پارسا بی بی کا بگھار

پارسا بی بی کا بگھار

Mar 24, 2018

ذکیہ مشہدی کا مکمل ناولٹ

مصنف

ذکیہ مشہدی

شمارہ

شمارہ - ١

شمارہ۔۱

پارسا بی بی کا بگھار

(مکمل ناولٹ  )

_____________

ذکیہ مشہدی

تو جب وہ بی بی دال بگھار

تی تو زیرے، لہسن اور اصلی گھی کی سوندھی خوشبو اڑ کر سات آسمانوں تک پہنچتی اور فرشتے کہتے : لو آج پھر پارسا بی بی کے گھرارہر کی سنہری سنہری دال پکی ہے۔ پارسا بی بی بیٹی تو تھی بادشاہ کی، لیکن بیاہ کے آگئی تھی غریب منشی کے گھر ۔

دادی تو یہ کہانی صدیوں سے سناتی آرہی تھیں، لیکن کبھی کسی بہو نے ان سے یوں منھ لگ کر سوال نہیں کئے تھے۔ رہی بات قمر کی تو وہ بہو نہیں، پوتی تھی اور طرہ یہ کہ اسکول پڑھنے جاتی تھی۔ اوپر سے ککڑی کی بیل کی طرح دھڑادھڑ بڑھ رہی تھی۔ اس نے پٹ سے سوال کیا:

بھلا بادشاہ زادی بیاہ کے غریب منشی کے گھر آئی کیسے؟ دادی اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں۔

بتائیے نا دادی.. ایسا ہوتا ہے کہیں؟ اب بادشاہ زادی بیاہ کے بادشاہ کے گھر جائے نہ جائے، نواب کے گھر تو جائے ورنہ سپہ سالار ، وزیر، کچھ تو ہو۔

کہانی سنے گی یا بال کی کھال نکالے گی؟ کٹھ حجت کہیں کی - اور پڑھاﺅ

اسکول بھیج کے اور وہ موئی کرنٹان استانیاں...  دادی بگڑگئیں۔

ماتھے سے سرکتا آنچل پھر سے اچھی طرح جما کے اماں نے بھی تنبیہ کی: کتنی بار سمجھایا، بڑوں سے حجت نہیں کرتے ہیں۔

اور اگر بڑے ایسی باتیں کریں جو سمجھ میں نہ آئیں تو؟

قمر نے نصیحت یکسر نظر انداز کردی۔ اس کی محبوب ٹیچر مسزنارٹن نے، جنہیں دادی”ناٹنگ“ بلکہ ”نوٹنکی“ کہا کرتی تھیں، سمجھایا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینا چاہئے، گفتگو سے ذہن کے دروازے کھلتے ہیں۔

اچھا چل سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو سمجھ ہی لے، کیونکہ اس میں نصیحت بھی ہے۔ بادشاہ زادی کوتوال کے بیٹے سے.... دادی کی زبان ذرا رکی ، ذرا لڑکھڑائی لیکن پھر سنبھالا لے لیا۔

بادشاہ زادی کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا کر کے بیٹھی تھی، اس لئے سزا دینے کے لئے بادشاہ نے اسے، جو پہلا لڑکا نظر آیا، اس سے بیاہ دیا۔ اب وہ نکلا منشی کا بیٹا اور منشی کی مجال جو بادشاہ کے حکم سے سرتابی کرے۔

دادی، منشی کے بیٹے سے کوتوال کا بیٹا تو اچھا رہتا نا-

اوئی بی بی.. یہ لڑکیاں اپنا بر کب سے خود چننے لگیں؟ ایسی بیٹیوں کو تو گلا دبا کے مار دینا چاہئے۔ اللہ آمین کی بیٹی رہی ہوگی، سوبادشاہ نرم پڑ گیا۔ زندہ رہنے دیا ایسی بیٹی کو۔

اچھا تو دادی، اگر کیا کہتے ہیں کہ اس نے اپنا بر خود چننے کا گناہ کیا تھا تو وہ پارسا بی بی کیسے کہلائی؟

پارسا بی بی اس لئے کہلائی کہ اس نے سر جھکا کر باپ کی مرضی کو قبول کرلیا، پھر شوہر کے علاوہ کسی کو آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔ جس کے چاروں طرف لونڈی غلام ہاتھ باندھے گھومتے تھے وہ جھاڑو بہارو کرتی، گائے کی سانی پانی کرتی، کھانا پکاتی اور جب دال بگھارتی تو....

کہانی کے اس موڑ پر دادی نے ڈرامائی انداز میں گھوم کر فاطمہ بی بی یعنی قمر کی اماں یعنی اپنی بہو کی طرف دیکھا اور آواز قدرے تیز کردی

اور جب وہ دال بگھارتی تو ایک بڑے پیالے میں شوہر، سسر اور بیٹے کے لئے دال نکال کر بگھار کر پورا کرچھل اس پیالے میں انڈیل دیتی اور اپنے لئے پتیلی کے پیندے میں چھوڑی ہوئی تھوڑی سی

دال میں خالی کرچھل ڈبو دیتی۔ گرم کرچھل چھن سے کرتا اور دراصل یہی چھناکا اس کے گھر کے روشندان سے ہوکر آسمانوں تک پہنچتا اور فرشتے کہتے کہ لو، آج پھر پارسا بی بی نے ارہر کی سنہری سنہری دال پکائی ہے۔

اچھا تو دادی.. قمر نے پھر لقمہ دیا، اگر وہ لوگ اتنے غریب تھے تو خالص گھی میں دال کیسے بگھاری جاتی تھی؟

دادی نے ناک بھوں چڑھائی۔ یہ مٹ گیا ڈالڈا تو ابھی حال میں نکلا ہے۔ پہلے معمولی گھروں میں بھی دال گھی سے ہی بگھاری جاتی تھی۔ گھی کم ہونے کی وجہ سے ہی تو پہلے مردوں کے پیالے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ پہلا حق تو ان کا ہی ہوانا

ان کے گھر کبھی گوشت پکتا تھا دادی؟ قمر کو گوشت بہت پسند تھا اس لئے اس نے بڑے تاسف سے پوچھا۔

ہاں، ہفتے کے ہفتے پکتا تھا۔

 دادی نے یوں کہا جیسے وہ پارسا بی بی، بادشاہ زادی، ان کی بھانجی بھتیجی کچھ تھی اور وہ اس کی گرہستی میں رہ آئی تھیں۔

 پارسا بی بی، گوشت پکا کر پورا سالن بڑے چینی کے پیالے میں انڈیل کر گھر کے مردوں کے سامنے رکھ دیتی اور خود روٹی سے پتیلی پونچھ لیتی۔ کبھی آلو یا اروی گوشت میں ڈالتی تو ہاں اس کا ایک آدھ ٹکڑا اپنے لئے روک لیا کرتی۔

 ہا، دکھیا

 قمر نے ناک پر انگلی رکھ کر بالکل دادی کے انداز میں کہا۔

ارے دکھیا کیوں؟ کھڑی جنت میں گئی۔ جب مری تو سارا گھر خوشبو سے مہک رہا تھا۔

آپ نے خوشبو سونگھی تھی، دادی؟

اماں اس درمیان اٹھ کر، کہ وہ یہ کہانی دسیوں بار سن چکی تھیں، باورچی خانے میں مردوں کے پیالے میں پورا بگھارا انڈیلنے جاچکی تھیں۔ ان کے ہاتھ سے کرچھل بہک گیا۔ خیریت تھی کہ خالی ہوچکا تھا۔ یہ قمر ضرور کسی دن مار کھائے گی ۔ ان کا آنچل پھر سرکنے لگا۔ کرچھل اور آنچل دونوں سنبھال کر وہ تاسف کے ساتھ قمر کے مستقبل پر غور کرنے لگیں جو خاصا تاریک نظر آرہا تھا۔ اس قدر بک، بک، اتنی حجت۔ باسی کھانا اکثر اماں ہی سوارت لگاتی تھیں۔ گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو بچا کر مردوں کے لئے رکھ دیتیں کہ دوسرے وقت بھی کھا لیںگے۔ خود کبھی پہلے کے بچے کھچے کے لئے برتن ٹٹولتیں۔ نہیں تو اچار ہمیشہ ہی رہتا تھا۔ اکثر انہیں باسی کھاتے دیکھ کر قمر ہاتھ سے رکابی چھین لیتی اور تازہ کھانا ان کی پلیٹ میں ڈالتی۔

   کھانا پھینکنا کبھی نہیں چاہیے بیٹا، گناہ ہوتا ہے۔

وہ کہتیں

تو سب مل کے کھائیں۔ ابا کو اور بھیا کو اور دادی کو، سب کو دیا کرو تھوڑا تھوڑا۔

اماں مسکراتیں۔ دادی اپنے وقت میں بہت باسی کھا چکی ہوں گی۔ اب وہ گھر کی بزرگ ہیں۔

جھوٹن کھانا رہ گیا ہے، وہ بھی تم کھا لیا کرو۔

 ایک دن قمر نے جلبلا کر کہا تھا۔ اس دن ابا نے اپنے کچھ دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ باہر سے برتن آئے تو کچھ پلیٹوں میں بہت کھانا بچا ہوا تھا۔ اماں نے اسے سمیٹ کر اکٹھا کیا اور بھیا سے کہا کہ باہر ڈال دے، کتا کھا لے گا۔

کوڑے میں مت ملانا، صاف جگہ پہ رکھنا۔

انہوں نے بیٹے کو ہدایت دی۔

کتا کیوں کھائے گا؟ تم کھالو۔ مرغ کی دو دو بوٹیاں ہیں، اچھا خاصا پلاﺅ ہے۔ یہ ابا کے پیٹ بھرے دوست نیاز خاں، گھرمیں حرام کا بہت آتا ہے، اس لئے برباد کرتے جی نہیں دکھتا۔

اماں نے سر پہ ہاتھ مار لیا: ارے کم بخت لڑکی- باہر آواز جائے گی۔ ذرا دھیرے بول، جو منھ میں آتا ہے، بک جاتی ہے۔

اماں کو یہ خدشہ ہر وقت لگا رہتا تھا کہ آواز باہر جائے گی۔ ایک دن دادی نے ابا سے جانے کیا لگائی بجھائی کی کہ وہ خوب چلائے۔ اماں کو یہ رنج کم تھا کہ ابا بغیر معاملے کی تحقیق کیے ان پر چلائے تھا، یہ فکر زیادہ لاحق ہو گئی تھی کہ کہیں آواز باہر نہ گئی ہو اور پاس پڑوس والوں یا کسی راہ چلتے کو پتا نہ چل گیا ہو کہ اس گھر میں کوئی چپقلش ہوئی ہے، لیکن یہ قمر سن کے ہی نہیں دیتی تھی۔ پرائی امانت، کہاں جائے گی تتیّا مرچ؟

ہاں تو دادی، تم گئی تھیں جب پارسا بی بی مری تھی؟..دادی بڑے زور سے بھڑکیں-:

ہر بات خود دیکھی جاتی ہے کیا؟ ارے خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے پہچانا ہے! یہ کہانی ہمیں ہماری جنت مکانی والدہ نے سنائی تھی۔ ہو سکتا ہے کسی نے پارسا بی بی کو دیکھا بھی ہو۔

نہ دیکھا ہو تو ہماری اماں کو دیکھ لے۔ یہ کون سا پارسا بی بی سے کم ہیں۔ قمر کا انداز چڑانے والا تھا۔

تیری اماں.. انہوں نے گھور کر پوتی کو دیکھا، پھر ایک خشمگیں نظر سر جھکائے باورچی خانے میں کام کرتی بہو پر ڈالی۔ (باورچی خانہ آنگن پار کر کے برآمدے کی سیدھ میں تھا جہاں دادی کا تخت پڑا رہتا تھا۔ قمر اسے ’راج سنگھاسن‘ کہتی تھی۔ وہاں سے کوئی آیا گیا، بہو، نوکر، سب دادی کی نظر میں رہتے تھے۔)

تیری ماں ذرا تجھ پارسا بی بی کو تو سنبھال لے۔ چل، ادھرآ۔ یہ مٹ گئے عیسائیوں کی سی وضع بنا رکھی ہے-

 انہوں نے قمر کی دو چوٹیوں کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔ یہ تیری عالم فاضل ممانی آکر تجھے سکھا گئی ہے۔

اماں سے ملنے آئی ممانی قمر کے گھنے بال سلجھانے میں مدد کر رہی تھیں تو قمر نے ٹھنک کر کہا تھا کہ اسکول میں زیادہ تر لڑکیاں دو چوٹیاں بنا کر آتی تھیں۔ بس، مارے لاڈ کے ممانی نے دو چوٹیاں بنا کر سرخ ربن سے پھول بھی بنا دیا۔ تھاپی جیسی ایک چوٹی سے وہ دو چوٹیاں کیسی اچھی تھیں۔ اماں سارے طعنے، سارے کہانیاں شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتی تھیں، بس میکے کے بارے میں بڑی حساس تھیں۔

ہمارے وقت میں لڑکیوں کو مانگ نہیں نکالنے دیتے تھے۔ بغیر مانگ نکالے ایک چوٹی بندھا کرتی تھی، اب وہ تھاپی لگے یا نیولے کی دم۔ (قمر اپنی موٹی چوٹی کو ’نیولے کی دم‘ کہا کرتی تھی) تو بیٹا، تمہیں تو مانگ نکالنے کی اجازت ہے، کیوں دو چوٹیوں کی ضد کر کے دادی سے ڈانٹ سنتی اور ممانی کو برا کہلواتی ہو؟

 اماں کے لہجے میں تاسف تھا۔

دو چوٹیاں باندھنے سے کسی کے مذہب کا کیا لینا دینا؟ مجھے بڑا غصہ آتا ہے جب دادی کہتی ہیں کہ عیسائیوں کی سی وضع بنا رکھی ہے۔“(دادی کے ’مٹ گئے‘ عیسائی اس وقت بھی ساری دنیا پر دندنا رہے تھے، جیسے آج دندنا رہے ہیں اور جس کو چاہتے تھے اسے مٹانے کا مقدور رکھتے تھے، جیسے آج رکھتے ہیں۔ نہ جانے کتنی تہذیبوں کو کتنی حکومتوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا، لیکن قمر کا شعور اس وقت اتنا بالیدہ نہیں ہوا تھا۔ ہاں، یہ سمجھتی تھی کہ اس کی دو چوٹیوں سے عیسائیوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔)

قمر نے امتیازی نمبروں سے بی۔اے پاس کرنے کے بعد بی۔ایڈ میں داخلہ لیا تو اس نے اپنے بال کٹوا دیے۔ وجہ یہ تھی کہ پریکٹس ٹیچنگ کے لئے جوڑا بنا کر جانا لازمی تھا۔ جن لڑکیوں کے بال تراشے ہوئے تھے ان پر یہ ضابطہ لاگو نہیں تھا۔ کم عمر قمر کے لئے جوڑا بنانا، وہ بھی گھنے روکھے بالوں سے ٹیڑھی کھیر تھا۔ ویسے تو یہ بی۔ایڈ نہایت ٹیڑھی کھیر تھا۔ بچے بڑے شاطر تھے۔ انہیں معلوم تھا یہ لڑکیاں ان کی اصلی ٹیچر نہیں ہیں، یہ تو موسمی پرندے ہیں جو چند ماہ کے لئے ایک مخصوص مدت میں آتے اور پھر اڑ جاتے ہیں، اس لئے قطعی بات نہ سنتے۔ اگر سپروائزر سے شکایت کرو تو وہ جواب دیتے کہ بچوں کو ڈسپلن کرنا آپ کی تربیت کا حصہ ہے۔ آپ سمجھئے، آپ کیا کریں گی۔ ایسے میں بال اور لباس درست رہنا بہت ضروری تھا۔ چھٹیوں میں قمر گھر آئی تو اماں نے سر پیٹ لیا۔ خیریت تھی کہ اس وقت دادی جنت مکانی خلد آشیانی ہو چکی تھیں، اس لئے سر اماں نے اکیلے ہی پیٹا۔ بی۔اے کے بعد، بلکہ اور پہلے سے، دادی نے تو قمر کی شادی کی ضد باندھ رکھی تھی۔ اس وقت انہیں صرف ایک منطق نے چپ کرایا تھا۔ قمر پڑھ لکھ کر پیروں پر کھڑی ہو جائے گی تو بغیر جہیز کے آسانی سے ’اچھا‘ لڑکا مل جائے گا، پھر استانی بننا تو عزت کی بات ہے۔ وہ کرنٹان مسز نارٹنگ کی بٹیا سلومی کی طرح آفس میں ٹپ ٹپ ٹائپ کرنے تھوڑی ہی جارہی ہے۔ دادی قمر کے استانی بننے سے پہلے چل بسیں، لیکن کچھ معاملوں میں اماں کو ن سی کم تھیں، وراثت سنبھالے بیٹھی ہوئی تھیں۔ جبھی تو قمر کے بال دیکھ کر اس قدر ہول گئیں کہ انہوں نے پہلی بار شوہر کو کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی ہمت کی جو ان کے لئے مجازی

خدا کا درجہ رکھتے تھے اور جن پر یہ الزام تراشی کفر تھی۔ ویسے بھی اماں نیک اور فطرتاً ڈرپوک انسان تھیں، اپنے وقت کی زیادہ تر شریف بیبیوں کی طرح، جن کا ہیاﺅ عموماً اسی وقت کھلتا جب وہ ادھیڑ عمر ہوکر ساس کے مرتبے پر فائز ہوجاتیں اور ایک انہی کی طرح کی کمزور لڑکی بہو بن کر گھرمیں آجاتی، لیکن اس دن انہوں نے بڑی ہمت کی، شوہر کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئیں:

قمر کو آپ نے بگاڑا ہے۔ بی۔اے کر لیا تھا، بہت کافی تھا۔ سلمان چچا اتنا اچھا رشتہ لائے تھے، آپ نے میرے اصرار کے باوجود انکار کر دیا اور لڑکی کو بھیج دیا بی۔ایڈ کرنے، پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کیا کرتی گھوم رہی ہے۔

کیا کرتی گھوم رہی ہے؟ ابا نے چونک کر آخری جملہ پکڑا۔ باقی باتیں صا ف ٹال گئے۔

بال کٹوا لیے ہیں اس نے۔ اماں کا لہجہ ایسا مضطرب تھا جیسے کانے دجال کے نکل آنے کی اطلاع دے رہی ہوں۔

اوہ.. ابا کی رکی ہوئی سانس سینے سے باہر آگئی۔ وہ بڑی زور سے کھٹکے تھے۔ انہیں لگا تھا بیوی خبر دیں گی کہ بیٹی کسی لونڈے کے ساتھ گھومتی دیکھی گئی ہے، اس لئے ’میموں‘ جیسے بال کٹوالینے کی خبر خاصی دلدوز ہونے کے باوجود اپنا اثر کھو بیٹھی تھی۔ زور کا جھٹکا دھیرے سے لگا۔

اچھا.. لیکن میں نے تو نہیں دیکھا۔“ ابا کو ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید قمر کی اماں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا وہ کچھ مبالغے سے کام لے رہی ہیں، لیکن ان کی آواز کمزور ضرور تھی۔

آپ کے سامنے آپ کی چالاک بیٹی سر ڈھکے رہتی ہے۔ سر کھلا رکھتی ہے تو پیچھے کلپ لگا کر بال سمیٹ لیتی ہے۔

ابا کے اجلاس میں قمر کی طلبی ہوئی تو اس نے بغیر کسی گھبراہٹ کے وضاحت پیش کی۔ ابا کو یہ اطمینان ضرور ہوا کہ قمر نے بال محض فیشن ایبل لگنے اور ’میموں کی وضع‘ اختیار کرنے کے لئے نہیں کٹوائے ہیں۔

بی۔ایڈ کا کورس ختم ہونے میں بس دو مہینے باقی ہیں۔ امتحان ہوجائیں تو پھر بڑھا لینا۔

 ابا نے تحکمانہ ، لیکن نرم لہجے میں اتنا ہی کہا۔

جی ابا، ضرور قمر نے منمنا کر جواب دیا، لیکن ان کے باہر چلے جانے کے بعد اماں پر الٹ پڑی:

چغلی لگا کے کیا ملا تمہیں؟لڈو؟ خوب تعلیم ہے بھائی تمہاری۔ خاندان میں اور لڑکیاں نہیں ہیں کیا؟ اور کسی نے نہ کٹوالیا چونڈا-

ابا نے قمر کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کی تھی ، اس لئے اماں آزردہ خاطر تھیں اور منھ ہی منھ میں بڑبڑاتی جا رہی تھیں....اسکولوں کالجوں میں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ بڑوں سے بدتمیزی کرو؟ اب یہی تم اپنے شاگردوں کو سکھانا۔ رہ گئے تمہارے ابا، تو بسنت کی خبر نہیں۔ کون کرے گا پر کٹی سے بیاہ؟

ایک تو ’چونڈا کٹوانے‘ جیسا غیر فصیح، اہانت انگیز جملہ، اوپرسے جلے پر نمک، ’پر کٹی‘ پھرخاندان کی دوسری غبی، کند ذہن، گھر بیٹھ کر پرائیوٹ اردو فارسی کے امتحان پاس کرنے والی لڑکیوں سے موازنہ --- قمر کی ایڑی میں لگی اور چوٹی میں بجھی۔ جلبلا کر بولی:

اور اسے بھول گئیں، وہ تمہارے چچا زاد بھائی کی بیٹی ثریا۔ اس نے بال کٹوائے ہی نہیں بلکہ لکھنو

جاکر ان میں گھونگھرو بھی ڈلوائے۔ یہ نہ کہنا کہ تمہیں معلوم نہیں۔ ابھی تو ملی تھی فرزانہ خالہ کے یہاں میلاد میں۔

ثریا کی شادی ہو گئی ہے۔ اب وہ جانے اور اس کا شوہر اور سسرال والے اور ہاں، میرے چچا زاد بھائی تمہارے ماموں ہوئے۔ خبردار جو یوں ذکر کیا ہے کہ تمہارے چچا زاد بھائی۔

ہاں ہاں، چلو نا- بڑے آئے ماموں۔ ایک نمبر کے تگڑم باز، معمولی صورت کی بارہویں پاس بیٹی کے لئے سرکاری نوکری والا لڑکا لے آئے۔ تم نے بھی کردی ہوتی ہماری شادی، پھر بلا سے ہم سرہی مونڈ کر رکھ دیتے۔ شادی نہ ہوئی، ہر آزادی کا پروانہ ہوگئی۔

 قمر پیر پٹختی وہاں سے چل دی۔

اماں، ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم، بت بنی بیٹھی دیکھتی رہ گئیں۔ ایسی خاموش ہوئیں کہ سارا دن گزر گیا اور وہ ہوں ہاں کے علاوہ کچھ

بوا نے اپنا تام چینی کا تاملوٹ اسی وقت چائے سے بھرا تھا۔ اس میں سے کچھ چائے ایک چھوٹی پیالی میں ڈال کر پیالی پرچ میں رکھ کر دریبر کی بی بی کو بڑھا دی۔ انہوں نے چائے پرچ میں نکال کر سڑپ سڑپ کر کے پی لی۔ رمضانی بوا نے دہکتے انگارے کرچھل میں ڈالے اور کرچھل انہیں تھما دیا۔ وہ کرچھل پر پھونکیں مارتی، اٹنگی ساری کا پلو سر پر سنبھالتی، سٹر پٹر دروازے کی طرف بڑھیں، لیکن پھر یکایک پلٹیں۔ چلتے ہیں باجی ا نہوں نے اماں کو مخاطب کیا۔

 اب جلدی بیٹا کے ہاتھ پیلے کرو تو ہم چوڑی کا ٹوکرا لے کے آئیں۔ اب کسی کے یہاں نہیں جاتے، مگر آپ کی بات دوسری ہے۔ کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔ (انہوں نے ’کب سے‘ پر خاصا زور دیا تھا) کب ختم ہوگی بٹیا کی پڑھائی؟ اچھا سلا ما لیکم

وہ سلا ما لیکم تک پہنچتے پہنچتے دروازے سے باہر ہو چکی تھیں اس لئے سلام بھی ذرا زور سے ادا کیا، جیسے پتھر کھینچ مارا ہو۔

بڑی آئیں خیر خواہ.. رمضانی بوا نے چائے تو پلا دی تھی، لیکن دریبر کی بی بی کی دریدہ دہنی انہیں پسند نہیں آئی تھی۔

دیکھئے نا باجی، جتا رہی تھیں، بٹیا اتنا پڑھ لکھ گئیں اور اب تک شادی بیاہ کی سن گن نہیں ہے۔ ’کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔‘ ارے آسرا تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں، مگر ہم کچھ بولتے ہیں کیا؟ وہ بھی ایسے ..،

 اماں کے جلے پر نمک پڑ گیا۔ اندر ہی اندر تلملا گئیں۔ محلے میں لوگ دو دو تین تین بیٹیاں بیاہ چکے تھے، یہاں ایک کا نصیب کھلنے میں اتنی دیر.... اور پڑھاﺅ جتنا پڑھیں گی اتنا ہی لڑکا ملنا مشکل ہوتا جائے گا۔

پگلی مہترانی آنگن بہار رہی تھی۔ وہ دریبر کی بی بی کے نکلنے کے بعد داخل ہوئی تھی۔ بات بدلنے کو اماں نے اسے بلا وجہ پکارا، بہو ، دیکھو ذرا ٹھیک سے جھاڑو لگانا۔ پت جھڑ آ گیا ہے، چاروں طرف پتے اڑتے پھر رہے ہیں۔ قمر... انہوں نے قمر کو بھی آواز دی:

دیکھو، ذرا نالی دھلوادینا۔

خاصے بڑے آنگن میں امرود کے دو نوجوان درخت تھے اور نیم کا پرانا جغادری پیڑ۔ اس کے علاوہ لسوڑہ اور انجیر بھی لگے ہوئے تھے۔ لسوڑے کا کوئی مصرف نہیں تھا، سوائے اس کے کہ محلے والے اچار کے لئے مانگ لے جائیں، لیکن اماں اسے کٹوانے کو تیار نہیں تھیں۔ انجیر گھر میں کوئی نہیں کھاتا تھا، سوائے اماں کے۔ نیم کی ہوا بیماریاں دور کرتی ہے اور انجیر صحت کے لئے مفید ہے، خشک لسوڑے کی چائے آنتوں کے لئے فائدہ مند تو تھی ہی، ساتھ ہی خشک کھانسی بھی دور کرتی تھی۔ اس معاملے میں اماں کسی کی سننے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ حجت نہیں کرتی تھیں، بس خاموش ہوجاتیں۔ ان کی ناراضگی، نا رضا مندی اور دل گرفتگی سب کے اظہار کا ایک ہی ذریعہ تھا --- ایک پتھرائی ہو ئی خاموشی۔

قمر کی کل کی بات کے بعد بھی وہ خاموش ہو گئی تھیں۔ ابھی جو انہوں نے اسے مخاطب کیا تو اسے بڑی راحت کا احساس ہوا۔ اسے اماں کی خاموشی سے بڑی کوفت ہوتی تھی۔ بولتی ہیں تو گھر میں ماحول نارمل اور خوشگوار لگتا ہے۔ ایسا کیاکہہ دیا تھا قمر نے کہ انہیں چپ لگ گئی تھی؟ اس نے بالٹی میں پانی بھرا اور آنگن کے کنارے کنارے لمبائی میں گزرتی نالی میں ڈال کر نالی پگلی سے دھلوائی، پھر اماں کے پاس آکر ان کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے:

اماں، ہم کل الٰہ آباد واپس جارہے ہیں۔ تم کو ناراض چھوڑ کر کیسے جائیں؟ تم ہم سے بات نہیں کر رہیں۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

بٹیا، ہم سے جو ہو رہا ہے تمہارے بیاہ کے لئے کر رہے ہیں۔ اپنی طرف سے تو اچھا ہی چاہتے ہیں، لیکن اللہ کی مرضی۔ تمہارے لائق رشتہ نہیں مل رہا ہے۔“ ان کی آواز مدھم تھی۔

قمر ایک دم سے آنسو پونچھ کر بدک کر کھڑی ہو گئی۔ وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔ کیا اماں سوچ رہی ہیں کہ اسے اپنی شادی کی جلدی پڑی ہے؟ وہ لاکھ منھ پھٹ سہی، ایسا کیسے کہہ سکتی تھی، پھر یہ کہ وہ ایسا سوچتی بھی نہیں تھی۔ نہ اس کی ایسی عمر آئی تھی، نہ ایسی بے شرمی طاری ہوئی تھی، یہ اور بات تھی کہ جتنی بے شرمی وہ برت لیا کرتی تھی وہ اماں کے حساب سے بہت زیادہ تھی، اس لئے اکثر معنی مطلب پہنا لیتی تھیں۔ قمر تلملا کے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک پگلی آن کے سر پر کھڑی ہو گئی۔ کام ختم کر کے اس نے آنگن میں لگے نلکے پر رگڑ رگڑ کر ہاتھ کہنیوں تک دھو لئے تھے۔ دو پٹے میں ہاتھ پونچھتی ہوئی بولی کہ آج وہ بہو سے لڑ کر بغیر کھائے پیے

نکل کھڑی ہوئی تھی، اس لئے اماں اسے فوری طور پر کچھ کھانے کو دے دیں، ورنہ اگلی ججمانی میں جاتے جاتے وہ بے ہوش ہو کر گر جائے گی۔ دراصل پگلی کاناشتہ کھانا کچھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ بس مہینے میں دو، کہیں چار روپے تنخواہ کے ملتے تھے۔ کبھی کچھ بچا کھچا ہو ا یا از خود مانگ بیٹھی تو مل جایا کرتا تھا۔ جاڑوں میں کسی کسی گھر میں الگ رکھے ٹوٹے ہوئے مگ یا تام چینی کے چینی جھڑے پیالے میں کبھی کبھار چائے مل جاتی تھی۔

ہا، دکھیا

 اماں آنگن پار کر کے باورچی خانے میں چلی گئیں۔

پگلی جاکے نلکے کے پاس بیٹھ گئی اور اطمینان سے آم کے اچار کے ساتھ رات کی باسی روٹیاں ہبڑ ہبڑ کھاتے ہوئے، پھولتی سانسوں کے درمیان اچار جیسی چٹ پٹی خبر بھی سنائی۔

حاکم کی سب سے چھٹکی بٹیا الٰہ آباد ماں پڑھت رہی نا۔ سردارن کا بٹوا بھی وہیں چلا گوا ہے۔

تو کیا ہوا۔ سب لڑکے لڑکیاں پڑھنے کو بڑے شہروں میں نکل رہے ہیں۔ ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ بے پڑھے لڑکیوں کا بھی گزر نہیں۔

اماں ایسی باتوں میں دلچسپی کم لےتی تھیں جن کی صداقت مشکوک ہو اور جن سے خواہ مخواہ کسی پر حرف آئے۔ ”اپنے کام سے کام رکھا کر، پگلیا۔

اپنے کام سے کام رکھنے کو پگلی نے نظر انداز کر دیا۔

کا ہوا؟ پگلی کے گلے میں چاندی کی خلال پڑی رہتی تھی اور ناک میں چاندی کا بڑا سا پھول۔ اس نے خلال سے دانت کریدے اور ناک کا پھول گھمایا:

ارے ہوئیں نام لکھایا ہے جہاں حاکم کی بٹیا پڑھت ہے۔ کچھ سمجھا کرو دیدی-

اما ں گھبرا گئیں۔ پگلی جنہیں حاکم کہتی تھی وہ مسلمان تھے اور لڑکا سردار۔ ملک کے بٹوارے کو ابھی پندرہ سال بھی نہیں ہوئے تھے۔ جنہوں نے براہ راست کچھ نہیں جھیلا تھا انہیں بھی اس کا بہت کچھ علم تھا اور پھر ایسا کون سا گھر تھا جس کے ٹکڑے نہیںہوئے تھے اور بھی بہت کچھ دکھائی دیتا رہتا تھا۔ مثلاً پرتاپ گڑھ میں ریلوے ڈپو کے پاس کنکریٹ کے بہت سے چھوٹے چھوٹے چوکور بکسے جیسے لگنے والے کوارٹروں کی ایک پوری کالونی اُگ آئی تھی۔ اس میں جو لوگ رہنے آئے وہ مقامی لوگوں سے الگ تھے۔ ان کا رہن سہن، ان کی زبان، ان کی عورتیں، ان کے گھر کی تہذیب، سب مختلف تھے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان کے گھر کے مرد اردو اخبار خریدتے تھے۔ لوگ انہیں ”شرنارتھی“ کہتے تھے، لیکن دس سال ہوتے ہوتے وہ عام آبادی میں گھل مل گئے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے انہیں شرنارتھی کہنا بھی بند کر دیا، پنجابی کہلاتے یاسردار۔ بڑے محنتی لوگ تھے۔ زیادہ تر نے چھوٹے موٹے کاروبار کیے۔ ایک صاحب تھر مس میں رکھ کر گھر کی بنی ہوئی قلفی لوگوں کے یہاں پہنچانے لگے تھے۔ کوئی پانچ سات برس بعد انہوں نے برف بنانے کی فیکٹری کھول لی۔ فرج لوگ ابھی بالکل نہیں جانتے تھے۔ گرمی میں برف کی بڑی بڑی سلیں برادے کی موٹی تہہ سے ڈھک دی جاتی تھیں، پھر اوپر سے موٹا ٹاٹ ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ سلیں جگہ جگہ دکانوں پر رکھی ہوتیں۔ وہاں سے گاہک تلوا کر برف لے جاتے۔ کچھ لوگ اپنے تھرمس لے کر آتے تھے۔ ان میں چھوٹے ٹکڑے کراکے بھر کے پہنچاتے۔ یہ برف قریب کے بڑے شہروں سے آتا تھا اور لانے میں کافی ضائع ہوتاتھا۔ شہر میں کارخانہ کھلا تو لوگوں کو بڑی آسانی ہوگئی۔ وہاں آئس کریم بھی جمائی جانے لگی۔ پہلے سردار جی گھر پر گھما گھما کر چلائی جانے والی چھوٹی مشینوں میں قلفی جماتے تھے۔ جن لوگوں نے ذرا ذرا سے کھوکھوں میں کپڑے اور بساط خانے کی دکانیں کھولی تھیں، ان کی اب بڑی بڑی شیشوں سے مزین دکانیں ہو گئی تھیں۔ لڑکے بالے پڑھنے جاتے تھے۔ عورتیں گھر میں ایک نوکر نہ رکھتیں؛ سارا کام خود کرتی تھیں۔ مقامی لوگوں کے یہاں تو معمولی متوسط طبقے میں بھی کل وقتی نہیں تو جز وقتی نوکرانیاں ضرور کام کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے یہاں بوائیں اور ہندو گھروں میں کہاریاں۔

 بڑے جیالے لوگ ہیں ، ایک بار ابا نے کہا تھا -

 لٹ پٹ کے آئے ، لیکن دیکھو، شہر پہ چھا گئے۔ کیا مجال جو کبھی کسی نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا ہو۔ ان کے یہاں کا کوئی

شخص بھیک مانگتا نظر نہیں آیا۔ کاروبار کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ مقامی زبان و مقامی لب و لہجے میں بولنے لگے ہیں۔ مقامی آبادی میں پوری طرح گھل مل گئے ۔

انہی جیالے، گھل مل جانے والے لوگوں کے یہاں کا ایک گورا، اونچا پورا، نہایت وجیہ لڑکا ایس۔ڈی۔ایم صاحب کے یہاں آنے جانے لگا تھا۔ افسروں کے یہاں حواری مواریوں کی جو بھیڑ رہتی ہے اسی میں وہ بھی کھپا رہتا۔ آخری پوسٹنگ میں ڈپٹی صاحب کو وطن مل گیا تھا، اس لئے ریٹائر ہو کر بھی وہ یہیں رہ پڑے تھے۔ ریٹائر ہوئے تو کچھ ہی عرصے میں خوشامد خوروں کی بھیڑ چھٹ گئی، لیکن وہ لڑکا بنا رہا۔ جب دیکھو تب موجود۔ آنٹی آنٹی کر کے ڈپٹیائن کے پیچھے آگے لگا رہتا۔ گھر کا سودا سلف تک لا دیتا۔

اماں نے گھبرا کر قمر کو دیکھا اور پھر پگلی کی طرف۔

اچھا چپ رہا کر، بہت بکتی ہے۔

قمر کی آنکھیں کاغذوں پر تھیں۔ آنسو پونچھ کر وہ برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر اپنے نوٹس درست کرنے لگی تھی۔ چہرے سے ایسا نہیں محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے پگلی کی کوئی بات سنی ہے۔ اماں نے اطمینان کی سانس لی اور رمضانی بوا کو ترکاری لانے کے لئے پیسے نکال کر دینے لگیں، گویا پگلی کو بات بالکل ختم ہو جانے کا سگنل دے دیا۔

قمر نے نوٹس پر سے نظریں اوپر اٹھائیں اور جھانجھر بجاتی، پیٹھ پھیر کر باہر نکلتی پگلی کو گھور کر دیکھا۔ نظریں اگر برما ہوتیں تو پیٹھ میں چھید ہو گئے ہوتے۔

ان لوگوں نے اماں کا دماغ اور خراب کر رکھا ہے۔ ہول گئی ہوں گی۔ الٰہ آباد میں تو میں بھی پڑھتی ہوں۔ کہیں میرے پیچھے تو آکے کسی لونڈے نے وہاں نام نہیں لکھوالیا، میرے ہی ڈپارٹمنٹ میں بی۔ایڈ کرنے کے لئے۔

ایسی باتیں لڑکیوں بالیوں کے کان میں نہیں پڑنی چاہئیں۔

 رمضانی بوا نے باورچی خانے کی کھونٹی سے ٹنگا اور دھواں کھاکے ملگجا ہوا ترکاری لانے کا تھیلا اتارتے ہوئے کہا۔

اب تم چپ رہو بوا ، اماں پھسپھسائیں۔

جو نہ سنا ہو تو اب تم سے سن لے۔ کل وہ چلی آئی تھیں سڑن، امیرن آپا، ایسی ہی کچھ ہی کچھ اول فول سناتی ہوئی۔ اللہ سے توبہ ہے۔ کیا زمانہ آن لگا ہے؟

 انہوں نے غصے میں چولہے کی جلتی آگ میں بلا وجہ پھکنی اٹھاکر پھونک ماری، پھر زور سے بولیں، جیسے قمر کو سنا رہی ہوں کہ یہاں سبزی ترکاری آٹے دال کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔

آدھا سیر مٹر ضرور لے لینا بوا۔ سنا ہے مٹر آگئی ہے بازار میں اور سیر بھر نئے آلو تلوا لینا۔ اللہ مارے پرانے بڑے میٹھے ہو چلے ہیں۔ ترکاری کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔

قمر زیر لب مسکرائی۔ اماں، تم ڈال ڈال تو ہم پات پات۔ ہمیں تو یہ بھی پتا ہے کہ امیرن خالہ کیا پھسپھسا گئی ہیں۔

چھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسٹوڈنٹس لوٹتے تو الٰہ آباد یونیورسٹی کے کئی لڑکے لڑکیاں اکثر بس میں ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے۔ یہ معمول تھا، اتفاق نہیں۔ کئی لڑکیاں گھر سے برقع اوڑھ کر نکلتیں اور بس میں اتار دیتیں۔ گھر والے یہ بات جانتے تھے۔ ’حاکم‘ کی بیٹی آمنہ سے تو قمر کی کئی بار بس میں ہی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ یونیورسٹی میں بھی آمنا سامنا ہو گیا تھا۔ آج بھی وہ بس میں تھی۔ کئی اور لڑکے بھی تھے۔ جگجیت بھی تھا جو بالکل پیچھے آکر بیٹھ گیا تھا۔ آمنہ اور قمر برابر کی سیٹوں پر تھیں۔

 ہمارے تمہارے درمیان الٰہ آباد کے علاوہ ایک اور لنک (Link ) بھی ہے -

 قمر نے مسکرا کر آمنہ سے کہا۔ آمنہ بے حد کم سخن تھی۔ جواب میں اس نے صرف بڑی بڑی اداس آنکھیں اٹھا کر دیکھنے پر اکتفا کیا۔

پگلی مہترانی

 قمر نے آمنہ کی خاموش نگاہوں کے سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ وہ کم سخن لڑکی بھی بے اختیار ہنس پڑی۔ پگلی آمنہ کے یہاں بھی کام کرتی تھی، مگر شناساﺅں کے درمیان اس کا ذکر کبھی یوں نہیں آیا تھا۔

ہنس لو قمر نے پھر کہا:

وہ اماں سے کہہ رہی تھی کہ حاکم کی بٹیا جہاں پڑھتی ہے وہاں سرداروں کے لونڈوں نے بھی نام لکھوایا ہے۔

ایک اضطرابی کیفیت کے تحت آمنہ کا سر پل بھر کو پیچھے گھوما۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر قمر سے خاموش رہنے کی گزارش کی۔ اس کی اچانک آجانے والی ہنسی یوں غائب ہوگئی تھی جیسے سورج کی پہلی کرنوںکے ساتھ گھاس پر پڑی اوس کی بوندیں۔

پگلی کو ابھی یہ پتا نہیں چلا ہے کہ میری شادی تقریباً طے ہوچکی ہے، ورنہ یہ بھی الم نشرح ہوجاتا۔

 کچھ دیر کے بعد آمنہ نے رسان سے کہا، اس کے بعد پورا سفر خاموشی سے گزار دیا۔

فروری کے مہینے میں ریٹائرڈ حاکم کے یہاں سے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کا کارڈ آیا۔ یہ کارڈ دراصل آمنہ نے قمرسے یاد اللہ کی وجہ سے بھجوایا تھا۔ قمر کے امتحان مارچ میں ہونے والے تھے ، اس لئے وہ گھر نہیں آسکی تھی۔ اب ڈپٹی صاحب کے گھر کا بلاوا تھا، اس لئے اماں گئیں۔ نہ جانے کیوں انہوں نے راحت کی سانس لی تھی۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ..کنکھیوں سے انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک اونچا پورا، گورا چٹا، خوبصورت سردار لڑکا سارے انتظامات میں پیش پیش ہے اور گھر کے اندر بھی بلا تکلف آ جارہا ہے۔

'سنتے ہیں، بٹیا کی ڈولی اٹھی تھی تو بہت رویا۔' سارے فسانے میں جس بات کا ذکر نہیں تھا، یقینا پگلی نے اپنی طرف سے جوڑی ہوگی، اماں نے سوچا، لیکن شہر کے کئی گھرانوں، خصوصاً سول لائنز کی آبادی میں یہ بات چرچا کا موضوع بنی کہ آمنہ کی ڈولی اٹھی تو جگجیت سنگھ بہت رویا تھا۔

'عورتوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رہاتھا۔ کون تھا وہ لڑکا؟' ایک خاتون نے رخصتی کے فوراً بعد پوچھا تھا۔

آمنہ کی والدہ نے کہا- ' بہت زمانے سے آتا تھا، بہن کی طرح مانتا تھا مِنّا کو۔'

مقامی ڈاکٹر رام چرن داس کھتری کی دو بیٹیاں بھی الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں۔ ایک تو آمنہ کی کلاس فیلو بھی تھی۔ ڈپٹیائن نے جب یہ بہن کی طرح ماننے والی بات کہی تو دونوں وہیں موجود تھیں۔ لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرائیں۔

سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سامنے بڑا سا لان تھا۔ اس میں پتھر کے اسٹول بنے ہوئے تھے۔ وہاں وہ دونوں اکثر چپ چاپ بیٹھے دکھا ئی دیتے۔ ان کے چہروں پر ایسی معصومیت، ایسی اداسی، ایسی خاموشی بکھری ہوتی تھی کہ کسی نے مذاق نہیں اڑایا، کبھی ایک بھی نازیبا جملہ نہیں کسا۔ بس ایک مرتبہ ایک لڑکی نے، جو خود جگجیت پر فدا تھی، بڑی حسرت سے کہا تھا -

آمنہ، یہ جگجیتا بڑا خیال رکھتا ہے تمہارا

خفیف سی دھار رقابت کی بھی تھی۔ تمہارے لئے گھرکا کھانا لے کے آتا رہتا ہے۔

ہاں،

ماں بھیجتی رہتی ہیں۔

 آمنہ نے ستھری نظریں اٹھا کر سادگی کے ساتھ سادہ سا جواب دیا۔ کس کی ماں، یہ وضاحت اس نے نہیں کی۔ جگجیت ہمیشہ سے آمنہ کے بنگلے پر آتا رہتا تھا۔ الٰہ آباد اور پرتاپ گڑھ میں فاصلہ اتنا کم تھا کہ اکثر وہ سنیچر کی شام کو گھر بھاگ آتا اور پیر کو علی الصباح واپس لوٹ کر کلاسز کر لیتا۔ لوٹتا تو ڈبوں میں بھرواں پراٹھے، کوئی سوکھی سبزی اور آم کا اچار لے کر آتا۔ اس کی ماں بڑے عمدہ پراٹھے بناتی تھی۔

گرم اور زیادہ مزیدار ہوتے ہیں منا -' وہ ہر بار کہتا۔

لیکن میری ماں پراٹھے اتار رہی ہو اور تم پاس بیٹھ کر کھا رہی ہو، یہ سپنا تو سپنا ہی رہ جائے گا۔ اور آمنہ کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہوجاتی۔

یہ اور ایسے بہت سے سپنے دل میںلیے آمنہ، فرسٹ کلاس ایم۔اے سوشیالوجی، ریٹائرڈ پی۔سی۔ایس افسر کی بیٹی، خاموشی سے کسی اور کی ماں کو پراٹھے تل کر کھلانے کے لئے وداع ہوگئی۔

ایسے قصے خال خال سہی، لیکن سننے میں آرہے تھے۔ سنانے والوں کے لہجے میں معنی کی دنیا پنہاں ہوتی۔ کوئی سمجھتا، کوئی ٹال جاتا، لیکن قمر کی اماں بیٹی کے الٰہ آباد جانے کے بعد سے ہر وقت خوفزدہ رہا کرتی تھیں۔ امیرن خالہ بتا رہی تھیں کہ پرلے محلے کے ایک باعزت کایستھ گھرانے کی بیٹی اپنے سگے چچا زاد کے ساتھ بھاگ گئی اور شادی رچا کے واپس لوٹی۔ اب بھلے ہی دکن کے کچھ ہندو سگے ماموں بھانجی کی

شادی کو افضل قرار دیں، لیکن شمالی ہندوستان کا کوئی ہندو کسی بھی ’زاد‘ سے شادی کو قبول نہیں کرتا۔

ہمارے یہاں یہ شادیاں جائز ہیں، اسی لئے ہمارے وقت میں ماموں زاد، خالہ زاد وغیرہ سے بھی زیادہ گھلنے ملنے نہیں دیتے تھے۔ سامنے تو خیر جاتے تھے، تھوڑا بہت ہنس بول بھی لیتے تھے، لیکن ماں، نانی، دادی، خالہ، پھوپھی کی چیل جیسی نظروں تلے۔ اب دیکھو تو لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ پڑھ رہی ہیں۔ قمر کہہ رہی تھی کہ بس میں آرہی تھی تو ساتھ کے دو لڑکے بھی تھے۔ راستے بھر ہنستے بولتے چلے آئے۔ بڑے اطمینان سے کہہ گئی، جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ اس کے باپ کی مت ماری گئی تھی جو پہلے بی۔اے اور پھر بی۔ایڈ کے لئے بھی باہر بھیج دیا۔ پرتاپ گڑھ میں تو مجال نہیں کہ بغیر برقعے کے نکل جائیں ، لیکن ادھر بس میں چڑھیں یا ٹرین میں بیٹھیں اور برقع جھولے میں۔

لاکھ قمر چڑتی ، لیکن اماں اس کے سیاہ رنگ کے بڑے سے اسمارٹ بیگ کو وہ جھولا ہی کہتیں اور بی۔ایڈ  نہ کہہ کراستانیوں والی پڑھائی۔

رزلٹ آنے سے پہلے سے ہی قمر اخباروں پر جھکی، نوکریوں کے اشتہار دیکھتی رہتی تھی۔ دو انگریزی اخبار لگا لئے تھے۔ ابا تو ’سیاست‘ منگایا کرتے تھے۔ ماں بولتی کچھ نہیں تھیں، بس گھبراتی رہتی تھیں۔ ’لوجی، اب یہ نوکری بھی کریں گی۔ اب تک تو یہ تھا کہ لڑکی پڑھ رہی ہے، لڑکی پڑھ رہی ہے۔ یا مولا مشکل کشا-

رزلٹ آیا تو وہ اور شد و مد سے خالی جگہوں کے کالم پر نظریں دوڑانے لگی۔

ابا، ایک دن اس نے خبر سے نظریں اٹھائے بغیر باپ کو مخاطب کیا:  یہ ملازمت بہت معقول معلوم ہو رہی ہے، لیکن درخواست منگائی ہے باکس نمبر کی معرفت۔ اللہ جانے کہاں ہے اسکول، کس شہرمیں ہے۔ درخواست دیں؟

درخواست دینے میں حرج نہیں،  ابا نے جواب دیا۔

جگہ بھی مناسب ہوئی، یعنی آس پاس، تو ٹھیک ، ورنہ چھوڑدینا، مت جانا۔

میں کچھ کہوں تو کانوں تیل ڈال کے بیٹھ جاتے ہیں، نوکری کے لئے جھٹ سے بیٹی کی بات سننے کو تیار۔ لڑکا ڈھونڈنے میں مستعدی دکھائیں تو ہم جانیں-

اماں منھ ہی منھ میں بدبدائیں۔ ابا کے زیادہ منھ لگنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ تو کچھ ایسا قائل کرتے رہے تھے کہ جیسے بی۔ایڈ کرتے ہی لڑکا آسمان سے اب اترا کہ جب اترا۔”سلمان چچا والے رشتے کو منع نہ کیا ہوتا تو بلا سے روٹیاں پکاتی، بیس کہ پچیس کی، آج گود میں ایک دو بچے کھیلتے ہوتے اور اب کون سی روٹیاں پکانے سے فرصت ملے گی-عورت کا جنم --- ماشٹری بھی کریں گی اور روٹی بھی ٹھوکیں گی۔ ہم سے زیادہ سخت زندگی گزرے گی۔ انہوں نے سروتا چلایا اور کھٹاک سے ڈلی کے دو ٹکڑے کیے۔

اماں کل جبھی تھیں کیا؟

قمر نے اپنے گالوں پر تھپڑ لگائے۔ 'میں کتنی بری بیٹی ہوں-میں یہ بھی تو سوچ سکتی تھی کہ اماں کو الہام ہوا تھا، یا ان کی زبان پر سرسوتی آن بیٹھی تھی۔ اس نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور پڑوس کے مکان کی کال بیل دبائی۔ دونوں بچیاں اچھلتی ہوئی باہر آئیں۔ پیچھے پیچھے نیک دل، ادھیڑ عمر، تنہا رہنے والی، مہربان پڑوسن جنہیں گویا اللہ میاں نے تعینات کر دیا تھا کہ قمر کی نوکری اور گرہستی دونوں چلتی رہیں۔ہاں بھائی، سنبھالو، انہوں نے روز کا جملہ دہرایا اور شفقت سے مسکرا کر دروازہ بند کر لیا۔

بچیوں کا اسکول قمر کے اسکول سے پہلے چھوٹ جایا کرتا تھا، وہ کوئی دو گھنٹے بعد آتی تھی۔ اس دوران بچیاں ان خاتون کے گھر رہتی تھیں جنہیں قمر ’شانتی آنٹی‘ کہتی تھی اور لڑکیاں ’شانتی نانی۔‘

اپنے دروازے کا تالا کھول کر قمر اندر داخل ہوئی۔ دو دن سے بوا نہیں آرہی تھی۔ باورچی خانے کا سنک برتنوں سے بھرا ہوا تھا۔ قمر نے جلدی سے ایپرن چڑھایا اور کچھ ضروری برتن دھوکر الگ ہٹائے، باقی یونہی رہنے دیے۔ فرج سے گندھا ہوا آٹا اور سبزی نکالی جو وہ سویرے ہیدھو کاٹ کر رکھ گئی تھی۔ جلدی سے ایک طرف سبزی چڑھا کر توا ڈالا اور پراٹھے سینکنے شروع کیے۔ بچیوں نے فرج کھول کر اپنے لئے کولڈ ڈرنک نکال لیا تھا اور میز پر رکھے کیلوں کے گچھے سے کیلے لے لئے تھے۔

زیادہ کیلے مت کھانا.. قمر نے پکار کر کہا۔

 کھانے کا وقت ہے۔ بس ابھی لائی ، یوں-' اس نے چٹکی بجائی، پھر اس نے جلدی سے میز پر پراٹھے، سبزی اور دہی کا سادہ سا کھانا لاکر رکھ دیا اور دل میں سوچا کہ آج یہ گیس، پریشر کوکر اور فرج ایک ہاﺅس وائف کے لئے کتنی بڑی نعمت ہےں۔ اس نے تولیہ سے ہاتھ پونچھے اور خود بھی پاس بیٹھ گئی۔

پھر وہی لوکی“ بڑی بچی منمنائی۔

چپ چاپ کھالو۔ دیکھ نہیں رہی ہو، ممی کتنی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں۔

قمر نے حیرت سے دیکھا۔ چھوٹی کو چھ سال پورے ہونے میں ابھی دو تین مہینے باقی ہی تھے۔ اتنی سمجھ اور ماں کے لئے ایسی ہمدردی؟ قمر کا جی بھر آیا۔ ویسے بڑی صرف گیارہ مہینے بڑی تھی۔ دونوں آگے پیچھے اتنی جلدی ہو گئی تھیں کہ جڑواں جیسی لگتی تھیں۔ پراٹھے کا نوالہ لے کر بڑی لڑکی نے اپنی نکتہ چینی کی تلافی کی:

کوئی بات نہیں ممی، دہی بھی تو ہے۔ ہم دہی شکر کے ساتھ بھی کھا لیں گے۔ قمر نے شکر دان اس کے سامنے سرکادیا جو وہیں میز پر رکھا تھا، پھر دونوں کی پلیٹ میں کھانا نکال کر اٹھ گئی۔

ممی، تم؟

میں پہلے کچن صاف کرلوں، پھر نہا کر اطمینان سے کھاﺅں گی۔ صفائی کے کوئی گھنٹہ بھر بعد وہ غسل خانے میں داخل ہوئی۔ نہاکر ساری کی جگہ شلوار قمیص پہنی۔ اس نے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالا تو نیند سے آنکھیں جھکی جا رہی تھیں۔ گرمیوں کی سہ پہر تھی۔ ایک گھنٹہ ہلکی جھپکی، پھر اٹھ کر بچیوں کا ہوم ورک کرانا، شام کی چائے کے لئے کچھ تیار کرنا۔ چھ بجے انیس آجائے گا، اس کے حوالے بچیوں کو کرکے وہ بازار جائے گی۔ رات کے کھانے میں کچھ اچھا پکنا چاہیے۔ دال، چاول، ایک سبزی گوشت یا مرغ کا سالن، روٹیاں۔ کبھی کبھی گوشت پکانے کی جگہ وہ کباب لے آتی تھی۔ انیس شاذ و نادر ہی خریداری کے لئے نکلتا، لیکن کھانے میں کمی ہو تو ٹوک ضرور دیتا تھا۔”ایک وقت ہی تو چین سے پورا کھانا کھانے کو ملتا ہے، ورنہ آفس میں تو وہی سوکھی روٹی ، سوکھی سبزی۔

کبھی تم بھی کچھ لے آیا کرو، قمر نے ایک آدھ بار طعنہ دیا تو اس نے ٹکا سا جواب ٹکا دیا، یہ تمہارا ڈپارٹمنٹ ہے۔ بس کبھی کبھی بیوی اور دونوں بچیوں کو اسکوٹر پر بیٹھا کر حضرت گنج لے جا کر آئس کریم کھلاتا تھا یا کچھ پھل خرید لیتا۔

آں... بڑی لڑکی قمر کی پلیٹ میں جھانکنے لگی تھی۔

ہم کولوکی کھلا کر تم کیا کھا رہی ہو؟.... اس نے متجسس نظروں سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

من و سلویٰ .... کھاﺅگی؟ قمر نے ہنس کر کہا : ”بےوقوف، فرج میں پرسوں سے دال پڑی تھی، میں نے سوچا کھاکے ختم کروں۔ تمہارے پاپا تو فرج میں رکھی دال کھاتے نہیں اور تمہیں ہری سبزی کھانی چاہئے، اس لئے لوکی بنادی۔ لڑکی اتنا طویل لکچر سننے سے پہلے سانپ سیڑھی کے لوڈو پر جھک گئی تھی۔ دال اسے یوں بھی سخت نا پسند تھی۔ اس سے اچھی تو لوکی کی سبزی تھی۔

میں بالکل اماں جیسی ہوتی جا رہی ہوں، قمر نے ہول کر سوچا: کہیں لڑکیوں کے ساتھ اتنی ہی سخت گیر بھی نہ ہوجاﺅں۔

ادھر آﺅ اس نے دونوں کو پکارا۔ وہ فوراً پاس آگئیں۔ قمرنے پلیٹ ہاتھ سے رکھ دی، انہیں گود میں بیٹھا لیا، پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور دل ہی دل میں بولی :

میرے اور تمہارے بیچ اتنا جنریشن گیپ نہیں ہوگا جتنا میرے اور اماں کے بیچ تھا، بھلے ان کی طرح باسی کھانا سوارت لگاتی پھروں۔

لوڈو پھر کھیل لینا، کچھ دیر چلو چل کر سوتے ہیں، پھر ہوم ورک اور تب کھیل۔اس نے پیار سے دونوں کو گود سے ہٹا دیا۔ چھوٹی اس سال اپر کے جی ختم کر کے اسٹینڈرڈ ون میں آنے والی تھی اور بڑی آچکی تھی۔ دونوں کو ہوم ورک ملتا تھا۔ انیس تو صفا ہاتھ جھاڑلیتا:

 ' تم ٹرینڈ ٹیچر ہو، اسکول میں پڑھا تی ہو، میں نو بجے سے چھ بجے تک آفس کرتا ہوں۔ میرے دماغ میں یوں بھی طاقت نہیں رہجاتی۔'  انیس اس بات پر بہت زور دیتا رہتا تھا کہ وہ نو سے چھ تک آفس کرتا ہے جب کہ قمر دو ڈھائی بجے گھر آجاتی ہے اور پھر اسے چھٹیاں بھی بہت ملتی ہیں۔ جب دیکھو تب کسی نہ کسی وجہ سے اسکول بند۔

ارے تمہارا کیا ہے، عیش ہیں تمہارے تو، عیش۔ دو مہینے پورے-ہمیں نہ مل جائیں گرمی کی چھٹیاں۔ ارے دس بیس روز کی بھی مل جائیں۔ گرمی کی چھٹیوں بھر وہ طوطے کی طرح دہراتا رہتا تھا۔

بظاہر یہ سچ بھی تھا، لیکن انیس نے یہ سوچنے کی زحمت شاید کبھی نہیں کی تھی کہ ایک بار گھر واپس آجانے کے بعد اسے کچھ نہیں کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار تو اسے بھی چھٹی ملتی تھی، پھر اتوار تو تھا ہی۔ اس میں وہ سوتا تھا یا دوستوں کے ساتھ کافی ہاﺅس جا بیٹھتا۔ گھر پر مزے سے ٹی وی دیکھتا، چائے کے ان گنت کپ پیتا جو ظاہر ہے قمر ہی بناتی تھی۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا کہ وہ قمر کو تنگ کرنے کے لئے اتنی چائے پی رہا ہے۔ قمرنے ایک بہت مہنگی کمپنی کا ہیلتھ ڈرنک خریدا تھا۔ وہ رات میں بچیوں کو دیتی تھی اور اسی وقت ایک کپ بنا کر انیس کو بھی۔ خود اس نے کبھی نہیں لیا۔ گھر دو تنخواہیں آرہی تھیں، لیکن پھر خرچ بھی تو ویسے تھے۔ سب سے بڑھ کر تو بچیوں کا انگریزی اسکول۔ اگر وہ بھی ملازمت نہ کر رہی ہوتی تو بچیاں اس مہنگے اسکول میں کبھی نہیں جا سکتی تھیں۔ انیس چاہتا تھا کہ ان کے یہاں ایک بچہ اور ہو۔ شاید اس بار لڑکا ہوجائے۔

میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹ بال کھیلوں گا اور کرکٹ...

 وہ بڑے ارمان سے کہتا تھا اور اسے اپنی ماں اور قمر کی ماں، دونوں بوڑھیوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن قمر ابھی تک اڑی ہوئی تھی۔

تم سب نے مل کر گارنٹی لی ہے کیا کہ اس بار بیٹا ہی ہوگا؟ ایک بار اس نے اپنی فطری کٹھ حجتی کے ساتھ چڑ کر کہا تھا۔

اماں کو ایک بیٹی کے بیاہ میں دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ میرے پاس دو ہیں۔ تیسری بھی بیٹی ہو گئی تو کہاں ٹھکانے لگاﺅں گی؟ لیکن یہ کہتے ہوئے قمر کو شدت سے محسوس ہوا تھا کہ اماں تو اماں، اس میں پگلی جمادارن کی روح کا بھی کچھ حصہ حلول کر چکا ہے۔

اس دن قمر کا ہائی اسکول کا رزلٹ آیا تھا، اس لئے وہ صبح اسے اچھی طرح یاد تھی۔ فرسٹ ڈویژن کا نشہ اچھی طرح یاد تھا۔ انٹرمیڈیٹ کے لئے باہر نہ جاسکنے، بوائز اسکول میں نام لکھواکر سائنس نہ پڑھ سکنے کی شدید مایوسی اچھی طرح یاد تھی اور یاد تھی پگلی جمادارن، جو آنگن میں جھاڑو لگاتے لگاتے یکایک رک کر جھاڑو کے لانبے ڈنڈے پر ٹھڈی ٹکا کر کھڑی ہو گئی تھی اور انتہائی تاسف کے ساتھ ایک ہاتھ کی انگلی ناک پر رکھ کر بولی تھی:

ہائے رے دیا، پھن بٹیا-(یا مالک، پھر بیٹی ہوگئی)

ہاتھ میں اخبار لہراتے ابا اور برقع پھڑکاتی امیرن خالہ ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے۔ امیرن خالہ تو سلام تک کرنا بھول گئیں۔صبح صبح بٹیا ہوئی ہے شکلائن کے یہاں۔ انہوں نے پھولتی سانسوں کے درمیان بتایا۔ ان کے ساتھ ہی ابا نے تقریباً نعرہ لگایا

 لو بٹیا، آگیا فرسٹ کلاس-کتنا ڈری ہوئی تھیں تم۔

 قمر دوڑ کر ابا سے لپٹ گئی۔ انہوں نے ہولے سے سر پر ہاتھ رکھا اور الگ کو ہٹ گئے۔ بچوں کولپٹاچمٹا کر پیار کرنا اس وقت کے بڑوں کا شیوہ نہ تھا۔ سچ پوچھا جائے تو براہ راست پیار کا کسی بھی طرح کا اظہار نہیں تھا۔

چلو جاﺅ، نفل نماز ادا کرو، قمر اماں نے اتنا ہی کہا اور امیرن خالہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ شکلائن سے ان کی بڑی پٹتی تھی۔

اے ہے، تیسری بھی بیٹی ہی ہو گئی، کہاں نمٹائیں گے؟ ان لوگوں کے یہاں تو تلک میں بھاری بھاری رقمیں بھی خرچ ہو تی ہیں۔

’ہئی ہے.. امیرن خالہ نے برقع اتار کر تخت پر رکھتے ہوئے کہا۔ 'شکلا جی کی اماں کہتی تھیں، اس بار بھی بیٹی ہوئی تو انہیں کچھ سوچنا پڑے گا۔ دراصل یہ تیسری نہیں، چوتھی بیٹی ہے۔ پہلی دو چار دن کی ہوکے سوری میں ہی ختم ہو گئی تھی۔'

اماں، ہمارا فرسٹ ڈویژن آیا ہے- قمر نے زچ ہوکر زور سے پکار کر کہا۔

جاہل عورتیں- وہ پہلے شکلا جی کی بیوی کا ماتم تو کرلیں- بڑبڑاتے ہوئے ابا باہر چلے گئے۔  

(جاری )

پارسا بی بی کا بگھار (ناولٹ) دوسری قسط

ذکیہ مشہدی

امیرن خالہ رشتے میں اماں کی بہن لگتی تھیں۔ عمر میں چھوٹی تھیں اس لئے سالی ہونے کے ناتے ابا کے منھ لگ کر بول لیا کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ ہڑبڑ ہڑ بڑ بولنے کے لئے مشہور تھیں۔ تنک کے بولیں:

ہاں بھائی صاحب، کہہ لیجئے، ہم تو واقعی جاہل ٹھہرے، لیکن قمر سے پہلے ہماری آپا نے دو بیٹے نہ جنے ہوتے تو ہم آپ سے پوچھ لیتے کہ آپ کتنے عالم فاضل ہیں اور بیٹے بھی کیسے کہ لائق --- علی گڑھ میں پڑھ رہے ہیں۔' پھر آواز قدرے نیچی کر کے بولیں .

 ایک ہی لڑکی ہے اس لئے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہیں۔ ارے زیادہ چھانئے مت، کہیں خدا نخواستہ کرکرانہ کھائیں۔

 ابا ان کی زد سے باہر نکل گئے تھے، لیکن اماں تو سب سن رہی تھیں۔ بات بدلنے کو انہوں نے بٹوے سے دو روپے نکال کر پگلی کو مٹھائی کھانے کے لئے دیے۔

چلو، بٹیا کے پاس ہوئے کی مٹھائی تو کھانے کو ملی۔ سوچا تھا اب کی شکلائن سے چاندی کی جھانجھر لیں گے۔ پھر اماں کا دیا ہوا ڈلی چونا ہاتھ کے پیالے میں لیتی ہوئی بولی

ٹھیک کہت ہیں بڑی سکلائن۔ شکلا جی کو چاہئے کہ دوسر بیاہ کر لیں۔ اتنی جمین جائیداد گاﺅں میں ہے۔ سب داماد آکے کھائے جہیں۔ ایک ٹھو، بٹوا جروری ہے۔

وہ اپنی گلٹ کی جھانجھریں بجاتی چل دی۔

اس کا نام یونہی پگلی تھوڑی پڑ گیا۔ پاگل تو ہئی ہے، خبطی کہیں کی! قمر نے غصے سے کہا۔

'گھر کے پرانے لگے ہوئے نوکروں سے اس طرح بات نہیں کرتے!' اماں نے جھڑکا۔ 'خواہ وہ جمادارن ہی کیوں نہ ہو۔ اچھا ہے جو سنا نہیں۔

'سن لیتی تو کیا کرتی؟'

'کچھ نہیں کرتی۔ اسے تکلیف ہوتی تو تمہیں گناہ ہوتا۔ پلٹ کے جواب دیتی تو تمہاری بے عزتی ہوتی۔'

'اماں، تمہارے نزدیک ہم پگلی سے بھی گئے گزرے ہیں؟ ' قمر نے پیر پٹخے۔' مہترانی تمہیں زیادہ عزیز ہے۔'

کیا ہوگیا ہے آج کل کے بچوں کو؟ اماں نے تاسف سے سوچا۔ یہ لڑکی کہاں کھپے گی۔ اس قدر بد زبان

قمر کی 'کھپتے کھپتے' عمر شریف اٹھائیس برس ہو رہی تھی اور اماں کو برے برے خواب آنے لگے تھے۔ بڑی خوش فہمی تھی اماں کو --- پڑھائی ختم ہوتے ہی شادی کردیں گی، لڑکا اب حاضر ہوا کہ تب۔ لڑکا فوری طور پر حاضر نہیں ہوا تو نوکری تو ہوجاتی۔ لڑکوں میں سے ایک نے انگریزی میں ایم۔اے کیا تھا۔

چونکہ گولڈ میڈل حاصل کیا تھا ، اس لئے وہیں اپنے ہی ڈپارٹمنٹ میں جگہ مل گئی۔ دوسرے نے ایم۔کام کیا تھا، وہ ایل آئی سی میں نوکری پا گیا۔ انٹرویو کے لئے بمبئی بلایا گیا تھا، آرام سے چلا گیا۔ ناسک میں پوسٹنگ ہوگئی، آرام سے رہ پڑا۔ قمر نے باکس آفس کی معرفت جہاں درخواست بھیجی تھی، وہ ایک دور افتادہ شہر تھا۔ اسکول میں بورڈنگ نہیں تھا۔ سلیکشن ہوجانے کے باوجود قمر نہیں جاسکی۔ پرنسپل نے کہا بھی کہ وہ ایک شریف گھرانے کو جانتے ہیں، وہاں بطور پیئنگ گیسٹ رکھوادیں گے، لیکن ابا اماں دونوں نے سختی سے انکار کردیا۔ لڑکی پڑھ رہی ہے، یہ لوگ سمجھتے ہیں، لیکن نوکری کرنے کے لئے اکیلی لڑکی نہ جانے کہاں، کس کے یہاں رہتی پھر رہی ہے، یہ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہوگا۔ ایک بار سرکاری ملازمت ملی۔ اس میں تو اور بھی کوردہ دیہات میں بھیج دیا گیا۔ قمر نے خود انکار کر دیا۔ وہاں جاکر اسکول دیکھنے کے بعد اس کا دل بیٹھنے لگا تھا۔

 'ابا، ہم آفس کی نوکریوں کے لئے درخواست دیں؟' ایک دن قمر نے پوچھا.

 'آخر ہم گریجویٹ تو ہیں ہی۔' ابا نے اسے صرف گھور کر دیکھا، کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خشمگیں نظریں بذات خود جواب تھیں۔

ملا کی دوڑ مسجد۔ قمر کو آخر اس کے اپنے چھوٹے سے شہر نے ہی پناہ دی۔ وہاں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں وہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر پرائمری درجات کی ٹیچر مقرر ہوئی۔ اماں اس کے ہاتھ پر پچیس روپے رکھ کر باقی بڑی پابندی سے جمع کر دیا کرتی تھیں اور خوش تھیں کہ لڑکی گھر پر ہی ہے۔ کہیں باہر نوکری کے نام سے ان کی جان نکلا کرتی تھی، لیکن قمر نے ہار نہیں مانی تھی۔ آس پاس مناسب جگہ مل گئی تو کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ وہ لکھنو، الٰہ آباد،بنارس سے کوئی جگہ نکلی دیکھتی جو اس کی تعلیم کے مطابق ہوتی، تو پٹ سے درخواست بھیج دیتی، تب اماں کی واویلا کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک دن اس نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا تھا- 'اماں، بھول جاﺅ کہ کوئی آسمان سے اترنے والا ہے، اس لئے نوکری تو ایسی کرنے دو جو کسی معقول اسکول میں معقول تنخواہ کے ساتھ ہو۔ میں یہاں برقع پہن کے زنگ کھاتی رہوں' ڈیڑھ سو پاکر تین سو پر دستخط کروں؟'

ایک دن قمر نے اعلان کیا-'کل ہم لکھنؤ جا رہے ہیں۔ ہمارا انٹرویو لیٹر آیا ہے۔ عرشی خالہ کے یہاں ٹھہر جائیں گے۔ اسکول بہت اچھا ہے۔ شاید قسمت ساتھ دے جائے۔ اماں اب تک قسمت پر شاکر ہونے لگی تھیں، زیادہ واویلا نہیں مچائی۔ لکھنؤ  پر تو ابا بھی کچھ نہیں بولتے تھے، وہاں کئی رشتے دار موجود تھے۔

تب ہی وہ انہونی ہوئی۔

حسب دستور کمپارٹمنٹ میں گھستے ہی قمر نے برقع اتار کر جھولے میں ڈالنے کے لئے اس کی زپ کھولی ہی تھی کہ اس کی نظر اُس پر پڑی۔ وہ لانبے قد کا، سانولا لیکن جاذب نظر نوجوان تھا جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر سنجیدگی کے باوجود اس کی آنکھوں میں قمر کی برقع بیگ میں ڈالنے کی حرکت سے نہایت محظوظ ہونے والی کیفیت تھی۔ قمر سٹپٹا گئی۔ وہ نوجوان بھی دوسری طرف کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد جھجکتے ہوئے دوچار جملوں کا تبادلہ ہوا۔

 ایک چھوٹے اسٹیشن پر اس نے چائے خریدی تو ایک کوزہ قمرکو بھی پیش کر دیا۔ وہ لکھنؤکےکسی بینک میں اکاؤنٹنٹ تھا۔ پرتاپ گڑھ اس کی بیوی کا میکہ تھا۔ وہ گویا اپنی سسرال آیا ہوا تھا۔

'تو اہلیہ وہیں رک گئیں؟' قمر نے چائے قبول کرلی تھی اور بھرتی کا سوال کر رہی تھی۔

ان کی دوسری برسی تھی۔“ اس کا چہرہ تاریک ہوگیا۔ (کسی کنواری کے نصیب سے بیاہی مرتی ہے، ایک بار امیرن خالہ نے کہا تھا تو کٹھ حجت قمر ہنس پڑی تھی۔'اگر مرحومہ کا شوہر کسی بیوہ سے شادی کرے تو؟' اس نے امیرن خالہ کو چھیڑا تھا۔ 'بیوہ سے شادی کون کرے ہے جی؟ کنواری کو جڑتا نہیں، مطلقہ اور بیوہ کو بر کہاں سے جڑے گا؟' پھر انہوں نے کئی قصے سنائے جن میں پچاس پچپن، یہاں تک کہ ساٹھ برس کے رنڈوے پچیس، زیادہ سے زیادہ تیس کی لڑکیاں لے کر آئے تھے۔ سب کے نام پتے انہوں نے گنوادیے۔'جھوٹا جانو تو تصدیق کرلو۔'

اوہ، معاف کیجئے گا۔' قمر گڑبڑا گئی۔  

'میں صبح ناشتہ کر کے نہیں چلا تھا۔ مرحومہ کی والدہ نے کچھ پیک کر دیا ہے۔ آپ شیئر کریں گی؟' اس نے اخبار بچھایا اور ڈبا کھولتے ہوئے قمر سے پوچھا۔ ڈبے میں انڈے اور پراٹھے تھے اور کچھ مٹھائی بھی۔ قمر نے شائستگی سے انکار کردیا۔ وہ یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھ چکی تھی، بات چیت میں کوئی جھجک نہیں تھی، لیکن اجنبی مردوں سے بے تکلف ہونا اس کا شیوہ نہیں تھا --- اس کا ماحول ہی کچھ ایسا رہا تھا، پھر یہ کہ اس وقت اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ناشتہ شیئر کرنے سے تو انکار کر دیا تھا، لیکن وہ مرحومہ کی والدہ کے داماد کو مرحومہ کے ساتھ شیئر کرنے والی تھی۔

باقی سفر لگ بھگ خاموشی سے کٹ گیا۔لکھنؤ قریب آرہا تھا تو اس نے بینک کا کارڈ دیا-

'اگر آپ لکھنؤ میں نوکری کریں گی تو اپنا اکاﺅنٹ میرے بینک میں کھلوا لیجئے گا۔'

قمر ہنس پڑی۔ 'آپ کے منھ میں گھی شکر۔ نوکری مل گئی تو ضرور کھلواﺅں گی۔'

'پرتاپ گڑھ میں آپ کس اسکول میں ہیں؟'

قمر نے جھجکتے ہوئے نام بتا دیا، پھر بولی-

'آپ تو وہاں سب کو جانتے ہوں گے؟'

میرے سسر تحصیلدار ہیں ٹرانسفر ہو کر حال میں وہاں آئے ہیں، اس لئے میں مقامی لوگوں کو نہیں جانتا۔

قمر یکلخت ہنس پڑی۔

' 'آپ ہنسیں کیوں؟

 اس نے مشکوک انداز میں بھنویں چڑھائیں۔

ہماری ایک امیرن خالہ ہیں۔ اماں انہیں ’شہر خبرو‘ کہتی ہیں۔ وہ بتا رہی تھیں کہ کوئی مسلمان تحصیلدار شہر میں وارد ہوئے ہیں۔ انہی کو کہہ رہی ہوں گی۔ دراصل مسلم افسر کم ہی آتے ہیں نا۔

شہر خبرو‘ ‘پر وہ بھی خفیف سا مسکرا دیا۔

ایسی خواتین تقریباً ہر گھر میں ہوتی ہیں۔ لکھنؤ اسٹیشن پر اترتے وقت وہ خاصی بے تکلفی سے گفتگو کر رہے تھے۔

قمر کو نوکری یہ بھی نہیں ملی، لیکن وہ نوجوان بار بار ذہن میں آتا رہا۔ چار سال قبل شادی ہوئی تھی۔ دو سال میں بیوی چٹ پٹ ختم ہوگئی۔ رکشے سے اسکول جاتے وقت کئی بار نادانستہ طور پر وہ سوچ بیٹھتی کہ شاید وہ انسان جس نے اپنا نام انیس احمد بتایا تھا، جو لکھنؤ کے ایک بینک میں اکاﺅنٹینٹ تھا اور جس کی بائیس سالہ بیوی شادی کے دو برس بعد ہی گزر گئی تھی، شاید پھر دکھائی پڑجائے، لیکن دکھائی پڑنے سے بھی فائدہ کیا تھا! کیا وہ نقاب الٹ کر کسی مسلم سوشل فلم کی ہیروئن کی طرح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی تھی؟

بھائیوں کی شادی کو اماں نے بہت دن ٹالا تھا، لیکن دونوں پردیس میں تھے۔ آخر ان کی شادیاں کرنی ہی پڑیں۔ اب بہن کو لے کر کتنے دن بیٹھے رہتے، پھر اونچ نیچ تو لڑکوں کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے نا۔ قمر کی قسمت پر تو جیسے تالا لگ گیا تھا۔

ایک دن اچانک ایک خاتون وہ تالا کھولنے وارد ہوئیں۔ دو دن پہلے قمر کا اٹھائیسواں سال مکمل ہوا تھا۔ اماں نے اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگنے کے بعد آنسو بھری آنکھوں سے اتنا اور کہا تھا – 'یا مولا مشکل کشا! کتنی بار دہراﺅں؟'

خاتون قدرے پختہ عمر، نک سک سے درست غرارہ پہنے، بڑی شائستہ اور مہذب تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اماں تو مارے خوشی کے پاگل بنی جا رہی تھیں۔

لڑکا دوہاجو ہے لیکن کم عمر ہے۔ بالکل کنوارا لگتا ہے۔ اے ہے، دکھیا کی شادی کو دو برس ہی تو گزرے تھے۔ بال بچہ بھی نہیں ہے۔ ہوتا بھی تو کیا تھا! کوار کوٹلہ تو بچا رہے چننے سے۔

قمر کا ماتھا بڑی زور سے ٹھنکا۔ تصویر دیکھی تو دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ اتفاقات صرف فلموں میں نہیں ہوتے، حقیقی زندگی میں بھی رونما ہوتے ہیں۔

اماں، ہم ان سے ملے تھے۔ جب ہم لکھنؤ جارہے تھے تب.... کہتے ہوئے قمر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

میل ملاقات ہے؟ اماں کا سارا ایکسائٹمنٹ کافور ہوگیا۔

ہئے ہئے...

تمہارا دماغ چل گیا ہے، اماں!

قمر نے سارا لحاظ بھلادیا، اسے اس قدر غصہ آیا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ پسند کی شادیاں سننے میں نہیں آرہی تھیں، لیکن جہاں ایسی کسی بات کا سوال ہی نہ ہو وہاں بلاوجہ کی ہئے ہئے ! شادی سے پہلے ماتم! وہ پیر پٹختی چل دی، لیکن پھر کچھ خیال کر کے پلٹی۔ خر دماغ والدین کا کیا ٹھکانا! کیا پتا اماں محض یہی سوچ کے انکار کردیں کہ صاحبزادی گل کھلاتی رہی ہیں۔ بھلا کہیں لڑکی خود بر چنتی ہے۔

ہم قسم کھاتے ہیں، ہمارا اس رشتے میں کوئی دخل نہیں ہے، لیکن ایک بات ضرور کہیں گے کہ رشتہ بہت اچھا ہے، انکار مت کر دینا۔ اس نے بغیر آنکھیں ملائے ہوئے کہا اور کمرے میں گھس گئی۔

جب قمر نے کہا: ”ہم قسم کھاتے ہیں“، تو اس کے لہجے میں بڑی کاٹ تھی۔ وہ اماں پر ضائع نہیں ہوئی۔ انہیں لڑکی پر بڑا ترس آیا، شاید اسے غلط کٹگھرے میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے قمر کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا: 'بٹیا، ہمیں تم پر بھروسا ہے لیکن ہم جو بھی کہتے ہیں، اس کے پیچھے تمہاری، سب کی عزت کا خیال دامن گیر رہتا ہے۔ لڑکی کی عزت سے زیادہ نازک کوئی شیشہ نہیں۔' قمر نے آنکھیں پٹپٹاکر آنسو پئے۔

حجلہ عروسی میں قمر نے دولہا سے پوچھا

'آپ نے ہمیں ڈھونڈا کیسے؟'

بہت آسانی سے! دولہا نے مسکرا کر جواب دیا۔

آپ کے شہر میں ہماری پہلی سسرال والے تو تھے ہی۔ بڑی آپا کو وہاں بہانے سے بھیج دیا۔ آپ نے اسکول کا نام بتایا تھا جہاں آپ پڑھاتی تھیں۔ آپا وہاں بھی ہو آئیں۔ ساری معلومات چپکے چپکے اکٹھا کرلیں۔

ہم نے آپ کی تصویر دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ پرتاپ گڑھ کی سڑکوں پر انجانے پر آپ کو ڈھونڈا تھا۔ آپ نے ہم پر بڑا گہرا امپریشن ڈالا تھا۔ ہم نے اماں سے کہہ دیا کہ اس رشتے سے انکار نہ کریں۔

دولہا بہت خوش ہوا، لیکن کہیں کسی چھٹی حس نے خبردار کیا، عورت کو پہلے ہی دن اتنا بے تکلف نہیں ہونا چاہئے۔ اٹھائیس تیس کی ہورہی ہیں، نوکری کر رہی ہیں، کھائی کھیلی نہ ہوں

آپ نے پہلے کسی کو، میرا مطلب ہے، کسی مرد کو اس نظرسے دیکھا تھا؟

'آپ یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ نہیں۔'

'اتنی عمریوں ہی گزار دی ہے؟'

'یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ ہاں۔'

یونیورسیٹی، کالج، اسکول؟

جنہیں میں پسند کر سکتی تھی انہوں نے میری طرف نہیں دیکھا، جنہوں نے دیکھا وہ میرے معیار کے نہیں تھے۔

'باپ رے..' انیس نے سوچا۔ 'تو کچھ معاملات تھے'

مطلب یہ کہ کچھ لوگوں کو آپ نے پسند کیا تھا؟

جو چیزیں میری پہونچ یا بساط سے باہر ہوں، انہیں میں دائرئہ خیال میں نہیں لاتی۔ مجھے معلوم ہے، میں ہیرے نہیں خرید سکتی۔ بلکہ میں تو بھاری سونا بھی نہیں خرید سکتی، اس لئے میں اس کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔ اس موضوع کو یہیں چھوڑ دیجئے۔ ہماری نئی شادی ہوئی ہے، ہم بحث میں کیوں پڑیں--

اس نے بڑی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کو دیکھا۔

'بولتی بہت ہے-' انیس نے سوچا، لیکن کافی کریدنے کے باوجود دلہن ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ 'ضدی بھی معلوم ہوتی ہے۔'

اس نے ایک اور رائے قائم کی اور موضوع بدل دیا۔

' 'بچوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

قمر گڑبڑا گئی۔ شادی توہو نہیں رہی تھی، بچوں کے بارے میں کون سوچتا، تھوڑا توقف کے بعد بولی-'شادی سے پہلے .... شاید کوئی سوچتا ہے کیا؟' اسے کوئی معقول جواب نہیں سوجھا تھا۔

اب تو شادی ہوگئی۔' وہ مسکرایا۔ (کمبخت کی مسکراہٹ بڑی سنجیدہ مسکراہٹ تھی، اس لئے بہت پیاری)

'میڈیکل سائنس کہتا ہے کہ عورت کا پہلا بچہ تیس سال سے پہلے ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔ مردوں کے لئے کوئی عمر نہیں شاید۔'

وہ ہنسی۔

 'شادی کی ہی طرح۔ ساٹھ برس میں بھی کرلیتے ہیں۔'

باپ رے! بڑی بے تکلف ہیں۔ بزرگ اسی لئے عورتوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔انیس نے سوچا، پھر بولا اور کتنے؟'

دوسے زیادہ نہیں۔ بائی دی وے، ہمیں لڑکا لڑکی کا کوئی ہینگ اَپ نہیں۔ کہہ کر قمر نے اس موضوع کو بند کردیا۔ اس طرح کی باتوں کے لئے وقت پڑا تھا۔ یہ اس کی سہاگ رات تھی، اس نے مہندی رچی ہتھیلیاں دولہا کے سامنے پھیلائیں۔

ہماری اماں بے حد روایتی خاتون ہیں۔ کہتی ہیں، سہاگ کی مہندی بالکل سادہ ہونی چاہئے، کوئی ڈیزائن،پھول پتی کچھ نہیں۔

آپ نے ضد نہیں کی پھول بنوانے کی؟وہ ہنسا اور دلہن کا ہاتھ تھام لیا۔

'اماں کے سامنے ہماری ضد نہیں چلتی۔ شاید ہی کبھی....'

