سرسید شناسی میں ایک اہم اضافہ:”سرسید اور اردو زبان و ادب“
سرسید شناسی میں ایک اہم اضافہ:”سرسید اور اردو زبان و ادب“
Jan 14, 2019
دیدبان شمارہ ۔ 9
فیروز عالم
سرسید شناسی میں ایک اہم اضافہ: ”سرسید اور اردو زبان و ادب“
پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی کا شمار جدید دور کے سنجیدہ اور اہم نقادوںمیں ہوتا ہے۔ گذشتہ تیس پینتیس برسوں میں ان کی سترہ اٹھارہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ موصوف نے کئی اہم داستانوں اور مثنویوں مثلاً ”سب رس“، ”باغ و بہار“،” سحرالبیان“ اور ”گلزار نسیم “کی تدوین کے علاوہ ”اردو داستان: تحقیق و تنقید“ اور ”طلسم ہوش ربا: تنقید و تلخیص “جیسی اہم کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ ان کی کتاب ”سرسید اور اردو زبان و ادب“ پہلی بار 1989میں شائع ہوئی تھی۔ اب ترمیم و اضافے کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا ہے۔پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے سرسید کی تمام تصانیف سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو زبان اور ادب کے میدان میں ان کی گراں قدر خدمات ، ان کے اسلوب ، تصور شعرو ادب، صحافت اور ملی خدمات سے بخوبی واقف کرایا ہے۔
پہلے باب ”سرسید اور اردو زبان و ادب“ میں پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی نے سرسید کی اردو سے محبت اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے ان کی عملی کوششوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ سرسید نے ایک ورنا کلر یعنی دیسی زبان کی یونیورسٹی کاخاکہ بھی پیش کیا تھا۔اس میں اردو بھی بحیثیت ذریعہ تعلیم شامل تھی۔ سرسید جانتے تھے کہ بچے کی مناسب تعلیم جس قدر مادری زبان میں ہو سکتی ہے اتنی کسی اور زبان میں نہیں۔یہ اور بات ہے کہ بعد میں درسی کتابوں کی تیاری کے مسائل اور بعض دیگر وجوہ سے سرسید احمد خاں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور جب ایم اے او کالج کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔انھوں نے اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے کا بھی منصوبہ بنایا تھا نیزوہ اردو کی ایک ایسی لغت بھی تیار کرنا چاہتے تھے جس میں الفاظ کے معنی، ان کی جنس اور دیگر تفصیلات درج ہوں لیکن افسوس کہ یہ دونوں منصوبے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔اس باب میں ”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“ اور ”تہذیب الاخلاق“ کے آغاز ، اغراض و مقاصد اور تاریخ سے بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ مصنف نے ”خطبات احمدیہ“ سے متعلق ایک عام غلط فہمی بھی حوالے کے ساتھ دور کی ہے۔ اس سے متعلق مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کریں:
”شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی کی تحقیق ہے کہ ”جب کتاب اردو میں تیار ہوگئی تو سرسید نے اس کا ایک خلاصہ انگریزی میں ترجمہ کرایا۔ اور اسے ’ایسز آن دی لائف آف محمد‘]صلی اللہ علیہ وسلم[ کے نام سے لندن ہی میں 1870میں شائع کردیا۔“
عام طور پر ایسا ہی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ دراصل سرسید نے وسائل کی کمی کے سبب ، میور کی کتاب کے بعض قابل ِگرفت مقامات پر چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں اظہارِ خیال کا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی ایک رسالہ مکمل ہوا، انھوں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کروایا جو کہ 1869میں Trubner & Co.کے زیرِ اہتمام لندن سے شائع ہوا۔ اسی سال ایک اور کتابچہ مذکورہ کمپنی کی نگرانی میں طبع ہوا۔ اور اشاعت کا یہ سلسلہ 1870تک جاری رہا۔“ ( سرسید اور اردو زبان و ادب۔ صفحہ۔17)
