"سندھ کی خستہ حالی اور جاگیرداری"
"سندھ کی خستہ حالی اور جاگیرداری"
Sep 6, 2025


"سندھ کی خستہ حالی اور جاگیرداری"
آدم عباس
رومن ایمپائر جن کی بظاہر تباہی قبائلی شکست سے شروع ہوئی دراصل اس سے کافی پہلے اپنا سماجی نظام کمزور کر چکے تھے ٹیکسیز میں بے تحاشہ اضافہ، محنت کاروں کی امدنیوں میں کمی، افلاس کا بڑھنا، جدیدیت کی راہ کا ماند پڑھ جانا، اقراباپروری، رشوت، زاتی مفاد کی بنیاد پر طرفداری، صلاحیتوں کا قتل عام، اسمانی کردار کی رجعت پرستانہ تخلیق تاکہ رہبر اور مقلید کا رشتہ بنایا جاسکے۔یہ وہ عوامل ہوتے ہیں جو کسی بھی سماج کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اس کے بعد کوئی بھی اہم واقعہ پوری نظام کو زمین بوس کر دیتا ہے۔یہ ہی کچھ مغل شہنشائیت میں اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہوا۔اورنگزیب عالمگیر کی حکومت بظاہر مغل سلطنت کا سب سے وسیع اور طاقتور دور تھا، لیکن حقیقت میں اس کے آخر تک سلطنت کمزور اور زوال پذیر ہوچکی تھی۔اورنگزیب نے سلطنت کو بہت زیادہ پھیلا دیا۔ اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنا نہ مالی طور پر ممکن تھا نہ انتظامی طور پر۔ دکن کی جنگوں میں بے پناہ خزانہ اور فوجی طاقت خرچ ہوئی۔ ایسے میں سخت گیر رجعتی پالیسیز اختیار کی جاتی ہیں۔انہوں نے غیر مسلموں پر جزیہ دوبارہ نافذ کیا اور کئی مندروں کو توڑنے کے احکامات دیے۔ اس سے ہندو، سکھ، مراٹھا اور راجپوت سب
تالپور دور حکومت عدم مرکزیت پر مبنی تھا جہاں سے موجودہ دور کی جاگیرداری کے خدوخال بننا شروع ہوے۔ کلھوڑو کا طرز حکومت مغل طرز حکومت کی طرح مرکزیت پر مبنی تھا۔ ٹیکس کلیکشن ادارہ ،تنخواہ دار مستقیل مرکزی فوج۔1783 میں تالپوروں نے جب اقتدار سنھبالا تو مغل اپنی عملداری کھو چکے تھے اور خراج احمد شاہ ابدالی کو 1800 تک جاتا تھا ۔
تالپور بلوچ قبائلی سردار تھے، ان کی فوج قبائلی وفاداری پر کھڑی تھی، تنخواہ پر نہیں یہی سے زمین کی حد بندی جاگیرداری میں تبدیل ہوئی۔ ہر تالپور میر اپنے قبیلے اور اتحادی کو میدان میں لاتا۔ یہ جنگجو تنخواہ کے بجائے زمین (جاگیر) یا مالِ غنیمت کے وعدے پر لڑتے۔ سرداروں کو مستقل جاگیریں دے دی جاتیں تاکہ وہ اپنی فوج فراہم کریں۔ یوں فوج کا معاوضہ زمین کی تقسیم کے ذریعے پورا ہوتا تھا۔
جاگیر تو ہمیشہ سردار کو ملتی تھی، عام سپاہی کو براہِ راست جاگیر نہیں ملتی۔یہ ہی وجہ ہے کہ جاگیرداری وڈیرہ شاہی سرداری کی سماجی جڑت کی بنیاد معاشی اصولوں پر کھڑی نہیں ہوئی بلکہ عقیدہ پرستی نسل پرستی اور زات پر مبنی تھی
عام سپاہیوں کا معاوضہ مال غنیمت ہوتا تھا جب بھی کوئی جنگ یا مہم کامیاب ہوتی، لوٹی ہوئی دولت، مال مویشی کا حصہ عام سپاہیوں کو بھی ملتا۔ عام سپاہیوں کو جاگیر نہیں ملتی تھی مگر وہ جاگیر کے کسی بھی حصے میں کھیتی باڑی یاچراگاہ کا استعمال سردار کی اجازت سے کرتے تھے۔
سیاست اور معشیت کا محور سرداروں کے گرد گھومتا تھا جس کی وجہ سے زمینیں جاگیروں کی شکل میں مورثیت میں تبدیل ہوگئیں۔
بہادری اپنی جگہ تالپوروں کے پاس مستقل فوج نہ ہونے سے ان کی لڑائی کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ وہ وقتی طور پر بڑے لشکر کھڑے کر سکتے تھے، مگر ان لشکروں میں تربیت، نظم و ضبط اور جدید ہتھیاروں کی کمی تھی۔ یہی کمزوری انگریزوں کے خلاف ان کی شکست کی وجہ بنی۔دوسری طرف وڈیروں اور جاگیرداروں کا سماجی کردار موقع پرستی پر مبنی ہوتا ہے ۔انکے سیاسی اور معاشی مفادات جاگیرداری پر زاتی عملداری پر منحصر ہوتے ہیں طاقت کا توازن تبدیل ہوتے ہی انکی وفاداریاں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں یہ ہی وجہ تھی کہ جاگیرداروں کی اکثریت انگریزوں کی اطاعت پر رضامند ہوگی تھی اور 1843 میں سندھ کا اقتدار انگریزوں کو منتقیل ہوچکا تھا لیکن زمین زاتی اور موروثی جاگیر کی صورت رہی۔
چارلس نیپئیر نے 1843 میں تالپوروں کو شکست دی اور سندھ کو بمبئی ریزیڈنسی میں شامل کیا۔ انگریزوں نے کسان دوست اصلاحات متعارف نہیں کروائیں بلکہ پہلے سے موجود مقامی سرداروں، وڈیروں اور پیروں کو زمینوں کا مالک تسلیم کیا جس کے لئیے لینڈ سیٹلمینٹ 1857ـ1847 ، سر بارٹل فریئر (کمشنر سندھ) نے زمین کا ریکارڈ مرتب کیا ہاری ’’کرایہ دار‘‘ بن گئے جاگیرداروں اور وڈیروں کو زمین کا مالک قرار دیا گیا ریاست کا نمائندہ مانا گیا۔ سندھ لینڈ ریونیو کوڈ، 1879 یہ سب سے اہم قانون تھا جس نے سندھ میں جاگیرداری کو مضبوط کیا۔ اس قانون کے تحت زمین کے مالک کو ’’زمیندار‘‘ یا ’’وڈیرا‘‘ تسلیم کیا گیا۔کاشتکار صرف کرایہ دار مانے گئے، ان کو زمین پر کوئی مستقل حق نہیں دیا گیا۔ اس طرح محصول براہِ راست جاگیردار سے لیا جانے لگا، جس سے بڑے خاندانوں کی طاقت بڑھ گئی۔ خالصہ (کراون) زمین کی تقسیم (1860ء تا 1920ء) جو زمین بنجر یا غیر آباد تھی، وہ حکومت کے تحت تھی انگریزوں نے یہ زمین عام کسانوں کو نہیں دی بلکہ اپنے وفادار وڈیروں اور سرداروں کو عطا کی۔ ٹیننسی ایکٹ 1900 قوانین بنائے گئے جن میں کہا گیا کہ ہاری کو صرف کاشت کا حق ہے، مگر زمین ہمیشہ زمیندار/جاگیرد
