روح کی ہجرت
روح کی ہجرت
Feb 4, 2023
دیدبان شمارہ۔ ۱۷ ۲۰۲۳
روح کی ہجرت
ابو فہد ندوی
جس دن اس کی بیوی کا انتقال ہوا ، اس دن وہ اس کی قبر کے پاس بیٹھ کر بہت رویا، حالانکہ زندگی میں اس سے بات بے بات لڑتا جھگڑتا رہتا تھا۔اسے بچوں کی طرح روتا بلکتادیکھ کر اس کے دوست یہ سوچ کر بہت حیران ہوئے کہ کیا کوئی آدمی اُسی چیز کے نا ہونے پر اتنا بےتاب ہوسکتاہے، جس کے ہونے پر بھی اسے تکلیف رہی ہو؟آخریہ کس طرح کی زندگی ہے کہ آدمی کے لیے ایک چیز کانہ ہونا بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ اس کا ہونا ۔کیا زندگی کے بے شمار نادیدہ عناصر میں راحت نام کا کوئی عنصر نہیں؟
راحت اس سے صرف پانچ سال چھوٹی تھی مگر وہ اس کے لیے ہمیشہ جوان ہی تھی کہ وہ اس کے لیے چاروں ہاتھ پیروں سے دن رات بنا رُکے کام کرتی تھی۔ بڑھاپے کی اس دہلیز پر آکر اسے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی بیوی کی حیثیت اس کی زندگی کے انجن کی سی ہے۔ اگر وہ نہ رہے تو وہ مزید ایک دن بھی نہیں گزار پائے گا۔ راحت کے انتقال کے بعد ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ اگلے ہی دن مرگیا ، وہ زندہ ضرور رہا مگر اس کا جینا گویا مرمرکر جینے جیسا تھا۔
آج جب وہ نہیں رہی تھی تو خوداسے بھی یہ احساس قتل کیے دے رہا تھا کہ جب وہ اس کے پاس تھی تب اسے اس کے ہونے کا احساس اتنی شدت کے ساتھ کیوں نہ ہوسکا جتنی شدت کے ساتھ آج اس کے نہ ہونے کا احساس ہورہا ہے، جب وہ اس کے پاس نہیں ہے ۔ راحت سچ مچ راحتِ جاں تھی۔مگر یہ بات اس نے زندگی کے آخری پڑاؤ پر آکر جانی ،جب راحت کی ضرورت اس کے سامنے بہت بڑی ضرورت بن کر آن کھڑی ہوئی۔
موت صرف جسم پر واقع ہوتی ہے، روح پر واقع نہیں ہوتی،روح صرف انتقال کرتی ہے۔جب تمہاری روح بھی تمہارے جسم سےخدائے لم یزل کی جنتوں کی طرف ہجرت کرے گی تو دونوں روحوں کا ایک بار پھر ملن ہوگا۔ اٹھو اور رونا دھونا چھوڑو، صبر کرو اور انتظار کرو۔ کسی دانا شخص نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے تسلی دینے کی کوشش کی،مگراسے کسی بھی صورت قرار نہیں آرہا تھا۔ وہ بے تحاشہ روئے جارہا تھا، اس نے اپنا چہرہ بھی خاک آلود کرلیا تھا۔
ایک روح عالم بالا میں مقیم دوسری روحوں سے جاملی ہے اور پیچھے رہ جانے والوں پر صبر کے سوا کچھ اور فرض نہیں۔داناشخص نے اس کے شانے پر پھر سےہاتھ رکھا ۔مگر وہ اس بار بھی بے حس رہا۔
بیوی کی قبر پر جب وہ جی بھر کر رولیا ، یہاں تک کہ روتے روتے تھک گیا اور پیاس کی شدت اس سے تقاضہ کرنے لگی کہ اب اسے دوسری حالت کی طرف پھرنے کی ضرورت ہے ، تواس نے آنسو پونچھ ڈالے۔ اگر وہ جسم کے مطالبات سے مجبور نہ ہوتا تو خداجانے ابھی اور کتنی دیر تک روتا رہتا۔ جب وہ قبر سے اٹھنے لگا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ اسے احساس ہوا کہ اب وہ بھی جلد یا بدیر اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔کچھ دیر کے لیے وہ بے جان سا ہوگیا،اسے خیال گزرا کہ اس نے بیوی کی موت کی صورت میں گویا اپنی مقروض زندگی کی پہلی قسط ادا کی ہے۔کہ وہ اس کی جان سے الگ ہونے کے باوجود بھی اس کی جان کا حصہ تھی۔
