Son/افسانہ: بیٹا

Son/افسانہ: بیٹا

Feb 7, 2023

writer:Eu-Ann-Lee

دیدبان شمارہ ۔۱۷ / ۲۰۲۳

بیٹا

/ Son

مصنفہ : یی یوآن لی

ترجمہ: عقیلہ منصور جدون

تینتیس سالہ ہان / Han کنوارہ ،سافٹ وئر انجنئیر نیا نیا امریکی شہری بنا تھا ۔بلکل نئے امریکی پاسپورٹ کے ساتھ بیجنگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچا ۔اس نے والدہ کو ائیر پورٹ آنے سے منع کیا تھا اور گھر پر ہی انتظار کرنے کا کہا تھا ۔لیکن اسے علم تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گی ۔ وہ سان فرانسیسکو سے بیجنگ تک سارے سفر کے دوران پریشان رہا کہ وہ ائیر پورٹ پر اس کا انتظار کر رہی ہو گی ۔ اور ہاتھ میں مسکراتی لڑکیوں کی تصویروں کا البم بھی اٹھاۓ ہو گی ۔ وہ ہیرے جیسا کنوارہ ہے ،امریکی ڈالر کماتا ہے اور اس کے پاس امریکی شہریت ہے ۔ لیکن جب وہ اس سے کم اہم چاندی یا سونا تھا ،تب بھی اس کی ماں اس کا جوڑا ڈھونڈنے سے باز نہیں آتی تھی ۔ شروع شروع میں اس نے ماں سے کہہ دیا تھا کہ جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر لے وہ شادی نہیں کرے گا ۔پھر اس نے نوکری کی تلاش کا بہانہ بنا لیا تھا اور اس کے بعد سبز کارڈ کا حصول ۔ لیکن اب جب وہ امریکی شہری بن چکا تھا ،اب اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا ۔وہ چشم تصور سے ان لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا ۔سب کی سب اس جیسی بڑی مچھلی پکڑنے کے لئے مضبوط جال بننے میں مصروف تھیں ۔ ہان ہم جنس پرست تھا ۔اس کا ان میں سے کسی سے بھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔ نہ ہی وہ یہ بات ماں کو بتانا چاہتا تھا ۔ اسے اپنی ماں سے محبت تھی ۔ وہ اپنی ماں کی زندگی میں غیر ضروری دکھوں کا اضافہ بھی نہیں چاہتا تھا ۔ اور نہ ہی وہ خود پیار بھرے جذباتی فرض کے لئے اپنی زندگی میں کوئی قربانی دینا چاہتا تھا ۔

لیکن حیران کن طور پر ماں نے اسے کوئی البم دکھانے کی بجاۓ سونے کی چین میں سونے کی صلیب دکھائی ۔یسوع مسیح کی چھوٹی سی مورتی صلیب کے ساتھ جڑی تھی ۔ ماں نے اسے بتایا ،” میں نے بلخصوص تمہارے لئے آرڈر پر بنوائی ہے ۔ اسے محسوس کرو ۔ “

ہان نے صلیب پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا لیکن اس کی انگلیاں اس پر مصلوب شخصیت سے گریز کرتی رہیں ۔ اس کی ماں نے اسے بتایا “ یہ چوبیس قیراط سونا ہے ۔ ہمارے عقیدے کی طرح خالص ۔”

“ یہ تو بلکل وہی حلف والے الفاظ ہیں ،جو ہم نے کمیونسٹ یوتھ لیگ میں شمولیت کے وقت اٹھایا تھا ،” ہمارا کمیونزم پر عقیدہ اتنا ٹھوس اور خالص ہے جتنا سونا “۔ ہان نے ماں کو یاد دلایا ۔

“ ہان ایسے نامناسب مذاق مت کرو “

“ میں مذاق نہیں کر رہا ،میں بس یہ کہہ رہا ہوں کے بہت ساری چیزیں گھوم پھر کر دوبارہ آ جاتی ہیں ۔زبان بھی انہی میں سے ایک ہے ۔عقیدے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ یہ ہمارے بٹوے میں پڑے نوٹوں کی طرح ہے ۔ ان سے کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے ۔ لیکن بذات خود ان کی کیا حیثیت ہے ۔ “ ہان نے ماں کو مفصل جواب دیا ۔ ماں نے مسکرانے کی کوشش کی ۔ لیکن ہان دیکھ چکا تھا کہ وہ اپنی مایوسی چھپانے میں کس طرح ناکام ہو رہی تھی ۔

“ہان، تم بہت بولنے لگے ہو ۔ “

“ تو پھر میں خاموش ہو جاتا ہوں ۔”

“ نہیں ،مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ تم پہلے سے زیادہ گفتگو کرنے لگے ہو ۔ تم ہمیشہ کم گو بچے رہے ہو ۔بابا یہ جان کر خوش ہوتے کہ اب تم کھل کر بات کرنے لگے ہو “

“ امریکہ میں خاموش رہنا آسان نہیں ہے وہاں آپ کی قدر جو کچھ آپ کے اندر ہے اس سے نہیں بلکہ جو کچھ آپ بول رہے ہیں اس کی وجہ سے ہے ۔” ہان نے ماں کو سمجھایا ۔

“ یقینا” ،یقینا” ،” اس کی ماں نے جلدی جلدی اس سے مفاہمت کی کوشش کی ،” لیکن بابا ضرور کہتے کہ تمہیں بولنے سے پہلے سننا اور سیکھنا چاہیے ۔بابا ضرور کہتے ،کہ جتنا زیادہ بولو گے اتنا کم سیکھو گے “

“ ماما، بابا مر چکے ہیں ۔” ہان نے ماں کو یاد دلایا ۔ اس نے ماں کو آنکھیں جھپکاتے اور الفاظ ڈھونڈتے دیکھا تاکہ وہ دونوں کے درمیان بڑھتے خلا کو پر کر سکے ۔ جس حد تک ہان کو یاد تھا اس کی ماں اس کے باپ کا طوطا تھی ۔پچھلی دفعہ جب باپ کے مرنے کے کچھ مہینوں بعد ہان تعطیلات گزارنے آیا تھا ،تو کچھ ہمسایوں کے ساتھ ماں کی گفتگو سن کر ڈر گیا تھا ۔”ہان کہتا ہے کہ بوڑھے لوگوں کے شوخ رنگ کے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔” اس کی ماں اپنی سہیلیوں سے اسکے ماں کے لئے اور اس کی سہیلیوں کے لئے لائی گئی سرخ اور نارنجی ٹی شرٹس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوے کہہ رہی تھی ،” ہان کہتا ہے ہمیں اپنی سہولت کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے نہ کہ دوسروں کی راۓ کے مطابق ۔” یہ سب سن کر ہان افسردہ ہو گیا تھا کہ ماں کو زندگی گزارنے کے لئے پہلے خاوند اور اب بیٹے کی باتیں دہرانے پڑتی ہیں ۔

لیکن اس کی ساری ہمدردی ختم ہو گئی جب اسے سترہ گھنٹے کچھا کھچ بھرے جہاز میں گزارنے پڑے ۔ “ ماما، چلیں نکلیں یہاں سے ،دیر ہو رہی ہے ،” ہان نے یہ کہتے ہوۓ اپنے بیگ اٹھاۓ اور گھومنے والے شیشے کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔ ہان کی ماں نے اس تک پہنچتے ہوے اس سے سب سے بڑا بیگ لینے کی کوشش کی ۔

“ماما، میں یہ سب خود ہی اٹھا لوں گا ۔”

“ لیکن میں خالی ہاتھ نہیں چل سکتی ۔میں تمھاری ماں ہوں “

ہان نے ماں کو بیگ اٹھانے دیا ۔اور وہ خاموشی سے چل پڑے ۔مرد و خواتین ان کے پاس آ آ کر اپنے اپنے ہوٹل کی خوبیاں بیان کرنے لگے ۔ہان انہیں ہاتھ سے پرے کرتا رہا ۔اس سے آدھا قدم پیچھے اس کی ماں ان سے معزرت کرتی کہ وہ اپنے گھر جا رہے ہیں ،انہیں سمجھاتی کہ ان کا گھر زیادہ دور نہیں اور انہیں رات کہیں بھی گزارنے کی ضرورت نہیں ۔اس صورتحال سے ہان پریشان ہو رہا تھا کہ اس کی ماں بلاوجہ اتنی عاجزی دکھا رہی ہے ۔جب وہ اگلے سٹیشن کی قطار کے آخر میں پہنچے تو ہان نے کہا ،” ماما ،آپ کو ان سے معزرت کرنے کی ضرورت نہیں ۔”

“ ہان ،وہ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ۔”

“ انہیں صرف آپ کی جیب میں پڑی رقم سے دلچسپی ہے ۔”

“ ہان “ ماں نے کچھ کہنا چاہا لیکن آہ بھر کر خاموش ہو گئی ۔

“ میں جانتا ہوں مجھے لوگوں کے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے ،پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ۔” یہ کہتے ہوے ہان نے وہ سونے کی صلیب جو وہ جیب میں ڈال چکا تھا باہر نکالی ،” تمہارا چرچ تک تمہیں چوبیس قیراط سونا خریدنے کی ترغیب دیتا ہے ،کیوں؟ جتنا تم اس پر خرچ کرو گے اتنا تمہارا عقیدہ خالص ہو گا ۔

ہان کی ماں نے سر ہلاتے ہوۓ کہا ،” تم کل میرے ساتھ چرچ آنا اور پادری کو سننا ،اس سے ثقافتی انقلاب کے دوران اس کے تجربات کے بارے میں پوچھنا ،تب تمہیں پتہ چلے گا کہ وہ کتنا عظیم انسان ہے ۔”

“ وہ ایسا کیا مجھے بتاۓ گا جو مجھے نہیں معلوم ۔” ہان نے جواب دیا ۔

“اتنے مغرور مت بنو ۔” ماں نے التجا کی ۔

ہان نے کندھے اچکاۓ ،وہ قطار کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے ۔کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد ہان نے پوچھا ،” ماما، کیا آپ اب تک کمیونسٹ پارٹی کی رکن ہیں ؟ “

“ نہیں ،بپتسمہ لینے سے قبل ہی میں نے اپنا کارڈ واپس کر دیا تھا ۔”

“ انہوں نے آپ کو ایسا کرنے دیا ؟ آپ کو ڈر نہیں لگا کہ وہ آپ کا پیچھا کریں گے اور آپ کو کمیونسٹ عقیدہ چھوڑنے پر مجرم ٹھہرائیں گے ۔آپ کو اپنا پرانا خدا مارکس یاد ہے؟ جس کا کہنا ہے کہ مذہب روحانی افیم ہے ۔”

ہان کی ماں نے کوئی جواب نہیں دیا ،اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں میں پڑ گئے ۔اور وہ مایوس دکھائی دینے لگی ۔

پیلی ٹیکسی داخل ہوئی ،ہان نے ماں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے میں مدد دی ۔