وہ جاگیردار خاندان جن کو انگریز دور میں وفاداری کے بدلے جاگیریں دیں گئیں اور انکو قانونی حیثیت دی گئی بلوچ النسل جتوئی، کھوسو، چانڈیو،لُنجاری، لغاری، مزاری، بھُٹّو ، کھڑو، مہر، ابڑو، سیال، مگسی،نوتکانی، گوکہ ان خاندانوں نے سندھی رسم ورواج کواختیار کیا مگر طرز حکومت بلوچ قبائل کا ہی رہا جس کی بنیاد عسکریت، جنگجوانہ روایات ، سردار کے ساتھ وفاداری اور قبیلے کے رکن کی حیشیت سے جنگی خدمات تھیں انگریزوں کی طرف سے جاگیرداری سند کی بنیاد قبائلی جنگی خدمات تھیں۔ جبکہ سندھی النسل جاگیرداروں میں سہتو، مخدوم اور پیرپگارا شامل تھے جن کی بنیاد روحانیت پر مبنی تھی اپسی جڑت کی بنیاد صوفی ازم پر مبنی تھی اسلئیے جاگیردار اور مزارعے کا رشتہ پیر مریدی پر مبنی تھی جو نسبتا نرم رویے پر مبنی ہوتا تھا۔ انگریزوں کی طرف سے جاگیرداری کی اسناد کی بنیاد روحانیت تھی۔عوامی وابستگی کی بنیاد عقیدت پر تھیں تحفظ کے لئیے سندھی النسل جاگیردار مرکزی فوج پر انحصار کرتے تھے۔
سندھ میں پنجاب اور بمبئی کی طرح صنعت یا شہری معیشت پروان نہ چڑی اس کی بنیادی وجہ چھوٹے کاشتکار یا مضبوط متوسط طبقہ پیدا نہ ہوسکا تجارت اور مالیات بنیوں کے ہاتھ میں رہی جبکہ زمین وڈیروں کے قبصے میں رہی۔ زمین ہی دولت اور طاقت کا بنیادی ذریعہ بنی رہی جس سے جاگیردار طبقہ مضبوط ہوتا گیا۔ پیداوار کی تقسیم سندھ میں تالپور راج سے پہلے 1/3 ہوا کرتی تھی یعنی 1 حصہ زمیندار کا اور دو حصے ہاری کے ہوا کرتے تھے ہاری اپنے دو حصوں میں سے پیداوار کے اخراجات پورے کیا کرتا تھا جبکہ زمیندار اپنے 1 حصے میں سے مرکزی حکومت کو خراج دیتا تھا اور انصاف کے مسائل کو حل کرتا تھا۔اگر پیداوار مسلمان ہاری کرتا تھا تو عشر کے قانون کے تحت خراج 10 فیصد ہوتا تھا 90 فیصد ہاری رکھتا تھا۔ تالپور دور میں مرکزی حکومت کی عملداری تقریبا ختم ہوچکی تھی پیداوار کی تقسیم کا فارمولا بھی تبدئل ہوگیا اب 50-50 یعنی "آدھو" سسٹم پر اگیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ادھا ہاری کا اور ادھا وڈیرے کا۔ ہاری کو اپنے ادھے میں سے پیداواری اخراجات بھی پورے کرنے ہوتے تھے جس کی وجہ سے ادھار کھاتی کا نہ ختم ہونے والا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کی قیمت ہاریوں کی نسلیں اتار رہیں ہیں۔ یاد
دوسری طرف تالپور راج میں مرکزی فوج کا نظام ختم ہوچکا تھا ہر وڈیرے/جاگیردار نے جنگ کے دوران اپنا زاتی لشکر بھیجنا ہوتا تھا لشکر کی وفاداری سردار سے ہوا کرتی تھی۔ مرکزی فوج کے نظام کے ختم ہونے کی وجہ سے وہ زمینیں جو فتوحات کے نتیجے میں انعام کے طور پر فوجیوں کو ملا کرتی تھیں اب اس کی ملکیت وڈیرے/سردار/جاگیردار کی تصرف میں انے لگی جس کے نتیجے میں چھوٹے کاشتکاربنے کا سماجی عمل مفقوط ہوگیا۔ انگریزوں نے پنجاب میں نہریں بنائیں (کالونائزیشن آف کینال ایریاز) تو نئی آباد زمینیں زیادہ تر فوجی ریٹائرڈ سپاہیوں اور کاشتکار خاندانوں کو دیں جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار بڑھی اور کسان مضبوط ہوے زرعی مال کو تجارتی مال بنانے کے لئیے صعنتیں لگیں پنجاب میں تجارت پر ہندوں بنیے کی اجارہ داری نہیں تھی مسلمان اور سکھ بھی برابر کے شریک تھے جس کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بھی تیز رہیں لاہور ملتان فیصل آباد امرتسر تجارتی مراکز بنے۔۔ جبکہ سندھ میں نہریں تو بنائی گئیں لیکن نئی زمینیں عام کسانوں کو دینے کے بجائے بڑے وڈیروں اور پیروں کو دے دی گئیں جس کے نتیجے میں ٖفصلوں کی پیداوار تو بڑھی مگر ہاری مقروض اور کمزور ہی رہا تجارت پر ہندو بنیے
نچلا درمیانی طبقہ اور درمیانی طبقہ تجارت اور صعنت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی منڈیون کا ظہور جس کے نتیجے میں سٹرکوں کا بننا مواصلات اور سپلائی کا نظام ٖزرعی مال کو تجارتی مال میں تبدیل کرنے کے لئیےاسمال انڈسٹری کا ظہور اور قیام دراصل اسی طبقے کی مرہون منت ہوتا ہے۔ سندھ میں استحصالی معاشی اور عدم مرکزی فوج کی پالیسیز کی وجہ سے نچلا درمیانی طبقہ اور درمیانی طبقہ پیدا نہ ہوسکا جبکہ دہلی اودھ یوپی بہار پنجاب جیسے کئی علاقے جہاں یہ طبقہ پیدا ہوا وہاں تجارت اور صعنت نے بھی زور پکڑا جس کی وجہ سے سیاسی طور پر ان علاقوں کی اس خطے میں خاص حیثیت رہی۔
1947 میں آزادی کے وقت سندھ پورے برصغیر میں سب سے مضبوط جاگیردارانہ نظام رکھنے والا خطہ تھا مگر کمزوراور محکوم پیداواری قوت کا نتیجہ کمزور مالیات کی شکل میں نکلتا ہے جس کی وجہ سے جاگیرداری نظام اندر سے کھوکھلا ہوچکا تھا زمین اور ہاری کے آزادانہ استحصال نے جاگیردار کو شاہانہ طرز کی طرف مائل کیا۔1947 تک سندھ کی زیادہ تر زمین رہن پر تھی یہاں جاگیردار نے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کیا اور سندھ اسمبلی میں پارٹیشن سے پہلے زمینوں کو رہن سے آزاد کروانے کی قرار داد پیش کی۔لیکن ہاری اور سندھ کی تقدیر کی محکومیت اوربدحالی جاری رہی۔
تقسیم ہند کے بعد سندھ کی معیشت اور سیاست ایک نئے تضاد کا شکار ہو گئی۔ صدیوں سے قائم جاگیردارانہ ڈھانچہ، جو زمین، ہاری اور وراثتی طاقت پر کھڑا تھا، اچانک ایک ایسے چیلنج کے سامنے آیا جس کی بنیاد سرمایہ، صنعت، مالیات اور جدید پیشہ ورانہ رویوں پر تھی۔ کراچی میں آنے والے تاجر اور صنعت کار نہ صرف اپنا سرمایہ لائے بلکہ ساتھ ساتھ وہ انسٹیٹیوشنل فریم ورک، بینکاری اور مارکیٹ کے اصولوں کی سمجھ بھی لے کر آئے۔ اس طرح سندھ کے اندر ایک نئی دنیا جنم لینے لگی جو پرانے جاگیرداری نظام کے لیے خطرے کی آواز تھی۔
