۔

(قاضی پریشان ہوجاتا ہے اور سور کے مالک کو بلانے کا حکم دیتا ہے۔اسٹیج پر ایک کردار آتا ہے ۔قاضی اٹھ کر تعظیم کرتا ہے اور کردار قاضی کے سامنے کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)

قاضی  : سور پر ایک الزام ہے۔ (دبی سی آواز)

سور کا مالک: الزام انسانوں پر لگتے ہیں ،جانوروں پر نہیں ۔

 پہلا کردار: سور کوباندھ کر رکھنا مالک کا فرض ہے جو ایک انسان ہے۔

(اتنے میں سور کے ڈکرانے کی آواز گونجتی ہے جیسے اپنے مالک کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروارہا ہو )

سور کا مالک: اتنی ہمت کہ میرے سور کو باندھ کر لایاجائے۔

 دوسرا کردار: قاضی کے پاس انسان باند ھ کر لائے جاسکتے ہیں ،سور کیوں نہیں ؟

(سور کا مالک غصے سے قاضی کی طرف دیکھتا ہے اور پھر اپنے سور کی طرف۔۔۔ماحول کشیدہ دیکھ کرقاضی میز پر تین بار جوتا مارتا ہے۔آرڈر، آرڈر۔۔۔اور اپنے سامنے میز پر رکھی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگتا ہے۔)

قاضی:  کتاب میں جانوروں کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

 پہلا کردار: قانون تو قاضی کے دماغ میں ہوتا ہے اور اگر دماغ میں موجود نہیں تو نیاقانون بھی بنایاجاسکتا ہے۔

دوسرا کردار: انسانوں کا قانون جانور پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟

(قاضی نوجوان کو جذباتی دیکھ کر میز پر جوتا مارتا ہے۔)

قاضی: آپ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں جس کی سزا ایک سال قید ہے۔

(دونوں نوجوان خاموشی سے دیکھتے ہیں ۔۔۔سور کا مالک گردن ہلاتا ہے ۔قاضی کچھ دیر سوچتا ہے ،کتاب کی ورق گردانی کرتا ہے ، پھر سور کے مالک کی طرف دیکھ کر کہتاہے)

قاضی: عدالت سور کو باعزت بری کرتی ہے۔

(اتنے میں ایک اور کردار اسٹیج پر آتا ہے جس کے ہاتھوں میں بندوق ہے اور نشانہ باندھ کر سور پر فائر کرتا ہے۔سور گرجاتا ہے ۔رسیاں تھامے دونوں کردار آواز لگاتے ہیں ۔انصاف! انصاف ۔۔۔ قاضی اپنی کتاب اٹھاکر اور سور کا مالک بھاگ کر اسٹیج سے نیچے اترجاتے ہیں ۔)

کھیل سے لطف اندوز ہوتے لوگ تالیاں بجانے لگے۔۔۔پھر ایک آدمی ڈائس پر آیا جس کے لمبے بال شانوں تک آرہے تھے اور بازو پرسرخ پٹی بندھی ہوئی تھی۔نوجوان جذباتی ہوکر نعرے لگانے لگے ۔بڑے بالوں والے آدمی نے دونوں بازو ہلاکر جواب دیا اور گفتگو کا آغاز کیا؛ ’’سر جان رچررڈ کے فارم ہاؤس کا خوف شہریوں کے لیے بڑا خوف ہے۔فارم ہاؤس طاقت کی علامت تھا جس کی اونچی فصیلوں کے اندر انگریز سامراج کے مفادات کی فصل پکتی تھی اور خوشامد پسند طبقے کے لیے عیش وعشرت کی زندگی کا ساماں موجود ہوتاتھا۔انگریز سامراج سے آزادی کیسے ملی اور کس نے قربانیاں دیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر انگریز کے قانون اور اس کے خاص بندے آج بھی بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔ جیساآپ نے ابھی کھیل میں دیکھا کہ انصاف کی اونچی مسند پر بیٹھا قاضی بھی خاموش تماشائی اور فارم ہاؤس کے مفادات کا ضامن ہے۔مانا کہ سر جان رجرڈ مرگیا مگر کیا سوروں کا فارم ہاؤس سے باہر نکلنا اتفاق ہے یا ایک سوچی سمجھی سازش؟۔۔۔ کیا سوروں کا سیدھا ندی کی طرف جانا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ یہ سدھائے ہوئے سور ہیں ۔میرے عزیز شہریو! سوروں کا ندی سے پانی پینے آنا اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے اشارہ ہے کہ اگر ہمارے مفادات کے خلاف بولا گیا تو پانی بھی بند ہوسکتا ہے۔کیا وہ اتنے طاقت ور ہیں کہ پہلے غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارے منھ سے نوالے چھین لیے گئے اور اب پانی کی بندش؟ آخر ہم کب تک غلامی در غلامی میں زندہ رہیں گے؟‘‘

