سرور غزالی کے افسانچے

سرور غزالی کے افسانچے

Jun 24, 2023

شمارہ ۔۱۸

شاہین یا شائو

سرور غزالی

طب کے میدان میں اعلی کارکردگی کے لیے نوبل انعام کی فہرست مرتب ہونے کے دوران ایک نام اچانک سے شامل ہوگیا۔ اور پھر تو ہر طرف سے پذیرائی ہونے لگی۔۔۔۔ہوتے ہوتے جب فہرست مکمل ہوئی تو یہ نام سر فہرست تھا۔ فہرست میں موجود تمام ناموں سے منفرد مگر کرونائی وبا کے تناظر سے اہم، دنیا کی بڑی آبادی کی جان بچانے میں صف اول نام ۔۔۔

اعلان سے چند گھنٹے قبل سیکریٹری نے اپنے کام کے مروجہ اصول پر عمل کرتے ہوئے فہرست کے پہلے تین نام ٹائپ کرکے پروفیسر کے کمرے میں پہنچ گئی۔ وہ تینوں نام پڑھ کر پروفیسر کو سنا بھی دینا چاہتی تھی۔ تاکہ اول غیر لاطینی زبان کے نام کا تلفظ بھی پروفیسر کو سمجھا سکے۔

مگر پروفیسر فون پر مصروف تھا۔ وہ فہرست رکھ کر چلی آئی۔

نوبل کمیٹی کے سامنے پروفیسر نے صدارت کرتے ہوئے لفافہ کھولا اور پہلے ہی نام کو پڑھنے کی کوشش میں اٹک گیا۔۔۔جھنجھلا کر بولا مس ریٹا اب بھی ٹائپنگ میں غلطیاں کرتی ہے میرے خیال سے وہ مسٹر شائو کو شاہین لکھ گئی ہے۔۔۔خیر دوسرے نمبر اور تیسرے نمبر کے نام آسان تھے۔۔۔سب ان دونوں ناموں پر متفق ہوگئے۔۔

ہل اسٹیشن پر مچا کہرام

سرور غزالی

وہ اس رات ہوٹل کی تلاش میں کئی ایک ہوٹل کے استقبالیہ پر گیا۔ اور ہر دفعہ اسے مایوسی ہوئی۔ اس سرد رات میں برفباری دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی اور درجہ حرارت کا پارہ اپنی شرارت میں نقط ء انجماد سے نیچے اتر گیا تھا۔ تیز ہوائیں ماحول کو اور زیادہ خوابناک سے خوفناک تر بنارہی تھیں۔

اس سیزن میں ہل اسٹیشن پر سیاحوں کی آمد یکدم بڑھ گئی تھی۔ برفباری کی اطلاع ملتے ہی دور دراز کے سیاح میدانی اور ریگستانی علاقے سے آکر اس دامن کوہ میں کچھ وقت  کے لیے سیر و تفریح کرتے تھے۔

سیاحوں کی یکدم آمد سے ہوٹل مالکان کے دل میں لالچ اور طمع کے بیج سے حرص کی کونپلیں پھوٹ پڑیں تھیں اور وہ منہ مانگے دام وصول کرنے لگے۔

ان کا  خیال تھا کہ دور دراز سے آئے سیاح ضرور ہوٹل کے کمرے بک کروائیں گے اور ان کی من مانی سے مالکان خوب کمائیں گے۔ سال بھر کے بعد یہی تو موقع تھا کمانے کے بہانے لوٹنے کا۔

بیشتر سیاحوں کو واپس بھیج کر ہوٹل مالکان مزید اچھے سے اچھے گاہک کے منتظر ہی رہ گئے۔

بیشتر سیاح کسی موسم گرما میں ہجرت کرتے پرندوں کی طرح نامعلوم مقام کی طرف پرواز کر چکے تھے۔ اس سیزن میں ہل اسٹیشن پر کہرام مچا تھا۔

فحاشی

سرور غزالی

ایک گاوں میں ڈاکوں کا بہت زور تھا۔

کوئی بھی ان سے محفوظ نہ تھا۔ ڈاکو نہ صرف انسانوں کو لوٹ لیتے بلکہ لوٹ کر قتل بھی کر دیتے۔

ایک آدمی نے اس کا یہ حل نکالا کہ وہ رات کو ننگا ہوکر سونے لگا۔۔۔

ایک دن پولیس آئی اور اسے فحاشی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر کے لے گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمارہ ۔۱۸

