راہی
راہی
Jun 25, 2023
سبھدرا کماری چوہان کی ہندی کہانی
دیدبان شمارہ۔۱۹
راہی
(ہندی کہانی)
کہانی کار: سُبھدرا کماری چوہان
(Subhadra Kumari Chauhan)
ہندی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر توصیف بریلوی
‘‘تیرا نام کیا ہے؟’’
‘‘راہی’’
‘‘تجھے کس جرم میں سزا ہوئی؟’’
‘‘چوری کی تھی سرکار’’
‘‘چوری، کیا چرایا تھا ؟’’
‘‘ناج کی گٹھری’’
‘‘کتنا ناج (اناج) تھا؟ ’’
‘‘ ہوگا پانچ چھا سیر’’
‘‘اور سزا کتنے دن کی ہے؟’’
‘‘سال بھر کی’’
‘‘تو، تونے چوری کیوں کی؟ مزدوری کرتی تب بھی تو دن بھر میں تین چار آنے پیسے مل جاتے۔ ’’
‘‘ہمیں مزدوری نہیں ملتی سرکار۔ ہماری ذات منگروری ہے۔ ہم صرف مانگتے کھاتے ہیں۔’’
‘‘اور بھیک نہ ملے تو ؟’’
‘‘تو ، چوری کرتے ہیں۔’’
‘‘اس دن کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے۔ بازار میں بہت دیر تک مانگا۔ بوجھ ڈھونے کے لیے ٹوکنا لے کر بھی بیٹھی رہی لیکن ، کچھ نہ ملا۔ سامنے کسی کا بچہ رو رہا تھا، اسے دیکھ کر مجھے اپنے بھوکے بچوں کی یاد آگئی۔ وہیں پر کسی کے ناج کی گٹھری رکھی تھی، اسے لے کر بھاگی ہی تھی کہ پولیس والے نے پکڑ لیا۔ ’’
انیتانے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا:
‘‘پھر تونے کہا نہیں کہ بچے بھوکے تھے اس لیے چوری کی۔ ممکن تھا اس بات سے مجسٹریٹ سزا کچھ کم کر دیتا۔ ’’
‘‘ہم غریبوں کی کوئی نہیں سنتا سرکار۔ بچے آئے تھے کچہری میں ۔ میں نے سب کچھ کہا لیکن کسی نے نہیں سنا۔ ’’ راہی نے جواب دیا۔
‘‘اب تیرے بچے کس کے پاس ہیں؟’’ ان کا باپ ہے ؟ ’’ انیتا نے پوچھا۔
‘‘راہی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ان کا باپ مر گیا سرکار۔ جیل میں اسے مارا تھا اور وہ ہسپتال میں جاکر مر گیا۔ اب بچوں کا کوئی نہیں ہے۔’’
‘‘تو ، تیرے بچوں کا باپ بھی جیل ہی میں مرا۔ وہ جیل کیوں آیا تھا؟ ’’ انیتا نے سوال کیا۔
‘‘سرکار اسے تو بلا کسی قصور کے ہی پکڑ لیا گیا تھا ۔’’ راہی نے جواب دیا۔
‘‘تاڑی پینے کو گیا تھا۔ دو چار دوست بھائی اس کے ساتھ تھے۔ میرے گھر والے کو ایک وقت پولیس والے سے جھگڑا بھی ہو گیا تھا۔ اسی کا بدلا اس نے لیا۔ ۱۰۹ ؍ میں اس کا چالان کر کے سال بھر کی سزا دلوا دی وہیں وہ مر گیا۔’’
انیتا نے ایک لمبی سانس کے ساتھ کہا:
‘‘اچھا جا ! اپنا کام کر۔’’
