سالی ٹیوڈ
سالی ٹیوڈ
Sep 8, 2023
کرونائ افسانہ
دیدبان شمارہ مئ تا اگست
افسانہ : سالی ٹیوڈ ٭
_____________________________________________
Solitude٭
مصنف: محمود احمد قاضی
آپ سے تم، تم سے تُو اور پھر تکرار اور اس گھر کا وہ نزاع جو ایسا بے نظیر ثابت ہوا کہ لمحہ بھر میں سارا کچھ ختم ہو گیا۔ وہ کوٹھے پر موجود ایک کمرے میں شفٹ ہو گیا۔ جب کہ باقی پریوار نیچے رہا۔ وہ اکیلا اور اس کی اہلیہ جس سے اب قطع تعلقی اور علیحدگی کی نوبت آ چکی تھی اور تینوں بچیاں، یہ لوگ اکٹھے تھے۔ وہ حسبِ معمول پنشن لاتا۔ حساب کتاب کرتا۔
گراسری کے لیے
بجلی، گیس، فون کا بل
کیبل فیس
بچیوں کا ماہانہ
ہر مد میں وہ پیسے الگ کر کے رکھ لیتا
اس کے علاوہ، پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر، لیمن وغیرہ بھی وہ مہینہ بھر خود لاتا رہتا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع اور گوشت کا حصول بھی اس کی ذمے داری تھی۔ خود اس
کا اپنا خرچ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کبھی کبھار اس کا کوئی ملنے والا آتا تو اس کے لیے چائے پانی کا خرچ وہ علیحدہ سے برداشت کرتا۔ ہر ہفتے والے دن وہ ادھر جاتا جس کو وہ بڑا گھر کہتا تھا۔ ماں باپ سے ملتا (وہ نہ رہے) بھائیوں سے ملتا۔ ان میں سے بھی ایک نہ رہا۔ بہن سے ملتا۔ چند لمحے ادھر گزارتا اور بھانجے کے ہمراہ موٹرسائیکل پر گھر آ جاتا۔ اس دوران اس کی آنکھوں کا مسئلہ ہو گیا تھا وہ خود سے سہولت کے ساتھ بڑی سڑک پار نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس مقصد کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ لیکن اس سے پہلے سب کچھ صحیح تھا۔ وہ تھا، شہر تھا، نوکری تھی۔ وہ ہر روز اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے شاپروں سمیت گھر آتا۔ بچیاں خوش دلی اور مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کرتیں۔ پھل وغیرہ اور ان کی دوسری ضرورت کی اشیا وہ شہر سے ہی لاتا تھا۔ اسے اس خریداری میں لطف آتا تھا۔ جب اس کے گھر میں ابھی گیس نہیں آئی تھی۔ تب بھی وہ مٹی کے تیل کا کنستر خاصی دور سے اٹھا کر مٹی کے تیل کے بیتوں والے چولہے کے لیے لاتا۔ آٹے کا توڑا کندھے پر لادتا تو اسے لگتا وہ دنیا جہاں کی نعمت کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے آتا ہے۔ وہ اس کام کو لیبر یا مشقت سمجھ کر نہیں کرنا تھا۔ اس کا کہنا تھا۔ جب کوئی ہم میں سے شادی کرتا ہے تو وہ دوسرے فریق کو ایک طرح کا بانڈ بھر کے دیتا ہے۔
نان نفقہ پورا کرنے کا، ذمہ داری کے احساس کا۔
ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد اس کی آنکھوں کا سفید موتیے کا آپریشن یوں ناکام ہوا کہ اس کی آنکھوں کی جوت آدھی سے بھی کم روشن رہ گئی۔ تب اس کی بچیوں اور اہلیہ نے بہت ساتھ دیا۔ پالے سے ماری بے شمار راتیں، بچیاں اس کے رت جگے میں شریک رہیں۔ باتھ روم لانا لے جانا، اہلیہ کا ایک مدت تک سردیوں گرمیوں میں فجر سے پہلے بیدار ہو کر اسے ساتھ لینا اور ایم ایچ تک لانا لے جاتا۔ طبیعتوں کا بُعد اپنی جگہ موجود تھا لیکن زندگی کی گاڑی خوب سرک رہی تھی۔ بچیاں خوش رہتیں۔ وہ اس کے ساتھ بستر پر دائیں بائیں لیٹ جاتیں، گپیں چلتیں، بیسن کا حلوہ بنتا وہ خوب رغبت سے کھاتا (شوگر کی بیماری جسم میں سرایت کرنے سے پہلے تک) پھر بلڈ پریشر نے اسے گھیر لیا۔ چیزیں مینیو سے کٹتی گئیں۔ کنو، آم، کھجور، کیلا اس کے آگے سے ہٹا لئے گئے۔ اس کے لیے آڑو اور امرود رہ گیا۔ وہ پھر بھی خوش تھا۔ وہ کہتا بہت انجوائے کر لیا بہت کچھ کھایا پیا۔ اب پرہیزی ہو گیا ہوں تو کیا ہوا۔ وہ مثال دیتا۔ گارسیا کو نوبل پرائز ملنے کی۔ ایک صبح وہ اٹھا تو اس نے سنا نیچے بہت شور تھا ہنگامہ تھا۔ سارا چوک بھرا ہوا تھا۔ باہر گارسیا، گارسیا ہو رہی تھی۔ اس نے خدمت گار سے کہا۔ پتہ کرو، کیا ہوا ہے۔ اس نے کھڑکی کھولی۔ پتہ کیا۔ اسے بتایا، گارسیا، سر آپ کو نوبل پرائز ملا ہے۔ لوگ اس لیے خوش ہو کر سارے چوک میں جمع ہیں۔ جب وہ نوبل پرائز لینے گیا۔ تو وہاں اس نے اپنے پیپر میں درج کیا۔ جب بھوک خوب لگتی تھی۔ من ڈھیروں چیزوں کی طرف لپکتا تھا۔ تو جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اب روپے پیسے کی فراوانی ہے لیکن ڈاکٹر روکتا ہے۔ تم نے یہ نہیں کھانا، یہ نہیں پینا۔ تو یہ سب وقت کی بات ہے۔ وہی لمحے جو تمہارے ہوتے ہیں تمہارے نہیں رہتے۔ وقت انہیں تم سے چھین لیتا ہے لیکن پچھتاوا کیسا۔ جو ہے روکھی سوکھی مِسّی لُونی، اسی میں گزارہ کرو اور زبان کے چسکے سے پرے رہو کہ ہر چیز کا مزہ صرف زبان کی نوک تک محدود ہے۔ حلق سے نیچے جا کر سب مزہ سواد ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ آخر میں معدہ اور پھر فضلہ، ٹٹی، تو ہاتھ کیا آیا۔ سارے لطف جاتے رہتے ہیں۔ یہ ساری مہربانیاں اور سفّاکیاں تو وقت کی دَین قرار پائی ہیں۔ وقت ہی ہمارا دوست اور دشمن ہے اور اسے ہی پل بھر کے لیے قرار نہیں۔ اس کی پارہ صِفتی کے آگے سب کچھ ماند پڑ جاتا ہے۔ دھندلا جاتا ہے۔ وہ اوپر کوٹھے والے کمرے میں بیٹھا سب کچھ سوچتا اور دہراتا ہے۔ دو بچیاں بیاہ کر اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ اب ایک ادھر ہے جو اس کے بڑھاپے کی ڈنگوری بنی رہتی ہے۔ پنشن لینے کے لیے بنک جانا ہو۔ ڈاکخانے تک جانا ہو۔ یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے ہوں۔ وہ فوراً حاضر ہوتی ہے۔
ادھر اس کے اور اہلیہ کے درمیان فاصلہ برقرار ہے۔ بات چیت پیغام رسانی کا ذریعہ بچی ہے۔ وہ ہر روز صبح کے وقت نو پینتالیس پر بہتر چھوڑ دیتا ہے۔ شیو اور باتھ روم کے مسائل سے وہ ایک گھنٹے میں عہدہ برا ہو جاتا ہے۔ گیارہ بجے کے قریب ناشتہ۔ دو سوکھے سلائس چائے کا، پھیکی چائے کا ایک کوپ۔ بلڈپریشر اور شوگر کی گولیوں کا ایک پَھکا۔ دونوں آنکھوں میں ڈالنے کے لیے تین قسم کے آئی ڈراپس۔ پھر چل سو چل۔ وہ مطالعے کی میز پر آ جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں کتاب دوسرے میں لفظ بڑا کر کے دکھانے والا شیشہ۔ پھر وہ کاغذ کالے کرنے لگتا ہے۔ اُردو پنجابی افسانہ۔ نثری نظم، ترجمہ، ادبی پرچے ڈاک سے آتے رہتے ہیں۔ وہ دِن ساڑھے گیارہ بجے سے لے کر شام ساڑھے چار پانج بجے تک آن جاب ہوتا ہے۔ درمیان میں رس کھاتا ہے۔ سادہ روٹی والا لنچ لیتا ہے۔ شام کے وقت پھر ایک روٹی سالن، کم نمک والا۔ رات کو دوبارہ ایک دو سلائس چائے کا کپ۔ شام چھ بجے کے بعد حالاتِ حاضرہ والے پروگرام ٹی وی کے مباحث، خبریں، رات بارہ بجے کے بعد بستر پر آتا ہے۔ کمر سیدھی کرتا ہے۔ سوتا وہ دو بجے کے بعد ہی ہے کبھی جاگتے ہوئے ہی سو یر ہوجاتی ہے۔ رات کو دھوتی بنیان قمیض اس کا پہناوا ہے۔ اسے خواب کم آتے ہیں۔ جن میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ہوتے ہیں۔ وہ دن میں خواب نہیں دیکھتا۔ پہلے وہ کہا کرتا تھا یہ تھکن کیا چیز ہوتی ہے۔ اب وہ تھک بھی جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ لکھنے پڑھنے کا بوجھ بعض اوقات اتنا ہوتا ہے۔ جیسے کوئی مزدور دونوں کندھوں پر دو بوریاں بوجھ سے بھری اٹھا لے۔ زیادہ تر وہ چُپ رہتا ہے۔ کبھی کبھی بول بھی لیتا ہے۔ بچی سے ہنسی مذاق، ٹھٹھول، خبروں کا تبادلہ، خاندانی قصے، ماں گئی، والد گیا۔ اب سب سے چھوٹے بھائی کے جانے کے بعد کسی قدر بجھ گیا ہے۔ روٹین وہی ہے۔ ہر ہفتے کی شام کو اس کمرے میں جا بیٹھنا۔ بڑے گھر کی اوپر والی منزل۔ اب اس کا ساتھ دینے کے لیے چھوٹا دوسرا بھائی ہے۔ وہ نظم کہنے والا بانکا شاعر ہے۔ اس لیے اس دوران اس کے ساتھ اس کی خوب بنتی ہے۔ چَلَنت فقرے، سنجیدگی، ادبی بحث، فیس بک۔ وہ اسے دوسروں کے ساتھ اپنی چیٹنگ کی روداد سناتا ہے۔ کبھی یہ بھی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ آگے سے کہتا ہے۔ مخالفت ہونی چاہیے۔ سب اچھا تو صرف منافق کے لیے بولا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں تو منٹو نہیں۔ نہ اُس جیسا ہوں لیکن مثال کے لیے کہتا ہوں کہ اس نے جتنا زیادہ لکھا اور اچھا لکھا اُتنا ہی بُرا اُس کے خلاف کہا بھی گیا۔ زندہ وہ آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ زندہ لفظ اپنی اہمیت خود منواتا ہے۔ چاہے آپ اس وقت دنیا میں موجود ہوں یا نہ ہوں۔ آنے والے وقت میں آپ کا چاچا ماما، پھپھڑ کوئی نہیں ہوتا۔ صرف وقت ہوتا ہے۔ جو آپ کا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ تو ایسے میں ملول کیا ہونا جس نے جو کہنا ہوتا ہے وہ اپنی اہلیت اور اپنے ظرف کے مطابق کہتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ جو بھی کہا جائے دلیل اور جواز کے بغیر نہ کہا جائے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہے، جائز ہے۔ ویسے نخریلے لوگ ہم جیسوں کو ملیچھ لکھاری قرار دیتے ہیں۔ دو گھنٹے کی بیٹھک کے بعد جب وہ آتا ہے تو تازہ دم ہوتا ہے۔ اچھی گفتگو، موسیقی، مطالعہ اور لکھت، یہی اس کی کائنات ہے۔ اس کے جینے کے لیے یہ سب کچھ کافی ہے۔ رہی اہلیہ تودہ ادھر ہے یہ اِدھر ہے۔ چوں چاں کچھ نہیں۔ خاموشی ہے۔ چپ ہے۔ وہ ہے اور اس کا کمرہ ہے۔ چارپائی ہے۔ واش روم ہے۔ یہ ہے اس کی کل متاع اور اس کے اردگرد بکھرے سمٹے کاغذ جن کو وہ کالے کر چکا ہے۔ اور وہ بھی جن کو ابھی اس نے کالا کرنا ہے۔ وہ کہتا ہے میں نے آخر وقت تک کام کرنا ہے۔ مرنے سے پہلے نہیں مرنا۔ آخر میں یہی ہو کہ وہ کام کر رہا ہو اس کے ہاتھ سے قلم گر جائے۔ لیجیے یہ خاتمہ ہے۔ یہ سادہ سا مرنا ہے، کوئی ہنگامہ نہ شورش۔ اب آﺅ مجھے دابو۔ جلدی کرو ورنہ میں بدبو چھوڑوں گا اور تم اُبکایاں لیتے پھرو گے۔
ابھی ان دنوں جس ننھے منے سے ذرّے نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس نے انسان کی قربت کو دوری میں بدل دیا ہے۔ مکمل لاک ڈاﺅن، جزوی لاک ڈاﺅن، وینٹی لیٹر، N-95 ماسک، سینی ٹائزر، گلوَز، ڈاکٹروں کا سینی ٹائزر لباس، شوز، شوز کور وغیرہ۔ امریکہ جیسے صاحب بہادر، دنیا بھر کے لاٹ صاحب کے پاس سوائے اس کے اسلحے کے انبار کے کچھ نہیں ملا۔ ہت تیرے کی۔ صرف دو ماہ میں ہی لید کر دی۔ سپر پاور ٹھس ہوئی۔ آئی سولیشن، ایک دوسرے سے کم از کم دو میٹر کے فاصلے پر رہنا۔ وہ سوچتا ہے یہ اور اُس کا فاصلہ تو ایک مدت سے دو میٹر سے زیادہ ہی رہا ہے۔ یہ جو اس گھر پر سوشل ڈِسٹنسنگ کی فضا تنی ہوئی ہے بظاہر اس کا تعلق اس پین ڈیمک سے ہرگز نہیں۔ لیکن کیا ایسے لوگ جو بوجوہ ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر لیتے ہیں ان کو اس سیلف قرنطین کے آزار سے باہر لانے کی کوئی ویکسین تیار کی جا سکتی ہے۔
دیدبان شمارہ مئ تا اگست
افسانہ : سالی ٹیوڈ ٭
_____________________________________________
Solitude٭
مصنف: محمود احمد قاضی
آپ سے تم، تم سے تُو اور پھر تکرار اور اس گھر کا وہ نزاع جو ایسا بے نظیر ثابت ہوا کہ لمحہ بھر میں سارا کچھ ختم ہو گیا۔ وہ کوٹھے پر موجود ایک کمرے میں شفٹ ہو گیا۔ جب کہ باقی پریوار نیچے رہا۔ وہ اکیلا اور اس کی اہلیہ جس سے اب قطع تعلقی اور علیحدگی کی نوبت آ چکی تھی اور تینوں بچیاں، یہ لوگ اکٹھے تھے۔ وہ حسبِ معمول پنشن لاتا۔ حساب کتاب کرتا۔
گراسری کے لیے
بجلی، گیس، فون کا بل
کیبل فیس
بچیوں کا ماہانہ
ہر مد میں وہ پیسے الگ کر کے رکھ لیتا
اس کے علاوہ، پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر، لیمن وغیرہ بھی وہ مہینہ بھر خود لاتا رہتا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع اور گوشت کا حصول بھی اس کی ذمے داری تھی۔ خود اس
کا اپنا خرچ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کبھی کبھار اس کا کوئی ملنے والا آتا تو اس کے لیے چائے پانی کا خرچ وہ علیحدہ سے برداشت کرتا۔ ہر ہفتے والے دن وہ ادھر جاتا جس کو وہ بڑا گھر کہتا تھا۔ ماں باپ سے ملتا (وہ نہ رہے) بھائیوں سے ملتا۔ ان میں سے بھی ایک نہ رہا۔ بہن سے ملتا۔ چند لمحے ادھر گزارتا اور بھانجے کے ہمراہ موٹرسائیکل پر گھر آ جاتا۔ اس دوران اس کی آنکھوں کا مسئلہ ہو گیا تھا وہ خود سے سہولت کے ساتھ بڑی سڑک پار نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس مقصد کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ لیکن اس سے پہلے سب کچھ صحیح تھا۔ وہ تھا، شہر تھا، نوکری تھی۔ وہ ہر روز اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے شاپروں سمیت گھر آتا۔ بچیاں خوش دلی اور مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کرتیں۔ پھل وغیرہ اور ان کی دوسری ضرورت کی اشیا وہ شہر سے ہی لاتا تھا۔ اسے اس خریداری میں لطف آتا تھا۔ جب اس کے گھر میں ابھی گیس نہیں آئی تھی۔ تب بھی وہ مٹی کے تیل کا کنستر خاصی دور سے اٹھا کر مٹی کے تیل کے بیتوں والے چولہے کے لیے لاتا۔ آٹے کا توڑا کندھے پر لادتا تو اسے لگتا وہ دنیا جہاں کی نعمت کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے آتا ہے۔ وہ اس کام کو لیبر یا مشقت سمجھ کر نہیں کرنا تھا۔ اس کا کہنا تھا۔ جب کوئی ہم میں سے شادی کرتا ہے تو وہ دوسرے فریق کو ایک طرح کا بانڈ بھر کے دیتا ہے۔
نان نفقہ پورا کرنے کا، ذمہ داری کے احساس کا۔
ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد اس کی آنکھوں کا سفید موتیے کا آپریشن یوں ناکام ہوا کہ اس کی آنکھوں کی جوت آدھی سے بھی کم روشن رہ گئی۔ تب اس کی بچیوں اور اہلیہ نے بہت ساتھ دیا۔ پالے سے ماری بے شمار راتیں، بچیاں اس کے رت جگے میں شریک رہیں۔ باتھ روم لانا لے جانا، اہلیہ کا ایک مدت تک سردیوں گرمیوں میں فجر سے پہلے بیدار ہو کر اسے ساتھ لینا اور ایم ایچ تک لانا لے جاتا۔ طبیعتوں کا بُعد اپنی جگہ موجود تھا لیکن زندگی کی گاڑی خوب سرک رہی تھی۔ بچیاں خوش رہتیں۔ وہ اس کے ساتھ بستر پر دائیں بائیں لیٹ جاتیں، گپیں چلتیں، بیسن کا حلوہ بنتا وہ خوب رغبت سے کھاتا (شوگر کی بیماری جسم میں سرایت کرنے سے پہلے تک) پھر بلڈ پریشر نے اسے گھیر لیا۔ چیزیں مینیو سے کٹتی گئیں۔ کنو، آم، کھجور، کیلا اس کے آگے سے ہٹا لئے گئے۔ اس کے لیے آڑو اور امرود رہ گیا۔ وہ پھر بھی خوش تھا۔ وہ کہتا بہت انجوائے کر لیا بہت کچھ کھایا پیا۔ اب پرہیزی ہو گیا ہوں تو کیا ہوا۔ وہ مثال دیتا۔ گارسیا کو نوبل پرائز ملنے کی۔ ایک صبح وہ اٹھا تو اس نے سنا نیچے بہت شور تھا ہنگامہ تھا۔ سارا چوک بھرا ہوا تھا۔ باہر گارسیا، گارسیا ہو رہی تھی۔ اس نے خدمت گار سے کہا۔ پتہ کرو، کیا ہوا ہے۔ اس نے کھڑکی کھولی۔ پتہ کیا۔ اسے بتایا، گارسیا، سر آپ کو نوبل پرائز ملا ہے۔ لوگ اس لیے خوش ہو کر سارے چوک میں جمع ہیں۔ جب وہ نوبل پرائز لینے گیا۔ تو وہاں اس نے اپنے پیپر میں درج کیا۔ جب بھوک خوب لگتی تھی۔ من ڈھیروں چیزوں کی طرف لپکتا تھا۔ تو جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اب روپے پیسے کی فراوانی ہے لیکن ڈاکٹر روکتا ہے۔ تم نے یہ نہیں کھانا، یہ نہیں پینا۔ تو یہ سب وقت کی بات ہے۔ وہی لمحے جو تمہارے ہوتے ہیں تمہارے نہیں رہتے۔ وقت انہیں تم سے چھین لیتا ہے لیکن پچھتاوا کیسا۔ جو ہے روکھی سوکھی مِسّی لُونی، اسی میں گزارہ کرو اور زبان کے چسکے سے پرے رہو کہ ہر چیز کا مزہ صرف زبان کی نوک تک محدود ہے۔ حلق سے نیچے جا کر سب مزہ سواد ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ آخر میں معدہ اور پھر فضلہ، ٹٹی، تو ہاتھ کیا آیا۔ سارے لطف جاتے رہتے ہیں۔ یہ ساری مہربانیاں اور سفّاکیاں تو وقت کی دَین قرار پائی ہیں۔ وقت ہی ہمارا دوست اور دشمن ہے اور اسے ہی پل بھر کے لیے قرار نہیں۔ اس کی پارہ صِفتی کے آگے سب کچھ ماند پڑ جاتا ہے۔ دھندلا جاتا ہے۔ وہ اوپر کوٹھے والے کمرے میں بیٹھا سب کچھ سوچتا اور دہراتا ہے۔ دو بچیاں بیاہ کر اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ اب ایک ادھر ہے جو اس کے بڑھاپے کی ڈنگوری بنی رہتی ہے۔ پنشن لینے کے لیے بنک جانا ہو۔ ڈاکخانے تک جانا ہو۔ یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے ہوں۔ وہ فوراً حاضر ہوتی ہے۔
ادھر اس کے اور اہلیہ کے درمیان فاصلہ برقرار ہے۔ بات چیت پیغام رسانی کا ذریعہ بچی ہے۔ وہ ہر روز صبح کے وقت نو پینتالیس پر بہتر چھوڑ دیتا ہے۔ شیو اور باتھ روم کے مسائل سے وہ ایک گھنٹے میں عہدہ برا ہو جاتا ہے۔ گیارہ بجے کے قریب ناشتہ۔ دو سوکھے سلائس چائے کا، پھیکی چائے کا ایک کوپ۔ بلڈپریشر اور شوگر کی گولیوں کا ایک پَھکا۔ دونوں آنکھوں میں ڈالنے کے لیے تین قسم کے آئی ڈراپس۔ پھر چل سو چل۔ وہ مطالعے کی میز پر آ جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں کتاب دوسرے میں لفظ بڑا کر کے دکھانے والا شیشہ۔ پھر وہ کاغذ کالے کرنے لگتا ہے۔ اُردو پنجابی افسانہ۔ نثری نظم، ترجمہ، ادبی پرچے ڈاک سے آتے رہتے ہیں۔ وہ دِن ساڑھے گیارہ بجے سے لے کر شام ساڑھے چار پانج بجے تک آن جاب ہوتا ہے۔ درمیان میں رس کھاتا ہے۔ سادہ روٹی والا لنچ لیتا ہے۔ شام کے وقت پھر ایک روٹی سالن، کم نمک والا۔ رات کو دوبارہ ایک دو سلائس چائے کا کپ۔ شام چھ بجے کے بعد حالاتِ حاضرہ والے پروگرام ٹی وی کے مباحث، خبریں، رات بارہ بجے کے بعد بستر پر آتا ہے۔ کمر سیدھی کرتا ہے۔ سوتا وہ دو بجے کے بعد ہی ہے کبھی جاگتے ہوئے ہی سو یر ہوجاتی ہے۔ رات کو دھوتی بنیان قمیض اس کا پہناوا ہے۔ اسے خواب کم آتے ہیں۔ جن میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ہوتے ہیں۔ وہ دن میں خواب نہیں دیکھتا۔ پہلے وہ کہا کرتا تھا یہ تھکن کیا چیز ہوتی ہے۔ اب وہ تھک بھی جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ لکھنے پڑھنے کا بوجھ بعض اوقات اتنا ہوتا ہے۔ جیسے کوئی مزدور دونوں کندھوں پر دو بوریاں بوجھ سے بھری اٹھا لے۔ زیادہ تر وہ چُپ رہتا ہے۔ کبھی کبھی بول بھی لیتا ہے۔ بچی سے ہنسی مذاق، ٹھٹھول، خبروں کا تبادلہ، خاندانی قصے، ماں گئی، والد گیا۔ اب سب سے چھوٹے بھائی کے جانے کے بعد کسی قدر بجھ گیا ہے۔ روٹین وہی ہے۔ ہر ہفتے کی شام کو اس کمرے میں جا بیٹھنا۔ بڑے گھر کی اوپر والی منزل۔ اب اس کا ساتھ دینے کے لیے چھوٹا دوسرا بھائی ہے۔ وہ نظم کہنے والا بانکا شاعر ہے۔ اس لیے اس دوران اس کے ساتھ اس کی خوب بنتی ہے۔ چَلَنت فقرے، سنجیدگی، ادبی بحث، فیس بک۔ وہ اسے دوسروں کے ساتھ اپنی چیٹنگ کی روداد سناتا ہے۔ کبھی یہ بھی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ آگے سے کہتا ہے۔ مخالفت ہونی چاہیے۔ سب اچھا تو صرف منافق کے لیے بولا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں تو منٹو نہیں۔ نہ اُس جیسا ہوں لیکن مثال کے لیے کہتا ہوں کہ اس نے جتنا زیادہ لکھا اور اچھا لکھا اُتنا ہی بُرا اُس کے خلاف کہا بھی گیا۔ زندہ وہ آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ زندہ لفظ اپنی اہمیت خود منواتا ہے۔ چاہے آپ اس وقت دنیا میں موجود ہوں یا نہ ہوں۔ آنے والے وقت میں آپ کا چاچا ماما، پھپھڑ کوئی نہیں ہوتا۔ صرف وقت ہوتا ہے۔ جو آپ کا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ تو ایسے میں ملول کیا ہونا جس نے جو کہنا ہوتا ہے وہ اپنی اہلیت اور اپنے ظرف کے مطابق کہتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ جو بھی کہا جائے دلیل اور جواز کے بغیر نہ کہا جائے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہے، جائز ہے۔ ویسے نخریلے لوگ ہم جیسوں کو ملیچھ لکھاری قرار دیتے ہیں۔ دو گھنٹے کی بیٹھک کے بعد جب وہ آتا ہے تو تازہ دم ہوتا ہے۔ اچھی گفتگو، موسیقی، مطالعہ اور لکھت، یہی اس کی کائنات ہے۔ اس کے جینے کے لیے یہ سب کچھ کافی ہے۔ رہی اہلیہ تودہ ادھر ہے یہ اِدھر ہے۔ چوں چاں کچھ نہیں۔ خاموشی ہے۔ چپ ہے۔ وہ ہے اور اس کا کمرہ ہے۔ چارپائی ہے۔ واش روم ہے۔ یہ ہے اس کی کل متاع اور اس کے اردگرد بکھرے سمٹے کاغذ جن کو وہ کالے کر چکا ہے۔ اور وہ بھی جن کو ابھی اس نے کالا کرنا ہے۔ وہ کہتا ہے میں نے آخر وقت تک کام کرنا ہے۔ مرنے سے پہلے نہیں مرنا۔ آخر میں یہی ہو کہ وہ کام کر رہا ہو اس کے ہاتھ سے قلم گر جائے۔ لیجیے یہ خاتمہ ہے۔ یہ سادہ سا مرنا ہے، کوئی ہنگامہ نہ شورش۔ اب آﺅ مجھے دابو۔ جلدی کرو ورنہ میں بدبو چھوڑوں گا اور تم اُبکایاں لیتے پھرو گے۔
ابھی ان دنوں جس ننھے منے سے ذرّے نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس نے انسان کی قربت کو دوری میں بدل دیا ہے۔ مکمل لاک ڈاﺅن، جزوی لاک ڈاﺅن، وینٹی لیٹر، N-95 ماسک، سینی ٹائزر، گلوَز، ڈاکٹروں کا سینی ٹائزر لباس، شوز، شوز کور وغیرہ۔ امریکہ جیسے صاحب بہادر، دنیا بھر کے لاٹ صاحب کے پاس سوائے اس کے اسلحے کے انبار کے کچھ نہیں ملا۔ ہت تیرے کی۔ صرف دو ماہ میں ہی لید کر دی۔ سپر پاور ٹھس ہوئی۔ آئی سولیشن، ایک دوسرے سے کم از کم دو میٹر کے فاصلے پر رہنا۔ وہ سوچتا ہے یہ اور اُس کا فاصلہ تو ایک مدت سے دو میٹر سے زیادہ ہی رہا ہے۔ یہ جو اس گھر پر سوشل ڈِسٹنسنگ کی فضا تنی ہوئی ہے بظاہر اس کا تعلق اس پین ڈیمک سے ہرگز نہیں۔ لیکن کیا ایسے لوگ جو بوجوہ ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر لیتے ہیں ان کو اس سیلف قرنطین کے آزار سے باہر لانے کی کوئی ویکسین تیار کی جا سکتی ہے۔