سرنگوں کے شہر میں

سرنگوں کے شہر میں

Mar 12, 2018

مصنف

ابو فہد

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان شمارہ ۔۷

فلسطین کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ

سر نگوں کے شہر میں

ابو فہد

چڑھتی ہوئی سردیوں کا دن تھا اور ڈھلتی ہوئی دوپہر کا وقت، حیزہ میں جشن کا سا سماں تھا۔ ایک نسبتا چھوٹے سے اسٹیج پر بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا ہجوم تھا، آس پاس کی خستہ حال عمارتوں کی بالکنیوں پر بالی عمر کی لڑکیاں ، ڈھلتی ہوئی عمر کی عورتیں اور بڑی بوڑھیاں، کھڑکیوں کے پٹ،ستون اور پردوں کی اوٹ لئے کھڑی تھیں۔ان سب کے دلوں میں ایک نوجوان کے لئے احترام اور عقیدتوں کا دریا موجزن تھا۔نوجوان کے گلے میں خوشبودار پھولوں کے ہار جھول رہے تھے۔

ہجوم سے ذرا پرے دو نیلی آنکھیں اسے مستقل گھور ے جارہی تھیں،ان کی نیلی رنگت بدیسی ہونے کی چغلی کھاتی تھی ،مگر کتابی چہرے کے ارد گرد سلیقہ سے پہنا گیا اسکارف بتارہا تھا کہ یہ کوئی اس کی اپنی بستی کے آسمان کا چاند ہے۔رومانوی جذبات کی ایک گرم لہر اس کے وجود میں اس طرح اتر گئی جس طرح پانی میں کرنٹ اترجاتا ہے۔۔۔ مگر اس نے نیلی آنکھوں کے بے کنارسمندر کے نیلے پانیوں میں فوری طور پراترنے سے پرہیز کیا۔سرنگوں کے اس شہر میں اجنبیوں پراتنی جلدی بھروسہ کرلیناحماقت بھرا کام تھا۔

نوجوان آج بہت خوش تھا۔ گزشتہ چھ ماہ کی مسلسل محنت سے بیس کلو میٹر طویل خفیہ سرنگ کھودنے میں کامیاب ہوگیاتھا اور یہ جشن اس کی اسی محنت کے صلے کے طور پرمنعقد کیا گیا تھا۔سرنگیں تو اور بھی بہت ساری کھودی گئی تھیں مگر یہ ان سب میں اس حیثیت سے منفرد تھی کہ اس کا پتہ لگاپانامشکل تھا۔یہاں تک کہ فوجی کتوں کے لیے بھی۔یہ سرنگ زیتون کے ایک باغ سے شروع ہوتی تھی اور قریب کی کئی بستیوں کو آپس میں جوڑتی ہوئی سرحدکے اس پار تک جاتی تھی ، جہاں سے حیزہ کے لوگوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جاتی تھیں۔

’’یہ تمہارے لئے ہے۔۔‘‘ اسٹیج سے اتر کر وہ سیدھا گھر پہونچا او ر اپنے لئے دروزاہ کھولنے والی جواں سال لڑکی کی طرف ایک پیکٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔اس وقت اس نے بادامی رنگ کا عبایا پہن رکھا تھا ۔ اس کا سر بختی اونٹ کے کوہان نما دکھائی دے رہا تھا۔جب وہ باتھ روم سے نکلتی تھی تو اپنے لمبے سیاہ بالوں کا جوڑا بناکر انہیں اسکارف سے چھپا لیتی تھی ۔وہ بھی جشن میں شریک ہونا چاہتی تھی مگر والد کی معذوری کے باعث وہ جشن میں شریک نہ ہوسکی۔

اس نے بے صبرے ہاتھوں سے پیکٹ کھولا ۔۔۔ اورایک سفید عروسی جوڑا دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔وہ کچھ دیر اس میں کھوئی رہی اور پھرایک دم مستی کے موڈ میں آکر بولی:’’میرے لئے۔۔ یا پھر ۔۔۔۔‘‘ اس نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔

’’اب تم اتنی بڑی جو ہوگئی ہو۔‘‘اس نے مستی کا جواب مستی کے انداز میںہی دیا۔

’’ویسے میں بتاؤں۔۔‘‘

’’ہاں بتاؤ۔۔‘‘

’’یہ تو بس بھابھی جان پر ہی اچھا لگے گا۔۔۔ امی کہتی تھیں ، فاطمہ ؛میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہاری بھابھی کی آنکھیں نیلی ہیں، سمندر کے گہرے پانیوں کی طرح۔۔تم دیکھوگی تو ان میں ڈوبنے کوجی چاہے گا تمہارا۔۔‘‘

’’اچھا۔۔۔اور کیا کہتی تھیں امی۔۔؟؟ ‘‘

’’کچھ نہیں۔۔‘‘

’’اور کہتی تھیں ؛ سیّاف! میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہارے بھائی ایک مجلس میں صدر نشیں ہیں اور ان کے اردگرد فرشتے پر سمیٹے خاموش بیٹھے ہیں۔‘‘

فاطمہ کے چہرے پر حیا کی پرچھائیاں نمودار ہوئیں۔۔۔ اور پھروہ جیسے اندر سے دکھی ہوگئی۔

’’کاش !امی ہمارے درمیان موجود ہوتیں۔۔ہم ان کے بنا کتنے اکیلے ہیں۔۔‘‘

ابو سیّاف اندرابی اپنی دونوں ٹانگیں کئی سال پیشترایک حادثہ میں گنواں بیٹھے تھے ۔۔ ان کی باقی ساری زندگی بستر اور وھیل چیرسے وابستہ ہوکر رہ گئی تھی۔اب ان کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا ، فاطمہ اندرابی کو پل پل بڑا ہوتے ہوئے بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہنا ہی ان کا ایک مشغلہ تھا۔ ان کی بیوی نے جو اب اس دنیا میں نہیں تھیں کئی بچوں کو جنم دیا تھا مگر سیاف اور فاطمہ کے علاوہ کوئی بھی زیادہ دن اس دنیامیں نہ رہ سکا۔

فاطمہ جب کسی کام سے باہر جانے لگتی تو ابو سیاف کا دم نکلنے لگتا ۔۔۔۔ وہ اپنی وھیل چیر کو بدقت تمام گھر کے باہر اس جگہ تک لے آتے جہاں سے وہ اسے زیادہ دور تک جاتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔اور جب وہ دور گلی میں دائیں یا بائیں طرف مڑ جاتی تو ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں اور جب تک وہ اسی موڑ سے واپس لوٹتی ہوئی دکھائی نہ دے جاتی ان کادل اسی طرح تیز تیز دھڑکتا رہتا۔حالانکہ موت تو کہیں بھی اور کسی وقت بھی آسکتی تھی مگر نہ جانے کیوں ایسا ہوتا تھا کہ ان کا دل اسی وقت زیادہ تیز دھڑکتا تھا جب وہ ان کی نظروں سے دور ہوتی تھی۔

