سفر نامہ کینیڈا

سفر نامہ کینیڈا

May 1, 2020

کینیڈا کا سفر نامہ اور درویشوں کا ڈیرہ

مصنف

نعیم اشرف

شمارہ

شمارہ - ١١


سفر نامۂ کینیڈا

(نعیم اشرف)

خوبصورت لوگ،حسین معاشرے - قسط ١

گیارہ جولائی  2019ء؁ کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو پہنچنے کے تیسرے دن ڈاکٹر خالد سہیل نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تین روز قبل جب ہم  ٹورنٹو ائیرپورٹ پہنچے تو امیگریشن پر زیادہ

پوچھ گچھ نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ آج کل ڈیکلیر یشن فارم جہاز سے اُترتے وقت یا ائیر پورٹ پر ہاتھ سے فِل نہیں کرتے بلکہ ائیر پورٹ پر نصب شدہ ایک مشین پر خود مکمل کرتے ہیں

جہاں پاسپورٹ کا پہلا صفحہ سکین کرنے سے آپ کی تصویر کیمرہ خود بخود لے لیتا ہے۔ امیگریشن آفیسرز سے منسوب عملہ آپ کی رہنمائی اور بوقت ضرورت آپ کی مدد بھی کرتا ہے۔

ضعیف، وہیل چئیرز دہ اور نیم خواندہ افراد کے لیے ائیر پورٹ کا عملہ مستعد نظر آتا ہے۔ خواہ بیلٹ سامان اٹھانا ہو، ٹرالی لانی ہو یا فارم فل کرنا ہو۔ان لوگوں کی جسمانی زبان اور

رویّے سے  خوش آمدید جھلکتا ہے نہ کہ  رعونت ”کہاں آ گئے ہو میاں؟“ وغیرہ۔ ہم نے دوست ِدیرینہ نجف احمد لودھی کے بھائی حامد مسعود لودھی ساکن تھارن کلف پارک

(Thorncliffe Park) کو ٹورنٹومیں، عبوری مسکن بنانے کا فیصلہ اور انتظام کر رکھا تھا۔  

حامد لودھی کے گھر ڈاکٹر خالد سہیل صاحب شام کو پہنچے اور آتے ہی تازہ تازہ طباعت شدہ کتاب  Dervishes Inn ہمیں پیش کی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرا نولود بچہ ڈیلیوری روم

کی نرس  مجھے پیش کر رہی ہو۔ طاھا نے ہماری کتاب کے ساتھ دونوں کی تصویر بنائی۔ میں اس دن 4  ادبی بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ میری پہلی تخلیق Trespass   تھی اس

میں، میں نے محمد الیاس کے 29   اردو افسانوں کو انگریزی  شارٹ سٹوریز کے قلب میں ڈھالا تھا۔ وہ کتاب سنگ ِ میل لاہور نے 2016ء ؁میں شائع کی تھی۔ اس کے بعدہم

سے ہر سال  ایک کتاب اردو سے انگریزی ترجمہ ہوئی۔ 2017 ء؁ میں خرم بقاء کی کلیشئے نامی کتاب جس میں کل 27  افسانے ہیں ترجمہ ہوئی۔ اس کے بعد پاکستانی افسانوں کا

انتخاب ترجمہ ہوا۔ اس کا انگریزی نام” The Incredible Pakistani Short Stories“اورسب ٹائٹل  Sweet heart   ہے اس کتاب کو بھی سنگِ میل

لاہور نے ہی چھاپا۔ اس کتاب میں کل 32  افسانوں کو انگریزی شارٹ سٹوریز بنایا گیا ہے اور زیادہ تر افسانہ نگار نئے ابھرتے ہوئے با صلاحیت نوجوان ہیں۔ جو 2000 ء؁ سے

بعد کے ہیں۔ہماری چوتھی کاوش Dervishes Inn   ہے۔2019ء ؁ میں روح پذیر ہونے والی کتاب (Dervishes Inn) اردو میں  ”درویشوں کا ڈیرہ“ تھی۔ گرین

زون پبلیکیشنز Greenzone Publications-Ontario-Canada سے چھپنے والی   ”درویشوں کا ڈیرہ“ 50  ادبی و تخلیقی خطوط جن کو لکھاری خواب نامے کہتے

ہیں، مشتمل ہے۔ رابعہ الرّبا، اردو  افسانے میں اہم نام ہے۔ لاہور میں رہائش پذیرادیبہ و شاعرہ نے اردو  ”افسانہ عہد حاضر میں“ کے نام سے ایک انسائیکلو پیڈیا جس کو نیشنل بک

فاؤنڈیشن نے چھاپا ہے،  مرتب کر کے ادبی دنیا میں اپنا لوہا منوایاہے۔  

 ہم جب 2018ء؁ میں 32   افسانوں کا انتخاب کر کے ترجمہ کرنے میں مصروف تھے تو اس دوران رابعہ کا افسانہ سویٹ ہارٹ sweet heart موصول ہوا۔افسانے نے

مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ میری رابعہ سے قلمی دوستی ہو گئی۔ رابعہ نے میرا تعارف”درویشوں کا ڈیرہ“ کے میزبان ڈاکٹر خالد سہیل سے کروایا اور یوں رابعہ مجھے درویشوں کے

ڈیرے تک لے آئی۔ میں نے کتاب کا نام Dervishes Inn   کیوں رکھا؟ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ ”یہ کہانی پھر سہی“

میں درویشوں کے ڈیرہ پر قریب چھہ ماہ درویش خالد سہیل اور رابعہ کے ساتھ قیام پذیر رہ کر اس ادبی و تخلیقی رہائش گاہ کو  Dervishes Inn بنانے میں کامیاب ہو گیا۔

اب یہاں انگریزی،اردو، پنجابی، فرانسیسی سمجھنے والے درویش ان کا تعلق خواہ کسی قوم، ملک،رنگ، نسل یا مذہب سے ہو خوشی خوشی آکر قیام کر سکتے ہیں۔ یہ سرائے نہ صرف حق کے

متلاشیوں کے نام سے منسوب ہے بلکہ یہاں آنے والے درویش ادیب، شاعر، فلاسفر، آرٹسٹ اور دانشور درحقیقت حق کی تلاش کے سفر کے مسافر ہیں۔ بقول ڈاکٹر خالد سہیل  

درویش ایک سنت، سادھو صوفی، ادیب، شاعر، دانشور مرد یا عورت ہو سکتا ہے۔بشرطیکہ وہ حق کی تلاش میں مخلص ہو۔اس میں رنگ، نسل، مذہب یا جنس کی کوئی تفریق نہیں۔

چائے سے تواضع کے بعد ہم حامد لودھی کے گھر سے رخصت ہوئے۔ حامد لودھی کے فرزندطاھا لودھی نے ہمیں تھارن کلف سے رخصت کیا۔ڈاکٹر خالد ہمیں سیدھا

Golden Thai Restaurent لے آئے۔یہ ریسٹورنٹ  ٹورنٹو کے ادیبوں کا Pak Tea House   ہے۔وہ ایک یادگار اور خوبصورت شام تھی۔ وہاں ہم نے

اپنی تازہ طباعت شدہ کتاب"The Incredible Pakistani Short Stories"   ڈاکٹر صاحب کو پیش کی۔ وہاں ہماری تصویر وہاں موجود ایک خوبرو حسینہ جو

ویٹرس کا کام کرتی ہے،سے فرمائش پر بنوائی۔حسینہ کو جب داکٹر صاحب نے ہمارا بتایا تو وہ بہت متاثر ہوئی۔ اس نے کہا کہ وہ کتابیں پڑھنے کی بہت شوقین ہے اور اس نے

 amazon کا ایڈریس نوٹ  کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ آج ہی کتاب آرڈر کرے گی۔ھوٹل پر کام کرنے والی لڑکی ہمیں متاثر کرنے کے ساتھ اداس بھی کر گئی۔ کیونکہ ھم نے ایک ماہ قبل  پنی دوسری  شارٹ اسٹوری کی کتاب انگریزی کے  دو پروفسیر دوستوں کو پڑھ کر تبصرہ کرنے کے لیے دی تھیں۔ ابھی تک جواب کا انتظار  ہے۔ بقول مرزا  غالب:

                                       ۔۔۔کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ہم رات قریب گیارہ بجے درویش  (ڈاکٹر سہیل)  کے گھر پہنچے کے گھر،  جس کو وہ ”کٹیا“ کہتے ہیں، وارد ہوئے۔ درویش کا گھر وھٹبی  Whitby  میں ہے۔ یہ جگہ ٹورنٹو کے مرکز سے چالیس پچاس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ گھر جانے سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے اپنا کلینک دکھایا جس کو 20    سال قبل قائم کرتے وقت انہوں نے Creative Psychotherapy Clinic  کا نام دیا۔ کلینک ایک کشادہ  Basement  میں قائم ہے جہاں کتابوں اور کچھوؤں کی بہتات ہے۔آپ کو وہاں ہر سائز کے کچھوے ملیں گے۔ بڑے، درمیانے اور چھوٹے  سائز کے کچھوے رکھنے کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے۔:: '"Slow and steady wins the race."

