روح الروح

روح الروح

Feb 17, 2025

مصنف

الیاس گوندل

شمارہ

شمارہ -٨ ٢

روح الروح

الیاس گوندل



ریم کا پسندیدہ کھیل اپنے نانا کی ریش کو کھینچنا تھا۔ جواب میں نانا ریم کی چھوٹی سی چُٹیا کو پکڑ لیتے۔ ریم کھلکھلا اٹھتی:

”پہلے میری چُٹیا چھوڑیں، پھر میں آپ کی داڑھی چھوڑوں گی۔“

آج پورے پینتالیس دن ہو چُکے تھے، ریم نے جی بھر کر آسمان نہیں دیکھا تھا۔ وہ باہر جا کر کھیلنا چاہتی تھی۔ شام ہونے کو تھی جب ریم نے اپنے نانا خالد نبھان کی داڑھی کو کھینچتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں ان کے گلے میں ڈال دیں اور بڑے لاڈ سے کہا:

”نانا ہمیں کھیلنے کے لیے باہر لے چلیں۔ نانا آپ ہمیں باہر کیوں نہیں لے جاتے؟ سائیکل پر بٹھا کر سیر بھی نہیں کرواتے اور نہ ہی آپ نے ہمیں اب کبھی پھل لا کر دیے ہیں۔“

اس ضد میں ریم سے دو سال بڑا طارق بھی شامل ہو گیا۔ خالد کھلی فضا میں پھیلی ہوئی موت کی دہشت کے بارے میں سوچ کر خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے اپنی تین سالہ نواسی ریم کو ہاتھوں میں اٹھا کر فضا میں اچھالا اور پھر اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اس کے ماتھے کو چوم لیا، پھر آنکھوں کو اور ناک کی پھننگ پر بوسہ دیا۔ ریم کے چہرے پر نانا کی گھنی داڑھی نے گدگدی کی اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ نانا نے ریم کو گود میں لیا، طارق کو ساتھ لٹایا اور اس کے بالوں کو بالکل ویسے سنوارا جیسے طارق کو پسند تھا۔ طارق کو اپنے بال بہت پسند تھے۔ وہ انہیں ایک خاص طرز پر سنوارنے کے لیے ہمیشہ نانا سے فرمائش کیا کرتا تھا۔ خالد نے اپنی جیب سے ایک نارنگی نکالی اور ریم کے ہاتھ میں تھما دی اور پھر بچوں کو کہانی سُنانے لگا۔ دونوں بچے کہانی سُنتے سُنتے نیند کی وادی میں کھو گئے۔ نانا نے دونوں بچوں کو بستر پر لٹا کر چادر اُن کے اوپر درست کی اور خود خاموشی کے ساتھ باہر فرش پر آ کر لیٹ گیا۔

ریم اور طارق خالد کی سب سے بڑی بیٹی مائسہ نبھان کے بچے ہیں۔ مائسہ کا میاں روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک رہتا ہے، اس وجہ سے وہ اپنے بچوں سمیت اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے۔ ریم کے لیے نانا کُل کائنات ہے اور خالد کے لیے اپنی اولاد سرمایہِ حیات ہے۔ یہ جنوبی غزہ کا پناہ گزین کیمپ النصیرات ہے۔ پچھلے دس سال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہاں زندگی گزارنی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات اور سہولیات کا فقدان۔ کیمپ کی آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے مزدوری حاصل کرنے کے مواقع ناپید ہونا۔ خالد کو کئی مرتبہ اپنی اولاد کو پیٹ بھر کھانا کھلانے کے لیے خود کو بھوکا رکھنا پڑا ہے۔ لیکن اس کے لبوں پر کبھی شکوہ نہیں آیا، وہ ہمیشہ بہت خوش رہتا ہے۔

