شاہد اختر کا ناول  شہر ذات

شاہد اختر کا ناول  شہر ذات

Feb 19, 2024

مصنف

نسترن احسن فتیحی

دیدبان شمارہ ۔۲۴

شاہد اختر کا ناول  شہر ذات

تبصرہ:نسترن احسن فتیحی

موت ایک ناگزیر، لیکن پراسرار واقعہ ہے۔  شاہد اختر کا ناول  شہر ذات موت کے تصور اور  اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ناول کی ابتدا افضل مسلم کے طبعی موت  کی خبر سے ہوتی ہے  اور اس خبر سے خرم کو   بالکل ویسا ہی  لگتا ہے جیسا کسی کو بھی کسی کی موت کی  خبر سے لگ سکتا ہے۔   یہ خبر  ناول کے مرکزی کردار اور کہانی کو ایک اہم طریقے سے متاثر کرتی ہے۔ گو کہ بظاہر یہ ایک "بے معنی" موت  تھی لیکن     خرم کے لیے یہ  معنی رکھتی ہے۔  ناول کے بیانیہ میں موت کی یہ خبر ایک طرح کی  پیش بیانی  یا Foregrounding  کی صورت  پیدا کرتی ہے   جو ناول کے  پلاٹ کے ارتقا کے لیے بہت مفید  ثابت ہوتی ہے، کیونکہ یہ  خبر ناول میں پلاٹ کے موڑ، سسپنس، اسرار اور جذباتی اثرات پیدا کرتی ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ موت کے  ارد گرد گھومتا یہ پلاٹ  ہماری زندگی کے لیے ایک وجودی اہمیت رکھتا  ہے۔  ناول کی ابتدا   میں افضل مسلم کے موت  کی خبر ایک خیالی مقابلہ فراہم کرتی ہے اور موت اور زندگی دونوں کو معنی  فراہم کرتی ہے۔ اس طرح، موت اس   ناول میں جسمانی یا نفسیاتی تجربے سے زیادہ ہے۔ یہ انسانیت اور کہانی سے متعلق وجودی سوالات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ موت کا یہ حیاتیاتی تصور بذات خود اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی  ہےکہ موت انسانی تخیل کو پرجوش کر تی ہے، اور لوگوں کو تمام تخیلات کے خاتمے کا تصور کرنے کی کوشش کرنے پر مجبور کر  تی ہے، اور انہیں ایک ایسی زندگی کے معنی اور قدر کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر تی ہے  جو کہ صرف ہلکا پھلکا لگتا ہے۔ شعوری تجربہ ایک ناقابل تصور لامحدودیت کے اندر الگ تھلگ ہے۔ لیکن انسانی ذہن پیچیدہ، گندا اور اکثر متضاد ہے۔ بہت سے ذہنوں میں، 10 سال کی عمر تک، موت کا حیاتیاتی تصور مافوق الفطرت تصورات کے ساتھ ایک ساتھ رہتا ہے کہ ذہن، یا دماغ اور جسم دونوں، موت کے بعد بھی قائم رہتے ہیں، کہیں اور چلے جاتے ہیں، اور تبدیل ہو جاتے ہیں، کبھی کم ہو جاتے ہیں اور کبھی پاک اور بلند ہو جاتے ہیں۔

·  "جن کے لےآخرت کے  کوئ معنی ہیں وہ قبر ستان کی ہیبت سے خوف کھاتے ہیں۔دوسروں کی تدفین میں آنا اور اس بہانے اپنی موت کے بارے میں سوچنا ۔۔۔۔یہ متضاد باتیں ہیں ۔"

·  "کئ کتبوں پر نام کے ساتھ مرحوم بھی لکھا تھا ۔یہ اس نے پہلے بھی کی بارنوٹس کیا تھا اور ہر بار اسے کتبے پر مرحوم اضافی بلکہ مضحکہ خیز لگتا ہے ۔"

