شمع ہر رنگ میں
شمع ہر رنگ میں
Jan 20, 2024
دیدبان شمارہ ۔۲۲ ۲۰۲۴
شمع ہر رنگ میں--- (افسانہ)
امتیاز خان، پونے- انڈیا
جہاز کے اڑان بھرنے سے پیش تر ضروری ہدایات نشر ہورہی تھیں۔سیٹ بیلٹ باندھنے سے لے کر برقی آلات بند کرنے تک تمام ہدایات دو مرتبہ دہرائی جاچکی تھیں۔مگر میں ابھی تک موبائل ہاتھ میں تھامے اسکرین کو سکتے کے عالم میں تکے جا رہا تھا۔حالانکہ کال منقطع ہوئے کافی وقفہ بیت چکا تھا۔
سر پلیزسوئچ آف یور فون۔ایئر ہوسٹس قریب کھڑی پکار رہی تھی۔تب جیسے میں ہوش میں آیا۔فون کو بند کرکے کرسی سیدھی کی،اور سیٹ بیلٹ باندھ کرکرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔
جہاز اب رن وے پر تیزی سے بھاگ رہا تھا۔لندن کے معروف ہیتھرو ایئر پورٹ کی جگمگاتی روشنیاں دور ہوتی جارہی تھیں۔اب تب میں جہاز کے پہیے زمین چھوڑ کر اوپر اٹھنے کو تھے،مگر میرا دل مسلسل بیٹھا جا رہا تھا۔موبائل پر جو کال ابھی ابھی آئی تھی وہ ایسی ہی غیر متوقع اور دل سوز تھی۔
اشفاق کی کال تھی، دہلی سے۔جہاز میں اپنی نشست پر بیٹھتے ہی میں نے موبائل نکالا تھا اور ارادہ تھا کہ میسجز چیک کرکے ایئر پلین موڈ پر ڈال دوں گا۔تبھی واٹس اپ کال آگئی۔ہیلو! رضوان بھائی،بھائی۔۔۔ایک بری خبر ہے۔رفعت باجی انتقال کر گئیں۔اس کا لہجہ رو دینے والا تھا۔
ارے۔۔۔۔؟ کب۔۔۔۔۔۔؟کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہیلو۔۔۔اُشو۔۔۔۔۔۔ہیلو۔
مگر کال منقطع ہوچکی تھی۔نیٹ ورک ڈاؤن تھا شاید۔
جہاز اب ہوامیں بادلوں کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔میں نے مضمحل ہو کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
اشفاق میری پھوپھی کا لڑکا تھا۔رفعت اس کی بڑی بہن تھی۔غالباً اس سے دو سال بڑی تھی۔اور مجھ سے لگ بھگ دو سال چھوٹی۔ پھوپھا اور پھوپھی کو بس یہی دو اولادیں تھیں۔ان چار افراد پر مشتمل خوشحال کنبے کے ساتھ تقریباً دو سال میں نے بھی فیملی کے ایک فرد کی حیثیت سے گذارے۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعدایم بی اے کیلئے کوئی مناسب کالج نہ ہونے کے سبب میں نے دہلی کا قصد کیا۔اور جب پھوپھی کو اس بات کی خبر ہوئی کہ کالج میں داخلے کے ساتھ ساتھ میں نے ہاسٹل کیلئے بھی اپلائی کیاہے تو وہ اتنی کبیدہ خاطرہوئیں کہ میرے بڑے بھائی کی منگنی کی تقریب میں شرکت کیلئے منع کردیا۔بھاگم بھاگ ابا دلی پہنچے۔پھوپھی سے ہزاروں صلواتیں سنیں۔اور بے ایمان۔۔۔۔۔ بے مروت۔۔۔۔۔سفید خون۔۔۔۔جورو کا غلام جیسے بیسیوں القابات حاصل کئے۔مگر ان کو ساتھ لے کر بھوپال لوٹے،پھوپھی کی اس شرط کے ساتھ کہ میں پہلی فرصت میں ہاسٹل کی اپلیکیشن واپس لے کر قرول باغ میں واقع انکے دو منزلہ مکان میں سکونت اختیار کروں۔
دہلی میں پھوپھی کے گھر میرا دو سالہ قیام اگر پھوپھا اور پھوپھی سے ملنے والی شفقت اور سہولیات کے حوالے سے قابل یادگار تھا تو رفعت اور اشفاق کی پر جوش اور دوستانہ صحبتوں کے باعث ناقابل فراموش تھا۔تقریباً ہر ویک اینڈ پر ہم تینوں مل کر تفریح کے نت نئے پروگرام بناتے۔دہلی کی قدامت اور جدت کے مزے لوٹتے۔چاندنی چوک کی نلی نہاری سے لیکر کناٹ پیلس کے میکڈو نالڈ میں فش برگر تک ہم نے دہلی کی ضیافت کے بے حساب مزے لوٹے۔کبھی لال قلعے کی پر شکوہ فصیلوں سے مرعوب ہوئے تو کبھی غالب کے بلی ماراں کی کوچہ گردی کر کے اپنے ذوق ادب کی تسکین کی۔کبھی حضرت نظام الدین ؒ کے آستانے پر عقیدت کے پھول برسائے تو کبھی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر سارا سارا دن خوش گپیوں میں گذارا۔اور ان ہی شب و روز میں یوں ہی ہنستے گاتےموج اڑاتے لمحوں کے درمیان مجھ پر رفعت کی گونا گوں شخصیت کی پرتیں کھلتی گئیں۔یوں تو پھوپھی کا ساحرانہ حسن و پھوپھا کی متانت اور ذہانت اس کو ورثے میں ملی تھی۔اور اسکے حسن و ذہانت کا یہ اشتراک میرے بچپن سے پڑھی اور سنی جانے والی اس کہاوت کا منہ چڑاتا تھا کہ حسن اور ذہانت یکجا نہیں ہو سکتے۔ ۔۔مگر جو خاص الخاص بات تھی اس کی شخصیت میں تو وہ اس کی آنکھیں تھیں۔یہ آنکھیں نہیں تھیں ایک پزل تھا،ایک معمہ تھا ایک جیتا جاگتا چیلینج تھا کہ آؤ اور ہمیں حل کرکے دیکھو۔بتاؤ کہ ابھی ابھی جو لہر ہم میں اٹھی ہے اور اگلے ہی پل ڈوب گئی ہے وہ اداسی کی مبہم لکیر تھی یا شرارت کی لرزاں کرن تھی؟ نا تمام آرزؤں کی لرزیدہ شمع تھی یا نئی امیدوں کی سرمست موجیں؟ میں نے کبھی اس کی آنکھوں سے اس کے ارادوں کے بھید کو پانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔
''پتہ ہے رضو جی"" غالب کے مقبرے سے کچھ ہی دور بنے ایک چبوترے پر ہم تینوں پاؤں لٹکائے برف کے میٹھے گولے چوس رہے تھے،تبھی وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولی؛ــعورت کمزور ہوتی ہے۔یہ سب مردوں کی موڈس آپر پنڈی ہے۔چاہے وہ عظیم گوتم بدھ ہو،جن کے خیال میں عورت کی ذہانت دو انگلیوں سے زیادہ نہیں۔یا کنفیوشس ہو جو عورتوں کی غلامی کو قانون قدرت قرار دیتے ہیں۔یا پھر چچا غالب ہوں۔
