سردار جعفری کی نظم

سردار جعفری کی نظم

Feb 7, 2018

اس کائنات کی ہر چیز کسی نہ کسی طورپر اپنی ساختیے کا احساس دلاتی ہے

دیدبان شمارہ۔ ۱

سردار جعفری کی نظم ...  میرا سفر... کا ساختیاتی آہنگ

اس کائنات کی ہر چیز کسی نہ کسی طورپر اپنی ساختیے کا احساس دلاتی ہے ۔ اپنی ساخت کے بغیر ہر چیز بے شناخت ہوکر رہ جاتی ہے ۔ یہی  وجہ ہے کہ تخلیقی عمل بھی ساختیے کو تشکیل دیتے ہیں ۔ تخلیقی عمل میں یہ ساختیہ نحو آہنگ اور اوزان کا ہوتا ہے اور یہ اجزائے ترکیبی ادب کے ساختیے کو تشکیل دیتے ہیں ۔ ادب کے مطالعے میں ان ساختیوں کی خاص اہمیت ہوتی ہے کیونکہ یہ ساختیے متن کو نئی جمالیات سے متعارف کراتے ہیں اور داخلی سطح پر سیاق اور مواد میں نئے معانی کا انکشاف کرتے ہیں ۔ ساختیات بنیادی طورپر ادراک ِ حقیقت کا اصول ہے ۔ ساختیات میں ساخت کا تصوّر فرڈی ننڈ ڈی سوسئرسے ماخوذ ہے جہاں زبان کی ساخت سے مراد زبان کے مختلف عناصر کے درمیان رشتوں کا وہ نظام ہے جس کی بنا پر زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ ساخت کا تصوّر چوں کہ تحریری تصوّر ہے لہٰذا اس کی وضاحت آسان نہیں ۔ تاہم سردار جعفری کی نظم میرا سفر کے تجربے سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ سردار جعفری کی نظم   میرا سفر  بظاہر ایک عام سی نظم ہے لیکن جب اس نظم کے مختلف اجزاءکو سمیٹا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم شاعر کے ذہنی ساختیے سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس نظم میں جو چھوٹے بڑے ساختیے نظر آتے ہیں وہ سب کے سب ایک ایسے فکری پیٹرن کے ساختیے ہیں جو زبان و مکان کی حرکیات سے اپنی صورت بدل لینے کے باوجود ایک ساختیاتی حصار میں بندھے نظر آتے ہیں ۔

انسانی ذہن کا ساختیہ تضادات سے وجود میں آتا ہے اشیا سے اپنا ماحولیاتی رشتہ قائم کرتا ہے ۔ تضادات کے تصادم کی یہ کیفیت اگر ایک جانب انسانی ذہن کے ساختیے کو تشکیل دیتی ہے تو دوسری جانب ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔ اس نظم میں بھی تضادات کا یہ تصادم نظم کے فکری ساختیے  کو کچھ یوں آگے بڑھاتا ہے کہ اس نظم کی فکر و معنویت کی گرہیں جتنی کھولی جاتی ہیں نظم میں دلچسپی بڑھتی جاتی ہے،۔” میرا سفر‘ ‘ تین بندوں پر مشتمل ہے ۔ ان تضادات کے تصادام کے مناظر زندگی کے لامختتم تسلسل(CONTINUM) کو پیش  کرنے میں  نمایاں  کردار  ادا کرتے ہیں - بندوں میں

پھر اِک دِن ایسا آئے گا

آنکھو ں کے دیے بجھ جائیں گے

ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے

اور برگِ زبان سے نطق و صدا

کی ہر تتلی اُڑ جائے گی

۔ ۔ ۔

لیکن میں یہاں پھر آﺅں گا

بچوّں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاﺅں گا

نظم کے یہ دوفکری ساختیے  نظم کی معنویت کو تشکیل دیتے ہیں ۔ تضادات کے اس تصادم کی وجہ سے قاری کا ذہن نظم کی معنویت کو قبول کرلیتا ہے کیونکہ یہ تصادم قاری کے تجربے کی بنیاد بن کر حقیقت کا روپ دھارتا ہے ۔ شاعر کے اس خیال