'میرے سامنے بھی نہیں چلے گی۔' اس نے بات کاٹی۔ وہی سنجیدہ مسکراہٹ، وہی گہری آنکھیں۔

'  'دیکھیں گے۔' وہ ہنسی۔'آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنائیں؟

ضرور آج آپ کا جتنا جی چاہے بولئے، ہم سنیں گے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ اس کے لہجے میں شرارت تھی۔

اماں کی شادی کے وقت ان کے مائیکے میں نوجوان رشتہ دار عورتوں نے ایک رسم کی۔ انہوں نے اماں کی مٹھی میں ایک انگوٹھی بندکرائی اور ابا سے کہا، مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالیں۔ اماں دھان پان سی تھیں اور صرف سترہ برس عمر۔ ابا کو ڈر رہا ہوگا کہ کہیں کلائی میں موچ نہ آجائے، اس لئے زیادہ زور آزمائی نہ کی ہوگی۔ نہیں کھلوا سکے۔ عورتوں نے شورمچا دیا کہ دولہا کمزور ہے، دلہن حاوی رہے گی۔ ابانے بڑی سنجیدگی سے کہا ’کھیل مذاق کی بات اور ہے، جہاں تک مٹھی کھلوانے کا سوال ہے کہئے ابھی کھلوادیں‘، ’کھلوائیے!‘ شوربلند ہوا۔ ابانے نہایت سنجیدگی سے کہا ’فاطمہ بی بی، میں آپ کو آپ کے شوہر کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ آپ اپنی مٹھی کھول دیں۔‘ گٹھری بنی اماں نے پٹ سے مٹھی کھول دی جس میں انگوٹھی چمچمارہی تھی۔ محفل پر سناٹا طاری ہوگیا۔“

'لیکن شاید کہیں تفریح بھی سناٹے میں گم ہوگئی-'( یہ قمر نے دل میں سوچا۔)

لمحہ بھر کو تو انیس بھی خاموش رہ گیا۔ وہ شاید اس 'پنچ لائن' کے لئے تیار نہیں تھا۔ قدرے توقف کے بعد بولا

حکم دینے کی مجال تو نہیں، درخواست ہے قمرالنسا بیگم، کہ ہماری دلہن کی حیثیت سے آپ ہمارے اور قریب آجائیں۔

اس بار اس کی مسکراہٹ بہت گہری تھی اور اس کی سنجیدگی کی جگہ شرارت نے لے لی تھی۔ قمر شرم سے سرخ ہوگئی۔ اور دولہا نے سوچا .. چلو، اتنا تو ہے کہ لاج شرم بالکل ہی بیچ نہیں کھائی ہے۔

انیس کی درخواست اب کچھ حدتک حکم میں بدلتی جارہی تھی اور قمر کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ، کہ تم نے گارنٹی لی ہے کہ ہمارے یہاں بیٹا ہوگا؟

ہمارے پڑوس میں وہ تھے نادلشاد چچا۔ ان کے یہاں ساتویں بھی بیٹی ہی ہوئی۔ لڑکیاں تو لڑکیاں، ماں باپ کے چہرے پر ہمیشہ یتیمی برستی رہی۔ اوپر سے چچا مرے تو دو بیٹیاں ابھی بن بیاہی رہ گئی تھیں۔

ہم سات کے لئے تو نہیں کہہ رہے، تمہارے دلشاد چچا سے ہمیں کیا لینا دینا؟

تیسری کے لئے بھی کیوں کہہ رہے ہو؟ پالوگے؟ پالنا تو ہمیں ہی پڑے گا۔

اگر تیسرا بچہ بھی لڑکی ہی ہوا تو ....ہم اسے بھیاکو دے دیں گے۔ بھیابھابی تو لپک لیں گے گھر کے بچے کو۔ (انیس کے بڑے بھائی لاولد تھے۔)

'معاف کرنا، سنا ہے ڈاکٹری معائنے سے نقص بھیا میں ظاہر ہوا تھا۔'انیس بھڑک گیا۔

یہاں اس کا کیا ذکر ہے کہ نقص کس میں تھا؟ بات کو ٹالومت اور اٹھاکے پھینکو وہ اپنی گولیوں کی شیشی۔ بیٹا ہوا تو ہمارا، لڑکی ہوئی تو بھیا بھابی کی۔

ہرگز نہیں! میرے جسم پر صرف میرا حق ہے۔ میری اولاد میری رہے گی۔ اگر میں نے تیسرا بچہ پیدا کیا بھی تو لڑکا ہویا لڑکی، اسے میں ہی رکھوں گی۔ تمہاری کسی بات سے میں نے انکار نہیں کیا۔ ہمیشہ مصالحت کا راستہ اپنایا۔ ملازمت کے علاوہ سخت محنت کرکے ٹیوشن بھی کررہی ہوں کہ بچیاں اچھے اسکول میں پڑھیں۔ گھرکا معیار اونچا رکھنے میں میری محنت بھی شامل ہے۔ اب کہیں کچھ تو ہو جو صرف میراہو۔اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ انیس آخری جملے پورے ہونے سے پہلے اٹھ کر جاچکا تھا۔

قمر نے گولیوں کی شیشی نہیں پھینکی، لیکن کہیں کچھ تھا جو چھن سے اس کے اور انیس کے درمیان ٹوٹ گیا تھا۔ قمر کے تئیں اس کے اندر ایک سردمہری گھر کر گئی تھی جو بڑی تکلیف دہ تھی۔

سب ٹھیک ہوجائے گا، وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سوچتے سوچتے وقت یونہی گزرتا رہا اور کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ انیس ذرا ذرا سی بات پر جھنجھلاتا، طعنے دیتا۔ اس کے جن کاموں سے ہمیشہ مطمئن رہتا تھا ان میں بھی عیب نکالتا۔ دانت پر دانت بھینچ کر قمر برداشت کرتی رہی۔ اماں قمر کو تتیا مرچ کہاکرتی تھیں، لیکن اس کی ساری تیزی انیس کی سردمہری کے سامنے ہوا ہوگئی تھی اور اب تیسرے بچے کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔

گھر میں آج کل رولامچا ہوا تھا۔ رضوانہ نے پلس ٹوکا امتحان دے دیا تھا۔ باپ کی ضدپر اس نے سائنس لے لیا تھا، لیکن اب پری میڈیل امتحانوں میں بیٹھنے سے صا ف انکار کر رہی تھی۔

'ہمیں ڈاکٹر نہیں بننا۔ بس مرغے کی ایک ٹانگ'                 'تو کیا بننا ہے؟' آج کل سمپل گریجویٹ کی کہیں کھپت نہیں۔

کھپت تو اس کی بھی ہے، پاپا۔ آج کل بہت ایونیوز ہوگئے ہیں، لیکن ہاں، ہمارا ایک ٹارگٹ ہے۔ ہم اکنامکس اور انگلش لے کر گریجویشن کریں گے اور اس کے بعد لاپڑھیں گے۔

لڑکی وکیل بنے گی؟ لوگ سکتے میں آگئے۔ اسے باز رکھنے کی ایک پوری مہم چل پڑی۔ گاﺅں سے انیس کی والدہ آگئیں پوتی کو سمجھانے۔ بڑے بھائی اور بھابی تو لکھنؤ میں ہی رہتے تھے۔ ذرا دور رہا کرتے تھے اس لئے کم آتے تھے، لیکن ادھر کئی دن سے روز آرہے تھے۔'بیٹا، ہماری کوئی اولاد تو ہے نہیں۔ ایک اچھا خاصا پلاٹ زمین کا ہے۔ ہم تو سوچتے تھے، تم ڈاکٹر بنوگی تو تمہیں وہاں نرسنگ ہوم بنوادیں گے۔

اب بڑے ابا، آپ کے اس پلاٹ کو استعمال کرنے کے لئے ہم مرضی کے خلاف ڈاکٹر بن جائیں؟ چلئے اچھا، اس پر ہمارا دفتر بنوادیجئے گا۔ ’رضوانہ احمد ایڈووکیٹ‘ کا بورڈ لگ جائے گا۔“

رضوانہ احمد ایڈووکیٹ سے لڑکے کانوں پہ ہاتھ لگاکے بھاگیں گے۔ بڑی چچی نے جل کے کہا۔ وہ اپنی اتنی قیمتی زمین دیور کی اولادوں کو دئے جانے کے خیال سے ہی کبیدہ خاطر ہوجاتی تھیں۔

اچھا ہے نا بڑی اماں، لڑکی سے دورہی رہیں گے۔

اب کی دادی کود پڑیں اور نہایت ناراض ہوکر، 'کیا بری باتیں منھ سے نکالتی رہتی ہے۔ ارے شادی بیاہ کرنا ہے کہ نہیں؟ چلیں وہاں سے۔ لڑکی ڈاکٹر بن جاتی ہے تو لڑکے والے دوڑ کے ہاتھوں ہاتھ لے جاتے ہیں۔

ہاں! اب تو مسلمانوں میں بھی جہیز کا اتنا چلن ہوگیا ہے۔' قمر' نے بھی ٹھنڈی سانس لے کر دبی زبان سے کہا۔

'اور جہیز ہونہ ہو، وکیل لڑکی کے نام پر تو لڑکا ویسے بھی نہ ملے گا۔' یہ انیس تھا۔

لڑکی کی بات چھوڑو میاں!' بڑے بھائی کہہ رہے تھے۔ ہم تو جانتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست ایڈووکیٹ ہیں۔ ارے وہی علی رضا، جانتے ہوگے۔ ان کی لڑکی کی کہیں بات چلائی گئی تو لڑکے کے والد نے کہا، نہ بھائی، وکیل کی بیٹی نہ لائیں گے۔

وہی مرغے کی ایک ٹانگ! سب کی تان شادی پر کیوں ٹوٹتی ہے؟ رضوانہ نے نہایت خفا ہوکر کہا-نہیں کرنی ہے ہمیں شادی۔

مرغے کی ایک ٹانگ تمہاری کہ دوسروں کی؟ آخر تم کیوں اڑ گئی ہو وکالت پہ؟

ہمیں اس میں دلچسپی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت بھی ہے۔ اچھا، گریجوشن تو کرنے دیجئے۔ اس کے بعد بہت کچھ ہے۔ جرنلزم کرلیں گے، یوپی ایس سی دے لیں گے۔ کہیں نہ آئے تو بی ایڈ کرکے آپ کی طرح جھک ماریں گے۔ اسکول میں پڑھائیں گے ماسٹرائن بن کے۔

اس کے لہجے میں استہزا تھا۔ قمر کو کہیں بہت تکلیف پہونچی۔

ماسٹرائنیں اگر تمہیں نہ پڑھائیں تو تم آگے آگے اتنا کودوگی کیسے۔ اس نے دل ہی دل میں کہا، لیکن اوپر سے پرسکون رہی۔ یہ مکالمے ایک دن کی بات نہیں تھے، کئی دن سے چل رہے تھے۔

آخر لوگوں کو ہار ماننی پڑی۔ رضوانہ کا یونیورسیٹی میں آرٹس فیکلٹی میں داخلہ ہوگیا اور لوگوں کو مزید ہار یہ ماننی پڑی کہ ان تین سالوں میں اسے ”برین واش“ کرنے کی سب کوششیں بیکار رہیں۔ اس نے بی، اے کے بعد علی گڑھ میں لاکورس جوائن کر لیا۔ قمر کی ساس رہتی تو بارہ بنکی کے گاﺅں میں تھیں، لیکن اکثر آتی رہتیں اور جب آتیں، رضوانہ کو لے کر قمر کو باتیں سناکر جاتیں

لڑکی کو بہت آزادی دے رکھی ہے اور پڑھاﺅ انگریزی اسکولوں میں۔ یہ کرنٹان، انہوں نے ہماری تہذیب کا ستیاناس کردیا ہے۔ ماں باپ بے فکر ہیں، لڑکی دندناتی گھوم رہی ہے۔

پھر انہیں اچانک خیال آیا کہ ’باپ‘ کہہ کر وہ اپنے بیٹے کو بھی بیٹی کوبگاڑنے میں ملوث کررہی ہیں اس لئے جلدی سے بولیں۔اب باپ بیچارہ کرے بھی تو کیا۔ وہ تو دن بھر گھر سے باہر رہتا ہے۔ بچوں کی تربیت تو ماں کا کام ہے۔ انہیں غلط راستے پر چلنے سے روکنا بھی ماں کا ہی کام ہے اور یہ چھوٹی فتنی! اری تو کیا کرنے والی ہے ری عمرانہ؟

دادی..چھوٹی فتنی نے نیل فائل سے ناخنوں کو گھس کر حسب مرضی شیپ دیتے ہوئے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔

ماس کوم (Masscom)

یہ آج کل کی لڑکیاں کتنے اطمینان سے اپنا کریئر طے کررہی ہیں اور کتنا واضح مقصد ذہن میں رہتا ہے۔ ہوسکتاہے سب کا نہ بھی ہوتا ہو، لیکن اچھے اسکولوں سے جو لڑکیاں پڑھ کر نکل رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر نہایت صاف سوچ رکھتی ہیں اور لڑکے بھی تو۔ ہمارے تو اماں ابا بس اسکولوں میں نام لکھوا کر بے فکر ہوجایا کرتے تھے۔ نہ کبھی ہوم ورک دیکھیں نہ یہ سوچیں کہ بچے کریں گے کیا۔ بس بے نتھے بیل کی طرح بی اے، ایم اے کر لو، پھر لڑکے جوتیاں چٹخائیں نوکریوں کے لئے اور لڑکیاں شادی کے انتظار میں گھر میں سوکھیں۔ ہم نے لاکھ چاہا تھا کہ سائنس پڑھ لیں، لیکن ہمارے گھر میں لڑکیوں کے اسکول میں تھا ہی نہیں اور ہائی اسکول کے فوراً بعد اماں قطعی باہر بھیجنے کو راضی نہیں تھیں۔ ارے یہاں جو پڑھ رہی ہیں وہ گھاس کھود رہی ہیں کیا؟ان کی یہی ایک دلیل تھی۔ دراصل وہ اس پھیر میں تھیں کہ انٹر کے بعد قمر کی شادی ہوجائے گی۔ شادی نہ ہونے پر مجبوری میں گریجویشن کے لئے الٰہ آباد بھیجا۔ دورکی جگہ نوکری کے لئے نہیں جانے دیا۔ قمر نے نظریں اٹھاکر عمرانہ کو دیکھا اور سوچتی رہی کہ ماس کوم تو لکھنؤ میں ہے ہی نہیں۔ ایل ایل بی یہاں ہوتے ہوئے بھی رضوانہ علی گڑھ چلی گئی تو ان صاحبزادی کو تو باہر جانا ہی ہے۔ دلی جائیں گی اور کیا۔ کہیں بمبئی نہ چل دیں۔ اس کا دل جیسے ہچکولے کھانے لگا۔ بمبئی تو بھائی، ہمیں برداشت نہ ہوگا۔

رضوانہ نے علی گڑھ سے خط لکھا تھا۔

قمر کی جان جل گئی۔ کتنی بار کہا کہ انگریزی میں خط مت لکھا کرو۔ ٹھیک ہے، تمہاری ماں پڑھی لکھی ہے، انگریزی داں ہے، لیکن اگر اب ہم لوگ بھی آپس میں انگریزی استعمال کرنے لگیں تو اردو کا کیا ہوگا؟ ٹھیک کہتی ہیں انیس کی ماں کہ انگریز چلے گئے، تم لوگوں کو چھوڑ گئے۔ مارے غصے کی جی چاہا، خط واپس لفافے میں ڈال کے اسے بھیج دے، لیکن تجسس اور بیٹی کی محبت غالب آگئی۔ ساری زندگی تو معاف کرتے کرتے ہی گزر رہی تھی۔ اس نے خط پڑھنا شروع کردیا۔ مختصر ہی تھا۔ بس دوپیراگرف۔ آخر تک پہنچتے پہنچے قمر کے جسم میں کچھ سن سن کرنے لگا۔ تردد، گھبراہٹ، اندیشے۔ کیا بیٹوں کی پیدائش پر تھالی کٹورا پیٹنے اور بیٹیوں کی پیدائش پر منھ لٹکانے والے لوگ حق بجانب ہوتے ہیں؟ وہ کاغذ ہاتھ میں پکڑے، خلا میں دیکھنے لگی۔رضوانہ نے لکھا تھا:

بمبئی کی ایک لافرم میں بڑی اچھی ملازمت ملنے کے پورے امکانات ہوگئے ہیں۔ بس رسمیات پوری کرنی ہیں۔ وہ انٹرویو کے لئے بمبئی جارہی ہے۔ بمبئی؟ اکیلے؟ اور اگر نوکری مل گئی تو کہاں رہے گی؟ کیسے رہے گی؟ علی گڑھ میں تو کالج کا اپنا گرلز ہوسٹل تھا۔ دوسرے کہیں تحت الشعور میں ایک موہوم سی امید تھی کہ وہاں مسلمان لڑکے بہت ہیں، شاید کہیں وکالت پڑھنے والے کو ہم پیشہ لڑکی پسند آجائے، لیکن بمبئی

That big bad metro? اسے چکر سا آنے لگا۔

کس کا خط ہے؟ انیس نے قریب آکر پوچھا۔”فکر مند کیوں لگ رہی ہو؟ اس نے خط شوہر کی طرف بڑھادیا۔

دماغ خراب ہوگیا ہے لڑکی کا۔ علی گڑھ جانے دیا تو اور پر نکل آئے۔ انیس سخت ناراض ہواٹھا۔ مردوں کو شاید ایک ہی جذبے کا اظہار کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے، غصہ۔ نہ پریشانی نہ گھبراہٹ نہ محبت، لیکن کیا یہ ناراضگی محبت کا ہی مظہر نہیں تھی؟ محبت کا اور سروکار کا؟ لڑکی کے تحفظ کی فکر، اس کی عزت آبرو کی فکر، اس کا گھر بسانے کی فکر؟ پڑھ لکھ لیا، اس لائق ہوگئیں کہ ضرورت پڑے تو اپنے ساتھ چار اور لوگوں کی کفالت کرلیں۔ اب بھیا اپنے گھر بار کی ہوجاﺅ، پھر جو جی چاہے کرو۔ قمر دل میں بکتی جھکتی رہی۔

ابھی ای میل اور فیس بُک کا زمانہ کچھ دور تھا۔ موبائل خال خال لوگوں کے پاس تھے، اس لئے رضوانہ نے اپنی دوست میرا کو بھی خط ہی لکھا جو لکھنو میں ہی تھی۔ رضوانہ کی ہم عمر تھی، لیکن دوسرے بچے کی ماں بننے والی تھی۔

میں نے مما سے کہہ دیا ہے، بمبئی جارہی ہوں انٹرویو کے لئے۔ وہاں میرے ایک کلاس فیلو کے چاچا چاچی ہیں۔ دودن ان کے یہاں ٹھہروں گی۔ اگر ملازمت مل گئی تو وہیں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کا انتظام بھی کرادیں گے۔ مجھے معلوم ہے، پاپا گھوم گھوم کر مجھے اور مما دونوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں گے۔ ممادعائیں مانگیں گی۔ شاید منت بھی مان لیں کہ نوکری نہ ملی تو حضرت شاہ مینا کی درگاہ پہ جاکے چادر چڑھا کے آئیں گی۔ پتا ہے میرا، مما پکی وہابی تھیں۔ وہابی تو نہیں جانے گی، بس یوں سمجھ لے، جو لوگ پیر فقیر دعا تعویذ وغیرہ میں یقین نہیں رکھتے، لیکن جب سے میں اور عمرانہ گھر سے باہر نکلے ہیں وہ یہ سب کرنے لگی ہیں، اپنی دانست میں پڑھی لکھی، میری روشن خیال ماں۔ قسم سے میرا، مجھے ان میں اور نانی میں خاص فرق نظر نہیں آتا۔

اچھا یہ بتا، اتنی جلدی دوبارہ کیسے پھنس گئی؟ اور اگر اس بار بھی بیٹی ہوئی تو کیا کرے گی؟ سنجے کا کیا خیال ہے؟ اس کی اماں نے پچھلی بار کتنا واویلا مچایا تھا۔ اس بار کہیں سنجے بھی اماں کے ساتھ مل کر تجھے پیٹے گا تو نہیں دوبارہ بیٹی پیدا کرنے پر؟

میرا نے جواب دیا-رشک آتا ہے تیرے اوپر۔ جاگھوم چھٹا سانڈ بن کے۔ رہا اماں اور نانی میں فرق، تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔ میری اماں بنارس ہندویونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے ہیں۔ پاپا کھانا کھاتے ہوتے ہیں تو گرم پھلکا پلیٹ میں ڈالتی ہیں، پھر بیچ سے آدھا کھایا پھلکا ہٹاکر، کہ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا، دوسرا جلدی سے لاکے ڈالتی ہیں۔ بچا ہوا آدھا اٹھا کے اپنی پلیٹ میں رکھ لیتی ہیں، پھر بیٹھ کے وہ دوتین آدھے آدھے ٹکڑے پرساد سمجھ کے کھاجاتی ہیں۔ 

(’پرساد سمجھ کے‘ میں کہہ رہی ہوں) 

پیر فقیر تعویذ گنڈا کرتی گھومتی ہیں۔ تم مسلمان تو ہندوﺅں کے سادھو سنتوں کے پاس جاتے نہیں، اماں تو سیدھی حضرت شاہ مینا کے یہاں پہنچتی ہیں۔ دلی گئی تھیں تو میری شادی سنجے سے ہوجائے اس کے لئے حضرت نظام الدین منت مان کے آئی تھیں۔ ان کی رینج زیادہ وسیع ہے۔ ہم کچھ نہیں مانتے ہیں، پھر بھی لگتا ہے کہ کہیں کچھ ہوا تو؟ ہم نے بھی منگل کو ہنومان مندر جانا شروع کردیا ہے۔ اس بار بیٹا ہو جائے تو فیملی مکمل ہوجائے گی۔ جھنجھٹ سے بچیں گے، ورنہ ایک بار پھر .... بچے پل جائیں تو ہم بھی کچھ کریں۔ بڑا غصہ آتا ہے۔ اماں نے ماسٹرز کی ڈگری لی، لیکن ہمیں بی اے کا امتحان دینے سے پہلے بیاہ دیا کہ بڑے گھر کا انجینئر لڑکا مل رہا تھا۔ ہم ایسے گئے گزرے تھے؟ پھر نہ ملتا کیا؟ مگر چل، ٹھیک ہی ہے جو ہو رہا ہے۔ دوچار سال بعد ضرور ہم کچھ کریں گے۔ جاتیرا کلیان ہو، تجھے نوکری مل جائے۔ بول تو جاکے ہم ہنومان جی سے تیرے لئے بھی پرارتھنا کرآئیں، مگر بڑی مشکل ہوجائے گی اگر قمر چاچی نے حضرت شاہ مینا کے یہاں جاکے دھاگا باندھ دیا۔ ہندوستان پاکستان والی Tussle ہوجائے گی۔ہاہاہا! اور ہاں! بغیر ٹھوکے بجائے شادی کے لئے ہاں مت کیجیو۔ ایسی قسمت کم ہوتی ہے کہ سنجے جیسا میمنامل جائے۔ 

(ویسے ماں جی آئی ہوئی ہوتی ہیں تو وہ بھی خاصا شیر بنا رہتاہے۔)

قمر نے بیٹی کو لکھا- بیٹا، ہر چیز کا وقت ہوتاہے۔ تعلیم ہوگئی۔ نوکری کہیں نہیں جائے گی۔ تم تو پریکٹس بھی کرسکتی ہو۔ لکھنو میں اچھے اچھے وکیل پاپا کی جان پہچان میں ہیں۔ اب شادی ہونی چاہئے۔ رشتے سامنے ہیں، ایک خوشگوار ازدواجی زندگی سے زیادہ سکون بخش اور کچھ نہیں۔ دھن دولت سے بھی زیادہ دل کا سکون اہم ہے۔ ساری تحقیقیں، سارے سروے اسی مغرب سے آتے ہیں جس کی تعلیم سے تم متاثر ہو، تو تم نے پڑھا ہی ہوگا کہ کئی سروے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ کنوارے، طلاق شدہ اور رنڈوے شادی شدہ لوگوں کی بہ نسبت کم عمر پاتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ کیوں؟ اس لئے کہ جوڑا بناکر رہنے میں جو طمانیت قلب ملتی ہے وہ عمر تک بڑھادیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑے، اونچ نیچ، سب کے باوجود۔ تو بیٹا، گھر آجاﺅ، ہم نے سوچا تھا، ہماری شادی دیر سے ہوئی، ہم بیٹی کی شادی وقت سے کریں گے۔ تم ہم سے زیادہ

Privileged Position پر ہو۔ دیر تم خود کرا رہی ہو۔ ایک تو تمہاری یہ وکالت....

رضوانہ نے یہاں تک پڑھ کر خط اٹھا کر کتاب تلے دبا دیا۔

کتنا بولتی ہو ممی! کتنا دماغ چاٹتی ہو۔ انٹرویو ہوچکا تھا اور نہایت تشفی بخش۔ اس نے انگڑائی لی اور میرا کو پھر خط لکھنے بیٹھ گئی۔

مما ادھ کچری معلومات لے کر میرا دماغ خراب کرتی رہتی ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے، ان کی ازدواجی زندگی کتنی خوشگوار گزری؟ وہ خوشگوار کسے کہتی ہیں؟ ،مجھے دل کے لائق لڑکا ملا تو کیا شادی نہیں کروں گی؟ بمبئی جانے اور مردوں کے بیچ مردوں والی نوکری کرنے کو وہ ویمینزلب قرار دے رہی ہیں۔ میں کیابمبئی کے ساحل پر ننگی ہوکر دوڑ لگانے والی ہوں؟ میرا ارادہ اپنی برا جلانے کا بھی قطعی نہیں ہے۔ براسے سپورٹ پاکر فگر اور خوبصورت ہوجاتا اور سیکسی لگتا ہے۔ مماسے کہوں؟ ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ ہاہاہا! اور مما کو ایک بات سے اور ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ میں سمیر کے ساتھ پکچر دیکھنے گئی تھی۔ سمیر نام مسلمانوں میں بھی ہوتا ہے، لیکن وہ تیرا جات بھائی ہے۔ ہندوتو ہے ہی، برہمن بھی ہے۔ مزید ہاہاہا! لیکن تو بھی ایسی ویسی بات نہ سوچنا۔ میرا ارادہ تیری بھابی بننے کا قطعی نہیں ہے۔ مما کی سمجھ میں کسی لڑکے اور لڑکی کی ایسی دوستی ہرگز نہیں آئے گی جس میں وہ ....ارے وہی .... مرد عورت والا معاملہ نہ ہو۔ سمیر اور میں اچھے دوست ہیں۔ ویسے وہ بھی کہہ رہا تھا کہ ماں کو فون کرکے کہہ دوں کہ رضوانہ کے ساتھ ایک بیہودہ سی انگریزی فلم دیکھ کر آیا ہوں تو واویلا مچاکے رکھ دیں گی۔ لونڈیوں کے ساتھ گھومنا ہوتا ہے، وہ بھی میاں مسلمان! وہ ویجیٹیرین ہیں۔ کرم کانڈی سناتن دھرمی! بسنت کی خبر نہیں۔ بیٹا ایک بار اشوکا میں جاکے بیف کھاکے آیا تھا۔ ایک نمبر کا حرامی! اور ہاں، انہوں نے الٰہ آباد سے ہندی میں آنرز کیا ہے۔ مہادیوی ورما کی فین ہیں۔ ارے یار، یہ مہادیوی ورما کون ہیں؟ ذرا میں بھی پڑھ کے دیکھوں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو کامن ٹاپک تو ہوگا بات کرنے کو۔ ارے جاہل کی بچی! بچے کی جنس تو حمل ٹھہرتے ہی طے ہوجاتی ہے۔ اب یہ تو ہنومان جی سے کیا پرارتھنا کرتی گھوم رہی ہے؟ وہ کیا کریں گے؟ لنگوٹ دھاری، برہمچاری۔ انہیں کیا، تو بیٹی جن کہ بیٹا۔

میرا نے جواب میں لکھا-سمیر وہی ناجوا بھی یوپی ایس سی کی تیاری کر رہا ہے؟ تو اس کا نام پہلے بھی لے چکی ہے۔ ہونے والی ساس کے بارے میں خاصی معلومات اکٹھا کر رکھی ہیں۔ اچھی بہو بنے گی۔ زیادہ دقت نہیں ہوگی۔ بیٹی لانا آسان ہوتا ہے، بیٹی دینا مشکل۔ سبھی جاتوں برادریوں میں ۔ قمر چاچی اور انیس چاچا کو زیادہ دقت ہوجائے گی یہ سوچ کے رہنا۔ سمیر کی اماں تیرے منھ میں پنچا مرت ڈال کے شدھی کرائیں گی۔ ذرا دھیان رکھنا، گوبر اور گوموتر بھی پنچا مرت میں آتے ہیں اور مہادیوی ورما کو تو کیا سمجھے گی، انہیں تو میں بھی نہ سمجھ پائی۔ ہاں! اپنی ہم نام میرا کو جانتی ہوں- جو میں ایسا جانتی پریت کے دکھ ہوئے، نگر ڈھنڈورا پیٹتی مت پریت کریو کوئے۔

تیری تو ایسی کی تیسی- رضوانہ نے ہنس کر خط تہہ کرکے چائے کے کپ سے دباکر میز پر رکھ دیا۔ وہ انٹرویو میں کامیاب رہی تھی۔ فرم نے جواب دیا تھا کہ تھرڈایئرمکمل ہونے کے بعد وہ وہاں آکر جوائن کرسکتی ہے۔ وہ بے حد خوش، کامیابی کے نشے میں سرشارعلی گڑھ واپس آئی تھی اور تندہی سے پڑھائی میں جٹ گئی تھی۔میرا بائی! تمہارے وقت میں لڑکیاں وکالت نہیں پڑھا کرتی تھیں ورنہ زہر بھیجنے والے راناجی کا گلا دبا دیتیں۔ تمہیں عشق حقیقی پریشان کرتا نہ عشق مجازی۔ مزے سے ہماری طرح دندناتی پھرتیں کہ ہم صرف اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں۔ ارے ذرا رکو تو! ہاں، تھوڑا مما سے، ذرا سا پاپا سے، تھوڑاسا اس عمرانہ کی بچی سے اور ایک پاﺅ بچا کے رکھا ہے۔ اس میں نانی دادی اور میرا کا حصہ ہے اور اس بیہودہ سمیر کا بھی، مگر ابھی ہمیں ایسا عشق کسی سے نہیں ہے کہ ہم کہیں، پریت کئے دکھ ہوئے۔اس نے خوشی سے کلکاری مارکر بستر پر ایک لوٹ لگائی اور قانون کی موٹی سی کتاب تھپ سے بند کی جو وہ دیر سے پڑھ رہی تھی۔

اس دن قمر سارے دن اتنا پریشان رہی تھی کہ شام کو اسے سر درد کی گولی کھانی پڑی۔ انیس آفس سے ابھی نہیں آیا تھا۔ اس نے چائے کے برتن ٹرے میں لگائے، ناشتے کا انتظام کیا اور اون سلائیاں اٹھاکر آرام کرسی پر نیم دراز ہوگئی۔ انیس کا سوئٹر نصف مکمل ہوچکا تھا۔

جاڑوں کی آمدآمد تھی۔ فضا میں بڑی پیاری سی خنکی تھی اور گلابی جاڑوں کی خوشبو۔

جاڑوں کا اگر رنگ ہوسکتا ہے تو یقینا ان کی خوشبو بھی ہوسکتی ہے۔ وہ ذہنی پراگندگی کے باوجود مسکرا پڑی۔ ہاں! خوشبو ہوتی تو ہے۔ ہرے دھنےے کی، تازہ ہری سبزیوں کی جو گرمیوں میں عنقا ہوجاتی ہےں، رات بھر پک کر صبح صبح تیار ہونے والی نہاری کی، بھوبل میں بھنتی شکرقندیوں کی اور رنگ وبو ہی نہیں، جاڑوں کی تو آواز بھی ہوتی ہے۔ کڑک کڑک کر کے دانتوں تلے ٹوٹتی گزک اور ریوڑیوں کی، مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کی، گہراتی شام میں دور بجتے کسی درد بھرے نغمے کی، ٹھنڈی یخ راتوں میں سرسر کرکے آتی ہوا کی اور بزرگوں کی شفقت بھری ڈانٹ کی کہ سرڈھکو، سر سے ٹھنڈ زیادہ اثر کرتی ہے اور اس پر بچوں اور نوجوانوں کی ہی ہی ٹھی ٹھی کی، کہ کہاں کی ٹھنڈ، کون سی ٹھنڈ۔

اس کا دل یکلخت ایک بے وجہ اداسی سے بھر اٹھا۔ جاڑوں کا رنگ گلابی تھا، لیکن آس پاس آوازیں نہیں تھیں۔ آوازیں تو انسانوں سے ہوتی ہیں۔ وہ قلقل مینا جیسی ہنسی کہاں تھی؟ دادی کی کہانیاں کہاں تھیں؟ ان کی حماقت بھری باتوں اور کبھی کبھی کی بے جا ڈانٹ کے باوجود ان کے سایہ دار وجود کا احساس کہاں تھا؟بچے کہاں تھے اور جوان کہاں غائب ہوگئے تھے؟

انیس کے کبھی کبھار آنکلنے والے والدین اب زیادہ بوڑھے ہوکر گاﺅں میں ہی محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ ابا کا انتقال ہوچکا تھا۔ اماں کو تو بیٹی کے یہاں کا پانی پینا بھی گوارا نہیں تھا۔ ایک دوبار دو چار روز کے لئے آئی تھیں کہ عزیز از جان بیٹی کو گھر، شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش دیکھ لیں۔ دیکھ لیا۔ بس، اب ملنا ہے تو قمر جاکے مل آئے۔ وہ تو بیٹوں تک کے گھر جاکے رہنے کو تیار نہیں تھیں، بس زچگی جاپے نمٹا دیتیں، ہفتہ دس دن یوں بھی جاکے رہ آتیں کہ بیٹوں کے یہاں باربار جانے یا ہفتہ دس دن رہ آنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ کس سے کہے اور کیا کہے۔ رضوانہ نے بے حد سمجھانے اور باپ کے ناراض ہونے کے باوجود بمبئی جاکر ملازمت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ویسے انیس کے زیادہ ناراض ہونے پر اس نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ وہ کوشش کرے گی کہ بمبئی چھوڑ کر دلی یا پھر (بادل نخواستہ) لکھنوآجائے، لیکن فی الحال تو جوائن کرنا ہی ہے۔ کسی دوست کی معرفت ایک کنبے میں پیئنگ گیسٹ بن کر رہنے کا انتظام بھی کرلیا تھا۔ یہ ایک پارسی کنبہ تھا۔ ادھیڑ سے کچھ آگے بڑھتی عمر کے والدین اور ان کی پانچ اولادیں، جن میں دو جوان لڑکے تھے۔ قمر نے جس دوست کی معرفت کا ذکر کیا تھا وہ خود بھی لڑکا ہی تھا۔ سمیر،ﷲ جانے ہندو تھا کہ مسلمان۔ اب یہ نام ایسا دورخاہے کہ کچھ پتا نہیں چل رہا۔ کاش کوئی اچھا مسلمان لڑکا ہو۔ لڑکے کی معرفت اس نے مدد کی بات تو کی، لیکن اس کا نام قمرانیس سے چھپا لے گئی تھی۔ کہہ دیا، رضوانہ کا خط کہیں گم ہوگیا ہے۔ یہ رضوانہ اتنی ضدی کیوں ہے؟ ضدی اور بدتمیز۔ کیا میری پرورش میںکہیں کوئی غلطی ہوئی ہے؟ سوچتے اور کرسی آگے پیچھے جھلاتے ہوئے قمر نے آنکھیں بندکرلیں۔

اماں میرے لئے بھی یہی کہتی تھیں کہ میں ضدی اور بدتمیز ہوں۔ شاید خود سے یہی سوال بھی کرتی ہوں گی کہ کیا ان کی پرورش میں کہیںکوئی غلطی ہوئی تھی۔ میںنے بی ایڈ کرنے کی ضد کی تھی، بی اے کے بعد گھر بیٹھے رہنے سے انکار کیا تھا، بال کٹوادئے تھے، ایک موٹے لڑکے سے، جو اماں ابا کے حساب سے باقی اور پہلوﺅں سے صحیح میچ تھا، شادی سے انکار کیا تھا، شلوار کی مہریاں تنگ کی تھیں اورقمیص کا گھیر کم کرکے آستینیں اڑا دی تھیں اور ٹیڈی تو نہیں، لیکن لگ بھگ ٹیڈی لباس پہنا تھا۔

قمر یکلخت ہنس پڑی۔ ایک بار وہ چھٹیوں میں گھر آئی تو اس نے جھاڑ پونچھ کر سلائی مشین نکالی۔ تیل ڈال کر اسے دن بھر کو چھوڑ دیا۔ اماں خوش ہوئیں کہ بیٹی کچھ سلائی پرائی کرنے جارہی ہے۔ کافی دن سے کہہ رہی تھیں کہ بھائیوں کے لئے پاجامے سی دے، لیکن دوسرے دن قمر قینچی اور اپنے کئی جوڑے لے کر بیٹھی توبڑی ٹیڑھی ٹیڑھی نظروں سے اماں نے اسے دیکھا۔

”اوئی بیوی، کیا کرنے جارہی ہو؟ میں تو سمجھی، نیا کچھ سینا ہے۔“

”اماں، ہمارے کپڑے بڑے جھولا جیسے ہیں۔ شلوار کے پائینچے اتنے چوڑے نہیں پہنے جارہے ہیں۔ ہمیں بڑی خفت ہوتی ہے۔ قمیصیں بھی اتنی لانبی چوڑی نہیں رہ گئیں۔“

”تو....؟“

تو کیا اماں؟ کاٹ کے شلوار کی مہریاں ذرا کم کردیں گے اور قمیصوں کو بھی چھانٹ دیں گے اور اماں، اب ہم دو جوڑے کپڑے الٰہ آباد میں درزی سے سلوائیں گے۔ تم ہمارے کپڑے سیتی ہو یا ہم خود سیتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ گھر کے سلے ہوئے ہیں، فٹنگ کا نام نہیں۔

جو جی چاہے کرو، بس آپے میں رہنا۔ لباس میں ننگاپن نہ آئے، ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔

قمر نے غصے میں قینچی پٹخی-ہر چیز میں الٹاہی سوچتی ہو۔ اب ننگاپن کہاں سے آگیا؟

ہاں، دیکھانا ننگاپن۔ سنا، بغیر آستینوں کی قمیصیں پہنی جارہی ہیں اور ساڑی کے بلاﺅز بھی۔

قمر غصہ بھول کر سناٹے میں آگئی۔ ایک قمیص کی آستینیں اس نے بھی اڑادی تھیں۔ اچھی طرح چھپا کر رکھنا ہوگا۔ یہاں پہننے کا تو سوال نہیں، لیکن بھنک نہ لگے کہ الٰہ آباد میں پہن رہی ہے۔ کانووکیشن کے موقعے پر ایک سہیلی سے مانگ کر لپ اسٹک لگالی تھی اور اماں کے سامنے اس کا ذکر کردیا تھا کہ سہیلیوں نے کہا، قمر لپ اسٹک لگاکے بہت اچھی لگ رہی ہے، تو اماں ہول گئیں کہ کنواری لڑکی اور لڑکوں کے بیچ میں ہونٹوں میں لالی لگا کے گھومی!

ہم نہ جانے کتنی باتوں سے نظریں چراتے رہے۔لڑکیوں نے جینز پہننا شروع کی۔انگریزی اسکولوں میں ویسے بھی یونیفارم اسکرٹ بلاﺅز ہی تھی۔ پلس ٹو تک اٹھارہ برس کی لڑکیاں اسکرٹ بلاﺅز پہن کر جاتی رہیں۔ لڑکیاں لڑکوں سے گھل مل کر بات کرتی تھیں، لیکن ہم نے ہائے ہائے نہیں مچائی۔ اب تو لڑکے لڑکی کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔ ایک ہم تھے بغل میں لڑکا آکے بیٹھ گیا تو جلدی سے سمٹ گئے۔ معلوم ہوکہ کھا ہی تو جائے گا۔ اب لونڈوں سے ابے تبے کرکے باتیں ہورہی ہیں۔ ہم سمجھتے تھے، اماں کم پڑھی لکھی ہیں، ہم پڑھ لکھ گئے ہیں، انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے پرابلم ہوجاتا ہے، مگر ہمارے لئے جو چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں وہ اماں کے لئے بڑی تھیں اور جو باتیں آج ہمیں بڑی لگ رہی ہیں وہ ہماری بیٹیوں کے لئے چھوٹی ہیں۔

رضوانہ کہتی ہے-دلی اور لکھنو میں فاصلہ ہے ہی کتنا اور ممی، ہم دو لڑکیوں کے ساتھ فلیٹ لے کے رہ رہے ہیں۔ ذرا پیسے آجائیں، پھر موبائل لے لیں گے، جب چاہنا بات کر لینا۔ اتنا ہولتی کیوں ہو؟

ہولیں کیوں نہیں؟ پھر وہی دلی،

big bad metro

رضوانہ کے فائنل امتحان ختم ہونے اور بمبئی جاکر ملازمت جوائن کرنے کے درمیان کوئی پندرہ بیس دن کا وقفہ تھا۔ لڑکی اس وقفہ میں گھر آرہی تھی۔ ایک آخری کوشش کرلی جائے گی۔ ارے بھائی، وکالت پڑھ لی، اب کچھ دن گھر میں رہ لو۔ یہیں پریکٹس کرلینا۔ کسی وکیل سے اٹیچ ہوجانا۔ گرچہ یہ وکالت کی پریکٹس نہایت گڑبڑ معاملہ تھا، پھر بھی بمبئی جاکر اکیلے رہ کر کسی لافرم میں نوکری کرنے کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔

چائے کی پیالی قمرکے ہاتھ میں کانپنے لگی۔ کیا رضوانہ سنے گی؟ کیا اپنے کریئر کے مقابلے میں والدین کے جذبات اور ایک ایسا مستقبل جس میں شادی ازحد ضرور ہو، اسے منظور ہوگا؟

ماں کی طویل گفتگو رضوانہ نے خاموشی اور صبر کے ساتھ سنی، اتنے صبر سے کہ قمر کو حیرت ہونے لگی کہ یہ وہی رضوانہ ہے؟ ذرا خیال آیاکہ اس کی طبیعت تو خراب نہیں؟ شاید سست ہورہی ہے۔ وہ نہ کسی دلیل پر جھنجھلائی، نہ جواب دیا۔ اطمینان سے ناخن گھس کر، ہاتھ پھیلاکر مخروطی نازک انگلیاں تکتی رہی۔ جب قمر خاموش ہوگئی تو اس نے نظریں اٹھاکر ماں کو دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا:

مما تمہاری یہ اس ریکارڈ پر اٹکی سوئی جگہ سے کبھی ہٹے گی یا نہیں؟ اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اس نے اعلان کیا

ہم جارہے ہیں میرا سے ملنے۔ دوپہر کا کھانا اس کے ساتھ کھائیں گے، مگر شام کے لئے کچھ انتظام کرکے مت رکھنا، آج پورا ڈنر ہم بنائیں گے۔ آج تم آرام کر لو۔ خدا حافظ۔-اس نے ماں کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا، پرس جھلاتی باہر نکل گئی۔

میرا انتظار ہی کررہی تھی، دوڑ کر لپٹ گئی۔ اچانک رضوانہ بڑے زور سے چونکی۔

اری میرا، تیرا تو ساتواں آٹھواں مہینہ ختم ہونے پر ہونا چاہئے تھا۔ کیا ہوا؟ یہ....یہ.... اس نے بڑی پریشانی کے ساتھ میراکے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

صبر ، رضوانہ، ذرا صبر! میرا نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

 خیریت ہے۔ ذرا دم لے لے اور بیٹھ۔

رضوانہ بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ متردد تھا

”تین مہینے ہوئے کہ میں نے ایم ٹی پی کرادی۔ چوتھا مہینہ تھا۔“

”ایم ٹی پی کرادی، کیا مطلب؟“ رضوانہ نے مزید پریشان ہوکر پوچھا۔

”الٹراساﺅنڈ کرایا تھا۔ بیٹی تھی۔“

”تیرا دماغ خراب ہوگیا تھا کیاری میرا؟“ رضوانہ سکتے کی کیفیت میں تھی۔

”ساس اور شوہر دونوں کا دباﺅ تھا۔“

”اور تو دباﺅ میں آگئی؟ پڑھ لکھ کر گدھے پر لاد دیا؟“

رضوانہ بے حد خفا تھی۔”تجھ سے اچھی تو میری مما ہیں۔ ایک جنریشن پہلے انہوںنے دوبیٹیاں پیداکرکے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے، بیٹیاں سہی، لیکن اب اور نہیں۔ تو بھی تو یہ کر سکتی تھی یا زیادہ سے زیادہ ایک تیسری بارٹرائی کرلیتی۔“

”شاید قمر چاچی پر اتنا دباﺅ نہیں پڑا تھا۔ تمہارے پاپا کا کوئی بزنس ایمپائر بھی نہیں تھا جس کے لئے لڑکے کی چاہ حدپار کرتی اور پھر ہمارے یہاں یہ مکھ اگنی والا چکر بھی تو ہے۔منھ میں آگ نہیں دی تو موکش نہیں ملے گا۔“

”اور اگلی باربھی کوکھ میں بیٹی آئی تو؟“

”دیکھتی ہوں، کتنی بار اورابارشن کرائیں گے۔ ایک بار کے لئے اور رضا مند ہوجاﺅں گی اور وہ آخری بار ہوگا۔ پھر بھی بیٹی ہوتو ہو۔“

”ایک بار اور؟میرا، تیری تو امیج خراب ہو رہی ہے۔ میں تو تجھے بڑا آئیڈیل مانتی تھی۔“

میرا ہنسی۔ ”اس’ اہروا‘کے fiasco کے بعد بھی؟“

”وہ بات اور تھی۔ تونے خود ہی سمجھ لیاتھا کہ اس اہروا کے ساتھ تیرا کوئی فیوچر نہیں ہے، پھر گھر والوں کو کیوں ناراض کیا جائے۔ گھوم پھر کے، تفریح کرکے واپس آگئی تھی کھونٹ پر۔ سچ میرا، اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔“

ایک زمانہ تھا، میرا کو چار گھر آگے والے پڑوسی کا بیٹا بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ رہی پڑوسی کے بیٹے کی بات، تو وہ تویہاں تک کہہ رہا تھا کہ میرا تیار ہو تو وہ خاموشی سے نکال لے جائے گا، پھر شادی کرکے آکے بڑوں کے پیر چھولیں گے، لیکن میرا کو معلوم تھا، لڑکا یادو تھا، ان کے گھر میں اماں کے حساب سے کوئی بھی بات گڑبڑ ہوتی تو اماں پھٹ سے کہتی تھیں۔

”ہیں نااہیر، بھینس چرانے والے! تمیز کہاں سے آئے گی؟ افسر بن گئے تو کیا اوردے گورنمنٹ ریزرویشن۔ نااہل آن آن کے کرسی پہ بیٹھ رہے ہیں۔“ اور تو اور، ایک بار ٹرین بہت لیٹ ہوگئی تو اماںنے کہا کہ:

”یہ کم ذات نیچ ذات بڑے عہدوں پر چڑھے بیٹھے ہیں، ہر محکمے کا بھٹہ نہ بیٹھے تو کیا ہو۔ کوئی کھٹک، کوئی اہیر ریل ہانک رہا ہوگا۔ اب چلا رہا ہے اسے بھینسا گاڑی کی طرح۔“

میرا ناراض ہونے کے باوجود ہنسی کے مارے لوٹ گئی تھی۔ تصور کیا کہ ریل کے آگے بھینس جتی ہوئی ہے۔ ارے، یہاں تو ملک کے آگے ہی بھینس جتی ہوئی ہے۔ چل رہا ہے ہچر مچر۔

ان دنوں رضوانہ بڑی پریشان رہاکرتی تھی۔ جانے میرا پہ کیاری ایکشن ہو، لیکن میرا بہت جلدی سنبھل گئی تھی۔ کچھ گھر والوں کو بھی سمجھ میں آرہا تھا، اس لئے اتنی تندہی سے رشتہ لانے میں جٹے اور یوں پھٹ سے شادی طے کی کہ گریجویشن تک پور انہیں ہونے دیا۔ میرا کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا، پھر خوش بھی رہی۔ شوہر اچھا ملا تھا۔ گھر والے بھی ٹھیک تھے، لیکن ابھی جو حال میں میرا نے خط میں لکھا تھا کہ اپنی ہم نام میر اکو جانتی ہوں جو کہہ گئی تھی۔ جو میں ایسا جانتی .... تو رضوانہ کو کہیں کچھ کھٹکتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔

”میرا، سچ بتانا، کیا تو سیریس تھی؟“

”پرانی بات ہوگئی، چھوڑ اسے۔ وہ بتا، وہ میرا جات بھائی، وہ کہاں تک پہونچا؟“ میرا نے بات پلٹ دی۔

”مائی فٹ، میرا! اب تو بھی؟“ پھر وہ یکلخت خاموش ہوگئی۔

اسے ایک بار رنجنا سریواستو نے بتایا تھاکہ ان لوگوں کے حلقے میں ایک بڑا اسمارٹ سامسلمان لڑکا تھا، سلمان قریشی۔ وہ کہہ رہا تھا۔

”یار مجھے رضوانہ بہت پسند ہے، لیکن کیا کروں۔ She is "Sameer's gal" رضوانہ بہت خفا ہوئی۔

پھر دو ایک بار وہ سمیر کے گھر جانکلی تھی تو اس کی ممی ملیں تو خندہ پیشانی سے، لیکن بیٹے سے بولیں:

”ذرا سنبھل کے چلنا۔ لڑکی مسلمان ہے، گھر تک چلی آ رہی ہے۔ ہمیں تو گھبراہٹ ہورہی ہے۔“

”کیوں اماں، آئی ایس آئی کی ایجنٹ لگ رہی ہے جو گھبراہٹ ہورہی ہے؟“

”اوندھی کھوپڑی تیری! ارے بات آگے مت بڑھا۔ رشتہ توڑو تو دکھ ہووے، جوڑو تو جگ ہنسائی۔“

”اس رشتے سے آگے کچھ سوجھتا ہے اماں؟ ایک رشتہ دوستی کا بھی تو ہوتا ہے۔“

”لڑکے لڑکی میں کوئی دوستی نہیں ہوتی۔ سلام دعاسے آگے ہورہا ہے تو پھر وہی ہوتاہے جو بھگوان نے گڑھا ہے۔ استری پرش کا رشتہ۔ ہم کوئی جاہل جھپٹ نہیں ہیں، پڑھے لکھے ہیں۔“

”پڑھ لکھ کے گدھے پہ لاد دیا۔“سمیر منھ ہی منھ میں بھنبھنایا اور آکے پورے ڈائیلاگ رضوانہ کو سنائے۔ خوب ہی تو ہنسا۔ پھر چڑانے کے لئے بولا:

”تو ر جوانہ ڈارلنگ آگے کیوں نہ وہی رشتہ ہوجائے جو بھگوان نے گڑھا ہے، استری پرش کا رشتہ؟“ (سمیر کی ماں رضوانہ کو رجوانہ کہتی تھیں۔)

”چپ کیوں ہوگئی؟“ میرا نے پوچھا۔

”کچھ نہیں، سوچ رہی تھی کہ سمیر کی ماں میں اور تجھ میں کیا فرق ہے؟ مردوں اور عورتوں کے درمیان افلاطونی دوستی کا تصور ابھی تک ہندوستان میں پیدا نہیں ہوسکا ہے۔“ اس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔

”پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں!“ میرا مسکرائی۔ ”میری ایک بنگلہ دیشی فرینڈ ہے....“

رضوانہ نے بات کاٹ دی۔ ”ایک ہی گھر میں لوگ رہ رہے ہوں اور دیواریں اٹھاکر آنگن بانٹ دو تو لوگ بدل جائیں گے کیا؟ سارا کچھ تو ایک ہی ہے۔ جب بات کرو اس میں پاکستان گھسادے گی، بنگلہ دیش کو لے آئے گی۔ بجرنگی ہوگئی ہے کیا؟ یا دُرگاوا ہنی میں شامل ہوگئی ہے؟“ رضوانہ اور زیادہ خفا ہوئی۔

’بجرنگی‘ پر میرا زور سے ہنسی۔ ”کیا اب ہم پالیٹکس ڈسکس کریںگے؟“

”بالکل نہیں کریںگے، اس لئے کہ ہم اتنے دن بعد اس کے لئے نہیں ملے ہیں، لیکن میرا، اس بار میں نے پاکٹ منی سے بچابچا کے دو کھلونے خریدے تھے۔ میرا بیگ دیکھ۔ ایک تیری بٹیا کے لئے اور دوسرا ہونے والے بچے کے لئے۔ تیرا پیٹ دیکھ کر تو میں سناٹے میں آگئی۔ تو نے اس کی اطلاع بھی نہیں دی تھی۔ سچ بتانا میرا، کوئی

 guilt feeling

 نہیں ہوئی؟ صدمہ نہیں ہوا؟“

”رضوانہ، زخم مت کرید۔ ہم نے کچھ سوچ کر جیسے نیرج یادو کو چھوڑا تھا، اسی طرح اس بچے کو بھی، اور بچہ کہنا نہیں چاہئے۔ وہ صرف ایک 

foetus

 تھا۔“ پھر قدرے توقف کے بعد بولی :

 ”تجھ سے تو بہت پرانا رشتہ ہے۔ تیری نانیہال میں ہی تو ممی کے چاچا تھے جن کے یہاں چوتھی بیٹی ہوئی تو دادی نے شروع ہی سے دھمکی دینی شروع کی تھی کہ اگلی بار بیٹی ہوئی تو وہ چاچا کی دوسری شادی کرائیں گی، لیکن چلو، ماما ہوگئے، ونئے ماما۔ چھٹی اولاد پھر بیٹی ہی ہوئی۔ دادی کا اصرار تھا کہ کم از کم دو بیٹے ضرور ہوں۔ خیر چلو، ایک تو آگیا تھا منھ میں آگ لگانے والا، اس لئے ممی کی چاچی بچ گئیں۔ اب میں تو پانچ اور چھ کی لائن لگانے سے رہی۔“

رضوانہ ہنسی: ”ممی جب میکے کے قصے سناتی ہیں تو اس میں دو بہت دلچسپ کردار ہوتے ہیں؛ ایک پگلی جمادارن اور ایک امیرن خالہ۔ کہاں کے لوگ کہاں مل جاتے ہیں! تیری ممی کی چاچی کو مما شکلائن چاچی کہا کرتی تھیں۔ ان کی چوتھی بٹیا پر پگلی جمادارن نے بڑے تاسف کا اظہار کیا تھا۔“

میرا بھی ہنسی۔ ”چوتھی بیٹی پیدا کرنے والی عورت ہے ہی اس لائق کہ مہترانی بھی اس پر ترس کھائے۔ 72میں ابارشن کو قانونی اس لئے بھی بنایا گیا کہ لوگ لڑکے کی چاہ میں لڑکیوں کی لائن لگاتے چلے جاتے ہیں۔“

”اور ہم اکیسویں صدی میں داخل ہونے والے ہیں!“ رضوانہ نے لقمہ دیا۔

”مگر ہم جی رہے ہیں اٹھارہویں صدی میں۔ اسے نہ تم بدل سکتی ہو نہ میں۔“

”میں تو بدل لوں گی۔ تو شاید ڈرپوک ہے۔ تیری بیٹی بدلے گی۔“ رضوانہ کے لہجے میں سرزنش تھی۔

میرا زور سے ہنسی۔ ”تیری برادری تو اور بیک ورڈ ہے۔ ایک تو ہی bondبنی پھر رہی ہے۔ ہاں، ابھی تیرے یہاں دلہنیں جلائی نہیں جا رہی ہیں اور ذات کو لے کے بھی اتنا رَولا نہیں مچتا۔“

”ہاں، دلہنیں جلائی نہیں جاتیں، یک طرفہ طلاق دے کر گھر بھیج دی جاتی ہیں کھڑے گھاٹ۔ تین طلاق کو لے کے تم جتنی نکتہ چینی کرلو، لیکن یہ فائدہ ضرور ہے کہ جان بخش دی جاتی ہے۔ اب اگر کسی لائق ہو تو کھا کما لو۔ زیادہ خوش قسمت ہو تو دوسرا بھی شاید مل جائے ورنہ اماں ابا پر بوجھ بنو، بھائی بھاوج کی چاکری کرو، جوتیاں بھی کھاﺅ۔ رہی ذات، تو اشرافیہ کی چار ذاتوں سید، شیخ، مغل ، پٹھان پر اتنا رَولا نہیں مچتا۔ سید کی بیٹی جلاہا گھر لا کے دیکھے تو سہی!“

”پھر بھی ذات کو لے کر honour killing نہیں ہے۔ جلاکر مار دینے سے تو یہ option بہتر لگتا ہے۔ عورت جاہل ہوئی تو جھاڑو برتن کرے گی۔ مری نہیں تو کسی طرح جی لے گی۔ زندگی ہر حال میں موت سے اچھی لگتی ہے۔“

”لوگ خود کشی بھی تو کرتے ہیں۔“

”کٹھ حجت وکیلنی! خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ ویسا extremeحالات میں کبھی کبھی ہی ہوتا ہے، اور یہ لوگ نارمل نہیں رہ جاتے جو اپنی جان لے لیتے ہیں، سمیر خودکشی کی دھمکی دے رہا ہے کیا؟“ اس نے خفا ہوکر کہا۔

رضوانہ قہقہہ مار کے ہنسی: ”مما جاننا چاہ رہی تھیں کہ وہ مسلمان ہے کہ ہندو۔ ہم صفا ٹال گئے، اس لئے نہیں کہ ہندو کہنے پر ہمیں کوئی جھجھک تھی، مگر مما کا suspense قائم رکھنے میں بڑا مزہ آرہا ہے۔“

”رہی بدتمیز کی بدتمیز! بیچاری قمر چاچی۔“

”ارے ہم تو بہت شریف ہیں۔ بالکل مما، بلکہ نانی کی جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اصل تو وہ عمرانہ بم پھوڑنے والی ہے۔ وہ انوراگ کا معاملہ ذرا سیریس ہوتا جا رہا ہے۔“

میرا کھانا لگوانے کے لئے اٹھنے لگی تھی۔ اس نے چلتے چلتے ذرا زور سے کہا: ”ہمیں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔ جب پچھلی بار عمو سے ملے تھے تو اس کے پاس انوراگ کے علاوہ کوئی ٹاپک ہی نہیں تھا۔ عزیز کے یہاں سے مٹن دو پیازہ منگوالیا ہے اور مٹر پلاﺅ خود بنایا ہے۔ چلے گا؟“

”دوڑے گا، دوڑے گا۔“

میرا کھانے کی بہت شوقین تھی۔ اس کے اپنے گھر میں سب لوگ سبزی خورتھے، لیکن سسرال میں مرد گوشت کھاتے تھے۔ شادی سے پہلے میرا چکھ چکی تھی، لیکن گھر میں کسی سے بتایا نہیں تھا۔ وہ جب بھی قمر چاچی کے یہاں آتی اور بریانی پکی ہوتی تو گوشت کی بوٹیاں ہٹا کر چاول لے کر کھایا کرتی تھی، پھر ایک دن دھیرے سے اس نے ایک چھوٹا سا ٹکڑا مٹن کا بھی لیا۔ بھر پیٹ بریانی کھا کر بولی: ”چاچی، پتا نہیںیہ vegetarianismکہا ں سے آگیا۔ اب دیکھو نا، اتنی مزیدار چیز سے اتنے لوگ محروم ہیں۔ ہماری اماں تو پریشان رہتی ہیں کہ ہم آپ کے یہاں ہر وقت بیٹھے رہتے ہیں، ضرور گوشت کھاکے آئیں گے۔ آریہ تو گوشت کھایا کرتے تھے۔“

”آریہ تو پتا نہیں کیا کیا کھاتے تھے، لیکن تو تو چپ ہی رہ!“ قمر ہنس پڑی۔

”ہمارا مطلب یہ چاچی کہ یہ ساری food habits ہیں، ان کا دھرم سے کیا لینا دینا ہے؟ اگر ہے تو انسانوں نے ہی جوڑا ہے۔“

”تجھے گوشت کھانا ہے تو کھا، بکرے کیوں گن رہی ہے؟“

رضوانہ گرمی کی چھٹی میں گھر آئی ہوئی تھی۔ میرا کی شادی طے ہوچکی تھی۔ وہ دونوں کافی وقت ساتھ گزار رہی تھیں، گھو م گھوم کر خریداری کر رہی تھیں۔

”چاچی، اماں کے سامنے بول مت دیجئے گا کہ ہم یہاں آکے بریانی اڑاتے ہیں۔“

دراصل دوستی لڑکیوں میں ہی زیادہ تھی۔ قمر کا نانہال اور میراکی ماں کا دادیہال ایک ہی شہر میں تھا۔ شکلائن کو اماں جانتی تھیں، ابو اور شکلا جی میں جان پہچان تھی، لیکن خواتین میں آنا جانا بہت کم تھا۔ اب یہاں لکھنو¿ میں لڑکیوں میں اتنی دانت کاٹی دوستی ہوگئی تھی۔ میرا کی شادی بہت جلدی طے کر دی گئی تھی۔ ویسے قمر کا خیال تھا کہ اچھا ہی ہے۔ رضوانہ کی وجہ سے وہ پریشان رہ رہی تھی۔ اسے بھی ناتھ دیا جاتا تو اچھا تھا۔

”ایک تو تمہاری اماں سے ملاقات ہی چھٹے چھ ماہے ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی چوری میں وہ لوگ شریک ہوں تو دونوں ڈرے رہتے ہیں، کون کس کا راز کھولے گا۔“

”آپ چور کہاں سے ہوگئیں؟“ میرا قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔

”کیوں، ہمارے اوپر تمہارا دھرم بھرشٹ کرنے کا الزام نہیں لگے گا؟“

”ہم نے آپ کی پتیلی سے چراکر بریانی کھائی۔ آپ تو منع کرتی ہی تھیں۔“ وہ پھر ہنسی۔

میرا کا مزاج ہی ایسا تھا۔ قمر اسے ’قلقل مینا‘ کہا کرتی تھی۔ ہنستی ہے تو لگتا ہے چاندی کی تھالی پر چاندی کے کنچے لڑھک رہے ہوں۔ صبح صبح گومتی کے کنارے ہنومان مندر میں پوجا آرتی ہوتی ہے اور دور سے گھنٹوں کی آواز آتی ہے تو لگتا ہے، میرا ہنس رہی ہے۔

”قمر چاچی!“

”ہاں، بولو بٹیا۔“ قمر کے لہجے میں اتنی محبت تھی کہ رضوانہ جل بھن گئی۔

”مما، کبھی ہم سے بھی ایسا میٹھا بول لیا کرو۔“

”تم میرا کی طرح تمیز دار بن جاﺅ۔“

”قمر چاچی، ابھی تو ہم قطعی تمیز کی بات نہیں کررہے۔ ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں لفظ چور نہایت فنی (funny)لگتا ہے۔ بلاوجہ ہنسی آتی ہے اور اگر یہ لفظ آپ کے حوالے سے استعمال کریں تب تو ہاہاہا....“ وہ اتنی زور سے ہنسی کہ انیس کمرے سے باہر آگیا۔

”کیا ہورہا ہے، لڑکیو؟“میرا جلدی سے دبک گئی۔

”نمستے چاچا!“

 اس نے چہرہ سنجیدہ بنا لیا اور اٹھ کر انیس کے پیر چھوئے۔

وہ واپس لوٹ گیا۔ تینوں خواتین خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ عمرانہ کے امتحان نہیںہوئے تھے، وہ کمرے میں پڑھ رہی تھی۔ چلتے چلتے پلٹ کر بولا : ”ذرا دھیرے سے ہنسو، عمو پڑھ رہی ہے۔“

میرا نے ہونٹ کاٹے، پھر دھیرے سے بولی: ”چاچی، ہم بڑے خوش قسمت ہیں۔“

”کیوں؟“ رضوانہ نے تیوریاں چڑھائیں۔ ”بی اے کرتے سے اٹھا کر شادی کر دی جارہی ہے، اور یہ خوش قسمت ہیں!“

”بی اے تو ہم کر ہی لیں گے۔ ایم اے بھی کریں گے۔ اس کے بعد بھاڑ بھی جھونکیںگے۔ فی الحال خوش قسمت اس لئے کہ ہماری سسرال میں گوشت کھایا جاتا ہے۔ مطلب، مرد کھاتے ہیں۔ پلیٹ میں سے جھوٹن ہمیں بھی مل جایا کرے گی،“ وہ مسرور لہجے میں بولی۔

”ہے ہے بچی! تو جھوٹن کیوں کھائے گی۔ بری باتیں منھ سے نہیں نکالتے“ قمر نے خالص اپنی اماں کے انداز میںکہا۔

”مما، دونٹ بی سلی!“ رضوانہ نے کہا: ”مما سارا مذاق چوپٹ کر دیتی ہیں۔“

”مذاق نہیں۔ سلی تو ہے! ارے، عورتیں گوشت نہیں کھاتیں تو پھر ہم چپکے سے پلیٹ سے اٹھا کر ہی کھا سکیں گے نا؟ ہاں، ساتھ میں چوک جاکے ٹنڈے کے کباب اڑا آئیں یا کسی ہوٹل میں کھالیں، وہ الگ بات ہے،“ قمر نے کہا۔

”بہت سے گھروں میں عورتیں گوشت نہیں کھاتیں، مرد کھاتے ہیں۔“

”مگر عورتوں کو ان کے لئے بنانا پڑ جاتا ہے۔ ہماری ایک دوست کی چاچی ناک پر کپڑا رکھ کے ڈوئی کے ڈنڈے سے گوشت دھوتی تھیں اور بنا کر رسوئی سے ہٹ جاتی تھیں۔ ان کے ہسبنڈکو رات کے کھانے میں تو چاہئے ہی چاہئے۔“

”لیکن میری ایک کایستھ دوست کہہ رہی تھیں کہ ان کے خاندان میں سہاگن عورتوں کو تھوڑا سا گوشت ضرور کھانا ہوتا تھا۔  ہفتے میں کوئی دو دن،“ قمر نے کہا۔

”سہاگن کو کیوں؟“ بیوہ کو کیوں نہیں؟ اور کنواری کو؟“

”کنواری کو بھی نہیں۔“ قمر ہنسی

”مگر کیوں؟‘ ‘ رضوانہ جھنجھلائی۔

” میری مت ماری گئی جو میں تم لڑکیوں کے سامنے یہ بات لے بیٹھی۔ بات میں بات نکل گئی تم کٹھ حجتوں کے سامنے۔ ضروری نہیں ہر بات تم جانو۔“

”چل رضوانہ، میرے لئے چکن کی ساڑیاں لینی ہیں۔ چوک چلتے ہیں۔“ میرا نے بات ختم کرتے ہوئے پرس ٹٹولا۔ ”ہاں، پیسے رکھ لئے ہیں۔“

دونوں خوش و خرم لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرا کے بال بہت گھنے اور لانبے تھے۔ اٹھتے ہوئے اس نے گھنی لانبی چوٹی پیچھے پھینکی تو اس کا دلکش مسرور چہرہ قمر کے دل پر نقش ہوگیا۔ اللہ سب کی بیٹیوں کو خوش رکھے۔ کیسی معصوم بچی ہے اور اللہ میری بیٹیوں کے لئے بھی جلد ہی ایسے لڑکے مہیا کردے کہ ہم خوشی خوشی ان کا بیاہ کریں۔

میرا کے گھر والے خاصے پیسے والے تھے۔پہلی بیٹی کی شادی کر رہے تھے، اس لئے حیثیت سے بھی بڑھ کر خرچ کر رہے تھے۔ ان دنوں لڑکیوں میں ایک فیشن چل نکلا تھا کہ زیور نہیں پہنیں گی، ناک نہیں چھدوائیں گی۔ سیندور ڈالیں گی تو چھپا کر، مانگ کے اندر ایک ننھی سی بندی، لیکن میرا آج کے فیشن میں نہیں بہی تھی۔ اسے یہ سب بہت پسند تھا۔ ”شادی کے بعد تو ہم چھمک چھلو بن کر رہیں گے۔“ وہ زیور ٹرائی کررہی ہوتی تو کانوں کے جھومک ہلاتی، ہاتھوں میں سونے کے کنگن بجاتی۔ تھر ک تھرک کے سب دکھاتی اور پوچھتی : ”یہ کیسا لگ رہا ہے؟“ ساڑی کے پلو کو سر پر لیتی۔ کبھی کبھی گھونگھٹ بھی نکال لیتی۔ وہیں دکان میں ہی ساری نوٹنکی ہو جاتی۔ عمرانہ کو جب موقع ملتا تھا، وہ بھی ساتھ لگ لیتی تھی۔ میرا کا گھونگھٹ اور آگے کھینچ کر بہت بوڑھی آواز بنا کر کہتی: ”ذرا ٹھیک سے پردہ کرو بہو، سامنے سسر بیٹھے ہیں۔ اماں نے کیا سکھا کے بھیجا ہے؟“ سامنے سسر بیٹھے ہیں، کہتے ہوئے ایک بار تو اس نے کہنی مار کر للو لال بمل کشور کی مشہور دکان میں گدی پر بیٹھے ہوئے تھلتھلے سیٹھ جی کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ میرا ہنستے ہنستے وہیں لوٹ گئی۔ ساتھ بیٹھی خریدار عورتیں پلٹ پلٹ کر اسے دیکھنے لگیں۔

للو لال بمل کشور والوں نے میرا کا شادی کا لہنگا، راجستھان سے گوٹے کا کام کراکے منگایا۔ میرا نے ڈیزائن خود تیار کر کے اس کا اسکیچ ان لوگوں کو دیا تھا۔ جب جوڑا بن کے آیا تو فوراً ہی پہن کے بیٹھ گئی، پھر بھر ہاتھ چوڑیاں پہن کے، کندن کا ٹیکہ لگا کے کمرے سے نکلی تو ماںنے ایک دو ہتڑ اس کی پیٹھ پر مارا اور دوسرا اپنے ماتھے پر۔”اری بے شرم، شادی سے پہلے جوڑا چڑھا لیا۔ اپ شگن ہوتا ہے۔“

میرا نے دوہتڑ کی قطعی پرواہ نہ کی، حالانکہ لگا زور سے تھا۔ ”ارے ممی، ہم ٹرائل لے رہے تھے اور دیکھ رہے تھے، دلہن بن کے کیسے چپنڈخ لگیں گے۔ ممی، ایسا مردانہ ہاتھ ہے تمہارا! اچھا مارلو، مارلو، پھر ہم نند رانی مشرا کی بہو بن جائیں گے، تب مار کے دیکھنا۔ بڑی دبنگ ساس ہے ہماری۔“

شبھ شبھ بول! یہ تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ نند رانی مشرا بڑی دبنگ ہیں؟“

”ارے ہمیں سب خبر ہے۔ پوری ریسرچ کرلی ہے ہم نے۔ بڑی بہو کو تو جلانے کی کوشش بھی کر چکی ہیں۔“

”ہے ہے لڑکی، بھگوان سے ڈر! سچ ہے، کلجگ آگیا ہے۔ پہلے ساسیں بہوﺅں پر دوش لگاتی تھیں، اب بہوئیں ....“ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت میرا کی ممی دل ہی دل میں ڈر گئی تھیں۔کہاں سے ایسا سن لیا لڑکی نے؟ ذرا پتا لگائیں، لیکن ساری ریت رسمیں پوری کرکے سگائی تک ہو چکی تھی۔ انہوں نے ٹوہ لینی شروع کی۔ سگائی ہی تو ہوئی ہے۔ اگر خاندان میں ایسی کوئی افواہ بھی ہے تو میرا کے پاپا سے کہنا ہوگا۔ میرا دل ہی دل میں ہنس ہنس کر لوٹیں لگاتی رہی۔

رکھب داس کے یہاں کندن کا پورا سیٹ آرڈر کردیا گیا۔ کندن کے زیور میرا کو بہت پسند تھے۔ اس کی نانی نے اس کے لئے کشمیرسے شاہ توش کی شالیں منگوائیں۔ چاندی کا ڈنر سیٹ دیا گیا۔

رضوانہ کے گھر سے شادی میں سب لوگ شریک ہوئے۔

”ارے دلہن بی بی، ذرا شرم کرلو!“ میرا کے زیادہ چھم چھم کرنے پر رضوانہ نے مصنوعی خفگی سے آنکھیں نکال کر اسے کہنی ماری تھی۔

”جل مت!“ اس نے گھونگھٹ اٹھا کر کہا: ”تیری شادی جلدی ہی کرائیں گے۔“ پاس کھڑا دولہا بھی ہنس پڑا۔ میرا کی کوئی بہن نہیں تھی۔ وہ اکلوتی لڑکی تھی۔ دولہا نے خوش دلی سے رضوانہ اور عمرانہ کو سالیاں تسلیم کرلیا۔ میرا کی ممی نے جوتا چرائی کی رقم میں میرا کی چاچا ماما کی لڑکیوں کے ساتھ ان دونوں بہنوں کا برابر کاحصہ لگایا۔

رخصت ہوتے وقت میرا نے گھونگھٹ ذرا لمبا کھینچ لیا تھا اور قدرے جھکے شانوں کے ساتھ اس کے اندر منھ چھپا کے یوں کھی کھی کھی کھی کرتی ہل رہی تھی کہ لوگ سمجھے وہ رورہی ہے۔ صرف رضوانہ کو بقول خود اس کے ”یہ کمینہ پن“ معلوم تھا۔ بعد میں اس نے کہا تھا: ”ارے کون سی رخصتی، کہاں کی رخصتی! ڈالی گنج سے اٹھ کے ڈالی باغ چلے آئے۔ سسرال والے بھی ڈر کے رہیں گے۔ بہو کو مائیکے بھاگنے میں پل بھر بھی نہ لگے گا۔ یہ بھی نہیں کہ اسٹیشن سے پکڑ کے واپس لے آئے۔ رونے کی بات ہی نہیں رہ گئی تھی۔ اور سن رضوانہ، جل مت جائیو۔ ہمارے سسرال والوں نے یاقوت کا سیٹ چڑھایا ہے۔“

”جلے ہماری جوتی!“رضوانہ چڑ گئی۔

 ”دیکھا نہیں تھا کیا بری پہ؟“

بچی بہت جلدی ہوگئی تھی، لیکن اس سے پہلے میرانے بی اے مکمل کرلیا تھا۔ پھر کچھ دن کے لئے اس کی پڑھائی میں بریک لگ گیا تھا، گرچہ سسرال والوں کا کہنا تھاکہ وہ اسے پڑھائی سے روک نہیں رہے ہیں، وہ خود ہی گھر گرہستی اور بچے میں لگ گئی ہے۔ سسرکا بہت بڑا پرنٹنگ پریس تھا۔ اس میں بھی ہاتھ بٹانے لگی تھی۔

”اری میرا، تولکھنوجیسے شہر میں ہے، جوائنٹ فیملی میں رہ رہی ہے۔ بچی کو ساس دیکھ لیں گی، آگے کی پڑھائی کرلے۔“رضوانہ کی دیکھا دیکھی، یا ازخود، میرا کو بھی قانون پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔

”ارے تو لاکر لے نا۔ لکھنومیں تو ہے ہی۔“

”لااور میں؟“وہ زور سے ہنسی تھی۔ ”ابھی میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی

 Plain Tales From British Raj

۔ اس میں لکھا تھاکہ سولہویں صدی کے وسط میں جب لڑکیاں جہاز میں بھربھر کر شوہروں کی تلاش میں برٹش انڈیا آیا کرتی تھیں تو انہیں صرف دو باتیں سکھائی جاتی تھی۔ ’چار چھ شام کو پہننے کے اچھے لباس رکھ لینا کہ دلکش نظر آﺅ اور زیادہ عقلمند اور تیز طرار بننے کی کوشش مت کرنا، اس لئے کہ مردوں کو زیادہ ذہین اور زیادہ تعلیم یافتہ بیویاں قطعی پسند نہیں ہیں۔‘ اس ایٹی ٹیوڈ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میرے شوہر اور سسرال والوں کو بی اے سے زیادہ تعلیم یافتہ بہو کی قطعی ضرورت نہیں اور لا! ارے باپ رے....“ اس نے آنکھیں پھیلائیں۔

”وہ تو تو ہی کر۔ ابھی اونٹ پہاڑ تلے نہیں آیا ہے۔“

”ارے ، تو تجھے میوزک کا اتنا شوق تھا، سیکھ بھی چکی ہے، وہی جوائن کر لے۔ بھات کھنڈے سنگیت ودیالیہ موجود ہے۔“

”اور پھر چوک میں جاکے بیٹھ جاﺅں امراﺅ جان ادا بن کے؟“ میرا کا لہجہ تلخ ہو اٹھا۔ رضوانہ ہکا بکا رہ گئی۔ میرا منھ پھٹ تھی اور الھڑ بھی، جو منھ میں آئے بکتی رہتی تھی، لیکن یہ ذرا کچھ زیادہ ہوگیا تھا۔

”مر، جو جی چاہے کر۔“

اب رضوانہ نے میرا جیسی پیاری، زندگی سے بھرپورلڑکی اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ ایک عزیز ترین سہیلی سے سچ مچ تو نہیں کہاتھا کہ مر۔

رضوانہ کو بمبئی کی اس لافرم میں کام کرتے کئی سال ہوچکے تھے۔ لوگوں کے پاس اب موبائل فون آگئے تھے۔ رضوانہ نے نمبر دیکھ کر کہا۔ ”کتنی بار کہا مما سے کہ آفس کے اوقات میں فون نہ کیا کریں۔ پتا نہیں کیا بات ہے۔ اب انہیں بھی ایک موبائل لے کر دینا پڑے گا، کہ زیادہ ضرورت ہو تو میسج کردیں۔“اس نے فون بند کر دیا، لیکن دوبارہ رِنگ آیا تو اٹھانا ہی پڑا۔ قمر چہکو پہکو رو رہی تھی۔ رضوانہ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

”کیا بات ہے، مما؟“

”میرا .... میرا نہیں رہی۔“

”کیا؟“

”میرا نہیں رہی، رضوانہ۔“

رضوانہ وہیں دھپ سے زمین پر بیٹھ گئی۔ فائل اس کے ہاتھ سے گر پڑی تھی جو وہ کھڑی ہوکر پلٹ رہی تھی۔ اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں۔ میرا کی بچی آپریشن سے ہوئی تھی، پھر ایک اسقاط کرایا تھا۔ پھر ایسا ہی کچھ ہو اہوگا اور ساری جدید سہولیات کے باوجود کیس بگڑگیا ہوگا، ورنہ میر اتو بڑی صحت مند لڑکی تھی اور عمر کیا، یہی تیس ایک سال۔

”میرا نے خودکشی کی ہے۔“

قمر نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔

رضوانہ دوسرے ہی دن ہوائی جہاز سے لکھنو¿ پہنچ گئی۔ دلی سے عمو بھی آگئی تھی۔ لوگ میرا کے پھول چننے گل لالہ گئے ہوئے تھے۔ 

(لکھنؤ والوں کی ستم ظریفی، شمشان گل لالہ ہے اور قبرستان عیش باغ)

میرا تو بس اتنی ہی پڑھی لکھی تھی کہ شوہر کے منھ کو نہ آسکے، لیکن ساتھ ہی فراٹے سے انگریزی بول کر اس کی عزت افزائی کا سبب بھی بنے۔ وہ بے حد سگھڑ گرہستن تھی گرچہ اس نے کبھی گھر پر کام نہیں کیا تھا اور انیس برس کی عمر میں کھاتے پیتے گھرکی کون سی لڑکی کام کرتی ہوئی جاتی ہے، لیکن جب وہ بہو اوربیوی بنی تو اسے سال بھربھی نہ لگا گھر سنبھالنے میں اس نے نوکروں کے باوجود کچن سنبھالنا بھی سیکھ لیا۔ اس کی ساس نے ”نان ویج“ کا چولہا الگ کر دیاتھا۔وہاں وہ شوہر کے لئے گوشت اور مرغ کے نت نئے پکوان بناتی جن کے لئے اس نے کھانا پکانے کا ایک کورس جوائن کیا تھا، پھر برتن خود مانجھ کر الگ کردیتی اس لئے کہ اس کی ساس کو اعتراض ہوتا تھا کہ کہارن اُدھر کے برتن مانجھ کر پھر اِدھر وہی ہاتھ لگائے گی۔ وہ اتنی کم عمر لڑکی اتنی سمجھدار کہ ساس کے سامنے گوشت نہیں کھاتی تھی۔ چپکے سے شوہر کی پلیٹ سے اٹھا کر کھالیتی تھی۔

”گوشت پکے تو ٹیبل پر لانے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے کمرے میں ہی کھاتے ہیں۔ ہمارے تو چھکے پنجے۔ ہم خوب اڑاتے ہیں۔ ممی کو ہمارا گوشت کھانا پسند نہیں ہے۔ کہتی ہیں، گوشت کھانے سے لڑکیاں ایگریسیو

 (aggressive)

 ہوجاتی ہiں۔“وہ منھ چھپا کر خوب ہنسی۔”خود تو پیاز لہسن تک نہیں کھاتی ہیں، پھر چنڈی کااوتار کیوں بنی رہتی ہیں۔“ اس نے ٹھی ٹھی ٹھی شروع کی۔