بیٹا یہ تو چھوٹی ہجرت ہے ہر انسان کو اس سے بڑی ہجرت بھی کرنی ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کی ماں نے اسے اس کے ایک پریشان کن سوال پر بتایا تھا، مگر اس وقت وہ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا،اس کے والدین کو اپنے وطن سے ہجرت کرنا پڑی تھی،جب وہ پکڈنڈیوں اور ناہموار راستوں پر چلتے چلتے تھک گیاتھا تو اس نے اپنی ماں سے سوال کیاتھا، ماں ہم کہاں جارہے ہیں اور ہم نے اپنا گھر کیوں چھوڑ دیا ہے۔ تو ماں نے جواب دیا تھا بیٹا ہم ہجرت کررہے ہیں ۔یہ چھوٹی ہجرت ہے اور یہ بڑی ہجرت کی تیاری کے طوپر ہے۔اسے داناشخص کی باتوں سے ماں کی باتیں یاد آنے لگیں،اسے اس بات پر بھی حیرانی ہوتی تھی کہ ماں تو پڑھی لکھی نہیں تھی ،پھر بھی اتنی گہری باتیں وہ کیسے جانتی تھی۔
بوڑھے حبیب کو جب جب بھی یہ خیال شدت کے ساتھ ستاتھا کہ اس کی تمام ذہنی و جسمانی صلاحتیں ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑتی جارہی ہیں،تو وہ کانپ کر رہ جاتا اور بھرائی ہوئی آواز میں خدا سے ہم کلام ہوتا۔ ’اے خدا کیا تو مجھے قسطوں میں ماررہا ہے؟‘ مگر دوسری طرف سے اسے کبھی بھی کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ حالانکہ اس نے سنا تھا کہ خدا سب سنتا ہے، دلوں کی سرگوشیوں کو بھی۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کا یہ احساس شدت اختیار کرتا جارہا تھاکہ دنیا اس سے دور بھاگتی جارہی ہے۔
دھیرے دھیرے وقت گزرتا رہا اور وہ اپنے جسم کے حصے موت کے فرشتے کو قسط در قسط ادا کرتا رہا۔ ابتدا میں قسطوں کی ادائیگی کا وقفہ طویل تھا بعد میں جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا قسطوں کی ادائیگی کا فاصلہ گھٹتا چلا گیا۔اب تقریبا ہر روزہی کوئی نہ کوئی ایسا وقوعہ ظہورپذیر ہوہی جاتا تھا جو اس کی زندگی سے ایک قسط وصول کرموت کے حصے میں ڈال دیتا تھا۔اب ہر واقعے کی حیثیت موت رخی ہوگئی تھی، جس طرح سورج مکھی کے کھیت میں سورج مکھی کے ہر پھول کارخ سورج کی طرف ہوتا ہے، اسی طرح اس کی زندگی میں پیش آنے والا ہر چھوڑا بڑا واقعہ اسے موت کی طرف ایک قدم دکھیل دیتا تھا۔زندگی جب عروج کے رخ پر ہوتی ہے تو زندگی کے تمام کَل پُرزے عروج کرتے ہیں اورزندگی جب زوال آمادہ ہوتی ہے تو اس کے تمام کَل پُرزے زوال کی طرف سفرکرتے ہیں۔
ایک رات جب اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اب وہ کھانے پینےاور وصل وملاقات کی لذتوں کا بھی متحمل نہیں رہا۔کیونکہ اب وہ لذتیں بہم پہنچانے والی قوتوں سے محروم ہوگیا تھا۔اگر معدہ درست کام نہ کرے تو کھانے پینے کی کیا لذت ؟اور جسم میں موجود عناصرکا توازن بگڑنے لگے تو شبِ وصل و شب ہجراں میں فرق کیسا۔؟یہ سب جان کر اسے شدید رنج ہوا، اسے ایسا لگا جیسے اس صورت میں بھی اس نے اپنے جسم کی کئی قسطیں موت کے فرشتے کو ادا کی ہیں۔
قسطوں کی ادائیگی کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور وہ ستر کی دہائی کو عبور کرگیا۔ پہلے بال گئے، پھر دانت گئے اور پھر بینائی نے طوطا چشمی اختیار کرلی۔ اور دل کا کیا تھا ، وہ تو بس ایسے ہی ہوگیاتھا جیسےبہتے پانی میں ڈوبتاابھرتا کوئی بے کس انسان ۔جب بھی کوئی اسے بتاتا کہ آج کل دل کے امراض بہت بڑھ گئے ہیں تو وہ رنجیدہ خاطر ہوجاتا، اسے لگتا جیسے وہ بھی دل کا مریض ہے۔