''میں ہنس دیا"" بھئی غالب سے کیا قصور ہوا ہے؟جو تم ان کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر انہیں کوس رہی ہو۔
کہنے لگی،یہ باتوں باتوں میں بات کہہ دیتے ہیں۔فرماتے ہیں، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔ کیوں صاحب کیا شمع نے ہی ٹھیکہ لے رکھا ہے جلنے کا۔اور پروانے کیا کریں گے ہاتھ تاپیں گے بیٹھ کر؟
میں اور اشفاق دیر تک ہنستے رہے۔
اب ذرا یہ دیکھئے۔اس ویک اینڈ پر ہم نے ہمایوں کے مقبرے کی سیر کا پروگرام بنایا تھا ۔اور اس وقت مغل دور کے فن ہائے تعمیرات کی خوبصورتی سے آنکھیں سینک رہے تھے کہ رفعت نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا؛ شاہجہاں نے اپنی بیگم کی محبت میں ایک مقبرہ بنوایا،جس کی واہ واہی سارے عالم میں آج تک ہو رہی ہے۔اور اک یہ مقبرہ جو حمیدہ بیگم نے اپنے میاں ھمایوں کی یاد میں بنوایا۔کتنے لوگ جانتے ہیں اس بات کو بتایئے ذرا۔محبت آپ نے کی رضو جی،بڑا تیر مارا۔ اور ہم نے کیا کاٹی گھاس؟
میں ہمیشہ کی طرح ہنس دیا۔بھئی رفعت کیا تم مجھے دنیاکے سارے مردوں کا نمائندہ سمجھتی ہو۔
وہ کچھ نہ بولی۔بس مکراتے ہوئے دیکھتی رہی ان ہی شعبدہ باز آنکھوں سے جن میں گھر کر میں ہمیشہ بے طرح الجھ جایا کرتا تھا
ابھی ایک لمحے کو ان آنکھوں میں عورت کا ازلی اور ممتا سے لبریز پیار بھرا تھا۔اور ابھی ایک پل میں وہاں صحراؤں کی ریت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس طرح کی مٹر گشتیوں اور سیر سپاٹوں میں دانشوروں کی طرح بولنے والی،فلسفیانہ موشگافیاں کرنے والی اور باغیانہ تیوروں کی حامل یہ لڑکی گھر میں امور خانہ داری برتتے ہوئے ایک سگھڑ با سلیقہ اور با شعور لڑکی میں کچھ ایسے غیر محسوس طریقے سے تبدیل ہوجاتی جیسے اللہ میاں نے اسے پیدا ہی اسی مقصد کیلئے کیا ہو۔اور جب کبھی گھر میں پھوپھا ہوتے تو آدھے سر کو دوپٹے ڈھانپے ہوئے اور نظروں کو جھکائے جھکائے وہ اس طرح کام میں منہمک ہوتی جیسے مردوں کی برتری کو چیلنج کرنے والی اس سرکش لڑکی نے پھوپھا کی شکل میں پوری مرد قوم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔
پتہ نہیں اس کی اس ادائے سپردگی اور انداز نسوانیت سے پست ہوکر یا اس کی باغیانہ ذہانت و فطانت سے متاثر ہوکر،پتہ نہیں کیوں اور پتہ نہیں کب میرے دل نے اسے ساری زندگی کیلئے اپنا لینے کی خواہش کی۔مجھے ٹھیک سے نہیں پتہ کہ میں اسے چاہنے لگا تھا۔یا پھر یہ میرا فطری تجسس تھا جو بڑی دور تک اور بڑی دیر تک اس کو سمجھنے کیلئے اس کو جاننے کیلئے اکسا رہا تھا۔ایک بار پیرس میں لوور میوزیم میں گھومتے ہوئے مونا لیزا کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوئے کم وبیش ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوا تھا میں۔ دل نے شدت سے چاہا تھا کہ یہ تصویر میرے پاس ہوتی تو شاید میں اس میں چھپے ہوئے اسرار اور بھید کو ضرور پا سکتا۔
مونالیزا کو حاصل کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔مگر مونا لیزا سے کہیں زیادہ اسرار کی حامل اس لڑکی کو حاصل کرنا چنداں دشوار نہ تھا۔پھوپھا اور پھوپھی مجھے جس پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے وہ کچھ پوشیدہ نہ تھامجھ سے اور ابا اماں کو جتنا میں جانتا تھا وہ کبھی بھی میری خواہش کی راہ میں حائل نہ ہوتے۔اگر میری اس انسانی شخصیت کی پیچیدہ گتھی سلجھانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ تھی تو وہ تھی رفعت۔اس کا عندیہ معلوم کئے بنا میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔
وہ اتوار کی دوپہر تھی جب کریم ہوٹل میں چکن برّہ کے ذائقے سے لطف اندوز ہوکر ہم جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے خوشگوار دھوپ سے استفادہ کر رہے تھے۔اشفاق کا کوئی انٹرنس اکزام تھااس لئے وہ اس وقت ہمارے ساتھ شہر نوردی میں شریک نہیں تھا۔میرے بھی آخری سمسٹرز چل رہے تھے۔
ظہر کی اذان بلند ہوئی تو رفعت نے دوپٹہ سر پہ لے لیا۔سیڑھیوں کے سامنے پھیلے ہوئےبازار کی گہماگہمی کوبظاہر دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں غرق تھیں۔سفید شلوار قمیص میں ملبوس ہلکا زرد رنگ کا دوپٹہ اوڑھے چہرے پر ہوا کی چھیڑ خانی سے باربار بالوں کی ایک شریر لٹ آجاتی جسے بے خیالی میں وہ باربار ہٹاتی جاتی۔اس لمحے وہ مجھے بے حد پاکیزہ سی لگی۔
میں نے ہلکے پھلکے انداز میں جیسے میں کوئی عام سی بے وقعت بات کہہ رہا ہوں،اس سے پوچھا۔
فرض کرو رفعت،میں تمہیں شادی کے لئے پرپوز کروں۔
اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔اک ذرا رنگ سا چہرے پر آکر گذر گیا اور آنکھیں؟ مجھے خیال آیا جیسے کسی پنجرے میں بہت سارے پرندے قید ہوں اور کوئی اس کے دروازے کو ذرا دیر کے لئے کھول دےاور پھر بند کردے۔تو جس طرح سبھی پرندے ایک وقت ایک ساتھ ادھ کھلے دروازے سے نکلنے کی کوشش کریں مگر ایک بھی کامیاب نہ ہو،ٹھیک اسی طرح اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے بہت سے سوال بہت سی ان کہی باتیں ،لفظوں کا جیسے ایک سیلاب آنکھوں میں امڈ آیا۔مگر صرف ایک لمحے کے لئے اور وہ مسکرا کر بولی،فرض کرو؟
