سندھی مختصر کہانیاں /اردو ترجمے
سندھی مختصر کہانیاں /اردو ترجمے
Mar 29, 2020
سندھی ادب سے انتخاب
سندھی مختصر کہانیاں /اردو ترجمے
زیب سندھی /شاہد حنائی (کویت)
گاموں گردی
گاموں نے بڑھتی ہوئی غنڈا گردی کے خلاف احتجاج کیا تو غنڈوں نے گاموں پر حملہ کرکے اس کی ٹھکائی کر ڈالی۔
غنڈوں نے اسے خبردار کیا: ”ہمارے خلاف بات کرنا چھوڑ دو، ورنہ ہم تمھارا قصّہ تمام کر دیں گے۔“
گاموں نے جواب دیا:”سچ بولنا میرے لیے سانس لینے کی طرح ضروری ہے۔اگر مَیں نے سچ کہنا ترک کر دیا تو مر جاؤں گا۔سو مَیں زندہ رہنے کی خاطر سچ بولتا رہوں گا!“
گاموں غنڈوں کے خلاف رپورٹ درج کرانے تھانے جا پہنچا۔
پولیس نے گاموں کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بجائے،اُلٹا اسے ہی دھمکیاں دیتے ہوئے تھانے سے باہر نکال دیا۔
گاموں نے پولیس گردی کے خلاف احتجاج کیا تو تھانے دار نے آکر اسے تنبیہ کی: ”پولیس کے خلاف بولنا چھوڑ دو، ورنہ فُل فرائی کر دیے جاؤگے۔“
گاموں نے کہا: ”سچ بولنا میرے لیے سانس لینے کی طرح ضروری ہے۔اگرمَیں نے سچ کہنا ترک کر دیا تو مر جاؤں گا۔لہٰذا مَیں زندہ رہنے کی خاطر سچ بولتا رہوں گا!“
پولیس نے گاموں کو گاموں گردی کے الزام میں گرفتار کر کے چالان کر دیا۔
گاموں نے عدالت سے ضمانت کروالی اور اب وہ وکلا گردی کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
()()()
عبدالسلام تھہیم /شاہد حنائی (کویت)
نیا ٹاسک
خواتین کو ہراساں ہونے سے کیسے بچایا جائے؟
اس پراجیکٹ کے لیے دفتر میں فیمیل آرگنائزرز کے انٹرویو ہو رہے تھے۔پروگرام مینجر مسٹر ساجد اور درمیانی عمر کی عورت ٹیم لیڈرنرگس انٹرویو لے رہے تھے۔
چند لڑکیوں کے انٹرویوز کے بعد جب افشیں انٹرویو دینے کے لیے کمرے میں داخل ہوئی تو پروگرام مینجر ساجد کی رال ٹپکنے لگی۔
انھوں نے افشیں سے سوال کم کیے، البتہ اسے للچائی نظروں سے بار بار دیکھتے رہے۔نرگس یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے مسکراتی رہی۔ساجد صاحب کو افشیں کی طرف سے خاطر خواہ رسپانس نہیں مل رہا تھا۔
انٹرویو ختم ہونے پر وہ باہر چلی گئی تو نرگس کہنے لگی: ”آپ کچھ زیادہ ہی محسوس تو نہیں کروا رہے تھے!“
”کیا کروں نرگس! لڑکی نہیں تھی، بجلی تھی بجلی۔۔۔ مجھے تو مار ہی ڈالا۔۔۔۔جیسے بھی بن پڑے کچھ کرو، تمھیں آج مَیں یہ نیا ٹاسک دیتا ہوں۔۔۔۔“
نرگس، جو ساجد صاحب کے لیے ایسے کئی ٹاسک کام یابی سے مکمل کر چکی تھی،وہ اس نئے ٹاسک کے ملنے پر کچھ دیر کے لیے پریشاں سی ہوگئی۔
”کیا ہوا جانی! پریشاں دِکھ رہی ہو۔۔۔“
نرگس نے جواباً کہا: ”پھر نیا ٹاسک۔۔۔ اچھا یہ بتائیں کہ مجھے اس دلالی کا کیا معاوضہ ملے گا؟“
”اب چھوڑو بھی یار! تم دلال نہیں ہو۔۔۔ تمھیں مَیں ڈپٹی پروگرام مینجر کے عہدے پر پروموشن دلوادوں گا۔“
”اچھا! تو پھر سمجھ لیں کہ نرگس نے یہ ٹاسک کام یابی سے مکمل کر لیا۔۔۔۔۔۔“
نرگس دفتر سے باہر نکل کر اپنی بیٹی کو ملازمت مل جانے کی مبارک باد دینے لگی۔
()()()
عباس سارنگ /شاہد حنائی (کویت)
بھکاری
”مرشد سرکار! کاروبار میں برکت کے لیے دُعا فرمائیں اور تعویذ بھی عنایت کریں۔۔۔۔۔۔“
”ہاں میّاں ہاں! کیوں نہیں کریں گے دُعا۔مولاسائیں سے خاص طور پردُعا کریں گے اور تمھارے لیے تعویذ بھی بہتیرے۔۔۔۔۔۔“
”مہربانی مرشد سرکار!“
”مہربانی کاہے کی پیارے! ہم اللہ والوں کا اور کام ہی کیا ہے۔۔۔۔ ہاتھ اُٹھاؤ کہ دُعا کریں۔۔۔۔“
پیر صاحب نے ہاتھ بلند کرکے دُعائیہ کلمات ادا کرنے شروع کیے۔وہ دیر تک دُعا کرتے رہے اور پھر دُکان دار کو تعویذ دیتے ہوئے فرمانے لگے:
