ائے روزنِ سیاہ

ائے روزنِ سیاہ

Oct 9, 2025

مضمون:ائے روزنِ سیاہ

اسد عباس خان


تصوف کے دو بڑے نظریات ہیں

وحدت الوجود اور وحدت الشہود

ان کے تقابلی جائزے ہر دور میں لکھے جاتے رہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے

ابنِ عربی سے لیکر سے حضرت باھو سلطان تک ۔۔ اور حضرت باھو سلطان سے لیکر باغ حسین کمال تک ۔۔۔وحدت الوجود کی نئی سے نئی تفہیم ہوتی رہی ہے

اسی طرح مجدد الف ثانی سے لیکر ۔۔ اکرم اعوان تک وحدت الشہود کی نئی سے نئی تفہیم ہوتی رہی ہے

وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود ہر دو نظریات انتہائی اہم اور تصوف کے بنیادی نظریات و عقائد ہیں

اور دونوں کو اپنی اپنی جگہ پہ انتہائی اہمیت و اولیت حاصل ہے

صوفی پابند زمان و مکان نہیں ہوتا

ایسے پابند زمان و مکان نہیں ہوتا ۔۔ جیسے منصور نہیں تھا

جیسے سرمد کاشانی نہیں تھا

جیسے باھو نہیں تھا

دنیا صوفی کی ہتھیلی پہ رکھ دی جاتی ہے

ھو الاول ۔۔ ھو الاخر

ھو الظاہر ۔۔ ھو الباطن

و ھو بکل شئی قدیر

اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت سے صوفی کو وہ طاقت اور ہمت عطا فرما دیتا ہے کہ انسانی عقل حیران اور ششدر رہ جاتی ہے

وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود

منصور ۔۔ سرمد ۔۔ باھو ۔۔ مجدد الف ثانی ۔۔ خواجہ باقی باللہ ۔۔ معین الدین چشتی ۔۔ نظام ۔۔ صابر ۔۔ بختیار کاکی

کلام کرتے ہیں

اِن کے کلام میں تنویر اور تاثیر کہاں سے آتی ہے

لامکان سے ہی آتی ہے

صوفی کے نزدیک معنی بدل جاتے ہیں

جیسے ۔۔ سیر فی الارض کے معنی علماء کے نزدیک

" سیر کرو زمین کے اوپر "

جبکہ صوفی کے نزدیک

" سیر کرو زمین کے اندر "

صوفی کا معاملہ الگ ہوتا ہے

صوفی ' فی ' کی تہوں میں یوں اترتا ہے کہ جیسے زمین میں تہوں میں اتر اتر جاتا ہے

باہر جب نکلتا ہے تو زمین کے ربانی خزانے لیکر باہر نکلتا ہے

صوفی سلامت با کرامت ۔۔۔

صوفی سے محیر العقول واقعات سر زد ہو جاتے ہیں تو کرامت سے موسوم کیے جاتے ہیں

لیکن صوفی تو خود ایک کرامت ہوتا ہے

صوفی کا وجود سب سے بڑی کرامت ہوتا ہے

اور حقیقت ہوتا ہے

صوفی کی سب سے بڑی کرامت ہی یہی ہوتی ہے کہ خلق خدا کی آنکھوں کے سامنے رہ کر بھی خلق سے پوشیدہ ہوتا ہے

ابو الحسن خرقانی کا قول ہے کہ

" ائے اللّٰہ مجھے اس مقام پر مت رکھ جہاں خلق اور حق اور من و تو کا فرق نہ ہو

ائے اللّٰہ مجھے ایسے مقام پر رکھ جہاں صرف تو ہی تو ہو اور میرا وجود ہی نہ ہو "

کسی نے ابو الحسن خرقانی سے پوچھا کہ آپ نے خدا کو کہاں دیکھا

تو فرمایا کہ جہاں خود کو نہیں دیکھا

صوفی چلتے چلتے فنا تک پہنچ جاتا ہے

فنا بھی مدارج میں سے ہے

مگر یہ طے ہے کہ صوفی فنا فی الذات ہوتا ہے

فنا فی ھُو ہوتا ہے

سب میں رہ کر سب سے جدا

سب سے مختلف اور سب سے منفرد

یہ بھی طے ہے کہ صوفی کا مطلب کامل ہے

ناقص نہیں ہے

صوفی کے ساتھ شاعر کے معاملات بھی الگ ہوتے ہیں

شاعر فزکس سے لیکر تصوف تک

( صوفی کے ساتھ کامل اور شاعر کے ساتھ جینوئن)