اگر تقسیم سے پہلے سندھ کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو یہاں معیشت تقریباً مکمل طور پر زرعی تھی۔ بڑے وڈیرے زمینوں کے مالک تھے اور ہاری ان کے رحم و کرم پر۔ صنعتی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1947 تک پورے سندھ میں صرف آٹھ جننگ فیکٹریاں اور چند چھوٹی شوگر ملیں موجود تھیں۔ کراچی محض ایک علاقائی بندرگاہ تھا، جہاں سے کپاس اور گندم جیسی زرعی پیداوار باہر جاتی تھی۔ صنعتی پیداوار کی بنیاد نہ تھی اور مالیاتی ادارے بھی زیادہ تر ہندو اور پارسی تاجروں کے قبضے میں تھے، جن کی شاخیں محدود اور سرمایہ بھی کم تھا۔ اس کے برعکس کلکتہ اور بمبئی برصغیر کے اصل مالیاتی و صنعتی مراکز تھے، جہاں بڑے بینکوں کے ہیڈکوارٹر اور وسیع صنعتیں موجود تھیں۔
تقسیم کے بعد یہ خلا تیزی سے پُر ہوا۔ حبیب خاندان نے اپنا بینک بمبئی سے کراچی منتقل کیا اور جلد ہی پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے کے طور پر ابھرا۔ آدم جی گروپ نے انشورنس اور صنعت میں قدم رکھا اور ولیکا خاندان نے 1948 میں پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل مل قائم کی۔ 1955 تک SITE انڈسٹریل ایریا میں چار سو سے زیادہ صنعتی یونٹس قائم ہو چکے تھے۔ 1947 میں پاکستان میں صرف 195 محدود حیثیت کی بینک برانچیں رہ گئی تھیں مگر 1958 تک یہ تعداد تین سو سات ہو گئی اور ان میں زیادہ تر کا مرکز کراچی تھا۔ صنعتی شعبے کی شرحِ نمو 1950 اور 1960 کی دہائی میں سات فیصد سالانہ سے زیادہ رہی کراچی نے تیزی سے پاکستان کے معاشی حب کی حیثیت اختیار کر لی اور آج بھی یہ ملک کی جی ڈی پی کا لگ بھگ تیس فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ دوسری طرف تالپور جتوئی چانڈیو بھٹو کھوڑو سیہٹر مہڑ وغیرہ ہندو جاگیرداروں کے جانے کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوئے ان کے حصے میں مزید زمین اور سیاسی طاقت آئی اقتدار کے ایوانوں میں خاص مقام حاصل ہوا۔ہاری کے پہلے سے خراب حالات میں مزید ابتری آئی۔ ایک طرف کارپوریٹ کلچر کے زیر اثر رہنے والے تعلیم روزگار ہنر میں ترقی کرگے جس کے نتیجے میں متوسط طبقہ پیدا ہوا جبکہ ہاری جاگیررداری کے زیر اثر زندگی کی بنیادی ضروریات تک سے محروم رہا پیداوار اس کی قیمت اور مندڈی تک رسائی پر جگیردارانہ تسلط برقرار رہا۔
یہ تبدیلی محض اعداد و شمار کی نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی تھی۔ ایک طرف جاگیردارانہ نظام تھا جس کی طاقت زمین اور ہاری پر کنٹرول سے آتی تھی، فیصلہ سازی ذاتی اختیار اور خاندان پر مبنی تھی اور معیشت کا ماڈل جمود اور استحصال پر کھڑا تھا۔ دوسری طرف کارپوریٹ کلچر تھا جس کی بنیاد سرمایہ، انسٹیٹیوشنل ڈسپلین، merit اور مارکیٹ کی efficiency پر تھی۔ اس نے ایک نیا متوسط طبقہ پیدا کیا، شہروں میں روزگار اور تعلیم کے مواقع بڑھائے اور جدید معاشی ڈھانچے کو فروغ دیا۔
جاگیردار اس نئے چیلنج کے سامنے پسپا نہیں ہوئے بلکہ اپنے دفاع کے طریقے اختیار کیے۔ انہوں نے اپنی اصل طاقت، یعنی سیاسی گرفت، کو مزید سخت کیا اور اسمبلیوں میں اپنی اکثریت برقرار رکھی تاکہ نئی شہری قوت قانون سازی کے ذریعے ان پر حاوی نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی زرعی سیاسی حکومتی آمدنی کو شہری سرمایہ میں منتقل کیا، کراچی اور حیدرآباد میں جائیدادیں خریدیں، شوگر اور کپاس کی ملوں میں سرمایہ کاری کی لیکن ان اداروں کو بھی جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ چلایا۔ میرٹ کے بجائے خاندانی یا برادری کے تعلقات پر بھرتیاں ہوئیں اور فیصلے ذاتی اختیار کے تحت ہوئے۔
اسی دوران سندھ میں کسان تحریکیں اٹھیں تو جاگیرداروں نے ریاستی اداروں کے ذریعے انہیں دبایا اگر ہاری طاقتور ہو جاتے تو جاگیرداری کی بنیادیں ہی ہل جائیں۔ دوسری انہوں نے سرمایہ داروں کو ’باہر کا عنصر‘ قرار دے کر خود کو مقامی نمائندہ کے طور پر پیش کیا تاکہ اپنی سیاسی برتری قائم رکھ سکیں اور کارپوریٹ تمدن کے اثرات کو دیہی علاقوں تک پہنچنے سے روک سکیں۔ دراصل جاگیرداری کلچر کو سندھ کی ثقافت کا بیانیہ بنا کر اسے اپنی دفاعی لائن کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یوں سندھ میں ایک تضاد نے جنم لیا۔ کراچی صنعتی ترقی، بینکاری اور کارپوریٹ فلسفے کے ذریعے ملک کو آگے بڑھا رہا تھا جبکہ دیہی سندھ جاگیرداری کے جمود میں پھنسا رہا۔ اس تضاد کے مثبت پہلو یہ تھے کہ کراچی کی صنعت نے روزگار، تعلیم اور متوسط طبقے کو جنم دیا اور پاکستان کو عالمی معیشت میں جگہ دی سندھ کے فرسودہ استحصالی پیداواری نظام کے لئیے خطرہ بنا۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے کہ سندھ کے اندر شہری اور دیہی دنیا ایک دوسرے سے کٹتی چلی گئی۔ جاگیردارانہ نظام اپنی دفاعی تدابیر کے ذریعے بچتا رہا اور سندھ کی ترقی دو دھاری تلوار کی طرح ایک طرف آگے بڑھتی اور دوسری طرف رکی رہتی۔
یہی وہ کشمکش ہے جو سندھ کی تاریخ میں بار بار جھلکتی ہے۔ ایک طرف صدیوں پرانا جاگیرداری نظام اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور دوسری طرف کراچی کا کارپوریٹ کلچر ہے جو سندھ کو نئی دنیا کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد سندھ کی ترقی کی کہانی بھی ہے اور اس کے تضادات کا آئینہ بھی۔
"سندھ کی خستہ حالی اور جاگیرداری" (چوتھا حصہ)
تقسیم ہند کے بعد سندھ کی معیشت اور سیاست ایک نئے تضاد کا شکار ہو گئی۔ صدیوں سے قائم جاگیردارانہ ڈھانچہ، جو زمین، ہاری اور وراثتی طاقت پر کھڑا تھا، اچانک ایک ایسے چیلنج کے سامنے آیا جس کی بنیاد سرمایہ، صنعت، مالیات اور جدید پیشہ ورانہ رویوں پر تھی۔ کراچی میں آنے والے تاجر اور صنعت کار نہ صرف اپنا سرمایہ لائے بلکہ ساتھ ساتھ وہ انسٹیٹیوشنل فریم ورک، بینکاری اور مارکیٹ کے اصولوں کی سمجھ بھی لے کر آئے۔ اس طرح سندھ کے اندر ایک نئی دنیا جنم لینے لگی جو پرانے جاگیرداری نظام کے لیے خطرے کی آواز تھی۔