”بند کریہ پاگلوں والی ہنسی۔“کہنے کو تو کہہ دیا، لیکن رضوانہ خود اس کے ساتھ ہنسنے لگی تھی۔”اچھا یہ بتا، پھر تو کھاتی کیسے ہے؟ دوبارکھاتی ہے کیا؟ ساس سسر کے ساتھ ٹیبل پر تو بیٹھنا ہوتا ہوگا؟“

”یہ عام طور سے دیر سے کھاتے ہیں۔ اس سے پہلے تھوڑا ڈرنک بھی کرتے ہیں، اس لئے ہم ٹیبل پر بیٹھ کر تھوڑا سا چکھ کر، کچھ لپاڈگی کرکے اٹھ جاتے ہیں اور بریانی، دوپیازہ دکھائی پڑے تو ہم تو بھرے پیٹ پر کھالیں۔“ وہ پھر ہنسی۔

”اور یہ تو گنوار کی طرح ’ان، انہیں، وہ‘ کیا کرنے لگی ہے۔ منگنی کے بعد تو سنجے سنجے یوں کرتی تھی جیسے سنجے نہ ہوا، چھوٹا بھائی ہوا۔“

”ممی کو ناپسند ہے۔ پہلے ہم نے ان کے سامنے نام لینا بندکیا، لیکن اکیلے میں نام لیتے رہنے سے عادت نہیں چھوٹ رہی تھی، منھ سے نکل ہی جاتا تھا تو ساس سسر، آئے گئے، چاچا چاچی، سب گھورنے لگتے تھے۔ اب بھائی، ہمیں نندرانی مشرا کی بڑی بڑی آنکھوںسے بہت ڈر لگتا ہے۔ ہم نے کہا، چھوڑ بھائی، ٹنٹاختم۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ رہے گا تو شوہر ہی، نام میں کیا رکھا ہے۔“

اس نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی بڑوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھا تھا (یا اس سے رکھوایا گیا تھا۔)

کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟

لوگ باگ بہت دن بات کرتے رہے۔ رضوانہ نے چھٹیاں سنبھال کر رکھی تھیں، اس لئے تیرھویں تک رک گئی تھی۔ ایک دن اس کی چھوٹی سی بیٹی کا منھ دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ اس کا جی چاہا، کس کس کے جھانپڑ لگا کے میرا کا بیضوی، گورا چہرہ لال کردے۔ (پھراپنے خیال کے انتہائی درجے کے بے تکے پن پر اپنا ہی منھ پیٹ لیا۔) اس بچی کا تو خیال کیا ہوتا۔ بڑھتی عمر والے ماں باپ کا خیال کیا ہوتا۔ خود سارے دکھوں سے بے نیاز ہوگئی، مگر ایسے کون سے دکھ تھے؟ ایسا کون سا پاگل کر دینے والا لمحہ ذہن پر حاوی ہوگیاتھا جو انسان کی بنیادی کمزوری، اس کی زندہ رہنے کی خواہش کو کہنی مارمار کر پیچھے ڈھکیل دے؟

میرا کی ہم عمر کزن نے کئی باتیں بتائیں جو کہیں جگ ساپزل (Jigsaw Puzzle) کے ٹکڑوں کی طرح مل کر ایک تصویر اجاگر کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔

”ہم سے تو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا، جانہوی۔ ہم تو بچپن سے اس کے رازدار تھے۔ ذرا سا بھی شک ہوتا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تو کچھ کرتے۔ اس نے تو موقع ہی نہیں دیا۔“رضوانہ رونے لگی تھی۔

”کہا تو ہم سے بھی کچھ نہیں، رضوانہ دیدی۔ ہم بس آتے جاتے، ملتے جلتے، کچھ سمجھ رہے تھے اور کبھی کبھی دوسطروں کے درمیان، دوشبدوں کے پیچھے لکھی لکھائی پڑھنے کی کوشش کرلیتے تھے۔ آپ تو یہاں تھیں نہیں، کبھی کبھی ہی آتی تھیں۔“ اس نے بات جاری رکھی۔

”میرا آگے پڑھنا چاہتی تھی۔ اس کی اجازت نہیں ملی۔ کہا، بی اے کرا تو دیا، اب اور کیا کرنا ہے؟ میوزک کلاس کرنی چاہی، وہ منع۔ تھیٹر آرٹس گروپ جوائن کرنا چاہا تو پورا وبال ہی کھڑا ہوگیا۔ کسی زمانے میں اس کے بانی،جب وہ نوجوان تھے، ایک اینگلوانڈین لڑکی کے ساتھ سات سال گھومے، پھر اسے چھوڑ کر ایک خود سے پندرہ برس چھوٹی، کسی رجواڑے کی لڑکی سے اچانک شادی رچالی۔ اس لڑکی کے دادابندوق لے کر ان حضرت کا انتظار کرتے تھے کہ دکھائی دیں تو سیدھے شوٹ کردیں، لیکن پھر لڑکی کے یہاں بیٹا ہوگیا تو معافی تلافی ہوگئی۔ اب یہ بوڑھے ہوگئے تھے، لیکن نندرانی مشرا سمجھتی تھیںکہ تھیٹرآرٹس گروپ لفنگوں کا اڈہ ہے۔“

رضوانہ خاموشی سے سن رہی۔ میراکی بڑی خوبصورت آواز تھی۔ انٹرمیڈیٹ تک اس نے باقاعدہ میوزک سیکھی بھی تھی۔ گھرکی تقریبوں میں، سہیلیوں کی محفلوں میں وہ خوب گاتی۔

”پھر؟“

”پھر اس نے چار ماہ کا حمل گروایا۔ اس کا اسے بہت رنج تھا۔ آخر دوسرا بچہ ہی تو تھا۔ پھر بھی ہنس کر جھیل لے گئی، لیکن جب دوسرا حمل گروایا گیا، وہ بھی دھوکے سے، جس میں شوہر، ساس، سسر، ڈاکٹر، سب شامل تھے، تو اسے شوہر کے شامل ہونے سے بہت صدمہ پہنچا۔“

”دھوکے سے مطلب؟“ رضوانہ سخت حیران تھی۔

”ایک ٹیسٹ کے بہانے اسے بے ہوش کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے یقین دلایا کہ اندر بچے کی گروتھ رک گئی تھی، اس لئے فوری اسقاط ضروری ہوگیا تھا۔ زہرپھیلنے کا ڈر تھا۔ بعد میں تو جرح کرنے سے سب ظاہر ہی ہوگیا۔ میرا نے شوہر کو خوب لتاڑا۔ اس کی بند زبان کھل گئی تھی، ساس کے سامنے چیخنے چلانے لگی تھی۔ یہ سارا کچھ مجھے ٹکڑوں میں معلوم ہوا۔ کچھ یہاں سے، کچھ وہاں سے، آپ کو جس طرح بتارہی ہوں اس طرح نہیں۔“

”بات زیادہ بگڑتی تو میرا علیحدگی اختیار کرسکتی تھی۔ آخر جان دینے کی کیا تک تھی؟ جانہوی، تو ہی بتا۔“ رضوانہ ہاتھ ملنے لگی تھی۔

”علیحدگی کی تجویز میں نے رکھی تھی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ سنجے اب اس پر ہاتھ چھوڑنے لگا ہے، لیکن میراکے گھروالوں نے اسے فوری طور پر رد کیا۔ دادی نے کہا، لڑکی کو اتنی زبان نہیں چلانی چاہئے۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب کیا گھر گرہستی اور سہاگ پھونکے گی؟ شاید اسی لئے اس نے خود اپنی جان پھونک کر سب سے انتقام لیا۔“

”لگتا ہے، پہلے کی ساری دادیوں کی تربیت ایک ہی اکیڈمی میں ہوا کرتی تھی۔“ رضوانہ نے زہر خند کے ساتھ کہا:”ہماری دادی بتاتی ہیں کہ ان کے سسر، یعنی پاپا کے دادا کے ایک طوائف سے مراسم تھے۔ وہ لکھنو¿ کی نامی گرامی طوائف بدرمنیر تھی۔ پہلا فخر تو اسی بات کا تھاکہ بدرمنیربلانے پر ان کے گھر بھی آجاتی تھی۔ وہ مردان خانے میں بیٹھتی اور دادی اپنے ہاتھ کے مشہور پراٹھے سینک سینک کر شامی کبابوں کے ساتھ قابوں پر قابیں بھجواتی رہتیں۔ پاپا کے دادا کی بیشتر دولت ان ہی بدرمنیر اور ان کی بہن پر نچھاور ہوئی۔ حتیٰ کہ کچھ نہ رہا تو بیوی کی پہنچیاں دے آئے۔ “

وہ غم و غصے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب کیسا غم اور کیسا غصہ۔ ”میرا .... میرا .... یوں ہارنا چاہئے تھا کیا؟“

جانہوی نے جتنا کچھ بتایا تھا اس کے علاوہ بھی پتا نہیں کیا کیا ہوتا رہا تھا۔ پچھلی بار جب رضوانہ میرا سے ملی تھی تو اسے محسوس ہوا تھا کہ باربار خوش مزاجی کا نقاب سرک کر اندر سے ایک اور چہرہ جھانک رہا ہے۔ تب تک وہ سارے ”ایپی سوڈ“ ہوچکے رہے ہوں گے، لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں تھا۔ چلتے وقت بولی تھی۔”قمر چاچی اور انیس چاچا کے دباﺅ میں آکر بیاہ مت کرنا رضوانہ۔ جب جی چاہے اور جب صحیح آدمی ملے تبھی کرنا اور یہ ضرور بات کرلینا کہ تمہیں کتنی اولادیں پیدا کرنی ہیں اور کب۔“

”ممی کو اب بھیانک خواب آنے لگے ہیں۔ وہ عموبھی ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ اٹکی ہوئی ہے انوراگ پر۔ ممی کو معلوم ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاپا کو معلوم ہوا تو ایک اور ’آنرکلنگ‘ کی خبر میڈیا میں آجائے گی۔ ویسے عمو کو زیادہ فکر نہیں۔ دونوں ساتھ کام کرتے ہیں، شامیں اکٹھی گزارتے ہیں۔“

”ہمارے گھر تو آنرکلنگ کا خطرہ محض ذات الگ ہونے سے ہوگیا تھا، دھرم کی تو بات ہی چھوڑ۔ ماں اور دادی کو بھیانک خواب آنے لگے تھے، اس لئے جلدی سے جلدی جو لڑکا پکڑ میں آیااس سے بیاہ دیا۔“ وہ ہنسی۔”ویسے دیکھاجائے تو لڑکا دیکھنے میں اچھا، کماﺅ، پڑھا لکھا، ذات برادری اونچی۔ اب ہمیں بھی اور کیا چاہئے تھا؟ تو بتار ضوانہ، ایک عورت کو کچھ اور چاہئے کیا؟“

میراکی ماں نے رضوانہ سے بتایا:”ہم ایک دن سمدھن جی کے سامنے کہہ بیٹھے ’بھگوان سمجھے اس اہروا سے، نہ وہ زندگی میں آتا نہ ہمیں میرا کی شادی کی اتنی جلدی ہوتی۔تھوڑا رک گئے ہوتے تو رشتوں کی کیا کمی تھی۔‘ دراصل اس دوسرے ابارشن کے بعد ہماری ہنستی بولتی بیٹی کو چپ لگ گئی تھی اور وہ کمزور بھی بہت ہوگئی تھی۔ دوائیں، ٹانک، سب اٹھاکے پھینک دیتی۔ نان ویج کھاتی تھی، وہ چھوڑ دیا۔ اس لئے سمدھن جی سے ملاقات ہوئی اور اس کے باوجود انہوںنے میرا کی شکایتیں شروع کیں تو ہمیں آگیا غصہ۔ اسی لئے شاستروں میں غصے کو چار بڑی برائیوں میں گناگیا ہے۔ آدمی کی مت ماری جاتی ہے۔ ہم جو وہ انرگل بول گئے تو سمدھن جی کے کان تو خرگوش کے کانوں سے بھی لمبے ہوگئے۔ اب لاکھ ہم لیپاپوتی کریں، لیکن انہوں نے جاکے شک کا بیج داماد جی کے دماغ میں بودیا۔ ’وہ اہیر کون تھا؟ کب تھا؟اب کہاں ہے؟ اب بھی ملتا ہے کیا؟‘ دراصل انہیں میراکے الزام سے اپنا بچاﺅ کرنے کے لئے برہماستر ہاتھ لگ گیا، سراسر ہماری غلطی سے۔ میرا الزام لگاتی تھی کہ اسے دھوکا دے کر چوتھے مہینے کے آخر میں جیتے جاگتے بچے کو ماراگیا۔ وہ ڈاکٹر کانام سامنے لانے کی دھمکی دینے لگی تھی۔ یوں چپ رہتی تھی، لیکن غصے کا دورہ پڑتا تو .... شاید وہ ہمیں یہ سب بتاتی بھی نہ، لیکن اس دن اس نے اپنا غصہ ہم پر اتارا۔ ’اماں، تمہاری زبان قابومیں کیوں نہیں رہتی؟ اب بتاﺅ اپنے داماد اور اس کی چنڈی ماتا کو کہ وہ کون تھا، کب تھا اور کہاں ہے۔ تمہیں کو معلوم ہوگا، ہمیں تو خبر نہیں۔“

”پھرسنا، داماد ہاتھ چھوڑنے لگے تھے۔ ہم تو جانیں، اس لئے کہ اس کی زبان بند رہے۔“

”اور اس نے اپنی زبان ہمیشہ کے لئے بند کرلی! اور چاچی، اس میں اس کے سسرال والوں کا ہی نہیں، آپ سب کا بھی ہاتھ ہے۔ آپ سب جو پڑھے لکھے ہیں، اعلیٰ خاندان ہیں۔“لیکن رضوانہ نے بھی اپنی زبان بند ہی رکھی، سوچ کے رہ گئی۔ جو آپ ہی مر رہا ہو اسے مار کے کیا ملے گا۔ میرا نے زندہ رہنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑنے کی سوچی جاسکتی تھی۔ عورتوں کی یہ نسل تعلیم سے بے بہرہ نہیں تھی۔ میرا کی ماں، خود اس کی اپنی ماں، میرا کی ساس اور مرد تو خیر تعلیم یافتہ تھے ہی، لیکن یہ کیسی تعلیم تھی کہ ایک سائنس گریجویٹ نے بیوی کو اس لئے مارا تھاکہ اس نے دوسری بار بھی بیٹی پیدا کی تھی؟ سائنس پڑھ کر بھی اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ بیٹی یا بیٹا مرد کی دین ہوتا ہے؟ یہ ممانے بتایا تھا اور ساتھ ہی جوڑد یا تھا۔”یہ ۴۷ کی بات ہے، اس وقت حمل میں بچے کی جنس پتا کرنا اور اسقاط کرانا عام نہیں ہوا تھا، ورنہ وہ لڑکی یوں مارنہ کھاتی۔ ہاں! بچی جو پیدا ہوئی وہ ماردی گئی ہوتی۔“

نندرانی مشرا کی دلیل اس سلسلے میں کچھ الگ ہی تھی، جو میرانے پہلے اسقاط کے بعد ہنس ہنس کر رضوانہ کو بتائی تھی۔”عورت کے جسم کے اندر جو کیفیت ہوتی ہے وہی یہ تعین کرتی ہے کہ عورت کا بیج مرد کے ایکس کروموسوم قبول کرتا ہے یا وائی، اس لئے عورت ہی ذمہ دار ہے۔“

”یہ آپ نے کہاں پڑھا ممی؟ کس نے بتایا آپ کو؟“ میرانے ساس سے ملائمیت سے پوچھا تھا۔

”ہم نوٹس نہیں بناتے پھرتے کہ تمہیں ریفرنس دیں۔ تصدیق کرنا چاہتی ہو تو اپنے طور پر ریسرچ کرلو۔“ انہوںنے رکھائی سے جواب دیا تھا اور میرا کو بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتی، کٹھ حجت قرار دیتی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

اور اس کے آفس میں لوگ کم تعلیم یافتہ تھے کیا؟ سب وکیل۔ کئی تو تجربہ کار گھاگھ بھی۔ مجرم کو معصوم بنادیں، معصوم کو مجرم۔ جب سے رضوانہ نے عمر کے تیسویں سال کا کیک کاٹا تھا، بیشتر اس کا حوالہ ’اولڈمیڈ‘ کہہ کردینے لگے تھے۔ ایک بار کسی نے کمنٹ کیا تھا۔ ”یار کھائی کھیلی لگتی ہےں۔ اب ایسی معصوم بھی نہیں جیسا پوز کرتی ہیں۔“

”کولھے خاصے بھاری ہیں۔ ایسے کولھوں کا مطلب ہے کہ ہر تجربے سے گزرچکی ہیں۔“ جواب ملا۔

ایک شادی شدہ ہمکار نے براہ راست پروپوز کیا تھا۔ پس منظر میں دی جانے والی موسیقی کے طورپر وہ نہایت لطیف پیرائے میں یہ بتاتے چلے آرہے تھے کہ بیوی سے ان کے تعلقات صحیح نہیں ہیں۔ بغیر نام بتائے انہوںنے ہی رضوانہ پر کی جانے والی چھینٹا کشی کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ کچھ اِدھر اُدھر سے، کچھ بالواسطہ تبصروں سے، اسے خود بھی پتا چلتا رہتا تھا اور وہ چومکھی لڑائی لڑتی رہتی تھی، اسی لطیف پیرائے، اسی بلاواسطہ اظہار کے ذریعے۔

”مجھے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کا پورا حق ہے۔“

اس نے مضبوطی کے ساتھ اپنے آپ سے کئی بار کہاتھا اور اس پر قائم تھی۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی جب کچھ لوگوں نے یہ اشارہ کیا کہ جس لڑکی کے ساتھ وہ فلیٹ میں رہ رہی ہے اس کے ساتھ اس کے لیزبین تعلقات ہیں۔

”چھی، گھن آتی ہے ہمیں۔“ رضوانہ نے کہا تھا تو اس کی دوست ہنسی تھی۔

”اتنی سی بات سے گھن آنے لگی؟اوکھل میں سردیا ہے تو موسل کے دھمکے کھانے سیکھو۔“

وہ مزاج میں میرا جیسی لگتی تھی۔ ہنسوڑ، ہربات کو چٹکیوں میں اڑانے والی، اپنے آپ میں مگن، رضوانہ نے سوچاتھا۔

اس سال لکھنو¿ میں ٹھنڈ معمول سے زیادہ پڑی تھی۔ کہرے سے سرشام اندھیرا چھاجاتا۔ کئی دن سے سورج نہیں نکلاتھا۔ میرا کی ماں کے یہاں سے آنے کے بعد رضوانہ کو لگ رہا تھا، ایک ٹھنڈا اندھیرا اس کے وجود میں بھی اتر آیا ہے۔ میراکی ماں نے جو کچھ کہا تھا، ان ٹھنڈے اداس لمحوں میں رضوانہ نے اسے قمر کے ساتھ بانٹا۔

”دنیا اب زیادہ پیچیدہ ہوچکی ہے او راپنی ساری تعلیم اور ساری تکنیکی ترقی کے باوجود زیادہ سفاک اور بے رحم۔ اب لڑکیاں بول رہی ہیں۔ پہلے بولتی نہیں تھیں۔ کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا ہونے پر جس پہلے لڑکے کے ہاتھ لگنے پر بادشاہ اپنی بیٹی بیاہ دیتا اس کے ساتھ خاموشی سے زندگی گزار دیتیں اور مرکھپ کر جنت پہنچ جایا کرتیں۔“

قمرنے لمبی سانس کھینچ کر لمبی بات کی۔ پھر دونوں ماںبیٹی کچھ عرصے خاموش رہیں۔ انگیٹھی کے کوئلوں پر راکھ کی پرت موٹی ہونے لگی تھی۔ قمر نے اسے لوہے کی تیلی سے کریدا (اسے ہیٹر کی جگہ انگیٹھی جلانا زیادہ اچھا لگتا تھا) اور بات کا سرا دوبارہ پکڑا۔

”ہم اور تمہارے پاپا، دونوںنے اب تمہاری اور عمرانہ کی زندگی میں دخل دینا بندکر دیا ہے، لیکن شاید تمہیں معلوم نہیں کہ لوگ ہمیں کیاکیا سناتے ہیں۔ ایک دن ایک ٹیچر نے ہمیں سناکر اسکول میں کہا ’لڑکیاں پڑھ لکھ کر کمانے لگیں تو ماں باپ بے فکر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ بربھی خودہی ڈھونڈلائیں گی۔‘ اس کا لے کوسوں دور بمبئی سے یہاں آجاﺅتو کم ازکم گھر میں آرام اور اطمینان سے رہوگی تو۔ لکھنو¿ کوئی دیہات تو نہیں۔“

”ہاں! اس گھونسلے میں بڑی عافیت ہے۔ ماں باپ ہیں، ان کی شفقت کا تحفظ ہے، لیکن ممی، اس دنیا میں ہم جیسے بھی بہت ہیں۔ پرائے پھٹے میں ٹانگ نہ اڑانے والے، اپنی آزادانہ زندگی ایسے اصولوں کے تحت گزارنے والے جن سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔ تم اٹھائیس برس کی ہوگئی تھیں تو نانی نے سوچاتھاکہ تمہاری شادی اب نہ ہوگی۔ پھر ہوئی نا؟ ہم اکتیس برس کے ہوگئے ہیں تو تم بھی اسی طرح سوچ رہی ہو۔ کتنی ترقی ہوئی تمہاری تعلیم کی وجہ سے؟ صرف دوتین سال کی؟ مما، شادی ازناٹ دی اینڈ آف دی ورلڈ، کوئی ایسا مل گیا جس کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا دل چاہا تو ضرور کریں گے۔ فی الحال تو پرسوں کی فلائٹ کا ٹکٹ بک ہے۔ واپس جارہے ہیں۔ ہماری فکر مت کیا کرو، مما....“

اس کی آنکھیں دور خلامیں کچھ دیکھنے لگی تھیں۔ انگیٹھی پرجمی راکھ کی پرت موٹی ہوگئی تھی اور قمر کے دل پر جمی بے چینی کی بھی۔

اس دن پھر قمر نے آفس کے دوران فون کیا۔ گھر پر اس نے رضوانہ کو یقین دلایا تھا کہ اشد ضرورت کے علاوہ وہ کبھی آفس کے اوقات میں فون نہیں کرے گی۔ رضوانہ کا دل طوفان میل کی رفتار سے دھڑکنے لگا۔ کیا ممی، اب کیا سناو¿نی سنانے جارہی ہو۔

”سنجے کو عدالت نے باعزت بری کر دیا ہے۔“ قمر کی آواز میں آنسوو¿ں کی لر زش تھی۔ ایک اہم فائل سامنے تھی، پھر بھی رضوانہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔فون پر اس کا ہاتھ لرزنے لگا تھا۔

”میرا کے گھر والوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، لیکن سنجے اور اس کے گھر کے کسی بھی فرد کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔ سنجے کو بھری عدالت میں یہ کہنے میں کسی سبکی کا احساس نہیں ہوا کہ....“ قمر کی آواز قدرے لڑکھڑائی ”....کہ شادی سے پہلے اس کی بیوی کی کسی سے شناسائی تھی اور وہ اس کی وجہ سے شدید ڈپریشن کے عالم میں رہا کرتی تھی۔ دوسرے بچے کے وقت اس نے اسی لئے حمل ساقط کرادیا تھا کہ دو دو بچے اس کے پیروں کی بیڑیاں نہ بن جائیں۔ وہ طلاق لے کر واپس لوٹ جانے کے پھیرے میں تھی۔ اپنے بیان کی تصدیق میں اس نے نہ جانے کہاں کہاں سے گواہ لاکر کھڑے کر دیے۔ دوسرے اسقاط کے بعد وہ یقینا ڈپریشن کے عالم میں تھی، لیکن وجہ وہ نہیں تھی جو بیان کی گئی ،لیکن ہوا یہ کہ ڈاکٹر کے کچھ نسخے موجود تھے جن میں Antidepressantاور نیند لانے والی دوائیں تجویز کی گئی تھیں۔“

رضوانہ بت بنی سنتی رہی۔ قمر نے اتنا بتا کر فون رکھ دیا۔ ”مجھ سے برداشت نہیں ہوا رضوانہ۔ ابھی فوراً تم سے یہ دکھ نہ باٹتی تو شام ہوتے ہوتے نہ جانے دل کی کیفیت کیا ہو جاتی۔“میرا سے جو تعلق تھا اس کے علاوہ مجھے تو یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ آج بھی عورتیں کس قدر Vulnerableہیں۔ تو ایسے عورت موافق قانون بنائے ہیں ہم نے۔

باقی جتنا وقت آفس میں گزرا، رضوانہ کو ہر فائل میں سے میرا جھانکتی نظر آئی۔ ایک ناکام محبت کا درد لے کر بھی انتہا ئی زندہ دلی کے ساتھ جینے والی لڑکی۔ زندگی میں جو ہاتھ آیا اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے والی لڑکی ۔ کردار کشی لیکن برداشت نہ کر سکی اس لئے کہ جس شخص کا نام لے کر اس پر کیچڑ اچھالی گئی اسے تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اسے واقعی یہ نہیں معلوم تھا (اور نہ اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی) کہ اب وہ کہاں تھا، شادی شدہ تھا یا کنوارا۔ اسے یاد کرتا تھا یا ماضی کی غلطی سمجھ کر بھلا چکا تھا۔ دوبیٹیوں کو حمل میں ہی مار دینے کی اذیت کے ساتھ مل کر اس اذیت نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی پاکدامنی پر اچھالی گئی کیچڑ اس کے لئے تیزاب بن گئی۔ میرا ، میراتو....کتنی بار جنم لے گئی؟ کب تک لیتی رہے گی؟

گھر لوٹ کر اس نے سمیر کو فون کیا۔ ممبئی کے فاصلوں کے حساب سے سمیر بہت قریب رہا کرتا تھا بغیر بتائے تھوڑی دیر میں آگیا۔

”چلو تمہیں کچھ Comfort Foodکھلا کے لاتے ہیں۔ راستے سے اوما کو بھی اٹھا لیں گے۔“

”ایسے کہہ رہے ہو جیسے اوما کو اغوا کرنے کا ارادہ ہے۔“ رضوانہ اس اداسی کے باوجود مسکرا پڑی۔ سمیر کی موجود گی بڑے سے بڑے ڈپریشن کو دور کر دیا کرتی تھی۔

”تمہارا دماغ ٹیڑھا ہی چلتا ہے۔ یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ اوما کوئی چیز ہے کیا جسے اٹھا لیا جائے یایہ کہہ کر لڑ سکتی تھیں کہ تم مرد عورتوں کو چیز بست سمجھتے ہو وغیرہ ۔یہ تمہارے دماغ میں اغوا کا لفظ کیسے آیا، کہاں سے آیا؟“

”لگتا ہے وکیل میں نہیں تم ہو۔“

” جب کچھ نہیں سوجھتا تو تان اسی گھسے پٹے جملے پر ٹوٹتی ہے اچھا یہ بتاو¿ یہ تمہاری پٹاخہ روم میٹ کہاں ہے اس وقت۔ اسے بھی لے لیتے۔“

”لڑکیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے واقعی تم سب اوقات پہ آجاتے ہو۔پٹاخہ ،چک، سیکس بم کم ازکم تم جیسے مہذب شخص کے منھ سے تو یہ لفظ بالکل اچھے نہیں لگتے۔“

”چلو یہ تو مانا کہ ہم مہذب ہیں، ہم سمیر چترویدی ۔ ورنہ ہمارے چاروں ویدوں کے علم کے باوجود تم نے ہمیشہ ہمیں غیر مہذب گردانا ۔ہمیں ہی نہیں ہماری پوری قوم کو۔“ وہ شرارت سے مسکرایا۔

رضوانہ نے اسے قہر آلود نظروں سے گھور کر دیکھا ۔”تم اور تمہارا علم ! اجداد کے علم پر کودتے ہو۔ نہ جانے کب کس نے حاصل کیا تھا چار ویدوں کا علم اور چتر ویدی بن گئیں آنے والی جاہل نسلیں۔“

”ہاہاہا ....آگئی لڑکی فارم میں چل اٹھ تیار ہو۔“ سمیر نے قہقہہ لگا کر کہا۔ کچھ لیپا پوتی بھی کر لینا۔صورت پہ بارہ بج رہے ہیں۔“

رضوانہ نے واش روم میں لگے آئینے میں چہرے پر نظر ڈالی۔ واقعی ستا ہوا ہو رہا تھا۔ وہ خوبصورت کسی زاویے سے نہیں تھی بس چہرے پر جاذبیت تھی اور سراپا متناسب تھا-

ہاں کپڑے سلیقے سے پہنتی تھی۔ حسیں لڑکیاں تو ماتمی شکل بنالیں تو بھی حسین لگتی ہیں۔ اوسط صورت

ہرمنفی جذبے کے ساتھ مسنح ہونے لگتی ہے اور اوسط سے نیچے اتر آتی ہے، لیکن یہ مجھے صورت کا احساس کب سے ہونے لگا؟ وہ چونکی مجھے، حقیقت کی سنگلاخ زمینوں پر چلنے والی لڑکی کو۔

اس نے ہاتھ منھ دھوکر چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا اور وارڈ روب سے ایک خوبصورت شلوار سوٹ نکالا۔ روزانہ تو کالے سفید کپڑوں میں گزر ہو جاتی تھی۔ شام کو کہیں جانا نہ ہوا تو وہ سیدھے ہاو¿س کوٹ پہن کر آرام کرسی پر نیم دراز ہو جایا کرتی تھی۔

ڈرائینگ روم میں آئی تو سمیر نے اس پر تو صیفی نظریں ڈالیں۔ اسے قدرے حیا کا احساس ہوا اور اس نے سہم کر منھ موڑ لیا۔ یہ کیا ہورہا ہے اسے۔

اوما خوشی خوشی ساتھ ہو لی۔ اس کا شوہر سنگا پور گیا ہوا تھا۔ وہ دس منٹ میںتیار ہو کر آگئی۔ سوچ ہی رہی تھی کہ شام کو کیا کروں۔ بہت بور ہو رہی تھی۔ اس نے مسرور لہجے میں کہا:” اور اسے کیوں نہیں لے لیا؟ وہ باہر ہے کیا؟“

”کون؟“

”ارے وہی تمہاری چھمک چھلو۔“

سمیر اتنی زور سے ہنسا کہ اسٹرینگ پر اس کے ہاتھ ذرا کی ذرا بہک گئے۔

”ایسی کون سی بات کہہ دی میں نے؟ اوما ناراض ہو گئی۔

تم عورتیں! بائی گاڈ! میں نے اسے پٹاخہ کہا تھا تو وکیل صاحبہ ناراض ہو گئیں۔ تم نے چھمک چھلو کہا تو کوئی ری ایکشن نہیں ہوا۔

چھمک چھلو، پٹاخہ جیسا گھٹیا نہیں لگتا۔ پھر ہم تو good humour

میں کہہ رہے ہیں “

”تم جو کہووہ،good humour

،ہم جو کہیں وہ گھٹیا، دراصل تم عورتیں عورتوں کی سب سے بڑی دشمن ہو۔“

”کیوں؟ مرد دشمن نہیں ہیں مردوں کے ؟ قتل و غارت گری کو ن کر رہا ہے؟“

”تم نے تو محاذ کھول رکھا ہے ہمارے خلاف یہ تمہارا فیمنیزم!جھنڈے لے لے کے کھڑی ہو رہی ہو!“

”تم میرا ڈپریشن دور کرنے کو باہر نکلے تھے سمیر!“

 رضوانہ نے ہولے سے کہا۔

”لڑنے سے بھی ڈپریشن دور ہوتا ہے اور کٹھ حجتی تمہاری سرشت میں ہے۔ میں تمہارا ڈپریشن ہی تو دور کر رہاہوں ۔ ویسے جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ کچھ بھی گڑھا ہوا نہیں۔“

”اور کیا کیا ہے عورتوں کی سرشت میں؟“ اوما کے لہجے میں شرارت تھی۔ ”سب سے بڑی بات تو یہ کہ سیدھے راستے سے بھٹکا دیتی ہیں۔ پتھ پھرشٹ کرنے والی اور مسلمان ہوئیں تو سونے پہ سہاگا۔ دھرم بھی بھرشٹ کرادیں۔“ سمیر نے قہقہہ لگایا۔

”ہاں گوتم بدھ بیوی کو چھوڑ کر چل دیے تھے۔“

”اور بھرتری ہری بھی“

اور تلسی داس بھی۔“

”اور حضرت عیسیٰ نے شادی ہی نہیں کی تھی۔“

”اور کبیر نے کی بھی تو کہا کہ عورت ناگن ہے یا باگھن، بلکہ دونوں۔“

دونوں لڑکیوں نے ایک کے بعد ایک نہایت روانی سے کسی واعظ کے انداز میں کہا:

سب حق گو تھے۔حق گو اور راست باز 

(سمیر نے میڈیوئیل ہسٹری پڑھنے کے دوران کچھ فارسی پڑھی تھی اور پھر اردو)

”اگر مجھے گاڑی کے ایکسڈنٹ کا ڈر نہ ہوتا تو تمہاری پیٹھ پر اتنی زور کا گھونسہ مارتی کہ

slipped disc

کا خطرہ لاحق ہو جاتا۔“ رضوانہ نے کہا:

”گاڑی سے اتر کر مار لینا۔ میرا تو کچھ نہ بگڑے گا ، تمہاری کلائی میں مو چ آسکتی ہے۔تم عورتیں برابری کے دعوے کرتی اچھی نہیں لگتی ہو۔ جتنے بھی بزرگ گزرے ہیں سنت مہاتما ،پیرپیغمبرسب نے ہی ایسا کچھ کہا ہے اور مذہبی صحیفوں نے بھی۔“

”وہ سارے سا دھو سنت ،پیر ،پیغمبرمرد تھے اور صحیفے بھی یا مردوں نے لکھے ہیں یا ان پر اترے ہیں۔“

”گیان صرف مردوں کے پاس رہا۔ وہی اس کے لائق تھے۔“

سمیر نے کنکھیوں سے دونوں لڑکیوں کو دیکھا ”مردوں کے پاس ہی نہیں تم کم بخت چتر ویدیوں، دویدیوں کے پاس ۔ شودروں اور عورتوں کو تم نے ٹاٹ باہر کر دیا۔“

”ارے اب تو آسمان میں تھگلی لگارہی ہو۔ اب لے لو گیان۔ اب کیوں عقل کے پیچھے لٹھ لے کے دوڑ رہی ہو؟“

سمیر نے گاڑی روکی ان لوگوں کا پسندیدہ کافی ہا وس آگیا تھا۔ وہاں عمدہ کافی اور کچھ چیزوں کے علاوہ بہت ہی سبک چھوٹی چھوٹی پیسٹریاں بھی ملتی تھیں،جن پرپھلوں کے باریک ٹکڑوں سے ایسی خوبصورت سجاوٹ ہوتی تھی جیسے کشیدہ کاری کی گئی ہو۔ سبزکیوی تیز گلابی اسٹرا بیری، چمکیلے زرد آڑو اور خوبانی، ارغوانی آلو بخارے انہیں باریک اور دیدہ زیب صورتوں میں تراشنا بذات خود ایک فن تھا اور ایسی ہلکی کہ بقول رضوانہ کھا کے لگتا تھا خود تتلی بن کے اڑنے لگے۔

رضوانہ سے پوچھے بغیر سمیر نے بہت سی پیسٹریاں آرڈر کیں اور چکن پف اور کپچنو اوما سے اس نے کہا کہ اگر وہ اپنے لئے کچھ اور منگانا چاہے تو آرڈر کر دے۔

وہ سب وہاں دیر تک بیٹھے گپ کرتے ،دوستانہ جھگڑے کرتے، دھواں دھار بحثیں کرتے اور کافی کی چسکیاں لیتے رہے۔

سمیر جیسا شوہر میرا کو کیوں نہیں ملا۔ میرا پیاری میرا....

سمیر اسے واپس ڈراپ کررہا تھا تو میرا جو تھوڑی دیر کے لئے ذہن سے محو ہو گئی تھی پھر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگی۔

اور میں خود؟ کیا میں سمیر کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی؟ اس نے فوراً دل ود ماغ کے دروازے بند کرلئے جیسے ذراسی درز کھلنے پر کسی بھوت کا چہرہ دکھائی دے گیا ہو۔

فلیٹ میں روشنی جل رہی تھی۔ سمیر نے باہر آکر اس کے لئے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا:”آگئی ہے وہ.... کیا کہتے ہیں کہ ....چھمک چھلو تو کہہ سکتا ہوں نا؟“

”تم ہو ایک نمبر کے کمینے۔ خیر تھنکیو۔تھینکیو ویری مچ ۔ کم از کم اس وقت تو تم نے ڈپریشن دور کردیا۔“

”روز کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ رہوگی تو کبھی اداس نہیں ہوگی۔“یہ کہتے ہوئے کیا وہ واقعی سنجیدہ تھا یا رضوانہ کو ایسا محسوس ہوا کہ اس مسخرے انسان میں کہیں اندر اندر بڑی گہری سنجیدگی موجود ہے۔

”فلرٹ کر نے کی کوشش مت کیا کرو۔ گدھے لگنے لگتے ہو۔ بائی۔”اس نے بلڈنگ کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

جوہی شاید کچھ دیر پہلے ہی لوٹی تھی۔ اس کا بیگ سامنے ہی تھا اور اس نے ابھی میک اپ بھی نہیں اتارا تھا۔”ہائی!“ اس نے اپنی ائرہوسٹس والی پیشہ ورانہ مسکراہٹ پھینکی ۔

جوہی مسکراتی تو اس کے دونوں گالوں میں ننھے ننھے بھنور بنتے اور وہ اوسط درجے کی قبول صورت سی لڑکی اچانک حسین لگنے لگتی۔ وہ طویل قامت اور متوازن جسم کی لڑکی تھی اور بڑے فخر سے کہا کرتی تھی ، لوگ مجھے سیکسی کہتے ہیں ”ضرور کہتے ہوں گے ،لیکن میرے سامنے اس طرح کی بکواس مت کیا کرو۔“ رضوانہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے کئی بار تنبیہ کی تھی۔

”تم مجھ سے کوئی چار پانچ برس بڑی ہو لیکن ہمارے درمیان بھر پور جنریشن گیپ ہے۔ آنے دو اماں اور پاپا کو تم سے خوب نبھے گی۔“جوہی نے ایک مرتبہ جواب میں کہا تھا۔ وہ نہایت ڈھیٹ لڑکی تھی۔ اپنی زبان بولتی اور اپنی مرضی کی حرکتیں کرتی رہتی۔ اکثر نہا کر صرف ایک تولیہ لپیٹ کر نکل آتی۔ رضوانہ غصے سے گھورتی تو کہتی، تمہیں میرا جسم خوبصورت نہیں لگتا۔ مانا تم لزبئین نہیں ہو، لیکن

aesthetic sense

بھی تو کوئی چیز ہے۔بھر ایڑیوں پر گھوم کر کہتی ۔فلموں یا ماڈلنگ میں چانس مل جائے تو ہم تو اس طرح نہ جانے کتنے مردوں کے سامنے نکل آئیں تم تو عورت ہو اور اس فلیٹ کے کمرے میں بند۔“

اس کی بے باکی اور بعض قابل اعتراض الفاظ کے استعمال کے باوجود اس سے کبھی کوئی شکایت رضوانہ کو نہیں ہوئی۔ وقت پر اپنے حصے کا کرایہ ادا کرتی، گھر پر ہوتی تو کچن میں ہاتھ بٹاتی، اگر رضوانہ کا م کررہی ہو تی تو خاموشی سے دوسری طرف چلی جاتی۔

”تم پر فیکٹ انسان ہو۔ بس پیا مت کرو۔“تعلقات میں نزدیکی آئی تو رضوانہ نے کہا۔

”تمہارے سامنے کہاں پیتی ہوں؟ انتظار میں ہوں کہ تم شروع کرو۔“

”لونڈوں کے ساتھ گھومتی ہو ۔پی کے آتی ہو تو صاف پتہ چلتا ہے۔“

اور تم؟ اولڈ میڈ بنتی جا رہی ہو۔ ذرا بوائے فرینڈزبناؤ بس لے دے کے وہی ایک سمیر....“

رضوانہ نے غصے میں بات کاٹ دی۔

”وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔“

”کیوں؟ فرینڈ بھی ہے اور بوائے بھیGayہے کیا؟ لگتا تونہیں۔“

رضوانہ واقعی ناراض ہو گئی۔“ کترنی کی طرح زبان چلتی ہے۔ جو منھ میں آیا بک دیتی ہو۔تم اچھی طرح جانتی ہو بوا ئے فرینڈ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور تم اسے کس سنس میں استعمال کر رہی ہو۔“

”چچ چچ چچ۔اب اگر وہ بھی صرف فرینڈ ہے تو لعنت ہے تم پر ۔کس دور کی پیداوار ہو؟“

”تمہاری دادی کے دور کی ۔“

رضوانہ نے جل کر جواب دیا تھا۔

ائر ہوسٹس ہونے کی وجہ سے جوہی کب آتی تھی اور کب جاتی تھی اس کا کوئی حساب نہیں تھا۔ایک مشترکہ دوست کی معرفت ان دونوں کی ملاقات کرائی گئی تھی اور فلیٹ لیا گیا تھا۔ دونوں نے جو سمجھوتہ کیا تھا اس میں علاوہ دوسری شرائط کے یہ بھی تھی کہ کوئی کسی کے معاملات میں دخل نہیں دے گا۔

رضوانہ کو کئی بار محسوس ہوا تھا کہ جوہی کا لائف اسٹائل اس کی تنخواہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگا تھا، لیکن اس نے کبھی کسی تجسس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ کیا پتہ اس کے والدین دولت مند ہوں۔ پھر یہ بات تو تھی ہی کہ جوہی پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ جو کماتی تھی اس کا اپنا تھا۔ سب اڑا دیتی ہو گی۔ نہایت لاابالی تھی۔ بتاتی تھی کہ زبردستی گھر سے لگ بھگ بھاگ کر یہ ملازمت کی تھی اس لئے کہ والدین شادی کے لئے بضد تھے اور وہ ابھی شادی کے لئے قطعی رضا مندنہیں تھی۔ چھٹیوں میں نہ جانے کہاں کہاں اڑی پھرتی۔ ایک بار سنگا پور گئی تھی۔ واپس آئی تو بے تحاشہ شاپنگ کر کے لوٹی تھی۔ اس میں رضوانہ کے لئے ایک یوروپیئن ڈریس بھی تھا۔

”میں یہ پہنوں گی؟ کبھی ایسا کچھ پہنے دیکھا ہے؟“

 رضوانہ نے آنکھیں نکالیں۔

”ارے پہن لے اولڈ میڈ، سیکسی لگے گی۔“

رضوانہ کسی طرح راضی نہ ہوئی تو جو ہی نے اس کے بدلے مگر مچھ کے چمڑے کا ہینڈ بیگ دیا جو بہت قیمتی تھا۔”میں اسے لے کر چلوں گی تو باقی حلیے کو دیکھ کر لوگ سمجھیں گے کہ میں نے اسے کسی بڑے اسٹور سے چرایا ہے۔“ رضوانہ نے تحفہ قبول تو کر لیا لیکن ہنس کر کمنٹ بھی دے ڈالا۔

”تو کپڑے بھی لا دیتی ہو ںجو میچ کریں۔“

”ارے بیوقوف لڑکی ۔میرے پاس کیا پیسے نہیں ہیں۔ یہ تو اپنااپنا لائف اسٹائل ہے۔“

”شرط لگا لو ۔تمہیں تمہارے مرد کو لیگ سنڈے اسکول ٹیچر کہتے ہوں گے۔“

رضوانہ لمحے بھر کو چونک گئی۔ اپنے بارے میں یہ کمنٹ وہ سن چکی تھی۔ خود سمیر نے اسے کئی بار سنڈے اسکول ٹیچر کہا تھا۔ پارٹیوں میں جانے کا وقت بھی کم تھا اور جاتی بھی تو لباس اور میک اپ قابو میں رہتے ۔ جہاں بیئر اور وہسکی سے شغل ہو رہا ہو وہاں ایک کونے میں سافٹ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں لئے بیٹھی رہتی اور یہ ممبئی کی ہائی سوسائٹی نہیں تھی۔ خالص مڈل کلاس ۔ہائی سوسائٹی میں تو اس کے دخل کا سوال بھی نہیں تھا کہ وہ اس طبقے کا فرد تھی نہ اس طبقے کے کسی فرد کی دوست۔

”کہنے دو۔تمہیں کیا۔ تم بنی رہو چھمک چھلو۔“

”ہاہاہا میری ماں کی ساری پریشانی یہی ہے کہ میں چھمک چھلو بنی پھر رہی ہوں حالاں کہ جب میں گھر جاتی ہوں تو میرا سارا میک اپ کا سامان اور پسندیدہ کپڑے یہیں پڑے رہتے ہیں۔ ویسے چھٹیاں بھی بہت کم ملتی ہیں۔“

”اور ملتی ہیں تو کہیں باہر اڑجاتی ہو۔“

”میں کیا کروں۔“ اس نے لا پروائی سے کہا۔

” ہیں نا اڑا کے لے جانے والے۔“

رضوانہ خاموش رہی۔ کسی قسم کے تبصرے کا حق اس نے خود کو نہیں تھا۔ وہ تو عمرانہ کے معاملے میں بھی نہیں بول پاتی تھی۔

جوہی خود ہی کہنے لگی۔”اماں کو بڑا ڈر ہے کہیں کسی ہائی فائی قسم کے دولت مند آدمی سے شادی نہ کر بیٹھوں۔ پڑھی لکھی ہیں۔ اخبار اور میگزین پڑھتی رہتی ہیں۔ کہتی ہیں اس طرح شادیاں کامیاب نہیں رہتیں۔ بس ایک ہی شادی ایسی دیکھی جو کامیاب رہی، نسلی اور مورین واڈیا۔ اب چہار دیواری کے اندر جو بھی ہو رہا ہو لیکن شادی نبھی ہوئی تو دکھائی دے رہی ہے۔“

”کیا پتہ تجھے بھی ویسا ہی شریف انسان مل جائے۔ ہائی فائی اور دولت مند ہونے کے باوجود َ“

رضوانہ ہنسی ۔ گپ کے موڈ میں تھی۔

”اور جو کہیں جات دھرم الگ ہو گیا تو ۔زیادہ امید یہی ہے کہ الگ ہی ہوگا۔“

شادی ،شادی ،شادی جس برادری جس خطے میں دیکھو ماں باپ مرے جارہے ہیں، لیکن ذات برادری کو بھی ابھی تک چمٹے ہوئے ہیں۔ ڈر کے مارے ڈھیل ڈالیں گے بھی تو اتنی کہ اونچی ذات کی لڑکی ہوئی اور اتفاق سے ٹکر کی ذات والا لڑکا لے آئی توچلو مارے باندھے قبول کرلیا،مگریہ مذہب تو بڑے مسئلے کھڑے کر دیتا ہے۔ اس نے جو ہی کی ماں کا تصور کیا۔ متوسط طبقے کی ڈری سہمی ماں۔ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بھی روایتوں میں جکڑی ہوئی ماں ۔کہیں ”ایسا ویسا“ ہو جانے کے ڈرسے رات کی نیند یں کھوتی ہو ئی ماں ۔ اکیسویں صدی میں پیدا ہوکر عہدو وسطیٰ میں جیتی ہوئی ماں۔ بیٹی کے ائر ہو سٹس بننے پر شاید ائر کریش سے زیادہ ڈرا نہیں یہی لگا رہتا ہوگا کہ نہ جانے کس ذات ، کس فرقے کا لڑکا پکڑ لائے گی۔ کہیں کسی کے ساتھ بغیرشادی کئے تو رہنے نہیں لگے گی۔ کتنی کم ترقی کی ہے ماو¿ں نے۔ بس اتنا ہی کہ لڑکی نے ضد کی تو ائرہوسٹس بن جانے دیا۔ ہاتھ پیر توڑ کر گھر پر نہیں بیٹھا یا نہ جو پہلا لڑکا نظر آیا اس سے شادی کر ڈالی

(لیکن میرا کے ساتھ تو لگ بھگ یہ بھی ہو چکا تھا)

جوہی کے والدین اکثر بلا اطلاع آجایا کرتے تھے اور ایک دو دن رہ کر واپس چلے جاتے تھے۔"

They are keeping tabs on me."

 جوہی نے کہا تھا۔

کیوں تم اسے اس نظر سے کیوں نہیں دیکھتیں کہ تم ان کی اکلوتی لڑکی ہو اور بھائیوں سے چھوٹی ہو اس لئے تمہاری محبت انہیں یہاں کھنچ لاتی ہے۔ تم کمبخت ماری کو چھٹیاں ملتی ہیں تو چل دیتی ہو ہانگ کانگ اور سنگاپور تفریح کرنے۔ اگلا پروگرام یو روپ کا بنا چکی ہو۔“

”سوچتی ہوں زندگی کاجتنا لطف اٹھا سکتی ہوں اٹھالوں۔ پتہ نہیں کس کمبخت مارے کے حوالے کر دی جاوں وہ کس طرح کی زندگی دے گا مجھے۔“

”تم، تم سے تو بھوت بھی ڈرے ۔تمہارا کوئی کیا بگاڑے گا۔“ رضوانہ نے ہنس کر کہا۔

”بھوت سے بڑی چیز تم نے دیکھی نہیں وکیل صاحبہ ۔میں عمر میں پانچ برس چھوٹی، مگر تجربے میں پچاس برس آگے ہوں۔ باہر نکلو ذرا۔“

اور کتنا باہر نکلوں گی۔ رضوانہ نے سوچا۔ میری نانی گاو¿ں سے ہجرت کرکے پرتاب گڑھ آئیں، ممی وہاں سے نکل کے لکھنو¿ پہنچیں جہاں نسبتاً بڑے شہر کی نسبتاً زیادہ آزاد زندگی تھی۔ بقول ان کے میں نے ایسے پر پرزے نکالے کہ وہ اچھا بھلا شہر چھوڑ دیا۔اب؟

جس طرح جوہی کے والدین بے سان و گمان نمودار ہوجایا کرتے تھے ویسے ہی وہ بھی اچانک آن نکلا تھا۔رضوانہ نے نظریں اٹھائیں تو ایک اجنبی کو کھڑا پایا۔ موکل براہ راست اس کے پاس نہیں آیا کرتے تھے۔ یہ کون ہو سکتا ہے۔ اس نے کارڈ پر دوبارہ نظر دوڑائی، اکرم فاروقی۔

”جی کہیے“

”آپ سے ملنا تھا۔ آپ رضوانہ انیس احمد ہیں نا۔“

”کسی کیس کے سلسلے میں؟“

”کیا آپ کو واقعی میرے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں۔ اور میں بیٹھ سکتا ہوں کیا؟“

”جی ضرور بیٹھئے اور میرے خیال میں صاف بات کیجئے۔ کتنے سوال جواب کرتے رہیں گے ہم لوگ؟“

اس نے کرسی کھینچی ”میں آپ کے والدین کی مرضی سے آپ سے ملنے آیا ہوں۔“ اس نے ایک ایک لفظ کو واضح طور پر ادا کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے اخبار میں میرا میٹری مونیل ایڈ دیکھ کر اس کے جواب میں آپ کی تصویر اور بایو ڈاٹا بھیجا تھا۔ ظاہر ہے میرے والدین نے میرا بھی بھیج دیا ہوگا۔ انہوں نے آپ کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔ تعجب ہے کہ آپ کے والدین نے آپ سے اس کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی۔“

رضوانہ قدرے پریشان ہو گئی۔ خیریت ہے اس وقت اس کے کیبن میں کوئی نہیں تھا۔ ویسے ہوتا تو وہ خود بھی کھل کر اتنی باتیں نہ کرتا۔ آدمی معقول نظر آرہا تھا۔ بات کرنے کے ڈھنگ اور ظاہری صورت دونوں کے اعتبار سے۔

”ہم یہ باتیں یہاں نہیں کر سکتے ۔لنچ آور ہے۔ چلئے پاس کی کافی شاپ میں چلتے ہیں۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیںمیں اس سے واقف نہیں ہوں۔“

کافی شاپ میں بیٹھتے ہی رضوانہ نے پہلا سوال کیا”آپ یہاں تک پہونچے کیسے۔ میں نہیں سمجھتی کہ ممی پاپا نے میرا پتہ دے کر کہا ہوگا کہ آپ یہاں براہ راست آجائیں۔“

”نہیں۔ نہ انہوں نے ایسی ہدایت دی تھی کہ میں آپ سے مل لوں، نہ آپ کا پتہ بتایا تھا۔ فون پر گفتگو کے دوران ،میرے والدین سے کہا تھا کہ ہم لوگوں کے مل لینے پر انہیں اعتراض نہیں ہوگا، بلکہ وہ اسے بہتر سمجھیں گے۔ آپ کا اور آپ کی لاءفرم کا نام آپ کے بایو ڈاٹا میں تھا۔ ممبئی میں کہیں پہنچ جانا اتنا آسان نہیں، لیکن اتفاق سے میرا ایک دوست بس سال بھر پہلے تک یہاں کام کرتا تھا اور میں پونے میں ہونے کے سبب یہاں آتا جاتا رہتا ہوں۔ اب بھی کمپنی کے کام سے ہی آیا تھا۔“

رضوانہ خاموش رہی۔

”آپ کو برا لگا کیا؟ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا؟“

”نہیں برا لگنے کی بات نہیں۔ نہ جانے کتنے لوگوں سے ملتی رہتی ہوں۔ شاید ممی پاپا نے سوچا ہوگا کہ آپ کے متعلق اور معلومات اکٹھا کر لیں تب بات کریں۔(اس نے دل ہی دل میں دانت پیس کر سوچا کہ ممی سے تو بعد میں نمٹوں گی۔ ابھی اس اجنبی کے سامنے ان کی عزت رکھنی ہے)

قدرے توقف کے بعد بولی:”میری ماں بھی ملازمت کرتی ہیں۔ فرصت کی انہیں بھی کمی ہے۔ پاپا اتنے ماڈرن نہیں کہ مجھ سے براہ راست شادی کی گفتگو کریں۔“

وہ مسکرایا ۔فرصت آج کل سب کے پاس عنقاہے۔ زندگی چوہا دوڑ بن کے رہ گئی ہے۔rat raceکے اردو ترجمے پر رضوانہ مسکرائی۔

”میں سول انجینئر ہوں۔ اس نے بات جاری رکھی۔ پونے میں ایک کنٹرکشن کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ ملازمت مستقل ہے۔ کمپنی بھی خاصی بڑی ہے۔ آپ چاہیں تو اور سوال کر سکتی ہیں۔“ وہ پھر مسکرایا خفیف سی ،دوستانہ سی مسکراہٹ۔

”مجھے اور کچھ نہیں پوچھنا، بس بتاناہے۔ وہ یہ کہ اپنی ملازمت اور کیر ئر کو داو¿ پر لگا کر شادی نہیں کروں گی۔ممبئی چھوڑ سکتی ہوں بشرطیکہ میرے شوہر کے شہر میں میرے کیرئر کے جاری رہنے کے مواقع ہوں۔“

”مجھے ورکنگ وومن پر اعتراض ہوتا تو میں آپ سے ملنے کیوں آتا۔ میں پونا میں لگ بھگ مستقل طور پر رہتا ہوں۔ ممبئی آتا جاتا رہتا ہوں۔ یہاں ٹرانسفر یا نیا جاب لے لینے کے امکانات بھی ہیں۔ سب سوچ سمجھ کر آیا ہوں۔“

”ہوں“ اس کی آنکھیں کچھ سوچتی نظر آئیں، پھرقدرے مسکرا کر بولی: ”تب تو یہ بھی صاف ہے کہ آپ کو میرے وکیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ کچھ لوگ وکیل بیوی لانا پسند نہیں کرتے۔“پھر جلدی سے کہا ”ایسا میری ممی کا خیال ہے۔“

وہ ہنسا۔

 ”دیکھئے ڈرتو مجھے لگاتھا۔ اب کہیں میں کام سے دیرسے لوٹا، رات کو خراٹے لینے لگا، باتھ روم میں غیر ضروری وقت لگایا تو آپ مقدمہ ٹھوک دیں گی۔ پھر میں نے سوچا جرح کرنے میں تو معاف کیجئے گا ساری خواتین استاد ہوتی ہیں، مل ہی لوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔“

”بہت خوش فہم ہیں آپ ۔ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ یہ ابتدا کسی رشتے میں بدلنے والی ہے۔“وہ پھر مسکرائی۔

 ”قطعی نہیں۔ میں صرف امکانات پر غور کررہاہوں۔“

کافی ختم ہو چکی تھی۔ لنچ آور بھی اختتام پر تھا۔ رضوانہ نے بیگ سے چھوٹا سا پر س نکالا اور ویٹر کو بل لانے کااشارہ کیا۔ اس نے جلدی سے پرس پر ہاتھ رکھ دیا۔

”بل مجھے ادا کرنے دیجئے۔

Its a man's previlege."

”یہاں میں لائی تھی آپ کو۔آپ مجھے نہیں لائے۔“

”اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرض پھر بھی میرا ہی ہے۔“

فرائض کوخانوںمیں باٹنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ رضوانہ نے سوچا اور تیزی سے کچھ رقم پرس سے نکالی ۔کچھ ضدی معلوم ہوتی ہیں۔ اکرم فاروقی نے دل میں سوچا۔ ایسی کوئی خوبصورت بھی نہیں۔ ہاں یہ وکیلوں والا کالا سفید لباس، رنگ اختیار کرے اور پیچھے کھینچ کر باندھے گئے بال اتنا کھینچے نہ جائیں تو بہتر لگیں گی۔ جاذب نظر کہاجاسکتا ہے، لیکن چلیں گی۔ بزرگ کہتے ہیں جتنا چھانو اتنا کرکرا کھاؤ ، اب کیاکیا دیکھا جائے۔ تعلیم ،خاندان اس پر سے پری زاد۔

شام کو واپس آنے کے بعد رضوانہ نے سب سے پہلے ماں کو فون ملایا اور برس ہی تو پڑی: ”ممی حد کرتی ہو۔ بتایا تک نہیں سیدھے سرپر سوار کرادیا۔“ قمر کے ذہن میں چھن سے کچھ ہوا۔ یہ اتنی جلدی اسے کہاں سے خبر لگ گئی۔ آج نہ مشترکہ خاندان رہ گئے ہیں، نہ مشاطائیں۔ نہ فرض کا احساس دلانے والے چچا ،ماموں اور کم بخت اولادیں بھی بے نتھا بیل بن گئی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے لئے اخبار اور میرج بیورو ہی کام آرہے ہیں۔ اب ان کا بھی سہارا نہ لیں تو کیا کوار کوٹلے چنیں۔ شادی تو آج بھی ضروری ہے۔ آگے االلہ جانے کون سا دور آئے گا، جن کے سامنے آئے گا وہ جھیلیں گے(میں اپنی ماں اور دادی سے کتنا آگے آئی ہوں؟ شاید اتنا ہی کہ بیٹی سے براہ راست اس کی شادی کی بات کر لوں اور اگر وہ خود کوئی معقول رشتہ لے آئے تو ہائے توبہ نہ مچاوں)

”بیٹا ۔کون؟ کسے کہہ رہی ہو؟ “(

قمر نے سوچا پہلے تصدیق تو کر لوں کیا بات وہی ہے، جو اس نے سمجھی یا کچھ اور)

”اب بنو مت مما۔ خوب سمجھ رہی ہو، میں کیا کہہ رہی ہوں۔ وہ حضرت بلااطلاع آفس میں آن موجود ہوئے۔ معلوم ہوتا تو کہیں اور مل لیتی۔ وکیل کا لباس اوپر سے بال چپڑے ،کس کر باندھے ہوئے۔ چہرہ ہونق۔“

قمر کو رضوانہ کے لہجے میں تلخی کے باوجود ایک طمانیت کا احساس ہوا۔ لڑکی نے دلچسپی تو ظاہر کی۔ حلیہ صحیح رکھنے کا خیال ذہن میں آیا۔ اگر بالکل ہی خلاف ہو تی تو کٹ کھنی بلی کی طرح غراتی اور ذرا پرواہ نہ کرتی کہ کس حلیے میں ملی تھی۔ اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ رات کو بہت دن کے بعد جھاڑ کر جانماز نکالی۔ صاحبزادی خفا ضرور ہوئی تھیں، لیکن پھر بھی رد عمل نارمل تو تھا۔کیسا لگا لڑکا، کے جواب میں ہنسی تھی۔ ”لڑکا“ وہ اتنا ہی لڑکا ہے جتنی میں لڑکی ۔اڑتیس برس عمر بتا کے گیا ہے۔ ویسے معقول لگا۔ بس ذرا بڑبولا ہے۔“

ہو سکتا ہے جسے تم بڑبولا کہہ رہی ہو وہ اس کا اپنے آپ کو پریزنٹ کرنے کا طریقہ ہو۔ اب تم کو اور کوئی بتانے والا تو تھا نہیں۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوگا کہ اسے نتھو بدھو نہ سمجھا جائے۔جانے اتنے دن کنوارا کیسے رہ گیا۔ انجینئر ہے اور ملازمت میں ہے۔“

”جیسے میں ہوں۔“ رضوانہ کے لہجے میں رکھائی تھی۔لڑکی کا کیا۔ اچھی اچھی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ انہیں لینے کو لوگ جب ہی دوڑتے ہیں جب حسین ہوں یا دولت مند اور ہاں ڈاکٹر ہوئی توبھی مانگ لی جاتی ہے۔ وکیل سے تو الٹا لوگ بدکتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے، ان لوگوں کو اعتراض نہیں۔ لگتا ہے ناپسند کر کے نہیں گیا۔ ٹچ میں رہنے کی بات کر گیا ہے۔ ایک تو نمٹے دومیں سے۔“لیکن قمر نے اتنا کچھ کہا نہیں۔ کہتی تو رضوانہ سننے والی بھی نہیں تھی۔

قمر نے اخبار میں ضرورت رشتہ کے اشتہار دیکھنا اور نفلیں پڑھنا جاری رکھا(ایک زمانہ تھا کہ وہ اخبار میں ملازمت کے لئے”خالی جگہوں “ کے اشتہار دیکھا کرتی تھیں)

اس نے انیس کو اکرم فاروقی کے رضوانہ سے ملنے کی بات بتا دی تھی۔معاملے کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔ انیس نے کہاتھا۔

 ”لڑکا جا کر مل آیا ہے۔ اب صاف بات کرے اور تمہاری صاحبزادی کیا فرما رہی ہیں۔ وہ بھی بتا دیں تو ان لوگوں کو یہاں بلا لیا جائے،یاہم چلیں۔“

”صاحبزادی نے صاف تو کچھ کہا نہیں۔ بس یہ کہ وہ رابطہ رکھنے کی بات کرکے گیا ہے۔ مطلب یہ تو ہے کہ’ نا‘ نہیں ہے۔“

انیس بھڑک گیا:

”جی ہاں اب یہ لوگ فون پر گفتگو فرمائیں گے، کمپیوٹر پر چیٹنگ کریں گے، فیس بک پر تصویر یں چپکائیں گے، اس کے بعد اعلان کریں گے کہ ہمیں ایک دوسرے میں

 compatibility

 نہیں نظر آرہی ۔کیا کہتی ہیں تمہاری دونوں بیٹیاں کہ ہمیں سب سے زیادہ

 "compatibility"کی ضرورت ہے۔ تم نے ڈھونڈی تھی؟ ہماری تو دوبار شادی ہوئی۔ مرحومہ کی صورت تک شادی سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اگر چھوڑ نہ جاتیں تو ہم بغیر

compatibilityڈھونڈے ان کے ساتھ خوش تھے۔“ پھر وہ جلدی سے بولا۔ ”ویسے آپ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ خوش ہی ہیں۔“

عمر بڑھنے پر انیس بہت بولنے لگا تھا اور ادھر قمر سے بہت ناراض بھی تھا۔ اس کی ناراضگی سیلی ہو ئی پھلجھڑی کی طرح وقت بے وقت چنگاریاں پھینکتی رہتی تھی۔

کچھ عرصہ پہلے کچھ خواتین نے (جنہیں بقول انیس کوئی اورکام نہیں تھا۔ بچوں کو سیٹل کر چکی تھیں اور شوہر سے وہ بیزار تھیں یا شوہر ان سے بیزار تھے)ایک انجمن بنائی تھی۔ اس انجمن کو ایپوا

 (All India Progressive Women's Association)

کی حمایت حاصل تھی۔ رضوانہ نے ماں کی خوب ہمت افزائی کی۔ تمہارے ریٹائر ہونے میں زیادہ دن نہیں رہ گئے۔ اچھا ہے کسی مشغلے میں مصروف رہوگی۔ وہ بھی ایسے مثبت کاموں میں جن سے غریب عورتوں کی مددہو جائے۔ پاپا بھی ریٹائر ہونے ہی والے ہیں۔ دونوں لڑتے رہو گے اور زیادہ شدو مدسے میری اور عمو کی شادی کرانے میں جٹ گے۔ ہی ہی ہی۔ وہ ہنسی تھی کہیں جو پہلا لڑکا دکھائی دے اسی سے نہ کر دو۔“

قمر کے جوائن کرنے کے بعد جو پہلی فریاد ان لوگوں کے پاس آئی وہ ایک گھریلو کام کرنے والی نوجوان لڑکی کی تھی۔ وہ سولہ سال میں بیاہی گئی، سترہویں سال میں ایک بیٹے کی اماں بنی اور اٹھارویں میں طلاق دے کر گھر بٹھا دی گئی۔ سسرال لکھنو¿کے مضافات میں تھا اور میکہ پرانے لکھنو¿کی گلیوں میں۔ واپس آکر اس نے پھر گھریلو ملازمہ کا کام کرنا شروع کر دیا، بلکہ جن کے یہاں وہ شادی سے پہلے کام کرتی تھی انہیں لوگوں نے اسے رکھ لیا۔لڑکی جس وقت گھر آئی اس کا بچہ چھ سات ماہ کا تھا۔ وہ کوئی سال بھر کا ہوا تو ایک دن اس کا شوہر آیا اور گھرمیں گھس کر بچے کو اٹھالے گیا۔اس وقت وہاں بچے کی کم عمر خالہ تھی جو اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ مرد اور بڑی عمر کی عورت سب اپنے اپنے روزانہ کے کاموں پر نکلے ہوئے تھے۔

”بیٹا ہے۔بیٹی ہوتی تو چھوڑ دیتے۔ بس بہت ہوا۔ سال بھر ماں کا دودھ پی لیا۔ اب ہم گائے کا دودھ پلا کر پال لیں گے۔ باہر آنکھ مٹکا کر تی گھومتی ہے تو تم لوگ بھی تو اب کچھ اور کھلا پلا کر پال رہے ہو۔“

 اس نے سخت لہجے میں سالی سے کہا تیرے پاس تو ابھی کچھ نہیں۔ وہ اس قدر گھبرا گئی کہ احتجاج بھی نہ کر سکی۔ گھر بند کرکے جاکر ماں کو بلا کر لانا اس کے بس کا نہیں تھا۔ آنسو بہاتی انتظار کرتی رہی کہ کوئی آئے تو بتائے کہ کیا واردات گزری ۔ بچے سے اسے بھی بڑی محبت ہو گئی تھی۔

انجمن نے اپنی میٹنگ بلائی ابھی صرف سات خواتین تھیں اور ایک نوجوان لڑکا۔ یہ سب شدومد سے اپنی ممبر شپ او ر دائرہ کا ر بڑھانے میں کوشاں تھے۔ لڑکی ان کے سامنے آئی تو سب نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ آنکھوں سے آنسو تو رواں تھے ہی، اس کا کرتا سامنے سے دودھ کی دھاروں سے بھیگ رہا تھا۔ کئی خواتین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پلکیں جھپکائیں۔ ان کے گلے میں کچھ پھنسنے لگا تھا۔ نوجوان لڑکا کچھ حیرت، کچھ گھبراہٹ کے عالم میں ایسا کچھ ہوتے دیکھ رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اسے فوری طور پر سمجھ پانے سے قاصر تھ

خواتین نے لڑکی کی روداد سنی، اسے تسلی دی اور طے کیا کہ وہ پچیس کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے اس کے شوہر اور سسرال والوں سے مل کر سمجھائیں گی کہ کم ازکم پانچ برس تک وہ بچہ نہ لیں۔ اس کے بعد جوائنٹ کسٹڈی طے کر لیں ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا جائے گا اور عدالت ماں کے حق میں پانچ برس سے زیادہ کا فیصلہ کرے گی۔

”ہم نے میتھلی شرن گپت کی کویتا’ابلاجیون ہائے تیری یہی کہانی‘ آنچل میں ہے دودھ اور آنکھوں میں پانی،کو اس طرح ساکار ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے ہم سب Symbolicسمجھتے تھے۔ یہ تو ساکشات سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔“ انجمن کی سکریٹری شانتی بھٹناگر گاڑی چلا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا ان کے لہجے میں درد مندی بھی تھی اور ایک طرح کی حیرت بھی۔

”اور میتھلی شرن گپت کو یہ لکھے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا۔ آج آبادی کا بڑا حصہ وہیں کا وہیں تھما ہوا ہے۔“ قمر نے تاسف کے ساتھ کہا۔

”changeتو دکھائی دے رہا ہے، لیکن بس یونہی کہ سڑک پر بڑھیا بڑھیا امپورٹڈگاڑیاں ہیں اور بیل گاڑی بھی چل رہی ہے۔

”ہاں دیکھئے نا ،

ابھی ایک بارات میں گئے تھے ۔ دولہا انجینئر تھا۔ لڑکی بنگلور میں سا تھ پڑھتی تھی، لیکن مائکہ بہار کے کسی ایسے گاو¿ں میں تھا جو بالکل ہی اللہ میاں کے پچھواڑے تھا۔ لڑکے والوں کی کاریں ایک مخصوص پوائنٹ پر روک دی گئیں۔ آگے جو پگڈنڈیاں تھیں ان پر صرف بیل گاڑی چل سکتی تھی۔“

مسز نگم نے پہلے بھی یہ قصہ سنایا تھا۔ دراصل وہ اس قدر حیرت زدہ تھیں اور محظوظ بھی کہ سناتی رہتی تھیں۔” اور دولہا کو ہاتھی پر بٹھایاگیا۔“ قمر نے لقمہ دیا جو وہ قصہ پہلے سن چکی تھیں۔

ہاہاہا ۔مسز نگم ادھیڑ عمر خاتون تھیں، لیکن نوجوان لڑکیوں کی طرح بات بے بات قہقہے لگاتی تھیں۔ ”سب سے مزیدار بات یہ تھی کہ رخصتی کے وقت دلہن اچک کر بندریا کی طرح ٹریکٹر پر بیٹھی۔ پھر بیل گاڑیوں ،ہاتھی اور ٹریکٹر پر لادا گیا یہ قافلہ وہاں پہونچا جہاں باراتیوں کی کاریں کھڑی تھیں۔ چلئے اب ذرا ان صاحب سے نمٹیں جو ماں کی گود سے بچہ لے کر بھاگے ہیں۔“ چونکہ وہ بستی قریب آگئی تھی جہاں کا پتہ دیا گیا تھا۔ خواتین چوکس ہو گئیں۔

بتائے ہوئے مکان سے وہ نوجوان لڑکا برآمد ہوا جو اس لڑکی کا سابق شوہر تھا۔ اس کے تیور نہایت جار حانہ تھے۔

”کون ہیں آپ لوگ؟ یہاں کیوں آئی ہیں؟ یہاں نہ پولیو کی دوا پلانی ہے نہ بچے پیدا کرنا بندکرنے کے طریقے بتانے ہیں۔ ایک ہی بچہ ہے ہمارا ۔ پولیو کی دوا پلا چکے ہیں۔“

”بچے کی ماں کہاں ہے؟“

”جچگی میں مر گئی تھی۔“

”نام بتاو“

”کیوں بتائیں؟“

”ہم لوگ جچگی میں ہونے والی موت یا کم عمر بچوں کی موت کا لیکھا جوکھا رکھ رہے ہیں۔“

”خلیقُن کہاں ہے؟“

آوازیں سن کر اندر سے ایک عورت نکل آئی تھی۔ ادھیڑ عمر، تیز طرار ۔کمر پر ہاتھ رکھے۔

”اس کی بات کون پوچھ رہا ہے؟ بھاگی ہوئی عورت کی؟ اس سے ہمارا اب کوئی رشتہ نہیں۔“

”آپ لوگوں نے طے نہیں کیا ہے کہ خلیق النسا کے بارے میں کیا کہنا ہے۔ وہ مر گئی ہے یا بھاگ گئی ہے یا اسے طلاق دی گئی ہے۔“

”ہاں تو بھاگ گئی تھی اس لئے بیٹا ہمارا کیا کرتا۔ ایسی عورت کو واپس لاتا؟ ہم غریب ہیں تو کیاہماری عزت نہیں ہے؟“ وہ عورت بڑے جارحا نہ انداز میں بول رہی تھی ۔

قمر یکلخت سناٹے میں آگئی۔ جب میرا سے اس کے شوہر اور سسرال والوں نے پلا جھاڑنا چاہا تھا تو انہوں نے اس کے ماضی سے ایک ایسا لڑکا ڈھونڈ نکالا تھا جس سے کبھی اس کے مراسم رہے تھے،گر چہ اس نے پوری طرح اپنے شوہر کو قبول کیا تھا، لیکن انہوں نے آخری فیصلہ کرتے وقت اسے بد چلنی کا مورد الزام ٹھہرایا۔

یہ کون بول رہا ہے؟ ایک نچلے طبقے کی جاہل عورت اور اس کا ایک گارمنٹ فیکٹری میں کپڑے پیک کرنے کا کام کرنے والا بیٹا جو محض اتنا پڑھا لکھا تھا کہ دستخط کر لیتا تھا یا ایک اونچے متوسط ، اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے کا انجینئر اور اس کی ڈگری یا فتہ ماں؟ اسے ایسی چپ لگی کہ پھر کچھ بولی ہی نہیں۔ بعد میں ان لوگوں نے پوچھا بھی کہ آخر وہ اس قدر خاموش کیوں ہو گئی تھی۔

خواتین نے ان دونوں سے آرام سے بات کرنے کو کہا۔ خود ان کی بد کلامی کا ذرا بھی اثر نہیں لیا۔لڑکے کو اغوا کرکے لانے کو قانونی جرم بتایا۔ دودھ پیتا بچہ عدالت ماں کے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔ ٹھنڈے دماغ سے سمجھنے کو کہا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کاٹیپ کابند یہ تھا کہ اس آوارہ لڑکی نے یار سے بغیر کسی رکاوٹ شادی کرنے کے لئے بچے کو بیچ دیا ہے۔

”ہمیں تو یہ بھی پتہ ہے کہ کتنے میں؟“

”تو آپ اپنے بچے کو بچانے کیوں نہیں گئے؟“ اس کا جواب تھا کہ اسے بہت بعد میں پتہ چلا اب بچہ کہاں ہے کون جانے۔ شاید کوئی صاحب اسے لے کر فرار ہو چکا ہے۔

ان لوگوں کی مزید کو ششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لئے کہ اس دن ان خواتین کے وہاں پہنچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچے کی دادی اسے لے کر نہ جانے کہاں فرار ہو گئی۔ کارروائی جاری رہی۔ اب بھی جاری تھی۔ خلیق النسا کے دودھ کی دھاریں گرتے گرتے خشک ہوگئیں۔ آنسووں کے سوتے البتہ کبھی خشک نہیں ہوئے۔

انیس ہمیشہ قمر کا مذاق بناتا رہتا تھا بلکہ باقی سب خواتین کا بھی۔ اس کے مذاق بنانے میں مذاق اڑانے کا عنصر حاوی رہتا تھا، ایک پر خلوص طریقے سے بیوی کو چڑانے، ہنسی ٹھٹھا کرنے کا نہیں۔ اسے یہ ساری خواتین فضول لگتی تھیں۔ اپنا اپنا گھر سنبھال لیں وہی بہت ہے۔ چلیں پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانے ۔ایک دو ٹکے کے آدمی کو راہ راست پر نہ لا سکیںاور وہ گالیوں کی بوچھار پر اتر آیا۔ قمر کی شامت آئی تھی وہ انیس کو بتا بیٹھی کہ دوسری ملاقات میں شکل دیکھتے ہی اس نے بے نقط سنانی شروع کی تھیں اور ان مکلف خوا تین سے ذرا نہیں ڈرا تھا جو کار پر بیٹھ کر اس کے غریبا مﺅ دروازے پر آئی تھیں۔ بستی کے بہت سے لوگ نکل کر ٹھی ٹھی ٹھی کر کے ہنسنے لگے تھے اور ان لوگوں نے گرچہ اوپر سے ظاہر نہیں ہونے دیا ،لیکن اندر ہی اندر نہایت شرمندہ ہوئیں۔ کاہے کو کبھی کسی نے انہیں اختو بختو ، کٹنی ،حرافہ جیسی گالیاں دی ہوں گی اور سب پر مستزاد چھنال جو اپنی جیسی چھنال کی حمایت میں ماری ماری پھر رہی تھیں۔

خیر گزری جو قمر نے یہ الفاظ نہیں دوہرائے تھے ورنہ انیس بالکل ہی ہتھّے سے اکھڑ جاتا۔

 اس سے پہلے یہ انجمن ایک معاملے میں دھرنا دینے جارہی تھی اور کئی خواتین پہنچ بھی گئیں، لیکن انیس نے سختی سے کہہ دیا کہ اگر قمر کسی دھرنے جیسی ایکٹیوٹی میں شریک ہوئی تو وہ سرے سے اس کاان میٹنگو ںمیں جانا بند کردے گا۔ اس نے بتایا کہ ایک معاملے میں اسی طرح کی کسی انجمن کی اراکین نے کہیں دھرنا دیا تھا۔ ان میں ایک آئی۔پی۔ایس افسر کی بیوی بھی تھیں، جو فیمنسٹ ایکٹوسٹ تھیں۔ کچھ دن بعد ان کے شوہر کو شنٹنگ میں ڈال دیا گیا تھا۔

قمر کے عدم تعاون کا تذکرہ ہوا او ر اس پر نکتہ چینی بھی ہوئی، لیکن اس نے کہہ دیا کہ وہ ایک حد تک ہی شریک ہے، اس کے آگے نہیں۔ خواتین کہنے لگیں، چلو اسی کے گھر پر دھرنا دیتے ہیں۔

”کیا تیر مار آئیں؟“ انیس نے پوچھا۔

”بچہ مل سکا؟“

”نہیں، مگر شاید آگے کچھ بات بنے۔“ انیس ہنسا۔ یہ ہندوستان جنت نشان ابھی مزید سو برس یو نہی چلتا رہے گا اور یہ آپ کا فیمنزم یہ مغرب سے آیا ہے اور وہاں کیا حال کیا ہے سماج کا، سو دیکھ لیجئے۔ طلاق کے ڈر ، بچوں کی چھیچھا لیدر کے خوف سے اب بیشتر لوگ شادی ہی نہیں کر رہے ۔گوروں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔“

”انیس، فیمنزمصرف زن وشو کے تعلقات تک تھوڑی ہی محدود ہے۔اب اسی معاملے کو لے لوہم کوئی طلاق شدہ جوڑے کو دوبارہ یکجا کرانے نہیں گئے تھے۔ ماں کو اس کا حق دلانا چاہتے تھے۔“

”پہلے اپنا حق مادری تو لے لو۔ تمہاری بیٹیاں تمہیں ٹھینگا دکھاکر نہ جانے کیا کیا کرتی گھوم رہی ہیں۔“ قمر چپ ہو گئی پھر اس نے نظر بھر کر انیس کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر درشتی نہیں، تاسف تھا۔کچھ عرصے سے اس نے بھی لڑکیوں کے معاملے میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان سے کسی طرح کی بحث میں نہیں الجھتا تھا۔ قمر کو اس پر ترس آگیا۔ وہ کچھ پرانے خیال کا ضرور تھا کچھ سخت گیر اوراپنی بات منوانے والا، لیکن اس کی ساری ہیکڑی لڑکیوں نے بھلا دی تھی۔ وہ بد تمیزی نہیں کرتی تھیں، لیکن بڑے اطمینان سے جو چاہتی کرتی رہتیں۔ ویسے کوئی بڑی بغاوت بھی نہیںکی تھی۔ ابھی تک تو نہیں۔ قمر کو سارے اگر مگر کے باوجود اس سے بڑی محبت تھی۔ وہ گھر کا مکھیا تھا،ہیڈ آف اسٹیٹ، اس کے اس تصور نے رشتے کو سنبھال کر رکھا تھا۔ اس محفوظ گھونسلے میں بڑی عافیت تھی۔ پتہ نہیں یہ لڑکیاں کیا سوچ رہی ہیں ۔بڑھاپا تنہا گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج انیس کا ساتھ کیسا غنیمت لگ رہا ہے۔ وہ انیس کے پا س گئی اور اس کے شانوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔ ”چائے بناو¿ں“ اس کے لہجے میں محبت تھی۔ ”چائے بناو¿ں؟ پوچھنے کی ضرورت ہے؟“ اس نے قمر کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ نہ لہجے میں محبت تھی، نہ آنکھوں میں، لیکن دسوں انگلیاں زبان تھیں، شیریں زبان۔

”ویسے ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ خوش ہی ہیں۔“ کئی بار کہا تھا اس نے۔

قمرنے رضوانہ کو فون کیا۔ ”تمہارے پاپا چاہتے ہےں کہ اس بات کو جلدی ہی ایک رخ دیاجائے۔“

”کس بات کو؟“

”بنومت۔ میں اکرم فاروقی کی بات کر رہی ہوں اور تم جانتی ہو کہ میں اس کی بات کر رہی ہوں۔“

”مما، قسم خدا کی، اس وقت وہ میرے ذہن میں دور دور نہیں تھا، لیکن آپ یہ بتائیے کہ میں اس سلسلے میںکیا کروں۔ اپنا اسٹینڈ بتا چکی ہوں۔ مجھے وہ شخص ناپسند نہیں ہوا، لیکن سمجھ میں بھی نہیں آیا۔“

”بیٹا یہ یوروپ یا امریکہ نہیں ہے، ہندوستان ہے۔ یہاں سمجھنا سمجھانا سب شادی کے بعد ہوتا ہے، جو چیزیں دیکھی جاتی ہیں وہ ظاہری ہی ہوتی ہیں۔ اصل شخصیت ساتھ رہنے کے بعد کھلتی ہے اور بیٹا ہررشتے میں ایڈ جسمنٹ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔“

”تو جائیے پو چھئے نا اس سے۔ دولانبی لابنی میلز بھیجنے کے بعد سے خاموش بیٹھا ہوا ہے۔اب مجھے اس سے عشق تو ہوا نہیں ہے کہ پیچھے پڑ جاں۔“

قمر کچھ خفیف ہو گئی۔ واقعی اب تو انہیں لوگوں کو رابطہ کر نا چاہیے۔ اگر وہ خاموش ہو گیا ہے تو اسے ہم کیا معنی پہنائیں۔

انیس کے سوال کرنے پر اس کے والدین نے کہا: ”ہم ابھی تک لڑکے کے فائنل جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے ر شتے تو اور بھی زیر غور ہیں۔“ قمر کا دل بیٹھنے لگا۔ خدا خدا کر کے لڑکی نے کہا تھاکہ اسے لڑکا ناپسند نہیں ہوا ہے۔