تمام تر علوم کا عالم ہوتا ہے

شاعری میرے نزدیک علم لدنی ہے

روزن سیاہ کے خالق کو آپ جانتے ہیں ناں

یہ عابد رضا ہیں

عالمِ علمِ لدنی

کہ ان کی شاعری میں فزکس سے لیکر تصوف تک ۔۔ اجرام فلکی تک ایک مدارِ فکر بنتا ہے

اور اس مدار کے گرد اس کی روحانی ، شعری اور لسانی فکر گھومتی ہے

یہ مگر ایک پیچیدہ عمل ہے

فزکس کے لحاظ سے بھی اور تصوف اور شعری لحاظ سے بھی

دماغ سے لیکر ایٹم تک

عابد رضا کی شعری کیفیت ایک نئی جہان معنی کی بازیافت کرتی ہے

ایک نیا شعری سرکل بناتی ہے

اور ان کے پاس ایک نئی condition of universal نظر آنے لگتی ہے

ان کے شعر کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے

کیونکہ ان کے پاس نئے شعری اور روحانی تجربات ہیں

شاعر ہو یا صوفی ۔۔ ان کے پاس باطنی سطح پر اگر نئے تجربات نہ ہوں تو ان کی شخصیت میں وہ پُر اسراریت نہیں ہوتی جو شاعر اور صوفی کے لیے خاص ہے

صاحب اسرار تو یہی لوگ ہوتے ہیں صوفی اور شاعر

صوفی ارض و سما کی سیر کرتا ہے تو ایک جینوئن شاعر بھی اسی طرح ارض و سما کی سیر کرتا ہے

عابد رضا کے پاس مگر صورتحال یکسر مختلف ہے

نئی فکری کیفیت

شعری اور روحانی مسافت

مختلف اور منفرد شعری منظرنامہ

تازہ تر امیجری

علامات اور استعارے

نئے امکانات اور مضامین

جو کہیں نہیں برتے گئے

اور پھر اس تازگی اور ندرت سے انہوں نے مضامین کو برتا ہے کہ غالب کے اس مصرع کی اصل اور مکمل تفہیم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

روزن سیاہ ایک ایسی ہی شعری کتاب کا نام ہے کہ جس کی غزل ہو یا نظم ہو ۔۔ ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور یہاں مضامین غیب سے حضور میں آتے ہیں