پھر اِک دن ایسا آئے گا

آنکھوں کے دیے بجھ جائیں گے

ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے

اور برگِ زبان سے نطق و صدا

کی ہر تتلی اُڑ جائے گی

کی قبولیت تجربے کی بنا پر جنم لیتی ہے اور معاشرتی نظام کا حصّہ بن جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرتی ساختیہ اس نظم کے فکری ساختیے   کو جنم دیتا ہے ۔ بالفاظ دیگر اس نظم کا تمام تانا بانا انسانی تجربات کے شعوری اور غیر شعوری محروکات سے شروع ہوتا ہے اور واقعات کو کچھ یوں تشکیل دیتا ہے کہ اس کی ترتیب نظم کے تضادات کے تصادم کو اُجاگر کرتی ہے ۔

نظم کے پہلے بند میں محرومی یا انبساط کی جو کیفیت نظر آتی ہے اس کی وجہ وہ Images ہیں  جس کا استعمال سردار ر جعفری نے اس بند میں کیا ہے- یعنی اس بند کا لسانی ساختیہ نظم کے دوسرے بند کے لسانی ساختیے سے قطعی مختلف ہے ۔

نظم کے پہلے بند میں.. دیے بجھ جائیں گے۔ ”کنول کمھلائیں گے “۔ ”تتلی اُڑ جائے گی“ ۔”شکلیں کھوجائیں گی“ ۔ ”راگنیا ں سوجائیں گی“ ۔ ”شبنم کی طرح رو جائیں گی “۔ جیسے لسانی ساختیے  محرومی کی کیفیت کے ابلاغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بے قراری اور اضطرب کی کیفیت کے اظہار کے لئے سردار جعفری نے اس بند میں      حروف  ربط  (relative pronouns)سے محروم فقروں کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ بے قراری اور اضطرابی کی کیفیت واضح طور پر ابھر آتی ہے ۔

اک کالے سمندر کے تہہ میں

کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی

پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی

ساری شکلیں کھوجائیں گی

خوں کی گردش دل کی دھڑکن

سب راگنیاں سوجائیں گی

مندرجہ بالا مثال میں حروف ربط سے محروم فقروں کا استعمال اگر ایک جانب بے قراری اور اضطرابی کی کیفیت کو واضح کرتا ہے تو دوسری جانب اس بند کا ہر مصرعہ اپنا ابلاغ قاری سے اس لئے بہتر طورپر کرتا ہے کہ اس کے طے شدہ معنی انسانی تجربے میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سردار جعفری لسانی ساختیے  کو اپنی روایت سے قبول کر لیتے ہیں مگر اس بات کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صفت کا اضافہ بھی کردیتے ہیں جو اس لسانی ساختیے کو استعاراتی پیکر میں تبدیل کر دیتا ہے ۔

نظم کے پہلے بند میں بعض لسانی ساختیے  نظم سے اس حدتک وابستہ رہے ہیں کہ ان کی معنوی تعینات اور تکرار کے باعث انھیں موٹیف کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ اس پورے بند میں معنویت کے اظہار کو مختلف سمتوں سے بیان کیا گیا ہے ۔اس بند کی قراَت نظم کے متن اور اس کی معنویت میں کسی قسم    کے مغالطوں کو نہیں ابھارتی بلکہ روحانی دلکشی کا سبب بنتی ہے ۔ اس کی ساختیاتی اہمیت کا اندازہ ااس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بند نظم کا پہلا بند ہے ۔ اس ترتیب میں کوئی بھی تبدیلی نظم کے مرکزی خیال کو مجروح کرسکتی ہے ۔ نظم کے دو بند میں تضادات کا تصادم نظم کے قارئین پر مختلف رائے خیال کی جمالیاتی کیفیات کا انکشاف کرتا ہے ۔ اور اس طرح نظم کی تفہیم و تشریح کی نئی ساختیات ابھر کر سامنے آتی ہے ۔