پھر جیسے وہ پہلے اچانک آنکلا تھا ویسے ہی دوبارہ نمودار ہو گیا۔ بقول رضوانہ کی گہری دوست نرگس داجی رضوانہ کی زندگی کے افق پر۔

کافی شاپ میں اس نے رضوانہ کی پسندیدہ کولڈکافی وِد آئس کریم آرڈر کی اور اپنے لئے کپچینو پھر اِدھراُدھر کی گپ کر نے کے بعداس نے بغیر کسی لاگ لپٹ کے کہا:”تو رضوانہ صاحبہ کیا ہم لوگ تیار ہیں؟ کیا اپنے اپنے والدین سے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں آگے جو کارروائی کرنی ہے وہ کریں۔“

اچانک رضوانہ کو اپنے گرد وپیش کی پوری دنیا تبدیل ہو تی نظر آئی۔ کیا وہ بھی ایک عام سی نارمل ہندوستانی لڑکی کی طرح کسی کے گھر میں اس کی بیوی بن کر رہے گی؟ اس کے بچوں کی ماں بنے گی؟ شام کو بن سنور کر (کیا گھٹیا خیال ہے) اس کا انتظار کیا کرے گی؟ اس کے گرد وہ حفاظتی خول ہوگا جسے شادی کہتے ہیں، وہ محافظ ہو گا جسے شوہر کہتے ہیں، وہ اس آدھی ادھوری زندگی سے کٹ کر خود کو مکمل محسوس کر ے گی۔ اس کے والدین چین کی سانس لیں گے، لیکن کیا واقعی وہ بھی اس زندگی کو ادھوری سمجھ رہی تھی؟ یہ لفظ آیا کیوں اس نے ذہن میں اس کے جسم میں لرزش پیدا ہوئی۔ شاید لب بھی کانپے۔ اس نے نظریں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر خلوص تھا۔

”اس سے قبل کہ آخری فیصلہ ہو، مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے۔“

وہ کچھ پریشان ہوگیا۔ کیا کسی افیئر کا اعتراف کر نے والی ہیں۔ میں نے اس دوران جو تفتیش کی اس میں تو انہیںکلین چٹ ملتی نظر آئی تھی۔ لمحہ بھر میں اس کے ذہن میں نہ جانے کتنے خیال آکر گزرگئے۔

”کہئے۔“ اس نے کہا:

”میری پنڈلی پر ایک چھوٹا سا سفید داغ ہے۔ یہی کوئی چونی برابر یا شاید ذرا سابڑا۔“

اس کی پریشانی مایوسی میں بدلتی دکھائی دی جس کو نظر انداز کرتے ہوئے رضوانہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

”پچھلے پانچ سال سے اتنا ہی ہے، بڑھا نہیں۔ ڈاکٹر کو دکھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لیو کوڈرما نہیں ہے،لیکن میں بتا دینا مناسب سمجھتی ہوں۔ کسی پردہ دار جگہ پر نہیں ہے۔ آپ دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس نے جھک کر ساری ذرا سی اوپر چڑھانی چاہی۔“

” اس کی ضرورت نہیں، میں دیکھ کر کیا کروں گا۔ آپ مجھے ڈاکٹر کی رپورٹ دکھا سکیں تو بہتر ہوگا۔“ ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ڈوبتا تنکے کا سہارا لے رہا ہو۔

رضوانہ کی تیور یوں پر بل پڑ گئے۔ میرے پاس کسی ڈاکٹر کی رپورٹ محفوظ نہیں ہے۔ بھروسہ کر سکتے ہیں تو کرئے۔ میں خاموش بھی رہ سکتی تھی۔ اسے کسی زخم کا نشان کہہ کر بات چھپا بھی سکتی تھی۔ وہ بھی جب، جب یہ آپ کی نظر میں آتا۔ میں نے تو حتی الامکان کو شش یہ کرنی چاہی کہ ابتدا میں ہی کوئی اختلاف کی صورت نہ پیدا ہوجائے۔“

وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا:”کیا ہم کسی ڈاکٹر سے فریش رپورٹ لے سکتے ہیں؟“

”میں نے جب اسے پہلی بار نوٹس کیا تو والدین کے ساتھ جاکر لکھنو کے کنگ جارج ہاسپٹل کے جلدی امراض کے شعبے میں مکمل چیک اپ کرالیا تھا۔ اب میں آپ کے ساتھ چیک اپ کے لئے جانا اپنی توہین سمجھتی ہوں۔ آپ میری ایمانداری کی قدر نہیں کر رہے ۔مجھ پر یقین نہیں کررہے۔“

”ٹھیک ہے سوچ کے بتاتا ہوں۔“وہ تھوڑی سی رسمی گفتگوکے بعد اٹھ گیا۔ اس باراس نے کافی کا بل بھی رضوانہ کو ادا کرنے دیا ۔ پونے واپس آکر اس نے انگوٹھی کی ڈبیہ جیب سے نکال کر وارڈروب کے لاکر میں رکھ دی۔

ا ر

الو کی پٹھی! سمیر نے دھپ سے رضوانہ کے شانے پر ہاتھ مارا، لیڈی ڈائنااسپنسرکو

Virginity Test

سے گزرنا پڑا تھا اور تم پنڈلی کے اس چونی بھر داغ کا ٹسٹ کرانے نہ گئی کہ اسے اطمینان ہوجاتا۔ اتنا اچھا لڑکاہاتھ سے گنوادیا۔ اب دلتی رہو مونگ اماں ابا کی چھاتی پر۔

”اور سماج کی چھاتی پر بھی“ نرگس نے لقمہ دیا۔ نرگس جلد ہی انعام دار کے فلیٹ میں منتقل ہونے جارہی تھی۔ انعام دار مسلمان تھا پارسیوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہونے کے باوجود یہ لوگ اب بھی برادری سے نکل جانے والی لڑکی کی اولادوں کو پارسی نہیں تسلیم کرتے تھے۔ ان کے یہاں تبلیغ بھی نہیں تھی، پھر بھی لڑکیاں باہر شادی کررہی تھیں اور اس فرقے میں آنر کلینگ نہیں تھی نہ زیادہ رولامچتا تھا۔ بزرگ کچھ تشویش کا اظہار ضرور کر لیتے تھے۔ نرگس کے دادا ،دادی نے کچھ نصیحتیں ضرور کیں۔ کچھ اونچ نیچ سے آگاہ بھی کیا تو اس نے کہا ”ارے ابھی تو ہم صرف تجربہ کررہے ہیں ،کون سا بیاہ کررہے ہیں۔ ابھی بچے نہیں پیدا کریں گے۔ شادی کی تو دیکھا جائے گا، ورنہ ہم اپنے رستے اور شارق اپنے رستے۔“ یہ پورا مکالمہ دادا، دادی کی نقل کرکے اس نے قریبی دوستوں کے حلقے میں سنایا تھا۔ شارق اس کے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا اور پھر باپ کا بزنس سنبھال رہا تھا۔ متمول والدین کا بیٹا تھا۔ پتہ نہیں اس نے اپنے گھر میں کیا سبق پڑھا یاتھا۔

یہ کون سا سماج ہے؟ یہ ہندوستان کا کون سا چہرہ ہے؟

نرگس اور سمیر بقول خود رضوانہ کی ٹریجک کا میڈی یا کامک ٹریجیڈی(اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا تھاکہ و اقعے کو کیا نام دیا جائے) کو سیلیبریٹ، کر نے کا فی شاپ میں اکٹھے ہوئے تھے۔ان کو چند اور قریبی دوستوں کو انتظار تھا کہ لکھنو ¿ جا کر وہاں کے مشہور و معروف باورچیوں کا پکایا روایتی قورمہ بریانی کھائیں گے اور رضوانہ کو اتنا تنگ کریں گے کہ وہ سچ مچ کسی روایتی دلہن کی طرح روتی دھوتی رخصت ہوسکے، ورنہ وہ تو رخصتی کے وقت رونے والی تھی نہیں۔

”لیڈی ڈائنااسپنسرکو بر طانیہ کے تخت وتاج کا وارث مل رہا تھا۔ بعد میں جو تعلقات رہے ان کی پیشنگوئی کرنے والا تو کوئی تھا نہیں اور ویسے اس کی اولاد تو وارث ہو ہی گئی۔“رضوانہ نے جل کر منھ مارا۔”مجھے کسی سلطنت کا وارث پروپوز کرے تو شاید اسکن اسپیشلسٹ کے پاس تو چلی جاو ¿ں، لیکن کنوار پن کا سرٹیفکٹ لانے کو کہا تو گولی ماردوں گی۔“

”کیوں؟ ورجن نہیں ہو کیا؟ ڈر جاوگی ٹسٹ سے؟“ سمیر نے قہقہہ لگایا۔

”کمینے ہو تم ۔ صریح کمینے۔ کسی ملک کا تاج اس ذلت کی قیمت نہیں چکا سکتا۔ اس ترقی یا فتہ ملک کی اس لڑکی نے یہ کیسے گوارا کیا اور شاہی خاندان کی ہمت بھی کیوں کر ہوئی۔ پرنس چارلز کا ٹسٹ نہ کرایا؟ تم سالے جہاں جی چاہے، جب جی چاہے منھ مارو اور ہم اپنا جسم لئے بیٹھے رہیں، پھر لاکھ کہیں کہ ہاں ورجن ہیں تو یقین نہ کرو۔ جب ہم میں اپنی مرضی سے جسمانی رشتہ بنانے کی ہمت آئے گی تو اسے تسلیم کرنے کی ہمت بھی ہوگی۔“

”باپ رے باپ ورجینا وولف ،کیٹ ملر، سیمون دی بوا، رضوانہ انیس آگے آیت۔ تحریک ختم۔“

”ہندوستان میں فیمنزم آیا ہی کہاں ہے۔آئے تو سہی“ رضوانہ ابھی تک خفا تھی۔

” فیمنزم والیاں جتنی برابری چاہتی ہیں وہ کبھی نہیں آسکتی ۔ کیا مارکسزم کے بعد معاشی برابری آئی؟ طبقاتی فرق مٹا؟ کیا سارے پیر پیغمبروں کے بعد سماجی برابری آئی ۔ذات پات ہٹی؟ اہنسا کو مذہب کی بنیاد بنانے والے بدہسٹ روہنگیا مسلما نوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں اور چین نے اس سے پہلے تبت کے ساتھ کیا کیا؟ اب مانو نہ مانو قدرت نے ہی عورت کو ایسا بنایا ہے کہ مکمل مساوات کی مانگ....“ نرگس شستہ انگریزی میں کہہ رہی تھی۔

”نرگس تم عورت ہو کر؟“

رضوانہ نے بات کاٹ کر حیرت سے اسے دیکھا۔

”جس دن بچے گملوں میں اگنے لگیں گے اس دن عورت برابری کا دعویٰ زیادہ مضبوطی کے ساتھ کر سکے گی ،لیکن ابھی تک تو سائنس ایسا کچھ نہیں کر سکا ہے۔ بچہ اب بھی ماں کی کوکھ میں پلتا ہے۔ وہ کرایے کی کوکھ کیوں نہ ہو، لیکن ہو تی تو عورت کے اندر ہی ہے۔ ہاں برابری کا سلوک ،انسان سمجھنا ، فیصلوں میں ساجھے داری....“

”یار

 Cut the crap

سمیر بور ہوکر بولا۔ شاید ہم کچھ سیلیبریٹ کرنے آئے تھے۔رضوانہ کی پسند کے سنہرے جھینگے آرڈر کریں؟ تم پڑھی لکھی عورتیں جہاں بیٹھو گی وہاں یہی سب ڈسکس کرو گی۔ بھول جاوگی کہ زندگی میں کچھ اور بھی ہے۔“

(کیا زندگی میں کچھ اور کی ہی تلاش میں رضوانہ نے اکرم فاروقی پر غور نہیں کیا تھا؟ کیا بظاہر خوش اور مطمئن نظر آنے والی لڑکی زندگی میں کچھ اور آسودگیوں کی متلاشی نہیں تھی؟)

”ایک بات بتاو سمیر“

سمیر نے پہلے نظر بھر کر رضوانہ کودیکھا پھر نرگس سے مخاطب ہوا میں نے سوال کیا تھا۔” بولو“

”تمہاری بیوی تم سے زیادہ کوالیفائڈ ہو، یا زیادہ تنخواہ لارہی ہو یادونوں....“

”اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ کہاں ہے وہ مجھ سے زیادہ تنخواہ والی۔ ملاو ۔“ وہ بہت خوش ہو کر بولا۔

”مسخرہ پن نہیں۔“

”بالکل نہیں۔“

”اچھا اگر تم اس بینک والے کی جگہ ہوتے....“

”کون بینک والا۔؟“

جس کی بیوی نے کوی سمیلن میں جاکر کویتا پڑھنے کی جرا ¿ت کی تھی اور شوہر نے گھر آنے کے بعد پیٹا تھا کہ اس نے مردوں کے خلاف کچھ کہہ دیا تھا گرچہ اس میں اس کے شوہر کی طرف قطعی کوئی اشارہ نہیں تھا۔“

”میں تصور کے سہارے کیا کہہ سکتا ہوں۔ جب تک انسان واقعی اس سچویشن میں نہ ہو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیا پتہ بیوی اپنے achievements کے نشے میں شوہر کو اسکرٹ پہنا کرخود پینٹ پہننے کے پھیر میں ہو اور مجھ سے کٹھ حجتی پر کیوں اتری ہوئی ہو۔ جاو ¿ جاکے اس کم بخت اکرم فاروقی کو پکڑو ۔ ویٹر ....“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور جیسے کسی کوئز کے مقابلے میں تیز گام(Rapid Fire)سوالات داغے جائیں اس طرح دھڑا دھڑ آرڈر دیا۔ ”دوپلیٹ گولڈن فرائیڈپران، ایک پلیٹ چیز پکوڑے، دو کپچینو، ایک کولڈ کافی، دو آئس کریم بعد میں جو اور مانگیں۔“ ماحول کچھ بھاری ہوا ٹھا تھا۔ بڑے مصنوعی لمحات میں مصنوعی قہقہے لگاتے ہوئے ان تینوں اچھے ، مخلص دوستوں نے شام اور کافی دونوں سے لطف اندوز ہونے کی اداکاری کی۔

رضوانہ نے ماں سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا ،لیکن قمر انیس سے یہ بات چھپا گئی کہ بیٹی صاحبہ اتنی بڑی ستیہ وادی ہریش چند ر بنتی ہیں کہ اس بے ضرر سے داغ کو بھی نہ چھپا سکیں اور اچھا بھلا رشتہ کٹوادیا۔ انیس پتہ نہیں کتنا ہنگامہ کھڑا کرتا۔ وہ یہ سوچ کر خاموش رہ گیا کہ لڑکے والوں کو کہیں کچھ اور زیادہ پسند آگیا ہے۔ قمر نے البتہ رضوانہ کو اچھی طرح کھری کھوٹی سنائیں۔ یہاں تک کہا کہ سامنے ہوتی تو ایک آدھ جھاپڑ بھی رسید کر دیتی۔ ”کیا مما، کیا قیامت آگئی؟ ارے ابھی میں بوڑھی تھوڑی ہی ہوئی ہوں۔ ابھی بہت گنجائش ہے۔ دوسرے یہ کہ خوش ہوں ۔ مجھے کوئی کامپلیکس نہیں ہے، اس بات کو لے کر کہ میری شادی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔“ رضوانہ نے اپنی خفگی پر قابو پاکر ماں کو تسلی دی۔ بعد میں خود ان کے لئے افسوس کرنے لگی۔ بے چاری پڑھ لکھ کر بھی سسٹم سے باہر نہیں آسکی ہیں اور پاپا وہ تو بالکل روایتی ہیں۔ بہت سا ٹکراو ¿ تو اس لئے بھی ہے کہ عورتیں بدل رہی ہیں، مرد اپنی جگہ ویسے کے ویسے ہیں۔

”رضوانہ، ارے بےو قوف لڑکی ،مجھے ملیں یہ تمہاری بڑے بڑے دعوے کر نے والیاں تو میں ان سے پوچھوں کہ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر تم ہمسری کا دعویٰ کہاں سے کر لیتی ہو۔ابھی ایک سروے رپورٹ آئی ہے کہ طلاق یا رنڈاپے کے بعد شادی کر نے والے مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔“

”مجھے نہیں پتہ مما آ پ کیا کیا پڑھتی رہتی ہیں اور پھر اسے میرے پر لادتی ہیں۔“

”میں صرف یہ بتا رہی ہوں کہ ایک عورت کے لئے عمر بہت اہم ہے۔ تم جن عورتوں کی مثالیں دیتی ہو وہ فلم اور ماڈلنگ کی دنیا کی عورتیں ہیں۔ وہ تیس بتیس برس کنواری رہتی ہیں اس کے بعد یا تو کوئی کم عمر لڑکا ملتا ہے، جو کچھ دن بعد چھوڑ کر بھاگ لیتا ہے یا پھر کوئی ایسا ملتا ہے، جس کی ایک یا دوبار شادی ہو چکی ہے۔“

رضوانہ بہت خفا ہو گئی۔” لیکن شادی لکھی کسی حکیم نے نسخے میںہے۔ نہیں کرتے ہم۔ تم عمو کو پکڑو۔ دو میں سے ایک سے نمٹ کے گنگا نہاو ¿۔“اس اچانک میل نے رضوانہ کو حیران کردیا، بالکل ایسے ہی جیسے اس کی آمد نے حیران کیا تھا۔ میل باکس میں اوپر ہی اکرم فاروقی کا نام تھا۔ رضوانہ کے ذہن میں کمبخت خیال آیا کہ شاید اس نے معافی مانگی ہے یا یہ کہ اس نے لکھا ہے کہ وہ اس داغ کی بات بھلا کر تعلقات چاہتا ہے یا پھر اس نے رضوانہ کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دوبارہ چیک اَپ کے لئے راضی ہوجائے تو اس کے حق میں اچھا ہوگا۔ اس طرح کی کسی بھی چیز کے لئے چوکنا تو رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔مجھے اب اس کی کسی تجویز سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ گھٹیا انسان، رضوانہ نے سر جھٹک کر سوچا اور میل نہیں دیکھی۔

رات کو کھانا کھانے کے بعد اس نے قانون کی ایک موٹی سی کتاب اٹھائی۔ جوہی دوسرے شہر میں ہوگی، آج اس کی واپسی نہیں تھی۔ اس نے اطمینان سے ایک کیس کے سلسلے میں کچھ حوالے دیکھے۔ ضروری نوٹس بنائے، دل کچھ بے چین محسوس ہوا۔ ایک بے کلی، خاصی رات گزرجانے کے بعد بھی نیند آنکھوں سے دور۔ چلو یہ خلش دورکرہی لوں، اس نے میل کھولی، اس کی آنکھیں پھیل گئیں،میل میں ایک دعوت نامہ تھا۔ اکرم فاروقی کی شادی کا کارڈ۔ اگلے ہفتے اس کی شادی یہیں ممبئی میں ہی ہورہی تھی۔ چند سطریں الگ سے تھیں۔

”آپ سے جو سابقہ رہا اس سے ایک دوستانہ تعلق بن ہی گیا ہے، ہم لوگ جس رشتے کی طرف بڑھے وہ تو نہیں ہوسکا، لیکن جوبنا وہ برقرار رہ سکتا ہے۔ ایک دوست کی حیثیت سے میں آپ کو بارات میں مدعو کررہاہوں۔ ریسپشن میرے آبائی گاﺅں میں ہوگا۔ وہاں شاید آپ نہیں آسکیں گی، لیکن یہاں شریک ہوسکیں تو مجھے خوشی ہوگی۔ ساتھ کے لئے اپنے کسی کولیگ یا دوست کو لانا چاہیں تو لاسکتی ہیں۔“

ہمت تو دیکھو۔ رضوانہ نے دانت پیسے، بیٹا تم میرا ظرف آزما رہے ہو۔ وہ بھی دیکھ لینا، اس نے اسی وقت جواب ٹائپ کیا۔ مبارک ہو اکرم فاروقی صاحب میں شرکت کی پوری کوشش کروںگی۔ بلکہ آپ کے آبائی گاﺅں بھی آسکتی ہوں، لکھیم پور لکھنو ¿ سے بہت قریب ہے، اس بہانے مجھے گھر آنے کا موقع مل جائے گا۔ چھٹیاں ڈیو ہیں۔ امید ہے آپ نے لڑکی کو خوب ٹھوک بجاکے دیکھ لیا ہوگا۔“ کچھ سوچ کر اس نے آخری جملہ کاٹ دیا، میل بھیج دی اور چادر تان کر آرام سے سوگئی۔ اکرم فاروقی دنیا تمہارے اوپر ختم نہیں ہوجاتی۔ بھاڑ میں جاﺅ۔

عمرانہ کا خط تھا۔ اس کی اپنی ہینڈرائٹنگ میں لکھاہوا خط۔ فون اور میل کی دنیا میں خط جیسی مسرت آگیں شے اس قدر عنقا ہوگئی ہے کہ حیرت پہلے ہوتی ہے، مسرت بعد میں۔ خط لکھنے اور خط پانے کا اپنا ہی الگ لطف تھا۔ ویسے وہ خود کب کسی کو خط لکھتی تھی۔ اٹھایا فون، بات کرلی، اس نے خط اٹھا کر پرس میں رکھ لیا اور رات کوسارے کام ختم کرنے کے بعد اطمینان سے بستر میں لیٹ کر بیڈ سائیڈ لیمپ جلایا اور لفافہ یوں چاک کیا جیسے کوئی بچہ کسی چاکلیٹ کا ریپر اتار رہا ہو۔ پہلا ہی جملہ تھا۔ ”انوراگ اور میں الگ ہوگئے ہیں۔ بغیر کسی تلخی کے ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ رشتہ چلنے والا نہیں۔“

رضوانہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور تیزی سے آگے پڑھنے لگی۔ ”بہت دنوں سے ہمارے درمیان دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ باقی ساری زندگی ساتھ گزارنے کا فیصلہ مناسب نہ ہوتا۔ دل اداس تو ہے، لیکن ایسا نہیں کہ دواﺅں کا سہارا لینا پڑے یا کسی کاﺅنسلر کے پاس جانے کی سوچنے لگوں۔تمہیں ایک دلچسپ بات بتاﺅں۔ پتہ نہیں دلچسپ ہے کہ تلخ، تلخ ہے کہ مضحکہ خیز۔ پتہ ہے پہلی بار دل میں اس کا احترام کم ہونے کا احساس کب ہوا؟ دوستوں کے درمیان گپ شپ کے دوران اس نے کہا ”عورتیں صرف دو زمروں میں رکھی جاسکتی ہیں ۔

 G.I.B. اور not so G.I.B. میں نے اسے گھور کر دیکھا۔ کیا مطلب؟ کہنے لگا، گدھی ہو تم۔ مطلب یہ کہ

 good in bed and not so good in bed

۔ مجھے بڑا غصہ آیا۔ میںنے کہا اس تقسیم میں ماں، بہنیں، خالہ، چچی، پھوپی، دادی، نانی سب کو سمیٹ رہے ہو کیا؟ بڑے اطمینان سے بولا جو میرے لئے ان رشتوں میں آتی ہیں وہ کسی نہ کسی کے بستر میں ہیں یا رہی ہیں۔ یہ تو ایک biological

 حقیقت ہے۔ پھر وہ مجھ سے ناراض بھی ہوگیا کہ اس وقت وہ اتنے اچھے موڈ میں اتنی مزے مزے کی باتیں کرکے قہقہے لگا رہا تھا اور میں نے اس کا ستیاناس کردیا۔ ستیاناس اس لئے نہیں کہ میں نے اس کی ماں، بہن، دادی، نانی کو درمیان میں گھسیٹ لیا بلکہ اس لئے کہ میں نے اسے گھٹیا قرار دیا۔ سچ کہوں رضوانہ میں نے گھٹیا لفظ تو استعمال بھی نہیں کیا تھا جب کہ بعد میں میرے ذہن نے اس کی گرد ان شروع کردی تھی۔ میں انوراگ کو بہت باذوق اور نفیس سمجھتی تھی۔ آفس میں کئی مرتبہ میں نے مرد ہم کاروں کو عورتوں کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ گھٹیا باتیں کرتے سناہے، لیکن انوراگ کہیں بہت اونچے ستون پر تھا۔

اچھا تمہاری بوریت رفع کرنے کو بتادوں کہ میں شادی کے لئے تیار ہوں اورمما سے کہہ دیا ہے کہ کوئی اچھا لڑکا دِکھے تو مل لوں گی بقول ان کے لاتیں نہیں جھاڑوں گی، مگر ہاں شادی کو جب ہی رضا مند ہوں گی جب مجھے بھی وہ اچھا لگے اور میرا

 virginity test

 نہ کرائے۔ زیادہ تو نہیں، لیکن کبھی کبھی 

"Anurag and I had been physical"

”کم بخت، یہ بوریت رفع کی ہے یا زور کا جھٹکا دیا ہے۔ اسے ایمانداری اور صاف دلی کہوں یا حرمزدگی۔ سارے اصول گھول کر پی جانا، ساری قدریں طاق پر رکھ دینا کیا معنی رکھتا ہے، کیا آزادی یہی ہے؟“رضوانہ نے دل میں سوچا۔

 ”بے ہودہ کہیں کی۔ کم از کم خاموش ہی رہتی۔“

پھر اس نے آگے پڑھنا شروع کیا۔

”وہ تمہارے اکرم فاروقی تو نہایت

 Bond

 نکلے اور ان سے زیادہ تم کہ کہتی ہو ان کی بارات میں جاﺅگی۔

آج کی تازہ خبر دیکھ لی ہوگی۔ ملالہ پر حملہ کرنے والوں کو کلین چٹ مل گئی۔ ہم لوگ ہاشم پورہ کو رو رہے تھے۔ پھر ارونا شان باغ۔ قسم خدا کی رضوانہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ زنابالجبر وہ بھی اس طرح کا جیسا ارونا کے ساتھ ہوا یا نربھیا کے ساتھ یا بدایوں والی بہنوں کے ساتھ، اس کی سزا اسلامی شریعت میں ہی ہے۔ تمہارے قانون نے تو کہہ دیا کہ اس سوہن لال والمیک کا اب کچھ نہیں ہوسکتا اور اب کچھ ہوکے بھی کیا ہوگا۔ اسے پھانسی دے کر بھی کیا کرلیں گے لوگ۔ میرا خون کھولتا ہے رضوانہ۔ ایک

 impotent rage

 مجھے پاگل بنانے لگتا ہے۔ ختم کرتی ہوں۔ میرا دماغ خراب ہونے لگا ہے۔ سارا موڈ غارت ہوگیا۔ سوچا تھا اور کچھ لکھوں گی۔ بہت سا پیار.... عمو

رضوانہ نے بھی جواب میں ہاتھ سے خط لکھا اور اسپیڈ پوسٹ سے بھجوادیا۔

”عمو! ابھی سماج بین المذہبی شادیوں کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہورہی ہیں، لیکن مڈل کلاس کے والدین تباہ ہوجاتے ہیں، خاص طور پر لڑکی کے والدین۔ تیرے اور انوراگ کے تعلقات کو لے کر تو میرا بھی پریشان ہونے لگی تھی اوپر سے جتنا مسخرہ پن کرلیتی، لیکن انیس چاچا اور قمر چاچی کی بڑی فکر تھی اسے۔ چل اچھا ہوا تو ایک جھمیلے سے تو بچ گئی، لیکن جہاں تک آگے بڑھ گئی تھی وہ اچھا نہیں ہوا تھا۔ میں تجھ سے صرف سال بھر بڑی ہوں، مساوات کی زبردست قائل ہوں۔ ذاتی طورپر مجھے تو انوراگ سے بھی کوئی پرابلم نہ ہوتا، لیکن ہاں یہ جسم کی بات۔ میں اصولوں کی قائل ہوں، کچھ بندشیں ہیں جنہوںنے ہمیں انسان بنایا ہے ورنہ حیاتیاتی طورپر تو ہم بھی ہیں تو جانور ہی۔ اب ایک بات سن لے کان کھول کے اور ہوش میں رہ۔ مجھ سے کہا سو کہا اور کسی سے نہ کہنا اور اگر واقعی اچھا لڑکا مل جائے تو اس سے ہرگز نہ بتانا ورنہ بھاری پڑ جائے گا۔ ملالہ والی نیوز پڑھی۔

( تو تو اسی پروفیشن میں ہے) 

شاید گزشتہ اکتوبر یا نومبر میں ایک خبر کسی نے دوبئی سے مجھے میل کی تھی وہ بھی یاد ہوگی۔ پاکستان کے کسی شہر میں ایک صاحبزادے نے تیس سال کے بعد اپنی ماں کو ڈھونڈ کے نکالا جنہوں نے اس لڑکے کے باپ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلی تھی۔ اب نئے شوہر کے ساتھ ان کے تین چار بچے بھی تھے۔ سب کو چچا کی مدد سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ غریب گھر سے بھاگی بھی نہیں تھی، اس نے تو بیوگی کے بعد دوبارہ گھر بسایا تھا۔ سچ کہوں مجھے اودھم سنگھ یاد آگیا جس نے بیس برس بعد جنرل ڈائرکو مارا تھا۔ اس عورت کا قصور اتنا ہی بھیانک تھا جتنا جلیاں والا باغ کا قتل عام۔ میں دیر تک انگشت بدنداں رہی۔ رہی شریعت والی سزا تو مستحقین کے ساتھ کئی بے گناہ پس جاتے ہیں ،وہ بھی زیادہ تر عورتیں۔ میں خوفناک قوانین کی قائل نہیں ہوں۔چل، ممی سے کہہ دے مجھے چھوڑیں، تیرے لئے کسی کو لائیں پکڑ کے۔ 

all the best

 اور ہاں۔ میں بھی ٹرائی کروں گی۔ اپنے لئے نہیں ایڈیٹ ،تیرے لئے۔“

سلمان سے عمو کی ملاقات رضوانہ نے ممبئی میں بیٹھے بیٹھے کرادی۔ وہ جب وکالت پڑھ رہی تھی، سلمان اس سے ایک سال سینئر تھا اور اس کا اچھا دوست تھا، دونوں نے دوستی کے علاوہ کبھی کچھ اور نہیں سوچا۔ مذاق مذاق میں ایک بار اس نے کہاتھا کہ عورتیں ویسے ہی کٹھ حجت ہوتی ہیں، وکیل بن جائیں تو کڑوا کریلا نیم پہ جا چڑھتا ہے۔ وہ شادی کسی پروفیشنل سے تو کرنا چاہے گا، لیکن وکیل سے نہیں۔ فی الحال دہلی ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہا تھا۔ فیس بک کے ذریعے رضوانہ سے رابطہ تھا۔ رضوانہ کو عمو کے لئے اس کا خیال آیا۔ وہ بھی دہلی میں ہی تھی۔ اکثر نیوز کے لئے ہائی کورٹ کے چکر بھی لگا آتی تھی۔

رضوانہ نے اسے فون کیا:

”کیوں بے، شادی کیوں نہیں کررہا۔“

”تم کیوں نہیں کر رہیں؟“

”سوال میں نے کیا ہے۔“

”ابھی تک وہ نہیں ملی جس سے شادی کرنا چاہوں۔“

”میری بہن کو دیکھے گا؟“

”وہی جو جرنلسٹ ہے اور ایک اخبار میں کام کررہی ہے۔“

”وہی۔“

”شاید ایک بار اس سے ملا ہوں۔“

”پھر سے مل لے اور ذرا شرافت سے۔ ملنے کا انتظام میں کراتی ہوں۔“

بندہ ہے اسمارٹ۔ عمرانہ نے سوچا۔

”لڑکی اچھی ہے اور بڑی بہن جیسی بقراط بھی نہیں۔“ سلمان نے سوچا۔

 ”شادی کیوں نہیں کی اب تک؟ خاصے

 eligible

 بیچلر ہیں۔“

”سچ بولوں یا جھوٹ؟“

”وکیل زیادہ تر جھوٹ ہی بولتے ہیں، لیکن میں آپ کی کلائنٹ نہیں ہوں۔ مجھ سے سچ بولئے۔“

”میری زندگی میں ایک لڑکی تھی تین سال اس کے ساتھ ضائع ہوگئے۔ ایک آدھ سال اس رشتے کو مکمل طور پر بھولنے میں لگا۔ اب میں آزاد ہوں اور گھر بسانے کا خواہش مند بھی۔ آپ جو چاہیں ابھی پوچھ لیں۔ میں سچ بولوں گا۔ اس کے بعد یہ چیپٹر بندکردیا جائے گا۔“

”قربت کتنی تھی؟“

”live-in relation ship

۔ ڈیڑھ سال۔“

عمرانہ کے اندر کچھ چھن سے ہوا۔

”رشتہ ٹوٹا کیوں؟“

”بس دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگا۔ وہ کہیں اور دلچسپی لینے لگی۔ اس کے بعد شادی بھی جھٹ سے کر ڈالی۔“

”ایک بات بتائیے۔ اگر میں آپ سے کہوں یا کوئی اور لڑکی کہے کہ اس کا کہیں ایسا کوئی رشتہ تھا تو آپ اسے قبول کریں گے؟“

”اگر وہ اس رشتے سے اسی طرح باہر آچکی ہے جس طرح میں تو ضرور قبول کرلوں گا۔ میں دوہرے معیار کا قائل نہیں ہوں۔ آخر بیوہ اور طلاق شدہ لڑکیوں سے بھی تو شادی کی جاتی ہے۔“

”انہیں شاید اس لئے قبول کر لیا جاتا ہے کہ ان کے پہلے رشتے کوسماج کی منظوری حاصل تھی۔ میں اپنی مرضی کے رشتے کی بات کر رہی ہوں۔ میرا ایک بوائے فرینڈ تھا۔ میں اس کے ساتھ رہی کبھی نہیں، لیکن کچھ کمزور لمحے ہمارے درمیان ضرور آئے۔

 I am not a virgin“

وہ ہکابکا رہ گیا۔ پھر اٹھ کر عمرانہ کا ہاتھ تھام لیا۔” میں آپ کی بیباکی اور حق گوئی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔“ پھر مسکرا کر قرون وسطیٰ کے کسی نائٹ کی طرح گھٹنے ٹیک کر بولا:

 "May I?"

عمرانہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قدرے توقف کے بعد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی:

 "Yes!"

رضوانہ بے حد خوش تھی۔ دونوں بہنوں نے بڑی ہوشیاری سے والدین سے یہ بات چھپالی کہ سلمان ذات کامینہار تھا۔ بس کوئی دو پشت پہلے اس کے گھر کے لوگ فیروز آباد میں شیشہ گری کرتے تھے۔ دوچار غریب رشتے دارایسے بھی تھے جن کے گھر کی خواتین سرپر ٹوکرا لے کر چوڑیاں پہنانے نکلتی تھیں، لیکن سلمان کے دادا نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرکے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور بیٹے یعنی سلمان کے والدکو ڈاکٹر بنایا۔

”تم اتنی بڑی بات ہضم کرگئیں، لیکن میری ذات کو لے کر والدین سے جھوٹ بولنا چاہتی ہو۔ ایسا کیوں ہے؟“

 اس نے عمرانہ سے پوچھا تھا۔

”سنو سلمان، ایک مرد کہیں منھ مارتا پھرا تھا یہ برداشت کرلیاجائے گا، لیکن وہ ’کم ذات‘ ہے یہ اشرافیہ میں برداشت نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک اعلیٰ ذات سارے عیب جھپا لیتی ہے۔ ویسے تم کم ذات کم، بدذات زیادہ ہو۔“ رضوانہ نے کہا۔

سلمان مسکرایا ”کتنے شیریں ترے لب کہ رقیب....“

”ارے ارے، اسے تو اردو آتی ہے۔“

عمونے مصنوعی حیرت سے آنکھیں نکالیں۔ تینوں قہقہہ لگاکر ہنس پڑے۔

”میرے ہنسنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے....“ رضوانہ نے مسرور لہجے میں کہا۔

”بتا ڈالو....“ سلمان نے شرارت سے لب بھینچے۔

میری رشتے کی ایک چچی نے بیٹی کی نسبت طے کی۔ رشتہ طے ہونے کے بعد سننے میں آیا کہ صاحبزادے کا اپنی کسی ہم جماعت کے ساتھ عشق رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے رشتہ توڑنے کی رائے دی۔ چچی نے جواب دیا ہم نے بیٹی کا رشتہ مر دسے طے کیاہے کسی سادھو سنت سے نہیں اور اطمینان سے شادی کردی۔

 انہیں چچی نے ایک بہت اچھا، کلاس ون سرکاری افسر کا رشتہ صرف اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ اس لڑکے کے خاندان میں تین پشت پہلے کسی بزرگ نے ایک طوائف سے شادی کرلی تھی۔ وہ بی بی تائب ہوکر بڑی اﷲ والی ہوئیں۔ محلے میں ایک مسجد بنوا کے گئیں، مگر ان کے گناہ ان کا پیچھا کرتے رہے۔ کسی ’نجیب الطرفین‘ نے ان کے یہاں بیٹی نہیں دی۔

سلمان کچھ سنجیدہ ہوگیا۔

”میں رشتوں میں کچھ چھپا نا نہیں چاہتا۔ اگر شادی کے بعد معلوم ہوا تو؟ اور واقعہ یہ ہے کہ معلوم ہو ہی جائے گا۔“

عمرانہ ہنسنے لگی۔ یہاں بھی ایک چچی ہیں۔ ان کا تعلق بہار سے ہے۔ وہ بھوج پوری کی بڑی فصیح و بلیغ مثل سناتی ہیں۔

 ”بھئیل بیاہ مور، کرباکا۔یعنی اب تو بیاہ ہوچکا، کر لو کیاکروگے؟“

بڑی دھوم دھام سے عمو کا بیاہ اس مردحق گو سے ہوا جسے حق سننا آتا تھا اور سن کر اسے برداشت کرنا بھی۔

رضوانہ عمو کی شادی کے تیسرے ہی دن واپس ہوگئی۔ اس کا آناجانا یوں ہی طوفانی ہوا کرتا تھا۔ شادی میں میرا کی ماں اور کزن، جانہوی بھی آئی تھیں۔ دونوں بہنوں کے گلے لگ کر خوب روئیں۔ چھان پھٹک تو لیا ہے نا؟ انہوںنے آنکھیں پونچھتے ہوئے قمر سے پوچھا۔

انیس نے اب رضوانہ سے ہاتھ دھولئے تھے۔ چلو ایک بیٹی کا بیاہ کرکے سماج میں سرخرو ہولئے۔ کچھ دن کے لئے لوگ بھی خاموش ہوجائےں گے۔ وہ خود سرضدی لڑکی جانے اور اس کاکام، لیکن وہ قمر کے سامنے بڑبڑاتا اکثر رہتا تھا۔ میں عورتوں کے زیادہ پڑھنے کے حق میں کبھی نہیں رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن قمر ہنسی: ”تم کیا بڑے بڑے نہیں رہے۔ سرسیداحمد خاں جنہوںنے پوری قوم کو اتنی بڑی درسگاہ کا تحفہ دیا، عورتوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تو صاف صاف کہا کہ عورتوں کو تعلیم ملی تو وہ اپنا حق مانگنے لگیں گی۔“ اس کے لہجے میں طنز تھا۔

”اب تو خوب حاصل کر رہی ہیں تعلیم۔ آپ کون سی کم ہیں۔ آپ ہی کا فیض ہے کہ بیٹیوں نے جو چاہاکیا۔ رہے سرسید یامولانا تھانویؒ، تو وہ پرانے بزرگ تھے۔ ان کی سوچ اتنی ہی تھی۔“

”آپ کی سوچ کون سی آگے بڑھی۔ آپ پرانے بزرگ کب سے ہوگئے۔“

”لڑنے کے علاوہ تعلیم سے اور کیا کیا آتاہے؟“

”گھر کی آمدنی میں اضافہ۔ سراٹھا کے جینا۔ کسی عنوان مردکا سایہ سرپر نہ ہو تو خود کفیل ہونا۔“

”اور گھر سے دور تنہا رہ کر نہ جانے کیا کیا کرتی پھرنا جو ہماری رضوانہ صاحبہ کررہی ہیں۔“ اس نے بات کاٹ کر لقمہ دیا۔

”کیا کرتی پھر رہی ہے! کسی نے کچھ کہا کیا؟“

”کوئی کہے گا کیا، لیکن قیاس بھی تو کوئی چیز ہے۔ آخر وہ اکرم فاروقی کیوں بھاگ نکلا۔ اسے تو محترمہ نے پسند کر لیا تھا۔“

 اپنی ہی بیٹی کے لئے انیس کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی اور شدید ناپسندیدگی کا عنصر۔

اکرم فاروقی کی شادی کا دعوت نامہ رضوانہ نے سمیر اور نرگس کو بڑھا دیا تھا چونکہ اکرم نے لکھا تھا کہ چاہے تو ساتھ کے لئے ایک دو دوستوں کو مدعو کر سکتی ہے۔ سمیر نے اسے مذاق سمجھا اور توجہ ہی نہیں دی۔ نرگس دوست کے ساتھ ہم کار بھی تھی۔ وہ چلی آئی۔

اکر م حیرت زدہ رہ گیا۔ اسے لگ رہا تھارضوانہ نے یونہی کہہ دیا ہے۔ شاید یہ دکھانے کے لئے کہ اسے اکرم کی کہیں اور شادی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ آئے گی تھوڑ ے ہی۔ بڑی جی دار لڑکی ہے، اس نے سہرے کی لڑیوں کے پیچھے سے اسے غور سے دیکھا اور پھر کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ رضوانہ نے بے حد سلیقے سے میک اپ کیا تھا۔ بے داغ گندمی جلد، شانوں تک تراشے ہوئے کھلے بال۔ کپڑے نہایت باذوق، نہ چیختے چلاتے جیسے اکثر خواتین شادی میں روا رکھتی ہیں، نہ آفس والے کالے سفید، سراپا شاخ گل، پھر ایسی وضع داری کہ کچھ لوگوں کے سوال کرنے پر اس نے بڑی متانت سے بتایا کہ اکرم کی کمپنی اور اس کی لاءفرم کے کاروباری تعلقات کی وجہ سے وہ اور نرگس اپنی فرم کے سربراہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

 اچانک اکرم کو احساس ہوا کہ اس نے کہیں کوئی غلطی تو نہیںکی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ داغ برص کا داغ تھا تو اب تک پھیل چکا ہوتا۔ جس لڑکی کے گھر وہ بارات لے کر آیا تھا، وہ والدین کی موجودگی میں چائے کی ٹرے لے کر داخل ہوئی تھی اور بس ایک بار کی اس نہایت روایتی ملاقات کے بعد رشتہ طے پاگیا تھا۔ بیشک اس کے بعد فون پر گفتگو ہوتی رہی تھی، لیکن بس دوماہ کے اندر شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی۔ لڑکی قبول صورت تھی، گفتگو میں معقول محسوس ہوتی رہی تھی، لیکن یہ ’بات‘ نہیں تھی اس میں، یہ اعتماد بھی نہیں تھا۔

پھر اس نے دل کو تسلی دی۔ عورتوں میں خود اعتمادی وصف نہیں، منفی پہلو ہوسکتا ہے۔ مہمانوں میں ایک صاحب رضوانہ کے پرانے شناسا نکل آئے تھے۔ شاید لاءکالج میں ساتھ تھے، بڑی گرمجوشی سے ان سے ہاتھ ملایا پھر دیر تک چہک چہک کر باتیں کرتی رہیں۔ کیا پتہ کبھی کوئی ’معاملہ‘ رہا ہو۔ ایسی آزاد، خود مختار لڑکیاں اتنے دنوں تک کنواری رہ جائیں اور کوئی معاملہ نہ رہا ہو۔ ناممکن، او کے، ناممکن نہ سہی، لگ بھگ ناممکن

 next to impossible

 ۔ اچھا خیر نہ ہو کچھ، لیکن مردوں سے اتنی بے تکلفی برتنے والی خواتین ہمارے گھر میں کہاں کھپیں گی۔ شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کاارادہ بھی تھا۔ پتہ چلتا کہ گھر میں مرددوست چلے آرہے ہیں، یہ لڑکی یقینا گھریلو مزاج کی ہوگی ہمیشہ والدین کے ساتھ رہی ہے، عمر میں کم ہے۔کمپیوٹر کا کورس کر چکی ہے۔ اگر گھر میں کچھ زائد، ذاتی آمدنی چاہے گی تو پارٹ ٹائم کام کرنے دوں گا۔ جو مل رہا ہے بہت ٹھیک ہے۔ اس نے طمانیت کے ساتھ سوچا اور خوشی خوشی نکاح نامے پر دستخط کردئے۔

جو ملا وہ بہت ٹھیک نہیں تھا، وقت نے بتایا، وقت جو سب سے بڑا منصف ہے، وقت جو سب سے بڑا مزاج داں ہے، وقت جو زخم بھرتا بھی ہے اور زخم دیتا بھی ہے۔

سال، ڈیڑھ برس کے اندر اکرم فاروقی کی بیوی گھر جاکر بیٹھ گئی۔بات یہ نہیں تھی کہ اکرم میں کوئی کمی تھی، بات یہ بھی نہیں تھی لڑکی بری تھی یا اپنے مرد دوستوں کو گھر پر بلاتی پھرتی تھی۔ وہ تو سرے سے کریئرگرل تھی بھی نہیں۔

اکرم کو ملازمت پیشہ بیوی پر اعتراض نہیں تھا، ایک خاموش پسندیدگی ہی تھی کہ گھر میں دوہری آمدنی بہتر معیار کی ضامن ہوتی ہے، لیکن نہایت دولتمند سسرال سے اس کی بھرپائی ہورہی تھی۔ بہ حیثیت مجموعی دونوں شریف گھروں کے عام سے میاں بیوی تھے بس اس لڑکی کا موسیقی سے غیر معمولی شغف اختلافات کی بنا بن گیا، اس نے باقاعدہ کلاسیکی موسیقی کچھ عرصے تک سیکھی بھی تھی، لیکن اس سے کیا، اس کے ”بایو ڈاٹا“ میں تو اس کا ذکر بھی تھا کہ اسے موسیقی کا شوق ہے۔

تو اس سے یہ کہ ہر کونسرٹ کا ٹکٹ چاہئے، آئے دن ممبئی کے کوڑی پھیرے، ہر وقت موبائل پر یا لیپ ٹاپ پر یوٹیوب پر زور زور سے گانے سنے جارہے ہیں۔ آواز کم کرنے کو کہو تو مزا نہیں آتا، پھر یہ کہ آن چھوڑ کر اٹھ جانے پر کان میں آواز آتی رہتی ہے اس لئے والیوم کم نہیں ہوگا۔ اماں ابا نے کچھ عرصے بعد میوزک کی تعلیم رکوادی تھی کہ شریف مسلمان گھرانوں میں اس سے زیادہ کا کیا کام، بہت ہوا، شوق پورا کرلیا، ہم تو بھائی یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ شادی کے بعد آزاد ہوں گے۔ آج کے شوہر کو ایسا اعتراض تھوڑی ہوگا۔ سو استاد مقرر کرلئے گئے، اب ہروقت ریاض ہورہا ہے۔

بات یہاں تک بھی رہ جاتی تو خون کے گھونٹ پی پی کر برداشت ہوجاتی، جیسے ہو رہی تھی اس لئے کہ باقی معاملوں میں لڑکی اچھی تھی۔ گھر بہت سلیقے کے ساتھ رکھتی، باورچی خانے میں دلچسپی لیتی اور انوراگ کی جس درجہ بندی کی وجہ سے عمرانہ کا جی کھٹا ہوا تھا، اس کے مطابق جی آئی بی تھی۔ گڈ ان بیڈ۔ پانی سر سے اونچایوں ہواکہ جو صاحب میوزک سکھانے آتے تھے انہوںنے اسٹیج پر پروگرام دینے کے خواب جگائے اکرم نے سخت نارضامندی کا اظہار کیا تو انہوںنے بہت دیر بیٹھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

 ”دیکھئے رومی (وہ ادھیڑ عمرانسان تھے، اس کی عرفیت استعمال کرنے لگے تھے) میں بڑی ٹیلنٹ ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ اگر وہ کوشش جاری رکھے تو پلے بیک سنگر تک بن سکتی ہے۔ آپ اس کی صلاحیت کو دبائیے مت۔ ہر انسان اپنی تکمیل چاہتا ہے۔“

انہوںنے دوچار نفسیات دانوں کو کوٹ کیا۔ اکرم مزید بھڑکا، یہ اس کے گھر کا معاملہ تھا۔ بیوی بھی اُلا رہو گئی۔

”جس کو کھرچو اس کے اندر سے ایک فیمنسٹ برآمد ہو رہی ہے۔“ ایک دن وہ چڑھ کر بولا تھا۔

 ”کس کس کو کھرچ چکے ہیں آپ؟“

تیزاب میں ڈوبا جوابی حملہ ہوا۔

رومی گھر سے بے نیاز ہوتی چلی گئی، پھر اکرم سے بھی، اس نے اسٹیج پر پروگرام تو نہیں دیا،لیکن صبح کا وقت جو پہلے ساتھ میں بڑا خوبصورت گزرا کرتا تھا، ریاض میں گزرتا تھا۔ اکرم کو کلاسیکی موسیقی سے کوئی شغف نہیں تھا۔ وہ اسے چیخ پکار لگتی 

(جیسے راج کے دوران بعض انگریزوں کو لگا کرتی تھی۔) 

اب اکرم بیڈ ٹی تنہا پیتا تھا۔ اکثر ناشتہ تنہا کرتا تھا۔ اس نے میوزک ٹیچر کو ہٹانے کی بات کی تو وہ میکے چل دی۔ یہ سارا معاملہ شادی کے چھ ماہ بعد شروع ہوکر اگلے سال بھر کے اندر سنگین صورت اختیار کرچلا۔ آئے دن جھگڑے، آئے دن بات چیت بند، اخراجات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ بڑے گھر کی لڑکی کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا، شروع میں اس کے پاس بھاری رقم تھی جواسے شادی کے وقت ملی تھی، لیکن اب وہ ہر چیز کے لئے اکرم سے فرمائش کرتی تھی۔ غرض یہ کہ ایک بنیادی اختلاف نے بہت سے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی راہیں بھی کھول دی تھیں جوآگ میں گھی ڈالتے رہتے تھے۔

پہلے میں نے سوچا ہمارے یہاں جلدی ایک بچہ آجائے تو بیوی اس میں بندھ کر میوزک بھول جائے گی۔ پھر میں نے سوچا کہ نہیں ابھی بچہ مزید مسئلے پیدا کر سکتا ہے، پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ شادی چل سکے گی یا نہیں۔ بیوی نے بچے کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ مجھے یہ بھی شک ہوا کہ کہیں وہ اچھی ماں ثابت ہوسکے گی یا نہیں۔ ابھی اس کی عمر کم ہے۔ کسی دن باتوں باتوں میں اس نے کہاکہ اسے شادی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ بڑے رومانی تصور پال رکھے تھے اس نے۔ میں نے پوچھا کہ پھر تم راضی کیوں ہوئیں۔ بولی میںنے سوچا یہ بھی ایک تجربہ ہے، کر لیاجائے۔ تو؟ جواب ملا

 I am sorry, it doesn't seem working

 ۔ ویسے کوشش تو کر رہی ہوں۔

اکرم نے یہ ساری باتیں اختصار کے ساتھ، لیکن صاف صاف لکھ ڈالی تھیں۔

کوئی اٹھارہ بیس ماہ کے وقفے کے بعد جب وہ کبھی دھندلی سی یاد بن کر بھی شاید ہی ابھرا ہو، اس کا نام میل باکس میں دیکھ کر رضوانہ کی آنکھیں ہر مرتبہ سے زیادہ حیرت زدہ ہواٹھیں۔ ڈھیٹ کہیں کا۔ اب کیا بچے کی چھٹی میں مدعو کررہا ہے۔

سارا کچھ پڑھ کر اس نے جواب دیا: ”آپ مجھ سے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔“

جواب کا جواب آیا۔ ”ملنا چاہتا ہوں۔“

رضوانہ نے لکھا۔ ”میں طلاق میں اسپیشلائز نہیں کرتی۔ نہ ہی میرج کاﺅنسلر ہوں۔ آپ غلط بٹن دبا رہے ہیں۔“

اکرم نے اب کی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اسی طرح رضوانہ کے پاس پہنچ گیا جیسے ڈھائی تین سال پہلے پہنچا تھا۔

”میں، آپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے آیاہوں۔ اگر آپ رضامند ہوں تو ابھی آپ کے سامنے طلاق نامہ لکھ کر سسرال بھجوادوں گا۔“

رضوانہ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔

”مجھے دروازے پر آئے لوگوں کو بے عزت کرنا اچھا نہیں لگتا اکرم فاروقی صاحب۔ آپ کا چہرہ میں آج آخری مرتبہ دیکھوں۔ آج کے بعد آپ نظر نہ آئیں، جو یاد اﷲ آپ سے ہوئی اس کے تحت ایک مشورہ ضرور دوں گی، جائےے کسی میرج کاﺅنسلر سے ملئے۔ یہ ایڈجسٹمنٹ کے معمولی مسئلے ہیں۔ بیوی کپڑوں کی طرح نہیں بدلی جاتی۔“

”یہ آپ کا آخری جواب ہے؟“

رضوانہ نے کچھ فائلیں اٹھائیں اور چیمبر سے باہر نکل گئی۔ کوری ڈور میں بیٹھے چپراسی سے کہتی گئی، میرے کیبن میں جو صاحب ہیں ان سے کہو تشریف لے جائیں۔

نرگس اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہ کر تجربہ کررہی تھی کہ شادی کرنا مناسب رہے گا یا نہیں۔ جوہی نے دوچار عشق لڑا کر ماں باپ کی پسند سے شادی کرکے ائرلائنس کی نوکری چھوڑ دی تھی اس لئے کہ اس کے شوہر اور سسرال والوں کو ائرہوسٹس کی نوکری پسند نہیں تھی۔

”مجھے فیشن ڈیزائننگ کا شوق رہا ہے۔“ اس نے رضوانہ کو شادی کا کارڈ دیتے ہوئے بتایا تھا۔

”بہ آسانی کوئی کورس کرکے اپنا بوتیک کھولوں گی۔ ائرہوسٹس کی نوکری چھوڑنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔ خوب انجوائے کرچکی ہوں، مگر ہاں کچھ تو کروں گی۔ شوہر کے آگے ہاتھ پھیلانا مجھے پسند نہیں۔“ قدرے توقف کے بعد بولی:

 ”نوکری اس لئے چھوڑ دی کہ میں خود اب اکتاچکی تھی ورنہ میں شرطیں مان کر شادی کرنے والی نہیں ہوں۔ آنا ضرور، اس نے خوش دلی سے کہا، ورنہ میں ناراض ہوجاﺅں گی۔“

”کرایہ دے گی ہوائی جہاز کا؟ ٹرین کا وقت میرے پاس نہیں ہے۔“ رضوانہ نے بھی خوش دلی سے جواب دیا۔

”دوں گی۔“ وہ پیکنگ میں مصروف ہوگئی۔ ایک دن پہلے ممبئی کی ساری شاپنگ رضوانہ کو دکھا چکی تھی۔ راجستھان میں گوٹے کا کام بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ ممی نے بھاری لہنگا بنوایا ہے اور کئی شفان کی ساریوں پر بھی گوٹے کا کام بنوایا ہے، اس نے کپڑے سمیٹتے ہوئے کہا تھا۔ میرا بھی ایسی ہی خوش خوش شاپنگ کرتی پھر رہی تھی۔

رضوانہ نے اداس ہوکر سوچا۔ اس کی اداسی اس کے چہرے پر کھنڈ آئی۔ عورتیں کب کپڑوں، زیورات اور میک اپ سے اوپر اٹھ سکیںگی، لیکن اگر ساری کی ساری عورتیں ان سے بے نیاز ہوجائیں تو کائنات سے رنگ نہیں اڑجائیں گے؟ کیا خوبصورت کپڑے پہننے اور خوشنما نظر آنے میں کوئی برائی ہے؟ قطعی نہیں، اس نے سوچا بشرطیکہ زندگی صرف ان سے عبارت نہ ہوجائے اور کوئی مرد یہ نہ کہہ سکے کہ نہیں اور کام کیا ہے۔ گہنے تڑواﺅ، گہنے بنواﺅ۔

عمواپنے گھر میں خوش تھی، اس کے یہاں جڑواں بچے ہوئے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ سلمان بے حد خوش تھا۔ دقت تو ہوگی، لیکن ساتھ ساتھ پل جائیں گے۔ پھر یہ کہ بیٹا، بیٹی دونوں۔ اتفاق سے عمو کی زچگی اور جوہی کی شادی کا وقت ایک ہی تھا۔

رضوانہ جے پور میں بس ایک دن رک کر دہلی چلی آئی۔ عمو کا روشن چہرہ دیکھ کر اسے پہلی بار زندگی میں کسی کمی کا احساس ہوا۔ نرگس کی بات یاد آئی۔ جس دن بچے گملوں میں اگنے لگیں گے اس دن عورتیں ہمسری کا دعویٰ خم ٹھوک کر کرسکیں گی۔ فی الحال تو تھوڑا سا جھکنا پڑے گا۔ اس نے بچوں کو گود میں اٹھایا تو اسے محسوس ہوا اس کی چھاتیوں میں سرسراہٹ ہو رہی ہے۔ کچھ دودھ اترنے جیسی سرسراہٹ، میں نارمل ہوں، میں نارمل ہوں۔ ذہن نے گردان کی، لیکن میں جس ذہنی، سماجی اور جذباتی سطح پر ہوں، وہاں کسی شخص کو صرف اس لئے قبول نہیں کرسکتی کہ مجھے ایک شوہر چاہئے، میں اپنی اس خواہش کے ساتھ بھی نارمل ہوں کہ مجھے اس سے مل کر ذہنی ہم آہنگی کااحساس ہو تبھی میں اسے قبول کرسکوں۔

اسے سمیر کا خیال آیا، وہ بہترین دوست تھا، ہر مسئلے میں سہارا، ہر پریشانی میں دوڑ پڑنے والا، اس نے کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا، لیکن رضوانہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے اپنی ماں کو کسی طرح راضی کرکے پرانا فلیٹ بکوا دیا اور دوسرا ایسے علاقے میں خریدا جو رضوانہ کے علاقے سے قریب تھا، ورنہ ممبئی کے فاصلے الامان، اکثر آنکلتا تھا، میں اس کے ساتھ پوری زندگی آرام سے گزار سکتی تھی، لیکن راہ کے پتھروں کو کیا کروں۔ دنیا کہے گی بیٹی کو چھوڑ دیا تھا، کیا کرتی، جو ملااس سے شادی کرلی۔ 

(جو ملے اس سے پکڑ کر شادی کر دینے والے والدین کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔) 

بے چارے، بے قصور موردالزام ٹھہرائے جائیں گے۔ بچوں کے لئے مذہب کا جھمیلا ہوجاتاہے۔ لوگ پہلے سوچتے نہیں، بعد میں چپقلش سارے رومانس پر پانی پھیر دیتی ہے۔ شاید سمیر اورمیں اس چپقلش سے اوپر اٹھ جائیں۔ ہم دونوں پختہ عمر، پختہ ذہن ہیں۔ چھوڑ دیں گے بچوں کو یونہی۔ بڑے ہوں گے تو جو چاہیں لیبل لگائیں اپنے اوپر۔ کچھ تو کرنا ہوگا۔ محض دوست رہ کر تو ساری زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ نرگس کی طرح ساتھ رہنے لگوں؟ وہ پارسن مسلمان کے ساتھ آرام سے رہ رہی ہے۔ آخری شادی کے دوبول پڑھوا کے یا پھیرے لے کے ہوتا کیا ہے؟ لیکن تب ہاں اگر میرے اندر کی عورت جاگ کر ماں بننا چاہے تو؟ دو بول ان بچوں کو جائز بناتے ہیں۔ اتنا تو کرتے ہیں ورنہ امرتاپریتم اور اندرجیت کو لے لو۔ کس قانونی شادی سے کمتر رشتہ تھا ان کا۔ اس کا سر دکھنے لگا، واقعی میں اولڈ میڈ بنتی جارہی ہوں۔ اچھا تھوڑا اور سوچ لوں اور ممی سے بات کرکے دیکھوں ،کیا ری ایکشن ہوتا ہے۔

ممبئی واپس آکر اس نے سب سے پہلے سمیر کو فون کیا۔ ”ہائی، آئی ایم بیک۔“

”اوہ رضوانہ، میں تمہیں فون کرنے ہی والاتھا۔ یار، اماں میرا رشتہ طے کر آئی ہیں۔“اس کی آواز قدرے کھسیائی ہوئی تھی۔

تو خوش ہو کے بتاﺅ نا، مرے کیوں جارہے ہو، رضوانہ کو اپنی آواز کھوکھلی محسوس ہوئی، بے حد کھوکھلی، اس نے کبھی سمیر کے ساتھ بات کرتے ہوئے خود کو یوں دوغلا نہیں محسوس کیا تھا۔

رضوانہ اکرم فاروقی کی بارات میں شریک ہوئی تھی، سمیر کی تو ساری رسموں میں شریک ہوئی۔ الٹی سیدھی ڈھولک بجاکے بے سری آواز میں گیت بھی گائے۔ سمیر کو جب دولہا بنایا جارہا تھا تو بے حد مسرور آواز میں ہنسی مذاق بھی کرتی جارہی تھی، لیکن اس کی گہری سیاہ اداس آنکھیں بالکل الگ کھڑی تھیں۔

سمیرنے ہولے سے کہا:” میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔“

”مجھے کوئی شکایت نہیں۔“ اس نے جواب دیا، لیکن الفاظ ٹھن ٹھن بجے، ایسے خالی جیسے اس کا دل۔

آفس کی مصروفتیں خالی دل بھرتی تو رہیں، لیکن کہیں رات کو وہ پھر خالی ہوجاتا تھا اور نیند جلدی نہیں آتی تھی۔ پھر ایک دن قمر کا فون آیا۔ یہی آفس کے اوقات میں۔

مما اب کیا؟ اس نے سوچا، لیکن فون ریسیو کرتے ہوئے اس کے ہاتھ قدرے کانپے۔

”تمہارے پاپا پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔“ قمر نے خشک آواز میں کہا اور فون رکھ دیا۔

انیس کے جسم کادایاں حصہ مفلوج ہوگیا تھا اور گویائی جاتی رہی تھی۔ باقی سارے احساسات باقی تھے۔ رضوانہ سامنے آئی تو اس نے منھ پھیر لیا۔ قمر نے کہا سامنے مت جاﺅ، بول تو سکتے نہیں، گونگا غصہ اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

میںنے کیاکیاہے مما؟ لیکن الفاظ اس کے منھ سے باہر نہیں آئے۔ وہ بھی پل بھر کو گونگی ہوگئی جیسے اس پر بھی فالج نے حملہ کیا ہو۔ پھر آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہوگئے۔ اس پرائیویٹ نرسنگ ہوم کے ایک گوشے میں خاموش بیٹھی روتی رہی۔

رضوانہ نے چھٹی بڑھائی۔ ذاتی فلیٹ بک کرانے والی تھی، لیکن وہ پیسہ ماں کے اکاﺅنٹ میں ڈال کر انیس کو زیادہ مہنگے نرسنگ ہوم میں شفٹ کرایا۔ ڈاکٹروں نے کہابھی کہ دوائیں وہی دی جائیں گی چاہے کہیں لے جائیے، لیکن یہاں نرسنگ زیادہ اچھی تھی۔ اٹنڈنٹ کے لئے بھی سہولیات زیادہ تھیں۔

انیس آئی سی یو سے باہر آگیا اور کمرے میں منتقل ہوا تو رضوانہ واپس چلی گئی، چلتے ہوئے اس نے شیشے کے چوکور حصے سے باپ پر نظر ڈالی۔ اتفاق سے آنکھیں چار ہوگئیں۔ اس نے ا نہتائی غصے میں سر پیٹنا شروع کیا اور پھر رونے لگا۔ یہ رونا کسی جدائی کے غم میں نہیں تھا بلکہ اس سے بے بسی کے احساس کے تحت تھا کہ وہ نہ بول سکتا ہے نہ اُٹھ کر بیٹی کو دھکا دے کر ہسپتال سے باہر نکال سکتاہے۔

 ”جارہی ہے، جارہی ہے، واپس جارہی ہے۔“

 قمر نے شوہر کو تسلی دی، انیس نے بائیں ہاتھ سے دفع ہونے جیسا اشارہ کیا اور پھر اسی ہاتھ سے آنسو پونچھے۔

دل کا درد بڑھ گیا تھا۔ پاپا میں نے کیا براکیا؟ کیا مجھے اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں ہے؟ آپ اپنی مرضی سے جیئے، آخر کو آپ نے مما سے ان کی ایک ایک ایکٹویٹی چھڑوا ہی دی جو رٹائرمنٹ کے بعد ان کو مصروف رکھنے کا بڑا سہارا ہوتی۔ شاید کبھی ان کی انجمن کے ذریعے لوگوں کا بھلا کرنے کی کوششیں کامیاب بھی ہوتیں۔ آخر ان کے چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد دو لڑکیاں بردہ فروشوں کے چنگل سے رہا کرائی گئی تھیں۔ ایک طلاق یافتہ لڑکی کو عدالت کے ذریعہ گزارہ بھتہ دلوایا گیا۔ چراغ جلتا ہے تو کچھ دور تو روشنی ہوتی ہی ہے۔ انہوںنے بوتیک کھولنا چاہا تو آپ نے کہا درزی گیری ہمارے خاندان کا پیشہ نہیں ہے۔ میری اور تمہاری پنشن کافی سے زیادہ ہے۔ ہوس کیوں ہوگئی ہے تمہیں۔ پاپا ہر کام ہمیشہ ہوس کے لئے نہیں کیا جاتا۔ زندگی کچھ مصروفیت چاہتی ہے۔ وقت گزاری کا ذریعہ چاہتی ہے، کچھ کرپانے کی طمانیت چاہتی ہے۔ ہاں اب تو آپ نے مما کو وہ مہیا کرادی۔ پڑے رہئے بستر میں۔ ان کا وقت آپ کی دیکھ بھال میں گزرے گا، کہیں جو وہ آپ سے پہلے چلی گئیں تو! ذرا اس کا خیال کرلیں، پھر تو میرے پاس ہی آئیے گا۔ عمو کے بچے ہیں، شوہر ہے۔ وہ اتنا وقت نہیں دے پائے گی۔

بھاری دل کے ساتھ باپ کو دور سے دیکھ کر وہ لوٹ آئی۔ انیس کو نرسنگ ہوم نے ڈسچارج کرکے گھر، بھیج دیا تھا۔ اب وہاں وہ صاحب فراش تھا۔ رضوانہ نے اس کے لئے ایک مرد نرس کا انتظام کردیاتھا اور اخراجات اپنے ذمہ لے لئے تھے گرچہ کوئی مالی دشواری گھرپر نہیں تھی۔

عمو بھی کچھ دن رہ کر لوٹ گئی۔ شروع میں اور بہت سے عزیز رشتہ دار آئے۔ پھر سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوئے۔ ایک خاموش اداس ماحول میں قمر اور انیس کی زندگی لگے بندھے ڈھرے پر گزرنے لگی۔ وہ اداسی لکھنو  سے اٹھ کر آتی، ممبئی میں رضوانہ کے فلیٹ کی کھڑکیوں سے جھانکتی، کچھ دیرٹھہرتی پھر دوبارہ لوٹ آنے کے لئے کہیں گم ہوجاتی تھی۔ کبھی نیند کے دھندلکوں میں، کبھی کام کے ڈھیر میں، کبھی کچھ زبردستی چھینے گئے تفریح کے لمحوں میں، مگر وہ کبھی مرتی نہیں تھی کہ اسے بقائے دوام حاصل تھی۔ وہ شاخسانہ تھی اپنی راہیں خود متعین کرنے کا، وہ قیمت تھی سماج کے ڈر سے کچھ راہوں کو مسدود کردینے کا۔ اس لئے وہ دروازے پر دستک دیتی رہتی تھی اور ایک روسی لوک کتھاکی چڑیل کی طرح دھکا دے کر نکالے جانے کے باوجود دوسرے دن شام ڈھلے پھر آن موجود ہوتی تھی۔

سمیر سے بات کم ہی ہوتی تھی۔ ملنا جلنا تو برائے نام رہ گیا تھا، دونوں اپنی اپنی جگہ سمجھ رہے تھے کہ اب پہلی جیسی بات نہیں رہ سکتی۔ شاید کہیں یہ ڈر تھا کہ سمیر کی بیوی کو شک ہوجائے گا، یا پھر یہ ڈر تھا کہ زخموں پر کبھی کھرنڈ آہی نہیں سکیں گے۔ کہیں کسی قسم کا پےچیدہ رشتہ نہ بن جائے، جس پودے نے سر اٹھا لیا تھا وہ تناور درخت کی صورت نہ اختیار کرلے جسے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہ ہو۔ 

(لیکن کیا وہ صرف پودا تھا؟ کیا اسے اکھاڑتے اکھاڑتے وہ تھک نہیں چکی تھی؟ کیا سنگلاخ دل کی زمین سے لہو نہیں پھوٹ بہا تھا؟)

اس نے سمیر کو پاپا کے صاحب فراش ہوجانے کی اطلاع نہیں دی کہ دکھ بانٹ سکے۔ پہلے وہ نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لئے اس کی طرف دوڑ جایا کرتی تھی۔ جوہی کے جانے کے بعد فلیٹ کے لئے کسی شرکت دار کی تلاش، فلیٹ خریدنے کا پیسہ جمع ہوا تو بساط کے مطابق علاقہ اور فلیٹ دیکھنے کی بات، بینک سے لئے جانے والے قرض پر گفتگو کرلینے کی بات، اکرم فاروقی منظرنامے پر لکھاگیا تو اسے پرکھنے کی بات، یہ سارے مسئلے بہت چھوٹے تھے، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود مختار، خود کفیل نوجوان عورت تھی۔آج کی عورت، لیکن کسی کے ساتھ، کسی کے قرب کا وہ طمانیت بخش احساس، وہ ایک شخص جس سے وہ اماں یار اورابے تبے کرکے بات کرلیتی تھی۔

”الو کے پٹھے ہو تم....“ ایک بار تو وہ یہ تک بول گئی تھی۔ وہ چونکاتھا، لیکن پھر دوسرے ہی لمحے ہنس پڑا تھا۔

 ”یہ legal language

ہے کیا؟ اگر میں نے تمہیں پرپوز کیا تو اس میں الو کا پٹھا ہونے کی کیا بات ہے؟“

”اس لئے کہ تمہاری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ آئی ایم ناٹ ان لو وِد یو۔ تم گہرے دوست ہو، تمہیں پسند کرتی ہوں اور بس۔“

اس نے کس طرح تھپک تھپک کر اپنے دل کو سلا رکھا تھا، کن کن الفاظ کے تلے اس ایک لفظ کو دبادیا تھا جسے محبت کہتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ سماج نے اسے حق نہیں دیا تھا کہ وہ اس شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرے جس کے ساتھ اسے ہمیشہ خوش رہنے کی امید تھی۔

اس نے کچھ حق ضرور چھینے تھے، لیکن ان کے آگے لکیر بھی کھینچی تھی کہ اب بس۔ گرچہ دل تو اور بہت کچھ مانگتا تھا، جن لوگوں کے لئے اس کے سماج نے، اس کو ورثے میں ملی اخلاقی قدروں نے کچھ فرائض تفویض کئے تھے ان سے اس نے پہلو تہی نہیں کی تھی، لیکن بدلے میں اسے کیا ملا؟ یہی کہ اس کے باپ نے اسے دیکھ کر نفرت سے منھ پھیر لیا وہ بھی ایسے وقت جب وہ اس کے پاس بیٹھ کر، اس کے بالوںمیں انگلیاں پھیر کر کہنا چاہ رہی تھی۔ ”پاپا میں ہوںنا، میں آپ کی بیٹی، آپ کی غم گسار۔“

عمو سے اس کی اگلی ملاقات چھ ماہ بعد انیس کے انتقال کے موقعے پر ہوئی، اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ دونوں بیٹیوں میں سے کوئی بھی آخری وقت میں نہیں پہونچ سکا تھا۔ صرف قمر تھی جو قالین پر اس کی پٹی پکڑے بیٹھی کسی کتاب سے کچھ پڑھ کر سنا رہی تھی۔

سیوم کے بعد دونوں بہنوںنے ماں سے کہاکہ وہ ان میں سے جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے یا باری باری دونوں کے درمیان وقت تقسیم کرسکتی ہے۔ قمر نے سختی سے انکار کردیا۔

”میری صحت بالکل ٹھیک ہے اور میں نے ابھی ساٹھ کی دہائی پار ہی کی ہے۔ لکھنو ¿ میرا شہر ہے اور یہ میرا گھر ہے، میں یہاں خوش ہوں اور یہاں تنہا بھی نہیں ہوں۔ زندگی نے ایسی پٹخنی دی کہ گزر نہ کرسکوں تب دیکھا جائے گا۔“ اس کے لہجے میںسفاکانہ قطیعت تھی۔

لڑکیاں واپس ہوگئیں۔

عدت پوری ہونے کے بعد قمر نے انجمن نسواں پھر سے جوائن کرلی۔ کچھ عرصے بعد گھر ہی میں ایک چھوٹا سا بوتیک بھی کھول لیا۔ انجمن کی سرگرمیاں جزوقتی تھیں۔

”میں اب کسی کی پابند نہیں، کسی کو جوابدہ نہیں، صرف اپنے ضمیر کی جوابدہ ہوں اس لئے ایساکوئی کام نہ کبھی کیا نہ اب کروں گی جو میرے ضمیر پر بوجھ ہو۔“ ایک دن عمو سے فون پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ ایک بار عمو کے یہاں جاکر رہ بھی آئی تھی، اس کے بچوں سے اسے بے حد محبت تھی جو دن بدن زیادہ پیارے، زیادہ دلچسپ ہوتے جارہے تھے۔ عمرانہ کی مطمئن و مسرور زندگی قمر کی بہت سی اپنی محرومیوں کی تلافی کرتی محسوس ہوتی تھی۔ 

(اس کو انیس کے ساتھ اپنے گھر بسا دیکھ کر اور اولادیں ہوجانے پر اماں بھی ایساہی کچھ محسوس کرتی تھیں۔ ان کا چہرہ ان کے جذبات کا آئینہ ہوا کرتا تھا۔)

انیس کے انتقال کوسال بھر ہوچکا تھا۔

”آج مرے کل دوسرا دن“ رضوانہ نے بے حداداس ہوکر کہا۔ بہت سے محاورے زندگی میں بڑی دیرسے سمجھ میں آتے ہیں۔

”ابھی نہ جانے کتنے اور سمجھ میں آنے باقی ہیں۔“ عمونے اسی لہجے میں کہا۔ اس کا انداز مصرعہ اٹھانے والاتھا۔

قمر خاموشی سے قرآن کو جزدان میں واپس رکھنے لگی۔

لڑکیاں ماں کی دلجوئی کے لئے آگئی تھیں۔ ان لوگوں نے روایتی برسی کااہتمام نہیں کیاتھا۔ خاموشی سے دیگیں پکوا کر کھانا یتیم خانے اور کچھ غریب لوگوں میں بھجوا دیا تھا۔ تینوں ماں بیٹیاں خاموشی سے سرجوڑے، جانے والے کی کمی کو محسوس کرتی رہیں۔ انیس کے بغیر گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ انیس جو بولتا کم تھا، لیکن سارے گھر پر حاوی، ساری فضا میں رقصاں رہا کرتا تھا۔ اس کی غیر موجودگی سال بھر بعد بھی گھر میں کہیں نہ کہیں دبے پاﺅں پھرتی رہتی تھی۔

رات کو عمو بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ یکایک رضوانہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رکی اور پلٹ کر بولی، مما، میں تمہارے ساتھ سوجاﺅں۔ قمر کو گلے میں کچھ پھنستا سا محسوس ہوا۔ بولی کچھ نہیں صرف ایک ہاتھ بیٹی کے کاندھے پر رکھ دیا۔ رضوانہ کو محسوس ہوا اس لمس میں خوشی ہی نہیں، ممنونیت بھی تھی۔ بستر پر آنے کے بعد اس نے ایک معصوم بچے کی طرح سر ماں کے سینے سے ٹکا دیا۔

مما، ایک بات پوچھوں؟ کچھ دیر بعد اس کی سرگوشی سناٹے میں یوں سرسرائی جیسے درختوں کے درمیان ہلکی سی ہوا ہولے سے گزرے۔

”پوچھو بیٹا۔“

”پاپا مجھ سے اس قدرناراض کیوں تھے؟ ایساکیا کردیا میںنے؟ انہوںنے جس طرح مجھے دیکھ کر منھ پھیرا اس کے اثر سے میں آج تک نکل نہیں پائی ہوں۔“

”وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اب یہ جاننا فضول ہے۔“ قمر نے بیٹی کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔

”میں باقی ساری عمر خلجان میں مبتلا رہوں گی، اس لئے جانتی ہوں تو بتا دیجئے۔

”کیا واقعی اس سے تمہیں سکون ملے گا؟ کیا تلخیوں کو نہ جاننا بہتر نہیں ہے؟“

”اس کا مطلب ہے آپ کو معلوم ہے۔ مما میری خلش دور ہوجائے گی۔ بات کتنی بھی کڑوی کیوں نہ ہو۔“

”اکرم کے والدنے ان کو فون کیا تھا۔ اکرم کی شادی ناکام رہی تھی۔“ قمر نے طویل سانس لے کرآہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔ ’انہوںنے کہا، معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیٹی کی نسبت ابھی تک کہیںطے نہیں ہوئی ہے۔ ہم پچھلی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر انہوںنے یہ بھی بتادیا کہ ان کے دوسری جگہ جانے کا سبب تمہاری ہٹ دھرمی تھی۔“ کہہ کر قمر خاموش ہوگئی۔

”میں سن رہی ہوں۔“

انیس پہلے تو چراغ پا ہوئے، ان پر نہیں، تم پر۔ پھر دوچار دن کے توقف کے بعد کہہ دیا کہ انہیں اعتراض نہیں۔

”انہیں یہ معلوم تھاکہ اکرم نے بیوی کو طلاق ابھی نہیں دی ہے؟“

”یہ معلوم تھا، لیکن ان لوگوں نے کہاکہ رشتے کو منظوری مل گئی تو طلاق نامہ بھیج دیا جائے گا۔ ان کی شہ پاکر ہی اکرم تمہارے پاس ایک بار پھر گیا۔“

”تو گویاآپ لوگوں کو بعد کی داستان بھی معلوم ہوگئی تھی۔“

میرا اتنی طویل ازدواجی زندگی میں ان سے سب سے بڑا جھگڑا اسی بات کو لے کر ہوا۔ آخری دنوں میں وہ مجھ سے بھی بہت ناراض رہے۔ ایک بار یہاں تک کہا کہ زندگی کا آخری پڑاﺅ نہ ہوتا تو طلاق دے دیتے۔ میں بھی سخت غصے میں تھی۔ میں نے جواب دیا شاہ بانو تو پچہتر سال کی تھی۔میں اس سے بہت کم عمر ہوں۔ وعدہ کرتی ہوں نان نفقہ کا دعویٰ نہیں کروں گی۔ اس یک طرفہ فیصلے کا حق آپ کو ملا ہی ہوا ہے۔ بسم اﷲ۔“

پیروں کی جوتیاں اسی لئے منھ کو آرہی ہیں کہ پیسے کمانے لگی ہیں۔ مرد پر نان نفقے کی ذمہ داری تھی۔ تم پر نہیں تھی، آج بھی نہیں ہے، اسی لئے اسے یہ حق دیا گیا۔ مگر تم ....وہ مارے غصے کے ہکلانے لگے۔

میںنے بات کاٹ دی۔“ آج کے دور میں عورتیں برابر سے کام کررہی ہیں تو مل جانا چاہئے انہیں بھی طلاق طلاق کہنے کا حق۔“

”اپنی مرضی سے کام کرتی ہو تم لوگ، صرف اس لئے کہ سرپر چڑھ جاﺅ، سماج کے اصول توڑو، عیش کی زندگی گزارو پھر جب چاہے شوہر کو چھوڑ کر چل دو۔“ بات تو شروع ہو ئی تھی تمہاری اس، تریاہٹ سے کہ تم اپنے سفید داغ کا ایک بار پھر چیک اپ نہیں کراﺅگی اور پہونچ گئی ہم دونوں کی ذاتیات پر۔ باقی ساری زندگی میں اس احساس جرم کے ساتھ جاﺅں گی کہ انیس کا بلڈ پریشر شاید اسی جھگڑے کی وجہ سے برابر ہائی رہنے لگاتھا۔ ایک دن ہیمرج کا سبب بن گیا۔

لیکن مما اکرم کا میرے پاس دوبارہ آنا تو پاپا کی بیماری سے بہت پہلے کی بات ہے۔“ اسے آپ اپنے آپ سے کیوں جوڑ رہی ہیں۔“

”انہیں یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ تم نے دوبارہ اسے تقریباً دھکا دے کر نکال باہر کیا تھا۔ اس پر مرے پہ سو درے میں نے یوں بدزبانی کی۔ شاید میں بھی کبھی اس طرح نہیں چلائی تھی نہ کبھی ان کی بے عزتی کی تھی، معمولی بحث، چھوٹے موٹے اختلافات تو ہرجگہ ہوتے ہیں۔“

”ٹھیک ہے ممی، لیکن پھربھی وجہ تو میں ہوئی نا۔ آپ اس احساس جرم سے چھٹکارا پالیجئے، بالکل نارمل ہوکر زندگی بسر کیجئے۔ پاپا تو اب نہیں آسکیں گے۔ بس اتنا ہی کہوں گی۔“

”میں حتی الامکان نارمل زندگی ہی بسر کررہی ہوں۔ مصروفیت کے ذریعے نکال لئے ہیں، دوستوں اور عزیزوں سے ملتی رہتی ہوں۔ اب تو تقریبوں میں بھی جانا شروع کردیا ہے۔کچھ لوگوںنے مجھے

merry widow

 کا خطاب دے رکھا ہے۔ ان کی پرو انہیں کرتی۔“ قدرے توقف کے بعد اس نے گلوگیر آوازمیں ہولے ہولے کہا۔ ”بیشک رات کو سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ کھڑکی کے سامنے والے چھتنار برگد پرپچھلی پیریاں دانت نکو سے ہنستی نظر آتی ہیں۔ میں گھبرا کر بغل میں انیس کو ٹٹولتی ہوں پھر چادر میں منھ چھپاکر سوجاتی ہوں۔ ہرصبح ایک نئے نارمل دن کا آغاز کرتی ہے۔“

فضائے بسیط میں ایک سناٹا پسرگیا۔ پھر ماں بیٹی کے آنسو گنگ و جمن کے پانیوں کی طرح ایک دوسرے میں گھل گئے کہ ایک دوسرے کے دکھ کو بہا لے جائیں، لیکن کیا دکھ کبھی پوری طرح بہائے جاسکتے ہیں؟

ان دونوں سے بے خبر عمو اپنے کمرے میں بچوں کو کہانی سناکر سلانے میں مصروف تھی، لیکن اس کہانی کا نام پارسابی بی کا بگھار نہیں تھا۔ عمو کو ایسی کوئی کہانی نہیں معلوم تھی۔ وہ انہیں ایلس اِن ونڈر لینڈ

(Alice in wonder land)

 سنا رہی تھی۔

شمارہ۔۱

پارسا بی بی کا بگھار

(مکمل ناولٹ  )

_____________

ذکیہ مشہدی

تو جب وہ بی بی دال بگھار

تی تو زیرے، لہسن اور اصلی گھی کی سوندھی خوشبو اڑ کر سات آسمانوں تک پہنچتی اور فرشتے کہتے : لو آج پھر پارسا بی بی کے گھرارہر کی سنہری سنہری دال پکی ہے۔ پارسا بی بی بیٹی تو تھی بادشاہ کی، لیکن بیاہ کے آگئی تھی غریب منشی کے گھر ۔

دادی تو یہ کہانی صدیوں سے سناتی آرہی تھیں، لیکن کبھی کسی بہو نے ان سے یوں منھ لگ کر سوال نہیں کئے تھے۔ رہی بات قمر کی تو وہ بہو نہیں، پوتی تھی اور طرہ یہ کہ اسکول پڑھنے جاتی تھی۔ اوپر سے ککڑی کی بیل کی طرح دھڑادھڑ بڑھ رہی تھی۔ اس نے پٹ سے سوال کیا:

بھلا بادشاہ زادی بیاہ کے غریب منشی کے گھر آئی کیسے؟ دادی اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں۔

بتائیے نا دادی.. ایسا ہوتا ہے کہیں؟ اب بادشاہ زادی بیاہ کے بادشاہ کے گھر جائے نہ جائے، نواب کے گھر تو جائے ورنہ سپہ سالار ، وزیر، کچھ تو ہو۔

کہانی سنے گی یا بال کی کھال نکالے گی؟ کٹھ حجت کہیں کی - اور پڑھاﺅ

اسکول بھیج کے اور وہ موئی کرنٹان استانیاں...  دادی بگڑگئیں۔

ماتھے سے سرکتا آنچل پھر سے اچھی طرح جما کے اماں نے بھی تنبیہ کی: کتنی بار سمجھایا، بڑوں سے حجت نہیں کرتے ہیں۔

اور اگر بڑے ایسی باتیں کریں جو سمجھ میں نہ آئیں تو؟

قمر نے نصیحت یکسر نظر انداز کردی۔ اس کی محبوب ٹیچر مسزنارٹن نے، جنہیں دادی”ناٹنگ“ بلکہ ”نوٹنکی“ کہا کرتی تھیں، سمجھایا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینا چاہئے، گفتگو سے ذہن کے دروازے کھلتے ہیں۔

اچھا چل سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو سمجھ ہی لے، کیونکہ اس میں نصیحت بھی ہے۔ بادشاہ زادی کوتوال کے بیٹے سے.... دادی کی زبان ذرا رکی ، ذرا لڑکھڑائی لیکن پھر سنبھالا لے لیا۔

بادشاہ زادی کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا کر کے بیٹھی تھی، اس لئے سزا دینے کے لئے بادشاہ نے اسے، جو پہلا لڑکا نظر آیا، اس سے بیاہ دیا۔ اب وہ نکلا منشی کا بیٹا اور منشی کی مجال جو بادشاہ کے حکم سے سرتابی کرے۔

دادی، منشی کے بیٹے سے کوتوال کا بیٹا تو اچھا رہتا نا-

اوئی بی بی.. یہ لڑکیاں اپنا بر کب سے خود چننے لگیں؟ ایسی بیٹیوں کو تو گلا دبا کے مار دینا چاہئے۔ اللہ آمین کی بیٹی رہی ہوگی، سوبادشاہ نرم پڑ گیا۔ زندہ رہنے دیا ایسی بیٹی کو۔

اچھا تو دادی، اگر کیا کہتے ہیں کہ اس نے اپنا بر خود چننے کا گناہ کیا تھا تو وہ پارسا بی بی کیسے کہلائی؟

پارسا بی بی اس لئے کہلائی کہ اس نے سر جھکا کر باپ کی مرضی کو قبول کرلیا، پھر شوہر کے علاوہ کسی کو آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔ جس کے چاروں طرف لونڈی غلام ہاتھ باندھے گھومتے تھے وہ جھاڑو بہارو کرتی، گائے کی سانی پانی کرتی، کھانا پکاتی اور جب دال بگھارتی تو....