اگرچہ Turtles بے جان ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کی ماحول کو فراھم کردہ مستقل توانائی سے جاندار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مریضوں کی تعداد یعنی انتظاری  فہرست  waiting list تین سو  کے قریب ہے۔ گویا اگر آپ کو اپنا ذہنی معائنہ کروانا ہو تو باری ایک سال تک آئے گی۔ وہ ہر مریض کو ایک گھنٹہ دیتے ہیں۔ برعکس حکومتی قوانین جو ایک مریض کو آدھا گھنٹہ دیکھنے پر بھی قانع ہیں۔ اگلی صبح ایک ادبی ناشتے کا اہتمام تھا جو Eggs Smart  نامی مقامی ریسٹورنٹ میں تھا۔  وہاں پر میرے اعزاز میں دو  اور ادبی شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ان میں مارسلینہ نینی(Marcelina Naini) (جو ڈاکٹر صاحب کی سیکرٹری کے طور پر کام کرتی  ہیں)، کرس اینڈرسن  (Chris Anderson) اور سیّد حیدر شامل تھے۔ جو اہم مزاح نگار ہیں۔ ناشتے پر گفتگو دلچسپ رہی۔ آرکیالوجی، اینتھراپالوجی اور ھسٹری جیسے موضوعات نے ہلکے پھلکے ناشتے کو کسی قدر ثقیل بھی بنایا۔ مگر ایک لمحہ بھی بوریت کا احساس نہ ہوا۔ دوپہر کو Whitby  سے مزید شمال مشرق کی طرف روانہ ہوئے۔ ہماری اگلی منزل Kingston   اور  Thousand Island  تھی۔ اس کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی ٹویاٹا جیپ میں شاہراہ نمبر 401  لے لی۔ ایک گھنٹے کی مسافت پر ہمیں شاہراہ بند ملی۔ ہم سے آگے تقریباً  ایک کلو میٹر تک گاڑیوں کی قطار تھی۔ کسی گاڑی والے کو آگے بڑھ کر وجہ تاخیر معلوم کرنے کی جلدی نہیں تھی۔  کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کوئی موسیقی سن رہا تھا اور کوئی اپنی ہمسفر کے ساتھ باہر نکل کر ہوا خوری  کرنے میں مشغول تھا۔ میں بطور ایک اچھا پاکستانی، بے صبرا  ثابت ہوا اور پیدل  آگے بڑھ کر روڈ بلاک ہونے کی وجوہات معلوم کرنے لگا۔ تمام لوگ حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ چند منٹ میں ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کا کارواں  برق رفتاری سے ہمارے عقب سے برآمد ہوا۔ سائرن کی آواز سن کر تمام گاڑیاں ایک طرف ترچھے زاویے پر کھڑی ہو گئیں،۔ ایسا نظم و ضبط شاید ہم نے خواب میں ہی دیکھا ہو۔    یا خدایا  ابھی حادثہ کا شکار ہونے والے  اپنی گاڑیوں میں  ہی ہوں گے۔ پولیس اور ایمبولینس  اتنی جلدی کیسے پہنچ گئی؟ آگے جا کر معلوم ہوا کہ آٹھ کاریں آپس میں ٹکرائی ہیں اور ایک شخص ہلاک بھی ہوا ہے۔ تمام جگہ (Cordon) محفوظ کر دی گئی۔ ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کا  ایک اور کانوائے جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔ اب زخمیوں کو فرسٹ ایڈ دینے کا مرحلہ درپیش تھا جو پیشہ ور طبّی عملہ سرانجام دے رہا تھا۔ ان کو روڈ بلاک ہونے سے  زیادہ جانیں بچانے کی فکر تھی۔   ایک گھنٹے بعد ہماری جانب کی تمام ٹریفک مخالف سمت موڑ دی گئی۔ کیونکہ حادثہ کا شکار ہونے والی گاڑیوں اور زخمیوں کا بندوبست ہونے میں مزید تین سے چار گھنٹے لگ سکتے تھے۔ ہمیں  متبادل راستے کی طرف رہنمائی کے لئے ٹریفک پولیس کا مستعد عملہ نہایت پھرتی اور چابکدستی سے اپنے کام میں مشغول تھا۔ کوئی شور و غوغا نہیں کوئی گالی گلوچ نہیں اور کوئی  دست و گریباں نہیں ہوا۔ اتنے بڑے حادثے کو اتنی مہارت سے نمٹتے دیکھ کر ہمیں خوشگوار حیرت کے ساتھ ساتھ کسی قدر اداسی بھی ہوئی اور سوچا کہ ہم لوگ اور کتنا ”سفر“ اورsuffer" " کرنے کے بعد یہاں پہنچ سکیں گے۔مگر ہم ٹھہرے سادہ لوح۔ اتنا نہیں سمجھتے کہ سفر کی طوالت کا اندازہ تو اس وقت لگایا جائے گا جب سفر کا آغاز ہو گا۔

شام کو Kingston   پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک پرانی ہم پیشہ اور دوست جو اب ریٹائر ہو چکی ہیں اور Kingston   کے پاس واقع ایک ہزار جزیروں میں سے ایک  ایمرھسٹ نامی جزیرے پر مقیم ہیں، سے ملاقات طے کر رکھی تھی، منتظر پایا۔ این ھینڈرسن   Anne Henderson  ایک ستر سالہ خاتون ہیں۔ ہماری گاڑی دیکھ کر سڑک پر زور زور سے ہاتھ ہلاتی نظر آئیں۔ ایک  عمر رسیدہ انگریزخاتون کی مہمانوں کو دیکھ کر چہرے پر بشاشت دیدنی تھی۔خلوص، محبت اور خوش آمدیدی تاثرات ان کے ضعیف مگر پُرعزم چہرے کو اور بھی خوبصورت بنا رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر حیرت زدہ تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ضحیم ناول تھا۔ میرے پوچھنے پر این ھینڈرسن نے بتایا کہ جب ہمارے آنے میں تاخیر ہو گئی تو انہوں نےMeeting point   اور اس ریسٹورنٹ جس میں انہوں نے ہمارے ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا،چہل قدمی شروع کر دی۔ جب وہ تھک گئیں تو مقامی بُک شاپ سے کتاب خرید کر میٹنگ پوائنٹ پر بیٹھ کر  پڑھنے لگ گئیں۔  اینAnne   پیشے کے طور پر نرس ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ 25   سال کام کیا۔ وہ ایک ادیبہ اور شاعرہ بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنی  Short Story Book   دینے کا وعدہ کیا۔ ہم نے این کو Dervishes Inn   پیش کی۔ اس کے ساتھ میں نے ان کو ایک کشمیری شال  جو میں ان کے لئے خصوصی طور پر لے کر گیا تھا،پیش کی۔ وہ  خوشی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں۔انہوں نے قدرے خنک موسم میں شال اوڑھ لی اور ڈاکٹر صاحب سے میرے ساتھ تصویر بنوائی۔ہم جس ٹیبل پر ریسٹورنٹ کے کشادہ صحن میں بیٹھے  تھے۔ اس ٹیبل پر چار کرسیاں تھیں۔ این نے کہا کہ کاش رابعہ اس خالی کرسی پر بیٹھی ہوتی۔ یہ کہتے ہوئے ان کی عمر رسیدہ آنکھوں میں نمی دیکھی جا سکتی تھی۔ ریسٹورنٹ کا صحن جس میں    ھم لوگ براجمان تھے خاصہ شوریدہ تھا۔ اس وجہ سے این قدرے شرمندہ شرمندہ سی تھیں۔ اسکا ذکر انہوں نے خط میں بھی کیا ہے۔Dervishes Inn   کی (ادارت)  Editing  این نے کی ہے۔ کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر وہ اس کو کافی دیر تک سہلاتی رہی جیسے اپنے پوتے یا پوتی کو اپنے شفیقانہ لمس کو  پہلا تحفہ دے رہی ہو۔ یہ ایک یادگار شام تھی۔ کھانے کے بعداین ہمیں انتاریو جھیل Lake Ontarioکے ساحل تک جہاں سے ہم نے wolfe  Island   روانہ ہونا تھا، الوداع کہنے آئیں۔اب رات کے دس بج چکے تھے۔ ہماری اگلی منزل اور قیام وولف آئی لینڈ wolf Island  تھا۔ یہ جزیرہ کنگسٹن سے ٖ Ferry  (کشتی)  کے ذریعے 20   منٹ میں انتاریوجھیل عبور کر کے آتا ہے۔ فیری کیا تھی ایک 300   فٹ  x  200  فٹ  کی طشتری تھی جس کے پشتے پر 50   گاڑیاں آ جاتی ہیں۔ آپ چاہے تو گاڑی میں ہی بیٹھے رہیں  اور اگلے کنارے پر جیسے گاڑی چلا کر سوار ہوئے تھے، اسی طرح اتر جائیں یا من کرے تو طشتری کی اُوپری منزل پر جا کر اردگرد پھیلے پانی اور چاندنی سے لطف اندوز ہوں۔ وولف آئی لینڈ پہنچے تو رات گیارہ بجنے کو تھے۔ جزیرے کے پُر سکون ماحول میں ہلکی پھلکی چہل قدمی کرنے کے بعد شب بخیر کہتے ہی بنی۔