·  ،"موت واقعی زندگی کا وقفہ ہے ۔۔۔یا۔۔۔؟اپنےآپ سے یہ سوال کرکے وہ کچھ دیر تک جانے کیا سوچتا رہا ۔زندگی کا مقصد خالقِ کائنات کے احکامات کی تکمیل ہے یا ۔‌۔۔کچھ ۔۔؟جس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔صرف خوش فہمی یا مغالطہ ۔۔۔اس سے زیادہ موت کے بارے میں جاننے کے لیے مرنا ضروری ہے شاید "چھپا لینا، بتا دینے سے زیادہ پر اسرار اور معنی خیز کیوں ہے؟وغیرہ۔

شہر ذات"  کی ابتدا  یوں تو خرم کی جدو جہد بھری زندگی کے نشیب وفراز کی روداد سے ہوتی ہے  مگر جیسے جیسے   ناول کی زندگی کے کینوس پر رنگ   بکھرتے جاتے ہیں اور    ماضی کے واقعات کی پیشکش جب   ماضی  کے  گمشدہ لمحوں سے پردہ  اٹھاتی ہوئ آگے بڑھتی ہے تو " شہر ذات" کی وسیع دنیا  قاری  سے روبرو ہوتی ہے ۔ جہاں ماں باپ کےساتھ اولاد کے رویے، بھائ  بہن کے درمیان کے روابط ،دوست احباب کے سلوک ، آپسی محبت و نفرت کی رنگ، معاشرے کی مطلب پرستی نیز منافقت اور بھی بہت کچھ جن سے زندگی کا واسطہ ہو سکتا  ہے۔ ایسے کئ جذبات اور واقعات " شہر ذات " میں روپ بدل کر قاری کے  سامنےآتے ہیں ۔ جن سے قاری کا آسانی سے گزر جانا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہوجاتا ہے ۔وہ کبھی رک کر تو کبھی لمحہ بھر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ۔ تحریر کے ذریعے اس طرح کی  تجسس کا پیدا ہونا تخلیق کی  کامیابی کی علامت ہے ۔  ناول میں موت کی پیش کش نے شاہد اخترکے بیانیہ کے سیاق و سباق کو نمایاں کیا ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کسی متن کو پڑھنا اور اس کا تجزیہ کرنا ایک قاری کو سماجی معنی اور طرز عمل کے اپنے بین متنی تجربات کے ذریعے متن کی تعمیر کے ذریعے اسے زبان اور حقیقت کی اپنی مہارت سے منسلک کرنے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ جب کسی متن کی شکلیں دوسرے سیاق و سباق کے متنی افعال سے جڑی ہوتی ہیں تو اس کا تعلق قاری کی بین متناسبیت سے ہوتا ہے۔ شاہد اخترکے لنچنگ کی تصویر کشی  ایسے تصورات کی نشاندہی کرتی ہے  اورایسے مؤقف کو ظاہر کرتی ہے جو ہندو بالادستی کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ ناول میں شاہد اختر کا بیانیہ ہندو بالادستی کے موضوعات کو دھندلا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا کرنے میں، میں شاہد  اختر بظاہر ہندو  بالادستی کے بیانیے کو نہیں پیش کرتے  لیکن  ادب کو سماجی حقیقت سے الگ کرنے   کی کوئ کوشش بھی نہیں کرتے۔ اس طرح، شاہد اخترکی ثقافتی سیاست کو ایک غیر جانبدار ڈسٹلر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ  فرقہ وارانہ تشدد، خاص طور پر لنچنگ کی حوصلہ افزائی کرتے  نہیں نظر آتے۔ شہر ذات" حال کے لبادے میں ماضی اور مستقبل کی داستان  سناتا ہے۔  جب  بھی کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تومصنف حال کے تناظر میں قاری سے ہمکلام ہوتا ہے لیکن حال کے بیان کو بین السطور کے توسط اگر  ماضی  اور مستقبل سے منسلک کر دیا جائے تو قلم کار کے ساتھ قاری کے  تفہیمی صلاحیتوں میں وسعت  پیدا ہو جاتی ہے ۔  نا ول  "شہر ذات " میں بیانیہ کی یہ خوبی بہت واضح اور صاف نظر آتی ہے۔

