اسنی بدر کی نظمیں
اسنی بدر کی نظمیں
Mar 22, 2018
میں اب خوبصورت نہیں ...
دیدبان شمارہ۔۷
میں اب خوبصورت نہیں
اسنی بدر
________________
اب زمانے کو میری ضرورت نہیں؟
کیونکہ میں اب بہت خوبصورت نہیں؟؟
میں نے مانا کہ بجھنے لگی روشنی
میں نے ماناکہ کچھ پل کو ہےچاندنی
وہ جو نارنجی بادل ادھر کو مڑے
میرے چہرے کے سب رنگ ہی لے اڑے
آسماں پر جو یہ چاند بن کر سجا
میرے ماتھے کا ہے کوئی زیورسجا
یہ جوسبزہ ہے جنگل میں چھایا ہوا
میرے ملبوس سے ہے چرایا ہوا
یہ جومنہ زور لہریں سمندر میں ہیں
انکی ضد، ان کے غمزے میرے سر میں ہیں
ہر پرندہ ہے محسن میرے ساز کا
قرض کویل پہ ہے میری آواز کا
پھل میرے ہی تبسم سے شیریں ہوئے
پھول میرے تکلم سے افشیں ہوئے
ننھے بچوں کی سادہ دلی مجھ سے ہے
کم سنوں کو ملی تازگی مجھ سے ہے
عشق کی داستانیں ہیں میرے سبب
شاعری اور فسانے ہیں میرے سبب
!اب زمانے کو میری ضرورت نہیں
!!کیونکہ میں اب بہت خوبصورت نہیں
________________________
اسنیٰ بدر
یہ چاہا تھا
کہ میں ان عورتوں پر کچھ نہ کچھ لکھوں
جو اپنے شہر کے اچھے گھرانوں میں
کہیں روٹی پکاتی ہیں
کہیں جھاڑو لگاتی ہیں
جو باسی روٹیوں کو رات کی سبزی سے کھاتی ہیں
جو تھک کر گھر کے دروازوں سے ٹک کر بیٹھ جاتی ہیں
جو ساری عمر اترن پہن کر تن کو چھپاتی ہیں
وہ جن کے بد زبان بچے
یونہی گلیوں میں پھرتے ہیں
پتنگوں کے لیے مانجھا بناتے ہیں
دوپٹے رنگتے ہیں اور ستاروں سے سجاتے ہیں
یہ چاہا تھا
کہ میں ان عورتوں پر کچھ نہ کچھ لکھوں
وہ جن کے مرد
سستے خمر میں ڈوبے
مہینے بھر کی محنت لڑجھگڑ کرچھین لیتے ہیں
انہیں ہر سال اک انعام دیتے ہیں
وہ میلی عورتیں
جن کی چمکتی مالکن
صوفے پہ بیٹھی فون کرتی ہے
کسی تصویر کی عریانیت میں رنگ بھرتی ہے
فلاحی محفلوں میں آنے جانے کو سنورتی ہےیہ چاہا تھا
مگر میں نے
کبھی ان عورتوں پر کچھ نہیں لکھا
قلم جب جب اٹھایا
بس مجھے اسکول کے بچے نظرآئے
کہیں سرسبز موسم ،پھول اور پتے نظرآئے
کہیں کچھ خوبصورت پرکشش چہرے نظرآئے
میرے اندر
کوئی ہے جو مجھے مجھ سے رہائی ہی نہیں دیتا
اک ایسا شور
جس میں کچھ سنائی ہی نہیں دیتا
بصیرت مل گئی جب سے دکھائی ہی نہیں دیتا
________
اسنیٰ بدر
دیدبان شمارہ۔۷
میں اب خوبصورت نہیں
اسنی بدر
________________
اب زمانے کو میری ضرورت نہیں؟
کیونکہ میں اب بہت خوبصورت نہیں؟؟
میں نے مانا کہ بجھنے لگی روشنی
میں نے ماناکہ کچھ پل کو ہےچاندنی
وہ جو نارنجی بادل ادھر کو مڑے
میرے چہرے کے سب رنگ ہی لے اڑے
آسماں پر جو یہ چاند بن کر سجا
میرے ماتھے کا ہے کوئی زیورسجا
یہ جوسبزہ ہے جنگل میں چھایا ہوا
میرے ملبوس سے ہے چرایا ہوا
یہ جومنہ زور لہریں سمندر میں ہیں
انکی ضد، ان کے غمزے میرے سر میں ہیں
ہر پرندہ ہے محسن میرے ساز کا
قرض کویل پہ ہے میری آواز کا
پھل میرے ہی تبسم سے شیریں ہوئے
پھول میرے تکلم سے افشیں ہوئے
ننھے بچوں کی سادہ دلی مجھ سے ہے
کم سنوں کو ملی تازگی مجھ سے ہے
عشق کی داستانیں ہیں میرے سبب
شاعری اور فسانے ہیں میرے سبب
!اب زمانے کو میری ضرورت نہیں
!!کیونکہ میں اب بہت خوبصورت نہیں
________________________
اسنیٰ بدر
یہ چاہا تھا
کہ میں ان عورتوں پر کچھ نہ کچھ لکھوں
جو اپنے شہر کے اچھے گھرانوں میں
کہیں روٹی پکاتی ہیں
کہیں جھاڑو لگاتی ہیں
جو باسی روٹیوں کو رات کی سبزی سے کھاتی ہیں
جو تھک کر گھر کے دروازوں سے ٹک کر بیٹھ جاتی ہیں
جو ساری عمر اترن پہن کر تن کو چھپاتی ہیں
وہ جن کے بد زبان بچے
یونہی گلیوں میں پھرتے ہیں
پتنگوں کے لیے مانجھا بناتے ہیں
دوپٹے رنگتے ہیں اور ستاروں سے سجاتے ہیں
یہ چاہا تھا
کہ میں ان عورتوں پر کچھ نہ کچھ لکھوں
وہ جن کے مرد
سستے خمر میں ڈوبے
مہینے بھر کی محنت لڑجھگڑ کرچھین لیتے ہیں
انہیں ہر سال اک انعام دیتے ہیں
وہ میلی عورتیں
جن کی چمکتی مالکن
صوفے پہ بیٹھی فون کرتی ہے
کسی تصویر کی عریانیت میں رنگ بھرتی ہے
فلاحی محفلوں میں آنے جانے کو سنورتی ہےیہ چاہا تھا
مگر میں نے
کبھی ان عورتوں پر کچھ نہیں لکھا
قلم جب جب اٹھایا
بس مجھے اسکول کے بچے نظرآئے
کہیں سرسبز موسم ،پھول اور پتے نظرآئے
کہیں کچھ خوبصورت پرکشش چہرے نظرآئے
میرے اندر
کوئی ہے جو مجھے مجھ سے رہائی ہی نہیں دیتا
اک ایسا شور
جس میں کچھ سنائی ہی نہیں دیتا
بصیرت مل گئی جب سے دکھائی ہی نہیں دیتا
________
اسنیٰ بدر