غیب کے لیے حضوری بھی ضروری ہے

اگر غیب کا حاضر نہ ہو تو اس کا وجود تکمیلیت کی سطح کو نہیں پہنچ سکتا

عابد رضا کے اپنے غیاب اور حضور ہیں

ان کی دبیز خاموشی کی تہوں سے ان کا کلام جنم لیتا ہے

تو یہ ان کی شعری کرامت ٹھہرتی ہے

نئے شعری ابعاد اور نئے پیراڈائم

نیا شعری وژن اور نیا رویہ

جداگانہ شعری اسلوب اور لفظی شِکوہ

مکرر عرض ہے کہ سب سے مختلف شعری مضامین

اسلوبیاتی اور شعری سطح پر ان کی شاعری میں سائنس کو بہت زیادہ دخل ہے

لیکن اس کی معنویت کا اطلاق خارجی اور داخلی ہر سطح پر ہوتا ہے

یوں کہ شعر کی بھی اپنی ایک سائنس ہوتی ہے

اسی سائنس سے انہوں نے شعر کہے ہیں

اگر چہ عالمِ امکان کی قید میں ہوں ابھی

میری نظر ہے مگر ممکنات سے آگے

نیا نیا ہے ابھی تو میرے جنوں کا سفر

کئی جہان ہیں اس کائنات سے آگے

مرے گمان کی وسعت ہزار نوری سال

صدائے کن فیکون کی ابد گیر کہکشاں ہوں میں

مثال مہر معین مسافتیں ہیں مری

بلیک ہول کی جانب رواں دواں ہوں میں

یہ مضامین اردو شاعری میں نہیں برتے گئے

اور ایسا سائنسی شعور کم کم شعراء کو ملا ہے

غالب کے بعد عابد رضا کے پاس شعر میں یہ سائنسی شعور کار فرما ہے

مگر ان کی معاصر شاعری میں الگ ایک فکری اور سائنسی وحدت ہے

اور اس فکری اور سائنسی وحدت میں خدا کی تلاش ہے

خدا جو عابد رضا کی نظر سے اوجھل نہیں ہے

خدائے شب کے لیے نذر بارگاہ میں رکھ

ستارہ سحری روزن سیاہ میں رکھ

عابد رضا جس بلیک ہول کی طرف رواں دواں ہیں یہی ان کا فکری منطقہ اور شعری رویہ ہے

یہ یہاں سے شعری تطمئن القلوب کی منزل صادقہ کو رو بہ سفر ہیں

صدائے کُن ۔۔۔ کی یہ ابد گیر فکری ، شعری ، روحانی ، لسانی اور سائنسی کہکشاں عابد رضا !

اپنے ہر شعر میں کائنات سے الگ نوع کا مخاطبہ اور مکالمہ قائم کرتے ہیں

دراصل انہوں نے ان چیزوں اور ان مظاہرِ اشیاء کی نئی سطح دریافت کی ہے اور اس کی تفہیم کی ہے

ظاہری بات ہے پھر اُن کا بیانیہ اور اسلوب بھی نیا ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ جو کہ آوازوں کے اس ہجوم میں بالکل نیا بھی ہے اور جداگانہ بھی

ان کی شاعری ایک universel truth ہے

Time and space کی نئی نظری ، فکری ، اور اجتہادی معنویت

جس کے تخلیقی امکانات اس کی شاعری کے معرض وجود میں ایک نئی تخلیقی فعالیت کے ساتھ نظر پڑتے ہیں

اور معنی و تفہیم کی تمام سابقہ انواع بدل کر نئی ہو جاتی ہیں

افلاطون کا تصور ہے کہ " ایک عالمِ اعیان ہے اور کائنات اس کا عکس ہے "

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ صوفی اور شاعر کا عالم اعیان نئی طرز کا ہوتا ہے

اور اس عالم اعیان کے جتنے بھی امکان ہیں وہ سب کے سب شاعر کی نظر میں ہوتے ہیں

یہی معنوی عالم اعیان دم ہمہ دم عابد رضا کی شاعری منعکس ہوتے ہیں

اُن کی تخلیقی فعالیت اور بصیرت اس امر کی شاہد ہے

عکس اور عکاس اور ان کے ساتھ معکوس ۔۔ ایک نئی مثلث ان کی شاعری میں بنتی ہے

دراصل یہ تثلیث ایک وسیع ترین دائرہ ہے جس میں کائنات ، انسان اور خدا کی پوری تجلی ہے

عابد رضا کی یہ فلاسفی بالکل الگ نوع کی ہے کہ ان کی شاعری کا مصدر و مرجع ان کا عظیم سائنسی دماغ ہے

اس عمل سے ایک نئی توانائی ان کے شعر کو ملتی ہے

گویا " نوری سالوں" کی توانائی ان کی شاعری میں پائی جاتی ہے

یونہی تو انہوں نے نہیں کہا کہ

مرے گمان کی وسعت ہزاروں نوری سال

یہ ان کی شاعری کے اجرام فلکی ہیں کہ سیارہ ہو یا ستارہ ہو ۔۔ ان کی شعری و فکری کائنات میں ایک الگ معنویت اور روشنی ہے

سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی آنکھ میں ایک ارب ریشے روشنی کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں اور اتنی ہی تعداد ان ستاروں کی ہے جو ملکی وے کہکشاں میں موجود ہیں

اگر عابد رضا کی شاعری کو اس نظر سے دیکھا جائے تو ان کی شاعری ملکی وے کہکشاں ہے کہ ان کی شاعری میں بھی اربوں ستارے پائے جاتے ہیں