”برخوردار! اللّہ پاک دل کی مراد پوری کرے گا۔۔۔۔۔۔ اب اپنے مرشد کو حسب ِ منشا نذرانہ دے دو۔۔۔۔۔۔“
ابھی پیر صاحب اتنا ہی کَہ پائے تھے کہ اِک گداگر صدا لگاتا ہوا دُکان میں داخل ہوا:
”میّاں! اللّہ پاک دل کی مراد پوری کرے گا۔۔۔۔۔۔ فقیر کو کچھ خیرات دو۔۔۔۔۔۔“
پیر صاحب نے جو یہ دیکھا تو انھیں طیش آگیا۔وہ گداگر کو ڈانٹنے لگے:
”چل چل رے فقیر کہیں کا۔۔۔۔۔۔ دفع دُور ہو جاؤ، کہیں مجھ سے بے عزتی نہ کروا لینا۔۔۔ بھکاری، بھکاری کا بچہ۔۔۔۔۔۔“
()()()
منظور کوھیار/شاہد حنائی (کویت)
لانگ بوٹ
گرو نے چیلے سے پوچھا: ”کس کے دماغ میں زیادہ عقل ہوتی ہے؟“
چیلے نے جواب دیا: ” جس کے برے دِن آئے ہوں!“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ کس کی عقل آنکھ میں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”لکھاریوں کی۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ کس کی عقل زباں میں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”سیاست دانوں کی۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ کس کی عقل دل میں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”عورتوں کی۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ غریب کی عقل کہاں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”پیٹ میں۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ افسر کی عقل کہاں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”گردن میں۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ طاقت ور فریق کی عقل کہاں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”لانگ بوٹ میں۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ اب بتاؤ تم اپنی عقل کہاں رکھنا چاہتے ہو؟“
چیلا: ”لانگ بوٹ میں۔“
گرو: ”کیوں؟“
چیلا: ”لانگ بوٹ والی عقل طاقت ور ہوتی ہے، کسی کو بھی بلا وجہ لتاڑ سکتی ہے۔“
یہ کَہ کر چیلے نے اپنے لانگ بوٹوں سے، گرو کو ٹھوکر دے ماری۔
گرو کراہتے ہوئے چلایا: ”بے شک تم سب سے عقل مند ہو!“
()()()
منظور کوھیار/شاہد حنائی (کویت)
نئی حکمت ِ عملی
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مُلکی سطح کا مذاکرہ جاری تھا۔سرکاری سطح کے معروف دانشوروں، سیاست دانوں، اور سب سے بااثر جماعت کے رہ نماؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ابتدائی مقررایک دانشور نے راہ دِکھائی: ”دہشت گردوں کو جبراً ”عدم تشدد“ کا فلسفہ پڑھایا جائے۔جب وہ ’’عدم تشدد“ کا فلسفہ پڑھیں گے تو خود بہ خود دہشت گردی ترک کر دیں گے۔“
پنڈال میں اِکا دُکا تالی بجی،جب کہ کئی لوگ اس دانش مندی پرطنزیہ ہنسی ہنس دیے۔
اس کے بعد ایک سیاست داں نے تجویز دی: ”دہشت گردوں سے ڈیل کی جائے۔انھیں مراعات دے کر کرپٹ کیا جائے اور ان کی لڑاکا فطرت کو تبدیل کیا جائے۔اس طرح سے دہشت گردی ازخود ختم ہو جائے گی۔“
پنڈال میں موجود کئی لوگوں نے تالیاں تو بجائیں اور سرگوشیاں کیں کہ یہ تجویز ہے تو پرانی تاہم مناسب ہے۔
آخر میں سب سے بااثرادارے کا نمایندہ آیا۔اس نے بارعب اور کڑک دار آواز میں تقریر کرتے ہوئے کہا:”جیسے ہیرا،ہیرے کو کاٹتا ہے اور زہرکا توڑزہر ہے،بالکل اسی طرح دہشت گردی کو جوابی دہشت گردی کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔“
پنڈال میں بیٹھے لوگوں نے کھڑے ہو کر خوب تالیاں بجائیں اور تعریفانہ تائیدکی کہ کس قدر فائدہ مند اور جدید حکمت ِ عملی ہے!