دیدبان شمارہ ۔۲۴

شاہد اختر کا ناول  شہر ذات

تبصرہ:نسترن احسن فتیحی

موت ایک ناگزیر، لیکن پراسرار واقعہ ہے۔  شاہد اختر کا ناول  شہر ذات موت کے تصور اور  اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ناول کی ابتدا افضل مسلم کے طبعی موت  کی خبر سے ہوتی ہے  اور اس خبر سے خرم کو   بالکل ویسا ہی  لگتا ہے جیسا کسی کو بھی کسی کی موت کی  خبر سے لگ سکتا ہے۔   یہ خبر  ناول کے مرکزی کردار اور کہانی کو ایک اہم طریقے سے متاثر کرتی ہے۔ گو کہ بظاہر یہ ایک "بے معنی" موت  تھی لیکن     خرم کے لیے یہ  معنی رکھتی ہے۔  ناول کے بیانیہ میں موت کی یہ خبر ایک طرح کی  پیش بیانی  یا Foregrounding  کی صورت  پیدا کرتی ہے   جو ناول کے  پلاٹ کے ارتقا کے لیے بہت مفید  ثابت ہوتی ہے، کیونکہ یہ  خبر ناول میں پلاٹ کے موڑ، سسپنس، اسرار اور جذباتی اثرات پیدا کرتی ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ موت کے  ارد گرد گھومتا یہ پلاٹ  ہماری زندگی کے لیے ایک وجودی اہمیت رکھتا  ہے۔  ناول کی ابتدا   میں افضل مسلم کے موت  کی خبر ایک خیالی مقابلہ فراہم کرتی ہے اور موت اور زندگی دونوں کو معنی  فراہم کرتی ہے۔ اس طرح، موت اس   ناول میں جسمانی یا نفسیاتی تجربے سے زیادہ ہے۔ یہ انسانیت اور کہانی سے متعلق وجودی سوالات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ موت کا یہ حیاتیاتی تصور بذات خود اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی  ہےکہ موت انسانی تخیل کو پرجوش کر تی ہے، اور لوگوں کو تمام تخیلات کے خاتمے کا تصور کرنے کی کوشش کرنے پر مجبور کر  تی ہے، اور انہیں ایک ایسی زندگی کے معنی اور قدر کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر تی ہے  جو کہ صرف ہلکا پھلکا لگتا ہے۔ شعوری تجربہ ایک ناقابل تصور لامحدودیت کے اندر الگ تھلگ ہے۔ لیکن انسانی ذہن پیچیدہ، گندا اور اکثر متضاد ہے۔ بہت سے ذہنوں میں، 10 سال کی عمر تک، موت کا حیاتیاتی تصور مافوق الفطرت تصورات کے ساتھ ایک ساتھ رہتا ہے کہ ذہن، یا دماغ اور جسم دونوں، موت کے بعد بھی قائم رہتے ہیں، کہیں اور چلے جاتے ہیں، اور تبدیل ہو جاتے ہیں، کبھی کم ہو جاتے ہیں اور کبھی پاک اور بلند ہو جاتے ہیں۔

·  "جن کے لےآخرت کے  کوئ معنی ہیں وہ قبر ستان کی ہیبت سے خوف کھاتے ہیں۔دوسروں کی تدفین میں آنا اور اس بہانے اپنی موت کے بارے میں سوچنا ۔۔۔۔یہ متضاد باتیں ہیں ۔"

·  "کئ کتبوں پر نام کے ساتھ مرحوم بھی لکھا تھا ۔یہ اس نے پہلے بھی کی بارنوٹس کیا تھا اور ہر بار اسے کتبے پر مرحوم اضافی بلکہ مضحکہ خیز لگتا ہے ۔"