شبِ سیاہ نے کھینچی ردائے بے خبری

ستارہ ٹوٹ کے بس گرد ہو گیا ہے کیا

مہلت ہی ستاروں کو کہاں حجلہ شب میں

سورج کو مگر ذوق سحر ہے کہ نہیں ہے

افلاک کے اس پار سے ہو آئیں تو پوچھیں

جو بات ادھر ہے وہ ادھر ہے کہ نہیں ہے

عابد رضا کا شعری نظام اور لسانی تشکیل بہت مختلف اور متنوع ہے

اور درست معنوں میں تمام تر معاصرین سے انتہائی مختلف ۔۔ کہ انہوں نے ایک ایسا شعری اسلوب تشکیل دیا ہے جو اردو غزل میں ہمیشہ ناپید رہے گا

ان کی شعری اور فکری جہات نئی زمینوں اور نئے زمانوں کو دریافت کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور اس سے ایک جدید سماجی ، شعری ، سائنسی اور روحانی شعور متشکل ہوتا ہوا نظر آتا ہے

اور ہونا بھی چاہیے ۔۔۔ کیونکہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج بنا دیا ہے اس لحاظ سے ہماری اردو شاعری میں عابد رضا کے علاؤہ اس موضوع پر اس تسلسل اور باریک نظری کے ساتھ

شاعری نہیں کی گئی یہ کارنامہ مگر عابد رضا نے سر انجام دیا ہے

انہوں نے پوری سائنس اور تصوف کو اپنی شاعری میں ایک مرکزے کے طور پر متشکل کیا ہے میں جوں جوں ان کی روزن سیاہ پڑھتا ہوں مجھ پہ سائنس کے نئے شعور کی بہت سی نئی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں

اکتسابِ قوت باطن سے عابد رضا نے اپنی غزل میں حرف حرف نور بھر دیا ہے

اور اسی باطن سے سماج سے کلام کیا ہے شعر پر عابد رضا کی نظر نوری اور برقی شعاع کی طرح پڑتی ہے اور شعر نئے نوع اور طور سے قرات کے دوران قاری پہ کھلتا ہے

نئے ڈھنگ اور نئے آہنگ سے رقم ہوتا ہے

ایک نوری شعلہ ہے جو ان کے قلب و باطن میں بھڑکتا رہتا ہے

جو محجوب ہے مگر صاف دکھائی پڑ رہا ہے

عابد رضا کائنات کی تخلیقی ماہیت کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں

اقبال کی فلاسفی کہ " آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکوں"

عابد رضا پر پوری طرح منکشف ہے

صدائے کن فیکون سے لیکر عابد رضا کی شعری روشنی تک

روزن سیاہ تخلیق کائنات کے اسرار و رموز سے مکمل طور پر سائنسی سطح و شعور کے ساتھ کلام کرتی ہے اور ایک نئی برقی رو عابد رضا کے شعری منظر نامے میں ابھرتی ہے جس کی معنویت ذہن میں روشنی کی رفتار کی طرح سفر کرتی ہے

ہو نہ ہو یہ منفرد کام عابد رضا ہی کر سکتے ہیں

ایسی سائنسی وحدت کے ساتھ ان کے سوا کوئی دوسرا شعر کہہ ہی نہیں سکتا

۔۔۔

غزل کے ساتھ عابد رضا نے نظم بھی کہی ہے

روزن سیاہ میں بارہ تیرہ نظمیں بھی شامل اشاعت ہیں

ان کی نظم ان کی غزل ہی کی طرح سب سے مختلف ہے

ان کے پاس نظم میں بہت سے موضوعات ہیں

ابنِ ادنی ۔۔۔ ان کی ایسی نظم ہے کہ جن کا شمار اردو کی سب سے بہترین نظموں میں ہوتا ہے

اس کے علاؤہ دیگر نظمیں انوکھی اختراع کی حامل ہیں کہ ان کی نظم بھی سطر سطر روشنی کے پھول بکھیرتی چلی جاتی ہے

حرف حرف نئی نظم ، ان کی نظم سے جنم لے رہی ہے اور یہ ایک ثروت مند اضافہ ہے

ایک قصہ گو کا قتل

ہو

یا

اگلی ہجرت کا دکھ

گنبد حیات ایک اسطورہ

ہو

یا

رصد گاہ

۔۔

ابد گزیدہ

ہو

یا

شہر آزردگی کا المیہ

رد تشکیل

ہو

یا

ٹائم لائن

تمام نظمیں انوکھی ہیں

تر و تازہ اور نئی نکور ہیں

اور ایک بھر پور معنوی دریافت کے ساتھ معاصر انسان کا سماجی رویہ اور المیہ پیش کرتی ہیں