“ آپ کا بیٹا بہت اچھا ہے ۔” ٹیکسی ڈرائیور نے ماں سے اس کے بیٹے کی تعریف کی ۔ماں نے جوابا” کہا ،” بلکل یہ بہت اچھا بیٹا ہے ۔”

گھر پہنچ کر رات کو جب لمبے سفر کی تھکان کی وجہ سے اسے نیند نہیں آ رہی تھی تو وہ خاموشی سے گھر سے نکل کر نزدیکی انٹر نیٹ کیفے چلا گیا ۔اس نے بہت سارے چیٹ رومز سے رابطے کی کوشش کی ،جن کے ساتھ امریکہ میں وہ اپنی اکثر شامیں گزارتا تھا ۔جہاں وہ مختلف لوگوں کے ساتھ فلرٹ کرتا ۔مختلف آئی ڈی کے ساتھ جو اس نے بنا رکھی تھیں لوگوں سے بات چیت کرتا ۔لیکن اس شام اس کی کسی سے بات نہ ہو سکی ۔تب اسے احساس ہو گیا کہ چین میں انٹرنیٹ پولیس نے یہ تمام سائٹس بند کی ہوئی ہیں ۔اس وقت امریکہ میں دن ہے اور لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں ۔ہان مزید کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا اور جو سائٹس کھل رہی تھیں وہ چیک کرتا رہا ۔ اسے ماں کو پریشان کرنے پر افسوس ہو رہا تھا ۔اگرچہ ماں نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناخوشگوار بات ہوئی ہے ۔ ماں نے اس کے گھر آنے کی خوشی میں بہت سارے کھانے بناۓ ۔اس نے اگلے دن چرچ جانے کی بھی بات نہیں کی ۔ہان نے بھی دوبارہ سونے کی صلیب کی بات نہیں کی جسے اس نے اپنے سوٹ کیس

میں ڈال دیا تھا ۔

ہان اس بات پر ہر گز حیران نہیں ہوا کہ اس کی ماں اتنی دیندار ہو گئی ہے ۔باپ کے مرنے کے بعد وہ اسے جتنے خط لکھتی رہی ان میں وہ اسے اپنے نئے دریافت شدہ عقیدے کے بارے میں بتاتی رہی تھی ۔جو بات اس کے لئے پریشان کن تھی وہ یہ تھی کہ اگر ابھی بھی اس کا باپ زندہ ہوتا تو وہ چرچ جانے کا نہ سوچتی ۔ اس کا باپ اسے ہرگز اجازت نہ دیتا کہ وہ چاہے کوئی آدمی ہو یا خدا کسی کو بھی زرا سی بھی توجہ دے ۔اس کا باپ ،جتنی ماں توجہ دے سکتی تھی اس سے زیادہ کا تقاضہ کرتا تھا ۔ باپ کی موت اس کی ماں کے لئے تھوڑے سے سکون کا باعث ہونی چاہیے تھی ۔اسے اب زندگی سے اپنی مرضی کا لطف اٹھانا چاہیے تھا ۔ نہ کہ وہ نئی قسم کی بیڑیاں پہن لیتی ۔ پتہ نہیں وہ کس قسم کے چرچ میں جاتی ہے ۔کس خدا کی عبادت کرتی ہے ۔ہان کو یاد تھا کہ اس نے نیویارک ٹائمز میں چین میں زیر زمین گرجا گھروں کے بارے میں رپورٹ پڑھی تھی ۔اس نے وہ آرٹیکل ڈھونڈ کر ماں کے لئے اس کا ترجمہ کرنے کا ارادہ کر لیا ۔اس نے سوچا اگر وہ عیسائی بننا چاہتی ہے تو اسے صحیح خدا پر ایمان لانا چاہیے ۔ اسے ان لوگوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جو اپنے عقیدے کے لئے اپنی زندگیوں اور آزادی کی قربانی دیتے ہیں ۔ ہان کو اس رپورٹ کی تصویریں یاد تھیں جن میں اسے معتقدین کا پرسکون اور بے خوف ہو کر رپورٹر کے کیمرے کو کنکھیوں سے دیکھنا یاد تھا ۔ ہان ہر اس شخص کی جو کسی بھی وجہ سے زیر زمین جیسے کہ وہ خود ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے زندگی گزارتا تھا ،عزت کرتا تھا ۔

لیکن نیویارک ٹائمز کی ویب سائیٹ بند تھی ۔ تب وہ آرٹیکل میں بتاۓ گئے مذہبی مدارس اور تنظیموں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا ۔جلد ہی اس نے ایک اونچا قہقہ لگایا جب اسے چینی عیسائی حب الوطن تنظیموں کے بارے میں رپورٹ ملنی شروع ہو گئی ، جو حکومتی لائسنس یافتہ گرجا گھروں کی سرکاری نمائندہ ہیں ۔ان تنظیموں کا مقصد نئے ہزارئیے میں کمیونسٹ ترقی کے تازہ ترین نظریات میں عیسائی تعلیمات کے کردار پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔

دو گھنٹے کی نیند کے بعد ہان جاگ گیا اور پرنٹڈ آرٹیکل اپنی جیب میں پا کر خوش ہوا ۔کالے ہند سے سفید کاغذ پر ۔وہ باپ کی سٹڈی میں گیا ،اس کی ماں ڈیسک کے سامنے بیٹھی تھی ۔اس نے اپنی عینکوں کے پیچھے سے اوپر دیکھا اور پوچھا ،کیا تم اچھی نیند سوۓ؟۔

“جی”

“میں نے ناشتہ تیار کر لیا ہے ۔” یہ کہتے ہوے جو کتابچہ وہ پڑھ رہی تھی ،نیچے رکھ دیا ۔ہان نے اسے اٹھا لیا ،اس کے کچھ صفحے پڑھے اور پھر اسے ڈیسک پر ماں کی طرف پھینک دیا ۔ اس میں چین کی پچھلی صدی کے معتقدین کی مختلف نسلوں کی شاعری تھی ۔

“ میں جانتی ہوں تم امریکہ میں بہت مصروف ہوتے ہو ،لیکن اگر تم کچھ وقت نکال سکو تو میرے پاس تمہارے پڑھنے کے لئے بہت اچھی کتابیں ہیں ۔” ماں نے اسے بتایا ۔

ہان جواب دیے بغیر کچن میں چلا گیا ۔اس نے پچھلے دس سالوں میں گلیوں میں کھڑے لوگوں سے بہت سارے کتابچے بہت ساری جیبی بائیبلز وصول کی تھیں ۔وہ شاپنگ سینٹر کی پارکنگ میں کورین خواتین کی تبلیغ بھی سن لیتا ۔لوکل چرچ کی دعوت پر ان کے ساتھ تفریح پر بھی چلا جاتا ۔جب چرچ کے لوگ اسے عیسائی مذہب اختیار کرنے کی ترغیب میں کافی وقت گزارتے تب بھی وہ انہیں منع نہ کرتا ۔وہ ان سب لوگوں کی پیدا کردہ تکلیف سے کبھی پریشان نہ ہوتا ۔ایک دفعہ اسے فاسٹ فوڈ کے باہر ایک پختہ عمر کی عورت نے روک لیا ۔اس کے دونوں ہاتھ اصرار کر کے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور اس کی روح کے لئیے دعا کرنے لگی ۔وہ سنتا رہا اور ٹریفک اہلکار کو اپنے زائد المیعاد میٹر کے لئے ٹکٹ لکھتے دیکھتا رہا ۔لیکن اس نے احتجاج نہیں کیا ۔ ہان کو ان لوگوں سے جان چھڑانا پسند نہیں تھا ۔ لیکن جب کبھی وہ انہیں سڑک پر کھڑے دیکھتا ،جنہوں نے ہاتھ سے بناۓ نشانات جن سے گنہگاروں کی جن میں ہم جنس پرست بھی شامل تھے ،کے زریعے مذمت کی گئی ہوتی تھی ،تو وہ ان کے منہ پر ہنسے بغیر نہ رہ سکتا ۔ان لوگوں سے جو اسے پسند یا ناپسند اپنی اپنی وجوھات کے باعث کرتے تھے جس کا علم اسے نہیں تھا ،وہ محظوظ ہوتا ۔لیکن یہ سب اس لئے تھا کہ ان لوگوں سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا ۔ان کا جذبہ اس کے لئے کسی طرح بھی نقصان دہ نہیں تھا ،لیکن وہ ماں کو بھی انہی لوگوں میں شمار کرتے ہوے چڑ چڑا ہو جاتا تھا ۔

ماں اس کے پیچھے کچن میں آ گئی ،” تم کسی بھی وقت بائیبل پڑھنا شروع کر سکتے ہو ۔” یہ کہتے ہوۓ اس نے بھاپ اڑاتے دلیئے کا پیالہ ہان کے سامنے رکھ دیا ۔” جامنی چاول کا دلیہ ،تمہارا پسندیدہ “۔

“ شکریہ ،ماما۔”

“ یہ تمہارے لیے اچھا ہے “۔ ہان بلکل سمجھ نہ سکا کہ وہ کھانے کے لئے کہہ رہی ہیں یا بائیبل کے لئے ۔ ماں میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی ۔اسے کھاتے دیکھنے لگی ۔ پھر بولی ۔

“ میں نے بہت سارے لوگوں سے بات کی ،کچھ نے پہلے پہل میرا یقین نہیں کیا لیکن بعد میں میرے ساتھ چرچ جانے اور بائیبل پڑھنے کے بعد ان کی زندگیاں بدل گئیں ۔“

“ میری زندگی بلکل ٹھیک ہے مجھے کوئی تبدیلی نہیں چاہیے ۔” ہان بڑبڑایا ۔

“ سچائی جاننے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ،سچائی کا دیر سے پتہ چلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کنفیوشس کا قول ہے ،اگر ایک شخص صبح کے وقت سچ جان لیتا ہے تو شام کو وہ بغیر تاسف کے مر سکتا ہے ۔” مان نے سمجھایا ۔

“ کنفیوشس نے یہ بھی کہا ہے ،کہ جب کوئی پچاس سال کا ہو جاتا ہے تو اسے دنیا دھوکہ نہیں دے سکتی ،ماما، آپ ساٹھ کی ہو چکیں اور آپ اب بھی دنیا سے دھوکہ کھا رہی ہیں ۔کیا آپ کا کمیونسٹ عقیدہ کافی نہیں تھا ۔” ہان نے بحث آگے بڑھاتے ہوے کہا ۔” ادھر دیکھیں ،ماما، میں نے یہ پیارا سا پیغام آپ کے لئے پرنٹ کیا ہے ،اسے آپ خود پڑھیں جس چرچ میں آپ جاتی ہیں ۔جس خدا کی آپ بات کرتی ہیں یہ آپ جیسے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے بناۓ گئے ہیں ۔ کیا آپ نہیں جانتی کہ تمام سرکاری لائسنس یافتہ چرچ کمیونسٹ پارٹی کو اپنا راہنما تسلیم کرتے ہیں ؟ ہو سکتا ہے ایک دن آپ اسی پرانے نتیجے پر پہنچ جائیں کہ خدا اور مارکس ایک جیسے ہیں ۔ “