سرسید نے جب تہذیب الاخلاق جاری کیا تو جہاں دیگر اصلاحی اور علمی مضامین شائع کیے وہیں ایک تفصیلی مضمون ”علامات ِ قرأ ت “ کے نام سے رموز اوقاف کی اہمیت، افادیت،نام اور محل ِ استعمال پر بھی لکھا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زبان کے کن کن گوشوں پر ان کی نظر تھی۔
کتاب کے دوسرے باب”سرسید کا اسلوب ِنگارش “میں مصنف نے زمانی اعتبار سے سرسید کی تحریروں میں آنے والی تبدیلیوں سے واقف کرا یا ہے۔ابتدا میں زمانے کے مروجہ اصولوں کے تحت انھوں نے بھی مقفٰی و مسجع عبارتیں لکھیں۔ مثال کے طور پر ان کی پہلی تصنیف ”آثارالصنادید“(1847)کے آخری باب کی نثر پیش کی جاسکتی ہے ۔اگرچہ مولانا حالی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کتاب کا یہ حصہ منشی امام بخش صہبائی نے لکھا تھا ۔1854میں جب” آثار الصنادید“ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری شروع ہوئی تو سرسید نے اکثر مقامات پر زبان میں تبدیلیاں کیں اور کتاب کا چوتھا باب نکال دیا۔اکبرآبادی مسجد کا ذکر ان دونوں ایڈیشنوںمیں الگ انداز میں ملتا ہے۔متن ملاحظہ کیجیے۔:
پہلا ایڈیشن۔ ”اسی بازار میں یہ ایک مسجد ہے، دل کش و دل ربا،فرحت بخش و روح افزا، سر سے پاﺅں تک سنگ ِ سرخ کی، اور گرد اس کے مکانات اور حجرے طالب علموں کے رہنے کے لیے بنے ہوئے ہیں۔ضلع غربی سے ملحق کرسی دے کر یہ مسجد بنائی ہے۔جس کی عظمت و جلال کے آگے ملاء اعلیٰ گرد ہے۔اس مسجد ِ فیض بنیاد کو اعزازالنسا بیگم بیوی شباب الدین محمد شاہ جہاں نے 1060ھ میں مطابق 24جلوس کے بنائی ہے۔ان بیگم کا خطاب اکبرآبادی محل تھا ۔ اس سبب سے یہ مسجد بھی اکبرآبادی مسجد مشہور ہو گئی ہے۔“( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 40)
دوسرا ایڈیشن۔ ”شہر شاہ جہاں آباد کے فیض بازار میں یہ مسجد واقع ہے۔ نواب اعزازالنسا بیگم عرف اکبرآبادی بیگم زوجہ شاہ جہاں بادشاہ نے 1060 ھ مطابق1650ءکے یہ مسجد بنائی۔“( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 41)
اندازہ لگائیے صرف سات برس کے قلیل عرصے میں ان کی سوچ میں کتنی تبدیلی آگئی تھی کہ انھوں نے مبالغہ آمیز الفاظ ، تراکیب اور جملوں کو حذف کرکے آسان اور سادہ انداز میں اپنی بات کہنی شروع کردی تھی۔فریدی صاحب کایہ خیال بالکل درست ہے کہ سرسید زبان و بیان کی لطافتوں کے قدر داں تھے لیکن وہ نثر کو شعر بنانے کے قائل نہ تھے۔سرسید کا اسلوب وضاحت، قطعیت اور استدلال سے عبارت ہے۔مصنف نے سرسید کے اسلوب کی دیگر خصوصیات مثلاًسادگی، تکرارلفظی،متروکات اور انگریزی الفاظ کے استعمال پر بھی تفصیل سے لکھا ہے۔
کتاب کا تیسرا باب ”سرسیدکا تصور شعرو ادب“ ہے۔اس کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سرسید افادی ادب کے قائل تھے اور وہ چاہتے تھے کہ شعرو ادب کے ذریعے سوئی ہوئی قوم کو جگایا جائے اور اس سے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں مدد لی جائے۔افادی مقصد کے تحت ہی انھوں نے اپنی تحریروں میں سادہ اور آسان زبان استعمال کی۔اسی لیے وہ کہتے تھے کہ پر تکلف جملے، دوچار صفحات لکھ دینا”کچھ بڑی بات نہیں ہے، مشکل کام مطلب نگاری ہے۔جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو، جو اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے۔“ ( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 70)