()()()
شگفتہ شاہ /شاہد حنائی (کویت)
سٹینڈرڈ
صفیہ: ”سلمیٰ! وہ اِک جگہ تمھارے رشتے کی بات چل رہی تھی نا۔۔۔ اس کا کیا ہوا؟“
سلمیٰ: ”ارے! وہ تو تبھی ختم ہو گئی تھی، دراصل ہم نے ہی انکار کر دیا تھا۔“
صفیہ: ”کیوں۔۔۔!!؟“
سلمیٰ: ”کیوں۔۔۔ کہ۔۔۔ وہ لوگ ہمارے سٹینڈرڈ کے نہیں تھے۔“
÷ ÷
صفیہ: ”سلمیٰ! دوسری جگہ تمھارے رشتے کی بات چل رہی تھی نا۔۔۔ پھراس کا کیا ہوا؟“
سلمیٰ: ”ارے!وہ تو ختم ہو گئی تھی،بس اُن لوگوں نے ہی انکار کر دیا تھا۔“
صفیہ: ”کیوں۔۔۔!!؟“
سلمیٰ: ”کیوں۔۔۔ کہ۔۔۔ ہم اُن لوگوں کے سٹینڈرڈ کے نہیں تھے۔“
()()()
سندھی مختصر کہانیاں /اردو ترجمے
زیب سندھی /شاہد حنائی (کویت)
گاموں گردی
گاموں نے بڑھتی ہوئی غنڈا گردی کے خلاف احتجاج کیا تو غنڈوں نے گاموں پر حملہ کرکے اس کی ٹھکائی کر ڈالی۔
غنڈوں نے اسے خبردار کیا: ”ہمارے خلاف بات کرنا چھوڑ دو، ورنہ ہم تمھارا قصّہ تمام کر دیں گے۔“
گاموں نے جواب دیا:”سچ بولنا میرے لیے سانس لینے کی طرح ضروری ہے۔اگر مَیں نے سچ کہنا ترک کر دیا تو مر جاؤں گا۔سو مَیں زندہ رہنے کی خاطر سچ بولتا رہوں گا!“
گاموں غنڈوں کے خلاف رپورٹ درج کرانے تھانے جا پہنچا۔
پولیس نے گاموں کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بجائے،اُلٹا اسے ہی دھمکیاں دیتے ہوئے تھانے سے باہر نکال دیا۔
گاموں نے پولیس گردی کے خلاف احتجاج کیا تو تھانے دار نے آکر اسے تنبیہ کی: ”پولیس کے خلاف بولنا چھوڑ دو، ورنہ فُل فرائی کر دیے جاؤگے۔“
گاموں نے کہا: ”سچ بولنا میرے لیے سانس لینے کی طرح ضروری ہے۔اگرمَیں نے سچ کہنا ترک کر دیا تو مر جاؤں گا۔لہٰذا مَیں زندہ رہنے کی خاطر سچ بولتا رہوں گا!“
پولیس نے گاموں کو گاموں گردی کے الزام میں گرفتار کر کے چالان کر دیا۔
گاموں نے عدالت سے ضمانت کروالی اور اب وہ وکلا گردی کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
()()()
عبدالسلام تھہیم /شاہد حنائی (کویت)
نیا ٹاسک
خواتین کو ہراساں ہونے سے کیسے بچایا جائے؟
اس پراجیکٹ کے لیے دفتر میں فیمیل آرگنائزرز کے انٹرویو ہو رہے تھے۔پروگرام مینجر مسٹر ساجد اور درمیانی عمر کی عورت ٹیم لیڈرنرگس انٹرویو لے رہے تھے۔
چند لڑکیوں کے انٹرویوز کے بعد جب افشیں انٹرویو دینے کے لیے کمرے میں داخل ہوئی تو پروگرام مینجر ساجد کی رال ٹپکنے لگی۔
انھوں نے افشیں سے سوال کم کیے، البتہ اسے للچائی نظروں سے بار بار دیکھتے رہے۔نرگس یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے مسکراتی رہی۔ساجد صاحب کو افشیں کی طرف سے خاطر خواہ رسپانس نہیں مل رہا تھا۔
انٹرویو ختم ہونے پر وہ باہر چلی گئی تو نرگس کہنے لگی: ”آپ کچھ زیادہ ہی محسوس تو نہیں کروا رہے تھے!“