’’ابو آپ بھی حد کرتے ہیں۔ میں کوئی دور تھوڑی نہ گئی تھی۔۔۔ کیا ضرورت تھی آپ کو باہر آنے کی۔‘‘ وہ تیر کی طرح واپس لوٹتی اور وھیل چیر کو دھکیل کر اندر لے آتی۔شاید وہ بھی اپنے ابو کے بارے میںاسی طرح کے خدشات رکھتی تھی ، کہیں اس غائبانے میں ان پر مزید کوئی آفت نہ ٹوٹ پڑے۔

موت ان کے ہرے بھرے باغوں میں روز بروز اترتی تھی اور شہر کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو اس طرح چن چن کر چگتی تھی جس طرح مرغیاں دانے چگتی ہیں۔اور انہیں ان کے خاندانوں سے اس طرح جدا کرتی تھی جس طرح ہوائیں زرد پتوں کو شاخوں سے جدا کرتی ہیں۔رات کے وقت وہ اپنے آپ کو ایک دوسرے سے باندھ لیتے تھے جس طرح گزرے وقتوں میں عورتیں شیر خواربچوں کو بھیڑئے کے خوف سے اپنے کمر بند سے باندھ کر سویا کرتی تھیں۔انہیں ڈرتھا کہ موت اچانک ان کے آنگن میں اترے گی اور ان میں سے کسی کو اچک لے گی اور باقی سارے لوگ سوتے ہی رہ جائیں گے۔وہ گزشتہ سو سال سے ایسی حالت میں تھے کہ زیتون کی شاخ سے ایک سڑا گلا پتہ بھی ٹوٹ کر گرتا تھا تو ان کے دل پھٹنے لگتے۔اس صدسالہ زندگی میں لاکھوں لوگ مرکھپ چکے تھے، زمینیں بنجر ہو گئی تھیں اور عورتوں کے رحم میں بانچھ پن نے ڈیرے جمالئے تھے۔اب نہ زمین میں دانہ پھوٹتاتھا اور نہ پیڑؤوں میںدرد اٹھتا تھا۔ سرنگیں ان کے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھیں اورجو نوجو ان انہیں کھودا کرتے تھے وہ ان کے لیے حقیقی زندگی کے ہیرو کی طرح تھے۔اور احمد سیّاف اندرابی بھی ان میں سے ایک تھا۔اس کے چوڑے چکلے سینے میں عزائم اور ہمتیں دست بستہ کھڑی رہتی تھیں۔وہ ایک ماہر انجینئر تھا حالانکہ اس نے کبھی مکتب کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔اس کی صلاحیتیں کسبی سے زیادہ وہبی تھیں۔

اگلے دن جب وہ اسی مقام سے گزرا جہاں اس کے لیے جشن کا اہتمام کیا گیا تھا تو نیلی آنکھوں والی موم کی گڑیا نے اس کی راہ روکی ۔

’’ہیلو سیاف۔۔ کیسے ہوتم ۔۔؟ بائی دی وے ! میں سارہ ہوں اور تمہارے ملک میں فوڈ اور سیکوریٹی کی صورتِ حال پر ریسرچ کررہی ہوں، کل جشن میں تمہیں دیکھ کر مجھے لگاکہ تم سے دوستی کرنا میرے ریسرچ کے لیے اچھاہوگا۔دوستی کروگے مجھ سے۔؟‘‘ وہ بچپن ہی سے بے باک اورسیانی تھی۔

’’ کیوں نہیں۔یہ میرے لیے اچھا ہوگا اگر میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں۔‘‘ سیاف کا جواب مختصر اور لہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔مگر اس کے دل کے سمندر میں مد وجزر کا موسم تھا۔دل کے کسی گمنام گوشے سے طوفان انگیز لہریں اٹھتی تھیں اوراس کے بیرونی کناروں پر اس طرح سر پٹختی تھیں جیسے مجنوں دیوارزنداں سے سر ٹکراتا تھا۔آخر وہ بھی ایک انسان ہی تھا ۔

اس وقت دونوں کے درمیان رسمی بات چیت ہوئی اور دونوں ایک ہی سڑک کی دو مخالف سمتوں میں چلدئے۔وہ کچھ دور جاکر سڑک کی داہنی طرف واقع ایک سہ منزلہ ریسٹوران میں گھس گئی اوریہ شہرکے شور سے ذرا دور زیتون کے درخت کے سائے میں آبیٹھا۔وہ بچپن میں یہاں آیا کرتا تھا۔اس کے دوست ابو ذر الکوفی نے اس باغ کو بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی مگر باغ اسے نہ ملنا تھا سو نہ ملا، خاندان کے کچھ لوگ اس کی حفاظت میں کام آگئے اور جو باقی بچ رہے وہ ہجرت کرگئے۔

پھر ایک دن جب وہ ہرے بھرے زیتون کی چھاؤں میں بیٹھا ہوا تھا اچانک کسی کے قدموں کی آواز سے وہ قدرے حیران ہوا۔

’’ہیلو سیاف۔۔۔!‘‘

’’ سارہ، تم۔۔۔؟‘‘وہ چونکا۔

’’ہاں، کیوں ۔۔تم سوچ رہے ہوگے کہ میںیہاں کیسے ۔۔۔؟‘‘

’’لیکن، تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔‘‘

’’اوہ! سوری ، مجھے پتہ نہیں تھا کہ تمہیں یہ پسند نہیں۔۔۔‘‘ اور وہ جانے لگی۔

’’ارے نہیں ۔۔جب آہی گئی ہو تو بیٹھو، میرا مطلب تھا کہ ۔۔۔‘‘سیاف نے قدرے شرمندگی محسوس کی۔اسے لگا کہ اسے یہ نہیں بولنا چاہئے تھا۔

’’کیا بات ہے آج بڑے اسمارٹ لگ رہے ہو۔۔‘‘اس نے سیاف کے مقابل دوسرے پتھر پر بیٹھتے ہوئے قدرے بے تکلفی سے کہا۔زیتون کی خمیدہ ڈالیاں اس پر اس طرح سایہ فگن تھیں جیسے وہ اسی ایک کام کے لیے وجود میں لائی گئی ہوں۔زیتون کے پتوں سے چھن کر آنے والی سورج کی شعائیں اس کے چہرے کو زردی میں نہلا رہی تھیں۔

’’یہ تمہارا حسن ظن ہے۔۔؟‘‘اس نے کاسنی چہرے کی طرف دیکھا اور مختصر سا جواب دیا۔

’’یہ باغ کتنا خوبصورت ہے؟ زیتون انسانی زندگی کے لیے ضروری چیزوں میں سے ایک ہے۔‘‘

در اصل یہ ابتدائی ملاقاتیں تھیں اور سارہ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ تنہائی کے ان لمحوں میں اس سے کیا بات کرے۔اسی لیے وہ ادھر ادھر کی باتیں کررہی تھی۔اور سیاف کو تو جیسے صدیوں کی چپ لگ گئی تھی ۔وہ گھر کے کونے میں رکھے ہوئے سازکی طرح خاموش رہتا تھا کہ جب تک اسے چھیڑا نہ جائے وہ سر نہیں بکھیر تا۔

’’ہاں ! مگر ہمارے لیے نہیں، ہمارے لیے یہ کبھی خوبصورت ہواکرتا تھاجب اس کے مالکانہ حقوق ہمیں حاصل تھے۔‘‘ سیاف کا وجود اس برتن کی طرح تھا جس میں صرف درد ہی بھرا ہو۔اور ہر برتن وہی ٹپکاتاہے جو اس میں ہوتا ہے۔کئی بار وہ خوبصورت سوالوں کے بھی زخم خوردہ جواب دیتا۔