چوتھے اور پانچویں باب میں بالترتیب ”سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی : اغراض و مقاصد،احوال و کوائف“ اور ”سائنٹفک سوسائٹی: اردو زبان کے ارتقا کی ایک کڑی“ کے زیر عنوان پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی نے سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کی غرض و غایت، اس کے تنظیمی ڈھانچے،اس سے وابستہ افراد اور اس کی خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سائنٹفک سوسائٹی صرف مسلمانوں کی تعلیمی فلاح کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن اس کتاب میں مصنف نے سرسید کے ایک مضمون کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ اس کے مخاطب ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔ مذکورہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں اس ادارے کے مقاصد بیان کیے گئے تھے۔
” ایسی بد بخت حالت کے علاج کی راہ نکالنے اور ہمارے ہم وطن ہندوﺅں اور مسلمانوں میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کے لیے ایک سوسائٹی کا مقرر ہونا تجویز ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہوگا—— اول تلاش کرنااور چھاپنا ہمارے قدیم مصنفوں کی بہت عمدہ کتابوں کا، دوسرے انگریزی زبان سے اوراور زبانوں سے ایسی کتابوں کا ترجمہ کرنااور چھاپنا جو سب کے لیے مفید ہوں۔ “( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 80)
اس بات کا علم بھی کم لوگوں کو ہوگا کہ جس وقت سائنٹفک سوسائٹی غازی پور میں قائم ہوئی اس وقت یہ طے کیاگیا گیا تھا اس کا صدر مقام آخرکو الٰہ آباد ہو گا لیکن بعد میں جب سرسید کا تبادلہ علی گڑھ ہوگیا اوران کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کا دفتر بھی علی گڑھ منتقل ہو گیاتو اس کا صدر مقام بھی الٰہ آباد کی بجائے علی گڑھ میںہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔سوسائٹی کی جانب سے ابتدا میں تاریخ، جغرافیہ،طبیعیات، کیمیا، علم طبقات الارض اور دیگر علوم کی اٹھائیس کتابوں کا ترجمہ کرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ بعد میں مزید اٹھارہ کتابیں اس فہرست میں شامل کی گئیں۔افسوس کہ مالی دشواریوں کی وجہ سے صرف پندرہ کتابیں شائع ہو سکیں جن میں سے پروفیسر اصغر عباس کی تحقیق کے مطابق صرف گیارہ کتابیں دستیاب ہیں۔کتاب میں ان تمام کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے ترجمے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
” سرسید: بحیثیت صحافی “اس کتاب کا آخری باب ہے جس میں مصنف نے علی گرھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے سرسید کی صحافتی خدمات،ان کی اصول پسندی، صحافتی قدروں کی پاس داری، دیانت داری اور خلوص پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میںفریدی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ سرسیدآزادی ِ رائے کے حامی تھے ۔ انھوں نے اپنے اخبار کے ذریعے عوامی مسائل سے حکومت کو واقف کرانے، سماجی ا ور معاشرتی مسائل حل کرنے،تعلیم کی افادیت سے واقف کرانے اور جدیدعلوم و فنون کی اہمیت سے روشناس کرانے کی کوشش کی۔ ان کے سامنے ملک اور قوم کی تعلیمی اور سماجی ترقی کا ایک عظیم مشن تھا اور اس کی تکمیل کے لیے انھوں نے صحافت کا بھرپور استعمال کیا۔
زیر نظر کتاب اگرچہ بہت ضخیم نہیں ہے لیکن اس کے مشمولات اور پیش کش کے انداز نے اسے بے حداہم بنا دیا ہے۔ مصنف نے نہایت مدلل اور دوٹوک انداز میں اپنی بات نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی ہے۔ کہیں بھی انھوں نے مبالغے یا غیر ضروری تفصیل سے کام نہیں لیا ہے۔ انھوں نے کتاب میں وہی انداز اور اسلوب اپنا یا ہے جو تحقیق و تنقید کے لیے موزوں ہے۔ اردو ادب کے قارئین اور سرسید کے شائقین کے لیے ”سر سید اور اردو زبان و ادب“ ایک انمول تحفہ ہے۔یہ کتاب ایجوکیشنل بک ہاﺅس ، علی گڑھ، یو پی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