کہانی کے اس موڑ پر دادی نے ڈرامائی انداز میں گھوم کر فاطمہ بی بی یعنی قمر کی اماں یعنی اپنی بہو کی طرف دیکھا اور آواز قدرے تیز کردی

اور جب وہ دال بگھارتی تو ایک بڑے پیالے میں شوہر، سسر اور بیٹے کے لئے دال نکال کر بگھار کر پورا کرچھل اس پیالے میں انڈیل دیتی اور اپنے لئے پتیلی کے پیندے میں چھوڑی ہوئی تھوڑی سی

دال میں خالی کرچھل ڈبو دیتی۔ گرم کرچھل چھن سے کرتا اور دراصل یہی چھناکا اس کے گھر کے روشندان سے ہوکر آسمانوں تک پہنچتا اور فرشتے کہتے کہ لو، آج پھر پارسا بی بی نے ارہر کی سنہری سنہری دال پکائی ہے۔

اچھا تو دادی.. قمر نے پھر لقمہ دیا، اگر وہ لوگ اتنے غریب تھے تو خالص گھی میں دال کیسے بگھاری جاتی تھی؟

دادی نے ناک بھوں چڑھائی۔ یہ مٹ گیا ڈالڈا تو ابھی حال میں نکلا ہے۔ پہلے معمولی گھروں میں بھی دال گھی سے ہی بگھاری جاتی تھی۔ گھی کم ہونے کی وجہ سے ہی تو پہلے مردوں کے پیالے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ پہلا حق تو ان کا ہی ہوانا

ان کے گھر کبھی گوشت پکتا تھا دادی؟ قمر کو گوشت بہت پسند تھا اس لئے اس نے بڑے تاسف سے پوچھا۔

ہاں، ہفتے کے ہفتے پکتا تھا۔

 دادی نے یوں کہا جیسے وہ پارسا بی بی، بادشاہ زادی، ان کی بھانجی بھتیجی کچھ تھی اور وہ اس کی گرہستی میں رہ آئی تھیں۔

 پارسا بی بی، گوشت پکا کر پورا سالن بڑے چینی کے پیالے میں انڈیل کر گھر کے مردوں کے سامنے رکھ دیتی اور خود روٹی سے پتیلی پونچھ لیتی۔ کبھی آلو یا اروی گوشت میں ڈالتی تو ہاں اس کا ایک آدھ ٹکڑا اپنے لئے روک لیا کرتی۔

 ہا، دکھیا

 قمر نے ناک پر انگلی رکھ کر بالکل دادی کے انداز میں کہا۔

ارے دکھیا کیوں؟ کھڑی جنت میں گئی۔ جب مری تو سارا گھر خوشبو سے مہک رہا تھا۔

آپ نے خوشبو سونگھی تھی، دادی؟

اماں اس درمیان اٹھ کر، کہ وہ یہ کہانی دسیوں بار سن چکی تھیں، باورچی خانے میں مردوں کے پیالے میں پورا بگھارا انڈیلنے جاچکی تھیں۔ ان کے ہاتھ سے کرچھل بہک گیا۔ خیریت تھی کہ خالی ہوچکا تھا۔ یہ قمر ضرور کسی دن مار کھائے گی ۔ ان کا آنچل پھر سرکنے لگا۔ کرچھل اور آنچل دونوں سنبھال کر وہ تاسف کے ساتھ قمر کے مستقبل پر غور کرنے لگیں جو خاصا تاریک نظر آرہا تھا۔ اس قدر بک، بک، اتنی حجت۔ باسی کھانا اکثر اماں ہی سوارت لگاتی تھیں۔ گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو بچا کر مردوں کے لئے رکھ دیتیں کہ دوسرے وقت بھی کھا لیںگے۔ خود کبھی پہلے کے بچے کھچے کے لئے برتن ٹٹولتیں۔ نہیں تو اچار ہمیشہ ہی رہتا تھا۔ اکثر انہیں باسی کھاتے دیکھ کر قمر ہاتھ سے رکابی چھین لیتی اور تازہ کھانا ان کی پلیٹ میں ڈالتی۔

   کھانا پھینکنا کبھی نہیں چاہیے بیٹا، گناہ ہوتا ہے۔

وہ کہتیں

تو سب مل کے کھائیں۔ ابا کو اور بھیا کو اور دادی کو، سب کو دیا کرو تھوڑا تھوڑا۔

اماں مسکراتیں۔ دادی اپنے وقت میں بہت باسی کھا چکی ہوں گی۔ اب وہ گھر کی بزرگ ہیں۔

جھوٹن کھانا رہ گیا ہے، وہ بھی تم کھا لیا کرو۔

 ایک دن قمر نے جلبلا کر کہا تھا۔ اس دن ابا نے اپنے کچھ دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ باہر سے برتن آئے تو کچھ پلیٹوں میں بہت کھانا بچا ہوا تھا۔ اماں نے اسے سمیٹ کر اکٹھا کیا اور بھیا سے کہا کہ باہر ڈال دے، کتا کھا لے گا۔

کوڑے میں مت ملانا، صاف جگہ پہ رکھنا۔

انہوں نے بیٹے کو ہدایت دی۔

کتا کیوں کھائے گا؟ تم کھالو۔ مرغ کی دو دو بوٹیاں ہیں، اچھا خاصا پلاﺅ ہے۔ یہ ابا کے پیٹ بھرے دوست نیاز خاں، گھرمیں حرام کا بہت آتا ہے، اس لئے برباد کرتے جی نہیں دکھتا۔

اماں نے سر پہ ہاتھ مار لیا: ارے کم بخت لڑکی- باہر آواز جائے گی۔ ذرا دھیرے بول، جو منھ میں آتا ہے، بک جاتی ہے۔

اماں کو یہ خدشہ ہر وقت لگا رہتا تھا کہ آواز باہر جائے گی۔ ایک دن دادی نے ابا سے جانے کیا لگائی بجھائی کی کہ وہ خوب چلائے۔ اماں کو یہ رنج کم تھا کہ ابا بغیر معاملے کی تحقیق کیے ان پر چلائے تھا، یہ فکر زیادہ لاحق ہو گئی تھی کہ کہیں آواز باہر نہ گئی ہو اور پاس پڑوس والوں یا کسی راہ چلتے کو پتا نہ چل گیا ہو کہ اس گھر میں کوئی چپقلش ہوئی ہے، لیکن یہ قمر سن کے ہی نہیں دیتی تھی۔ پرائی امانت، کہاں جائے گی تتیّا مرچ؟

ہاں تو دادی، تم گئی تھیں جب پارسا بی بی مری تھی؟..دادی بڑے زور سے بھڑکیں-:

ہر بات خود دیکھی جاتی ہے کیا؟ ارے خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے پہچانا ہے! یہ کہانی ہمیں ہماری جنت مکانی والدہ نے سنائی تھی۔ ہو سکتا ہے کسی نے پارسا بی بی کو دیکھا بھی ہو۔

نہ دیکھا ہو تو ہماری اماں کو دیکھ لے۔ یہ کون سا پارسا بی بی سے کم ہیں۔ قمر کا انداز چڑانے والا تھا۔

تیری اماں.. انہوں نے گھور کر پوتی کو دیکھا، پھر ایک خشمگیں نظر سر جھکائے باورچی خانے میں کام کرتی بہو پر ڈالی۔ (باورچی خانہ آنگن پار کر کے برآمدے کی سیدھ میں تھا جہاں دادی کا تخت پڑا رہتا تھا۔ قمر اسے ’راج سنگھاسن‘ کہتی تھی۔ وہاں سے کوئی آیا گیا، بہو، نوکر، سب دادی کی نظر میں رہتے تھے۔)

تیری ماں ذرا تجھ پارسا بی بی کو تو سنبھال لے۔ چل، ادھرآ۔ یہ مٹ گئے عیسائیوں کی سی وضع بنا رکھی ہے-

 انہوں نے قمر کی دو چوٹیوں کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔ یہ تیری عالم فاضل ممانی آکر تجھے سکھا گئی ہے۔

اماں سے ملنے آئی ممانی قمر کے گھنے بال سلجھانے میں مدد کر رہی تھیں تو قمر نے ٹھنک کر کہا تھا کہ اسکول میں زیادہ تر لڑکیاں دو چوٹیاں بنا کر آتی تھیں۔ بس، مارے لاڈ کے ممانی نے دو چوٹیاں بنا کر سرخ ربن سے پھول بھی بنا دیا۔ تھاپی جیسی ایک چوٹی سے وہ دو چوٹیاں کیسی اچھی تھیں۔ اماں سارے طعنے، سارے کہانیاں شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتی تھیں، بس میکے کے بارے میں بڑی حساس تھیں۔

ہمارے وقت میں لڑکیوں کو مانگ نہیں نکالنے دیتے تھے۔ بغیر مانگ نکالے ایک چوٹی بندھا کرتی تھی، اب وہ تھاپی لگے یا نیولے کی دم۔ (قمر اپنی موٹی چوٹی کو ’نیولے کی دم‘ کہا کرتی تھی) تو بیٹا، تمہیں تو مانگ نکالنے کی اجازت ہے، کیوں دو چوٹیوں کی ضد کر کے دادی سے ڈانٹ سنتی اور ممانی کو برا کہلواتی ہو؟

 اماں کے لہجے میں تاسف تھا۔

دو چوٹیاں باندھنے سے کسی کے مذہب کا کیا لینا دینا؟ مجھے بڑا غصہ آتا ہے جب دادی کہتی ہیں کہ عیسائیوں کی سی وضع بنا رکھی ہے۔“(دادی کے ’مٹ گئے‘ عیسائی اس وقت بھی ساری دنیا پر دندنا رہے تھے، جیسے آج دندنا رہے ہیں اور جس کو چاہتے تھے اسے مٹانے کا مقدور رکھتے تھے، جیسے آج رکھتے ہیں۔ نہ جانے کتنی تہذیبوں کو کتنی حکومتوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا، لیکن قمر کا شعور اس وقت اتنا بالیدہ نہیں ہوا تھا۔ ہاں، یہ سمجھتی تھی کہ اس کی دو چوٹیوں سے عیسائیوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔)

قمر نے امتیازی نمبروں سے بی۔اے پاس کرنے کے بعد بی۔ایڈ میں داخلہ لیا تو اس نے اپنے بال کٹوا دیے۔ وجہ یہ تھی کہ پریکٹس ٹیچنگ کے لئے جوڑا بنا کر جانا لازمی تھا۔ جن لڑکیوں کے بال تراشے ہوئے تھے ان پر یہ ضابطہ لاگو نہیں تھا۔ کم عمر قمر کے لئے جوڑا بنانا، وہ بھی گھنے روکھے بالوں سے ٹیڑھی کھیر تھا۔ ویسے تو یہ بی۔ایڈ نہایت ٹیڑھی کھیر تھا۔ بچے بڑے شاطر تھے۔ انہیں معلوم تھا یہ لڑکیاں ان کی اصلی ٹیچر نہیں ہیں، یہ تو موسمی پرندے ہیں جو چند ماہ کے لئے ایک مخصوص مدت میں آتے اور پھر اڑ جاتے ہیں، اس لئے قطعی بات نہ سنتے۔ اگر سپروائزر سے شکایت کرو تو وہ جواب دیتے کہ بچوں کو ڈسپلن کرنا آپ کی تربیت کا حصہ ہے۔ آپ سمجھئے، آپ کیا کریں گی۔ ایسے میں بال اور لباس درست رہنا بہت ضروری تھا۔ چھٹیوں میں قمر گھر آئی تو اماں نے سر پیٹ لیا۔ خیریت تھی کہ اس وقت دادی جنت مکانی خلد آشیانی ہو چکی تھیں، اس لئے سر اماں نے اکیلے ہی پیٹا۔ بی۔اے کے بعد، بلکہ اور پہلے سے، دادی نے تو قمر کی شادی کی ضد باندھ رکھی تھی۔ اس وقت انہیں صرف ایک منطق نے چپ کرایا تھا۔ قمر پڑھ لکھ کر پیروں پر کھڑی ہو جائے گی تو بغیر جہیز کے آسانی سے ’اچھا‘ لڑکا مل جائے گا، پھر استانی بننا تو عزت کی بات ہے۔ وہ کرنٹان مسز نارٹنگ کی بٹیا سلومی کی طرح آفس میں ٹپ ٹپ ٹائپ کرنے تھوڑی ہی جارہی ہے۔ دادی قمر کے استانی بننے سے پہلے چل بسیں، لیکن کچھ معاملوں میں اماں کو ن سی کم تھیں، وراثت سنبھالے بیٹھی ہوئی تھیں۔ جبھی تو قمر کے بال دیکھ کر اس قدر ہول گئیں کہ انہوں نے پہلی بار شوہر کو کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی ہمت کی جو ان کے لئے مجازی

خدا کا درجہ رکھتے تھے اور جن پر یہ الزام تراشی کفر تھی۔ ویسے بھی اماں نیک اور فطرتاً ڈرپوک انسان تھیں، اپنے وقت کی زیادہ تر شریف بیبیوں کی طرح، جن کا ہیاﺅ عموماً اسی وقت کھلتا جب وہ ادھیڑ عمر ہوکر ساس کے مرتبے پر فائز ہوجاتیں اور ایک انہی کی طرح کی کمزور لڑکی بہو بن کر گھرمیں آجاتی، لیکن اس دن انہوں نے بڑی ہمت کی، شوہر کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئیں:

قمر کو آپ نے بگاڑا ہے۔ بی۔اے کر لیا تھا، بہت کافی تھا۔ سلمان چچا اتنا اچھا رشتہ لائے تھے، آپ نے میرے اصرار کے باوجود انکار کر دیا اور لڑکی کو بھیج دیا بی۔ایڈ کرنے، پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کیا کرتی گھوم رہی ہے۔

کیا کرتی گھوم رہی ہے؟ ابا نے چونک کر آخری جملہ پکڑا۔ باقی باتیں صا ف ٹال گئے۔

بال کٹوا لیے ہیں اس نے۔ اماں کا لہجہ ایسا مضطرب تھا جیسے کانے دجال کے نکل آنے کی اطلاع دے رہی ہوں۔

اوہ.. ابا کی رکی ہوئی سانس سینے سے باہر آگئی۔ وہ بڑی زور سے کھٹکے تھے۔ انہیں لگا تھا بیوی خبر دیں گی کہ بیٹی کسی لونڈے کے ساتھ گھومتی دیکھی گئی ہے، اس لئے ’میموں‘ جیسے بال کٹوالینے کی خبر خاصی دلدوز ہونے کے باوجود اپنا اثر کھو بیٹھی تھی۔ زور کا جھٹکا دھیرے سے لگا۔

اچھا.. لیکن میں نے تو نہیں دیکھا۔“ ابا کو ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید قمر کی اماں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا وہ کچھ مبالغے سے کام لے رہی ہیں، لیکن ان کی آواز کمزور ضرور تھی۔

آپ کے سامنے آپ کی چالاک بیٹی سر ڈھکے رہتی ہے۔ سر کھلا رکھتی ہے تو پیچھے کلپ لگا کر بال سمیٹ لیتی ہے۔

ابا کے اجلاس میں قمر کی طلبی ہوئی تو اس نے بغیر کسی گھبراہٹ کے وضاحت پیش کی۔ ابا کو یہ اطمینان ضرور ہوا کہ قمر نے بال محض فیشن ایبل لگنے اور ’میموں کی وضع‘ اختیار کرنے کے لئے نہیں کٹوائے ہیں۔

بی۔ایڈ کا کورس ختم ہونے میں بس دو مہینے باقی ہیں۔ امتحان ہوجائیں تو پھر بڑھا لینا۔

 ابا نے تحکمانہ ، لیکن نرم لہجے میں اتنا ہی کہا۔

جی ابا، ضرور قمر نے منمنا کر جواب دیا، لیکن ان کے باہر چلے جانے کے بعد اماں پر الٹ پڑی:

چغلی لگا کے کیا ملا تمہیں؟لڈو؟ خوب تعلیم ہے بھائی تمہاری۔ خاندان میں اور لڑکیاں نہیں ہیں کیا؟ اور کسی نے نہ کٹوالیا چونڈا-

ابا نے قمر کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کی تھی ، اس لئے اماں آزردہ خاطر تھیں اور منھ ہی منھ میں بڑبڑاتی جا رہی تھیں....اسکولوں کالجوں میں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ بڑوں سے بدتمیزی کرو؟ اب یہی تم اپنے شاگردوں کو سکھانا۔ رہ گئے تمہارے ابا، تو بسنت کی خبر نہیں۔ کون کرے گا پر کٹی سے بیاہ؟

ایک تو ’چونڈا کٹوانے‘ جیسا غیر فصیح، اہانت انگیز جملہ، اوپرسے جلے پر نمک، ’پر کٹی‘ پھرخاندان کی دوسری غبی، کند ذہن، گھر بیٹھ کر پرائیوٹ اردو فارسی کے امتحان پاس کرنے والی لڑکیوں سے موازنہ --- قمر کی ایڑی میں لگی اور چوٹی میں بجھی۔ جلبلا کر بولی:

اور اسے بھول گئیں، وہ تمہارے چچا زاد بھائی کی بیٹی ثریا۔ اس نے بال کٹوائے ہی نہیں بلکہ لکھنو

جاکر ان میں گھونگھرو بھی ڈلوائے۔ یہ نہ کہنا کہ تمہیں معلوم نہیں۔ ابھی تو ملی تھی فرزانہ خالہ کے یہاں میلاد میں۔

ثریا کی شادی ہو گئی ہے۔ اب وہ جانے اور اس کا شوہر اور سسرال والے اور ہاں، میرے چچا زاد بھائی تمہارے ماموں ہوئے۔ خبردار جو یوں ذکر کیا ہے کہ تمہارے چچا زاد بھائی۔

ہاں ہاں، چلو نا- بڑے آئے ماموں۔ ایک نمبر کے تگڑم باز، معمولی صورت کی بارہویں پاس بیٹی کے لئے سرکاری نوکری والا لڑکا لے آئے۔ تم نے بھی کردی ہوتی ہماری شادی، پھر بلا سے ہم سرہی مونڈ کر رکھ دیتے۔ شادی نہ ہوئی، ہر آزادی کا پروانہ ہوگئی۔

 قمر پیر پٹختی وہاں سے چل دی۔

اماں، ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم، بت بنی بیٹھی دیکھتی رہ گئیں۔ ایسی خاموش ہوئیں کہ سارا دن گزر گیا اور وہ ہوں ہاں کے علاوہ کچھ

بوا نے اپنا تام چینی کا تاملوٹ اسی وقت چائے سے بھرا تھا۔ اس میں سے کچھ چائے ایک چھوٹی پیالی میں ڈال کر پیالی پرچ میں رکھ کر دریبر کی بی بی کو بڑھا دی۔ انہوں نے چائے پرچ میں نکال کر سڑپ سڑپ کر کے پی لی۔ رمضانی بوا نے دہکتے انگارے کرچھل میں ڈالے اور کرچھل انہیں تھما دیا۔ وہ کرچھل پر پھونکیں مارتی، اٹنگی ساری کا پلو سر پر سنبھالتی، سٹر پٹر دروازے کی طرف بڑھیں، لیکن پھر یکایک پلٹیں۔ چلتے ہیں باجی ا نہوں نے اماں کو مخاطب کیا۔

 اب جلدی بیٹا کے ہاتھ پیلے کرو تو ہم چوڑی کا ٹوکرا لے کے آئیں۔ اب کسی کے یہاں نہیں جاتے، مگر آپ کی بات دوسری ہے۔ کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔ (انہوں نے ’کب سے‘ پر خاصا زور دیا تھا) کب ختم ہوگی بٹیا کی پڑھائی؟ اچھا سلا ما لیکم

وہ سلا ما لیکم تک پہنچتے پہنچتے دروازے سے باہر ہو چکی تھیں اس لئے سلام بھی ذرا زور سے ادا کیا، جیسے پتھر کھینچ مارا ہو۔

بڑی آئیں خیر خواہ.. رمضانی بوا نے چائے تو پلا دی تھی، لیکن دریبر کی بی بی کی دریدہ دہنی انہیں پسند نہیں آئی تھی۔

دیکھئے نا باجی، جتا رہی تھیں، بٹیا اتنا پڑھ لکھ گئیں اور اب تک شادی بیاہ کی سن گن نہیں ہے۔ ’کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔‘ ارے آسرا تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں، مگر ہم کچھ بولتے ہیں کیا؟ وہ بھی ایسے ..،

 اماں کے جلے پر نمک پڑ گیا۔ اندر ہی اندر تلملا گئیں۔ محلے میں لوگ دو دو تین تین بیٹیاں بیاہ چکے تھے، یہاں ایک کا نصیب کھلنے میں اتنی دیر.... اور پڑھاﺅ جتنا پڑھیں گی اتنا ہی لڑکا ملنا مشکل ہوتا جائے گا۔

پگلی مہترانی آنگن بہار رہی تھی۔ وہ دریبر کی بی بی کے نکلنے کے بعد داخل ہوئی تھی۔ بات بدلنے کو اماں نے اسے بلا وجہ پکارا، بہو ، دیکھو ذرا ٹھیک سے جھاڑو لگانا۔ پت جھڑ آ گیا ہے، چاروں طرف پتے اڑتے پھر رہے ہیں۔ قمر... انہوں نے قمر کو بھی آواز دی:

دیکھو، ذرا نالی دھلوادینا۔

خاصے بڑے آنگن میں امرود کے دو نوجوان درخت تھے اور نیم کا پرانا جغادری پیڑ۔ اس کے علاوہ لسوڑہ اور انجیر بھی لگے ہوئے تھے۔ لسوڑے کا کوئی مصرف نہیں تھا، سوائے اس کے کہ محلے والے اچار کے لئے مانگ لے جائیں، لیکن اماں اسے کٹوانے کو تیار نہیں تھیں۔ انجیر گھر میں کوئی نہیں کھاتا تھا، سوائے اماں کے۔ نیم کی ہوا بیماریاں دور کرتی ہے اور انجیر صحت کے لئے مفید ہے، خشک لسوڑے کی چائے آنتوں کے لئے فائدہ مند تو تھی ہی، ساتھ ہی خشک کھانسی بھی دور کرتی تھی۔ اس معاملے میں اماں کسی کی سننے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ حجت نہیں کرتی تھیں، بس خاموش ہوجاتیں۔ ان کی ناراضگی، نا رضا مندی اور دل گرفتگی سب کے اظہار کا ایک ہی ذریعہ تھا --- ایک پتھرائی ہو ئی خاموشی۔

قمر کی کل کی بات کے بعد بھی وہ خاموش ہو گئی تھیں۔ ابھی جو انہوں نے اسے مخاطب کیا تو اسے بڑی راحت کا احساس ہوا۔ اسے اماں کی خاموشی سے بڑی کوفت ہوتی تھی۔ بولتی ہیں تو گھر میں ماحول نارمل اور خوشگوار لگتا ہے۔ ایسا کیاکہہ دیا تھا قمر نے کہ انہیں چپ لگ گئی تھی؟ اس نے بالٹی میں پانی بھرا اور آنگن کے کنارے کنارے لمبائی میں گزرتی نالی میں ڈال کر نالی پگلی سے دھلوائی، پھر اماں کے پاس آکر ان کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے:

اماں، ہم کل الٰہ آباد واپس جارہے ہیں۔ تم کو ناراض چھوڑ کر کیسے جائیں؟ تم ہم سے بات نہیں کر رہیں۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

بٹیا، ہم سے جو ہو رہا ہے تمہارے بیاہ کے لئے کر رہے ہیں۔ اپنی طرف سے تو اچھا ہی چاہتے ہیں، لیکن اللہ کی مرضی۔ تمہارے لائق رشتہ نہیں مل رہا ہے۔“ ان کی آواز مدھم تھی۔

قمر ایک دم سے آنسو پونچھ کر بدک کر کھڑی ہو گئی۔ وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔ کیا اماں سوچ رہی ہیں کہ اسے اپنی شادی کی جلدی پڑی ہے؟ وہ لاکھ منھ پھٹ سہی، ایسا کیسے کہہ سکتی تھی، پھر یہ کہ وہ ایسا سوچتی بھی نہیں تھی۔ نہ اس کی ایسی عمر آئی تھی، نہ ایسی بے شرمی طاری ہوئی تھی، یہ اور بات تھی کہ جتنی بے شرمی وہ برت لیا کرتی تھی وہ اماں کے حساب سے بہت زیادہ تھی، اس لئے اکثر معنی مطلب پہنا لیتی تھیں۔ قمر تلملا کے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک پگلی آن کے سر پر کھڑی ہو گئی۔ کام ختم کر کے اس نے آنگن میں لگے نلکے پر رگڑ رگڑ کر ہاتھ کہنیوں تک دھو لئے تھے۔ دو پٹے میں ہاتھ پونچھتی ہوئی بولی کہ آج وہ بہو سے لڑ کر بغیر کھائے پیے

نکل کھڑی ہوئی تھی، اس لئے اماں اسے فوری طور پر کچھ کھانے کو دے دیں، ورنہ اگلی ججمانی میں جاتے جاتے وہ بے ہوش ہو کر گر جائے گی۔ دراصل پگلی کاناشتہ کھانا کچھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ بس مہینے میں دو، کہیں چار روپے تنخواہ کے ملتے تھے۔ کبھی کچھ بچا کھچا ہو ا یا از خود مانگ بیٹھی تو مل جایا کرتا تھا۔ جاڑوں میں کسی کسی گھر میں الگ رکھے ٹوٹے ہوئے مگ یا تام چینی کے چینی جھڑے پیالے میں کبھی کبھار چائے مل جاتی تھی۔

ہا، دکھیا

 اماں آنگن پار کر کے باورچی خانے میں چلی گئیں۔

پگلی جاکے نلکے کے پاس بیٹھ گئی اور اطمینان سے آم کے اچار کے ساتھ رات کی باسی روٹیاں ہبڑ ہبڑ کھاتے ہوئے، پھولتی سانسوں کے درمیان اچار جیسی چٹ پٹی خبر بھی سنائی۔

حاکم کی سب سے چھٹکی بٹیا الٰہ آباد ماں پڑھت رہی نا۔ سردارن کا بٹوا بھی وہیں چلا گوا ہے۔

تو کیا ہوا۔ سب لڑکے لڑکیاں پڑھنے کو بڑے شہروں میں نکل رہے ہیں۔ ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ بے پڑھے لڑکیوں کا بھی گزر نہیں۔

اماں ایسی باتوں میں دلچسپی کم لےتی تھیں جن کی صداقت مشکوک ہو اور جن سے خواہ مخواہ کسی پر حرف آئے۔ ”اپنے کام سے کام رکھا کر، پگلیا۔

اپنے کام سے کام رکھنے کو پگلی نے نظر انداز کر دیا۔

کا ہوا؟ پگلی کے گلے میں چاندی کی خلال پڑی رہتی تھی اور ناک میں چاندی کا بڑا سا پھول۔ اس نے خلال سے دانت کریدے اور ناک کا پھول گھمایا:

ارے ہوئیں نام لکھایا ہے جہاں حاکم کی بٹیا پڑھت ہے۔ کچھ سمجھا کرو دیدی-

اما ں گھبرا گئیں۔ پگلی جنہیں حاکم کہتی تھی وہ مسلمان تھے اور لڑکا سردار۔ ملک کے بٹوارے کو ابھی پندرہ سال بھی نہیں ہوئے تھے۔ جنہوں نے براہ راست کچھ نہیں جھیلا تھا انہیں بھی اس کا بہت کچھ علم تھا اور پھر ایسا کون سا گھر تھا جس کے ٹکڑے نہیںہوئے تھے اور بھی بہت کچھ دکھائی دیتا رہتا تھا۔ مثلاً پرتاپ گڑھ میں ریلوے ڈپو کے پاس کنکریٹ کے بہت سے چھوٹے چھوٹے چوکور بکسے جیسے لگنے والے کوارٹروں کی ایک پوری کالونی اُگ آئی تھی۔ اس میں جو لوگ رہنے آئے وہ مقامی لوگوں سے الگ تھے۔ ان کا رہن سہن، ان کی زبان، ان کی عورتیں، ان کے گھر کی تہذیب، سب مختلف تھے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان کے گھر کے مرد اردو اخبار خریدتے تھے۔ لوگ انہیں ”شرنارتھی“ کہتے تھے، لیکن دس سال ہوتے ہوتے وہ عام آبادی میں گھل مل گئے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے انہیں شرنارتھی کہنا بھی بند کر دیا، پنجابی کہلاتے یاسردار۔ بڑے محنتی لوگ تھے۔ زیادہ تر نے چھوٹے موٹے کاروبار کیے۔ ایک صاحب تھر مس میں رکھ کر گھر کی بنی ہوئی قلفی لوگوں کے یہاں پہنچانے لگے تھے۔ کوئی پانچ سات برس بعد انہوں نے برف بنانے کی فیکٹری کھول لی۔ فرج لوگ ابھی بالکل نہیں جانتے تھے۔ گرمی میں برف کی بڑی بڑی سلیں برادے کی موٹی تہہ سے ڈھک دی جاتی تھیں، پھر اوپر سے موٹا ٹاٹ ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ سلیں جگہ جگہ دکانوں پر رکھی ہوتیں۔ وہاں سے گاہک تلوا کر برف لے جاتے۔ کچھ لوگ اپنے تھرمس لے کر آتے تھے۔ ان میں چھوٹے ٹکڑے کراکے بھر کے پہنچاتے۔ یہ برف قریب کے بڑے شہروں سے آتا تھا اور لانے میں کافی ضائع ہوتاتھا۔ شہر میں کارخانہ کھلا تو لوگوں کو بڑی آسانی ہوگئی۔ وہاں آئس کریم بھی جمائی جانے لگی۔ پہلے سردار جی گھر پر گھما گھما کر چلائی جانے والی چھوٹی مشینوں میں قلفی جماتے تھے۔ جن لوگوں نے ذرا ذرا سے کھوکھوں میں کپڑے اور بساط خانے کی دکانیں کھولی تھیں، ان کی اب بڑی بڑی شیشوں سے مزین دکانیں ہو گئی تھیں۔ لڑکے بالے پڑھنے جاتے تھے۔ عورتیں گھر میں ایک نوکر نہ رکھتیں؛ سارا کام خود کرتی تھیں۔ مقامی لوگوں کے یہاں تو معمولی متوسط طبقے میں بھی کل وقتی نہیں تو جز وقتی نوکرانیاں ضرور کام کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے یہاں بوائیں اور ہندو گھروں میں کہاریاں۔

 بڑے جیالے لوگ ہیں ، ایک بار ابا نے کہا تھا -

 لٹ پٹ کے آئے ، لیکن دیکھو، شہر پہ چھا گئے۔ کیا مجال جو کبھی کسی نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا ہو۔ ان کے یہاں کا کوئی

شخص بھیک مانگتا نظر نہیں آیا۔ کاروبار کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ مقامی زبان و مقامی لب و لہجے میں بولنے لگے ہیں۔ مقامی آبادی میں پوری طرح گھل مل گئے ۔

انہی جیالے، گھل مل جانے والے لوگوں کے یہاں کا ایک گورا، اونچا پورا، نہایت وجیہ لڑکا ایس۔ڈی۔ایم صاحب کے یہاں آنے جانے لگا تھا۔ افسروں کے یہاں حواری مواریوں کی جو بھیڑ رہتی ہے اسی میں وہ بھی کھپا رہتا۔ آخری پوسٹنگ میں ڈپٹی صاحب کو وطن مل گیا تھا، اس لئے ریٹائر ہو کر بھی وہ یہیں رہ پڑے تھے۔ ریٹائر ہوئے تو کچھ ہی عرصے میں خوشامد خوروں کی بھیڑ چھٹ گئی، لیکن وہ لڑکا بنا رہا۔ جب دیکھو تب موجود۔ آنٹی آنٹی کر کے ڈپٹیائن کے پیچھے آگے لگا رہتا۔ گھر کا سودا سلف تک لا دیتا۔

اماں نے گھبرا کر قمر کو دیکھا اور پھر پگلی کی طرف۔

اچھا چپ رہا کر، بہت بکتی ہے۔

قمر کی آنکھیں کاغذوں پر تھیں۔ آنسو پونچھ کر وہ برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر اپنے نوٹس درست کرنے لگی تھی۔ چہرے سے ایسا نہیں محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے پگلی کی کوئی بات سنی ہے۔ اماں نے اطمینان کی سانس لی اور رمضانی بوا کو ترکاری لانے کے لئے پیسے نکال کر دینے لگیں، گویا پگلی کو بات بالکل ختم ہو جانے کا سگنل دے دیا۔

قمر نے نوٹس پر سے نظریں اوپر اٹھائیں اور جھانجھر بجاتی، پیٹھ پھیر کر باہر نکلتی پگلی کو گھور کر دیکھا۔ نظریں اگر برما ہوتیں تو پیٹھ میں چھید ہو گئے ہوتے۔

ان لوگوں نے اماں کا دماغ اور خراب کر رکھا ہے۔ ہول گئی ہوں گی۔ الٰہ آباد میں تو میں بھی پڑھتی ہوں۔ کہیں میرے پیچھے تو آکے کسی لونڈے نے وہاں نام نہیں لکھوالیا، میرے ہی ڈپارٹمنٹ میں بی۔ایڈ کرنے کے لئے۔

ایسی باتیں لڑکیوں بالیوں کے کان میں نہیں پڑنی چاہئیں۔

 رمضانی بوا نے باورچی خانے کی کھونٹی سے ٹنگا اور دھواں کھاکے ملگجا ہوا ترکاری لانے کا تھیلا اتارتے ہوئے کہا۔

اب تم چپ رہو بوا ، اماں پھسپھسائیں۔

جو نہ سنا ہو تو اب تم سے سن لے۔ کل وہ چلی آئی تھیں سڑن، امیرن آپا، ایسی ہی کچھ ہی کچھ اول فول سناتی ہوئی۔ اللہ سے توبہ ہے۔ کیا زمانہ آن لگا ہے؟

 انہوں نے غصے میں چولہے کی جلتی آگ میں بلا وجہ پھکنی اٹھاکر پھونک ماری، پھر زور سے بولیں، جیسے قمر کو سنا رہی ہوں کہ یہاں سبزی ترکاری آٹے دال کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔

آدھا سیر مٹر ضرور لے لینا بوا۔ سنا ہے مٹر آگئی ہے بازار میں اور سیر بھر نئے آلو تلوا لینا۔ اللہ مارے پرانے بڑے میٹھے ہو چلے ہیں۔ ترکاری کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔

قمر زیر لب مسکرائی۔ اماں، تم ڈال ڈال تو ہم پات پات۔ ہمیں تو یہ بھی پتا ہے کہ امیرن خالہ کیا پھسپھسا گئی ہیں۔

چھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسٹوڈنٹس لوٹتے تو الٰہ آباد یونیورسٹی کے کئی لڑکے لڑکیاں اکثر بس میں ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے۔ یہ معمول تھا، اتفاق نہیں۔ کئی لڑکیاں گھر سے برقع اوڑھ کر نکلتیں اور بس میں اتار دیتیں۔ گھر والے یہ بات جانتے تھے۔ ’حاکم‘ کی بیٹی آمنہ سے تو قمر کی کئی بار بس میں ہی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ یونیورسٹی میں بھی آمنا سامنا ہو گیا تھا۔ آج بھی وہ بس میں تھی۔ کئی اور لڑکے بھی تھے۔ جگجیت بھی تھا جو بالکل پیچھے آکر بیٹھ گیا تھا۔ آمنہ اور قمر برابر کی سیٹوں پر تھیں۔

 ہمارے تمہارے درمیان الٰہ آباد کے علاوہ ایک اور لنک (Link ) بھی ہے -

 قمر نے مسکرا کر آمنہ سے کہا۔ آمنہ بے حد کم سخن تھی۔ جواب میں اس نے صرف بڑی بڑی اداس آنکھیں اٹھا کر دیکھنے پر اکتفا کیا۔

پگلی مہترانی

 قمر نے آمنہ کی خاموش نگاہوں کے سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ وہ کم سخن لڑکی بھی بے اختیار ہنس پڑی۔ پگلی آمنہ کے یہاں بھی کام کرتی تھی، مگر شناساﺅں کے درمیان اس کا ذکر کبھی یوں نہیں آیا تھا۔

ہنس لو قمر نے پھر کہا:

وہ اماں سے کہہ رہی تھی کہ حاکم کی بٹیا جہاں پڑھتی ہے وہاں سرداروں کے لونڈوں نے بھی نام لکھوایا ہے۔

ایک اضطرابی کیفیت کے تحت آمنہ کا سر پل بھر کو پیچھے گھوما۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر قمر سے خاموش رہنے کی گزارش کی۔ اس کی اچانک آجانے والی ہنسی یوں غائب ہوگئی تھی جیسے سورج کی پہلی کرنوںکے ساتھ گھاس پر پڑی اوس کی بوندیں۔

پگلی کو ابھی یہ پتا نہیں چلا ہے کہ میری شادی تقریباً طے ہوچکی ہے، ورنہ یہ بھی الم نشرح ہوجاتا۔

 کچھ دیر کے بعد آمنہ نے رسان سے کہا، اس کے بعد پورا سفر خاموشی سے گزار دیا۔

فروری کے مہینے میں ریٹائرڈ حاکم کے یہاں سے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کا کارڈ آیا۔ یہ کارڈ دراصل آمنہ نے قمرسے یاد اللہ کی وجہ سے بھجوایا تھا۔ قمر کے امتحان مارچ میں ہونے والے تھے ، اس لئے وہ گھر نہیں آسکی تھی۔ اب ڈپٹی صاحب کے گھر کا بلاوا تھا، اس لئے اماں گئیں۔ نہ جانے کیوں انہوں نے راحت کی سانس لی تھی۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ..کنکھیوں سے انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک اونچا پورا، گورا چٹا، خوبصورت سردار لڑکا سارے انتظامات میں پیش پیش ہے اور گھر کے اندر بھی بلا تکلف آ جارہا ہے۔

'سنتے ہیں، بٹیا کی ڈولی اٹھی تھی تو بہت رویا۔' سارے فسانے میں جس بات کا ذکر نہیں تھا، یقینا پگلی نے اپنی طرف سے جوڑی ہوگی، اماں نے سوچا، لیکن شہر کے کئی گھرانوں، خصوصاً سول لائنز کی آبادی میں یہ بات چرچا کا موضوع بنی کہ آمنہ کی ڈولی اٹھی تو جگجیت سنگھ بہت رویا تھا۔

'عورتوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رہاتھا۔ کون تھا وہ لڑکا؟' ایک خاتون نے رخصتی کے فوراً بعد پوچھا تھا۔

آمنہ کی والدہ نے کہا- ' بہت زمانے سے آتا تھا، بہن کی طرح مانتا تھا مِنّا کو۔'

مقامی ڈاکٹر رام چرن داس کھتری کی دو بیٹیاں بھی الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں۔ ایک تو آمنہ کی کلاس فیلو بھی تھی۔ ڈپٹیائن نے جب یہ بہن کی طرح ماننے والی بات کہی تو دونوں وہیں موجود تھیں۔ لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرائیں۔

سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سامنے بڑا سا لان تھا۔ اس میں پتھر کے اسٹول بنے ہوئے تھے۔ وہاں وہ دونوں اکثر چپ چاپ بیٹھے دکھا ئی دیتے۔ ان کے چہروں پر ایسی معصومیت، ایسی اداسی، ایسی خاموشی بکھری ہوتی تھی کہ کسی نے مذاق نہیں اڑایا، کبھی ایک بھی نازیبا جملہ نہیں کسا۔ بس ایک مرتبہ ایک لڑکی نے، جو خود جگجیت پر فدا تھی، بڑی حسرت سے کہا تھا -

آمنہ، یہ جگجیتا بڑا خیال رکھتا ہے تمہارا

خفیف سی دھار رقابت کی بھی تھی۔ تمہارے لئے گھرکا کھانا لے کے آتا رہتا ہے۔

ہاں،

ماں بھیجتی رہتی ہیں۔

 آمنہ نے ستھری نظریں اٹھا کر سادگی کے ساتھ سادہ سا جواب دیا۔ کس کی ماں، یہ وضاحت اس نے نہیں کی۔ جگجیت ہمیشہ سے آمنہ کے بنگلے پر آتا رہتا تھا۔ الٰہ آباد اور پرتاپ گڑھ میں فاصلہ اتنا کم تھا کہ اکثر وہ سنیچر کی شام کو گھر بھاگ آتا اور پیر کو علی الصباح واپس لوٹ کر کلاسز کر لیتا۔ لوٹتا تو ڈبوں میں بھرواں پراٹھے، کوئی سوکھی سبزی اور آم کا اچار لے کر آتا۔ اس کی ماں بڑے عمدہ پراٹھے بناتی تھی۔

گرم اور زیادہ مزیدار ہوتے ہیں منا -' وہ ہر بار کہتا۔

لیکن میری ماں پراٹھے اتار رہی ہو اور تم پاس بیٹھ کر کھا رہی ہو، یہ سپنا تو سپنا ہی رہ جائے گا۔ اور آمنہ کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہوجاتی۔

یہ اور ایسے بہت سے سپنے دل میںلیے آمنہ، فرسٹ کلاس ایم۔اے سوشیالوجی، ریٹائرڈ پی۔سی۔ایس افسر کی بیٹی، خاموشی سے کسی اور کی ماں کو پراٹھے تل کر کھلانے کے لئے وداع ہوگئی۔

ایسے قصے خال خال سہی، لیکن سننے میں آرہے تھے۔ سنانے والوں کے لہجے میں معنی کی دنیا پنہاں ہوتی۔ کوئی سمجھتا، کوئی ٹال جاتا، لیکن قمر کی اماں بیٹی کے الٰہ آباد جانے کے بعد سے ہر وقت خوفزدہ رہا کرتی تھیں۔ امیرن خالہ بتا رہی تھیں کہ پرلے محلے کے ایک باعزت کایستھ گھرانے کی بیٹی اپنے سگے چچا زاد کے ساتھ بھاگ گئی اور شادی رچا کے واپس لوٹی۔ اب بھلے ہی دکن کے کچھ ہندو سگے ماموں بھانجی کی

شادی کو افضل قرار دیں، لیکن شمالی ہندوستان کا کوئی ہندو کسی بھی ’زاد‘ سے شادی کو قبول نہیں کرتا۔

ہمارے یہاں یہ شادیاں جائز ہیں، اسی لئے ہمارے وقت میں ماموں زاد، خالہ زاد وغیرہ سے بھی زیادہ گھلنے ملنے نہیں دیتے تھے۔ سامنے تو خیر جاتے تھے، تھوڑا بہت ہنس بول بھی لیتے تھے، لیکن ماں، نانی، دادی، خالہ، پھوپھی کی چیل جیسی نظروں تلے۔ اب دیکھو تو لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ پڑھ رہی ہیں۔ قمر کہہ رہی تھی کہ بس میں آرہی تھی تو ساتھ کے دو لڑکے بھی تھے۔ راستے بھر ہنستے بولتے چلے آئے۔ بڑے اطمینان سے کہہ گئی، جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ اس کے باپ کی مت ماری گئی تھی جو پہلے بی۔اے اور پھر بی۔ایڈ کے لئے بھی باہر بھیج دیا۔ پرتاپ گڑھ میں تو مجال نہیں کہ بغیر برقعے کے نکل جائیں ، لیکن ادھر بس میں چڑھیں یا ٹرین میں بیٹھیں اور برقع جھولے میں۔

لاکھ قمر چڑتی ، لیکن اماں اس کے سیاہ رنگ کے بڑے سے اسمارٹ بیگ کو وہ جھولا ہی کہتیں اور بی۔ایڈ  نہ کہہ کراستانیوں والی پڑھائی۔

رزلٹ آنے سے پہلے سے ہی قمر اخباروں پر جھکی، نوکریوں کے اشتہار دیکھتی رہتی تھی۔ دو انگریزی اخبار لگا لئے تھے۔ ابا تو ’سیاست‘ منگایا کرتے تھے۔ ماں بولتی کچھ نہیں تھیں، بس گھبراتی رہتی تھیں۔ ’لوجی، اب یہ نوکری بھی کریں گی۔ اب تک تو یہ تھا کہ لڑکی پڑھ رہی ہے، لڑکی پڑھ رہی ہے۔ یا مولا مشکل کشا-

رزلٹ آیا تو وہ اور شد و مد سے خالی جگہوں کے کالم پر نظریں دوڑانے لگی۔

ابا، ایک دن اس نے خبر سے نظریں اٹھائے بغیر باپ کو مخاطب کیا:  یہ ملازمت بہت معقول معلوم ہو رہی ہے، لیکن درخواست منگائی ہے باکس نمبر کی معرفت۔ اللہ جانے کہاں ہے اسکول، کس شہرمیں ہے۔ درخواست دیں؟

درخواست دینے میں حرج نہیں،  ابا نے جواب دیا۔

جگہ بھی مناسب ہوئی، یعنی آس پاس، تو ٹھیک ، ورنہ چھوڑدینا، مت جانا۔

میں کچھ کہوں تو کانوں تیل ڈال کے بیٹھ جاتے ہیں، نوکری کے لئے جھٹ سے بیٹی کی بات سننے کو تیار۔ لڑکا ڈھونڈنے میں مستعدی دکھائیں تو ہم جانیں-

اماں منھ ہی منھ میں بدبدائیں۔ ابا کے زیادہ منھ لگنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ تو کچھ ایسا قائل کرتے رہے تھے کہ جیسے بی۔ایڈ کرتے ہی لڑکا آسمان سے اب اترا کہ جب اترا۔”سلمان چچا والے رشتے کو منع نہ کیا ہوتا تو بلا سے روٹیاں پکاتی، بیس کہ پچیس کی، آج گود میں ایک دو بچے کھیلتے ہوتے اور اب کون سی روٹیاں پکانے سے فرصت ملے گی-عورت کا جنم --- ماشٹری بھی کریں گی اور روٹی بھی ٹھوکیں گی۔ ہم سے زیادہ سخت زندگی گزرے گی۔ انہوں نے سروتا چلایا اور کھٹاک سے ڈلی کے دو ٹکڑے کیے۔

اماں کل جبھی تھیں کیا؟

قمر نے اپنے گالوں پر تھپڑ لگائے۔ 'میں کتنی بری بیٹی ہوں-میں یہ بھی تو سوچ سکتی تھی کہ اماں کو الہام ہوا تھا، یا ان کی زبان پر سرسوتی آن بیٹھی تھی۔ اس نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور پڑوس کے مکان کی کال بیل دبائی۔ دونوں بچیاں اچھلتی ہوئی باہر آئیں۔ پیچھے پیچھے نیک دل، ادھیڑ عمر، تنہا رہنے والی، مہربان پڑوسن جنہیں گویا اللہ میاں نے تعینات کر دیا تھا کہ قمر کی نوکری اور گرہستی دونوں چلتی رہیں۔ہاں بھائی، سنبھالو، انہوں نے روز کا جملہ دہرایا اور شفقت سے مسکرا کر دروازہ بند کر لیا۔

بچیوں کا اسکول قمر کے اسکول سے پہلے چھوٹ جایا کرتا تھا، وہ کوئی دو گھنٹے بعد آتی تھی۔ اس دوران بچیاں ان خاتون کے گھر رہتی تھیں جنہیں قمر ’شانتی آنٹی‘ کہتی تھی اور لڑکیاں ’شانتی نانی۔‘

اپنے دروازے کا تالا کھول کر قمر اندر داخل ہوئی۔ دو دن سے بوا نہیں آرہی تھی۔ باورچی خانے کا سنک برتنوں سے بھرا ہوا تھا۔ قمر نے جلدی سے ایپرن چڑھایا اور کچھ ضروری برتن دھوکر الگ ہٹائے، باقی یونہی رہنے دیے۔ فرج سے گندھا ہوا آٹا اور سبزی نکالی جو وہ سویرے ہیدھو کاٹ کر رکھ گئی تھی۔ جلدی سے ایک طرف سبزی چڑھا کر توا ڈالا اور پراٹھے سینکنے شروع کیے۔ بچیوں نے فرج کھول کر اپنے لئے کولڈ ڈرنک نکال لیا تھا اور میز پر رکھے کیلوں کے گچھے سے کیلے لے لئے تھے۔

زیادہ کیلے مت کھانا.. قمر نے پکار کر کہا۔

 کھانے کا وقت ہے۔ بس ابھی لائی ، یوں-' اس نے چٹکی بجائی، پھر اس نے جلدی سے میز پر پراٹھے، سبزی اور دہی کا سادہ سا کھانا لاکر رکھ دیا اور دل میں سوچا کہ آج یہ گیس، پریشر کوکر اور فرج ایک ہاﺅس وائف کے لئے کتنی بڑی نعمت ہےں۔ اس نے تولیہ سے ہاتھ پونچھے اور خود بھی پاس بیٹھ گئی۔

پھر وہی لوکی“ بڑی بچی منمنائی۔

چپ چاپ کھالو۔ دیکھ نہیں رہی ہو، ممی کتنی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں۔

قمر نے حیرت سے دیکھا۔ چھوٹی کو چھ سال پورے ہونے میں ابھی دو تین مہینے باقی ہی تھے۔ اتنی سمجھ اور ماں کے لئے ایسی ہمدردی؟ قمر کا جی بھر آیا۔ ویسے بڑی صرف گیارہ مہینے بڑی تھی۔ دونوں آگے پیچھے اتنی جلدی ہو گئی تھیں کہ جڑواں جیسی لگتی تھیں۔ پراٹھے کا نوالہ لے کر بڑی لڑکی نے اپنی نکتہ چینی کی تلافی کی:

کوئی بات نہیں ممی، دہی بھی تو ہے۔ ہم دہی شکر کے ساتھ بھی کھا لیں گے۔ قمر نے شکر دان اس کے سامنے سرکادیا جو وہیں میز پر رکھا تھا، پھر دونوں کی پلیٹ میں کھانا نکال کر اٹھ گئی۔

ممی، تم؟

میں پہلے کچن صاف کرلوں، پھر نہا کر اطمینان سے کھاﺅں گی۔ صفائی کے کوئی گھنٹہ بھر بعد وہ غسل خانے میں داخل ہوئی۔ نہاکر ساری کی جگہ شلوار قمیص پہنی۔ اس نے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالا تو نیند سے آنکھیں جھکی جا رہی تھیں۔ گرمیوں کی سہ پہر تھی۔ ایک گھنٹہ ہلکی جھپکی، پھر اٹھ کر بچیوں کا ہوم ورک کرانا، شام کی چائے کے لئے کچھ تیار کرنا۔ چھ بجے انیس آجائے گا، اس کے حوالے بچیوں کو کرکے وہ بازار جائے گی۔ رات کے کھانے میں کچھ اچھا پکنا چاہیے۔ دال، چاول، ایک سبزی گوشت یا مرغ کا سالن، روٹیاں۔ کبھی کبھی گوشت پکانے کی جگہ وہ کباب لے آتی تھی۔ انیس شاذ و نادر ہی خریداری کے لئے نکلتا، لیکن کھانے میں کمی ہو تو ٹوک ضرور دیتا تھا۔”ایک وقت ہی تو چین سے پورا کھانا کھانے کو ملتا ہے، ورنہ آفس میں تو وہی سوکھی روٹی ، سوکھی سبزی۔

کبھی تم بھی کچھ لے آیا کرو، قمر نے ایک آدھ بار طعنہ دیا تو اس نے ٹکا سا جواب ٹکا دیا، یہ تمہارا ڈپارٹمنٹ ہے۔ بس کبھی کبھی بیوی اور دونوں بچیوں کو اسکوٹر پر بیٹھا کر حضرت گنج لے جا کر آئس کریم کھلاتا تھا یا کچھ پھل خرید لیتا۔

آں... بڑی لڑکی قمر کی پلیٹ میں جھانکنے لگی تھی۔

ہم کولوکی کھلا کر تم کیا کھا رہی ہو؟.... اس نے متجسس نظروں سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

من و سلویٰ .... کھاﺅگی؟ قمر نے ہنس کر کہا : ”بےوقوف، فرج میں پرسوں سے دال پڑی تھی، میں نے سوچا کھاکے ختم کروں۔ تمہارے پاپا تو فرج میں رکھی دال کھاتے نہیں اور تمہیں ہری سبزی کھانی چاہئے، اس لئے لوکی بنادی۔ لڑکی اتنا طویل لکچر سننے سے پہلے سانپ سیڑھی کے لوڈو پر جھک گئی تھی۔ دال اسے یوں بھی سخت نا پسند تھی۔ اس سے اچھی تو لوکی کی سبزی تھی۔

میں بالکل اماں جیسی ہوتی جا رہی ہوں، قمر نے ہول کر سوچا: کہیں لڑکیوں کے ساتھ اتنی ہی سخت گیر بھی نہ ہوجاﺅں۔

ادھر آﺅ اس نے دونوں کو پکارا۔ وہ فوراً پاس آگئیں۔ قمرنے پلیٹ ہاتھ سے رکھ دی، انہیں گود میں بیٹھا لیا، پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور دل ہی دل میں بولی :

میرے اور تمہارے بیچ اتنا جنریشن گیپ نہیں ہوگا جتنا میرے اور اماں کے بیچ تھا، بھلے ان کی طرح باسی کھانا سوارت لگاتی پھروں۔

لوڈو پھر کھیل لینا، کچھ دیر چلو چل کر سوتے ہیں، پھر ہوم ورک اور تب کھیل۔اس نے پیار سے دونوں کو گود سے ہٹا دیا۔ چھوٹی اس سال اپر کے جی ختم کر کے اسٹینڈرڈ ون میں آنے والی تھی اور بڑی آچکی تھی۔ دونوں کو ہوم ورک ملتا تھا۔ انیس تو صفا ہاتھ جھاڑلیتا:

 ' تم ٹرینڈ ٹیچر ہو، اسکول میں پڑھا تی ہو، میں نو بجے سے چھ بجے تک آفس کرتا ہوں۔ میرے دماغ میں یوں بھی طاقت نہیں رہجاتی۔'  انیس اس بات پر بہت زور دیتا رہتا تھا کہ وہ نو سے چھ تک آفس کرتا ہے جب کہ قمر دو ڈھائی بجے گھر آجاتی ہے اور پھر اسے چھٹیاں بھی بہت ملتی ہیں۔ جب دیکھو تب کسی نہ کسی وجہ سے اسکول بند۔

ارے تمہارا کیا ہے، عیش ہیں تمہارے تو، عیش۔ دو مہینے پورے-ہمیں نہ مل جائیں گرمی کی چھٹیاں۔ ارے دس بیس روز کی بھی مل جائیں۔ گرمی کی چھٹیوں بھر وہ طوطے کی طرح دہراتا رہتا تھا۔

بظاہر یہ سچ بھی تھا، لیکن انیس نے یہ سوچنے کی زحمت شاید کبھی نہیں کی تھی کہ ایک بار گھر واپس آجانے کے بعد اسے کچھ نہیں کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار تو اسے بھی چھٹی ملتی تھی، پھر اتوار تو تھا ہی۔ اس میں وہ سوتا تھا یا دوستوں کے ساتھ کافی ہاﺅس جا بیٹھتا۔ گھر پر مزے سے ٹی وی دیکھتا، چائے کے ان گنت کپ پیتا جو ظاہر ہے قمر ہی بناتی تھی۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا کہ وہ قمر کو تنگ کرنے کے لئے اتنی چائے پی رہا ہے۔ قمرنے ایک بہت مہنگی کمپنی کا ہیلتھ ڈرنک خریدا تھا۔ وہ رات میں بچیوں کو دیتی تھی اور اسی وقت ایک کپ بنا کر انیس کو بھی۔ خود اس نے کبھی نہیں لیا۔ گھر دو تنخواہیں آرہی تھیں، لیکن پھر خرچ بھی تو ویسے تھے۔ سب سے بڑھ کر تو بچیوں کا انگریزی اسکول۔ اگر وہ بھی ملازمت نہ کر رہی ہوتی تو بچیاں اس مہنگے اسکول میں کبھی نہیں جا سکتی تھیں۔ انیس چاہتا تھا کہ ان کے یہاں ایک بچہ اور ہو۔ شاید اس بار لڑکا ہوجائے۔

میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹ بال کھیلوں گا اور کرکٹ...

 وہ بڑے ارمان سے کہتا تھا اور اسے اپنی ماں اور قمر کی ماں، دونوں بوڑھیوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن قمر ابھی تک اڑی ہوئی تھی۔

تم سب نے مل کر گارنٹی لی ہے کیا کہ اس بار بیٹا ہی ہوگا؟ ایک بار اس نے اپنی فطری کٹھ حجتی کے ساتھ چڑ کر کہا تھا۔

اماں کو ایک بیٹی کے بیاہ میں دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ میرے پاس دو ہیں۔ تیسری بھی بیٹی ہو گئی تو کہاں ٹھکانے لگاﺅں گی؟ لیکن یہ کہتے ہوئے قمر کو شدت سے محسوس ہوا تھا کہ اماں تو اماں، اس میں پگلی جمادارن کی روح کا بھی کچھ حصہ حلول کر چکا ہے۔

اس دن قمر کا ہائی اسکول کا رزلٹ آیا تھا، اس لئے وہ صبح اسے اچھی طرح یاد تھی۔ فرسٹ ڈویژن کا نشہ اچھی طرح یاد تھا۔ انٹرمیڈیٹ کے لئے باہر نہ جاسکنے، بوائز اسکول میں نام لکھواکر سائنس نہ پڑھ سکنے کی شدید مایوسی اچھی طرح یاد تھی اور یاد تھی پگلی جمادارن، جو آنگن میں جھاڑو لگاتے لگاتے یکایک رک کر جھاڑو کے لانبے ڈنڈے پر ٹھڈی ٹکا کر کھڑی ہو گئی تھی اور انتہائی تاسف کے ساتھ ایک ہاتھ کی انگلی ناک پر رکھ کر بولی تھی:

ہائے رے دیا، پھن بٹیا-(یا مالک، پھر بیٹی ہوگئی)

ہاتھ میں اخبار لہراتے ابا اور برقع پھڑکاتی امیرن خالہ ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے۔ امیرن خالہ تو سلام تک کرنا بھول گئیں۔صبح صبح بٹیا ہوئی ہے شکلائن کے یہاں۔ انہوں نے پھولتی سانسوں کے درمیان بتایا۔ ان کے ساتھ ہی ابا نے تقریباً نعرہ لگایا

 لو بٹیا، آگیا فرسٹ کلاس-کتنا ڈری ہوئی تھیں تم۔

 قمر دوڑ کر ابا سے لپٹ گئی۔ انہوں نے ہولے سے سر پر ہاتھ رکھا اور الگ کو ہٹ گئے۔ بچوں کولپٹاچمٹا کر پیار کرنا اس وقت کے بڑوں کا شیوہ نہ تھا۔ سچ پوچھا جائے تو براہ راست پیار کا کسی بھی طرح کا اظہار نہیں تھا۔

چلو جاﺅ، نفل نماز ادا کرو، قمر اماں نے اتنا ہی کہا اور امیرن خالہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ شکلائن سے ان کی بڑی پٹتی تھی۔

اے ہے، تیسری بھی بیٹی ہی ہو گئی، کہاں نمٹائیں گے؟ ان لوگوں کے یہاں تو تلک میں بھاری بھاری رقمیں بھی خرچ ہو تی ہیں۔

’ہئی ہے.. امیرن خالہ نے برقع اتار کر تخت پر رکھتے ہوئے کہا۔ 'شکلا جی کی اماں کہتی تھیں، اس بار بھی بیٹی ہوئی تو انہیں کچھ سوچنا پڑے گا۔ دراصل یہ تیسری نہیں، چوتھی بیٹی ہے۔ پہلی دو چار دن کی ہوکے سوری میں ہی ختم ہو گئی تھی۔'

اماں، ہمارا فرسٹ ڈویژن آیا ہے- قمر نے زچ ہوکر زور سے پکار کر کہا۔

جاہل عورتیں- وہ پہلے شکلا جی کی بیوی کا ماتم تو کرلیں- بڑبڑاتے ہوئے ابا باہر چلے گئے۔  

(جاری )

پارسا بی بی کا بگھار (ناولٹ) دوسری قسط

ذکیہ مشہدی

امیرن خالہ رشتے میں اماں کی بہن لگتی تھیں۔ عمر میں چھوٹی تھیں اس لئے سالی ہونے کے ناتے ابا کے منھ لگ کر بول لیا کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ ہڑبڑ ہڑ بڑ بولنے کے لئے مشہور تھیں۔ تنک کے بولیں:

ہاں بھائی صاحب، کہہ لیجئے، ہم تو واقعی جاہل ٹھہرے، لیکن قمر سے پہلے ہماری آپا نے دو بیٹے نہ جنے ہوتے تو ہم آپ سے پوچھ لیتے کہ آپ کتنے عالم فاضل ہیں اور بیٹے بھی کیسے کہ لائق --- علی گڑھ میں پڑھ رہے ہیں۔' پھر آواز قدرے نیچی کر کے بولیں .

 ایک ہی لڑکی ہے اس لئے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہیں۔ ارے زیادہ چھانئے مت، کہیں خدا نخواستہ کرکرانہ کھائیں۔

 ابا ان کی زد سے باہر نکل گئے تھے، لیکن اماں تو سب سن رہی تھیں۔ بات بدلنے کو انہوں نے بٹوے سے دو روپے نکال کر پگلی کو مٹھائی کھانے کے لئے دیے۔

چلو، بٹیا کے پاس ہوئے کی مٹھائی تو کھانے کو ملی۔ سوچا تھا اب کی شکلائن سے چاندی کی جھانجھر لیں گے۔ پھر اماں کا دیا ہوا ڈلی چونا ہاتھ کے پیالے میں لیتی ہوئی بولی

ٹھیک کہت ہیں بڑی سکلائن۔ شکلا جی کو چاہئے کہ دوسر بیاہ کر لیں۔ اتنی جمین جائیداد گاﺅں میں ہے۔ سب داماد آکے کھائے جہیں۔ ایک ٹھو، بٹوا جروری ہے۔

وہ اپنی گلٹ کی جھانجھریں بجاتی چل دی۔

اس کا نام یونہی پگلی تھوڑی پڑ گیا۔ پاگل تو ہئی ہے، خبطی کہیں کی! قمر نے غصے سے کہا۔

'گھر کے پرانے لگے ہوئے نوکروں سے اس طرح بات نہیں کرتے!' اماں نے جھڑکا۔ 'خواہ وہ جمادارن ہی کیوں نہ ہو۔ اچھا ہے جو سنا نہیں۔

'سن لیتی تو کیا کرتی؟'

'کچھ نہیں کرتی۔ اسے تکلیف ہوتی تو تمہیں گناہ ہوتا۔ پلٹ کے جواب دیتی تو تمہاری بے عزتی ہوتی۔'

'اماں، تمہارے نزدیک ہم پگلی سے بھی گئے گزرے ہیں؟ ' قمر نے پیر پٹخے۔' مہترانی تمہیں زیادہ عزیز ہے۔'

کیا ہوگیا ہے آج کل کے بچوں کو؟ اماں نے تاسف سے سوچا۔ یہ لڑکی کہاں کھپے گی۔ اس قدر بد زبان

قمر کی 'کھپتے کھپتے' عمر شریف اٹھائیس برس ہو رہی تھی اور اماں کو برے برے خواب آنے لگے تھے۔ بڑی خوش فہمی تھی اماں کو --- پڑھائی ختم ہوتے ہی شادی کردیں گی، لڑکا اب حاضر ہوا کہ تب۔ لڑکا فوری طور پر حاضر نہیں ہوا تو نوکری تو ہوجاتی۔ لڑکوں میں سے ایک نے انگریزی میں ایم۔اے کیا تھا۔

چونکہ گولڈ میڈل حاصل کیا تھا ، اس لئے وہیں اپنے ہی ڈپارٹمنٹ میں جگہ مل گئی۔ دوسرے نے ایم۔کام کیا تھا، وہ ایل آئی سی میں نوکری پا گیا۔ انٹرویو کے لئے بمبئی بلایا گیا تھا، آرام سے چلا گیا۔ ناسک میں پوسٹنگ ہوگئی، آرام سے رہ پڑا۔ قمر نے باکس آفس کی معرفت جہاں درخواست بھیجی تھی، وہ ایک دور افتادہ شہر تھا۔ اسکول میں بورڈنگ نہیں تھا۔ سلیکشن ہوجانے کے باوجود قمر نہیں جاسکی۔ پرنسپل نے کہا بھی کہ وہ ایک شریف گھرانے کو جانتے ہیں، وہاں بطور پیئنگ گیسٹ رکھوادیں گے، لیکن ابا اماں دونوں نے سختی سے انکار کردیا۔ لڑکی پڑھ رہی ہے، یہ لوگ سمجھتے ہیں، لیکن نوکری کرنے کے لئے اکیلی لڑکی نہ جانے کہاں، کس کے یہاں رہتی پھر رہی ہے، یہ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہوگا۔ ایک بار سرکاری ملازمت ملی۔ اس میں تو اور بھی کوردہ دیہات میں بھیج دیا گیا۔ قمر نے خود انکار کر دیا۔ وہاں جاکر اسکول دیکھنے کے بعد اس کا دل بیٹھنے لگا تھا۔

 'ابا، ہم آفس کی نوکریوں کے لئے درخواست دیں؟' ایک دن قمر نے پوچھا.

 'آخر ہم گریجویٹ تو ہیں ہی۔' ابا نے اسے صرف گھور کر دیکھا، کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خشمگیں نظریں بذات خود جواب تھیں۔

ملا کی دوڑ مسجد۔ قمر کو آخر اس کے اپنے چھوٹے سے شہر نے ہی پناہ دی۔ وہاں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں وہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر پرائمری درجات کی ٹیچر مقرر ہوئی۔ اماں اس کے ہاتھ پر پچیس روپے رکھ کر باقی بڑی پابندی سے جمع کر دیا کرتی تھیں اور خوش تھیں کہ لڑکی گھر پر ہی ہے۔ کہیں باہر نوکری کے نام سے ان کی جان نکلا کرتی تھی، لیکن قمر نے ہار نہیں مانی تھی۔ آس پاس مناسب جگہ مل گئی تو کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ وہ لکھنو، الٰہ آباد،بنارس سے کوئی جگہ نکلی دیکھتی جو اس کی تعلیم کے مطابق ہوتی، تو پٹ سے درخواست بھیج دیتی، تب اماں کی واویلا کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک دن اس نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا تھا- 'اماں، بھول جاﺅ کہ کوئی آسمان سے اترنے والا ہے، اس لئے نوکری تو ایسی کرنے دو جو کسی معقول اسکول میں معقول تنخواہ کے ساتھ ہو۔ میں یہاں برقع پہن کے زنگ کھاتی رہوں' ڈیڑھ سو پاکر تین سو پر دستخط کروں؟'

ایک دن قمر نے اعلان کیا-'کل ہم لکھنؤ جا رہے ہیں۔ ہمارا انٹرویو لیٹر آیا ہے۔ عرشی خالہ کے یہاں ٹھہر جائیں گے۔ اسکول بہت اچھا ہے۔ شاید قسمت ساتھ دے جائے۔ اماں اب تک قسمت پر شاکر ہونے لگی تھیں، زیادہ واویلا نہیں مچائی۔ لکھنؤ  پر تو ابا بھی کچھ نہیں بولتے تھے، وہاں کئی رشتے دار موجود تھے۔

تب ہی وہ انہونی ہوئی۔

حسب دستور کمپارٹمنٹ میں گھستے ہی قمر نے برقع اتار کر جھولے میں ڈالنے کے لئے اس کی زپ کھولی ہی تھی کہ اس کی نظر اُس پر پڑی۔ وہ لانبے قد کا، سانولا لیکن جاذب نظر نوجوان تھا جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر سنجیدگی کے باوجود اس کی آنکھوں میں قمر کی برقع بیگ میں ڈالنے کی حرکت سے نہایت محظوظ ہونے والی کیفیت تھی۔ قمر سٹپٹا گئی۔ وہ نوجوان بھی دوسری طرف کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد جھجکتے ہوئے دوچار جملوں کا تبادلہ ہوا۔

 ایک چھوٹے اسٹیشن پر اس نے چائے خریدی تو ایک کوزہ قمرکو بھی پیش کر دیا۔ وہ لکھنؤکےکسی بینک میں اکاؤنٹنٹ تھا۔ پرتاپ گڑھ اس کی بیوی کا میکہ تھا۔ وہ گویا اپنی سسرال آیا ہوا تھا۔

'تو اہلیہ وہیں رک گئیں؟' قمر نے چائے قبول کرلی تھی اور بھرتی کا سوال کر رہی تھی۔

ان کی دوسری برسی تھی۔“ اس کا چہرہ تاریک ہوگیا۔ (کسی کنواری کے نصیب سے بیاہی مرتی ہے، ایک بار امیرن خالہ نے کہا تھا تو کٹھ حجت قمر ہنس پڑی تھی۔'اگر مرحومہ کا شوہر کسی بیوہ سے شادی کرے تو؟' اس نے امیرن خالہ کو چھیڑا تھا۔ 'بیوہ سے شادی کون کرے ہے جی؟ کنواری کو جڑتا نہیں، مطلقہ اور بیوہ کو بر کہاں سے جڑے گا؟' پھر انہوں نے کئی قصے سنائے جن میں پچاس پچپن، یہاں تک کہ ساٹھ برس کے رنڈوے پچیس، زیادہ سے زیادہ تیس کی لڑکیاں لے کر آئے تھے۔ سب کے نام پتے انہوں نے گنوادیے۔'جھوٹا جانو تو تصدیق کرلو۔'

اوہ، معاف کیجئے گا۔' قمر گڑبڑا گئی۔  

'میں صبح ناشتہ کر کے نہیں چلا تھا۔ مرحومہ کی والدہ نے کچھ پیک کر دیا ہے۔ آپ شیئر کریں گی؟' اس نے اخبار بچھایا اور ڈبا کھولتے ہوئے قمر سے پوچھا۔ ڈبے میں انڈے اور پراٹھے تھے اور کچھ مٹھائی بھی۔ قمر نے شائستگی سے انکار کردیا۔ وہ یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھ چکی تھی، بات چیت میں کوئی جھجک نہیں تھی، لیکن اجنبی مردوں سے بے تکلف ہونا اس کا شیوہ نہیں تھا --- اس کا ماحول ہی کچھ ایسا رہا تھا، پھر یہ کہ اس وقت اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ناشتہ شیئر کرنے سے تو انکار کر دیا تھا، لیکن وہ مرحومہ کی والدہ کے داماد کو مرحومہ کے ساتھ شیئر کرنے والی تھی۔

باقی سفر لگ بھگ خاموشی سے کٹ گیا۔لکھنؤ قریب آرہا تھا تو اس نے بینک کا کارڈ دیا-

'اگر آپ لکھنؤ میں نوکری کریں گی تو اپنا اکاﺅنٹ میرے بینک میں کھلوا لیجئے گا۔'

قمر ہنس پڑی۔ 'آپ کے منھ میں گھی شکر۔ نوکری مل گئی تو ضرور کھلواﺅں گی۔'

'پرتاپ گڑھ میں آپ کس اسکول میں ہیں؟'

قمر نے جھجکتے ہوئے نام بتا دیا، پھر بولی-

'آپ تو وہاں سب کو جانتے ہوں گے؟'

میرے سسر تحصیلدار ہیں ٹرانسفر ہو کر حال میں وہاں آئے ہیں، اس لئے میں مقامی لوگوں کو نہیں جانتا۔

قمر یکلخت ہنس پڑی۔

' 'آپ ہنسیں کیوں؟

 اس نے مشکوک انداز میں بھنویں چڑھائیں۔

ہماری ایک امیرن خالہ ہیں۔ اماں انہیں ’شہر خبرو‘ کہتی ہیں۔ وہ بتا رہی تھیں کہ کوئی مسلمان تحصیلدار شہر میں وارد ہوئے ہیں۔ انہی کو کہہ رہی ہوں گی۔ دراصل مسلم افسر کم ہی آتے ہیں نا۔

شہر خبرو‘ ‘پر وہ بھی خفیف سا مسکرا دیا۔

ایسی خواتین تقریباً ہر گھر میں ہوتی ہیں۔ لکھنؤ اسٹیشن پر اترتے وقت وہ خاصی بے تکلفی سے گفتگو کر رہے تھے۔

قمر کو نوکری یہ بھی نہیں ملی، لیکن وہ نوجوان بار بار ذہن میں آتا رہا۔ چار سال قبل شادی ہوئی تھی۔ دو سال میں بیوی چٹ پٹ ختم ہوگئی۔ رکشے سے اسکول جاتے وقت کئی بار نادانستہ طور پر وہ سوچ بیٹھتی کہ شاید وہ انسان جس نے اپنا نام انیس احمد بتایا تھا، جو لکھنؤ کے ایک بینک میں اکاﺅنٹینٹ تھا اور جس کی بائیس سالہ بیوی شادی کے دو برس بعد ہی گزر گئی تھی، شاید پھر دکھائی پڑجائے، لیکن دکھائی پڑنے سے بھی فائدہ کیا تھا! کیا وہ نقاب الٹ کر کسی مسلم سوشل فلم کی ہیروئن کی طرح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی تھی؟

بھائیوں کی شادی کو اماں نے بہت دن ٹالا تھا، لیکن دونوں پردیس میں تھے۔ آخر ان کی شادیاں کرنی ہی پڑیں۔ اب بہن کو لے کر کتنے دن بیٹھے رہتے، پھر اونچ نیچ تو لڑکوں کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے نا۔ قمر کی قسمت پر تو جیسے تالا لگ گیا تھا۔

ایک دن اچانک ایک خاتون وہ تالا کھولنے وارد ہوئیں۔ دو دن پہلے قمر کا اٹھائیسواں سال مکمل ہوا تھا۔ اماں نے اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگنے کے بعد آنسو بھری آنکھوں سے اتنا اور کہا تھا – 'یا مولا مشکل کشا! کتنی بار دہراﺅں؟'

خاتون قدرے پختہ عمر، نک سک سے درست غرارہ پہنے، بڑی شائستہ اور مہذب تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اماں تو مارے خوشی کے پاگل بنی جا رہی تھیں۔

لڑکا دوہاجو ہے لیکن کم عمر ہے۔ بالکل کنوارا لگتا ہے۔ اے ہے، دکھیا کی شادی کو دو برس ہی تو گزرے تھے۔ بال بچہ بھی نہیں ہے۔ ہوتا بھی تو کیا تھا! کوار کوٹلہ تو بچا رہے چننے سے۔

قمر کا ماتھا بڑی زور سے ٹھنکا۔ تصویر دیکھی تو دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ اتفاقات صرف فلموں میں نہیں ہوتے، حقیقی زندگی میں بھی رونما ہوتے ہیں۔

اماں، ہم ان سے ملے تھے۔ جب ہم لکھنؤ جارہے تھے تب.... کہتے ہوئے قمر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

میل ملاقات ہے؟ اماں کا سارا ایکسائٹمنٹ کافور ہوگیا۔

ہئے ہئے...

تمہارا دماغ چل گیا ہے، اماں!

قمر نے سارا لحاظ بھلادیا، اسے اس قدر غصہ آیا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ پسند کی شادیاں سننے میں نہیں آرہی تھیں، لیکن جہاں ایسی کسی بات کا سوال ہی نہ ہو وہاں بلاوجہ کی ہئے ہئے ! شادی سے پہلے ماتم! وہ پیر پٹختی چل دی، لیکن پھر کچھ خیال کر کے پلٹی۔ خر دماغ والدین کا کیا ٹھکانا! کیا پتا اماں محض یہی سوچ کے انکار کردیں کہ صاحبزادی گل کھلاتی رہی ہیں۔ بھلا کہیں لڑکی خود بر چنتی ہے۔

ہم قسم کھاتے ہیں، ہمارا اس رشتے میں کوئی دخل نہیں ہے، لیکن ایک بات ضرور کہیں گے کہ رشتہ بہت اچھا ہے، انکار مت کر دینا۔ اس نے بغیر آنکھیں ملائے ہوئے کہا اور کمرے میں گھس گئی۔

جب قمر نے کہا: ”ہم قسم کھاتے ہیں“، تو اس کے لہجے میں بڑی کاٹ تھی۔ وہ اماں پر ضائع نہیں ہوئی۔ انہیں لڑکی پر بڑا ترس آیا، شاید اسے غلط کٹگھرے میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے قمر کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا: 'بٹیا، ہمیں تم پر بھروسا ہے لیکن ہم جو بھی کہتے ہیں، اس کے پیچھے تمہاری، سب کی عزت کا خیال دامن گیر رہتا ہے۔ لڑکی کی عزت سے زیادہ نازک کوئی شیشہ نہیں۔' قمر نے آنکھیں پٹپٹاکر آنسو پئے۔

حجلہ عروسی میں قمر نے دولہا سے پوچھا

'آپ نے ہمیں ڈھونڈا کیسے؟'

بہت آسانی سے! دولہا نے مسکرا کر جواب دیا۔

آپ کے شہر میں ہماری پہلی سسرال والے تو تھے ہی۔ بڑی آپا کو وہاں بہانے سے بھیج دیا۔ آپ نے اسکول کا نام بتایا تھا جہاں آپ پڑھاتی تھیں۔ آپا وہاں بھی ہو آئیں۔ ساری معلومات چپکے چپکے اکٹھا کرلیں۔

ہم نے آپ کی تصویر دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ پرتاپ گڑھ کی سڑکوں پر انجانے پر آپ کو ڈھونڈا تھا۔ آپ نے ہم پر بڑا گہرا امپریشن ڈالا تھا۔ ہم نے اماں سے کہہ دیا کہ اس رشتے سے انکار نہ کریں۔

دولہا بہت خوش ہوا، لیکن کہیں کسی چھٹی حس نے خبردار کیا، عورت کو پہلے ہی دن اتنا بے تکلف نہیں ہونا چاہئے۔ اٹھائیس تیس کی ہورہی ہیں، نوکری کر رہی ہیں، کھائی کھیلی نہ ہوں

آپ نے پہلے کسی کو، میرا مطلب ہے، کسی مرد کو اس نظرسے دیکھا تھا؟

'آپ یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ نہیں۔'

'اتنی عمریوں ہی گزار دی ہے؟'

'یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ ہاں۔'

یونیورسیٹی، کالج، اسکول؟

جنہیں میں پسند کر سکتی تھی انہوں نے میری طرف نہیں دیکھا، جنہوں نے دیکھا وہ میرے معیار کے نہیں تھے۔

'باپ رے..' انیس نے سوچا۔ 'تو کچھ معاملات تھے'

مطلب یہ کہ کچھ لوگوں کو آپ نے پسند کیا تھا؟

جو چیزیں میری پہونچ یا بساط سے باہر ہوں، انہیں میں دائرئہ خیال میں نہیں لاتی۔ مجھے معلوم ہے، میں ہیرے نہیں خرید سکتی۔ بلکہ میں تو بھاری سونا بھی نہیں خرید سکتی، اس لئے میں اس کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔ اس موضوع کو یہیں چھوڑ دیجئے۔ ہماری نئی شادی ہوئی ہے، ہم بحث میں کیوں پڑیں--

اس نے بڑی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کو دیکھا۔

'بولتی بہت ہے-' انیس نے سوچا، لیکن کافی کریدنے کے باوجود دلہن ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ 'ضدی بھی معلوم ہوتی ہے۔'

اس نے ایک اور رائے قائم کی اور موضوع بدل دیا۔

' 'بچوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

قمر گڑبڑا گئی۔ شادی توہو نہیں رہی تھی، بچوں کے بارے میں کون سوچتا، تھوڑا توقف کے بعد بولی-'شادی سے پہلے .... شاید کوئی سوچتا ہے کیا؟' اسے کوئی معقول جواب نہیں سوجھا تھا۔

اب تو شادی ہوگئی۔' وہ مسکرایا۔ (کمبخت کی مسکراہٹ بڑی سنجیدہ مسکراہٹ تھی، اس لئے بہت پیاری)

'میڈیکل سائنس کہتا ہے کہ عورت کا پہلا بچہ تیس سال سے پہلے ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔ مردوں کے لئے کوئی عمر نہیں شاید۔'

وہ ہنسی۔

 'شادی کی ہی طرح۔ ساٹھ برس میں بھی کرلیتے ہیں۔'

باپ رے! بڑی بے تکلف ہیں۔ بزرگ اسی لئے عورتوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔انیس نے سوچا، پھر بولا اور کتنے؟'

دوسے زیادہ نہیں۔ بائی دی وے، ہمیں لڑکا لڑکی کا کوئی ہینگ اَپ نہیں۔ کہہ کر قمر نے اس موضوع کو بند کردیا۔ اس طرح کی باتوں کے لئے وقت پڑا تھا۔ یہ اس کی سہاگ رات تھی، اس نے مہندی رچی ہتھیلیاں دولہا کے سامنے پھیلائیں۔

ہماری اماں بے حد روایتی خاتون ہیں۔ کہتی ہیں، سہاگ کی مہندی بالکل سادہ ہونی چاہئے، کوئی ڈیزائن،پھول پتی کچھ نہیں۔

آپ نے ضد نہیں کی پھول بنوانے کی؟وہ ہنسا اور دلہن کا ہاتھ تھام لیا۔

'اماں کے سامنے ہماری ضد نہیں چلتی۔ شاید ہی کبھی....'

