پروفیسر شمیم حنفی
پروفیسر شمیم حنفی
May 15, 2021
اردو ادب کا لیجنڈ
یاد رفتگاں
پروفیسر شمیم حنفی( 6مئی-2021-1939)۔۔۔
تحریر : ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری
استاد‘شاعر‘نقاد‘مترجم۔۔۔سردست ان کی تنقیدی بصیرت پر ہی تھوڑی بہت روشنی ڈالیں گے۔
پروفیسر شمیم حنفی ایک بیدار مغز نقاد تھے‘جس کا ثبوت ان کی اہم تصنیف ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ ہے۔یہ دراصل ان کا ڈی۔ لٹ مقالہ ہے جو کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ اور اس کے تحقیقی و تنقیدی مباحثہ نے بحث وتمحیص کا ایک نیا در اردو ادب میں وا کیا۔اس میں بیسویں صدی کے اردو ادب خصوصاجدید قسم کی تخلیقی نگارشات کا دانشورانہ جائزہ پیش ہوا ہے۔جس کامطالعہ ذہن کے دریچے کھول دیتا ہے۔شمیم حنفی صاحب کا تنقیدی اپروچ خواہ مخواہ کی توصیفی اور غیرضروری تشریحی قسم کا نہیں تھا بلکہ وہ متن سے مکالمہ باندھتے تھے اور متن کی جہات پر ناقدانہ روشنی ڈالتے تھے۔ ان کا تنقیدی اسلوب عالمانہ ہوتا تھا نہ کہ سطحی قسم کی تبصرہ نگاری۔ان کی ایک اور تنقیدی کتاب”نئی شعری روایت“بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ان کی تنقیدی کتابوں کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی تنقید میں تخلیقی رنگ ہوتا تھا۔(یہاں پر اس کی توضیح کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ تنقید میں تخلیقی رنگ کیا ہوتا ہے۔)ان کے ایک مضمون”تنقید کا المیہ“ میں تنقیدی فکر اور اس کے اطلاق پر عمدہ بحث موجود ہے۔معروف تنقید نگار وزیر آغا کی تنقیدی کارگزاری پر بات کرتے ہوئے انہیں کا ایک اہم اقتباس پیش کرتے ہیں جو کہ تنقیدی کام کے تعلق سے بڑی معنویت رکھتا ہے:
”نقاد اپنے مطالعے میں اولین حیثیت فن پارے کو دے اور فن پارے کے اندر چھپے ہوئے امکانات کی روشنی میں اپنی تنقیدی حس کو بروے کار لائے نہ کہ اپنے تاثرات کا عکس فن پارے میں تلاش کرے۔“
شمیم حنفی کی اہم تنقیدی کتابوں میں"جدیدیت کی
فلسفیانہ اساس""غالب کی تخلیقی حسیت" "غزل کا نیا منظرنامہ"" جدیدیت اور نئی شاعری""نئی شعری روایت"اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ" وغیرہ جیسی بصیرت افروز کتب شامل ہیں۔ بہرحال‘اللہ مغفرت فرمائے۔
یاد رفتگاں
پروفیسر شمیم حنفی( 6مئی-2021-1939)۔۔۔
تحریر : ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری
استاد‘شاعر‘نقاد‘مترجم۔۔۔سردست ان کی تنقیدی بصیرت پر ہی تھوڑی بہت روشنی ڈالیں گے۔
پروفیسر شمیم حنفی ایک بیدار مغز نقاد تھے‘جس کا ثبوت ان کی اہم تصنیف ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ ہے۔یہ دراصل ان کا ڈی۔ لٹ مقالہ ہے جو کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ اور اس کے تحقیقی و تنقیدی مباحثہ نے بحث وتمحیص کا ایک نیا در اردو ادب میں وا کیا۔اس میں بیسویں صدی کے اردو ادب خصوصاجدید قسم کی تخلیقی نگارشات کا دانشورانہ جائزہ پیش ہوا ہے۔جس کامطالعہ ذہن کے دریچے کھول دیتا ہے۔شمیم حنفی صاحب کا تنقیدی اپروچ خواہ مخواہ کی توصیفی اور غیرضروری تشریحی قسم کا نہیں تھا بلکہ وہ متن سے مکالمہ باندھتے تھے اور متن کی جہات پر ناقدانہ روشنی ڈالتے تھے۔ ان کا تنقیدی اسلوب عالمانہ ہوتا تھا نہ کہ سطحی قسم کی تبصرہ نگاری۔ان کی ایک اور تنقیدی کتاب”نئی شعری روایت“بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ان کی تنقیدی کتابوں کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی تنقید میں تخلیقی رنگ ہوتا تھا۔(یہاں پر اس کی توضیح کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ تنقید میں تخلیقی رنگ کیا ہوتا ہے۔)ان کے ایک مضمون”تنقید کا المیہ“ میں تنقیدی فکر اور اس کے اطلاق پر عمدہ بحث موجود ہے۔معروف تنقید نگار وزیر آغا کی تنقیدی کارگزاری پر بات کرتے ہوئے انہیں کا ایک اہم اقتباس پیش کرتے ہیں جو کہ تنقیدی کام کے تعلق سے بڑی معنویت رکھتا ہے:
”نقاد اپنے مطالعے میں اولین حیثیت فن پارے کو دے اور فن پارے کے اندر چھپے ہوئے امکانات کی روشنی میں اپنی تنقیدی حس کو بروے کار لائے نہ کہ اپنے تاثرات کا عکس فن پارے میں تلاش کرے۔“
شمیم حنفی کی اہم تنقیدی کتابوں میں"جدیدیت کی
فلسفیانہ اساس""غالب کی تخلیقی حسیت" "غزل کا نیا منظرنامہ"" جدیدیت اور نئی شاعری""نئی شعری روایت"اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ" وغیرہ جیسی بصیرت افروز کتب شامل ہیں۔ بہرحال‘اللہ مغفرت فرمائے۔