۔۔۔


مضمون:ائے روزنِ سیاہ

اسد عباس خان


تصوف کے دو بڑے نظریات ہیں

وحدت الوجود اور وحدت الشہود

ان کے تقابلی جائزے ہر دور میں لکھے جاتے رہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے

ابنِ عربی سے لیکر سے حضرت باھو سلطان تک ۔۔ اور حضرت باھو سلطان سے لیکر باغ حسین کمال تک ۔۔۔وحدت الوجود کی نئی سے نئی تفہیم ہوتی رہی ہے

اسی طرح مجدد الف ثانی سے لیکر ۔۔ اکرم اعوان تک وحدت الشہود کی نئی سے نئی تفہیم ہوتی رہی ہے

وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود ہر دو نظریات انتہائی اہم اور تصوف کے بنیادی نظریات و عقائد ہیں

اور دونوں کو اپنی اپنی جگہ پہ انتہائی اہمیت و اولیت حاصل ہے

صوفی پابند زمان و مکان نہیں ہوتا

ایسے پابند زمان و مکان نہیں ہوتا ۔۔ جیسے منصور نہیں تھا

جیسے سرمد کاشانی نہیں تھا

جیسے باھو نہیں تھا

دنیا صوفی کی ہتھیلی پہ رکھ دی جاتی ہے

ھو الاول ۔۔ ھو الاخر

ھو الظاہر ۔۔ ھو الباطن

و ھو بکل شئی قدیر

اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت سے صوفی کو وہ طاقت اور ہمت عطا فرما دیتا ہے کہ انسانی عقل حیران اور ششدر رہ جاتی ہے

وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود

منصور ۔۔ سرمد ۔۔ باھو ۔۔ مجدد الف ثانی ۔۔ خواجہ باقی باللہ ۔۔ معین الدین چشتی ۔۔ نظام ۔۔ صابر ۔۔ بختیار کاکی

کلام کرتے ہیں

اِن کے کلام میں تنویر اور تاثیر کہاں سے آتی ہے

لامکان سے ہی آتی ہے

صوفی کے نزدیک معنی بدل جاتے ہیں

جیسے ۔۔ سیر فی الارض کے معنی علماء کے نزدیک

" سیر کرو زمین کے اوپر "

جبکہ صوفی کے نزدیک

" سیر کرو زمین کے اندر "

صوفی کا معاملہ الگ ہوتا ہے

صوفی ' فی ' کی تہوں میں یوں اترتا ہے کہ جیسے زمین میں تہوں میں اتر اتر جاتا ہے

باہر جب نکلتا ہے تو زمین کے ربانی خزانے لیکر باہر نکلتا ہے

صوفی سلامت با کرامت ۔۔۔

صوفی سے محیر العقول واقعات سر زد ہو جاتے ہیں تو کرامت سے موسوم کیے جاتے ہیں

لیکن صوفی تو خود ایک کرامت ہوتا ہے

صوفی کا وجود سب سے بڑی کرامت ہوتا ہے

اور حقیقت ہوتا ہے

صوفی کی سب سے بڑی کرامت ہی یہی ہوتی ہے کہ خلق خدا کی آنکھوں کے سامنے رہ کر بھی خلق سے پوشیدہ ہوتا ہے

ابو الحسن خرقانی کا قول ہے کہ

" ائے اللّٰہ مجھے اس مقام پر مت رکھ جہاں خلق اور حق اور من و تو کا فرق نہ ہو

ائے اللّٰہ مجھے ایسے مقام پر رکھ جہاں صرف تو ہی تو ہو اور میرا وجود ہی نہ ہو "

کسی نے ابو الحسن خرقانی سے پوچھا کہ آپ نے خدا کو کہاں دیکھا

تو فرمایا کہ جہاں خود کو نہیں دیکھا

صوفی چلتے چلتے فنا تک پہنچ جاتا ہے

فنا بھی مدارج میں سے ہے

مگر یہ طے ہے کہ صوفی فنا فی الذات ہوتا ہے

فنا فی ھُو ہوتا ہے

سب میں رہ کر سب سے جدا

سب سے مختلف اور سب سے منفرد

یہ بھی طے ہے کہ صوفی کا مطلب کامل ہے

ناقص نہیں ہے

صوفی کے ساتھ شاعر کے معاملات بھی الگ ہوتے ہیں

شاعر فزکس سے لیکر تصوف تک

( صوفی کے ساتھ کامل اور شاعر کے ساتھ جینوئن)

