پریاں اترتی ہیں

پریاں اترتی ہیں

Jan 2, 2023

وحید احمد کی شاعری پر تبصرہ

پریاں اترتی ہیں"  

نعیم اشرف  

وحید احمد کی شاعری متنوع خیالات و موضوعات کی شاعری ہے۔ وہ  بنیادی طور پر نظم کےشاعرہیں۔ "پریاں اترتی ہیں"  تیس نظموں پر مشتمل ان  کی چوتھی   کتاب ہے۔اس سے قبل  ان کی منظوم شاعری کی جو شاہکار کتب منظر عام پر آئیں ان میں :  "شفافایاں" " ہم آگ چراتے ہیں"  اور" نظم نامہ"  شامل ہیں.

پریاں اترتی ہیں" پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے اندر ایک متجسس اوربے قرارروح بستی ہے جو کبھی ساتویں صدی قبل مسیح کے ایرانی پیغمبر زرتشت سے انیسویں صدی کے جرمن فلاسفر ، نقاد ، ادیب اور شاعر فریڈرک نیٹشے کی ملاقات کراوتی نظر آتی ہے تو کبھی اپنے قاری کو صلیبی  جنگوں کے ماحول میں لے جا کر انسان کےاندر کی حیوانی صفت کواجاگر کرتی ہے ۔ جو کہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جلوہ گر ہے۔  اور طاقت کے بل بوتے پر دوسرے انسانوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے در پے ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور مارا ماری کا ماحول صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کرتا نظر آتا ہے۔

یہ حساس تخلیق کار  آرمی پبلک سکول پشاور پہنچ کردہشت گردی کا شکار ہونے والے  معصوم بچوں کی روحوں  کی زبان بن ایک دلگیر نظم نو نہال سوال کرتا ہے کے نام سے اس کتاب میں شامل کرتا ہے ۔ نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:  

میرا اسکول تھا کوئی جنگل نہیں تھا ۔ ۔ ۔

تو پھر کیوں اس میں جانور آگئے؟

میرا چہرہ کٹا ، میرا سینہ پھٹا،روشنائی گری صفحہ فرش پر

اور میں خون پر منہ کے بل گرگیا

میرا بستہ بس نوحہ خواں تھا میرا

میرے پہلو میں جو ہو کہ شل گر گیا

ہم جماعت کے گلشن میں بیٹھے ہوئے تھے

کہ اک اک کلی باری باری گری  

قرض سارے تو پیپر کرنسی کے تھے

کیوں میرے خون کی ریزگاری گری؟

چار عشروں سے بے غیرتی کی ہوا میں

پنپتی ہوئی  

سانس لیتی ہوئی

اے گنہ گار نسلو بتاو

میرا کفارہ کس دل سے تم کو قبول اور منظور ہے ۔ ۔ ۔

پوئٹک آرٹ ، کرافٹ اور موسیقیت کے اعتبار سے پریاں اترتی ہیں پڑھتے ہوئے بعض اوقات یہ ایک نغموں کی کتاب لگتی ہے۔ ہر شاعر کے اندر موسیقی تو بہر حال ہوتی ہے ۔ مگر وحید احمد یقیناً ایک گلو کار بھی ہونگے ۔پریاں اترتی ہیں کی  نظم   عشرہ کشمیر      میرے اس احساس کو تقویت بخشتی ہے :

قرۃ العین جنت کشمیر  

روح کا چین جنت کشمیر  

اک طرف دل تو اک طرف ہے جگر

اور مابین جنت کشمیر  

اور بھی ہیں کئی ارم پارے  

پر ہے واوین جنت کشمیر  

مجھ کو آشوب چشم ہوتا ہے  

میں جو کچھ دن نہ اپنا گھر دیکھوں  

ہے یہ میری دعا کہ میں تجھ کو  

جلد آزاد ومقتدر دیکھوں ۔ "

وحید احمد، جرمن فلاسفر ، سماجی نقاد ، شاعر اور ادیب   فریڈرک نیٹشے سے متاثرہے ۔وہ نیٹشے کے افکار کو  قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس عظیم فلاسفر کو نائیت دلچسپ  اور خوبصورت انداز میں  خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ وحید احمد کی ایک طویل نظم "سلام نیٹشے" کا ایک بند ملاحظہ ہو:

نیٹشے کی آنکھ کے ڈھیلے پگھل کر بہہ گئے"

اور سبز پانی گرم رخساروں کو چھو کرترمرا کر ، چر مرا کراُڑ گیا

پھر اس کا سینہ پھاڑ کر زرتشت ثانی نے زمانے میں قدم رکھا  

اور اس کا کاسہ سر توڑ کر  

شعلے پروں  سے جھاڑتا

شاہین

۔ ۔ ۔ ۔  

زرتشتِ ثانی

اپنے خالق نیٹشےکے بھربھرے ملبے پہ نقش پا بناتا جا رہا ہے

اے زمانے آ!

تماشہ کر زمانے !!!