رات آہستہ آستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اچانک جنگی جہازوں کی شیطانی گڑگڑاہٹ کا ایک بے ہنگم شور بلند ہوا۔ کیمپ پر شدید گولہ باری ہو رہی تھی۔ انسانی چیخ و پکار آگ، دھوئیں اور گرتے مکانوں کے ملبے کی گرد کے نیچے دب رہی تھی۔ جب گرد کا طوفان تھما، خالد بھاگ کر بچوں کے کمرے کی طرف آیا لیکن اب وہاں صرف ملبے کا ایک ڈھیر تھا اور بچے اپنی ماں سمیت نہ جانے کہاں تھے۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور خالد گھپ اندھیرے میں خس و خاشاک کے ڈھیر سے اپنی متاع تلاش کر رہا تھا۔ ملبہ ہٹا، ریم رات والی نارنگی اپنے ہاتھ میں دبوچے بستر پر سو رہی تھی۔ خالد نے ریم کو بستر سے اٹھا کر اپنی بانہوں میں سمیٹا لیکن بچی کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ خالد نے ریم کو بانہوں میں بھر کر اس کے ماتھے کو چوم لیا، پھر آنکھوں کو اور ناک کی پھننگ پر بوسہ دیا۔ ریم کے چہرے پر نانا کی گھنی داڑھی نے گدگدی کی لیکن اس کی کھلکھلاہٹ بموں کی نظر ہو چُکی تھی۔ خالد کو زندگی کی حرارت سے محروم ریم کے ننھے سے وجود پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ انتہائی صدمے کے عالم میں تھا۔ اس نے باری باری بچی کی آنکھوں کے پپوٹوں کو نرمی کے ساتھ اوپر اٹھایا لیکن وہ ہر بار نیچے گر جاتے تھے۔ کئی مرتبہ ریم کے سر پر پیار کیا، اس کے پھول جیسے گالوں کو چُھوا اور بے قراری کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا رہا، ”یہ میری روح کی روح تھی۔“ مُڑ کر پانچ سالہ طارق کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں بھی پتھرائی ہوئی تھیں۔ بچوں کی ماں،مائسہ انتہائی زخمی حالت میں بیہوش پڑی تھی۔

ریم اور طارق کی ننھی میتوں کو کفن دے کر سپردِ خاک کر دیا گیا۔ بچی کی لاش دفناتے ہوئے نانا کو ننھی ریم کے ایک کان میں بالی نظر آئی۔ دوسرے کان کی بالی کہیں کھو چُکی تھی۔ خالد نے بڑے پیار سے ریم کے کان سے بالی نکالی اور اسے اپنے لباس پر سجا لیا۔ گھر کے ملبے سے بچوں کے کھلونے برآمد ہوئے جس میں ریم کی پسندیدہ گُڑیا کٹی پھٹی حالت میں مل گئی۔ ریم کی بلی خالد کے قدموں کے قریب لوٹنے لگی، وہ اسے ریم کے بارے میں پوچھ رہی تھی لیکن خالد اسے کیسے بتاتا کہ شیطان کے پیروکار اس کی نسل کو ناپید کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ طارق فٹ بال کا چیمپئین بننا چاہتا تھا۔ اسے اسکول سے فٹ بال کا اچھا کھلاڑی ہونے کا میڈل ملا تھا۔ وہ میڈل بھی ملبے سے مل گیا جو اب خالد کے گلے کا ہار بنا۔

چوَّن سالہ نانا اپنے بچوں کی نشانیاں اپنے جسم پر سجا کر ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ بلند ہوا۔ سینکڑوں بے سہارا، لاوارث اور کھوئے ہوئے بچوں کا سہارا بنا۔ اسے ہر دُکھی اور زخمی بچے کے اندر اپنی ریم اور طارق نظر آنے لگے۔ وہ پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں میں اپنے پیاروں کے غم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ڈھارس بنا۔ وہ انہیں بتاتا کہ میری طرف دیکھو، میں نے سب کچھ کھو دیا ہے لیکن پھر بھی زندہ ہوں۔ وہ لوگوں کو امن کا یقین اور امید دلاتا۔ ریم کی بلی میں اسے ریم کی کچھ جان نظر آتی تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کم ہونے کے باوجود وہ سارے علاقے کی بلیوں کو کھانا دیتا۔ سارے کیمپ کی بلیاں اس کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی تھیں اور جو اسے نہیں ڈھونڈ پاتی تھیں وہ خود انہیں ڈھونڈ کر کھانا اور پانی ان تک پہنچا دیا کرتا تھا۔

