اپنا اپنا قفس
اپنا اپنا قفس
Apr 21, 2018
دیدبان شمارہ ۔۶
افسانہ : اپنا اپنا قفس
شہناز پروین
’’ ماہی ‘ما ہرہ‘ اے ماہرہ‘‘ ایک آ واز ہے جو میرے حافظے میں یوں رچ بس گئی ہے کہ میں چاہنے کے باو جود اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی
ابا میاں کا سارا مرکز و محور میں ہی تھی ‘ کبھی کبھی دل چاہتا سنی ان سنی کر دوں’اور کہہ دوں’’ بابا خدا کے لیے آپ کی اور بھی اولادیں ہیں نا ۔۔۔آپ صرف مجھے ہی اذیت کیوں دیتے ہیں ‘ ‘ لیکن ان کی آنکھوں میں پیار اور التجا کا سمندر مجھے خاموش کر دیتا‘ بھابیوں کی مسکراہٹیں مجھے زہر لگتیں ‘ ’’بھئی آپی انھیں آپ سے جتنا پیار ہے اتنا کسی اور سے تو نہیں ہے نا۔؟دیکھیے نا ہر وقت آپ ہی کے نام کی مالا جپتے رہتے ہیں ‘‘۔جی چاہتا ایسا جواب دوں کہ آئیندہ کچھ بولنے سے پہلے سو با ر سوچیں ‘مگر میں اپنی زبان کو روک لیتی ہوں ‘مبادا پھر کوئی فساد برپا ہو اور ان بوڑھی بے بس آنکھوں سے رستا ہوا کوئی آنسو میرے سارے وجود میں جل تھل کردے۔ ان کی مسلسل پکار میرے سارے اعصاب کو معطل کردیتی‘ میں اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتی اور تہیہ کر لیتی کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھوں گی‘کیوں کہ میں جانتی تھی پیچھے مڑ کر دیکھنے والے اکثرپیچھے ہی رہ جاتے ہیں ‘لیکن وہ دو آنکھیں ہر جگہ میرے تعاقب میں ہو تیں‘ میں جہا ں بھی جاتی آوازوں کے حصار سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔
کوئی دس برس پہلے کی بات ہے‘ یہی ابا میاں تھے ‘سب ان کی واپسی کے منتظر ہوتے‘ان کی راہوں میں آنکھیں بچھی ہوتیں‘اور جب تک وہ ہر ایک کے ہاتھ میں اس کی من پسند چیز نہ تھما دیتے کوئی اپنی جگہ سے ہلنے کا نام نہ لیتا‘ کبھی وہ بھی منتیں کرتے’’بچّو ذرا سی مہلت دو تو میں تھوڑا سا کام کر لوں‘‘۔انھوں نے ہمیں ماں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہو نے دیا تھا‘ امّی کے گزر جانے کے بعد صرف وہی تو تھے جنھوں نے ہمیں کسی بھی لمحے تنہائی کا شکار نہیں ہو نے دیا تھا‘ ان کے دوستوں نے بہت سمجھایا تھا کہ وہ دوسری شادی کرلیں‘بچّے بھی پل جائیں گے اور خود ان کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی‘لیکن اس معاملے میں انھوں نے کسی کی نہیں سنی‘اور ساری توجہ کا مرکز و محور ہماری ذات کو بنا دیا۔ان دس برسوں میں انھوں نے اپنے سارے فرائض انجام دیے‘ بچّوں کی اعلیٰ تعلیم سے لے کر سب کی شادیوں تک‘ میں سب سے چھوٹی بھی تھی اور اکلوتی بیٹی بھی‘جس دن ابا میاں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اسی د ن میرے ایم اے کا نتیجہ بھی آیا تھا ہم نے دونوں خوشیاں ساتھ ہی منائی تھیں ۔ابا میاں نے صاف صاف اعلان کر دیا تھا ‘بہت کرلی نوکری ‘اب میں ٹھاٹھ سے عیش کروں گا اورہوا بھی یہی تھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد مزیدپانچ سال انھوں نے واقعی بڑے آرام سے گزارے‘ سارے بچّے ان کے دیوانے تھے‘ گھر میں کسی کو معلوم ہی نہیں ہوا بچّے اسکول کیسے جاتے آتے ہیں انھوں نے سب کے بچوں کی ساری ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں‘ اب انھیں صرف میری شادی کی فکر تھی‘لیکن جب بھی کوئی رشتہ آ تا سارے گھر والوں پر جیسے قیامت سی ٹوٹ پڑ تی’ماہرہ کے بغیر گھر تو با لکل سونا سونا ہو
جائے گا‘ ہم نہیں رہ سکتے اس کے بغیر‘‘۔ ’’بیٹا اسے بھی اپنے گھر جانا ہے نا ‘ کل کلاں کو تم سب ملک سے باہر چلے جاؤگے میں اپنی زندگی
میں اس فرض کو بھی ادا کرنا چاہتا ہوں‘‘۔لیکن انھیں میرے لیے کوئی پسند ہی نہیں آ تا ‘ ‘‘ابا میاں ہم اپنی بہن کو ا یسے ویسے گھر تو نہیں بھیج