سارہ نے اسکارف اتارا اوراپنے لمبے، سنہرے بالوں کو بہتی ہوئی ہواکے رخ کے مقابل کردیا۔سنہرے بال زیتون کی لچک دار ڈالیوں کی طرح ہوامیں لہرانے لگے۔ سیاف کو اپنا بچپن یاد آگیاجب وہ اپنے ہمجولیوں کے ساتھ ہوامیں لہراتی ہوئی زیتون کی ڈالیوں کو اچھل اچھل کر پکڑنے کی کوشش کیا کرتاتھا۔مگر اس وقت وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا،اذیتناک زندگی کی مار جھیلتے جھیلتے وہ خود بھی اس پتھر کے مثل ہوگیا تھا جس پر وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا ۔ اس وقت وہ نہ تو نرم وگداز زیتون کی ڈالیوں کو چھوسکتا تھا اور نہ ہی ہواکے دوش پر لہراتے ہوئے سنہری بالوں کو۔وہ اپنے من میں خالی پن محسوس کرنے لگا۔

’’چلو اب چلتے ہیں ۔‘‘جب زیتون کے سائے اپنے قد سے سوا ہوگئے اوراس کے من میں خالی پن پیر پسار نے لگا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔سارہ بھی کچھ کہے بنا اس کے پیچھے چل دی۔

پھر یوں ہوا کہ ملاقاتوں کے یہ سلسلے دراز ہونے لگے۔اور سادہ اور کھردرے جذبات کے مسامات میں گرماہٹیں اور رنگینیاں بسیرے ڈالنے لگیں۔برساتیں شروع ہوچکی تھیں اور تنہائیوں کے مارے دلوں کی انگیٹھیاں سلگنے لگی تھیں۔آخر کوئی کب تک پتھر نما بنا رہ سکتا ہے۔

پھر ایک دن جب زیتون کے سائے اسی طرح دراز ہونے لگے اور سیاف اٹھ کرجانے لگا تو سارہ نے اسے پکارا۔

’’رُکو ، سیاف!میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔‘‘ اس کی آواز قدے بلند تھی ، زیتون کی گھنی ڈالیوں سے سفیدکبوتروں کا ایک جوڑا پھرسے اڑا اور فضائے بسیط میں کہیں گم ہوگیا۔گویا باغ کا ماحول یک لخت بدل گیا ہو اور یہ اس قابل نہ رہا ہوکہ وہاں محبت کی کہانیاں لکھی جائیں۔سیاف جیسے ایک دم چونک ساگیا۔ اس کے قدم خود بخود رک گئے۔

’’ کیا ہم اس دوستی کو رشتے میں نہیں بدل سکتے۔۔۔؟‘‘ اسے لگا جیسے اس پر اچانک کوئی افتاد آپڑی ہے۔پر اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

’’ تمہارا مطلب ہے شادی ۔؟؟

’’ہاں۔۔۔ وہی مطلب ہے میرا۔۔‘‘

’’۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔ان حالات میں ۔۔؟ اور اس قید خانے میں۔۔؟۔کیا تم ایک ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوجس نے دکھی کوکھ سے جنم لیا اور جسے غمزدہ چھاتیوں سے دودھ پلایا گیا اور جس نے خون اور درد کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔جس نے سننے کے نام پر صرف آہیں اور کراہیں سنیں،جو کبھی اسکول نہیں گیااور جو سر بازار چلنے کے بجائے خفیہ راستوں سے آتاجاتا ہے۔‘‘ سیاف کے دل سے دھواں اٹھتا تھا اور وہ اپنی جگہ بت بنی کھڑی تھی۔

’’ ہم گہرے پانیوں کے اُس پار۔۔ چلے جائیں گے۔۔ ۔‘‘اس کے لہجے میں اعتماد تھا اور عنبر جیسی کشادہ نیلی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ۔

’’مگر۔۔۔ یہ تو کھلی غداری ہوگی۔۔۔اس شہر کو میری ضرورت ہے اورمیںیہاں سے چلا جاؤں۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔تمہیں بدلنا ہوگا۔‘‘ سارہ کی نظر اس کے کشادہ سینے پر تھی۔۔سیاف اسے پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔

اسے یہاں حیزہ میں آئے ہوئے چھ ماہ گزرچکے تھے اور اس عرصے میں اس نے خفیہ سرنگوں کے بارے میں بہت ساری معلومات اکھٹا کرلیں تھیں اور احمد سیاف کے بارے میں بھی، اس کا فیملی بیک گراؤنڈ کیسا ہے، وہ کہاں آتا جاتا ہے اور کن لوگوں سے ملتا جلتا ہے۔

’’سیاف تمہیں کیا پتہ۔۔ میں بدل چکی ہوں اور یہ فیصلہ اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔۔ ۔ کاش تمہیں پتہ ہوتا کہ یہاں مجھے تمہاری موت بنا کر بھیجا گیا تھا مگر میں نے تمہاری زندگی بننے کافیصلہ کیا ۔۔۔ کاش یہ سب تمہیں معلوم ہوتا سیاف۔۔ یا کم از کم تمہیں یہ سب بتانے کے لئے یہ مناسب وقت ہوتا۔‘‘ اس نے چاہا کہ وہ چیخنا شروع کردے مگر آواز اس کے گلے میں دب کر رہ گئی۔

ایک روز جب سرنگوں کے شہر میں چاروں طرف سورج کی ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی، سرد ہوا کی لہریں دلوں میں سرور کی کیفیت پیدا کررہی تھیں، سارہ کامن ہوا خوری کرنے کو چاہا اور وہ اپنی عبرانی زبان میں گزرے وقتوںکا کوئی گیت گنگناتے ہوئے یونہی روڈ پرنکل آئی۔تاحد نگاہ روڈ سنان پڑاتھا ، فوجی گاڑیاں اورٹینک دھیمی رفتار سے قطار اندر قطار چل رہے تھے ۔ باہر کے سونے سونے منظر نے اسے بددل کردیا اور اس نے واپس اپنے ہوٹل کے کمرے میں جانا چاہا۔ پھر یونہی اس نے ایک موڑ لیا اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایسے مناظر اس نے بارہا ٹی وی پر دیکھے تھے، پر یہ پہلاموقع تھا جب وہ اپنی برہنہ آنکھوں سے یہ کربناک منظر دیکھ رہی تھی اور وہ بھی اتنی قریب سے۔ پل بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔۔ مگر دوسرے لمحے میں اس نے ایک جست لگائی اوردیو ہیکل ٹینک کے آہنی پہیوں کے بالکل قریب سے ایک موہنی سی صورت والی بچی کو کھینچ کر روڈ کے دوسرے کنارے کی طرف دھکیل دیا۔دم کے دم میں کئی فوجی اس کے سر پر آ پہنچے۔

’’تمہیں پتہ ہے یہ بچے بڑے ہوکر ہمارے دشمن بنیں گے۔‘‘ ایک فوجی نے اس کا آئی کارڈ اسے واپس کرتے ہوئے کہا۔کارڈ دیکھ کر فوجی کا لہجہ خود بخود نرم پڑگیا تھا۔