راہی چلی گئی۔ انیتا ستیہ گرہ(انقلاب) کر کے جیل آئی تھی، پہلے اسے ‘بی’ کلاس دیا گیا تھا۔ پھر اس کے گھر والوں نے لکھا پڑھی کر کے اسے ‘اے’ کلاس دلوا دیا تھا۔ انیتا کے سامنے آج ایک سوال تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ملک کی غریبی اور ان غریبوں کی تکالیف کو دور کرنے کی کوئی ترکیب نہیں ہے۔ ہم سب ہی اس خدا بند کے پیدا کردہ ہیں، ایک ہی ملک کے باشندے ہیں۔ حکومت کم از کم ہم سب کو کھانے پہننے کا یکساں حق دے ہی۔ پھر یہ کیا بات ہے؟ کچھ لوگ تو بڑے آرام سے رہتے ہیں اور کچھ لوگ پیٹ بھرنے کے لیے اناج کی چوری کرتے ہیں۔ اس کے بعد غور و فکر نہ کرپانے کی وجہ سے اور سرکاری وکیل کی چالاکی سے بھری جرح کی بنا پر چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں بھی جیل بھیج دی جاتی ہیں۔ان کے بچے بھوکوں مرنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ قیدی ہیں جو جیل آکر سچ مچ جیل کی زندگی کی تکالیف اٹھاتے ہیں اور دوسری طرف ہیں ہم لوگ جو حب الوطنی اور قربانی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہوئے جیل جاتے ہیں۔ ہمیں عام طور پر دوسرے قیدیوں کے مقابلے اچھا سلوک ملتا ہے پھر بھی ہم قناعت نہیں کرتے۔ ہم جیل آکر ‘اے’ کلاس اور ‘بی’ کلاس کے لیے جھگڑتے ہیں۔ جیل آکر ہی ہم کون سی بڑی قربانی دے دیتے ہیں۔ جیل میں ہمیں کون سی تکلیف رہتی ہے سوائے اس کے کہ ہماری پیشانی پر قائد اور رہنما کی سیل لگ جاتی ہے۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا چوتھا جیل کا سفر ہے۔ یہ ہماری پانچویں جیل یاترا ہے اور اپنی جیل یاتراکے قصے بار بار سنا سنا کر خود پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ آزادی کی بات ہے۔مطلب یہ ہے کہ ہم کتنی بار جیل جا چکے ہوتے ہیں۔یعنی اتنی ہی سیڑھی ہم حب الوطنی اور قربانی کی بنا پر دوسروں سے اوپر اٹھ جاتے ہیں اور جیل سے چھوٹنے کے بعد کانگریس کو راجکیہ ستّا ( حکومت) ملتے ہی ہم منسٹر ، مقامی اداروں میں ممبر اور کیا کیا ہو جاتے ہیں۔
انیتا سوچ رہی تھی کہ کل تک کھدّر بھی نہ پہنتے تھے، جو بات بات پر کانگریس کا مذاق اڑاتے تھے کانگریس کے ہاتھوں میں طاقت آتے ہی وہ کانگریس کے مرید بن گئے۔ کھدّر پہننے لگے۔ یہاں تک کہ جیل میں بھی دکھائی پڑنے لگے۔ حقیقت میں یہ حب الوطنی ہے یا حب الحکومت۔ انیتا کے اندرون میں خیالات کا انبار لگا ہوا تھا۔ وہ فلسفی ہوتی جا رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے اندرہی اندر اسے کچھ کاٹ رہا تھا۔ انیتا کے سوالات انیتا کو ہی کھائے جا رہی تھے ۔ اسے بار بار یہ لگ رہا تھا کہ اس کی حب الوطنی سچی حب الوطنی نہیں بلکہ مذاق ہے۔ اسے ندامت ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ خود شناسی بھی۔