سکتے‘‘ابا میاں نے بھی دنیا دیکھی تھی ‘ انھیں اچّھی طرح ہر بات کی سمجھ تھی‘بھابیوں اور بھائیوں کے روّیوں کے پردے میں انھوں نے بہت
کچھ بھانپ لیا تھا‘میں بھی اتنی نادان نہیں تھی لیکن مجھے ابا میاں کے آنے والے دنوں کا اندازہ ہو گیا تھا ‘ ابا میاں ہمیشہ کی طرح لاؤنج میں آکر ٹی۔وی دیکھتے تو بچے ادھر ادھر ہو جاتے‘ ابا میاں کی کھانسی کی آوازیں بھابیوں کو وسوسوں میں مبتلا کر دیتیں‘ پھربھیا نے بچّوں کے لیے اسمارٹ ٹی۔وی لیا اورپرانا ٹی۔وی۔ ان کے کمرے میں منتقل کرکے ان سے بڑے پیار سے کہا ’’ ابا میاں آپ کی سہولت کے لیے آپ کے کمرے میں ٹی۔ وی سٹ رکھ دیا ہے نا آپ یہاں آنے کی زحمت کیوں کر تے ہیں ‘’’بیٹا میرا ٹی وی تو تم سب ہو ‘ میں تمھار ے درمیان رہنا چاہتا ہوں ‘تمھارے چہروں پر آتے جاتے رنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
چھوٹے بھائی نے ابا میاں کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا تھا ’’ ابا میاں اب آپ کو کتنا اچھا محسوس ہوتا ہوگا ‘ کوئی کام ہی نہیں ہے‘ جب چاہیں اللہ اللہ کریں‘ ‘۔ میں جانتی تھی ابا میاں ہر وقت عبادت نہیں کر سکتے تھے‘وہ ابھی زندہ تھے اور زندہ انسانوں کی طرح ہنستے بولتے انسانوں میں اٹھنا بیٹھنا چاہتے تھے‘جوانی میں ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا‘ انھیں انجمن آ رائی کا بہت شوق تھا ’ امّی کیا گزریں انھوں نے اپنے آپ کو صرف ہمارے لیے وقف کر دیا۔ آہستہ آہستہ ابا میاں کی سمجھ میں ساری باتیں آنے لگیں ‘بھابیاں بڑے پیار سے کہتیں ’’ابا میاں آپ کو جس چیز کی ضرورت ہوبس کمرے میں لگی ہوئی ’’کالنگ بل‘‘(calling bell))دبا دیں ‘ یا پھر ایک’’ مس کال ‘‘ دے دیں پھر دیکھیں ہماری ’’کوئک سروس‘‘آپ ہوائی سفر کی میزبان سے زیادہ فعال پائیں گے ہمیں‘‘۔ابا میاں مسکرا کر رہ جاتے‘ وہ ضرورت سے زیادہ سمجھدار تھے‘ نہ کبھی گھنٹی بجاتے نہ مس کال کرتے‘ خود ہی اٹھ کر اپنے سارے کام انجام دیتے‘کبھی کبھی مجھ سے کہتے ‘بیٹا میں معذور تو نہیں ہوں نا؟تم سب نے میرے چلنے پھرنے پر پابندی کیوں لگا دی ہے؟‘‘ابا میاں یہ آپ کا گھر ہے سب سے کہہ دیجیے آپ اپنے اس گھر میں اپنی مرضی سے رہیں گے ‘ جس کو آپ سے شکوہ ہے وہ اپنی راہ لے‘‘۔’’نہ بیٹا دھیرے بولو کوئی سن لے گا اور گھر چھوڑ دے گا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گا‘‘۔ اب میں ان سے کیا کہتی کہ وہ تو جیتے جی مر چکے ہیں۔ہزار گز پر بنا ہوا گھر اب سب کے لیے چھوٹا ہو گیا تھا‘ ابا میاں نے لاکھ سمجھایا‘ ’’یہ گھر تمھارا ہی تو ہے ‘میں اب کب تک جیوں گا ‘‘ابا میاں دونوں بھائیوں کی فیملی بڑی ہو گئی ہے‘ پھر ہمارے ملنے جلنے والے بھی مختلف ہیں ‘میں ہر روز آؤں گا نا آپ سے ملنے‘ بڑے بھائی بڑی خوبصورتی سے علیحدہ ہو گئے‘ چھوٹے بھائی نے ابا میاں کو بتائے بغیر امریکا کے ایمگریشن کے لیے درخواست دے دی تھی ‘ میری منگنی کو تین سال ہو چکے تھے‘ نویدجب بھی پاکستان آتے رخصتی کے تقاضے کرتے ‘‘ ابا میاں کا بس نہیں چلتا مجھے جلد سے جلد رخصت کر دیں لیکن ہر بار بھائیوں کی کوئی مجبوری آڑے آجاتی‘’’ بس ابا میاں ہم خود نویدسے باتیں کر لیں گے صرف ایک سال کی مہلت لے لیتے ہیں ‘‘اگلے سال بڑی دھوم دھام سے رخصت کریں گے اپنی
پیاری بہن کو‘‘بیٹا میرے پاس ابھی اتنے پیسے ہیں کہ اپنی بیٹی کو رخصت کر سکوں‘‘انھوں نے ٹھان لی کہ یہ کام اب وہ خود انجام دیں گے‘
لڑکے والوں کو دسمبر کی آخری تاریخ دے دی۔ خود جاکر شادی ہال کی بکنگ کرائی ‘کھانے پینے کا انتظام کیا ‘ ہر کام خود ہی کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اسی کوشش میں دسمبر کی ۲۵ تاریخ کو یوں گرے کہ سنبھل نہ پائے۔نویدنے ساری صورتِ حال کا جائزہ لے کر گرمیوں تک مہلت دیدی‘ بھائیوں نے اس کا شکریہ ادا کیا’ میں نے ابا میاں کے کمرے میں اپنا بستر ڈال لیا’’دیکھو بہنا ابامیاں کی عادت مت بگا ڑو‘کل کو تم چلی جاؤگی تو ان کو ملازمین ہی دیکھیں گے نا۔‘‘میں نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا‘ ‘