________________________________
دیدبان شمارہ ۔ 9
فیروز عالم
سرسید شناسی میں ایک اہم اضافہ: ”سرسید اور اردو زبان و ادب“
پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی کا شمار جدید دور کے سنجیدہ اور اہم نقادوںمیں ہوتا ہے۔ گذشتہ تیس پینتیس برسوں میں ان کی سترہ اٹھارہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ موصوف نے کئی اہم داستانوں اور مثنویوں مثلاً ”سب رس“، ”باغ و بہار“،” سحرالبیان“ اور ”گلزار نسیم “کی تدوین کے علاوہ ”اردو داستان: تحقیق و تنقید“ اور ”طلسم ہوش ربا: تنقید و تلخیص “جیسی اہم کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ ان کی کتاب ”سرسید اور اردو زبان و ادب“ پہلی بار 1989میں شائع ہوئی تھی۔ اب ترمیم و اضافے کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا ہے۔پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے سرسید کی تمام تصانیف سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو زبان اور ادب کے میدان میں ان کی گراں قدر خدمات ، ان کے اسلوب ، تصور شعرو ادب، صحافت اور ملی خدمات سے بخوبی واقف کرایا ہے۔
پہلے باب ”سرسید اور اردو زبان و ادب“ میں پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی نے سرسید کی اردو سے محبت اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے ان کی عملی کوششوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ سرسید نے ایک ورنا کلر یعنی دیسی زبان کی یونیورسٹی کاخاکہ بھی پیش کیا تھا۔اس میں اردو بھی بحیثیت ذریعہ تعلیم شامل تھی۔ سرسید جانتے تھے کہ بچے کی مناسب تعلیم جس قدر مادری زبان میں ہو سکتی ہے اتنی کسی اور زبان میں نہیں۔یہ اور بات ہے کہ بعد میں درسی کتابوں کی تیاری کے مسائل اور بعض دیگر وجوہ سے سرسید احمد خاں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور جب ایم اے او کالج کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔انھوں نے اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے کا بھی منصوبہ بنایا تھا نیزوہ اردو کی ایک ایسی لغت بھی تیار کرنا چاہتے تھے جس میں الفاظ کے معنی، ان کی جنس اور دیگر تفصیلات درج ہوں لیکن افسوس کہ یہ دونوں منصوبے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔اس باب میں ”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“ اور ”تہذیب الاخلاق“ کے آغاز ، اغراض و مقاصد اور تاریخ سے بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ مصنف نے ”خطبات احمدیہ“ سے متعلق ایک عام غلط فہمی بھی حوالے کے ساتھ دور کی ہے۔ اس سے متعلق مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کریں:
”شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی کی تحقیق ہے کہ ”جب کتاب اردو میں تیار ہوگئی تو سرسید نے اس کا ایک خلاصہ انگریزی میں ترجمہ کرایا۔ اور اسے ’ایسز آن دی لائف آف محمد‘]صلی اللہ علیہ وسلم[ کے نام سے لندن ہی میں 1870میں شائع کردیا۔“
عام طور پر ایسا ہی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ دراصل سرسید نے وسائل کی کمی کے سبب ، میور کی کتاب کے بعض قابل ِگرفت مقامات پر چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں اظہارِ خیال کا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی ایک رسالہ مکمل ہوا، انھوں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کروایا جو کہ 1869میں Trubner & Co.کے زیرِ اہتمام لندن سے شائع ہوا۔ اسی سال ایک اور کتابچہ مذکورہ کمپنی کی نگرانی میں طبع ہوا۔ اور اشاعت کا یہ سلسلہ 1870تک جاری رہا۔“ ( سرسید اور اردو زبان و ادب۔ صفحہ۔17)
