افسانہ:ریت کے پرندے
افسانہ:ریت کے پرندے
Aug 8, 2025


افسانہ:ریت کے پرندے
سبین علی
گلِ خیرو کی باڑ میں کوڑیالہ سانپ تھا ـ دو بار مالی کو نظر آیا تھا اور ایک دن ڈائریکٹر صاحب کے چھوٹے لڑکے نے کرکٹ بال وہاں سے نکالتے ہوئے دیکھا۔ اسی وقت قاری شاکر کی ڈھنڈیا مچ گئی ۔ مالی چوکیدار اور ڈرائیور سبھی لاٹھیاں ڈنڈے اٹھائے پھولوں سے لدی باڑ سے پرے کھڑے اندر سے سہمے ہوئے مگر غلغلہ کرتے مصنوعی دلیری دکھا رہے تھے ساتھ ہی یہ ڈر بھی انہیں کھائے جا رہا تھے کہ اتنے پودوں کے ببچ رینگتا ہوا وہ سانپ جانے کس سمت سے حملہ آور ہو جائے۔
قاری شاکر کی ڈیوٹی وفاقی محکمے کی جانب سے آئے انکوائری وفد کے ساتھ لگی تھی۔ ان کے آرام چائے پانی و دیگر لوازمات کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری تھی۔ ایسے میں ڈائریکٹر صاحب اپنے اس وفادار اور افسران بالا کے مزاج سے آشنا ملازم کو کبھی دوسری جگہ نہ بھیجتے مگر بلاوا بیگم صاحبہ کی جانب سے تھا۔ اپنے سرکاری بنگلے میں کوڑیالے سانپ کی دہشت ڈائریکٹر کو دفتر کے اندر بھی محسوس ہوئی۔ اُسے وسطی پنجاب کے اس علاقے میں پوسٹ ہوئے چند سال بیت چکے تھے۔ وہاں قرب و جوار میں کئی بار خانہ بدوش جوگیوں کے قبائل آکر ٹھہرتے تھے ۔ ان کی سرکاری کالونی کے قریبی دیہات اور کھیتوں سے اکثر سانپ پکڑے جاتے جنہیں عموما کسان موقع پر ہی مار دیتے تھے۔ سانپ سے ڈسے جانے کے واقعات بھی کئی بار سننے میں آتے اس وقت اُسے مقامی لوگوں سے سنے زہریلے سانپوں کے کئی واقعات یاد آ رہے تھے۔
سب لوگ کہہ رہے تھے صرف قاری شاکر ہے جو اس سانپ کو تلاش کر کے قابو کر سکتا ہے۔
اس نے دوسرے ملازم کو سرکاری وفد کی خدمت کے لیے بھیجتے ہوئے فوراً قاری کو اپنے بنگلے پر پہنچ جانے کا کہا۔
قاری کے پاس کوئی عمل ہے۔
اسے کوئی ٹونا آتا ہے
سر جی بہت ورے یہ جوگیوں کے بالڑوں کو سبق دیتا رہا ہے ان سے کچھ گُر سیکھا ہو گا ۔
نہ جی نہ بڑا نیک بندہ ہے جی. بچوں کو قرآن پاک پڑھاتا ہے کسی بزرگ کا ہاتھ ہے اس کے سر پر
یہ تو مؤکل بھی قابو کر لے پر لگتا ہے اس عمل کی مرشدوں سے اجازت نہیں ملی ۔
بس سانپ کو ایسے سُن کرتا ہے جیسے وہ مٹی کا کھڈونا ہو ....
دفتر کا عملہ اس کی معلومات میں اضافہ کر رہا تھا۔
قاری نے بنگلے پر پہنچتے ہی باڑ کی جڑوں میں جھانک کر سانپ کا کھُرا پکڑا اور وہیں سے دائیں ہاتھ کی مُٹھی میں مٹی بھر لی۔ سانپ ایک جڑ میں سوکھے پتوں کے نیچے کنڈلی مارے بیٹھا تھا اُس نے مٹھی میں بھری مٹی کچھ پھونک کر سانپ پر دے ماری۔
سارے ملازم سہمے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ "مُڑ کوئی لاٹھی نہ مارے سپ کچھ نہ کہہ سی میں ایہدا زہر کڈ ساں "
اس نے ایک سوکھی چھڑی کے ساتھ سانپ پکڑتے ہوئے اس کا سر قابو کر لیا جو بالکل سُن ہو چکا تھا اس نے کوئی مزاحمت کی نہ ہی پھنکارا۔ قاری نے سانپ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اطراف سے اس کے جبڑے دبا کر منہ کھولا اور شکاری چاقو کے ساتھ اس کے زہر دانت باہر کھینچتے ہوئے ان کی طوالت دیکھنے لگا۔ پھر اس نے چاقو کو دونوں فینگ کے پیچھے رکھتے ہوئے ایک جھٹکا لگا کر ان کو توڑ دیا اور سانپ کو کپڑے کے تھیلے میں ڈال کر اوپر رسی باندھ دی۔
دوسری طرف چرب زبان مالی وہاں موجود باقی ملازمین کو سانپوں کی حکایتیں سنانے میں مشغول تھا۔
"ہمارے پنڈ کے باہر رہنے والے ایک بڑے جوگی نے قصہ سنایا تھا کہ اک واری پھنیر اور کوڑیالے سانپ کی آپس میں ٹھن گئی۔ پھنیر ناگ کہنے لگا وہ دنیا کا سب سے خوفناک اور خطرناک سانپ ہے جبکہ کوڑیالہ سانپ کہنے لگا وہ زیادہ زہریلا اور خطرناک ہے ۔ پھر دونوں میں شرط بَد گئی کہ جو سانپ جوگیوں کے پیشوا گُگے پیر کو ڈس لے گا وہی زیادہ زہریلا مانے جائے گا۔ جوگی کے پاس سانپوں کی کئی منکے تھے جو منٹوں میں زہر جوس لیتے تھے۔ کوڑیالہ اپنی ضد کا پکا تھا ایک دن اس نے گُگے کو ڈسا اور وہ نیلو نیل ہو کر مر گیا - منکہ رکھنے کا بھی وقت نہ ملا - تب سے جوگی اس سانپ کا وساہ نہیں کرتے - “
قاری کو زندہ سانپ پکڑے میں وہ مہارت حاصل تھی کہ تھل کے کسی جوگی کو بھی نہ ہوگی ۔ گندمی رنگت کھچڑی داڑھی گٹھا ہوا صحت مند جسم اور میانی قامت کے قاری شاکر کو عرف عام میں سب لوگ فقط قاری کہتے تھے . اس نے قرآن مجید جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل ایک عالم دین کے مدرسے حفظ کیا تھا مگر قرآن مجید کے سوا اسے دوسرے فقہی علوم سے کبھی دلچسپی پیدا نہ ہوئی۔ حفظ کے بعد سرکاری سکول سے میٹرک کیا اور ڈپلومہ کرنے کے بعد فیلڈ اسسٹنٹ کے طور پر سرکاری ملازم بھرتی ہو گیا ۔ کبھی کبھار امام کی غیر حاضری میں سرکاری کالونی کی مسجد میں نماز کی امامت بھی کروا دیتا تھا اور شام کو بڑے صاحب کے بچوں کو قرآن مجید بھی پڑھانے جاتا ۔ وہاں اکثر وہ بڑے صاحب کے کپڑے استری کرتا انہیں ہینگر میں لٹکاتا اور جوتے پالش سے چمکا کر بڑی وارڈروب میں ترتیب سے رکھ دیتا۔ اپنی ایسی کئی خوبیوں کی وجہ سے وہ اپنے صاحب کا منظور نظر بن چکا تھا اور بیرونی دوروں پر وہ اسے ساتھ لے جاتے۔ تنخواہ کے ساتھ تھوڑا بہت ٹی اے ڈی اے بن جاتا ۔ کپڑا کھانا اور اس کے بچوں کے لیے بھی صاحب سے کچھ نہ کچھ نقد قرآن مجید پڑھانے کے نام پر مل ہی جاتا۔
