شہزاد نیّر کی نظم اور غزلیں

شہزاد نیّر کی نظم اور غزلیں

Jul 9, 2024

مصنف

شہزاد نیر

میجر ر شہزاد نیر علمی و ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ اندرون و بیرون ملک لاتعداد ادبی تقاریب میں شرکت کر چکے ہیں۔ وہ چار شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے 2 کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ شعبہء تعلیم سے وابستہ ہیں۔ کشادہ فکری اور رواداری ان کی پہچان ہے۔ وہ لاہور میں مقیم ہیں۔


نظم : غزہ

بے جان گھوڑا مر گیا ہے

رات دن ڈرتا رہتا تھا

بموں اور گولوں کی آوازوں سے

کئی دن سے

اس پر سواری نہیں کی گئی تھی

اسے انتظار تھا

اس بچے کا

جو اس کا محبوب سوار تھا

گھوڑا ڈرا ہوا تھا

اب ٹوٹا پھوٹا مرا پڑا ہے

اس کا پلاسٹک بکھر گیا ہے

چاروں ٹائر ٹوٹ چکے ہیں

ٹوٹے ہوئے گھوڑے ک

ویاد آ رہے ہیں وہ دن

جب گول مٹول پیارا سا بچہ

اس کی پشت پر سوار ہو کر

اسے آگے کو دھکیلتے ہوئے ہنستا تھا

تو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے

گھوڑا بھی ہنس پڑتا تھا

اب بچہ اور گھوڑادونوں ٹوٹ چکے ہیں

اور بڑے بم کے بنائے ہوئے

گہرے گڑھے کے دو کناروں پر

ایک دوسرے سے دور پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

شہزاد نیر

غزلیں

تتلیاں جب آنکھوں میں، رنگِ خواب گھولیں گی

کاسنی محبت کے، سارے راز کھولیں گی

احتیاط سے رہنا، بات سوچ کر کہنا

لڑکیاں محبت میں، حرف حرف تولیں گی

پریم رت سے ڈرنا کیا، کان بند کرنا کیا

آندھیوں کے موسم میں، کھڑکیاں تو بولیں گی

اس سے روز کہتی ہیں، میری بے قرار آنکھیں

ایک پل کے ہنسنے کو، عمر بھر بھی رو لیں گی

راستے کی خوشیوں کو اپنے ساتھ کر لینا

آفتوں کی چھوڑو تم، میرے سنگ ہو لیں گی

اشک پر بھروسا ہے، بحرِ دل بھی اپنا ہے

یہ جو میری آنکھیں ہیں، سارے داغ دھو لیں گی

باپ نے کہا مجھ سے، تم ہوا کے رخ چلنا

آندھیوں سے مت لڑنا، دشت دشت رولیں گی

دل سے شعر نکلیں تو سب محبتیں ان کو

روح میں سمو لیں گی، آنکھ میں پرو لیں گی

شہزاد نیر

۔وفا کے پیشِ نظر بھی جہاں کی رسمیں رہیں

محبتیں بھی کہاں آدمی کے بس میں رہیں

تمام عمر کسی سے نگاہ مل نہ سکی

تمام عمر نظر میں تمھاری قسمیں رہیں

غمِ حیات کو میں گھونٹ گھونٹ پیتا رہا

اگرچہ تلخیاں کتنی ہی اس کے رس میں رہیں

انہی کے دم سے تو جینے کا حوصلہ پایا

وہ زحمتیں جو ہمیشہ نفس نفس میں رہیں

مگر ستار کو ہاتھوں میں ہم نے تھام لیا

اگرچہ تیز کٹاریں بھی دسترس میں رہیں

وہ حدتیں جو جلاتی ہیں آج دونوں کو

مری دعا ہے ہمیشہ لبوں کے مس میں رہیں

خیالِ خاک نشیناں کو اپنا گھر سمجھا