’’مگر یہ معصوم ہیں ، انہیں کیا پتہ کہ دشمنی کیا ہوتی ہے ،بچوں کو اس طرح ٹینکوں سے کچلنا جرم ہے۔‘‘وہ بچی کو اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے تھی۔ بچی کا دل کسی خوف زدہ کبوتر کی دھڑک رہا تھا، جس کی پیہم ضربیں وہ اپنے سینے پر محسوس کررہی تھی۔

فوجیوں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور ٹینکوںاورفوجی گاڑیوں کا قافلہ آگے بڑھ گیا۔

یہی وہ لمحہ تھا جب سارہ نے اپنے اندر تبدیلی محسوس کی تھی۔ پھر اس نے سلسلہ وار ایسے مناظر دیکھے ۔ پھر اسے خواب میں ایسے مناظر دکھائی دینے لگے۔ ایک فوجی ایک بچے کو اس کی ماں سے چھین رہا ہے اور وہ فوجی اور بچے کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ کبھی کوئی ٹینک راہ چلتے کسی معصوم کا پیچھا کر رہا ہے اور وہ دیو ہیکل ٹینک کے سامنے سینہ تانے کھڑی ہے۔جبکہ وہ خود کتنی سی تھی اور اس کا سینہ کتنا سا تھا، دل کتنا سا تھا اور جان کتنی سی تھی۔ کبھی وہ گھبراکراٹھ بیٹھتی اور کبھی یونہی آنکھیں موندے پڑی رہتی ۔

’’۔۔ارے تم یہ کس سوچ میں پڑگئیں۔۔ ۔ ہم ابھی دوست ہی ہیں۔۔۔‘‘ سیاف نے اس کو فکر میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر کہا۔اورباغ سے باہر جانے کے لیے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا۔

ادھر کئی دن سے اس پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنی سروے رپورٹ جتنی جلدی ہوسکے مکمل کرے۔ گرچہ اس کی رپورٹ مکمل تھی ، اس نے کئی اہم سرنگوں کا پتہ لگایا تھا اور ان کے نقشے تیار کئے تھے ۔۔ مگر وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔اور یہ اس کا نتیجہ تھا کہ اس کا دل بدل گیا تھا۔

اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوااور اس کی آنکھوں کے سامنے دنیا اندھیری ہوگئی۔جب اس کے ہوش و حواس بحال ہوئے تو اس نے جلدی جلدی تمام صورت حال کا جائزہ لیا ۔ اس نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے اپنا بیگ جس میں لیپ ٹاپ ، موبائل فون ، ڈائری اور کچھ نقشے تھے جو اس نے پینسل کی مدد سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران بنائے تھے سامنے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کردیا۔

دھماکہ ہوئے ابھی یہی کو ئی دس بیس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ آٹھ دس مسلح سپاہی دندناتے ہوئے باغ میں گھس آئے انہوںنے سارہ کو اسی باغ کی ایک سرنگ سے نکالا اور اس کے ریسرچ ورک کے بارے میں معلوم کیا۔ اس کے منہ پر ٹیپ چپکا دی گئی تھی اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باریک مضبوط ڈور سے باندھ دیا گیا تھا۔ اس نے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف اشارہ کردیا۔ ایک شخص نے جو خفیہ سرنگوں کو تلاش کرنے والی ٹیم کالیڈر تھا اسے ’’ کتیا ‘‘ کہہ کر پکارا اور اسے بالوں سے پکڑ کر دور تک گھسیٹا،اورپھر دوتین لوگ اس پر لاتوں اور گھونسوںکے ساتھ پل پڑے ۔وہ غصے سے پاگل ہوا جارہا تھا۔آخر اس لڑکی نے ایسا کام کیا تھا جو کسی بھی طرح سے قابل معافی نہیںتھا۔جب اسے احساس ہوا کہ اب وہ کچھ نہیں کرسکتا تو اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا اوردولحیم شحیم آدمیوں نے ایک ایک ہاتھ سے اس کی ایک ایک ٹانگ کو پیروں کے پاس سے پکڑا اور اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کراسے اپنے دو ستون نما جسموں کے درمیان الٹا لٹکا لیا، اس کے آپس میں بندھے ہوئے ہاتھ اور بال زمین کو چھو رہے تھے۔اور اس کی کرتی اس کے منہ پر آگئی تھی۔وہ دبلے پتلے جسم کو اس طرح ہلا رہے تھے جس طرح بچوں کو جھولا جھلایا جاتاہے۔

ٹیم لیڈر اس کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا گالیوں پر گالیاں دئے جارہا تھا ، اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ۔ وہ کچھ دیرزمین پر پیر پٹختا رہا ،پھر اس نے اپنے پہلو سے امریکن گن نکالی اورجولی کے سینے میں پے درپے دو گولیاں اتاردیں۔جھولتا ہوا جسم ایک ذرا پھڑ پھڑایا اورپھر ساکت ہوگیا۔

ان میں سے ایک آدمی ٹیم لیڈر کی اس حرکت پر برس پڑا ۔۔ اس کی دلیل تھی کہ کیا اُس کے اس طرح کے انجام سے یہ بہتر نہ تھا کہ ہم اسے اپنے ساتھ لے جاتے اوراس سے راز اگلوانے کی کوشش کرتے یا کم از کم یہ ہمارے لئے تسکین کا ذریعہ بنتی ۔ہم کتنے دنوں سے اپنی بیویوں سے نہیں ملے۔ ٹیم لیڈر کو اپنی اس حرکت پر واقعی افسوس ہوا۔

ادھرمٹی اور خون میں لت پت مردہ جسم میں حرکت ہوئی ، وہ کہنیوں کے بل خود کو گھسیٹتا ہوا اس کے لاشے کے پاس تک آیا، اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور مڑ کر اپنے جسم کو دیکھا ۔اس کا پچھلا حصہ اس کے ساتھ نہیں تھا۔۔۔ اس پر دوبارہ بے ہوشی طاری ہوگئی اور سارہ کے مردہ جسم پر بے جان ہوکر گر پڑا۔

شام کا دھندلکا گہرا ہو چلا تھا ،آسمان پر مغموم فضا چھائی ہوئی تھی۔ باغ میں میزائل گرنے کی خبر سے فاطمہ ابھی تک بے خبر تھی ، ابو سیاف وھیل چیر پر بے سدھ پڑے خراٹے بھر رہے تھے ۔ فاطمہ کچن سے نکل کر صحن میں آئی اورکسی انجانی کیفیت کے باعث اس کے دل میں شادی کا جوڑا پہننے کی خواہش جاگی شاید وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کی بھابی اس جوڑے میں کیسی دکھائی دیں گی ۔مگر اس وقت اس کی حیرتوں کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ شادی کا جوڑا سفید کبوتری میں بدل گیا تھا جوالماری کا دروازہ کھلتے ہی پھر سے اڑگئی۔فاطمہ حیرتوں میں ڈوبی بے کراں آسمان میں کبوتری کو اڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی، اتنے میں ایک سفید کبوتر زیتون کے باغوں کی طرف سے آیا اور پھر دونوں گنبدِ بے در کی نیلگوں بے کرانیوں میں روپوش ہوگئے۔(ختم شد)