خالد نے خوش رہنا سیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کے غم کو اپنی قوت بنا لیا تھا اور اپنی زندگی کو لوگوں کی حاجت روائی کے لیے مختص کر دیا تھا۔ خالد ہمیشہ سے مہر و مروت اور زندہ دلی کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اب اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا بھی سیکھ لیا تھا۔ خالد کی ماں ابھی زندہ تھی۔ وہ ضرورت مند انسانوں اور جانوروں کی خدمت سے بچ رہنے والا وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارتا۔ ہر طرف پھیلی ہوئی موت اور بارود کی بُو سے کہیں نہ کہیں سے ایک پھول ڈھونڈ لاتا اور اپنی ماں کو پیش کرتا۔

ریم اور طارق کی پہلی برسی کے موقع پر وہ اُن کے قبروں پر گیا اور بچوں کے ساتھ جی بھر کر باتیں کیں۔ وہ انہیں بتاتا رہا کہ پچھلے ایک برس میں وہ ان دونوں کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولا۔ میرے بچو جس جنگی ماحول میں تم جیے اور پھر اس کی نظر ہو گئے، اسے سمجھنے کے لیے تو تم بہت چھوٹے تھے۔ لیکن دیکھو، میں نے تہمارے غم کو اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طاقت بنا لیا ہے۔ میں نے ایک بالی اور میڈل کے سوا تمہارے تمام رنگ برنگے کھلونے اُن بچوں کو دے دیے ہیں جن کے ماں باپ اس جنگ کا ایندھن ہو گئے۔ ریم، میرے بچی تم میری روح کی روح ہو، میں نے تمہاری روح پوری دُنیا میں پھونک دی ہے۔ یہ کہتے ہوئے خالد نے بچوں کی قبریں سفید پتھروں سے استوار کیں اور ان کے گرد پھولوں کے پودے لگائے۔

خالد اب جنگ میں گِھرے ہوئے لاکھوں لوگوں کی امید بن چُکا تھا جو ان کے لیے متحد رہنے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور پریشانیوں پر قابو پانے کے لیے ایک مثالی کردار تھا۔ اس نے حریف کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا تھا اور پروپیگنڈا مشینری کے خلاف ایک مؤثر آواز بن چُکا تھا۔ ظاہر ہے شیطانی فوجوں کو یہ کیوں کر گوارا ہوتا؟ یہ جنوبی غزہ کا وہی پناہ گزین کیمپ النصیرات ہے جہاں ایک سال قبل ایک فضائی حملے میں ریم اور طارق اپنے نانا سے بچھڑ گئے تھے۔ ایک اور حملہ ہوا اور اس مرتبہ دن کے اجالے میں ہوا۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ خالد ایک ٹینک سے نکلنے والے گولے کا ٹکڑا لگنے سے زخمی ہوا۔ وہ بھاگ کر اس کی مدد کرنے پہنچے لیکن قبل اس کے کہ وہ خالد تک پہنچ پاتے، ایک اور ٹینک سے نکلے ہوئے گولے کا ٹکڑا اس مسکراتے ہوئے جوانمرد کو لگا۔

مائسہ اپنے باپ کی لاش پر آئی، اس بے جان لیکن مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر روتے ہوئے ایک جملہ کہا، "بابا! تم میری روح کی روح تھے۔“