·  ،"موت واقعی زندگی کا وقفہ ہے ۔۔۔یا۔۔۔؟اپنےآپ سے یہ سوال کرکے وہ کچھ دیر تک جانے کیا سوچتا رہا ۔زندگی کا مقصد خالقِ کائنات کے احکامات کی تکمیل ہے یا ۔‌۔۔کچھ ۔۔؟جس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔صرف خوش فہمی یا مغالطہ ۔۔۔اس سے زیادہ موت کے بارے میں جاننے کے لیے مرنا ضروری ہے شاید "چھپا لینا، بتا دینے سے زیادہ پر اسرار اور معنی خیز کیوں ہے؟وغیرہ۔

شہر ذات"  کی ابتدا  یوں تو خرم کی جدو جہد بھری زندگی کے نشیب وفراز کی روداد سے ہوتی ہے  مگر جیسے جیسے   ناول کی زندگی کے کینوس پر رنگ   بکھرتے جاتے ہیں اور    ماضی کے واقعات کی پیشکش جب   ماضی  کے  گمشدہ لمحوں سے پردہ  اٹھاتی ہوئ آگے بڑھتی ہے تو " شہر ذات" کی وسیع دنیا  قاری  سے روبرو ہوتی ہے ۔ جہاں ماں باپ کےساتھ اولاد کے رویے، بھائ  بہن کے درمیان کے روابط ،دوست احباب کے سلوک ، آپسی محبت و نفرت کی رنگ، معاشرے کی مطلب پرستی نیز منافقت اور بھی بہت کچھ جن سے زندگی کا واسطہ ہو سکتا  ہے۔ ایسے کئ جذبات اور واقعات " شہر ذات " میں روپ بدل کر قاری کے  سامنےآتے ہیں ۔ جن سے قاری کا آسانی سے گزر جانا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہوجاتا ہے ۔وہ کبھی رک کر تو کبھی لمحہ بھر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ۔ تحریر کے ذریعے اس طرح کی  تجسس کا پیدا ہونا تخلیق کی  کامیابی کی علامت ہے ۔  ناول میں موت کی پیش کش نے شاہد اخترکے بیانیہ کے سیاق و سباق کو نمایاں کیا ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کسی متن کو پڑھنا اور اس کا تجزیہ کرنا ایک قاری کو سماجی معنی اور طرز عمل کے اپنے بین متنی تجربات کے ذریعے متن کی تعمیر کے ذریعے اسے زبان اور حقیقت کی اپنی مہارت سے منسلک کرنے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ جب کسی متن کی شکلیں دوسرے سیاق و سباق کے متنی افعال سے جڑی ہوتی ہیں تو اس کا تعلق قاری کی بین متناسبیت سے ہوتا ہے۔ شاہد اخترکے لنچنگ کی تصویر کشی  ایسے تصورات کی نشاندہی کرتی ہے  اورایسے مؤقف کو ظاہر کرتی ہے جو ہندو بالادستی کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ ناول میں شاہد اختر کا بیانیہ ہندو بالادستی کے موضوعات کو دھندلا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا کرنے میں، میں شاہد  اختر بظاہر ہندو  بالادستی کے بیانیے کو نہیں پیش کرتے  لیکن  ادب کو سماجی حقیقت سے الگ کرنے   کی کوئ کوشش بھی نہیں کرتے۔ اس طرح، شاہد اخترکی ثقافتی سیاست کو ایک غیر جانبدار ڈسٹلر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ  فرقہ وارانہ تشدد، خاص طور پر لنچنگ کی حوصلہ افزائی کرتے  نہیں نظر آتے۔ شہر ذات" حال کے لبادے میں ماضی اور مستقبل کی داستان  سناتا ہے۔  جب  بھی کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تومصنف حال کے تناظر میں قاری سے ہمکلام ہوتا ہے لیکن حال کے بیان کو بین السطور کے توسط اگر  ماضی  اور مستقبل سے منسلک کر دیا جائے تو قلم کار کے ساتھ قاری کے  تفہیمی صلاحیتوں میں وسعت  پیدا ہو جاتی ہے ۔  نا ول  "شہر ذات " میں بیانیہ کی یہ خوبی بہت واضح اور صاف نظر آتی ہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024