دیدبان شمارہ ۔۷

فلسطین کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ

سر نگوں کے شہر میں

ابو فہد

چڑھتی ہوئی سردیوں کا دن تھا اور ڈھلتی ہوئی دوپہر کا وقت، حیزہ میں جشن کا سا سماں تھا۔ ایک نسبتا چھوٹے سے اسٹیج پر بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا ہجوم تھا، آس پاس کی خستہ حال عمارتوں کی بالکنیوں پر بالی عمر کی لڑکیاں ، ڈھلتی ہوئی عمر کی عورتیں اور بڑی بوڑھیاں، کھڑکیوں کے پٹ،ستون اور پردوں کی اوٹ لئے کھڑی تھیں۔ان سب کے دلوں میں ایک نوجوان کے لئے احترام اور عقیدتوں کا دریا موجزن تھا۔نوجوان کے گلے میں خوشبودار پھولوں کے ہار جھول رہے تھے۔

ہجوم سے ذرا پرے دو نیلی آنکھیں اسے مستقل گھور ے جارہی تھیں،ان کی نیلی رنگت بدیسی ہونے کی چغلی کھاتی تھی ،مگر کتابی چہرے کے ارد گرد سلیقہ سے پہنا گیا اسکارف بتارہا تھا کہ یہ کوئی اس کی اپنی بستی کے آسمان کا چاند ہے۔رومانوی جذبات کی ایک گرم لہر اس کے وجود میں اس طرح اتر گئی جس طرح پانی میں کرنٹ اترجاتا ہے۔۔۔ مگر اس نے نیلی آنکھوں کے بے کنارسمندر کے نیلے پانیوں میں فوری طور پراترنے سے پرہیز کیا۔سرنگوں کے اس شہر میں اجنبیوں پراتنی جلدی بھروسہ کرلیناحماقت بھرا کام تھا۔

نوجوان آج بہت خوش تھا۔ گزشتہ چھ ماہ کی مسلسل محنت سے بیس کلو میٹر طویل خفیہ سرنگ کھودنے میں کامیاب ہوگیاتھا اور یہ جشن اس کی اسی محنت کے صلے کے طور پرمنعقد کیا گیا تھا۔سرنگیں تو اور بھی بہت ساری کھودی گئی تھیں مگر یہ ان سب میں اس حیثیت سے منفرد تھی کہ اس کا پتہ لگاپانامشکل تھا۔یہاں تک کہ فوجی کتوں کے لیے بھی۔یہ سرنگ زیتون کے ایک باغ سے شروع ہوتی تھی اور قریب کی کئی بستیوں کو آپس میں جوڑتی ہوئی سرحدکے اس پار تک جاتی تھی ، جہاں سے حیزہ کے لوگوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جاتی تھیں۔

’’یہ تمہارے لئے ہے۔۔‘‘ اسٹیج سے اتر کر وہ سیدھا گھر پہونچا او ر اپنے لئے دروزاہ کھولنے والی جواں سال لڑکی کی طرف ایک پیکٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔اس وقت اس نے بادامی رنگ کا عبایا پہن رکھا تھا ۔ اس کا سر بختی اونٹ کے کوہان نما دکھائی دے رہا تھا۔جب وہ باتھ روم سے نکلتی تھی تو اپنے لمبے سیاہ بالوں کا جوڑا بناکر انہیں اسکارف سے چھپا لیتی تھی ۔وہ بھی جشن میں شریک ہونا چاہتی تھی مگر والد کی معذوری کے باعث وہ جشن میں شریک نہ ہوسکی۔

اس نے بے صبرے ہاتھوں سے پیکٹ کھولا ۔۔۔ اورایک سفید عروسی جوڑا دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔وہ کچھ دیر اس میں کھوئی رہی اور پھرایک دم مستی کے موڈ میں آکر بولی:’’میرے لئے۔۔ یا پھر ۔۔۔۔‘‘ اس نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔

’’اب تم اتنی بڑی جو ہوگئی ہو۔‘‘اس نے مستی کا جواب مستی کے انداز میںہی دیا۔

’’ویسے میں بتاؤں۔۔‘‘

’’ہاں بتاؤ۔۔‘‘

’’یہ تو بس بھابھی جان پر ہی اچھا لگے گا۔۔۔ امی کہتی تھیں ، فاطمہ ؛میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہاری بھابھی کی آنکھیں نیلی ہیں، سمندر کے گہرے پانیوں کی طرح۔۔تم دیکھوگی تو ان میں ڈوبنے کوجی چاہے گا تمہارا۔۔‘‘

’’اچھا۔۔۔اور کیا کہتی تھیں امی۔۔؟؟ ‘‘

’’کچھ نہیں۔۔‘‘

’’اور کہتی تھیں ؛ سیّاف! میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہارے بھائی ایک مجلس میں صدر نشیں ہیں اور ان کے اردگرد فرشتے پر سمیٹے خاموش بیٹھے ہیں۔‘‘

فاطمہ کے چہرے پر حیا کی پرچھائیاں نمودار ہوئیں۔۔۔ اور پھروہ جیسے اندر سے دکھی ہوگئی۔

’’کاش !امی ہمارے درمیان موجود ہوتیں۔۔ہم ان کے بنا کتنے اکیلے ہیں۔۔‘‘

ابو سیّاف اندرابی اپنی دونوں ٹانگیں کئی سال پیشترایک حادثہ میں گنواں بیٹھے تھے ۔۔ ان کی باقی ساری زندگی بستر اور وھیل چیرسے وابستہ ہوکر رہ گئی تھی۔اب ان کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا ، فاطمہ اندرابی کو پل پل بڑا ہوتے ہوئے بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہنا ہی ان کا ایک مشغلہ تھا۔ ان کی بیوی نے جو اب اس دنیا میں نہیں تھیں کئی بچوں کو جنم دیا تھا مگر سیاف اور فاطمہ کے علاوہ کوئی بھی زیادہ دن اس دنیامیں نہ رہ سکا۔

فاطمہ جب کسی کام سے باہر جانے لگتی تو ابو سیاف کا دم نکلنے لگتا ۔۔۔۔ وہ اپنی وھیل چیر کو بدقت تمام گھر کے باہر اس جگہ تک لے آتے جہاں سے وہ اسے زیادہ دور تک جاتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔اور جب وہ دور گلی میں دائیں یا بائیں طرف مڑ جاتی تو ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں اور جب تک وہ اسی موڑ سے واپس لوٹتی ہوئی دکھائی نہ دے جاتی ان کادل اسی طرح تیز تیز دھڑکتا رہتا۔حالانکہ موت تو کہیں بھی اور کسی وقت بھی آسکتی تھی مگر نہ جانے کیوں ایسا ہوتا تھا کہ ان کا دل اسی وقت زیادہ تیز دھڑکتا تھا جب وہ ان کی نظروں سے دور ہوتی تھی۔

’’ابو آپ بھی حد کرتے ہیں۔ میں کوئی دور تھوڑی نہ گئی تھی۔۔۔ کیا ضرورت تھی آپ کو باہر آنے کی۔‘‘ وہ تیر کی طرح واپس لوٹتی اور وھیل چیر کو دھکیل کر اندر لے آتی۔شاید وہ بھی اپنے ابو کے بارے میںاسی طرح کے خدشات رکھتی تھی ، کہیں اس غائبانے میں ان پر مزید کوئی آفت نہ ٹوٹ پڑے۔

