سفر سے سفر تک
سفر سے سفر تک
Mar 29, 2020
امر جلیل کے سندھی افسانے کا اردو ترجمہ
سندھی ادب / اردو ترجمے
سفر سے سفر تک
تخلیق:امر جلیل ترجمہ: شاہد حنائی
یہ اس شام کی بات ہے،جب صدر میں گولی چلی تھی اور لوگ اپنے بوٹ،چپلیں اور ٹوپیاں سڑکوں پر چھوڑ کر آس پاس کی دکانوں اور ہوٹلوں میں جا چھپے تھے۔جان محمد عرف جانو،مَیں اور چند راہ گیروں نے اِک زیر تعمیر عمارت میں پناہ لی تھی۔حواس بحال ہوئے تو مَیں نے ستون کی اوٹ سے ایلفی سٹریٹ کی جانب دیکھا۔
سڑک پر بوٹوں،چپلوں اور ٹوپیوں کے درمیان کسی بچے کی دودھ والی بوتل پڑی تھی۔مَیں نے گردن اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔سورج کو گولی لگ چکی تھی۔سورج گولی کا زخم لے کر آسمان کی وسعتوں میں لہو کی روشن لکیر چھوڑ کر رینگتا ہواہم سے دور ہو رہا تھا۔
ایک بدحال عورت،جس نے زیر تعمیر عمارت میں پناہ لے رکھی تھی۔وہ ٹکٹکی باندھے بوتل کی طرف دیکھے جا تی تھی۔ وہ قدرے سہمی ہوئی اور خوف زدہ دکھائی دے رہی تھی۔مَیں نے اس سے پوچھا، ”سڑک پر بوٹوں، ٹوپیوں اور چپلوں کے بیچ پڑی ہوئی دودھ کی بوتل تمھارے بچے کی ہے؟“
عورت نے چہرہ پھیر کر میری طرف دیکھا،لیکن کوئی جواب نہ دیا۔اس کاچہرہ ہلدی سا ہو رہا تھا۔وجود کے بے پناہ غم کا عکس اس کی آنکھوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔
مَیں نے کہا، ”مَیں سمجھتا ہوں،سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل تمھارے بچے کی ہے۔“
”ہاں۔“ اس نے کہا، ”سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل میرے بچے کی ہے۔“
جان محمد عرف جانو جمائیاں لے رہا تھا اور زیرلب ایک فلمی گیت گنگنا رہا تھا۔ مَیں نے جان محمد سے کہا، ”جانو! سڑک پر بوٹوں،چپلوں اورٹوپیوں کے درمیان ایک دودھ کی بوتل پڑی ہے۔“
جانو نے فوراً پوچھا، ”تمھاری تو نہیں ہے؟“
مَیں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا،”بکواس مت کرو۔“
اس نے کہا، ”تو پھر اس کا مطلب ہے کہ سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل میری ہے۔“
مَیں نے اس کی گردن دبوچتے ہوئے پوچھا، ”سامنے ستون کے پاس ایک عورت دیکھ رہے ہو؟“
اس نے گردن چھڑاتے ہوئے کہا، ”ہاں دیکھ رہا ہوں۔“
مَیں نے کہا، ”سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل اس عورت کے بچے کی ہے۔“
اس نے فوراً پوچھا، ”اُٹھا لاؤں؟“
مَیں نے کہا، ”بدحال عورت سے پوچھے بنا نہیں۔“
جان محمد اور مَیں اس بد حال عورت کے پاس جا پہنچے۔
مَیں نے عورت سے کہا، ”اس کا نام جان محمد جانو ہے،یہ میرا جگری یار ہے۔انتہائی بہادر ہے اور موت تک کو خاطر میں نہیں لاتا،جانو گولیوں کی بارش میں تمھارے بچے کی دودھ پینے والی بوتل سڑک سے اُٹھا کر لانے کو تیار ہے۔“
عورت سے پہلے ایک برش جیسی ڈاڑھی والا بوڑھا بول پڑا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور پتے کی بیڑی پی رہا تھا۔اس نے جان محمد سے پوچھا، ”ارے میاں! تم موت کے کنویں میں موٹر سائیکل تو نہیں چلاتے ہو؟“