صبح سویرے جزیرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ہم شب بسری کے لباس میں   ہی  جزیرے کی سیر کو نکل گئے۔ درختوں سے چھن کر آنے والی کرنیں، پانی کی لہریں جو صبح صبح ساحل سے  ٹکرا رہی تھیں۔خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔  ہم نے اس جزیرے پر قطار در قطار پن چکیاں دیکھیں جو جزیرے کی برقی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی تھیں۔  حسبِ معمول کمرے میں موجود کیتلی اور چائے کے سامان کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس وقت تک ڈاکٹر صاحب ”ہم سب کے لئے“ کالم لکھ چکے تھے۔

ھمارا چھ سات روز کا ساتھ رہا اور اس دوران صبح بیدار ہوتے ہی انہوں نے مجھے ایک نئی تخلیق پڑھ کر سنائی اور یہ کام صبح کی چائے پر ہوتا تھا۔ جب تک میں تیار ہوتا وہ تیار ہو کر کار کو

فیری پر سوار ہونے والی گاڑیوں کی قطار میں لگا چکے تھے۔ ہم نے ایک ایک کپ کافی اور کوکونٹ پیسٹری سے ناشتہ گاڑی میں بیٹھ کر ہی کیا۔ چند منٹ میں ہم دونوں اپنی کار سمیت

واپسی والی طشتری میں سوار ہو چکے تھے۔اب ہم کنگسٹن کو دن کی روشنی میں دیکھ رہے تھے۔یہ ساحلی شہر تعطیلات گزارنے آئے ہوئے لوگوں کی رونق سے مزیّن ایک میلے کا سماں

پیش کر رہا تھا۔  ہم نے ہزار جزیرے  Thousand Island جانے والی فیری لی اس فیری پر قریب 200   افراد سوار تھے۔ انتاریو جھیل میں پھیلے ایک

ہزار جزیروں کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا۔ آسمان صاف تھا۔فیری کا ساؤنڈ سسٹم موسیقی کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف جزیروں سے متعارف کرواتا اس آبی سفر کو یادگار بنا رہا تھا۔

ہم رائل کینیڈین ملٹری اکیڈمی کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی تربیتی زندگی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی(PMA) کی یاد تازہ کرتے رہے۔ یہ ایک حسین سفر تھا جو چند لمحوں میں

بیت گیا۔ واپس کنگسٹن پہنچ کر اوپن ایئرریسٹورنٹ میں لنچ کیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ یہ ایک خوبصورت اور یادگار سفر تھا۔

کنگسٹن سے وھٹی Whitby کا سفر ویسے تو تین گھنٹے کا ہے مگر جب باتیں شروع ہوتیں تو سفر کٹنے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ مختلف موضوعات زیرِبحث آتے۔ ڈاکٹر صاحب کے  

concept  (تصورات) ہر چیز کے بارے میں بہت شفاف واضح اور روشن ہیں۔کوئی الجھن,شک یا Grey area  نہیں ہے۔ وہ جو بھی بات کرتے ہیں دل کی گہرائی

سے کرتے ہیں۔  

شا ہد،  شیریں اور درویشوں کا ڈیرہ

سفر نامہ کینیڈا  (قسط  ۲)

13   جولائی 2019  ء ؁  شام کے کھانے کا  اہتمام شاہد اور شیریں نے اپنے ہاں مسی ساگا میں کر رکھا تھا۔ یہ ڈنر ہمارے اعزاز میں تو تھا ہی مگر انہوں نے دیگر فیملیز شاعر شاعرات

اور سامعین و ناظرین کو بھی دعوت دے رکھی تھی۔شاہد اور شیریں ایک خوبصورت جوڑی ہے جو دو دہائیوں سے کینیڈا میں مقیم ہے۔ شاہد اختر تنازعات کے حل کے سات بہترین اصول Seven Cs to conflit resolution   کے نام سے ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ شاعری کا شوق ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے بتایا کہ نامور شاعر انور مسعود سے  شاہداختر کی قریبی رشتے داری ہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہو۔ مگر جب تک انسان کے اندر تحریک نہ ہو وہ شاعری کی طرف نہیں آ سکتا۔ یہ ایک یادگار اور خوبصورت شام تھی۔ شاہد اور

شیریں کے ہاں بارہ پندرہ افراد جمع تھے۔اپنا اپنا تعارف کروایا گیا۔ شاہد اختر اس دوران اپنی حسِ مزاح اور بذلہ سنجی سے محظوظ کرتے رہے۔ حاضرین، مدعوین اور سامعین میں

خالد سہیل، ٹیبی شاہدہ، ثمر اشتیاق، فوشیہ اشتیاق، ہما دلاور، فیصل بھائی، زبیر خواجہ، محمد حفیظ، روبینہ فیصل اور عروج راجپوت اور دیگر شامل تھے۔ محترمہ عروج صاحبہ ایک شاعرہ ہیں جو

خاصا وقت ریڈیو پر کمپئیرنگ کر چکی ہیں۔ ہما دلاور مزاحیہ شاعری کرتی ہیں۔ ان کے قطعات اور نظمیں محفل کو توانائی اور نشاط عطا کرتی رہیں۔ ٹیبی شاہدہ  صحافی اور ثمراشتیاق  آرٹسٹ ہیں مگر شاعری میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہماری کتاب ”درویشوں کا ڈیرہ“ جس کا ترجمہ راقم نے کیا ہے اور کتاب کا  انگریزی نام "Dervishes Inn"    رکھا ہے، موضوع بحث آئی۔ اس موقع پر میں نے خالد سہیل کی نظم  ”بوڑھی آنکھیں“ جس کا ترجمہ  Aging eyes  کیا گیا ہے۔ راقم نے محفل میں پڑھ کر سنائی۔ سامعین بہت محظوظ ہوئے۔  اگلے روز یعنی 14 جولائی 2019 ء؁ کتاب کی تقریب تھی۔ اس کا انتظام و انصرام ڈاکٹر خالد سہیل گزشتہ چار ماۃ سے کر رہے تھے۔ پورے کینیڈا میں کسی علاقے کی

رہائشیوں کے لیے حکومت نے Community Center  کمیونٹی سنٹر بنا رکھے ہیں۔مناسب معاوضے کے عوض ان کمیونٹی سنٹرز میں موجود ہالز کی بکنگ کروائی جا سکتی ہے۔

مرضی کی تاریخ لینے کے لیے آپ کو کم ازکم تین ماہ قبل اپنی تقریب کی تفصیلات انتظامیہ کو بتانی ہوتی ہیں۔ چائے،پانی، کافی اور لوازمات  کا انتظام آپ خود کریں گے۔ کمیونٹی سنٹر

آپ کوصوتی نظام، صاف ستھرا، کشادہ اور روشن ہال مہیا کرے گا۔ دو تین درمیانے سائز کے ٹیبل روسٹرم کے ساتھ رکھ کر ان کے پیچھے کرسیاں لگا کر برابر کی سطح کا سٹیج آپ خود بنا لیں۔

تقریب میں ہمارے علاوہ قریب ستّر افراد مدعو تھے۔ ساٹھ سے اوپر سامعین و مقررین تشریف لائے۔ مقرّرین نے "Dervishes Inn"   اور ”درویشوں کا ڈیرہ“ پر