سرسید نے جب تہذیب الاخلاق جاری کیا تو جہاں دیگر اصلاحی اور علمی مضامین شائع کیے وہیں ایک تفصیلی مضمون ”علامات ِ قرأ ت “ کے نام سے رموز اوقاف کی اہمیت، افادیت،نام اور محل ِ استعمال پر بھی لکھا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زبان کے کن کن گوشوں پر ان کی نظر تھی۔
کتاب کے دوسرے باب”سرسید کا اسلوب ِنگارش “میں مصنف نے زمانی اعتبار سے سرسید کی تحریروں میں آنے والی تبدیلیوں سے واقف کرا یا ہے۔ابتدا میں زمانے کے مروجہ اصولوں کے تحت انھوں نے بھی مقفٰی و مسجع عبارتیں لکھیں۔ مثال کے طور پر ان کی پہلی تصنیف ”آثارالصنادید“(1847)کے آخری باب کی نثر پیش کی جاسکتی ہے ۔اگرچہ مولانا حالی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کتاب کا یہ حصہ منشی امام بخش صہبائی نے لکھا تھا ۔1854میں جب” آثار الصنادید“ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری شروع ہوئی تو سرسید نے اکثر مقامات پر زبان میں تبدیلیاں کیں اور کتاب کا چوتھا باب نکال دیا۔اکبرآبادی مسجد کا ذکر ان دونوں ایڈیشنوںمیں الگ انداز میں ملتا ہے۔متن ملاحظہ کیجیے۔:
پہلا ایڈیشن۔ ”اسی بازار میں یہ ایک مسجد ہے، دل کش و دل ربا،فرحت بخش و روح افزا، سر سے پاﺅں تک سنگ ِ سرخ کی، اور گرد اس کے مکانات اور حجرے طالب علموں کے رہنے کے لیے بنے ہوئے ہیں۔ضلع غربی سے ملحق کرسی دے کر یہ مسجد بنائی ہے۔جس کی عظمت و جلال کے آگے ملاء اعلیٰ گرد ہے۔اس مسجد ِ فیض بنیاد کو اعزازالنسا بیگم بیوی شباب الدین محمد شاہ جہاں نے 1060ھ میں مطابق 24جلوس کے بنائی ہے۔ان بیگم کا خطاب اکبرآبادی محل تھا ۔ اس سبب سے یہ مسجد بھی اکبرآبادی مسجد مشہور ہو گئی ہے۔“( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 40)
دوسرا ایڈیشن۔ ”شہر شاہ جہاں آباد کے فیض بازار میں یہ مسجد واقع ہے۔ نواب اعزازالنسا بیگم عرف اکبرآبادی بیگم زوجہ شاہ جہاں بادشاہ نے 1060 ھ مطابق1650ءکے یہ مسجد بنائی۔“( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 41)
اندازہ لگائیے صرف سات برس کے قلیل عرصے میں ان کی سوچ میں کتنی تبدیلی آگئی تھی کہ انھوں نے مبالغہ آمیز الفاظ ، تراکیب اور جملوں کو حذف کرکے آسان اور سادہ انداز میں اپنی بات کہنی شروع کردی تھی۔فریدی صاحب کایہ خیال بالکل درست ہے کہ سرسید زبان و بیان کی لطافتوں کے قدر داں تھے لیکن وہ نثر کو شعر بنانے کے قائل نہ تھے۔سرسید کا اسلوب وضاحت، قطعیت اور استدلال سے عبارت ہے۔مصنف نے سرسید کے اسلوب کی دیگر خصوصیات مثلاًسادگی، تکرارلفظی،متروکات اور انگریزی الفاظ کے استعمال پر بھی تفصیل سے لکھا ہے۔
کتاب کا تیسرا باب ”سرسیدکا تصور شعرو ادب“ ہے۔اس کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سرسید افادی ادب کے قائل تھے اور وہ چاہتے تھے کہ شعرو ادب کے ذریعے سوئی ہوئی قوم کو جگایا جائے اور اس سے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں مدد لی جائے۔افادی مقصد کے تحت ہی انھوں نے اپنی تحریروں میں سادہ اور آسان زبان استعمال کی۔اسی لیے وہ کہتے تھے کہ پر تکلف جملے، دوچار صفحات لکھ دینا”کچھ بڑی بات نہیں ہے، مشکل کام مطلب نگاری ہے۔جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو، جو اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے۔“ ( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 70)