آپ تو پروپوز بھی نیوٹن کی زبان میں کر رہے ہیں۔
فرض کرو آپ ایک ہزار جذبات کی تندہی سے مجھے شادی کے لئے پروپوز کرتے ہیں ۔ان میں سے دو سو میرے دل تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی تندہی گنوا دیتے ہیں۔تین سو میرے دماغ سے ٹکراکر واپس آپ کے کانوں کے آس پاس سے گذر جاتے ہیں اور پانچ سو میرے سر پر سے گذر کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر سے لڑھکتے ہوئے اس مداری کے پیروں میں جاپڑتے ہیں جس نے ابھی ابھی باکڑے کے پیچھے آکر اپنی دونوں آستینوں میں گلاب کے پھول چھپائے ہیں تو بتائیے رِضو جی آپ کےپروپوزل کی نیٹ ویلیو کیا رہی؟
وہ ہنستے ہوئے ایک ہی رو میں کہے جارہی تھی۔مگر جانے کیوں مجھے ایسا لگاکہ شاید کہیں ان بے ربط باتوں کے بیچ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا ہے۔شاید اس نے پنجرے کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کے بیچ پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ اور چھٹپٹاہٹ کو civilised کیا ہے۔
تبھی ہمارے قریب ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکی اپنے گلے سے شیشے کا ایک بکس ٹنگائے ٹہر گئی۔اس بکسے میں طرح طرح کی مصنوعی جویلری سجی ہوئی تھی۔میڈم! ۔۔ائیرنگ۔۔۔جھمکے۔۔۔۔انگوٹھی۔۔۔۔بالی۔۔۔۔ایک بار دیکھ لیں۔واجب دام ہیں۔اسٹوروں میں تو ڈبل بھاؤ میں ملیں گے۔
نہیں۔۔۔مجھے نہیں چاہئے،رفعت بولی۔
میں نے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور لڑکی کی طرف بڑھایا۔رکھ لوا یسے ہی۔
نہیں صاحب،ماں نے نہیں کہا اس کے لئے۔بولتی ہے مال کے بنا کبھی دام نہیں لینے کا۔
تو چلو دے دو کچھ۔بھئی رفعت کچھ لے لو۔
اس لڑکی نے چھوٹی چھوٹی موتیوں سے گندھی ایک انگوٹھی نکالی اور بولی؛
میڈم ناپ چیک کرکے لو۔رفعت نے چیک کیا تھوڑی سی ڈھیلی تھی۔لڑکی نے دوسری نکال کر دی وہ فٹ آگئی۔
یہ ناپ بروبر ہے کہہ کر لڑکی نے واپس لی اور بکسے میں جھانکتے ہوئے کہا؛ آپ کا نام کیا ہے صاحب؟
رضوان، میں نے بے ساختہ مگر قدرے حیرانگی سےکہا۔
اس بار لڑکی کا ہاتھ بکسے سے باہر آیا اسی طرح کی انگوٹھی تھی مگر اب اس پر موتیوں سے الگ رنگ میں Rکندہ تھا۔
میڈم جی،صاحب کا نام ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔وہ شرارت سے مسکرائی۔
ارے نہیں،یہ مجھے نہیں چاہئے۔رفعت ہڑ بڑا کر بولی۔
رکھ لو رفعت،یہ تو تمہارے نام کا بھی پہلا حرف ہے۔
لڑکی چلی گئی۔رفعت نے انگوٹھی کو انگلی میں ڈال کر ایڈجسٹ کیا۔R پر ہاتھ پھیر کر اس کی مضبوطی چیک کی اور میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔
پھر وہی پنجرہ۔۔۔۔سینکڑوں پرندے۔۔۔۔۔۔ہزاروں الفاظ۔۔۔۔۔۔اور پھر وہی صحرا میں پھیلی ہوئی ریت۔۔۔۔۔
یہ ہماری آخری مٹر گشتی تھی۔آخری سمسٹر کے ختم ہوتے ہی میں نے بھوپال کا رخ کیا تھا۔اور مختلف کمپنیوں میں جاب کے لئے اپلائی کر ہی رہا تھا کہ بھائی صاحب نے اپنی کمپنی کی یو۔کے۔برانچ میں میرے لئے انٹرن شپ کی جگاڑ کرڈالی۔خیال تھا کہ یو۔کے۔کی انٹرن شپ انڈیا میں کسی بھی بہتر جاب کو حاصل کرنے میں آسانی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔یوں میں لندن چلا آیا
یا۔
وقت ایک ایسا اونٹ ہے جو کبھی برسوں بیٹھا بڑے اطمینان سے جگالی کرتا رہتا ہے۔اور کبھی یوں پے درپے کروٹیں بدلتا ہے کہ سوار کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔مجھے بھی پتہ نہیں چلاکہ کب میری صلاحیتوں کے مد نظر میری انٹرن شپ اس کمپنی کی جانب سے بدل گئی،کب برانچ ہیڈ شعیب صاحب کی دختر نیک اختر عنزہ احمد میری وجاہت سے متاثر ہوئیں اور کیسے مجھ پر ترقی کے دروازے پہ بہ پہ کھلنے لگے۔پانچ برسوں کے قلیل عرصے میں کیا کچھ نہیں ہوا۔کمپنی کے ایگزیکیٹیو سے لے کرسی ای او بننے تک۔وزیٹنگ ویزا سے لےکر برطانوی شہریت حاصل کرنے تک ۔عنزہ سے شادی سے لے کر دو پیارے پیارے بچوں کا باپ بننے تک وقت کے اونٹ کی ہر کروٹ نے مجھے زندگی کے نت نئے دروازوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔پانچ برسوں کے قلیل عرصے میں بہت کچھ ہوا۔پہلے ابّا پھر اماں انتقال کرگئیں۔وطن سے وابستگی کی جڑیں جو میں کمزور کر کے آیا تھا اب ٹوٹ چکی تھیں۔اب میرا اپنے گھر اپنے لوگوں سے خبروں کی اپ ڈیٹ کا ہی ناطہ رہ گیا تھا۔
یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ پانچ برسوں میں رفعت سے میں پھر کبھی نہیں ملا۔سننے میں آیا تھاکہ اس کی شادی میرٹھ میں ہی کسی اچھے خاندان میں ہوگئی ہے۔ابّا کے انتقال پر میں انڈیا گیا تو وہ ہنی مون پر تھی۔اماں کے انتقال پر گیا تو سنا اس کا شوہر بیمار ہے اور اسپتال میں ایڈمٹ ہے اس لئے نہیں آسکی۔پھر سنا اس کی طلاق ہو گئی۔یہ آخری خبر تھی جو اس کے بارے میں سنی ،اس سے زیادہ نہ کسی نے مجھے بتایا نہ ہی میں نے کرید کی۔یا شاید چاہت نہیں تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ شاید میں بھی بدل گیا تھا۔میری ترجیحات بدل گئی تھیں۔