سیر حاصل گفتگو کی۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ یہاں لوگ کتاب پڑھ کر کتاب کی محفل رونمائی میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر  خالد  سہیل  نے  ایک سینئر افسانہ نگار اور صدر محفل شکیلہ رفیق  صاحبہ سے تقریب کا ربن کٹوایا جو اپنی تمام تر بیماری اور نقاہت کے باوجود تشریف لائی تھیں۔ اچھی بات یہ بھی تھی کہ سامعین پوری طرح ملوث ومشغول ہو کر ساری بات چیت سُن رہے تھے۔ پروگرام 4   بجے سے شام  7 بجے تک چلتا رہا۔ تقریب سے خالد سہیل، شاہد اختر، ثمر اشتیاق، ٹیبی شاہدہ ، مس لار ا  اور ہما دلاور نے  خطاب کیا۔ اور ترجمے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ترجمے کو عمو می طور پر سراہا گیا۔ مقررین کا خیال تھا کہ فکشن کی ٹرانسلیشن ایک مشکل کام ہے۔ یہ کتاب  جو کہ ایک Letter Fiction   ہے۔ ترجمہ ہو کر انگریزی قارئین کو دستیاب ہونے جا رہی ہے۔ کتاب میں موجود تخلیقی و ادبی خطوط میں زیرِبحث لائے گئے موضوعات مثلاً گرین زون  تھراپی Greenzone Therapy  ،گہری محبت Deep Love  روحانیت، تخلیقیت، دیوانگی۔ سچ تک پہنچنے کے تین ضابطے، محبت، رومانس، دوستی اور شادی، عورت اور مرد کی غیر روایتی دوستی  Man- woman Friendship  کے تقاضے اور حُسن۔ مشرقی ومغربی سماج میں تفاوت،ادب، شاعری، فلسفہ اور بہترین زندگی گزارنے کے  تقاضے شامل ہیں۔ لوگوں کا  General world view  تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مقررین کا خیال تھا کہ”درویشوں کا ڈیرہ“  اُبھرتے ہوئے نوجوان  شاعروں، ادیبوں اور لکھاریوں کو آپس میں خطوط تحریر کرنے کی تحریک دے گی۔خطوط کے تبادلے سے نوجوان نسل میں سے ادیب پیدا کرے گی۔ اور خطوط نگاری جیسی اہم صفت جو ختم ہونے جا رہی تھی دوبارہ جی اُٹھے گی۔زھر نقوی نے رابعہ الربّا کوموبائل فون کی کرامت سے تقریب کی کاروائی براہ راست دکھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔   ہماری مختصرتقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ کافی دیر چلا۔ سامعین و حاضرین خالد سہیل اور رابعہ الربّا  کے بادی النظر میں متضاد نظریات کے باوجود اتنی اچھی اور مفید  کتاب لکھ لینے کی کامیابی کے پس پردہ راز سے واقفیت حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔ خالد سہیل ایک سیکولر انسان دوست ہیں۔ جبکہ رابعہ کا تعلق ایک روایتی مذہبی خانوادے  سے ہے۔ مگر ان کی نہ صرف قلمی دوستی ہوئی بلکہ دونوں ادیبوں نے مل کر ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔ یہ ایک دلچسپ اور خوبصورت بات ہے۔ اور ہمارے لیے پیغام بھی کہ آپ کا  تعلق کسی مذہب،رنگ،نسل یا دیس سے ہو۔آپ کا سچ کچھ بھی ہو۔آپ کا عقیدہ و نظریہ جیسا بھی ہو،اگر آپ کے اندر محبت ہے تو دوسروں کو بانٹ سکتے ہیں۔ جو مختلف لوگوں کو یکجا  کر سکتی ہے۔ محبت جغرافیائی لکیروں، عمروں کے فرق، عقائد و رسومات، رنگ و نسل اور قبیلے کو نہیں جانتی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آپ دوسروں کو وہی شے دے سکتے ہیں جو آپ  کے پاس ہو۔دوسروں سے محبت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر محبت وافر مقدار میں موجود ہو۔ اپنے اندر محبت پیدا کرنی چاہیے۔ اس ساری تمہید سے میری مراد یہ نہیں۔ کہ رابعہ الربّا اور خالد سہیل روایتی محبت میں مبتلا ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں ادیبوں میں محبت و احترام اور خلوص کا رشتہ موجود ہے ورنہ اتنی بڑی کتاب لکھنا ممکن نہ تھا۔   خالد سہیل کے کلینک پر کام کرنے والی Senior Therapist   بیٹی ڈیوس  Bette Davis  مریض سے اکثر یہ سوال کرتی ہے: ”اگر آپ کو یہ کہا جائے آپ کی زندگی صرف چند دن باقی ہے اور آپ صرف ایک کام کر سکتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟“ اس کا جواب اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آپ کے لئے کیا اہم ہے؟اور آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟

اگلے روز ناشتہ سکوگاگ جھیل (Lake Scugog)   پر کرنا طے پایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب صبح سویرے جاگ کر آواز دیتے۔ میں جب اپنے کمرے سے باہر آتا تو مجھے اپناکالم

سناتے اس اثناء میں،میں اپنے لیے کافی اور ان کے لیے چائے تیار کرتا۔ وہ مجھے شام کو ہی بتا چکے تھے کہ کل ناشتہ جھیل سکوگاگ پر ہو گا۔ صبح جھیل پر جاتے ہوئے جو وھٹی

(Whitby) سے   منٹ کی کار مسافت پر ہے،بتایا کہ ان کی زندگی میں کچھ کردار ہیں جو ان کی زندگی کے سفرمیں ان کی کہانی پر اثر انداز ہوئے۔ ان کرداروں میں ایک کردار  

ایساہے جو انسان نہیں ہے۔ اور وہ کردار ہے جھیل سکوگاگ۔ اس جھیل سے ڈاکٹر صاحب کا ادبی رشتہ ہے۔ ”میں نے اس جھیل کے کنارے ایک شاہ بلوط کے  درخت کے نیچے بیٹھ

کر کئی کہانیاں،نظمیں اور کتابیں لکھی ہیں۔ اس پُرسکون اور قدرے صغیر جھیل کی خاص بات اس کے کنارے لگا ایک مجسمہ ہے۔ یہ مجسمہ مشہور ماہر معالج ڈیوڈ پامیر David

 Palmer کا ہے۔ کائروپریکٹک Chiropractic   ایک طریقہ علا ج ہے جس کو عام زبان میں پہلوانی طریقہ علاج یعنی دیسی طریقے سے اترے ہوئے ہڈیوں کے جوڑ  دوبارہ بحال کرنا۔پامیر کو اس طریقہ علاج کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ پامیر 18  ستمبر 1895  ء؁  کو پورٹ پیری  Port Perry   کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کے مجسمے کے نیچے  

اس کا مشہور قول کنندہ ہے”مجھے زندگی میں کبھی بھی کوئی ایسا کام کرتے ہوئے عار محسوس نہیں ہوا جس سے کسی انسان کا قرب کم ہوتا ہو۔“ واہ۔ کتنی  خوبصورت اور انسان دوست بات  ہے یہ:  :"I have never considered it beneath my dignity to do anything to relieve human suffering."

ڈیوڈ پامیر 20 اکتوبر 1913 ء؁ کو وفات پا گئے اور پورٹ پیری میں ہی دفن ہیں۔

سہ پہر 2 بجے ہمارا انٹرویو طے تھا۔ جو نامور آرٹسٹ شاہد شفیق نے ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ڈاکٹر خالد سہیل کے آفس کی لائبریری میں کچھوؤں اور کتابوں کے درمیان ایک خوشگوار

ماحول میں ہوا۔ شاہد شفیق ایک ملنسار، ہونہار اور توانائی سے بھرپور نوجوان ہیں۔ وہ کمرے کی بیٹریاں اور لائٹس براجمان کرتے ہوئے کسی بھی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کر سکتے

ہیں اور کرتے رہے۔درویشوں کا ڈیرہ اور Dervishes Inn   کا کورCover بھی شاہد رفیق نے ہی ڈیزائن کیا ہے۔

شام کو کھانے کی دعوت ثمینہ تبسم نے دے رکھی تھی۔ اس کے لیے قریب سات بجے Bramton  پہنچے۔ محترمہ ثمینہ تبسم ایک معلمہ ہیں اور ٹورنٹو میں  15 سال سے مقیم ہیں۔

کینیڈا ہجرت سے قبل وہ پاکستان میں مختلف آرمی پبلک ا سکولز اور فیڈرل گورنمنٹ اسکول سے وابستہ رہنے کی وجہ سے شعبہ تعلیم کے علوم و رموز پر خاصی دسترس رکھتی ہیں۔ اس کے

علاوہ وہ ایک باکمال شاعرہ بھی ہیں۔ ہم نے اپنی دونوں کتابیں ثمینہ صاحبہ کی خدمت میں پیش کیں۔ مچھلی اور بھیڑ کی گرل کے ساتھ ایک بھرپور شام بہت یادگار رہی۔ باتوں کا

سلسلہ چلا تو  جنوبی وزیرستان سے لے کر (جہاں وہ تعلیمی پراجیکٹ کر رہی ہیں) پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد سے ہوتا ہوا ٹورنٹو پر اختتام پذیر ہوا۔ یوں ہمارے کیلیگری سفر سے قبل

کا حالِ سفر اختتام پذیر ہوا۔

کیلگری، جنگلی پھولوں کا دیس

Calgary, The wild Rose Country

سفر نامۂ کینیڈا ۔( قسط نمبر ۳)