شروع شروع میں بھائی پوری فیملی کے ساتھ ہر روز آتے رہے‘ پھر بڑے بھائی اتوار کے اتوار آنے لگے اور چھوٹے بھائی اور بھابی نے ابا میاں کی عادت نہ بگڑ جانے کے تحت ان کے لیے دن اور رات کے لیے ماہر نرس کا انتظام کر دیا ‘’’ابا میاں اگلے سال ماہرہ بھی آپ کے پاس نہیں ہو گی‘ جب تک ہے ان ملازمین کی نگرانی کر تی رہے گی۔‘‘اس لمحے کاش میں نے ابا میاں کی آنکھوں میں نہ دیکھا ہو تا ‘ ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا لیکن درد کی ایک عجیب اذیت رساں لہر کا احسا س مجھے پہلی بار ہوا تھا۔ان کی آنکھیں در وازے پر لگی ہو تیں ’’کس کا انتظار ہے ابا میاں آپ کو؟میں ہوں نا آپ کے پاس‘ میں ان سے بار بار کہتی‘ ان کی آنکھیں چھلک پڑتیں ‘وہ اب شاذ و نادر ہی باتیں کر تے‘ ایک اتوار کو چھوٹے بھائی ابا میاں کے قریب آئے ‘ انھیں بہت پیار سے چوما اور کہا’’ابا میاں آپ نے ہمیں اتنی اچھی تعلیم دی اور اس قابل بنایا کہ بہترین نوکریاں ملیں ‘ یہ سب کچھ آپ ہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج مجھے امریکا میں بہت اچھی نوکری مل گئی ہے‘ ابا میاں وہاں ذرا سے قدم جم جائیں پھر ہم آپ کو اپنے ساتھ لے جائیں گے‘آپ کو بھی گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے نا؟‘‘ابا میاں نے صرف اتنا کہا ’’ماہی کو رخصت کرکے جاؤ گے نا ؟‘‘
نہیں ابا میاں مجھے تو بہت جلد جوائن کرنا ہے ‘ اتفاق سے ایمگریشن ویزا بھی اسی وقت ملا ہے اور۔۔۔‘‘ ان کی سمجھ میں ساری بات آگئی تھی‘’’آپ خوش تو ہیں نا ابا میاں۔۔۔‘‘بھائی نے ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر تے ہوئے پو چھا‘
’’اللہ اپنی امان میں رکھے‘‘ ۔‘‘ابا میاں نے دعائیں دیں اورآنکھیں بند کر لیں ۔
بھائی نے میری طرف دیکھنے سے گریز کیا مگر نظریں جھکا کربڑے پیار سے کہا‘
’’اتنے سارے کام ہیں ‘ تم بھی اتنی مصروف ہو ورنہ تم سے کہتا بھابھی کا ہاتھ بٹادو‘ چلتا ہوں‘اللہ تعالیٰ تمھیں اس کا اجر ضرور دے گا‘‘۔
نوید کے فون کی گھنٹیاں مجھے مزید پاگل بنائے دیتیں‘وہ بار بار ایک ہی بات دہراتا’’ اس بار بھی میری چھٹیاں ضائع نہ ہو جائیں‘اپنے بھایؤں سے کہو نا ۔۔۔‘‘ اس بار میں بپھر گئی ’’نہیں ہو سکتی میری شادی‘ نوید میں اس صورتِ حال میں ابا میاں کو تنہا کیسے چھوڑ دوں‘‘نوید گھر آئے تو خود بھی پریشان ہو گئے‘
’’میں اس بار پھر امّی کو منانے کی کوشش کروں گامیری سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں ‘جب بھی تمہارے بھائیوں سے باتیں کر تا ہوں وہ اپنی
مجبور یاں سامنے لے آتے ہیں‘ایک ہی جواب ملتا ہے‘ ’’ابا میاں اس کے بغیر جی نہیں سکتے ‘کچھ دن اور انتظار کرلو ‘‘۔
پھر یہ کچھ دن دو برسوں پر محیط ہو گئے تو نوید کا فون آیا ’’مجھے معلوم ہے تمھارے پاس میرے سوالوں کا اب بھی کوئی جواب نہیں ہے‘میں بھی بہت مجبور ہوں‘میرے والدین بھی عمر رسیدہ ہیں ‘ امّی بہت بیمار ہیں کہتی ہیں یہ ان کی آخری خواہش ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی‘
’’آخری بار تم خود اپنے بھائیوں سے بات کرکے دیکھ لو‘‘۔اس کے اصرارپرمیں نے بھائی سے بات کی تو انھوں نے کہا‘
’’ میری پیاری بہنا نویدٹھیک کہتا ہے ‘ ویسے بھی ابا میاں تو اب کسی کو پہچانتے بھی نہیں ہیں ‘ان کے لیے اب تم بیٹی نہیں بلکہ ایک خدمت گارہو‘ اپنی زندگی برباد نہ کرو ‘ ان کے پاس دن اور رات کے لیے ایک ایک ٹرینڈ نرس رکھ دیں گے‘گھر کی حفاظت کے لیے سیکیوریٹی گارڈ‘