اسے صاف ستھرے شلوار قمیض میں ملبوس نیم سرائیکی لہجے میں اردو بولتے دیکھ کر کوئی گمان نہیں کر سکتا تھا کہ اسے نیشنل جیوگرافک چینل اور اسٹیو ارون کتنا پسند ہو سکتے ہیں۔ اکثر وہ بڑے صاحب کے بنگلے میں شام کے وقت ان کے گھر کے کام کرتے کرتے ٹی وی پر اسٹیو ارون کا پروگرام دیکھا کرتا۔ اسٹیو کی خاکی نیکر ،تیزی سے کسی سانپ کا پیچھا کرنا یا دلدلی پانیوں میں مگرمچھ قابو کرنا قاری کو کسی انوکھے جنون سے ہمکنار کر دیتا۔ دھیرے دھیرے اسٹیو ارون سے اس کے لگاؤ کا علم سب کو ہوتا چلا گیا. جیوگرافک چینل پر اسٹیو کا شو دیکھنے کے لیے وہ اکثر صاحب کے بنگلے پر عشاء کے بعد تک رُک جایا کرتا۔ کس دن کتنے بجے اسٹیو کی کوئی ڈاکومنٹری آئے گی قاری کو اچھی طرح معلوم ہوتا۔ لڑکوں نے اس کا نام قاری اسٹیو رکھ دیا تھا۔ یہ نام سن کر قاری زیرلب مسکراتا. پھر کہتا چھڈو صاحب جی کہاں اسٹیو کہاں میں.... لیکن من ہی من میں چاہتا کہ وہ بھی کسی ڈاکومنٹری میں اپنے فن اور بہادری کا مظاہرہ کرے۔ کیا ہوا جو وہ ایک حافظ قرآن فیلڈ اسسٹنٹ ہے۔ جنگلی جانوروں اور سانپوں کے متعلق اس کی معلومات حیران کن حد تک وسیع تھیں ۔ سانپ دیکھتے ہی وہ اسکی نسل انگریزی اور مقامی نام میں بتا دیتا۔ کبھی کوئی شخص سانپ کو دیکھ کر ڈر جاتا تو کہتا! یہ تو ڈڈو کھانا سپ ہے اس میں زہر نہیں ہوتا مت مارنا اسے۔ یہ کسان دوست ہے چھوڑ دو اسے یہ فصلیں برباد کرنے والے چوہے کھاتا ہے بس۔
کئی بار اس نے خطرناک سانپ پکڑ کر اپنے علاقے کے خانہ بدوش جوگیوں کو معمولی رقم کے عوض بیچ دیے تھے۔ جوگی ان سانپوں سے میلوں ٹھیلوں میں مختلف کرتب دکھاتے اپنی روزی کماتے۔
کچھ دن قبل ایک بوڑھے جوگی نے اس سے امداد مانگی تھی اس کی بیٹی کی شادی تھی اور شادی کے انتظامات کے لیے نہ تو کوئی رقم تھی اور نہ ہی جہیز میں دینے کے لیے کوئی بڑا سانپ موجود تھا۔
قاری نے ایک پھنیر سانپ پکڑ کر جوگی کو بیٹی کی شادی کے لیے تحفتاً دیا تھا اور اب مالی کو لگ رہا تھا کہ کوڑیالہ سانپ بھی اسی جوگی کو دے آئے گا۔
کچھ دن بعد جب قاری صاحب کے بچوں کو سیپارہ پڑھا کر گھر جارہا تھا تو مالی نے اسے بنگلے سے باہر روک لیا ۔
دیکھ قاری اسٹیو مجھے وہ منتر سکھا دے جس سے تو سپ قابو کرتا ہے.
منتر ... قاری ہنسا
مجھے کوئی منتر نہیں آتا
اچھا چھڈ پھر کسی مرشد سے ملا وظیفہ ہوگا۔۔۔۔ کیا تو نے چِلا کاٹا تھا.. مالی نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
تم لوگوں کا دماغ خراب ہے ..
بھلا یہ جیوگرافی والے بھی چلے کاٹتے یا منتر پڑھتے ہیں؟
بس فن ہے یہ ... فن
مگر مالی نے اسے خود اپنی آنکھوں سے مٹی سے بھری مٹھی پر پھونک مارتے دیکھا تھا۔
کچھ دنوں بعد قاری نے ایک کالا ناگ پکڑا کوئی دس فٹ لمبا اور چمکیلا سانپ تھا جو ایک بنگلے کے پچھلے صحن میں بنے مرغیوں کے ڈربے سے انڈے کھانے آتا تھا۔ ایک دن کسی نے دیکھ لیا اور شور مچا دیا
جب قاری سانپ پکڑنے گیا تو مالی بھی پیچھے ہو لیا ۔ اس بار پھر اس نے مٹھی بھر مٹی سانپ کی طرف اچھالی تھی ۔ مٹی کا ایک ذرہ ہی سانپ کو چھوا ہوگا مگر اتنا بڑا ناگ سُن ہو گیا اس نے کوئی خاص مزاحمت نہ کی اور قاری نے اسے تھیلے میں بند کر دیا ۔ جس افسر کے بنگلے سے سانپ پکڑا گیا اس نے بہت اصرار کیا کہ سانپ کو یہیں مار دو اگر اسے چھوڑ دیا تو یہ دوبارہ آئے گا۔
قاری نے کہا! صاحب سانپوں کا جوڑا ہوتا ہے. اگر اسے مارا تو اسکا دوسرا ساتھی ادھر آئے گا ۔
یہ کوڈی والا سانپ ہے جوگیوں کو دوں گا انکے کام کا ہے۔
اس طرح کے دو تین مزید واقعات کے بعد ایک دن اسے بڑے افسر کے لڑکوں اور دیگر ملازموں نے گھیر لیا اور اصرار کرنے لگے کہ بتائے وہ مٹی پر کیا پڑھ کر پھونکتا ہے.
لو بھلا وہ گورے بھی کوئی پھونک مارتے ہیں؟ جنگلی جنور قابو کرنا مہارت اور تجربے کا کام ہے بس۔
مگر ان سب کا اصرار جاری رہا بہت دیر تک ٹالنے لے بعد قاری نے کہا میں بتا دوں گا مگر ابھی تم لوگ سانپوں پر ہاتھ مت ڈالنا تمہیں پہچان نہیں کون سا زہریلا ہے اور کونسا نہیں ۔
کچھ دن گزرنے کے بعد پھر مالی اور چند نوجوان لڑکوں نے قاری کو گھیر لیا۔ کہنے لگے آج اپنا ٹوٹکا جنتر منتر جو بھی ہے بتاؤ۔ تم جوگیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو لازمی کسی بڑے جوگی سے یہ گُر سیکھا ہے.