'میرے سامنے بھی نہیں چلے گی۔' اس نے بات کاٹی۔ وہی سنجیدہ مسکراہٹ، وہی گہری آنکھیں۔

'  'دیکھیں گے۔' وہ ہنسی۔'آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنائیں؟

ضرور آج آپ کا جتنا جی چاہے بولئے، ہم سنیں گے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ اس کے لہجے میں شرارت تھی۔

اماں کی شادی کے وقت ان کے مائیکے میں نوجوان رشتہ دار عورتوں نے ایک رسم کی۔ انہوں نے اماں کی مٹھی میں ایک انگوٹھی بندکرائی اور ابا سے کہا، مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالیں۔ اماں دھان پان سی تھیں اور صرف سترہ برس عمر۔ ابا کو ڈر رہا ہوگا کہ کہیں کلائی میں موچ نہ آجائے، اس لئے زیادہ زور آزمائی نہ کی ہوگی۔ نہیں کھلوا سکے۔ عورتوں نے شورمچا دیا کہ دولہا کمزور ہے، دلہن حاوی رہے گی۔ ابانے بڑی سنجیدگی سے کہا ’کھیل مذاق کی بات اور ہے، جہاں تک مٹھی کھلوانے کا سوال ہے کہئے ابھی کھلوادیں‘، ’کھلوائیے!‘ شوربلند ہوا۔ ابانے نہایت سنجیدگی سے کہا ’فاطمہ بی بی، میں آپ کو آپ کے شوہر کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ آپ اپنی مٹھی کھول دیں۔‘ گٹھری بنی اماں نے پٹ سے مٹھی کھول دی جس میں انگوٹھی چمچمارہی تھی۔ محفل پر سناٹا طاری ہوگیا۔“

'لیکن شاید کہیں تفریح بھی سناٹے میں گم ہوگئی-'( یہ قمر نے دل میں سوچا۔)

لمحہ بھر کو تو انیس بھی خاموش رہ گیا۔ وہ شاید اس 'پنچ لائن' کے لئے تیار نہیں تھا۔ قدرے توقف کے بعد بولا

حکم دینے کی مجال تو نہیں، درخواست ہے قمرالنسا بیگم، کہ ہماری دلہن کی حیثیت سے آپ ہمارے اور قریب آجائیں۔

اس بار اس کی مسکراہٹ بہت گہری تھی اور اس کی سنجیدگی کی جگہ شرارت نے لے لی تھی۔ قمر شرم سے سرخ ہوگئی۔ اور دولہا نے سوچا .. چلو، اتنا تو ہے کہ لاج شرم بالکل ہی بیچ نہیں کھائی ہے۔

انیس کی درخواست اب کچھ حدتک حکم میں بدلتی جارہی تھی اور قمر کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ، کہ تم نے گارنٹی لی ہے کہ ہمارے یہاں بیٹا ہوگا؟

ہمارے پڑوس میں وہ تھے نادلشاد چچا۔ ان کے یہاں ساتویں بھی بیٹی ہی ہوئی۔ لڑکیاں تو لڑکیاں، ماں باپ کے چہرے پر ہمیشہ یتیمی برستی رہی۔ اوپر سے چچا مرے تو دو بیٹیاں ابھی بن بیاہی رہ گئی تھیں۔

ہم سات کے لئے تو نہیں کہہ رہے، تمہارے دلشاد چچا سے ہمیں کیا لینا دینا؟

تیسری کے لئے بھی کیوں کہہ رہے ہو؟ پالوگے؟ پالنا تو ہمیں ہی پڑے گا۔

اگر تیسرا بچہ بھی لڑکی ہی ہوا تو ....ہم اسے بھیاکو دے دیں گے۔ بھیابھابی تو لپک لیں گے گھر کے بچے کو۔ (انیس کے بڑے بھائی لاولد تھے۔)

'معاف کرنا، سنا ہے ڈاکٹری معائنے سے نقص بھیا میں ظاہر ہوا تھا۔'انیس بھڑک گیا۔

یہاں اس کا کیا ذکر ہے کہ نقص کس میں تھا؟ بات کو ٹالومت اور اٹھاکے پھینکو وہ اپنی گولیوں کی شیشی۔ بیٹا ہوا تو ہمارا، لڑکی ہوئی تو بھیا بھابی کی۔

ہرگز نہیں! میرے جسم پر صرف میرا حق ہے۔ میری اولاد میری رہے گی۔ اگر میں نے تیسرا بچہ پیدا کیا بھی تو لڑکا ہویا لڑکی، اسے میں ہی رکھوں گی۔ تمہاری کسی بات سے میں نے انکار نہیں کیا۔ ہمیشہ مصالحت کا راستہ اپنایا۔ ملازمت کے علاوہ سخت محنت کرکے ٹیوشن بھی کررہی ہوں کہ بچیاں اچھے اسکول میں پڑھیں۔ گھرکا معیار اونچا رکھنے میں میری محنت بھی شامل ہے۔ اب کہیں کچھ تو ہو جو صرف میراہو۔اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ انیس آخری جملے پورے ہونے سے پہلے اٹھ کر جاچکا تھا۔

قمر نے گولیوں کی شیشی نہیں پھینکی، لیکن کہیں کچھ تھا جو چھن سے اس کے اور انیس کے درمیان ٹوٹ گیا تھا۔ قمر کے تئیں اس کے اندر ایک سردمہری گھر کر گئی تھی جو بڑی تکلیف دہ تھی۔

سب ٹھیک ہوجائے گا، وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سوچتے سوچتے وقت یونہی گزرتا رہا اور کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ انیس ذرا ذرا سی بات پر جھنجھلاتا، طعنے دیتا۔ اس کے جن کاموں سے ہمیشہ مطمئن رہتا تھا ان میں بھی عیب نکالتا۔ دانت پر دانت بھینچ کر قمر برداشت کرتی رہی۔ اماں قمر کو تتیا مرچ کہاکرتی تھیں، لیکن اس کی ساری تیزی انیس کی سردمہری کے سامنے ہوا ہوگئی تھی اور اب تیسرے بچے کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔

گھر میں آج کل رولامچا ہوا تھا۔ رضوانہ نے پلس ٹوکا امتحان دے دیا تھا۔ باپ کی ضدپر اس نے سائنس لے لیا تھا، لیکن اب پری میڈیل امتحانوں میں بیٹھنے سے صا ف انکار کر رہی تھی۔

'ہمیں ڈاکٹر نہیں بننا۔ بس مرغے کی ایک ٹانگ'                 'تو کیا بننا ہے؟' آج کل سمپل گریجویٹ کی کہیں کھپت نہیں۔

کھپت تو اس کی بھی ہے، پاپا۔ آج کل بہت ایونیوز ہوگئے ہیں، لیکن ہاں، ہمارا ایک ٹارگٹ ہے۔ ہم اکنامکس اور انگلش لے کر گریجویشن کریں گے اور اس کے بعد لاپڑھیں گے۔

لڑکی وکیل بنے گی؟ لوگ سکتے میں آگئے۔ اسے باز رکھنے کی ایک پوری مہم چل پڑی۔ گاﺅں سے انیس کی والدہ آگئیں پوتی کو سمجھانے۔ بڑے بھائی اور بھابی تو لکھنؤ میں ہی رہتے تھے۔ ذرا دور رہا کرتے تھے اس لئے کم آتے تھے، لیکن ادھر کئی دن سے روز آرہے تھے۔'بیٹا، ہماری کوئی اولاد تو ہے نہیں۔ ایک اچھا خاصا پلاٹ زمین کا ہے۔ ہم تو سوچتے تھے، تم ڈاکٹر بنوگی تو تمہیں وہاں نرسنگ ہوم بنوادیں گے۔

اب بڑے ابا، آپ کے اس پلاٹ کو استعمال کرنے کے لئے ہم مرضی کے خلاف ڈاکٹر بن جائیں؟ چلئے اچھا، اس پر ہمارا دفتر بنوادیجئے گا۔ ’رضوانہ احمد ایڈووکیٹ‘ کا بورڈ لگ جائے گا۔“

رضوانہ احمد ایڈووکیٹ سے لڑکے کانوں پہ ہاتھ لگاکے بھاگیں گے۔ بڑی چچی نے جل کے کہا۔ وہ اپنی اتنی قیمتی زمین دیور کی اولادوں کو دئے جانے کے خیال سے ہی کبیدہ خاطر ہوجاتی تھیں۔

اچھا ہے نا بڑی اماں، لڑکی سے دورہی رہیں گے۔

اب کی دادی کود پڑیں اور نہایت ناراض ہوکر، 'کیا بری باتیں منھ سے نکالتی رہتی ہے۔ ارے شادی بیاہ کرنا ہے کہ نہیں؟ چلیں وہاں سے۔ لڑکی ڈاکٹر بن جاتی ہے تو لڑکے والے دوڑ کے ہاتھوں ہاتھ لے جاتے ہیں۔

ہاں! اب تو مسلمانوں میں بھی جہیز کا اتنا چلن ہوگیا ہے۔' قمر' نے بھی ٹھنڈی سانس لے کر دبی زبان سے کہا۔

'اور جہیز ہونہ ہو، وکیل لڑکی کے نام پر تو لڑکا ویسے بھی نہ ملے گا۔' یہ انیس تھا۔

لڑکی کی بات چھوڑو میاں!' بڑے بھائی کہہ رہے تھے۔ ہم تو جانتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست ایڈووکیٹ ہیں۔ ارے وہی علی رضا، جانتے ہوگے۔ ان کی لڑکی کی کہیں بات چلائی گئی تو لڑکے کے والد نے کہا، نہ بھائی، وکیل کی بیٹی نہ لائیں گے۔

وہی مرغے کی ایک ٹانگ! سب کی تان شادی پر کیوں ٹوٹتی ہے؟ رضوانہ نے نہایت خفا ہوکر کہا-نہیں کرنی ہے ہمیں شادی۔

مرغے کی ایک ٹانگ تمہاری کہ دوسروں کی؟ آخر تم کیوں اڑ گئی ہو وکالت پہ؟

ہمیں اس میں دلچسپی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت بھی ہے۔ اچھا، گریجوشن تو کرنے دیجئے۔ اس کے بعد بہت کچھ ہے۔ جرنلزم کرلیں گے، یوپی ایس سی دے لیں گے۔ کہیں نہ آئے تو بی ایڈ کرکے آپ کی طرح جھک ماریں گے۔ اسکول میں پڑھائیں گے ماسٹرائن بن کے۔

اس کے لہجے میں استہزا تھا۔ قمر کو کہیں بہت تکلیف پہونچی۔

ماسٹرائنیں اگر تمہیں نہ پڑھائیں تو تم آگے آگے اتنا کودوگی کیسے۔ اس نے دل ہی دل میں کہا، لیکن اوپر سے پرسکون رہی۔ یہ مکالمے ایک دن کی بات نہیں تھے، کئی دن سے چل رہے تھے۔

آخر لوگوں کو ہار ماننی پڑی۔ رضوانہ کا یونیورسیٹی میں آرٹس فیکلٹی میں داخلہ ہوگیا اور لوگوں کو مزید ہار یہ ماننی پڑی کہ ان تین سالوں میں اسے ”برین واش“ کرنے کی سب کوششیں بیکار رہیں۔ اس نے بی، اے کے بعد علی گڑھ میں لاکورس جوائن کر لیا۔ قمر کی ساس رہتی تو بارہ بنکی کے گاﺅں میں تھیں، لیکن اکثر آتی رہتیں اور جب آتیں، رضوانہ کو لے کر قمر کو باتیں سناکر جاتیں

لڑکی کو بہت آزادی دے رکھی ہے اور پڑھاﺅ انگریزی اسکولوں میں۔ یہ کرنٹان، انہوں نے ہماری تہذیب کا ستیاناس کردیا ہے۔ ماں باپ بے فکر ہیں، لڑکی دندناتی گھوم رہی ہے۔

پھر انہیں اچانک خیال آیا کہ ’باپ‘ کہہ کر وہ اپنے بیٹے کو بھی بیٹی کوبگاڑنے میں ملوث کررہی ہیں اس لئے جلدی سے بولیں۔اب باپ بیچارہ کرے بھی تو کیا۔ وہ تو دن بھر گھر سے باہر رہتا ہے۔ بچوں کی تربیت تو ماں کا کام ہے۔ انہیں غلط راستے پر چلنے سے روکنا بھی ماں کا ہی کام ہے اور یہ چھوٹی فتنی! اری تو کیا کرنے والی ہے ری عمرانہ؟

دادی..چھوٹی فتنی نے نیل فائل سے ناخنوں کو گھس کر حسب مرضی شیپ دیتے ہوئے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔

ماس کوم (Masscom)

یہ آج کل کی لڑکیاں کتنے اطمینان سے اپنا کریئر طے کررہی ہیں اور کتنا واضح مقصد ذہن میں رہتا ہے۔ ہوسکتاہے سب کا نہ بھی ہوتا ہو، لیکن اچھے اسکولوں سے جو لڑکیاں پڑھ کر نکل رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر نہایت صاف سوچ رکھتی ہیں اور لڑکے بھی تو۔ ہمارے تو اماں ابا بس اسکولوں میں نام لکھوا کر بے فکر ہوجایا کرتے تھے۔ نہ کبھی ہوم ورک دیکھیں نہ یہ سوچیں کہ بچے کریں گے کیا۔ بس بے نتھے بیل کی طرح بی اے، ایم اے کر لو، پھر لڑکے جوتیاں چٹخائیں نوکریوں کے لئے اور لڑکیاں شادی کے انتظار میں گھر میں سوکھیں۔ ہم نے لاکھ چاہا تھا کہ سائنس پڑھ لیں، لیکن ہمارے گھر میں لڑکیوں کے اسکول میں تھا ہی نہیں اور ہائی اسکول کے فوراً بعد اماں قطعی باہر بھیجنے کو راضی نہیں تھیں۔ ارے یہاں جو پڑھ رہی ہیں وہ گھاس کھود رہی ہیں کیا؟ان کی یہی ایک دلیل تھی۔ دراصل وہ اس پھیر میں تھیں کہ انٹر کے بعد قمر کی شادی ہوجائے گی۔ شادی نہ ہونے پر مجبوری میں گریجویشن کے لئے الٰہ آباد بھیجا۔ دورکی جگہ نوکری کے لئے نہیں جانے دیا۔ قمر نے نظریں اٹھاکر عمرانہ کو دیکھا اور سوچتی رہی کہ ماس کوم تو لکھنؤ میں ہے ہی نہیں۔ ایل ایل بی یہاں ہوتے ہوئے بھی رضوانہ علی گڑھ چلی گئی تو ان صاحبزادی کو تو باہر جانا ہی ہے۔ دلی جائیں گی اور کیا۔ کہیں بمبئی نہ چل دیں۔ اس کا دل جیسے ہچکولے کھانے لگا۔ بمبئی تو بھائی، ہمیں برداشت نہ ہوگا۔

رضوانہ نے علی گڑھ سے خط لکھا تھا۔

قمر کی جان جل گئی۔ کتنی بار کہا کہ انگریزی میں خط مت لکھا کرو۔ ٹھیک ہے، تمہاری ماں پڑھی لکھی ہے، انگریزی داں ہے، لیکن اگر اب ہم لوگ بھی آپس میں انگریزی استعمال کرنے لگیں تو اردو کا کیا ہوگا؟ ٹھیک کہتی ہیں انیس کی ماں کہ انگریز چلے گئے، تم لوگوں کو چھوڑ گئے۔ مارے غصے کی جی چاہا، خط واپس لفافے میں ڈال کے اسے بھیج دے، لیکن تجسس اور بیٹی کی محبت غالب آگئی۔ ساری زندگی تو معاف کرتے کرتے ہی گزر رہی تھی۔ اس نے خط پڑھنا شروع کردیا۔ مختصر ہی تھا۔ بس دوپیراگرف۔ آخر تک پہنچتے پہنچے قمر کے جسم میں کچھ سن سن کرنے لگا۔ تردد، گھبراہٹ، اندیشے۔ کیا بیٹوں کی پیدائش پر تھالی کٹورا پیٹنے اور بیٹیوں کی پیدائش پر منھ لٹکانے والے لوگ حق بجانب ہوتے ہیں؟ وہ کاغذ ہاتھ میں پکڑے، خلا میں دیکھنے لگی۔رضوانہ نے لکھا تھا:

بمبئی کی ایک لافرم میں بڑی اچھی ملازمت ملنے کے پورے امکانات ہوگئے ہیں۔ بس رسمیات پوری کرنی ہیں۔ وہ انٹرویو کے لئے بمبئی جارہی ہے۔ بمبئی؟ اکیلے؟ اور اگر نوکری مل گئی تو کہاں رہے گی؟ کیسے رہے گی؟ علی گڑھ میں تو کالج کا اپنا گرلز ہوسٹل تھا۔ دوسرے کہیں تحت الشعور میں ایک موہوم سی امید تھی کہ وہاں مسلمان لڑکے بہت ہیں، شاید کہیں وکالت پڑھنے والے کو ہم پیشہ لڑکی پسند آجائے، لیکن بمبئی

That big bad metro? اسے چکر سا آنے لگا۔

کس کا خط ہے؟ انیس نے قریب آکر پوچھا۔”فکر مند کیوں لگ رہی ہو؟ اس نے خط شوہر کی طرف بڑھادیا۔

دماغ خراب ہوگیا ہے لڑکی کا۔ علی گڑھ جانے دیا تو اور پر نکل آئے۔ انیس سخت ناراض ہواٹھا۔ مردوں کو شاید ایک ہی جذبے کا اظہار کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے، غصہ۔ نہ پریشانی نہ گھبراہٹ نہ محبت، لیکن کیا یہ ناراضگی محبت کا ہی مظہر نہیں تھی؟ محبت کا اور سروکار کا؟ لڑکی کے تحفظ کی فکر، اس کی عزت آبرو کی فکر، اس کا گھر بسانے کی فکر؟ پڑھ لکھ لیا، اس لائق ہوگئیں کہ ضرورت پڑے تو اپنے ساتھ چار اور لوگوں کی کفالت کرلیں۔ اب بھیا اپنے گھر بار کی ہوجاﺅ، پھر جو جی چاہے کرو۔ قمر دل میں بکتی جھکتی رہی۔

ابھی ای میل اور فیس بُک کا زمانہ کچھ دور تھا۔ موبائل خال خال لوگوں کے پاس تھے، اس لئے رضوانہ نے اپنی دوست میرا کو بھی خط ہی لکھا جو لکھنو میں ہی تھی۔ رضوانہ کی ہم عمر تھی، لیکن دوسرے بچے کی ماں بننے والی تھی۔

میں نے مما سے کہہ دیا ہے، بمبئی جارہی ہوں انٹرویو کے لئے۔ وہاں میرے ایک کلاس فیلو کے چاچا چاچی ہیں۔ دودن ان کے یہاں ٹھہروں گی۔ اگر ملازمت مل گئی تو وہیں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کا انتظام بھی کرادیں گے۔ مجھے معلوم ہے، پاپا گھوم گھوم کر مجھے اور مما دونوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں گے۔ ممادعائیں مانگیں گی۔ شاید منت بھی مان لیں کہ نوکری نہ ملی تو حضرت شاہ مینا کی درگاہ پہ جاکے چادر چڑھا کے آئیں گی۔ پتا ہے میرا، مما پکی وہابی تھیں۔ وہابی تو نہیں جانے گی، بس یوں سمجھ لے، جو لوگ پیر فقیر دعا تعویذ وغیرہ میں یقین نہیں رکھتے، لیکن جب سے میں اور عمرانہ گھر سے باہر نکلے ہیں وہ یہ سب کرنے لگی ہیں، اپنی دانست میں پڑھی لکھی، میری روشن خیال ماں۔ قسم سے میرا، مجھے ان میں اور نانی میں خاص فرق نظر نہیں آتا۔

اچھا یہ بتا، اتنی جلدی دوبارہ کیسے پھنس گئی؟ اور اگر اس بار بھی بیٹی ہوئی تو کیا کرے گی؟ سنجے کا کیا خیال ہے؟ اس کی اماں نے پچھلی بار کتنا واویلا مچایا تھا۔ اس بار کہیں سنجے بھی اماں کے ساتھ مل کر تجھے پیٹے گا تو نہیں دوبارہ بیٹی پیدا کرنے پر؟

میرا نے جواب دیا-رشک آتا ہے تیرے اوپر۔ جاگھوم چھٹا سانڈ بن کے۔ رہا اماں اور نانی میں فرق، تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔ میری اماں بنارس ہندویونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے ہیں۔ پاپا کھانا کھاتے ہوتے ہیں تو گرم پھلکا پلیٹ میں ڈالتی ہیں، پھر بیچ سے آدھا کھایا پھلکا ہٹاکر، کہ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا، دوسرا جلدی سے لاکے ڈالتی ہیں۔ بچا ہوا آدھا اٹھا کے اپنی پلیٹ میں رکھ لیتی ہیں، پھر بیٹھ کے وہ دوتین آدھے آدھے ٹکڑے پرساد سمجھ کے کھاجاتی ہیں۔ 

(’پرساد سمجھ کے‘ میں کہہ رہی ہوں) 

پیر فقیر تعویذ گنڈا کرتی گھومتی ہیں۔ تم مسلمان تو ہندوﺅں کے سادھو سنتوں کے پاس جاتے نہیں، اماں تو سیدھی حضرت شاہ مینا کے یہاں پہنچتی ہیں۔ دلی گئی تھیں تو میری شادی سنجے سے ہوجائے اس کے لئے حضرت نظام الدین منت مان کے آئی تھیں۔ ان کی رینج زیادہ وسیع ہے۔ ہم کچھ نہیں مانتے ہیں، پھر بھی لگتا ہے کہ کہیں کچھ ہوا تو؟ ہم نے بھی منگل کو ہنومان مندر جانا شروع کردیا ہے۔ اس بار بیٹا ہو جائے تو فیملی مکمل ہوجائے گی۔ جھنجھٹ سے بچیں گے، ورنہ ایک بار پھر .... بچے پل جائیں تو ہم بھی کچھ کریں۔ بڑا غصہ آتا ہے۔ اماں نے ماسٹرز کی ڈگری لی، لیکن ہمیں بی اے کا امتحان دینے سے پہلے بیاہ دیا کہ بڑے گھر کا انجینئر لڑکا مل رہا تھا۔ ہم ایسے گئے گزرے تھے؟ پھر نہ ملتا کیا؟ مگر چل، ٹھیک ہی ہے جو ہو رہا ہے۔ دوچار سال بعد ضرور ہم کچھ کریں گے۔ جاتیرا کلیان ہو، تجھے نوکری مل جائے۔ بول تو جاکے ہم ہنومان جی سے تیرے لئے بھی پرارتھنا کرآئیں، مگر بڑی مشکل ہوجائے گی اگر قمر چاچی نے حضرت شاہ مینا کے یہاں جاکے دھاگا باندھ دیا۔ ہندوستان پاکستان والی Tussle ہوجائے گی۔ہاہاہا! اور ہاں! بغیر ٹھوکے بجائے شادی کے لئے ہاں مت کیجیو۔ ایسی قسمت کم ہوتی ہے کہ سنجے جیسا میمنامل جائے۔ 

(ویسے ماں جی آئی ہوئی ہوتی ہیں تو وہ بھی خاصا شیر بنا رہتاہے۔)

قمر نے بیٹی کو لکھا- بیٹا، ہر چیز کا وقت ہوتاہے۔ تعلیم ہوگئی۔ نوکری کہیں نہیں جائے گی۔ تم تو پریکٹس بھی کرسکتی ہو۔ لکھنو میں اچھے اچھے وکیل پاپا کی جان پہچان میں ہیں۔ اب شادی ہونی چاہئے۔ رشتے سامنے ہیں، ایک خوشگوار ازدواجی زندگی سے زیادہ سکون بخش اور کچھ نہیں۔ دھن دولت سے بھی زیادہ دل کا سکون اہم ہے۔ ساری تحقیقیں، سارے سروے اسی مغرب سے آتے ہیں جس کی تعلیم سے تم متاثر ہو، تو تم نے پڑھا ہی ہوگا کہ کئی سروے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ کنوارے، طلاق شدہ اور رنڈوے شادی شدہ لوگوں کی بہ نسبت کم عمر پاتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ کیوں؟ اس لئے کہ جوڑا بناکر رہنے میں جو طمانیت قلب ملتی ہے وہ عمر تک بڑھادیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑے، اونچ نیچ، سب کے باوجود۔ تو بیٹا، گھر آجاﺅ، ہم نے سوچا تھا، ہماری شادی دیر سے ہوئی، ہم بیٹی کی شادی وقت سے کریں گے۔ تم ہم سے زیادہ

Privileged Position پر ہو۔ دیر تم خود کرا رہی ہو۔ ایک تو تمہاری یہ وکالت....

رضوانہ نے یہاں تک پڑھ کر خط اٹھا کر کتاب تلے دبا دیا۔

کتنا بولتی ہو ممی! کتنا دماغ چاٹتی ہو۔ انٹرویو ہوچکا تھا اور نہایت تشفی بخش۔ اس نے انگڑائی لی اور میرا کو پھر خط لکھنے بیٹھ گئی۔

مما ادھ کچری معلومات لے کر میرا دماغ خراب کرتی رہتی ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے، ان کی ازدواجی زندگی کتنی خوشگوار گزری؟ وہ خوشگوار کسے کہتی ہیں؟ ،مجھے دل کے لائق لڑکا ملا تو کیا شادی نہیں کروں گی؟ بمبئی جانے اور مردوں کے بیچ مردوں والی نوکری کرنے کو وہ ویمینزلب قرار دے رہی ہیں۔ میں کیابمبئی کے ساحل پر ننگی ہوکر دوڑ لگانے والی ہوں؟ میرا ارادہ اپنی برا جلانے کا بھی قطعی نہیں ہے۔ براسے سپورٹ پاکر فگر اور خوبصورت ہوجاتا اور سیکسی لگتا ہے۔ مماسے کہوں؟ ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ ہاہاہا! اور مما کو ایک بات سے اور ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ میں سمیر کے ساتھ پکچر دیکھنے گئی تھی۔ سمیر نام مسلمانوں میں بھی ہوتا ہے، لیکن وہ تیرا جات بھائی ہے۔ ہندوتو ہے ہی، برہمن بھی ہے۔ مزید ہاہاہا! لیکن تو بھی ایسی ویسی بات نہ سوچنا۔ میرا ارادہ تیری بھابی بننے کا قطعی نہیں ہے۔ مما کی سمجھ میں کسی لڑکے اور لڑکی کی ایسی دوستی ہرگز نہیں آئے گی جس میں وہ ....ارے وہی .... مرد عورت والا معاملہ نہ ہو۔ سمیر اور میں اچھے دوست ہیں۔ ویسے وہ بھی کہہ رہا تھا کہ ماں کو فون کرکے کہہ دوں کہ رضوانہ کے ساتھ ایک بیہودہ سی انگریزی فلم دیکھ کر آیا ہوں تو واویلا مچاکے رکھ دیں گی۔ لونڈیوں کے ساتھ گھومنا ہوتا ہے، وہ بھی میاں مسلمان! وہ ویجیٹیرین ہیں۔ کرم کانڈی سناتن دھرمی! بسنت کی خبر نہیں۔ بیٹا ایک بار اشوکا میں جاکے بیف کھاکے آیا تھا۔ ایک نمبر کا حرامی! اور ہاں، انہوں نے الٰہ آباد سے ہندی میں آنرز کیا ہے۔ مہادیوی ورما کی فین ہیں۔ ارے یار، یہ مہادیوی ورما کون ہیں؟ ذرا میں بھی پڑھ کے دیکھوں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو کامن ٹاپک تو ہوگا بات کرنے کو۔ ارے جاہل کی بچی! بچے کی جنس تو حمل ٹھہرتے ہی طے ہوجاتی ہے۔ اب یہ تو ہنومان جی سے کیا پرارتھنا کرتی گھوم رہی ہے؟ وہ کیا کریں گے؟ لنگوٹ دھاری، برہمچاری۔ انہیں کیا، تو بیٹی جن کہ بیٹا۔

میرا نے جواب میں لکھا-سمیر وہی ناجوا بھی یوپی ایس سی کی تیاری کر رہا ہے؟ تو اس کا نام پہلے بھی لے چکی ہے۔ ہونے والی ساس کے بارے میں خاصی معلومات اکٹھا کر رکھی ہیں۔ اچھی بہو بنے گی۔ زیادہ دقت نہیں ہوگی۔ بیٹی لانا آسان ہوتا ہے، بیٹی دینا مشکل۔ سبھی جاتوں برادریوں میں ۔ قمر چاچی اور انیس چاچا کو زیادہ دقت ہوجائے گی یہ سوچ کے رہنا۔ سمیر کی اماں تیرے منھ میں پنچا مرت ڈال کے شدھی کرائیں گی۔ ذرا دھیان رکھنا، گوبر اور گوموتر بھی پنچا مرت میں آتے ہیں اور مہادیوی ورما کو تو کیا سمجھے گی، انہیں تو میں بھی نہ سمجھ پائی۔ ہاں! اپنی ہم نام میرا کو جانتی ہوں- جو میں ایسا جانتی پریت کے دکھ ہوئے، نگر ڈھنڈورا پیٹتی مت پریت کریو کوئے۔

تیری تو ایسی کی تیسی- رضوانہ نے ہنس کر خط تہہ کرکے چائے کے کپ سے دباکر میز پر رکھ دیا۔ وہ انٹرویو میں کامیاب رہی تھی۔ فرم نے جواب دیا تھا کہ تھرڈایئرمکمل ہونے کے بعد وہ وہاں آکر جوائن کرسکتی ہے۔ وہ بے حد خوش، کامیابی کے نشے میں سرشارعلی گڑھ واپس آئی تھی اور تندہی سے پڑھائی میں جٹ گئی تھی۔میرا بائی! تمہارے وقت میں لڑکیاں وکالت نہیں پڑھا کرتی تھیں ورنہ زہر بھیجنے والے راناجی کا گلا دبا دیتیں۔ تمہیں عشق حقیقی پریشان کرتا نہ عشق مجازی۔ مزے سے ہماری طرح دندناتی پھرتیں کہ ہم صرف اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں۔ ارے ذرا رکو تو! ہاں، تھوڑا مما سے، ذرا سا پاپا سے، تھوڑاسا اس عمرانہ کی بچی سے اور ایک پاﺅ بچا کے رکھا ہے۔ اس میں نانی دادی اور میرا کا حصہ ہے اور اس بیہودہ سمیر کا بھی، مگر ابھی ہمیں ایسا عشق کسی سے نہیں ہے کہ ہم کہیں، پریت کئے دکھ ہوئے۔اس نے خوشی سے کلکاری مارکر بستر پر ایک لوٹ لگائی اور قانون کی موٹی سی کتاب تھپ سے بند کی جو وہ دیر سے پڑھ رہی تھی۔

اس دن قمر سارے دن اتنا پریشان رہی تھی کہ شام کو اسے سر درد کی گولی کھانی پڑی۔ انیس آفس سے ابھی نہیں آیا تھا۔ اس نے چائے کے برتن ٹرے میں لگائے، ناشتے کا انتظام کیا اور اون سلائیاں اٹھاکر آرام کرسی پر نیم دراز ہوگئی۔ انیس کا سوئٹر نصف مکمل ہوچکا تھا۔

جاڑوں کی آمدآمد تھی۔ فضا میں بڑی پیاری سی خنکی تھی اور گلابی جاڑوں کی خوشبو۔

جاڑوں کا اگر رنگ ہوسکتا ہے تو یقینا ان کی خوشبو بھی ہوسکتی ہے۔ وہ ذہنی پراگندگی کے باوجود مسکرا پڑی۔ ہاں! خوشبو ہوتی تو ہے۔ ہرے دھنےے کی، تازہ ہری سبزیوں کی جو گرمیوں میں عنقا ہوجاتی ہےں، رات بھر پک کر صبح صبح تیار ہونے والی نہاری کی، بھوبل میں بھنتی شکرقندیوں کی اور رنگ وبو ہی نہیں، جاڑوں کی تو آواز بھی ہوتی ہے۔ کڑک کڑک کر کے دانتوں تلے ٹوٹتی گزک اور ریوڑیوں کی، مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کی، گہراتی شام میں دور بجتے کسی درد بھرے نغمے کی، ٹھنڈی یخ راتوں میں سرسر کرکے آتی ہوا کی اور بزرگوں کی شفقت بھری ڈانٹ کی کہ سرڈھکو، سر سے ٹھنڈ زیادہ اثر کرتی ہے اور اس پر بچوں اور نوجوانوں کی ہی ہی ٹھی ٹھی کی، کہ کہاں کی ٹھنڈ، کون سی ٹھنڈ۔

اس کا دل یکلخت ایک بے وجہ اداسی سے بھر اٹھا۔ جاڑوں کا رنگ گلابی تھا، لیکن آس پاس آوازیں نہیں تھیں۔ آوازیں تو انسانوں سے ہوتی ہیں۔ وہ قلقل مینا جیسی ہنسی کہاں تھی؟ دادی کی کہانیاں کہاں تھیں؟ ان کی حماقت بھری باتوں اور کبھی کبھی کی بے جا ڈانٹ کے باوجود ان کے سایہ دار وجود کا احساس کہاں تھا؟بچے کہاں تھے اور جوان کہاں غائب ہوگئے تھے؟

انیس کے کبھی کبھار آنکلنے والے والدین اب زیادہ بوڑھے ہوکر گاﺅں میں ہی محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ ابا کا انتقال ہوچکا تھا۔ اماں کو تو بیٹی کے یہاں کا پانی پینا بھی گوارا نہیں تھا۔ ایک دوبار دو چار روز کے لئے آئی تھیں کہ عزیز از جان بیٹی کو گھر، شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش دیکھ لیں۔ دیکھ لیا۔ بس، اب ملنا ہے تو قمر جاکے مل آئے۔ وہ تو بیٹوں تک کے گھر جاکے رہنے کو تیار نہیں تھیں، بس زچگی جاپے نمٹا دیتیں، ہفتہ دس دن یوں بھی جاکے رہ آتیں کہ بیٹوں کے یہاں باربار جانے یا ہفتہ دس دن رہ آنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ کس سے کہے اور کیا کہے۔ رضوانہ نے بے حد سمجھانے اور باپ کے ناراض ہونے کے باوجود بمبئی جاکر ملازمت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ویسے انیس کے زیادہ ناراض ہونے پر اس نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ وہ کوشش کرے گی کہ بمبئی چھوڑ کر دلی یا پھر (بادل نخواستہ) لکھنوآجائے، لیکن فی الحال تو جوائن کرنا ہی ہے۔ کسی دوست کی معرفت ایک کنبے میں پیئنگ گیسٹ بن کر رہنے کا انتظام بھی کرلیا تھا۔ یہ ایک پارسی کنبہ تھا۔ ادھیڑ سے کچھ آگے بڑھتی عمر کے والدین اور ان کی پانچ اولادیں، جن میں دو جوان لڑکے تھے۔ قمر نے جس دوست کی معرفت کا ذکر کیا تھا وہ خود بھی لڑکا ہی تھا۔ سمیر،ﷲ جانے ہندو تھا کہ مسلمان۔ اب یہ نام ایسا دورخاہے کہ کچھ پتا نہیں چل رہا۔ کاش کوئی اچھا مسلمان لڑکا ہو۔ لڑکے کی معرفت اس نے مدد کی بات تو کی، لیکن اس کا نام قمرانیس سے چھپا لے گئی تھی۔ کہہ دیا، رضوانہ کا خط کہیں گم ہوگیا ہے۔ یہ رضوانہ اتنی ضدی کیوں ہے؟ ضدی اور بدتمیز۔ کیا میری پرورش میںکہیں کوئی غلطی ہوئی ہے؟ سوچتے اور کرسی آگے پیچھے جھلاتے ہوئے قمر نے آنکھیں بندکرلیں۔

اماں میرے لئے بھی یہی کہتی تھیں کہ میں ضدی اور بدتمیز ہوں۔ شاید خود سے یہی سوال بھی کرتی ہوں گی کہ کیا ان کی پرورش میں کہیںکوئی غلطی ہوئی تھی۔ میںنے بی ایڈ کرنے کی ضد کی تھی، بی اے کے بعد گھر بیٹھے رہنے سے انکار کیا تھا، بال کٹوادئے تھے، ایک موٹے لڑکے سے، جو اماں ابا کے حساب سے باقی اور پہلوﺅں سے صحیح میچ تھا، شادی سے انکار کیا تھا، شلوار کی مہریاں تنگ کی تھیں اورقمیص کا گھیر کم کرکے آستینیں اڑا دی تھیں اور ٹیڈی تو نہیں، لیکن لگ بھگ ٹیڈی لباس پہنا تھا۔

قمر یکلخت ہنس پڑی۔ ایک بار وہ چھٹیوں میں گھر آئی تو اس نے جھاڑ پونچھ کر سلائی مشین نکالی۔ تیل ڈال کر اسے دن بھر کو چھوڑ دیا۔ اماں خوش ہوئیں کہ بیٹی کچھ سلائی پرائی کرنے جارہی ہے۔ کافی دن سے کہہ رہی تھیں کہ بھائیوں کے لئے پاجامے سی دے، لیکن دوسرے دن قمر قینچی اور اپنے کئی جوڑے لے کر بیٹھی توبڑی ٹیڑھی ٹیڑھی نظروں سے اماں نے اسے دیکھا۔

”اوئی بیوی، کیا کرنے جارہی ہو؟ میں تو سمجھی، نیا کچھ سینا ہے۔“

”اماں، ہمارے کپڑے بڑے جھولا جیسے ہیں۔ شلوار کے پائینچے اتنے چوڑے نہیں پہنے جارہے ہیں۔ ہمیں بڑی خفت ہوتی ہے۔ قمیصیں بھی اتنی لانبی چوڑی نہیں رہ گئیں۔“

”تو....؟“

تو کیا اماں؟ کاٹ کے شلوار کی مہریاں ذرا کم کردیں گے اور قمیصوں کو بھی چھانٹ دیں گے اور اماں، اب ہم دو جوڑے کپڑے الٰہ آباد میں درزی سے سلوائیں گے۔ تم ہمارے کپڑے سیتی ہو یا ہم خود سیتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ گھر کے سلے ہوئے ہیں، فٹنگ کا نام نہیں۔

جو جی چاہے کرو، بس آپے میں رہنا۔ لباس میں ننگاپن نہ آئے، ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔

قمر نے غصے میں قینچی پٹخی-ہر چیز میں الٹاہی سوچتی ہو۔ اب ننگاپن کہاں سے آگیا؟

ہاں، دیکھانا ننگاپن۔ سنا، بغیر آستینوں کی قمیصیں پہنی جارہی ہیں اور ساڑی کے بلاﺅز بھی۔

قمر غصہ بھول کر سناٹے میں آگئی۔ ایک قمیص کی آستینیں اس نے بھی اڑادی تھیں۔ اچھی طرح چھپا کر رکھنا ہوگا۔ یہاں پہننے کا تو سوال نہیں، لیکن بھنک نہ لگے کہ الٰہ آباد میں پہن رہی ہے۔ کانووکیشن کے موقعے پر ایک سہیلی سے مانگ کر لپ اسٹک لگالی تھی اور اماں کے سامنے اس کا ذکر کردیا تھا کہ سہیلیوں نے کہا، قمر لپ اسٹک لگاکے بہت اچھی لگ رہی ہے، تو اماں ہول گئیں کہ کنواری لڑکی اور لڑکوں کے بیچ میں ہونٹوں میں لالی لگا کے گھومی!

ہم نہ جانے کتنی باتوں سے نظریں چراتے رہے۔لڑکیوں نے جینز پہننا شروع کی۔انگریزی اسکولوں میں ویسے بھی یونیفارم اسکرٹ بلاﺅز ہی تھی۔ پلس ٹو تک اٹھارہ برس کی لڑکیاں اسکرٹ بلاﺅز پہن کر جاتی رہیں۔ لڑکیاں لڑکوں سے گھل مل کر بات کرتی تھیں، لیکن ہم نے ہائے ہائے نہیں مچائی۔ اب تو لڑکے لڑکی کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔ ایک ہم تھے بغل میں لڑکا آکے بیٹھ گیا تو جلدی سے سمٹ گئے۔ معلوم ہوکہ کھا ہی تو جائے گا۔ اب لونڈوں سے ابے تبے کرکے باتیں ہورہی ہیں۔ ہم سمجھتے تھے، اماں کم پڑھی لکھی ہیں، ہم پڑھ لکھ گئے ہیں، انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے پرابلم ہوجاتا ہے، مگر ہمارے لئے جو چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں وہ اماں کے لئے بڑی تھیں اور جو باتیں آج ہمیں بڑی لگ رہی ہیں وہ ہماری بیٹیوں کے لئے چھوٹی ہیں۔

رضوانہ کہتی ہے-دلی اور لکھنو میں فاصلہ ہے ہی کتنا اور ممی، ہم دو لڑکیوں کے ساتھ فلیٹ لے کے رہ رہے ہیں۔ ذرا پیسے آجائیں، پھر موبائل لے لیں گے، جب چاہنا بات کر لینا۔ اتنا ہولتی کیوں ہو؟

ہولیں کیوں نہیں؟ پھر وہی دلی،

big bad metro

رضوانہ کے فائنل امتحان ختم ہونے اور بمبئی جاکر ملازمت جوائن کرنے کے درمیان کوئی پندرہ بیس دن کا وقفہ تھا۔ لڑکی اس وقفہ میں گھر آرہی تھی۔ ایک آخری کوشش کرلی جائے گی۔ ارے بھائی، وکالت پڑھ لی، اب کچھ دن گھر میں رہ لو۔ یہیں پریکٹس کرلینا۔ کسی وکیل سے اٹیچ ہوجانا۔ گرچہ یہ وکالت کی پریکٹس نہایت گڑبڑ معاملہ تھا، پھر بھی بمبئی جاکر اکیلے رہ کر کسی لافرم میں نوکری کرنے کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔

چائے کی پیالی قمرکے ہاتھ میں کانپنے لگی۔ کیا رضوانہ سنے گی؟ کیا اپنے کریئر کے مقابلے میں والدین کے جذبات اور ایک ایسا مستقبل جس میں شادی ازحد ضرور ہو، اسے منظور ہوگا؟

ماں کی طویل گفتگو رضوانہ نے خاموشی اور صبر کے ساتھ سنی، اتنے صبر سے کہ قمر کو حیرت ہونے لگی کہ یہ وہی رضوانہ ہے؟ ذرا خیال آیاکہ اس کی طبیعت تو خراب نہیں؟ شاید سست ہورہی ہے۔ وہ نہ کسی دلیل پر جھنجھلائی، نہ جواب دیا۔ اطمینان سے ناخن گھس کر، ہاتھ پھیلاکر مخروطی نازک انگلیاں تکتی رہی۔ جب قمر خاموش ہوگئی تو اس نے نظریں اٹھاکر ماں کو دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا:

مما تمہاری یہ اس ریکارڈ پر اٹکی سوئی جگہ سے کبھی ہٹے گی یا نہیں؟ اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اس نے اعلان کیا

ہم جارہے ہیں میرا سے ملنے۔ دوپہر کا کھانا اس کے ساتھ کھائیں گے، مگر شام کے لئے کچھ انتظام کرکے مت رکھنا، آج پورا ڈنر ہم بنائیں گے۔ آج تم آرام کر لو۔ خدا حافظ۔-اس نے ماں کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا، پرس جھلاتی باہر نکل گئی۔

میرا انتظار ہی کررہی تھی، دوڑ کر لپٹ گئی۔ اچانک رضوانہ بڑے زور سے چونکی۔

اری میرا، تیرا تو ساتواں آٹھواں مہینہ ختم ہونے پر ہونا چاہئے تھا۔ کیا ہوا؟ یہ....یہ.... اس نے بڑی پریشانی کے ساتھ میراکے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

صبر ، رضوانہ، ذرا صبر! میرا نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

 خیریت ہے۔ ذرا دم لے لے اور بیٹھ۔

رضوانہ بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ متردد تھا

”تین مہینے ہوئے کہ میں نے ایم ٹی پی کرادی۔ چوتھا مہینہ تھا۔“

”ایم ٹی پی کرادی، کیا مطلب؟“ رضوانہ نے مزید پریشان ہوکر پوچھا۔

”الٹراساﺅنڈ کرایا تھا۔ بیٹی تھی۔“

”تیرا دماغ خراب ہوگیا تھا کیاری میرا؟“ رضوانہ سکتے کی کیفیت میں تھی۔

”ساس اور شوہر دونوں کا دباﺅ تھا۔“

”اور تو دباﺅ میں آگئی؟ پڑھ لکھ کر گدھے پر لاد دیا؟“

رضوانہ بے حد خفا تھی۔”تجھ سے اچھی تو میری مما ہیں۔ ایک جنریشن پہلے انہوںنے دوبیٹیاں پیداکرکے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے، بیٹیاں سہی، لیکن اب اور نہیں۔ تو بھی تو یہ کر سکتی تھی یا زیادہ سے زیادہ ایک تیسری بارٹرائی کرلیتی۔“

”شاید قمر چاچی پر اتنا دباﺅ نہیں پڑا تھا۔ تمہارے پاپا کا کوئی بزنس ایمپائر بھی نہیں تھا جس کے لئے لڑکے کی چاہ حدپار کرتی اور پھر ہمارے یہاں یہ مکھ اگنی والا چکر بھی تو ہے۔منھ میں آگ نہیں دی تو موکش نہیں ملے گا۔“

”اور اگلی باربھی کوکھ میں بیٹی آئی تو؟“

”دیکھتی ہوں، کتنی بار اورابارشن کرائیں گے۔ ایک بار کے لئے اور رضا مند ہوجاﺅں گی اور وہ آخری بار ہوگا۔ پھر بھی بیٹی ہوتو ہو۔“

”ایک بار اور؟میرا، تیری تو امیج خراب ہو رہی ہے۔ میں تو تجھے بڑا آئیڈیل مانتی تھی۔“

میرا ہنسی۔ ”اس’ اہروا‘کے fiasco کے بعد بھی؟“

”وہ بات اور تھی۔ تونے خود ہی سمجھ لیاتھا کہ اس اہروا کے ساتھ تیرا کوئی فیوچر نہیں ہے، پھر گھر والوں کو کیوں ناراض کیا جائے۔ گھوم پھر کے، تفریح کرکے واپس آگئی تھی کھونٹ پر۔ سچ میرا، اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔“

ایک زمانہ تھا، میرا کو چار گھر آگے والے پڑوسی کا بیٹا بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ رہی پڑوسی کے بیٹے کی بات، تو وہ تویہاں تک کہہ رہا تھا کہ میرا تیار ہو تو وہ خاموشی سے نکال لے جائے گا، پھر شادی کرکے آکے بڑوں کے پیر چھولیں گے، لیکن میرا کو معلوم تھا، لڑکا یادو تھا، ان کے گھر میں اماں کے حساب سے کوئی بھی بات گڑبڑ ہوتی تو اماں پھٹ سے کہتی تھیں۔

”ہیں نااہیر، بھینس چرانے والے! تمیز کہاں سے آئے گی؟ افسر بن گئے تو کیا اوردے گورنمنٹ ریزرویشن۔ نااہل آن آن کے کرسی پہ بیٹھ رہے ہیں۔“ اور تو اور، ایک بار ٹرین بہت لیٹ ہوگئی تو اماںنے کہا کہ:

”یہ کم ذات نیچ ذات بڑے عہدوں پر چڑھے بیٹھے ہیں، ہر محکمے کا بھٹہ نہ بیٹھے تو کیا ہو۔ کوئی کھٹک، کوئی اہیر ریل ہانک رہا ہوگا۔ اب چلا رہا ہے اسے بھینسا گاڑی کی طرح۔“

میرا ناراض ہونے کے باوجود ہنسی کے مارے لوٹ گئی تھی۔ تصور کیا کہ ریل کے آگے بھینس جتی ہوئی ہے۔ ارے، یہاں تو ملک کے آگے ہی بھینس جتی ہوئی ہے۔ چل رہا ہے ہچر مچر۔

ان دنوں رضوانہ بڑی پریشان رہاکرتی تھی۔ جانے میرا پہ کیاری ایکشن ہو، لیکن میرا بہت جلدی سنبھل گئی تھی۔ کچھ گھر والوں کو بھی سمجھ میں آرہا تھا، اس لئے اتنی تندہی سے رشتہ لانے میں جٹے اور یوں پھٹ سے شادی طے کی کہ گریجویشن تک پور انہیں ہونے دیا۔ میرا کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا، پھر خوش بھی رہی۔ شوہر اچھا ملا تھا۔ گھر والے بھی ٹھیک تھے، لیکن ابھی جو حال میں میرا نے خط میں لکھا تھا کہ اپنی ہم نام میر اکو جانتی ہوں جو کہہ گئی تھی۔ جو میں ایسا جانتی .... تو رضوانہ کو کہیں کچھ کھٹکتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔

”میرا، سچ بتانا، کیا تو سیریس تھی؟“

”پرانی بات ہوگئی، چھوڑ اسے۔ وہ بتا، وہ میرا جات بھائی، وہ کہاں تک پہونچا؟“ میرا نے بات پلٹ دی۔

”مائی فٹ، میرا! اب تو بھی؟“ پھر وہ یکلخت خاموش ہوگئی۔

اسے ایک بار رنجنا سریواستو نے بتایا تھاکہ ان لوگوں کے حلقے میں ایک بڑا اسمارٹ سامسلمان لڑکا تھا، سلمان قریشی۔ وہ کہہ رہا تھا۔

”یار مجھے رضوانہ بہت پسند ہے، لیکن کیا کروں۔ She is "Sameer's gal" رضوانہ بہت خفا ہوئی۔

پھر دو ایک بار وہ سمیر کے گھر جانکلی تھی تو اس کی ممی ملیں تو خندہ پیشانی سے، لیکن بیٹے سے بولیں:

”ذرا سنبھل کے چلنا۔ لڑکی مسلمان ہے، گھر تک چلی آ رہی ہے۔ ہمیں تو گھبراہٹ ہورہی ہے۔“

”کیوں اماں، آئی ایس آئی کی ایجنٹ لگ رہی ہے جو گھبراہٹ ہورہی ہے؟“

”اوندھی کھوپڑی تیری! ارے بات آگے مت بڑھا۔ رشتہ توڑو تو دکھ ہووے، جوڑو تو جگ ہنسائی۔“

”اس رشتے سے آگے کچھ سوجھتا ہے اماں؟ ایک رشتہ دوستی کا بھی تو ہوتا ہے۔“

”لڑکے لڑکی میں کوئی دوستی نہیں ہوتی۔ سلام دعاسے آگے ہورہا ہے تو پھر وہی ہوتاہے جو بھگوان نے گڑھا ہے۔ استری پرش کا رشتہ۔ ہم کوئی جاہل جھپٹ نہیں ہیں، پڑھے لکھے ہیں۔“

”پڑھ لکھ کے گدھے پہ لاد دیا۔“سمیر منھ ہی منھ میں بھنبھنایا اور آکے پورے ڈائیلاگ رضوانہ کو سنائے۔ خوب ہی تو ہنسا۔ پھر چڑانے کے لئے بولا:

”تو ر جوانہ ڈارلنگ آگے کیوں نہ وہی رشتہ ہوجائے جو بھگوان نے گڑھا ہے، استری پرش کا رشتہ؟“ (سمیر کی ماں رضوانہ کو رجوانہ کہتی تھیں۔)

”چپ کیوں ہوگئی؟“ میرا نے پوچھا۔

”کچھ نہیں، سوچ رہی تھی کہ سمیر کی ماں میں اور تجھ میں کیا فرق ہے؟ مردوں اور عورتوں کے درمیان افلاطونی دوستی کا تصور ابھی تک ہندوستان میں پیدا نہیں ہوسکا ہے۔“ اس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔

”پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں!“ میرا مسکرائی۔ ”میری ایک بنگلہ دیشی فرینڈ ہے....“

رضوانہ نے بات کاٹ دی۔ ”ایک ہی گھر میں لوگ رہ رہے ہوں اور دیواریں اٹھاکر آنگن بانٹ دو تو لوگ بدل جائیں گے کیا؟ سارا کچھ تو ایک ہی ہے۔ جب بات کرو اس میں پاکستان گھسادے گی، بنگلہ دیش کو لے آئے گی۔ بجرنگی ہوگئی ہے کیا؟ یا دُرگاوا ہنی میں شامل ہوگئی ہے؟“ رضوانہ اور زیادہ خفا ہوئی۔

’بجرنگی‘ پر میرا زور سے ہنسی۔ ”کیا اب ہم پالیٹکس ڈسکس کریںگے؟“

”بالکل نہیں کریںگے، اس لئے کہ ہم اتنے دن بعد اس کے لئے نہیں ملے ہیں، لیکن میرا، اس بار میں نے پاکٹ منی سے بچابچا کے دو کھلونے خریدے تھے۔ میرا بیگ دیکھ۔ ایک تیری بٹیا کے لئے اور دوسرا ہونے والے بچے کے لئے۔ تیرا پیٹ دیکھ کر تو میں سناٹے میں آگئی۔ تو نے اس کی اطلاع بھی نہیں دی تھی۔ سچ بتانا میرا، کوئی

 guilt feeling

 نہیں ہوئی؟ صدمہ نہیں ہوا؟“

”رضوانہ، زخم مت کرید۔ ہم نے کچھ سوچ کر جیسے نیرج یادو کو چھوڑا تھا، اسی طرح اس بچے کو بھی، اور بچہ کہنا نہیں چاہئے۔ وہ صرف ایک 

foetus

 تھا۔“ پھر قدرے توقف کے بعد بولی :

 ”تجھ سے تو بہت پرانا رشتہ ہے۔ تیری نانیہال میں ہی تو ممی کے چاچا تھے جن کے یہاں چوتھی بیٹی ہوئی تو دادی نے شروع ہی سے دھمکی دینی شروع کی تھی کہ اگلی بار بیٹی ہوئی تو وہ چاچا کی دوسری شادی کرائیں گی، لیکن چلو، ماما ہوگئے، ونئے ماما۔ چھٹی اولاد پھر بیٹی ہی ہوئی۔ دادی کا اصرار تھا کہ کم از کم دو بیٹے ضرور ہوں۔ خیر چلو، ایک تو آگیا تھا منھ میں آگ لگانے والا، اس لئے ممی کی چاچی بچ گئیں۔ اب میں تو پانچ اور چھ کی لائن لگانے سے رہی۔“

رضوانہ ہنسی: ”ممی جب میکے کے قصے سناتی ہیں تو اس میں دو بہت دلچسپ کردار ہوتے ہیں؛ ایک پگلی جمادارن اور ایک امیرن خالہ۔ کہاں کے لوگ کہاں مل جاتے ہیں! تیری ممی کی چاچی کو مما شکلائن چاچی کہا کرتی تھیں۔ ان کی چوتھی بٹیا پر پگلی جمادارن نے بڑے تاسف کا اظہار کیا تھا۔“

میرا بھی ہنسی۔ ”چوتھی بیٹی پیدا کرنے والی عورت ہے ہی اس لائق کہ مہترانی بھی اس پر ترس کھائے۔ 72میں ابارشن کو قانونی اس لئے بھی بنایا گیا کہ لوگ لڑکے کی چاہ میں لڑکیوں کی لائن لگاتے چلے جاتے ہیں۔“

”اور ہم اکیسویں صدی میں داخل ہونے والے ہیں!“ رضوانہ نے لقمہ دیا۔

”مگر ہم جی رہے ہیں اٹھارہویں صدی میں۔ اسے نہ تم بدل سکتی ہو نہ میں۔“

”میں تو بدل لوں گی۔ تو شاید ڈرپوک ہے۔ تیری بیٹی بدلے گی۔“ رضوانہ کے لہجے میں سرزنش تھی۔

میرا زور سے ہنسی۔ ”تیری برادری تو اور بیک ورڈ ہے۔ ایک تو ہی bondبنی پھر رہی ہے۔ ہاں، ابھی تیرے یہاں دلہنیں جلائی نہیں جا رہی ہیں اور ذات کو لے کے بھی اتنا رَولا نہیں مچتا۔“

”ہاں، دلہنیں جلائی نہیں جاتیں، یک طرفہ طلاق دے کر گھر بھیج دی جاتی ہیں کھڑے گھاٹ۔ تین طلاق کو لے کے تم جتنی نکتہ چینی کرلو، لیکن یہ فائدہ ضرور ہے کہ جان بخش دی جاتی ہے۔ اب اگر کسی لائق ہو تو کھا کما لو۔ زیادہ خوش قسمت ہو تو دوسرا بھی شاید مل جائے ورنہ اماں ابا پر بوجھ بنو، بھائی بھاوج کی چاکری کرو، جوتیاں بھی کھاﺅ۔ رہی ذات، تو اشرافیہ کی چار ذاتوں سید، شیخ، مغل ، پٹھان پر اتنا رَولا نہیں مچتا۔ سید کی بیٹی جلاہا گھر لا کے دیکھے تو سہی!“

”پھر بھی ذات کو لے کر honour killing نہیں ہے۔ جلاکر مار دینے سے تو یہ option بہتر لگتا ہے۔ عورت جاہل ہوئی تو جھاڑو برتن کرے گی۔ مری نہیں تو کسی طرح جی لے گی۔ زندگی ہر حال میں موت سے اچھی لگتی ہے۔“

”لوگ خود کشی بھی تو کرتے ہیں۔“

”کٹھ حجت وکیلنی! خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ ویسا extremeحالات میں کبھی کبھی ہی ہوتا ہے، اور یہ لوگ نارمل نہیں رہ جاتے جو اپنی جان لے لیتے ہیں، سمیر خودکشی کی دھمکی دے رہا ہے کیا؟“ اس نے خفا ہوکر کہا۔

رضوانہ قہقہہ مار کے ہنسی: ”مما جاننا چاہ رہی تھیں کہ وہ مسلمان ہے کہ ہندو۔ ہم صفا ٹال گئے، اس لئے نہیں کہ ہندو کہنے پر ہمیں کوئی جھجھک تھی، مگر مما کا suspense قائم رکھنے میں بڑا مزہ آرہا ہے۔“

”رہی بدتمیز کی بدتمیز! بیچاری قمر چاچی۔“

”ارے ہم تو بہت شریف ہیں۔ بالکل مما، بلکہ نانی کی جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اصل تو وہ عمرانہ بم پھوڑنے والی ہے۔ وہ انوراگ کا معاملہ ذرا سیریس ہوتا جا رہا ہے۔“

میرا کھانا لگوانے کے لئے اٹھنے لگی تھی۔ اس نے چلتے چلتے ذرا زور سے کہا: ”ہمیں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔ جب پچھلی بار عمو سے ملے تھے تو اس کے پاس انوراگ کے علاوہ کوئی ٹاپک ہی نہیں تھا۔ عزیز کے یہاں سے مٹن دو پیازہ منگوالیا ہے اور مٹر پلاﺅ خود بنایا ہے۔ چلے گا؟“

”دوڑے گا، دوڑے گا۔“

میرا کھانے کی بہت شوقین تھی۔ اس کے اپنے گھر میں سب لوگ سبزی خورتھے، لیکن سسرال میں مرد گوشت کھاتے تھے۔ شادی سے پہلے میرا چکھ چکی تھی، لیکن گھر میں کسی سے بتایا نہیں تھا۔ وہ جب بھی قمر چاچی کے یہاں آتی اور بریانی پکی ہوتی تو گوشت کی بوٹیاں ہٹا کر چاول لے کر کھایا کرتی تھی، پھر ایک دن دھیرے سے اس نے ایک چھوٹا سا ٹکڑا مٹن کا بھی لیا۔ بھر پیٹ بریانی کھا کر بولی: ”چاچی، پتا نہیںیہ vegetarianismکہا ں سے آگیا۔ اب دیکھو نا، اتنی مزیدار چیز سے اتنے لوگ محروم ہیں۔ ہماری اماں تو پریشان رہتی ہیں کہ ہم آپ کے یہاں ہر وقت بیٹھے رہتے ہیں، ضرور گوشت کھاکے آئیں گے۔ آریہ تو گوشت کھایا کرتے تھے۔“

”آریہ تو پتا نہیں کیا کیا کھاتے تھے، لیکن تو تو چپ ہی رہ!“ قمر ہنس پڑی۔

”ہمارا مطلب یہ چاچی کہ یہ ساری food habits ہیں، ان کا دھرم سے کیا لینا دینا ہے؟ اگر ہے تو انسانوں نے ہی جوڑا ہے۔“

”تجھے گوشت کھانا ہے تو کھا، بکرے کیوں گن رہی ہے؟“

رضوانہ گرمی کی چھٹی میں گھر آئی ہوئی تھی۔ میرا کی شادی طے ہوچکی تھی۔ وہ دونوں کافی وقت ساتھ گزار رہی تھیں، گھو م گھوم کر خریداری کر رہی تھیں۔

”چاچی، اماں کے سامنے بول مت دیجئے گا کہ ہم یہاں آکے بریانی اڑاتے ہیں۔“

دراصل دوستی لڑکیوں میں ہی زیادہ تھی۔ قمر کا نانہال اور میراکی ماں کا دادیہال ایک ہی شہر میں تھا۔ شکلائن کو اماں جانتی تھیں، ابو اور شکلا جی میں جان پہچان تھی، لیکن خواتین میں آنا جانا بہت کم تھا۔ اب یہاں لکھنو¿ میں لڑکیوں میں اتنی دانت کاٹی دوستی ہوگئی تھی۔ میرا کی شادی بہت جلدی طے کر دی گئی تھی۔ ویسے قمر کا خیال تھا کہ اچھا ہی ہے۔ رضوانہ کی وجہ سے وہ پریشان رہ رہی تھی۔ اسے بھی ناتھ دیا جاتا تو اچھا تھا۔

”ایک تو تمہاری اماں سے ملاقات ہی چھٹے چھ ماہے ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی چوری میں وہ لوگ شریک ہوں تو دونوں ڈرے رہتے ہیں، کون کس کا راز کھولے گا۔“

”آپ چور کہاں سے ہوگئیں؟“ میرا قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔

”کیوں، ہمارے اوپر تمہارا دھرم بھرشٹ کرنے کا الزام نہیں لگے گا؟“

”ہم نے آپ کی پتیلی سے چراکر بریانی کھائی۔ آپ تو منع کرتی ہی تھیں۔“ وہ پھر ہنسی۔

میرا کا مزاج ہی ایسا تھا۔ قمر اسے ’قلقل مینا‘ کہا کرتی تھی۔ ہنستی ہے تو لگتا ہے چاندی کی تھالی پر چاندی کے کنچے لڑھک رہے ہوں۔ صبح صبح گومتی کے کنارے ہنومان مندر میں پوجا آرتی ہوتی ہے اور دور سے گھنٹوں کی آواز آتی ہے تو لگتا ہے، میرا ہنس رہی ہے۔

”قمر چاچی!“

”ہاں، بولو بٹیا۔“ قمر کے لہجے میں اتنی محبت تھی کہ رضوانہ جل بھن گئی۔

”مما، کبھی ہم سے بھی ایسا میٹھا بول لیا کرو۔“

”تم میرا کی طرح تمیز دار بن جاﺅ۔“

”قمر چاچی، ابھی تو ہم قطعی تمیز کی بات نہیں کررہے۔ ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں لفظ چور نہایت فنی (funny)لگتا ہے۔ بلاوجہ ہنسی آتی ہے اور اگر یہ لفظ آپ کے حوالے سے استعمال کریں تب تو ہاہاہا....“ وہ اتنی زور سے ہنسی کہ انیس کمرے سے باہر آگیا۔

”کیا ہورہا ہے، لڑکیو؟“میرا جلدی سے دبک گئی۔

”نمستے چاچا!“

 اس نے چہرہ سنجیدہ بنا لیا اور اٹھ کر انیس کے پیر چھوئے۔

وہ واپس لوٹ گیا۔ تینوں خواتین خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ عمرانہ کے امتحان نہیںہوئے تھے، وہ کمرے میں پڑھ رہی تھی۔ چلتے چلتے پلٹ کر بولا : ”ذرا دھیرے سے ہنسو، عمو پڑھ رہی ہے۔“

میرا نے ہونٹ کاٹے، پھر دھیرے سے بولی: ”چاچی، ہم بڑے خوش قسمت ہیں۔“

”کیوں؟“ رضوانہ نے تیوریاں چڑھائیں۔ ”بی اے کرتے سے اٹھا کر شادی کر دی جارہی ہے، اور یہ خوش قسمت ہیں!“

”بی اے تو ہم کر ہی لیں گے۔ ایم اے بھی کریں گے۔ اس کے بعد بھاڑ بھی جھونکیںگے۔ فی الحال خوش قسمت اس لئے کہ ہماری سسرال میں گوشت کھایا جاتا ہے۔ مطلب، مرد کھاتے ہیں۔ پلیٹ میں سے جھوٹن ہمیں بھی مل جایا کرے گی،“ وہ مسرور لہجے میں بولی۔

”ہے ہے بچی! تو جھوٹن کیوں کھائے گی۔ بری باتیں منھ سے نہیں نکالتے“ قمر نے خالص اپنی اماں کے انداز میںکہا۔

”مما، دونٹ بی سلی!“ رضوانہ نے کہا: ”مما سارا مذاق چوپٹ کر دیتی ہیں۔“

”مذاق نہیں۔ سلی تو ہے! ارے، عورتیں گوشت نہیں کھاتیں تو پھر ہم چپکے سے پلیٹ سے اٹھا کر ہی کھا سکیں گے نا؟ ہاں، ساتھ میں چوک جاکے ٹنڈے کے کباب اڑا آئیں یا کسی ہوٹل میں کھالیں، وہ الگ بات ہے،“ قمر نے کہا۔

”بہت سے گھروں میں عورتیں گوشت نہیں کھاتیں، مرد کھاتے ہیں۔“

”مگر عورتوں کو ان کے لئے بنانا پڑ جاتا ہے۔ ہماری ایک دوست کی چاچی ناک پر کپڑا رکھ کے ڈوئی کے ڈنڈے سے گوشت دھوتی تھیں اور بنا کر رسوئی سے ہٹ جاتی تھیں۔ ان کے ہسبنڈکو رات کے کھانے میں تو چاہئے ہی چاہئے۔“

”لیکن میری ایک کایستھ دوست کہہ رہی تھیں کہ ان کے خاندان میں سہاگن عورتوں کو تھوڑا سا گوشت ضرور کھانا ہوتا تھا۔  ہفتے میں کوئی دو دن،“ قمر نے کہا۔

”سہاگن کو کیوں؟“ بیوہ کو کیوں نہیں؟ اور کنواری کو؟“

”کنواری کو بھی نہیں۔“ قمر ہنسی

”مگر کیوں؟‘ ‘ رضوانہ جھنجھلائی۔

” میری مت ماری گئی جو میں تم لڑکیوں کے سامنے یہ بات لے بیٹھی۔ بات میں بات نکل گئی تم کٹھ حجتوں کے سامنے۔ ضروری نہیں ہر بات تم جانو۔“

”چل رضوانہ، میرے لئے چکن کی ساڑیاں لینی ہیں۔ چوک چلتے ہیں۔“ میرا نے بات ختم کرتے ہوئے پرس ٹٹولا۔ ”ہاں، پیسے رکھ لئے ہیں۔“

دونوں خوش و خرم لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرا کے بال بہت گھنے اور لانبے تھے۔ اٹھتے ہوئے اس نے گھنی لانبی چوٹی پیچھے پھینکی تو اس کا دلکش مسرور چہرہ قمر کے دل پر نقش ہوگیا۔ اللہ سب کی بیٹیوں کو خوش رکھے۔ کیسی معصوم بچی ہے اور اللہ میری بیٹیوں کے لئے بھی جلد ہی ایسے لڑکے مہیا کردے کہ ہم خوشی خوشی ان کا بیاہ کریں۔

میرا کے گھر والے خاصے پیسے والے تھے۔پہلی بیٹی کی شادی کر رہے تھے، اس لئے حیثیت سے بھی بڑھ کر خرچ کر رہے تھے۔ ان دنوں لڑکیوں میں ایک فیشن چل نکلا تھا کہ زیور نہیں پہنیں گی، ناک نہیں چھدوائیں گی۔ سیندور ڈالیں گی تو چھپا کر، مانگ کے اندر ایک ننھی سی بندی، لیکن میرا آج کے فیشن میں نہیں بہی تھی۔ اسے یہ سب بہت پسند تھا۔ ”شادی کے بعد تو ہم چھمک چھلو بن کر رہیں گے۔“ وہ زیور ٹرائی کررہی ہوتی تو کانوں کے جھومک ہلاتی، ہاتھوں میں سونے کے کنگن بجاتی۔ تھر ک تھرک کے سب دکھاتی اور پوچھتی : ”یہ کیسا لگ رہا ہے؟“ ساڑی کے پلو کو سر پر لیتی۔ کبھی کبھی گھونگھٹ بھی نکال لیتی۔ وہیں دکان میں ہی ساری نوٹنکی ہو جاتی۔ عمرانہ کو جب موقع ملتا تھا، وہ بھی ساتھ لگ لیتی تھی۔ میرا کا گھونگھٹ اور آگے کھینچ کر بہت بوڑھی آواز بنا کر کہتی: ”ذرا ٹھیک سے پردہ کرو بہو، سامنے سسر بیٹھے ہیں۔ اماں نے کیا سکھا کے بھیجا ہے؟“ سامنے سسر بیٹھے ہیں، کہتے ہوئے ایک بار تو اس نے کہنی مار کر للو لال بمل کشور کی مشہور دکان میں گدی پر بیٹھے ہوئے تھلتھلے سیٹھ جی کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ میرا ہنستے ہنستے وہیں لوٹ گئی۔ ساتھ بیٹھی خریدار عورتیں پلٹ پلٹ کر اسے دیکھنے لگیں۔

للو لال بمل کشور والوں نے میرا کا شادی کا لہنگا، راجستھان سے گوٹے کا کام کراکے منگایا۔ میرا نے ڈیزائن خود تیار کر کے اس کا اسکیچ ان لوگوں کو دیا تھا۔ جب جوڑا بن کے آیا تو فوراً ہی پہن کے بیٹھ گئی، پھر بھر ہاتھ چوڑیاں پہن کے، کندن کا ٹیکہ لگا کے کمرے سے نکلی تو ماںنے ایک دو ہتڑ اس کی پیٹھ پر مارا اور دوسرا اپنے ماتھے پر۔”اری بے شرم، شادی سے پہلے جوڑا چڑھا لیا۔ اپ شگن ہوتا ہے۔“

میرا نے دوہتڑ کی قطعی پرواہ نہ کی، حالانکہ لگا زور سے تھا۔ ”ارے ممی، ہم ٹرائل لے رہے تھے اور دیکھ رہے تھے، دلہن بن کے کیسے چپنڈخ لگیں گے۔ ممی، ایسا مردانہ ہاتھ ہے تمہارا! اچھا مارلو، مارلو، پھر ہم نند رانی مشرا کی بہو بن جائیں گے، تب مار کے دیکھنا۔ بڑی دبنگ ساس ہے ہماری۔“

شبھ شبھ بول! یہ تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ نند رانی مشرا بڑی دبنگ ہیں؟“

”ارے ہمیں سب خبر ہے۔ پوری ریسرچ کرلی ہے ہم نے۔ بڑی بہو کو تو جلانے کی کوشش بھی کر چکی ہیں۔“

”ہے ہے لڑکی، بھگوان سے ڈر! سچ ہے، کلجگ آگیا ہے۔ پہلے ساسیں بہوﺅں پر دوش لگاتی تھیں، اب بہوئیں ....“ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت میرا کی ممی دل ہی دل میں ڈر گئی تھیں۔کہاں سے ایسا سن لیا لڑکی نے؟ ذرا پتا لگائیں، لیکن ساری ریت رسمیں پوری کرکے سگائی تک ہو چکی تھی۔ انہوں نے ٹوہ لینی شروع کی۔ سگائی ہی تو ہوئی ہے۔ اگر خاندان میں ایسی کوئی افواہ بھی ہے تو میرا کے پاپا سے کہنا ہوگا۔ میرا دل ہی دل میں ہنس ہنس کر لوٹیں لگاتی رہی۔

رکھب داس کے یہاں کندن کا پورا سیٹ آرڈر کردیا گیا۔ کندن کے زیور میرا کو بہت پسند تھے۔ اس کی نانی نے اس کے لئے کشمیرسے شاہ توش کی شالیں منگوائیں۔ چاندی کا ڈنر سیٹ دیا گیا۔

رضوانہ کے گھر سے شادی میں سب لوگ شریک ہوئے۔

”ارے دلہن بی بی، ذرا شرم کرلو!“ میرا کے زیادہ چھم چھم کرنے پر رضوانہ نے مصنوعی خفگی سے آنکھیں نکال کر اسے کہنی ماری تھی۔

”جل مت!“ اس نے گھونگھٹ اٹھا کر کہا: ”تیری شادی جلدی ہی کرائیں گے۔“ پاس کھڑا دولہا بھی ہنس پڑا۔ میرا کی کوئی بہن نہیں تھی۔ وہ اکلوتی لڑکی تھی۔ دولہا نے خوش دلی سے رضوانہ اور عمرانہ کو سالیاں تسلیم کرلیا۔ میرا کی ممی نے جوتا چرائی کی رقم میں میرا کی چاچا ماما کی لڑکیوں کے ساتھ ان دونوں بہنوں کا برابر کاحصہ لگایا۔

رخصت ہوتے وقت میرا نے گھونگھٹ ذرا لمبا کھینچ لیا تھا اور قدرے جھکے شانوں کے ساتھ اس کے اندر منھ چھپا کے یوں کھی کھی کھی کھی کرتی ہل رہی تھی کہ لوگ سمجھے وہ رورہی ہے۔ صرف رضوانہ کو بقول خود اس کے ”یہ کمینہ پن“ معلوم تھا۔ بعد میں اس نے کہا تھا: ”ارے کون سی رخصتی، کہاں کی رخصتی! ڈالی گنج سے اٹھ کے ڈالی باغ چلے آئے۔ سسرال والے بھی ڈر کے رہیں گے۔ بہو کو مائیکے بھاگنے میں پل بھر بھی نہ لگے گا۔ یہ بھی نہیں کہ اسٹیشن سے پکڑ کے واپس لے آئے۔ رونے کی بات ہی نہیں رہ گئی تھی۔ اور سن رضوانہ، جل مت جائیو۔ ہمارے سسرال والوں نے یاقوت کا سیٹ چڑھایا ہے۔“

”جلے ہماری جوتی!“رضوانہ چڑ گئی۔

 ”دیکھا نہیں تھا کیا بری پہ؟“

بچی بہت جلدی ہوگئی تھی، لیکن اس سے پہلے میرانے بی اے مکمل کرلیا تھا۔ پھر کچھ دن کے لئے اس کی پڑھائی میں بریک لگ گیا تھا، گرچہ سسرال والوں کا کہنا تھاکہ وہ اسے پڑھائی سے روک نہیں رہے ہیں، وہ خود ہی گھر گرہستی اور بچے میں لگ گئی ہے۔ سسرکا بہت بڑا پرنٹنگ پریس تھا۔ اس میں بھی ہاتھ بٹانے لگی تھی۔

”اری میرا، تولکھنوجیسے شہر میں ہے، جوائنٹ فیملی میں رہ رہی ہے۔ بچی کو ساس دیکھ لیں گی، آگے کی پڑھائی کرلے۔“رضوانہ کی دیکھا دیکھی، یا ازخود، میرا کو بھی قانون پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔

”ارے تو لاکر لے نا۔ لکھنومیں تو ہے ہی۔“

”لااور میں؟“وہ زور سے ہنسی تھی۔ ”ابھی میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی

 Plain Tales From British Raj

۔ اس میں لکھا تھاکہ سولہویں صدی کے وسط میں جب لڑکیاں جہاز میں بھربھر کر شوہروں کی تلاش میں برٹش انڈیا آیا کرتی تھیں تو انہیں صرف دو باتیں سکھائی جاتی تھی۔ ’چار چھ شام کو پہننے کے اچھے لباس رکھ لینا کہ دلکش نظر آﺅ اور زیادہ عقلمند اور تیز طرار بننے کی کوشش مت کرنا، اس لئے کہ مردوں کو زیادہ ذہین اور زیادہ تعلیم یافتہ بیویاں قطعی پسند نہیں ہیں۔‘ اس ایٹی ٹیوڈ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میرے شوہر اور سسرال والوں کو بی اے سے زیادہ تعلیم یافتہ بہو کی قطعی ضرورت نہیں اور لا! ارے باپ رے....“ اس نے آنکھیں پھیلائیں۔

”وہ تو تو ہی کر۔ ابھی اونٹ پہاڑ تلے نہیں آیا ہے۔“

”ارے ، تو تجھے میوزک کا اتنا شوق تھا، سیکھ بھی چکی ہے، وہی جوائن کر لے۔ بھات کھنڈے سنگیت ودیالیہ موجود ہے۔“

”اور پھر چوک میں جاکے بیٹھ جاﺅں امراﺅ جان ادا بن کے؟“ میرا کا لہجہ تلخ ہو اٹھا۔ رضوانہ ہکا بکا رہ گئی۔ میرا منھ پھٹ تھی اور الھڑ بھی، جو منھ میں آئے بکتی رہتی تھی، لیکن یہ ذرا کچھ زیادہ ہوگیا تھا۔

”مر، جو جی چاہے کر۔“

اب رضوانہ نے میرا جیسی پیاری، زندگی سے بھرپورلڑکی اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ ایک عزیز ترین سہیلی سے سچ مچ تو نہیں کہاتھا کہ مر۔

رضوانہ کو بمبئی کی اس لافرم میں کام کرتے کئی سال ہوچکے تھے۔ لوگوں کے پاس اب موبائل فون آگئے تھے۔ رضوانہ نے نمبر دیکھ کر کہا۔ ”کتنی بار کہا مما سے کہ آفس کے اوقات میں فون نہ کیا کریں۔ پتا نہیں کیا بات ہے۔ اب انہیں بھی ایک موبائل لے کر دینا پڑے گا، کہ زیادہ ضرورت ہو تو میسج کردیں۔“اس نے فون بند کر دیا، لیکن دوبارہ رِنگ آیا تو اٹھانا ہی پڑا۔ قمر چہکو پہکو رو رہی تھی۔ رضوانہ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

”کیا بات ہے، مما؟“

”میرا .... میرا نہیں رہی۔“

”کیا؟“

”میرا نہیں رہی، رضوانہ۔“

رضوانہ وہیں دھپ سے زمین پر بیٹھ گئی۔ فائل اس کے ہاتھ سے گر پڑی تھی جو وہ کھڑی ہوکر پلٹ رہی تھی۔ اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں۔ میرا کی بچی آپریشن سے ہوئی تھی، پھر ایک اسقاط کرایا تھا۔ پھر ایسا ہی کچھ ہو اہوگا اور ساری جدید سہولیات کے باوجود کیس بگڑگیا ہوگا، ورنہ میر اتو بڑی صحت مند لڑکی تھی اور عمر کیا، یہی تیس ایک سال۔

”میرا نے خودکشی کی ہے۔“

قمر نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔

رضوانہ دوسرے ہی دن ہوائی جہاز سے لکھنو¿ پہنچ گئی۔ دلی سے عمو بھی آگئی تھی۔ لوگ میرا کے پھول چننے گل لالہ گئے ہوئے تھے۔ 

(لکھنؤ والوں کی ستم ظریفی، شمشان گل لالہ ہے اور قبرستان عیش باغ)

میرا تو بس اتنی ہی پڑھی لکھی تھی کہ شوہر کے منھ کو نہ آسکے، لیکن ساتھ ہی فراٹے سے انگریزی بول کر اس کی عزت افزائی کا سبب بھی بنے۔ وہ بے حد سگھڑ گرہستن تھی گرچہ اس نے کبھی گھر پر کام نہیں کیا تھا اور انیس برس کی عمر میں کھاتے پیتے گھرکی کون سی لڑکی کام کرتی ہوئی جاتی ہے، لیکن جب وہ بہو اوربیوی بنی تو اسے سال بھربھی نہ لگا گھر سنبھالنے میں اس نے نوکروں کے باوجود کچن سنبھالنا بھی سیکھ لیا۔ اس کی ساس نے ”نان ویج“ کا چولہا الگ کر دیاتھا۔وہاں وہ شوہر کے لئے گوشت اور مرغ کے نت نئے پکوان بناتی جن کے لئے اس نے کھانا پکانے کا ایک کورس جوائن کیا تھا، پھر برتن خود مانجھ کر الگ کردیتی اس لئے کہ اس کی ساس کو اعتراض ہوتا تھا کہ کہارن اُدھر کے برتن مانجھ کر پھر اِدھر وہی ہاتھ لگائے گی۔ وہ اتنی کم عمر لڑکی اتنی سمجھدار کہ ساس کے سامنے گوشت نہیں کھاتی تھی۔ چپکے سے شوہر کی پلیٹ سے اٹھا کر کھالیتی تھی۔

”گوشت پکے تو ٹیبل پر لانے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے کمرے میں ہی کھاتے ہیں۔ ہمارے تو چھکے پنجے۔ ہم خوب اڑاتے ہیں۔ ممی کو ہمارا گوشت کھانا پسند نہیں ہے۔ کہتی ہیں، گوشت کھانے سے لڑکیاں ایگریسیو

 (aggressive)

 ہوجاتی ہiں۔“وہ منھ چھپا کر خوب ہنسی۔”خود تو پیاز لہسن تک نہیں کھاتی ہیں، پھر چنڈی کااوتار کیوں بنی رہتی ہیں۔“ اس نے ٹھی ٹھی ٹھی شروع کی۔