کھا نا پکانے کے لیے ایک اچھا خانساماں‘گھر کی صفائی کے لیے ملازمہ ‘ اتنے سارے لوگ ہوں گے تو انھیں تنہائی کا احساس بھی نہیں ہوگا۔‘‘
ایک لمحے کے لیے میرے کانوں میں شہنائیاں بجنے لگیں‘ میں نے بڑے بھائی کا شکریہ ادا کیا اور نوید کو فون کرکے یہ خوش خبری سنانے ہی والی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ‘میری بہت پرانی دوست کا فون تھا‘
’’آج دل پر عجیب سا بوجھ ہے‘سوچا تم سے باتیں کرلوں کیونکہ ہمارا دکھ ساجھا ہے۔۔۔انکل فرید کی عیادت کو ساؤتھ سٹی ہسپتال گئی تھی‘وہ دیر تک باتیں کر تے رہے‘ تمھیں بھی پوچھ رہے تھے ‘ لگتا ہے ان کی یاد داشت اب پہلے سے بہتر ہو گئی ہے‘ بھائی بہنوں نے مل کر بہت اچھا انتظام کر دیا ہے ان کا ‘ ہسپتال کے وی ۔وی ۔آئی۔ پی۔ کمرے میں ہر قسم کی سہولت موجود ہے ‘ مجھے تو رشک آ رہا تھا ان کی قسمت پر‘ انتظار میں تھی کہ ان کا کیئر ٹیکر آجائے تو کمرے سے نکلوں ‘انکل نے غالباً میری پریشانی بھانپ لی اور بڑے پیار سے کہا’’بٹیا اب تم جاؤ ‘ بچوّں کو اسکول سے لانے کا وقت ہو گیا ہوگا‘‘ ۔میں نے کہا‘
’’نہیں انکل آپ کانرس آجائے تو چلی جاؤں گی‘‘۔ وہ مسکرائے اور کہا ’’وہ ابھی نہیں آئے گا‘ وہ بھی یہی سمجھتا ہے مجھے دن رات کا احساس ہے نہ اپنے ہو نے کا ‘ اس لیے زیادہ تر وقت باہر ہی گزارتا ہے ‘ ‘۔مجھے بڑا غصّہ آیااور میں نے کہا‘
’’ اچھا میں عظمت بھائی کو بتاؤں گی۔۔۔‘‘جانتی ہو انھوں نے جواب میں کیا کہا۔۔
’’نہ بٹیا اس کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ اوروں سے بہتر ہے‘ برابر والے کمرے میں جو صاحب ہیں نا ان کا کیئر ٹیکر تو انھیں مارتا بھی ہے‘۔یہ بیچارہ کمرے میں آتا ہے تو ٹی۔وی۔ بھی آہستہ سنتاہے اور اپنے دوستوں سے باتیں بھی زیادہ زور سے نہیں کرتا۔۔۔‘‘ ان کی آواز رندھنے لگی تو میں کمرے سے باہر آگئی‘‘۔
ہا تھ میں کاڈلس تھامے میں ابا میاں کے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی پھربجی ‘ اس بار نوید کی آواز میں خوشیوں کی
چہکار تھی‘ ’’ماہرہ ابھی ابھی بھائی کا فون آیا تھا۔۔۔وہ بہت خوش تھے‘ کہہ رہے تھے۔۔۔‘‘
ماہی‘ ماہرہ ۔۔۔ اے ماہرہ ‘‘ ابا میاں اپنے کمرے سے متواتر آوازیں دیے جا رہے تھے‘
’’نوید تم یہ آوازیں سن رہے ہو نا‘یہ آواز میرے ابا میاں کی ہے ‘ دوسری طرف تمھارے والدین کی تم سے وابستہ بے شمارامیدیں اور
خواہشات ہیں ‘ہماری سماعتوں میں گونجنے والی یہ آوازیں ہمیں چین سے جینے نہیں دیں گی ‘ تمھارے پاس رہ کر بھی میں اس آواز کی باز گشت سنتی رہوں گی‘ جہاں بھی جاؤں گی دو بے بس آنکھیں میرا تعاقب کرتی رہیں گی اور ہر وقت لرزتے ہوئے ہونٹوں پر طاقت نہ ہونے کے باوجود’’ماہی‘ ماہرہ ‘‘کی آوازیں میرے سارے وجود کو مرتعش اور ہوش وحواس گم کر دیں گی‘ اور اگر تم نے ان میں سے کسی کو کھو دیا تو ہم دونوں اذیتوں کے کرب سے نہیں نکل سکیں گے ‘نوید اس بار اپنی امّی کی خواہش پوری کردو‘‘۔آواز میرے گلے میں اٹک رہی تھی‘ریسیور میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر چکا تھا۔
نویداپنی نئی نویلی دلہن کو لے کر ابا میاں اور میرے پاس آئے‘انھوں نے اس سے کہا ’’دیکھو یہ ہے وہ لڑ کی جس سے میری منگنی ہوئی تھی اور جو ایک گنبد میں رہتی ہے جہاں اس کے کانوں میں اپنے بابا کے سوا کسی کی آواز نہیں آتی‘ اپنی بھی نہیں۔۔۔‘‘ نوید یہ ساری باتیں ابا میاں کے سامنے کر رہے تھے ‘ بابا کی نظریں آج بھی میرے دل میں سوراخ کیے دیتی ہیں‘ان کی آنکھوں میں عجیب سا درد تھا۔ نوید کے جاتے ہی ابا میاں کے ہونٹوں سے ایک درد ناک چیخ نکلی’’اللہ ‘اللہ۔۔۔‘‘ساکت ہوتی آنکھوں میں بے بسی اور بے کسی آکر ٹھہر گئی تھی۔