یہ سُن کر قاری کچھ دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا
مُڑ تم لوگ یقین کیوں نہیں کرتے یہ کام جنتر منتر کا نہیں تکنیک کا ہے ۔
اچھا تو مٹی پر کیا پڑھ کر پھونکتے ہو؟
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
قاری نے آیات پڑھ کر سنائیں اور پھر بالکل خاموش ہو گیا ۔ مالی چوکیدار اور کالونی کے لڑکے جو جنات اور مؤکلات کے تزکرے سے مزئین کسی دلچسپ کہانی کے منتظر تھے ساکت بیٹھے اسکی شکل دیکھ رہے تھے۔
چند منٹ کی گہری خاموشی کے بعد وہ کہنے لگا یہ پاک کلام میں اپنے لیے پڑھتا ہوں مڑ تم لوگوں کو ابھی بات کی سمجھ نئیں آئے گی ۔
ٹی وی چینلوں پر ایک دن پوری دنیا نے یہ خبر کچھ حیرت اور کچھ تاسف کے ساتھ سنی کہ اسٹیو ارون مر گیا ۔ اس کو سمندر میں غوطہ خوری کے دوران رے فش (ray fish) نے ڈنگ مار دیا تھا ۔
اس سے قبل کئی ڈاکومیٹریز بنانے والے اس مچھلی کے ساتھ تیرتے عکس بندیاں کرتے رہے تھے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ مچھلی اتنا زہریلا ڈنگ بھی رکھتی ہو گی جو آسٹریلیا کے اس وائلڈ لائف ہیرو کو چند منٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دے گی۔
اسٹیو کی موت نے قاری کو بالکل گم سم کر دیا۔ کئی دنوں تک وہ اسٹیو کی آخری وڈیو بار بار دیکھتا رہا . پہلے وہ جو دوسروں کے ساتھ بڑے شد و مد سے ڈسکوری اور جیوگرافی کے ہر پروگرام پر تبصرے کرتا تھا چپ سادھے بیٹھا رہتا ۔ کبھی کوئی لڑکا اسے چھیڑتے ہوئے کہتا قاری تیرا ہیرو تو نہیں رہا تو جواب دیتا صاب موت پر کس کا زور چل سکتا ہے .... کب اپنے دانت گاڑ دے کون جانتا ۔
..... مُڑ تارو ہی ڈوبتے ہیں صاب کنڈے پر کھلوتے تماشہ ویکھنے والے بھلا کبھی ڈوبے۔ اور نرالے لوگ جو ہوتے ہیں وہ کُج زیادہ ہی جلدی گزر جاتے ہیں ۔
اس واقعہ کو کئی ماہ گزر چکے تھے سردیوں کی آمد تھی اور کھیتوں میں گندم کے سوؤں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ قاری کو لگتا گویا ننھے ننھے ہرے سنپولیے مٹی میں کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہوں۔ جوگیوں کا خانہ بدوش قبیلہ میلے ٹھیلوں کا موسم بیتنے کے بعد واپس تھلوں میں لوٹ گیا تھا ۔ ہر چیز میں اس کی دل چسپی مفقود ہو چکی تھی ۔ دل میں جو پرانی حسرت تھی کہ وہ کبھی کسی ٹی وی چینل کے لیے سانپوں کی ڈاکومنٹری بنوائے وہ بھی معدوم ہو چکی تھی ۔
سردیوں کی دھند میں ڈوبی صبح کو فجر کی نماز کے بعد اپنا اونی تُسّا لپیٹے وہ بڑی نہر تک سیر کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا کہ پاؤں کسی لجلجی چیز پر آ گیا۔ کسی کسان نے
بوائی سے قبل کھیت سے مٹی نکال کر رقبہ نیچا کیا تھا اسی میں کئی بِل بھی کھودے گئے ۔ وہ ہرا کچور سانپ تھا جو بہار کی آمد سے قبل ہی نیند سے اٹھا دیا گیا تھا ادھ موا سا وَٹّ کے ساتھ پڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی پرانی چمک لوٹ کر آ گئی ۔ اس نے سانپ کو پکڑ کر کھاد کے خالی توڑے میں ڈالا اور اپنے گھر لے آیا۔
چند روز بعد اس کی بیوی نے کہا آخر کب تک اسے گھر سنبھالے رکھنا ہے کیا میکو جوگیوں کی طرح اسے بری یا داج میں لگانا ہے جو سنبھال رکھ ساں۔ جا اسے کہیں چھوڑ آ یا مار دے۔
نہ نہ بھلیے مُڑ ایسی بات نہ کر۔۔۔۔۔ کہاں چھوڑوں؟ اتنی سردی میں یہ اکڑ کر مر جائے گا ..پڑا رہنے دے تھیلے میں تیرا کیا بگاڑتا ہے۔
یہ سن کر اس کی بیوی نے کہا بچوں والا گھر ہے کسی بال نے تھیلا کھول دیا تو...... ؟ جا اپنے اس سجن کو کہیں اور رکھ۔
قاری نے بیوی کی چخ چخ سے بچنے کے لیے تھیلا مالی کے کوارٹر میں رکھوا دیا۔ ارد گرد کے بنگلوں سے کئی لڑکے سانپ کو دیکھنے آتے آٹھ فٹ لمبا نڈھال سا سانپ جو رسی سے بدتر حالت میں تھا بڑے اشتیاق سے دیکھتے اور اپنی دلیری کی تسکین کرتے۔
ایک دن قاری چاقو کے سرے پر پرو کر مرغی کی کلیجی کا ٹکرا اس سانپ کو کھلا رہا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ کے لڑکے نے آ کر اس کی سری پر زور سے ہاتھ مارا۔
قاری نے تڑپ کر اس کا ہاتھ پیچھے کیا پھر کہنے لگا صاب جی دھیان سے بیچارہ زخمی ہے .... دانت نکالے تھے اسکے..... درد ہوتا ہو گا بے زبان جنور ہے....
مالی جو یہ سب بہت غور سے دیکھ رہا تھا کہنے لگا اب مجھے سمجھ آئی سانپ تیرے سامنے حرکت کیوں نہیں کرتے تو ان سے پیار کرتا ہے۔
پیار ...... قاری نے ایک ہنکارہ بھرا .. ہاں مڑ پیار ہی سمجھ لو مگر سانپوں سے نہیں۔
بتا نا ... مالی نے اصرار کیا۔
چھوڑ پرانی باتیں۔۔۔۔
ایک تو تو چھپاتا بہت ہے تو کونسا زنانی ہے جو بتانے سے سانگ کھاتا ہے ۔
لڑکوں نے سکول کا رخ کیا اور کوارٹر میں فقط مالی اور قاری باقی رہ گئے۔ تھیلے کو ایک جانب حفاظت سے رکھتے ہوئے وہ کہنے لگا!
اس کی ماں جوگیوں کی برادری سے ہمارے گاؤں میں بیاہی آئی تھی۔ اس کے چہرے مہرے میں اپنے نانکے کی طرح ول تھلوں کا روپ تھا۔ ہم اکٹھے قنچے کھیلتے بیر چگتے اور رنگ برنگے پیلو اکٹھے کرتے۔ ڈیلوں کا اچار روٹی پر رکھ کر کھاتے ۔
اچھا پھر..... مالی نے دلچسپی سے پوچھا۔
اس نے دھوپ میں اڑی رنگت والے بھورے بالوں کی باریک باریک دو چوٹیاں گوندھی ہوتی تھیں آنکھیں بھی بھوری تھیں رنگ بھی بھورا دھوپ میں جل کر گہرا ہو گیا تھا کچھ، پر وہ بھوری وَچھی جیسی لگتی تھی۔
مجھے ابّا نے مدرسے میں داخل کرا دیا جب گاؤں آتا وہ مجھے قاری الازہری کہہ کر چھیڑتی ۔ بڑا مزاج تھا اسکا وَلّ کھاتی ناگن جیسا۔ بات بات پر روٹھ بیٹھتی تھی اور موٹے موٹے ڈیلے نکال کر پلکیں جھپکے بغیر گھورتی۔
اس کے ابّے نے اسکی ماں سے کہا تھا جب دھی رانی پہلی واری سر پاک کرے تو مجھے بتانا ۔ اس کی ماں کو بڑی حیا آتی کہ کیسے اس بات کا ذکر اپنے گھر والے سے کرے گی ۔ مڑ وہ گیارہویں ورے میں ہی لگی تھی کہ کپڑے ناپاک ہو گئے۔ جب گھر آیا تو پتا چلا کہ سیماں کو اس کے ابے نے ویاہ بھی دیا بڑی عمر کا آدمی تھا تھلوں کا رہنے والا دوسری یا تیسری شادی تھی اس بندے کی۔ میں تب چھیواں سیپارہ حفظ کر رہا تھا۔
یہ سن کر مالی ہنسنے لگا اچھا جبھی تو تھل سے آئے جوگیوں کی ڈھیریوں میں پھرتا رہتا ہے اپنی معشوق کو دیکھنے۔ پھر ملی کبھی؟
قاری نے اس کی استہزائیہ ہنسی نظر انداز کرتے ہوئے کہا
میری بے بے کہتی تھی اسکی ماں کو " اَنّ سے اتارا اور کھسم کے ساتھ ٹور دیا بالڑی کو.... ہاں تو کیا اتنے مہینوں کے گناہ سر نہیں چڑھتے ؟
غلط سمجھا تم لوگوں نے کہ بیٹی باپ کے گھر سر پاک کرے تو گناہ سر چڑھ جائے گا۔ آجکل بچیوں کو جلدی کپڑے آ جاتے ہیں وہ جوان کہاں ہوئی ہوتی ہیں۔
اچھا چھوڑ یہ بتا پھر کیا ہوا ۔ وسیبا ہوا اسکا کہ نہیں ۔
ہونا کیا تھا نہ اسے داج ملا نہ بری۔ گلے پڑا بوجھ اتارنے جیسا بیاہ ہوا تھا۔ اس کا مالک بھی غصے والا تھا۔
سال کے اندر اندر وہ گزر گئی
ہاہ ... مر گئی دُلڑی ... مالی نے تاسف سے کہا۔
چھوٹے سے کوارٹر میں گھمبیر خاموشی چھا گئی ۔ مالی نے کمرے میں رکھے گیس کے
چولہے پر چائے چڑھائی ہوئی تھی ،ابلتی ہوئی چائے آگ میں گری تو دودھ پتی کی مہک نے نیم خنک فضا میں درد بھرا رس گھول دیا ۔
قاری چائے کی چسکیاں لگاتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھا۔
پتا ہے!