اس کی ماں نے اس سے وہ پرچہ لے لیا ۔وہ حیران نہیں ہوئی تھی ،نہ ہی نا امید ۔ اسے پڑھ لینے کے بعد اس نے اسے ڈیسک کے ساتھ پڑی کوڑے کی ٹوکری میں احتیاط سے ڈال دیا اور بولی ،” کوئی بھی بادل سورج کی روشنی کو ہمیشہ کے لئے نہیں چھپا سکتا ۔”

“ ماما میں گھر آپ کی تبلیغ سننے نہیں آیا ۔میں دس سال امریکہ میں رہا ،بہت سے لوگوں نے میرا عقیدہ بدلنے کی کوشش کی ۔لیکن میں اس وقت وہی ہان آپ کے سامنے بیٹھا ہوں جو دس سال پہلے تھا ،اس سے آپ کیا سمجھتی ہیں ؟ “

“ لیکن تم میرے بیٹے ہو ،اگر وہ ناکام ہو گئے تو بھی مجھے تمہاری مدد کرنی ہے ۔”

“ آپ پہلے میری مدد کر سکتی تھیں ۔یاد ہے آپ نے میری بائیبل جلا دی تھی ۔” ہان نے ماں کو یاد دلایا اور ساتھ ہی ماں کا منجمد ہوتا جسم دیکھا ۔ وہ جانتا تھا کہ ماں واقعی بھول چکی ہے ۔جب وہ تیرہ سال کا تھا تو اس کے بہترین دوست نے وہ بائیبل اسے تحفتہ” دی تھی ۔وہ بغیر کسی جذبے کو پہچانے آپس میں محبت کرتے تھے ۔ اس وقت وہ معصوم بچے تھے ۔انہوں نے کبھی ایک دوسرے کو چھوا نہیں ۔ہان نہیں جانتا تھا کہ اس بچے نے بائیبل کہاں سے اور کیسے حاصل کی ،لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ وہ اسے زندگی میں ملنے والے تحفوں میں سے سب سے قیمتی تحفہ تھا ۔ اسے ایسے ہی رہنا چاہیے تھا ۔وہ زندگی میں جہاں کہیں جاتا اپنے ساتھ لے کر جاتا ،محبت کی پہلی نشانی کے طور پر ۔ لیکن اس کی ماں نے اسے جلا ڈالا تھا اور اس کی راکھ ٹوائلٹ میں بہا دی تھی ۔ماں جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ سکول کے بعد دوست کے ساتھ مل کر گھنٹوں بائیبل کا مطالعہ کرتا تھا ۔ اس کتاب میں وہ بہشت ڈھونڈتے جب کہ ان کے سکول کے ساتھی کمیونسٹ یوتھ لیگ میں شامل ہونے کے لئے مقابلے میں لگے ہوتے ۔دونوں دوستوں کو بائیبل کی کہانیاں اچھی لگتی تھیں ۔ کتاب کی ضخامت ان کی پریشانیوں کو بہت چھوٹا کر دیتی تھی ۔جب ان کے ہم جماعت ان پر سیاسی سرگرمیوں سے لا تعلقی پرتنقید کرتے تو وہ دل ہی دل میں ان پر ہنستے ۔دونوں یہ جانتے تھے کہ بائیبل کی وجہ سے وہ ایک مختلف بہت بڑی دنیا سے منسلک ہیں ۔

بائیبل کی موجودگی کا اس کے باپ کو علم ہو گیا تھا اور پھر ماں نے جلا دی تھی ۔ اس کے بعد ہان اپنے دوست کا سامنا نہیں کر سکا ۔ وہ اس سے دور ہونے کے بہانے بنانے لگا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ پڑتا ۔اس کے بعد ان کی دوستی اور محبت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی ۔اس دوستی نے ویسے بھی ختم ہو جانا تھا ۔پہلی محبت جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا ،لیکن جس انداز سے وہ ختم ہوئی اس کے لئے وہ اپنے آپ کو الزام دیتا تھا ۔

“ یاد کریں ،آپ نے بائیبل جلائی تھی ۔” ہان نے پھر یاد دلایا ۔

ماں نے جواب دینے کےلئے الفاظ ڈھونڈتے ہوۓ کہا ۔” بابا نے کہا تھا کہ اسے رکھنا درست نہیں ہے ۔پھر وہ مختلف وقت تھا ۔”

“ ہاں ،مختلف وقت تھا ، کیوںکہ اس وقت بابا کا حکم چلتا تھا اور اس وقت آپ دونوں کمیونسٹ خدا کی پرستش کرتے تھے ۔ اب بابا جا چکے ہیں اورآپ کو نیا خدا مل گیا ہے ۔” ہان نے مذید کہا ۔ “ ماما، آپ اپنے دماغ سے کیوں نہیں سوچ سکتیں ۔؟ “

“ میں سیکھ رہی ہوں ،یہ میرا اپنا پہلا فیصلہ ہے ۔جو میں نے خود کیا ہے ۔”

ہان ماں کے غلط فیصلے پر ہمدردی اور صبر کرتے ہوے مسکرا دیا ۔ بعد میں جب ماں نے اسے اپنے ساتھ چرچ جانے کی تجویز دی تو ہان نے بس میں اس کے ساتھ چرچ تک جانے کی ہامی بھر لی ۔ چرچ میں جا کر سننے میں کوئی حرج تو نہیں ماں نے مشورہ دیا لیکن ہان نے صرف سر ہلا دیا ۔

ویسٹ ہال گرجا گھر جس کے سامنے سے موٹر سائیکل پر ہان سالوں پہلے سکول جاتے ہوے گزرتا تھا ویسا ہی تھا ۔زنگ آلود لوہے کے جنگلے کے اندر سرمئی رنگ کی غیر واضح سی عمارت وہی تھی لیکن ارد گرد کی گلیاں گرا کر بڑے بڑے خریداری مراکز بنا دئیے گئے تھے ۔ان کی وجہ سے چرچ اپنی نمایاں شناخت کھو کر بونا سا لگتا تھا ۔ ہر عمر کے لوگ ایک دوسرے کے آگے خوش اخلاقی سے سر جھکاتے ہوۓ چرچ میں داخل ہو رہے تھے ۔ ہان حیرانی سے سوچ رہا تھا کہ کیسے یہ لوگ غلط ہاتھوں میں اپنا ایمان رکھ رہے ہیں ۔

داخلی دروازے سے کچھ قدم دور ماں رک گئی اور ہان سے پوچھا ،” کیا تم میرے ساتھ اندر چلو گے ؟ “

“ نہیں ،میں سٹار بکس میں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں گا “

“ سٹار بکس؟ “

“ ادھر کافی شاپ میں ۔” ماں نےاونچا ہو کر ادھر دیکھا ۔بے شک اسے پہلی بار کافی شاپ کی موجودگی کا پتہ چلا ۔ ہان نے ماں کو اندر جانے کا کہا ۔

“ ایک منٹ “ یہ کہتے ہوے ماں نے اردگرد نظر دوڑائی ،جلد ہی دو چھوٹے بھکاری ،ایک لڑکا اور ایک لڑکی دوڑتے ہوے سڑک پار کر کے ان کے پاس پہنچے ۔دونوں بہن بھائی لگتے تھے ۔دونوں پھٹے پرانے کپڑوں میں تھے ۔ہاتھ اور چہرے گرد آلود تھے ۔لڑکا سات یا آٹھ سال کا تھا ۔اس نے جب ہان کو دیکھا ،تو ایک ہاتھ اس کی طرف پھیلاتے ہوے بولا ،” انکل مدد کریں ،ہمارا باپ بھاری قرضہ چھوڑ کر مرا ہے ۔ہماری ماں بیمار ہے ،مہربانی کریں اور کچھ مدد کر دیں ،ہمیں ماں کو ہسپتال میں رقم بھیجنی ہے ۔

لڑکی جو اس لڑکے سے کچھ سال چھوٹی تھی وہی کچھ دہرا رہی تھی ۔ہان نے لڑکے کو دیکھا ۔لڑکے کی آنکھوں میں چالاکی کے تاثرات تھے ۔جن سے ہان بے چینی محسوس کرنے لگا ۔وہ سمجھ گیا کہ یہ بچے بھیک مانگنے کی ملازمت میں ہیں ۔ اگر والدین نہیں تو رشتہ داروں یا ہمسایوں کی طرف سے ۔کوئی نہ کوئی عمر رسیدہ شخص دور کسی کونے میں کھڑا ان کی نگرانی کر رہا ہو گا ۔ ہان نے انکار میں سر ہلایا ۔اس کے پاس ایسے بچوں کو دینے کے لئے رقم نہیں تھی ۔اپنی پچھلی تعطیلات کے دوران اس کی ایسے بچوں کے ساتھ باقاعدہ لڑائی ہو گئی تھی ۔ان بچوں نے اس کی ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ لی تھیں اور پیسے لئے بغیر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ہان کنجوس نہیں تھا ۔امریکہ میں وہ سڑک کنارے کھڑے موسیقی سنانے والوں کو سالم ڈالر کا نوٹ دے دیتا تھا ۔چھوٹی ریزگاری ان بے گھر لوگوں کو دیتا جو سارا دن ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے تھے ،اس لئے کہ ہان کے مطابق وہ ایماندار اور مستحق لوگ تھے ۔لیکن بچوں سے مزدوری کروانا اسے تسلیم نہیں تھا ۔اس لئے جو ایسا کرتے تھے مستحق نہیں تھے ۔ہان نے بچے کا ہاتھ جھٹک کر پرے کیا اور کہا ،” جاؤ یہاں سے ۔”

“ انکل کو تنگ مت کرو “۔ ماں نے بچوں سے کہا تو انہوں نے فورا” اپنا راگ الاپنا بند کر دیا ۔ماں نے اپنے بٹوے میں سے دو بڑے نوٹ نکالے اور ایک ایک دونوں کو دیتے ہوے کہا ۔” اب گرینی کے ساتھ آؤ ۔” بچوں نے رقم حفاظت سے رکھی اور ماں کے ساتھ چرچ کی طرف چل پڑے ۔

“ ایک منٹ رکو ، ماما ۔” ہان نے ماں کو پکارا ،” آپ ہر ہفتے ان کو اپنے ساتھ چرچ لے جانے کے لئے رقم دیتی ہیں ؟”

ماں نے جواب دیا ،” یہ ان کے فائدے کے لئے ہے ۔”

“ لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ “ یہ کہتے ہوے اس نے بہت سارے نوٹ نکالے اور لڑکے سے کہا ،سنو! اگر تم گرینی کی رقم واپس کردو اور آج چرچ بھی نہ جاؤ تو میں تمہیں دگنے پیسے دوں گا ۔