الیاس گوندل

دسمبر ۱۸ ؁۲۰۲۴


روح الروح

الیاس گوندل



ریم کا پسندیدہ کھیل اپنے نانا کی ریش کو کھینچنا تھا۔ جواب میں نانا ریم کی چھوٹی سی چُٹیا کو پکڑ لیتے۔ ریم کھلکھلا اٹھتی:

”پہلے میری چُٹیا چھوڑیں، پھر میں آپ کی داڑھی چھوڑوں گی۔“

آج پورے پینتالیس دن ہو چُکے تھے، ریم نے جی بھر کر آسمان نہیں دیکھا تھا۔ وہ باہر جا کر کھیلنا چاہتی تھی۔ شام ہونے کو تھی جب ریم نے اپنے نانا خالد نبھان کی داڑھی کو کھینچتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں ان کے گلے میں ڈال دیں اور بڑے لاڈ سے کہا:

”نانا ہمیں کھیلنے کے لیے باہر لے چلیں۔ نانا آپ ہمیں باہر کیوں نہیں لے جاتے؟ سائیکل پر بٹھا کر سیر بھی نہیں کرواتے اور نہ ہی آپ نے ہمیں اب کبھی پھل لا کر دیے ہیں۔“

اس ضد میں ریم سے دو سال بڑا طارق بھی شامل ہو گیا۔ خالد کھلی فضا میں پھیلی ہوئی موت کی دہشت کے بارے میں سوچ کر خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے اپنی تین سالہ نواسی ریم کو ہاتھوں میں اٹھا کر فضا میں اچھالا اور پھر اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اس کے ماتھے کو چوم لیا، پھر آنکھوں کو اور ناک کی پھننگ پر بوسہ دیا۔ ریم کے چہرے پر نانا کی گھنی داڑھی نے گدگدی کی اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ نانا نے ریم کو گود میں لیا، طارق کو ساتھ لٹایا اور اس کے بالوں کو بالکل ویسے سنوارا جیسے طارق کو پسند تھا۔ طارق کو اپنے بال بہت پسند تھے۔ وہ انہیں ایک خاص طرز پر سنوارنے کے لیے ہمیشہ نانا سے فرمائش کیا کرتا تھا۔ خالد نے اپنی جیب سے ایک نارنگی نکالی اور ریم کے ہاتھ میں تھما دی اور پھر بچوں کو کہانی سُنانے لگا۔ دونوں بچے کہانی سُنتے سُنتے نیند کی وادی میں کھو گئے۔ نانا نے دونوں بچوں کو بستر پر لٹا کر چادر اُن کے اوپر درست کی اور خود خاموشی کے ساتھ باہر فرش پر آ کر لیٹ گیا۔

ریم اور طارق خالد کی سب سے بڑی بیٹی مائسہ نبھان کے بچے ہیں۔ مائسہ کا میاں روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک رہتا ہے، اس وجہ سے وہ اپنے بچوں سمیت اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے۔ ریم کے لیے نانا کُل کائنات ہے اور خالد کے لیے اپنی اولاد سرمایہِ حیات ہے۔ یہ جنوبی غزہ کا پناہ گزین کیمپ النصیرات ہے۔ پچھلے دس سال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہاں زندگی گزارنی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات اور سہولیات کا فقدان۔ کیمپ کی آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے مزدوری حاصل کرنے کے مواقع ناپید ہونا۔ خالد کو کئی مرتبہ اپنی اولاد کو پیٹ بھر کھانا کھلانے کے لیے خود کو بھوکا رکھنا پڑا ہے۔ لیکن اس کے لبوں پر کبھی شکوہ نہیں آیا، وہ ہمیشہ بہت خوش رہتا ہے۔

