رچرڈ شیلٹن کے فلیش فکشن : دی اسٹونز

رچرڈ شیلٹن کے فلیش فکشن : دی اسٹونز

Apr 16, 2023

رچرڈ شیلٹن کے فلیش فکشن : دی اسٹونز

دیدبان شمارہ۔۱۸

رچرڈ شیلٹن کے فلیش فکشن : دی اسٹونز

اردو ترجمہ سلمی جیلانی

میں اکثر موسم گرما کی راتوں میں باہر گھومنے نکل جاتا ہوں اور پتھروں کی نشو و نما کا مشاہدہ کیا کرتا ہوں

میرا خیال ہے وہ یہاں صحرا کی گرم اور خشک ہوا میں کسی دوسری جگہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر پنپتے ہیں یا پھر نوجوان پتھر جو زیادہ فعال ہیں تیز رفتاری سے نمو پاتے ہیں

نوجوان پتھروں کا اپنے بزرگوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک رہنا ان کے حق میں بہت بہتر ہے – ان میں سے زیادہ تر کی ایک خفیہ تمنا ہے جو کہ خود ان کے والدین کی بھی تھی مگر برسوں پہلے وہ اسے بھول چکے ہیں اور چونکہ اس میں پانی کا حصول بھی شامل ہے اس لئے اس خواہش کا ذکر تک کرنا بھی ناممکن ہے –

پرانے پتھروں نے پانی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں پانی اس گڑ مکھی کی طرح ہے جو کبھی ایک جگہ پر نہیں ٹکتی ، اس میں ثبات نہیں کہ کچھ سیکھ سکے –

لیکن نوجوان پتھر اپنے بڑوں کے علم میں لائے بغیر اپنے کام میں جتے رہتے ، انہی میں سے ایک موسم گرما کے طوفانی پانی سے ایک اچھی خاصی بڑی نہر کی تعمیر بھی تھی اگرچہ پانی کی باڑھ انہیں معدوم بھی کر سکتی تھی لیکن پھر بھی آبی گزرگاہ سے پھسل کر گرنے کے خطرے کے باوجود وہ سفر کرتے اور نئی دنیاؤں کو مسخر کرنے نکل کھڑے ہوتے – وہ اپنے گھروں سے دور نئی زمینوں میں بسنے کی کوششیں کرتے جہاں اپنے بزرگوں کے تسلط سے آزاد ہو کر اپنے نئے خاندانوں کی داغ بیل ڈال سکیں –

پتھروں میں خاندانی روابط بہت زیادہ مضبوط ہونے کے باوجود کئی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے – وہ اپنے زخموں کے نشان اپنے بچوں کو دکھاتے جو لمبے سفر کی اس مہم جوئی میں گہرے پانیوں سے لڑتے بھڑتے انہیں لگے تھے -وہ شائد پندرہ فٹ یا اس سے بھی زیادہ گہرائیوں میں چلے جاتے تھے – لیکن جوں جوں ان کی عمر بڑھتی وہ ایسی خفیہ مہمات کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بتانا بند کر دیتے –

سچ تو یہ ہے کہ پرانے پتھر بہت زیادہ قدامت پسند ہو چکے ہیں وہ تمام قسم کی تحاریک کو یا تو خطرناک قرار دیتے یا پھر یہ انہیں گناہوں کے راستے کی طرف دھکیلتی ہوئی محسوس ہوتیں – وہ اپنی جگہ پڑے ایک گوناں سکون پاتے اور موٹے ہوتے چلے جاتے – دیکھا جائے تو فربہی اس فرق کی واضح نشانی ہے –

ہاں مگر موسم گرما کی راتوں میں جب نوجوان پتھر استراحت میں مشغول ہوتے ان کے بزرگ آپس میں سنجیدہ اور خوفناک موضوع یعنی چاند کے متعلق گفتگو کرتے جو کہ ہمیشہ رازدارانہ سرگوشیوں میں ہوا کرتی – ایک کہتا ” تم نے دیکھا یہ کیسے دمکتا ہے اور آسمان کے گرد کیسے چکر لگاتا رہتا ہے – دوسرا سرگوشی کرتا ” کیا تم نے محسوس کیا ہے کہ وہ کیسے ہمیں اپنی جانب مائل کرتا ہے اور ہمیں اپنی پیروی پر اکساتا ہے ”

