صاعقہ علی نوری کی نظمیں
صاعقہ علی نوری کی نظمیں
Sep 25, 2023
دیدبان شمارہ مئ تا اگست
صاعقہ علی نوری۔ اسلام آباد ، پاکستان
نظم:حیاتِ نو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے رتھ پہ محوِ سفر یاد تھی
کتنی صدیاں تھیں لمحوں کی تحویل میں
کیسے منظر تھے آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے
کتنے خدشوں کے پہرے تھے دل پہ لگے
ہر طرف تھا اداسی کا گہرا سماں
زندگی کا سفر کٹ رہا تھا مگر
کتنے نالے تھے سینے سے لپٹے ہوئے
خامشی سے رواں
سوزِ دل پھر قفس تنگ کرنے لگا
رہگزارِ نفَس پر اُگیں دقتیں
تھم رہا تھا سماں
پلکیں بھاری ہوئیں
لمحہ لمحہ زمیں سے ملانے لگا
ٹوٹتی سانس، الجھی ہوئی سوچ سے
سارے منظر یکے بعد دیگر سمٹنے لگے
آنکھ بجھنے لگی سانس اکھڑنے لگی
لہر اٹھی درد کی پھر تنِ خام سے
ایسی شدت کہ ابلی نگاہِ جمال
اک تڑپ تھی فنا سے بقا کی طرف
وقت کا دائرہ گردشوں میں گھرا
زندگی سے تعلق کا انجام دیکھ
بے صدا تھی سماعت پہ ہل چل ہوئی
سن ہوئے ذہن میں یاد لہرا گئی
بہتے جھرنے
وہ سر سبز اونچے پہاڑ
اور ان کے عقب میں کھڑا ہم نشیں
یوں اچانک مڑا مسکراتا ہوا
چار سو رقص کرنے لگیں تتلیاں
دھڑکنیں منتشر
سانس رکتی ہوئی
اس کی نظروں میں آتے ہی چلنے لگیں
کھلکھلاتی ہنسی، آنکھ جادو بھری
روح پر چھا گئی
زندگی بن گئی
صاعقہ علی نوری۔ اسلام پاکستان
نظم :بےچہرگی کا دُکھ
حرف و معنیٰ کی تعبیر سے کچھ پرے
ایسا نوری بدن ، ایک اجلی کرن
از زمیں تا فلک جس کی ہر سو لپک
میرے اجڑے ہوئے دل پہ وارد ہوا
جاں فزا بن گیا
فہم کے زائچوں سے جو ہے ماورا
چشمِ دل لامکاں تک اسے دیکھتی
گویا سورج مکھی
ذرے ذرے میں جب اس کی پائی ضیا
سر خوشی میں تواتر سے رقصاں ہوئی
مست کرتی ہوئی وجد کی راگنی
روح پر چھا گئی
اے وہ آنکھوں سے اوجھل مرے راز داں!
کتنی نظروں کے پردوں میں رکھتے ہو تم
دھڑکنیں، سانس چلنے کی آواز ہیں
دوڑتے ہیں لہو کے شرارے کہیں
لمحے لمحے کو قیدی بنائے ہوئے
شش جہت میں تری ہی نگاہِ جمال
تجھ پہ ظاہر ہے میری تمنا کا حال
اک فسوں خیز لمحے میں سمٹی ہوئی
زندگی چاہتی ہے کوئی سلسلہ
لاکھ پردے چھپا لیں تری ذات کو
دل پہ طاری ہو تیرے فسوں کی ردا
میری نظروں میں آ
دیدبان شمارہ مئ تا اگست
صاعقہ علی نوری۔ اسلام آباد ، پاکستان
نظم:حیاتِ نو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے رتھ پہ محوِ سفر یاد تھی
کتنی صدیاں تھیں لمحوں کی تحویل میں
کیسے منظر تھے آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے
کتنے خدشوں کے پہرے تھے دل پہ لگے
ہر طرف تھا اداسی کا گہرا سماں
زندگی کا سفر کٹ رہا تھا مگر
کتنے نالے تھے سینے سے لپٹے ہوئے
خامشی سے رواں
سوزِ دل پھر قفس تنگ کرنے لگا
رہگزارِ نفَس پر اُگیں دقتیں
تھم رہا تھا سماں
پلکیں بھاری ہوئیں
لمحہ لمحہ زمیں سے ملانے لگا
ٹوٹتی سانس، الجھی ہوئی سوچ سے
سارے منظر یکے بعد دیگر سمٹنے لگے
آنکھ بجھنے لگی سانس اکھڑنے لگی
لہر اٹھی درد کی پھر تنِ خام سے
ایسی شدت کہ ابلی نگاہِ جمال
اک تڑپ تھی فنا سے بقا کی طرف
وقت کا دائرہ گردشوں میں گھرا
زندگی سے تعلق کا انجام دیکھ
بے صدا تھی سماعت پہ ہل چل ہوئی
سن ہوئے ذہن میں یاد لہرا گئی
بہتے جھرنے
وہ سر سبز اونچے پہاڑ
اور ان کے عقب میں کھڑا ہم نشیں
یوں اچانک مڑا مسکراتا ہوا
چار سو رقص کرنے لگیں تتلیاں
دھڑکنیں منتشر
سانس رکتی ہوئی
اس کی نظروں میں آتے ہی چلنے لگیں
کھلکھلاتی ہنسی، آنکھ جادو بھری
روح پر چھا گئی
زندگی بن گئی
صاعقہ علی نوری۔ اسلام پاکستان
نظم :بےچہرگی کا دُکھ
حرف و معنیٰ کی تعبیر سے کچھ پرے
ایسا نوری بدن ، ایک اجلی کرن
از زمیں تا فلک جس کی ہر سو لپک
میرے اجڑے ہوئے دل پہ وارد ہوا
جاں فزا بن گیا
فہم کے زائچوں سے جو ہے ماورا
چشمِ دل لامکاں تک اسے دیکھتی
گویا سورج مکھی
ذرے ذرے میں جب اس کی پائی ضیا
سر خوشی میں تواتر سے رقصاں ہوئی
مست کرتی ہوئی وجد کی راگنی
روح پر چھا گئی
اے وہ آنکھوں سے اوجھل مرے راز داں!
کتنی نظروں کے پردوں میں رکھتے ہو تم
دھڑکنیں، سانس چلنے کی آواز ہیں
دوڑتے ہیں لہو کے شرارے کہیں
لمحے لمحے کو قیدی بنائے ہوئے
شش جہت میں تری ہی نگاہِ جمال
تجھ پہ ظاہر ہے میری تمنا کا حال
اک فسوں خیز لمحے میں سمٹی ہوئی
زندگی چاہتی ہے کوئی سلسلہ
لاکھ پردے چھپا لیں تری ذات کو
دل پہ طاری ہو تیرے فسوں کی ردا
میری نظروں میں آ