ہم سب نے بوڑھے کی طرف دیکھا،جان محمد ذرا بوکھلا گیا۔
مَیں نے بوڑھے سے کہا، ”جان محمد سرکاری چڑیا گھر کے ایک خالی پنجرے میں مردہ ریچھ کی کھال پہن کر بیٹھ جاتا ہے اور روزانہ پانچ روپے کماتا ہے۔“
”راز کی بات بتائی ہے میاں!“ بوڑھے نے اپنی برش جیسی ڈاڑھی کھجاتے ہوئے پوچھا، ”تمھارا اس ریچھ سے کیا تعلق ہے؟“
”ریچھ کے پنجرے کے ساتھ ایک گیدڑ کا پنجرہ ہے۔“ مَیں نے کہا، ” مَیں ایک مردہ گیدڑ کی کھال پہن کر اس پنجرے میں بیٹھ جاتا ہوں اور مَیں بھی ہر روز پانچ روپے کماتا ہوں۔“
بوڑھے کی آنکھوں میں جوت جاگ اُٹھی۔اس نے سُلگتی بیڑی دیوار کے ساتھ رگڑ کر بجھاڈالی۔وہ بولا،”ارے میاں! پھر تو تم اس عورت سے ضرور واقف ہوگے،جس کا جسم لومڑی جیسا ہے!“
”ہاں۔“ مَیں نے کہا، ”وہ میرے اور جانو کے پنجروں کے پیچھے ایک پیوند لگے خیمے میں رہتی ہے۔تماشائی آٹھ آنے دے کر اسے دیکھنے جاتے ہیں۔وہ تماشائیوں کو اپنا نام ممتاز محل بتاتی ہے۔“
بوڑھے نے پوچھا، ”تمھیں وہ کیسی لگتی ہے؟“
”مجھے وہ بہت اچھی لگتی ہے۔“ مَیں نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ”مَیں اس سے محبت کرتا ہوں۔“
بوڑھے نے عجیب سے جوش میں پوچھا، ”وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے کیا؟“
”نہیں۔“ مَیں نے کہا، ”وہ اپنے سات بچوں سے محبت کرتی ہے۔“
بوڑھے نے پوچھا،”کیااس کے بچوں کے بھی چہرے مہرے انسانوں اور جسم لومڑیوں جیسے ہیں؟“
”نہیں۔“ مَیں نے اسے بتایا، ”ممتاز محل کے ساتوں بچوں کے جسم بھی انسانوں جیسے ہی ہیں۔“
”تعجب ہے۔“ بوڑھے نے ڈاڑھی میں اُنگلی پھیرتے ہوئے پوچھا، ”تو پھر ممتاز محل کا جسم لومڑی جیسا کیوں ہے؟“
” جب تک کیماڑی سے دبئی جانے والی لانچ کو اُمیدوں کے سمندر نے ڈبویا نہیں تھا، تب تک ممتاز محل کا بدن عام عورتوں جیسا ہی تھا۔“ مَیں نے کہا، ”اس لانچ پر ممتاز محل کا شوہر بھی سوار تھا۔شوہر کی موت کے بعد ممتاز محل کا جسم لومڑی جیسا ہو گیا۔اس وقت سے وہ سرکاری چڑیا گھر میں خیمہ تان کر بیٹھی ہے۔لوگ آٹھ آٹھ آنے دے کر اسے دیکھنے آتے ہیں۔وہ لوگوں کو اپنا نام ممتاز محل بتاتی ہے جب کہ اس کا اصل نام مجیداں ہے۔“
”ارے کچھ تو شرم کرو،گیدڑ!“ جانو نے میری پیٹھ پر مکا مارتے ہوئے کہا، ”تمھاری بکواس سن کر پبلک کیا سوچتی ہوگی!“
”سڑکوں پر جوتیاں اور ٹوپیاں چھوڑ کر زیر تعمیر عمارتوں میں پناہ لینے والی پبلک کچھ نہیں سوچتی ہے۔ہر بکواس صبر اورتحمل سے سنتی ہے۔“ مَیں نے کہا، ”بڈھا بڑا عیار ہے اور ترچھی نگاہ سے بدحال عورت کو تاڑ رہا ہے۔“
”مجھے بد حال عورت کے حال پر ترس آرہا ہے۔“ جان محمد نے کہا، مَیں سڑک سے بوتل اُٹھا کر لے آتا ہوں۔“