نوجوانوں نے نعرہ لگایا۔’’جب تک جنتا تنگ رہے گی!جنگ۔۔۔‘‘

پھر بڑے بالوں والا آدمی تجاویز پیش کرنے لگاتھا۔

۰۰۰O۰۰۰

اگلے دن شہر کے وسطی چوک میں ایک اور جلسہ منعقد کیا گیا جس کے لیے پورے شہر کے کاروباری مراکز،تعلیمی ادارے بند کروادیے گئے تھے۔ لوگوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں گھروں سے نکل پڑی تھیں ۔انسانوں کا جم غفیر،بے ترتیب قطاروں میں جلسہ گاہ میں تھا۔اسٹیج پر ایک اونچی کرسی رکھی تھی جس پر شہر کا ناظم اعلیٰ براجمان تھا۔ہجوم میں سے کسی نے اشارہ کرکے چلاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے وہ دیکھ، ہمارے ناظم اعلیٰ!‘‘ زیادہ تر لوگوں نے اپنے شہر کے ناظم اعلیٰ کوپہلی بار دیکھاتھامگر مشہور تھا کہ ناظم اعلیٰ کا باپ بھی سرجان رچرڈ کا وفادار تھا۔سب کی نظریں اسٹیج پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔ ایک آدمی نے ڈائس پر آکر ناظم اعلیٰ کے لیے تعریفی جملے کہے اور باقاعدہ خطاب کی دعوت دی ۔ ناظم اعلیٰ نے خطاب شروع کیا؛’’ندی کے کنارے جلسے میں نوجوانوں کے جذبات ابھارے گئے ۔اُن نوجوانوں کو تو اپنی تاریخ بھی نہیں معلوم،مگر ہمیں سب پتا ہے۔۔۔ہم شہریوں کی زندگیوں کے محافظ ہیں اور اُ ن کے لیے سہولیات پیداکرتے ہیں ۔یہ سچ کون نہیں جانتا!‘‘پھر ناظم اعلیٰ سوروں کے متعلق بتانے لگاکہ سور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تو سوروں کو تنگ کرنے کا کیا جواز ہے۔ مذہب بھی سور کا گوشت کھانے سے منع کرتا ہے ،مارنے کا حکم نہیں دیتا۔سور ندی سے پانی پینے آتے ہیں اور چلتا پانی پاک ہوتاہے۔ سب جانتے ہیں کہ سرجان رچرڈ صاحب اور ان کی زوجہ محترمہ کے انتقال کے بعد سوروں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی موجود نہیں ۔فارم ہاؤس میں پانی کا خاص بندوبست نہیں اسی وجہ سے سور پیاس بجھانے ندی پر جاتے ہیں ۔ہم سوروں کے لیے پانی کا جلد بندوبست کرلیں گے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا! ناظم اعلیٰ کا خطاب جاری تھا کہ دور سے سور آتے دکھائی دیے جوندی کی طرف جارہے تھے مگر وسطی چوک راستے میں پڑتاتھا۔خطاب سنتے لوگوں کی گردنیں گھوم گئیں اور وہ بدحواس ہوکر بھول گئے کہ اسٹیج کس طرف تھا۔ناظم اعلیٰ نے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔ناک کی سیدھ میں چلتے سور مجمعے کے قریب پہنچے تو راستہ بندتھا ۔ سور رک گئے ۔قریب تھا کہ سانس روکے بت کی مانند کھڑے لوگوں میں کھلبلی مچتی،ناظم اعلیٰ کی آواز سنائی دی۔’’میں کہتا تھا ناں !سور کچھ نہیں کہتے۔۔۔سوروں نے کبھی کچھ نہیں کہا۔۔۔ افواہیں اڑائی جاتی ہیں تاکہ شہر کا امن تباہ ہو۔‘‘