اگر تقسیم سے پہلے سندھ کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو یہاں معیشت تقریباً مکمل طور پر زرعی تھی۔ بڑے وڈیرے زمینوں کے مالک تھے اور ہاری ان کے رحم و کرم پر۔ صنعتی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1947 تک پورے سندھ میں صرف آٹھ جننگ فیکٹریاں اور چند چھوٹی شوگر ملیں موجود تھیں۔ کراچی محض ایک علاقائی بندرگاہ تھا، جہاں سے کپاس اور گندم جیسی زرعی پیداوار باہر جاتی تھی۔ صنعتی پیداوار کی بنیاد نہ تھی اور مالیاتی ادارے بھی زیادہ تر ہندو اور پارسی تاجروں کے قبضے میں تھے، جن کی شاخیں محدود اور سرمایہ بھی کم تھا۔ اس کے برعکس کلکتہ اور بمبئی برصغیر کے اصل مالیاتی و صنعتی مراکز تھے، جہاں بڑے بینکوں کے ہیڈکوارٹر اور وسیع صنعتیں موجود تھیں۔
تقسیم کے بعد یہ خلا تیزی سے پُر ہوا۔ حبیب خاندان نے اپنا بینک بمبئی سے کراچی منتقل کیا اور جلد ہی پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے کے طور پر ابھرا۔ آدم جی گروپ نے انشورنس اور صنعت میں قدم رکھا اور ولیکا خاندان نے 1948 میں پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل مل قائم کی۔ 1955 تک SITE انڈسٹریل ایریا میں چار سو سے زیادہ صنعتی یونٹس قائم ہو چکے تھے۔ 1947 میں پاکستان میں صرف 195 محدود حیثیت کی بینک برانچیں رہ گئی تھیں مگر 1958 تک یہ تعداد تین سو سات ہو گئی اور ان میں زیادہ تر کا مرکز کراچی تھا۔ صنعتی شعبے کی شرحِ نمو 1950 اور 1960 کی دہائی میں سات فیصد سالانہ سے زیادہ رہی کراچی نے تیزی سے پاکستان کے معاشی حب کی حیثیت اختیار کر لی اور آج بھی یہ ملک کی جی ڈی پی کا لگ بھگ تیس فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ دوسری طرف تالپور جتوئی چانڈیو بھٹو کھوڑو سیہٹر مہڑ وغیرہ ہندو جاگیرداروں کے جانے کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوئے ان کے حصے میں مزید زمین اور سیاسی طاقت آئی اقتدار کے ایوانوں میں خاص مقام حاصل ہوا۔ہاری کے پہلے سے خراب حالات میں مزید ابتری آئی۔ ایک طرف کارپوریٹ کلچر کے زیر اثر رہنے والے تعلیم روزگار ہنر میں ترقی کرگے جس کے نتیجے میں متوسط طبقہ پیدا ہوا جبکہ ہاری جاگیررداری کے زیر اثر زندگی کی بنیادی ضروریات تک سے محروم رہا پیداوار اس کی قیمت اور مندڈی تک رسائی پر جگیردارانہ تسلط برقرار رہا۔
یہ تبدیلی محض اعداد و شمار کی نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی تھی۔ ایک طرف جاگیردارانہ نظام تھا جس کی طاقت زمین اور ہاری پر کنٹرول سے آتی تھی، فیصلہ سازی ذاتی اختیار اور خاندان پر مبنی تھی اور معیشت کا ماڈل جمود اور استحصال پر کھڑا تھا۔ دوسری طرف کارپوریٹ کلچر تھا جس کی بنیاد سرمایہ، انسٹیٹیوشنل ڈسپلین، merit اور مارکیٹ کی efficiency پر تھی۔ اس نے ایک نیا متوسط طبقہ پیدا کیا، شہروں میں روزگار اور تعلیم کے مواقع بڑھائے اور جدید معاشی ڈھانچے کو فروغ دیا۔
جاگیردار اس نئے چیلنج کے سامنے پسپا نہیں ہوئے بلکہ اپنے دفاع کے طریقے اختیار کیے۔ انہوں نے اپنی اصل طاقت، یعنی سیاسی گرفت، کو مزید سخت کیا اور اسمبلیوں میں اپنی اکثریت برقرار رکھی تاکہ نئی شہری قوت قانون سازی کے ذریعے ان پر حاوی نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی زرعی سیاسی حکومتی آمدنی کو شہری سرمایہ میں منتقل کیا، کراچی اور حیدرآباد میں جائیدادیں خریدیں، شوگر اور کپاس کی ملوں میں سرمایہ کاری کی لیکن ان اداروں کو بھی جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ چلایا۔ میرٹ کے بجائے خاندانی یا برادری کے تعلقات پر بھرتیاں ہوئیں اور فیصلے ذاتی اختیار کے تحت ہوئے۔
اسی دوران سندھ میں کسان تحریکیں اٹھیں تو جاگیرداروں نے ریاستی اداروں کے ذریعے انہیں دبایا اگر ہاری طاقتور ہو جاتے تو جاگیرداری کی بنیادیں ہی ہل جائیں۔ دوسری انہوں نے سرمایہ داروں کو ’باہر کا عنصر‘ قرار دے کر خود کو مقامی نمائندہ کے طور پر پیش کیا تاکہ اپنی سیاسی برتری قائم رکھ سکیں اور کارپوریٹ تمدن کے اثرات کو دیہی علاقوں تک پہنچنے سے روک سکیں۔ دراصل جاگیرداری کلچر کو سندھ کی ثقافت کا بیانیہ بنا کر اسے اپنی دفاعی لائن کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یوں سندھ میں ایک تضاد نے جنم لیا۔ کراچی صنعتی ترقی، بینکاری اور کارپوریٹ فلسفے کے ذریعے ملک کو آگے بڑھا رہا تھا جبکہ دیہی سندھ جاگیرداری کے جمود میں پھنسا رہا۔ اس تضاد کے مثبت پہلو یہ تھے کہ کراچی کی صنعت نے روزگار، تعلیم اور متوسط طبقے کو جنم دیا اور پاکستان کو عالمی معیشت میں جگہ دی سندھ کے فرسودہ استحصالی پیداواری نظام کے لئیے خطرہ بنا۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے کہ سندھ کے اندر شہری اور دیہی دنیا ایک دوسرے سے کٹتی چلی گئی۔ جاگیردارانہ نظام اپنی دفاعی تدابیر کے ذریعے بچتا رہا اور سندھ کی ترقی دو دھاری تلوار کی طرح ایک طرف آگے بڑھتی اور دوسری طرف رکی رہتی۔
یہی وہ کشمکش ہے جو سندھ کی تاریخ میں بار بار جھلکتی ہے۔ ایک طرف صدیوں پرانا جاگیرداری نظام اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور دوسری طرف کراچی کا کارپوریٹ کلچر ہے جو سندھ کو نئی دنیا کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد سندھ کی ترقی کی کہانی بھی ہے اور اس کے تضادات کا آئینہ بھی۔