“ ہان! “

“ رکو، ماما! ایک لفظ نہیں بولنا ۔” پھر وہ اکڑوں بیٹھ گیا ،اور بچوں کے سامنے نوٹ الٹنے پلٹنے لگا ۔لڑکی نے لڑکے کی طرف دیکھا ۔لڑکے نے ہان کی ماں کی طرف ایک لمحے کے لئے دیکھا اور پھر رقم کی طرف دیکھا ۔لڑکے کی آنکھوں میں مکاری اور حساب کتاب کی چمک سے ہان مشتعل ہو گیا ۔اس نے سوچا کیسے اس کی ماں اتنے چھوٹے بچوں سے دھوکہ کھا جاتی ہے ۔ اس نے مسکراتے ہوے لڑکے کو ترغیب دلائی ۔” آ جاؤ “ کچھ سیکنڈوں بعد لڑکے نے ہان کی رقم وصول کر تے ہوے لڑکی کے ہاتھ سے بھی نوٹ واپس لیا اور دونوں نوٹ ہان کی ماں کو واپس کر دئیے ۔

“ بہت اچھے ،اب تم جا سکتے ہو ۔”

بچے وہاں سے چلے گئے ۔فٹ ہاتھ پر مزید لوگوں کو روکتے رہے اور وہی فقرے دہرا کر بھیک مانگتے رہے ۔اب ہان مسکراتے ہوے ماں کی طرف مڑا اور کہا ،” اس سے کیا پتہ چلا، ماما ؟ کہ ان کے لئے صرف پیسے اہم ہیں ۔”

“ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ “ ماں نے پوچھا ۔

“ مجھے آپ کی حفاظت کرنی تھی “ ۔

“ مجھے تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں ۔”

“ آپ یہ کہہ سکتی ہیں ماما ،لیکن سچ یہی ہے کہ آپ کی حفاظت میرا فرض ہے ۔ “

“ تمہیں سچائی کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ۔” یہ کہتے ہوے ہان کی ماں چرچ میں داخل ہو گئی ۔

ہان نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ وہ ماں کے الفاظ سے پریشان نہیں ہوا ،لیکن پھر بھی وہ دُکھی تھا ۔وہ اپنی ماں کا بیٹا ہے ۔جس لڑکے نے اس سے پیسے لئے وہ بھی بیٹا ہے ۔لیکن ایک دن اس نے خاوند بننا ہے ،باپ بننا ہے ۔ہو سکتا ہے وہ اپنے بچوں کو بھیک مانگنے بھیجے ،ہو سکتا ہے وہ انہیں بہتر زندگی دے سکے ۔لیکن ہان نے کبھی بھی باپ نہیں بننا ۔اس نے سوچا ،دنیا ہمیشہ اسے کسی کے بیٹے کی حیثیت سے یاد رکھے گی ۔بہت کم مرد ساری زندگی بیٹے رہتے ہیں ۔لیکن یسوع مسیح بھی صرف بیٹا ہی ہے ۔زمہ داریوں کے ساتھ بیٹا ہونا بہت مشکل ہے ۔اس سوچ کے ساتھ ہان کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی ۔

کیا اس کا کوئی حق بھی ہے ؟ ۔ اس کا حق ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر زندگی گزارے ۔وہ کام کرتا ہے ۔اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے ۔کچھ مہینوں کی جدوجہد کے بعد دوبارہ کام مل جاتا ہے ۔وہ اپنا کرایہ ادا کرتا ہے ۔ہمسایوں سے ملتا ہے ۔جم جاتا ہے ۔خبریں دیکھتا ہے ۔لیکن ریئیلٹی شوز نہیں دیکھتا .وہ چین میں دیہاتی علاقے میں ایک بچی کے تعلیمی اور زندگی کے باقی اخراجات کے لئے باقاعدگی سے چیک بھیجتا ہے ۔ کبھی کبھار مشت زنی کرتا ہے ۔وہ طویل المیعاد رشتوں پر یقین نہیں رکھتا ۔لیکن کبھی کبھار وہ مقامی بار میں مردوں سے ملتا ہے اور ان کے ساتھ جسمانی لطف اٹھاتا ہے ۔کچھ مردوں کے ساتھ فلرٹ کرتا ہے ۔نیٹ پر وہ بے چہرہ رہتا ہے ۔وہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے ۔وہ ہر سال اسے دو ہزار ڈالر بھیجتا ہے ،اگرچہ وہ اسے بہت دفعہ کہہ چکی ہے کہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں ۔لیکن وہ پھر بھی پیسے بھیجتا ہے ۔کیونکہ وہ اس کا بیٹا ہے ۔ماں کی حفاظت اور اس کے اخراجات اٹھانا اس کا فرض ہے ۔جس طرح ماں نے اس کے بچپن میں اس کی حفاظت کی اور اسے پالا پوسا ۔ وہ اپنی چھٹیاں بچاتا رہتاہے تاکہ گھر آکر اس کے ساتھ وقت گزار سکے ۔لیکن جب وہ اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دن گزرنے کے بعد ہی ایک دوسرے کو دکھ پہنچانا شروع کر دیتے ہیں ۔

ہان سڑک پار کر کے کافی شاپ پہنچ گیا ۔وہ تھکاوٹ اور افسردگی محسوس کر رہا تھا ۔لیکن اس میں اس کا نہیں بلکہ ماں کا قصور تھا ۔وہی اسے ناخوش کرتی ہے ۔اور وہ اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔کافی شاپ سے کچھ ہی دور پکی سڑک پر اچانک بریک لگنے پر ٹائروں کی تیز چرچراہٹ سنائی دی ۔ ہان نے مڑ کر دیکھا ۔لوگ ایک کار کی طرف دوڑے جا رہے تھے ،جہاں پہلے ہی ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا ۔لوگ چلا رہے تھے ،ایک بچہ گاڑی کے نیچے آ گیا ہے ۔ کچھ اپنے سیل فون پر ایمرجینسی کا نمبر ملانے لگے ۔ کچھ اپنے دوستوں اور فیملی کو حادثے کا آنکھوں دیکھا حال سنانے لگے ۔ اتنے میں ایک پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص ہجوم کی طرف بھاگا ۔ “ میرا بچہ “ وہ چلا رہا تھا ۔ ہان پہلے تو ٹھٹھر کر ساکت ہو گیا ،پھر اس نے چلنا شروع کر دیا ۔وہ اس شخص کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔وہ ضرور ایک دو عمارتیں پرے کسی ساۓ میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا ۔ اور اب سوگوار والدین کی طرح رو رہا تھا ۔وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہتا تھا کہ حادثہ اس پیاری آواز والی لڑکی کے ساتھ پیش آیا تھا یا پھر چالاکی بھری آنکھوں والے لڑکے کے ساتھ ۔ اس شہر میں روزانہ ٹریفک حادثات ہوتے ہیں ۔لوگ ڈرائیونگ لائسنس رشوت دے کر حاصل کر لیتے ہیں ۔یا پھر بلیک مارکیٹ سے خرید لیتے ہیں ۔کاریں پیدل چلنے والوں کی پرواہ نہیں کرتیں ،پیدل چلنے والے دوڑتی گاڑیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے ۔ پتہ نہیں کیسے ہان کو یقین تھا کہ وہ لڑکا ہی تھا ۔ لڑکا ہی ہونا چاہیے ۔کہ وہ ہر اس شخص کو دھوکہ دینے کے لئے تیار تھا جو دھوکہ کھانا چاہے ۔ہان نے سوچا لڑکا بیٹا ہی رہے گا کبھی باپ نہیں بنے گا ۔ہجوم اسے بھول جاۓ گا ۔اس کا خون سڑک سے صاف کر دیا جاۓ گا ۔ اس کی بہن کچھ عرصہ اسے یاد رکھے گی پھر بھول جاۓ گی ۔ وہ صرف ہان کی یادداشت میں زندہ رہے گا ۔

ہان کافی شاپ میں کھڑکی کے سامنے بیٹھ گیا ۔اور ماں کا انتظار کرنے لگا ۔ بلآخر جب وہ چرچ سے باہر نکلی تب تک سڑک کو صاف کر دیا گیا تھا ۔حادثے کا کوئی نشان باقی نہیں بچا تھا۔ہان ماں سے ملنے باہر نکلا ۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔سڑک پار سے ماں اسے دیکھ کر مسکرائی ۔اس کی آنکھوں میں آمید بھری مسکراہٹ تھی ۔ہان جانتا تھا کہ دو گھنٹے پہلے ان کے درمیان ہونے والا ناخوشگوار واقعہ وہ بھول چکی تھی ۔ وہ اسے ہمیشہ معاف کر سکتی تھی ۔کیونکہ وہ اس کا بیٹا تھا ۔اسی وجہ سے وہ کبھی بھی اس کی روح کی حفاظت سے باز نہیں آئے گی ۔ لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے معاف کیا جاۓ ۔وہ ماں کا سڑک پار کر کے اس تک پہنچنے کا انتظار کرتا رہا ۔پھر اس کی طرف دیکھے بغیر اسے مخاطب کیا ۔ “ ماما، میں نے آپ کو کچھ بتانا ہے ۔ میں کبھی شادی نہیں کر سکتا ۔۔میں صرف مردوں کو پسند کرتا ہوں ۔”

ہان کی ماں خاموش رہی ۔ ہان نے مسکرا کر پوچھا ،” صدمہ پہنچا ؟ بابا اگر زندہ ہوتے تو یہ جان کر کیا کہتے ۔؟ قابل نفرت ،یہی کہتے نا، “

طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ۔ “ مجھے شک ہو گیا تھا ،اسی لئے اس دفعہ میں نے تمہارے لئے کوئی لڑکی نہیں ڈھونڈی ۔”

“تو آپ کیا سوچتی ہیں؟ ،میں برباد ہو گیا ۔ جب ہم رد انقلابیوں کے بارے میں کہتے تھے ——بدبودار —سخت اور ناقابل تبدیل ،گھر کے باہر گڑھے میں پڑی چٹان کی طرح ، میں بھی ان میں سے ہوں “ ۔

“ میں ایسا نہیں کہہ سکتی ۔”

“ مان لو ،ماما ،میں برباد ہو گیا ۔جو بھی آپ کا خدا ہے ،وہ مجھ جیسوں کو پسند نہیں کرے گا ۔”

“ تم غلط ہو ۔” ہان کی ماں نے جواب دیا ۔پھر اپنے پنجوں کے بل کھڑی ہوئی ۔اس کے سر کو چھوا جیسے بچپن میں جب وہ کوئی غلطی کرتا تھا تو چھوتی تھی اسے یہ یقین دلانے کے لئے کہ وہ ابھی بھی اچھا لڑکا ہے ۔

“ خدا آپ سے محبت کرتا ہے ،آپ جیسے بھی ہیں ۔اسے آپ سے دوسروں کی توقعات سے کوئی غرض نہیں ۔خدا ہر چیز دیکھتا ہے اور سب کچھ سمجھتا ہے “

“بے شک ،ہان نے مذاق کرنا چاہا کہ خدا چینی والدین کی طرح ہے جن کے پاس بیٹوں سے محبت کے لئے کوئی نہ کوئی جواز ہر وقت موجود رہتا ہے ۔لیکن جب اس نے ماں کے چہرے کو دیکھا تو خاموش ہو گیا ۔ماں کی آنکھیں اتنی پرامید اور پر جوش تھیں کہ اسے اپنی آنکھیں چرانی پڑ گئیں ۔