موت ان کے ہرے بھرے باغوں میں روز بروز اترتی تھی اور شہر کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو اس طرح چن چن کر چگتی تھی جس طرح مرغیاں دانے چگتی ہیں۔اور انہیں ان کے خاندانوں سے اس طرح جدا کرتی تھی جس طرح ہوائیں زرد پتوں کو شاخوں سے جدا کرتی ہیں۔رات کے وقت وہ اپنے آپ کو ایک دوسرے سے باندھ لیتے تھے جس طرح گزرے وقتوں میں عورتیں شیر خواربچوں کو بھیڑئے کے خوف سے اپنے کمر بند سے باندھ کر سویا کرتی تھیں۔انہیں ڈرتھا کہ موت اچانک ان کے آنگن میں اترے گی اور ان میں سے کسی کو اچک لے گی اور باقی سارے لوگ سوتے ہی رہ جائیں گے۔وہ گزشتہ سو سال سے ایسی حالت میں تھے کہ زیتون کی شاخ سے ایک سڑا گلا پتہ بھی ٹوٹ کر گرتا تھا تو ان کے دل پھٹنے لگتے۔اس صدسالہ زندگی میں لاکھوں لوگ مرکھپ چکے تھے، زمینیں بنجر ہو گئی تھیں اور عورتوں کے رحم میں بانچھ پن نے ڈیرے جمالئے تھے۔اب نہ زمین میں دانہ پھوٹتاتھا اور نہ پیڑؤوں میںدرد اٹھتا تھا۔ سرنگیں ان کے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھیں اورجو نوجو ان انہیں کھودا کرتے تھے وہ ان کے لیے حقیقی زندگی کے ہیرو کی طرح تھے۔اور احمد سیّاف اندرابی بھی ان میں سے ایک تھا۔اس کے چوڑے چکلے سینے میں عزائم اور ہمتیں دست بستہ کھڑی رہتی تھیں۔وہ ایک ماہر انجینئر تھا حالانکہ اس نے کبھی مکتب کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔اس کی صلاحیتیں کسبی سے زیادہ وہبی تھیں۔

اگلے دن جب وہ اسی مقام سے گزرا جہاں اس کے لیے جشن کا اہتمام کیا گیا تھا تو نیلی آنکھوں والی موم کی گڑیا نے اس کی راہ روکی ۔

’’ہیلو سیاف۔۔ کیسے ہوتم ۔۔؟ بائی دی وے ! میں سارہ ہوں اور تمہارے ملک میں فوڈ اور سیکوریٹی کی صورتِ حال پر ریسرچ کررہی ہوں، کل جشن میں تمہیں دیکھ کر مجھے لگاکہ تم سے دوستی کرنا میرے ریسرچ کے لیے اچھاہوگا۔دوستی کروگے مجھ سے۔؟‘‘ وہ بچپن ہی سے بے باک اورسیانی تھی۔

’’ کیوں نہیں۔یہ میرے لیے اچھا ہوگا اگر میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں۔‘‘ سیاف کا جواب مختصر اور لہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔مگر اس کے دل کے سمندر میں مد وجزر کا موسم تھا۔دل کے کسی گمنام گوشے سے طوفان انگیز لہریں اٹھتی تھیں اوراس کے بیرونی کناروں پر اس طرح سر پٹختی تھیں جیسے مجنوں دیوارزنداں سے سر ٹکراتا تھا۔آخر وہ بھی ایک انسان ہی تھا ۔

اس وقت دونوں کے درمیان رسمی بات چیت ہوئی اور دونوں ایک ہی سڑک کی دو مخالف سمتوں میں چلدئے۔وہ کچھ دور جاکر سڑک کی داہنی طرف واقع ایک سہ منزلہ ریسٹوران میں گھس گئی اوریہ شہرکے شور سے ذرا دور زیتون کے درخت کے سائے میں آبیٹھا۔وہ بچپن میں یہاں آیا کرتا تھا۔اس کے دوست ابو ذر الکوفی نے اس باغ کو بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی مگر باغ اسے نہ ملنا تھا سو نہ ملا، خاندان کے کچھ لوگ اس کی حفاظت میں کام آگئے اور جو باقی بچ رہے وہ ہجرت کرگئے۔

پھر ایک دن جب وہ ہرے بھرے زیتون کی چھاؤں میں بیٹھا ہوا تھا اچانک کسی کے قدموں کی آواز سے وہ قدرے حیران ہوا۔

’’ہیلو سیاف۔۔۔!‘‘

’’ سارہ، تم۔۔۔؟‘‘وہ چونکا۔

’’ہاں، کیوں ۔۔تم سوچ رہے ہوگے کہ میںیہاں کیسے ۔۔۔؟‘‘

’’لیکن، تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔‘‘

’’اوہ! سوری ، مجھے پتہ نہیں تھا کہ تمہیں یہ پسند نہیں۔۔۔‘‘ اور وہ جانے لگی۔

’’ارے نہیں ۔۔جب آہی گئی ہو تو بیٹھو، میرا مطلب تھا کہ ۔۔۔‘‘سیاف نے قدرے شرمندگی محسوس کی۔اسے لگا کہ اسے یہ نہیں بولنا چاہئے تھا۔

’’کیا بات ہے آج بڑے اسمارٹ لگ رہے ہو۔۔‘‘اس نے سیاف کے مقابل دوسرے پتھر پر بیٹھتے ہوئے قدرے بے تکلفی سے کہا۔زیتون کی خمیدہ ڈالیاں اس پر اس طرح سایہ فگن تھیں جیسے وہ اسی ایک کام کے لیے وجود میں لائی گئی ہوں۔زیتون کے پتوں سے چھن کر آنے والی سورج کی شعائیں اس کے چہرے کو زردی میں نہلا رہی تھیں۔

’’یہ تمہارا حسن ظن ہے۔۔؟‘‘اس نے کاسنی چہرے کی طرف دیکھا اور مختصر سا جواب دیا۔

’’یہ باغ کتنا خوبصورت ہے؟ زیتون انسانی زندگی کے لیے ضروری چیزوں میں سے ایک ہے۔‘‘

در اصل یہ ابتدائی ملاقاتیں تھیں اور سارہ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ تنہائی کے ان لمحوں میں اس سے کیا بات کرے۔اسی لیے وہ ادھر ادھر کی باتیں کررہی تھی۔اور سیاف کو تو جیسے صدیوں کی چپ لگ گئی تھی ۔وہ گھر کے کونے میں رکھے ہوئے سازکی طرح خاموش رہتا تھا کہ جب تک اسے چھیڑا نہ جائے وہ سر نہیں بکھیر تا۔

’’ہاں ! مگر ہمارے لیے نہیں، ہمارے لیے یہ کبھی خوبصورت ہواکرتا تھاجب اس کے مالکانہ حقوق ہمیں حاصل تھے۔‘‘ سیاف کا وجود اس برتن کی طرح تھا جس میں صرف درد ہی بھرا ہو۔اور ہر برتن وہی ٹپکاتاہے جو اس میں ہوتا ہے۔کئی بار وہ خوبصورت سوالوں کے بھی زخم خوردہ جواب دیتا۔