ہنی مون کے دوران جب ہم پیرس میں تھے تو مجھے یاد ہے عنزہ نے لوور میوزیم جا کر مونالیزا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور میں نے کہا تھا؛ ہٹاؤ،بورنگ ہے۔نائٹ کلب چلتے ہیں۔مونالیزا کی مسکراہٹ کے اسرار اور رفعت کی آنکھوں کے راز جاننے کا جنون میرے اندر شاید لندن کے موسم کی طرح سرد پڑگیا تھا۔
’’سر پلیز،فاسٹن یور سیٹ بیلٹ‘‘۔
خیالوں سے باہر آیا تو پتہ چلا کہ جہاز کی لینڈنگ کا اعلان ہورہا ہے۔
دہلی ایئر پورٹ پر ہندوستانی وقت کے مطابق رات نو بجےاولاٹیکسی ہائر کی اور قرول باغ پھوپھی کے گھر کے لئےروانہ ہوا۔ چار گھنٹے بعد میری بھوپال کے لئے فلائٹ تھی اور اتنا وقت تھا کہ پھوپھی کے گھر ہو آتا۔پھوپھی کے گھر پہنچا تو پتہ چلا عصر میں ہی تدفین ہو چکی۔ گھر میں سوگواری کا ماحول تھا۔پھوپھا،پھوپھی اور اشفاق کے علاوہ دو تین ہی قریبی لوگ تھے جو اس وقت تک گھر موجود تھے۔میری غیر متوقع آمد پرایسے ماحول میں وہ خوش تو کیا ہوتے مگر یقیناً انہیں اچھا لگا۔پھوپھی بڑی دیر تک مجھے گلے سے لگائے روتی رہیں۔پھوپھا بھی قریب ہی سر جھکائے بیٹھے اپنے آنسو پونچھتے رہے۔پھوپھی بتارہی تھیں۔’’جب سے گھر آکر بیٹھی بیمار ہی رہنے لگی۔ہر طرح کا علاج کرایا کوئی افاقہ نہیں ہوا۔پچھلے دوہفتوں سے اسپتال میں داخل تھی۔وہیں سے اللہ نے بلا لیا اپنے پاس۔‘‘
وہ پھر رونے لگی۔میں نے کہا پھوپھی صبر کریں۔پھر اشفاق سے پوچھا؛’’ہوا کیا تھا آخر؟‘‘ بولو۔۔۔
رضوان بھائی کیا بتائیں۔بس دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی۔بظاہر تو ڈاکٹرز بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔رپورٹیں بتاتی تھیں خون نہیں بن رہا ہے۔۔۔۔کیوں؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے وہ۔
’’شادی زیادہ چلی نہیں؟ ‘‘ میں نے سنبھلتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
ہاں بیٹا، کیا کریں نصیب ہی ایسے لے کر آئی تھی۔اپنی طرف سے تو رفعت نے ساری کوششیں کر ڈالیں گھر داری جمانے کے لئے۔ شوہر،ساس سب کی بیماریوں کو بھگتایا۔خدمتیں کیں۔مگر جب وہ بیمار رہنے لگی تو ان کو ایسا بوجھ لگی،کہ کبھی آسیب نظر آیااس پران کم بختوں کو،کبھی جن کہتے تھے۔ کبھی کبھار گھنٹوں خلاء میں تکے جاتی تھی۔کبھی خود سے باتیں کرتی نظر آتی۔
میرے چلنے کا وقت ہوا تو پہلے پھوپھا نے پھر پھوپھی نے گلے لگایا۔ڈھیروں دعائیں دیں۔میرے منع کرنےکے باوجود اشفاق مجھے ایئر پورٹ چھوڑنے کے لئے ہو لیا۔میں نے ٹیکسی چھوڑی نہیں تھی۔اس عرصے میں سامان اسی میں رکھا ہوا تھا۔واپسی میں اشفاق میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر ہی تھا۔بڑی دیر تک ایک بوجھل خاموشی طاری رہی۔پھر میں نے اشفاق سے پوچھا؛’’یار رفعت تو بڑی مضبوط لڑکی تھی۔ایسی کم عمری میں ایک بیماری سے ہار کر یوں چلی گئی۔‘‘
اشفاق رندھے ہوئے لہجے میں بولا؛ ’’رضوان بھائی،جینے کی تمنا انسان کے اندر ہو تو ہر حال میں جی لیتا ہے۔رفعت باجی کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جینے کی چاہت ہی نہ ہو۔سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ایک طرف تو علاج ومعالجہ سے ایسی لاپرواہی جیسے مرنا چاہتی ہو۔دوسری طرف خود کی ذات سے اتنا پیار کہ سارے قریبی رشتوں کو خفا کرا بیٹھیں۔دیکھا جائے تو ان کا گھر ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ ان کا یہی اپنی ذات سے پیار بھی تھا۔‘‘
میں سمجھا نہیں۔میں نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
وہ اپنی شرٹ کی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے بولا۔’’پتہ نہیںکب اور کہاں سے انہوں نے اپنے نام کے پہلے حرف والی یہ انگوٹھی ڈال لی تھی۔ جو موت کےبعد ہی ان کی انگلی سے اتاری گئی۔ شادی کے وقت بھی انھوں نے شادی کی انگوٹھی اپنی دوسری انگلی میں پہنی مگر اس کو نہ اتارا۔ اور یہ منطق پیش کی کہ شادی مجھ سے ہو رہی ہے یا میری انگلی سے۔بعد میں جب ان کی ازدواجی زندگی میں بحران آیا تو لوگ یہاں تک کہنے لگے کہ اس انگوٹھی میں کوئی جناتی اثر ہے۔جس کے چنگل میں رفعت باجی دن بہ دن گھل رہی ہیں۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے میرے ہاتھ میں وہ انگوٹھی تھمادی۔کار میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔مگر میں چھوکر چھوٹی چھوٹی موتیوں سے بنی اس انگوٹھی کو محسوس کرسکتا تھا۔
میں نے آہستگی سے اس پر کندہ صرف R پر انگلی پھیری ⁹اور معاً مجھے لگا جیسے کوئی پنجرہ کھلا اور اس میں سے بے شمار پرندے جیسے بھرامار کر اڑ گئے ہوں۔کار کی ناکافی روشنی میں رفعت کی آنکھیں روشن ہیں۔ان آنکھوں میں نہ کوئی معمہ ہےنہ اسرار ہے،بس پیار ہے دور تک پھیلا ہوا۔بے کراں پیار۔۔۔۔جومیری خود غرضی،میری مصلحت کوشی،میری موقع پرستی پر لعنت بن کر برس رہا تھا۔کار کی ایئر کنڈیشنز فضا میں بھی میری پیشانی عرق انفعال سے آلودہ ہورہی تھی۔اور ٹیکسی میں لگے ٹیپ ریکارڈر میں جگجیت سنگھ کی پر سوز آواز میں غزل گونج رہی تھی۔
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