دیدبان شمارہ ۔۱۷ / ۲۰۲۳

بیٹا

/ Son

مصنفہ : یی یوآن لی

ترجمہ: عقیلہ منصور جدون

تینتیس سالہ ہان / Han کنوارہ ،سافٹ وئر انجنئیر نیا نیا امریکی شہری بنا تھا ۔بلکل نئے امریکی پاسپورٹ کے ساتھ بیجنگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچا ۔اس نے والدہ کو ائیر پورٹ آنے سے منع کیا تھا اور گھر پر ہی انتظار کرنے کا کہا تھا ۔لیکن اسے علم تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گی ۔ وہ سان فرانسیسکو سے بیجنگ تک سارے سفر کے دوران پریشان رہا کہ وہ ائیر پورٹ پر اس کا انتظار کر رہی ہو گی ۔ اور ہاتھ میں مسکراتی لڑکیوں کی تصویروں کا البم بھی اٹھاۓ ہو گی ۔ وہ ہیرے جیسا کنوارہ ہے ،امریکی ڈالر کماتا ہے اور اس کے پاس امریکی شہریت ہے ۔ لیکن جب وہ اس سے کم اہم چاندی یا سونا تھا ،تب بھی اس کی ماں اس کا جوڑا ڈھونڈنے سے باز نہیں آتی تھی ۔ شروع شروع میں اس نے ماں سے کہہ دیا تھا کہ جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر لے وہ شادی نہیں کرے گا ۔پھر اس نے نوکری کی تلاش کا بہانہ بنا لیا تھا اور اس کے بعد سبز کارڈ کا حصول ۔ لیکن اب جب وہ امریکی شہری بن چکا تھا ،اب اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا ۔وہ چشم تصور سے ان لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا ۔سب کی سب اس جیسی بڑی مچھلی پکڑنے کے لئے مضبوط جال بننے میں مصروف تھیں ۔ ہان ہم جنس پرست تھا ۔اس کا ان میں سے کسی سے بھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔ نہ ہی وہ یہ بات ماں کو بتانا چاہتا تھا ۔ اسے اپنی ماں سے محبت تھی ۔ وہ اپنی ماں کی زندگی میں غیر ضروری دکھوں کا اضافہ بھی نہیں چاہتا تھا ۔ اور نہ ہی وہ خود پیار بھرے جذباتی فرض کے لئے اپنی زندگی میں کوئی قربانی دینا چاہتا تھا ۔

لیکن حیران کن طور پر ماں نے اسے کوئی البم دکھانے کی بجاۓ سونے کی چین میں سونے کی صلیب دکھائی ۔یسوع مسیح کی چھوٹی سی مورتی صلیب کے ساتھ جڑی تھی ۔ ماں نے اسے بتایا ،” میں نے بلخصوص تمہارے لئے آرڈر پر بنوائی ہے ۔ اسے محسوس کرو ۔ “

ہان نے صلیب پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا لیکن اس کی انگلیاں اس پر مصلوب شخصیت سے گریز کرتی رہیں ۔ اس کی ماں نے اسے بتایا “ یہ چوبیس قیراط سونا ہے ۔ ہمارے عقیدے کی طرح خالص ۔”

“ یہ تو بلکل وہی حلف والے الفاظ ہیں ،جو ہم نے کمیونسٹ یوتھ لیگ میں شمولیت کے وقت اٹھایا تھا ،” ہمارا کمیونزم پر عقیدہ اتنا ٹھوس اور خالص ہے جتنا سونا “۔ ہان نے ماں کو یاد دلایا ۔

“ ہان ایسے نامناسب مذاق مت کرو “

“ میں مذاق نہیں کر رہا ،میں بس یہ کہہ رہا ہوں کے بہت ساری چیزیں گھوم پھر کر دوبارہ آ جاتی ہیں ۔زبان بھی انہی میں سے ایک ہے ۔عقیدے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ یہ ہمارے بٹوے میں پڑے نوٹوں کی طرح ہے ۔ ان سے کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے ۔ لیکن بذات خود ان کی کیا حیثیت ہے ۔ “ ہان نے ماں کو مفصل جواب دیا ۔ ماں نے مسکرانے کی کوشش کی ۔ لیکن ہان دیکھ چکا تھا کہ وہ اپنی مایوسی چھپانے میں کس طرح ناکام ہو رہی تھی ۔

“ہان، تم بہت بولنے لگے ہو ۔ “

“ تو پھر میں خاموش ہو جاتا ہوں ۔”

“ نہیں ،مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ تم پہلے سے زیادہ گفتگو کرنے لگے ہو ۔ تم ہمیشہ کم گو بچے رہے ہو ۔بابا یہ جان کر خوش ہوتے کہ اب تم کھل کر بات کرنے لگے ہو “

“ امریکہ میں خاموش رہنا آسان نہیں ہے وہاں آپ کی قدر جو کچھ آپ کے اندر ہے اس سے نہیں بلکہ جو کچھ آپ بول رہے ہیں اس کی وجہ سے ہے ۔” ہان نے ماں کو سمجھایا ۔

“ یقینا” ،یقینا” ،” اس کی ماں نے جلدی جلدی اس سے مفاہمت کی کوشش کی ،” لیکن بابا ضرور کہتے کہ تمہیں بولنے سے پہلے سننا اور سیکھنا چاہیے ۔بابا ضرور کہتے ،کہ جتنا زیادہ بولو گے اتنا کم سیکھو گے “

“ ماما، بابا مر چکے ہیں ۔” ہان نے ماں کو یاد دلایا ۔ اس نے ماں کو آنکھیں جھپکاتے اور الفاظ ڈھونڈتے دیکھا تاکہ وہ دونوں کے درمیان بڑھتے خلا کو پر کر سکے ۔ جس حد تک ہان کو یاد تھا اس کی ماں اس کے باپ کا طوطا تھی ۔پچھلی دفعہ جب باپ کے مرنے کے کچھ مہینوں بعد ہان تعطیلات گزارنے آیا تھا ،تو کچھ ہمسایوں کے ساتھ ماں کی گفتگو سن کر ڈر گیا تھا ۔”ہان کہتا ہے کہ بوڑھے لوگوں کے شوخ رنگ کے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔” اس کی ماں اپنی سہیلیوں سے اسکے ماں کے لئے اور اس کی سہیلیوں کے لئے لائی گئی سرخ اور نارنجی ٹی شرٹس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوے کہہ رہی تھی ،” ہان کہتا ہے ہمیں اپنی سہولت کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے نہ کہ دوسروں کی راۓ کے مطابق ۔” یہ سب سن کر ہان افسردہ ہو گیا تھا کہ ماں کو زندگی گزارنے کے لئے پہلے خاوند اور اب بیٹے کی باتیں دہرانے پڑتی ہیں ۔

لیکن اس کی ساری ہمدردی ختم ہو گئی جب اسے سترہ گھنٹے کچھا کھچ بھرے جہاز میں گزارنے پڑے ۔ “ ماما، چلیں نکلیں یہاں سے ،دیر ہو رہی ہے ،” ہان نے یہ کہتے ہوۓ اپنے بیگ اٹھاۓ اور گھومنے والے شیشے کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔ ہان کی ماں نے اس تک پہنچتے ہوے اس سے سب سے بڑا بیگ لینے کی کوشش کی ۔

“ماما، میں یہ سب خود ہی اٹھا لوں گا ۔”

“ لیکن میں خالی ہاتھ نہیں چل سکتی ۔میں تمھاری ماں ہوں “

ہان نے ماں کو بیگ اٹھانے دیا ۔اور وہ خاموشی سے چل پڑے ۔مرد و خواتین ان کے پاس آ آ کر اپنے اپنے ہوٹل کی خوبیاں بیان کرنے لگے ۔ہان انہیں ہاتھ سے پرے کرتا رہا ۔اس سے آدھا قدم پیچھے اس کی ماں ان سے معزرت کرتی کہ وہ اپنے گھر جا رہے ہیں ،انہیں سمجھاتی کہ ان کا گھر زیادہ دور نہیں اور انہیں رات کہیں بھی گزارنے کی ضرورت نہیں ۔اس صورتحال سے ہان پریشان ہو رہا تھا کہ اس کی ماں بلاوجہ اتنی عاجزی دکھا رہی ہے ۔جب وہ اگلے سٹیشن کی قطار کے آخر میں پہنچے تو ہان نے کہا ،” ماما ،آپ کو ان سے معزرت کرنے کی ضرورت نہیں ۔”

“ ہان ،وہ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ۔”

“ انہیں صرف آپ کی جیب میں پڑی رقم سے دلچسپی ہے ۔”

“ ہان “ ماں نے کچھ کہنا چاہا لیکن آہ بھر کر خاموش ہو گئی ۔

“ میں جانتا ہوں مجھے لوگوں کے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے ،پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ۔” یہ کہتے ہوے ہان نے وہ سونے کی صلیب جو وہ جیب میں ڈال چکا تھا باہر نکالی ،” تمہارا چرچ تک تمہیں چوبیس قیراط سونا خریدنے کی ترغیب دیتا ہے ،کیوں؟ جتنا تم اس پر خرچ کرو گے اتنا تمہارا عقیدہ خالص ہو گا ۔

ہان کی ماں نے سر ہلاتے ہوۓ کہا ،” تم کل میرے ساتھ چرچ آنا اور پادری کو سننا ،اس سے ثقافتی انقلاب کے دوران اس کے تجربات کے بارے میں پوچھنا ،تب تمہیں پتہ چلے گا کہ وہ کتنا عظیم انسان ہے ۔”

“ وہ ایسا کیا مجھے بتاۓ گا جو مجھے نہیں معلوم ۔” ہان نے جواب دیا ۔

“اتنے مغرور مت بنو ۔” ماں نے التجا کی ۔

ہان نے کندھے اچکاۓ ،وہ قطار کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے ۔کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد ہان نے پوچھا ،” ماما، کیا آپ اب تک کمیونسٹ پارٹی کی رکن ہیں ؟ “

“ نہیں ،بپتسمہ لینے سے قبل ہی میں نے اپنا کارڈ واپس کر دیا تھا ۔”

“ انہوں نے آپ کو ایسا کرنے دیا ؟ آپ کو ڈر نہیں لگا کہ وہ آپ کا پیچھا کریں گے اور آپ کو کمیونسٹ عقیدہ چھوڑنے پر مجرم ٹھہرائیں گے ۔آپ کو اپنا پرانا خدا مارکس یاد ہے؟ جس کا کہنا ہے کہ مذہب روحانی افیم ہے ۔”

ہان کی ماں نے کوئی جواب نہیں دیا ،اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں میں پڑ گئے ۔اور وہ مایوس دکھائی دینے لگی ۔

پیلی ٹیکسی داخل ہوئی ،ہان نے ماں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے میں مدد دی ۔

“ آپ کا بیٹا بہت اچھا ہے ۔” ٹیکسی ڈرائیور نے ماں سے اس کے بیٹے کی تعریف کی ۔ماں نے جوابا” کہا ،” بلکل یہ بہت اچھا بیٹا ہے ۔”