جب اس کا آخری وقت آیا تو وہ ہڈیوں کے ایک پنجرکے مانند تھا، اب دماغ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اپنے ماتحت تمام اعضاء کو حکم دے سکے ۔اگر وہ کسی عضو کو حکم کرتا بھی تھا تو اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ اس حکم کی بجاآوری کرسکے۔ ایک بار اس نے داہنے ہاتھ کو حکم دیا کہ اس کی ناک پر بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کو بھگائے، ہاتھ نے حکم سنا اور حکم بجالانے کی کوشش میں سرہانے رکھے تکئے سے اٹھنے کے جتن کئے ، ناک کے محاذات تک آیا مگر پھر بے جان ہوکر گر گیااور پھر دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ایک بار اس نے ڈوبتے ابھرتے دل کو اسٹیبل رہنے کو کہا، دل نے سنابھی اور بہت چاہا بھی کہ وہ اسٹیبل رہ سکے، کیونکہ وہ اپنےصاحب کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا تھا، اس کوشش میں وہ بار بار ابھرا.. اورپھر ابھرکر اسٹیبل رہنے کی جان توڑکوشش میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔
دل کےجانے کی صورت میں یہ آخری قسط تھی جو اس نے موت کے فرشتے کو اس طرح ادا کی کہ اب اس کاسارا حساب بے باق ہوگیاتھا۔ جب روح نے محسوس کیا کہ یہ مکان اس کے لیے موزوں نہیں رہاتو وہ بھی فی الفور دبے پاؤں گوشت پوست اور ہڈیوں کا ڈھانچہ چھوڑ کر دوسری روحوں کے دیس کی طرف پرواز کرگئی۔
آدمی تاحیات سامان اٹھائے پھرتا ہے مگر اس کے ساتھ تو خود اس کا جسم بھی نہیں جاتا، سامان تو دو ر کی بات ہے۔ اس کی امی کہا کرتی تھیں ، مگر اس نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا۔جب روح جو زندگی کا جوہر ہے ، وہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی تو اس کے باقی ماندہ جسم کو مٹی میں دفن کردیا گیا اور اس طرح جو مٹی کا قرض تھا وہ مٹی کوواپس کردیا گیا اور جو چیز راست طورپر خدا کے اَمر سے تھی یعنی روح ، وہ خدا کی وشال نگری کی طرف ہجرت کرگئی۔
ابوفہد ندوی
دیدبان شمارہ۔ ۱۷ ۲۰۲۳
روح کی ہجرت
ابو فہد ندوی
جس دن اس کی بیوی کا انتقال ہوا ، اس دن وہ اس کی قبر کے پاس بیٹھ کر بہت رویا، حالانکہ زندگی میں اس سے بات بے بات لڑتا جھگڑتا رہتا تھا۔اسے بچوں کی طرح روتا بلکتادیکھ کر اس کے دوست یہ سوچ کر بہت حیران ہوئے کہ کیا کوئی آدمی اُسی چیز کے نا ہونے پر اتنا بےتاب ہوسکتاہے، جس کے ہونے پر بھی اسے تکلیف رہی ہو؟آخریہ کس طرح کی زندگی ہے کہ آدمی کے لیے ایک چیز کانہ ہونا بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ اس کا ہونا ۔کیا زندگی کے بے شمار نادیدہ عناصر میں راحت نام کا کوئی عنصر نہیں؟
راحت اس سے صرف پانچ سال چھوٹی تھی مگر وہ اس کے لیے ہمیشہ جوان ہی تھی کہ وہ اس کے لیے چاروں ہاتھ پیروں سے دن رات بنا رُکے کام کرتی تھی۔ بڑھاپے کی اس دہلیز پر آکر اسے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی بیوی کی حیثیت اس کی زندگی کے انجن کی سی ہے۔ اگر وہ نہ رہے تو وہ مزید ایک دن بھی نہیں گزار پائے گا۔ راحت کے انتقال کے بعد ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ اگلے ہی دن مرگیا ، وہ زندہ ضرور رہا مگر اس کا جینا گویا مرمرکر جینے جیسا تھا۔
آج جب وہ نہیں رہی تھی تو خوداسے بھی یہ احساس قتل کیے دے رہا تھا کہ جب وہ اس کے پاس تھی تب اسے اس کے ہونے کا احساس اتنی شدت کے ساتھ کیوں نہ ہوسکا جتنی شدت کے ساتھ آج اس کے نہ ہونے کا احساس ہورہا ہے، جب وہ اس کے پاس نہیں ہے ۔ راحت سچ مچ راحتِ جاں تھی۔مگر یہ بات اس نے زندگی کے آخری پڑاؤ پر آکر جانی ،جب راحت کی ضرورت اس کے سامنے بہت بڑی ضرورت بن کر آن کھڑی ہوئی۔