----------------------
دیدبان شمارہ ۔۶
افسانہ : اپنا اپنا قفس
شہناز پروین
’’ ماہی ‘ما ہرہ‘ اے ماہرہ‘‘ ایک آ واز ہے جو میرے حافظے میں یوں رچ بس گئی ہے کہ میں چاہنے کے باو جود اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی
ابا میاں کا سارا مرکز و محور میں ہی تھی ‘ کبھی کبھی دل چاہتا سنی ان سنی کر دوں’اور کہہ دوں’’ بابا خدا کے لیے آپ کی اور بھی اولادیں ہیں نا ۔۔۔آپ صرف مجھے ہی اذیت کیوں دیتے ہیں ‘ ‘ لیکن ان کی آنکھوں میں پیار اور التجا کا سمندر مجھے خاموش کر دیتا‘ بھابیوں کی مسکراہٹیں مجھے زہر لگتیں ‘ ’’بھئی آپی انھیں آپ سے جتنا پیار ہے اتنا کسی اور سے تو نہیں ہے نا۔؟دیکھیے نا ہر وقت آپ ہی کے نام کی مالا جپتے رہتے ہیں ‘‘۔جی چاہتا ایسا جواب دوں کہ آئیندہ کچھ بولنے سے پہلے سو با ر سوچیں ‘مگر میں اپنی زبان کو روک لیتی ہوں ‘مبادا پھر کوئی فساد برپا ہو اور ان بوڑھی بے بس آنکھوں سے رستا ہوا کوئی آنسو میرے سارے وجود میں جل تھل کردے۔ ان کی مسلسل پکار میرے سارے اعصاب کو معطل کردیتی‘ میں اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتی اور تہیہ کر لیتی کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھوں گی‘کیوں کہ میں جانتی تھی پیچھے مڑ کر دیکھنے والے اکثرپیچھے ہی رہ جاتے ہیں ‘لیکن وہ دو آنکھیں ہر جگہ میرے تعاقب میں ہو تیں‘ میں جہا ں بھی جاتی آوازوں کے حصار سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔
کوئی دس برس پہلے کی بات ہے‘ یہی ابا میاں تھے ‘سب ان کی واپسی کے منتظر ہوتے‘ان کی راہوں میں آنکھیں بچھی ہوتیں‘اور جب تک وہ ہر ایک کے ہاتھ میں اس کی من پسند چیز نہ تھما دیتے کوئی اپنی جگہ سے ہلنے کا نام نہ لیتا‘ کبھی وہ بھی منتیں کرتے’’بچّو ذرا سی مہلت دو تو میں تھوڑا سا کام کر لوں‘‘۔انھوں نے ہمیں ماں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہو نے دیا تھا‘ امّی کے گزر جانے کے بعد صرف وہی تو تھے جنھوں نے ہمیں کسی بھی لمحے تنہائی کا شکار نہیں ہو نے دیا تھا‘ ان کے دوستوں نے بہت سمجھایا تھا کہ وہ دوسری شادی کرلیں‘بچّے بھی پل جائیں گے اور خود ان کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی‘لیکن اس معاملے میں انھوں نے کسی کی نہیں سنی‘اور ساری توجہ کا مرکز و محور ہماری ذات کو بنا دیا۔ان دس برسوں میں انھوں نے اپنے سارے فرائض انجام دیے‘ بچّوں کی اعلیٰ تعلیم سے لے کر سب کی شادیوں تک‘ میں سب سے چھوٹی بھی تھی اور اکلوتی بیٹی بھی‘جس دن ابا میاں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اسی د ن میرے ایم اے کا نتیجہ بھی آیا تھا ہم نے دونوں خوشیاں ساتھ ہی منائی تھیں ۔ابا میاں نے صاف صاف اعلان کر دیا تھا ‘بہت کرلی نوکری ‘اب میں ٹھاٹھ سے عیش کروں گا اورہوا بھی یہی تھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد مزیدپانچ سال انھوں نے واقعی بڑے آرام سے گزارے‘ سارے بچّے ان کے دیوانے تھے‘ گھر میں کسی کو معلوم ہی نہیں ہوا بچّے اسکول کیسے جاتے آتے ہیں انھوں نے سب کے بچوں کی ساری ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں‘ اب انھیں صرف میری شادی کی فکر تھی‘لیکن جب بھی کوئی رشتہ آ تا سارے گھر والوں پر جیسے قیامت سی ٹوٹ پڑ تی’ماہرہ کے بغیر گھر تو با لکل سونا سونا ہو
جائے گا‘ ہم نہیں رہ سکتے اس کے بغیر‘‘۔ ’’بیٹا اسے بھی اپنے گھر جانا ہے نا ‘ کل کلاں کو تم سب ملک سے باہر چلے جاؤگے میں اپنی زندگی
میں اس فرض کو بھی ادا کرنا چاہتا ہوں‘‘۔لیکن انھیں میرے لیے کوئی پسند ہی نہیں آ تا ‘ ‘‘ابا میاں ہم اپنی بہن کو ا یسے ویسے گھر تو نہیں بھیج