ہم نے مدرسے کی کتابوں میں کچھ اور ہی پڑھا تھا ۔ ایک جگہ لکھا تھا بیٹی کو اختیار ہے باپ کی طرف سے بنا پوچھے کیا گیا نکاح رکھے یا ختم کر دے ۔
ہیں ۔۔۔۔۔ سچ میں ۔۔۔۔ پر ایسا تو نہیں ہوتا ہمارے گاؤں میں ۔ بھلا لڑکیاں بھی ایسی بات کر سکتی ہیں ؟ ٹوٹے نہ ہو جائیں ان کے۔ مالی استعجاب سے کہنے لگا ۔
اس کے پاس کوئی گہنے نہ تھے ماں سے سنا تین کپڑوں میں ٹور دیا تھا ۔ وہ کچ کے موتیوں سے ہار چوڑی ٹکا نتھ اور بالوں میں لگانے والے کلپ بنایا کرتی تھی اپنے گڈی گڈے کی شادی میں ۔ پر اپنے لیے وہ بھی نہ بنا سکی ۔
وہ مری کیسے ؟ مالی نے پیالی میں دربارہ چائے انڈیلتے ہوئے پوچھا ۔
نلوں میں بچہ پھنس گیا تھا پیدائش کے ٹیم ۔ نہ بچہ رہا نہ وہ رہی ۔
یہ کہہ کر قاری نے پیالی وہیں رکھی اور سانپ کا تھیلا اٹھائے کوارٹر سے باہر نکل گیا ۔ اس میں زیادہ بات کرنے کی ہمت نہ رہی تھی ۔
سہ پہر کے وقت وہ بڑی نہر کے کچے بند کے ساتھ ساتھ دور تک چلتا جا رہا تھا ۔کئی میل کی مسافت کے بعد ایک کچے کوٹھے کے پاس آ کر رک گیا ۔ دو بیتل بکریاں نہر کی اترائی میں لگی جھاڑیوں میں سے پتے چر رہی تھیں چند مرغیاں مٹی میں چونچیں مار کر خوراک تلاش کر رہی تھیں اور ایک مریل سی کتیا ڈیرے پر بندھی ہوئی تھی۔
قاری کو بہت دنوں بعد وہاں دیکھ کر ایک گیارہ بارہ سال کا دبلا سا لڑکا بھاگتا ہوا آیا۔ ابّا دیکھ قاری جی آئے ہیں ۔
قاری وہیں منڈیر کے پاس بان کی کھری چارپائی پر بیٹھ گیا۔
قاری جی آپ کو سانپ سے ڈر نہیں لگتا؟
لگتا ہے پتر ۔ اندر ہی اندر ڈر تو ہوتا ہے ۔ پر یہ جانور جو ہے نا یہ بھی ہم سے ڈرتا ہے۔ اور ہم جانور سے ڈرتے ہیں ۔ ہم اسی ڈر میں اس پر حملہ کرتے ہیں اور وہ اپنی جان کے ڈر سے ہم پر حملہ کرتا ہے ، کَکھ لگاتا ہے ۔ ڈر نہ ہو تو حملہ بھی نہ ہو ۔
لڑکا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھ کر بات سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔
اگر سانپ کا ڈر مُک جائے تو وہ ہم پر حملہ بہت کم کرے ۔ وہ جو سانپ ہے نا وہ ڈر کو ہماری آنکھوں میں دیکھ کر پہچان لیتا ہے ۔
جو خوف کھاتا ہے وہ بڑا خطرناک ہو جاتا ہے کب وار کر دے مڑ کوئی نہیں جانتا اگر تم اپنا خوف چھپا لو یا ڈر ختم کر لو تو میری طرح سانپ پکڑ سکتے ہو۔
اچھا ااااا ..... سچ ۔
ہاں .....
رب کو پہچاننے کے لیے بھی خوف اور پیار کو ایک نکتے پر برابر کرنا پڑتا ہے ۔
لڑکے نے کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔
خالی گناہ کے خوف سے رب بھی نہیں ملتا بس اس کے بندے رُل جاتے ہیں دُھول مٹی میں ......... قاری نے دھیرے سے خود کلامی کی۔
پھر اس ڈیرے پر موجود لڑکے کے بوڑھے باپ کو چند پرانے نوٹ پکڑاتے ہوئے کہنے لگا ۔
بھرا اللہ وسایا یہ سو کم نو ہزار ہیں ۔ رکھ لے رات کو سٹیشن پر گڈی صرف ایک منٹ رکتی ہے ۔ گھر والوں کو ہوشیاری سے ٹیشن تک پہنچانا۔ یہ پتا لکھا ہے مدرسے کا ۔
کراچی پہنچ کر کسی سے آگے کا رستہ پوچھ لینا ۔ وہاں بڑے مدرسے میں تمھاری بیٹی کا داخلہ کروا دیا ہوا ہے۔ بڑے مولوی صاحب کو میرا یہ رقعہ دے دینا۔
اپنی شوہدی کا بیاہ اس کم سنی میں کرنا کوئی ثواب کا کام نہیں۔
مگر قاری صاب اگر شاہ صاحب کو پتا چل گیا کہ تم نے ہمیں بستی سے نکلنے کی صلاح دی تھی تو کیا ہوگا ۔ لڑکی کا باپ منمنایا
تم اپنا تو خوف نہ کھاؤ اور میری طرف سے بے فکر رہو ۔
ان کا وہ مرید جس سے تمہاری بچی کا نکاح کرنا تھا ۔ اس کے اولاد نہیں ہونے والی۔ وہ دو شادیاں پہلے کر چکا۔ بچی شاہ صاحب کی حویلی میں رُل جاتی ۔ بس تو کراچی پہنچ ۔ کوئی مزدوری مل جائے گی اور بیٹی ،
اسے عالمہ کا کورس کرنے دے پھر بتاؤں گا آگے کیا کرنا ہے۔
اور ہاں ان پیسوں میں سے وہاں جاکر اسے دو جوڑے لے دینا مڑ جی پَرچ جائے گا اسکا ۔ میری دھی وانگ ہے۔ بس اتنے ہو سکے سردیوں کا موسم ہے شکار کم ملتا ہے ۔
شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا اس نے گاؤں واپسی کی راہ لی ۔ نہر کے ویران کنارے دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ آسمان بنفشی رنگ اوڑھے سورج کو الوداع کہنے کی تیاری میں تھا۔ دور سرد زمینوں سے آتی کونجوں کی طویل ڈاریں کبھی کوئی شکل اختیار کر لیتیں تو کبھی کوئی۔ تنہائی اور اداسی آسمان میں اترتی گلاہٹ کی مانند نازل ہوئی تھیں ۔
شام اپنے بال کھولے کھیتوں کھلیانوں اور ٹوئیوں ٹبوں میں لمبے سایوں کے ساتھ اترنے لگی۔ سمے کی دیکھا دیکھی اس نے اپنے سر سے رومال اتارا اور روح کو کھول کر جسم پر پہن لیا۔ پھر ایک لمبی ہوک لگا کر کافی کے بول گانے لگا۔
درد اندر وچّ سوز جگر وچّ ۔اکھیاں نیر وہیراں ۔ موں سر بھسڑ چھئیاں ۔
نیڑے ویڑم سخت نہیڑم ۔چٹڑی ہجر دے تیراں ۔او خوشیاں کن گئیاں ۔