گھر پہنچ کر رات کو جب لمبے سفر کی تھکان کی وجہ سے اسے نیند نہیں آ رہی تھی تو وہ خاموشی سے گھر سے نکل کر نزدیکی انٹر نیٹ کیفے چلا گیا ۔اس نے بہت سارے چیٹ رومز سے رابطے کی کوشش کی ،جن کے ساتھ امریکہ میں وہ اپنی اکثر شامیں گزارتا تھا ۔جہاں وہ مختلف لوگوں کے ساتھ فلرٹ کرتا ۔مختلف آئی ڈی کے ساتھ جو اس نے بنا رکھی تھیں لوگوں سے بات چیت کرتا ۔لیکن اس شام اس کی کسی سے بات نہ ہو سکی ۔تب اسے احساس ہو گیا کہ چین میں انٹرنیٹ پولیس نے یہ تمام سائٹس بند کی ہوئی ہیں ۔اس وقت امریکہ میں دن ہے اور لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں ۔ہان مزید کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا اور جو سائٹس کھل رہی تھیں وہ چیک کرتا رہا ۔ اسے ماں کو پریشان کرنے پر افسوس ہو رہا تھا ۔اگرچہ ماں نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناخوشگوار بات ہوئی ہے ۔ ماں نے اس کے گھر آنے کی خوشی میں بہت سارے کھانے بناۓ ۔اس نے اگلے دن چرچ جانے کی بھی بات نہیں کی ۔ہان نے بھی دوبارہ سونے کی صلیب کی بات نہیں کی جسے اس نے اپنے سوٹ کیس

میں ڈال دیا تھا ۔

ہان اس بات پر ہر گز حیران نہیں ہوا کہ اس کی ماں اتنی دیندار ہو گئی ہے ۔باپ کے مرنے کے بعد وہ اسے جتنے خط لکھتی رہی ان میں وہ اسے اپنے نئے دریافت شدہ عقیدے کے بارے میں بتاتی رہی تھی ۔جو بات اس کے لئے پریشان کن تھی وہ یہ تھی کہ اگر ابھی بھی اس کا باپ زندہ ہوتا تو وہ چرچ جانے کا نہ سوچتی ۔ اس کا باپ اسے ہرگز اجازت نہ دیتا کہ وہ چاہے کوئی آدمی ہو یا خدا کسی کو بھی زرا سی بھی توجہ دے ۔اس کا باپ ،جتنی ماں توجہ دے سکتی تھی اس سے زیادہ کا تقاضہ کرتا تھا ۔ باپ کی موت اس کی ماں کے لئے تھوڑے سے سکون کا باعث ہونی چاہیے تھی ۔اسے اب زندگی سے اپنی مرضی کا لطف اٹھانا چاہیے تھا ۔ نہ کہ وہ نئی قسم کی بیڑیاں پہن لیتی ۔ پتہ نہیں وہ کس قسم کے چرچ میں جاتی ہے ۔کس خدا کی عبادت کرتی ہے ۔ہان کو یاد تھا کہ اس نے نیویارک ٹائمز میں چین میں زیر زمین گرجا گھروں کے بارے میں رپورٹ پڑھی تھی ۔اس نے وہ آرٹیکل ڈھونڈ کر ماں کے لئے اس کا ترجمہ کرنے کا ارادہ کر لیا ۔اس نے سوچا اگر وہ عیسائی بننا چاہتی ہے تو اسے صحیح خدا پر ایمان لانا چاہیے ۔ اسے ان لوگوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جو اپنے عقیدے کے لئے اپنی زندگیوں اور آزادی کی قربانی دیتے ہیں ۔ ہان کو اس رپورٹ کی تصویریں یاد تھیں جن میں اسے معتقدین کا پرسکون اور بے خوف ہو کر رپورٹر کے کیمرے کو کنکھیوں سے دیکھنا یاد تھا ۔ ہان ہر اس شخص کی جو کسی بھی وجہ سے زیر زمین جیسے کہ وہ خود ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے زندگی گزارتا تھا ،عزت کرتا تھا ۔

لیکن نیویارک ٹائمز کی ویب سائیٹ بند تھی ۔ تب وہ آرٹیکل میں بتاۓ گئے مذہبی مدارس اور تنظیموں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا ۔جلد ہی اس نے ایک اونچا قہقہ لگایا جب اسے چینی عیسائی حب الوطن تنظیموں کے بارے میں رپورٹ ملنی شروع ہو گئی ، جو حکومتی لائسنس یافتہ گرجا گھروں کی سرکاری نمائندہ ہیں ۔ان تنظیموں کا مقصد نئے ہزارئیے میں کمیونسٹ ترقی کے تازہ ترین نظریات میں عیسائی تعلیمات کے کردار پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔

دو گھنٹے کی نیند کے بعد ہان جاگ گیا اور پرنٹڈ آرٹیکل اپنی جیب میں پا کر خوش ہوا ۔کالے ہند سے سفید کاغذ پر ۔وہ باپ کی سٹڈی میں گیا ،اس کی ماں ڈیسک کے سامنے بیٹھی تھی ۔اس نے اپنی عینکوں کے پیچھے سے اوپر دیکھا اور پوچھا ،کیا تم اچھی نیند سوۓ؟۔

“جی”

“میں نے ناشتہ تیار کر لیا ہے ۔” یہ کہتے ہوے جو کتابچہ وہ پڑھ رہی تھی ،نیچے رکھ دیا ۔ہان نے اسے اٹھا لیا ،اس کے کچھ صفحے پڑھے اور پھر اسے ڈیسک پر ماں کی طرف پھینک دیا ۔ اس میں چین کی پچھلی صدی کے معتقدین کی مختلف نسلوں کی شاعری تھی ۔

“ میں جانتی ہوں تم امریکہ میں بہت مصروف ہوتے ہو ،لیکن اگر تم کچھ وقت نکال سکو تو میرے پاس تمہارے پڑھنے کے لئے بہت اچھی کتابیں ہیں ۔” ماں نے اسے بتایا ۔

ہان جواب دیے بغیر کچن میں چلا گیا ۔اس نے پچھلے دس سالوں میں گلیوں میں کھڑے لوگوں سے بہت سارے کتابچے بہت ساری جیبی بائیبلز وصول کی تھیں ۔وہ شاپنگ سینٹر کی پارکنگ میں کورین خواتین کی تبلیغ بھی سن لیتا ۔لوکل چرچ کی دعوت پر ان کے ساتھ تفریح پر بھی چلا جاتا ۔جب چرچ کے لوگ اسے عیسائی مذہب اختیار کرنے کی ترغیب میں کافی وقت گزارتے تب بھی وہ انہیں منع نہ کرتا ۔وہ ان سب لوگوں کی پیدا کردہ تکلیف سے کبھی پریشان نہ ہوتا ۔ایک دفعہ اسے فاسٹ فوڈ کے باہر ایک پختہ عمر کی عورت نے روک لیا ۔اس کے دونوں ہاتھ اصرار کر کے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور اس کی روح کے لئیے دعا کرنے لگی ۔وہ سنتا رہا اور ٹریفک اہلکار کو اپنے زائد المیعاد میٹر کے لئے ٹکٹ لکھتے دیکھتا رہا ۔لیکن اس نے احتجاج نہیں کیا ۔ ہان کو ان لوگوں سے جان چھڑانا پسند نہیں تھا ۔ لیکن جب کبھی وہ انہیں سڑک پر کھڑے دیکھتا ،جنہوں نے ہاتھ سے بناۓ نشانات جن سے گنہگاروں کی جن میں ہم جنس پرست بھی شامل تھے ،کے زریعے مذمت کی گئی ہوتی تھی ،تو وہ ان کے منہ پر ہنسے بغیر نہ رہ سکتا ۔ان لوگوں سے جو اسے پسند یا ناپسند اپنی اپنی وجوھات کے باعث کرتے تھے جس کا علم اسے نہیں تھا ،وہ محظوظ ہوتا ۔لیکن یہ سب اس لئے تھا کہ ان لوگوں سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا ۔ان کا جذبہ اس کے لئے کسی طرح بھی نقصان دہ نہیں تھا ،لیکن وہ ماں کو بھی انہی لوگوں میں شمار کرتے ہوے چڑ چڑا ہو جاتا تھا ۔

ماں اس کے پیچھے کچن میں آ گئی ،” تم کسی بھی وقت بائیبل پڑھنا شروع کر سکتے ہو ۔” یہ کہتے ہوۓ اس نے بھاپ اڑاتے دلیئے کا پیالہ ہان کے سامنے رکھ دیا ۔” جامنی چاول کا دلیہ ،تمہارا پسندیدہ “۔

“ شکریہ ،ماما۔”

“ یہ تمہارے لیے اچھا ہے “۔ ہان بلکل سمجھ نہ سکا کہ وہ کھانے کے لئے کہہ رہی ہیں یا بائیبل کے لئے ۔ ماں میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی ۔اسے کھاتے دیکھنے لگی ۔ پھر بولی ۔

“ میں نے بہت سارے لوگوں سے بات کی ،کچھ نے پہلے پہل میرا یقین نہیں کیا لیکن بعد میں میرے ساتھ چرچ جانے اور بائیبل پڑھنے کے بعد ان کی زندگیاں بدل گئیں ۔“

“ میری زندگی بلکل ٹھیک ہے مجھے کوئی تبدیلی نہیں چاہیے ۔” ہان بڑبڑایا ۔

“ سچائی جاننے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ،سچائی کا دیر سے پتہ چلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کنفیوشس کا قول ہے ،اگر ایک شخص صبح کے وقت سچ جان لیتا ہے تو شام کو وہ بغیر تاسف کے مر سکتا ہے ۔” مان نے سمجھایا ۔

“ کنفیوشس نے یہ بھی کہا ہے ،کہ جب کوئی پچاس سال کا ہو جاتا ہے تو اسے دنیا دھوکہ نہیں دے سکتی ،ماما، آپ ساٹھ کی ہو چکیں اور آپ اب بھی دنیا سے دھوکہ کھا رہی ہیں ۔کیا آپ کا کمیونسٹ عقیدہ کافی نہیں تھا ۔” ہان نے بحث آگے بڑھاتے ہوے کہا ۔” ادھر دیکھیں ،ماما، میں نے یہ پیارا سا پیغام آپ کے لئے پرنٹ کیا ہے ،اسے آپ خود پڑھیں جس چرچ میں آپ جاتی ہیں ۔جس خدا کی آپ بات کرتی ہیں یہ آپ جیسے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے بناۓ گئے ہیں ۔ کیا آپ نہیں جانتی کہ تمام سرکاری لائسنس یافتہ چرچ کمیونسٹ پارٹی کو اپنا راہنما تسلیم کرتے ہیں ؟ ہو سکتا ہے ایک دن آپ اسی پرانے نتیجے پر پہنچ جائیں کہ خدا اور مارکس ایک جیسے ہیں ۔ “