فقیر باغ میں آئیں تو خار و خس میں رہیں

خدا معاف رکھے ایسے عشق بازوں سے

کہیں کہ عشق میں رہتے ہیں اور ہوس میں رہیں

ہماری سوچ بناتی ہے منفرد ہم کو

ہزار لاکھ میں بیٹھیں کہ پانچ دس میں رہیں

شہزاد نیر


نظم : غزہ

بے جان گھوڑا مر گیا ہے

رات دن ڈرتا رہتا تھا

بموں اور گولوں کی آوازوں سے

کئی دن سے

اس پر سواری نہیں کی گئی تھی

اسے انتظار تھا

اس بچے کا

جو اس کا محبوب سوار تھا

گھوڑا ڈرا ہوا تھا

اب ٹوٹا پھوٹا مرا پڑا ہے

اس کا پلاسٹک بکھر گیا ہے

چاروں ٹائر ٹوٹ چکے ہیں

ٹوٹے ہوئے گھوڑے ک

ویاد آ رہے ہیں وہ دن

جب گول مٹول پیارا سا بچہ

اس کی پشت پر سوار ہو کر

اسے آگے کو دھکیلتے ہوئے ہنستا تھا

تو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے

گھوڑا بھی ہنس پڑتا تھا

اب بچہ اور گھوڑادونوں ٹوٹ چکے ہیں

اور بڑے بم کے بنائے ہوئے

گہرے گڑھے کے دو کناروں پر

ایک دوسرے سے دور پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

شہزاد نیر

غزلیں

تتلیاں جب آنکھوں میں، رنگِ خواب گھولیں گی

کاسنی محبت کے، سارے راز کھولیں گی

احتیاط سے رہنا، بات سوچ کر کہنا

لڑکیاں محبت میں، حرف حرف تولیں گی

پریم رت سے ڈرنا کیا، کان بند کرنا کیا

آندھیوں کے موسم میں، کھڑکیاں تو بولیں گی

اس سے روز کہتی ہیں، میری بے قرار آنکھیں

ایک پل کے ہنسنے کو، عمر بھر بھی رو لیں گی

راستے کی خوشیوں کو اپنے ساتھ کر لینا

آفتوں کی چھوڑو تم، میرے سنگ ہو لیں گی

اشک پر بھروسا ہے، بحرِ دل بھی اپنا ہے

یہ جو میری آنکھیں ہیں، سارے داغ دھو لیں گی

باپ نے کہا مجھ سے، تم ہوا کے رخ چلنا

آندھیوں سے مت لڑنا، دشت دشت رولیں گی

دل سے شعر نکلیں تو سب محبتیں ان کو

روح میں سمو لیں گی، آنکھ میں پرو لیں گی

شہزاد نیر

۔وفا کے پیشِ نظر بھی جہاں کی رسمیں رہیں

محبتیں بھی کہاں آدمی کے بس میں رہیں

تمام عمر کسی سے نگاہ مل نہ سکی

تمام عمر نظر میں تمھاری قسمیں رہیں

غمِ حیات کو میں گھونٹ گھونٹ پیتا رہا

اگرچہ تلخیاں کتنی ہی اس کے رس میں رہیں

انہی کے دم سے تو جینے کا حوصلہ پایا

وہ زحمتیں جو ہمیشہ نفس نفس میں رہیں

مگر ستار کو ہاتھوں میں ہم نے تھام لیا

اگرچہ تیز کٹاریں بھی دسترس میں رہیں

وہ حدتیں جو جلاتی ہیں آج دونوں کو

مری دعا ہے ہمیشہ لبوں کے مس میں رہیں

خیالِ خاک نشیناں کو اپنا گھر سمجھا

فقیر باغ میں آئیں تو خار و خس میں رہیں

خدا معاف رکھے ایسے عشق بازوں سے

کہیں کہ عشق میں رہتے ہیں اور ہوس میں رہیں

ہماری سوچ بناتی ہے منفرد ہم کو

ہزار لاکھ میں بیٹھیں کہ پانچ دس میں رہیں

شہزاد نیر

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024