تیسرے کی سرگوشی سنائی دیتی ” ہاں وہ ایک پتھر ہے جو پاگل ہو گیا ہے "

دیدبان شمارہ۔۱۸

رچرڈ شیلٹن کے فلیش فکشن : دی اسٹونز

اردو ترجمہ سلمی جیلانی

میں اکثر موسم گرما کی راتوں میں باہر گھومنے نکل جاتا ہوں اور پتھروں کی نشو و نما کا مشاہدہ کیا کرتا ہوں

میرا خیال ہے وہ یہاں صحرا کی گرم اور خشک ہوا میں کسی دوسری جگہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر پنپتے ہیں یا پھر نوجوان پتھر جو زیادہ فعال ہیں تیز رفتاری سے نمو پاتے ہیں

نوجوان پتھروں کا اپنے بزرگوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک رہنا ان کے حق میں بہت بہتر ہے – ان میں سے زیادہ تر کی ایک خفیہ تمنا ہے جو کہ خود ان کے والدین کی بھی تھی مگر برسوں پہلے وہ اسے بھول چکے ہیں اور چونکہ اس میں پانی کا حصول بھی شامل ہے اس لئے اس خواہش کا ذکر تک کرنا بھی ناممکن ہے –

پرانے پتھروں نے پانی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں پانی اس گڑ مکھی کی طرح ہے جو کبھی ایک جگہ پر نہیں ٹکتی ، اس میں ثبات نہیں کہ کچھ سیکھ سکے –

لیکن نوجوان پتھر اپنے بڑوں کے علم میں لائے بغیر اپنے کام میں جتے رہتے ، انہی میں سے ایک موسم گرما کے طوفانی پانی سے ایک اچھی خاصی بڑی نہر کی تعمیر بھی تھی اگرچہ پانی کی باڑھ انہیں معدوم بھی کر سکتی تھی لیکن پھر بھی آبی گزرگاہ سے پھسل کر گرنے کے خطرے کے باوجود وہ سفر کرتے اور نئی دنیاؤں کو مسخر کرنے نکل کھڑے ہوتے – وہ اپنے گھروں سے دور نئی زمینوں میں بسنے کی کوششیں کرتے جہاں اپنے بزرگوں کے تسلط سے آزاد ہو کر اپنے نئے خاندانوں کی داغ بیل ڈال سکیں –

پتھروں میں خاندانی روابط بہت زیادہ مضبوط ہونے کے باوجود کئی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے – وہ اپنے زخموں کے نشان اپنے بچوں کو دکھاتے جو لمبے سفر کی اس مہم جوئی میں گہرے پانیوں سے لڑتے بھڑتے انہیں لگے تھے -وہ شائد پندرہ فٹ یا اس سے بھی زیادہ گہرائیوں میں چلے جاتے تھے – لیکن جوں جوں ان کی عمر بڑھتی وہ ایسی خفیہ مہمات کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بتانا بند کر دیتے –

سچ تو یہ ہے کہ پرانے پتھر بہت زیادہ قدامت پسند ہو چکے ہیں وہ تمام قسم کی تحاریک کو یا تو خطرناک قرار دیتے یا پھر یہ انہیں گناہوں کے راستے کی طرف دھکیلتی ہوئی محسوس ہوتیں – وہ اپنی جگہ پڑے ایک گوناں سکون پاتے اور موٹے ہوتے چلے جاتے – دیکھا جائے تو فربہی اس فرق کی واضح نشانی ہے –

ہاں مگر موسم گرما کی راتوں میں جب نوجوان پتھر استراحت میں مشغول ہوتے ان کے بزرگ آپس میں سنجیدہ اور خوفناک موضوع یعنی چاند کے متعلق گفتگو کرتے جو کہ ہمیشہ رازدارانہ سرگوشیوں میں ہوا کرتی – ایک کہتا ” تم نے دیکھا یہ کیسے دمکتا ہے اور آسمان کے گرد کیسے چکر لگاتا رہتا ہے – دوسرا سرگوشی کرتا ” کیا تم نے محسوس کیا ہے کہ وہ کیسے ہمیں اپنی جانب مائل کرتا ہے اور ہمیں اپنی پیروی پر اکساتا ہے ”

تیسرے کی سرگوشی سنائی دیتی ” ہاں وہ ایک پتھر ہے جو پاگل ہو گیا ہے "

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024