”بند کریہ پاگلوں والی ہنسی۔“کہنے کو تو کہہ دیا، لیکن رضوانہ خود اس کے ساتھ ہنسنے لگی تھی۔”اچھا یہ بتا، پھر تو کھاتی کیسے ہے؟ دوبارکھاتی ہے کیا؟ ساس سسر کے ساتھ ٹیبل پر تو بیٹھنا ہوتا ہوگا؟“

”یہ عام طور سے دیر سے کھاتے ہیں۔ اس سے پہلے تھوڑا ڈرنک بھی کرتے ہیں، اس لئے ہم ٹیبل پر بیٹھ کر تھوڑا سا چکھ کر، کچھ لپاڈگی کرکے اٹھ جاتے ہیں اور بریانی، دوپیازہ دکھائی پڑے تو ہم تو بھرے پیٹ پر کھالیں۔“ وہ پھر ہنسی۔

”اور یہ تو گنوار کی طرح ’ان، انہیں، وہ‘ کیا کرنے لگی ہے۔ منگنی کے بعد تو سنجے سنجے یوں کرتی تھی جیسے سنجے نہ ہوا، چھوٹا بھائی ہوا۔“

”ممی کو ناپسند ہے۔ پہلے ہم نے ان کے سامنے نام لینا بندکیا، لیکن اکیلے میں نام لیتے رہنے سے عادت نہیں چھوٹ رہی تھی، منھ سے نکل ہی جاتا تھا تو ساس سسر، آئے گئے، چاچا چاچی، سب گھورنے لگتے تھے۔ اب بھائی، ہمیں نندرانی مشرا کی بڑی بڑی آنکھوںسے بہت ڈر لگتا ہے۔ ہم نے کہا، چھوڑ بھائی، ٹنٹاختم۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ رہے گا تو شوہر ہی، نام میں کیا رکھا ہے۔“

اس نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی بڑوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھا تھا (یا اس سے رکھوایا گیا تھا۔)

کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟

لوگ باگ بہت دن بات کرتے رہے۔ رضوانہ نے چھٹیاں سنبھال کر رکھی تھیں، اس لئے تیرھویں تک رک گئی تھی۔ ایک دن اس کی چھوٹی سی بیٹی کا منھ دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ اس کا جی چاہا، کس کس کے جھانپڑ لگا کے میرا کا بیضوی، گورا چہرہ لال کردے۔ (پھراپنے خیال کے انتہائی درجے کے بے تکے پن پر اپنا ہی منھ پیٹ لیا۔) اس بچی کا تو خیال کیا ہوتا۔ بڑھتی عمر والے ماں باپ کا خیال کیا ہوتا۔ خود سارے دکھوں سے بے نیاز ہوگئی، مگر ایسے کون سے دکھ تھے؟ ایسا کون سا پاگل کر دینے والا لمحہ ذہن پر حاوی ہوگیاتھا جو انسان کی بنیادی کمزوری، اس کی زندہ رہنے کی خواہش کو کہنی مارمار کر پیچھے ڈھکیل دے؟

میرا کی ہم عمر کزن نے کئی باتیں بتائیں جو کہیں جگ ساپزل (Jigsaw Puzzle) کے ٹکڑوں کی طرح مل کر ایک تصویر اجاگر کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔

”ہم سے تو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا، جانہوی۔ ہم تو بچپن سے اس کے رازدار تھے۔ ذرا سا بھی شک ہوتا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تو کچھ کرتے۔ اس نے تو موقع ہی نہیں دیا۔“رضوانہ رونے لگی تھی۔

”کہا تو ہم سے بھی کچھ نہیں، رضوانہ دیدی۔ ہم بس آتے جاتے، ملتے جلتے، کچھ سمجھ رہے تھے اور کبھی کبھی دوسطروں کے درمیان، دوشبدوں کے پیچھے لکھی لکھائی پڑھنے کی کوشش کرلیتے تھے۔ آپ تو یہاں تھیں نہیں، کبھی کبھی ہی آتی تھیں۔“ اس نے بات جاری رکھی۔

”میرا آگے پڑھنا چاہتی تھی۔ اس کی اجازت نہیں ملی۔ کہا، بی اے کرا تو دیا، اب اور کیا کرنا ہے؟ میوزک کلاس کرنی چاہی، وہ منع۔ تھیٹر آرٹس گروپ جوائن کرنا چاہا تو پورا وبال ہی کھڑا ہوگیا۔ کسی زمانے میں اس کے بانی،جب وہ نوجوان تھے، ایک اینگلوانڈین لڑکی کے ساتھ سات سال گھومے، پھر اسے چھوڑ کر ایک خود سے پندرہ برس چھوٹی، کسی رجواڑے کی لڑکی سے اچانک شادی رچالی۔ اس لڑکی کے دادابندوق لے کر ان حضرت کا انتظار کرتے تھے کہ دکھائی دیں تو سیدھے شوٹ کردیں، لیکن پھر لڑکی کے یہاں بیٹا ہوگیا تو معافی تلافی ہوگئی۔ اب یہ بوڑھے ہوگئے تھے، لیکن نندرانی مشرا سمجھتی تھیںکہ تھیٹرآرٹس گروپ لفنگوں کا اڈہ ہے۔“

رضوانہ خاموشی سے سن رہی۔ میراکی بڑی خوبصورت آواز تھی۔ انٹرمیڈیٹ تک اس نے باقاعدہ میوزک سیکھی بھی تھی۔ گھرکی تقریبوں میں، سہیلیوں کی محفلوں میں وہ خوب گاتی۔

”پھر؟“

”پھر اس نے چار ماہ کا حمل گروایا۔ اس کا اسے بہت رنج تھا۔ آخر دوسرا بچہ ہی تو تھا۔ پھر بھی ہنس کر جھیل لے گئی، لیکن جب دوسرا حمل گروایا گیا، وہ بھی دھوکے سے، جس میں شوہر، ساس، سسر، ڈاکٹر، سب شامل تھے، تو اسے شوہر کے شامل ہونے سے بہت صدمہ پہنچا۔“

”دھوکے سے مطلب؟“ رضوانہ سخت حیران تھی۔

”ایک ٹیسٹ کے بہانے اسے بے ہوش کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے یقین دلایا کہ اندر بچے کی گروتھ رک گئی تھی، اس لئے فوری اسقاط ضروری ہوگیا تھا۔ زہرپھیلنے کا ڈر تھا۔ بعد میں تو جرح کرنے سے سب ظاہر ہی ہوگیا۔ میرا نے شوہر کو خوب لتاڑا۔ اس کی بند زبان کھل گئی تھی، ساس کے سامنے چیخنے چلانے لگی تھی۔ یہ سارا کچھ مجھے ٹکڑوں میں معلوم ہوا۔ کچھ یہاں سے، کچھ وہاں سے، آپ کو جس طرح بتارہی ہوں اس طرح نہیں۔“

”بات زیادہ بگڑتی تو میرا علیحدگی اختیار کرسکتی تھی۔ آخر جان دینے کی کیا تک تھی؟ جانہوی، تو ہی بتا۔“ رضوانہ ہاتھ ملنے لگی تھی۔

”علیحدگی کی تجویز میں نے رکھی تھی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ سنجے اب اس پر ہاتھ چھوڑنے لگا ہے، لیکن میراکے گھروالوں نے اسے فوری طور پر رد کیا۔ دادی نے کہا، لڑکی کو اتنی زبان نہیں چلانی چاہئے۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب کیا گھر گرہستی اور سہاگ پھونکے گی؟ شاید اسی لئے اس نے خود اپنی جان پھونک کر سب سے انتقام لیا۔“

”لگتا ہے، پہلے کی ساری دادیوں کی تربیت ایک ہی اکیڈمی میں ہوا کرتی تھی۔“ رضوانہ نے زہر خند کے ساتھ کہا:”ہماری دادی بتاتی ہیں کہ ان کے سسر، یعنی پاپا کے دادا کے ایک طوائف سے مراسم تھے۔ وہ لکھنو¿ کی نامی گرامی طوائف بدرمنیر تھی۔ پہلا فخر تو اسی بات کا تھاکہ بدرمنیربلانے پر ان کے گھر بھی آجاتی تھی۔ وہ مردان خانے میں بیٹھتی اور دادی اپنے ہاتھ کے مشہور پراٹھے سینک سینک کر شامی کبابوں کے ساتھ قابوں پر قابیں بھجواتی رہتیں۔ پاپا کے دادا کی بیشتر دولت ان ہی بدرمنیر اور ان کی بہن پر نچھاور ہوئی۔ حتیٰ کہ کچھ نہ رہا تو بیوی کی پہنچیاں دے آئے۔ “

وہ غم و غصے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب کیسا غم اور کیسا غصہ۔ ”میرا .... میرا .... یوں ہارنا چاہئے تھا کیا؟“

جانہوی نے جتنا کچھ بتایا تھا اس کے علاوہ بھی پتا نہیں کیا کیا ہوتا رہا تھا۔ پچھلی بار جب رضوانہ میرا سے ملی تھی تو اسے محسوس ہوا تھا کہ باربار خوش مزاجی کا نقاب سرک کر اندر سے ایک اور چہرہ جھانک رہا ہے۔ تب تک وہ سارے ”ایپی سوڈ“ ہوچکے رہے ہوں گے، لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں تھا۔ چلتے وقت بولی تھی۔”قمر چاچی اور انیس چاچا کے دباﺅ میں آکر بیاہ مت کرنا رضوانہ۔ جب جی چاہے اور جب صحیح آدمی ملے تبھی کرنا اور یہ ضرور بات کرلینا کہ تمہیں کتنی اولادیں پیدا کرنی ہیں اور کب۔“

”ممی کو اب بھیانک خواب آنے لگے ہیں۔ وہ عموبھی ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ اٹکی ہوئی ہے انوراگ پر۔ ممی کو معلوم ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاپا کو معلوم ہوا تو ایک اور ’آنرکلنگ‘ کی خبر میڈیا میں آجائے گی۔ ویسے عمو کو زیادہ فکر نہیں۔ دونوں ساتھ کام کرتے ہیں، شامیں اکٹھی گزارتے ہیں۔“

”ہمارے گھر تو آنرکلنگ کا خطرہ محض ذات الگ ہونے سے ہوگیا تھا، دھرم کی تو بات ہی چھوڑ۔ ماں اور دادی کو بھیانک خواب آنے لگے تھے، اس لئے جلدی سے جلدی جو لڑکا پکڑ میں آیااس سے بیاہ دیا۔“ وہ ہنسی۔”ویسے دیکھاجائے تو لڑکا دیکھنے میں اچھا، کماﺅ، پڑھا لکھا، ذات برادری اونچی۔ اب ہمیں بھی اور کیا چاہئے تھا؟ تو بتار ضوانہ، ایک عورت کو کچھ اور چاہئے کیا؟“

میراکی ماں نے رضوانہ سے بتایا:”ہم ایک دن سمدھن جی کے سامنے کہہ بیٹھے ’بھگوان سمجھے اس اہروا سے، نہ وہ زندگی میں آتا نہ ہمیں میرا کی شادی کی اتنی جلدی ہوتی۔تھوڑا رک گئے ہوتے تو رشتوں کی کیا کمی تھی۔‘ دراصل اس دوسرے ابارشن کے بعد ہماری ہنستی بولتی بیٹی کو چپ لگ گئی تھی اور وہ کمزور بھی بہت ہوگئی تھی۔ دوائیں، ٹانک، سب اٹھاکے پھینک دیتی۔ نان ویج کھاتی تھی، وہ چھوڑ دیا۔ اس لئے سمدھن جی سے ملاقات ہوئی اور اس کے باوجود انہوںنے میرا کی شکایتیں شروع کیں تو ہمیں آگیا غصہ۔ اسی لئے شاستروں میں غصے کو چار بڑی برائیوں میں گناگیا ہے۔ آدمی کی مت ماری جاتی ہے۔ ہم جو وہ انرگل بول گئے تو سمدھن جی کے کان تو خرگوش کے کانوں سے بھی لمبے ہوگئے۔ اب لاکھ ہم لیپاپوتی کریں، لیکن انہوں نے جاکے شک کا بیج داماد جی کے دماغ میں بودیا۔ ’وہ اہیر کون تھا؟ کب تھا؟اب کہاں ہے؟ اب بھی ملتا ہے کیا؟‘ دراصل انہیں میراکے الزام سے اپنا بچاﺅ کرنے کے لئے برہماستر ہاتھ لگ گیا، سراسر ہماری غلطی سے۔ میرا الزام لگاتی تھی کہ اسے دھوکا دے کر چوتھے مہینے کے آخر میں جیتے جاگتے بچے کو ماراگیا۔ وہ ڈاکٹر کانام سامنے لانے کی دھمکی دینے لگی تھی۔ یوں چپ رہتی تھی، لیکن غصے کا دورہ پڑتا تو .... شاید وہ ہمیں یہ سب بتاتی بھی نہ، لیکن اس دن اس نے اپنا غصہ ہم پر اتارا۔ ’اماں، تمہاری زبان قابومیں کیوں نہیں رہتی؟ اب بتاﺅ اپنے داماد اور اس کی چنڈی ماتا کو کہ وہ کون تھا، کب تھا اور کہاں ہے۔ تمہیں کو معلوم ہوگا، ہمیں تو خبر نہیں۔“

”پھرسنا، داماد ہاتھ چھوڑنے لگے تھے۔ ہم تو جانیں، اس لئے کہ اس کی زبان بند رہے۔“

”اور اس نے اپنی زبان ہمیشہ کے لئے بند کرلی! اور چاچی، اس میں اس کے سسرال والوں کا ہی نہیں، آپ سب کا بھی ہاتھ ہے۔ آپ سب جو پڑھے لکھے ہیں، اعلیٰ خاندان ہیں۔“لیکن رضوانہ نے بھی اپنی زبان بند ہی رکھی، سوچ کے رہ گئی۔ جو آپ ہی مر رہا ہو اسے مار کے کیا ملے گا۔ میرا نے زندہ رہنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑنے کی سوچی جاسکتی تھی۔ عورتوں کی یہ نسل تعلیم سے بے بہرہ نہیں تھی۔ میرا کی ماں، خود اس کی اپنی ماں، میرا کی ساس اور مرد تو خیر تعلیم یافتہ تھے ہی، لیکن یہ کیسی تعلیم تھی کہ ایک سائنس گریجویٹ نے بیوی کو اس لئے مارا تھاکہ اس نے دوسری بار بھی بیٹی پیدا کی تھی؟ سائنس پڑھ کر بھی اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ بیٹی یا بیٹا مرد کی دین ہوتا ہے؟ یہ ممانے بتایا تھا اور ساتھ ہی جوڑد یا تھا۔”یہ ۴۷ کی بات ہے، اس وقت حمل میں بچے کی جنس پتا کرنا اور اسقاط کرانا عام نہیں ہوا تھا، ورنہ وہ لڑکی یوں مارنہ کھاتی۔ ہاں! بچی جو پیدا ہوئی وہ ماردی گئی ہوتی۔“

نندرانی مشرا کی دلیل اس سلسلے میں کچھ الگ ہی تھی، جو میرانے پہلے اسقاط کے بعد ہنس ہنس کر رضوانہ کو بتائی تھی۔”عورت کے جسم کے اندر جو کیفیت ہوتی ہے وہی یہ تعین کرتی ہے کہ عورت کا بیج مرد کے ایکس کروموسوم قبول کرتا ہے یا وائی، اس لئے عورت ہی ذمہ دار ہے۔“

”یہ آپ نے کہاں پڑھا ممی؟ کس نے بتایا آپ کو؟“ میرانے ساس سے ملائمیت سے پوچھا تھا۔

”ہم نوٹس نہیں بناتے پھرتے کہ تمہیں ریفرنس دیں۔ تصدیق کرنا چاہتی ہو تو اپنے طور پر ریسرچ کرلو۔“ انہوںنے رکھائی سے جواب دیا تھا اور میرا کو بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتی، کٹھ حجت قرار دیتی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

اور اس کے آفس میں لوگ کم تعلیم یافتہ تھے کیا؟ سب وکیل۔ کئی تو تجربہ کار گھاگھ بھی۔ مجرم کو معصوم بنادیں، معصوم کو مجرم۔ جب سے رضوانہ نے عمر کے تیسویں سال کا کیک کاٹا تھا، بیشتر اس کا حوالہ ’اولڈمیڈ‘ کہہ کردینے لگے تھے۔ ایک بار کسی نے کمنٹ کیا تھا۔ ”یار کھائی کھیلی لگتی ہےں۔ اب ایسی معصوم بھی نہیں جیسا پوز کرتی ہیں۔“

”کولھے خاصے بھاری ہیں۔ ایسے کولھوں کا مطلب ہے کہ ہر تجربے سے گزرچکی ہیں۔“ جواب ملا۔

ایک شادی شدہ ہمکار نے براہ راست پروپوز کیا تھا۔ پس منظر میں دی جانے والی موسیقی کے طورپر وہ نہایت لطیف پیرائے میں یہ بتاتے چلے آرہے تھے کہ بیوی سے ان کے تعلقات صحیح نہیں ہیں۔ بغیر نام بتائے انہوںنے ہی رضوانہ پر کی جانے والی چھینٹا کشی کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ کچھ اِدھر اُدھر سے، کچھ بالواسطہ تبصروں سے، اسے خود بھی پتا چلتا رہتا تھا اور وہ چومکھی لڑائی لڑتی رہتی تھی، اسی لطیف پیرائے، اسی بلاواسطہ اظہار کے ذریعے۔

”مجھے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کا پورا حق ہے۔“

اس نے مضبوطی کے ساتھ اپنے آپ سے کئی بار کہاتھا اور اس پر قائم تھی۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی جب کچھ لوگوں نے یہ اشارہ کیا کہ جس لڑکی کے ساتھ وہ فلیٹ میں رہ رہی ہے اس کے ساتھ اس کے لیزبین تعلقات ہیں۔

”چھی، گھن آتی ہے ہمیں۔“ رضوانہ نے کہا تھا تو اس کی دوست ہنسی تھی۔

”اتنی سی بات سے گھن آنے لگی؟اوکھل میں سردیا ہے تو موسل کے دھمکے کھانے سیکھو۔“

وہ مزاج میں میرا جیسی لگتی تھی۔ ہنسوڑ، ہربات کو چٹکیوں میں اڑانے والی، اپنے آپ میں مگن، رضوانہ نے سوچاتھا۔

اس سال لکھنو¿ میں ٹھنڈ معمول سے زیادہ پڑی تھی۔ کہرے سے سرشام اندھیرا چھاجاتا۔ کئی دن سے سورج نہیں نکلاتھا۔ میرا کی ماں کے یہاں سے آنے کے بعد رضوانہ کو لگ رہا تھا، ایک ٹھنڈا اندھیرا اس کے وجود میں بھی اتر آیا ہے۔ میراکی ماں نے جو کچھ کہا تھا، ان ٹھنڈے اداس لمحوں میں رضوانہ نے اسے قمر کے ساتھ بانٹا۔

”دنیا اب زیادہ پیچیدہ ہوچکی ہے او راپنی ساری تعلیم اور ساری تکنیکی ترقی کے باوجود زیادہ سفاک اور بے رحم۔ اب لڑکیاں بول رہی ہیں۔ پہلے بولتی نہیں تھیں۔ کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا ہونے پر جس پہلے لڑکے کے ہاتھ لگنے پر بادشاہ اپنی بیٹی بیاہ دیتا اس کے ساتھ خاموشی سے زندگی گزار دیتیں اور مرکھپ کر جنت پہنچ جایا کرتیں۔“

قمرنے لمبی سانس کھینچ کر لمبی بات کی۔ پھر دونوں ماںبیٹی کچھ عرصے خاموش رہیں۔ انگیٹھی کے کوئلوں پر راکھ کی پرت موٹی ہونے لگی تھی۔ قمر نے اسے لوہے کی تیلی سے کریدا (اسے ہیٹر کی جگہ انگیٹھی جلانا زیادہ اچھا لگتا تھا) اور بات کا سرا دوبارہ پکڑا۔

”ہم اور تمہارے پاپا، دونوںنے اب تمہاری اور عمرانہ کی زندگی میں دخل دینا بندکر دیا ہے، لیکن شاید تمہیں معلوم نہیں کہ لوگ ہمیں کیاکیا سناتے ہیں۔ ایک دن ایک ٹیچر نے ہمیں سناکر اسکول میں کہا ’لڑکیاں پڑھ لکھ کر کمانے لگیں تو ماں باپ بے فکر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ بربھی خودہی ڈھونڈلائیں گی۔‘ اس کا لے کوسوں دور بمبئی سے یہاں آجاﺅتو کم ازکم گھر میں آرام اور اطمینان سے رہوگی تو۔ لکھنو¿ کوئی دیہات تو نہیں۔“

”ہاں! اس گھونسلے میں بڑی عافیت ہے۔ ماں باپ ہیں، ان کی شفقت کا تحفظ ہے، لیکن ممی، اس دنیا میں ہم جیسے بھی بہت ہیں۔ پرائے پھٹے میں ٹانگ نہ اڑانے والے، اپنی آزادانہ زندگی ایسے اصولوں کے تحت گزارنے والے جن سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔ تم اٹھائیس برس کی ہوگئی تھیں تو نانی نے سوچاتھاکہ تمہاری شادی اب نہ ہوگی۔ پھر ہوئی نا؟ ہم اکتیس برس کے ہوگئے ہیں تو تم بھی اسی طرح سوچ رہی ہو۔ کتنی ترقی ہوئی تمہاری تعلیم کی وجہ سے؟ صرف دوتین سال کی؟ مما، شادی ازناٹ دی اینڈ آف دی ورلڈ، کوئی ایسا مل گیا جس کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا دل چاہا تو ضرور کریں گے۔ فی الحال تو پرسوں کی فلائٹ کا ٹکٹ بک ہے۔ واپس جارہے ہیں۔ ہماری فکر مت کیا کرو، مما....“

اس کی آنکھیں دور خلامیں کچھ دیکھنے لگی تھیں۔ انگیٹھی پرجمی راکھ کی پرت موٹی ہوگئی تھی اور قمر کے دل پر جمی بے چینی کی بھی۔

اس دن پھر قمر نے آفس کے دوران فون کیا۔ گھر پر اس نے رضوانہ کو یقین دلایا تھا کہ اشد ضرورت کے علاوہ وہ کبھی آفس کے اوقات میں فون نہیں کرے گی۔ رضوانہ کا دل طوفان میل کی رفتار سے دھڑکنے لگا۔ کیا ممی، اب کیا سناو¿نی سنانے جارہی ہو۔

”سنجے کو عدالت نے باعزت بری کر دیا ہے۔“ قمر کی آواز میں آنسوو¿ں کی لر زش تھی۔ ایک اہم فائل سامنے تھی، پھر بھی رضوانہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔فون پر اس کا ہاتھ لرزنے لگا تھا۔

”میرا کے گھر والوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، لیکن سنجے اور اس کے گھر کے کسی بھی فرد کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔ سنجے کو بھری عدالت میں یہ کہنے میں کسی سبکی کا احساس نہیں ہوا کہ....“ قمر کی آواز قدرے لڑکھڑائی ”....کہ شادی سے پہلے اس کی بیوی کی کسی سے شناسائی تھی اور وہ اس کی وجہ سے شدید ڈپریشن کے عالم میں رہا کرتی تھی۔ دوسرے بچے کے وقت اس نے اسی لئے حمل ساقط کرادیا تھا کہ دو دو بچے اس کے پیروں کی بیڑیاں نہ بن جائیں۔ وہ طلاق لے کر واپس لوٹ جانے کے پھیرے میں تھی۔ اپنے بیان کی تصدیق میں اس نے نہ جانے کہاں کہاں سے گواہ لاکر کھڑے کر دیے۔ دوسرے اسقاط کے بعد وہ یقینا ڈپریشن کے عالم میں تھی، لیکن وجہ وہ نہیں تھی جو بیان کی گئی ،لیکن ہوا یہ کہ ڈاکٹر کے کچھ نسخے موجود تھے جن میں Antidepressantاور نیند لانے والی دوائیں تجویز کی گئی تھیں۔“

رضوانہ بت بنی سنتی رہی۔ قمر نے اتنا بتا کر فون رکھ دیا۔ ”مجھ سے برداشت نہیں ہوا رضوانہ۔ ابھی فوراً تم سے یہ دکھ نہ باٹتی تو شام ہوتے ہوتے نہ جانے دل کی کیفیت کیا ہو جاتی۔“میرا سے جو تعلق تھا اس کے علاوہ مجھے تو یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ آج بھی عورتیں کس قدر Vulnerableہیں۔ تو ایسے عورت موافق قانون بنائے ہیں ہم نے۔

باقی جتنا وقت آفس میں گزرا، رضوانہ کو ہر فائل میں سے میرا جھانکتی نظر آئی۔ ایک ناکام محبت کا درد لے کر بھی انتہا ئی زندہ دلی کے ساتھ جینے والی لڑکی۔ زندگی میں جو ہاتھ آیا اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے والی لڑکی ۔ کردار کشی لیکن برداشت نہ کر سکی اس لئے کہ جس شخص کا نام لے کر اس پر کیچڑ اچھالی گئی اسے تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اسے واقعی یہ نہیں معلوم تھا (اور نہ اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی) کہ اب وہ کہاں تھا، شادی شدہ تھا یا کنوارا۔ اسے یاد کرتا تھا یا ماضی کی غلطی سمجھ کر بھلا چکا تھا۔ دوبیٹیوں کو حمل میں ہی مار دینے کی اذیت کے ساتھ مل کر اس اذیت نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی پاکدامنی پر اچھالی گئی کیچڑ اس کے لئے تیزاب بن گئی۔ میرا ، میراتو....کتنی بار جنم لے گئی؟ کب تک لیتی رہے گی؟

گھر لوٹ کر اس نے سمیر کو فون کیا۔ ممبئی کے فاصلوں کے حساب سے سمیر بہت قریب رہا کرتا تھا بغیر بتائے تھوڑی دیر میں آگیا۔

”چلو تمہیں کچھ Comfort Foodکھلا کے لاتے ہیں۔ راستے سے اوما کو بھی اٹھا لیں گے۔“

”ایسے کہہ رہے ہو جیسے اوما کو اغوا کرنے کا ارادہ ہے۔“ رضوانہ اس اداسی کے باوجود مسکرا پڑی۔ سمیر کی موجود گی بڑے سے بڑے ڈپریشن کو دور کر دیا کرتی تھی۔

”تمہارا دماغ ٹیڑھا ہی چلتا ہے۔ یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ اوما کوئی چیز ہے کیا جسے اٹھا لیا جائے یایہ کہہ کر لڑ سکتی تھیں کہ تم مرد عورتوں کو چیز بست سمجھتے ہو وغیرہ ۔یہ تمہارے دماغ میں اغوا کا لفظ کیسے آیا، کہاں سے آیا؟“

”لگتا ہے وکیل میں نہیں تم ہو۔“

” جب کچھ نہیں سوجھتا تو تان اسی گھسے پٹے جملے پر ٹوٹتی ہے اچھا یہ بتاو¿ یہ تمہاری پٹاخہ روم میٹ کہاں ہے اس وقت۔ اسے بھی لے لیتے۔“

”لڑکیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے واقعی تم سب اوقات پہ آجاتے ہو۔پٹاخہ ،چک، سیکس بم کم ازکم تم جیسے مہذب شخص کے منھ سے تو یہ لفظ بالکل اچھے نہیں لگتے۔“

”چلو یہ تو مانا کہ ہم مہذب ہیں، ہم سمیر چترویدی ۔ ورنہ ہمارے چاروں ویدوں کے علم کے باوجود تم نے ہمیشہ ہمیں غیر مہذب گردانا ۔ہمیں ہی نہیں ہماری پوری قوم کو۔“ وہ شرارت سے مسکرایا۔

رضوانہ نے اسے قہر آلود نظروں سے گھور کر دیکھا ۔”تم اور تمہارا علم ! اجداد کے علم پر کودتے ہو۔ نہ جانے کب کس نے حاصل کیا تھا چار ویدوں کا علم اور چتر ویدی بن گئیں آنے والی جاہل نسلیں۔“

”ہاہاہا ....آگئی لڑکی فارم میں چل اٹھ تیار ہو۔“ سمیر نے قہقہہ لگا کر کہا۔ کچھ لیپا پوتی بھی کر لینا۔صورت پہ بارہ بج رہے ہیں۔“

رضوانہ نے واش روم میں لگے آئینے میں چہرے پر نظر ڈالی۔ واقعی ستا ہوا ہو رہا تھا۔ وہ خوبصورت کسی زاویے سے نہیں تھی بس چہرے پر جاذبیت تھی اور سراپا متناسب تھا-

ہاں کپڑے سلیقے سے پہنتی تھی۔ حسیں لڑکیاں تو ماتمی شکل بنالیں تو بھی حسین لگتی ہیں۔ اوسط صورت

ہرمنفی جذبے کے ساتھ مسنح ہونے لگتی ہے اور اوسط سے نیچے اتر آتی ہے، لیکن یہ مجھے صورت کا احساس کب سے ہونے لگا؟ وہ چونکی مجھے، حقیقت کی سنگلاخ زمینوں پر چلنے والی لڑکی کو۔

اس نے ہاتھ منھ دھوکر چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا اور وارڈ روب سے ایک خوبصورت شلوار سوٹ نکالا۔ روزانہ تو کالے سفید کپڑوں میں گزر ہو جاتی تھی۔ شام کو کہیں جانا نہ ہوا تو وہ سیدھے ہاو¿س کوٹ پہن کر آرام کرسی پر نیم دراز ہو جایا کرتی تھی۔

ڈرائینگ روم میں آئی تو سمیر نے اس پر تو صیفی نظریں ڈالیں۔ اسے قدرے حیا کا احساس ہوا اور اس نے سہم کر منھ موڑ لیا۔ یہ کیا ہورہا ہے اسے۔

اوما خوشی خوشی ساتھ ہو لی۔ اس کا شوہر سنگا پور گیا ہوا تھا۔ وہ دس منٹ میںتیار ہو کر آگئی۔ سوچ ہی رہی تھی کہ شام کو کیا کروں۔ بہت بور ہو رہی تھی۔ اس نے مسرور لہجے میں کہا:” اور اسے کیوں نہیں لے لیا؟ وہ باہر ہے کیا؟“

”کون؟“

”ارے وہی تمہاری چھمک چھلو۔“

سمیر اتنی زور سے ہنسا کہ اسٹرینگ پر اس کے ہاتھ ذرا کی ذرا بہک گئے۔

”ایسی کون سی بات کہہ دی میں نے؟ اوما ناراض ہو گئی۔

تم عورتیں! بائی گاڈ! میں نے اسے پٹاخہ کہا تھا تو وکیل صاحبہ ناراض ہو گئیں۔ تم نے چھمک چھلو کہا تو کوئی ری ایکشن نہیں ہوا۔

چھمک چھلو، پٹاخہ جیسا گھٹیا نہیں لگتا۔ پھر ہم تو good humour

میں کہہ رہے ہیں “

”تم جو کہووہ،good humour

،ہم جو کہیں وہ گھٹیا، دراصل تم عورتیں عورتوں کی سب سے بڑی دشمن ہو۔“

”کیوں؟ مرد دشمن نہیں ہیں مردوں کے ؟ قتل و غارت گری کو ن کر رہا ہے؟“

”تم نے تو محاذ کھول رکھا ہے ہمارے خلاف یہ تمہارا فیمنیزم!جھنڈے لے لے کے کھڑی ہو رہی ہو!“

”تم میرا ڈپریشن دور کرنے کو باہر نکلے تھے سمیر!“

 رضوانہ نے ہولے سے کہا۔

”لڑنے سے بھی ڈپریشن دور ہوتا ہے اور کٹھ حجتی تمہاری سرشت میں ہے۔ میں تمہارا ڈپریشن ہی تو دور کر رہاہوں ۔ ویسے جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ کچھ بھی گڑھا ہوا نہیں۔“

”اور کیا کیا ہے عورتوں کی سرشت میں؟“ اوما کے لہجے میں شرارت تھی۔ ”سب سے بڑی بات تو یہ کہ سیدھے راستے سے بھٹکا دیتی ہیں۔ پتھ پھرشٹ کرنے والی اور مسلمان ہوئیں تو سونے پہ سہاگا۔ دھرم بھی بھرشٹ کرادیں۔“ سمیر نے قہقہہ لگایا۔

”ہاں گوتم بدھ بیوی کو چھوڑ کر چل دیے تھے۔“

”اور بھرتری ہری بھی“

اور تلسی داس بھی۔“

”اور حضرت عیسیٰ نے شادی ہی نہیں کی تھی۔“

”اور کبیر نے کی بھی تو کہا کہ عورت ناگن ہے یا باگھن، بلکہ دونوں۔“

دونوں لڑکیوں نے ایک کے بعد ایک نہایت روانی سے کسی واعظ کے انداز میں کہا:

سب حق گو تھے۔حق گو اور راست باز 

(سمیر نے میڈیوئیل ہسٹری پڑھنے کے دوران کچھ فارسی پڑھی تھی اور پھر اردو)

”اگر مجھے گاڑی کے ایکسڈنٹ کا ڈر نہ ہوتا تو تمہاری پیٹھ پر اتنی زور کا گھونسہ مارتی کہ

slipped disc

کا خطرہ لاحق ہو جاتا۔“ رضوانہ نے کہا:

”گاڑی سے اتر کر مار لینا۔ میرا تو کچھ نہ بگڑے گا ، تمہاری کلائی میں مو چ آسکتی ہے۔تم عورتیں برابری کے دعوے کرتی اچھی نہیں لگتی ہو۔ جتنے بھی بزرگ گزرے ہیں سنت مہاتما ،پیرپیغمبرسب نے ہی ایسا کچھ کہا ہے اور مذہبی صحیفوں نے بھی۔“

”وہ سارے سا دھو سنت ،پیر ،پیغمبرمرد تھے اور صحیفے بھی یا مردوں نے لکھے ہیں یا ان پر اترے ہیں۔“

”گیان صرف مردوں کے پاس رہا۔ وہی اس کے لائق تھے۔“

سمیر نے کنکھیوں سے دونوں لڑکیوں کو دیکھا ”مردوں کے پاس ہی نہیں تم کم بخت چتر ویدیوں، دویدیوں کے پاس ۔ شودروں اور عورتوں کو تم نے ٹاٹ باہر کر دیا۔“

”ارے اب تو آسمان میں تھگلی لگارہی ہو۔ اب لے لو گیان۔ اب کیوں عقل کے پیچھے لٹھ لے کے دوڑ رہی ہو؟“

سمیر نے گاڑی روکی ان لوگوں کا پسندیدہ کافی ہا وس آگیا تھا۔ وہاں عمدہ کافی اور کچھ چیزوں کے علاوہ بہت ہی سبک چھوٹی چھوٹی پیسٹریاں بھی ملتی تھیں،جن پرپھلوں کے باریک ٹکڑوں سے ایسی خوبصورت سجاوٹ ہوتی تھی جیسے کشیدہ کاری کی گئی ہو۔ سبزکیوی تیز گلابی اسٹرا بیری، چمکیلے زرد آڑو اور خوبانی، ارغوانی آلو بخارے انہیں باریک اور دیدہ زیب صورتوں میں تراشنا بذات خود ایک فن تھا اور ایسی ہلکی کہ بقول رضوانہ کھا کے لگتا تھا خود تتلی بن کے اڑنے لگے۔

رضوانہ سے پوچھے بغیر سمیر نے بہت سی پیسٹریاں آرڈر کیں اور چکن پف اور کپچنو اوما سے اس نے کہا کہ اگر وہ اپنے لئے کچھ اور منگانا چاہے تو آرڈر کر دے۔

وہ سب وہاں دیر تک بیٹھے گپ کرتے ،دوستانہ جھگڑے کرتے، دھواں دھار بحثیں کرتے اور کافی کی چسکیاں لیتے رہے۔

سمیر جیسا شوہر میرا کو کیوں نہیں ملا۔ میرا پیاری میرا....

سمیر اسے واپس ڈراپ کررہا تھا تو میرا جو تھوڑی دیر کے لئے ذہن سے محو ہو گئی تھی پھر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگی۔

اور میں خود؟ کیا میں سمیر کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی؟ اس نے فوراً دل ود ماغ کے دروازے بند کرلئے جیسے ذراسی درز کھلنے پر کسی بھوت کا چہرہ دکھائی دے گیا ہو۔

فلیٹ میں روشنی جل رہی تھی۔ سمیر نے باہر آکر اس کے لئے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا:”آگئی ہے وہ.... کیا کہتے ہیں کہ ....چھمک چھلو تو کہہ سکتا ہوں نا؟“

”تم ہو ایک نمبر کے کمینے۔ خیر تھنکیو۔تھینکیو ویری مچ ۔ کم از کم اس وقت تو تم نے ڈپریشن دور کردیا۔“

”روز کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ رہوگی تو کبھی اداس نہیں ہوگی۔“یہ کہتے ہوئے کیا وہ واقعی سنجیدہ تھا یا رضوانہ کو ایسا محسوس ہوا کہ اس مسخرے انسان میں کہیں اندر اندر بڑی گہری سنجیدگی موجود ہے۔

”فلرٹ کر نے کی کوشش مت کیا کرو۔ گدھے لگنے لگتے ہو۔ بائی۔”اس نے بلڈنگ کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

جوہی شاید کچھ دیر پہلے ہی لوٹی تھی۔ اس کا بیگ سامنے ہی تھا اور اس نے ابھی میک اپ بھی نہیں اتارا تھا۔”ہائی!“ اس نے اپنی ائرہوسٹس والی پیشہ ورانہ مسکراہٹ پھینکی ۔

جوہی مسکراتی تو اس کے دونوں گالوں میں ننھے ننھے بھنور بنتے اور وہ اوسط درجے کی قبول صورت سی لڑکی اچانک حسین لگنے لگتی۔ وہ طویل قامت اور متوازن جسم کی لڑکی تھی اور بڑے فخر سے کہا کرتی تھی ، لوگ مجھے سیکسی کہتے ہیں ”ضرور کہتے ہوں گے ،لیکن میرے سامنے اس طرح کی بکواس مت کیا کرو۔“ رضوانہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے کئی بار تنبیہ کی تھی۔

”تم مجھ سے کوئی چار پانچ برس بڑی ہو لیکن ہمارے درمیان بھر پور جنریشن گیپ ہے۔ آنے دو اماں اور پاپا کو تم سے خوب نبھے گی۔“جوہی نے ایک مرتبہ جواب میں کہا تھا۔ وہ نہایت ڈھیٹ لڑکی تھی۔ اپنی زبان بولتی اور اپنی مرضی کی حرکتیں کرتی رہتی۔ اکثر نہا کر صرف ایک تولیہ لپیٹ کر نکل آتی۔ رضوانہ غصے سے گھورتی تو کہتی، تمہیں میرا جسم خوبصورت نہیں لگتا۔ مانا تم لزبئین نہیں ہو، لیکن

aesthetic sense

بھی تو کوئی چیز ہے۔بھر ایڑیوں پر گھوم کر کہتی ۔فلموں یا ماڈلنگ میں چانس مل جائے تو ہم تو اس طرح نہ جانے کتنے مردوں کے سامنے نکل آئیں تم تو عورت ہو اور اس فلیٹ کے کمرے میں بند۔“

اس کی بے باکی اور بعض قابل اعتراض الفاظ کے استعمال کے باوجود اس سے کبھی کوئی شکایت رضوانہ کو نہیں ہوئی۔ وقت پر اپنے حصے کا کرایہ ادا کرتی، گھر پر ہوتی تو کچن میں ہاتھ بٹاتی، اگر رضوانہ کا م کررہی ہو تی تو خاموشی سے دوسری طرف چلی جاتی۔

”تم پر فیکٹ انسان ہو۔ بس پیا مت کرو۔“تعلقات میں نزدیکی آئی تو رضوانہ نے کہا۔

”تمہارے سامنے کہاں پیتی ہوں؟ انتظار میں ہوں کہ تم شروع کرو۔“

”لونڈوں کے ساتھ گھومتی ہو ۔پی کے آتی ہو تو صاف پتہ چلتا ہے۔“

اور تم؟ اولڈ میڈ بنتی جا رہی ہو۔ ذرا بوائے فرینڈزبناؤ بس لے دے کے وہی ایک سمیر....“

رضوانہ نے غصے میں بات کاٹ دی۔

”وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔“

”کیوں؟ فرینڈ بھی ہے اور بوائے بھیGayہے کیا؟ لگتا تونہیں۔“

رضوانہ واقعی ناراض ہو گئی۔“ کترنی کی طرح زبان چلتی ہے۔ جو منھ میں آیا بک دیتی ہو۔تم اچھی طرح جانتی ہو بوا ئے فرینڈ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور تم اسے کس سنس میں استعمال کر رہی ہو۔“

”چچ چچ چچ۔اب اگر وہ بھی صرف فرینڈ ہے تو لعنت ہے تم پر ۔کس دور کی پیداوار ہو؟“

”تمہاری دادی کے دور کی ۔“

رضوانہ نے جل کر جواب دیا تھا۔

ائر ہوسٹس ہونے کی وجہ سے جوہی کب آتی تھی اور کب جاتی تھی اس کا کوئی حساب نہیں تھا۔ایک مشترکہ دوست کی معرفت ان دونوں کی ملاقات کرائی گئی تھی اور فلیٹ لیا گیا تھا۔ دونوں نے جو سمجھوتہ کیا تھا اس میں علاوہ دوسری شرائط کے یہ بھی تھی کہ کوئی کسی کے معاملات میں دخل نہیں دے گا۔

رضوانہ کو کئی بار محسوس ہوا تھا کہ جوہی کا لائف اسٹائل اس کی تنخواہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگا تھا، لیکن اس نے کبھی کسی تجسس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ کیا پتہ اس کے والدین دولت مند ہوں۔ پھر یہ بات تو تھی ہی کہ جوہی پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ جو کماتی تھی اس کا اپنا تھا۔ سب اڑا دیتی ہو گی۔ نہایت لاابالی تھی۔ بتاتی تھی کہ زبردستی گھر سے لگ بھگ بھاگ کر یہ ملازمت کی تھی اس لئے کہ والدین شادی کے لئے بضد تھے اور وہ ابھی شادی کے لئے قطعی رضا مندنہیں تھی۔ چھٹیوں میں نہ جانے کہاں کہاں اڑی پھرتی۔ ایک بار سنگا پور گئی تھی۔ واپس آئی تو بے تحاشہ شاپنگ کر کے لوٹی تھی۔ اس میں رضوانہ کے لئے ایک یوروپیئن ڈریس بھی تھا۔

”میں یہ پہنوں گی؟ کبھی ایسا کچھ پہنے دیکھا ہے؟“

 رضوانہ نے آنکھیں نکالیں۔

”ارے پہن لے اولڈ میڈ، سیکسی لگے گی۔“

رضوانہ کسی طرح راضی نہ ہوئی تو جو ہی نے اس کے بدلے مگر مچھ کے چمڑے کا ہینڈ بیگ دیا جو بہت قیمتی تھا۔”میں اسے لے کر چلوں گی تو باقی حلیے کو دیکھ کر لوگ سمجھیں گے کہ میں نے اسے کسی بڑے اسٹور سے چرایا ہے۔“ رضوانہ نے تحفہ قبول تو کر لیا لیکن ہنس کر کمنٹ بھی دے ڈالا۔

”تو کپڑے بھی لا دیتی ہو ںجو میچ کریں۔“

”ارے بیوقوف لڑکی ۔میرے پاس کیا پیسے نہیں ہیں۔ یہ تو اپنااپنا لائف اسٹائل ہے۔“

”شرط لگا لو ۔تمہیں تمہارے مرد کو لیگ سنڈے اسکول ٹیچر کہتے ہوں گے۔“

رضوانہ لمحے بھر کو چونک گئی۔ اپنے بارے میں یہ کمنٹ وہ سن چکی تھی۔ خود سمیر نے اسے کئی بار سنڈے اسکول ٹیچر کہا تھا۔ پارٹیوں میں جانے کا وقت بھی کم تھا اور جاتی بھی تو لباس اور میک اپ قابو میں رہتے ۔ جہاں بیئر اور وہسکی سے شغل ہو رہا ہو وہاں ایک کونے میں سافٹ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں لئے بیٹھی رہتی اور یہ ممبئی کی ہائی سوسائٹی نہیں تھی۔ خالص مڈل کلاس ۔ہائی سوسائٹی میں تو اس کے دخل کا سوال بھی نہیں تھا کہ وہ اس طبقے کا فرد تھی نہ اس طبقے کے کسی فرد کی دوست۔

”کہنے دو۔تمہیں کیا۔ تم بنی رہو چھمک چھلو۔“

”ہاہاہا میری ماں کی ساری پریشانی یہی ہے کہ میں چھمک چھلو بنی پھر رہی ہوں حالاں کہ جب میں گھر جاتی ہوں تو میرا سارا میک اپ کا سامان اور پسندیدہ کپڑے یہیں پڑے رہتے ہیں۔ ویسے چھٹیاں بھی بہت کم ملتی ہیں۔“

”اور ملتی ہیں تو کہیں باہر اڑجاتی ہو۔“

”میں کیا کروں۔“ اس نے لا پروائی سے کہا۔

” ہیں نا اڑا کے لے جانے والے۔“

رضوانہ خاموش رہی۔ کسی قسم کے تبصرے کا حق اس نے خود کو نہیں تھا۔ وہ تو عمرانہ کے معاملے میں بھی نہیں بول پاتی تھی۔

جوہی خود ہی کہنے لگی۔”اماں کو بڑا ڈر ہے کہیں کسی ہائی فائی قسم کے دولت مند آدمی سے شادی نہ کر بیٹھوں۔ پڑھی لکھی ہیں۔ اخبار اور میگزین پڑھتی رہتی ہیں۔ کہتی ہیں اس طرح شادیاں کامیاب نہیں رہتیں۔ بس ایک ہی شادی ایسی دیکھی جو کامیاب رہی، نسلی اور مورین واڈیا۔ اب چہار دیواری کے اندر جو بھی ہو رہا ہو لیکن شادی نبھی ہوئی تو دکھائی دے رہی ہے۔“

”کیا پتہ تجھے بھی ویسا ہی شریف انسان مل جائے۔ ہائی فائی اور دولت مند ہونے کے باوجود َ“

رضوانہ ہنسی ۔ گپ کے موڈ میں تھی۔

”اور جو کہیں جات دھرم الگ ہو گیا تو ۔زیادہ امید یہی ہے کہ الگ ہی ہوگا۔“

شادی ،شادی ،شادی جس برادری جس خطے میں دیکھو ماں باپ مرے جارہے ہیں، لیکن ذات برادری کو بھی ابھی تک چمٹے ہوئے ہیں۔ ڈر کے مارے ڈھیل ڈالیں گے بھی تو اتنی کہ اونچی ذات کی لڑکی ہوئی اور اتفاق سے ٹکر کی ذات والا لڑکا لے آئی توچلو مارے باندھے قبول کرلیا،مگریہ مذہب تو بڑے مسئلے کھڑے کر دیتا ہے۔ اس نے جو ہی کی ماں کا تصور کیا۔ متوسط طبقے کی ڈری سہمی ماں۔ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بھی روایتوں میں جکڑی ہوئی ماں ۔کہیں ”ایسا ویسا“ ہو جانے کے ڈرسے رات کی نیند یں کھوتی ہو ئی ماں ۔ اکیسویں صدی میں پیدا ہوکر عہدو وسطیٰ میں جیتی ہوئی ماں۔ بیٹی کے ائر ہو سٹس بننے پر شاید ائر کریش سے زیادہ ڈرا نہیں یہی لگا رہتا ہوگا کہ نہ جانے کس ذات ، کس فرقے کا لڑکا پکڑ لائے گی۔ کہیں کسی کے ساتھ بغیرشادی کئے تو رہنے نہیں لگے گی۔ کتنی کم ترقی کی ہے ماو¿ں نے۔ بس اتنا ہی کہ لڑکی نے ضد کی تو ائرہوسٹس بن جانے دیا۔ ہاتھ پیر توڑ کر گھر پر نہیں بیٹھا یا نہ جو پہلا لڑکا نظر آیا اس سے شادی کر ڈالی

(لیکن میرا کے ساتھ تو لگ بھگ یہ بھی ہو چکا تھا)

جوہی کے والدین اکثر بلا اطلاع آجایا کرتے تھے اور ایک دو دن رہ کر واپس چلے جاتے تھے۔"

They are keeping tabs on me."

 جوہی نے کہا تھا۔

کیوں تم اسے اس نظر سے کیوں نہیں دیکھتیں کہ تم ان کی اکلوتی لڑکی ہو اور بھائیوں سے چھوٹی ہو اس لئے تمہاری محبت انہیں یہاں کھنچ لاتی ہے۔ تم کمبخت ماری کو چھٹیاں ملتی ہیں تو چل دیتی ہو ہانگ کانگ اور سنگاپور تفریح کرنے۔ اگلا پروگرام یو روپ کا بنا چکی ہو۔“

”سوچتی ہوں زندگی کاجتنا لطف اٹھا سکتی ہوں اٹھالوں۔ پتہ نہیں کس کمبخت مارے کے حوالے کر دی جاوں وہ کس طرح کی زندگی دے گا مجھے۔“

”تم، تم سے تو بھوت بھی ڈرے ۔تمہارا کوئی کیا بگاڑے گا۔“ رضوانہ نے ہنس کر کہا۔

”بھوت سے بڑی چیز تم نے دیکھی نہیں وکیل صاحبہ ۔میں عمر میں پانچ برس چھوٹی، مگر تجربے میں پچاس برس آگے ہوں۔ باہر نکلو ذرا۔“

اور کتنا باہر نکلوں گی۔ رضوانہ نے سوچا۔ میری نانی گاو¿ں سے ہجرت کرکے پرتاب گڑھ آئیں، ممی وہاں سے نکل کے لکھنو¿ پہنچیں جہاں نسبتاً بڑے شہر کی نسبتاً زیادہ آزاد زندگی تھی۔ بقول ان کے میں نے ایسے پر پرزے نکالے کہ وہ اچھا بھلا شہر چھوڑ دیا۔اب؟

جس طرح جوہی کے والدین بے سان و گمان نمودار ہوجایا کرتے تھے ویسے ہی وہ بھی اچانک آن نکلا تھا۔رضوانہ نے نظریں اٹھائیں تو ایک اجنبی کو کھڑا پایا۔ موکل براہ راست اس کے پاس نہیں آیا کرتے تھے۔ یہ کون ہو سکتا ہے۔ اس نے کارڈ پر دوبارہ نظر دوڑائی، اکرم فاروقی۔

”جی کہیے“

”آپ سے ملنا تھا۔ آپ رضوانہ انیس احمد ہیں نا۔“

”کسی کیس کے سلسلے میں؟“

”کیا آپ کو واقعی میرے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں۔ اور میں بیٹھ سکتا ہوں کیا؟“

”جی ضرور بیٹھئے اور میرے خیال میں صاف بات کیجئے۔ کتنے سوال جواب کرتے رہیں گے ہم لوگ؟“

اس نے کرسی کھینچی ”میں آپ کے والدین کی مرضی سے آپ سے ملنے آیا ہوں۔“ اس نے ایک ایک لفظ کو واضح طور پر ادا کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے اخبار میں میرا میٹری مونیل ایڈ دیکھ کر اس کے جواب میں آپ کی تصویر اور بایو ڈاٹا بھیجا تھا۔ ظاہر ہے میرے والدین نے میرا بھی بھیج دیا ہوگا۔ انہوں نے آپ کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔ تعجب ہے کہ آپ کے والدین نے آپ سے اس کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی۔“

رضوانہ قدرے پریشان ہو گئی۔ خیریت ہے اس وقت اس کے کیبن میں کوئی نہیں تھا۔ ویسے ہوتا تو وہ خود بھی کھل کر اتنی باتیں نہ کرتا۔ آدمی معقول نظر آرہا تھا۔ بات کرنے کے ڈھنگ اور ظاہری صورت دونوں کے اعتبار سے۔

”ہم یہ باتیں یہاں نہیں کر سکتے ۔لنچ آور ہے۔ چلئے پاس کی کافی شاپ میں چلتے ہیں۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیںمیں اس سے واقف نہیں ہوں۔“

کافی شاپ میں بیٹھتے ہی رضوانہ نے پہلا سوال کیا”آپ یہاں تک پہونچے کیسے۔ میں نہیں سمجھتی کہ ممی پاپا نے میرا پتہ دے کر کہا ہوگا کہ آپ یہاں براہ راست آجائیں۔“

”نہیں۔ نہ انہوں نے ایسی ہدایت دی تھی کہ میں آپ سے مل لوں، نہ آپ کا پتہ بتایا تھا۔ فون پر گفتگو کے دوران ،میرے والدین سے کہا تھا کہ ہم لوگوں کے مل لینے پر انہیں اعتراض نہیں ہوگا، بلکہ وہ اسے بہتر سمجھیں گے۔ آپ کا اور آپ کی لاءفرم کا نام آپ کے بایو ڈاٹا میں تھا۔ ممبئی میں کہیں پہنچ جانا اتنا آسان نہیں، لیکن اتفاق سے میرا ایک دوست بس سال بھر پہلے تک یہاں کام کرتا تھا اور میں پونے میں ہونے کے سبب یہاں آتا جاتا رہتا ہوں۔ اب بھی کمپنی کے کام سے ہی آیا تھا۔“

رضوانہ خاموش رہی۔

”آپ کو برا لگا کیا؟ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا؟“

”نہیں برا لگنے کی بات نہیں۔ نہ جانے کتنے لوگوں سے ملتی رہتی ہوں۔ شاید ممی پاپا نے سوچا ہوگا کہ آپ کے متعلق اور معلومات اکٹھا کر لیں تب بات کریں۔(اس نے دل ہی دل میں دانت پیس کر سوچا کہ ممی سے تو بعد میں نمٹوں گی۔ ابھی اس اجنبی کے سامنے ان کی عزت رکھنی ہے)

قدرے توقف کے بعد بولی:”میری ماں بھی ملازمت کرتی ہیں۔ فرصت کی انہیں بھی کمی ہے۔ پاپا اتنے ماڈرن نہیں کہ مجھ سے براہ راست شادی کی گفتگو کریں۔“

وہ مسکرایا ۔فرصت آج کل سب کے پاس عنقاہے۔ زندگی چوہا دوڑ بن کے رہ گئی ہے۔rat raceکے اردو ترجمے پر رضوانہ مسکرائی۔

”میں سول انجینئر ہوں۔ اس نے بات جاری رکھی۔ پونے میں ایک کنٹرکشن کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ ملازمت مستقل ہے۔ کمپنی بھی خاصی بڑی ہے۔ آپ چاہیں تو اور سوال کر سکتی ہیں۔“ وہ پھر مسکرایا خفیف سی ،دوستانہ سی مسکراہٹ۔

”مجھے اور کچھ نہیں پوچھنا، بس بتاناہے۔ وہ یہ کہ اپنی ملازمت اور کیر ئر کو داو¿ پر لگا کر شادی نہیں کروں گی۔ممبئی چھوڑ سکتی ہوں بشرطیکہ میرے شوہر کے شہر میں میرے کیرئر کے جاری رہنے کے مواقع ہوں۔“

”مجھے ورکنگ وومن پر اعتراض ہوتا تو میں آپ سے ملنے کیوں آتا۔ میں پونا میں لگ بھگ مستقل طور پر رہتا ہوں۔ ممبئی آتا جاتا رہتا ہوں۔ یہاں ٹرانسفر یا نیا جاب لے لینے کے امکانات بھی ہیں۔ سب سوچ سمجھ کر آیا ہوں۔“

”ہوں“ اس کی آنکھیں کچھ سوچتی نظر آئیں، پھرقدرے مسکرا کر بولی: ”تب تو یہ بھی صاف ہے کہ آپ کو میرے وکیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ کچھ لوگ وکیل بیوی لانا پسند نہیں کرتے۔“پھر جلدی سے کہا ”ایسا میری ممی کا خیال ہے۔“

وہ ہنسا۔

 ”دیکھئے ڈرتو مجھے لگاتھا۔ اب کہیں میں کام سے دیرسے لوٹا، رات کو خراٹے لینے لگا، باتھ روم میں غیر ضروری وقت لگایا تو آپ مقدمہ ٹھوک دیں گی۔ پھر میں نے سوچا جرح کرنے میں تو معاف کیجئے گا ساری خواتین استاد ہوتی ہیں، مل ہی لوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔“

”بہت خوش فہم ہیں آپ ۔ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ یہ ابتدا کسی رشتے میں بدلنے والی ہے۔“وہ پھر مسکرائی۔

 ”قطعی نہیں۔ میں صرف امکانات پر غور کررہاہوں۔“

کافی ختم ہو چکی تھی۔ لنچ آور بھی اختتام پر تھا۔ رضوانہ نے بیگ سے چھوٹا سا پر س نکالا اور ویٹر کو بل لانے کااشارہ کیا۔ اس نے جلدی سے پرس پر ہاتھ رکھ دیا۔

”بل مجھے ادا کرنے دیجئے۔

Its a man's previlege."

”یہاں میں لائی تھی آپ کو۔آپ مجھے نہیں لائے۔“

”اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرض پھر بھی میرا ہی ہے۔“

فرائض کوخانوںمیں باٹنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ رضوانہ نے سوچا اور تیزی سے کچھ رقم پرس سے نکالی ۔کچھ ضدی معلوم ہوتی ہیں۔ اکرم فاروقی نے دل میں سوچا۔ ایسی کوئی خوبصورت بھی نہیں۔ ہاں یہ وکیلوں والا کالا سفید لباس، رنگ اختیار کرے اور پیچھے کھینچ کر باندھے گئے بال اتنا کھینچے نہ جائیں تو بہتر لگیں گی۔ جاذب نظر کہاجاسکتا ہے، لیکن چلیں گی۔ بزرگ کہتے ہیں جتنا چھانو اتنا کرکرا کھاؤ ، اب کیاکیا دیکھا جائے۔ تعلیم ،خاندان اس پر سے پری زاد۔

شام کو واپس آنے کے بعد رضوانہ نے سب سے پہلے ماں کو فون ملایا اور برس ہی تو پڑی: ”ممی حد کرتی ہو۔ بتایا تک نہیں سیدھے سرپر سوار کرادیا۔“ قمر کے ذہن میں چھن سے کچھ ہوا۔ یہ اتنی جلدی اسے کہاں سے خبر لگ گئی۔ آج نہ مشترکہ خاندان رہ گئے ہیں، نہ مشاطائیں۔ نہ فرض کا احساس دلانے والے چچا ،ماموں اور کم بخت اولادیں بھی بے نتھا بیل بن گئی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے لئے اخبار اور میرج بیورو ہی کام آرہے ہیں۔ اب ان کا بھی سہارا نہ لیں تو کیا کوار کوٹلے چنیں۔ شادی تو آج بھی ضروری ہے۔ آگے االلہ جانے کون سا دور آئے گا، جن کے سامنے آئے گا وہ جھیلیں گے(میں اپنی ماں اور دادی سے کتنا آگے آئی ہوں؟ شاید اتنا ہی کہ بیٹی سے براہ راست اس کی شادی کی بات کر لوں اور اگر وہ خود کوئی معقول رشتہ لے آئے تو ہائے توبہ نہ مچاوں)

”بیٹا ۔کون؟ کسے کہہ رہی ہو؟ “(

قمر نے سوچا پہلے تصدیق تو کر لوں کیا بات وہی ہے، جو اس نے سمجھی یا کچھ اور)

”اب بنو مت مما۔ خوب سمجھ رہی ہو، میں کیا کہہ رہی ہوں۔ وہ حضرت بلااطلاع آفس میں آن موجود ہوئے۔ معلوم ہوتا تو کہیں اور مل لیتی۔ وکیل کا لباس اوپر سے بال چپڑے ،کس کر باندھے ہوئے۔ چہرہ ہونق۔“

قمر کو رضوانہ کے لہجے میں تلخی کے باوجود ایک طمانیت کا احساس ہوا۔ لڑکی نے دلچسپی تو ظاہر کی۔ حلیہ صحیح رکھنے کا خیال ذہن میں آیا۔ اگر بالکل ہی خلاف ہو تی تو کٹ کھنی بلی کی طرح غراتی اور ذرا پرواہ نہ کرتی کہ کس حلیے میں ملی تھی۔ اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ رات کو بہت دن کے بعد جھاڑ کر جانماز نکالی۔ صاحبزادی خفا ضرور ہوئی تھیں، لیکن پھر بھی رد عمل نارمل تو تھا۔کیسا لگا لڑکا، کے جواب میں ہنسی تھی۔ ”لڑکا“ وہ اتنا ہی لڑکا ہے جتنی میں لڑکی ۔اڑتیس برس عمر بتا کے گیا ہے۔ ویسے معقول لگا۔ بس ذرا بڑبولا ہے۔“

ہو سکتا ہے جسے تم بڑبولا کہہ رہی ہو وہ اس کا اپنے آپ کو پریزنٹ کرنے کا طریقہ ہو۔ اب تم کو اور کوئی بتانے والا تو تھا نہیں۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوگا کہ اسے نتھو بدھو نہ سمجھا جائے۔جانے اتنے دن کنوارا کیسے رہ گیا۔ انجینئر ہے اور ملازمت میں ہے۔“

”جیسے میں ہوں۔“ رضوانہ کے لہجے میں رکھائی تھی۔لڑکی کا کیا۔ اچھی اچھی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ انہیں لینے کو لوگ جب ہی دوڑتے ہیں جب حسین ہوں یا دولت مند اور ہاں ڈاکٹر ہوئی توبھی مانگ لی جاتی ہے۔ وکیل سے تو الٹا لوگ بدکتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے، ان لوگوں کو اعتراض نہیں۔ لگتا ہے ناپسند کر کے نہیں گیا۔ ٹچ میں رہنے کی بات کر گیا ہے۔ ایک تو نمٹے دومیں سے۔“لیکن قمر نے اتنا کچھ کہا نہیں۔ کہتی تو رضوانہ سننے والی بھی نہیں تھی۔

قمر نے اخبار میں ضرورت رشتہ کے اشتہار دیکھنا اور نفلیں پڑھنا جاری رکھا(ایک زمانہ تھا کہ وہ اخبار میں ملازمت کے لئے”خالی جگہوں “ کے اشتہار دیکھا کرتی تھیں)

اس نے انیس کو اکرم فاروقی کے رضوانہ سے ملنے کی بات بتا دی تھی۔معاملے کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔ انیس نے کہاتھا۔

 ”لڑکا جا کر مل آیا ہے۔ اب صاف بات کرے اور تمہاری صاحبزادی کیا فرما رہی ہیں۔ وہ بھی بتا دیں تو ان لوگوں کو یہاں بلا لیا جائے،یاہم چلیں۔“

”صاحبزادی نے صاف تو کچھ کہا نہیں۔ بس یہ کہ وہ رابطہ رکھنے کی بات کرکے گیا ہے۔ مطلب یہ تو ہے کہ’ نا‘ نہیں ہے۔“

انیس بھڑک گیا:

”جی ہاں اب یہ لوگ فون پر گفتگو فرمائیں گے، کمپیوٹر پر چیٹنگ کریں گے، فیس بک پر تصویر یں چپکائیں گے، اس کے بعد اعلان کریں گے کہ ہمیں ایک دوسرے میں

 compatibility

 نہیں نظر آرہی ۔کیا کہتی ہیں تمہاری دونوں بیٹیاں کہ ہمیں سب سے زیادہ

 "compatibility"کی ضرورت ہے۔ تم نے ڈھونڈی تھی؟ ہماری تو دوبار شادی ہوئی۔ مرحومہ کی صورت تک شادی سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اگر چھوڑ نہ جاتیں تو ہم بغیر

compatibilityڈھونڈے ان کے ساتھ خوش تھے۔“ پھر وہ جلدی سے بولا۔ ”ویسے آپ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ خوش ہی ہیں۔“

عمر بڑھنے پر انیس بہت بولنے لگا تھا اور ادھر قمر سے بہت ناراض بھی تھا۔ اس کی ناراضگی سیلی ہو ئی پھلجھڑی کی طرح وقت بے وقت چنگاریاں پھینکتی رہتی تھی۔

کچھ عرصہ پہلے کچھ خواتین نے (جنہیں بقول انیس کوئی اورکام نہیں تھا۔ بچوں کو سیٹل کر چکی تھیں اور شوہر سے وہ بیزار تھیں یا شوہر ان سے بیزار تھے)ایک انجمن بنائی تھی۔ اس انجمن کو ایپوا

 (All India Progressive Women's Association)

کی حمایت حاصل تھی۔ رضوانہ نے ماں کی خوب ہمت افزائی کی۔ تمہارے ریٹائر ہونے میں زیادہ دن نہیں رہ گئے۔ اچھا ہے کسی مشغلے میں مصروف رہوگی۔ وہ بھی ایسے مثبت کاموں میں جن سے غریب عورتوں کی مددہو جائے۔ پاپا بھی ریٹائر ہونے ہی والے ہیں۔ دونوں لڑتے رہو گے اور زیادہ شدو مدسے میری اور عمو کی شادی کرانے میں جٹ گے۔ ہی ہی ہی۔ وہ ہنسی تھی کہیں جو پہلا لڑکا دکھائی دے اسی سے نہ کر دو۔“

قمر کے جوائن کرنے کے بعد جو پہلی فریاد ان لوگوں کے پاس آئی وہ ایک گھریلو کام کرنے والی نوجوان لڑکی کی تھی۔ وہ سولہ سال میں بیاہی گئی، سترہویں سال میں ایک بیٹے کی اماں بنی اور اٹھارویں میں طلاق دے کر گھر بٹھا دی گئی۔ سسرال لکھنو¿کے مضافات میں تھا اور میکہ پرانے لکھنو¿کی گلیوں میں۔ واپس آکر اس نے پھر گھریلو ملازمہ کا کام کرنا شروع کر دیا، بلکہ جن کے یہاں وہ شادی سے پہلے کام کرتی تھی انہیں لوگوں نے اسے رکھ لیا۔لڑکی جس وقت گھر آئی اس کا بچہ چھ سات ماہ کا تھا۔ وہ کوئی سال بھر کا ہوا تو ایک دن اس کا شوہر آیا اور گھرمیں گھس کر بچے کو اٹھالے گیا۔اس وقت وہاں بچے کی کم عمر خالہ تھی جو اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ مرد اور بڑی عمر کی عورت سب اپنے اپنے روزانہ کے کاموں پر نکلے ہوئے تھے۔

”بیٹا ہے۔بیٹی ہوتی تو چھوڑ دیتے۔ بس بہت ہوا۔ سال بھر ماں کا دودھ پی لیا۔ اب ہم گائے کا دودھ پلا کر پال لیں گے۔ باہر آنکھ مٹکا کر تی گھومتی ہے تو تم لوگ بھی تو اب کچھ اور کھلا پلا کر پال رہے ہو۔“

 اس نے سخت لہجے میں سالی سے کہا تیرے پاس تو ابھی کچھ نہیں۔ وہ اس قدر گھبرا گئی کہ احتجاج بھی نہ کر سکی۔ گھر بند کرکے جاکر ماں کو بلا کر لانا اس کے بس کا نہیں تھا۔ آنسو بہاتی انتظار کرتی رہی کہ کوئی آئے تو بتائے کہ کیا واردات گزری ۔ بچے سے اسے بھی بڑی محبت ہو گئی تھی۔

انجمن نے اپنی میٹنگ بلائی ابھی صرف سات خواتین تھیں اور ایک نوجوان لڑکا۔ یہ سب شدومد سے اپنی ممبر شپ او ر دائرہ کا ر بڑھانے میں کوشاں تھے۔ لڑکی ان کے سامنے آئی تو سب نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ آنکھوں سے آنسو تو رواں تھے ہی، اس کا کرتا سامنے سے دودھ کی دھاروں سے بھیگ رہا تھا۔ کئی خواتین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پلکیں جھپکائیں۔ ان کے گلے میں کچھ پھنسنے لگا تھا۔ نوجوان لڑکا کچھ حیرت، کچھ گھبراہٹ کے عالم میں ایسا کچھ ہوتے دیکھ رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اسے فوری طور پر سمجھ پانے سے قاصر تھ

خواتین نے لڑکی کی روداد سنی، اسے تسلی دی اور طے کیا کہ وہ پچیس کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے اس کے شوہر اور سسرال والوں سے مل کر سمجھائیں گی کہ کم ازکم پانچ برس تک وہ بچہ نہ لیں۔ اس کے بعد جوائنٹ کسٹڈی طے کر لیں ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا جائے گا اور عدالت ماں کے حق میں پانچ برس سے زیادہ کا فیصلہ کرے گی۔

”ہم نے میتھلی شرن گپت کی کویتا’ابلاجیون ہائے تیری یہی کہانی‘ آنچل میں ہے دودھ اور آنکھوں میں پانی،کو اس طرح ساکار ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے ہم سب Symbolicسمجھتے تھے۔ یہ تو ساکشات سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔“ انجمن کی سکریٹری شانتی بھٹناگر گاڑی چلا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا ان کے لہجے میں درد مندی بھی تھی اور ایک طرح کی حیرت بھی۔

”اور میتھلی شرن گپت کو یہ لکھے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا۔ آج آبادی کا بڑا حصہ وہیں کا وہیں تھما ہوا ہے۔“ قمر نے تاسف کے ساتھ کہا۔

”changeتو دکھائی دے رہا ہے، لیکن بس یونہی کہ سڑک پر بڑھیا بڑھیا امپورٹڈگاڑیاں ہیں اور بیل گاڑی بھی چل رہی ہے۔

”ہاں دیکھئے نا ،

ابھی ایک بارات میں گئے تھے ۔ دولہا انجینئر تھا۔ لڑکی بنگلور میں سا تھ پڑھتی تھی، لیکن مائکہ بہار کے کسی ایسے گاو¿ں میں تھا جو بالکل ہی اللہ میاں کے پچھواڑے تھا۔ لڑکے والوں کی کاریں ایک مخصوص پوائنٹ پر روک دی گئیں۔ آگے جو پگڈنڈیاں تھیں ان پر صرف بیل گاڑی چل سکتی تھی۔“

مسز نگم نے پہلے بھی یہ قصہ سنایا تھا۔ دراصل وہ اس قدر حیرت زدہ تھیں اور محظوظ بھی کہ سناتی رہتی تھیں۔” اور دولہا کو ہاتھی پر بٹھایاگیا۔“ قمر نے لقمہ دیا جو وہ قصہ پہلے سن چکی تھیں۔

ہاہاہا ۔مسز نگم ادھیڑ عمر خاتون تھیں، لیکن نوجوان لڑکیوں کی طرح بات بے بات قہقہے لگاتی تھیں۔ ”سب سے مزیدار بات یہ تھی کہ رخصتی کے وقت دلہن اچک کر بندریا کی طرح ٹریکٹر پر بیٹھی۔ پھر بیل گاڑیوں ،ہاتھی اور ٹریکٹر پر لادا گیا یہ قافلہ وہاں پہونچا جہاں باراتیوں کی کاریں کھڑی تھیں۔ چلئے اب ذرا ان صاحب سے نمٹیں جو ماں کی گود سے بچہ لے کر بھاگے ہیں۔“ چونکہ وہ بستی قریب آگئی تھی جہاں کا پتہ دیا گیا تھا۔ خواتین چوکس ہو گئیں۔

بتائے ہوئے مکان سے وہ نوجوان لڑکا برآمد ہوا جو اس لڑکی کا سابق شوہر تھا۔ اس کے تیور نہایت جار حانہ تھے۔

”کون ہیں آپ لوگ؟ یہاں کیوں آئی ہیں؟ یہاں نہ پولیو کی دوا پلانی ہے نہ بچے پیدا کرنا بندکرنے کے طریقے بتانے ہیں۔ ایک ہی بچہ ہے ہمارا ۔ پولیو کی دوا پلا چکے ہیں۔“

”بچے کی ماں کہاں ہے؟“

”جچگی میں مر گئی تھی۔“

”نام بتاو“

”کیوں بتائیں؟“

”ہم لوگ جچگی میں ہونے والی موت یا کم عمر بچوں کی موت کا لیکھا جوکھا رکھ رہے ہیں۔“

”خلیقُن کہاں ہے؟“

آوازیں سن کر اندر سے ایک عورت نکل آئی تھی۔ ادھیڑ عمر، تیز طرار ۔کمر پر ہاتھ رکھے۔

”اس کی بات کون پوچھ رہا ہے؟ بھاگی ہوئی عورت کی؟ اس سے ہمارا اب کوئی رشتہ نہیں۔“

”آپ لوگوں نے طے نہیں کیا ہے کہ خلیق النسا کے بارے میں کیا کہنا ہے۔ وہ مر گئی ہے یا بھاگ گئی ہے یا اسے طلاق دی گئی ہے۔“

”ہاں تو بھاگ گئی تھی اس لئے بیٹا ہمارا کیا کرتا۔ ایسی عورت کو واپس لاتا؟ ہم غریب ہیں تو کیاہماری عزت نہیں ہے؟“ وہ عورت بڑے جارحا نہ انداز میں بول رہی تھی ۔

قمر یکلخت سناٹے میں آگئی۔ جب میرا سے اس کے شوہر اور سسرال والوں نے پلا جھاڑنا چاہا تھا تو انہوں نے اس کے ماضی سے ایک ایسا لڑکا ڈھونڈ نکالا تھا جس سے کبھی اس کے مراسم رہے تھے،گر چہ اس نے پوری طرح اپنے شوہر کو قبول کیا تھا، لیکن انہوں نے آخری فیصلہ کرتے وقت اسے بد چلنی کا مورد الزام ٹھہرایا۔

یہ کون بول رہا ہے؟ ایک نچلے طبقے کی جاہل عورت اور اس کا ایک گارمنٹ فیکٹری میں کپڑے پیک کرنے کا کام کرنے والا بیٹا جو محض اتنا پڑھا لکھا تھا کہ دستخط کر لیتا تھا یا ایک اونچے متوسط ، اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے کا انجینئر اور اس کی ڈگری یا فتہ ماں؟ اسے ایسی چپ لگی کہ پھر کچھ بولی ہی نہیں۔ بعد میں ان لوگوں نے پوچھا بھی کہ آخر وہ اس قدر خاموش کیوں ہو گئی تھی۔

خواتین نے ان دونوں سے آرام سے بات کرنے کو کہا۔ خود ان کی بد کلامی کا ذرا بھی اثر نہیں لیا۔لڑکے کو اغوا کرکے لانے کو قانونی جرم بتایا۔ دودھ پیتا بچہ عدالت ماں کے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔ ٹھنڈے دماغ سے سمجھنے کو کہا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کاٹیپ کابند یہ تھا کہ اس آوارہ لڑکی نے یار سے بغیر کسی رکاوٹ شادی کرنے کے لئے بچے کو بیچ دیا ہے۔

”ہمیں تو یہ بھی پتہ ہے کہ کتنے میں؟“

”تو آپ اپنے بچے کو بچانے کیوں نہیں گئے؟“ اس کا جواب تھا کہ اسے بہت بعد میں پتہ چلا اب بچہ کہاں ہے کون جانے۔ شاید کوئی صاحب اسے لے کر فرار ہو چکا ہے۔

ان لوگوں کی مزید کو ششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لئے کہ اس دن ان خواتین کے وہاں پہنچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچے کی دادی اسے لے کر نہ جانے کہاں فرار ہو گئی۔ کارروائی جاری رہی۔ اب بھی جاری تھی۔ خلیق النسا کے دودھ کی دھاریں گرتے گرتے خشک ہوگئیں۔ آنسووں کے سوتے البتہ کبھی خشک نہیں ہوئے۔

انیس ہمیشہ قمر کا مذاق بناتا رہتا تھا بلکہ باقی سب خواتین کا بھی۔ اس کے مذاق بنانے میں مذاق اڑانے کا عنصر حاوی رہتا تھا، ایک پر خلوص طریقے سے بیوی کو چڑانے، ہنسی ٹھٹھا کرنے کا نہیں۔ اسے یہ ساری خواتین فضول لگتی تھیں۔ اپنا اپنا گھر سنبھال لیں وہی بہت ہے۔ چلیں پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانے ۔ایک دو ٹکے کے آدمی کو راہ راست پر نہ لا سکیںاور وہ گالیوں کی بوچھار پر اتر آیا۔ قمر کی شامت آئی تھی وہ انیس کو بتا بیٹھی کہ دوسری ملاقات میں شکل دیکھتے ہی اس نے بے نقط سنانی شروع کی تھیں اور ان مکلف خوا تین سے ذرا نہیں ڈرا تھا جو کار پر بیٹھ کر اس کے غریبا مﺅ دروازے پر آئی تھیں۔ بستی کے بہت سے لوگ نکل کر ٹھی ٹھی ٹھی کر کے ہنسنے لگے تھے اور ان لوگوں نے گرچہ اوپر سے ظاہر نہیں ہونے دیا ،لیکن اندر ہی اندر نہایت شرمندہ ہوئیں۔ کاہے کو کبھی کسی نے انہیں اختو بختو ، کٹنی ،حرافہ جیسی گالیاں دی ہوں گی اور سب پر مستزاد چھنال جو اپنی جیسی چھنال کی حمایت میں ماری ماری پھر رہی تھیں۔

خیر گزری جو قمر نے یہ الفاظ نہیں دوہرائے تھے ورنہ انیس بالکل ہی ہتھّے سے اکھڑ جاتا۔

 اس سے پہلے یہ انجمن ایک معاملے میں دھرنا دینے جارہی تھی اور کئی خواتین پہنچ بھی گئیں، لیکن انیس نے سختی سے کہہ دیا کہ اگر قمر کسی دھرنے جیسی ایکٹیوٹی میں شریک ہوئی تو وہ سرے سے اس کاان میٹنگو ںمیں جانا بند کردے گا۔ اس نے بتایا کہ ایک معاملے میں اسی طرح کی کسی انجمن کی اراکین نے کہیں دھرنا دیا تھا۔ ان میں ایک آئی۔پی۔ایس افسر کی بیوی بھی تھیں، جو فیمنسٹ ایکٹوسٹ تھیں۔ کچھ دن بعد ان کے شوہر کو شنٹنگ میں ڈال دیا گیا تھا۔

قمر کے عدم تعاون کا تذکرہ ہوا او ر اس پر نکتہ چینی بھی ہوئی، لیکن اس نے کہہ دیا کہ وہ ایک حد تک ہی شریک ہے، اس کے آگے نہیں۔ خواتین کہنے لگیں، چلو اسی کے گھر پر دھرنا دیتے ہیں۔

”کیا تیر مار آئیں؟“ انیس نے پوچھا۔

”بچہ مل سکا؟“

”نہیں، مگر شاید آگے کچھ بات بنے۔“ انیس ہنسا۔ یہ ہندوستان جنت نشان ابھی مزید سو برس یو نہی چلتا رہے گا اور یہ آپ کا فیمنزم یہ مغرب سے آیا ہے اور وہاں کیا حال کیا ہے سماج کا، سو دیکھ لیجئے۔ طلاق کے ڈر ، بچوں کی چھیچھا لیدر کے خوف سے اب بیشتر لوگ شادی ہی نہیں کر رہے ۔گوروں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔“

”انیس، فیمنزمصرف زن وشو کے تعلقات تک تھوڑی ہی محدود ہے۔اب اسی معاملے کو لے لوہم کوئی طلاق شدہ جوڑے کو دوبارہ یکجا کرانے نہیں گئے تھے۔ ماں کو اس کا حق دلانا چاہتے تھے۔“

”پہلے اپنا حق مادری تو لے لو۔ تمہاری بیٹیاں تمہیں ٹھینگا دکھاکر نہ جانے کیا کیا کرتی گھوم رہی ہیں۔“ قمر چپ ہو گئی پھر اس نے نظر بھر کر انیس کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر درشتی نہیں، تاسف تھا۔کچھ عرصے سے اس نے بھی لڑکیوں کے معاملے میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان سے کسی طرح کی بحث میں نہیں الجھتا تھا۔ قمر کو اس پر ترس آگیا۔ وہ کچھ پرانے خیال کا ضرور تھا کچھ سخت گیر اوراپنی بات منوانے والا، لیکن اس کی ساری ہیکڑی لڑکیوں نے بھلا دی تھی۔ وہ بد تمیزی نہیں کرتی تھیں، لیکن بڑے اطمینان سے جو چاہتی کرتی رہتیں۔ ویسے کوئی بڑی بغاوت بھی نہیںکی تھی۔ ابھی تک تو نہیں۔ قمر کو سارے اگر مگر کے باوجود اس سے بڑی محبت تھی۔ وہ گھر کا مکھیا تھا،ہیڈ آف اسٹیٹ، اس کے اس تصور نے رشتے کو سنبھال کر رکھا تھا۔ اس محفوظ گھونسلے میں بڑی عافیت تھی۔ پتہ نہیں یہ لڑکیاں کیا سوچ رہی ہیں ۔بڑھاپا تنہا گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج انیس کا ساتھ کیسا غنیمت لگ رہا ہے۔ وہ انیس کے پا س گئی اور اس کے شانوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔ ”چائے بناو¿ں“ اس کے لہجے میں محبت تھی۔ ”چائے بناو¿ں؟ پوچھنے کی ضرورت ہے؟“ اس نے قمر کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ نہ لہجے میں محبت تھی، نہ آنکھوں میں، لیکن دسوں انگلیاں زبان تھیں، شیریں زبان۔

”ویسے ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ خوش ہی ہیں۔“ کئی بار کہا تھا اس نے۔

قمرنے رضوانہ کو فون کیا۔ ”تمہارے پاپا چاہتے ہےں کہ اس بات کو جلدی ہی ایک رخ دیاجائے۔“

”کس بات کو؟“

”بنومت۔ میں اکرم فاروقی کی بات کر رہی ہوں اور تم جانتی ہو کہ میں اس کی بات کر رہی ہوں۔“

”مما، قسم خدا کی، اس وقت وہ میرے ذہن میں دور دور نہیں تھا، لیکن آپ یہ بتائیے کہ میں اس سلسلے میںکیا کروں۔ اپنا اسٹینڈ بتا چکی ہوں۔ مجھے وہ شخص ناپسند نہیں ہوا، لیکن سمجھ میں بھی نہیں آیا۔“

”بیٹا یہ یوروپ یا امریکہ نہیں ہے، ہندوستان ہے۔ یہاں سمجھنا سمجھانا سب شادی کے بعد ہوتا ہے، جو چیزیں دیکھی جاتی ہیں وہ ظاہری ہی ہوتی ہیں۔ اصل شخصیت ساتھ رہنے کے بعد کھلتی ہے اور بیٹا ہررشتے میں ایڈ جسمنٹ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔“

”تو جائیے پو چھئے نا اس سے۔ دولانبی لابنی میلز بھیجنے کے بعد سے خاموش بیٹھا ہوا ہے۔اب مجھے اس سے عشق تو ہوا نہیں ہے کہ پیچھے پڑ جاں۔“

قمر کچھ خفیف ہو گئی۔ واقعی اب تو انہیں لوگوں کو رابطہ کر نا چاہیے۔ اگر وہ خاموش ہو گیا ہے تو اسے ہم کیا معنی پہنائیں۔

انیس کے سوال کرنے پر اس کے والدین نے کہا: ”ہم ابھی تک لڑکے کے فائنل جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے ر شتے تو اور بھی زیر غور ہیں۔“ قمر کا دل بیٹھنے لگا۔ خدا خدا کر کے لڑکی نے کہا تھاکہ اسے لڑکا ناپسند نہیں ہوا ہے۔