انیتا کی روح بول اٹھی۔ حقیقت میں سچی حب الوطنی تو ان غریبوں کی تکالیف کو دور کرنے میں ہے۔غریبوں کی تکالیف دور کرنے میں ہی سچی حب الوطنی ہے۔یہ کوئی دوسرے نہیں ہماری ہی مادر ہند کی اولادیں ہیں۔ان ہزاروں لاکھوں، بھوکے ننگے، بھائی بہنوں کی اگر ہم کچھ خدمت کر سکیں اور کچھ تکالیف کو دور کر سکیں تو سچ مچ ہم نے اپنے ملک کی کچھ خدمت کی۔ حقیقت میں ہمارا ملک تو دیہاتوں میں ہے۔ کسانوں کی بد تر حالت سے ہم تھوڑے بہت تو واقف ہی ہیں۔ ان غریبوں کے پاس گھر بار نہیں ہے۔ناخواندگی اور لا علمی کا اتنا دبیز پردہ ان کی آنکھوں پر پڑا ہے کہ چوری کرنا اور بھیک مانگنا ہی ان کا کام ہے۔ اس سے اچھی زندگی گزارنے کا تصور بھی یہ لوگ نہیں کر سکتے۔ آج یہاں ڈیرہ ڈال کے رہے اور کل کہیں چوری کر لی۔ بچے تو بچے نہیں سال دو سال کے لیے جیل۔ کیا انسانی زندگی کا یہی مقصد ہے؟ مقصد ہے بھی یا نہیں۔ اگر نہیں ہے تو نظریات کی اعلا سطح پر ٹکے ہوئے ہمارے عوامی ہیرو اور اعلا ہستیوں کی ہمیں کیا ضرورت؟ تاریخ، مذہبی فلسفہ، علم وسائنس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن زندگی کا مقصد ہے۔ ضرور ہے۔ دنیا کے سراب میں ہم دنیا کا مقصد بھول جاتے ہیں۔
سطح کے اوپر پہنچ پانے والی کچھ ایک مہان آتماؤں کو چھوڑ کر سارای آبادی دنیا میں خود کو کھویا ہوا پاتی ہے۔ذمے داری اور غیر ذمے داری کی اسے فکر نہیں۔جھوٹ سچ کی سمجھ نہیں ورنہ انسانیت سے بڑھ کر کون سا انسانی مذہب ہے۔ گرتی ہوئی انسانیت کو زندگی دینے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ راہی جیسی بھولی بھالی لیکن گمراہ روحوں کے فلاح و بہبود کی مشق زندگی کی ریاضت ہونی چاہیے۔ستیا گرہی( انقلابی) کا یہی پہلا عہد کیوں نہ ہو؟ حب الوطنی کا پیمانہ یہی کیوں نہ بنے؟
انیتا دن بھر انہیں خیالوں میں ڈوبی رہی۔شام کو وہ اسی طرح سوچتے سوچتے سو گئی۔رات میں اس نے خواب دیکھا کہ جیل سے چھوٹ کر وہ انہیں منگروری لوگوں کے گاؤں میں پہنچ گئی ہے۔ وہاں اس نے ایک چھوٹا سا آشر م کھول لیاہے۔ اسی آشرم میں چھوٹے چھوٹے بچے پڑھتے ہیں اور عورتیں سوت کاتتی ہیں اور دوسری طرف مرد کپڑا بنتے ہیں۔ روئی دھنکتے ہیں۔ شام کو روز انہیں مذہبی کتابیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور ملک میں کہاں کیا ہو رہا ہے، آسان زبان میں سمجھایا جاتا ہے۔
وہی بھیک مانگنے اور چوری کرنے والے اب ایک مثالی گاؤں کے باشندے ہو چلے ہیں۔ رہنے کے لیے انہوں نے چھوٹے چھوٹے گھر بنا لیے ہیں۔راہی کے یتیم بچوں کوانیتا اپنے ساتھ رکھنے لگی۔ انیتا یہی سنہرا خواب دیکھ رہی ہے۔ رات میں وہ دیر سے سوئی تھی۔ صبح سات بجے تک اس کی نیند نہ کھل پائی۔ اچانک خاتون جیلر نے آکر اسے جگا دیا اور بولی ‘ آپ گھر جانے کو تیار ہو جائیے۔ ’ آپ کے والد بیمار ہیں۔ آپ بنا شرط چھوڑی جا رہی ہیں۔ انیتا اپنے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے سہانے تصور کو لے کر گھر چلی گئی۔