تمام تر علوم کا عالم ہوتا ہے

شاعری میرے نزدیک علم لدنی ہے

روزن سیاہ کے خالق کو آپ جانتے ہیں ناں

یہ عابد رضا ہیں

عالمِ علمِ لدنی

کہ ان کی شاعری میں فزکس سے لیکر تصوف تک ۔۔ اجرام فلکی تک ایک مدارِ فکر بنتا ہے

اور اس مدار کے گرد اس کی روحانی ، شعری اور لسانی فکر گھومتی ہے

یہ مگر ایک پیچیدہ عمل ہے

فزکس کے لحاظ سے بھی اور تصوف اور شعری لحاظ سے بھی

دماغ سے لیکر ایٹم تک

عابد رضا کی شعری کیفیت ایک نئی جہان معنی کی بازیافت کرتی ہے

ایک نیا شعری سرکل بناتی ہے

اور ان کے پاس ایک نئی condition of universal نظر آنے لگتی ہے

ان کے شعر کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے

کیونکہ ان کے پاس نئے شعری اور روحانی تجربات ہیں

شاعر ہو یا صوفی ۔۔ ان کے پاس باطنی سطح پر اگر نئے تجربات نہ ہوں تو ان کی شخصیت میں وہ پُر اسراریت نہیں ہوتی جو شاعر اور صوفی کے لیے خاص ہے

صاحب اسرار تو یہی لوگ ہوتے ہیں صوفی اور شاعر

صوفی ارض و سما کی سیر کرتا ہے تو ایک جینوئن شاعر بھی اسی طرح ارض و سما کی سیر کرتا ہے

عابد رضا کے پاس مگر صورتحال یکسر مختلف ہے

نئی فکری کیفیت

شعری اور روحانی مسافت

مختلف اور منفرد شعری منظرنامہ

تازہ تر امیجری

علامات اور استعارے

نئے امکانات اور مضامین

جو کہیں نہیں برتے گئے

اور پھر اس تازگی اور ندرت سے انہوں نے مضامین کو برتا ہے کہ غالب کے اس مصرع کی اصل اور مکمل تفہیم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

روزن سیاہ ایک ایسی ہی شعری کتاب کا نام ہے کہ جس کی غزل ہو یا نظم ہو ۔۔ ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور یہاں مضامین غیب سے حضور میں آتے ہیں