موت صرف جسم پر واقع ہوتی ہے، روح پر واقع نہیں ہوتی،روح صرف انتقال کرتی ہے۔جب تمہاری روح بھی تمہارے جسم سےخدائے لم یزل کی جنتوں کی طرف ہجرت کرے گی تو دونوں روحوں کا ایک بار پھر ملن ہوگا۔ اٹھو اور رونا دھونا چھوڑو، صبر کرو اور انتظار کرو۔ کسی دانا شخص نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے تسلی دینے کی کوشش کی،مگراسے کسی بھی صورت قرار نہیں آرہا تھا۔ وہ بے تحاشہ روئے جارہا تھا، اس نے اپنا چہرہ بھی خاک آلود کرلیا تھا۔
ایک روح عالم بالا میں مقیم دوسری روحوں سے جاملی ہے اور پیچھے رہ جانے والوں پر صبر کے سوا کچھ اور فرض نہیں۔داناشخص نے اس کے شانے پر پھر سےہاتھ رکھا ۔مگر وہ اس بار بھی بے حس رہا۔
بیوی کی قبر پر جب وہ جی بھر کر رولیا ، یہاں تک کہ روتے روتے تھک گیا اور پیاس کی شدت اس سے تقاضہ کرنے لگی کہ اب اسے دوسری حالت کی طرف پھرنے کی ضرورت ہے ، تواس نے آنسو پونچھ ڈالے۔ اگر وہ جسم کے مطالبات سے مجبور نہ ہوتا تو خداجانے ابھی اور کتنی دیر تک روتا رہتا۔ جب وہ قبر سے اٹھنے لگا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ اسے احساس ہوا کہ اب وہ بھی جلد یا بدیر اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔کچھ دیر کے لیے وہ بے جان سا ہوگیا،اسے خیال گزرا کہ اس نے بیوی کی موت کی صورت میں گویا اپنی مقروض زندگی کی پہلی قسط ادا کی ہے۔کہ وہ اس کی جان سے الگ ہونے کے باوجود بھی اس کی جان کا حصہ تھی۔
بیٹا یہ تو چھوٹی ہجرت ہے ہر انسان کو اس سے بڑی ہجرت بھی کرنی ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کی ماں نے اسے اس کے ایک پریشان کن سوال پر بتایا تھا، مگر اس وقت وہ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا،اس کے والدین کو اپنے وطن سے ہجرت کرنا پڑی تھی،جب وہ پکڈنڈیوں اور ناہموار راستوں پر چلتے چلتے تھک گیاتھا تو اس نے اپنی ماں سے سوال کیاتھا، ماں ہم کہاں جارہے ہیں اور ہم نے اپنا گھر کیوں چھوڑ دیا ہے۔ تو ماں نے جواب دیا تھا بیٹا ہم ہجرت کررہے ہیں ۔یہ چھوٹی ہجرت ہے اور یہ بڑی ہجرت کی تیاری کے طوپر ہے۔اسے داناشخص کی باتوں سے ماں کی باتیں یاد آنے لگیں،اسے اس بات پر بھی حیرانی ہوتی تھی کہ ماں تو پڑھی لکھی نہیں تھی ،پھر بھی اتنی گہری باتیں وہ کیسے جانتی تھی۔
بوڑھے حبیب کو جب جب بھی یہ خیال شدت کے ساتھ ستاتھا کہ اس کی تمام ذہنی و جسمانی صلاحتیں ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑتی جارہی ہیں،تو وہ کانپ کر رہ جاتا اور بھرائی ہوئی آواز میں خدا سے ہم کلام ہوتا۔ ’اے خدا کیا تو مجھے قسطوں میں ماررہا ہے؟‘ مگر دوسری طرف سے اسے کبھی بھی کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ حالانکہ اس نے سنا تھا کہ خدا سب سنتا ہے، دلوں کی سرگوشیوں کو بھی۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کا یہ احساس شدت اختیار کرتا جارہا تھاکہ دنیا اس سے دور بھاگتی جارہی ہے۔
دھیرے دھیرے وقت گزرتا رہا اور وہ اپنے جسم کے حصے موت کے فرشتے کو قسط در قسط ادا کرتا رہا۔ ابتدا میں قسطوں کی ادائیگی کا وقفہ طویل تھا بعد میں جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا قسطوں کی ادائیگی کا فاصلہ گھٹتا چلا گیا۔اب تقریبا ہر روزہی کوئی نہ کوئی ایسا وقوعہ ظہورپذیر ہوہی جاتا تھا جو اس کی زندگی سے ایک قسط وصول کرموت کے حصے میں ڈال دیتا تھا۔اب ہر واقعے کی حیثیت موت رخی ہوگئی تھی، جس طرح سورج مکھی کے کھیت میں سورج مکھی کے ہر پھول کارخ سورج کی طرف ہوتا ہے، اسی طرح اس کی زندگی میں پیش آنے والا ہر چھوڑا بڑا واقعہ اسے موت کی طرف ایک قدم دکھیل دیتا تھا۔زندگی جب عروج کے رخ پر ہوتی ہے تو زندگی کے تمام کَل پُرزے عروج کرتے ہیں اورزندگی جب زوال آمادہ ہوتی ہے تو اس کے تمام کَل پُرزے زوال کی طرف سفرکرتے ہیں۔