اس نظم کا دوسرا  بند زندگی کے تسلسل یا Cyclic تصوّر کو پیش کرتا ہے ۔

پُنر جنم اس بند میں کے ہندوستانی فلسفے کی جھلک ملتی ہے ۔ یعنی اس بندمیں زندگی کے تسلسل یا  موضوعِ  تصور کو  موضوع سخن بنایا گیا ہے ۔ اس نظم کے پہلے بند میں موت کی ناگزیریت پر حقیقت کے اظہار کے باوجود، زندگی کے تسلسل پر شاعر کا یقین  نظر  آتا  ہے ،اور  اس کا  یہ  یقین دوسرے بند میں الفاظ و معنی کی ترتیب و ترکیب سے جس طور پر ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے اس کی مثال یقینا کم ملتی ہے ۔ گویا یہ نظم تجربے کی آفا قیت کی عمدہ مثال ہے ۔ نظم کے دوسرے بند کی بھی اپنی ایک ساخت ہے جہاں واقعات ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ نظم کے کئی فکری ساختیے  نظم کو آگے بڑھاتے ہیں ۔

لیکن میں یہاں پھر آﺅں گا

بچوّں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاﺅں گا

جب بیج ہنسیگے دھرتی میں

اور کونپلےں اپنی انگلی سے

مٹی کی تہوں کو چھیڑینگی

میں پتّی پتّی کلی کلی

اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا

اس بند کو بغور پڑھنے سے اس بات کا احساس شدّت سے ہوتا ہے کہ اس بند کا لسانی ساختیہ  اور باطنی معاملات نظم کی معنویت کو تشکیل دیتے ہیں ۔ دراصل نظم کی معنویت اس وقت ہی ابھر کر سامنے آتی ہے جب قاری کو اس کی ادراک ہوتا ہے اور وہ اپنے اس ادراک کے تجربے کے حوالے سے ہی نظم کے بنیادی ساخت کو ایک فکری رشتے کے اس پورے بند میں ایسا محسوس ہوتا  ہے  کہ سردار جعفری  کا تخلیقی تجربہ نثری پیکر کی صورت   ساتھ انکشاف کرتا ہے .

میں ان کے حواس پر وارد ہوتا ہے ۔

چنانچہ اس بند میں بچوّں کے دہن  چڑیوں کی زباں  بیج کا ہنسنا  اور کونپلوں کا مٹی کریدنا زندگی کی تصوّرکی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ اس نظم کے بنیادی استعارے سے جو تلازمات جنم لیتے ہیں وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں موت کی ناگزیرحقیقت کے سا تھ’دئیے کا بجھنا ‘  کنول کا کمھلانا  راگنیوں کا سوجانا  اور زندگی کے تسلسل کے تلازمے کے طور پر بچوں کے د ہن سے بولنا چڑیوں کی زباں سے گانا  آنکھوں کو کھولنا انداز سخن بن جانا جیسے اظہار ایک طرف دوسرے کے تقابل اور تخالف کا منظر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف ایک اس تقابلی صورت حال میں زندگی کے تسلسل کا سا ختیہ بن جاتے ہیں

میں رنگ حنا آہنگِ غزل

اندازِ سخن بن جاﺅں گا

رخسارِ عروس نو کی طرح

ہر آنچل سے چھن جاﺅں گا

جاڑوں کی ہوائیں دامن میں

جب فصل خزاں کو لائیں گی

سوکھے ہوئے پتوّں سے میرے

ہنسنے کی صدائیں آئیں گی

دھرتی کی نیلی سب جھیلیں

ہنسی سے میری بھر جائیں گی

اور سارا زمانہ دیکھے گا

ہر قصّہ میرا افسانہ ہے

ہر عاشق ہے سردار یہاں

ہر معشوقہ سلطانہ ہے

اس بند میں سردار جعفری نے حسّی اور تخلیقی تجربات کو ایسے لسانی ساختیے  میں ڈھالا ہے کہ تجربہ دانشوارانہ پیشن گوئی میں تبدیل ہوجاتا ہے سردار جعفری کے یہاں زندگی کے تسلسل کے تلازمے آوازوں کی بالادستی میں اس طرح تبدیل ہو جاتے ہیں کہ نظم کا جمالیاتی آہنگ دوبالا ہوجاتا ہے ۔ اس نظم میں دانش وارانہ غورو فکر سے سردار جعفری کی جو وابستگی ملتی ہے اس کے بیان میں شعری و سائل کا استعمال اسے اکہرے پن سے محفوظ رکھتا ہے