سکتے‘‘ابا میاں نے بھی دنیا دیکھی تھی ‘ انھیں اچّھی طرح ہر بات کی سمجھ تھی‘بھابیوں اور بھائیوں کے روّیوں کے پردے میں انھوں نے بہت
کچھ بھانپ لیا تھا‘میں بھی اتنی نادان نہیں تھی لیکن مجھے ابا میاں کے آنے والے دنوں کا اندازہ ہو گیا تھا ‘ ابا میاں ہمیشہ کی طرح لاؤنج میں آکر ٹی۔وی دیکھتے تو بچے ادھر ادھر ہو جاتے‘ ابا میاں کی کھانسی کی آوازیں بھابیوں کو وسوسوں میں مبتلا کر دیتیں‘ پھربھیا نے بچّوں کے لیے اسمارٹ ٹی۔وی لیا اورپرانا ٹی۔وی۔ ان کے کمرے میں منتقل کرکے ان سے بڑے پیار سے کہا ’’ ابا میاں آپ کی سہولت کے لیے آپ کے کمرے میں ٹی۔ وی سٹ رکھ دیا ہے نا آپ یہاں آنے کی زحمت کیوں کر تے ہیں ‘’’بیٹا میرا ٹی وی تو تم سب ہو ‘ میں تمھار ے درمیان رہنا چاہتا ہوں ‘تمھارے چہروں پر آتے جاتے رنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
چھوٹے بھائی نے ابا میاں کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا تھا ’’ ابا میاں اب آپ کو کتنا اچھا محسوس ہوتا ہوگا ‘ کوئی کام ہی نہیں ہے‘ جب چاہیں اللہ اللہ کریں‘ ‘۔ میں جانتی تھی ابا میاں ہر وقت عبادت نہیں کر سکتے تھے‘وہ ابھی زندہ تھے اور زندہ انسانوں کی طرح ہنستے بولتے انسانوں میں اٹھنا بیٹھنا چاہتے تھے‘جوانی میں ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا‘ انھیں انجمن آ رائی کا بہت شوق تھا ’ امّی کیا گزریں انھوں نے اپنے آپ کو صرف ہمارے لیے وقف کر دیا۔ آہستہ آہستہ ابا میاں کی سمجھ میں ساری باتیں آنے لگیں ‘بھابیاں بڑے پیار سے کہتیں ’’ابا میاں آپ کو جس چیز کی ضرورت ہوبس کمرے میں لگی ہوئی ’’کالنگ بل‘‘(calling bell))دبا دیں ‘ یا پھر ایک’’ مس کال ‘‘ دے دیں پھر دیکھیں ہماری ’’کوئک سروس‘‘آپ ہوائی سفر کی میزبان سے زیادہ فعال پائیں گے ہمیں‘‘۔ابا میاں مسکرا کر رہ جاتے‘ وہ ضرورت سے زیادہ سمجھدار تھے‘ نہ کبھی گھنٹی بجاتے نہ مس کال کرتے‘ خود ہی اٹھ کر اپنے سارے کام انجام دیتے‘کبھی کبھی مجھ سے کہتے ‘بیٹا میں معذور تو نہیں ہوں نا؟تم سب نے میرے چلنے پھرنے پر پابندی کیوں لگا دی ہے؟‘‘ابا میاں یہ آپ کا گھر ہے سب سے کہہ دیجیے آپ اپنے اس گھر میں اپنی مرضی سے رہیں گے ‘ جس کو آپ سے شکوہ ہے وہ اپنی راہ لے‘‘۔’’نہ بیٹا دھیرے بولو کوئی سن لے گا اور گھر چھوڑ دے گا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گا‘‘۔ اب میں ان سے کیا کہتی کہ وہ تو جیتے جی مر چکے ہیں۔ہزار گز پر بنا ہوا گھر اب سب کے لیے چھوٹا ہو گیا تھا‘ ابا میاں نے لاکھ سمجھایا‘ ’’یہ گھر تمھارا ہی تو ہے ‘میں اب کب تک جیوں گا ‘‘ابا میاں دونوں بھائیوں کی فیملی بڑی ہو گئی ہے‘ پھر ہمارے ملنے جلنے والے بھی مختلف ہیں ‘میں ہر روز آؤں گا نا آپ سے ملنے‘ بڑے بھائی بڑی خوبصورتی سے علیحدہ ہو گئے‘ چھوٹے بھائی نے ابا میاں کو بتائے بغیر امریکا کے ایمگریشن کے لیے درخواست دے دی تھی ‘ میری منگنی کو تین سال ہو چکے تھے‘ نویدجب بھی پاکستان آتے رخصتی کے تقاضے کرتے ‘‘ ابا میاں کا بس نہیں چلتا مجھے جلد سے جلد رخصت کر دیں لیکن ہر بار بھائیوں کی کوئی مجبوری آڑے آجاتی‘’’ بس ابا میاں ہم خود نویدسے باتیں کر لیں گے صرف ایک سال کی مہلت لے لیتے ہیں ‘‘اگلے سال بڑی دھوم دھام سے رخصت کریں گے اپنی
پیاری بہن کو‘‘بیٹا میرے پاس ابھی اتنے پیسے ہیں کہ اپنی بیٹی کو رخصت کر سکوں‘‘انھوں نے ٹھان لی کہ یہ کام اب وہ خود انجام دیں گے‘
لڑکے والوں کو دسمبر کی آخری تاریخ دے دی۔ خود جاکر شادی ہال کی بکنگ کرائی ‘کھانے پینے کا انتظام کیا ‘ ہر کام خود ہی کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اسی کوشش میں دسمبر کی ۲۵ تاریخ کو یوں گرے کہ سنبھل نہ پائے۔نویدنے ساری صورتِ حال کا جائزہ لے کر گرمیوں تک مہلت دیدی‘ بھائیوں نے اس کا شکریہ ادا کیا’ میں نے ابا میاں کے کمرے میں اپنا بستر ڈال لیا’’دیکھو بہنا ابامیاں کی عادت مت بگا ڑو‘کل کو تم چلی جاؤگی تو ان کو ملازمین ہی دیکھیں گے نا۔‘‘میں نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا‘ ‘