”کیا کروں نرگس! لڑکی نہیں تھی، بجلی تھی بجلی۔۔۔ مجھے تو مار ہی ڈالا۔۔۔۔جیسے بھی بن پڑے کچھ کرو، تمھیں آج مَیں یہ نیا ٹاسک دیتا ہوں۔۔۔۔“
نرگس، جو ساجد صاحب کے لیے ایسے کئی ٹاسک کام یابی سے مکمل کر چکی تھی،وہ اس نئے ٹاسک کے ملنے پر کچھ دیر کے لیے پریشاں سی ہوگئی۔
”کیا ہوا جانی! پریشاں دِکھ رہی ہو۔۔۔“
نرگس نے جواباً کہا: ”پھر نیا ٹاسک۔۔۔ اچھا یہ بتائیں کہ مجھے اس دلالی کا کیا معاوضہ ملے گا؟“
”اب چھوڑو بھی یار! تم دلال نہیں ہو۔۔۔ تمھیں مَیں ڈپٹی پروگرام مینجر کے عہدے پر پروموشن دلوادوں گا۔“
”اچھا! تو پھر سمجھ لیں کہ نرگس نے یہ ٹاسک کام یابی سے مکمل کر لیا۔۔۔۔۔۔“
نرگس دفتر سے باہر نکل کر اپنی بیٹی کو ملازمت مل جانے کی مبارک باد دینے لگی۔
()()()
عباس سارنگ /شاہد حنائی (کویت)
بھکاری
”مرشد سرکار! کاروبار میں برکت کے لیے دُعا فرمائیں اور تعویذ بھی عنایت کریں۔۔۔۔۔۔“
”ہاں میّاں ہاں! کیوں نہیں کریں گے دُعا۔مولاسائیں سے خاص طور پردُعا کریں گے اور تمھارے لیے تعویذ بھی بہتیرے۔۔۔۔۔۔“
”مہربانی مرشد سرکار!“
”مہربانی کاہے کی پیارے! ہم اللہ والوں کا اور کام ہی کیا ہے۔۔۔۔ ہاتھ اُٹھاؤ کہ دُعا کریں۔۔۔۔“
پیر صاحب نے ہاتھ بلند کرکے دُعائیہ کلمات ادا کرنے شروع کیے۔وہ دیر تک دُعا کرتے رہے اور پھر دُکان دار کو تعویذ دیتے ہوئے فرمانے لگے:
”برخوردار! اللّہ پاک دل کی مراد پوری کرے گا۔۔۔۔۔۔ اب اپنے مرشد کو حسب ِ منشا نذرانہ دے دو۔۔۔۔۔۔“
ابھی پیر صاحب اتنا ہی کَہ پائے تھے کہ اِک گداگر صدا لگاتا ہوا دُکان میں داخل ہوا:
”میّاں! اللّہ پاک دل کی مراد پوری کرے گا۔۔۔۔۔۔ فقیر کو کچھ خیرات دو۔۔۔۔۔۔“
پیر صاحب نے جو یہ دیکھا تو انھیں طیش آگیا۔وہ گداگر کو ڈانٹنے لگے:
”چل چل رے فقیر کہیں کا۔۔۔۔۔۔ دفع دُور ہو جاؤ، کہیں مجھ سے بے عزتی نہ کروا لینا۔۔۔ بھکاری، بھکاری کا بچہ۔۔۔۔۔۔“
()()()
منظور کوھیار/شاہد حنائی (کویت)
لانگ بوٹ
گرو نے چیلے سے پوچھا: ”کس کے دماغ میں زیادہ عقل ہوتی ہے؟“
چیلے نے جواب دیا: ” جس کے برے دِن آئے ہوں!“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ کس کی عقل آنکھ میں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”لکھاریوں کی۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ کس کی عقل زباں میں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”سیاست دانوں کی۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ کس کی عقل دل میں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”عورتوں کی۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ غریب کی عقل کہاں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”پیٹ میں۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ افسر کی عقل کہاں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”گردن میں۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ طاقت ور فریق کی عقل کہاں ہوتی ہے؟“