شاہین یا شائو

سرور غزالی

طب کے میدان میں اعلی کارکردگی کے لیے نوبل انعام کی فہرست مرتب ہونے کے دوران ایک نام اچانک سے شامل ہوگیا۔ اور پھر تو ہر طرف سے پذیرائی ہونے لگی۔۔۔۔ہوتے ہوتے جب فہرست مکمل ہوئی تو یہ نام سر فہرست تھا۔ فہرست میں موجود تمام ناموں سے منفرد مگر کرونائی وبا کے تناظر سے اہم، دنیا کی بڑی آبادی کی جان بچانے میں صف اول نام ۔۔۔

اعلان سے چند گھنٹے قبل سیکریٹری نے اپنے کام کے مروجہ اصول پر عمل کرتے ہوئے فہرست کے پہلے تین نام ٹائپ کرکے پروفیسر کے کمرے میں پہنچ گئی۔ وہ تینوں نام پڑھ کر پروفیسر کو سنا بھی دینا چاہتی تھی۔ تاکہ اول غیر لاطینی زبان کے نام کا تلفظ بھی پروفیسر کو سمجھا سکے۔

مگر پروفیسر فون پر مصروف تھا۔ وہ فہرست رکھ کر چلی آئی۔

نوبل کمیٹی کے سامنے پروفیسر نے صدارت کرتے ہوئے لفافہ کھولا اور پہلے ہی نام کو پڑھنے کی کوشش میں اٹک گیا۔۔۔جھنجھلا کر بولا مس ریٹا اب بھی ٹائپنگ میں غلطیاں کرتی ہے میرے خیال سے وہ مسٹر شائو کو شاہین لکھ گئی ہے۔۔۔خیر دوسرے نمبر اور تیسرے نمبر کے نام آسان تھے۔۔۔سب ان دونوں ناموں پر متفق ہوگئے۔۔

ہل اسٹیشن پر مچا کہرام

سرور غزالی

وہ اس رات ہوٹل کی تلاش میں کئی ایک ہوٹل کے استقبالیہ پر گیا۔ اور ہر دفعہ اسے مایوسی ہوئی۔ اس سرد رات میں برفباری دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی اور درجہ حرارت کا پارہ اپنی شرارت میں نقط ء انجماد سے نیچے اتر گیا تھا۔ تیز ہوائیں ماحول کو اور زیادہ خوابناک سے خوفناک تر بنارہی تھیں۔

اس سیزن میں ہل اسٹیشن پر سیاحوں کی آمد یکدم بڑھ گئی تھی۔ برفباری کی اطلاع ملتے ہی دور دراز کے سیاح میدانی اور ریگستانی علاقے سے آکر اس دامن کوہ میں کچھ وقت  کے لیے سیر و تفریح کرتے تھے۔

سیاحوں کی یکدم آمد سے ہوٹل مالکان کے دل میں لالچ اور طمع کے بیج سے حرص کی کونپلیں پھوٹ پڑیں تھیں اور وہ منہ مانگے دام وصول کرنے لگے۔

ان کا  خیال تھا کہ دور دراز سے آئے سیاح ضرور ہوٹل کے کمرے بک کروائیں گے اور ان کی من مانی سے مالکان خوب کمائیں گے۔ سال بھر کے بعد یہی تو موقع تھا کمانے کے بہانے لوٹنے کا۔

بیشتر سیاحوں کو واپس بھیج کر ہوٹل مالکان مزید اچھے سے اچھے گاہک کے منتظر ہی رہ گئے۔

بیشتر سیاح کسی موسم گرما میں ہجرت کرتے پرندوں کی طرح نامعلوم مقام کی طرف پرواز کر چکے تھے۔ اس سیزن میں ہل اسٹیشن پر کہرام مچا تھا۔

فحاشی

سرور غزالی

ایک گاوں میں ڈاکوں کا بہت زور تھا۔

کوئی بھی ان سے محفوظ نہ تھا۔ ڈاکو نہ صرف انسانوں کو لوٹ لیتے بلکہ لوٹ کر قتل بھی کر دیتے۔

ایک آدمی نے اس کا یہ حل نکالا کہ وہ رات کو ننگا ہوکر سونے لگا۔۔۔

ایک دن پولیس آئی اور اسے فحاشی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر کے لے گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024