شروع شروع میں بھائی پوری فیملی کے ساتھ ہر روز آتے رہے‘ پھر بڑے بھائی اتوار کے اتوار آنے لگے اور چھوٹے بھائی اور بھابی نے ابا میاں کی عادت نہ بگڑ جانے کے تحت ان کے لیے دن اور رات کے لیے ماہر نرس کا انتظام کر دیا ‘’’ابا میاں اگلے سال ماہرہ بھی آپ کے پاس نہیں ہو گی‘ جب تک ہے ان ملازمین کی نگرانی کر تی رہے گی۔‘‘اس لمحے کاش میں نے ابا میاں کی آنکھوں میں نہ دیکھا ہو تا ‘ ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا لیکن درد کی ایک عجیب اذیت رساں لہر کا احسا س مجھے پہلی بار ہوا تھا۔ان کی آنکھیں در وازے پر لگی ہو تیں ’’کس کا انتظار ہے ابا میاں آپ کو؟میں ہوں نا آپ کے پاس‘ میں ان سے بار بار کہتی‘ ان کی آنکھیں چھلک پڑتیں ‘وہ اب شاذ و نادر ہی باتیں کر تے‘ ایک اتوار کو چھوٹے بھائی ابا میاں کے قریب آئے ‘ انھیں بہت پیار سے چوما اور کہا’’ابا میاں آپ نے ہمیں اتنی اچھی تعلیم دی اور اس قابل بنایا کہ بہترین نوکریاں ملیں ‘ یہ سب کچھ آپ ہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج مجھے امریکا میں بہت اچھی نوکری مل گئی ہے‘ ابا میاں وہاں ذرا سے قدم جم جائیں پھر ہم آپ کو اپنے ساتھ لے جائیں گے‘آپ کو بھی گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے نا؟‘‘ابا میاں نے صرف اتنا کہا ’’ماہی کو رخصت کرکے جاؤ گے نا ؟‘‘
نہیں ابا میاں مجھے تو بہت جلد جوائن کرنا ہے ‘ اتفاق سے ایمگریشن ویزا بھی اسی وقت ملا ہے اور۔۔۔‘‘ ان کی سمجھ میں ساری بات آگئی تھی‘’’آپ خوش تو ہیں نا ابا میاں۔۔۔‘‘بھائی نے ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر تے ہوئے پو چھا‘
’’اللہ اپنی امان میں رکھے‘‘ ۔‘‘ابا میاں نے دعائیں دیں اورآنکھیں بند کر لیں ۔
بھائی نے میری طرف دیکھنے سے گریز کیا مگر نظریں جھکا کربڑے پیار سے کہا‘
’’اتنے سارے کام ہیں ‘ تم بھی اتنی مصروف ہو ورنہ تم سے کہتا بھابھی کا ہاتھ بٹادو‘ چلتا ہوں‘اللہ تعالیٰ تمھیں اس کا اجر ضرور دے گا‘‘۔
نوید کے فون کی گھنٹیاں مجھے مزید پاگل بنائے دیتیں‘وہ بار بار ایک ہی بات دہراتا’’ اس بار بھی میری چھٹیاں ضائع نہ ہو جائیں‘اپنے بھایؤں سے کہو نا ۔۔۔‘‘ اس بار میں بپھر گئی ’’نہیں ہو سکتی میری شادی‘ نوید میں اس صورتِ حال میں ابا میاں کو تنہا کیسے چھوڑ دوں‘‘نوید گھر آئے تو خود بھی پریشان ہو گئے‘
’’میں اس بار پھر امّی کو منانے کی کوشش کروں گامیری سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں ‘جب بھی تمہارے بھائیوں سے باتیں کر تا ہوں وہ اپنی
مجبور یاں سامنے لے آتے ہیں‘ایک ہی جواب ملتا ہے‘ ’’ابا میاں اس کے بغیر جی نہیں سکتے ‘کچھ دن اور انتظار کرلو ‘‘۔
پھر یہ کچھ دن دو برسوں پر محیط ہو گئے تو نوید کا فون آیا ’’مجھے معلوم ہے تمھارے پاس میرے سوالوں کا اب بھی کوئی جواب نہیں ہے‘میں بھی بہت مجبور ہوں‘میرے والدین بھی عمر رسیدہ ہیں ‘ امّی بہت بیمار ہیں کہتی ہیں یہ ان کی آخری خواہش ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی‘
’’آخری بار تم خود اپنے بھائیوں سے بات کرکے دیکھ لو‘‘۔اس کے اصرارپرمیں نے بھائی سے بات کی تو انھوں نے کہا‘
’’ میری پیاری بہنا نویدٹھیک کہتا ہے ‘ ویسے بھی ابا میاں تو اب کسی کو پہچانتے بھی نہیں ہیں ‘ان کے لیے اب تم بیٹی نہیں بلکہ ایک خدمت گارہو‘ اپنی زندگی برباد نہ کرو ‘ ان کے پاس دن اور رات کے لیے ایک ایک ٹرینڈ نرس رکھ دیں گے‘گھر کی حفاظت کے لیے سیکیوریٹی گارڈ‘