میں ایک گریزاں لمحہ ہوں

ایاّم کے افسوں خانے میں

میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں

مصروفِ سفر جو رہتا ہوں

ماضی کی صُراحی کے دِل سے

مستقبل کے پیمانے میں

میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں

اور جاگ کے پھر سوجاتا ہوں

صدیوں کا پُرانا کھیل ہوں میں

میں مَر کے امر ہو جاتا ہوں

اس نظم میں لسانی تنوع کے ساتھ دانشوارنہ گہرائی کا جو ارتقا ملتا ہے وہ دانش وارنہ ارتکاز اور شعری آہنگ میں ڈھل کر نظم کی پہچان کو باقی رکھتا ہے ۔ اس نظم میں تضادات کاتصادم متن میں نئی معنویت کو جنم دیتا ہے اور ساختیاتی وحدت کے دو مختلوف مزاجوں کو ابھارتا ہے لسانی سطح پر اس بند میں ”بچّے“ ”کونپل “ اور”کلی “کا استعمال نظم کو ایک نئی معنویت سے آشنا کراتا ہے ۔ ان تلازمات کا استعمال زندگی کی ارتقائی سفر سے عبارت ہے ۔ خاتمہ درحقیقت ابتدا کی علامت ہے۔ لہذاہم کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری نظم کی ساخت میں جہاں ایک طرف تازگی ،ندرت، تہداری اور گہرائی ہے وہاں ایسی سادگی اور بے ساختگی ہے جو قاری کو اپنے قریب لیتی ہے

سردار جعفری نے اس نظم کو ہندوستانی مزاج دینے کی کوشش کی ہے ۔ اور ایسی فضا کی تخلیق کی ہے جس میں ہندوستانی ماحول ہندوستانی روایت اوراپنی زمین سے قربت کا احساس ہوتا ہے ۔

دیدبان شمارہ۔ ۱

سردار جعفری کی نظم ...  میرا سفر... کا ساختیاتی آہنگ

اس کائنات کی ہر چیز کسی نہ کسی طورپر اپنی ساختیے کا احساس دلاتی ہے ۔ اپنی ساخت کے بغیر ہر چیز بے شناخت ہوکر رہ جاتی ہے ۔ یہی  وجہ ہے کہ تخلیقی عمل بھی ساختیے کو تشکیل دیتے ہیں ۔ تخلیقی عمل میں یہ ساختیہ نحو آہنگ اور اوزان کا ہوتا ہے اور یہ اجزائے ترکیبی ادب کے ساختیے کو تشکیل دیتے ہیں ۔ ادب کے مطالعے میں ان ساختیوں کی خاص اہمیت ہوتی ہے کیونکہ یہ ساختیے متن کو نئی جمالیات سے متعارف کراتے ہیں اور داخلی سطح پر سیاق اور مواد میں نئے معانی کا انکشاف کرتے ہیں ۔ ساختیات بنیادی طورپر ادراک ِ حقیقت کا اصول ہے ۔ ساختیات میں ساخت کا تصوّر فرڈی ننڈ ڈی سوسئرسے ماخوذ ہے جہاں زبان کی ساخت سے مراد زبان کے مختلف عناصر کے درمیان رشتوں کا وہ نظام ہے جس کی بنا پر زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ ساخت کا تصوّر چوں کہ تحریری تصوّر ہے لہٰذا اس کی وضاحت آسان نہیں ۔ تاہم سردار جعفری کی نظم میرا سفر کے تجربے سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ سردار جعفری کی نظم   میرا سفر  بظاہر ایک عام سی نظم ہے لیکن جب اس نظم کے مختلف اجزاءکو سمیٹا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم شاعر کے ذہنی ساختیے سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس نظم میں جو چھوٹے بڑے ساختیے نظر آتے ہیں وہ سب کے سب ایک ایسے فکری پیٹرن کے ساختیے ہیں جو زبان و مکان کی حرکیات سے اپنی صورت بدل لینے کے باوجود ایک ساختیاتی حصار میں بندھے نظر آتے ہیں ۔