دور دور تک خوش الحان قاری حافظ شاکر کی لَے سننے والا پرندوں کے سوا کوئی اور نہیں تھا ۔
افسانہ:ریت کے پرندے
سبین علی
گلِ خیرو کی باڑ میں کوڑیالہ سانپ تھا ـ دو بار مالی کو نظر آیا تھا اور ایک دن ڈائریکٹر صاحب کے چھوٹے لڑکے نے کرکٹ بال وہاں سے نکالتے ہوئے دیکھا۔ اسی وقت قاری شاکر کی ڈھنڈیا مچ گئی ۔ مالی چوکیدار اور ڈرائیور سبھی لاٹھیاں ڈنڈے اٹھائے پھولوں سے لدی باڑ سے پرے کھڑے اندر سے سہمے ہوئے مگر غلغلہ کرتے مصنوعی دلیری دکھا رہے تھے ساتھ ہی یہ ڈر بھی انہیں کھائے جا رہا تھے کہ اتنے پودوں کے ببچ رینگتا ہوا وہ سانپ جانے کس سمت سے حملہ آور ہو جائے۔
قاری شاکر کی ڈیوٹی وفاقی محکمے کی جانب سے آئے انکوائری وفد کے ساتھ لگی تھی۔ ان کے آرام چائے پانی و دیگر لوازمات کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری تھی۔ ایسے میں ڈائریکٹر صاحب اپنے اس وفادار اور افسران بالا کے مزاج سے آشنا ملازم کو کبھی دوسری جگہ نہ بھیجتے مگر بلاوا بیگم صاحبہ کی جانب سے تھا۔ اپنے سرکاری بنگلے میں کوڑیالے سانپ کی دہشت ڈائریکٹر کو دفتر کے اندر بھی محسوس ہوئی۔ اُسے وسطی پنجاب کے اس علاقے میں پوسٹ ہوئے چند سال بیت چکے تھے۔ وہاں قرب و جوار میں کئی بار خانہ بدوش جوگیوں کے قبائل آکر ٹھہرتے تھے ۔ ان کی سرکاری کالونی کے قریبی دیہات اور کھیتوں سے اکثر سانپ پکڑے جاتے جنہیں عموما کسان موقع پر ہی مار دیتے تھے۔ سانپ سے ڈسے جانے کے واقعات بھی کئی بار سننے میں آتے اس وقت اُسے مقامی لوگوں سے سنے زہریلے سانپوں کے کئی واقعات یاد آ رہے تھے۔
سب لوگ کہہ رہے تھے صرف قاری شاکر ہے جو اس سانپ کو تلاش کر کے قابو کر سکتا ہے۔
اس نے دوسرے ملازم کو سرکاری وفد کی خدمت کے لیے بھیجتے ہوئے فوراً قاری کو اپنے بنگلے پر پہنچ جانے کا کہا۔
قاری کے پاس کوئی عمل ہے۔
اسے کوئی ٹونا آتا ہے
سر جی بہت ورے یہ جوگیوں کے بالڑوں کو سبق دیتا رہا ہے ان سے کچھ گُر سیکھا ہو گا ۔
نہ جی نہ بڑا نیک بندہ ہے جی. بچوں کو قرآن پاک پڑھاتا ہے کسی بزرگ کا ہاتھ ہے اس کے سر پر
یہ تو مؤکل بھی قابو کر لے پر لگتا ہے اس عمل کی مرشدوں سے اجازت نہیں ملی ۔
بس سانپ کو ایسے سُن کرتا ہے جیسے وہ مٹی کا کھڈونا ہو ....
دفتر کا عملہ اس کی معلومات میں اضافہ کر رہا تھا۔
قاری نے بنگلے پر پہنچتے ہی باڑ کی جڑوں میں جھانک کر سانپ کا کھُرا پکڑا اور وہیں سے دائیں ہاتھ کی مُٹھی میں مٹی بھر لی۔ سانپ ایک جڑ میں سوکھے پتوں کے نیچے کنڈلی مارے بیٹھا تھا اُس نے مٹھی میں بھری مٹی کچھ پھونک کر سانپ پر دے ماری۔
سارے ملازم سہمے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ "مُڑ کوئی لاٹھی نہ مارے سپ کچھ نہ کہہ سی میں ایہدا زہر کڈ ساں "
اس نے ایک سوکھی چھڑی کے ساتھ سانپ پکڑتے ہوئے اس کا سر قابو کر لیا جو بالکل سُن ہو چکا تھا اس نے کوئی مزاحمت کی نہ ہی پھنکارا۔ قاری نے سانپ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اطراف سے اس کے جبڑے دبا کر منہ کھولا اور شکاری چاقو کے ساتھ اس کے زہر دانت باہر کھینچتے ہوئے ان کی طوالت دیکھنے لگا۔ پھر اس نے چاقو کو دونوں فینگ کے پیچھے رکھتے ہوئے ایک جھٹکا لگا کر ان کو توڑ دیا اور سانپ کو کپڑے کے تھیلے میں ڈال کر اوپر رسی باندھ دی۔
دوسری طرف چرب زبان مالی وہاں موجود باقی ملازمین کو سانپوں کی حکایتیں سنانے میں مشغول تھا۔
"ہمارے پنڈ کے باہر رہنے والے ایک بڑے جوگی نے قصہ سنایا تھا کہ اک واری پھنیر اور کوڑیالے سانپ کی آپس میں ٹھن گئی۔ پھنیر ناگ کہنے لگا وہ دنیا کا سب سے خوفناک اور خطرناک سانپ ہے جبکہ کوڑیالہ سانپ کہنے لگا وہ زیادہ زہریلا اور خطرناک ہے ۔ پھر دونوں میں شرط بَد گئی کہ جو سانپ جوگیوں کے پیشوا گُگے پیر کو ڈس لے گا وہی زیادہ زہریلا مانے جائے گا۔ جوگی کے پاس سانپوں کی کئی منکے تھے جو منٹوں میں زہر جوس لیتے تھے۔ کوڑیالہ اپنی ضد کا پکا تھا ایک دن اس نے گُگے کو ڈسا اور وہ نیلو نیل ہو کر مر گیا - منکہ رکھنے کا بھی وقت نہ ملا - تب سے جوگی اس سانپ کا وساہ نہیں کرتے - “
قاری کو زندہ سانپ پکڑے میں وہ مہارت حاصل تھی کہ تھل کے کسی جوگی کو بھی نہ ہوگی ۔ گندمی رنگت کھچڑی داڑھی گٹھا ہوا صحت مند جسم اور میانی قامت کے قاری شاکر کو عرف عام میں سب لوگ فقط قاری کہتے تھے . اس نے قرآن مجید جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل ایک عالم دین کے مدرسے حفظ کیا تھا مگر قرآن مجید کے سوا اسے دوسرے فقہی علوم سے کبھی دلچسپی پیدا نہ ہوئی۔ حفظ کے بعد سرکاری سکول سے میٹرک کیا اور ڈپلومہ کرنے کے بعد فیلڈ اسسٹنٹ کے طور پر سرکاری ملازم بھرتی ہو گیا ۔ کبھی کبھار امام کی غیر حاضری میں سرکاری کالونی کی مسجد میں نماز کی امامت بھی کروا دیتا تھا اور شام کو بڑے صاحب کے بچوں کو قرآن مجید بھی پڑھانے جاتا ۔ وہاں اکثر وہ بڑے صاحب کے کپڑے استری کرتا انہیں ہینگر میں لٹکاتا اور جوتے پالش سے چمکا کر بڑی وارڈروب میں ترتیب سے رکھ دیتا۔ اپنی ایسی کئی خوبیوں کی وجہ سے وہ اپنے صاحب کا منظور نظر بن چکا تھا اور بیرونی دوروں پر وہ اسے ساتھ لے جاتے۔ تنخواہ کے ساتھ تھوڑا بہت ٹی اے ڈی اے بن جاتا ۔ کپڑا کھانا اور اس کے بچوں کے لیے بھی صاحب سے کچھ نہ کچھ نقد قرآن مجید پڑھانے کے نام پر مل ہی جاتا۔