”جان محمد عرف جانو میرا جگری یار ہے،ہم دونوں سندھ سٹار الیون کی طرف سے ککری گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلتے ہیں اور فارغ اوقات میں ریچھ اور گیدڑ کی کھالیں پہن کر سرکاری چڑیا گھر کے پنجروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔دوسرے پنجروں میں بھی ہماری طرح کی مخلوق مختلف جان وروں کی کھالیں پہن کر بیٹھی ہوتی ہے۔ہم پر بولنے کی بندش لاگو رہتی ہے۔حکم کے مطابق ہم تماشائیوں کو کرتب دکھاتے ہیں اور انھیں خوش کرتے ہیں۔انھیں اپنی خاموشی کے زخم بھی دکھاتے ہیں۔
جانو نے کہا،” مَیں دُودھ بوتل اُٹھا کر لاتا ہوں۔“
مَیں نے جان محمد سے کہا، ”جانو! مجھے واہموں نے گھیر لیا ہے۔“
”کاہے کے واہمے!“ جانو نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ”کیا تم سمجھتے ہو کہ مَیں گولی کا شکار ہو کر سڑک پر مر جاؤں گا؟“
مَیں نے گردن اثبات میں ہلا دی۔
”مَیں سڑک پر گولی کا شکار ہو کر نہیں مروں گا۔یہ سعادت تیرے میرے نصیب میں نہیں لکھی ہوئی۔“ جانو نے کہا،” تو اور مَیں سرکاری چڑیا گھر کے پنجروں میں مریں گے۔مرتے وقت تیرے بدن پر گیدڑ اور میرے جسم پر ریچھ کی کھال ہو گی۔“
”ٹھہرو جانو!“ مَیں نے اسے روکتے ہوئے کہا،”جانے کیوں دل تمھیں روکنے پہ مصر ہے۔“
جان محمد میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔میرے کندھے تھامتے ہوئے بولا: ”بہت پہلے جب میری ماں کے پستان خشک ہو گئے تھے اور وہ مجھے بوتل میں دُودھ ڈال کر پلایا کرتی تھی، تب ایک دفعہ گولی چلی تھی۔میری ماں میری دُودھ کی بوتل لے کر آسمان کی جانب پرواز کر گئی تھی۔“
مَیں نے جان محمد کو بانہوں کے حصار میں بھینچ لیا۔
جان محمد نے کہا، ”مَیں سڑک سے بوتل اُٹھا کر لے آتا ہوں۔بد حال عورت بہت اُداس ہے۔“
وہ میرے بازوؤں کی گرفت سے نکل گیا۔وہ پلک جھپکتے ہی سڑک سے دُودھ کی بوتل اُٹھا لایا۔
دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے برشی ڈاڑھی والے بوڑھے نے تالیاں بجائیں۔
جان محمد نے دُودھ کی بوتل بدحال عورت کو دیتے ہوئے کہا، ”لو، اپنے بچے کی دُودھ پلانے والی بوتل۔“
عورت نے اپنی نگاہیں جان محمد کے چہرے پر جمادیں۔جان محمد نے ہاتھ آگے بڑھا کر دُدوھ کی بوتل دینا چاہی۔وہ دونوں کچھ دیر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔
مَیں نے عورت سے کہا،”جان محمد اپنی جان کی بازی لگا کر سڑک سے تمھارے بچے کی دُودھ پینے والی بوتل اُٹھا کر لے آیا ہے۔“
”عورت نے دھیرے دھیرے ہاتھ آگے بڑھا کر جان محمد کے ہاتھ سے بوتل لے لی۔
ٍ تب اچانک زیر تعمیر عمارت میں پناہ لیے ہوئے افراد حیرت زدہ رہ گئے۔وہ حیران رہ گئے۔انھوں نے دیکھا کہ عورت کی گود خالی تھی۔
جان محمد نے حیرانی کے ساتھ عورت سے پوچھا، ”تمھارا بچہ کہاں ہے؟“
”گولی چلنے سے پہلے وہ میری گود میں تھا۔“ عورت نے کہا، ”گولی چلنے کے بعدوہ میری گود سے نکل کر آسمان کی جانب پرواز کر گیا- اور جاتے جاتے اپنی دُودھ کی بوتل سڑک پر چھوڑ گیا۔
جان محمد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔وہ زیر تعمیر عمارت سے باہر نکل گیا۔پھر وہ اپنی قمیص کے بٹن کھول کراور بانہیں آسمان کے رُخ پھیلا کر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔
---×---×---×---×---
سندھی ادب / اردو ترجمے
سفر سے سفر تک
تخلیق:امر جلیل ترجمہ: شاہد حنائی
یہ اس شام کی بات ہے،جب صدر میں گولی چلی تھی اور لوگ اپنے بوٹ،چپلیں اور ٹوپیاں سڑکوں پر چھوڑ کر آس پاس کی دکانوں اور ہوٹلوں میں جا چھپے تھے۔جان محمد عرف جانو،مَیں اور چند راہ گیروں نے اِک زیر تعمیر عمارت میں پناہ لی تھی۔حواس بحال ہوئے تو مَیں نے ستون کی اوٹ سے ایلفی سٹریٹ کی جانب دیکھا۔
سڑک پر بوٹوں،چپلوں اور ٹوپیوں کے درمیان کسی بچے کی دودھ والی بوتل پڑی تھی۔مَیں نے گردن اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔سورج کو گولی لگ چکی تھی۔سورج گولی کا زخم لے کر آسمان کی وسعتوں میں لہو کی روشن لکیر چھوڑ کر رینگتا ہواہم سے دور ہو رہا تھا۔
ایک بدحال عورت،جس نے زیر تعمیر عمارت میں پناہ لے رکھی تھی۔وہ ٹکٹکی باندھے بوتل کی طرف دیکھے جا تی تھی۔ وہ قدرے سہمی ہوئی اور خوف زدہ دکھائی دے رہی تھی۔مَیں نے اس سے پوچھا، ”سڑک پر بوٹوں، ٹوپیوں اور چپلوں کے بیچ پڑی ہوئی دودھ کی بوتل تمھارے بچے کی ہے؟“
عورت نے چہرہ پھیر کر میری طرف دیکھا،لیکن کوئی جواب نہ دیا۔اس کاچہرہ ہلدی سا ہو رہا تھا۔وجود کے بے پناہ غم کا عکس اس کی آنکھوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔
مَیں نے کہا، ”مَیں سمجھتا ہوں،سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل تمھارے بچے کی ہے۔“
”ہاں۔“ اس نے کہا، ”سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل میرے بچے کی ہے۔“
جان محمد عرف جانو جمائیاں لے رہا تھا اور زیرلب ایک فلمی گیت گنگنا رہا تھا۔ مَیں نے جان محمد سے کہا، ”جانو! سڑک پر بوٹوں،چپلوں اورٹوپیوں کے درمیان ایک دودھ کی بوتل پڑی ہے۔“
جانو نے فوراً پوچھا، ”تمھاری تو نہیں ہے؟“
مَیں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا،”بکواس مت کرو۔“
اس نے کہا، ”تو پھر اس کا مطلب ہے کہ سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل میری ہے۔“
مَیں نے اس کی گردن دبوچتے ہوئے پوچھا، ”سامنے ستون کے پاس ایک عورت دیکھ رہے ہو؟“
اس نے گردن چھڑاتے ہوئے کہا، ”ہاں دیکھ رہا ہوں۔“
مَیں نے کہا، ”سڑک پر پڑی ہوئی دودھ کی بوتل اس عورت کے بچے کی ہے۔“
اس نے فوراً پوچھا، ”اُٹھا لاؤں؟“
مَیں نے کہا، ”بدحال عورت سے پوچھے بنا نہیں۔“
جان محمد اور مَیں اس بد حال عورت کے پاس جا پہنچے۔
مَیں نے عورت سے کہا، ”اس کا نام جان محمد جانو ہے،یہ میرا جگری یار ہے۔انتہائی بہادر ہے اور موت تک کو خاطر میں نہیں لاتا،جانو گولیوں کی بارش میں تمھارے بچے کی دودھ پینے والی بوتل سڑک سے اُٹھا کر لانے کو تیار ہے۔“
عورت سے پہلے ایک برش جیسی ڈاڑھی والا بوڑھا بول پڑا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور پتے کی بیڑی پی رہا تھا۔اس نے جان محمد سے پوچھا، ”ارے میاں! تم موت کے کنویں میں موٹر سائیکل تو نہیں چلاتے ہو؟“