چوتھے اور پانچویں باب میں بالترتیب ”سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی : اغراض و مقاصد،احوال و کوائف“ اور ”سائنٹفک سوسائٹی: اردو زبان کے ارتقا کی ایک کڑی“ کے زیر عنوان پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی نے سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کی غرض و غایت، اس کے تنظیمی ڈھانچے،اس سے وابستہ افراد اور اس کی خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سائنٹفک سوسائٹی صرف مسلمانوں کی تعلیمی فلاح کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن اس کتاب میں مصنف نے سرسید کے ایک مضمون کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ اس کے مخاطب ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔ مذکورہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں اس ادارے کے مقاصد بیان کیے گئے تھے۔
” ایسی بد بخت حالت کے علاج کی راہ نکالنے اور ہمارے ہم وطن ہندوﺅں اور مسلمانوں میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کے لیے ایک سوسائٹی کا مقرر ہونا تجویز ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہوگا—— اول تلاش کرنااور چھاپنا ہمارے قدیم مصنفوں کی بہت عمدہ کتابوں کا، دوسرے انگریزی زبان سے اوراور زبانوں سے ایسی کتابوں کا ترجمہ کرنااور چھاپنا جو سب کے لیے مفید ہوں۔ “( بحوالہ سرسید اور اردو زبان و ادب ، صفحہ: 80)
اس بات کا علم بھی کم لوگوں کو ہوگا کہ جس وقت سائنٹفک سوسائٹی غازی پور میں قائم ہوئی اس وقت یہ طے کیاگیا گیا تھا اس کا صدر مقام آخرکو الٰہ آباد ہو گا لیکن بعد میں جب سرسید کا تبادلہ علی گڑھ ہوگیا اوران کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کا دفتر بھی علی گڑھ منتقل ہو گیاتو اس کا صدر مقام بھی الٰہ آباد کی بجائے علی گڑھ میںہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔سوسائٹی کی جانب سے ابتدا میں تاریخ، جغرافیہ،طبیعیات، کیمیا، علم طبقات الارض اور دیگر علوم کی اٹھائیس کتابوں کا ترجمہ کرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ بعد میں مزید اٹھارہ کتابیں اس فہرست میں شامل کی گئیں۔افسوس کہ مالی دشواریوں کی وجہ سے صرف پندرہ کتابیں شائع ہو سکیں جن میں سے پروفیسر اصغر عباس کی تحقیق کے مطابق صرف گیارہ کتابیں دستیاب ہیں۔کتاب میں ان تمام کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے ترجمے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
” سرسید: بحیثیت صحافی “اس کتاب کا آخری باب ہے جس میں مصنف نے علی گرھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے سرسید کی صحافتی خدمات،ان کی اصول پسندی، صحافتی قدروں کی پاس داری، دیانت داری اور خلوص پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میںفریدی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ سرسیدآزادی ِ رائے کے حامی تھے ۔ انھوں نے اپنے اخبار کے ذریعے عوامی مسائل سے حکومت کو واقف کرانے، سماجی ا ور معاشرتی مسائل حل کرنے،تعلیم کی افادیت سے واقف کرانے اور جدیدعلوم و فنون کی اہمیت سے روشناس کرانے کی کوشش کی۔ ان کے سامنے ملک اور قوم کی تعلیمی اور سماجی ترقی کا ایک عظیم مشن تھا اور اس کی تکمیل کے لیے انھوں نے صحافت کا بھرپور استعمال کیا۔
زیر نظر کتاب اگرچہ بہت ضخیم نہیں ہے لیکن اس کے مشمولات اور پیش کش کے انداز نے اسے بے حداہم بنا دیا ہے۔ مصنف نے نہایت مدلل اور دوٹوک انداز میں اپنی بات نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی ہے۔ کہیں بھی انھوں نے مبالغے یا غیر ضروری تفصیل سے کام نہیں لیا ہے۔ انھوں نے کتاب میں وہی انداز اور اسلوب اپنا یا ہے جو تحقیق و تنقید کے لیے موزوں ہے۔ اردو ادب کے قارئین اور سرسید کے شائقین کے لیے ”سر سید اور اردو زبان و ادب“ ایک انمول تحفہ ہے۔یہ کتاب ایجوکیشنل بک ہاﺅس ، علی گڑھ، یو پی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
________________________________