اسے صاف ستھرے شلوار قمیض میں ملبوس نیم سرائیکی لہجے میں اردو بولتے دیکھ کر کوئی گمان نہیں کر سکتا تھا کہ اسے نیشنل جیوگرافک چینل اور اسٹیو ارون کتنا پسند ہو سکتے ہیں۔ اکثر وہ بڑے صاحب کے بنگلے میں شام کے وقت ان کے گھر کے کام کرتے کرتے ٹی وی پر اسٹیو ارون کا پروگرام دیکھا کرتا۔ اسٹیو کی خاکی نیکر ،تیزی سے کسی سانپ کا پیچھا کرنا یا دلدلی پانیوں میں مگرمچھ قابو کرنا قاری کو کسی انوکھے جنون سے ہمکنار کر دیتا۔ دھیرے دھیرے اسٹیو ارون سے اس کے لگاؤ کا علم سب کو ہوتا چلا گیا. جیوگرافک چینل پر اسٹیو کا شو دیکھنے کے لیے وہ اکثر صاحب کے بنگلے پر عشاء کے بعد تک رُک جایا کرتا۔ کس دن کتنے بجے اسٹیو کی کوئی ڈاکومنٹری آئے گی قاری کو اچھی طرح معلوم ہوتا۔ لڑکوں نے اس کا نام قاری اسٹیو رکھ دیا تھا۔ یہ نام سن کر قاری زیرلب مسکراتا. پھر کہتا چھڈو صاحب جی کہاں اسٹیو کہاں میں.... لیکن من ہی من میں چاہتا کہ وہ بھی کسی ڈاکومنٹری میں اپنے فن اور بہادری کا مظاہرہ کرے۔ کیا ہوا جو وہ ایک حافظ قرآن فیلڈ اسسٹنٹ ہے۔ جنگلی جانوروں اور سانپوں کے متعلق اس کی معلومات حیران کن حد تک وسیع تھیں ۔ سانپ دیکھتے ہی وہ اسکی نسل انگریزی اور مقامی نام میں بتا دیتا۔ کبھی کوئی شخص سانپ کو دیکھ کر ڈر جاتا تو کہتا! یہ تو ڈڈو کھانا سپ ہے اس میں زہر نہیں ہوتا مت مارنا اسے۔ یہ کسان دوست ہے چھوڑ دو اسے یہ فصلیں برباد کرنے والے چوہے کھاتا ہے بس۔
کئی بار اس نے خطرناک سانپ پکڑ کر اپنے علاقے کے خانہ بدوش جوگیوں کو معمولی رقم کے عوض بیچ دیے تھے۔ جوگی ان سانپوں سے میلوں ٹھیلوں میں مختلف کرتب دکھاتے اپنی روزی کماتے۔
کچھ دن قبل ایک بوڑھے جوگی نے اس سے امداد مانگی تھی اس کی بیٹی کی شادی تھی اور شادی کے انتظامات کے لیے نہ تو کوئی رقم تھی اور نہ ہی جہیز میں دینے کے لیے کوئی بڑا سانپ موجود تھا۔
قاری نے ایک پھنیر سانپ پکڑ کر جوگی کو بیٹی کی شادی کے لیے تحفتاً دیا تھا اور اب مالی کو لگ رہا تھا کہ کوڑیالہ سانپ بھی اسی جوگی کو دے آئے گا۔
کچھ دن بعد جب قاری صاحب کے بچوں کو سیپارہ پڑھا کر گھر جارہا تھا تو مالی نے اسے بنگلے سے باہر روک لیا ۔
دیکھ قاری اسٹیو مجھے وہ منتر سکھا دے جس سے تو سپ قابو کرتا ہے.
منتر ... قاری ہنسا
مجھے کوئی منتر نہیں آتا
اچھا چھڈ پھر کسی مرشد سے ملا وظیفہ ہوگا۔۔۔۔ کیا تو نے چِلا کاٹا تھا.. مالی نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
تم لوگوں کا دماغ خراب ہے ..
بھلا یہ جیوگرافی والے بھی چلے کاٹتے یا منتر پڑھتے ہیں؟
بس فن ہے یہ ... فن
مگر مالی نے اسے خود اپنی آنکھوں سے مٹی سے بھری مٹھی پر پھونک مارتے دیکھا تھا۔
کچھ دنوں بعد قاری نے ایک کالا ناگ پکڑا کوئی دس فٹ لمبا اور چمکیلا سانپ تھا جو ایک بنگلے کے پچھلے صحن میں بنے مرغیوں کے ڈربے سے انڈے کھانے آتا تھا۔ ایک دن کسی نے دیکھ لیا اور شور مچا دیا
جب قاری سانپ پکڑنے گیا تو مالی بھی پیچھے ہو لیا ۔ اس بار پھر اس نے مٹھی بھر مٹی سانپ کی طرف اچھالی تھی ۔ مٹی کا ایک ذرہ ہی سانپ کو چھوا ہوگا مگر اتنا بڑا ناگ سُن ہو گیا اس نے کوئی خاص مزاحمت نہ کی اور قاری نے اسے تھیلے میں بند کر دیا ۔ جس افسر کے بنگلے سے سانپ پکڑا گیا اس نے بہت اصرار کیا کہ سانپ کو یہیں مار دو اگر اسے چھوڑ دیا تو یہ دوبارہ آئے گا۔
قاری نے کہا! صاحب سانپوں کا جوڑا ہوتا ہے. اگر اسے مارا تو اسکا دوسرا ساتھی ادھر آئے گا ۔
یہ کوڈی والا سانپ ہے جوگیوں کو دوں گا انکے کام کا ہے۔
اس طرح کے دو تین مزید واقعات کے بعد ایک دن اسے بڑے افسر کے لڑکوں اور دیگر ملازموں نے گھیر لیا اور اصرار کرنے لگے کہ بتائے وہ مٹی پر کیا پڑھ کر پھونکتا ہے.
لو بھلا وہ گورے بھی کوئی پھونک مارتے ہیں؟ جنگلی جنور قابو کرنا مہارت اور تجربے کا کام ہے بس۔
مگر ان سب کا اصرار جاری رہا بہت دیر تک ٹالنے لے بعد قاری نے کہا میں بتا دوں گا مگر ابھی تم لوگ سانپوں پر ہاتھ مت ڈالنا تمہیں پہچان نہیں کون سا زہریلا ہے اور کونسا نہیں ۔
کچھ دن گزرنے کے بعد پھر مالی اور چند نوجوان لڑکوں نے قاری کو گھیر لیا۔ کہنے لگے آج اپنا ٹوٹکا جنتر منتر جو بھی ہے بتاؤ۔ تم جوگیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو لازمی کسی بڑے جوگی سے یہ گُر سیکھا ہے.