"سندھ کی خستہ حالی اور جاگیرداری"
آدم عباس
رومن ایمپائر جن کی بظاہر تباہی قبائلی شکست سے شروع ہوئی دراصل اس سے کافی پہلے اپنا سماجی نظام کمزور کر چکے تھے ٹیکسیز میں بے تحاشہ اضافہ، محنت کاروں کی امدنیوں میں کمی، افلاس کا بڑھنا، جدیدیت کی راہ کا ماند پڑھ جانا، اقراباپروری، رشوت، زاتی مفاد کی بنیاد پر طرفداری، صلاحیتوں کا قتل عام، اسمانی کردار کی رجعت پرستانہ تخلیق تاکہ رہبر اور مقلید کا رشتہ بنایا جاسکے۔یہ وہ عوامل ہوتے ہیں جو کسی بھی سماج کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اس کے بعد کوئی بھی اہم واقعہ پوری نظام کو زمین بوس کر دیتا ہے۔یہ ہی کچھ مغل شہنشائیت میں اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہوا۔اورنگزیب عالمگیر کی حکومت بظاہر مغل سلطنت کا سب سے وسیع اور طاقتور دور تھا، لیکن حقیقت میں اس کے آخر تک سلطنت کمزور اور زوال پذیر ہوچکی تھی۔اورنگزیب نے سلطنت کو بہت زیادہ پھیلا دیا۔ اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنا نہ مالی طور پر ممکن تھا نہ انتظامی طور پر۔ دکن کی جنگوں میں بے پناہ خزانہ اور فوجی طاقت خرچ ہوئی۔ ایسے میں سخت گیر رجعتی پالیسیز اختیار کی جاتی ہیں۔انہوں نے غیر مسلموں پر جزیہ دوبارہ نافذ کیا اور کئی مندروں کو توڑنے کے احکامات دیے۔ اس سے ہندو، سکھ، مراٹھا اور راجپوت سب
تالپور دور حکومت عدم مرکزیت پر مبنی تھا جہاں سے موجودہ دور کی جاگیرداری کے خدوخال بننا شروع ہوے۔ کلھوڑو کا طرز حکومت مغل طرز حکومت کی طرح مرکزیت پر مبنی تھا۔ ٹیکس کلیکشن ادارہ ،تنخواہ دار مستقیل مرکزی فوج۔1783 میں تالپوروں نے جب اقتدار سنھبالا تو مغل اپنی عملداری کھو چکے تھے اور خراج احمد شاہ ابدالی کو 1800 تک جاتا تھا ۔
تالپور بلوچ قبائلی سردار تھے، ان کی فوج قبائلی وفاداری پر کھڑی تھی، تنخواہ پر نہیں یہی سے زمین کی حد بندی جاگیرداری میں تبدیل ہوئی۔ ہر تالپور میر اپنے قبیلے اور اتحادی کو میدان میں لاتا۔ یہ جنگجو تنخواہ کے بجائے زمین (جاگیر) یا مالِ غنیمت کے وعدے پر لڑتے۔ سرداروں کو مستقل جاگیریں دے دی جاتیں تاکہ وہ اپنی فوج فراہم کریں۔ یوں فوج کا معاوضہ زمین کی تقسیم کے ذریعے پورا ہوتا تھا۔
جاگیر تو ہمیشہ سردار کو ملتی تھی، عام سپاہی کو براہِ راست جاگیر نہیں ملتی۔یہ ہی وجہ ہے کہ جاگیرداری وڈیرہ شاہی سرداری کی سماجی جڑت کی بنیاد معاشی اصولوں پر کھڑی نہیں ہوئی بلکہ عقیدہ پرستی نسل پرستی اور زات پر مبنی تھی
عام سپاہیوں کا معاوضہ مال غنیمت ہوتا تھا جب بھی کوئی جنگ یا مہم کامیاب ہوتی، لوٹی ہوئی دولت، مال مویشی کا حصہ عام سپاہیوں کو بھی ملتا۔ عام سپاہیوں کو جاگیر نہیں ملتی تھی مگر وہ جاگیر کے کسی بھی حصے میں کھیتی باڑی یاچراگاہ کا استعمال سردار کی اجازت سے کرتے تھے۔
سیاست اور معشیت کا محور سرداروں کے گرد گھومتا تھا جس کی وجہ سے زمینیں جاگیروں کی شکل میں مورثیت میں تبدیل ہوگئیں۔
بہادری اپنی جگہ تالپوروں کے پاس مستقل فوج نہ ہونے سے ان کی لڑائی کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ وہ وقتی طور پر بڑے لشکر کھڑے کر سکتے تھے، مگر ان لشکروں میں تربیت، نظم و ضبط اور جدید ہتھیاروں کی کمی تھی۔ یہی کمزوری انگریزوں کے خلاف ان کی شکست کی وجہ بنی۔دوسری طرف وڈیروں اور جاگیرداروں کا سماجی کردار موقع پرستی پر مبنی ہوتا ہے ۔انکے سیاسی اور معاشی مفادات جاگیرداری پر زاتی عملداری پر منحصر ہوتے ہیں طاقت کا توازن تبدیل ہوتے ہی انکی وفاداریاں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں یہ ہی وجہ تھی کہ جاگیرداروں کی اکثریت انگریزوں کی اطاعت پر رضامند ہوگی تھی اور 1843 میں سندھ کا اقتدار انگریزوں کو منتقیل ہوچکا تھا لیکن زمین زاتی اور موروثی جاگیر کی صورت رہی۔
چارلس نیپئیر نے 1843 میں تالپوروں کو شکست دی اور سندھ کو بمبئی ریزیڈنسی میں شامل کیا۔ انگریزوں نے کسان دوست اصلاحات متعارف نہیں کروائیں بلکہ پہلے سے موجود مقامی سرداروں، وڈیروں اور پیروں کو زمینوں کا مالک تسلیم کیا جس کے لئیے لینڈ سیٹلمینٹ 1857ـ1847 ، سر بارٹل فریئر (کمشنر سندھ) نے زمین کا ریکارڈ مرتب کیا ہاری ’’کرایہ دار‘‘ بن گئے جاگیرداروں اور وڈیروں کو زمین کا مالک قرار دیا گیا ریاست کا نمائندہ مانا گیا۔ سندھ لینڈ ریونیو کوڈ، 1879 یہ سب سے اہم قانون تھا جس نے سندھ میں جاگیرداری کو مضبوط کیا۔ اس قانون کے تحت زمین کے مالک کو ’’زمیندار‘‘ یا ’’وڈیرا‘‘ تسلیم کیا گیا۔کاشتکار صرف کرایہ دار مانے گئے، ان کو زمین پر کوئی مستقل حق نہیں دیا گیا۔ اس طرح محصول براہِ راست جاگیردار سے لیا جانے لگا، جس سے بڑے خاندانوں کی طاقت بڑھ گئی۔ خالصہ (کراون) زمین کی تقسیم (1860ء تا 1920ء) جو زمین بنجر یا غیر آباد تھی، وہ حکومت کے تحت تھی انگریزوں نے یہ زمین عام کسانوں کو نہیں دی بلکہ اپنے وفادار وڈیروں اور سرداروں کو عطا کی۔ ٹیننسی ایکٹ 1900 قوانین بنائے گئے جن میں کہا گیا کہ ہاری کو صرف کاشت کا حق ہے، مگر زمین ہمیشہ زمیندار/جاگیرد