انسانی ذہن کا ساختیہ تضادات سے وجود میں آتا ہے اشیا سے اپنا ماحولیاتی رشتہ قائم کرتا ہے ۔ تضادات کے تصادم کی یہ کیفیت اگر ایک جانب انسانی ذہن کے ساختیے کو تشکیل دیتی ہے تو دوسری جانب ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔ اس نظم میں بھی تضادات کا یہ تصادم نظم کے فکری ساختیے  کو کچھ یوں آگے بڑھاتا ہے کہ اس نظم کی فکر و معنویت کی گرہیں جتنی کھولی جاتی ہیں نظم میں دلچسپی بڑھتی جاتی ہے،۔” میرا سفر‘ ‘ تین بندوں پر مشتمل ہے ۔ ان تضادات کے تصادام کے مناظر زندگی کے لامختتم تسلسل(CONTINUM) کو پیش  کرنے میں  نمایاں  کردار  ادا کرتے ہیں - بندوں میں

پھر اِک دِن ایسا آئے گا

آنکھو ں کے دیے بجھ جائیں گے

ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے

اور برگِ زبان سے نطق و صدا

کی ہر تتلی اُڑ جائے گی

۔ ۔ ۔

لیکن میں یہاں پھر آﺅں گا

بچوّں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاﺅں گا

نظم کے یہ دوفکری ساختیے  نظم کی معنویت کو تشکیل دیتے ہیں ۔ تضادات کے اس تصادم کی وجہ سے قاری کا ذہن نظم کی معنویت کو قبول کرلیتا ہے کیونکہ یہ تصادم قاری کے تجربے کی بنیاد بن کر حقیقت کا روپ دھارتا ہے ۔ شاعر کے اس خیال

پھر اِک دن ایسا آئے گا

آنکھوں کے دیے بجھ جائیں گے

ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے

اور برگِ زبان سے نطق و صدا

کی ہر تتلی اُڑ جائے گی

کی قبولیت تجربے کی بنا پر جنم لیتی ہے اور معاشرتی نظام کا حصّہ بن جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرتی ساختیہ اس نظم کے فکری ساختیے   کو جنم دیتا ہے ۔ بالفاظ دیگر اس نظم کا تمام تانا بانا انسانی تجربات کے شعوری اور غیر شعوری محروکات سے شروع ہوتا ہے اور واقعات کو کچھ یوں تشکیل دیتا ہے کہ اس کی ترتیب نظم کے تضادات کے تصادم کو اُجاگر کرتی ہے ۔

نظم کے پہلے بند میں محرومی یا انبساط کی جو کیفیت نظر آتی ہے اس کی وجہ وہ Images ہیں  جس کا استعمال سردار ر جعفری نے اس بند میں کیا ہے- یعنی اس بند کا لسانی ساختیہ نظم کے دوسرے بند کے لسانی ساختیے سے قطعی مختلف ہے ۔

نظم کے پہلے بند میں.. دیے بجھ جائیں گے۔ ”کنول کمھلائیں گے “۔ ”تتلی اُڑ جائے گی“ ۔”شکلیں کھوجائیں گی“ ۔ ”راگنیا ں سوجائیں گی“ ۔ ”شبنم کی طرح رو جائیں گی “۔ جیسے لسانی ساختیے  محرومی کی کیفیت کے ابلاغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بے قراری اور اضطرب کی کیفیت کے اظہار کے لئے سردار جعفری نے اس بند میں      حروف  ربط  (relative pronouns)سے محروم فقروں کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ بے قراری اور اضطرابی کی کیفیت واضح طور پر ابھر آتی ہے ۔