اس کی ماں نے اس سے وہ پرچہ لے لیا ۔وہ حیران نہیں ہوئی تھی ،نہ ہی نا امید ۔ اسے پڑھ لینے کے بعد اس نے اسے ڈیسک کے ساتھ پڑی کوڑے کی ٹوکری میں احتیاط سے ڈال دیا اور بولی ،” کوئی بھی بادل سورج کی روشنی کو ہمیشہ کے لئے نہیں چھپا سکتا ۔”

“ ماما میں گھر آپ کی تبلیغ سننے نہیں آیا ۔میں دس سال امریکہ میں رہا ،بہت سے لوگوں نے میرا عقیدہ بدلنے کی کوشش کی ۔لیکن میں اس وقت وہی ہان آپ کے سامنے بیٹھا ہوں جو دس سال پہلے تھا ،اس سے آپ کیا سمجھتی ہیں ؟ “

“ لیکن تم میرے بیٹے ہو ،اگر وہ ناکام ہو گئے تو بھی مجھے تمہاری مدد کرنی ہے ۔”

“ آپ پہلے میری مدد کر سکتی تھیں ۔یاد ہے آپ نے میری بائیبل جلا دی تھی ۔” ہان نے ماں کو یاد دلایا اور ساتھ ہی ماں کا منجمد ہوتا جسم دیکھا ۔ وہ جانتا تھا کہ ماں واقعی بھول چکی ہے ۔جب وہ تیرہ سال کا تھا تو اس کے بہترین دوست نے وہ بائیبل اسے تحفتہ” دی تھی ۔وہ بغیر کسی جذبے کو پہچانے آپس میں محبت کرتے تھے ۔ اس وقت وہ معصوم بچے تھے ۔انہوں نے کبھی ایک دوسرے کو چھوا نہیں ۔ہان نہیں جانتا تھا کہ اس بچے نے بائیبل کہاں سے اور کیسے حاصل کی ،لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ وہ اسے زندگی میں ملنے والے تحفوں میں سے سب سے قیمتی تحفہ تھا ۔ اسے ایسے ہی رہنا چاہیے تھا ۔وہ زندگی میں جہاں کہیں جاتا اپنے ساتھ لے کر جاتا ،محبت کی پہلی نشانی کے طور پر ۔ لیکن اس کی ماں نے اسے جلا ڈالا تھا اور اس کی راکھ ٹوائلٹ میں بہا دی تھی ۔ماں جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ سکول کے بعد دوست کے ساتھ مل کر گھنٹوں بائیبل کا مطالعہ کرتا تھا ۔ اس کتاب میں وہ بہشت ڈھونڈتے جب کہ ان کے سکول کے ساتھی کمیونسٹ یوتھ لیگ میں شامل ہونے کے لئے مقابلے میں لگے ہوتے ۔دونوں دوستوں کو بائیبل کی کہانیاں اچھی لگتی تھیں ۔ کتاب کی ضخامت ان کی پریشانیوں کو بہت چھوٹا کر دیتی تھی ۔جب ان کے ہم جماعت ان پر سیاسی سرگرمیوں سے لا تعلقی پرتنقید کرتے تو وہ دل ہی دل میں ان پر ہنستے ۔دونوں یہ جانتے تھے کہ بائیبل کی وجہ سے وہ ایک مختلف بہت بڑی دنیا سے منسلک ہیں ۔

بائیبل کی موجودگی کا اس کے باپ کو علم ہو گیا تھا اور پھر ماں نے جلا دی تھی ۔ اس کے بعد ہان اپنے دوست کا سامنا نہیں کر سکا ۔ وہ اس سے دور ہونے کے بہانے بنانے لگا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ پڑتا ۔اس کے بعد ان کی دوستی اور محبت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی ۔اس دوستی نے ویسے بھی ختم ہو جانا تھا ۔پہلی محبت جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا ،لیکن جس انداز سے وہ ختم ہوئی اس کے لئے وہ اپنے آپ کو الزام دیتا تھا ۔

“ یاد کریں ،آپ نے بائیبل جلائی تھی ۔” ہان نے پھر یاد دلایا ۔

ماں نے جواب دینے کےلئے الفاظ ڈھونڈتے ہوۓ کہا ۔” بابا نے کہا تھا کہ اسے رکھنا درست نہیں ہے ۔پھر وہ مختلف وقت تھا ۔”

“ ہاں ،مختلف وقت تھا ، کیوںکہ اس وقت بابا کا حکم چلتا تھا اور اس وقت آپ دونوں کمیونسٹ خدا کی پرستش کرتے تھے ۔ اب بابا جا چکے ہیں اورآپ کو نیا خدا مل گیا ہے ۔” ہان نے مذید کہا ۔ “ ماما، آپ اپنے دماغ سے کیوں نہیں سوچ سکتیں ۔؟ “

“ میں سیکھ رہی ہوں ،یہ میرا اپنا پہلا فیصلہ ہے ۔جو میں نے خود کیا ہے ۔”

ہان ماں کے غلط فیصلے پر ہمدردی اور صبر کرتے ہوے مسکرا دیا ۔ بعد میں جب ماں نے اسے اپنے ساتھ چرچ جانے کی تجویز دی تو ہان نے بس میں اس کے ساتھ چرچ تک جانے کی ہامی بھر لی ۔ چرچ میں جا کر سننے میں کوئی حرج تو نہیں ماں نے مشورہ دیا لیکن ہان نے صرف سر ہلا دیا ۔

ویسٹ ہال گرجا گھر جس کے سامنے سے موٹر سائیکل پر ہان سالوں پہلے سکول جاتے ہوے گزرتا تھا ویسا ہی تھا ۔زنگ آلود لوہے کے جنگلے کے اندر سرمئی رنگ کی غیر واضح سی عمارت وہی تھی لیکن ارد گرد کی گلیاں گرا کر بڑے بڑے خریداری مراکز بنا دئیے گئے تھے ۔ان کی وجہ سے چرچ اپنی نمایاں شناخت کھو کر بونا سا لگتا تھا ۔ ہر عمر کے لوگ ایک دوسرے کے آگے خوش اخلاقی سے سر جھکاتے ہوۓ چرچ میں داخل ہو رہے تھے ۔ ہان حیرانی سے سوچ رہا تھا کہ کیسے یہ لوگ غلط ہاتھوں میں اپنا ایمان رکھ رہے ہیں ۔

داخلی دروازے سے کچھ قدم دور ماں رک گئی اور ہان سے پوچھا ،” کیا تم میرے ساتھ اندر چلو گے ؟ “

“ نہیں ،میں سٹار بکس میں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں گا “

“ سٹار بکس؟ “

“ ادھر کافی شاپ میں ۔” ماں نےاونچا ہو کر ادھر دیکھا ۔بے شک اسے پہلی بار کافی شاپ کی موجودگی کا پتہ چلا ۔ ہان نے ماں کو اندر جانے کا کہا ۔

“ ایک منٹ “ یہ کہتے ہوے ماں نے اردگرد نظر دوڑائی ،جلد ہی دو چھوٹے بھکاری ،ایک لڑکا اور ایک لڑکی دوڑتے ہوے سڑک پار کر کے ان کے پاس پہنچے ۔دونوں بہن بھائی لگتے تھے ۔دونوں پھٹے پرانے کپڑوں میں تھے ۔ہاتھ اور چہرے گرد آلود تھے ۔لڑکا سات یا آٹھ سال کا تھا ۔اس نے جب ہان کو دیکھا ،تو ایک ہاتھ اس کی طرف پھیلاتے ہوے بولا ،” انکل مدد کریں ،ہمارا باپ بھاری قرضہ چھوڑ کر مرا ہے ۔ہماری ماں بیمار ہے ،مہربانی کریں اور کچھ مدد کر دیں ،ہمیں ماں کو ہسپتال میں رقم بھیجنی ہے ۔

لڑکی جو اس لڑکے سے کچھ سال چھوٹی تھی وہی کچھ دہرا رہی تھی ۔ہان نے لڑکے کو دیکھا ۔لڑکے کی آنکھوں میں چالاکی کے تاثرات تھے ۔جن سے ہان بے چینی محسوس کرنے لگا ۔وہ سمجھ گیا کہ یہ بچے بھیک مانگنے کی ملازمت میں ہیں ۔ اگر والدین نہیں تو رشتہ داروں یا ہمسایوں کی طرف سے ۔کوئی نہ کوئی عمر رسیدہ شخص دور کسی کونے میں کھڑا ان کی نگرانی کر رہا ہو گا ۔ ہان نے انکار میں سر ہلایا ۔اس کے پاس ایسے بچوں کو دینے کے لئے رقم نہیں تھی ۔اپنی پچھلی تعطیلات کے دوران اس کی ایسے بچوں کے ساتھ باقاعدہ لڑائی ہو گئی تھی ۔ان بچوں نے اس کی ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ لی تھیں اور پیسے لئے بغیر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ہان کنجوس نہیں تھا ۔امریکہ میں وہ سڑک کنارے کھڑے موسیقی سنانے والوں کو سالم ڈالر کا نوٹ دے دیتا تھا ۔چھوٹی ریزگاری ان بے گھر لوگوں کو دیتا جو سارا دن ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے تھے ،اس لئے کہ ہان کے مطابق وہ ایماندار اور مستحق لوگ تھے ۔لیکن بچوں سے مزدوری کروانا اسے تسلیم نہیں تھا ۔اس لئے جو ایسا کرتے تھے مستحق نہیں تھے ۔ہان نے بچے کا ہاتھ جھٹک کر پرے کیا اور کہا ،” جاؤ یہاں سے ۔”

“ انکل کو تنگ مت کرو “۔ ماں نے بچوں سے کہا تو انہوں نے فورا” اپنا راگ الاپنا بند کر دیا ۔ماں نے اپنے بٹوے میں سے دو بڑے نوٹ نکالے اور ایک ایک دونوں کو دیتے ہوے کہا ۔” اب گرینی کے ساتھ آؤ ۔” بچوں نے رقم حفاظت سے رکھی اور ماں کے ساتھ چرچ کی طرف چل پڑے ۔

“ ایک منٹ رکو ، ماما ۔” ہان نے ماں کو پکارا ،” آپ ہر ہفتے ان کو اپنے ساتھ چرچ لے جانے کے لئے رقم دیتی ہیں ؟”

ماں نے جواب دیا ،” یہ ان کے فائدے کے لئے ہے ۔”

“ لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ “ یہ کہتے ہوے اس نے بہت سارے نوٹ نکالے اور لڑکے سے کہا ،سنو! اگر تم گرینی کی رقم واپس کردو اور آج چرچ بھی نہ جاؤ تو میں تمہیں دگنے پیسے دوں گا ۔