اگللے شمارے میں دیکھیں


سفر نامۂ کینیڈا

(نعیم اشرف)

خوبصورت لوگ،حسین معاشرے - قسط ١

گیارہ جولائی  2019ء؁ کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو پہنچنے کے تیسرے دن ڈاکٹر خالد سہیل نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تین روز قبل جب ہم  ٹورنٹو ائیرپورٹ پہنچے تو امیگریشن پر زیادہ

پوچھ گچھ نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ آج کل ڈیکلیر یشن فارم جہاز سے اُترتے وقت یا ائیر پورٹ پر ہاتھ سے فِل نہیں کرتے بلکہ ائیر پورٹ پر نصب شدہ ایک مشین پر خود مکمل کرتے ہیں

جہاں پاسپورٹ کا پہلا صفحہ سکین کرنے سے آپ کی تصویر کیمرہ خود بخود لے لیتا ہے۔ امیگریشن آفیسرز سے منسوب عملہ آپ کی رہنمائی اور بوقت ضرورت آپ کی مدد بھی کرتا ہے۔

ضعیف، وہیل چئیرز دہ اور نیم خواندہ افراد کے لیے ائیر پورٹ کا عملہ مستعد نظر آتا ہے۔ خواہ بیلٹ سامان اٹھانا ہو، ٹرالی لانی ہو یا فارم فل کرنا ہو۔ان لوگوں کی جسمانی زبان اور

رویّے سے  خوش آمدید جھلکتا ہے نہ کہ  رعونت ”کہاں آ گئے ہو میاں؟“ وغیرہ۔ ہم نے دوست ِدیرینہ نجف احمد لودھی کے بھائی حامد مسعود لودھی ساکن تھارن کلف پارک

(Thorncliffe Park) کو ٹورنٹومیں، عبوری مسکن بنانے کا فیصلہ اور انتظام کر رکھا تھا۔  

حامد لودھی کے گھر ڈاکٹر خالد سہیل صاحب شام کو پہنچے اور آتے ہی تازہ تازہ طباعت شدہ کتاب  Dervishes Inn ہمیں پیش کی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرا نولود بچہ ڈیلیوری روم

کی نرس  مجھے پیش کر رہی ہو۔ طاھا نے ہماری کتاب کے ساتھ دونوں کی تصویر بنائی۔ میں اس دن 4  ادبی بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ میری پہلی تخلیق Trespass   تھی اس

میں، میں نے محمد الیاس کے 29   اردو افسانوں کو انگریزی  شارٹ سٹوریز کے قلب میں ڈھالا تھا۔ وہ کتاب سنگ ِ میل لاہور نے 2016ء ؁میں شائع کی تھی۔ اس کے بعدہم

سے ہر سال  ایک کتاب اردو سے انگریزی ترجمہ ہوئی۔ 2017 ء؁ میں خرم بقاء کی کلیشئے نامی کتاب جس میں کل 27  افسانے ہیں ترجمہ ہوئی۔ اس کے بعد پاکستانی افسانوں کا

انتخاب ترجمہ ہوا۔ اس کا انگریزی نام” The Incredible Pakistani Short Stories“اورسب ٹائٹل  Sweet heart   ہے اس کتاب کو بھی سنگِ میل

لاہور نے ہی چھاپا۔ اس کتاب میں کل 32  افسانوں کو انگریزی شارٹ سٹوریز بنایا گیا ہے اور زیادہ تر افسانہ نگار نئے ابھرتے ہوئے با صلاحیت نوجوان ہیں۔ جو 2000 ء؁ سے

بعد کے ہیں۔ہماری چوتھی کاوش Dervishes Inn   ہے۔2019ء ؁ میں روح پذیر ہونے والی کتاب (Dervishes Inn) اردو میں  ”درویشوں کا ڈیرہ“ تھی۔ گرین

زون پبلیکیشنز Greenzone Publications-Ontario-Canada سے چھپنے والی   ”درویشوں کا ڈیرہ“ 50  ادبی و تخلیقی خطوط جن کو لکھاری خواب نامے کہتے

ہیں، مشتمل ہے۔ رابعہ الرّبا، اردو  افسانے میں اہم نام ہے۔ لاہور میں رہائش پذیرادیبہ و شاعرہ نے اردو  ”افسانہ عہد حاضر میں“ کے نام سے ایک انسائیکلو پیڈیا جس کو نیشنل بک

فاؤنڈیشن نے چھاپا ہے،  مرتب کر کے ادبی دنیا میں اپنا لوہا منوایاہے۔  

 ہم جب 2018ء؁ میں 32   افسانوں کا انتخاب کر کے ترجمہ کرنے میں مصروف تھے تو اس دوران رابعہ کا افسانہ سویٹ ہارٹ sweet heart موصول ہوا۔افسانے نے

مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ میری رابعہ سے قلمی دوستی ہو گئی۔ رابعہ نے میرا تعارف”درویشوں کا ڈیرہ“ کے میزبان ڈاکٹر خالد سہیل سے کروایا اور یوں رابعہ مجھے درویشوں کے

ڈیرے تک لے آئی۔ میں نے کتاب کا نام Dervishes Inn   کیوں رکھا؟ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ ”یہ کہانی پھر سہی“

میں درویشوں کے ڈیرہ پر قریب چھہ ماہ درویش خالد سہیل اور رابعہ کے ساتھ قیام پذیر رہ کر اس ادبی و تخلیقی رہائش گاہ کو  Dervishes Inn بنانے میں کامیاب ہو گیا۔

اب یہاں انگریزی،اردو، پنجابی، فرانسیسی سمجھنے والے درویش ان کا تعلق خواہ کسی قوم، ملک،رنگ، نسل یا مذہب سے ہو خوشی خوشی آکر قیام کر سکتے ہیں۔ یہ سرائے نہ صرف حق کے

متلاشیوں کے نام سے منسوب ہے بلکہ یہاں آنے والے درویش ادیب، شاعر، فلاسفر، آرٹسٹ اور دانشور درحقیقت حق کی تلاش کے سفر کے مسافر ہیں۔ بقول ڈاکٹر خالد سہیل  

درویش ایک سنت، سادھو صوفی، ادیب، شاعر، دانشور مرد یا عورت ہو سکتا ہے۔بشرطیکہ وہ حق کی تلاش میں مخلص ہو۔اس میں رنگ، نسل، مذہب یا جنس کی کوئی تفریق نہیں۔

چائے سے تواضع کے بعد ہم حامد لودھی کے گھر سے رخصت ہوئے۔ حامد لودھی کے فرزندطاھا لودھی نے ہمیں تھارن کلف سے رخصت کیا۔ڈاکٹر خالد ہمیں سیدھا

Golden Thai Restaurent لے آئے۔یہ ریسٹورنٹ  ٹورنٹو کے ادیبوں کا Pak Tea House   ہے۔وہ ایک یادگار اور خوبصورت شام تھی۔ وہاں ہم نے

اپنی تازہ طباعت شدہ کتاب"The Incredible Pakistani Short Stories"   ڈاکٹر صاحب کو پیش کی۔ وہاں ہماری تصویر وہاں موجود ایک خوبرو حسینہ جو

ویٹرس کا کام کرتی ہے،سے فرمائش پر بنوائی۔حسینہ کو جب داکٹر صاحب نے ہمارا بتایا تو وہ بہت متاثر ہوئی۔ اس نے کہا کہ وہ کتابیں پڑھنے کی بہت شوقین ہے اور اس نے

 amazon کا ایڈریس نوٹ  کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ آج ہی کتاب آرڈر کرے گی۔ھوٹل پر کام کرنے والی لڑکی ہمیں متاثر کرنے کے ساتھ اداس بھی کر گئی۔ کیونکہ ھم نے ایک ماہ قبل  پنی دوسری  شارٹ اسٹوری کی کتاب انگریزی کے  دو پروفسیر دوستوں کو پڑھ کر تبصرہ کرنے کے لیے دی تھیں۔ ابھی تک جواب کا انتظار  ہے۔ بقول مرزا  غالب:

                                       ۔۔۔کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ہم رات قریب گیارہ بجے درویش  (ڈاکٹر سہیل)  کے گھر پہنچے کے گھر،  جس کو وہ ”کٹیا“ کہتے ہیں، وارد ہوئے۔ درویش کا گھر وھٹبی  Whitby  میں ہے۔ یہ جگہ ٹورنٹو کے مرکز سے چالیس پچاس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ گھر جانے سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے اپنا کلینک دکھایا جس کو 20    سال قبل قائم کرتے وقت انہوں نے Creative Psychotherapy Clinic  کا نام دیا۔ کلینک ایک کشادہ  Basement  میں قائم ہے جہاں کتابوں اور کچھوؤں کی بہتات ہے۔آپ کو وہاں ہر سائز کے کچھوے ملیں گے۔ بڑے، درمیانے اور چھوٹے  سائز کے کچھوے رکھنے کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے۔:: '"Slow and steady wins the race."