نیٹشے کا سرخ پیغمبر دمکتی غار سے باہر نکلتا ہے

فراز کوہ سے

پتھر کے زینوۢں پر قدم رکھتا ہوا

کون و مکاں کی سیاہ وادی میں اترتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔  

وحید احمد کی نظر میں کوئی بھی  ادیب ایک زمہ دار دانشو ہوتا ہے ۔ وہ معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے ۔اس کو لمحہ موجود میں برپا انسانی تکلیفوں کو اجاگر کرنا چاہیئے۔ اور عوام کی زندگی آسان بنانے کی باتیں کرنی چاہیئں نہ کہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہردور میں اپنے نظریات بدل لینے چاہیئں ۔ بد قسمتی سے دور حاضرہ کے اکثر  لکھاری  اپنے اس فن کو سیڑھی بنا کر اعلی عہدے اور ان سے جڑے مفادات حاصل کرتے ہیں یا دولت اور شہرت کے حصول میں حاکم وقت کی زبان بولتے نظر آتے ہیں ۔ یہ المیہ  ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ادیبوں ، صحافیوں اور شاعروں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔۔۔۔

۔  اس تکلیف دہ  سچائی کو وحید احمد  کا قلم بہت دلیرانہ  میں  پیش کرتا ہے:  

ان کی اسی کتاب کی ایک نظم "دعا" کے چند اشعار نائیت دلیری اور کاٹ دار انداز میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں :

!   اے خدا٘۔۔۔۔۔۔۔۔اے خدا  "      

مجھ کو ایسے ادیبوں کے شر سے بچا

جو کہ بازارِدانش فروشاں میں ہر شام پیشے سے ہیں

جن کے میلے جھروکوں پہ لٹکی  

پھٹی چلمنوں کے مساموں سے رِستی ہوئی روشنی میں

بلاوہ ہے

ان مقتدر مورتوں کے لئے

وہ جو خوددوسرے ایک بازار کی سب سے نچلی رکھیلوں کے زمرے میں  

جو رگیدے گئے ہیں

مگر اس قدر سخت جاں ہیں

کہ ان کی چھلی ہڈیوں سے حیا کا برادہ نکلتا نہیں  

مگر اشتہا ہے کہ مرتی نہیں ۔۔۔۔"""

پوئٹک آرٹ ، فکری سنجیدگی،متنوع و دلگیر موضوعات  اور موسیقیت کے حسین امتزاج کے  اعتبار سے وحید احمد اس عہد کے ایک اہم نظم نگار ٹھہرتے ہیں ۔ بلا شبہ " پریاں اترتی ہیں" اردو شاعری کی صف میں ایک بڑا اضافہ ہے۔

1 comment

پریاں اترتی ہیں"  

نعیم اشرف  

وحید احمد کی شاعری متنوع خیالات و موضوعات کی شاعری ہے۔ وہ  بنیادی طور پر نظم کےشاعرہیں۔ "پریاں اترتی ہیں"  تیس نظموں پر مشتمل ان  کی چوتھی   کتاب ہے۔اس سے قبل  ان کی منظوم شاعری کی جو شاہکار کتب منظر عام پر آئیں ان میں :  "شفافایاں" " ہم آگ چراتے ہیں"  اور" نظم نامہ"  شامل ہیں.

پریاں اترتی ہیں" پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے اندر ایک متجسس اوربے قرارروح بستی ہے جو کبھی ساتویں صدی قبل مسیح کے ایرانی پیغمبر زرتشت سے انیسویں صدی کے جرمن فلاسفر ، نقاد ، ادیب اور شاعر فریڈرک نیٹشے کی ملاقات کراوتی نظر آتی ہے تو کبھی اپنے قاری کو صلیبی  جنگوں کے ماحول میں لے جا کر انسان کےاندر کی حیوانی صفت کواجاگر کرتی ہے ۔ جو کہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جلوہ گر ہے۔  اور طاقت کے بل بوتے پر دوسرے انسانوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے در پے ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور مارا ماری کا ماحول صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کرتا نظر آتا ہے۔

یہ حساس تخلیق کار  آرمی پبلک سکول پشاور پہنچ کردہشت گردی کا شکار ہونے والے  معصوم بچوں کی روحوں  کی زبان بن ایک دلگیر نظم نو نہال سوال کرتا ہے کے نام سے اس کتاب میں شامل کرتا ہے ۔ نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:  

میرا اسکول تھا کوئی جنگل نہیں تھا ۔ ۔ ۔

تو پھر کیوں اس میں جانور آگئے؟

میرا چہرہ کٹا ، میرا سینہ پھٹا،روشنائی گری صفحہ فرش پر

اور میں خون پر منہ کے بل گرگیا

میرا بستہ بس نوحہ خواں تھا میرا

میرے پہلو میں جو ہو کہ شل گر گیا

ہم جماعت کے گلشن میں بیٹھے ہوئے تھے

کہ اک اک کلی باری باری گری  

قرض سارے تو پیپر کرنسی کے تھے

کیوں میرے خون کی ریزگاری گری؟

چار عشروں سے بے غیرتی کی ہوا میں

پنپتی ہوئی  

سانس لیتی ہوئی

اے گنہ گار نسلو بتاو

میرا کفارہ کس دل سے تم کو قبول اور منظور ہے ۔ ۔ ۔

پوئٹک آرٹ ، کرافٹ اور موسیقیت کے اعتبار سے پریاں اترتی ہیں پڑھتے ہوئے بعض اوقات یہ ایک نغموں کی کتاب لگتی ہے۔ ہر شاعر کے اندر موسیقی تو بہر حال ہوتی ہے ۔ مگر وحید احمد یقیناً ایک گلو کار بھی ہونگے ۔پریاں اترتی ہیں کی  نظم   عشرہ کشمیر      میرے اس احساس کو تقویت بخشتی ہے :