اسی لمحے کسی نے نعرہ لگایا۔’’ناظم اعلیٰ!‘‘

پورے مجمے نے جواب دیا۔’’زندہ باد!‘‘

نعرے کی گونج سے سور خوف زدہ ہوئے اور ناک کی سیدھ میں سامنے کی طرف بھاگے ۔ مجمعے میں بھگڈر مچی تو کچھ لوگ گر گئے اور سوروں کے پیروں تلے کچلے گئے ۔کچھ ہی دیر میں کئی لوگ مردہ پڑے تھے اور کچھ بے ہوش۔۔۔کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ آناًفاناً کیا ہوگیاتھا۔

۰۰۰O۰۰۰

رات کے دوسرے پہر چائے کے ڈھابے پرتین نوجوان ایک میز کے گرد سوروں کے موضوع پر بحث کررہے تھے۔پہلا نوجوان وہی تھا جس نے اسٹیج ناٹک کے آخر میں آکر سو ر کو گولیاں ماری تھیں ۔اُس نوجوان نے میز پر زور سے مکامارا۔اور بولا۔’’آزادی انسانی جدوجہد کا گیت ہے جسے ہم تین نسلوں سے گا رہے ہیں ۔ افسوس! انگریز سے آزادی تو حاصل کرلی مگر ذہنوں سے غلامی کا تصور نہ نکال سکے!‘‘

’’اور ہم آخری نسل ہیں جو ذہنی غلامی سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوئی تو پھر غلام ابن غلام پیدا ہوں گے۔‘‘دوسرے نوجوان نے بھی جوش سے جواب دیا۔

پہلے نوجوان نے ہاتھ کی مٹھیاں بھینچیں جیسے غصے پر ضبط کررہا ہو اور بولا۔’’انگریز چلاگیا مگر اس کا قانون اور خوف موجود ہے۔یہ ایک نادر موقع ہے کہ سوروں کو مار بھگاؤ جس سے جان رچررڈ کے وفاداروں کو پیغام جائے گا کہ مزاحمت ہورہی ہے ۔۔۔مگر سب بزدل ہیں ،خالی کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں ۔‘‘

’’تو اور کر ہی کیا سکتے ہیں !‘‘ تیسرے نوجوان نے جواب دیا۔

پہلے نوجوان نے گہرا سانس لیا جیسے اپنے الفاظ کے کھوکھلے پن کا احساس ہورہاہو ۔یکدم اُس کا چہرہ زرد پڑگیا جیسے آگے بڑھ کر لڑنے ،خون بہانے یا چپ چاپ مرنے کی کشمکش میں ہو۔ دوسرے نوجوان نے ماحول کشیدہ دیکھ کر کہا۔’’غلامی کی زنجیریں پہنے کون زندہ رہنا چاہتا ہے۔اب آوازیں اٹھ رہی ہیں جو تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔‘‘

’’خاک آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔۔۔ ہمارے جلسے میں گنتی کے لوگ اور ناظم اعلیٰ کے جلسے میں پورا شہر امنڈ آیاتھا۔‘‘پہلے نوجوان کا غصہ بڑھتا ہی جارہاتھا ۔ تیسرے نوجوان کے چہرے پر ایکدم مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔’’ شہر تو ناظم اعلیٰ کی خوشنودی کے لیے امڈ آیاتھا اور ناظم اعلیٰ سمجھ رہاتھا کہ سور بھی جان رچرڈ کی طرح چالاک اور موقع کی مناسبت جانتے ہوں گے مگر جانور تو بے عقل ہوتے ہیں ۔ نتیجہ کیا نکلا،اکیس لوگ مارے گئے اور دوگنا زخمی ہیں !‘‘

پھرتینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور خاموشی چھاگئی۔ذرادیر بعد پہلے نوجوان نے سگریٹ نکال کر سلگایا تو دونوں کی نظریں اس پر جم گئیں ۔وہ لمبے کش لگاتا اشتعال انگیزاور متحرک نظروں سے دیکھ رہاتھا۔اُن کے اندر ایک عجیب سی کیفیت جنم لے رہی تھی۔آخر پہلا نوجوان بولا۔’’میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔‘‘

’’آئیڈیا؟‘‘ دونوں نے بہ یک آواز پوچھا۔

پہلے نوجوان نے اپنی کرسی کھسکاکر دونوں کے مزیدقریب کرلی اور سرگوشی میں بولنے لگا۔ اس کے ہاتھوں کے معنی خیز اشارے۔۔۔زبان میں آہنگ۔۔۔ آنکھوں میں حدت انگیز سنجیدگی اور غصہ ۔۔۔اس کی باتیں خاصی دیر تک جاری رہیں ۔ وہ چپ ہوا تودونوں نوجوانوں نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا جیسے کوئی حلف اٹھایا جارہاہو اور اٹھ کرچل دیے۔

۰۰۰O۰۰۰

شہر میں ریلی نکالی گئی توشرکاء کے جذبات کی شدت تھی یا غصہ کہ نعروں کی آواز سے پوری فضا گونج رہی تھی۔وہ آدمی جس کے بڑے بال اور بازو پر سرخ پٹی بندھی ہوئی تھی ،لاؤڈ اسپیکر پر لوگوں کو متوجہ کررہا تھا مگر اُس کی بات کوئی نہیں سن رہاتھا۔شرکاء کے ہاتھوں میں پوسٹر تھے جن پر لاپتہ ہوجانے والے نوجوانوں کا چہرہ بنا ہوا تھا اور نعرے درج تھے۔بڑے بالوں والے آدمی کی گرج دار آواز گونج رہی تھی۔’’جو آدمی دماغ رکھتاہے ، معاشرے کے لیے سوچتا ہے،اس کے خلاف طاقت کے تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔جو آنکھیں بند کرکے حالات سے پردہ پوشی کرتا ہے،اسے بھی کیا ملتا ہے،ذلت،دہشت،بھوک اور گنتی کے سانس!‘‘اسی شوروغوطا میں ریلی کے شرکاء واسطی چوک تک پہنچ گئے تو دوطرفہ سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے راستہ بند کردیاگیا ۔کچھ جذباتی نوجوان کسی کباڑیے کی دوکان سے پرانے ٹائر اٹھالائے جنھیں سڑک کے درمیان میں رکھ کر آگ لگائی گئی تو پوری فضا نعروں سے گونج اٹھی۔کچھ ہی دیر میں راستہ بند ہوگیا۔پیدل چلتے لوگوں کے لیے بھی پریشانی تھی کہ ریلی کے شرکاء کسی کو راستہ نہیں دے رہے تھے۔ اتنے میں بڑے بالوں والے آدمی نے لاؤڈ اسپیکر پر دوبارہ بولنا شروع کیا۔’’مردہ شہر کے باسیوں سنو!۔۔۔لاپتا ہو جانے والے ذہین نوجوان تھے۔۔۔جن موضوعات پر بات کرنے کا اجازت نامہ نہیں ملتا وہ اُن پر بھی بولتے تھے ۔۔۔مگر وہ آخری نوجوان نہیں تھے۔یہ سلسلہ چلتارہا ہے اور چلتا رہے گا۔۔۔مگر فیصلے کا وقت آ چکا ہے ہر کوئی اپنے انجام کے بارے میں سوچے!‘‘پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ ریلی کے شرکاء جو بڑے بالوں والے آدمی کو مرشد کا درجہ دیتے تھے ،اس کی بات سننے کے بجائے نعرے لگارہے تھے۔چیخ چیخ کر اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے اور غصے سے اتنے بھرے ہوئے تھے کہ راستہ مانگنے والوں کو گالیاں اور دھکے دے رہے تھے۔شہر کے باشندے بھی راستہ بند ہوجانے پر غصے سے بھنبھنا رہے تھے کہ روز کی ہڑتال اور جلسے جلوس۔۔۔اِس طرح تو نظام زندگی مفلوج ہوکررہ جائے گا۔ اور طرح طرح کی چہ میگوئیاں کررہے تھے۔