اگرچہ Turtles بے جان ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کی ماحول کو فراھم کردہ مستقل توانائی سے جاندار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مریضوں کی تعداد یعنی انتظاری  فہرست  waiting list تین سو  کے قریب ہے۔ گویا اگر آپ کو اپنا ذہنی معائنہ کروانا ہو تو باری ایک سال تک آئے گی۔ وہ ہر مریض کو ایک گھنٹہ دیتے ہیں۔ برعکس حکومتی قوانین جو ایک مریض کو آدھا گھنٹہ دیکھنے پر بھی قانع ہیں۔ اگلی صبح ایک ادبی ناشتے کا اہتمام تھا جو Eggs Smart  نامی مقامی ریسٹورنٹ میں تھا۔  وہاں پر میرے اعزاز میں دو  اور ادبی شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ان میں مارسلینہ نینی(Marcelina Naini) (جو ڈاکٹر صاحب کی سیکرٹری کے طور پر کام کرتی  ہیں)، کرس اینڈرسن  (Chris Anderson) اور سیّد حیدر شامل تھے۔ جو اہم مزاح نگار ہیں۔ ناشتے پر گفتگو دلچسپ رہی۔ آرکیالوجی، اینتھراپالوجی اور ھسٹری جیسے موضوعات نے ہلکے پھلکے ناشتے کو کسی قدر ثقیل بھی بنایا۔ مگر ایک لمحہ بھی بوریت کا احساس نہ ہوا۔ دوپہر کو Whitby  سے مزید شمال مشرق کی طرف روانہ ہوئے۔ ہماری اگلی منزل Kingston   اور  Thousand Island  تھی۔ اس کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی ٹویاٹا جیپ میں شاہراہ نمبر 401  لے لی۔ ایک گھنٹے کی مسافت پر ہمیں شاہراہ بند ملی۔ ہم سے آگے تقریباً  ایک کلو میٹر تک گاڑیوں کی قطار تھی۔ کسی گاڑی والے کو آگے بڑھ کر وجہ تاخیر معلوم کرنے کی جلدی نہیں تھی۔  کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کوئی موسیقی سن رہا تھا اور کوئی اپنی ہمسفر کے ساتھ باہر نکل کر ہوا خوری  کرنے میں مشغول تھا۔ میں بطور ایک اچھا پاکستانی، بے صبرا  ثابت ہوا اور پیدل  آگے بڑھ کر روڈ بلاک ہونے کی وجوہات معلوم کرنے لگا۔ تمام لوگ حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ چند منٹ میں ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کا کارواں  برق رفتاری سے ہمارے عقب سے برآمد ہوا۔ سائرن کی آواز سن کر تمام گاڑیاں ایک طرف ترچھے زاویے پر کھڑی ہو گئیں،۔ ایسا نظم و ضبط شاید ہم نے خواب میں ہی دیکھا ہو۔    یا خدایا  ابھی حادثہ کا شکار ہونے والے  اپنی گاڑیوں میں  ہی ہوں گے۔ پولیس اور ایمبولینس  اتنی جلدی کیسے پہنچ گئی؟ آگے جا کر معلوم ہوا کہ آٹھ کاریں آپس میں ٹکرائی ہیں اور ایک شخص ہلاک بھی ہوا ہے۔ تمام جگہ (Cordon) محفوظ کر دی گئی۔ ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کا  ایک اور کانوائے جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔ اب زخمیوں کو فرسٹ ایڈ دینے کا مرحلہ درپیش تھا جو پیشہ ور طبّی عملہ سرانجام دے رہا تھا۔ ان کو روڈ بلاک ہونے سے  زیادہ جانیں بچانے کی فکر تھی۔   ایک گھنٹے بعد ہماری جانب کی تمام ٹریفک مخالف سمت موڑ دی گئی۔ کیونکہ حادثہ کا شکار ہونے والی گاڑیوں اور زخمیوں کا بندوبست ہونے میں مزید تین سے چار گھنٹے لگ سکتے تھے۔ ہمیں  متبادل راستے کی طرف رہنمائی کے لئے ٹریفک پولیس کا مستعد عملہ نہایت پھرتی اور چابکدستی سے اپنے کام میں مشغول تھا۔ کوئی شور و غوغا نہیں کوئی گالی گلوچ نہیں اور کوئی  دست و گریباں نہیں ہوا۔ اتنے بڑے حادثے کو اتنی مہارت سے نمٹتے دیکھ کر ہمیں خوشگوار حیرت کے ساتھ ساتھ کسی قدر اداسی بھی ہوئی اور سوچا کہ ہم لوگ اور کتنا ”سفر“ اورsuffer" " کرنے کے بعد یہاں پہنچ سکیں گے۔مگر ہم ٹھہرے سادہ لوح۔ اتنا نہیں سمجھتے کہ سفر کی طوالت کا اندازہ تو اس وقت لگایا جائے گا جب سفر کا آغاز ہو گا۔

شام کو Kingston   پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک پرانی ہم پیشہ اور دوست جو اب ریٹائر ہو چکی ہیں اور Kingston   کے پاس واقع ایک ہزار جزیروں میں سے ایک  ایمرھسٹ نامی جزیرے پر مقیم ہیں، سے ملاقات طے کر رکھی تھی، منتظر پایا۔ این ھینڈرسن   Anne Henderson  ایک ستر سالہ خاتون ہیں۔ ہماری گاڑی دیکھ کر سڑک پر زور زور سے ہاتھ ہلاتی نظر آئیں۔ ایک  عمر رسیدہ انگریزخاتون کی مہمانوں کو دیکھ کر چہرے پر بشاشت دیدنی تھی۔خلوص، محبت اور خوش آمدیدی تاثرات ان کے ضعیف مگر پُرعزم چہرے کو اور بھی خوبصورت بنا رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر حیرت زدہ تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ضحیم ناول تھا۔ میرے پوچھنے پر این ھینڈرسن نے بتایا کہ جب ہمارے آنے میں تاخیر ہو گئی تو انہوں نےMeeting point   اور اس ریسٹورنٹ جس میں انہوں نے ہمارے ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا،چہل قدمی شروع کر دی۔ جب وہ تھک گئیں تو مقامی بُک شاپ سے کتاب خرید کر میٹنگ پوائنٹ پر بیٹھ کر  پڑھنے لگ گئیں۔  اینAnne   پیشے کے طور پر نرس ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ 25   سال کام کیا۔ وہ ایک ادیبہ اور شاعرہ بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنی  Short Story Book   دینے کا وعدہ کیا۔ ہم نے این کو Dervishes Inn   پیش کی۔ اس کے ساتھ میں نے ان کو ایک کشمیری شال  جو میں ان کے لئے خصوصی طور پر لے کر گیا تھا،پیش کی۔ وہ  خوشی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں۔انہوں نے قدرے خنک موسم میں شال اوڑھ لی اور ڈاکٹر صاحب سے میرے ساتھ تصویر بنوائی۔ہم جس ٹیبل پر ریسٹورنٹ کے کشادہ صحن میں بیٹھے  تھے۔ اس ٹیبل پر چار کرسیاں تھیں۔ این نے کہا کہ کاش رابعہ اس خالی کرسی پر بیٹھی ہوتی۔ یہ کہتے ہوئے ان کی عمر رسیدہ آنکھوں میں نمی دیکھی جا سکتی تھی۔ ریسٹورنٹ کا صحن جس میں    ھم لوگ براجمان تھے خاصہ شوریدہ تھا۔ اس وجہ سے این قدرے شرمندہ شرمندہ سی تھیں۔ اسکا ذکر انہوں نے خط میں بھی کیا ہے۔Dervishes Inn   کی (ادارت)  Editing  این نے کی ہے۔ کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر وہ اس کو کافی دیر تک سہلاتی رہی جیسے اپنے پوتے یا پوتی کو اپنے شفیقانہ لمس کو  پہلا تحفہ دے رہی ہو۔ یہ ایک یادگار شام تھی۔ کھانے کے بعداین ہمیں انتاریو جھیل Lake Ontarioکے ساحل تک جہاں سے ہم نے wolfe  Island   روانہ ہونا تھا، الوداع کہنے آئیں۔اب رات کے دس بج چکے تھے۔ ہماری اگلی منزل اور قیام وولف آئی لینڈ wolf Island  تھا۔ یہ جزیرہ کنگسٹن سے ٖ Ferry  (کشتی)  کے ذریعے 20   منٹ میں انتاریوجھیل عبور کر کے آتا ہے۔ فیری کیا تھی ایک 300   فٹ  x  200  فٹ  کی طشتری تھی جس کے پشتے پر 50   گاڑیاں آ جاتی ہیں۔ آپ چاہے تو گاڑی میں ہی بیٹھے رہیں  اور اگلے کنارے پر جیسے گاڑی چلا کر سوار ہوئے تھے، اسی طرح اتر جائیں یا من کرے تو طشتری کی اُوپری منزل پر جا کر اردگرد پھیلے پانی اور چاندنی سے لطف اندوز ہوں۔ وولف آئی لینڈ پہنچے تو رات گیارہ بجنے کو تھے۔ جزیرے کے پُر سکون ماحول میں ہلکی پھلکی چہل قدمی کرنے کے بعد شب بخیر کہتے ہی بنی۔