ہم سب نے بوڑھے کی طرف دیکھا،جان محمد ذرا بوکھلا گیا۔
مَیں نے بوڑھے سے کہا، ”جان محمد سرکاری چڑیا گھر کے ایک خالی پنجرے میں مردہ ریچھ کی کھال پہن کر بیٹھ جاتا ہے اور روزانہ پانچ روپے کماتا ہے۔“
”راز کی بات بتائی ہے میاں!“ بوڑھے نے اپنی برش جیسی ڈاڑھی کھجاتے ہوئے پوچھا، ”تمھارا اس ریچھ سے کیا تعلق ہے؟“
”ریچھ کے پنجرے کے ساتھ ایک گیدڑ کا پنجرہ ہے۔“ مَیں نے کہا، ” مَیں ایک مردہ گیدڑ کی کھال پہن کر اس پنجرے میں بیٹھ جاتا ہوں اور مَیں بھی ہر روز پانچ روپے کماتا ہوں۔“
بوڑھے کی آنکھوں میں جوت جاگ اُٹھی۔اس نے سُلگتی بیڑی دیوار کے ساتھ رگڑ کر بجھاڈالی۔وہ بولا،”ارے میاں! پھر تو تم اس عورت سے ضرور واقف ہوگے،جس کا جسم لومڑی جیسا ہے!“
”ہاں۔“ مَیں نے کہا، ”وہ میرے اور جانو کے پنجروں کے پیچھے ایک پیوند لگے خیمے میں رہتی ہے۔تماشائی آٹھ آنے دے کر اسے دیکھنے جاتے ہیں۔وہ تماشائیوں کو اپنا نام ممتاز محل بتاتی ہے۔“
بوڑھے نے پوچھا، ”تمھیں وہ کیسی لگتی ہے؟“
”مجھے وہ بہت اچھی لگتی ہے۔“ مَیں نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ”مَیں اس سے محبت کرتا ہوں۔“
بوڑھے نے عجیب سے جوش میں پوچھا، ”وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے کیا؟“
”نہیں۔“ مَیں نے کہا، ”وہ اپنے سات بچوں سے محبت کرتی ہے۔“
بوڑھے نے پوچھا،”کیااس کے بچوں کے بھی چہرے مہرے انسانوں اور جسم لومڑیوں جیسے ہیں؟“
”نہیں۔“ مَیں نے اسے بتایا، ”ممتاز محل کے ساتوں بچوں کے جسم بھی انسانوں جیسے ہی ہیں۔“
”تعجب ہے۔“ بوڑھے نے ڈاڑھی میں اُنگلی پھیرتے ہوئے پوچھا، ”تو پھر ممتاز محل کا جسم لومڑی جیسا کیوں ہے؟“
” جب تک کیماڑی سے دبئی جانے والی لانچ کو اُمیدوں کے سمندر نے ڈبویا نہیں تھا، تب تک ممتاز محل کا بدن عام عورتوں جیسا ہی تھا۔“ مَیں نے کہا، ”اس لانچ پر ممتاز محل کا شوہر بھی سوار تھا۔شوہر کی موت کے بعد ممتاز محل کا جسم لومڑی جیسا ہو گیا۔اس وقت سے وہ سرکاری چڑیا گھر میں خیمہ تان کر بیٹھی ہے۔لوگ آٹھ آٹھ آنے دے کر اسے دیکھنے آتے ہیں۔وہ لوگوں کو اپنا نام ممتاز محل بتاتی ہے جب کہ اس کا اصل نام مجیداں ہے۔“
”ارے کچھ تو شرم کرو،گیدڑ!“ جانو نے میری پیٹھ پر مکا مارتے ہوئے کہا، ”تمھاری بکواس سن کر پبلک کیا سوچتی ہوگی!“
”سڑکوں پر جوتیاں اور ٹوپیاں چھوڑ کر زیر تعمیر عمارتوں میں پناہ لینے والی پبلک کچھ نہیں سوچتی ہے۔ہر بکواس صبر اورتحمل سے سنتی ہے۔“ مَیں نے کہا، ”بڈھا بڑا عیار ہے اور ترچھی نگاہ سے بدحال عورت کو تاڑ رہا ہے۔“
”مجھے بد حال عورت کے حال پر ترس آرہا ہے۔“ جان محمد نے کہا، مَیں سڑک سے بوتل اُٹھا کر لے آتا ہوں۔“
”جان محمد عرف جانو میرا جگری یار ہے،ہم دونوں سندھ سٹار الیون کی طرف سے ککری گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلتے ہیں اور فارغ اوقات میں ریچھ اور گیدڑ کی کھالیں پہن کر سرکاری چڑیا گھر کے پنجروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔دوسرے پنجروں میں بھی ہماری طرح کی مخلوق مختلف جان وروں کی کھالیں پہن کر بیٹھی ہوتی ہے۔ہم پر بولنے کی بندش لاگو رہتی ہے۔حکم کے مطابق ہم تماشائیوں کو کرتب دکھاتے ہیں اور انھیں خوش کرتے ہیں۔انھیں اپنی خاموشی کے زخم بھی دکھاتے ہیں۔
