اسامہ امیر کی غزلیں

اسامہ امیر کی غزلیں

Jan 23, 2024

مصنف

اسامہ امیر

شمارہ

شمارہ - ٢٢

دیدبان شمارہ۔۲۲

اسامہ امیر کی غزلیں

تازہ غزل

اُس کی جاں نذر ہوئی رات لہو کو میرے

جس نے سمجھا شرر ایجادی ء خو کو میرے

باغ میں گُل کا ٹھہرنا بڑا دشوار ہوا

اُس نے جب دیکھ لیا آئنہ رو کو میرے

اک شُناسا ہی مرا دہرِ خرافات میں ہے

جو الگ وضع سے بھرتا ہے سُبو کو میرے

منحصر آپ کی ہی طبعِ رواں پر ہے حضور

خوفِ شمشیر نہیں خشک گُلو کو میرے

سربسر تو ہے مرا واقفِ احوالِ جنوں

نقشِ پا تک نہیں ملتے ہیں کسو کو میرے

سطوتِ شان مری آب کہاں دیکھتی ہے

رنگ ہی رنگ ہیں درکار وُضو کو میرے

اسامہ امیر

۔۔۔

گزر گئے جو, وہی تھے حساب میں مرے دن

دلِ شکستہ ترے پیچ و تاب میں مرے دن

میں ویسے خود بھی زمانے کو تھا بھلائے ہوئے

تو کیوں لگے تھے مرے احتساب میں مرے دن

دبیز دھند میں اک رنج مستقل تھا مجھے

جو بہہ رہے تھے کسی اور باب میں مرے دن

گلی اداس تھی اور دو قدم تھا میخانہ

بھٹک رہے تھے مگر اضطراب میں مرے دن

انہیں خیال کی رعنائیوں میں ہونا تھا

پڑے ہوئے تھے کسی پیچ و تاب میں مرے دن

مجھے ودیعتِ بے انتہاء تھی بہتے ہوئے

اُس اک نگہ سے بہم تھے شراب میں مرے دن

کُھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی حقیقت تھی

کہ خواب سے نظر آئے تھے خواب میں مرے دن

اسامہ امیر

۔۔۔

پہ کم نہیں ترے پیمان سے بھرے ہوئے ہم

کہ صبح و شام، دل و جان سے بھرے ہوئے ہم

تری گلی نہیں آتے تو پھر کہاں جاتے

شکستگی میں بھی امکان سے بھرے ہوئے ہم

یہی شعور ودیعت ہے اُن نگاہوں سے

بہت ہے کفر پہ ایمان سے بھرے ہوئے ہم

رواں ہے تہہ میں ہمارے، ہماری خاموشی

نظر جو آتے ہیں طوفان سے بھرے ہوئے ہم

ہر ایک پہر کوئی خواہشِ رمیدہ ہے

ہزار طرح کے ہیجان سے بھرے ہوئے ہم

شعار رکھتے ہیں ہر رنگ و آئینے کے لئے

سخن کی ذیل میں احسان سے بھرے ہوئے ہم

دکھا رہی ہے بتدریج حیرتیں کیا کیا

کسی کی صورتِ انجان سے بھرے ہوئے ہم

اسامہ امیر

دیدبان شمارہ۔۲۲

اسامہ امیر کی غزلیں

تازہ غزل

اُس کی جاں نذر ہوئی رات لہو کو میرے

جس نے سمجھا شرر ایجادی ء خو کو میرے

باغ میں گُل کا ٹھہرنا بڑا دشوار ہوا

اُس نے جب دیکھ لیا آئنہ رو کو میرے

اک شُناسا ہی مرا دہرِ خرافات میں ہے

جو الگ وضع سے بھرتا ہے سُبو کو میرے

منحصر آپ کی ہی طبعِ رواں پر ہے حضور

خوفِ شمشیر نہیں خشک گُلو کو میرے

سربسر تو ہے مرا واقفِ احوالِ جنوں

نقشِ پا تک نہیں ملتے ہیں کسو کو میرے

سطوتِ شان مری آب کہاں دیکھتی ہے

رنگ ہی رنگ ہیں درکار وُضو کو میرے

اسامہ امیر

۔۔۔

گزر گئے جو, وہی تھے حساب میں مرے دن

دلِ شکستہ ترے پیچ و تاب میں مرے دن

میں ویسے خود بھی زمانے کو تھا بھلائے ہوئے

تو کیوں لگے تھے مرے احتساب میں مرے دن

دبیز دھند میں اک رنج مستقل تھا مجھے

جو بہہ رہے تھے کسی اور باب میں مرے دن

گلی اداس تھی اور دو قدم تھا میخانہ

بھٹک رہے تھے مگر اضطراب میں مرے دن

انہیں خیال کی رعنائیوں میں ہونا تھا

پڑے ہوئے تھے کسی پیچ و تاب میں مرے دن

مجھے ودیعتِ بے انتہاء تھی بہتے ہوئے

اُس اک نگہ سے بہم تھے شراب میں مرے دن

کُھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی حقیقت تھی

کہ خواب سے نظر آئے تھے خواب میں مرے دن

اسامہ امیر

۔۔۔

پہ کم نہیں ترے پیمان سے بھرے ہوئے ہم

کہ صبح و شام، دل و جان سے بھرے ہوئے ہم

تری گلی نہیں آتے تو پھر کہاں جاتے

شکستگی میں بھی امکان سے بھرے ہوئے ہم

یہی شعور ودیعت ہے اُن نگاہوں سے

بہت ہے کفر پہ ایمان سے بھرے ہوئے ہم

رواں ہے تہہ میں ہمارے، ہماری خاموشی

نظر جو آتے ہیں طوفان سے بھرے ہوئے ہم

ہر ایک پہر کوئی خواہشِ رمیدہ ہے

ہزار طرح کے ہیجان سے بھرے ہوئے ہم

شعار رکھتے ہیں ہر رنگ و آئینے کے لئے

سخن کی ذیل میں احسان سے بھرے ہوئے ہم

دکھا رہی ہے بتدریج حیرتیں کیا کیا

کسی کی صورتِ انجان سے بھرے ہوئے ہم

اسامہ امیر

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024