رات آہستہ آستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اچانک جنگی جہازوں کی شیطانی گڑگڑاہٹ کا ایک بے ہنگم شور بلند ہوا۔ کیمپ پر شدید گولہ باری ہو رہی تھی۔ انسانی چیخ و پکار آگ، دھوئیں اور گرتے مکانوں کے ملبے کی گرد کے نیچے دب رہی تھی۔ جب گرد کا طوفان تھما، خالد بھاگ کر بچوں کے کمرے کی طرف آیا لیکن اب وہاں صرف ملبے کا ایک ڈھیر تھا اور بچے اپنی ماں سمیت نہ جانے کہاں تھے۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور خالد گھپ اندھیرے میں خس و خاشاک کے ڈھیر سے اپنی متاع تلاش کر رہا تھا۔ ملبہ ہٹا، ریم رات والی نارنگی اپنے ہاتھ میں دبوچے بستر پر سو رہی تھی۔ خالد نے ریم کو بستر سے اٹھا کر اپنی بانہوں میں سمیٹا لیکن بچی کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ خالد نے ریم کو بانہوں میں بھر کر اس کے ماتھے کو چوم لیا، پھر آنکھوں کو اور ناک کی پھننگ پر بوسہ دیا۔ ریم کے چہرے پر نانا کی گھنی داڑھی نے گدگدی کی لیکن اس کی کھلکھلاہٹ بموں کی نظر ہو چُکی تھی۔ خالد کو زندگی کی حرارت سے محروم ریم کے ننھے سے وجود پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ انتہائی صدمے کے عالم میں تھا۔ اس نے باری باری بچی کی آنکھوں کے پپوٹوں کو نرمی کے ساتھ اوپر اٹھایا لیکن وہ ہر بار نیچے گر جاتے تھے۔ کئی مرتبہ ریم کے سر پر پیار کیا، اس کے پھول جیسے گالوں کو چُھوا اور بے قراری کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا رہا، ”یہ میری روح کی روح تھی۔“ مُڑ کر پانچ سالہ طارق کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں بھی پتھرائی ہوئی تھیں۔ بچوں کی ماں،مائسہ انتہائی زخمی حالت میں بیہوش پڑی تھی۔

ریم اور طارق کی ننھی میتوں کو کفن دے کر سپردِ خاک کر دیا گیا۔ بچی کی لاش دفناتے ہوئے نانا کو ننھی ریم کے ایک کان میں بالی نظر آئی۔ دوسرے کان کی بالی کہیں کھو چُکی تھی۔ خالد نے بڑے پیار سے ریم کے کان سے بالی نکالی اور اسے اپنے لباس پر سجا لیا۔ گھر کے ملبے سے بچوں کے کھلونے برآمد ہوئے جس میں ریم کی پسندیدہ گُڑیا کٹی پھٹی حالت میں مل گئی۔ ریم کی بلی خالد کے قدموں کے قریب لوٹنے لگی، وہ اسے ریم کے بارے میں پوچھ رہی تھی لیکن خالد اسے کیسے بتاتا کہ شیطان کے پیروکار اس کی نسل کو ناپید کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ طارق فٹ بال کا چیمپئین بننا چاہتا تھا۔ اسے اسکول سے فٹ بال کا اچھا کھلاڑی ہونے کا میڈل ملا تھا۔ وہ میڈل بھی ملبے سے مل گیا جو اب خالد کے گلے کا ہار بنا۔

چوَّن سالہ نانا اپنے بچوں کی نشانیاں اپنے جسم پر سجا کر ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ بلند ہوا۔ سینکڑوں بے سہارا، لاوارث اور کھوئے ہوئے بچوں کا سہارا بنا۔ اسے ہر دُکھی اور زخمی بچے کے اندر اپنی ریم اور طارق نظر آنے لگے۔ وہ پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں میں اپنے پیاروں کے غم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ڈھارس بنا۔ وہ انہیں بتاتا کہ میری طرف دیکھو، میں نے سب کچھ کھو دیا ہے لیکن پھر بھی زندہ ہوں۔ وہ لوگوں کو امن کا یقین اور امید دلاتا۔ ریم کی بلی میں اسے ریم کی کچھ جان نظر آتی تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کم ہونے کے باوجود وہ سارے علاقے کی بلیوں کو کھانا دیتا۔ سارے کیمپ کی بلیاں اس کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی تھیں اور جو اسے نہیں ڈھونڈ پاتی تھیں وہ خود انہیں ڈھونڈ کر کھانا اور پانی ان تک پہنچا دیا کرتا تھا۔