ختم شد
دیدبان شمارہ ۔۲۲ ۲۰۲۴
شمع ہر رنگ میں--- (افسانہ)
امتیاز خان، پونے- انڈیا
جہاز کے اڑان بھرنے سے پیش تر ضروری ہدایات نشر ہورہی تھیں۔سیٹ بیلٹ باندھنے سے لے کر برقی آلات بند کرنے تک تمام ہدایات دو مرتبہ دہرائی جاچکی تھیں۔مگر میں ابھی تک موبائل ہاتھ میں تھامے اسکرین کو سکتے کے عالم میں تکے جا رہا تھا۔حالانکہ کال منقطع ہوئے کافی وقفہ بیت چکا تھا۔
سر پلیزسوئچ آف یور فون۔ایئر ہوسٹس قریب کھڑی پکار رہی تھی۔تب جیسے میں ہوش میں آیا۔فون کو بند کرکے کرسی سیدھی کی،اور سیٹ بیلٹ باندھ کرکرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔
جہاز اب رن وے پر تیزی سے بھاگ رہا تھا۔لندن کے معروف ہیتھرو ایئر پورٹ کی جگمگاتی روشنیاں دور ہوتی جارہی تھیں۔اب تب میں جہاز کے پہیے زمین چھوڑ کر اوپر اٹھنے کو تھے،مگر میرا دل مسلسل بیٹھا جا رہا تھا۔موبائل پر جو کال ابھی ابھی آئی تھی وہ ایسی ہی غیر متوقع اور دل سوز تھی۔
اشفاق کی کال تھی، دہلی سے۔جہاز میں اپنی نشست پر بیٹھتے ہی میں نے موبائل نکالا تھا اور ارادہ تھا کہ میسجز چیک کرکے ایئر پلین موڈ پر ڈال دوں گا۔تبھی واٹس اپ کال آگئی۔ہیلو! رضوان بھائی،بھائی۔۔۔ایک بری خبر ہے۔رفعت باجی انتقال کر گئیں۔اس کا لہجہ رو دینے والا تھا۔
ارے۔۔۔۔؟ کب۔۔۔۔۔۔؟کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہیلو۔۔۔اُشو۔۔۔۔۔۔ہیلو۔
مگر کال منقطع ہوچکی تھی۔نیٹ ورک ڈاؤن تھا شاید۔
جہاز اب ہوامیں بادلوں کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔میں نے مضمحل ہو کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
اشفاق میری پھوپھی کا لڑکا تھا۔رفعت اس کی بڑی بہن تھی۔غالباً اس سے دو سال بڑی تھی۔اور مجھ سے لگ بھگ دو سال چھوٹی۔ پھوپھا اور پھوپھی کو بس یہی دو اولادیں تھیں۔ان چار افراد پر مشتمل خوشحال کنبے کے ساتھ تقریباً دو سال میں نے بھی فیملی کے ایک فرد کی حیثیت سے گذارے۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعدایم بی اے کیلئے کوئی مناسب کالج نہ ہونے کے سبب میں نے دہلی کا قصد کیا۔اور جب پھوپھی کو اس بات کی خبر ہوئی کہ کالج میں داخلے کے ساتھ ساتھ میں نے ہاسٹل کیلئے بھی اپلائی کیاہے تو وہ اتنی کبیدہ خاطرہوئیں کہ میرے بڑے بھائی کی منگنی کی تقریب میں شرکت کیلئے منع کردیا۔بھاگم بھاگ ابا دلی پہنچے۔پھوپھی سے ہزاروں صلواتیں سنیں۔اور بے ایمان۔۔۔۔۔ بے مروت۔۔۔۔۔سفید خون۔۔۔۔جورو کا غلام جیسے بیسیوں القابات حاصل کئے۔مگر ان کو ساتھ لے کر بھوپال لوٹے،پھوپھی کی اس شرط کے ساتھ کہ میں پہلی فرصت میں ہاسٹل کی اپلیکیشن واپس لے کر قرول باغ میں واقع انکے دو منزلہ مکان میں سکونت اختیار کروں۔
دہلی میں پھوپھی کے گھر میرا دو سالہ قیام اگر پھوپھا اور پھوپھی سے ملنے والی شفقت اور سہولیات کے حوالے سے قابل یادگار تھا تو رفعت اور اشفاق کی پر جوش اور دوستانہ صحبتوں کے باعث ناقابل فراموش تھا۔تقریباً ہر ویک اینڈ پر ہم تینوں مل کر تفریح کے نت نئے پروگرام بناتے۔دہلی کی قدامت اور جدت کے مزے لوٹتے۔چاندنی چوک کی نلی نہاری سے لیکر کناٹ پیلس کے میکڈو نالڈ میں فش برگر تک ہم نے دہلی کی ضیافت کے بے حساب مزے لوٹے۔کبھی لال قلعے کی پر شکوہ فصیلوں سے مرعوب ہوئے تو کبھی غالب کے بلی ماراں کی کوچہ گردی کر کے اپنے ذوق ادب کی تسکین کی۔کبھی حضرت نظام الدین ؒ کے آستانے پر عقیدت کے پھول برسائے تو کبھی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر سارا سارا دن خوش گپیوں میں گذارا۔اور ان ہی شب و روز میں یوں ہی ہنستے گاتےموج اڑاتے لمحوں کے درمیان مجھ پر رفعت کی گونا گوں شخصیت کی پرتیں کھلتی گئیں۔یوں تو پھوپھی کا ساحرانہ حسن و پھوپھا کی متانت اور ذہانت اس کو ورثے میں ملی تھی۔اور اسکے حسن و ذہانت کا یہ اشتراک میرے بچپن سے پڑھی اور سنی جانے والی اس کہاوت کا منہ چڑاتا تھا کہ حسن اور ذہانت یکجا نہیں ہو سکتے۔ ۔۔مگر جو خاص الخاص بات تھی اس کی شخصیت میں تو وہ اس کی آنکھیں تھیں۔یہ آنکھیں نہیں تھیں ایک پزل تھا،ایک معمہ تھا ایک جیتا جاگتا چیلینج تھا کہ آؤ اور ہمیں حل کرکے دیکھو۔بتاؤ کہ ابھی ابھی جو لہر ہم میں اٹھی ہے اور اگلے ہی پل ڈوب گئی ہے وہ اداسی کی مبہم لکیر تھی یا شرارت کی لرزاں کرن تھی؟ نا تمام آرزؤں کی لرزیدہ شمع تھی یا نئی امیدوں کی سرمست موجیں؟ میں نے کبھی اس کی آنکھوں سے اس کے ارادوں کے بھید کو پانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔
''پتہ ہے رضو جی"" غالب کے مقبرے سے کچھ ہی دور بنے ایک چبوترے پر ہم تینوں پاؤں لٹکائے برف کے میٹھے گولے چوس رہے تھے،تبھی وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولی؛ــعورت کمزور ہوتی ہے۔یہ سب مردوں کی موڈس آپر پنڈی ہے۔چاہے وہ عظیم گوتم بدھ ہو،جن کے خیال میں عورت کی ذہانت دو انگلیوں سے زیادہ نہیں۔یا کنفیوشس ہو جو عورتوں کی غلامی کو قانون قدرت قرار دیتے ہیں۔یا پھر چچا غالب ہوں۔