یہ سُن کر قاری کچھ دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا
مُڑ تم لوگ یقین کیوں نہیں کرتے یہ کام جنتر منتر کا نہیں تکنیک کا ہے ۔
اچھا تو مٹی پر کیا پڑھ کر پھونکتے ہو؟
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
قاری نے آیات پڑھ کر سنائیں اور پھر بالکل خاموش ہو گیا ۔ مالی چوکیدار اور کالونی کے لڑکے جو جنات اور مؤکلات کے تزکرے سے مزئین کسی دلچسپ کہانی کے منتظر تھے ساکت بیٹھے اسکی شکل دیکھ رہے تھے۔
چند منٹ کی گہری خاموشی کے بعد وہ کہنے لگا یہ پاک کلام میں اپنے لیے پڑھتا ہوں مڑ تم لوگوں کو ابھی بات کی سمجھ نئیں آئے گی ۔
ٹی وی چینلوں پر ایک دن پوری دنیا نے یہ خبر کچھ حیرت اور کچھ تاسف کے ساتھ سنی کہ اسٹیو ارون مر گیا ۔ اس کو سمندر میں غوطہ خوری کے دوران رے فش (ray fish) نے ڈنگ مار دیا تھا ۔
اس سے قبل کئی ڈاکومیٹریز بنانے والے اس مچھلی کے ساتھ تیرتے عکس بندیاں کرتے رہے تھے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ مچھلی اتنا زہریلا ڈنگ بھی رکھتی ہو گی جو آسٹریلیا کے اس وائلڈ لائف ہیرو کو چند منٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دے گی۔
اسٹیو کی موت نے قاری کو بالکل گم سم کر دیا۔ کئی دنوں تک وہ اسٹیو کی آخری وڈیو بار بار دیکھتا رہا . پہلے وہ جو دوسروں کے ساتھ بڑے شد و مد سے ڈسکوری اور جیوگرافی کے ہر پروگرام پر تبصرے کرتا تھا چپ سادھے بیٹھا رہتا ۔ کبھی کوئی لڑکا اسے چھیڑتے ہوئے کہتا قاری تیرا ہیرو تو نہیں رہا تو جواب دیتا صاب موت پر کس کا زور چل سکتا ہے .... کب اپنے دانت گاڑ دے کون جانتا ۔
..... مُڑ تارو ہی ڈوبتے ہیں صاب کنڈے پر کھلوتے تماشہ ویکھنے والے بھلا کبھی ڈوبے۔ اور نرالے لوگ جو ہوتے ہیں وہ کُج زیادہ ہی جلدی گزر جاتے ہیں ۔
اس واقعہ کو کئی ماہ گزر چکے تھے سردیوں کی آمد تھی اور کھیتوں میں گندم کے سوؤں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ قاری کو لگتا گویا ننھے ننھے ہرے سنپولیے مٹی میں کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہوں۔ جوگیوں کا خانہ بدوش قبیلہ میلے ٹھیلوں کا موسم بیتنے کے بعد واپس تھلوں میں لوٹ گیا تھا ۔ ہر چیز میں اس کی دل چسپی مفقود ہو چکی تھی ۔ دل میں جو پرانی حسرت تھی کہ وہ کبھی کسی ٹی وی چینل کے لیے سانپوں کی ڈاکومنٹری بنوائے وہ بھی معدوم ہو چکی تھی ۔
سردیوں کی دھند میں ڈوبی صبح کو فجر کی نماز کے بعد اپنا اونی تُسّا لپیٹے وہ بڑی نہر تک سیر کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا کہ پاؤں کسی لجلجی چیز پر آ گیا۔ کسی کسان نے
بوائی سے قبل کھیت سے مٹی نکال کر رقبہ نیچا کیا تھا اسی میں کئی بِل بھی کھودے گئے ۔ وہ ہرا کچور سانپ تھا جو بہار کی آمد سے قبل ہی نیند سے اٹھا دیا گیا تھا ادھ موا سا وَٹّ کے ساتھ پڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی پرانی چمک لوٹ کر آ گئی ۔ اس نے سانپ کو پکڑ کر کھاد کے خالی توڑے میں ڈالا اور اپنے گھر لے آیا۔
چند روز بعد اس کی بیوی نے کہا آخر کب تک اسے گھر سنبھالے رکھنا ہے کیا میکو جوگیوں کی طرح اسے بری یا داج میں لگانا ہے جو سنبھال رکھ ساں۔ جا اسے کہیں چھوڑ آ یا مار دے۔
نہ نہ بھلیے مُڑ ایسی بات نہ کر۔۔۔۔۔ کہاں چھوڑوں؟ اتنی سردی میں یہ اکڑ کر مر جائے گا ..پڑا رہنے دے تھیلے میں تیرا کیا بگاڑتا ہے۔
یہ سن کر اس کی بیوی نے کہا بچوں والا گھر ہے کسی بال نے تھیلا کھول دیا تو...... ؟ جا اپنے اس سجن کو کہیں اور رکھ۔
قاری نے بیوی کی چخ چخ سے بچنے کے لیے تھیلا مالی کے کوارٹر میں رکھوا دیا۔ ارد گرد کے بنگلوں سے کئی لڑکے سانپ کو دیکھنے آتے آٹھ فٹ لمبا نڈھال سا سانپ جو رسی سے بدتر حالت میں تھا بڑے اشتیاق سے دیکھتے اور اپنی دلیری کی تسکین کرتے۔
ایک دن قاری چاقو کے سرے پر پرو کر مرغی کی کلیجی کا ٹکرا اس سانپ کو کھلا رہا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ کے لڑکے نے آ کر اس کی سری پر زور سے ہاتھ مارا۔
قاری نے تڑپ کر اس کا ہاتھ پیچھے کیا پھر کہنے لگا صاب جی دھیان سے بیچارہ زخمی ہے .... دانت نکالے تھے اسکے..... درد ہوتا ہو گا بے زبان جنور ہے....
مالی جو یہ سب بہت غور سے دیکھ رہا تھا کہنے لگا اب مجھے سمجھ آئی سانپ تیرے سامنے حرکت کیوں نہیں کرتے تو ان سے پیار کرتا ہے۔
پیار ...... قاری نے ایک ہنکارہ بھرا .. ہاں مڑ پیار ہی سمجھ لو مگر سانپوں سے نہیں۔
بتا نا ... مالی نے اصرار کیا۔
چھوڑ پرانی باتیں۔۔۔۔
ایک تو تو چھپاتا بہت ہے تو کونسا زنانی ہے جو بتانے سے سانگ کھاتا ہے ۔
لڑکوں نے سکول کا رخ کیا اور کوارٹر میں فقط مالی اور قاری باقی رہ گئے۔ تھیلے کو ایک جانب حفاظت سے رکھتے ہوئے وہ کہنے لگا!
اس کی ماں جوگیوں کی برادری سے ہمارے گاؤں میں بیاہی آئی تھی۔ اس کے چہرے مہرے میں اپنے نانکے کی طرح ول تھلوں کا روپ تھا۔ ہم اکٹھے قنچے کھیلتے بیر چگتے اور رنگ برنگے پیلو اکٹھے کرتے۔ ڈیلوں کا اچار روٹی پر رکھ کر کھاتے ۔
اچھا پھر..... مالی نے دلچسپی سے پوچھا۔
اس نے دھوپ میں اڑی رنگت والے بھورے بالوں کی باریک باریک دو چوٹیاں گوندھی ہوتی تھیں آنکھیں بھی بھوری تھیں رنگ بھی بھورا دھوپ میں جل کر گہرا ہو گیا تھا کچھ، پر وہ بھوری وَچھی جیسی لگتی تھی۔
مجھے ابّا نے مدرسے میں داخل کرا دیا جب گاؤں آتا وہ مجھے قاری الازہری کہہ کر چھیڑتی ۔ بڑا مزاج تھا اسکا وَلّ کھاتی ناگن جیسا۔ بات بات پر روٹھ بیٹھتی تھی اور موٹے موٹے ڈیلے نکال کر پلکیں جھپکے بغیر گھورتی۔
اس کے ابّے نے اسکی ماں سے کہا تھا جب دھی رانی پہلی واری سر پاک کرے تو مجھے بتانا ۔ اس کی ماں کو بڑی حیا آتی کہ کیسے اس بات کا ذکر اپنے گھر والے سے کرے گی ۔ مڑ وہ گیارہویں ورے میں ہی لگی تھی کہ کپڑے ناپاک ہو گئے۔ جب گھر آیا تو پتا چلا کہ سیماں کو اس کے ابے نے ویاہ بھی دیا بڑی عمر کا آدمی تھا تھلوں کا رہنے والا دوسری یا تیسری شادی تھی اس بندے کی۔ میں تب چھیواں سیپارہ حفظ کر رہا تھا۔
یہ سن کر مالی ہنسنے لگا اچھا جبھی تو تھل سے آئے جوگیوں کی ڈھیریوں میں پھرتا رہتا ہے اپنی معشوق کو دیکھنے۔ پھر ملی کبھی؟
قاری نے اس کی استہزائیہ ہنسی نظر انداز کرتے ہوئے کہا
میری بے بے کہتی تھی اسکی ماں کو " اَنّ سے اتارا اور کھسم کے ساتھ ٹور دیا بالڑی کو.... ہاں تو کیا اتنے مہینوں کے گناہ سر نہیں چڑھتے ؟
غلط سمجھا تم لوگوں نے کہ بیٹی باپ کے گھر سر پاک کرے تو گناہ سر چڑھ جائے گا۔ آجکل بچیوں کو جلدی کپڑے آ جاتے ہیں وہ جوان کہاں ہوئی ہوتی ہیں۔
اچھا چھوڑ یہ بتا پھر کیا ہوا ۔ وسیبا ہوا اسکا کہ نہیں ۔
ہونا کیا تھا نہ اسے داج ملا نہ بری۔ گلے پڑا بوجھ اتارنے جیسا بیاہ ہوا تھا۔ اس کا مالک بھی غصے والا تھا۔
سال کے اندر اندر وہ گزر گئی
ہاہ ... مر گئی دُلڑی ... مالی نے تاسف سے کہا۔
چھوٹے سے کوارٹر میں گھمبیر خاموشی چھا گئی ۔ مالی نے کمرے میں رکھے گیس کے
چولہے پر چائے چڑھائی ہوئی تھی ،ابلتی ہوئی چائے آگ میں گری تو دودھ پتی کی مہک نے نیم خنک فضا میں درد بھرا رس گھول دیا ۔
قاری چائے کی چسکیاں لگاتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھا۔
پتا ہے!