کسی نے کہا۔’’یہ سچ ہے۔‘‘

کسی نے کہا۔’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘

ایک بوڑھے نے آواز لگائی ۔’’ملک آزاد ہوگیا ۔اسلامی حکومت قائم ہوگئی مگر اِن سرخوں کی بکواس بازی بند نہ ہوئی ۔۔۔ سالے دہریے پتہ نہیں کون سے انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ۔‘‘

کاندھے میں کالج بیگ لٹکائے ایک طالب علم نے دوسرے سے کہا۔’’چلو یار!اگر ہمارے سامنے کوئی پنگا ہوگیا تو خواہ مخواہ کے الزام میں کالج سے نام کٹ جائے گا۔‘‘

ایک عورت نے اپنے ساتھ کھڑی عورت سے کہا۔’’گلیوں کے اندر سے نکل کر چلتی ہیں بہن، یہ ڈرامہ تو بند نہیں ہوگا۔‘‘

اس طرح کرتے کرتے عام شہری کھسکنے لگے مگر ریلی کے شرکاء کے جذبات بڑھ رہےتھے۔ شرکاء کا مطالبہ تھا گمشدہ نوجوانوں کی بازیابی تک دھرنا جاری رہے گامگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیاگیا۔

۰۰۰O۰۰۰

تینوں نوجوانوں کی روپوشی کا تیسرا دن تھا ۔وہ ندی کے قریب جنگل میں چھپ کر سوروں کو مارنے کی پوری پلاننگ کرچکے تھے۔اُن کے پاس ایک برچھاتھا جوایک نوجوان اپنے گھر سے چھپا کر لایاتھا۔برچھے کی طرح کاایک اور ہتھیارانھوں نے خود بنایاتھا۔ایک لمبے بانس کے آگے لوہے کی تیزنوک دار چیز لگائی تھی۔کھانے پینے کی انھیں زیادہ پروانہیں تھی۔طے یہ پایاتھا کہ تاریکی چھانے کے بعد اُن میں سے ایک نوجوان خفیہ طریقے سے شہر جائے گااور کھانے پینے کی چیزیں لے آئے گا۔البتہ سگریٹ کی کئی ڈبیاں موجود تھیں ۔

شام کے وقت سوروں نے ندی کا رخ کیاتوایک نوجوان جس کے گال جاگتے رہنے سے سرخ ہورہے تھے۔چلاکر بولا،’’اٹھو، اور پہلی باری میں کم از کم تین سور ہلاک کرنا ہوں گے!‘‘ تینوں نوجوان جنونی انداز میں بھاگتے ہوئے ندی کے کنارے پہنچے اور ایک سور کی گاف میں نوک دار چیز چبھوئی توسور تکلیف کے مارے بدن ہلاکر بھاگا۔ایک نوجوان سور کو چکمادینے کے لیے کبھی سور کے آگے بھاگتا اور کوئی دس بیس قدم کے بعد مڑجاتاتھا۔سور ناک کی سیدھ میں بھاگ سکتاتھا اور بھاری ڈیل ڈول کی وجہ سے یکدم موڑ نہیں کاٹ سکتا۔اِس عمل سے ہانپ گیااور نوجوان اپنی پلاننگ کے تحت سور کو جنگل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں نوجوان پہلی باری میں صرف ایک سور ہلاک کرسکے مگر خوشی سے اُن کے پیرزمین پر نہیں لگ رہے تھے۔

ایک ہفتہ گزرگیامگر نوجوان اپنے مشن میں کامیاب ہوچکے تھے۔جنگل میں سوروں کے مردہ اجسام پڑے تھے جوگل سڑکر سرانڈ پھیلارہے تھے اور جب ہوا چلتی تو انھیں اپنے منھ رومال سے ڈھانپنا پڑتے تھے۔ صرف چار سور زندہ بچے تھے۔چنانچہ جب چاروں سور ندی پر آئے تو نوجوانوں نے تین سور ندی کے کنارے ہی ماردیے اور چوتھے یعنی سور کوبھگابھگاکر اتناتھکادیا کہ بس ایک جگہ پر گرگیااور اس میں ہلنے جلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔تینوں نے فتح کی خوشی میں ایک دوسرے کو گلے لگالیا اور سور کو رسیوں میں جکڑکر چلاتے ہوئے شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔

شام کاوقت تھا۔وہ خراماں خراماں چلتے شہر میں داخل ہوئے اور تینوں کے درمیان بہ مشکل چلتاسور۔۔۔آناًفاناًیہ خبر پھیل گئی کہ گمشدہ نوجوان ایک سور کو رسیوں میں جکڑکر شہر میں لائے ہیں ۔نوجوانوں کے حلقہ احباب کے لوگ خوشی سے بے قابو ہوکر بھاگم بھاگ آگئے تو ایک چھوٹا سا جلوس بن گیا جوشہر کے وسطی چوک کی طرف جارہاتھا ۔ہرکوئی نوجوانوں سے گزرے دنوں کی روداد سننے کو بے چین تھا۔انھوں خوش گپیوں میں نصف راستہ طے کیاتھا کہ بڑے بالوں والاآدمی بھی آ گیا اور قہقہہ لگاکر نوجوانوں سے مخاطب ہوا۔

’’بڑے تیز نکلے!بغیر بتائے ساری کاروائی ڈال دی۔‘‘

’’آخر کب تک برداشت کرتے!‘‘ایک نوجوان نے جواب دیا۔بڑے بالوں والے آدمی نے باری باری تینوں نوجوانوں کے کاندھے پر تھپکی دی اور ساتھ چلتے لڑکوں سے غصے میں بولا؛ ’’ اب تو اِن سے رسیاں پکڑلو!‘‘

تین لڑکوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر رسیاں پکڑلیں اور بڑے فخرسے چلنے لگے۔یوں چھوٹا ساجلوس جب تک وسطی چوک میں پہنچاتوایک بڑاجلوس بن گیاتھا۔سب نوجوانوں سے کچھ نہ کچھ پوچھ رہے تھے مگر بڑے بالوں والے آدمی نے تینوں نوجوانوں کو ایک طرف لے جاکر مختصر سی کہانی سنی اور اُن کے کان میں کھسر پھسر کرکے کچھ کہا اور ایک نوجوان کے ہاتھ میں لاؤڈاسپیکر دے دیا۔ نوجوان نے انگلی سے لاؤڈاسپیکرپر ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز پیدا کی تو ہرطرف خاموشی چھا گئی تھی۔ نوجوان نے گزرے دنوں کی روداد مختصر کرکے سنائی اور آخر میں بولا؛’’شہریو،میں درخواست کرتاہوں کہ سور کو عجائب گھر میں رکھاجائے !‘‘کئی لوگوں نے بہ یک وقت تائید میں آوازیں لگائیں اور نوجوانوں کو کاندھوں پر اٹھالیاتھا۔

۰۰۰0۰۰۰

راوی درراوی اس کہانی میں انقلابی جذبہ سنجیدہ فن کے مرتبے تک پہنچا یا نہیں !مگر یہ کہانی اُن لوگوں کے لیے ثقافتی ورثے کی اہمیت رکھتی ہے جو فسطائیت کی ہرقسم سے نفرت کرتے ہیں ۔ کون جانے کہ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی!اس کہانی کاایک موڑ یہ ہے کہ سور کو عجائب گھر میں بند کرکے جنگلے پر ایک تختی لگائی گئی؛’’سر جان رچرڈکا آخری سور!‘‘ مگر سور اپنی طبعی عمر پوری ہونےکے بعد مرگیاتھا۔پھرایک بہت عمدہ پتھرکا سور بناکر رکھا گیا مگر عجائب گھر کے ریکارڈ میں کسی سور کا ذکر نہیں ملتا!البتہ یہ کہانی جدید دور کی سیاسی تاریخ میں ایک حکایت کے طور پرموجود ہے اور بار بار اپنے سچاہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024