غیب کے لیے حضوری بھی ضروری ہے

اگر غیب کا حاضر نہ ہو تو اس کا وجود تکمیلیت کی سطح کو نہیں پہنچ سکتا

عابد رضا کے اپنے غیاب اور حضور ہیں

ان کی دبیز خاموشی کی تہوں سے ان کا کلام جنم لیتا ہے

تو یہ ان کی شعری کرامت ٹھہرتی ہے

نئے شعری ابعاد اور نئے پیراڈائم

نیا شعری وژن اور نیا رویہ

جداگانہ شعری اسلوب اور لفظی شِکوہ

مکرر عرض ہے کہ سب سے مختلف شعری مضامین

اسلوبیاتی اور شعری سطح پر ان کی شاعری میں سائنس کو بہت زیادہ دخل ہے

لیکن اس کی معنویت کا اطلاق خارجی اور داخلی ہر سطح پر ہوتا ہے

یوں کہ شعر کی بھی اپنی ایک سائنس ہوتی ہے

اسی سائنس سے انہوں نے شعر کہے ہیں

اگر چہ عالمِ امکان کی قید میں ہوں ابھی

میری نظر ہے مگر ممکنات سے آگے

نیا نیا ہے ابھی تو میرے جنوں کا سفر

کئی جہان ہیں اس کائنات سے آگے

مرے گمان کی وسعت ہزار نوری سال

صدائے کن فیکون کی ابد گیر کہکشاں ہوں میں

مثال مہر معین مسافتیں ہیں مری

بلیک ہول کی جانب رواں دواں ہوں میں

یہ مضامین اردو شاعری میں نہیں برتے گئے

اور ایسا سائنسی شعور کم کم شعراء کو ملا ہے

غالب کے بعد عابد رضا کے پاس شعر میں یہ سائنسی شعور کار فرما ہے

مگر ان کی معاصر شاعری میں الگ ایک فکری اور سائنسی وحدت ہے

اور اس فکری اور سائنسی وحدت میں خدا کی تلاش ہے

خدا جو عابد رضا کی نظر سے اوجھل نہیں ہے

خدائے شب کے لیے نذر بارگاہ میں رکھ

ستارہ سحری روزن سیاہ میں رکھ

عابد رضا جس بلیک ہول کی طرف رواں دواں ہیں یہی ان کا فکری منطقہ اور شعری رویہ ہے

یہ یہاں سے شعری تطمئن القلوب کی منزل صادقہ کو رو بہ سفر ہیں

صدائے کُن ۔۔۔ کی یہ ابد گیر فکری ، شعری ، روحانی ، لسانی اور سائنسی کہکشاں عابد رضا !

اپنے ہر شعر میں کائنات سے الگ نوع کا مخاطبہ اور مکالمہ قائم کرتے ہیں

دراصل انہوں نے ان چیزوں اور ان مظاہرِ اشیاء کی نئی سطح دریافت کی ہے اور اس کی تفہیم کی ہے

ظاہری بات ہے پھر اُن کا بیانیہ اور اسلوب بھی نیا ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ جو کہ آوازوں کے اس ہجوم میں بالکل نیا بھی ہے اور جداگانہ بھی

ان کی شاعری ایک universel truth ہے

Time and space کی نئی نظری ، فکری ، اور اجتہادی معنویت

جس کے تخلیقی امکانات اس کی شاعری کے معرض وجود میں ایک نئی تخلیقی فعالیت کے ساتھ نظر پڑتے ہیں

اور معنی و تفہیم کی تمام سابقہ انواع بدل کر نئی ہو جاتی ہیں

افلاطون کا تصور ہے کہ " ایک عالمِ اعیان ہے اور کائنات اس کا عکس ہے "

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ صوفی اور شاعر کا عالم اعیان نئی طرز کا ہوتا ہے

اور اس عالم اعیان کے جتنے بھی امکان ہیں وہ سب کے سب شاعر کی نظر میں ہوتے ہیں

یہی معنوی عالم اعیان دم ہمہ دم عابد رضا کی شاعری منعکس ہوتے ہیں

اُن کی تخلیقی فعالیت اور بصیرت اس امر کی شاہد ہے

عکس اور عکاس اور ان کے ساتھ معکوس ۔۔ ایک نئی مثلث ان کی شاعری میں بنتی ہے

دراصل یہ تثلیث ایک وسیع ترین دائرہ ہے جس میں کائنات ، انسان اور خدا کی پوری تجلی ہے

عابد رضا کی یہ فلاسفی بالکل الگ نوع کی ہے کہ ان کی شاعری کا مصدر و مرجع ان کا عظیم سائنسی دماغ ہے

اس عمل سے ایک نئی توانائی ان کے شعر کو ملتی ہے

گویا " نوری سالوں" کی توانائی ان کی شاعری میں پائی جاتی ہے

یونہی تو انہوں نے نہیں کہا کہ

مرے گمان کی وسعت ہزاروں نوری سال

یہ ان کی شاعری کے اجرام فلکی ہیں کہ سیارہ ہو یا ستارہ ہو ۔۔ ان کی شعری و فکری کائنات میں ایک الگ معنویت اور روشنی ہے

سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی آنکھ میں ایک ارب ریشے روشنی کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں اور اتنی ہی تعداد ان ستاروں کی ہے جو ملکی وے کہکشاں میں موجود ہیں

اگر عابد رضا کی شاعری کو اس نظر سے دیکھا جائے تو ان کی شاعری ملکی وے کہکشاں ہے کہ ان کی شاعری میں بھی اربوں ستارے پائے جاتے ہیں

شبِ سیاہ نے کھینچی ردائے بے خبری

ستارہ ٹوٹ کے بس گرد ہو گیا ہے کیا

مہلت ہی ستاروں کو کہاں حجلہ شب میں

سورج کو مگر ذوق سحر ہے کہ نہیں ہے

افلاک کے اس پار سے ہو آئیں تو پوچھیں

جو بات ادھر ہے وہ ادھر ہے کہ نہیں ہے

عابد رضا کا شعری نظام اور لسانی تشکیل بہت مختلف اور متنوع ہے

اور درست معنوں میں تمام تر معاصرین سے انتہائی مختلف ۔۔ کہ انہوں نے ایک ایسا شعری اسلوب تشکیل دیا ہے جو اردو غزل میں ہمیشہ ناپید رہے گا