ہم نے مدرسے کی کتابوں میں کچھ اور ہی پڑھا تھا ۔ ایک جگہ لکھا تھا بیٹی کو اختیار ہے باپ کی طرف سے بنا پوچھے کیا گیا نکاح رکھے یا ختم کر دے ۔
ہیں ۔۔۔۔۔ سچ میں ۔۔۔۔ پر ایسا تو نہیں ہوتا ہمارے گاؤں میں ۔ بھلا لڑکیاں بھی ایسی بات کر سکتی ہیں ؟ ٹوٹے نہ ہو جائیں ان کے۔ مالی استعجاب سے کہنے لگا ۔
اس کے پاس کوئی گہنے نہ تھے ماں سے سنا تین کپڑوں میں ٹور دیا تھا ۔ وہ کچ کے موتیوں سے ہار چوڑی ٹکا نتھ اور بالوں میں لگانے والے کلپ بنایا کرتی تھی اپنے گڈی گڈے کی شادی میں ۔ پر اپنے لیے وہ بھی نہ بنا سکی ۔
وہ مری کیسے ؟ مالی نے پیالی میں دربارہ چائے انڈیلتے ہوئے پوچھا ۔
نلوں میں بچہ پھنس گیا تھا پیدائش کے ٹیم ۔ نہ بچہ رہا نہ وہ رہی ۔
یہ کہہ کر قاری نے پیالی وہیں رکھی اور سانپ کا تھیلا اٹھائے کوارٹر سے باہر نکل گیا ۔ اس میں زیادہ بات کرنے کی ہمت نہ رہی تھی ۔
سہ پہر کے وقت وہ بڑی نہر کے کچے بند کے ساتھ ساتھ دور تک چلتا جا رہا تھا ۔کئی میل کی مسافت کے بعد ایک کچے کوٹھے کے پاس آ کر رک گیا ۔ دو بیتل بکریاں نہر کی اترائی میں لگی جھاڑیوں میں سے پتے چر رہی تھیں چند مرغیاں مٹی میں چونچیں مار کر خوراک تلاش کر رہی تھیں اور ایک مریل سی کتیا ڈیرے پر بندھی ہوئی تھی۔
قاری کو بہت دنوں بعد وہاں دیکھ کر ایک گیارہ بارہ سال کا دبلا سا لڑکا بھاگتا ہوا آیا۔ ابّا دیکھ قاری جی آئے ہیں ۔
قاری وہیں منڈیر کے پاس بان کی کھری چارپائی پر بیٹھ گیا۔
قاری جی آپ کو سانپ سے ڈر نہیں لگتا؟
لگتا ہے پتر ۔ اندر ہی اندر ڈر تو ہوتا ہے ۔ پر یہ جانور جو ہے نا یہ بھی ہم سے ڈرتا ہے۔ اور ہم جانور سے ڈرتے ہیں ۔ ہم اسی ڈر میں اس پر حملہ کرتے ہیں اور وہ اپنی جان کے ڈر سے ہم پر حملہ کرتا ہے ، کَکھ لگاتا ہے ۔ ڈر نہ ہو تو حملہ بھی نہ ہو ۔
لڑکا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھ کر بات سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔
اگر سانپ کا ڈر مُک جائے تو وہ ہم پر حملہ بہت کم کرے ۔ وہ جو سانپ ہے نا وہ ڈر کو ہماری آنکھوں میں دیکھ کر پہچان لیتا ہے ۔
جو خوف کھاتا ہے وہ بڑا خطرناک ہو جاتا ہے کب وار کر دے مڑ کوئی نہیں جانتا اگر تم اپنا خوف چھپا لو یا ڈر ختم کر لو تو میری طرح سانپ پکڑ سکتے ہو۔
اچھا ااااا ..... سچ ۔
ہاں .....
رب کو پہچاننے کے لیے بھی خوف اور پیار کو ایک نکتے پر برابر کرنا پڑتا ہے ۔
لڑکے نے کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔
خالی گناہ کے خوف سے رب بھی نہیں ملتا بس اس کے بندے رُل جاتے ہیں دُھول مٹی میں ......... قاری نے دھیرے سے خود کلامی کی۔
پھر اس ڈیرے پر موجود لڑکے کے بوڑھے باپ کو چند پرانے نوٹ پکڑاتے ہوئے کہنے لگا ۔
بھرا اللہ وسایا یہ سو کم نو ہزار ہیں ۔ رکھ لے رات کو سٹیشن پر گڈی صرف ایک منٹ رکتی ہے ۔ گھر والوں کو ہوشیاری سے ٹیشن تک پہنچانا۔ یہ پتا لکھا ہے مدرسے کا ۔
کراچی پہنچ کر کسی سے آگے کا رستہ پوچھ لینا ۔ وہاں بڑے مدرسے میں تمھاری بیٹی کا داخلہ کروا دیا ہوا ہے۔ بڑے مولوی صاحب کو میرا یہ رقعہ دے دینا۔
اپنی شوہدی کا بیاہ اس کم سنی میں کرنا کوئی ثواب کا کام نہیں۔
مگر قاری صاب اگر شاہ صاحب کو پتا چل گیا کہ تم نے ہمیں بستی سے نکلنے کی صلاح دی تھی تو کیا ہوگا ۔ لڑکی کا باپ منمنایا
تم اپنا تو خوف نہ کھاؤ اور میری طرف سے بے فکر رہو ۔
ان کا وہ مرید جس سے تمہاری بچی کا نکاح کرنا تھا ۔ اس کے اولاد نہیں ہونے والی۔ وہ دو شادیاں پہلے کر چکا۔ بچی شاہ صاحب کی حویلی میں رُل جاتی ۔ بس تو کراچی پہنچ ۔ کوئی مزدوری مل جائے گی اور بیٹی ،
اسے عالمہ کا کورس کرنے دے پھر بتاؤں گا آگے کیا کرنا ہے۔
اور ہاں ان پیسوں میں سے وہاں جاکر اسے دو جوڑے لے دینا مڑ جی پَرچ جائے گا اسکا ۔ میری دھی وانگ ہے۔ بس اتنے ہو سکے سردیوں کا موسم ہے شکار کم ملتا ہے ۔
شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا اس نے گاؤں واپسی کی راہ لی ۔ نہر کے ویران کنارے دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ آسمان بنفشی رنگ اوڑھے سورج کو الوداع کہنے کی تیاری میں تھا۔ دور سرد زمینوں سے آتی کونجوں کی طویل ڈاریں کبھی کوئی شکل اختیار کر لیتیں تو کبھی کوئی۔ تنہائی اور اداسی آسمان میں اترتی گلاہٹ کی مانند نازل ہوئی تھیں ۔
شام اپنے بال کھولے کھیتوں کھلیانوں اور ٹوئیوں ٹبوں میں لمبے سایوں کے ساتھ اترنے لگی۔ سمے کی دیکھا دیکھی اس نے اپنے سر سے رومال اتارا اور روح کو کھول کر جسم پر پہن لیا۔ پھر ایک لمبی ہوک لگا کر کافی کے بول گانے لگا۔
درد اندر وچّ سوز جگر وچّ ۔اکھیاں نیر وہیراں ۔ موں سر بھسڑ چھئیاں ۔
نیڑے ویڑم سخت نہیڑم ۔چٹڑی ہجر دے تیراں ۔او خوشیاں کن گئیاں ۔
دور دور تک خوش الحان قاری حافظ شاکر کی لَے سننے والا پرندوں کے سوا کوئی اور نہیں تھا ۔