''میں ہنس دیا"" بھئی غالب سے کیا قصور ہوا ہے؟جو تم ان کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر انہیں کوس رہی ہو۔
کہنے لگی،یہ باتوں باتوں میں بات کہہ دیتے ہیں۔فرماتے ہیں، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔ کیوں صاحب کیا شمع نے ہی ٹھیکہ لے رکھا ہے جلنے کا۔اور پروانے کیا کریں گے ہاتھ تاپیں گے بیٹھ کر؟
میں اور اشفاق دیر تک ہنستے رہے۔
اب ذرا یہ دیکھئے۔اس ویک اینڈ پر ہم نے ہمایوں کے مقبرے کی سیر کا پروگرام بنایا تھا ۔اور اس وقت مغل دور کے فن ہائے تعمیرات کی خوبصورتی سے آنکھیں سینک رہے تھے کہ رفعت نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا؛ شاہجہاں نے اپنی بیگم کی محبت میں ایک مقبرہ بنوایا،جس کی واہ واہی سارے عالم میں آج تک ہو رہی ہے۔اور اک یہ مقبرہ جو حمیدہ بیگم نے اپنے میاں ھمایوں کی یاد میں بنوایا۔کتنے لوگ جانتے ہیں اس بات کو بتایئے ذرا۔محبت آپ نے کی رضو جی،بڑا تیر مارا۔ اور ہم نے کیا کاٹی گھاس؟
میں ہمیشہ کی طرح ہنس دیا۔بھئی رفعت کیا تم مجھے دنیاکے سارے مردوں کا نمائندہ سمجھتی ہو۔
وہ کچھ نہ بولی۔بس مکراتے ہوئے دیکھتی رہی ان ہی شعبدہ باز آنکھوں سے جن میں گھر کر میں ہمیشہ بے طرح الجھ جایا کرتا تھا
ابھی ایک لمحے کو ان آنکھوں میں عورت کا ازلی اور ممتا سے لبریز پیار بھرا تھا۔اور ابھی ایک پل میں وہاں صحراؤں کی ریت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس طرح کی مٹر گشتیوں اور سیر سپاٹوں میں دانشوروں کی طرح بولنے والی،فلسفیانہ موشگافیاں کرنے والی اور باغیانہ تیوروں کی حامل یہ لڑکی گھر میں امور خانہ داری برتتے ہوئے ایک سگھڑ با سلیقہ اور با شعور لڑکی میں کچھ ایسے غیر محسوس طریقے سے تبدیل ہوجاتی جیسے اللہ میاں نے اسے پیدا ہی اسی مقصد کیلئے کیا ہو۔اور جب کبھی گھر میں پھوپھا ہوتے تو آدھے سر کو دوپٹے ڈھانپے ہوئے اور نظروں کو جھکائے جھکائے وہ اس طرح کام میں منہمک ہوتی جیسے مردوں کی برتری کو چیلنج کرنے والی اس سرکش لڑکی نے پھوپھا کی شکل میں پوری مرد قوم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔
پتہ نہیں اس کی اس ادائے سپردگی اور انداز نسوانیت سے پست ہوکر یا اس کی باغیانہ ذہانت و فطانت سے متاثر ہوکر،پتہ نہیں کیوں اور پتہ نہیں کب میرے دل نے اسے ساری زندگی کیلئے اپنا لینے کی خواہش کی۔مجھے ٹھیک سے نہیں پتہ کہ میں اسے چاہنے لگا تھا۔یا پھر یہ میرا فطری تجسس تھا جو بڑی دور تک اور بڑی دیر تک اس کو سمجھنے کیلئے اس کو جاننے کیلئے اکسا رہا تھا۔ایک بار پیرس میں لوور میوزیم میں گھومتے ہوئے مونا لیزا کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوئے کم وبیش ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوا تھا میں۔ دل نے شدت سے چاہا تھا کہ یہ تصویر میرے پاس ہوتی تو شاید میں اس میں چھپے ہوئے اسرار اور بھید کو ضرور پا سکتا۔
مونالیزا کو حاصل کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔مگر مونا لیزا سے کہیں زیادہ اسرار کی حامل اس لڑکی کو حاصل کرنا چنداں دشوار نہ تھا۔پھوپھا اور پھوپھی مجھے جس پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے وہ کچھ پوشیدہ نہ تھامجھ سے اور ابا اماں کو جتنا میں جانتا تھا وہ کبھی بھی میری خواہش کی راہ میں حائل نہ ہوتے۔اگر میری اس انسانی شخصیت کی پیچیدہ گتھی سلجھانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ تھی تو وہ تھی رفعت۔اس کا عندیہ معلوم کئے بنا میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔
وہ اتوار کی دوپہر تھی جب کریم ہوٹل میں چکن برّہ کے ذائقے سے لطف اندوز ہوکر ہم جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے خوشگوار دھوپ سے استفادہ کر رہے تھے۔اشفاق کا کوئی انٹرنس اکزام تھااس لئے وہ اس وقت ہمارے ساتھ شہر نوردی میں شریک نہیں تھا۔میرے بھی آخری سمسٹرز چل رہے تھے۔
ظہر کی اذان بلند ہوئی تو رفعت نے دوپٹہ سر پہ لے لیا۔سیڑھیوں کے سامنے پھیلے ہوئےبازار کی گہماگہمی کوبظاہر دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں غرق تھیں۔سفید شلوار قمیص میں ملبوس ہلکا زرد رنگ کا دوپٹہ اوڑھے چہرے پر ہوا کی چھیڑ خانی سے باربار بالوں کی ایک شریر لٹ آجاتی جسے بے خیالی میں وہ باربار ہٹاتی جاتی۔اس لمحے وہ مجھے بے حد پاکیزہ سی لگی۔
میں نے ہلکے پھلکے انداز میں جیسے میں کوئی عام سی بے وقعت بات کہہ رہا ہوں،اس سے پوچھا۔
فرض کرو رفعت،میں تمہیں شادی کے لئے پرپوز کروں۔
اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔اک ذرا رنگ سا چہرے پر آکر گذر گیا اور آنکھیں؟ مجھے خیال آیا جیسے کسی پنجرے میں بہت سارے پرندے قید ہوں اور کوئی اس کے دروازے کو ذرا دیر کے لئے کھول دےاور پھر بند کردے۔تو جس طرح سبھی پرندے ایک وقت ایک ساتھ ادھ کھلے دروازے سے نکلنے کی کوشش کریں مگر ایک بھی کامیاب نہ ہو،ٹھیک اسی طرح اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے بہت سے سوال بہت سی ان کہی باتیں ،لفظوں کا جیسے ایک سیلاب آنکھوں میں امڈ آیا۔مگر صرف ایک لمحے کے لئے اور وہ مسکرا کر بولی،فرض کرو؟