ان کی شعری اور فکری جہات نئی زمینوں اور نئے زمانوں کو دریافت کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور اس سے ایک جدید سماجی ، شعری ، سائنسی اور روحانی شعور متشکل ہوتا ہوا نظر آتا ہے

اور ہونا بھی چاہیے ۔۔۔ کیونکہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج بنا دیا ہے اس لحاظ سے ہماری اردو شاعری میں عابد رضا کے علاؤہ اس موضوع پر اس تسلسل اور باریک نظری کے ساتھ

شاعری نہیں کی گئی یہ کارنامہ مگر عابد رضا نے سر انجام دیا ہے

انہوں نے پوری سائنس اور تصوف کو اپنی شاعری میں ایک مرکزے کے طور پر متشکل کیا ہے میں جوں جوں ان کی روزن سیاہ پڑھتا ہوں مجھ پہ سائنس کے نئے شعور کی بہت سی نئی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں

اکتسابِ قوت باطن سے عابد رضا نے اپنی غزل میں حرف حرف نور بھر دیا ہے

اور اسی باطن سے سماج سے کلام کیا ہے شعر پر عابد رضا کی نظر نوری اور برقی شعاع کی طرح پڑتی ہے اور شعر نئے نوع اور طور سے قرات کے دوران قاری پہ کھلتا ہے

نئے ڈھنگ اور نئے آہنگ سے رقم ہوتا ہے

ایک نوری شعلہ ہے جو ان کے قلب و باطن میں بھڑکتا رہتا ہے

جو محجوب ہے مگر صاف دکھائی پڑ رہا ہے

عابد رضا کائنات کی تخلیقی ماہیت کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں

اقبال کی فلاسفی کہ " آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکوں"

عابد رضا پر پوری طرح منکشف ہے

صدائے کن فیکون سے لیکر عابد رضا کی شعری روشنی تک

روزن سیاہ تخلیق کائنات کے اسرار و رموز سے مکمل طور پر سائنسی سطح و شعور کے ساتھ کلام کرتی ہے اور ایک نئی برقی رو عابد رضا کے شعری منظر نامے میں ابھرتی ہے جس کی معنویت ذہن میں روشنی کی رفتار کی طرح سفر کرتی ہے

ہو نہ ہو یہ منفرد کام عابد رضا ہی کر سکتے ہیں

ایسی سائنسی وحدت کے ساتھ ان کے سوا کوئی دوسرا شعر کہہ ہی نہیں سکتا

۔۔۔

غزل کے ساتھ عابد رضا نے نظم بھی کہی ہے

روزن سیاہ میں بارہ تیرہ نظمیں بھی شامل اشاعت ہیں

ان کی نظم ان کی غزل ہی کی طرح سب سے مختلف ہے

ان کے پاس نظم میں بہت سے موضوعات ہیں

ابنِ ادنی ۔۔۔ ان کی ایسی نظم ہے کہ جن کا شمار اردو کی سب سے بہترین نظموں میں ہوتا ہے

اس کے علاؤہ دیگر نظمیں انوکھی اختراع کی حامل ہیں کہ ان کی نظم بھی سطر سطر روشنی کے پھول بکھیرتی چلی جاتی ہے

حرف حرف نئی نظم ، ان کی نظم سے جنم لے رہی ہے اور یہ ایک ثروت مند اضافہ ہے

ایک قصہ گو کا قتل

ہو

یا

اگلی ہجرت کا دکھ

گنبد حیات ایک اسطورہ

ہو

یا

رصد گاہ

۔۔

ابد گزیدہ

ہو

یا

شہر آزردگی کا المیہ

رد تشکیل

ہو

یا

ٹائم لائن

تمام نظمیں انوکھی ہیں

تر و تازہ اور نئی نکور ہیں

اور ایک بھر پور معنوی دریافت کے ساتھ معاصر انسان کا سماجی رویہ اور المیہ پیش کرتی ہیں

۔۔۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024