دیدبان شمارہ۔۱۹
راہی
(ہندی کہانی)
کہانی کار: سُبھدرا کماری چوہان
(Subhadra Kumari Chauhan)
ہندی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر توصیف بریلوی
‘‘تیرا نام کیا ہے؟’’
‘‘راہی’’
‘‘تجھے کس جرم میں سزا ہوئی؟’’
‘‘چوری کی تھی سرکار’’
‘‘چوری، کیا چرایا تھا ؟’’
‘‘ناج کی گٹھری’’
‘‘کتنا ناج (اناج) تھا؟ ’’
‘‘ ہوگا پانچ چھا سیر’’
‘‘اور سزا کتنے دن کی ہے؟’’
‘‘سال بھر کی’’
‘‘تو، تونے چوری کیوں کی؟ مزدوری کرتی تب بھی تو دن بھر میں تین چار آنے پیسے مل جاتے۔ ’’
‘‘ہمیں مزدوری نہیں ملتی سرکار۔ ہماری ذات منگروری ہے۔ ہم صرف مانگتے کھاتے ہیں۔’’
‘‘اور بھیک نہ ملے تو ؟’’
‘‘تو ، چوری کرتے ہیں۔’’
‘‘اس دن کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے۔ بازار میں بہت دیر تک مانگا۔ بوجھ ڈھونے کے لیے ٹوکنا لے کر بھی بیٹھی رہی لیکن ، کچھ نہ ملا۔ سامنے کسی کا بچہ رو رہا تھا، اسے دیکھ کر مجھے اپنے بھوکے بچوں کی یاد آگئی۔ وہیں پر کسی کے ناج کی گٹھری رکھی تھی، اسے لے کر بھاگی ہی تھی کہ پولیس والے نے پکڑ لیا۔ ’’
انیتانے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا:
‘‘پھر تونے کہا نہیں کہ بچے بھوکے تھے اس لیے چوری کی۔ ممکن تھا اس بات سے مجسٹریٹ سزا کچھ کم کر دیتا۔ ’’
‘‘ہم غریبوں کی کوئی نہیں سنتا سرکار۔ بچے آئے تھے کچہری میں ۔ میں نے سب کچھ کہا لیکن کسی نے نہیں سنا۔ ’’ راہی نے جواب دیا۔
‘‘اب تیرے بچے کس کے پاس ہیں؟’’ ان کا باپ ہے ؟ ’’ انیتا نے پوچھا۔
‘‘راہی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ان کا باپ مر گیا سرکار۔ جیل میں اسے مارا تھا اور وہ ہسپتال میں جاکر مر گیا۔ اب بچوں کا کوئی نہیں ہے۔’’
‘‘تو ، تیرے بچوں کا باپ بھی جیل ہی میں مرا۔ وہ جیل کیوں آیا تھا؟ ’’ انیتا نے سوال کیا۔
‘‘سرکار اسے تو بلا کسی قصور کے ہی پکڑ لیا گیا تھا ۔’’ راہی نے جواب دیا۔
‘‘تاڑی پینے کو گیا تھا۔ دو چار دوست بھائی اس کے ساتھ تھے۔ میرے گھر والے کو ایک وقت پولیس والے سے جھگڑا بھی ہو گیا تھا۔ اسی کا بدلا اس نے لیا۔ ۱۰۹ ؍ میں اس کا چالان کر کے سال بھر کی سزا دلوا دی وہیں وہ مر گیا۔’’
انیتا نے ایک لمبی سانس کے ساتھ کہا:
‘‘اچھا جا ! اپنا کام کر۔’’
