پرویز مانوس کا ناول" سارے جہاں کا درد "
پرویز مانوس کا ناول" سارے جہاں کا درد "
Feb 19, 2024
دیدبان شمارہ ۔ ۱۸
پرویز مانوس کا ناول" سارے جہاں کا درد "
تبصرہ:نسترن احسن فتیحی
تقسیم ہند کے بعد سے، کشمیر ایک 'وادی آرزو ' (Valley of Desire) کے طور پر نوآبادیاتی جبر کا سامنا کرتا رہا ہے۔ 1989 سے اب تک ایک اندازے کے مطابق 70,000 افراد ہلاک اور 8000 کے قریب لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والی وحشیانہ کشمکش نے ادیبوں کو ادب کی شکل میں اس حقیقت کو بیان کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ جس کا وہ خود تجربہ کرتے رہے ہیں ، وادی کشمیر کے ادیبوں نے اس جاری تنازعہ کے متحرک رنگوں کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے اور تشدد کی ہولناکیوں اور کشمیر کے تنازعہ کی مسلسل اذیت اور عذاب کی تصویر کشی کی ہے۔ پرویز مانوس کا نیا ناول" سارے جہاں کا درد " اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ یوں تو کشمیر ی زبان کے نثری اور شعری ادب میں عام کشمیریوں کی حالت زار کی بھر پور تصویر کشی ملتی ہے۔ لیکن حال ہی میں، کشمیریوں کی حالت زار پر کشمیری سے زیادہ اردو اور انگریزی میں لکھنے کی بہتات ہوئی ہے۔ کشمیری مصنفین کشمیر پر گفتگو کو ایک متبادل ڈس کورس پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وحید مرزا (The Collaborator) اور بشارت پیر ( Curfew Night)کی انگریزی تخلیقات میں کشمیر ایک پوسٹ نوآبادیاتی جگہ کے طور پر ابھرتا ہے، جہاں دہشت زندگی کا راستہ بن جاتی ہے۔ اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر میں روزانہ مختلف طریقوں سے طاقت کیسے کام کرتی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی زندگی مسلسل موت کے خطرے میں نہ صرف برہنہ بلکہ لاوارث نظر آتی ہے۔
پرویز مانوس کے ناول" سارے جہاں کا درد " میں ایک غریب ٹیکسی ڈرائور غلام قادر کو عسکریت پسندوں کی اعانت کے الزام میں دہلی سے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جاتا ہے جہاں اس کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی بیس برس تک جیل میں گزارنے پڑتے ہیں ۔ عدالت میں رویش کھنہ نامی وکیل اُن کی مدد کرتا ہے ۔ جیل سے رہا ہوتے وقت غلام قادر اپنے رنج وغم کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے
’’جج صاحب !کیا سرکار کا معاوضہ دینے سے میری زندگی کے قیمتی اُنیس سال چار مہینے اور بیس دن واپس لوٹ آئیں گے؟کیا میری جو جوانی جیل کی کال کوٹھری کی تاریکی کی نذرہو گئی دوبارہ آئے گی؟کیا میرے چہرے کی لالی مجھے واپس مل جائے گی ؟کیا میری ماں کی آنکھوں کی وہ بصارت واپس لوٹ آئے گی جو اُس نے میرے انتظار میںگنوادی؟کیا میرے بچوں کا وہ بچپن اُنھیں واپس مِل جائے گا جو اُنہوں نے باپ کے جیتے جی یتیموں کی طرح گزارا؟کیا میری شریک حیات جو جیتے جی مجھے سے بچھڑ گئی پھر سے زندہ ہو سکتی ہے ؟کیا میرے کردار پر لگا ہوا بدنامی کا یہ دھبہ معاوضے کی رقم دھو سکتی ہے ؟کیا یہ معاوضہ مجھے سماج اور معاشرے میں کھوئی ہوئی عزت دلا پائے گا؟نہیں جج صاحب !نہیں ،نہیں ،نہیں کہتے ہوئے زار و قطارروتے روتے کٹہرے میں گھٹنوں کے بل اس طرح بیٹھ گیاجس طرح کوئی جواری سب کچھ ہار چُکا ہو ۔‘‘
یہ رنج و غم کسی ایک غلام قادر کا نہیں بلکہ یہ تصویر عام کشمیریوں کے حالت زار کو پیش کرتی ہے ۔ کشمیر کے ہزاروں باشندگان قیدو بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جرم بے گناہی میں ملوث ہر عمر کے لوگ قید کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ۸۰ سالہ بزرگوں سے لے کر دس بارہ سال کے بچے تک گرفتار کئے جاتے ہیں اور پھر انتہائی قبیح تشدد اور تعذیب سے گزارے جاتے ہیں۔کشمیر کاز کے ساتھ وابستہ فعال ومتحرک لوگوں کو قید کے دوران انتہائی سخت تشدد سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوجائے۔حال ہی میں جموں سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار نے قیدیوں سے متعلق ایک رپورٹ منظر عام پر لائی ۔مذکورہ اخبار کی اس شائع شدہ رپورٹ سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی جیلوں میں نظربند لوگوں پر کس قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے
غلام قادر اس عذاب سے اس لیے بچ پایا کیوں کہ کسی موقعے پر غلام قادر نے بھی رویش کھنہ کوکشمیر میں چند مشتبہ افراد سے بچایا تھا ۔ ناول میں ایک دوسرا اہم کردار عظیمہ آپا کا ہے جو اپنی زندگی غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں کی فلاح و بہبود میں گُزارتی ہیں۔ وہیں غلام قادر کے جیل جانے کے بعد عظیمہ آپا قادرکے اس ستم رسیدہ خاندان کا بھی سہارا بنتی ہے بلکہ اس خاندان کو مفلسی سے بھی نکالتی ہیں ۔ اس طرح ناول کا بیانیہ غلام قادر اور عظیمہ آپا کے ارد گرد گھومتے ہوۓ کشمیر میں شورس، عوام کی تکالیف اور سیاست دانوں کی مکاری اور چال بازی کو موضوع گفتگو بناتا ہے۔بین السطور میں چل رہی اس کہانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے سیاست دان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کا قتل کرنے میں بھی ہچکچاتے نہیں اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کے نام پر لوگوں کی زندگیوں کو غموں سے بھر دیتے ہیں۔ اس کہانی میں سماج کے اُس بے حس طبقے کا تعارف بھی ملے گا جو دولت کی ہوس اور لالچ نے اُن کی آنکھوں پہ پردے ڈال کے اُن سے ہمدردی اور غمگساری کے جذبے کو چھین لیاہے ۔
مذکورہ ناول موت کی سیاست اور بے جان جسم پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ ناول پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں کے ارباب اختیار گردش ایام کی الٹ پھیر سے بالکل اپنے آپ کو ماوراء سمجھتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ انتظامیہ اور حکومت میں جن لوگوں کی زبانیں انسانی حقوق اور امن و قانون کی مالا جپتے نہیں تھکتی ہیں، ان کی آنکھیں یہ ظلم دیکھنے سے قاصر ہیں اور جیسے ان کی آنکھیں ہی نہیں ہیں۔
پرویز مانوس کے ناول" سارے جہاں کا درد " سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیر کی مشکل صورت حال کے باوجود، سرمئی بادلوں میں چاندی کی بہتات ہے۔ کشمیر کی ادبی دنیا میں اس نشاۃ ثانیہ نے جذباتی طور پر صدمے سے دوچار لوگوں میں امید پیدا کی ہے۔ آخر کار، کشمیر اب ادبی حلقے میں عالمی توجہ حاصل کر رہا ہے۔
دیدبان شمارہ ۔ ۱۸
پرویز مانوس کا ناول" سارے جہاں کا درد "
تبصرہ:نسترن احسن فتیحی
تقسیم ہند کے بعد سے، کشمیر ایک 'وادی آرزو ' (Valley of Desire) کے طور پر نوآبادیاتی جبر کا سامنا کرتا رہا ہے۔ 1989 سے اب تک ایک اندازے کے مطابق 70,000 افراد ہلاک اور 8000 کے قریب لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والی وحشیانہ کشمکش نے ادیبوں کو ادب کی شکل میں اس حقیقت کو بیان کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ جس کا وہ خود تجربہ کرتے رہے ہیں ، وادی کشمیر کے ادیبوں نے اس جاری تنازعہ کے متحرک رنگوں کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے اور تشدد کی ہولناکیوں اور کشمیر کے تنازعہ کی مسلسل اذیت اور عذاب کی تصویر کشی کی ہے۔ پرویز مانوس کا نیا ناول" سارے جہاں کا درد " اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ یوں تو کشمیر ی زبان کے نثری اور شعری ادب میں عام کشمیریوں کی حالت زار کی بھر پور تصویر کشی ملتی ہے۔ لیکن حال ہی میں، کشمیریوں کی حالت زار پر کشمیری سے زیادہ اردو اور انگریزی میں لکھنے کی بہتات ہوئی ہے۔ کشمیری مصنفین کشمیر پر گفتگو کو ایک متبادل ڈس کورس پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وحید مرزا (The Collaborator) اور بشارت پیر ( Curfew Night)کی انگریزی تخلیقات میں کشمیر ایک پوسٹ نوآبادیاتی جگہ کے طور پر ابھرتا ہے، جہاں دہشت زندگی کا راستہ بن جاتی ہے۔ اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر میں روزانہ مختلف طریقوں سے طاقت کیسے کام کرتی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی زندگی مسلسل موت کے خطرے میں نہ صرف برہنہ بلکہ لاوارث نظر آتی ہے۔
پرویز مانوس کے ناول" سارے جہاں کا درد " میں ایک غریب ٹیکسی ڈرائور غلام قادر کو عسکریت پسندوں کی اعانت کے الزام میں دہلی سے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جاتا ہے جہاں اس کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی بیس برس تک جیل میں گزارنے پڑتے ہیں ۔ عدالت میں رویش کھنہ نامی وکیل اُن کی مدد کرتا ہے ۔ جیل سے رہا ہوتے وقت غلام قادر اپنے رنج وغم کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے
’’جج صاحب !کیا سرکار کا معاوضہ دینے سے میری زندگی کے قیمتی اُنیس سال چار مہینے اور بیس دن واپس لوٹ آئیں گے؟کیا میری جو جوانی جیل کی کال کوٹھری کی تاریکی کی نذرہو گئی دوبارہ آئے گی؟کیا میرے چہرے کی لالی مجھے واپس مل جائے گی ؟کیا میری ماں کی آنکھوں کی وہ بصارت واپس لوٹ آئے گی جو اُس نے میرے انتظار میںگنوادی؟کیا میرے بچوں کا وہ بچپن اُنھیں واپس مِل جائے گا جو اُنہوں نے باپ کے جیتے جی یتیموں کی طرح گزارا؟کیا میری شریک حیات جو جیتے جی مجھے سے بچھڑ گئی پھر سے زندہ ہو سکتی ہے ؟کیا میرے کردار پر لگا ہوا بدنامی کا یہ دھبہ معاوضے کی رقم دھو سکتی ہے ؟کیا یہ معاوضہ مجھے سماج اور معاشرے میں کھوئی ہوئی عزت دلا پائے گا؟نہیں جج صاحب !نہیں ،نہیں ،نہیں کہتے ہوئے زار و قطارروتے روتے کٹہرے میں گھٹنوں کے بل اس طرح بیٹھ گیاجس طرح کوئی جواری سب کچھ ہار چُکا ہو ۔‘‘
یہ رنج و غم کسی ایک غلام قادر کا نہیں بلکہ یہ تصویر عام کشمیریوں کے حالت زار کو پیش کرتی ہے ۔ کشمیر کے ہزاروں باشندگان قیدو بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جرم بے گناہی میں ملوث ہر عمر کے لوگ قید کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ۸۰ سالہ بزرگوں سے لے کر دس بارہ سال کے بچے تک گرفتار کئے جاتے ہیں اور پھر انتہائی قبیح تشدد اور تعذیب سے گزارے جاتے ہیں۔کشمیر کاز کے ساتھ وابستہ فعال ومتحرک لوگوں کو قید کے دوران انتہائی سخت تشدد سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوجائے۔حال ہی میں جموں سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار نے قیدیوں سے متعلق ایک رپورٹ منظر عام پر لائی ۔مذکورہ اخبار کی اس شائع شدہ رپورٹ سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی جیلوں میں نظربند لوگوں پر کس قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے
غلام قادر اس عذاب سے اس لیے بچ پایا کیوں کہ کسی موقعے پر غلام قادر نے بھی رویش کھنہ کوکشمیر میں چند مشتبہ افراد سے بچایا تھا ۔ ناول میں ایک دوسرا اہم کردار عظیمہ آپا کا ہے جو اپنی زندگی غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں کی فلاح و بہبود میں گُزارتی ہیں۔ وہیں غلام قادر کے جیل جانے کے بعد عظیمہ آپا قادرکے اس ستم رسیدہ خاندان کا بھی سہارا بنتی ہے بلکہ اس خاندان کو مفلسی سے بھی نکالتی ہیں ۔ اس طرح ناول کا بیانیہ غلام قادر اور عظیمہ آپا کے ارد گرد گھومتے ہوۓ کشمیر میں شورس، عوام کی تکالیف اور سیاست دانوں کی مکاری اور چال بازی کو موضوع گفتگو بناتا ہے۔بین السطور میں چل رہی اس کہانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے سیاست دان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کا قتل کرنے میں بھی ہچکچاتے نہیں اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کے نام پر لوگوں کی زندگیوں کو غموں سے بھر دیتے ہیں۔ اس کہانی میں سماج کے اُس بے حس طبقے کا تعارف بھی ملے گا جو دولت کی ہوس اور لالچ نے اُن کی آنکھوں پہ پردے ڈال کے اُن سے ہمدردی اور غمگساری کے جذبے کو چھین لیاہے ۔
مذکورہ ناول موت کی سیاست اور بے جان جسم پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ ناول پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں کے ارباب اختیار گردش ایام کی الٹ پھیر سے بالکل اپنے آپ کو ماوراء سمجھتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ انتظامیہ اور حکومت میں جن لوگوں کی زبانیں انسانی حقوق اور امن و قانون کی مالا جپتے نہیں تھکتی ہیں، ان کی آنکھیں یہ ظلم دیکھنے سے قاصر ہیں اور جیسے ان کی آنکھیں ہی نہیں ہیں۔
پرویز مانوس کے ناول" سارے جہاں کا درد " سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیر کی مشکل صورت حال کے باوجود، سرمئی بادلوں میں چاندی کی بہتات ہے۔ کشمیر کی ادبی دنیا میں اس نشاۃ ثانیہ نے جذباتی طور پر صدمے سے دوچار لوگوں میں امید پیدا کی ہے۔ آخر کار، کشمیر اب ادبی حلقے میں عالمی توجہ حاصل کر رہا ہے۔