پھر جیسے وہ پہلے اچانک آنکلا تھا ویسے ہی دوبارہ نمودار ہو گیا۔ بقول رضوانہ کی گہری دوست نرگس داجی رضوانہ کی زندگی کے افق پر۔

کافی شاپ میں اس نے رضوانہ کی پسندیدہ کولڈکافی وِد آئس کریم آرڈر کی اور اپنے لئے کپچینو پھر اِدھراُدھر کی گپ کر نے کے بعداس نے بغیر کسی لاگ لپٹ کے کہا:”تو رضوانہ صاحبہ کیا ہم لوگ تیار ہیں؟ کیا اپنے اپنے والدین سے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں آگے جو کارروائی کرنی ہے وہ کریں۔“

اچانک رضوانہ کو اپنے گرد وپیش کی پوری دنیا تبدیل ہو تی نظر آئی۔ کیا وہ بھی ایک عام سی نارمل ہندوستانی لڑکی کی طرح کسی کے گھر میں اس کی بیوی بن کر رہے گی؟ اس کے بچوں کی ماں بنے گی؟ شام کو بن سنور کر (کیا گھٹیا خیال ہے) اس کا انتظار کیا کرے گی؟ اس کے گرد وہ حفاظتی خول ہوگا جسے شادی کہتے ہیں، وہ محافظ ہو گا جسے شوہر کہتے ہیں، وہ اس آدھی ادھوری زندگی سے کٹ کر خود کو مکمل محسوس کر ے گی۔ اس کے والدین چین کی سانس لیں گے، لیکن کیا واقعی وہ بھی اس زندگی کو ادھوری سمجھ رہی تھی؟ یہ لفظ آیا کیوں اس نے ذہن میں اس کے جسم میں لرزش پیدا ہوئی۔ شاید لب بھی کانپے۔ اس نے نظریں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر خلوص تھا۔

”اس سے قبل کہ آخری فیصلہ ہو، مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے۔“

وہ کچھ پریشان ہوگیا۔ کیا کسی افیئر کا اعتراف کر نے والی ہیں۔ میں نے اس دوران جو تفتیش کی اس میں تو انہیںکلین چٹ ملتی نظر آئی تھی۔ لمحہ بھر میں اس کے ذہن میں نہ جانے کتنے خیال آکر گزرگئے۔

”کہئے۔“ اس نے کہا:

”میری پنڈلی پر ایک چھوٹا سا سفید داغ ہے۔ یہی کوئی چونی برابر یا شاید ذرا سابڑا۔“

اس کی پریشانی مایوسی میں بدلتی دکھائی دی جس کو نظر انداز کرتے ہوئے رضوانہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

”پچھلے پانچ سال سے اتنا ہی ہے، بڑھا نہیں۔ ڈاکٹر کو دکھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لیو کوڈرما نہیں ہے،لیکن میں بتا دینا مناسب سمجھتی ہوں۔ کسی پردہ دار جگہ پر نہیں ہے۔ آپ دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس نے جھک کر ساری ذرا سی اوپر چڑھانی چاہی۔“

” اس کی ضرورت نہیں، میں دیکھ کر کیا کروں گا۔ آپ مجھے ڈاکٹر کی رپورٹ دکھا سکیں تو بہتر ہوگا۔“ ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ڈوبتا تنکے کا سہارا لے رہا ہو۔

رضوانہ کی تیور یوں پر بل پڑ گئے۔ میرے پاس کسی ڈاکٹر کی رپورٹ محفوظ نہیں ہے۔ بھروسہ کر سکتے ہیں تو کرئے۔ میں خاموش بھی رہ سکتی تھی۔ اسے کسی زخم کا نشان کہہ کر بات چھپا بھی سکتی تھی۔ وہ بھی جب، جب یہ آپ کی نظر میں آتا۔ میں نے تو حتی الامکان کو شش یہ کرنی چاہی کہ ابتدا میں ہی کوئی اختلاف کی صورت نہ پیدا ہوجائے۔“

وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا:”کیا ہم کسی ڈاکٹر سے فریش رپورٹ لے سکتے ہیں؟“

”میں نے جب اسے پہلی بار نوٹس کیا تو والدین کے ساتھ جاکر لکھنو کے کنگ جارج ہاسپٹل کے جلدی امراض کے شعبے میں مکمل چیک اپ کرالیا تھا۔ اب میں آپ کے ساتھ چیک اپ کے لئے جانا اپنی توہین سمجھتی ہوں۔ آپ میری ایمانداری کی قدر نہیں کر رہے ۔مجھ پر یقین نہیں کررہے۔“

”ٹھیک ہے سوچ کے بتاتا ہوں۔“وہ تھوڑی سی رسمی گفتگوکے بعد اٹھ گیا۔ اس باراس نے کافی کا بل بھی رضوانہ کو ادا کرنے دیا ۔ پونے واپس آکر اس نے انگوٹھی کی ڈبیہ جیب سے نکال کر وارڈروب کے لاکر میں رکھ دی۔

ا ر

الو کی پٹھی! سمیر نے دھپ سے رضوانہ کے شانے پر ہاتھ مارا، لیڈی ڈائنااسپنسرکو

Virginity Test

سے گزرنا پڑا تھا اور تم پنڈلی کے اس چونی بھر داغ کا ٹسٹ کرانے نہ گئی کہ اسے اطمینان ہوجاتا۔ اتنا اچھا لڑکاہاتھ سے گنوادیا۔ اب دلتی رہو مونگ اماں ابا کی چھاتی پر۔

”اور سماج کی چھاتی پر بھی“ نرگس نے لقمہ دیا۔ نرگس جلد ہی انعام دار کے فلیٹ میں منتقل ہونے جارہی تھی۔ انعام دار مسلمان تھا پارسیوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہونے کے باوجود یہ لوگ اب بھی برادری سے نکل جانے والی لڑکی کی اولادوں کو پارسی نہیں تسلیم کرتے تھے۔ ان کے یہاں تبلیغ بھی نہیں تھی، پھر بھی لڑکیاں باہر شادی کررہی تھیں اور اس فرقے میں آنر کلینگ نہیں تھی نہ زیادہ رولامچتا تھا۔ بزرگ کچھ تشویش کا اظہار ضرور کر لیتے تھے۔ نرگس کے دادا ،دادی نے کچھ نصیحتیں ضرور کیں۔ کچھ اونچ نیچ سے آگاہ بھی کیا تو اس نے کہا ”ارے ابھی تو ہم صرف تجربہ کررہے ہیں ،کون سا بیاہ کررہے ہیں۔ ابھی بچے نہیں پیدا کریں گے۔ شادی کی تو دیکھا جائے گا، ورنہ ہم اپنے رستے اور شارق اپنے رستے۔“ یہ پورا مکالمہ دادا، دادی کی نقل کرکے اس نے قریبی دوستوں کے حلقے میں سنایا تھا۔ شارق اس کے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا اور پھر باپ کا بزنس سنبھال رہا تھا۔ متمول والدین کا بیٹا تھا۔ پتہ نہیں اس نے اپنے گھر میں کیا سبق پڑھا یاتھا۔

یہ کون سا سماج ہے؟ یہ ہندوستان کا کون سا چہرہ ہے؟

نرگس اور سمیر بقول خود رضوانہ کی ٹریجک کا میڈی یا کامک ٹریجیڈی(اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا تھاکہ و اقعے کو کیا نام دیا جائے) کو سیلیبریٹ، کر نے کا فی شاپ میں اکٹھے ہوئے تھے۔ان کو چند اور قریبی دوستوں کو انتظار تھا کہ لکھنو ¿ جا کر وہاں کے مشہور و معروف باورچیوں کا پکایا روایتی قورمہ بریانی کھائیں گے اور رضوانہ کو اتنا تنگ کریں گے کہ وہ سچ مچ کسی روایتی دلہن کی طرح روتی دھوتی رخصت ہوسکے، ورنہ وہ تو رخصتی کے وقت رونے والی تھی نہیں۔

”لیڈی ڈائنااسپنسرکو بر طانیہ کے تخت وتاج کا وارث مل رہا تھا۔ بعد میں جو تعلقات رہے ان کی پیشنگوئی کرنے والا تو کوئی تھا نہیں اور ویسے اس کی اولاد تو وارث ہو ہی گئی۔“رضوانہ نے جل کر منھ مارا۔”مجھے کسی سلطنت کا وارث پروپوز کرے تو شاید اسکن اسپیشلسٹ کے پاس تو چلی جاو ¿ں، لیکن کنوار پن کا سرٹیفکٹ لانے کو کہا تو گولی ماردوں گی۔“

”کیوں؟ ورجن نہیں ہو کیا؟ ڈر جاوگی ٹسٹ سے؟“ سمیر نے قہقہہ لگایا۔

”کمینے ہو تم ۔ صریح کمینے۔ کسی ملک کا تاج اس ذلت کی قیمت نہیں چکا سکتا۔ اس ترقی یا فتہ ملک کی اس لڑکی نے یہ کیسے گوارا کیا اور شاہی خاندان کی ہمت بھی کیوں کر ہوئی۔ پرنس چارلز کا ٹسٹ نہ کرایا؟ تم سالے جہاں جی چاہے، جب جی چاہے منھ مارو اور ہم اپنا جسم لئے بیٹھے رہیں، پھر لاکھ کہیں کہ ہاں ورجن ہیں تو یقین نہ کرو۔ جب ہم میں اپنی مرضی سے جسمانی رشتہ بنانے کی ہمت آئے گی تو اسے تسلیم کرنے کی ہمت بھی ہوگی۔“

”باپ رے باپ ورجینا وولف ،کیٹ ملر، سیمون دی بوا، رضوانہ انیس آگے آیت۔ تحریک ختم۔“

”ہندوستان میں فیمنزم آیا ہی کہاں ہے۔آئے تو سہی“ رضوانہ ابھی تک خفا تھی۔

” فیمنزم والیاں جتنی برابری چاہتی ہیں وہ کبھی نہیں آسکتی ۔ کیا مارکسزم کے بعد معاشی برابری آئی؟ طبقاتی فرق مٹا؟ کیا سارے پیر پیغمبروں کے بعد سماجی برابری آئی ۔ذات پات ہٹی؟ اہنسا کو مذہب کی بنیاد بنانے والے بدہسٹ روہنگیا مسلما نوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں اور چین نے اس سے پہلے تبت کے ساتھ کیا کیا؟ اب مانو نہ مانو قدرت نے ہی عورت کو ایسا بنایا ہے کہ مکمل مساوات کی مانگ....“ نرگس شستہ انگریزی میں کہہ رہی تھی۔

”نرگس تم عورت ہو کر؟“

رضوانہ نے بات کاٹ کر حیرت سے اسے دیکھا۔

”جس دن بچے گملوں میں اگنے لگیں گے اس دن عورت برابری کا دعویٰ زیادہ مضبوطی کے ساتھ کر سکے گی ،لیکن ابھی تک تو سائنس ایسا کچھ نہیں کر سکا ہے۔ بچہ اب بھی ماں کی کوکھ میں پلتا ہے۔ وہ کرایے کی کوکھ کیوں نہ ہو، لیکن ہو تی تو عورت کے اندر ہی ہے۔ ہاں برابری کا سلوک ،انسان سمجھنا ، فیصلوں میں ساجھے داری....“

”یار

 Cut the crap

سمیر بور ہوکر بولا۔ شاید ہم کچھ سیلیبریٹ کرنے آئے تھے۔رضوانہ کی پسند کے سنہرے جھینگے آرڈر کریں؟ تم پڑھی لکھی عورتیں جہاں بیٹھو گی وہاں یہی سب ڈسکس کرو گی۔ بھول جاوگی کہ زندگی میں کچھ اور بھی ہے۔“

(کیا زندگی میں کچھ اور کی ہی تلاش میں رضوانہ نے اکرم فاروقی پر غور نہیں کیا تھا؟ کیا بظاہر خوش اور مطمئن نظر آنے والی لڑکی زندگی میں کچھ اور آسودگیوں کی متلاشی نہیں تھی؟)

”ایک بات بتاو سمیر“

سمیر نے پہلے نظر بھر کر رضوانہ کودیکھا پھر نرگس سے مخاطب ہوا میں نے سوال کیا تھا۔” بولو“

”تمہاری بیوی تم سے زیادہ کوالیفائڈ ہو، یا زیادہ تنخواہ لارہی ہو یادونوں....“

”اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ کہاں ہے وہ مجھ سے زیادہ تنخواہ والی۔ ملاو ۔“ وہ بہت خوش ہو کر بولا۔

”مسخرہ پن نہیں۔“

”بالکل نہیں۔“

”اچھا اگر تم اس بینک والے کی جگہ ہوتے....“

”کون بینک والا۔؟“

جس کی بیوی نے کوی سمیلن میں جاکر کویتا پڑھنے کی جرا ¿ت کی تھی اور شوہر نے گھر آنے کے بعد پیٹا تھا کہ اس نے مردوں کے خلاف کچھ کہہ دیا تھا گرچہ اس میں اس کے شوہر کی طرف قطعی کوئی اشارہ نہیں تھا۔“

”میں تصور کے سہارے کیا کہہ سکتا ہوں۔ جب تک انسان واقعی اس سچویشن میں نہ ہو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیا پتہ بیوی اپنے achievements کے نشے میں شوہر کو اسکرٹ پہنا کرخود پینٹ پہننے کے پھیر میں ہو اور مجھ سے کٹھ حجتی پر کیوں اتری ہوئی ہو۔ جاو ¿ جاکے اس کم بخت اکرم فاروقی کو پکڑو ۔ ویٹر ....“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور جیسے کسی کوئز کے مقابلے میں تیز گام(Rapid Fire)سوالات داغے جائیں اس طرح دھڑا دھڑ آرڈر دیا۔ ”دوپلیٹ گولڈن فرائیڈپران، ایک پلیٹ چیز پکوڑے، دو کپچینو، ایک کولڈ کافی، دو آئس کریم بعد میں جو اور مانگیں۔“ ماحول کچھ بھاری ہوا ٹھا تھا۔ بڑے مصنوعی لمحات میں مصنوعی قہقہے لگاتے ہوئے ان تینوں اچھے ، مخلص دوستوں نے شام اور کافی دونوں سے لطف اندوز ہونے کی اداکاری کی۔

رضوانہ نے ماں سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا ،لیکن قمر انیس سے یہ بات چھپا گئی کہ بیٹی صاحبہ اتنی بڑی ستیہ وادی ہریش چند ر بنتی ہیں کہ اس بے ضرر سے داغ کو بھی نہ چھپا سکیں اور اچھا بھلا رشتہ کٹوادیا۔ انیس پتہ نہیں کتنا ہنگامہ کھڑا کرتا۔ وہ یہ سوچ کر خاموش رہ گیا کہ لڑکے والوں کو کہیں کچھ اور زیادہ پسند آگیا ہے۔ قمر نے البتہ رضوانہ کو اچھی طرح کھری کھوٹی سنائیں۔ یہاں تک کہا کہ سامنے ہوتی تو ایک آدھ جھاپڑ بھی رسید کر دیتی۔ ”کیا مما، کیا قیامت آگئی؟ ارے ابھی میں بوڑھی تھوڑی ہی ہوئی ہوں۔ ابھی بہت گنجائش ہے۔ دوسرے یہ کہ خوش ہوں ۔ مجھے کوئی کامپلیکس نہیں ہے، اس بات کو لے کر کہ میری شادی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔“ رضوانہ نے اپنی خفگی پر قابو پاکر ماں کو تسلی دی۔ بعد میں خود ان کے لئے افسوس کرنے لگی۔ بے چاری پڑھ لکھ کر بھی سسٹم سے باہر نہیں آسکی ہیں اور پاپا وہ تو بالکل روایتی ہیں۔ بہت سا ٹکراو ¿ تو اس لئے بھی ہے کہ عورتیں بدل رہی ہیں، مرد اپنی جگہ ویسے کے ویسے ہیں۔

”رضوانہ، ارے بےو قوف لڑکی ،مجھے ملیں یہ تمہاری بڑے بڑے دعوے کر نے والیاں تو میں ان سے پوچھوں کہ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر تم ہمسری کا دعویٰ کہاں سے کر لیتی ہو۔ابھی ایک سروے رپورٹ آئی ہے کہ طلاق یا رنڈاپے کے بعد شادی کر نے والے مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔“

”مجھے نہیں پتہ مما آ پ کیا کیا پڑھتی رہتی ہیں اور پھر اسے میرے پر لادتی ہیں۔“

”میں صرف یہ بتا رہی ہوں کہ ایک عورت کے لئے عمر بہت اہم ہے۔ تم جن عورتوں کی مثالیں دیتی ہو وہ فلم اور ماڈلنگ کی دنیا کی عورتیں ہیں۔ وہ تیس بتیس برس کنواری رہتی ہیں اس کے بعد یا تو کوئی کم عمر لڑکا ملتا ہے، جو کچھ دن بعد چھوڑ کر بھاگ لیتا ہے یا پھر کوئی ایسا ملتا ہے، جس کی ایک یا دوبار شادی ہو چکی ہے۔“

رضوانہ بہت خفا ہو گئی۔” لیکن شادی لکھی کسی حکیم نے نسخے میںہے۔ نہیں کرتے ہم۔ تم عمو کو پکڑو۔ دو میں سے ایک سے نمٹ کے گنگا نہاو ¿۔“اس اچانک میل نے رضوانہ کو حیران کردیا، بالکل ایسے ہی جیسے اس کی آمد نے حیران کیا تھا۔ میل باکس میں اوپر ہی اکرم فاروقی کا نام تھا۔ رضوانہ کے ذہن میں کمبخت خیال آیا کہ شاید اس نے معافی مانگی ہے یا یہ کہ اس نے لکھا ہے کہ وہ اس داغ کی بات بھلا کر تعلقات چاہتا ہے یا پھر اس نے رضوانہ کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دوبارہ چیک اَپ کے لئے راضی ہوجائے تو اس کے حق میں اچھا ہوگا۔ اس طرح کی کسی بھی چیز کے لئے چوکنا تو رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔مجھے اب اس کی کسی تجویز سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ گھٹیا انسان، رضوانہ نے سر جھٹک کر سوچا اور میل نہیں دیکھی۔

رات کو کھانا کھانے کے بعد اس نے قانون کی ایک موٹی سی کتاب اٹھائی۔ جوہی دوسرے شہر میں ہوگی، آج اس کی واپسی نہیں تھی۔ اس نے اطمینان سے ایک کیس کے سلسلے میں کچھ حوالے دیکھے۔ ضروری نوٹس بنائے، دل کچھ بے چین محسوس ہوا۔ ایک بے کلی، خاصی رات گزرجانے کے بعد بھی نیند آنکھوں سے دور۔ چلو یہ خلش دورکرہی لوں، اس نے میل کھولی، اس کی آنکھیں پھیل گئیں،میل میں ایک دعوت نامہ تھا۔ اکرم فاروقی کی شادی کا کارڈ۔ اگلے ہفتے اس کی شادی یہیں ممبئی میں ہی ہورہی تھی۔ چند سطریں الگ سے تھیں۔

”آپ سے جو سابقہ رہا اس سے ایک دوستانہ تعلق بن ہی گیا ہے، ہم لوگ جس رشتے کی طرف بڑھے وہ تو نہیں ہوسکا، لیکن جوبنا وہ برقرار رہ سکتا ہے۔ ایک دوست کی حیثیت سے میں آپ کو بارات میں مدعو کررہاہوں۔ ریسپشن میرے آبائی گاﺅں میں ہوگا۔ وہاں شاید آپ نہیں آسکیں گی، لیکن یہاں شریک ہوسکیں تو مجھے خوشی ہوگی۔ ساتھ کے لئے اپنے کسی کولیگ یا دوست کو لانا چاہیں تو لاسکتی ہیں۔“

ہمت تو دیکھو۔ رضوانہ نے دانت پیسے، بیٹا تم میرا ظرف آزما رہے ہو۔ وہ بھی دیکھ لینا، اس نے اسی وقت جواب ٹائپ کیا۔ مبارک ہو اکرم فاروقی صاحب میں شرکت کی پوری کوشش کروںگی۔ بلکہ آپ کے آبائی گاﺅں بھی آسکتی ہوں، لکھیم پور لکھنو ¿ سے بہت قریب ہے، اس بہانے مجھے گھر آنے کا موقع مل جائے گا۔ چھٹیاں ڈیو ہیں۔ امید ہے آپ نے لڑکی کو خوب ٹھوک بجاکے دیکھ لیا ہوگا۔“ کچھ سوچ کر اس نے آخری جملہ کاٹ دیا، میل بھیج دی اور چادر تان کر آرام سے سوگئی۔ اکرم فاروقی دنیا تمہارے اوپر ختم نہیں ہوجاتی۔ بھاڑ میں جاﺅ۔

عمرانہ کا خط تھا۔ اس کی اپنی ہینڈرائٹنگ میں لکھاہوا خط۔ فون اور میل کی دنیا میں خط جیسی مسرت آگیں شے اس قدر عنقا ہوگئی ہے کہ حیرت پہلے ہوتی ہے، مسرت بعد میں۔ خط لکھنے اور خط پانے کا اپنا ہی الگ لطف تھا۔ ویسے وہ خود کب کسی کو خط لکھتی تھی۔ اٹھایا فون، بات کرلی، اس نے خط اٹھا کر پرس میں رکھ لیا اور رات کوسارے کام ختم کرنے کے بعد اطمینان سے بستر میں لیٹ کر بیڈ سائیڈ لیمپ جلایا اور لفافہ یوں چاک کیا جیسے کوئی بچہ کسی چاکلیٹ کا ریپر اتار رہا ہو۔ پہلا ہی جملہ تھا۔ ”انوراگ اور میں الگ ہوگئے ہیں۔ بغیر کسی تلخی کے ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ رشتہ چلنے والا نہیں۔“

رضوانہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور تیزی سے آگے پڑھنے لگی۔ ”بہت دنوں سے ہمارے درمیان دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ باقی ساری زندگی ساتھ گزارنے کا فیصلہ مناسب نہ ہوتا۔ دل اداس تو ہے، لیکن ایسا نہیں کہ دواﺅں کا سہارا لینا پڑے یا کسی کاﺅنسلر کے پاس جانے کی سوچنے لگوں۔تمہیں ایک دلچسپ بات بتاﺅں۔ پتہ نہیں دلچسپ ہے کہ تلخ، تلخ ہے کہ مضحکہ خیز۔ پتہ ہے پہلی بار دل میں اس کا احترام کم ہونے کا احساس کب ہوا؟ دوستوں کے درمیان گپ شپ کے دوران اس نے کہا ”عورتیں صرف دو زمروں میں رکھی جاسکتی ہیں ۔

 G.I.B. اور not so G.I.B. میں نے اسے گھور کر دیکھا۔ کیا مطلب؟ کہنے لگا، گدھی ہو تم۔ مطلب یہ کہ

 good in bed and not so good in bed

۔ مجھے بڑا غصہ آیا۔ میںنے کہا اس تقسیم میں ماں، بہنیں، خالہ، چچی، پھوپی، دادی، نانی سب کو سمیٹ رہے ہو کیا؟ بڑے اطمینان سے بولا جو میرے لئے ان رشتوں میں آتی ہیں وہ کسی نہ کسی کے بستر میں ہیں یا رہی ہیں۔ یہ تو ایک biological

 حقیقت ہے۔ پھر وہ مجھ سے ناراض بھی ہوگیا کہ اس وقت وہ اتنے اچھے موڈ میں اتنی مزے مزے کی باتیں کرکے قہقہے لگا رہا تھا اور میں نے اس کا ستیاناس کردیا۔ ستیاناس اس لئے نہیں کہ میں نے اس کی ماں، بہن، دادی، نانی کو درمیان میں گھسیٹ لیا بلکہ اس لئے کہ میں نے اسے گھٹیا قرار دیا۔ سچ کہوں رضوانہ میں نے گھٹیا لفظ تو استعمال بھی نہیں کیا تھا جب کہ بعد میں میرے ذہن نے اس کی گرد ان شروع کردی تھی۔ میں انوراگ کو بہت باذوق اور نفیس سمجھتی تھی۔ آفس میں کئی مرتبہ میں نے مرد ہم کاروں کو عورتوں کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ گھٹیا باتیں کرتے سناہے، لیکن انوراگ کہیں بہت اونچے ستون پر تھا۔

اچھا تمہاری بوریت رفع کرنے کو بتادوں کہ میں شادی کے لئے تیار ہوں اورمما سے کہہ دیا ہے کہ کوئی اچھا لڑکا دِکھے تو مل لوں گی بقول ان کے لاتیں نہیں جھاڑوں گی، مگر ہاں شادی کو جب ہی رضا مند ہوں گی جب مجھے بھی وہ اچھا لگے اور میرا

 virginity test

 نہ کرائے۔ زیادہ تو نہیں، لیکن کبھی کبھی 

"Anurag and I had been physical"

”کم بخت، یہ بوریت رفع کی ہے یا زور کا جھٹکا دیا ہے۔ اسے ایمانداری اور صاف دلی کہوں یا حرمزدگی۔ سارے اصول گھول کر پی جانا، ساری قدریں طاق پر رکھ دینا کیا معنی رکھتا ہے، کیا آزادی یہی ہے؟“رضوانہ نے دل میں سوچا۔

 ”بے ہودہ کہیں کی۔ کم از کم خاموش ہی رہتی۔“

پھر اس نے آگے پڑھنا شروع کیا۔

”وہ تمہارے اکرم فاروقی تو نہایت

 Bond

 نکلے اور ان سے زیادہ تم کہ کہتی ہو ان کی بارات میں جاﺅگی۔

آج کی تازہ خبر دیکھ لی ہوگی۔ ملالہ پر حملہ کرنے والوں کو کلین چٹ مل گئی۔ ہم لوگ ہاشم پورہ کو رو رہے تھے۔ پھر ارونا شان باغ۔ قسم خدا کی رضوانہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ زنابالجبر وہ بھی اس طرح کا جیسا ارونا کے ساتھ ہوا یا نربھیا کے ساتھ یا بدایوں والی بہنوں کے ساتھ، اس کی سزا اسلامی شریعت میں ہی ہے۔ تمہارے قانون نے تو کہہ دیا کہ اس سوہن لال والمیک کا اب کچھ نہیں ہوسکتا اور اب کچھ ہوکے بھی کیا ہوگا۔ اسے پھانسی دے کر بھی کیا کرلیں گے لوگ۔ میرا خون کھولتا ہے رضوانہ۔ ایک

 impotent rage

 مجھے پاگل بنانے لگتا ہے۔ ختم کرتی ہوں۔ میرا دماغ خراب ہونے لگا ہے۔ سارا موڈ غارت ہوگیا۔ سوچا تھا اور کچھ لکھوں گی۔ بہت سا پیار.... عمو

رضوانہ نے بھی جواب میں ہاتھ سے خط لکھا اور اسپیڈ پوسٹ سے بھجوادیا۔

”عمو! ابھی سماج بین المذہبی شادیوں کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہورہی ہیں، لیکن مڈل کلاس کے والدین تباہ ہوجاتے ہیں، خاص طور پر لڑکی کے والدین۔ تیرے اور انوراگ کے تعلقات کو لے کر تو میرا بھی پریشان ہونے لگی تھی اوپر سے جتنا مسخرہ پن کرلیتی، لیکن انیس چاچا اور قمر چاچی کی بڑی فکر تھی اسے۔ چل اچھا ہوا تو ایک جھمیلے سے تو بچ گئی، لیکن جہاں تک آگے بڑھ گئی تھی وہ اچھا نہیں ہوا تھا۔ میں تجھ سے صرف سال بھر بڑی ہوں، مساوات کی زبردست قائل ہوں۔ ذاتی طورپر مجھے تو انوراگ سے بھی کوئی پرابلم نہ ہوتا، لیکن ہاں یہ جسم کی بات۔ میں اصولوں کی قائل ہوں، کچھ بندشیں ہیں جنہوںنے ہمیں انسان بنایا ہے ورنہ حیاتیاتی طورپر تو ہم بھی ہیں تو جانور ہی۔ اب ایک بات سن لے کان کھول کے اور ہوش میں رہ۔ مجھ سے کہا سو کہا اور کسی سے نہ کہنا اور اگر واقعی اچھا لڑکا مل جائے تو اس سے ہرگز نہ بتانا ورنہ بھاری پڑ جائے گا۔ ملالہ والی نیوز پڑھی۔

( تو تو اسی پروفیشن میں ہے) 

شاید گزشتہ اکتوبر یا نومبر میں ایک خبر کسی نے دوبئی سے مجھے میل کی تھی وہ بھی یاد ہوگی۔ پاکستان کے کسی شہر میں ایک صاحبزادے نے تیس سال کے بعد اپنی ماں کو ڈھونڈ کے نکالا جنہوں نے اس لڑکے کے باپ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلی تھی۔ اب نئے شوہر کے ساتھ ان کے تین چار بچے بھی تھے۔ سب کو چچا کی مدد سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ غریب گھر سے بھاگی بھی نہیں تھی، اس نے تو بیوگی کے بعد دوبارہ گھر بسایا تھا۔ سچ کہوں مجھے اودھم سنگھ یاد آگیا جس نے بیس برس بعد جنرل ڈائرکو مارا تھا۔ اس عورت کا قصور اتنا ہی بھیانک تھا جتنا جلیاں والا باغ کا قتل عام۔ میں دیر تک انگشت بدنداں رہی۔ رہی شریعت والی سزا تو مستحقین کے ساتھ کئی بے گناہ پس جاتے ہیں ،وہ بھی زیادہ تر عورتیں۔ میں خوفناک قوانین کی قائل نہیں ہوں۔چل، ممی سے کہہ دے مجھے چھوڑیں، تیرے لئے کسی کو لائیں پکڑ کے۔ 

all the best

 اور ہاں۔ میں بھی ٹرائی کروں گی۔ اپنے لئے نہیں ایڈیٹ ،تیرے لئے۔“

سلمان سے عمو کی ملاقات رضوانہ نے ممبئی میں بیٹھے بیٹھے کرادی۔ وہ جب وکالت پڑھ رہی تھی، سلمان اس سے ایک سال سینئر تھا اور اس کا اچھا دوست تھا، دونوں نے دوستی کے علاوہ کبھی کچھ اور نہیں سوچا۔ مذاق مذاق میں ایک بار اس نے کہاتھا کہ عورتیں ویسے ہی کٹھ حجت ہوتی ہیں، وکیل بن جائیں تو کڑوا کریلا نیم پہ جا چڑھتا ہے۔ وہ شادی کسی پروفیشنل سے تو کرنا چاہے گا، لیکن وکیل سے نہیں۔ فی الحال دہلی ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہا تھا۔ فیس بک کے ذریعے رضوانہ سے رابطہ تھا۔ رضوانہ کو عمو کے لئے اس کا خیال آیا۔ وہ بھی دہلی میں ہی تھی۔ اکثر نیوز کے لئے ہائی کورٹ کے چکر بھی لگا آتی تھی۔

رضوانہ نے اسے فون کیا:

”کیوں بے، شادی کیوں نہیں کررہا۔“

”تم کیوں نہیں کر رہیں؟“

”سوال میں نے کیا ہے۔“

”ابھی تک وہ نہیں ملی جس سے شادی کرنا چاہوں۔“

”میری بہن کو دیکھے گا؟“

”وہی جو جرنلسٹ ہے اور ایک اخبار میں کام کررہی ہے۔“

”وہی۔“

”شاید ایک بار اس سے ملا ہوں۔“

”پھر سے مل لے اور ذرا شرافت سے۔ ملنے کا انتظام میں کراتی ہوں۔“

بندہ ہے اسمارٹ۔ عمرانہ نے سوچا۔

”لڑکی اچھی ہے اور بڑی بہن جیسی بقراط بھی نہیں۔“ سلمان نے سوچا۔

 ”شادی کیوں نہیں کی اب تک؟ خاصے

 eligible

 بیچلر ہیں۔“

”سچ بولوں یا جھوٹ؟“

”وکیل زیادہ تر جھوٹ ہی بولتے ہیں، لیکن میں آپ کی کلائنٹ نہیں ہوں۔ مجھ سے سچ بولئے۔“

”میری زندگی میں ایک لڑکی تھی تین سال اس کے ساتھ ضائع ہوگئے۔ ایک آدھ سال اس رشتے کو مکمل طور پر بھولنے میں لگا۔ اب میں آزاد ہوں اور گھر بسانے کا خواہش مند بھی۔ آپ جو چاہیں ابھی پوچھ لیں۔ میں سچ بولوں گا۔ اس کے بعد یہ چیپٹر بندکردیا جائے گا۔“

”قربت کتنی تھی؟“

”live-in relation ship

۔ ڈیڑھ سال۔“

عمرانہ کے اندر کچھ چھن سے ہوا۔

”رشتہ ٹوٹا کیوں؟“

”بس دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگا۔ وہ کہیں اور دلچسپی لینے لگی۔ اس کے بعد شادی بھی جھٹ سے کر ڈالی۔“

”ایک بات بتائیے۔ اگر میں آپ سے کہوں یا کوئی اور لڑکی کہے کہ اس کا کہیں ایسا کوئی رشتہ تھا تو آپ اسے قبول کریں گے؟“

”اگر وہ اس رشتے سے اسی طرح باہر آچکی ہے جس طرح میں تو ضرور قبول کرلوں گا۔ میں دوہرے معیار کا قائل نہیں ہوں۔ آخر بیوہ اور طلاق شدہ لڑکیوں سے بھی تو شادی کی جاتی ہے۔“

”انہیں شاید اس لئے قبول کر لیا جاتا ہے کہ ان کے پہلے رشتے کوسماج کی منظوری حاصل تھی۔ میں اپنی مرضی کے رشتے کی بات کر رہی ہوں۔ میرا ایک بوائے فرینڈ تھا۔ میں اس کے ساتھ رہی کبھی نہیں، لیکن کچھ کمزور لمحے ہمارے درمیان ضرور آئے۔

 I am not a virgin“

وہ ہکابکا رہ گیا۔ پھر اٹھ کر عمرانہ کا ہاتھ تھام لیا۔” میں آپ کی بیباکی اور حق گوئی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔“ پھر مسکرا کر قرون وسطیٰ کے کسی نائٹ کی طرح گھٹنے ٹیک کر بولا:

 "May I?"

عمرانہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قدرے توقف کے بعد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی:

 "Yes!"

رضوانہ بے حد خوش تھی۔ دونوں بہنوں نے بڑی ہوشیاری سے والدین سے یہ بات چھپالی کہ سلمان ذات کامینہار تھا۔ بس کوئی دو پشت پہلے اس کے گھر کے لوگ فیروز آباد میں شیشہ گری کرتے تھے۔ دوچار غریب رشتے دارایسے بھی تھے جن کے گھر کی خواتین سرپر ٹوکرا لے کر چوڑیاں پہنانے نکلتی تھیں، لیکن سلمان کے دادا نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرکے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور بیٹے یعنی سلمان کے والدکو ڈاکٹر بنایا۔

”تم اتنی بڑی بات ہضم کرگئیں، لیکن میری ذات کو لے کر والدین سے جھوٹ بولنا چاہتی ہو۔ ایسا کیوں ہے؟“

 اس نے عمرانہ سے پوچھا تھا۔

”سنو سلمان، ایک مرد کہیں منھ مارتا پھرا تھا یہ برداشت کرلیاجائے گا، لیکن وہ ’کم ذات‘ ہے یہ اشرافیہ میں برداشت نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک اعلیٰ ذات سارے عیب جھپا لیتی ہے۔ ویسے تم کم ذات کم، بدذات زیادہ ہو۔“ رضوانہ نے کہا۔

سلمان مسکرایا ”کتنے شیریں ترے لب کہ رقیب....“

”ارے ارے، اسے تو اردو آتی ہے۔“

عمونے مصنوعی حیرت سے آنکھیں نکالیں۔ تینوں قہقہہ لگاکر ہنس پڑے۔

”میرے ہنسنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے....“ رضوانہ نے مسرور لہجے میں کہا۔

”بتا ڈالو....“ سلمان نے شرارت سے لب بھینچے۔

میری رشتے کی ایک چچی نے بیٹی کی نسبت طے کی۔ رشتہ طے ہونے کے بعد سننے میں آیا کہ صاحبزادے کا اپنی کسی ہم جماعت کے ساتھ عشق رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے رشتہ توڑنے کی رائے دی۔ چچی نے جواب دیا ہم نے بیٹی کا رشتہ مر دسے طے کیاہے کسی سادھو سنت سے نہیں اور اطمینان سے شادی کردی۔

 انہیں چچی نے ایک بہت اچھا، کلاس ون سرکاری افسر کا رشتہ صرف اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ اس لڑکے کے خاندان میں تین پشت پہلے کسی بزرگ نے ایک طوائف سے شادی کرلی تھی۔ وہ بی بی تائب ہوکر بڑی اﷲ والی ہوئیں۔ محلے میں ایک مسجد بنوا کے گئیں، مگر ان کے گناہ ان کا پیچھا کرتے رہے۔ کسی ’نجیب الطرفین‘ نے ان کے یہاں بیٹی نہیں دی۔

سلمان کچھ سنجیدہ ہوگیا۔

”میں رشتوں میں کچھ چھپا نا نہیں چاہتا۔ اگر شادی کے بعد معلوم ہوا تو؟ اور واقعہ یہ ہے کہ معلوم ہو ہی جائے گا۔“

عمرانہ ہنسنے لگی۔ یہاں بھی ایک چچی ہیں۔ ان کا تعلق بہار سے ہے۔ وہ بھوج پوری کی بڑی فصیح و بلیغ مثل سناتی ہیں۔

 ”بھئیل بیاہ مور، کرباکا۔یعنی اب تو بیاہ ہوچکا، کر لو کیاکروگے؟“

بڑی دھوم دھام سے عمو کا بیاہ اس مردحق گو سے ہوا جسے حق سننا آتا تھا اور سن کر اسے برداشت کرنا بھی۔

رضوانہ عمو کی شادی کے تیسرے ہی دن واپس ہوگئی۔ اس کا آناجانا یوں ہی طوفانی ہوا کرتا تھا۔ شادی میں میرا کی ماں اور کزن، جانہوی بھی آئی تھیں۔ دونوں بہنوں کے گلے لگ کر خوب روئیں۔ چھان پھٹک تو لیا ہے نا؟ انہوںنے آنکھیں پونچھتے ہوئے قمر سے پوچھا۔

انیس نے اب رضوانہ سے ہاتھ دھولئے تھے۔ چلو ایک بیٹی کا بیاہ کرکے سماج میں سرخرو ہولئے۔ کچھ دن کے لئے لوگ بھی خاموش ہوجائےں گے۔ وہ خود سرضدی لڑکی جانے اور اس کاکام، لیکن وہ قمر کے سامنے بڑبڑاتا اکثر رہتا تھا۔ میں عورتوں کے زیادہ پڑھنے کے حق میں کبھی نہیں رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن قمر ہنسی: ”تم کیا بڑے بڑے نہیں رہے۔ سرسیداحمد خاں جنہوںنے پوری قوم کو اتنی بڑی درسگاہ کا تحفہ دیا، عورتوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تو صاف صاف کہا کہ عورتوں کو تعلیم ملی تو وہ اپنا حق مانگنے لگیں گی۔“ اس کے لہجے میں طنز تھا۔

”اب تو خوب حاصل کر رہی ہیں تعلیم۔ آپ کون سی کم ہیں۔ آپ ہی کا فیض ہے کہ بیٹیوں نے جو چاہاکیا۔ رہے سرسید یامولانا تھانویؒ، تو وہ پرانے بزرگ تھے۔ ان کی سوچ اتنی ہی تھی۔“

”آپ کی سوچ کون سی آگے بڑھی۔ آپ پرانے بزرگ کب سے ہوگئے۔“

”لڑنے کے علاوہ تعلیم سے اور کیا کیا آتاہے؟“

”گھر کی آمدنی میں اضافہ۔ سراٹھا کے جینا۔ کسی عنوان مردکا سایہ سرپر نہ ہو تو خود کفیل ہونا۔“

”اور گھر سے دور تنہا رہ کر نہ جانے کیا کیا کرتی پھرنا جو ہماری رضوانہ صاحبہ کررہی ہیں۔“ اس نے بات کاٹ کر لقمہ دیا۔

”کیا کرتی پھر رہی ہے! کسی نے کچھ کہا کیا؟“

”کوئی کہے گا کیا، لیکن قیاس بھی تو کوئی چیز ہے۔ آخر وہ اکرم فاروقی کیوں بھاگ نکلا۔ اسے تو محترمہ نے پسند کر لیا تھا۔“

 اپنی ہی بیٹی کے لئے انیس کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی اور شدید ناپسندیدگی کا عنصر۔

اکرم فاروقی کی شادی کا دعوت نامہ رضوانہ نے سمیر اور نرگس کو بڑھا دیا تھا چونکہ اکرم نے لکھا تھا کہ چاہے تو ساتھ کے لئے ایک دو دوستوں کو مدعو کر سکتی ہے۔ سمیر نے اسے مذاق سمجھا اور توجہ ہی نہیں دی۔ نرگس دوست کے ساتھ ہم کار بھی تھی۔ وہ چلی آئی۔

اکر م حیرت زدہ رہ گیا۔ اسے لگ رہا تھارضوانہ نے یونہی کہہ دیا ہے۔ شاید یہ دکھانے کے لئے کہ اسے اکرم کی کہیں اور شادی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ آئے گی تھوڑ ے ہی۔ بڑی جی دار لڑکی ہے، اس نے سہرے کی لڑیوں کے پیچھے سے اسے غور سے دیکھا اور پھر کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ رضوانہ نے بے حد سلیقے سے میک اپ کیا تھا۔ بے داغ گندمی جلد، شانوں تک تراشے ہوئے کھلے بال۔ کپڑے نہایت باذوق، نہ چیختے چلاتے جیسے اکثر خواتین شادی میں روا رکھتی ہیں، نہ آفس والے کالے سفید، سراپا شاخ گل، پھر ایسی وضع داری کہ کچھ لوگوں کے سوال کرنے پر اس نے بڑی متانت سے بتایا کہ اکرم کی کمپنی اور اس کی لاءفرم کے کاروباری تعلقات کی وجہ سے وہ اور نرگس اپنی فرم کے سربراہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

 اچانک اکرم کو احساس ہوا کہ اس نے کہیں کوئی غلطی تو نہیںکی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ داغ برص کا داغ تھا تو اب تک پھیل چکا ہوتا۔ جس لڑکی کے گھر وہ بارات لے کر آیا تھا، وہ والدین کی موجودگی میں چائے کی ٹرے لے کر داخل ہوئی تھی اور بس ایک بار کی اس نہایت روایتی ملاقات کے بعد رشتہ طے پاگیا تھا۔ بیشک اس کے بعد فون پر گفتگو ہوتی رہی تھی، لیکن بس دوماہ کے اندر شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی۔ لڑکی قبول صورت تھی، گفتگو میں معقول محسوس ہوتی رہی تھی، لیکن یہ ’بات‘ نہیں تھی اس میں، یہ اعتماد بھی نہیں تھا۔

پھر اس نے دل کو تسلی دی۔ عورتوں میں خود اعتمادی وصف نہیں، منفی پہلو ہوسکتا ہے۔ مہمانوں میں ایک صاحب رضوانہ کے پرانے شناسا نکل آئے تھے۔ شاید لاءکالج میں ساتھ تھے، بڑی گرمجوشی سے ان سے ہاتھ ملایا پھر دیر تک چہک چہک کر باتیں کرتی رہیں۔ کیا پتہ کبھی کوئی ’معاملہ‘ رہا ہو۔ ایسی آزاد، خود مختار لڑکیاں اتنے دنوں تک کنواری رہ جائیں اور کوئی معاملہ نہ رہا ہو۔ ناممکن، او کے، ناممکن نہ سہی، لگ بھگ ناممکن

 next to impossible

 ۔ اچھا خیر نہ ہو کچھ، لیکن مردوں سے اتنی بے تکلفی برتنے والی خواتین ہمارے گھر میں کہاں کھپیں گی۔ شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کاارادہ بھی تھا۔ پتہ چلتا کہ گھر میں مرددوست چلے آرہے ہیں، یہ لڑکی یقینا گھریلو مزاج کی ہوگی ہمیشہ والدین کے ساتھ رہی ہے، عمر میں کم ہے۔کمپیوٹر کا کورس کر چکی ہے۔ اگر گھر میں کچھ زائد، ذاتی آمدنی چاہے گی تو پارٹ ٹائم کام کرنے دوں گا۔ جو مل رہا ہے بہت ٹھیک ہے۔ اس نے طمانیت کے ساتھ سوچا اور خوشی خوشی نکاح نامے پر دستخط کردئے۔

جو ملا وہ بہت ٹھیک نہیں تھا، وقت نے بتایا، وقت جو سب سے بڑا منصف ہے، وقت جو سب سے بڑا مزاج داں ہے، وقت جو زخم بھرتا بھی ہے اور زخم دیتا بھی ہے۔

سال، ڈیڑھ برس کے اندر اکرم فاروقی کی بیوی گھر جاکر بیٹھ گئی۔بات یہ نہیں تھی کہ اکرم میں کوئی کمی تھی، بات یہ بھی نہیں تھی لڑکی بری تھی یا اپنے مرد دوستوں کو گھر پر بلاتی پھرتی تھی۔ وہ تو سرے سے کریئرگرل تھی بھی نہیں۔

اکرم کو ملازمت پیشہ بیوی پر اعتراض نہیں تھا، ایک خاموش پسندیدگی ہی تھی کہ گھر میں دوہری آمدنی بہتر معیار کی ضامن ہوتی ہے، لیکن نہایت دولتمند سسرال سے اس کی بھرپائی ہورہی تھی۔ بہ حیثیت مجموعی دونوں شریف گھروں کے عام سے میاں بیوی تھے بس اس لڑکی کا موسیقی سے غیر معمولی شغف اختلافات کی بنا بن گیا، اس نے باقاعدہ کلاسیکی موسیقی کچھ عرصے تک سیکھی بھی تھی، لیکن اس سے کیا، اس کے ”بایو ڈاٹا“ میں تو اس کا ذکر بھی تھا کہ اسے موسیقی کا شوق ہے۔

تو اس سے یہ کہ ہر کونسرٹ کا ٹکٹ چاہئے، آئے دن ممبئی کے کوڑی پھیرے، ہر وقت موبائل پر یا لیپ ٹاپ پر یوٹیوب پر زور زور سے گانے سنے جارہے ہیں۔ آواز کم کرنے کو کہو تو مزا نہیں آتا، پھر یہ کہ آن چھوڑ کر اٹھ جانے پر کان میں آواز آتی رہتی ہے اس لئے والیوم کم نہیں ہوگا۔ اماں ابا نے کچھ عرصے بعد میوزک کی تعلیم رکوادی تھی کہ شریف مسلمان گھرانوں میں اس سے زیادہ کا کیا کام، بہت ہوا، شوق پورا کرلیا، ہم تو بھائی یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ شادی کے بعد آزاد ہوں گے۔ آج کے شوہر کو ایسا اعتراض تھوڑی ہوگا۔ سو استاد مقرر کرلئے گئے، اب ہروقت ریاض ہورہا ہے۔

بات یہاں تک بھی رہ جاتی تو خون کے گھونٹ پی پی کر برداشت ہوجاتی، جیسے ہو رہی تھی اس لئے کہ باقی معاملوں میں لڑکی اچھی تھی۔ گھر بہت سلیقے کے ساتھ رکھتی، باورچی خانے میں دلچسپی لیتی اور انوراگ کی جس درجہ بندی کی وجہ سے عمرانہ کا جی کھٹا ہوا تھا، اس کے مطابق جی آئی بی تھی۔ گڈ ان بیڈ۔ پانی سر سے اونچایوں ہواکہ جو صاحب میوزک سکھانے آتے تھے انہوںنے اسٹیج پر پروگرام دینے کے خواب جگائے اکرم نے سخت نارضامندی کا اظہار کیا تو انہوںنے بہت دیر بیٹھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

 ”دیکھئے رومی (وہ ادھیڑ عمرانسان تھے، اس کی عرفیت استعمال کرنے لگے تھے) میں بڑی ٹیلنٹ ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ اگر وہ کوشش جاری رکھے تو پلے بیک سنگر تک بن سکتی ہے۔ آپ اس کی صلاحیت کو دبائیے مت۔ ہر انسان اپنی تکمیل چاہتا ہے۔“

انہوںنے دوچار نفسیات دانوں کو کوٹ کیا۔ اکرم مزید بھڑکا، یہ اس کے گھر کا معاملہ تھا۔ بیوی بھی اُلا رہو گئی۔

”جس کو کھرچو اس کے اندر سے ایک فیمنسٹ برآمد ہو رہی ہے۔“ ایک دن وہ چڑھ کر بولا تھا۔

 ”کس کس کو کھرچ چکے ہیں آپ؟“

تیزاب میں ڈوبا جوابی حملہ ہوا۔

رومی گھر سے بے نیاز ہوتی چلی گئی، پھر اکرم سے بھی، اس نے اسٹیج پر پروگرام تو نہیں دیا،لیکن صبح کا وقت جو پہلے ساتھ میں بڑا خوبصورت گزرا کرتا تھا، ریاض میں گزرتا تھا۔ اکرم کو کلاسیکی موسیقی سے کوئی شغف نہیں تھا۔ وہ اسے چیخ پکار لگتی 

(جیسے راج کے دوران بعض انگریزوں کو لگا کرتی تھی۔) 

اب اکرم بیڈ ٹی تنہا پیتا تھا۔ اکثر ناشتہ تنہا کرتا تھا۔ اس نے میوزک ٹیچر کو ہٹانے کی بات کی تو وہ میکے چل دی۔ یہ سارا معاملہ شادی کے چھ ماہ بعد شروع ہوکر اگلے سال بھر کے اندر سنگین صورت اختیار کرچلا۔ آئے دن جھگڑے، آئے دن بات چیت بند، اخراجات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ بڑے گھر کی لڑکی کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا، شروع میں اس کے پاس بھاری رقم تھی جواسے شادی کے وقت ملی تھی، لیکن اب وہ ہر چیز کے لئے اکرم سے فرمائش کرتی تھی۔ غرض یہ کہ ایک بنیادی اختلاف نے بہت سے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی راہیں بھی کھول دی تھیں جوآگ میں گھی ڈالتے رہتے تھے۔

پہلے میں نے سوچا ہمارے یہاں جلدی ایک بچہ آجائے تو بیوی اس میں بندھ کر میوزک بھول جائے گی۔ پھر میں نے سوچا کہ نہیں ابھی بچہ مزید مسئلے پیدا کر سکتا ہے، پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ شادی چل سکے گی یا نہیں۔ بیوی نے بچے کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ مجھے یہ بھی شک ہوا کہ کہیں وہ اچھی ماں ثابت ہوسکے گی یا نہیں۔ ابھی اس کی عمر کم ہے۔ کسی دن باتوں باتوں میں اس نے کہاکہ اسے شادی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ بڑے رومانی تصور پال رکھے تھے اس نے۔ میں نے پوچھا کہ پھر تم راضی کیوں ہوئیں۔ بولی میںنے سوچا یہ بھی ایک تجربہ ہے، کر لیاجائے۔ تو؟ جواب ملا

 I am sorry, it doesn't seem working

 ۔ ویسے کوشش تو کر رہی ہوں۔

اکرم نے یہ ساری باتیں اختصار کے ساتھ، لیکن صاف صاف لکھ ڈالی تھیں۔

کوئی اٹھارہ بیس ماہ کے وقفے کے بعد جب وہ کبھی دھندلی سی یاد بن کر بھی شاید ہی ابھرا ہو، اس کا نام میل باکس میں دیکھ کر رضوانہ کی آنکھیں ہر مرتبہ سے زیادہ حیرت زدہ ہواٹھیں۔ ڈھیٹ کہیں کا۔ اب کیا بچے کی چھٹی میں مدعو کررہا ہے۔

سارا کچھ پڑھ کر اس نے جواب دیا: ”آپ مجھ سے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔“

جواب کا جواب آیا۔ ”ملنا چاہتا ہوں۔“

رضوانہ نے لکھا۔ ”میں طلاق میں اسپیشلائز نہیں کرتی۔ نہ ہی میرج کاﺅنسلر ہوں۔ آپ غلط بٹن دبا رہے ہیں۔“

اکرم نے اب کی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اسی طرح رضوانہ کے پاس پہنچ گیا جیسے ڈھائی تین سال پہلے پہنچا تھا۔

”میں، آپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے آیاہوں۔ اگر آپ رضامند ہوں تو ابھی آپ کے سامنے طلاق نامہ لکھ کر سسرال بھجوادوں گا۔“

رضوانہ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔

”مجھے دروازے پر آئے لوگوں کو بے عزت کرنا اچھا نہیں لگتا اکرم فاروقی صاحب۔ آپ کا چہرہ میں آج آخری مرتبہ دیکھوں۔ آج کے بعد آپ نظر نہ آئیں، جو یاد اﷲ آپ سے ہوئی اس کے تحت ایک مشورہ ضرور دوں گی، جائےے کسی میرج کاﺅنسلر سے ملئے۔ یہ ایڈجسٹمنٹ کے معمولی مسئلے ہیں۔ بیوی کپڑوں کی طرح نہیں بدلی جاتی۔“

”یہ آپ کا آخری جواب ہے؟“

رضوانہ نے کچھ فائلیں اٹھائیں اور چیمبر سے باہر نکل گئی۔ کوری ڈور میں بیٹھے چپراسی سے کہتی گئی، میرے کیبن میں جو صاحب ہیں ان سے کہو تشریف لے جائیں۔

نرگس اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہ کر تجربہ کررہی تھی کہ شادی کرنا مناسب رہے گا یا نہیں۔ جوہی نے دوچار عشق لڑا کر ماں باپ کی پسند سے شادی کرکے ائرلائنس کی نوکری چھوڑ دی تھی اس لئے کہ اس کے شوہر اور سسرال والوں کو ائرہوسٹس کی نوکری پسند نہیں تھی۔

”مجھے فیشن ڈیزائننگ کا شوق رہا ہے۔“ اس نے رضوانہ کو شادی کا کارڈ دیتے ہوئے بتایا تھا۔

”بہ آسانی کوئی کورس کرکے اپنا بوتیک کھولوں گی۔ ائرہوسٹس کی نوکری چھوڑنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔ خوب انجوائے کرچکی ہوں، مگر ہاں کچھ تو کروں گی۔ شوہر کے آگے ہاتھ پھیلانا مجھے پسند نہیں۔“ قدرے توقف کے بعد بولی:

 ”نوکری اس لئے چھوڑ دی کہ میں خود اب اکتاچکی تھی ورنہ میں شرطیں مان کر شادی کرنے والی نہیں ہوں۔ آنا ضرور، اس نے خوش دلی سے کہا، ورنہ میں ناراض ہوجاﺅں گی۔“

”کرایہ دے گی ہوائی جہاز کا؟ ٹرین کا وقت میرے پاس نہیں ہے۔“ رضوانہ نے بھی خوش دلی سے جواب دیا۔

”دوں گی۔“ وہ پیکنگ میں مصروف ہوگئی۔ ایک دن پہلے ممبئی کی ساری شاپنگ رضوانہ کو دکھا چکی تھی۔ راجستھان میں گوٹے کا کام بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ ممی نے بھاری لہنگا بنوایا ہے اور کئی شفان کی ساریوں پر بھی گوٹے کا کام بنوایا ہے، اس نے کپڑے سمیٹتے ہوئے کہا تھا۔ میرا بھی ایسی ہی خوش خوش شاپنگ کرتی پھر رہی تھی۔

رضوانہ نے اداس ہوکر سوچا۔ اس کی اداسی اس کے چہرے پر کھنڈ آئی۔ عورتیں کب کپڑوں، زیورات اور میک اپ سے اوپر اٹھ سکیںگی، لیکن اگر ساری کی ساری عورتیں ان سے بے نیاز ہوجائیں تو کائنات سے رنگ نہیں اڑجائیں گے؟ کیا خوبصورت کپڑے پہننے اور خوشنما نظر آنے میں کوئی برائی ہے؟ قطعی نہیں، اس نے سوچا بشرطیکہ زندگی صرف ان سے عبارت نہ ہوجائے اور کوئی مرد یہ نہ کہہ سکے کہ نہیں اور کام کیا ہے۔ گہنے تڑواﺅ، گہنے بنواﺅ۔

عمواپنے گھر میں خوش تھی، اس کے یہاں جڑواں بچے ہوئے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ سلمان بے حد خوش تھا۔ دقت تو ہوگی، لیکن ساتھ ساتھ پل جائیں گے۔ پھر یہ کہ بیٹا، بیٹی دونوں۔ اتفاق سے عمو کی زچگی اور جوہی کی شادی کا وقت ایک ہی تھا۔

رضوانہ جے پور میں بس ایک دن رک کر دہلی چلی آئی۔ عمو کا روشن چہرہ دیکھ کر اسے پہلی بار زندگی میں کسی کمی کا احساس ہوا۔ نرگس کی بات یاد آئی۔ جس دن بچے گملوں میں اگنے لگیں گے اس دن عورتیں ہمسری کا دعویٰ خم ٹھوک کر کرسکیں گی۔ فی الحال تو تھوڑا سا جھکنا پڑے گا۔ اس نے بچوں کو گود میں اٹھایا تو اسے محسوس ہوا اس کی چھاتیوں میں سرسراہٹ ہو رہی ہے۔ کچھ دودھ اترنے جیسی سرسراہٹ، میں نارمل ہوں، میں نارمل ہوں۔ ذہن نے گردان کی، لیکن میں جس ذہنی، سماجی اور جذباتی سطح پر ہوں، وہاں کسی شخص کو صرف اس لئے قبول نہیں کرسکتی کہ مجھے ایک شوہر چاہئے، میں اپنی اس خواہش کے ساتھ بھی نارمل ہوں کہ مجھے اس سے مل کر ذہنی ہم آہنگی کااحساس ہو تبھی میں اسے قبول کرسکوں۔

اسے سمیر کا خیال آیا، وہ بہترین دوست تھا، ہر مسئلے میں سہارا، ہر پریشانی میں دوڑ پڑنے والا، اس نے کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا، لیکن رضوانہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے اپنی ماں کو کسی طرح راضی کرکے پرانا فلیٹ بکوا دیا اور دوسرا ایسے علاقے میں خریدا جو رضوانہ کے علاقے سے قریب تھا، ورنہ ممبئی کے فاصلے الامان، اکثر آنکلتا تھا، میں اس کے ساتھ پوری زندگی آرام سے گزار سکتی تھی، لیکن راہ کے پتھروں کو کیا کروں۔ دنیا کہے گی بیٹی کو چھوڑ دیا تھا، کیا کرتی، جو ملااس سے شادی کرلی۔ 

(جو ملے اس سے پکڑ کر شادی کر دینے والے والدین کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔) 

بے چارے، بے قصور موردالزام ٹھہرائے جائیں گے۔ بچوں کے لئے مذہب کا جھمیلا ہوجاتاہے۔ لوگ پہلے سوچتے نہیں، بعد میں چپقلش سارے رومانس پر پانی پھیر دیتی ہے۔ شاید سمیر اورمیں اس چپقلش سے اوپر اٹھ جائیں۔ ہم دونوں پختہ عمر، پختہ ذہن ہیں۔ چھوڑ دیں گے بچوں کو یونہی۔ بڑے ہوں گے تو جو چاہیں لیبل لگائیں اپنے اوپر۔ کچھ تو کرنا ہوگا۔ محض دوست رہ کر تو ساری زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ نرگس کی طرح ساتھ رہنے لگوں؟ وہ پارسن مسلمان کے ساتھ آرام سے رہ رہی ہے۔ آخری شادی کے دوبول پڑھوا کے یا پھیرے لے کے ہوتا کیا ہے؟ لیکن تب ہاں اگر میرے اندر کی عورت جاگ کر ماں بننا چاہے تو؟ دو بول ان بچوں کو جائز بناتے ہیں۔ اتنا تو کرتے ہیں ورنہ امرتاپریتم اور اندرجیت کو لے لو۔ کس قانونی شادی سے کمتر رشتہ تھا ان کا۔ اس کا سر دکھنے لگا، واقعی میں اولڈ میڈ بنتی جارہی ہوں۔ اچھا تھوڑا اور سوچ لوں اور ممی سے بات کرکے دیکھوں ،کیا ری ایکشن ہوتا ہے۔

ممبئی واپس آکر اس نے سب سے پہلے سمیر کو فون کیا۔ ”ہائی، آئی ایم بیک۔“

”اوہ رضوانہ، میں تمہیں فون کرنے ہی والاتھا۔ یار، اماں میرا رشتہ طے کر آئی ہیں۔“اس کی آواز قدرے کھسیائی ہوئی تھی۔

تو خوش ہو کے بتاﺅ نا، مرے کیوں جارہے ہو، رضوانہ کو اپنی آواز کھوکھلی محسوس ہوئی، بے حد کھوکھلی، اس نے کبھی سمیر کے ساتھ بات کرتے ہوئے خود کو یوں دوغلا نہیں محسوس کیا تھا۔

رضوانہ اکرم فاروقی کی بارات میں شریک ہوئی تھی، سمیر کی تو ساری رسموں میں شریک ہوئی۔ الٹی سیدھی ڈھولک بجاکے بے سری آواز میں گیت بھی گائے۔ سمیر کو جب دولہا بنایا جارہا تھا تو بے حد مسرور آواز میں ہنسی مذاق بھی کرتی جارہی تھی، لیکن اس کی گہری سیاہ اداس آنکھیں بالکل الگ کھڑی تھیں۔

سمیرنے ہولے سے کہا:” میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔“

”مجھے کوئی شکایت نہیں۔“ اس نے جواب دیا، لیکن الفاظ ٹھن ٹھن بجے، ایسے خالی جیسے اس کا دل۔

آفس کی مصروفتیں خالی دل بھرتی تو رہیں، لیکن کہیں رات کو وہ پھر خالی ہوجاتا تھا اور نیند جلدی نہیں آتی تھی۔ پھر ایک دن قمر کا فون آیا۔ یہی آفس کے اوقات میں۔

مما اب کیا؟ اس نے سوچا، لیکن فون ریسیو کرتے ہوئے اس کے ہاتھ قدرے کانپے۔

”تمہارے پاپا پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔“ قمر نے خشک آواز میں کہا اور فون رکھ دیا۔

انیس کے جسم کادایاں حصہ مفلوج ہوگیا تھا اور گویائی جاتی رہی تھی۔ باقی سارے احساسات باقی تھے۔ رضوانہ سامنے آئی تو اس نے منھ پھیر لیا۔ قمر نے کہا سامنے مت جاﺅ، بول تو سکتے نہیں، گونگا غصہ اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

میںنے کیاکیاہے مما؟ لیکن الفاظ اس کے منھ سے باہر نہیں آئے۔ وہ بھی پل بھر کو گونگی ہوگئی جیسے اس پر بھی فالج نے حملہ کیا ہو۔ پھر آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہوگئے۔ اس پرائیویٹ نرسنگ ہوم کے ایک گوشے میں خاموش بیٹھی روتی رہی۔

رضوانہ نے چھٹی بڑھائی۔ ذاتی فلیٹ بک کرانے والی تھی، لیکن وہ پیسہ ماں کے اکاﺅنٹ میں ڈال کر انیس کو زیادہ مہنگے نرسنگ ہوم میں شفٹ کرایا۔ ڈاکٹروں نے کہابھی کہ دوائیں وہی دی جائیں گی چاہے کہیں لے جائیے، لیکن یہاں نرسنگ زیادہ اچھی تھی۔ اٹنڈنٹ کے لئے بھی سہولیات زیادہ تھیں۔

انیس آئی سی یو سے باہر آگیا اور کمرے میں منتقل ہوا تو رضوانہ واپس چلی گئی، چلتے ہوئے اس نے شیشے کے چوکور حصے سے باپ پر نظر ڈالی۔ اتفاق سے آنکھیں چار ہوگئیں۔ اس نے ا نہتائی غصے میں سر پیٹنا شروع کیا اور پھر رونے لگا۔ یہ رونا کسی جدائی کے غم میں نہیں تھا بلکہ اس سے بے بسی کے احساس کے تحت تھا کہ وہ نہ بول سکتا ہے نہ اُٹھ کر بیٹی کو دھکا دے کر ہسپتال سے باہر نکال سکتاہے۔

 ”جارہی ہے، جارہی ہے، واپس جارہی ہے۔“

 قمر نے شوہر کو تسلی دی، انیس نے بائیں ہاتھ سے دفع ہونے جیسا اشارہ کیا اور پھر اسی ہاتھ سے آنسو پونچھے۔

دل کا درد بڑھ گیا تھا۔ پاپا میں نے کیا براکیا؟ کیا مجھے اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں ہے؟ آپ اپنی مرضی سے جیئے، آخر کو آپ نے مما سے ان کی ایک ایک ایکٹویٹی چھڑوا ہی دی جو رٹائرمنٹ کے بعد ان کو مصروف رکھنے کا بڑا سہارا ہوتی۔ شاید کبھی ان کی انجمن کے ذریعے لوگوں کا بھلا کرنے کی کوششیں کامیاب بھی ہوتیں۔ آخر ان کے چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد دو لڑکیاں بردہ فروشوں کے چنگل سے رہا کرائی گئی تھیں۔ ایک طلاق یافتہ لڑکی کو عدالت کے ذریعہ گزارہ بھتہ دلوایا گیا۔ چراغ جلتا ہے تو کچھ دور تو روشنی ہوتی ہی ہے۔ انہوںنے بوتیک کھولنا چاہا تو آپ نے کہا درزی گیری ہمارے خاندان کا پیشہ نہیں ہے۔ میری اور تمہاری پنشن کافی سے زیادہ ہے۔ ہوس کیوں ہوگئی ہے تمہیں۔ پاپا ہر کام ہمیشہ ہوس کے لئے نہیں کیا جاتا۔ زندگی کچھ مصروفیت چاہتی ہے۔ وقت گزاری کا ذریعہ چاہتی ہے، کچھ کرپانے کی طمانیت چاہتی ہے۔ ہاں اب تو آپ نے مما کو وہ مہیا کرادی۔ پڑے رہئے بستر میں۔ ان کا وقت آپ کی دیکھ بھال میں گزرے گا، کہیں جو وہ آپ سے پہلے چلی گئیں تو! ذرا اس کا خیال کرلیں، پھر تو میرے پاس ہی آئیے گا۔ عمو کے بچے ہیں، شوہر ہے۔ وہ اتنا وقت نہیں دے پائے گی۔

بھاری دل کے ساتھ باپ کو دور سے دیکھ کر وہ لوٹ آئی۔ انیس کو نرسنگ ہوم نے ڈسچارج کرکے گھر، بھیج دیا تھا۔ اب وہاں وہ صاحب فراش تھا۔ رضوانہ نے اس کے لئے ایک مرد نرس کا انتظام کردیاتھا اور اخراجات اپنے ذمہ لے لئے تھے گرچہ کوئی مالی دشواری گھرپر نہیں تھی۔

عمو بھی کچھ دن رہ کر لوٹ گئی۔ شروع میں اور بہت سے عزیز رشتہ دار آئے۔ پھر سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوئے۔ ایک خاموش اداس ماحول میں قمر اور انیس کی زندگی لگے بندھے ڈھرے پر گزرنے لگی۔ وہ اداسی لکھنو  سے اٹھ کر آتی، ممبئی میں رضوانہ کے فلیٹ کی کھڑکیوں سے جھانکتی، کچھ دیرٹھہرتی پھر دوبارہ لوٹ آنے کے لئے کہیں گم ہوجاتی تھی۔ کبھی نیند کے دھندلکوں میں، کبھی کام کے ڈھیر میں، کبھی کچھ زبردستی چھینے گئے تفریح کے لمحوں میں، مگر وہ کبھی مرتی نہیں تھی کہ اسے بقائے دوام حاصل تھی۔ وہ شاخسانہ تھی اپنی راہیں خود متعین کرنے کا، وہ قیمت تھی سماج کے ڈر سے کچھ راہوں کو مسدود کردینے کا۔ اس لئے وہ دروازے پر دستک دیتی رہتی تھی اور ایک روسی لوک کتھاکی چڑیل کی طرح دھکا دے کر نکالے جانے کے باوجود دوسرے دن شام ڈھلے پھر آن موجود ہوتی تھی۔

سمیر سے بات کم ہی ہوتی تھی۔ ملنا جلنا تو برائے نام رہ گیا تھا، دونوں اپنی اپنی جگہ سمجھ رہے تھے کہ اب پہلی جیسی بات نہیں رہ سکتی۔ شاید کہیں یہ ڈر تھا کہ سمیر کی بیوی کو شک ہوجائے گا، یا پھر یہ ڈر تھا کہ زخموں پر کبھی کھرنڈ آہی نہیں سکیں گے۔ کہیں کسی قسم کا پےچیدہ رشتہ نہ بن جائے، جس پودے نے سر اٹھا لیا تھا وہ تناور درخت کی صورت نہ اختیار کرلے جسے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہ ہو۔ 

(لیکن کیا وہ صرف پودا تھا؟ کیا اسے اکھاڑتے اکھاڑتے وہ تھک نہیں چکی تھی؟ کیا سنگلاخ دل کی زمین سے لہو نہیں پھوٹ بہا تھا؟)

اس نے سمیر کو پاپا کے صاحب فراش ہوجانے کی اطلاع نہیں دی کہ دکھ بانٹ سکے۔ پہلے وہ نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لئے اس کی طرف دوڑ جایا کرتی تھی۔ جوہی کے جانے کے بعد فلیٹ کے لئے کسی شرکت دار کی تلاش، فلیٹ خریدنے کا پیسہ جمع ہوا تو بساط کے مطابق علاقہ اور فلیٹ دیکھنے کی بات، بینک سے لئے جانے والے قرض پر گفتگو کرلینے کی بات، اکرم فاروقی منظرنامے پر لکھاگیا تو اسے پرکھنے کی بات، یہ سارے مسئلے بہت چھوٹے تھے، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود مختار، خود کفیل نوجوان عورت تھی۔آج کی عورت، لیکن کسی کے ساتھ، کسی کے قرب کا وہ طمانیت بخش احساس، وہ ایک شخص جس سے وہ اماں یار اورابے تبے کرکے بات کرلیتی تھی۔

”الو کے پٹھے ہو تم....“ ایک بار تو وہ یہ تک بول گئی تھی۔ وہ چونکاتھا، لیکن پھر دوسرے ہی لمحے ہنس پڑا تھا۔

 ”یہ legal language

ہے کیا؟ اگر میں نے تمہیں پرپوز کیا تو اس میں الو کا پٹھا ہونے کی کیا بات ہے؟“

”اس لئے کہ تمہاری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ آئی ایم ناٹ ان لو وِد یو۔ تم گہرے دوست ہو، تمہیں پسند کرتی ہوں اور بس۔“

اس نے کس طرح تھپک تھپک کر اپنے دل کو سلا رکھا تھا، کن کن الفاظ کے تلے اس ایک لفظ کو دبادیا تھا جسے محبت کہتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ سماج نے اسے حق نہیں دیا تھا کہ وہ اس شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرے جس کے ساتھ اسے ہمیشہ خوش رہنے کی امید تھی۔

اس نے کچھ حق ضرور چھینے تھے، لیکن ان کے آگے لکیر بھی کھینچی تھی کہ اب بس۔ گرچہ دل تو اور بہت کچھ مانگتا تھا، جن لوگوں کے لئے اس کے سماج نے، اس کو ورثے میں ملی اخلاقی قدروں نے کچھ فرائض تفویض کئے تھے ان سے اس نے پہلو تہی نہیں کی تھی، لیکن بدلے میں اسے کیا ملا؟ یہی کہ اس کے باپ نے اسے دیکھ کر نفرت سے منھ پھیر لیا وہ بھی ایسے وقت جب وہ اس کے پاس بیٹھ کر، اس کے بالوںمیں انگلیاں پھیر کر کہنا چاہ رہی تھی۔ ”پاپا میں ہوںنا، میں آپ کی بیٹی، آپ کی غم گسار۔“

عمو سے اس کی اگلی ملاقات چھ ماہ بعد انیس کے انتقال کے موقعے پر ہوئی، اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ دونوں بیٹیوں میں سے کوئی بھی آخری وقت میں نہیں پہونچ سکا تھا۔ صرف قمر تھی جو قالین پر اس کی پٹی پکڑے بیٹھی کسی کتاب سے کچھ پڑھ کر سنا رہی تھی۔

سیوم کے بعد دونوں بہنوںنے ماں سے کہاکہ وہ ان میں سے جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے یا باری باری دونوں کے درمیان وقت تقسیم کرسکتی ہے۔ قمر نے سختی سے انکار کردیا۔

”میری صحت بالکل ٹھیک ہے اور میں نے ابھی ساٹھ کی دہائی پار ہی کی ہے۔ لکھنو ¿ میرا شہر ہے اور یہ میرا گھر ہے، میں یہاں خوش ہوں اور یہاں تنہا بھی نہیں ہوں۔ زندگی نے ایسی پٹخنی دی کہ گزر نہ کرسکوں تب دیکھا جائے گا۔“ اس کے لہجے میںسفاکانہ قطیعت تھی۔

لڑکیاں واپس ہوگئیں۔

عدت پوری ہونے کے بعد قمر نے انجمن نسواں پھر سے جوائن کرلی۔ کچھ عرصے بعد گھر ہی میں ایک چھوٹا سا بوتیک بھی کھول لیا۔ انجمن کی سرگرمیاں جزوقتی تھیں۔

”میں اب کسی کی پابند نہیں، کسی کو جوابدہ نہیں، صرف اپنے ضمیر کی جوابدہ ہوں اس لئے ایساکوئی کام نہ کبھی کیا نہ اب کروں گی جو میرے ضمیر پر بوجھ ہو۔“ ایک دن عمو سے فون پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ ایک بار عمو کے یہاں جاکر رہ بھی آئی تھی، اس کے بچوں سے اسے بے حد محبت تھی جو دن بدن زیادہ پیارے، زیادہ دلچسپ ہوتے جارہے تھے۔ عمرانہ کی مطمئن و مسرور زندگی قمر کی بہت سی اپنی محرومیوں کی تلافی کرتی محسوس ہوتی تھی۔ 

(اس کو انیس کے ساتھ اپنے گھر بسا دیکھ کر اور اولادیں ہوجانے پر اماں بھی ایساہی کچھ محسوس کرتی تھیں۔ ان کا چہرہ ان کے جذبات کا آئینہ ہوا کرتا تھا۔)

انیس کے انتقال کوسال بھر ہوچکا تھا۔

”آج مرے کل دوسرا دن“ رضوانہ نے بے حداداس ہوکر کہا۔ بہت سے محاورے زندگی میں بڑی دیرسے سمجھ میں آتے ہیں۔

”ابھی نہ جانے کتنے اور سمجھ میں آنے باقی ہیں۔“ عمونے اسی لہجے میں کہا۔ اس کا انداز مصرعہ اٹھانے والاتھا۔

قمر خاموشی سے قرآن کو جزدان میں واپس رکھنے لگی۔

لڑکیاں ماں کی دلجوئی کے لئے آگئی تھیں۔ ان لوگوں نے روایتی برسی کااہتمام نہیں کیاتھا۔ خاموشی سے دیگیں پکوا کر کھانا یتیم خانے اور کچھ غریب لوگوں میں بھجوا دیا تھا۔ تینوں ماں بیٹیاں خاموشی سے سرجوڑے، جانے والے کی کمی کو محسوس کرتی رہیں۔ انیس کے بغیر گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ انیس جو بولتا کم تھا، لیکن سارے گھر پر حاوی، ساری فضا میں رقصاں رہا کرتا تھا۔ اس کی غیر موجودگی سال بھر بعد بھی گھر میں کہیں نہ کہیں دبے پاﺅں پھرتی رہتی تھی۔

رات کو عمو بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ یکایک رضوانہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رکی اور پلٹ کر بولی، مما، میں تمہارے ساتھ سوجاﺅں۔ قمر کو گلے میں کچھ پھنستا سا محسوس ہوا۔ بولی کچھ نہیں صرف ایک ہاتھ بیٹی کے کاندھے پر رکھ دیا۔ رضوانہ کو محسوس ہوا اس لمس میں خوشی ہی نہیں، ممنونیت بھی تھی۔ بستر پر آنے کے بعد اس نے ایک معصوم بچے کی طرح سر ماں کے سینے سے ٹکا دیا۔

مما، ایک بات پوچھوں؟ کچھ دیر بعد اس کی سرگوشی سناٹے میں یوں سرسرائی جیسے درختوں کے درمیان ہلکی سی ہوا ہولے سے گزرے۔

”پوچھو بیٹا۔“

”پاپا مجھ سے اس قدرناراض کیوں تھے؟ ایساکیا کردیا میںنے؟ انہوںنے جس طرح مجھے دیکھ کر منھ پھیرا اس کے اثر سے میں آج تک نکل نہیں پائی ہوں۔“

”وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اب یہ جاننا فضول ہے۔“ قمر نے بیٹی کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔

”میں باقی ساری عمر خلجان میں مبتلا رہوں گی، اس لئے جانتی ہوں تو بتا دیجئے۔

”کیا واقعی اس سے تمہیں سکون ملے گا؟ کیا تلخیوں کو نہ جاننا بہتر نہیں ہے؟“

”اس کا مطلب ہے آپ کو معلوم ہے۔ مما میری خلش دور ہوجائے گی۔ بات کتنی بھی کڑوی کیوں نہ ہو۔“

”اکرم کے والدنے ان کو فون کیا تھا۔ اکرم کی شادی ناکام رہی تھی۔“ قمر نے طویل سانس لے کرآہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔ ’انہوںنے کہا، معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیٹی کی نسبت ابھی تک کہیںطے نہیں ہوئی ہے۔ ہم پچھلی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر انہوںنے یہ بھی بتادیا کہ ان کے دوسری جگہ جانے کا سبب تمہاری ہٹ دھرمی تھی۔“ کہہ کر قمر خاموش ہوگئی۔

”میں سن رہی ہوں۔“

انیس پہلے تو چراغ پا ہوئے، ان پر نہیں، تم پر۔ پھر دوچار دن کے توقف کے بعد کہہ دیا کہ انہیں اعتراض نہیں۔

”انہیں یہ معلوم تھاکہ اکرم نے بیوی کو طلاق ابھی نہیں دی ہے؟“

”یہ معلوم تھا، لیکن ان لوگوں نے کہاکہ رشتے کو منظوری مل گئی تو طلاق نامہ بھیج دیا جائے گا۔ ان کی شہ پاکر ہی اکرم تمہارے پاس ایک بار پھر گیا۔“

”تو گویاآپ لوگوں کو بعد کی داستان بھی معلوم ہوگئی تھی۔“

میرا اتنی طویل ازدواجی زندگی میں ان سے سب سے بڑا جھگڑا اسی بات کو لے کر ہوا۔ آخری دنوں میں وہ مجھ سے بھی بہت ناراض رہے۔ ایک بار یہاں تک کہا کہ زندگی کا آخری پڑاﺅ نہ ہوتا تو طلاق دے دیتے۔ میں بھی سخت غصے میں تھی۔ میں نے جواب دیا شاہ بانو تو پچہتر سال کی تھی۔میں اس سے بہت کم عمر ہوں۔ وعدہ کرتی ہوں نان نفقہ کا دعویٰ نہیں کروں گی۔ اس یک طرفہ فیصلے کا حق آپ کو ملا ہی ہوا ہے۔ بسم اﷲ۔“

پیروں کی جوتیاں اسی لئے منھ کو آرہی ہیں کہ پیسے کمانے لگی ہیں۔ مرد پر نان نفقے کی ذمہ داری تھی۔ تم پر نہیں تھی، آج بھی نہیں ہے، اسی لئے اسے یہ حق دیا گیا۔ مگر تم ....وہ مارے غصے کے ہکلانے لگے۔

میںنے بات کاٹ دی۔“ آج کے دور میں عورتیں برابر سے کام کررہی ہیں تو مل جانا چاہئے انہیں بھی طلاق طلاق کہنے کا حق۔“

”اپنی مرضی سے کام کرتی ہو تم لوگ، صرف اس لئے کہ سرپر چڑھ جاﺅ، سماج کے اصول توڑو، عیش کی زندگی گزارو پھر جب چاہے شوہر کو چھوڑ کر چل دو۔“ بات تو شروع ہو ئی تھی تمہاری اس، تریاہٹ سے کہ تم اپنے سفید داغ کا ایک بار پھر چیک اپ نہیں کراﺅگی اور پہونچ گئی ہم دونوں کی ذاتیات پر۔ باقی ساری زندگی میں اس احساس جرم کے ساتھ جاﺅں گی کہ انیس کا بلڈ پریشر شاید اسی جھگڑے کی وجہ سے برابر ہائی رہنے لگاتھا۔ ایک دن ہیمرج کا سبب بن گیا۔

لیکن مما اکرم کا میرے پاس دوبارہ آنا تو پاپا کی بیماری سے بہت پہلے کی بات ہے۔“ اسے آپ اپنے آپ سے کیوں جوڑ رہی ہیں۔“

”انہیں یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ تم نے دوبارہ اسے تقریباً دھکا دے کر نکال باہر کیا تھا۔ اس پر مرے پہ سو درے میں نے یوں بدزبانی کی۔ شاید میں بھی کبھی اس طرح نہیں چلائی تھی نہ کبھی ان کی بے عزتی کی تھی، معمولی بحث، چھوٹے موٹے اختلافات تو ہرجگہ ہوتے ہیں۔“

”ٹھیک ہے ممی، لیکن پھربھی وجہ تو میں ہوئی نا۔ آپ اس احساس جرم سے چھٹکارا پالیجئے، بالکل نارمل ہوکر زندگی بسر کیجئے۔ پاپا تو اب نہیں آسکیں گے۔ بس اتنا ہی کہوں گی۔“

”میں حتی الامکان نارمل زندگی ہی بسر کررہی ہوں۔ مصروفیت کے ذریعے نکال لئے ہیں، دوستوں اور عزیزوں سے ملتی رہتی ہوں۔ اب تو تقریبوں میں بھی جانا شروع کردیا ہے۔کچھ لوگوںنے مجھے

merry widow

 کا خطاب دے رکھا ہے۔ ان کی پرو انہیں کرتی۔“ قدرے توقف کے بعد اس نے گلوگیر آوازمیں ہولے ہولے کہا۔ ”بیشک رات کو سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ کھڑکی کے سامنے والے چھتنار برگد پرپچھلی پیریاں دانت نکو سے ہنستی نظر آتی ہیں۔ میں گھبرا کر بغل میں انیس کو ٹٹولتی ہوں پھر چادر میں منھ چھپاکر سوجاتی ہوں۔ ہرصبح ایک نئے نارمل دن کا آغاز کرتی ہے۔“

فضائے بسیط میں ایک سناٹا پسرگیا۔ پھر ماں بیٹی کے آنسو گنگ و جمن کے پانیوں کی طرح ایک دوسرے میں گھل گئے کہ ایک دوسرے کے دکھ کو بہا لے جائیں، لیکن کیا دکھ کبھی پوری طرح بہائے جاسکتے ہیں؟

ان دونوں سے بے خبر عمو اپنے کمرے میں بچوں کو کہانی سناکر سلانے میں مصروف تھی، لیکن اس کہانی کا نام پارسابی بی کا بگھار نہیں تھا۔ عمو کو ایسی کوئی کہانی نہیں معلوم تھی۔ وہ انہیں ایلس اِن ونڈر لینڈ

(Alice in wonder land)

 سنا رہی تھی۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024