سارہ نے اسکارف اتارا اوراپنے لمبے، سنہرے بالوں کو بہتی ہوئی ہواکے رخ کے مقابل کردیا۔سنہرے بال زیتون کی لچک دار ڈالیوں کی طرح ہوامیں لہرانے لگے۔ سیاف کو اپنا بچپن یاد آگیاجب وہ اپنے ہمجولیوں کے ساتھ ہوامیں لہراتی ہوئی زیتون کی ڈالیوں کو اچھل اچھل کر پکڑنے کی کوشش کیا کرتاتھا۔مگر اس وقت وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا،اذیتناک زندگی کی مار جھیلتے جھیلتے وہ خود بھی اس پتھر کے مثل ہوگیا تھا جس پر وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا ۔ اس وقت وہ نہ تو نرم وگداز زیتون کی ڈالیوں کو چھوسکتا تھا اور نہ ہی ہواکے دوش پر لہراتے ہوئے سنہری بالوں کو۔وہ اپنے من میں خالی پن محسوس کرنے لگا۔

’’چلو اب چلتے ہیں ۔‘‘جب زیتون کے سائے اپنے قد سے سوا ہوگئے اوراس کے من میں خالی پن پیر پسار نے لگا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔سارہ بھی کچھ کہے بنا اس کے پیچھے چل دی۔

پھر یوں ہوا کہ ملاقاتوں کے یہ سلسلے دراز ہونے لگے۔اور سادہ اور کھردرے جذبات کے مسامات میں گرماہٹیں اور رنگینیاں بسیرے ڈالنے لگیں۔برساتیں شروع ہوچکی تھیں اور تنہائیوں کے مارے دلوں کی انگیٹھیاں سلگنے لگی تھیں۔آخر کوئی کب تک پتھر نما بنا رہ سکتا ہے۔

پھر ایک دن جب زیتون کے سائے اسی طرح دراز ہونے لگے اور سیاف اٹھ کرجانے لگا تو سارہ نے اسے پکارا۔

’’رُکو ، سیاف!میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔‘‘ اس کی آواز قدے بلند تھی ، زیتون کی گھنی ڈالیوں سے سفیدکبوتروں کا ایک جوڑا پھرسے اڑا اور فضائے بسیط میں کہیں گم ہوگیا۔گویا باغ کا ماحول یک لخت بدل گیا ہو اور یہ اس قابل نہ رہا ہوکہ وہاں محبت کی کہانیاں لکھی جائیں۔سیاف جیسے ایک دم چونک ساگیا۔ اس کے قدم خود بخود رک گئے۔

’’ کیا ہم اس دوستی کو رشتے میں نہیں بدل سکتے۔۔۔؟‘‘ اسے لگا جیسے اس پر اچانک کوئی افتاد آپڑی ہے۔پر اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

’’ تمہارا مطلب ہے شادی ۔؟؟

’’ہاں۔۔۔ وہی مطلب ہے میرا۔۔‘‘

’’۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔ان حالات میں ۔۔؟ اور اس قید خانے میں۔۔؟۔کیا تم ایک ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوجس نے دکھی کوکھ سے جنم لیا اور جسے غمزدہ چھاتیوں سے دودھ پلایا گیا اور جس نے خون اور درد کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔جس نے سننے کے نام پر صرف آہیں اور کراہیں سنیں،جو کبھی اسکول نہیں گیااور جو سر بازار چلنے کے بجائے خفیہ راستوں سے آتاجاتا ہے۔‘‘ سیاف کے دل سے دھواں اٹھتا تھا اور وہ اپنی جگہ بت بنی کھڑی تھی۔

’’ ہم گہرے پانیوں کے اُس پار۔۔ چلے جائیں گے۔۔ ۔‘‘اس کے لہجے میں اعتماد تھا اور عنبر جیسی کشادہ نیلی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ۔

’’مگر۔۔۔ یہ تو کھلی غداری ہوگی۔۔۔اس شہر کو میری ضرورت ہے اورمیںیہاں سے چلا جاؤں۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔تمہیں بدلنا ہوگا۔‘‘ سارہ کی نظر اس کے کشادہ سینے پر تھی۔۔سیاف اسے پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔

اسے یہاں حیزہ میں آئے ہوئے چھ ماہ گزرچکے تھے اور اس عرصے میں اس نے خفیہ سرنگوں کے بارے میں بہت ساری معلومات اکھٹا کرلیں تھیں اور احمد سیاف کے بارے میں بھی، اس کا فیملی بیک گراؤنڈ کیسا ہے، وہ کہاں آتا جاتا ہے اور کن لوگوں سے ملتا جلتا ہے۔

’’سیاف تمہیں کیا پتہ۔۔ میں بدل چکی ہوں اور یہ فیصلہ اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔۔ ۔ کاش تمہیں پتہ ہوتا کہ یہاں مجھے تمہاری موت بنا کر بھیجا گیا تھا مگر میں نے تمہاری زندگی بننے کافیصلہ کیا ۔۔۔ کاش یہ سب تمہیں معلوم ہوتا سیاف۔۔ یا کم از کم تمہیں یہ سب بتانے کے لئے یہ مناسب وقت ہوتا۔‘‘ اس نے چاہا کہ وہ چیخنا شروع کردے مگر آواز اس کے گلے میں دب کر رہ گئی۔

ایک روز جب سرنگوں کے شہر میں چاروں طرف سورج کی ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی، سرد ہوا کی لہریں دلوں میں سرور کی کیفیت پیدا کررہی تھیں، سارہ کامن ہوا خوری کرنے کو چاہا اور وہ اپنی عبرانی زبان میں گزرے وقتوںکا کوئی گیت گنگناتے ہوئے یونہی روڈ پرنکل آئی۔تاحد نگاہ روڈ سنان پڑاتھا ، فوجی گاڑیاں اورٹینک دھیمی رفتار سے قطار اندر قطار چل رہے تھے ۔ باہر کے سونے سونے منظر نے اسے بددل کردیا اور اس نے واپس اپنے ہوٹل کے کمرے میں جانا چاہا۔ پھر یونہی اس نے ایک موڑ لیا اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایسے مناظر اس نے بارہا ٹی وی پر دیکھے تھے، پر یہ پہلاموقع تھا جب وہ اپنی برہنہ آنکھوں سے یہ کربناک منظر دیکھ رہی تھی اور وہ بھی اتنی قریب سے۔ پل بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔۔ مگر دوسرے لمحے میں اس نے ایک جست لگائی اوردیو ہیکل ٹینک کے آہنی پہیوں کے بالکل قریب سے ایک موہنی سی صورت والی بچی کو کھینچ کر روڈ کے دوسرے کنارے کی طرف دھکیل دیا۔دم کے دم میں کئی فوجی اس کے سر پر آ پہنچے۔

’’تمہیں پتہ ہے یہ بچے بڑے ہوکر ہمارے دشمن بنیں گے۔‘‘ ایک فوجی نے اس کا آئی کارڈ اسے واپس کرتے ہوئے کہا۔کارڈ دیکھ کر فوجی کا لہجہ خود بخود نرم پڑگیا تھا۔