“ ہان! “

“ رکو، ماما! ایک لفظ نہیں بولنا ۔” پھر وہ اکڑوں بیٹھ گیا ،اور بچوں کے سامنے نوٹ الٹنے پلٹنے لگا ۔لڑکی نے لڑکے کی طرف دیکھا ۔لڑکے نے ہان کی ماں کی طرف ایک لمحے کے لئے دیکھا اور پھر رقم کی طرف دیکھا ۔لڑکے کی آنکھوں میں مکاری اور حساب کتاب کی چمک سے ہان مشتعل ہو گیا ۔اس نے سوچا کیسے اس کی ماں اتنے چھوٹے بچوں سے دھوکہ کھا جاتی ہے ۔ اس نے مسکراتے ہوے لڑکے کو ترغیب دلائی ۔” آ جاؤ “ کچھ سیکنڈوں بعد لڑکے نے ہان کی رقم وصول کر تے ہوے لڑکی کے ہاتھ سے بھی نوٹ واپس لیا اور دونوں نوٹ ہان کی ماں کو واپس کر دئیے ۔

“ بہت اچھے ،اب تم جا سکتے ہو ۔”

بچے وہاں سے چلے گئے ۔فٹ ہاتھ پر مزید لوگوں کو روکتے رہے اور وہی فقرے دہرا کر بھیک مانگتے رہے ۔اب ہان مسکراتے ہوے ماں کی طرف مڑا اور کہا ،” اس سے کیا پتہ چلا، ماما ؟ کہ ان کے لئے صرف پیسے اہم ہیں ۔”

“ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ “ ماں نے پوچھا ۔

“ مجھے آپ کی حفاظت کرنی تھی “ ۔

“ مجھے تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں ۔”

“ آپ یہ کہہ سکتی ہیں ماما ،لیکن سچ یہی ہے کہ آپ کی حفاظت میرا فرض ہے ۔ “

“ تمہیں سچائی کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ۔” یہ کہتے ہوے ہان کی ماں چرچ میں داخل ہو گئی ۔

ہان نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ وہ ماں کے الفاظ سے پریشان نہیں ہوا ،لیکن پھر بھی وہ دُکھی تھا ۔وہ اپنی ماں کا بیٹا ہے ۔جس لڑکے نے اس سے پیسے لئے وہ بھی بیٹا ہے ۔لیکن ایک دن اس نے خاوند بننا ہے ،باپ بننا ہے ۔ہو سکتا ہے وہ اپنے بچوں کو بھیک مانگنے بھیجے ،ہو سکتا ہے وہ انہیں بہتر زندگی دے سکے ۔لیکن ہان نے کبھی بھی باپ نہیں بننا ۔اس نے سوچا ،دنیا ہمیشہ اسے کسی کے بیٹے کی حیثیت سے یاد رکھے گی ۔بہت کم مرد ساری زندگی بیٹے رہتے ہیں ۔لیکن یسوع مسیح بھی صرف بیٹا ہی ہے ۔زمہ داریوں کے ساتھ بیٹا ہونا بہت مشکل ہے ۔اس سوچ کے ساتھ ہان کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی ۔

کیا اس کا کوئی حق بھی ہے ؟ ۔ اس کا حق ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر زندگی گزارے ۔وہ کام کرتا ہے ۔اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے ۔کچھ مہینوں کی جدوجہد کے بعد دوبارہ کام مل جاتا ہے ۔وہ اپنا کرایہ ادا کرتا ہے ۔ہمسایوں سے ملتا ہے ۔جم جاتا ہے ۔خبریں دیکھتا ہے ۔لیکن ریئیلٹی شوز نہیں دیکھتا .وہ چین میں دیہاتی علاقے میں ایک بچی کے تعلیمی اور زندگی کے باقی اخراجات کے لئے باقاعدگی سے چیک بھیجتا ہے ۔ کبھی کبھار مشت زنی کرتا ہے ۔وہ طویل المیعاد رشتوں پر یقین نہیں رکھتا ۔لیکن کبھی کبھار وہ مقامی بار میں مردوں سے ملتا ہے اور ان کے ساتھ جسمانی لطف اٹھاتا ہے ۔کچھ مردوں کے ساتھ فلرٹ کرتا ہے ۔نیٹ پر وہ بے چہرہ رہتا ہے ۔وہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے ۔وہ ہر سال اسے دو ہزار ڈالر بھیجتا ہے ،اگرچہ وہ اسے بہت دفعہ کہہ چکی ہے کہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں ۔لیکن وہ پھر بھی پیسے بھیجتا ہے ۔کیونکہ وہ اس کا بیٹا ہے ۔ماں کی حفاظت اور اس کے اخراجات اٹھانا اس کا فرض ہے ۔جس طرح ماں نے اس کے بچپن میں اس کی حفاظت کی اور اسے پالا پوسا ۔ وہ اپنی چھٹیاں بچاتا رہتاہے تاکہ گھر آکر اس کے ساتھ وقت گزار سکے ۔لیکن جب وہ اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دن گزرنے کے بعد ہی ایک دوسرے کو دکھ پہنچانا شروع کر دیتے ہیں ۔

ہان سڑک پار کر کے کافی شاپ پہنچ گیا ۔وہ تھکاوٹ اور افسردگی محسوس کر رہا تھا ۔لیکن اس میں اس کا نہیں بلکہ ماں کا قصور تھا ۔وہی اسے ناخوش کرتی ہے ۔اور وہ اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔کافی شاپ سے کچھ ہی دور پکی سڑک پر اچانک بریک لگنے پر ٹائروں کی تیز چرچراہٹ سنائی دی ۔ ہان نے مڑ کر دیکھا ۔لوگ ایک کار کی طرف دوڑے جا رہے تھے ،جہاں پہلے ہی ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا ۔لوگ چلا رہے تھے ،ایک بچہ گاڑی کے نیچے آ گیا ہے ۔ کچھ اپنے سیل فون پر ایمرجینسی کا نمبر ملانے لگے ۔ کچھ اپنے دوستوں اور فیملی کو حادثے کا آنکھوں دیکھا حال سنانے لگے ۔ اتنے میں ایک پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص ہجوم کی طرف بھاگا ۔ “ میرا بچہ “ وہ چلا رہا تھا ۔ ہان پہلے تو ٹھٹھر کر ساکت ہو گیا ،پھر اس نے چلنا شروع کر دیا ۔وہ اس شخص کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔وہ ضرور ایک دو عمارتیں پرے کسی ساۓ میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا ۔ اور اب سوگوار والدین کی طرح رو رہا تھا ۔وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہتا تھا کہ حادثہ اس پیاری آواز والی لڑکی کے ساتھ پیش آیا تھا یا پھر چالاکی بھری آنکھوں والے لڑکے کے ساتھ ۔ اس شہر میں روزانہ ٹریفک حادثات ہوتے ہیں ۔لوگ ڈرائیونگ لائسنس رشوت دے کر حاصل کر لیتے ہیں ۔یا پھر بلیک مارکیٹ سے خرید لیتے ہیں ۔کاریں پیدل چلنے والوں کی پرواہ نہیں کرتیں ،پیدل چلنے والے دوڑتی گاڑیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے ۔ پتہ نہیں کیسے ہان کو یقین تھا کہ وہ لڑکا ہی تھا ۔ لڑکا ہی ہونا چاہیے ۔کہ وہ ہر اس شخص کو دھوکہ دینے کے لئے تیار تھا جو دھوکہ کھانا چاہے ۔ہان نے سوچا لڑکا بیٹا ہی رہے گا کبھی باپ نہیں بنے گا ۔ہجوم اسے بھول جاۓ گا ۔اس کا خون سڑک سے صاف کر دیا جاۓ گا ۔ اس کی بہن کچھ عرصہ اسے یاد رکھے گی پھر بھول جاۓ گی ۔ وہ صرف ہان کی یادداشت میں زندہ رہے گا ۔

ہان کافی شاپ میں کھڑکی کے سامنے بیٹھ گیا ۔اور ماں کا انتظار کرنے لگا ۔ بلآخر جب وہ چرچ سے باہر نکلی تب تک سڑک کو صاف کر دیا گیا تھا ۔حادثے کا کوئی نشان باقی نہیں بچا تھا۔ہان ماں سے ملنے باہر نکلا ۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔سڑک پار سے ماں اسے دیکھ کر مسکرائی ۔اس کی آنکھوں میں آمید بھری مسکراہٹ تھی ۔ہان جانتا تھا کہ دو گھنٹے پہلے ان کے درمیان ہونے والا ناخوشگوار واقعہ وہ بھول چکی تھی ۔ وہ اسے ہمیشہ معاف کر سکتی تھی ۔کیونکہ وہ اس کا بیٹا تھا ۔اسی وجہ سے وہ کبھی بھی اس کی روح کی حفاظت سے باز نہیں آئے گی ۔ لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے معاف کیا جاۓ ۔وہ ماں کا سڑک پار کر کے اس تک پہنچنے کا انتظار کرتا رہا ۔پھر اس کی طرف دیکھے بغیر اسے مخاطب کیا ۔ “ ماما، میں نے آپ کو کچھ بتانا ہے ۔ میں کبھی شادی نہیں کر سکتا ۔۔میں صرف مردوں کو پسند کرتا ہوں ۔”

ہان کی ماں خاموش رہی ۔ ہان نے مسکرا کر پوچھا ،” صدمہ پہنچا ؟ بابا اگر زندہ ہوتے تو یہ جان کر کیا کہتے ۔؟ قابل نفرت ،یہی کہتے نا، “

طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ۔ “ مجھے شک ہو گیا تھا ،اسی لئے اس دفعہ میں نے تمہارے لئے کوئی لڑکی نہیں ڈھونڈی ۔”

“تو آپ کیا سوچتی ہیں؟ ،میں برباد ہو گیا ۔ جب ہم رد انقلابیوں کے بارے میں کہتے تھے ——بدبودار —سخت اور ناقابل تبدیل ،گھر کے باہر گڑھے میں پڑی چٹان کی طرح ، میں بھی ان میں سے ہوں “ ۔

“ میں ایسا نہیں کہہ سکتی ۔”

“ مان لو ،ماما ،میں برباد ہو گیا ۔جو بھی آپ کا خدا ہے ،وہ مجھ جیسوں کو پسند نہیں کرے گا ۔”

“ تم غلط ہو ۔” ہان کی ماں نے جواب دیا ۔پھر اپنے پنجوں کے بل کھڑی ہوئی ۔اس کے سر کو چھوا جیسے بچپن میں جب وہ کوئی غلطی کرتا تھا تو چھوتی تھی اسے یہ یقین دلانے کے لئے کہ وہ ابھی بھی اچھا لڑکا ہے ۔

“ خدا آپ سے محبت کرتا ہے ،آپ جیسے بھی ہیں ۔اسے آپ سے دوسروں کی توقعات سے کوئی غرض نہیں ۔خدا ہر چیز دیکھتا ہے اور سب کچھ سمجھتا ہے “

“بے شک ،ہان نے مذاق کرنا چاہا کہ خدا چینی والدین کی طرح ہے جن کے پاس بیٹوں سے محبت کے لئے کوئی نہ کوئی جواز ہر وقت موجود رہتا ہے ۔لیکن جب اس نے ماں کے چہرے کو دیکھا تو خاموش ہو گیا ۔ماں کی آنکھیں اتنی پرامید اور پر جوش تھیں کہ اسے اپنی آنکھیں چرانی پڑ گئیں ۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024