صبح سویرے جزیرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ہم شب بسری کے لباس میں   ہی  جزیرے کی سیر کو نکل گئے۔ درختوں سے چھن کر آنے والی کرنیں، پانی کی لہریں جو صبح صبح ساحل سے  ٹکرا رہی تھیں۔خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔  ہم نے اس جزیرے پر قطار در قطار پن چکیاں دیکھیں جو جزیرے کی برقی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی تھیں۔  حسبِ معمول کمرے میں موجود کیتلی اور چائے کے سامان کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس وقت تک ڈاکٹر صاحب ”ہم سب کے لئے“ کالم لکھ چکے تھے۔

ھمارا چھ سات روز کا ساتھ رہا اور اس دوران صبح بیدار ہوتے ہی انہوں نے مجھے ایک نئی تخلیق پڑھ کر سنائی اور یہ کام صبح کی چائے پر ہوتا تھا۔ جب تک میں تیار ہوتا وہ تیار ہو کر کار کو

فیری پر سوار ہونے والی گاڑیوں کی قطار میں لگا چکے تھے۔ ہم نے ایک ایک کپ کافی اور کوکونٹ پیسٹری سے ناشتہ گاڑی میں بیٹھ کر ہی کیا۔ چند منٹ میں ہم دونوں اپنی کار سمیت

واپسی والی طشتری میں سوار ہو چکے تھے۔اب ہم کنگسٹن کو دن کی روشنی میں دیکھ رہے تھے۔یہ ساحلی شہر تعطیلات گزارنے آئے ہوئے لوگوں کی رونق سے مزیّن ایک میلے کا سماں

پیش کر رہا تھا۔  ہم نے ہزار جزیرے  Thousand Island جانے والی فیری لی اس فیری پر قریب 200   افراد سوار تھے۔ انتاریو جھیل میں پھیلے ایک

ہزار جزیروں کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا۔ آسمان صاف تھا۔فیری کا ساؤنڈ سسٹم موسیقی کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف جزیروں سے متعارف کرواتا اس آبی سفر کو یادگار بنا رہا تھا۔

ہم رائل کینیڈین ملٹری اکیڈمی کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی تربیتی زندگی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی(PMA) کی یاد تازہ کرتے رہے۔ یہ ایک حسین سفر تھا جو چند لمحوں میں

بیت گیا۔ واپس کنگسٹن پہنچ کر اوپن ایئرریسٹورنٹ میں لنچ کیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ یہ ایک خوبصورت اور یادگار سفر تھا۔

کنگسٹن سے وھٹی Whitby کا سفر ویسے تو تین گھنٹے کا ہے مگر جب باتیں شروع ہوتیں تو سفر کٹنے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ مختلف موضوعات زیرِبحث آتے۔ ڈاکٹر صاحب کے  

concept  (تصورات) ہر چیز کے بارے میں بہت شفاف واضح اور روشن ہیں۔کوئی الجھن,شک یا Grey area  نہیں ہے۔ وہ جو بھی بات کرتے ہیں دل کی گہرائی

سے کرتے ہیں۔  

شا ہد،  شیریں اور درویشوں کا ڈیرہ

سفر نامہ کینیڈا  (قسط  ۲)

13   جولائی 2019  ء ؁  شام کے کھانے کا  اہتمام شاہد اور شیریں نے اپنے ہاں مسی ساگا میں کر رکھا تھا۔ یہ ڈنر ہمارے اعزاز میں تو تھا ہی مگر انہوں نے دیگر فیملیز شاعر شاعرات

اور سامعین و ناظرین کو بھی دعوت دے رکھی تھی۔شاہد اور شیریں ایک خوبصورت جوڑی ہے جو دو دہائیوں سے کینیڈا میں مقیم ہے۔ شاہد اختر تنازعات کے حل کے سات بہترین اصول Seven Cs to conflit resolution   کے نام سے ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ شاعری کا شوق ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے بتایا کہ نامور شاعر انور مسعود سے  شاہداختر کی قریبی رشتے داری ہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہو۔ مگر جب تک انسان کے اندر تحریک نہ ہو وہ شاعری کی طرف نہیں آ سکتا۔ یہ ایک یادگار اور خوبصورت شام تھی۔ شاہد اور

شیریں کے ہاں بارہ پندرہ افراد جمع تھے۔اپنا اپنا تعارف کروایا گیا۔ شاہد اختر اس دوران اپنی حسِ مزاح اور بذلہ سنجی سے محظوظ کرتے رہے۔ حاضرین، مدعوین اور سامعین میں

خالد سہیل، ٹیبی شاہدہ، ثمر اشتیاق، فوشیہ اشتیاق، ہما دلاور، فیصل بھائی، زبیر خواجہ، محمد حفیظ، روبینہ فیصل اور عروج راجپوت اور دیگر شامل تھے۔ محترمہ عروج صاحبہ ایک شاعرہ ہیں جو

خاصا وقت ریڈیو پر کمپئیرنگ کر چکی ہیں۔ ہما دلاور مزاحیہ شاعری کرتی ہیں۔ ان کے قطعات اور نظمیں محفل کو توانائی اور نشاط عطا کرتی رہیں۔ ٹیبی شاہدہ  صحافی اور ثمراشتیاق  آرٹسٹ ہیں مگر شاعری میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہماری کتاب ”درویشوں کا ڈیرہ“ جس کا ترجمہ راقم نے کیا ہے اور کتاب کا  انگریزی نام "Dervishes Inn"    رکھا ہے، موضوع بحث آئی۔ اس موقع پر میں نے خالد سہیل کی نظم  ”بوڑھی آنکھیں“ جس کا ترجمہ  Aging eyes  کیا گیا ہے۔ راقم نے محفل میں پڑھ کر سنائی۔ سامعین بہت محظوظ ہوئے۔  اگلے روز یعنی 14 جولائی 2019 ء؁ کتاب کی تقریب تھی۔ اس کا انتظام و انصرام ڈاکٹر خالد سہیل گزشتہ چار ماۃ سے کر رہے تھے۔ پورے کینیڈا میں کسی علاقے کی

رہائشیوں کے لیے حکومت نے Community Center  کمیونٹی سنٹر بنا رکھے ہیں۔مناسب معاوضے کے عوض ان کمیونٹی سنٹرز میں موجود ہالز کی بکنگ کروائی جا سکتی ہے۔

مرضی کی تاریخ لینے کے لیے آپ کو کم ازکم تین ماہ قبل اپنی تقریب کی تفصیلات انتظامیہ کو بتانی ہوتی ہیں۔ چائے،پانی، کافی اور لوازمات  کا انتظام آپ خود کریں گے۔ کمیونٹی سنٹر

آپ کوصوتی نظام، صاف ستھرا، کشادہ اور روشن ہال مہیا کرے گا۔ دو تین درمیانے سائز کے ٹیبل روسٹرم کے ساتھ رکھ کر ان کے پیچھے کرسیاں لگا کر برابر کی سطح کا سٹیج آپ خود بنا لیں۔

تقریب میں ہمارے علاوہ قریب ستّر افراد مدعو تھے۔ ساٹھ سے اوپر سامعین و مقررین تشریف لائے۔ مقرّرین نے "Dervishes Inn"   اور ”درویشوں کا ڈیرہ“ پر