’’مگر یہ معصوم ہیں ، انہیں کیا پتہ کہ دشمنی کیا ہوتی ہے ،بچوں کو اس طرح ٹینکوں سے کچلنا جرم ہے۔‘‘وہ بچی کو اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے تھی۔ بچی کا دل کسی خوف زدہ کبوتر کی دھڑک رہا تھا، جس کی پیہم ضربیں وہ اپنے سینے پر محسوس کررہی تھی۔

فوجیوں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور ٹینکوںاورفوجی گاڑیوں کا قافلہ آگے بڑھ گیا۔

یہی وہ لمحہ تھا جب سارہ نے اپنے اندر تبدیلی محسوس کی تھی۔ پھر اس نے سلسلہ وار ایسے مناظر دیکھے ۔ پھر اسے خواب میں ایسے مناظر دکھائی دینے لگے۔ ایک فوجی ایک بچے کو اس کی ماں سے چھین رہا ہے اور وہ فوجی اور بچے کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ کبھی کوئی ٹینک راہ چلتے کسی معصوم کا پیچھا کر رہا ہے اور وہ دیو ہیکل ٹینک کے سامنے سینہ تانے کھڑی ہے۔جبکہ وہ خود کتنی سی تھی اور اس کا سینہ کتنا سا تھا، دل کتنا سا تھا اور جان کتنی سی تھی۔ کبھی وہ گھبراکراٹھ بیٹھتی اور کبھی یونہی آنکھیں موندے پڑی رہتی ۔

’’۔۔ارے تم یہ کس سوچ میں پڑگئیں۔۔ ۔ ہم ابھی دوست ہی ہیں۔۔۔‘‘ سیاف نے اس کو فکر میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر کہا۔اورباغ سے باہر جانے کے لیے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا۔

ادھر کئی دن سے اس پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنی سروے رپورٹ جتنی جلدی ہوسکے مکمل کرے۔ گرچہ اس کی رپورٹ مکمل تھی ، اس نے کئی اہم سرنگوں کا پتہ لگایا تھا اور ان کے نقشے تیار کئے تھے ۔۔ مگر وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔اور یہ اس کا نتیجہ تھا کہ اس کا دل بدل گیا تھا۔

اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوااور اس کی آنکھوں کے سامنے دنیا اندھیری ہوگئی۔جب اس کے ہوش و حواس بحال ہوئے تو اس نے جلدی جلدی تمام صورت حال کا جائزہ لیا ۔ اس نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے اپنا بیگ جس میں لیپ ٹاپ ، موبائل فون ، ڈائری اور کچھ نقشے تھے جو اس نے پینسل کی مدد سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران بنائے تھے سامنے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کردیا۔

دھماکہ ہوئے ابھی یہی کو ئی دس بیس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ آٹھ دس مسلح سپاہی دندناتے ہوئے باغ میں گھس آئے انہوںنے سارہ کو اسی باغ کی ایک سرنگ سے نکالا اور اس کے ریسرچ ورک کے بارے میں معلوم کیا۔ اس کے منہ پر ٹیپ چپکا دی گئی تھی اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باریک مضبوط ڈور سے باندھ دیا گیا تھا۔ اس نے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف اشارہ کردیا۔ ایک شخص نے جو خفیہ سرنگوں کو تلاش کرنے والی ٹیم کالیڈر تھا اسے ’’ کتیا ‘‘ کہہ کر پکارا اور اسے بالوں سے پکڑ کر دور تک گھسیٹا،اورپھر دوتین لوگ اس پر لاتوں اور گھونسوںکے ساتھ پل پڑے ۔وہ غصے سے پاگل ہوا جارہا تھا۔آخر اس لڑکی نے ایسا کام کیا تھا جو کسی بھی طرح سے قابل معافی نہیںتھا۔جب اسے احساس ہوا کہ اب وہ کچھ نہیں کرسکتا تو اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا اوردولحیم شحیم آدمیوں نے ایک ایک ہاتھ سے اس کی ایک ایک ٹانگ کو پیروں کے پاس سے پکڑا اور اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کراسے اپنے دو ستون نما جسموں کے درمیان الٹا لٹکا لیا، اس کے آپس میں بندھے ہوئے ہاتھ اور بال زمین کو چھو رہے تھے۔اور اس کی کرتی اس کے منہ پر آگئی تھی۔وہ دبلے پتلے جسم کو اس طرح ہلا رہے تھے جس طرح بچوں کو جھولا جھلایا جاتاہے۔

ٹیم لیڈر اس کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا گالیوں پر گالیاں دئے جارہا تھا ، اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ۔ وہ کچھ دیرزمین پر پیر پٹختا رہا ،پھر اس نے اپنے پہلو سے امریکن گن نکالی اورجولی کے سینے میں پے درپے دو گولیاں اتاردیں۔جھولتا ہوا جسم ایک ذرا پھڑ پھڑایا اورپھر ساکت ہوگیا۔

ان میں سے ایک آدمی ٹیم لیڈر کی اس حرکت پر برس پڑا ۔۔ اس کی دلیل تھی کہ کیا اُس کے اس طرح کے انجام سے یہ بہتر نہ تھا کہ ہم اسے اپنے ساتھ لے جاتے اوراس سے راز اگلوانے کی کوشش کرتے یا کم از کم یہ ہمارے لئے تسکین کا ذریعہ بنتی ۔ہم کتنے دنوں سے اپنی بیویوں سے نہیں ملے۔ ٹیم لیڈر کو اپنی اس حرکت پر واقعی افسوس ہوا۔

ادھرمٹی اور خون میں لت پت مردہ جسم میں حرکت ہوئی ، وہ کہنیوں کے بل خود کو گھسیٹتا ہوا اس کے لاشے کے پاس تک آیا، اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور مڑ کر اپنے جسم کو دیکھا ۔اس کا پچھلا حصہ اس کے ساتھ نہیں تھا۔۔۔ اس پر دوبارہ بے ہوشی طاری ہوگئی اور سارہ کے مردہ جسم پر بے جان ہوکر گر پڑا۔

شام کا دھندلکا گہرا ہو چلا تھا ،آسمان پر مغموم فضا چھائی ہوئی تھی۔ باغ میں میزائل گرنے کی خبر سے فاطمہ ابھی تک بے خبر تھی ، ابو سیاف وھیل چیر پر بے سدھ پڑے خراٹے بھر رہے تھے ۔ فاطمہ کچن سے نکل کر صحن میں آئی اورکسی انجانی کیفیت کے باعث اس کے دل میں شادی کا جوڑا پہننے کی خواہش جاگی شاید وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کی بھابی اس جوڑے میں کیسی دکھائی دیں گی ۔مگر اس وقت اس کی حیرتوں کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ شادی کا جوڑا سفید کبوتری میں بدل گیا تھا جوالماری کا دروازہ کھلتے ہی پھر سے اڑگئی۔فاطمہ حیرتوں میں ڈوبی بے کراں آسمان میں کبوتری کو اڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی، اتنے میں ایک سفید کبوتر زیتون کے باغوں کی طرف سے آیا اور پھر دونوں گنبدِ بے در کی نیلگوں بے کرانیوں میں روپوش ہوگئے۔(ختم شد)

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024