وہ جاگیردار خاندان جن کو انگریز دور میں وفاداری کے بدلے جاگیریں دیں گئیں اور انکو قانونی حیثیت دی گئی بلوچ النسل جتوئی، کھوسو، چانڈیو،لُنجاری، لغاری، مزاری، بھُٹّو ، کھڑو، مہر، ابڑو، سیال، مگسی،نوتکانی، گوکہ ان خاندانوں نے سندھی رسم ورواج کواختیار کیا مگر طرز حکومت بلوچ قبائل کا ہی رہا جس کی بنیاد عسکریت، جنگجوانہ روایات ، سردار کے ساتھ وفاداری اور قبیلے کے رکن کی حیشیت سے جنگی خدمات تھیں انگریزوں کی طرف سے جاگیرداری سند کی بنیاد قبائلی جنگی خدمات تھیں۔ جبکہ سندھی النسل جاگیرداروں میں سہتو، مخدوم اور پیرپگارا شامل تھے جن کی بنیاد روحانیت پر مبنی تھی اپسی جڑت کی بنیاد صوفی ازم پر مبنی تھی اسلئیے جاگیردار اور مزارعے کا رشتہ پیر مریدی پر مبنی تھی جو نسبتا نرم رویے پر مبنی ہوتا تھا۔ انگریزوں کی طرف سے جاگیرداری کی اسناد کی بنیاد روحانیت تھی۔عوامی وابستگی کی بنیاد عقیدت پر تھیں تحفظ کے لئیے سندھی النسل جاگیردار مرکزی فوج پر انحصار کرتے تھے۔
سندھ میں پنجاب اور بمبئی کی طرح صنعت یا شہری معیشت پروان نہ چڑی اس کی بنیادی وجہ چھوٹے کاشتکار یا مضبوط متوسط طبقہ پیدا نہ ہوسکا تجارت اور مالیات بنیوں کے ہاتھ میں رہی جبکہ زمین وڈیروں کے قبصے میں رہی۔ زمین ہی دولت اور طاقت کا بنیادی ذریعہ بنی رہی جس سے جاگیردار طبقہ مضبوط ہوتا گیا۔ پیداوار کی تقسیم سندھ میں تالپور راج سے پہلے 1/3 ہوا کرتی تھی یعنی 1 حصہ زمیندار کا اور دو حصے ہاری کے ہوا کرتے تھے ہاری اپنے دو حصوں میں سے پیداوار کے اخراجات پورے کیا کرتا تھا جبکہ زمیندار اپنے 1 حصے میں سے مرکزی حکومت کو خراج دیتا تھا اور انصاف کے مسائل کو حل کرتا تھا۔اگر پیداوار مسلمان ہاری کرتا تھا تو عشر کے قانون کے تحت خراج 10 فیصد ہوتا تھا 90 فیصد ہاری رکھتا تھا۔ تالپور دور میں مرکزی حکومت کی عملداری تقریبا ختم ہوچکی تھی پیداوار کی تقسیم کا فارمولا بھی تبدئل ہوگیا اب 50-50 یعنی "آدھو" سسٹم پر اگیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ادھا ہاری کا اور ادھا وڈیرے کا۔ ہاری کو اپنے ادھے میں سے پیداواری اخراجات بھی پورے کرنے ہوتے تھے جس کی وجہ سے ادھار کھاتی کا نہ ختم ہونے والا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کی قیمت ہاریوں کی نسلیں اتار رہیں ہیں۔ یاد
دوسری طرف تالپور راج میں مرکزی فوج کا نظام ختم ہوچکا تھا ہر وڈیرے/جاگیردار نے جنگ کے دوران اپنا زاتی لشکر بھیجنا ہوتا تھا لشکر کی وفاداری سردار سے ہوا کرتی تھی۔ مرکزی فوج کے نظام کے ختم ہونے کی وجہ سے وہ زمینیں جو فتوحات کے نتیجے میں انعام کے طور پر فوجیوں کو ملا کرتی تھیں اب اس کی ملکیت وڈیرے/سردار/جاگیردار کی تصرف میں انے لگی جس کے نتیجے میں چھوٹے کاشتکاربنے کا سماجی عمل مفقوط ہوگیا۔ انگریزوں نے پنجاب میں نہریں بنائیں (کالونائزیشن آف کینال ایریاز) تو نئی آباد زمینیں زیادہ تر فوجی ریٹائرڈ سپاہیوں اور کاشتکار خاندانوں کو دیں جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار بڑھی اور کسان مضبوط ہوے زرعی مال کو تجارتی مال بنانے کے لئیے صعنتیں لگیں پنجاب میں تجارت پر ہندوں بنیے کی اجارہ داری نہیں تھی مسلمان اور سکھ بھی برابر کے شریک تھے جس کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بھی تیز رہیں لاہور ملتان فیصل آباد امرتسر تجارتی مراکز بنے۔۔ جبکہ سندھ میں نہریں تو بنائی گئیں لیکن نئی زمینیں عام کسانوں کو دینے کے بجائے بڑے وڈیروں اور پیروں کو دے دی گئیں جس کے نتیجے میں ٖفصلوں کی پیداوار تو بڑھی مگر ہاری مقروض اور کمزور ہی رہا تجارت پر ہندو بنیے
نچلا درمیانی طبقہ اور درمیانی طبقہ تجارت اور صعنت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی منڈیون کا ظہور جس کے نتیجے میں سٹرکوں کا بننا مواصلات اور سپلائی کا نظام ٖزرعی مال کو تجارتی مال میں تبدیل کرنے کے لئیےاسمال انڈسٹری کا ظہور اور قیام دراصل اسی طبقے کی مرہون منت ہوتا ہے۔ سندھ میں استحصالی معاشی اور عدم مرکزی فوج کی پالیسیز کی وجہ سے نچلا درمیانی طبقہ اور درمیانی طبقہ پیدا نہ ہوسکا جبکہ دہلی اودھ یوپی بہار پنجاب جیسے کئی علاقے جہاں یہ طبقہ پیدا ہوا وہاں تجارت اور صعنت نے بھی زور پکڑا جس کی وجہ سے سیاسی طور پر ان علاقوں کی اس خطے میں خاص حیثیت رہی۔
1947 میں آزادی کے وقت سندھ پورے برصغیر میں سب سے مضبوط جاگیردارانہ نظام رکھنے والا خطہ تھا مگر کمزوراور محکوم پیداواری قوت کا نتیجہ کمزور مالیات کی شکل میں نکلتا ہے جس کی وجہ سے جاگیرداری نظام اندر سے کھوکھلا ہوچکا تھا زمین اور ہاری کے آزادانہ استحصال نے جاگیردار کو شاہانہ طرز کی طرف مائل کیا۔1947 تک سندھ کی زیادہ تر زمین رہن پر تھی یہاں جاگیردار نے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کیا اور سندھ اسمبلی میں پارٹیشن سے پہلے زمینوں کو رہن سے آزاد کروانے کی قرار داد پیش کی۔لیکن ہاری اور سندھ کی تقدیر کی محکومیت اوربدحالی جاری رہی۔
تقسیم ہند کے بعد سندھ کی معیشت اور سیاست ایک نئے تضاد کا شکار ہو گئی۔ صدیوں سے قائم جاگیردارانہ ڈھانچہ، جو زمین، ہاری اور وراثتی طاقت پر کھڑا تھا، اچانک ایک ایسے چیلنج کے سامنے آیا جس کی بنیاد سرمایہ، صنعت، مالیات اور جدید پیشہ ورانہ رویوں پر تھی۔ کراچی میں آنے والے تاجر اور صنعت کار نہ صرف اپنا سرمایہ لائے بلکہ ساتھ ساتھ وہ انسٹیٹیوشنل فریم ورک، بینکاری اور مارکیٹ کے اصولوں کی سمجھ بھی لے کر آئے۔ اس طرح سندھ کے اندر ایک نئی دنیا جنم لینے لگی جو پرانے جاگیرداری نظام کے لیے خطرے کی آواز تھی۔