اک کالے سمندر کے تہہ میں

کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی

پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی

ساری شکلیں کھوجائیں گی

خوں کی گردش دل کی دھڑکن

سب راگنیاں سوجائیں گی

مندرجہ بالا مثال میں حروف ربط سے محروم فقروں کا استعمال اگر ایک جانب بے قراری اور اضطرابی کی کیفیت کو واضح کرتا ہے تو دوسری جانب اس بند کا ہر مصرعہ اپنا ابلاغ قاری سے اس لئے بہتر طورپر کرتا ہے کہ اس کے طے شدہ معنی انسانی تجربے میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سردار جعفری لسانی ساختیے  کو اپنی روایت سے قبول کر لیتے ہیں مگر اس بات کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صفت کا اضافہ بھی کردیتے ہیں جو اس لسانی ساختیے کو استعاراتی پیکر میں تبدیل کر دیتا ہے ۔

نظم کے پہلے بند میں بعض لسانی ساختیے  نظم سے اس حدتک وابستہ رہے ہیں کہ ان کی معنوی تعینات اور تکرار کے باعث انھیں موٹیف کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ اس پورے بند میں معنویت کے اظہار کو مختلف سمتوں سے بیان کیا گیا ہے ۔اس بند کی قراَت نظم کے متن اور اس کی معنویت میں کسی قسم    کے مغالطوں کو نہیں ابھارتی بلکہ روحانی دلکشی کا سبب بنتی ہے ۔ اس کی ساختیاتی اہمیت کا اندازہ ااس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بند نظم کا پہلا بند ہے ۔ اس ترتیب میں کوئی بھی تبدیلی نظم کے مرکزی خیال کو مجروح کرسکتی ہے ۔ نظم کے دو بند میں تضادات کا تصادم نظم کے قارئین پر مختلف رائے خیال کی جمالیاتی کیفیات کا انکشاف کرتا ہے ۔ اور اس طرح نظم کی تفہیم و تشریح کی نئی ساختیات ابھر کر سامنے آتی ہے ۔

اس نظم کا دوسرا  بند زندگی کے تسلسل یا Cyclic تصوّر کو پیش کرتا ہے ۔

پُنر جنم اس بند میں کے ہندوستانی فلسفے کی جھلک ملتی ہے ۔ یعنی اس بندمیں زندگی کے تسلسل یا  موضوعِ  تصور کو  موضوع سخن بنایا گیا ہے ۔ اس نظم کے پہلے بند میں موت کی ناگزیریت پر حقیقت کے اظہار کے باوجود، زندگی کے تسلسل پر شاعر کا یقین  نظر  آتا  ہے ،اور  اس کا  یہ  یقین دوسرے بند میں الفاظ و معنی کی ترتیب و ترکیب سے جس طور پر ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے اس کی مثال یقینا کم ملتی ہے ۔ گویا یہ نظم تجربے کی آفا قیت کی عمدہ مثال ہے ۔ نظم کے دوسرے بند کی بھی اپنی ایک ساخت ہے جہاں واقعات ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ نظم کے کئی فکری ساختیے  نظم کو آگے بڑھاتے ہیں ۔

لیکن میں یہاں پھر آﺅں گا

بچوّں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاﺅں گا

جب بیج ہنسیگے دھرتی میں

اور کونپلےں اپنی انگلی سے

مٹی کی تہوں کو چھیڑینگی

میں پتّی پتّی کلی کلی

اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا

اس بند کو بغور پڑھنے سے اس بات کا احساس شدّت سے ہوتا ہے کہ اس بند کا لسانی ساختیہ  اور باطنی معاملات نظم کی معنویت کو تشکیل دیتے ہیں ۔ دراصل نظم کی معنویت اس وقت ہی ابھر کر سامنے آتی ہے جب قاری کو اس کی ادراک ہوتا ہے اور وہ اپنے اس ادراک کے تجربے کے حوالے سے ہی نظم کے بنیادی ساخت کو ایک فکری رشتے کے اس پورے بند میں ایسا محسوس ہوتا  ہے  کہ سردار جعفری  کا تخلیقی تجربہ نثری پیکر کی صورت   ساتھ انکشاف کرتا ہے .