آپ تو پروپوز بھی نیوٹن کی زبان میں کر رہے ہیں۔
فرض کرو آپ ایک ہزار جذبات کی تندہی سے مجھے شادی کے لئے پروپوز کرتے ہیں ۔ان میں سے دو سو میرے دل تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی تندہی گنوا دیتے ہیں۔تین سو میرے دماغ سے ٹکراکر واپس آپ کے کانوں کے آس پاس سے گذر جاتے ہیں اور پانچ سو میرے سر پر سے گذر کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر سے لڑھکتے ہوئے اس مداری کے پیروں میں جاپڑتے ہیں جس نے ابھی ابھی باکڑے کے پیچھے آکر اپنی دونوں آستینوں میں گلاب کے پھول چھپائے ہیں تو بتائیے رِضو جی آپ کےپروپوزل کی نیٹ ویلیو کیا رہی؟
وہ ہنستے ہوئے ایک ہی رو میں کہے جارہی تھی۔مگر جانے کیوں مجھے ایسا لگاکہ شاید کہیں ان بے ربط باتوں کے بیچ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا ہے۔شاید اس نے پنجرے کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کے بیچ پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ اور چھٹپٹاہٹ کو civilised کیا ہے۔
تبھی ہمارے قریب ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکی اپنے گلے سے شیشے کا ایک بکس ٹنگائے ٹہر گئی۔اس بکسے میں طرح طرح کی مصنوعی جویلری سجی ہوئی تھی۔میڈم! ۔۔ائیرنگ۔۔۔جھمکے۔۔۔۔انگوٹھی۔۔۔۔بالی۔۔۔۔ایک بار دیکھ لیں۔واجب دام ہیں۔اسٹوروں میں تو ڈبل بھاؤ میں ملیں گے۔
نہیں۔۔۔مجھے نہیں چاہئے،رفعت بولی۔
میں نے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور لڑکی کی طرف بڑھایا۔رکھ لوا یسے ہی۔
نہیں صاحب،ماں نے نہیں کہا اس کے لئے۔بولتی ہے مال کے بنا کبھی دام نہیں لینے کا۔
تو چلو دے دو کچھ۔بھئی رفعت کچھ لے لو۔
اس لڑکی نے چھوٹی چھوٹی موتیوں سے گندھی ایک انگوٹھی نکالی اور بولی؛
میڈم ناپ چیک کرکے لو۔رفعت نے چیک کیا تھوڑی سی ڈھیلی تھی۔لڑکی نے دوسری نکال کر دی وہ فٹ آگئی۔
یہ ناپ بروبر ہے کہہ کر لڑکی نے واپس لی اور بکسے میں جھانکتے ہوئے کہا؛ آپ کا نام کیا ہے صاحب؟
رضوان، میں نے بے ساختہ مگر قدرے حیرانگی سےکہا۔
اس بار لڑکی کا ہاتھ بکسے سے باہر آیا اسی طرح کی انگوٹھی تھی مگر اب اس پر موتیوں سے الگ رنگ میں Rکندہ تھا۔
میڈم جی،صاحب کا نام ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔وہ شرارت سے مسکرائی۔
ارے نہیں،یہ مجھے نہیں چاہئے۔رفعت ہڑ بڑا کر بولی۔
رکھ لو رفعت،یہ تو تمہارے نام کا بھی پہلا حرف ہے۔
لڑکی چلی گئی۔رفعت نے انگوٹھی کو انگلی میں ڈال کر ایڈجسٹ کیا۔R پر ہاتھ پھیر کر اس کی مضبوطی چیک کی اور میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔
پھر وہی پنجرہ۔۔۔۔سینکڑوں پرندے۔۔۔۔۔۔ہزاروں الفاظ۔۔۔۔۔۔اور پھر وہی صحرا میں پھیلی ہوئی ریت۔۔۔۔۔
یہ ہماری آخری مٹر گشتی تھی۔آخری سمسٹر کے ختم ہوتے ہی میں نے بھوپال کا رخ کیا تھا۔اور مختلف کمپنیوں میں جاب کے لئے اپلائی کر ہی رہا تھا کہ بھائی صاحب نے اپنی کمپنی کی یو۔کے۔برانچ میں میرے لئے انٹرن شپ کی جگاڑ کرڈالی۔خیال تھا کہ یو۔کے۔کی انٹرن شپ انڈیا میں کسی بھی بہتر جاب کو حاصل کرنے میں آسانی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔یوں میں لندن چلا آیا
یا۔
وقت ایک ایسا اونٹ ہے جو کبھی برسوں بیٹھا بڑے اطمینان سے جگالی کرتا رہتا ہے۔اور کبھی یوں پے درپے کروٹیں بدلتا ہے کہ سوار کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔مجھے بھی پتہ نہیں چلاکہ کب میری صلاحیتوں کے مد نظر میری انٹرن شپ اس کمپنی کی جانب سے بدل گئی،کب برانچ ہیڈ شعیب صاحب کی دختر نیک اختر عنزہ احمد میری وجاہت سے متاثر ہوئیں اور کیسے مجھ پر ترقی کے دروازے پہ بہ پہ کھلنے لگے۔پانچ برسوں کے قلیل عرصے میں کیا کچھ نہیں ہوا۔کمپنی کے ایگزیکیٹیو سے لے کرسی ای او بننے تک۔وزیٹنگ ویزا سے لےکر برطانوی شہریت حاصل کرنے تک ۔عنزہ سے شادی سے لے کر دو پیارے پیارے بچوں کا باپ بننے تک وقت کے اونٹ کی ہر کروٹ نے مجھے زندگی کے نت نئے دروازوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔پانچ برسوں کے قلیل عرصے میں بہت کچھ ہوا۔پہلے ابّا پھر اماں انتقال کرگئیں۔وطن سے وابستگی کی جڑیں جو میں کمزور کر کے آیا تھا اب ٹوٹ چکی تھیں۔اب میرا اپنے گھر اپنے لوگوں سے خبروں کی اپ ڈیٹ کا ہی ناطہ رہ گیا تھا۔
یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ پانچ برسوں میں رفعت سے میں پھر کبھی نہیں ملا۔سننے میں آیا تھاکہ اس کی شادی میرٹھ میں ہی کسی اچھے خاندان میں ہوگئی ہے۔ابّا کے انتقال پر میں انڈیا گیا تو وہ ہنی مون پر تھی۔اماں کے انتقال پر گیا تو سنا اس کا شوہر بیمار ہے اور اسپتال میں ایڈمٹ ہے اس لئے نہیں آسکی۔پھر سنا اس کی طلاق ہو گئی۔یہ آخری خبر تھی جو اس کے بارے میں سنی ،اس سے زیادہ نہ کسی نے مجھے بتایا نہ ہی میں نے کرید کی۔یا شاید چاہت نہیں تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ شاید میں بھی بدل گیا تھا۔میری ترجیحات بدل گئی تھیں۔