اگر تقسیم سے پہلے سندھ کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو یہاں معیشت تقریباً مکمل طور پر زرعی تھی۔ بڑے وڈیرے زمینوں کے مالک تھے اور ہاری ان کے رحم و کرم پر۔ صنعتی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1947 تک پورے سندھ میں صرف آٹھ جننگ فیکٹریاں اور چند چھوٹی شوگر ملیں موجود تھیں۔ کراچی محض ایک علاقائی بندرگاہ تھا، جہاں سے کپاس اور گندم جیسی زرعی پیداوار باہر جاتی تھی۔ صنعتی پیداوار کی بنیاد نہ تھی اور مالیاتی ادارے بھی زیادہ تر ہندو اور پارسی تاجروں کے قبضے میں تھے، جن کی شاخیں محدود اور سرمایہ بھی کم تھا۔ اس کے برعکس کلکتہ اور بمبئی برصغیر کے اصل مالیاتی و صنعتی مراکز تھے، جہاں بڑے بینکوں کے ہیڈکوارٹر اور وسیع صنعتیں موجود تھیں۔
تقسیم کے بعد یہ خلا تیزی سے پُر ہوا۔ حبیب خاندان نے اپنا بینک بمبئی سے کراچی منتقل کیا اور جلد ہی پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے کے طور پر ابھرا۔ آدم جی گروپ نے انشورنس اور صنعت میں قدم رکھا اور ولیکا خاندان نے 1948 میں پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل مل قائم کی۔ 1955 تک SITE انڈسٹریل ایریا میں چار سو سے زیادہ صنعتی یونٹس قائم ہو چکے تھے۔ 1947 میں پاکستان میں صرف 195 محدود حیثیت کی بینک برانچیں رہ گئی تھیں مگر 1958 تک یہ تعداد تین سو سات ہو گئی اور ان میں زیادہ تر کا مرکز کراچی تھا۔ صنعتی شعبے کی شرحِ نمو 1950 اور 1960 کی دہائی میں سات فیصد سالانہ سے زیادہ رہی کراچی نے تیزی سے پاکستان کے معاشی حب کی حیثیت اختیار کر لی اور آج بھی یہ ملک کی جی ڈی پی کا لگ بھگ تیس فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ دوسری طرف تالپور جتوئی چانڈیو بھٹو کھوڑو سیہٹر مہڑ وغیرہ ہندو جاگیرداروں کے جانے کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوئے ان کے حصے میں مزید زمین اور سیاسی طاقت آئی اقتدار کے ایوانوں میں خاص مقام حاصل ہوا۔ہاری کے پہلے سے خراب حالات میں مزید ابتری آئی۔ ایک طرف کارپوریٹ کلچر کے زیر اثر رہنے والے تعلیم روزگار ہنر میں ترقی کرگے جس کے نتیجے میں متوسط طبقہ پیدا ہوا جبکہ ہاری جاگیررداری کے زیر اثر زندگی کی بنیادی ضروریات تک سے محروم رہا پیداوار اس کی قیمت اور مندڈی تک رسائی پر جگیردارانہ تسلط برقرار رہا۔
یہ تبدیلی محض اعداد و شمار کی نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی تھی۔ ایک طرف جاگیردارانہ نظام تھا جس کی طاقت زمین اور ہاری پر کنٹرول سے آتی تھی، فیصلہ سازی ذاتی اختیار اور خاندان پر مبنی تھی اور معیشت کا ماڈل جمود اور استحصال پر کھڑا تھا۔ دوسری طرف کارپوریٹ کلچر تھا جس کی بنیاد سرمایہ، انسٹیٹیوشنل ڈسپلین، merit اور مارکیٹ کی efficiency پر تھی۔ اس نے ایک نیا متوسط طبقہ پیدا کیا، شہروں میں روزگار اور تعلیم کے مواقع بڑھائے اور جدید معاشی ڈھانچے کو فروغ دیا۔
جاگیردار اس نئے چیلنج کے سامنے پسپا نہیں ہوئے بلکہ اپنے دفاع کے طریقے اختیار کیے۔ انہوں نے اپنی اصل طاقت، یعنی سیاسی گرفت، کو مزید سخت کیا اور اسمبلیوں میں اپنی اکثریت برقرار رکھی تاکہ نئی شہری قوت قانون سازی کے ذریعے ان پر حاوی نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی زرعی سیاسی حکومتی آمدنی کو شہری سرمایہ میں منتقل کیا، کراچی اور حیدرآباد میں جائیدادیں خریدیں، شوگر اور کپاس کی ملوں میں سرمایہ کاری کی لیکن ان اداروں کو بھی جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ چلایا۔ میرٹ کے بجائے خاندانی یا برادری کے تعلقات پر بھرتیاں ہوئیں اور فیصلے ذاتی اختیار کے تحت ہوئے۔
اسی دوران سندھ میں کسان تحریکیں اٹھیں تو جاگیرداروں نے ریاستی اداروں کے ذریعے انہیں دبایا اگر ہاری طاقتور ہو جاتے تو جاگیرداری کی بنیادیں ہی ہل جائیں۔ دوسری انہوں نے سرمایہ داروں کو ’باہر کا عنصر‘ قرار دے کر خود کو مقامی نمائندہ کے طور پر پیش کیا تاکہ اپنی سیاسی برتری قائم رکھ سکیں اور کارپوریٹ تمدن کے اثرات کو دیہی علاقوں تک پہنچنے سے روک سکیں۔ دراصل جاگیرداری کلچر کو سندھ کی ثقافت کا بیانیہ بنا کر اسے اپنی دفاعی لائن کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یوں سندھ میں ایک تضاد نے جنم لیا۔ کراچی صنعتی ترقی، بینکاری اور کارپوریٹ فلسفے کے ذریعے ملک کو آگے بڑھا رہا تھا جبکہ دیہی سندھ جاگیرداری کے جمود میں پھنسا رہا۔ اس تضاد کے مثبت پہلو یہ تھے کہ کراچی کی صنعت نے روزگار، تعلیم اور متوسط طبقے کو جنم دیا اور پاکستان کو عالمی معیشت میں جگہ دی سندھ کے فرسودہ استحصالی پیداواری نظام کے لئیے خطرہ بنا۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے کہ سندھ کے اندر شہری اور دیہی دنیا ایک دوسرے سے کٹتی چلی گئی۔ جاگیردارانہ نظام اپنی دفاعی تدابیر کے ذریعے بچتا رہا اور سندھ کی ترقی دو دھاری تلوار کی طرح ایک طرف آگے بڑھتی اور دوسری طرف رکی رہتی۔
یہی وہ کشمکش ہے جو سندھ کی تاریخ میں بار بار جھلکتی ہے۔ ایک طرف صدیوں پرانا جاگیرداری نظام اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور دوسری طرف کراچی کا کارپوریٹ کلچر ہے جو سندھ کو نئی دنیا کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد سندھ کی ترقی کی کہانی بھی ہے اور اس کے تضادات کا آئینہ بھی۔
"سندھ کی خستہ حالی اور جاگیرداری" (چوتھا حصہ)
تقسیم ہند کے بعد سندھ کی معیشت اور سیاست ایک نئے تضاد کا شکار ہو گئی۔ صدیوں سے قائم جاگیردارانہ ڈھانچہ، جو زمین، ہاری اور وراثتی طاقت پر کھڑا تھا، اچانک ایک ایسے چیلنج کے سامنے آیا جس کی بنیاد سرمایہ، صنعت، مالیات اور جدید پیشہ ورانہ رویوں پر تھی۔ کراچی میں آنے والے تاجر اور صنعت کار نہ صرف اپنا سرمایہ لائے بلکہ ساتھ ساتھ وہ انسٹیٹیوشنل فریم ورک، بینکاری اور مارکیٹ کے اصولوں کی سمجھ بھی لے کر آئے۔ اس طرح سندھ کے اندر ایک نئی دنیا جنم لینے لگی جو پرانے جاگیرداری نظام کے لیے خطرے کی آواز تھی۔