کھا نا پکانے کے لیے ایک اچھا خانساماں‘گھر کی صفائی کے لیے ملازمہ ‘ اتنے سارے لوگ ہوں گے تو انھیں تنہائی کا احساس بھی نہیں ہوگا۔‘‘
ایک لمحے کے لیے میرے کانوں میں شہنائیاں بجنے لگیں‘ میں نے بڑے بھائی کا شکریہ ادا کیا اور نوید کو فون کرکے یہ خوش خبری سنانے ہی والی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ‘میری بہت پرانی دوست کا فون تھا‘
’’آج دل پر عجیب سا بوجھ ہے‘سوچا تم سے باتیں کرلوں کیونکہ ہمارا دکھ ساجھا ہے۔۔۔انکل فرید کی عیادت کو ساؤتھ سٹی ہسپتال گئی تھی‘وہ دیر تک باتیں کر تے رہے‘ تمھیں بھی پوچھ رہے تھے ‘ لگتا ہے ان کی یاد داشت اب پہلے سے بہتر ہو گئی ہے‘ بھائی بہنوں نے مل کر بہت اچھا انتظام کر دیا ہے ان کا ‘ ہسپتال کے وی ۔وی ۔آئی۔ پی۔ کمرے میں ہر قسم کی سہولت موجود ہے ‘ مجھے تو رشک آ رہا تھا ان کی قسمت پر‘ انتظار میں تھی کہ ان کا کیئر ٹیکر آجائے تو کمرے سے نکلوں ‘انکل نے غالباً میری پریشانی بھانپ لی اور بڑے پیار سے کہا’’بٹیا اب تم جاؤ ‘ بچوّں کو اسکول سے لانے کا وقت ہو گیا ہوگا‘‘ ۔میں نے کہا‘
’’نہیں انکل آپ کانرس آجائے تو چلی جاؤں گی‘‘۔ وہ مسکرائے اور کہا ’’وہ ابھی نہیں آئے گا‘ وہ بھی یہی سمجھتا ہے مجھے دن رات کا احساس ہے نہ اپنے ہو نے کا ‘ اس لیے زیادہ تر وقت باہر ہی گزارتا ہے ‘ ‘۔مجھے بڑا غصّہ آیااور میں نے کہا‘
’’ اچھا میں عظمت بھائی کو بتاؤں گی۔۔۔‘‘جانتی ہو انھوں نے جواب میں کیا کہا۔۔
’’نہ بٹیا اس کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ اوروں سے بہتر ہے‘ برابر والے کمرے میں جو صاحب ہیں نا ان کا کیئر ٹیکر تو انھیں مارتا بھی ہے‘۔یہ بیچارہ کمرے میں آتا ہے تو ٹی۔وی۔ بھی آہستہ سنتاہے اور اپنے دوستوں سے باتیں بھی زیادہ زور سے نہیں کرتا۔۔۔‘‘ ان کی آواز رندھنے لگی تو میں کمرے سے باہر آگئی‘‘۔
ہا تھ میں کاڈلس تھامے میں ابا میاں کے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی پھربجی ‘ اس بار نوید کی آواز میں خوشیوں کی
چہکار تھی‘ ’’ماہرہ ابھی ابھی بھائی کا فون آیا تھا۔۔۔وہ بہت خوش تھے‘ کہہ رہے تھے۔۔۔‘‘
ماہی‘ ماہرہ ۔۔۔ اے ماہرہ ‘‘ ابا میاں اپنے کمرے سے متواتر آوازیں دیے جا رہے تھے‘
’’نوید تم یہ آوازیں سن رہے ہو نا‘یہ آواز میرے ابا میاں کی ہے ‘ دوسری طرف تمھارے والدین کی تم سے وابستہ بے شمارامیدیں اور
خواہشات ہیں ‘ہماری سماعتوں میں گونجنے والی یہ آوازیں ہمیں چین سے جینے نہیں دیں گی ‘ تمھارے پاس رہ کر بھی میں اس آواز کی باز گشت سنتی رہوں گی‘ جہاں بھی جاؤں گی دو بے بس آنکھیں میرا تعاقب کرتی رہیں گی اور ہر وقت لرزتے ہوئے ہونٹوں پر طاقت نہ ہونے کے باوجود’’ماہی‘ ماہرہ ‘‘کی آوازیں میرے سارے وجود کو مرتعش اور ہوش وحواس گم کر دیں گی‘ اور اگر تم نے ان میں سے کسی کو کھو دیا تو ہم دونوں اذیتوں کے کرب سے نہیں نکل سکیں گے ‘نوید اس بار اپنی امّی کی خواہش پوری کردو‘‘۔آواز میرے گلے میں اٹک رہی تھی‘ریسیور میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر چکا تھا۔
نویداپنی نئی نویلی دلہن کو لے کر ابا میاں اور میرے پاس آئے‘انھوں نے اس سے کہا ’’دیکھو یہ ہے وہ لڑ کی جس سے میری منگنی ہوئی تھی اور جو ایک گنبد میں رہتی ہے جہاں اس کے کانوں میں اپنے بابا کے سوا کسی کی آواز نہیں آتی‘ اپنی بھی نہیں۔۔۔‘‘ نوید یہ ساری باتیں ابا میاں کے سامنے کر رہے تھے ‘ بابا کی نظریں آج بھی میرے دل میں سوراخ کیے دیتی ہیں‘ان کی آنکھوں میں عجیب سا درد تھا۔ نوید کے جاتے ہی ابا میاں کے ہونٹوں سے ایک درد ناک چیخ نکلی’’اللہ ‘اللہ۔۔۔‘‘ساکت ہوتی آنکھوں میں بے بسی اور بے کسی آکر ٹھہر گئی تھی۔
----------------------