ہنی مون کے دوران جب ہم پیرس میں تھے تو مجھے یاد ہے عنزہ نے لوور میوزیم جا کر مونالیزا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور میں نے کہا تھا؛ ہٹاؤ،بورنگ ہے۔نائٹ کلب چلتے ہیں۔مونالیزا کی مسکراہٹ کے اسرار اور رفعت کی آنکھوں کے راز جاننے کا جنون میرے اندر شاید لندن کے موسم کی طرح سرد پڑگیا تھا۔
’’سر پلیز،فاسٹن یور سیٹ بیلٹ‘‘۔
خیالوں سے باہر آیا تو پتہ چلا کہ جہاز کی لینڈنگ کا اعلان ہورہا ہے۔
دہلی ایئر پورٹ پر ہندوستانی وقت کے مطابق رات نو بجےاولاٹیکسی ہائر کی اور قرول باغ پھوپھی کے گھر کے لئےروانہ ہوا۔ چار گھنٹے بعد میری بھوپال کے لئے فلائٹ تھی اور اتنا وقت تھا کہ پھوپھی کے گھر ہو آتا۔پھوپھی کے گھر پہنچا تو پتہ چلا عصر میں ہی تدفین ہو چکی۔ گھر میں سوگواری کا ماحول تھا۔پھوپھا،پھوپھی اور اشفاق کے علاوہ دو تین ہی قریبی لوگ تھے جو اس وقت تک گھر موجود تھے۔میری غیر متوقع آمد پرایسے ماحول میں وہ خوش تو کیا ہوتے مگر یقیناً انہیں اچھا لگا۔پھوپھی بڑی دیر تک مجھے گلے سے لگائے روتی رہیں۔پھوپھا بھی قریب ہی سر جھکائے بیٹھے اپنے آنسو پونچھتے رہے۔پھوپھی بتارہی تھیں۔’’جب سے گھر آکر بیٹھی بیمار ہی رہنے لگی۔ہر طرح کا علاج کرایا کوئی افاقہ نہیں ہوا۔پچھلے دوہفتوں سے اسپتال میں داخل تھی۔وہیں سے اللہ نے بلا لیا اپنے پاس۔‘‘
وہ پھر رونے لگی۔میں نے کہا پھوپھی صبر کریں۔پھر اشفاق سے پوچھا؛’’ہوا کیا تھا آخر؟‘‘ بولو۔۔۔
رضوان بھائی کیا بتائیں۔بس دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی۔بظاہر تو ڈاکٹرز بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔رپورٹیں بتاتی تھیں خون نہیں بن رہا ہے۔۔۔۔کیوں؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے وہ۔
’’شادی زیادہ چلی نہیں؟ ‘‘ میں نے سنبھلتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
ہاں بیٹا، کیا کریں نصیب ہی ایسے لے کر آئی تھی۔اپنی طرف سے تو رفعت نے ساری کوششیں کر ڈالیں گھر داری جمانے کے لئے۔ شوہر،ساس سب کی بیماریوں کو بھگتایا۔خدمتیں کیں۔مگر جب وہ بیمار رہنے لگی تو ان کو ایسا بوجھ لگی،کہ کبھی آسیب نظر آیااس پران کم بختوں کو،کبھی جن کہتے تھے۔ کبھی کبھار گھنٹوں خلاء میں تکے جاتی تھی۔کبھی خود سے باتیں کرتی نظر آتی۔
میرے چلنے کا وقت ہوا تو پہلے پھوپھا نے پھر پھوپھی نے گلے لگایا۔ڈھیروں دعائیں دیں۔میرے منع کرنےکے باوجود اشفاق مجھے ایئر پورٹ چھوڑنے کے لئے ہو لیا۔میں نے ٹیکسی چھوڑی نہیں تھی۔اس عرصے میں سامان اسی میں رکھا ہوا تھا۔واپسی میں اشفاق میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر ہی تھا۔بڑی دیر تک ایک بوجھل خاموشی طاری رہی۔پھر میں نے اشفاق سے پوچھا؛’’یار رفعت تو بڑی مضبوط لڑکی تھی۔ایسی کم عمری میں ایک بیماری سے ہار کر یوں چلی گئی۔‘‘
اشفاق رندھے ہوئے لہجے میں بولا؛ ’’رضوان بھائی،جینے کی تمنا انسان کے اندر ہو تو ہر حال میں جی لیتا ہے۔رفعت باجی کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جینے کی چاہت ہی نہ ہو۔سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ایک طرف تو علاج ومعالجہ سے ایسی لاپرواہی جیسے مرنا چاہتی ہو۔دوسری طرف خود کی ذات سے اتنا پیار کہ سارے قریبی رشتوں کو خفا کرا بیٹھیں۔دیکھا جائے تو ان کا گھر ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ ان کا یہی اپنی ذات سے پیار بھی تھا۔‘‘
میں سمجھا نہیں۔میں نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
وہ اپنی شرٹ کی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے بولا۔’’پتہ نہیںکب اور کہاں سے انہوں نے اپنے نام کے پہلے حرف والی یہ انگوٹھی ڈال لی تھی۔ جو موت کےبعد ہی ان کی انگلی سے اتاری گئی۔ شادی کے وقت بھی انھوں نے شادی کی انگوٹھی اپنی دوسری انگلی میں پہنی مگر اس کو نہ اتارا۔ اور یہ منطق پیش کی کہ شادی مجھ سے ہو رہی ہے یا میری انگلی سے۔بعد میں جب ان کی ازدواجی زندگی میں بحران آیا تو لوگ یہاں تک کہنے لگے کہ اس انگوٹھی میں کوئی جناتی اثر ہے۔جس کے چنگل میں رفعت باجی دن بہ دن گھل رہی ہیں۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے میرے ہاتھ میں وہ انگوٹھی تھمادی۔کار میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔مگر میں چھوکر چھوٹی چھوٹی موتیوں سے بنی اس انگوٹھی کو محسوس کرسکتا تھا۔
میں نے آہستگی سے اس پر کندہ صرف R پر انگلی پھیری ⁹اور معاً مجھے لگا جیسے کوئی پنجرہ کھلا اور اس میں سے بے شمار پرندے جیسے بھرامار کر اڑ گئے ہوں۔کار کی ناکافی روشنی میں رفعت کی آنکھیں روشن ہیں۔ان آنکھوں میں نہ کوئی معمہ ہےنہ اسرار ہے،بس پیار ہے دور تک پھیلا ہوا۔بے کراں پیار۔۔۔۔جومیری خود غرضی،میری مصلحت کوشی،میری موقع پرستی پر لعنت بن کر برس رہا تھا۔کار کی ایئر کنڈیشنز فضا میں بھی میری پیشانی عرق انفعال سے آلودہ ہورہی تھی۔اور ٹیکسی میں لگے ٹیپ ریکارڈر میں جگجیت سنگھ کی پر سوز آواز میں غزل گونج رہی تھی۔
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
ختم شد