میں ان کے حواس پر وارد ہوتا ہے ۔

چنانچہ اس بند میں بچوّں کے دہن  چڑیوں کی زباں  بیج کا ہنسنا  اور کونپلوں کا مٹی کریدنا زندگی کی تصوّرکی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ اس نظم کے بنیادی استعارے سے جو تلازمات جنم لیتے ہیں وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں موت کی ناگزیرحقیقت کے سا تھ’دئیے کا بجھنا ‘  کنول کا کمھلانا  راگنیوں کا سوجانا  اور زندگی کے تسلسل کے تلازمے کے طور پر بچوں کے د ہن سے بولنا چڑیوں کی زباں سے گانا  آنکھوں کو کھولنا انداز سخن بن جانا جیسے اظہار ایک طرف دوسرے کے تقابل اور تخالف کا منظر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف ایک اس تقابلی صورت حال میں زندگی کے تسلسل کا سا ختیہ بن جاتے ہیں

میں رنگ حنا آہنگِ غزل

اندازِ سخن بن جاﺅں گا

رخسارِ عروس نو کی طرح

ہر آنچل سے چھن جاﺅں گا

جاڑوں کی ہوائیں دامن میں

جب فصل خزاں کو لائیں گی

سوکھے ہوئے پتوّں سے میرے

ہنسنے کی صدائیں آئیں گی

دھرتی کی نیلی سب جھیلیں

ہنسی سے میری بھر جائیں گی

اور سارا زمانہ دیکھے گا

ہر قصّہ میرا افسانہ ہے

ہر عاشق ہے سردار یہاں

ہر معشوقہ سلطانہ ہے

اس بند میں سردار جعفری نے حسّی اور تخلیقی تجربات کو ایسے لسانی ساختیے  میں ڈھالا ہے کہ تجربہ دانشوارانہ پیشن گوئی میں تبدیل ہوجاتا ہے سردار جعفری کے یہاں زندگی کے تسلسل کے تلازمے آوازوں کی بالادستی میں اس طرح تبدیل ہو جاتے ہیں کہ نظم کا جمالیاتی آہنگ دوبالا ہوجاتا ہے ۔ اس نظم میں دانش وارانہ غورو فکر سے سردار جعفری کی جو وابستگی ملتی ہے اس کے بیان میں شعری و سائل کا استعمال اسے اکہرے پن سے محفوظ رکھتا ہے

میں ایک گریزاں لمحہ ہوں

ایاّم کے افسوں خانے میں

میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں

مصروفِ سفر جو رہتا ہوں

ماضی کی صُراحی کے دِل سے

مستقبل کے پیمانے میں

میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں

اور جاگ کے پھر سوجاتا ہوں

صدیوں کا پُرانا کھیل ہوں میں

میں مَر کے امر ہو جاتا ہوں

اس نظم میں لسانی تنوع کے ساتھ دانشوارنہ گہرائی کا جو ارتقا ملتا ہے وہ دانش وارنہ ارتکاز اور شعری آہنگ میں ڈھل کر نظم کی پہچان کو باقی رکھتا ہے ۔ اس نظم میں تضادات کاتصادم متن میں نئی معنویت کو جنم دیتا ہے اور ساختیاتی وحدت کے دو مختلوف مزاجوں کو ابھارتا ہے لسانی سطح پر اس بند میں ”بچّے“ ”کونپل “ اور”کلی “کا استعمال نظم کو ایک نئی معنویت سے آشنا کراتا ہے ۔ ان تلازمات کا استعمال زندگی کی ارتقائی سفر سے عبارت ہے ۔ خاتمہ درحقیقت ابتدا کی علامت ہے۔ لہذاہم کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری نظم کی ساخت میں جہاں ایک طرف تازگی ،ندرت، تہداری اور گہرائی ہے وہاں ایسی سادگی اور بے ساختگی ہے جو قاری کو اپنے قریب لیتی ہے

سردار جعفری نے اس نظم کو ہندوستانی مزاج دینے کی کوشش کی ہے ۔ اور ایسی فضا کی تخلیق کی ہے جس میں ہندوستانی ماحول ہندوستانی روایت اوراپنی زمین سے قربت کا احساس ہوتا ہے ۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024