سیر حاصل گفتگو کی۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ یہاں لوگ کتاب پڑھ کر کتاب کی محفل رونمائی میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر  خالد  سہیل  نے  ایک سینئر افسانہ نگار اور صدر محفل شکیلہ رفیق  صاحبہ سے تقریب کا ربن کٹوایا جو اپنی تمام تر بیماری اور نقاہت کے باوجود تشریف لائی تھیں۔ اچھی بات یہ بھی تھی کہ سامعین پوری طرح ملوث ومشغول ہو کر ساری بات چیت سُن رہے تھے۔ پروگرام 4   بجے سے شام  7 بجے تک چلتا رہا۔ تقریب سے خالد سہیل، شاہد اختر، ثمر اشتیاق، ٹیبی شاہدہ ، مس لار ا  اور ہما دلاور نے  خطاب کیا۔ اور ترجمے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ترجمے کو عمو می طور پر سراہا گیا۔ مقررین کا خیال تھا کہ فکشن کی ٹرانسلیشن ایک مشکل کام ہے۔ یہ کتاب  جو کہ ایک Letter Fiction   ہے۔ ترجمہ ہو کر انگریزی قارئین کو دستیاب ہونے جا رہی ہے۔ کتاب میں موجود تخلیقی و ادبی خطوط میں زیرِبحث لائے گئے موضوعات مثلاً گرین زون  تھراپی Greenzone Therapy  ،گہری محبت Deep Love  روحانیت، تخلیقیت، دیوانگی۔ سچ تک پہنچنے کے تین ضابطے، محبت، رومانس، دوستی اور شادی، عورت اور مرد کی غیر روایتی دوستی  Man- woman Friendship  کے تقاضے اور حُسن۔ مشرقی ومغربی سماج میں تفاوت،ادب، شاعری، فلسفہ اور بہترین زندگی گزارنے کے  تقاضے شامل ہیں۔ لوگوں کا  General world view  تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مقررین کا خیال تھا کہ”درویشوں کا ڈیرہ“  اُبھرتے ہوئے نوجوان  شاعروں، ادیبوں اور لکھاریوں کو آپس میں خطوط تحریر کرنے کی تحریک دے گی۔خطوط کے تبادلے سے نوجوان نسل میں سے ادیب پیدا کرے گی۔ اور خطوط نگاری جیسی اہم صفت جو ختم ہونے جا رہی تھی دوبارہ جی اُٹھے گی۔زھر نقوی نے رابعہ الربّا کوموبائل فون کی کرامت سے تقریب کی کاروائی براہ راست دکھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔   ہماری مختصرتقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ کافی دیر چلا۔ سامعین و حاضرین خالد سہیل اور رابعہ الربّا  کے بادی النظر میں متضاد نظریات کے باوجود اتنی اچھی اور مفید  کتاب لکھ لینے کی کامیابی کے پس پردہ راز سے واقفیت حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔ خالد سہیل ایک سیکولر انسان دوست ہیں۔ جبکہ رابعہ کا تعلق ایک روایتی مذہبی خانوادے  سے ہے۔ مگر ان کی نہ صرف قلمی دوستی ہوئی بلکہ دونوں ادیبوں نے مل کر ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔ یہ ایک دلچسپ اور خوبصورت بات ہے۔ اور ہمارے لیے پیغام بھی کہ آپ کا  تعلق کسی مذہب،رنگ،نسل یا دیس سے ہو۔آپ کا سچ کچھ بھی ہو۔آپ کا عقیدہ و نظریہ جیسا بھی ہو،اگر آپ کے اندر محبت ہے تو دوسروں کو بانٹ سکتے ہیں۔ جو مختلف لوگوں کو یکجا  کر سکتی ہے۔ محبت جغرافیائی لکیروں، عمروں کے فرق، عقائد و رسومات، رنگ و نسل اور قبیلے کو نہیں جانتی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آپ دوسروں کو وہی شے دے سکتے ہیں جو آپ  کے پاس ہو۔دوسروں سے محبت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر محبت وافر مقدار میں موجود ہو۔ اپنے اندر محبت پیدا کرنی چاہیے۔ اس ساری تمہید سے میری مراد یہ نہیں۔ کہ رابعہ الربّا اور خالد سہیل روایتی محبت میں مبتلا ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں ادیبوں میں محبت و احترام اور خلوص کا رشتہ موجود ہے ورنہ اتنی بڑی کتاب لکھنا ممکن نہ تھا۔   خالد سہیل کے کلینک پر کام کرنے والی Senior Therapist   بیٹی ڈیوس  Bette Davis  مریض سے اکثر یہ سوال کرتی ہے: ”اگر آپ کو یہ کہا جائے آپ کی زندگی صرف چند دن باقی ہے اور آپ صرف ایک کام کر سکتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟“ اس کا جواب اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آپ کے لئے کیا اہم ہے؟اور آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟

اگلے روز ناشتہ سکوگاگ جھیل (Lake Scugog)   پر کرنا طے پایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب صبح سویرے جاگ کر آواز دیتے۔ میں جب اپنے کمرے سے باہر آتا تو مجھے اپناکالم

سناتے اس اثناء میں،میں اپنے لیے کافی اور ان کے لیے چائے تیار کرتا۔ وہ مجھے شام کو ہی بتا چکے تھے کہ کل ناشتہ جھیل سکوگاگ پر ہو گا۔ صبح جھیل پر جاتے ہوئے جو وھٹی

(Whitby) سے   منٹ کی کار مسافت پر ہے،بتایا کہ ان کی زندگی میں کچھ کردار ہیں جو ان کی زندگی کے سفرمیں ان کی کہانی پر اثر انداز ہوئے۔ ان کرداروں میں ایک کردار  

ایساہے جو انسان نہیں ہے۔ اور وہ کردار ہے جھیل سکوگاگ۔ اس جھیل سے ڈاکٹر صاحب کا ادبی رشتہ ہے۔ ”میں نے اس جھیل کے کنارے ایک شاہ بلوط کے  درخت کے نیچے بیٹھ

کر کئی کہانیاں،نظمیں اور کتابیں لکھی ہیں۔ اس پُرسکون اور قدرے صغیر جھیل کی خاص بات اس کے کنارے لگا ایک مجسمہ ہے۔ یہ مجسمہ مشہور ماہر معالج ڈیوڈ پامیر David

 Palmer کا ہے۔ کائروپریکٹک Chiropractic   ایک طریقہ علا ج ہے جس کو عام زبان میں پہلوانی طریقہ علاج یعنی دیسی طریقے سے اترے ہوئے ہڈیوں کے جوڑ  دوبارہ بحال کرنا۔پامیر کو اس طریقہ علاج کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ پامیر 18  ستمبر 1895  ء؁  کو پورٹ پیری  Port Perry   کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کے مجسمے کے نیچے  

اس کا مشہور قول کنندہ ہے”مجھے زندگی میں کبھی بھی کوئی ایسا کام کرتے ہوئے عار محسوس نہیں ہوا جس سے کسی انسان کا قرب کم ہوتا ہو۔“ واہ۔ کتنی  خوبصورت اور انسان دوست بات  ہے یہ:  :"I have never considered it beneath my dignity to do anything to relieve human suffering."

ڈیوڈ پامیر 20 اکتوبر 1913 ء؁ کو وفات پا گئے اور پورٹ پیری میں ہی دفن ہیں۔

سہ پہر 2 بجے ہمارا انٹرویو طے تھا۔ جو نامور آرٹسٹ شاہد شفیق نے ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ڈاکٹر خالد سہیل کے آفس کی لائبریری میں کچھوؤں اور کتابوں کے درمیان ایک خوشگوار

ماحول میں ہوا۔ شاہد شفیق ایک ملنسار، ہونہار اور توانائی سے بھرپور نوجوان ہیں۔ وہ کمرے کی بیٹریاں اور لائٹس براجمان کرتے ہوئے کسی بھی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کر سکتے

ہیں اور کرتے رہے۔درویشوں کا ڈیرہ اور Dervishes Inn   کا کورCover بھی شاہد رفیق نے ہی ڈیزائن کیا ہے۔

شام کو کھانے کی دعوت ثمینہ تبسم نے دے رکھی تھی۔ اس کے لیے قریب سات بجے Bramton  پہنچے۔ محترمہ ثمینہ تبسم ایک معلمہ ہیں اور ٹورنٹو میں  15 سال سے مقیم ہیں۔

کینیڈا ہجرت سے قبل وہ پاکستان میں مختلف آرمی پبلک ا سکولز اور فیڈرل گورنمنٹ اسکول سے وابستہ رہنے کی وجہ سے شعبہ تعلیم کے علوم و رموز پر خاصی دسترس رکھتی ہیں۔ اس کے

علاوہ وہ ایک باکمال شاعرہ بھی ہیں۔ ہم نے اپنی دونوں کتابیں ثمینہ صاحبہ کی خدمت میں پیش کیں۔ مچھلی اور بھیڑ کی گرل کے ساتھ ایک بھرپور شام بہت یادگار رہی۔ باتوں کا

سلسلہ چلا تو  جنوبی وزیرستان سے لے کر (جہاں وہ تعلیمی پراجیکٹ کر رہی ہیں) پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد سے ہوتا ہوا ٹورنٹو پر اختتام پذیر ہوا۔ یوں ہمارے کیلیگری سفر سے قبل

کا حالِ سفر اختتام پذیر ہوا۔

کیلگری، جنگلی پھولوں کا دیس

Calgary, The wild Rose Country

سفر نامۂ کینیڈا ۔( قسط نمبر ۳)

اگللے شمارے میں دیکھیں

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024