ایک رات جب اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اب وہ کھانے پینےاور وصل وملاقات کی لذتوں کا بھی متحمل نہیں رہا۔کیونکہ اب وہ لذتیں بہم پہنچانے والی قوتوں سے محروم ہوگیا تھا۔اگر معدہ درست کام نہ کرے تو کھانے پینے کی کیا لذت ؟اور جسم میں موجود عناصرکا توازن بگڑنے لگے تو شبِ وصل و شب ہجراں میں فرق کیسا۔؟یہ سب جان کر اسے شدید رنج ہوا، اسے ایسا لگا جیسے اس صورت میں بھی اس نے اپنے جسم کی کئی قسطیں موت کے فرشتے کو ادا کی ہیں۔
قسطوں کی ادائیگی کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور وہ ستر کی دہائی کو عبور کرگیا۔ پہلے بال گئے، پھر دانت گئے اور پھر بینائی نے طوطا چشمی اختیار کرلی۔ اور دل کا کیا تھا ، وہ تو بس ایسے ہی ہوگیاتھا جیسےبہتے پانی میں ڈوبتاابھرتا کوئی بے کس انسان ۔جب بھی کوئی اسے بتاتا کہ آج کل دل کے امراض بہت بڑھ گئے ہیں تو وہ رنجیدہ خاطر ہوجاتا، اسے لگتا جیسے وہ بھی دل کا مریض ہے۔
جب اس کا آخری وقت آیا تو وہ ہڈیوں کے ایک پنجرکے مانند تھا، اب دماغ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اپنے ماتحت تمام اعضاء کو حکم دے سکے ۔اگر وہ کسی عضو کو حکم کرتا بھی تھا تو اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ اس حکم کی بجاآوری کرسکے۔ ایک بار اس نے داہنے ہاتھ کو حکم دیا کہ اس کی ناک پر بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کو بھگائے، ہاتھ نے حکم سنا اور حکم بجالانے کی کوشش میں سرہانے رکھے تکئے سے اٹھنے کے جتن کئے ، ناک کے محاذات تک آیا مگر پھر بے جان ہوکر گر گیااور پھر دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ایک بار اس نے ڈوبتے ابھرتے دل کو اسٹیبل رہنے کو کہا، دل نے سنابھی اور بہت چاہا بھی کہ وہ اسٹیبل رہ سکے، کیونکہ وہ اپنےصاحب کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا تھا، اس کوشش میں وہ بار بار ابھرا.. اورپھر ابھرکر اسٹیبل رہنے کی جان توڑکوشش میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔
دل کےجانے کی صورت میں یہ آخری قسط تھی جو اس نے موت کے فرشتے کو اس طرح ادا کی کہ اب اس کاسارا حساب بے باق ہوگیاتھا۔ جب روح نے محسوس کیا کہ یہ مکان اس کے لیے موزوں نہیں رہاتو وہ بھی فی الفور دبے پاؤں گوشت پوست اور ہڈیوں کا ڈھانچہ چھوڑ کر دوسری روحوں کے دیس کی طرف پرواز کرگئی۔
آدمی تاحیات سامان اٹھائے پھرتا ہے مگر اس کے ساتھ تو خود اس کا جسم بھی نہیں جاتا، سامان تو دو ر کی بات ہے۔ اس کی امی کہا کرتی تھیں ، مگر اس نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا۔جب روح جو زندگی کا جوہر ہے ، وہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی تو اس کے باقی ماندہ جسم کو مٹی میں دفن کردیا گیا اور اس طرح جو مٹی کا قرض تھا وہ مٹی کوواپس کردیا گیا اور جو چیز راست طورپر خدا کے اَمر سے تھی یعنی روح ، وہ خدا کی وشال نگری کی طرف ہجرت کرگئی۔
ابوفہد ندوی