جانو نے کہا،” مَیں دُودھ بوتل اُٹھا کر لاتا ہوں۔“
مَیں نے جان محمد سے کہا، ”جانو! مجھے واہموں نے گھیر لیا ہے۔“
”کاہے کے واہمے!“ جانو نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ”کیا تم سمجھتے ہو کہ مَیں گولی کا شکار ہو کر سڑک پر مر جاؤں گا؟“
مَیں نے گردن اثبات میں ہلا دی۔
”مَیں سڑک پر گولی کا شکار ہو کر نہیں مروں گا۔یہ سعادت تیرے میرے نصیب میں نہیں لکھی ہوئی۔“ جانو نے کہا،” تو اور مَیں سرکاری چڑیا گھر کے پنجروں میں مریں گے۔مرتے وقت تیرے بدن پر گیدڑ اور میرے جسم پر ریچھ کی کھال ہو گی۔“
”ٹھہرو جانو!“ مَیں نے اسے روکتے ہوئے کہا،”جانے کیوں دل تمھیں روکنے پہ مصر ہے۔“
جان محمد میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔میرے کندھے تھامتے ہوئے بولا: ”بہت پہلے جب میری ماں کے پستان خشک ہو گئے تھے اور وہ مجھے بوتل میں دُودھ ڈال کر پلایا کرتی تھی، تب ایک دفعہ گولی چلی تھی۔میری ماں میری دُودھ کی بوتل لے کر آسمان کی جانب پرواز کر گئی تھی۔“
مَیں نے جان محمد کو بانہوں کے حصار میں بھینچ لیا۔
جان محمد نے کہا، ”مَیں سڑک سے بوتل اُٹھا کر لے آتا ہوں۔بد حال عورت بہت اُداس ہے۔“
وہ میرے بازوؤں کی گرفت سے نکل گیا۔وہ پلک جھپکتے ہی سڑک سے دُودھ کی بوتل اُٹھا لایا۔
دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے برشی ڈاڑھی والے بوڑھے نے تالیاں بجائیں۔
جان محمد نے دُودھ کی بوتل بدحال عورت کو دیتے ہوئے کہا، ”لو، اپنے بچے کی دُودھ پلانے والی بوتل۔“
عورت نے اپنی نگاہیں جان محمد کے چہرے پر جمادیں۔جان محمد نے ہاتھ آگے بڑھا کر دُدوھ کی بوتل دینا چاہی۔وہ دونوں کچھ دیر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔
مَیں نے عورت سے کہا،”جان محمد اپنی جان کی بازی لگا کر سڑک سے تمھارے بچے کی دُودھ پینے والی بوتل اُٹھا کر لے آیا ہے۔“
”عورت نے دھیرے دھیرے ہاتھ آگے بڑھا کر جان محمد کے ہاتھ سے بوتل لے لی۔
ٍ تب اچانک زیر تعمیر عمارت میں پناہ لیے ہوئے افراد حیرت زدہ رہ گئے۔وہ حیران رہ گئے۔انھوں نے دیکھا کہ عورت کی گود خالی تھی۔
جان محمد نے حیرانی کے ساتھ عورت سے پوچھا، ”تمھارا بچہ کہاں ہے؟“
”گولی چلنے سے پہلے وہ میری گود میں تھا۔“ عورت نے کہا، ”گولی چلنے کے بعدوہ میری گود سے نکل کر آسمان کی جانب پرواز کر گیا- اور جاتے جاتے اپنی دُودھ کی بوتل سڑک پر چھوڑ گیا۔
جان محمد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔وہ زیر تعمیر عمارت سے باہر نکل گیا۔پھر وہ اپنی قمیص کے بٹن کھول کراور بانہیں آسمان کے رُخ پھیلا کر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔
---×---×---×---×---