خالد نے خوش رہنا سیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کے غم کو اپنی قوت بنا لیا تھا اور اپنی زندگی کو لوگوں کی حاجت روائی کے لیے مختص کر دیا تھا۔ خالد ہمیشہ سے مہر و مروت اور زندہ دلی کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اب اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا بھی سیکھ لیا تھا۔ خالد کی ماں ابھی زندہ تھی۔ وہ ضرورت مند انسانوں اور جانوروں کی خدمت سے بچ رہنے والا وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارتا۔ ہر طرف پھیلی ہوئی موت اور بارود کی بُو سے کہیں نہ کہیں سے ایک پھول ڈھونڈ لاتا اور اپنی ماں کو پیش کرتا۔

ریم اور طارق کی پہلی برسی کے موقع پر وہ اُن کے قبروں پر گیا اور بچوں کے ساتھ جی بھر کر باتیں کیں۔ وہ انہیں بتاتا رہا کہ پچھلے ایک برس میں وہ ان دونوں کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولا۔ میرے بچو جس جنگی ماحول میں تم جیے اور پھر اس کی نظر ہو گئے، اسے سمجھنے کے لیے تو تم بہت چھوٹے تھے۔ لیکن دیکھو، میں نے تہمارے غم کو اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طاقت بنا لیا ہے۔ میں نے ایک بالی اور میڈل کے سوا تمہارے تمام رنگ برنگے کھلونے اُن بچوں کو دے دیے ہیں جن کے ماں باپ اس جنگ کا ایندھن ہو گئے۔ ریم، میرے بچی تم میری روح کی روح ہو، میں نے تمہاری روح پوری دُنیا میں پھونک دی ہے۔ یہ کہتے ہوئے خالد نے بچوں کی قبریں سفید پتھروں سے استوار کیں اور ان کے گرد پھولوں کے پودے لگائے۔

خالد اب جنگ میں گِھرے ہوئے لاکھوں لوگوں کی امید بن چُکا تھا جو ان کے لیے متحد رہنے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور پریشانیوں پر قابو پانے کے لیے ایک مثالی کردار تھا۔ اس نے حریف کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا تھا اور پروپیگنڈا مشینری کے خلاف ایک مؤثر آواز بن چُکا تھا۔ ظاہر ہے شیطانی فوجوں کو یہ کیوں کر گوارا ہوتا؟ یہ جنوبی غزہ کا وہی پناہ گزین کیمپ النصیرات ہے جہاں ایک سال قبل ایک فضائی حملے میں ریم اور طارق اپنے نانا سے بچھڑ گئے تھے۔ ایک اور حملہ ہوا اور اس مرتبہ دن کے اجالے میں ہوا۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ خالد ایک ٹینک سے نکلنے والے گولے کا ٹکڑا لگنے سے زخمی ہوا۔ وہ بھاگ کر اس کی مدد کرنے پہنچے لیکن قبل اس کے کہ وہ خالد تک پہنچ پاتے، ایک اور ٹینک سے نکلے ہوئے گولے کا ٹکڑا اس مسکراتے ہوئے جوانمرد کو لگا۔

مائسہ اپنے باپ کی لاش پر آئی، اس بے جان لیکن مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر روتے ہوئے ایک جملہ کہا، "بابا! تم میری روح کی روح تھے۔“

الیاس گوندل

دسمبر ۱۸ ؁۲۰۲۴


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024