قرۃ العین جنت کشمیر  

روح کا چین جنت کشمیر  

اک طرف دل تو اک طرف ہے جگر

اور مابین جنت کشمیر  

اور بھی ہیں کئی ارم پارے  

پر ہے واوین جنت کشمیر  

مجھ کو آشوب چشم ہوتا ہے  

میں جو کچھ دن نہ اپنا گھر دیکھوں  

ہے یہ میری دعا کہ میں تجھ کو  

جلد آزاد ومقتدر دیکھوں ۔ "

وحید احمد، جرمن فلاسفر ، سماجی نقاد ، شاعر اور ادیب   فریڈرک نیٹشے سے متاثرہے ۔وہ نیٹشے کے افکار کو  قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس عظیم فلاسفر کو نائیت دلچسپ  اور خوبصورت انداز میں  خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ وحید احمد کی ایک طویل نظم "سلام نیٹشے" کا ایک بند ملاحظہ ہو:

نیٹشے کی آنکھ کے ڈھیلے پگھل کر بہہ گئے"

اور سبز پانی گرم رخساروں کو چھو کرترمرا کر ، چر مرا کراُڑ گیا

پھر اس کا سینہ پھاڑ کر زرتشت ثانی نے زمانے میں قدم رکھا  

اور اس کا کاسہ سر توڑ کر  

شعلے پروں  سے جھاڑتا

شاہین

۔ ۔ ۔ ۔  

زرتشتِ ثانی

اپنے خالق نیٹشےکے بھربھرے ملبے پہ نقش پا بناتا جا رہا ہے

اے زمانے آ!

تماشہ کر زمانے !!!

نیٹشے کا سرخ پیغمبر دمکتی غار سے باہر نکلتا ہے

فراز کوہ سے

پتھر کے زینوۢں پر قدم رکھتا ہوا

کون و مکاں کی سیاہ وادی میں اترتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔  

وحید احمد کی نظر میں کوئی بھی  ادیب ایک زمہ دار دانشو ہوتا ہے ۔ وہ معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے ۔اس کو لمحہ موجود میں برپا انسانی تکلیفوں کو اجاگر کرنا چاہیئے۔ اور عوام کی زندگی آسان بنانے کی باتیں کرنی چاہیئں نہ کہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہردور میں اپنے نظریات بدل لینے چاہیئں ۔ بد قسمتی سے دور حاضرہ کے اکثر  لکھاری  اپنے اس فن کو سیڑھی بنا کر اعلی عہدے اور ان سے جڑے مفادات حاصل کرتے ہیں یا دولت اور شہرت کے حصول میں حاکم وقت کی زبان بولتے نظر آتے ہیں ۔ یہ المیہ  ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ادیبوں ، صحافیوں اور شاعروں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔۔۔۔

۔  اس تکلیف دہ  سچائی کو وحید احمد  کا قلم بہت دلیرانہ  میں  پیش کرتا ہے:  

ان کی اسی کتاب کی ایک نظم "دعا" کے چند اشعار نائیت دلیری اور کاٹ دار انداز میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں :

!   اے خدا٘۔۔۔۔۔۔۔۔اے خدا  "      

مجھ کو ایسے ادیبوں کے شر سے بچا

جو کہ بازارِدانش فروشاں میں ہر شام پیشے سے ہیں

جن کے میلے جھروکوں پہ لٹکی  

پھٹی چلمنوں کے مساموں سے رِستی ہوئی روشنی میں

بلاوہ ہے

ان مقتدر مورتوں کے لئے

وہ جو خوددوسرے ایک بازار کی سب سے نچلی رکھیلوں کے زمرے میں  

جو رگیدے گئے ہیں

مگر اس قدر سخت جاں ہیں

کہ ان کی چھلی ہڈیوں سے حیا کا برادہ نکلتا نہیں  

مگر اشتہا ہے کہ مرتی نہیں ۔۔۔۔"""

پوئٹک آرٹ ، فکری سنجیدگی،متنوع و دلگیر موضوعات  اور موسیقیت کے حسین امتزاج کے  اعتبار سے وحید احمد اس عہد کے ایک اہم نظم نگار ٹھہرتے ہیں ۔ بلا شبہ " پریاں اترتی ہیں" اردو شاعری کی صف میں ایک بڑا اضافہ ہے۔

1 comment

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024