راہی چلی گئی۔ انیتا ستیہ گرہ(انقلاب) کر کے جیل آئی تھی، پہلے اسے ‘بی’ کلاس دیا گیا تھا۔ پھر اس کے گھر والوں نے لکھا پڑھی کر کے اسے ‘اے’ کلاس دلوا دیا تھا۔ انیتا کے سامنے آج ایک سوال تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ملک کی غریبی اور ان غریبوں کی تکالیف کو دور کرنے کی کوئی ترکیب نہیں ہے۔ ہم سب ہی اس خدا بند کے پیدا کردہ ہیں، ایک ہی ملک کے باشندے ہیں۔ حکومت کم از کم ہم سب کو کھانے پہننے کا یکساں حق دے ہی۔ پھر یہ کیا بات ہے؟ کچھ لوگ تو بڑے آرام سے رہتے ہیں اور کچھ لوگ پیٹ بھرنے کے لیے اناج کی چوری کرتے ہیں۔ اس کے بعد غور و فکر نہ کرپانے کی وجہ سے اور سرکاری وکیل کی چالاکی سے بھری جرح کی بنا پر چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں بھی جیل بھیج دی جاتی ہیں۔ان کے بچے بھوکوں مرنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ قیدی ہیں جو جیل آکر سچ مچ جیل کی زندگی کی تکالیف اٹھاتے ہیں اور دوسری طرف ہیں ہم لوگ جو حب الوطنی اور قربانی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہوئے جیل جاتے ہیں۔ ہمیں عام طور پر دوسرے قیدیوں کے مقابلے اچھا سلوک ملتا ہے پھر بھی ہم قناعت نہیں کرتے۔ ہم جیل آکر ‘اے’ کلاس اور ‘بی’ کلاس کے لیے جھگڑتے ہیں۔ جیل آکر ہی ہم کون سی بڑی قربانی دے دیتے ہیں۔ جیل میں ہمیں کون سی تکلیف رہتی ہے سوائے اس کے کہ ہماری پیشانی پر قائد اور رہنما کی سیل لگ جاتی ہے۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا چوتھا جیل کا سفر ہے۔ یہ ہماری پانچویں جیل یاترا ہے اور اپنی جیل یاتراکے قصے بار بار سنا سنا کر خود پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ آزادی کی بات ہے۔مطلب یہ ہے کہ ہم کتنی بار جیل جا چکے ہوتے ہیں۔یعنی اتنی ہی سیڑھی ہم حب الوطنی اور قربانی کی بنا پر دوسروں سے اوپر اٹھ جاتے ہیں اور جیل سے چھوٹنے کے بعد کانگریس کو راجکیہ ستّا ( حکومت) ملتے ہی ہم منسٹر ، مقامی اداروں میں ممبر اور کیا کیا ہو جاتے ہیں۔
انیتا سوچ رہی تھی کہ کل تک کھدّر بھی نہ پہنتے تھے، جو بات بات پر کانگریس کا مذاق اڑاتے تھے کانگریس کے ہاتھوں میں طاقت آتے ہی وہ کانگریس کے مرید بن گئے۔ کھدّر پہننے لگے۔ یہاں تک کہ جیل میں بھی دکھائی پڑنے لگے۔ حقیقت میں یہ حب الوطنی ہے یا حب الحکومت۔ انیتا کے اندرون میں خیالات کا انبار لگا ہوا تھا۔ وہ فلسفی ہوتی جا رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے اندرہی اندر اسے کچھ کاٹ رہا تھا۔ انیتا کے سوالات انیتا کو ہی کھائے جا رہی تھے ۔ اسے بار بار یہ لگ رہا تھا کہ اس کی حب الوطنی سچی حب الوطنی نہیں بلکہ مذاق ہے۔ اسے ندامت ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ خود شناسی بھی۔