چیلا: ”لانگ بوٹ میں۔“
گرو: ”ٹھیک۔۔۔ اب بتاؤ تم اپنی عقل کہاں رکھنا چاہتے ہو؟“
چیلا: ”لانگ بوٹ میں۔“
گرو: ”کیوں؟“
چیلا: ”لانگ بوٹ والی عقل طاقت ور ہوتی ہے، کسی کو بھی بلا وجہ لتاڑ سکتی ہے۔“
یہ کَہ کر چیلے نے اپنے لانگ بوٹوں سے، گرو کو ٹھوکر دے ماری۔
گرو کراہتے ہوئے چلایا: ”بے شک تم سب سے عقل مند ہو!“
()()()
منظور کوھیار/شاہد حنائی (کویت)
نئی حکمت ِ عملی
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مُلکی سطح کا مذاکرہ جاری تھا۔سرکاری سطح کے معروف دانشوروں، سیاست دانوں، اور سب سے بااثر جماعت کے رہ نماؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ابتدائی مقررایک دانشور نے راہ دِکھائی: ”دہشت گردوں کو جبراً ”عدم تشدد“ کا فلسفہ پڑھایا جائے۔جب وہ ’’عدم تشدد“ کا فلسفہ پڑھیں گے تو خود بہ خود دہشت گردی ترک کر دیں گے۔“
پنڈال میں اِکا دُکا تالی بجی،جب کہ کئی لوگ اس دانش مندی پرطنزیہ ہنسی ہنس دیے۔
اس کے بعد ایک سیاست داں نے تجویز دی: ”دہشت گردوں سے ڈیل کی جائے۔انھیں مراعات دے کر کرپٹ کیا جائے اور ان کی لڑاکا فطرت کو تبدیل کیا جائے۔اس طرح سے دہشت گردی ازخود ختم ہو جائے گی۔“
پنڈال میں موجود کئی لوگوں نے تالیاں تو بجائیں اور سرگوشیاں کیں کہ یہ تجویز ہے تو پرانی تاہم مناسب ہے۔
آخر میں سب سے بااثرادارے کا نمایندہ آیا۔اس نے بارعب اور کڑک دار آواز میں تقریر کرتے ہوئے کہا:”جیسے ہیرا،ہیرے کو کاٹتا ہے اور زہرکا توڑزہر ہے،بالکل اسی طرح دہشت گردی کو جوابی دہشت گردی کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔“
پنڈال میں بیٹھے لوگوں نے کھڑے ہو کر خوب تالیاں بجائیں اور تعریفانہ تائیدکی کہ کس قدر فائدہ مند اور جدید حکمت ِ عملی ہے!
()()()
شگفتہ شاہ /شاہد حنائی (کویت)
سٹینڈرڈ
صفیہ: ”سلمیٰ! وہ اِک جگہ تمھارے رشتے کی بات چل رہی تھی نا۔۔۔ اس کا کیا ہوا؟“
سلمیٰ: ”ارے! وہ تو تبھی ختم ہو گئی تھی، دراصل ہم نے ہی انکار کر دیا تھا۔“
صفیہ: ”کیوں۔۔۔!!؟“
سلمیٰ: ”کیوں۔۔۔ کہ۔۔۔ وہ لوگ ہمارے سٹینڈرڈ کے نہیں تھے۔“
÷ ÷
صفیہ: ”سلمیٰ! دوسری جگہ تمھارے رشتے کی بات چل رہی تھی نا۔۔۔ پھراس کا کیا ہوا؟“
سلمیٰ: ”ارے!وہ تو ختم ہو گئی تھی،بس اُن لوگوں نے ہی انکار کر دیا تھا۔“
صفیہ: ”کیوں۔۔۔!!؟“
سلمیٰ: ”کیوں۔۔۔ کہ۔۔۔ ہم اُن لوگوں کے سٹینڈرڈ کے نہیں تھے۔“
()()()