اگر تقسیم سے پہلے سندھ کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو یہاں معیشت تقریباً مکمل طور پر زرعی تھی۔ بڑے وڈیرے زمینوں کے مالک تھے اور ہاری ان کے رحم و کرم پر۔ صنعتی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1947 تک پورے سندھ میں صرف آٹھ جننگ فیکٹریاں اور چند چھوٹی شوگر ملیں موجود تھیں۔ کراچی محض ایک علاقائی بندرگاہ تھا، جہاں سے کپاس اور گندم جیسی زرعی پیداوار باہر جاتی تھی۔ صنعتی پیداوار کی بنیاد نہ تھی اور مالیاتی ادارے بھی زیادہ تر ہندو اور پارسی تاجروں کے قبضے میں تھے، جن کی شاخیں محدود اور سرمایہ بھی کم تھا۔ اس کے برعکس کلکتہ اور بمبئی برصغیر کے اصل مالیاتی و صنعتی مراکز تھے، جہاں بڑے بینکوں کے ہیڈکوارٹر اور وسیع صنعتیں موجود تھیں۔
تقسیم کے بعد یہ خلا تیزی سے پُر ہوا۔ حبیب خاندان نے اپنا بینک بمبئی سے کراچی منتقل کیا اور جلد ہی پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے کے طور پر ابھرا۔ آدم جی گروپ نے انشورنس اور صنعت میں قدم رکھا اور ولیکا خاندان نے 1948 میں پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل مل قائم کی۔ 1955 تک SITE انڈسٹریل ایریا میں چار سو سے زیادہ صنعتی یونٹس قائم ہو چکے تھے۔ 1947 میں پاکستان میں صرف 195 محدود حیثیت کی بینک برانچیں رہ گئی تھیں مگر 1958 تک یہ تعداد تین سو سات ہو گئی اور ان میں زیادہ تر کا مرکز کراچی تھا۔ صنعتی شعبے کی شرحِ نمو 1950 اور 1960 کی دہائی میں سات فیصد سالانہ سے زیادہ رہی کراچی نے تیزی سے پاکستان کے معاشی حب کی حیثیت اختیار کر لی اور آج بھی یہ ملک کی جی ڈی پی کا لگ بھگ تیس فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ دوسری طرف تالپور جتوئی چانڈیو بھٹو کھوڑو سیہٹر مہڑ وغیرہ ہندو جاگیرداروں کے جانے کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوئے ان کے حصے میں مزید زمین اور سیاسی طاقت آئی اقتدار کے ایوانوں میں خاص مقام حاصل ہوا۔ہاری کے پہلے سے خراب حالات میں مزید ابتری آئی۔ ایک طرف کارپوریٹ کلچر کے زیر اثر رہنے والے تعلیم روزگار ہنر میں ترقی کرگے جس کے نتیجے میں متوسط طبقہ پیدا ہوا جبکہ ہاری جاگیررداری کے زیر اثر زندگی کی بنیادی ضروریات تک سے محروم رہا پیداوار اس کی قیمت اور مندڈی تک رسائی پر جگیردارانہ تسلط برقرار رہا۔
یہ تبدیلی محض اعداد و شمار کی نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی تھی۔ ایک طرف جاگیردارانہ نظام تھا جس کی طاقت زمین اور ہاری پر کنٹرول سے آتی تھی، فیصلہ سازی ذاتی اختیار اور خاندان پر مبنی تھی اور معیشت کا ماڈل جمود اور استحصال پر کھڑا تھا۔ دوسری طرف کارپوریٹ کلچر تھا جس کی بنیاد سرمایہ، انسٹیٹیوشنل ڈسپلین، merit اور مارکیٹ کی efficiency پر تھی۔ اس نے ایک نیا متوسط طبقہ پیدا کیا، شہروں میں روزگار اور تعلیم کے مواقع بڑھائے اور جدید معاشی ڈھانچے کو فروغ دیا۔
جاگیردار اس نئے چیلنج کے سامنے پسپا نہیں ہوئے بلکہ اپنے دفاع کے طریقے اختیار کیے۔ انہوں نے اپنی اصل طاقت، یعنی سیاسی گرفت، کو مزید سخت کیا اور اسمبلیوں میں اپنی اکثریت برقرار رکھی تاکہ نئی شہری قوت قانون سازی کے ذریعے ان پر حاوی نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی زرعی سیاسی حکومتی آمدنی کو شہری سرمایہ میں منتقل کیا، کراچی اور حیدرآباد میں جائیدادیں خریدیں، شوگر اور کپاس کی ملوں میں سرمایہ کاری کی لیکن ان اداروں کو بھی جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ چلایا۔ میرٹ کے بجائے خاندانی یا برادری کے تعلقات پر بھرتیاں ہوئیں اور فیصلے ذاتی اختیار کے تحت ہوئے۔
اسی دوران سندھ میں کسان تحریکیں اٹھیں تو جاگیرداروں نے ریاستی اداروں کے ذریعے انہیں دبایا اگر ہاری طاقتور ہو جاتے تو جاگیرداری کی بنیادیں ہی ہل جائیں۔ دوسری انہوں نے سرمایہ داروں کو ’باہر کا عنصر‘ قرار دے کر خود کو مقامی نمائندہ کے طور پر پیش کیا تاکہ اپنی سیاسی برتری قائم رکھ سکیں اور کارپوریٹ تمدن کے اثرات کو دیہی علاقوں تک پہنچنے سے روک سکیں۔ دراصل جاگیرداری کلچر کو سندھ کی ثقافت کا بیانیہ بنا کر اسے اپنی دفاعی لائن کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یوں سندھ میں ایک تضاد نے جنم لیا۔ کراچی صنعتی ترقی، بینکاری اور کارپوریٹ فلسفے کے ذریعے ملک کو آگے بڑھا رہا تھا جبکہ دیہی سندھ جاگیرداری کے جمود میں پھنسا رہا۔ اس تضاد کے مثبت پہلو یہ تھے کہ کراچی کی صنعت نے روزگار، تعلیم اور متوسط طبقے کو جنم دیا اور پاکستان کو عالمی معیشت میں جگہ دی سندھ کے فرسودہ استحصالی پیداواری نظام کے لئیے خطرہ بنا۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے کہ سندھ کے اندر شہری اور دیہی دنیا ایک دوسرے سے کٹتی چلی گئی۔ جاگیردارانہ نظام اپنی دفاعی تدابیر کے ذریعے بچتا رہا اور سندھ کی ترقی دو دھاری تلوار کی طرح ایک طرف آگے بڑھتی اور دوسری طرف رکی رہتی۔
یہی وہ کشمکش ہے جو سندھ کی تاریخ میں بار بار جھلکتی ہے۔ ایک طرف صدیوں پرانا جاگیرداری نظام اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور دوسری طرف کراچی کا کارپوریٹ کلچر ہے جو سندھ کو نئی دنیا کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد سندھ کی ترقی کی کہانی بھی ہے اور اس کے تضادات کا آئینہ بھی۔