انیتا کی روح بول اٹھی۔ حقیقت میں سچی حب الوطنی تو ان غریبوں کی تکالیف کو دور کرنے میں ہے۔غریبوں کی تکالیف دور کرنے میں ہی سچی حب الوطنی ہے۔یہ کوئی دوسرے نہیں ہماری ہی مادر ہند کی اولادیں ہیں۔ان ہزاروں لاکھوں، بھوکے ننگے، بھائی بہنوں کی اگر ہم کچھ خدمت کر سکیں اور کچھ تکالیف کو دور کر سکیں تو سچ مچ ہم نے اپنے ملک کی کچھ خدمت کی۔ حقیقت میں ہمارا ملک تو دیہاتوں میں ہے۔ کسانوں کی بد تر حالت سے ہم تھوڑے بہت تو واقف ہی ہیں۔ ان غریبوں کے پاس گھر بار نہیں ہے۔ناخواندگی اور لا علمی کا اتنا دبیز پردہ ان کی آنکھوں پر پڑا ہے کہ چوری کرنا اور بھیک مانگنا ہی ان کا کام ہے۔ اس سے اچھی زندگی گزارنے کا تصور بھی یہ لوگ نہیں کر سکتے۔ آج یہاں ڈیرہ ڈال کے رہے اور کل کہیں چوری کر لی۔ بچے تو بچے نہیں سال دو سال کے لیے جیل۔ کیا انسانی زندگی کا یہی مقصد ہے؟ مقصد ہے بھی یا نہیں۔ اگر نہیں ہے تو نظریات کی اعلا سطح پر ٹکے ہوئے ہمارے عوامی ہیرو اور اعلا ہستیوں کی ہمیں کیا ضرورت؟ تاریخ، مذہبی فلسفہ، علم وسائنس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن زندگی کا مقصد ہے۔ ضرور ہے۔ دنیا کے سراب میں ہم دنیا کا مقصد بھول جاتے ہیں۔
سطح کے اوپر پہنچ پانے والی کچھ ایک مہان آتماؤں کو چھوڑ کر سارای آبادی دنیا میں خود کو کھویا ہوا پاتی ہے۔ذمے داری اور غیر ذمے داری کی اسے فکر نہیں۔جھوٹ سچ کی سمجھ نہیں ورنہ انسانیت سے بڑھ کر کون سا انسانی مذہب ہے۔ گرتی ہوئی انسانیت کو زندگی دینے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ راہی جیسی بھولی بھالی لیکن گمراہ روحوں کے فلاح و بہبود کی مشق زندگی کی ریاضت ہونی چاہیے۔ستیا گرہی( انقلابی) کا یہی پہلا عہد کیوں نہ ہو؟ حب الوطنی کا پیمانہ یہی کیوں نہ بنے؟
انیتا دن بھر انہیں خیالوں میں ڈوبی رہی۔شام کو وہ اسی طرح سوچتے سوچتے سو گئی۔رات میں اس نے خواب دیکھا کہ جیل سے چھوٹ کر وہ انہیں منگروری لوگوں کے گاؤں میں پہنچ گئی ہے۔ وہاں اس نے ایک چھوٹا سا آشر م کھول لیاہے۔ اسی آشرم میں چھوٹے چھوٹے بچے پڑھتے ہیں اور عورتیں سوت کاتتی ہیں اور دوسری طرف مرد کپڑا بنتے ہیں۔ روئی دھنکتے ہیں۔ شام کو روز انہیں مذہبی کتابیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور ملک میں کہاں کیا ہو رہا ہے، آسان زبان میں سمجھایا جاتا ہے۔
وہی بھیک مانگنے اور چوری کرنے والے اب ایک مثالی گاؤں کے باشندے ہو چلے ہیں۔ رہنے کے لیے انہوں نے چھوٹے چھوٹے گھر بنا لیے ہیں۔راہی کے یتیم بچوں کوانیتا اپنے ساتھ رکھنے لگی۔ انیتا یہی سنہرا خواب دیکھ رہی ہے۔ رات میں وہ دیر سے سوئی تھی۔ صبح سات بجے تک اس کی نیند نہ کھل پائی۔ اچانک خاتون جیلر نے آکر اسے جگا دیا اور بولی ‘ آپ گھر جانے کو تیار ہو جائیے۔ ’ آپ کے والد بیمار ہیں۔ آپ بنا شرط چھوڑی جا رہی ہیں۔ انیتا اپنے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے سہانے تصور کو لے کر گھر چلی گئی۔